pajal20
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
واہ میری قسمت (ایک انسسٹ کہانی)
میرا نام چوہدری راحیل حسین ہے میری عمر اس وقت 27 سال ہے۔ میں ایک گورا چٹا تندورست بنکا جوان ہوں اور اس وقت اپنی فیملی کے ساتھ میں کراچی میں رہائش پذیر ہوں۔ آج جو کہانی میں آج آپ کو سنانے جا رہا ہوں، اس کا آغاز پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر گجرات کے قریب واقع ایک چھوٹے سے گاؤں میں ہوا۔ آج سے چند سال پہلے زمیندارا کالج گجرات سے گریجویشن کرنے کے بعد جب مجھے ایک جانے والے کی مہربانی سے لاہور میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں نوکری ملی۔ تو میں اپنے گاؤں کو خدا حافظ کہہ کر لاہور چلا آیا اور اپنے دو دوستوں کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہنے لگا۔ مجھے لاہور میں نوکری شروع کیے ابھی تقریباً 6 مہینے ہی ہوئے تھے۔ کہ گاؤں سے آنے والی ایک منحوس خبر نے میری دل کو توڑ دیا۔
میرا نام چوہدری راحیل حسین ہے میری عمر اس وقت 27 سال ہے۔ میں ایک گورا چٹا تندورست بنکا جوان ہوں اور اس وقت اپنی فیملی کے ساتھ میں کراچی میں رہائش پذیر ہوں۔ آج جو کہانی میں آج آپ کو سنانے جا رہا ہوں، اس کا آغاز پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر گجرات کے قریب واقع ایک چھوٹے سے گاؤں میں ہوا۔ آج سے چند سال پہلے زمیندارا کالج گجرات سے گریجویشن کرنے کے بعد جب مجھے ایک جانے والے کی مہربانی سے لاہور میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں نوکری ملی۔ تو میں اپنے گاؤں کو خدا حافظ کہہ کر لاہور چلا آیا اور اپنے دو دوستوں کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہنے لگا۔ مجھے لاہور میں نوکری شروع کیے ابھی تقریباً 6 مہینے ہی ہوئے تھے۔ کہ گاؤں سے آنے والی ایک منحوس خبر نے میری دل کو توڑ دیا۔
خبر یہ تھی کہ گجرات شہر سے اپنے گاؤں جاتے ہوئے میرے ابو کے ٹریکٹر کا ایک ٹرک سے ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ اور اس ایکسیڈنٹ میں میرے 23 سالہ چھوٹے بھائی اعجاز اور میرے 55 سالہ ابو چوہدری قادر حسین دونوں کا انتقال ہو گیا تھا۔
یہ خبر 50 سال سے کچھ اوپر میری امی فاخیرہ
یہ خبر 50 سال سے کچھ اوپر میری امی فاخیرہ
اور میری 24 سالہ چھوٹی بہن مدیحہ
کے لیے تو بری تھی ہی۔ مگر ان دونوں کے ساتھ میرے لیے زیادہ بری اس لیے تھی۔ کہ نہ صرف اب مجھے لاہور جیسے بڑے شہر کو چھوڑ کر واپس اپنے گاؤں جانا پڑ گیا تھا۔ بلکہ ساتھ ہی ساتھ اپنے والد کی ساری زمین کی دیکھ بھال اور اپنے گھر کو سنبھالنے کی ساری ذمہ داری میرے کندھوں پر آں پڑی تھی۔ بزنس ایڈمنسٹریشن میں گریجویشن کرنے کے بعد کھیتی باڑی کرنے کو میرا ہرگز دل نہیں تھا۔ مگر اپنے والد کا اکلوتا بیٹا رہ جانے کی وجہ سے اب چاروں ناچار اپنی زمین کی دیکھ بھال مجھے ہی کرنی تھی۔ اس لیے اپنے بھائی اور والد کے کفن دفن کے بعد میں نے اپنی زمین کو سنبھال لیا اور اب میں پچھلے 6 ماہ سے دن رات کے کھیتی باڑی میں مصروف ہو گیا۔ ویسے تو اپنی زندگی میں میرے والد ہماری زمین پر زیادہ تر سبزیاں ہی اگاتے تھے۔ مگر ان کی موت کے بعد میں نے کوئی مختلف فصل لگانے کا سوچا اور چند دوسرے لوگوں سے صلاح مشورہ کرنے کے بعد میں نے اپنی زمین پر گنا لگا دیا۔
اگست کے مہینے میں گنے کی فصل کھڑی تو ہو گئی مگر اس کے باوجود اسے کٹنے کے لیے مجھے ایک مہینہ مزید انتظار کرنا تھا۔ اس دوران چونکہ فصل کی رکھوالی کے علاوہ مجھے کھیتوں پر اور کوئی کام نہیں تھا۔ اس لیے میں نے اپنے کچھ نوکروں کو کچھ وقت کے لیے چھٹی دے دی اور صرف رات کی نگرانی کے لیے دو آدمیوں کو رکھ لیا۔ جو کہ رات کو ڈیرے پر رہتے اور صبح ہوتے ہی اپنے گھر واپس چلے جاتے۔
چونکہ ہماری زمین ہمارے گاؤں کے باقی لوگوں کی زمینوں اور مکانات سے کافی ہٹ کر واقع تھی۔ اس لیے میں ایک بار جب اپنے گھر سے نکل کر اپنی زمین پر آ جاتا۔ تو پھر میری گھر واپسی شام سے پہلے نہیں ہوتی تھی۔ گنے کی کاشت کے بعد اب میری روٹین یہ بن گئی تھی۔ کہ صبح صبح ڈیرے پر چلا آتا اور میں سارا دن اپنے اس ڈیرے پر بیٹھ کر اپنے کھیتوں کی نگرانی کرتا جسے میرے والد نے اپنی زندگی میں تعمیر کیا تھا۔ ابا نے یہ ڈیرہ ہماری ساری زمین کے بالکل سینٹر میں بنوایا تھا۔ جس میں دو کمرے بنے ہوئے تھے۔ ان دونوں کمروں میں سے ایک میں ٹیوب ویل لگا ہوا تھا۔ جس سے میں اپنی ساری فصل کو پانی دیتا تھا۔ اس کمرے کی چھت کی اونچائی کم تھی۔ جب کہ دوسرا کمرہ آرام کرنے کے لیے بنوایا گیا تھا اور اس کمرے کی چھت ٹیوب ویل والے کمرے سے کافی اونچی تھی۔
ٹیوب ویل والے کمرے کی پچھلی طرف لکڑی کی ایک سیڑھی لگی ہوئی تھی۔ جس کے ذریعے اوپر چڑھ کر ٹیوب ویل کی چھت پر جا سکتے تھے۔ یہاں پر ایک روشندان بھی بنا ہوا تھا۔ جو کہ آرام کرنے والے بڑے کمرے کو ہوا دار بنانے کے لیے تھا۔ اس روشندان پر لکڑی کی ایک چھوٹی سی کھڑکی لگی ہوئی تھی جو ہمیشہ آدھی بند ہی رہتی۔ جب کہ روشندان کے باہر کی طرف اسٹیل کی ایک جالی بھی لگی ہوئی تھی۔ اس روشندان کی بناوٹ کچھ اس طرح کی تھی۔ کہ اگر کوئی انسان ٹیوب ویل کی چھت پر کھڑے ہو کر بڑے کمرے کے اندر جھانکتا تو کمرے کے اندر موجود لوگوں کو باہر کھڑے شخص کی موجودگی کا علم نہیں ہو سکتا تھا۔
ٹیوب ویل کی چھت پر بھی ایک سیڑھی رکھی ہوئی تھی۔ جس کے ذریعے آرام والے کمرے کی اونچی چھت پر چڑھا جا سکتا تھا۔ اس چھت سے چونکہ ہماری پوری زمین پر نظر رکھی جا سکتی تھی۔ اس لیے دن میں اکثر میں سیڑھیوں کے ذریعے اوپر چلا جاتا اور چھت پر بیٹھ کر اپنی فصل کی حفاظت کرتا رہتا۔ ہر روز دوپہر میں میری چھوٹی بہن مدیحہ میرے لیے گھر سے کھانا لاتی۔ اور جب تک میں کھانے سے فارغ نہ ہو جاتا وہ بھی میرے ساتھ ہی کمرے میں سامنے والی چارپائی پر بیٹھ کر اپنے موبائل فون سے کھیلتی رہتی۔ جب میں کھانا کھا کر فارغ ہو جاتا تو مدیحہ برتن سمیت گھر واپس چلی جاتی اور میں کمرے میں جا کر آرام کر لیتا۔ یہ روٹین پچھلے دو ماہ سے چل رہی تھی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ مدیحہ کی جگہ میری امی فاخرہ بھی میرے لیے کھانا لے آتیں۔
اگست کے مہینے میں گنے کی فصل کھڑی تو ہو گئی مگر اس کے باوجود اسے کٹنے کے لیے مجھے ایک مہینہ مزید انتظار کرنا تھا۔ اس دوران چونکہ فصل کی رکھوالی کے علاوہ مجھے کھیتوں پر اور کوئی کام نہیں تھا۔ اس لیے میں نے اپنے کچھ نوکروں کو کچھ وقت کے لیے چھٹی دے دی اور صرف رات کی نگرانی کے لیے دو آدمیوں کو رکھ لیا۔ جو کہ رات کو ڈیرے پر رہتے اور صبح ہوتے ہی اپنے گھر واپس چلے جاتے۔
چونکہ ہماری زمین ہمارے گاؤں کے باقی لوگوں کی زمینوں اور مکانات سے کافی ہٹ کر واقع تھی۔ اس لیے میں ایک بار جب اپنے گھر سے نکل کر اپنی زمین پر آ جاتا۔ تو پھر میری گھر واپسی شام سے پہلے نہیں ہوتی تھی۔ گنے کی کاشت کے بعد اب میری روٹین یہ بن گئی تھی۔ کہ صبح صبح ڈیرے پر چلا آتا اور میں سارا دن اپنے اس ڈیرے پر بیٹھ کر اپنے کھیتوں کی نگرانی کرتا جسے میرے والد نے اپنی زندگی میں تعمیر کیا تھا۔ ابا نے یہ ڈیرہ ہماری ساری زمین کے بالکل سینٹر میں بنوایا تھا۔ جس میں دو کمرے بنے ہوئے تھے۔ ان دونوں کمروں میں سے ایک میں ٹیوب ویل لگا ہوا تھا۔ جس سے میں اپنی ساری فصل کو پانی دیتا تھا۔ اس کمرے کی چھت کی اونچائی کم تھی۔ جب کہ دوسرا کمرہ آرام کرنے کے لیے بنوایا گیا تھا اور اس کمرے کی چھت ٹیوب ویل والے کمرے سے کافی اونچی تھی۔
ٹیوب ویل والے کمرے کی پچھلی طرف لکڑی کی ایک سیڑھی لگی ہوئی تھی۔ جس کے ذریعے اوپر چڑھ کر ٹیوب ویل کی چھت پر جا سکتے تھے۔ یہاں پر ایک روشندان بھی بنا ہوا تھا۔ جو کہ آرام کرنے والے بڑے کمرے کو ہوا دار بنانے کے لیے تھا۔ اس روشندان پر لکڑی کی ایک چھوٹی سی کھڑکی لگی ہوئی تھی جو ہمیشہ آدھی بند ہی رہتی۔ جب کہ روشندان کے باہر کی طرف اسٹیل کی ایک جالی بھی لگی ہوئی تھی۔ اس روشندان کی بناوٹ کچھ اس طرح کی تھی۔ کہ اگر کوئی انسان ٹیوب ویل کی چھت پر کھڑے ہو کر بڑے کمرے کے اندر جھانکتا تو کمرے کے اندر موجود لوگوں کو باہر کھڑے شخص کی موجودگی کا علم نہیں ہو سکتا تھا۔
ٹیوب ویل کی چھت پر بھی ایک سیڑھی رکھی ہوئی تھی۔ جس کے ذریعے آرام والے کمرے کی اونچی چھت پر چڑھا جا سکتا تھا۔ اس چھت سے چونکہ ہماری پوری زمین پر نظر رکھی جا سکتی تھی۔ اس لیے دن میں اکثر میں سیڑھیوں کے ذریعے اوپر چلا جاتا اور چھت پر بیٹھ کر اپنی فصل کی حفاظت کرتا رہتا۔ ہر روز دوپہر میں میری چھوٹی بہن مدیحہ میرے لیے گھر سے کھانا لاتی۔ اور جب تک میں کھانے سے فارغ نہ ہو جاتا وہ بھی میرے ساتھ ہی کمرے میں سامنے والی چارپائی پر بیٹھ کر اپنے موبائل فون سے کھیلتی رہتی۔ جب میں کھانا کھا کر فارغ ہو جاتا تو مدیحہ برتن سمیت گھر واپس چلی جاتی اور میں کمرے میں جا کر آرام کر لیتا۔ یہ روٹین پچھلے دو ماہ سے چل رہی تھی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ مدیحہ کی جگہ میری امی فاخرہ بھی میرے لیے کھانا لے آتیں۔