Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Welcome!

اردو ورلڈ کے نمبر ون فورم پر خوش آمدید۔ ہر قسم کی بہترین اردو کہانیوں کا واحد فورم جہاں ہر قسم کی کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔

Register Now
  • پریمیم ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 95 ڈالرز

    وی آئی پی پلس ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 7000

    وی آئی پی ممبر شپ

    تین ماہ ۔۔۔۔ 2350

    نوٹ: صرف وی آئی پی ممبرشپ 1000 ماہانہ میں دستیاب ہے

    WhatsApp رابطہ

    +1 540 569 0386

وحشتِ عشق

Desi Gujjar

Well-known member
Joined
Jun 24, 2023
Messages
58
Reaction score
884
Points
83
Location
Lahore Pakistan
Offline
وحشتِ عشق
قسط 1
Three Devils
امیر ترین اربوں کے مالک ماں باپ کی بگڑی اولاد.. اوپر سے تینوں شیطان سگے بھائی... وہ کونسی برائی تھی جو ان میں موجود نہیں تھی.. ان کی ٹی شرٹس پر بھی اکثر یہی logo ہوتا تھا
“If you're Bad than I'm your Dad”
1. شاہ ویر سلطان... سب سے بڑا، برائیوں میں بھی سب سے آگے.. ظالم، اذیت پسند، چیخیں سن کر سکون حاصل کرنے والا، معمولی غلطی پر نوکروں کی چمڑی ادھیڑ دینے والا
2. شاہ میر سلطان... بدتمیز منہ زور، ضدی ہٹ دھرم اور فیورٹ مشغلہ لڑکیوں سے دوستی کرنا اور ٹشو پیپر کی طرح یوز کر کے پھینک دینا.
3. شاہ زر سلطان... مغرور، گھمنڈی، سب سے بڑھ کر بے حس.. دنیا کی جو چیز پسند آ جائے اسے ہر قیمت ہر حال میں حاصل کرنے والا۔ سب سے چھوٹا پر سب کا باپ
تینوں اپنے سٹائل سے اپنی اپنی زندگی جی رہے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویر اپنے آفس کے سٹاف پر دھاڑ رہا تھا
”تم لوگوں کی ہمت کیسے ہوئی شاہ میر سلطان کو پیسے دینے سے انکار کرنے کی؟ زرا مجھے بھی تو پتہ چلے“
”سس...سر انکار نہیں کیا تھا“
”میرے میٹنگ سے باہر آنے تک ویٹ کرنے کا بھی کیوں کہا؟ ہاؤ ڈئیر یو ایڈیٹس؟“
”سس...سر وہ دد.... دس لاکھ مانگ رہے.. تھے..“ مینجر پھر گھگھیا گیا۔ شاہ ویر سلطان کے سامنے تو بڑے بڑوں کی بولتی بند ہو جاتی تھی وہ تو پھر بیچارہ مسکین سا مینجر تھا..
”ہاں تو تمھارے باپ کے مال میں سے تو نہیں مانگ رہا تھا ناں.. دس کروڑ مانگتا پھر میرا ویٹ کرتے... اب دفع ہو جاؤ۔ جا کر خود اسے چیک دے کر معافی مانگ کر آؤ.... ناراض ہو کر مری والے فارم ہاؤس گیا ہو گا“
ویر نے دانت پیسے
مینجر اپنے کیبن تک جانے لگا کہ پھر ویر سلطان کی دھاڑ پر ٹانگیں کانپیں
”گیٹ لاسٹ رائٹ ناؤ...“
وہ کھولتے دماغ اور دہکتی کنپٹیوں سمیت اپنے شاندار آفس داخل ہوا اور چئیر پر بیٹھ کر کنپٹیاں سہلانے لگا. کانوں میں پھر جانی پہچانی آوازیں گونجیں..... دور کہیں بچپن میں گیا...
شاہ میر اور شاہ زر سائیکل سے کھیلتے ہوئے گر گٸے تھے۔ وہ بھی پاس ہی فٹبال سے کھیل رہا تھا
جب زیب کی آواز کانوں میں گونجی
”ویر یہ کیا طریقہ ہے؟ دیکھو تمھارے دونوں بھائی سائیکل سے گر گئے ہیں. انھیں کتنی انجریز ہوئی ہیں۔۔ میں نے کتنی مرتبہ کہا ہے ان کا خیال رکھا کرو. اور تمھیں ہی ان کا خیال رکھنا ہے.. ہر حال میں.. میں چاہے ہوں تمھارے پاس یا پھر نہیں...... اور تمھیں پتہ بھی ہے کہ بورڈنگ جاؤ گے تو تم سب سے بڑے بھائی ہو.... ہم سے دور رہو گے تینوں....... تو وہاں چھوٹوں کا خیال کون کرے گا؟“
”اوکے زیب...“
وہ گہرا مسکرایا اور گال کا خوبصورت ڈمپل واضح ہوا... یہ ڈمپل تینوں بھائیوں نے ہی اپنی ماں سے چرایا تھا.
”میں پرامس کرتا ہوں کہ ان گدھوں کا خیال رکھوں گا... خود سے بھی زیادہ...“
وہ کہتا ہنستا چلا گیا.... جب ارجی بھی ان کے قریب آئی.. زیب بھی ہنسنے لگی.
وہ تینوں ان کے پاس آئے جو سائیکل سے گر کر اب روتے بسورتے ابھی سلطان مینشن کے طویل و عریض لان کی زمین پر ہی گرے ہوئے تھے. ویر نے سمیع کو آواز دی وہ بھاگ کر فرسٹ ایڈ باکس لایا۔ ویر نے ان کی انجریز پر سیناٹائزر لگایا..... زیب نے آئٹمنٹ لگائی... اب وہ تینوں بھائی زیب اور ارجی کے ساتھ لان میں کھیل رہے تھے.. اور ان کی کھلھکلاہٹیں پورے سلطان مینشن میں گونج رہیں تھیں..... جب اچانک یہ کھلھکلاہٹیں دلدوز چیخوں اور ماتم میں بدلیں تھیں.
ویر نے جھٹ وحشت سے بھر پور سرخ آنکھیں کھولیں تھیں.... یہ تو بارہ سال پرانی بات تھی... اب تو اس کا وہ خوبصورت ڈمپل کہیں کھو سا گیا تھا کیونکہ آج تک کبھی کسی نے شاہ ویر سلطان کو ہنستے کیا مسکراتے ہوئے دیکھا ہی نہیں تھا.. نا یونیورسٹی میں نا اب جب وہ دو سال سے حاتم سلطان کے ساتھ مل کر سلطان انڈسٹریز کو آسمان کی بلندیوں تک لے گیا تھا...
ویر سیدھا ہوا... فون ملایا.. سمیع نے فورا اٹینڈ کیا
”سمیع کچھ پتہ چلا.......؟“
”نہیں سر... مگر.... اگر وہ پاتال میں بھی چھپ کر بیٹھا ہوا تو میں اسے ڈھونڈ نکالوں گا... اور اس کی پوری نسل تباہ کر دوں گا...“
”تم بس پتہ لگاؤ.. اس کا اور اس کی نسل کا کیا کرنا ہے وہ بس مجھ پر چھوڑ دو...“
ویر کا سرسراتا لہجہ
کوئی بھی کمزور دل کا انسان ہوتا تو اس کی روح کانپ جاتی... مگر سامنے سمیع تھا..... جو ویر کی وحشتوں سے باخبر تھا.....
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ صوفے پر بیٹھا.. ببل گم چباتا... پاؤں ٹیبل پر رکھے جھلا رہا تھا.... عجیب اول جلول سا حلیہ تھا.. برنڈڈ گھٹنوں سے پھٹی جینز کی بلو پینٹ... وائٹ ٹی شرٹ میں ابھرتا چوڑا کسرتی جسم. اور بالوں کی ایک انچ لمبی پونی بنائے بے نیاز سا لاؤنج میں بیٹھا تھا.. اس حلیے کے باوجود بے تحاشا ہینڈسم لگ رہا تھا. کچھ ببل چباتے قاتل سا ڈمپل بار بار گال پر ابھر کر معدوم ہو جاتا.. دو لڑکے دوست اور تین لڑکیاں جو پاس ہی بیٹھیں تھے معنی خیز سا مسکرا رہے تھے. اس کے بلکل سامنے مینجر چیک ہاتھ میں لئے سر جھکائے کھڑا تھا اور ابھی ابھی معافی مانگ کر ہٹا تھا. اسے شاہ میر سلطان سے معافی مانگنے اور چیک دینے اسلام آباد سے مری آنا پڑا تھا.. وہ بھی میر سلطان کے پہنچنے سے پانچ منٹ کے اندر اندر....... مگر شاہ میر سلطان کی بے نیازی تھی کہ کم ہونے میں ہی نہیں آ رہی تھی.
”سر پلیز... مجھ سے مسٹیک ہو گئی... آئندہ“
”آئندہ یقیناً تمھیں مجھ سے الجھنے سے پہلے اپنی یہ انسلٹ ہزار مرتبہ یاد آئے گی... ناؤ کیپ اٹ آن ٹیبل......... اینڈ گیٹ لاسٹ..“
مینجر کو اپنی خلاصی ہوتی نظر آئی تو چیک ٹیبل پر رکھا اور وہاں سے تیر ہوا....
زین نے چیک اٹھا کر میر کو تھمایا... اس نے طنزیہ سی مسکان کے ساتھ باہر دروازے کی جانب دیکھا اور چیک پاکٹ میں ڈال لیا.
دل میں ویر سے کہا ”لو یو ویر برو.....“
”میر.... تم بزنس کب جوائن کر رہے ہو برو کے ساتھ.. اب تو لندن سے MBA بھی کر آئے....“
زین نے پوچھا..
میں تو کہہ رہا ہوں جوائن کروں... پر ویر نے کہا ہے ابھی کچھ عرصے لائف انجوائے کرو... ساری لائف پڑی ہے ان جھنجھنٹوں کے لئے....“
میر نے بے نیازی سے کندھے اچکا کر کہا
”اووو... خدا ایسا Big B سب کو دے...“
زین نے کہا تو میر ہنس دیا..
”ہاں واقعی یہ تو ہے...
Ok.. Let it go .. And start the party.......”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”شاہ زر.... واٹ اس دس یار...؟“
دانش چلایا
”واٹ.... اب میں نے کیا کیا؟ “
شاہ زر لاپروائی سے بولا
”یار میں نے ردا والی بات تمھیں بتائی تھی کہ وہ مجھ میں انٹرسٹڈ ہے اور تم نے پوری یونیورسٹی کو بتا دی.. اسے اتنی انسلٹ فیل ہوئی وہ اب یونیورسٹی بھی نہیں آ رہی.“
”ہاں تو کیا...؟ ویسے تو بڑی حاجن بنتی ہے. یہ بڑے بڑے لیکچر.. تم میں انٹرسٹ لینے سے پہلے سوچتی.. اب کیوں انسلٹ فیل ہوئی؟ ویسے بھی ان انگریزوں کے بیچ اسے کیا انسلٹ فیل ہونی ہے...؟“
وہ لندن میں اپنے بھائیوں کی طرح MBA کے لئے اس یونیورسٹی میں تھا اور آکا آپی کے پاس رہتا تھا.
”یار تم کیوں اتنے بے حس ہو...؟ تمھیں کسی کو بھی ہرٹ کرتے، کسی کے اموشنز کے ساتھ کھیلتے زرا بھی احساس نہیں ہوتا....“
“No.........”
شاہ زر بھی ڈھیٹ ابنِ ڈھیٹ تھا.. آرام سے بولا.
”تو میں دعا کروں گا کہ تمھاری لائف میں کچھ ایسا ہو کہ تمھارے اندر فیلینگز اور اموشنز آ جائیں... وہ بھی بے تحاشا..... تاکہ تمھیں دوسروں کی فیلنگز اور اموشنز کا احساس ہو..“
”اور وہ دن کبھی نہیں آئے گا...“
وہ پھر لاپرواہ سا بولا
”میں نے دنیا میں جو چاہا اسے پایا.. اسی لئے میرا نہیں خیال کہ میری لائف میں کسی چیز کی کمی ہے. یا کسی ایسی چیز کی خواہش ہو جو میری دسترس میں نا ہو... اسی لئے ہی شاید میرے دل میں کسی بھی چیز کے لئے فیلنگز ہی نہیں ہیں“
وہ بڑے اطمینان سے دانش کو اپنی بے حسی کی داستان سنا رہا تھا.
دانش پاؤں پٹختا وہاں سے واک آؤٹ کر گیا..
وہ ہینڈسم گہرا سا مسکرایا... اور اس کا ڈمپل دیکھ کر کئی مغربی دل اس کے قدموں میں گرے آ کر... مگر اس کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح No Lift کا بورڈ لگا دیکھ کر کسی میں اس کے قریب آنے کی ہمت نہیں تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”پریہا...... پری...“
بابا نے صحن میں داخل ہو کر آوازیں دیں.
”جی بابا....... بولیں“
وہ کچن میں مصروف سے انداز میں روٹی بناتی بولی..
وہ کچن میں ہی چلے آئے.....
”ادھر اؤ....“
بابا نے اسے بازو سے پکڑ کر کچن سے باہر نکالا۔
وہ ”ارے ارے بابا“ کہتی رہی مگر انھوں نے چولہا بھی بند کر دیا....
”سیلری ملی آج...... جو میری گڑیا نے ضروری چیزیں لینی تھیں... مارکیٹ جا کر وہ لے کر آتے ہیں.. اسی لئے جلدی آ گیا میں... اب چلو“
”مگر بابا“
”کوئی اگر مگر نہیں... چلو میں نے تمھاری ماں کو بتا دیا ہے ہم جا رہے ہیں.. چلو سکارف وغیرہ لے کر آؤ“
اس نے سادہ سے فیروزی سوٹ پر اچھے سے سکارف سے خود کو ڈھانپا اور حجاب لیا.. دودھیا رنگت، نرم و نازک وجود، تیکھے نقوش، پر نور چہرہ اور بھوری غزالی آنکھیں۔
اس کی تو ماں اسے نظر بھر کر نہیں دیکھتی تھی کہ کہیں اس کی گڑیا کو نظر نا لگ جائے. وہ گھر سے نکلے. بڑے سے شاپنگ مال کے سامنے حافظ سعید نے موٹرسائیکل روکی..
”بابا یہ...؟“
وہ حیران ہوئی... اتنے مہنگے شاپنگ مال میں ان کا کیا کام؟
”وہ جو تم نے مجھے کتاب بولی تھی وہ یہیں سے ملے گی.. میں نے پتہ کیا تھا.. اسی لئے پہلے میری گڑیا کی بُک پھر کوئی اور چیز...“
”اوکے...“
وہ بے تحاشا خوش ہوئی... دونوں اندر کی جانب بڑھے...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج شاہ ویر اپنی ضروری چیزیں لینے مال آیا تھا.... سمیع سائے کی طرح اس کے ساتھ رہتا تھا۔۔ اسی لئے اب بھی ساتھ تھا.
ویر اپنے لئے برانڈڈ واچ سلیکٹ کر رہا تھا.... جب گلاس کے اس پار نظر اٹھی اور پلٹنا بھول گئی.. وہ فیروزی سوٹ میں آسمان سے اتری کوئی پاکیزہ آسمانی مخلوق ہی لگ رہی تھی.. ایک بزرگ اس کے ساتھ تھے.. شاہ ویر کی نظریں اس پر سے ہٹ نہیں رہیں تھیں. وہ بڑی محو سی کتابیں دیکھنے میں مگن تھی۔
یوں لگتا تھا کہ فیری ٹیلز سے نکل کر کوئی فیری کتابوں میں اپنے پرنس کو ڈھونڈ رہی ہو. وہ ہمیشہ سے کسی ایسے چہرے ہی کی تو تلاش میں تھا.
بارہا اس کا اظہارِ خیال اپنے بیسٹ فرینڈ ساحر سے کر چکا تھا۔ جب ساحر اس کی تنہا اجاڑ زندگی کو دیکھ کر فکر مند ہوتا اور اسے شادی کرنے کا کہتا۔ ویر یہی کہتا کہ جس دن اسے کوئی ایسی مل گئی جسے پہلی نظر میں دیکھ کر وہ دوبارہ اس سے نظر نا ہٹا پائے. جسے پہلی نظر میں دیکھ کر اسے ایسا لگے کہ وہ صرف شاہ ویر سلطان کے لئے ہے.. شاہ ویر سلطان کے لئے بنائی گئی ہے.. تو وہ بلکل دیر نہیں لگائے گا اسے اپنا بنانے میں.. شاہ ویر کے دل کی دنیا تہہ و بالا ہو رہی تھی. یوں لگتا تھا جیسے برسوں کے بھڑکتے سلگتے دل پر ٹھنڈے اوس کے چھینٹے پھینکے گئے تھے۔ جیسے کسی بیمار کو بے وجہ قرار آیا ہو.. جیسے تپتے صحراؤں میں بادِ نسیم چلی ہو..
سمیع نے اپنے مالک کی کسی ایک جگہ محویت نوٹ کی تو بڑی حیرت سے اس کی نظروں کے تعاقب میں گلاس کے پار دیکھا.. ایک نظر دیکھ کر فوراً نظر ہٹائی. دل میں شکر ادا کیا.. کیونکہ اپنے مالک کی چھبیس سالہ زندگی میں وہ پہلی مرتبہ اسے کسی لڑکی کو گھورتے دیکھ رہا تھا... نہیں تو.. ویر تو اسے انسان لگتا ہی نہیں تھا... کوئی مشین یا پھر انتقام کا بھڑکتا آگ کا گولہ
”سمیع...“
ویر نے پکارا .....
”جی سر...... حکم“
”وہ سامنے لڑکی دیکھ رہے ہو... فیروزی سوٹ میں... شاید اپنے بابا کے ساتھ ہے...“
”جی سر دیکھ لی.....“
”ہممم. مجھے اپنے آفس پہنچنے سے پہلے اس کی ڈیٹیلز اپنے ٹیبل پر چاہئیں.... سمجھ رہے ہو ناں.“
”جی سر ہو جائے گا....“
اب شاہ ویر ہر کام چھوڑ کر اطمینان سے اپنی جیکٹ میں ہاتھ ڈالے اسے دیکھنے میں مصروف تھا...
”باجی اس کتاب کا سٹاک تو ختم ہو گیا یہاں سے بھی... وہ شارٹ ہوئی ہے کتاب.. مگر ہمارے پاس اور موجود ہے سٹاک.. آپ کل دس بجے دوبارہ آجانا لینے.“
دکاندار نے کہا
پریہا کے چہرے پر سخت مایوسی چھائی... اور اس چہرے کی یہ مایوسی کسی سے چھپی نا رہی بلکہ اسے بے چین کر گئی...
”بابا اب کیا کریں...؟“
وہ روہانسی ہوئی...
”کوئی بات نہیں بیٹا... جہاں اتنے دن صبر کیا.. وہاں ایک دن اور سہی... کل سنڈے ہے ویسے بھی میں تمھیں دس بجے ہی لے آؤں گا...“
”اوکے بابا چلیں پھر.....“
وہ بابا کے ساتھ وہاں سے نکلتی چلی گئی...
شاہ ویر سلطان کی نظروں نے دور تک اس کا تعاقب کیا. وہ مبہم سا مسکرایا... اور سمیع نے بے حد حیرت سے برسوں بعد اس کا وہ ڈمپل دیکھا جو بچپن کے ویر کے ساتھ کہیں کھو سا گیا تھا. سمیع فوراً ان کے پیچھے باہر کی جانب لپکا.
ان کے جانے کے بعد وہ کتابوں کی شاپ پر آیا... اور بھلا شاہ ویر سلطان کو وہاں کون نہیں جانتا تھا.
”جی سر حکم “
دوکاندار لپک کر اس کے استقبال کو باہر آیا.
”ابھی وہ میڈم کیا خریدنا چاہتی تھیں...؟“
اس کی شاپ پر صرف وہی تھی تو دکاندار سمجھ گیا کہ ویر کس کی بات کر رہا ہے
”وہ.. سر وہ ایک بک لینے آئی تھیں... جو کے شارٹ ہے.. ہمارے پاس سٹاک موجود ہے.. مگر وہ کل کو ملے گی.... ان کو بول دیا ہے کہ کل دس بجے آ کر لے جائیں..“
”ہممم گڈ... یہ میرا کریڈٹ کارڈ ہے.. پورے سٹاک کی قیمت لے لو... اس کے آنے سے پہلے سٹاک کی ایک بھی بک نہیں نکلنی چاہیے.. اس کے جانے کے بعد چاہے باقی سیل کر دینا......“
وہ لاپرواہی سے بولا
دکاندار کی بے تحاشا حیرت سے آنکھیں پھیل گئیں۔ مگر شاہ ویر سے سوال جواب کا مطلب اپنی شامت بلانا تھا اس لئے خاموشی سے کریڈٹ کارڈ تھام لیا.
”میڈم تو کچھ زیادہ ہی قسمت والی ہیں جو شاہ ویر سلطان مہربان ہوا ہے.“
دکاندار نے دل میں سوچا....
جاری ے۔۔
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
Back
Top