Shehla69
Elite writer
Offline
ہندر کپور نے آج شام کا بڑا ہی شاندار پروگرام بنایا تھا۔ وہ حسب معمول شیام کے ہاں پہنچا، تو اس کا خیال تھا کہ وہ بے چینی سے اس کا انتظار کر رہا ہو گا، لیکن جب اس نے شیام کو دیکھا تو اسے اپنی نظروں پر یقین نہیں آیا۔ اس کا چہرہ بے لہو ہو رہا تھا اور آنکھوں سے ویرانی اور صدمہ جھانک رہا تھا، جیسے اس پر کوئی بجلی سی آ گری ہو۔ دوپہر کو ہی تو انہوں نے ایک اعلیٰ ریسٹورنٹ میں پرتکلف کھانا کھایا تھا، جس کا بل شیام نے حسب معمول ادا کر دیا تھا، لیکن اب ان چند گھنٹوں میں اس کے ساتھ کیا ہو گیا …؟ کیا ہوا میرے یار! خیریت تو ہے؟ تمہیں دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے، جیسے تمہیں کوئی گہرا صدمہ پہنچا ہے؟ یہ کہتے ہوئے مہندر ناتھ کو ایک دم یہ خیال آیا کہ کہیں شیام کی پرمیلا آنٹی تو نہیں چل بسیں؟ وہ ایک سال سے دماغی امراض کے سب سے مہنگے اسپتال میں داخل تھیں، لیکن ان کی موت پر صدمے کی بجائے جشن منانے کی خواہش تھی، جو خاک میں مل گئی تھی۔ وکیل پانڈے کا سہ پہر کو فون آیا تھا۔ اسپتال کے ماہرین نے پرمیلا آنٹی کو مکمل طور پر صحت مند ہونے کی سند دے دی ہے۔ اب ان کی لاش اٹھانے کی بجائے، وہ خود ڈسچارج ہو کر گھر آرہی ہیں۔ شیام نے مردہ لہجے میں بتایا – مجھے یقین نہیں آ رہا۔ ہم تو ان کی موت کی خبر سننے کے منتظر تھے! مجھے خود یقین نہیں آرہا، لیکن انہوں نے خود مجھ سے فون پر بات کی تھی۔ میں نے دل پر جبر کی سل رکھ کر ان کی صحت یابی پر نہایت خوشی کا اظہار کیا، لیکن فون بند کرتے ہی ان کی شان میں ایسے ایسے شاندار کلمات ادا کیے کہ اگر وہ سن لیتیں تو فوراً مجھے اپنے گھر سے نکل جانے کا حکم دے دیتیں۔ انہیں یقین نہیں آتا کہ ان کا فرماں بردار اور سعادت مند بھتیجا انہیں ایسے کلمات سے سرفراز کر رہا ہے۔ شیام نے دل گرفتہ انداز میں کہا۔ یار! یہ تو بہت بری اور انتہائی الم ناک خبر ہے۔ اب کیا ہوگا؟مہندر کپور نے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔ماں، باپ کے سورگ باش ہونے کے بعد شیام کی چچی پر میلا، جنہیں وہ آنٹی کہتا تھا، انہوں نے اسے سہارا دیا تھا۔ اس کے پتاجی عسرت کی زندگی گزار کر رخصت ہوئے تھے، لیکن اس کا آنجہانی چچا بڑا ذہین، دور اندیش اور کامیاب بزنس مین تھا۔ اس نے بیس برس میں بے اندازہ دولت کمائی۔ چچا کے اس سنسار سے چلے جانے پر پرمیلا آنٹی پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔ دولت کی اس قدر فراوانی تھی کہ وہ سو برس تک شاہانہ زندگی بسر کر سکتی تھی۔ اس کے چاچا کا دوست، وکیل پانڈے، جو بے غرض اور اعتماد کا بندہ تھا، اپنا ٹرسٹ اس کی تحویل میں دے گیا تھا، جو اس کی نگرانی کر رہا تھا۔ اب جب تمہاری آنٹی ایک برس بعد آ رہی ہیں، تو وہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کرے گی؟ جب کبھی وکیل پانڈے اس کی عیادت کو جاتا تو وہ اس سے بارے میں ضرور پوچھتی تھی اور کہتی تھی کہ شیام کا خیال رکھنا۔ اس ذہنی ابتلا میں بھی ایسی معقولیت کی بات کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے دل میں میرے لیے بہت جگہ ہے۔
پرمیلا نے اس کے اور پانڈے کی موجودگی میں بھی یہ بات کہی تھی۔ اگر پانڈے اس کی ہدایت کو نظرانداز کر دیتا تو شیام اسے تنبیہ کرتا کہ وہ اس کی شکایت آنٹی سے کر دے گا۔ چونکہ پرمیلا ذہنی مریضہ تھی، اس لیے ایسی شکایت سن کر وہ برہم ہو جاتی اور اس کی حالت بگڑ جاتی، اس لیے پانڈے اس کا خیال رکھنے پر مجبور تھا۔ اسے شیام کی ہر بات ماننا پڑتی۔ وہ دیکھتا کہ شیام چچی کی دولت سے ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے اور بڑی فراخدلی سے خرچ بھی کرتا تھا، لیکن جب تک پرمیلا گھر میں تھی اور ابھی اسپتال میں داخل نہیں ہوئی تھی، اسے صرف اتنا جیب خرچ دیتی تھی کہ ایک اسکول کے لڑکے کے اخراجات بھی پورے نہیں ہو پاتے تھے۔ وہ مجبوراً کوئی چھ برس تک اس رقم پر اکتفا کرتا رہا۔ کہنے کو تو وہ ایک ارب پتی شخص کا اکلوتا بھتیجا تھا، لیکن اس کا حال نوکروں سے بھی بدتر تھا۔ آنٹی کا اسپتال میں داخل ہونا اس کے لیے نیک شگون تھا، اس نے اس ایک برس میں کون سے مزے اور عیش نہیں کیے تھے۔ اگر باپ کی دولت ہوتی تو شاید وہ دونوں ہاتھوں سے نہ لٹاتا۔ مہندر کپور اس کا مخلص اور بااعتماد دوست تھا۔ جب سے اس کی آنٹی اسپتال میں علاج کے لیے داخل ہوئی تھی، اس نے ان کی دولت خوب لٹائی تھی۔ وہ شیام کے ساتھ ہی رہتا تھا اور کبھی کبھی اپنی دیدی کے ہاں چلا جاتا تھا۔ بہر حال، آنٹی کی صحت یابی کے ساتھ واپسی کی خبر نے مہندر کپور کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اسے جیسے برقی جھٹکا لگا تھا۔ ہاں دوست! شیام نے ایک دکھ بھری سانس لیا۔ اب ہمارے برے دن آ گئے۔ جس دن اس نے گھر میں قدم رکھا، وہ ہمارے لیے انتہائی منحوس دن ہو گا۔ کاش! وہ دو ایک سال اور زیر علاج رہتی اور اس دوران مر جاتی تو کتنا اچھا ہوتا…
مہندر کپور نے شیام کی طرف حیرت بھری نظروں سے دیکھا اور پھر دکھ بھرے لہجے میں بولا، مجھے تو اب فاقے کرنے پڑیں گے۔ کوئی ملازمت ڈھونڈنی پڑے گی، لیکن اس قدر بیروزگاری ہے کہ ملازمت کا ملنا ناممکن سا ہے۔ ہاں درست. شیام نے سر ہلایا اور کرب ناک لہجے میں کہنے لگا، تمہیں تو ہر بات کا علم ہے۔ آنٹی مجھے ہر ماہ ذاتی خرچ کے لیے صرف پانچ ہزار روپے دیتی تھی۔ ان پیسوں میں بھلا کیا ہوتا تھا، جبکہ اس کے کاروبار اور جائیداد کے کرایے کی مد میں ہر ماہ لاکھوں روپے آتے ہیں۔ کارخانوں کی آمدنی الگ ہے۔ اس کا ایک سوتی کپڑے کا کارخانہ پونا شہر میں اور دوسرا احمد آباد میں ہے۔ ایک کارخانے میں کھانے پینے کی اشیاء ڈبوں میں مہربند کر کے بیرون ملک ایکسپورٹ کی جاتی ہیں۔ آنٹی نے مجھ سے متعدد بار کہا کہ میں اس کارخانے میں بطور ایک محنت کش اپنی زندگی کا آغاز کروں، کیونکہ میرا چچا بھی عام مزدور تھا، پھر اس نے محنت کر کے دو ارب کمائے۔ مگر وہ کارخانہ شہر سے تین میل دور ایک ویران اور سنسان علاقے میں ہے۔ وہاں کسی قسم کی کوئی تفریح نہیں ہے۔ وہاں صرف مرد کام کرتے ہیں، اگر لڑکیاں بھی ہوتیں تو میںضرور وہاں چلا جاتا۔ میری جان! تم اتنی جلدی گھبرا گئے؟ کیوں پریشان ہو رہے ہو؟ مہندر کپور نے اسے دلاسا دیا۔ فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وکیل پانڈے بہت چالاک ہے۔ کیا معلوم اس نے کسی ایسی عورت سے فون کرایا ہو، جو آواز کی نقل اتارنے میں ماہر ہو، اور اس آواز سے تم دھوکا کھا گئے۔ تمہاری آنٹی نفسیاتی مریضہ ہے اور میں نے سنا ہے کہ نفسیاتی مریض برسوں بیمار رہتے ہیں، اتنی آسانی سے صحت یاب نہیں ہوتے۔ میں آنٹی کی آواز اچھی طرح پہچانتا ہوں۔ مجھے کوئی دھوکا دے سکتا ہے اور نہ بے وقوف بنا سکتا ہے۔ کیا اس بات کا امکان نہیں کہ ڈاکٹر دھوکا کھا گئے ہوں اور ان کی تشخیص غلط ہو؟ اس بات کا دور دور تک امکان نہیں۔ شیام نے افسردگی سے کہا۔ وہ دو ڈاکٹروں کے پینل کی نگرانی میں ہیں۔ چار دن کی چاندنی باقی ہے، اس دوران مجھے اپنی آنٹی کے لیے ایک خوبصورت اور آرام دہ لگژری فلیٹ تلاش کرنا ہے۔ میں ان کے ساتھ اس فلیٹ میں رہوں گا۔ مسوری کالونی والا بنگلہ تو ہم نے فروخت کر دیا۔ اب میں اور آنٹی فلیٹ میں رہنا چاہتے ہیں۔ تو گویا میں اب تمہارے ساتھ نہیں رہ سکوں گا! مہندر کپور نے مایوسی سے کہا۔ ہاں دوست… مجبوری ہے، شیام نے غم زدہ لہجے میں جواب دیا۔ آنٹی کے وکیل کا کہنا ہے کہ ساحلی علاقے میں فلیٹ تلاش کیا جائے۔ کیا تم میرے ساتھ چلو گے؟
ساحل کے قریب ایک ایئر کنڈیشنڈ، پرسکون اور سات منزلہ عمارت تھی۔ اس کے تمام فلیٹ نہایت آراستہ تھے۔ ان کی دیواروں تک کو ایسے قالینوں سے سجایا گیا تھا، جس نے ان کی شان و شوکت بڑھا دی تھی۔ اس پر شاہی محل کا گمان ہوتا تھا۔ ان خوبیوں کے باوجود وہ عمارت اس لیے خالی پڑی تھی کہ اس کا ماہانہ کرایہ لاکھوں میں تھا۔ ہر فلیٹ میں کشادہ اور لمبی چوڑی بالکنی تھی، جس میں سے میلوں تک پھیلے ساحل کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔ شیام اور مہندر کپور منیجر کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے۔ گنجے سر کے منیجر نے انہیں مشکوک نظروں سے اوپر سے نیچے تک دیکھا، لیکن کوئی ہتک آمیز فقرہ نہیں کیا۔ شاید وہ ان گاہکوں کے متعلق پہلے سے کوئی رائے قائم کر کے مایوسی کا شکار ہو چکا تھا۔ شیام نے اسے اپنی ضرورت سے آگاہ کیا، مگر منیجر کے ہونٹوں پر رسمی سی مسکراہٹ بھی نہیں آئی۔ اس نے کاروباری لہجے میں کہا، ہمارے پاس ایسے فلیٹ موجود ہیں، جو آپ کی توقعات پر پورے اتریں گے۔ پھر اس نے اپنے معاون کو بلایا، اچاریہ مکر جی! یہ مسٹر شیام اور ان کے دوست مہندر کپور ہیں، انہیں بارہ نمبر فلیٹ دکھا دو۔ اچاریا سامنے کی میز پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ نہ صرف اپنے نام بلکہ چہرے، مہرے اور وضع قطع سے بنگالی دکھائی دیتا تھا۔ وہ ان کی آمد سے خوش نہیں تھا۔ وہ بڑی بے دلی، بے زاری اور سرد مہری سے اٹھا اور لفٹ سے انہیں اوپر لے گیا۔ لفٹ سے نکل کر مہندر کپور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر فرش پر بچھے قیمتی سرخ قالین کو دیکھنے لگا۔ فلیٹ کے دروازے کی پیشانی پر سنہرے الفاظ میں “بارہ نمبر” لکھا ہوا تھا۔ اچاریہ نے بتایا کہ دراصل یہ تیرھویں منزل ہے، مگر بعض توہم پرست لوگ تیرہ کا ہندسہ منحوس سمجھتے ہیں، اس لیے اس منزل کا نمبر بھی بارہ رکھ دیا گیا ہے- اس نے جمائی لے کر فلیٹ کا کفل کھول دیا تو شیام اور مہندر کپور اندر داخل ہوئے۔ اندر رنگ و روغن کی بو رچی ہوئی تھی۔ دیواریں سفید تھیں، ایک دروازہ بالکنی میں کھلتا تھا، جہاں سے سمندر کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔ باہر ابتدائی دنوں کی چاندنی بھی بڑی خوبصورت دکھائی دے رہی تھی۔ شیام نے فلیٹ کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا، اس کا کرایہ کتنا ہے؟ساٹھ ہزار روپے ماہانہ، اچاریہ نے خشک لہجے میں جواب دیا۔ شیام نے الماری کا معائنہ کرتے ہوئے کہا، پتا نہیں، تیرہویں منزل کے بارے میں آنٹی کی سوچ کیا ہے؟ شاید وہ بھی اسے منحوس سمجھیں۔ اچاریہ نے چابیوں کا گچھا انگلیوں میں گھمایا۔ نیچے والی منزل میں بھی ایک ایسا ہی فلیٹ موجود ہے اور اتفاق سے وہ ابھی خالی ہے، کیا آپ اسے دیکھنا پسند کریں گے؟ کیوں نہیں!وہ سیڑھیوں کے ذریعے اس سے نچلی منزل پر آ گئے۔ یہاں بھی خالی فلیٹ کے دروازے پر سنہرے حروف میں “بارہ” کا ہندسہ درج تھا۔ اچاریہ نے دروازہ کھول دیا۔ اندر گھستے ہی شیام اور مہندر کپور کو ایک جھٹکا سا لگا۔ ان دونوں فلیٹوں میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں تھا۔ یہاں بھی رنگ و روغن کی بو بسی ہوئی تھی۔ کیا دونوں فلیٹوں کا کرایہ بھی ایک ہی ہے؟ مہندر کپور نے کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔ ہر چیز ایک ہے، جناب! تو کرایہ بھی ایک ہی ہے، اچاریہ نے بتایا۔ عجلت میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا، شیام نے جواب دیا۔ وہ کمر پر ہاتھ رکھے کمرے کے بیچوں بیچ کھڑا ہوا تھا۔ کیوں دوست! اگر ہم یہ دونوں فلیٹ کرایے پر لے لیں؟ میں اوپر رہوں اور تم نیچے، تو کتنا مزا آئے گا۔ کیوں… ٹھیک ہے نا؟ ٹھیک ہےمہندر نے سر ہلایا۔ لیکن میرے فلیٹ کا کرایہ کون دے گا؟ جناب… اچاریہ نے مداخلت کی، میں بہت مصروف ہوں۔ اگر آپ برا نہ مانیں تو میں چلا جاؤں؟ آپ اطمینان سے جائزہ لیں اور مشورہ کریں، اور فلیٹ لینے کا فیصلہ کر لیں تو نیچے تشریف لے آئیں۔ ضرور، ضرور… آپ شوق سے جائیں۔ ہمیں فیصلہ کرنے میں کچھ وقت لگے گا،” مہندر نے احمقانہ انداز سے مسکرا کر جواب دیا۔ اچاریہ باہر چلا گیا۔
شیام نے اپنی ہتھیلی پر دو مکے مارے، پھر بولا، مہندر یار! ذرا سوچو۔ ہم دونوں فلیٹ ایک جیسے بنا دیں گے۔ قالین، ڈیزائن، ایک رنگ اور ایک سائز کے ہیں۔ ہم فرنیچر بھی بالکل ایک جیسا اور ایک ہی رنگ کا لیں گے۔ دیواروں پر آویزاں تصویریں بھی ایک جیسی، ہر چیز ایک دم یکساں ہو گی۔ لیکن ایسا کیوں؟ آخر ہم ایسا کس لیے کریں گے؟ مہندر نے حیرت بھری سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ لوگوں کو حیران، چونکانے کے لیے… یہ کیا بات ہوئی! میں سمجھا نہیں، مہندر ناتھ الجھ کر بولا۔ ذرا سوچو… ہم اپنے دوستوں کو یہاں بلائیں گے۔ پہلے وہ تمہارے فلیٹ میں آئیں گے اور بعد میں میرے… وہ سمجھیں گے کہ وہ تمہارے فلیٹ میں ہیں۔ انہیں یقین نہیں آئے گا کہ فلیٹ بدل گیا ہے۔ ذرا سوچو، انہیں حیران اور بھونچکا کرنے میں کتنا لطف آئے گا، شیام نے کہا۔ کیا ہماری دوست لڑکیاں چکرائے گی؟ ہاں، سمجھ گیا، سمجھ گیا… مہندر نے پرجوش انداز میں کہا۔ اس کے ہونٹ اور آنکھیں مسکرانے لگی تھیں۔ تم نے کیا زبردست خیال پیش کیا ہے۔ ہم انہیں اوپر سے نیچے، نیچے سے اوپر دوڑا دوڑا کر پاگل کر دیں گے۔ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا۔ وہ چکرا جائیں گے کہ ہم بارہویں منزل پر ہیں یا تیر ہویں منزل پر … دونوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارا، پھر زور زور سے قہقہے لگانے لگے۔ شیام نے اس کا ہاتھ دبایا اور پھر اچانک خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا۔ پاگل .. وہ زیر لب بڑ بڑایا۔ ہاں، اس طرح کسی کو بھی پاگل بنایا جا سکتا ہے۔ یہ کھیل تو ہر کسی کو پاگل کر دے گا۔ کیا کہا تم نے …؟ مہندر ٹھیک سے سن نہ سکا۔ میر ا مطلب ہے کہ ہم ایک فلیٹوں کے ذریعے کسی کو بھی سچ مچ پاگل کر سکتے ہیں۔ ہر شخص یہی سمجھے گا کہ وہ بارہویں منزل کے فلیٹ میں موجود ہے، جبکہ وہ تیرہویں منزل کے فلیٹ میں ہو گا۔ مہندر نے اس کے چہرے کو دیکھا تو اس کے تاثرات میں استعجاب سا آ گیا، پھر شیام نے پر خیال انداز میں کہا۔ میں کچھ اور سوچ رہا ہوں دوست ! بے حد سنجیدگی سے میرے ذہن میں ایک ترکیب جنم لے رہی ہے۔ پھر اس نے چونک کر مہندر کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا اور اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔ ہو گیا مسئلہ حل …. برے دن ، بھیک مانگنے سے پہلے ہی رخصت ہو گئے۔ اب ہمیں نحوست اور بے کاری کا سامنا کرنا نہیں پڑے گا۔ ونڈر فل دوست ! یہ تو بہت بڑی خوش خبری ہے۔ مہندر خوش ہو کر بولا تو اس کے لہجے میں سرشاری تھی۔ لیکن کیسے …؟ کیا اس اس کا تعلق اس فلیٹ سے ہے؟ میری سمجھ میں تو مہندر نے دیکھا کہ شیام کے چہرے پر ایک عجیب سی دمک اور آنکھوں میں وحشیانہ چمک کی سرخی ابھر آئی ہے۔ شیام اس کی بات تیزی سے کاٹ کر بولا تو اس کے آواز میں ارتعاش ساتھا۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ہو گیا، ہو گیا مسئلہ حل …. ہم دونوں یہ فلیٹ کرایے پر لے لیں گے۔ ان کی آرائش اور زیبائش میں ذرہ برابر فرق نہیں ہو گا، جیسے جڑواں بچوں میں ہوتا ہے کہ ان کی ماں بھی نہیں پہچان پاتی۔ دو لیکن کیوں ؟ کس لیے ؟ مہندر کے چہرے پر الجھن اور ناگواری کی ابھر آئی۔اس لیے کہ پر میلا آنٹی کو دوبارہ پاگل کرنا ہے ، تاکہ علاج کے لیے وہ پھر سے اسپتال میں داخل ہو جائے۔ شیام کا لہجہ معنی خیز ہو گیا۔
مہندر سر کھجانے لگا، پھر جیسے ہی وہ بات کی تہ تک پہنچا، اس طرح اچھلا، جیسے اسے کرنٹ لگا ہو۔ سمجھ گیا… سمجھ گیا میرے دوست ! تم انہیں پھر پاگل ثابت کر کے اسپتال بھیج دینا چاہتے ہو ؟ ویری گڈ شیام ! تم واقعی بلا کے ذہین آدمی ہو۔ اس کا مجھے اندازہ تھا۔ وہ کہنے گا۔ اس طرح تم کارخانے کی مشقت و محنت سے بچ جائو گے اور جب تک آنٹی اسپتال میں زیر علاج رہیں گی ، تم پر اخراجات کی کوئی پابندی بھی عائد نہیں ہو گی۔ گویا سر کڑاہی میں اور انگلیاں بھی جس طرح گھی میں تھیں، ویسے ہی رہیں گی۔ تم بہت بڑے مائنڈ مین ہو۔ یہی میں بھی چاہتا ہوں، مگر اس معاملے پر مزید غور کر نا پڑے گا۔ ممکن ہے ایک جیسے فلیٹوں کے ذریعے میں ہمیشہ کے لیے ان سے نجات حاصل کرلوں۔ ان کا وکیل پانڈے، مجھے یک مشت کوئی بڑی رقم نہیں دے گا، لیکن خیر کوئی بات نہیں۔ گزشتہ برس میری سال گرہ پر انہوں نے مجھے دس ہزار کی رقم دی تھی۔ ایک روز جب وہ تجوری ٹھیک سے بند کرنا بھول گئی تھیں ، تب میں نے ایک لاکھ روپے کی گڑی پار کر لی تھی۔ وہ ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے اور میں اس کی حفاظت کرتا آ رہا ہوں۔ کیا تمہاری آنٹی کو اتنی بڑی رقم غائب ہونے کا پتا نہیں چلا ؟ انہوں نے کوئی ہنگامہ کھڑا نہیں کیا؟ وہ وکیل سے گا ہے بگاہے چھوٹی موٹی رقمیں منگواتی رہتی تھیں، ضرورت مندوں ، اور رفاہی اداروں کی مالی مدد کے لیے اور پھر ان کا دماغی توازن بھی ٹھیک نہیں تھا۔ ان کی یادداشت بھی تو کم زور ہے۔ کیا تجوری کی چابیاں تمہارے پاس نہیں ہیں ؟ اگر وہ مل جائیں تو سمجھو کہ خزانہ مل گیا۔ کیا تم نے کبھی تلاش نہیں کی کیں تجوری کی چابیاں … وہ بڑی کھوسٹ ، بہت ہو شیار ہے۔ شیام نے جواب دیا۔ تجوری کوڈ نمبر سے کھولتی ہے۔ میرے اندازے کے مطابق تجوری میں کروڑوں کی رقم ہو گی۔ تم نے مجھے اعتماد میں نہیں لیا، ورنہ کسی نقب زن کی خدمات حاصل کر لی جائیں۔ مہندر بولا۔ یہ کیسے ممکن ہوتا . اس کے ساتھ خواب گاہ میں ایک جواں سال ملازمہ سوتی تھی۔ اسپتال میں ہونے کے باوجود اب بھی ملازمہ وہاں سوتی ہے اور اندر سے دروازہ مقفل کر لیتی ہے تا کہ کوئی اسے پریشان نہ کرے۔ ہاں، وہ جتنی حسین ہے ، اتنی ہی پر کشش ہے اور بلا کی طرار بھی۔مہندر بولا۔ ایک روز میں نے اسے دبوچا تو اس نے میرے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا اور کسی زہریلی ناگن کی طرح پھنکار کر بولی کہ میرا بھائی جوڈو کراٹے کا ماہر ہے ، وہ اب تک چار مردوں کی گردن اور ٹانگیں توڑ چکا ہے۔شیام قہقہہ مار کر بڑے زور سے ہنسا۔ اس نے غلط نہیں کہا۔ اس کا بھائی باڈی بلڈر ہے۔ اسے دیکھ کر بدن پر سنسنی دوڑ جاتی ہے۔
دونوں فلیٹ کرایے پر لینے کے بعد ہفتہ بھر اسی بھاگ دوڑ میں گزرا تھا۔ انہوں نے نشست گاہ اور خواب گاہوں کے لئے جدید ترین اور بے حد شان دار فرنیچر خریدا تھا، تا کہ ہر کسی کو ان کے ذوق کا اندازہ ہو سکے۔ سرخ رنگ کے دبیز اور خوب صورت ڈیزائن کے ایرانی قالین، آئینے اور تصویریں،گل دان، الماریاں اور شوکیس، غرض ضرورت کا ہر سامان، کسی بات کی کمی اور کسر نہیں چھوڑی تھی۔ جو چیز بھی خریدی، جڑواں خریدی تھی۔ خریداری تو آسان تھی، لیکن بڑا مسئلہ انہیں سلیقے اور ترتیب سے مخصوص جگہ بت رکھنا تھا۔ انہوں نے ہر چیز کو رکھنے کے لیے نقشے بنائے تاکہ دونوں کمروں کی آرائش میں ذرا بھی فرق نہ آئے۔ بار بار ان کا ناقدانہ انداز سے جائزہ لیا کہ کوئی چیز دوسرے فلیٹ سے مختلف جگہ پر تو نہیں رکھ دی گئی۔ وہ رات گئے بڑی جانفشانی سے کام کرتے تھے۔ ان کی محنت بار آور ہوئی۔ دونوں فلیٹوں کی ہر چیز ایک ہی مقام پر تھی۔ تمام تیاریوں سے مطمئن اور خوش ہو کر ایک رات کا پیشگی اس کا جشن منایا اور ایک دوسرے سے امتحان لیا۔ دونوں پہلے ایک فلیٹ میں گئے۔ ان میں ایک اپنی آنکھیں بند کر لیتا اور دوسر الفٹ کا بٹن دباتا۔ جب لفٹ تیر ہویں فلور پر رکتی تو ایک ، دوسرے دوست کو سہارا دیتا اور فلیٹ میں لے جاتا اور اس کی آنکھیں کھلوا کے پوچھتا کہ وہ کس فلیٹ میں موجود ہے ؟ ان کے اندازے غلط ہو جاتے تو انہیں بے حد مسرت ہوتی –
خوش خبری … دوروز بعد شیام نے فلیٹ میں داخل ہو کے اونچی آواز میں کہا۔ کل پرمیلا آنٹی تشریف لا رہی ہیں۔ انہیں کل اسپتال سے فارغ کر دیا جائے گا۔ ان کی صحت اور جسمانی کشش قابل رشک ہو گئی ہے اور وہ کسی دوشیزہ کی طرح لگ رہی ہیں۔ کہیں تم ان پر ریشہ خطی نہ ہو جانا۔ خود کو قابو میں رکھنا، ورنہ سارا کھیل بگڑ جائے گا۔ توقع ہے کہ ان کا وکیل انہیں کل لے کر آئے گا۔ تمہیں اس نادر منصوبے میں اپنا کردار یاد ہے نا ! خوب یاد ہے ، لیکن میرے خیال میں ایک دفعہ یہ کردار دوہرانے میں کوئی حرج نہیں۔ شیام قالین پر ٹہلنے لگا، پھر اس نے چند لمحوں کے بعد رک کر کہا۔ میرے دوست ! آنٹی اپنے وکیل، نگراں اور محافظ مسٹر پانڈے کے ساتھ عمارت میں داخل ہوں گی، میں ان کا والہانہ اور پر جوش انداز سے سواگت کروں گا، پھر انہیں بتائوں گا کہ اس عمارت کی تیرہویں منزل کو بھی بارہویں منزل بنادیا گیا ہے۔ اس طرح ان کے ذہن میں یہ نکتہ محفوظ ہو جائے گا۔ شیام نے توقف کر کے گہر اسانس لیا، پھر اپنی بات جاری رکھی۔ میں اسے لفٹ میں لے جا کر بارہویں منزل کا بٹن دبائوں گا۔ ان کا وکیل اور میں بارہویں منزل سے اتریں گے تو انہیں احساس نہیں ہو گا کہ وہ غلط منزل پر اتر گئے ہیں، پھر ہم فلیٹ میں داخل ہو جائیں گے۔ وہاں میں اور پانڈے کچھ دیر آنٹی کی چاپلوسی کریں گے اور وہاں سے رخصت ہو جائیں گے۔ بارہویں منزل کے فلیٹ کا دروازہ کھلا۔ شیام ، آنٹی پر میلا اور وکیل باہر آئے۔ شیام آگے آگے چل رہا تھا۔ فلیٹ کے دروازے کی پیشانی پر لفظ چاند کی طرح چمک رہے تھے۔ یہ بات قریب ہونے اور غور سے دیکھنے پر ظاہر ہوتی تھی کہ اسے ٹیپ سے چیکایا گیا ہے۔ پر میلا اور اس کے وکیل نے اس پر دھیان دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ شیام نے ڈرامائی انداز سے دروازہ کھولا اور ایک قدم پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا، تاکہ اندر جانے کا راستہ دے سکے۔ آنٹی اندر داخل ہوئی اور ناقدانہ انداز سے فلیٹ کا جائزہ لیا، پھر اس کے چہرے کی کرختگی نرمی میں بدل گئی۔ آنٹی ! یہ ہے آپ کا فلیٹ … وہ فخریہ انداز سے بولا۔ وہ ایک صوفے پر بیٹھ گئی اور کشن گود میں رکھ کے اس پر ہاتھ پھیر نے لگی۔ وکیل بھی ایک کرسی میں دھنس گیا اور جیب سے سگار نکال کر پینے لگا۔ بہت خوب صورت …. خواب ناک ماحول اور خوش نما فلیٹ ہے۔ آنٹی نے طفلانہ انداز میں سراہتے ہوئے کہا۔ شیام !میرا خیال تھا کہ تم اپنی آنٹی کو بھول چکے ہو ، لیکن خوش قسمتی سے میرا خیال غلط ثابت ہوا۔ اس نے شیام کی طرف انگلی اٹھائی۔ لیکن تمہیں اس کی آرائش و زیبائش پر اتنی رقم خرچ نہیں کرنی چاہیے تھی۔ آنٹی ! میں کچھ سمجھا نہیں؟ شیام نے بھولپن سے دیکھا۔ یہ مت سمجھو کہ میں تم سے دور رہ کے تمہارے حالات سے بے خبر تھی۔ مجھے ایک ایک بات کا علم رہتا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ اس فلیٹ کی آرائش پر تم نے اپنی جمع شدہ پونجی خرچ کر ڈالی ہے۔ واقعی تم اپنی بوڑھی آنٹی کا بہت خیال کرتے ہو۔ ذرہ نوازی ہے آنٹی ! شیام نے انکساری سے کہا۔ اور کیوں نہ کرتا ! کیا آپ میری آنٹی نہیں ہیں ؟تمہاری آنٹی بھی تو تمہارا کتنا خیال رکھتی ہیں۔ وکیل پانڈے نے مسکراہتے ہوئے پر میلا کی طرف دیکھا۔ کیوں ٹھیک ہے نامیڈم پر میلا ! یقیناً ! اس نے اپنا سر تپائی پر رکھ دیا، پھر وکیل کی طرف دیکھ کر شیام سے کہا۔ میں یہاں آنے سے پہلے ان کے دفتر گئی تھی۔ وہاں ہم تمہارے مستقبل کے بارے میں بہت دیر باتیں کرتے رہے اور ہم نے ایک شان دار منصوبہ بنا لیا۔ ہیں سمجھتی ہوں کہ اب اس منصوبے پر عمل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ سب سے پہلے تمہارا تعلیمی سلسلہ ہے، جو تم نے کسی وجہ سے مکمل نہیں کیا، لیکن اب بھی وقت ہے کہ مکمل کر لو۔ میرا خیال ہے کہ میں تمہیں کسی کیڈٹ کالج میں داخل کروا دوں۔ وہ اپنا منصوبہ بتارہی تھی اور شیام کا ذہن ایک لمحے کے لیے اپنے منصوبے کی طرف چلا گیا۔ وہ بولا۔ آنٹی ! یہ وقت ان باتوں کا ہے ؟ وہ دل ہیں خود سے مخاطب ہو کر بولا۔ میں نے بھی آپ کے لیے ایک منصوبہ بنایا ہوا ہے ، آپ کے مستقبل کا۔ کاش! ہیں آپ کو بتا سکتا، میرا منصوبہ یہ ہے کہ جتنا جلد ہو سکے آپ کی سمادھی بنا دی جائے – تو نے میرے چچا کے مرنے کے بعد خوب عیش کیے اور دولت دونوں ہاتھوں سے لٹاتی رہی اور اب نفسیاتی مریضہ بن چکی ہے ، لہٰذا اب تجھے اس سنسار سے رخصت ہو جانا چاہیے۔ میں تو نوجوان ہوں، میرے دل میں کتنے ارمان بھرے ہوئے ہیں۔ میں کسی حسین اور نوجوان دوشیزہ سے بیاہ کر کے دنیا کی سیر و سیاحت کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ دن کی بات ہے ، میں اس دولت کا مالک بن جائوں گا، جو میرے چچا کی ہے۔
ہاں شیام ! آنٹی کی آواز فضا میں ابھری تو اس کے خیالات بکھر گئے۔ وہ کہہ رہی تھیں۔ یہ وقت ان باتوں کا نہیں ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ تم کسی فوجی اسکول سے میٹرک کر لو تو تمہاری تعلیم مکمل ہو جائے گی۔ میں چاہتی ہوں کہ تم پونا کے کارخانے میں کام کرو۔ اس طرح تمہیں کارخانے کے ہر کام سے واقفیت ہو جائے گی۔ میڈم ! اب مجھے چلنا چاہیے۔ وکیل نے کہا۔ آپ کو میری ضرورت تو نہیں؟ مجھے دفتر میں بہت کام ہے میں آپ کی بہت شکر گزار ہوں۔ وکیل نے پر میلا سے رسمی انداز میں ہاتھ ملایا اور باہر نکل گیا تو وہ اسے اپنے منصوبے کی تفصیلات بتانے لگی۔ اس نے پورا ایک سال اس پر صرف کیا تھا۔ وہ پر جوش انداز میں اپنی معلومات کا خزانہ لٹارہی تھی اور شیام کے کان لفٹ کی آواز پر لگے ہوئے تھے۔ جو نہی اس نے لفٹ کا دروازہ بند ہونے کی آواز سنی، اپنی جیب سے چاقو نکال کر پر میلا کو دکھایا۔ وہ یکدم خاموش ہو گئی۔ شیام ! یہ کیا ہے ؟ اس کی آواز میں ارتعاش تھا کیونکہ شیام کے چہرے پر ایک خوف ناک مسکراہٹ چپکی ہوئی تھی۔یہ چاقو ہے آنٹی۔ تم اس کا کیا کرو گے ؟ اسے تم نے کس لیے جیب میں رکھا ہوا ہے ؟ شیام نے بٹن دبایا تو چا تو کھل گیا۔ اس کی کڑ کڑاہٹ نے پرمیلا کے بدن میں دہشت کی لہر دوڑا دی۔ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور چہرہ بے لہو ہو گیا۔ وہ سہم کر صوفے کے کونے میں سمٹ گئی۔ اب صحیح معنوں میں آپ کو خوش آمدید کہوں گا آنٹی … ! شیام نے ڈرامائی انداز سے ہاتھ گھما کے چا قو صوفے کی پشت میں سفاکی سے گھونپ دیا۔ پر میلا دہشت زدہ ہو کر اچھل کر کھڑی ہو گئی۔ اس کے خشک ہونٹ ہل رہے تھے، لیکن آواز نہیں نکل رہی تھی۔ آنٹی ! یہ ہیں میرے جذبات ، آپ کے فلیٹ کے متعلق یہ کہہ کر اس نے کشن میں چا قو مار کر اسے چیر دیا۔ یہ ہے آپ کے فوجی اسکول کے متعلق میری رائے … اس نے آرام دہ کرسی کی سیٹ میں چاقو کی نوک سے بندر بنا دیا۔ شیام شیام ہوش میں آئو۔ کیا تم پاگل ہو گئے ہو ؟ آنٹی ! آپ کو دیکھ کے مجھے کتنی خوشی ہوئی ہے ، اسے بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ یہ ہے اس کا ثبوت- اس نے پوری قوت سے تپائی پر لات ماری۔ وہ لڑھکتی ہوئی قد آدم لیمپ سے جا ٹکرائی۔ ہیں مجھے خوش آمدید کہتا ہوں، بوڑھی چڑیل ! پھر اس نے اچھل کر دیوار کے ساتھ لٹکی ہوئی تصویر پر گھونسا مارا تو وہ فورا ہی پھٹ گئی۔ اس نے گل دان قالین پر پھینک دیا اور ٹیبل لیمپ زمین پر اچھال دیا۔ پر میلا دہشت زدہ سی اسے دیکھے جارہی تھی اور لرزتی ٹانگوں سے الٹے قدموں آہستہ آہستہ دروازے کی طرف کھسک رہی تھی۔ شیام ! ہوش میں آئو ، کیا تم پاگل ہو…! یہ کر کیا رہے ہو ؟ کھلا چا قو اس کے ہاتھ میں تھا، جس کی نوک پرمیلا کی طرف تھی۔ وہ خوف ناک انداز میں مسکراتے ہوئے بولا۔ مجھے آپ سے بے انتہا محبت ہے آنٹی ! میں آپ کا دل مرتبان میں بند کر کے شوکیس میں رکھ دوں گا، تا کہ آپ ہمیشہ میری نظروں کے سامنے رہیں۔ یکدم پرمیلا گلا پھاڑ پھاڑ کے وکیل کو پکارنے لگی، پھر فلیٹ کا دروازہ کھول کر لفٹ کے پاس گئی اور بجلی کی سی عجلت سے بار بار لفٹ کا بٹن دبانے لگی۔ وہ دہشت سے بار بار مڑ کے دیکھ رہی تھی۔ اب شیام بڑے پر سکون انداز سے دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ لفٹ چند لمحوں میں لفٹ اوپر آ گئی۔ پرمیلا فور اس میں گھس گئی اور لفٹ نیچے کی طرف روانہ ہو گئی۔ شیام واپس اندر گیا۔ میز پر پرمیلا کا پرس رکھا تھا، اس نے پرس اٹھا کر باہر کا دروازہ بند کیا اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر کی منزل پر آ گیا، جہاں فلیٹ کے دروازے پر بارہ “ کا لفظ سونے کی طرح چمک رہا تھا۔ اس نے قفل کھولا اور احتیاط سے پرس اس ٹیبل پر رکھ دیا۔ اس کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ ابھر آئی تھی، پھر اس نے ایک میگزین اٹھایا اور کرسی پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں ایک دھما کے سے دروازہ کھلا اور پرمیلا آندھی کی طرح وکیل کے ساتھ اندر آئی۔ اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے اور بدن غصے سے کانپ رہا تھا۔
یہ … یہ بیٹھا ہے۔ اس نے ہذیانی انداز میں چیختے ہوئے کہا۔ شیام فوراً کھڑا ہو گیا۔ اس نے رسالہ تپائی پر رکھ دیا اور حیران نظروں سے دونوں کی طرف باری باری دیکھا۔ اس نے اپنے بال سنوار کر حلیہ بھی درست کر لیا تھا اور پہلے جیسا سیدھا سادہ اور معصوم نظر آرہا تھا، بے حد فرماں بردار ، اپنی آنٹی سے بے پناہ محبت کرنے والا۔ پر میلا نے نفرت بھرے لہجے میں شیام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وکیل سے کہا۔ اس کا دماغی توازن بگڑ گیا ہے۔ پانڈے نے تحیر زدہ نظروں سے شیام کو دیکھا پھر کمرے میں نظریں دوڑائیں۔ ہر چیز اپنی جگہ سلیقے و ترتیب سے رکھی تھی۔ اس کی نظریں دیوار گیر تصویر کی طرف اٹھ گئیں اور وہاں سے گل دان کو دیکھنے لگیں۔ اس کے بعد اس نے پر میلا کو دیکھا، جو منہ کھولے، پھٹی پھٹی نظروں سے نشست گاہ کی ایک ایک چیز کو دیکھ رہی تھی۔ یہ نا ممکن ہے ، ایسا نہیں ہو سکتا ۔ میں نے بھیانک خواب نہیں دیکھا ہے۔ اس کے حلق سے پھنسی پھنسی آواز نکلی۔ یہ کیسے ممکن ہے ؟ مجھے کیا ہو گیا ہے ؟ یہ سب کیا ہے پرمیلا شریمتی جی ! وکیل نے خشک اور پاٹ دار لہجے میں سرزنش کی۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ یقین کیجئے ، میں جھوٹ نہیں بول رہی۔ شیام نے چاقو سے مجھ پر حملہ کیا تھا۔ اس نے صوفہ پھاڑ دیا تھا اور تصویر … اور تپائی بھی الٹ دی تھی۔ وکیل نے پر میلا کے پاس جا کر اس کا شانہ تھپتھپایا۔ آنٹی ! میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے کہ یہ سب کیا ہے ؟ شیام نے بے بسی سے کہا۔ آنٹی اچانک دوڑتی ہوئی یہاں سے چلی گئیں اور اب نہ جانے کیا کہہ رہی ہیں- وہ پر میلا کی طرف بڑھا تو وہ بری طرح چلائی۔ اسے میرے قریب مت آنے دینا۔ یہ مجھے قتل کرنا چاہتا ہے۔ آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے ۔ شیام آپ سے بے پناہ محبت کرتا ہے ، اسے دکھ ہو گا۔ وکیل نے شیام کو معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ شیام نے اس کی نظروں کا مطلب سمجھ کر زور سے سر ہلایا۔ آپ دیکھ سکتی ہیں پر میلا جی ! سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ ہر چیز اپنی جگہ درست حالت میں موجود ہے۔ شیام کا دل مسرت سے اچھل رہا تھا۔ وکیل کی نظروں نے اسے اپنی کامیابی کا یقین دلایا۔ وکیل نادانستہ طور پر اس سازش میں شریک ہو گیا تھا۔ میر اخیال ہے پرمیلا جی ! وکیل نے کہا۔ آپ کو مکمل آرام کی ضرورت ہے۔ اب آپ خواب گاہ میں جاکر لیٹ جائیں۔ کل ہم سکون اور اطمینان سے اس موضوع پر گفتگو کریں گے۔پلیز پلیز ! پرمیلا سسکیاں لینے لگی۔ شیام نے اس سے پہلے کبھی اس کو روتے نہیں دیکھا تھا۔ پتا نہیں مجھے کیا ہو گیا ہے ؟ سب ٹھیک ہو جائے گا، آپ پروانہ کیجئے۔ شیام ! تمہاری آنٹی کی خواب گاہ کون سی ہے ؟ اس طرف سر ! شیام نے سامنے والے کمرے کے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔ وکیل سسکیاں لیتی ہوئی پر میلا کو سہارا دے کر خواب گاہ میں لے گیا۔ شیام نے کھڑکیوں کے پر دے کھینچ دیے اور وہ خواب گاہ کا دروازہ بند کر کے نشست گاہ میں جا کر بیٹھ گئے۔ شیام نے وکیل کی طرف دیکھا اور تاسف کے انداز میں بڑ بڑایا، پھر گہری سانس لے کر بولا۔ اتنی جلدی بیماری کا حملہ … مجھے توقع نہیں تھی۔ اتنی جلدی بیماری کا حملہ- میرا خیال ہے کہ اسپتال والوں سے کوئی غلطی ہو گئی۔ میں انہیں فون پر صورت حال سے آگاہ کروں گا۔ کل تک ڈاکٹر معائنہ کرنے پہنچ جائے گا۔ کل تک ہمیں کوئی انتظام کرنا پڑے گا۔ میں سمجھ رہا ہوں سر ! شیام نے گھمبیر انداز میں سر ہلایا اور اپنے دفتر چلا گیا۔
شیام کا دل چاہ رہا تھا کہ خوشی سے ناچنا شروع کر دے۔ کچھ دیر بعد فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے لیک کر ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف مہندر تھا۔ کیسا رہا شیام ! سب ٹھیک ہے نا …؟ہاں، سب ٹھیک ہے۔ کاش ، تم یہاں ہوتے اور اپنی آنکھوں سے وہ منظر دیکھتے ۔ آنٹی کی حالت قابل دید تھی۔ وکیل کے مکالمے سے بھی معلوم ہو رہا تھا کہ وہ ان کی ذہنی حالت کو سمجھ رہا ہے۔ نیچے کیا حالت ہے ؟ایسا معلوم ہو رہا ہے ، جیسے یہاں کوئی پاگل آئے تھے۔ کوئی چیز سلامت نہیں ہے۔وہ تو ٹھیک ہے ، لیکن تم بار بار کریڈل کیوں دبار ہے ہو ؟“ میں… میں تو نہیں دبا رہا. وہ اک دم خاموش ہو گیا، کیونکہ اس نے بھی کلک کی آواز سن لی تھی۔ شیام کو یاد آیا کہ ایک ٹیلی فون، خواب گاہ ہیں بھی موجود ہے اور اس کا رابطہ اس فیملی فون سے بھی ہے۔ اس کا چہرہ فق ہو گیا۔ مہندر تم ریسیور رکھ دو، میں دو منٹ بعد تمہیں فون کروں گا۔ اس نے خواب گاہ کا دروازہ کھولا۔ پر میلاریسیور تھامے بستر پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں خوف سے پھیلی ہوئی تھیں۔ آنٹی ! شیام نے زخمی آواز میں کہا۔ ” آپ ہماری گفتگو سن رہی تھیں ؟ دفع ہو جائو یہاں سے .. اور آئندہ مجھے اپنی منحوس صورت بھول کر بھی نہیں دکھانا۔پر میلا نے چیخ کر کہا۔ شیام کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اس نے سفاک لہجے میں کہا۔ آپ نے بہت برا کیا آنٹی ! اتنا برا کہ حد سے زیادہ برا… اس نے کرسی سے کشن اٹھایا اور آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھنے لگا۔ وہ غصے سے پاگل ہو رہا تھا۔ کشن اسے نادر ہتھیار معلوم ہوا تھا۔ پر میلا کا ہوا تھا۔ پر میلا کی نگاہیں دہشت سے اور زیادہ پھیل گئیں۔ وہ بستر پر پیچھے ہو کر دیوار سے چپک گئی۔میرے قریب مت آنا شیام ! مجھے تنہا چھوڑ دو۔ آپ نے بہت برا کیا آنٹی ! آپ نے ہماری باتیں کیوں سنیں ؟ آپ کواس کی کیا ضرورت تھی ؟ نہیں شیام ، نہیں۔ اس نے ایک دل خراش چیخ ماری۔ سانس لینے کے لیے اس کا منہ کھل گیا۔ اس کے پھیپھپڑے تازہ ہوا کے لیے بے چین تھے۔ میرے قریب مت آنا۔ شیام نے کشن اس کے منہ پر رکھا اور دباؤ ڈالنے لگا۔ اس کی آنکھیں حلقوں سے باہر ابلنے لگیں اور چہرہ نیلا پڑ گیا۔ اس کے حلق سے عجیب فہم آواز نکلی ، تب شیام نے ہاتھ روک لیے اور اس کے اور ناقابل چہرے کی کیفیت دیکھنے لگا۔ وہ چند لمحوں تک سانس لینے کی کوشش کرتی رہی، پھر اس کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔ اس کی آنکھیں اب بھی کھلی ہوئی تھیں، لیکن ان میں زندگی کی رمق نہیں تھی۔ خواب گاہ کی فضا میں موت کا سکوت طاری تھا۔
☆☆☆
پر میلا کی آخری رسومات کے دو ہفتے بعد شیام ، مہندر کے ساتھ وکیل کے دفتر پہنچا تو وکیل گھمبیر لہجے میں بولا۔ شیام ! میں نے تمہیں ، تمہاری آنٹی کی آخری وصیت کے سلسلے میں یہاں بلانے کی زحمت دی ہے۔ شیام بے چینی سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ وکیل کہہ رہا تھا۔ میں تمہیں ان کی وصیت پڑھ کر سنادوں۔ تمہیں اندراحات کا پہلے سے علم تو ہو گا ؟ مجھے صرف تفصیلات سے دل چسپی ہے۔ شیام نے جواب دیا۔تفصیلات ؟ وکیل حیران رہ گیا۔ جی ہاں، میرا اشارہ آنٹی کی دولت اور جائیداد کی طرف ہے۔ میں اب ان کی ہر چیز کا مالک ہوں، اس لیے جاننا چاہتا ہوں کہ میری دولت اور جائیداد کی تفصیل کیا ہے ؟ وکیل نے گہری سانس لی۔ مجھے اندیشہ تھا کہ تم ضرورت سے غلط فہمی کا شکار ہو۔ مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ تمہیں میڈم پرمیلا کی دولت و جائیداد میں سے ایک کوڑی بھی نہیں مل سکتی۔ شیام نے بے یقینی سے وکیل کو دیکھا۔ تمہیں یاد ہے کہ تمہاری آنٹی اسپتال سے واپسی پر پہلے میرے دفتر آئی تھیں۔ انہوں نے مجھے فوراً ایک نیا وصیت نامہ تیار کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کی رو سے تم ان کی ساری دولت اور کاروبار کے مالک تھے۔ میں نے وصیت نامہ تیار کر کے گواہوں کے دستخط بھی لے لیے تھے۔ پھر اب کیا ہوا؟ انہوں نے ایک وصیت نامہ تمہارے والدین کی وفات سے پہلے بھی تیار کروایا تھا۔ اس کی رو سے ان کی تمام دولت و جائیداد ، خیراتی ورفاہی اداروں میں تقسیم ہوئی تھی۔ لیکن پر اناوصیت نامہ تو نئے وصیت نامہ کے بعد خود بخود منسوخ ہو گیا۔ اس کی حیثیت کاغذ کے ایک پرزے سے زیادہ نہیں ہے۔ تم ٹھیک کہہ رہے ہو شیام ! لیکن موجودہ حالت میں پرانا وصیت نامہ منسوخ نہیں ہوا۔ قانونی طور پر قطعی درست ہے اور اس پر عمل کیا جائے گا۔ کیا مطلب …؟ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟ نیا وصیت نامہ تیار کرواتے وقت تمہاری آنٹی کا دماغی توازن درست نہیں تھا، کیونکہ اس کے چند دن بعد ہی فلیٹ والا واقعہ پیش آیا، یعنی انہوں نے خیالی طور پر تمہیں چاقو سے حملہ کرتے دیکھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسپتال کے ماہرین سے غلطی ہو گئی۔ اصل میں تمہاری آنٹی کا دماغی توازن درست نہیں تھا۔ اس حالت میں یہ وصیت ، قانون کی نظر میں صفر معلوم ہوتی ہے۔ اب ان کا پرانا وصیت نامہ ہی درست تسلیم کیا جائے گا اور اتنی بڑی جائیداد و کار و بار کی فروخت کی رقم خیراتی اور رفاہی اداروں میں تقسیم کرنے کی ذمے داری مجھ پر آ گئی ہے۔ میں نے تمہیں اس لیے بلایا ہے کہ تم سے یہ معلوم کیا جائے کہ مرحومہ کون سے خیراتی ادارے کو زیادہ پسند کرتی تھیں ؟ شیام سن ہوتے دماغ سے سب سن رہا تھا۔ اس کی ساری پلاننگ فیل ہو گئی تھی۔ اس نے اپنی آنٹی کا اور آنٹی کی وصیت نے اس کا خون کر دیا تھا۔
پرمیلا نے اس کے اور پانڈے کی موجودگی میں بھی یہ بات کہی تھی۔ اگر پانڈے اس کی ہدایت کو نظرانداز کر دیتا تو شیام اسے تنبیہ کرتا کہ وہ اس کی شکایت آنٹی سے کر دے گا۔ چونکہ پرمیلا ذہنی مریضہ تھی، اس لیے ایسی شکایت سن کر وہ برہم ہو جاتی اور اس کی حالت بگڑ جاتی، اس لیے پانڈے اس کا خیال رکھنے پر مجبور تھا۔ اسے شیام کی ہر بات ماننا پڑتی۔ وہ دیکھتا کہ شیام چچی کی دولت سے ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے اور بڑی فراخدلی سے خرچ بھی کرتا تھا، لیکن جب تک پرمیلا گھر میں تھی اور ابھی اسپتال میں داخل نہیں ہوئی تھی، اسے صرف اتنا جیب خرچ دیتی تھی کہ ایک اسکول کے لڑکے کے اخراجات بھی پورے نہیں ہو پاتے تھے۔ وہ مجبوراً کوئی چھ برس تک اس رقم پر اکتفا کرتا رہا۔ کہنے کو تو وہ ایک ارب پتی شخص کا اکلوتا بھتیجا تھا، لیکن اس کا حال نوکروں سے بھی بدتر تھا۔ آنٹی کا اسپتال میں داخل ہونا اس کے لیے نیک شگون تھا، اس نے اس ایک برس میں کون سے مزے اور عیش نہیں کیے تھے۔ اگر باپ کی دولت ہوتی تو شاید وہ دونوں ہاتھوں سے نہ لٹاتا۔ مہندر کپور اس کا مخلص اور بااعتماد دوست تھا۔ جب سے اس کی آنٹی اسپتال میں علاج کے لیے داخل ہوئی تھی، اس نے ان کی دولت خوب لٹائی تھی۔ وہ شیام کے ساتھ ہی رہتا تھا اور کبھی کبھی اپنی دیدی کے ہاں چلا جاتا تھا۔ بہر حال، آنٹی کی صحت یابی کے ساتھ واپسی کی خبر نے مہندر کپور کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اسے جیسے برقی جھٹکا لگا تھا۔ ہاں دوست! شیام نے ایک دکھ بھری سانس لیا۔ اب ہمارے برے دن آ گئے۔ جس دن اس نے گھر میں قدم رکھا، وہ ہمارے لیے انتہائی منحوس دن ہو گا۔ کاش! وہ دو ایک سال اور زیر علاج رہتی اور اس دوران مر جاتی تو کتنا اچھا ہوتا…
مہندر کپور نے شیام کی طرف حیرت بھری نظروں سے دیکھا اور پھر دکھ بھرے لہجے میں بولا، مجھے تو اب فاقے کرنے پڑیں گے۔ کوئی ملازمت ڈھونڈنی پڑے گی، لیکن اس قدر بیروزگاری ہے کہ ملازمت کا ملنا ناممکن سا ہے۔ ہاں درست. شیام نے سر ہلایا اور کرب ناک لہجے میں کہنے لگا، تمہیں تو ہر بات کا علم ہے۔ آنٹی مجھے ہر ماہ ذاتی خرچ کے لیے صرف پانچ ہزار روپے دیتی تھی۔ ان پیسوں میں بھلا کیا ہوتا تھا، جبکہ اس کے کاروبار اور جائیداد کے کرایے کی مد میں ہر ماہ لاکھوں روپے آتے ہیں۔ کارخانوں کی آمدنی الگ ہے۔ اس کا ایک سوتی کپڑے کا کارخانہ پونا شہر میں اور دوسرا احمد آباد میں ہے۔ ایک کارخانے میں کھانے پینے کی اشیاء ڈبوں میں مہربند کر کے بیرون ملک ایکسپورٹ کی جاتی ہیں۔ آنٹی نے مجھ سے متعدد بار کہا کہ میں اس کارخانے میں بطور ایک محنت کش اپنی زندگی کا آغاز کروں، کیونکہ میرا چچا بھی عام مزدور تھا، پھر اس نے محنت کر کے دو ارب کمائے۔ مگر وہ کارخانہ شہر سے تین میل دور ایک ویران اور سنسان علاقے میں ہے۔ وہاں کسی قسم کی کوئی تفریح نہیں ہے۔ وہاں صرف مرد کام کرتے ہیں، اگر لڑکیاں بھی ہوتیں تو میںضرور وہاں چلا جاتا۔ میری جان! تم اتنی جلدی گھبرا گئے؟ کیوں پریشان ہو رہے ہو؟ مہندر کپور نے اسے دلاسا دیا۔ فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وکیل پانڈے بہت چالاک ہے۔ کیا معلوم اس نے کسی ایسی عورت سے فون کرایا ہو، جو آواز کی نقل اتارنے میں ماہر ہو، اور اس آواز سے تم دھوکا کھا گئے۔ تمہاری آنٹی نفسیاتی مریضہ ہے اور میں نے سنا ہے کہ نفسیاتی مریض برسوں بیمار رہتے ہیں، اتنی آسانی سے صحت یاب نہیں ہوتے۔ میں آنٹی کی آواز اچھی طرح پہچانتا ہوں۔ مجھے کوئی دھوکا دے سکتا ہے اور نہ بے وقوف بنا سکتا ہے۔ کیا اس بات کا امکان نہیں کہ ڈاکٹر دھوکا کھا گئے ہوں اور ان کی تشخیص غلط ہو؟ اس بات کا دور دور تک امکان نہیں۔ شیام نے افسردگی سے کہا۔ وہ دو ڈاکٹروں کے پینل کی نگرانی میں ہیں۔ چار دن کی چاندنی باقی ہے، اس دوران مجھے اپنی آنٹی کے لیے ایک خوبصورت اور آرام دہ لگژری فلیٹ تلاش کرنا ہے۔ میں ان کے ساتھ اس فلیٹ میں رہوں گا۔ مسوری کالونی والا بنگلہ تو ہم نے فروخت کر دیا۔ اب میں اور آنٹی فلیٹ میں رہنا چاہتے ہیں۔ تو گویا میں اب تمہارے ساتھ نہیں رہ سکوں گا! مہندر کپور نے مایوسی سے کہا۔ ہاں دوست… مجبوری ہے، شیام نے غم زدہ لہجے میں جواب دیا۔ آنٹی کے وکیل کا کہنا ہے کہ ساحلی علاقے میں فلیٹ تلاش کیا جائے۔ کیا تم میرے ساتھ چلو گے؟
ساحل کے قریب ایک ایئر کنڈیشنڈ، پرسکون اور سات منزلہ عمارت تھی۔ اس کے تمام فلیٹ نہایت آراستہ تھے۔ ان کی دیواروں تک کو ایسے قالینوں سے سجایا گیا تھا، جس نے ان کی شان و شوکت بڑھا دی تھی۔ اس پر شاہی محل کا گمان ہوتا تھا۔ ان خوبیوں کے باوجود وہ عمارت اس لیے خالی پڑی تھی کہ اس کا ماہانہ کرایہ لاکھوں میں تھا۔ ہر فلیٹ میں کشادہ اور لمبی چوڑی بالکنی تھی، جس میں سے میلوں تک پھیلے ساحل کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔ شیام اور مہندر کپور منیجر کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے۔ گنجے سر کے منیجر نے انہیں مشکوک نظروں سے اوپر سے نیچے تک دیکھا، لیکن کوئی ہتک آمیز فقرہ نہیں کیا۔ شاید وہ ان گاہکوں کے متعلق پہلے سے کوئی رائے قائم کر کے مایوسی کا شکار ہو چکا تھا۔ شیام نے اسے اپنی ضرورت سے آگاہ کیا، مگر منیجر کے ہونٹوں پر رسمی سی مسکراہٹ بھی نہیں آئی۔ اس نے کاروباری لہجے میں کہا، ہمارے پاس ایسے فلیٹ موجود ہیں، جو آپ کی توقعات پر پورے اتریں گے۔ پھر اس نے اپنے معاون کو بلایا، اچاریہ مکر جی! یہ مسٹر شیام اور ان کے دوست مہندر کپور ہیں، انہیں بارہ نمبر فلیٹ دکھا دو۔ اچاریا سامنے کی میز پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ نہ صرف اپنے نام بلکہ چہرے، مہرے اور وضع قطع سے بنگالی دکھائی دیتا تھا۔ وہ ان کی آمد سے خوش نہیں تھا۔ وہ بڑی بے دلی، بے زاری اور سرد مہری سے اٹھا اور لفٹ سے انہیں اوپر لے گیا۔ لفٹ سے نکل کر مہندر کپور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر فرش پر بچھے قیمتی سرخ قالین کو دیکھنے لگا۔ فلیٹ کے دروازے کی پیشانی پر سنہرے الفاظ میں “بارہ نمبر” لکھا ہوا تھا۔ اچاریہ نے بتایا کہ دراصل یہ تیرھویں منزل ہے، مگر بعض توہم پرست لوگ تیرہ کا ہندسہ منحوس سمجھتے ہیں، اس لیے اس منزل کا نمبر بھی بارہ رکھ دیا گیا ہے- اس نے جمائی لے کر فلیٹ کا کفل کھول دیا تو شیام اور مہندر کپور اندر داخل ہوئے۔ اندر رنگ و روغن کی بو رچی ہوئی تھی۔ دیواریں سفید تھیں، ایک دروازہ بالکنی میں کھلتا تھا، جہاں سے سمندر کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔ باہر ابتدائی دنوں کی چاندنی بھی بڑی خوبصورت دکھائی دے رہی تھی۔ شیام نے فلیٹ کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا، اس کا کرایہ کتنا ہے؟ساٹھ ہزار روپے ماہانہ، اچاریہ نے خشک لہجے میں جواب دیا۔ شیام نے الماری کا معائنہ کرتے ہوئے کہا، پتا نہیں، تیرہویں منزل کے بارے میں آنٹی کی سوچ کیا ہے؟ شاید وہ بھی اسے منحوس سمجھیں۔ اچاریہ نے چابیوں کا گچھا انگلیوں میں گھمایا۔ نیچے والی منزل میں بھی ایک ایسا ہی فلیٹ موجود ہے اور اتفاق سے وہ ابھی خالی ہے، کیا آپ اسے دیکھنا پسند کریں گے؟ کیوں نہیں!وہ سیڑھیوں کے ذریعے اس سے نچلی منزل پر آ گئے۔ یہاں بھی خالی فلیٹ کے دروازے پر سنہرے حروف میں “بارہ” کا ہندسہ درج تھا۔ اچاریہ نے دروازہ کھول دیا۔ اندر گھستے ہی شیام اور مہندر کپور کو ایک جھٹکا سا لگا۔ ان دونوں فلیٹوں میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں تھا۔ یہاں بھی رنگ و روغن کی بو بسی ہوئی تھی۔ کیا دونوں فلیٹوں کا کرایہ بھی ایک ہی ہے؟ مہندر کپور نے کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔ ہر چیز ایک ہے، جناب! تو کرایہ بھی ایک ہی ہے، اچاریہ نے بتایا۔ عجلت میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا، شیام نے جواب دیا۔ وہ کمر پر ہاتھ رکھے کمرے کے بیچوں بیچ کھڑا ہوا تھا۔ کیوں دوست! اگر ہم یہ دونوں فلیٹ کرایے پر لے لیں؟ میں اوپر رہوں اور تم نیچے، تو کتنا مزا آئے گا۔ کیوں… ٹھیک ہے نا؟ ٹھیک ہےمہندر نے سر ہلایا۔ لیکن میرے فلیٹ کا کرایہ کون دے گا؟ جناب… اچاریہ نے مداخلت کی، میں بہت مصروف ہوں۔ اگر آپ برا نہ مانیں تو میں چلا جاؤں؟ آپ اطمینان سے جائزہ لیں اور مشورہ کریں، اور فلیٹ لینے کا فیصلہ کر لیں تو نیچے تشریف لے آئیں۔ ضرور، ضرور… آپ شوق سے جائیں۔ ہمیں فیصلہ کرنے میں کچھ وقت لگے گا،” مہندر نے احمقانہ انداز سے مسکرا کر جواب دیا۔ اچاریہ باہر چلا گیا۔
شیام نے اپنی ہتھیلی پر دو مکے مارے، پھر بولا، مہندر یار! ذرا سوچو۔ ہم دونوں فلیٹ ایک جیسے بنا دیں گے۔ قالین، ڈیزائن، ایک رنگ اور ایک سائز کے ہیں۔ ہم فرنیچر بھی بالکل ایک جیسا اور ایک ہی رنگ کا لیں گے۔ دیواروں پر آویزاں تصویریں بھی ایک جیسی، ہر چیز ایک دم یکساں ہو گی۔ لیکن ایسا کیوں؟ آخر ہم ایسا کس لیے کریں گے؟ مہندر نے حیرت بھری سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ لوگوں کو حیران، چونکانے کے لیے… یہ کیا بات ہوئی! میں سمجھا نہیں، مہندر ناتھ الجھ کر بولا۔ ذرا سوچو… ہم اپنے دوستوں کو یہاں بلائیں گے۔ پہلے وہ تمہارے فلیٹ میں آئیں گے اور بعد میں میرے… وہ سمجھیں گے کہ وہ تمہارے فلیٹ میں ہیں۔ انہیں یقین نہیں آئے گا کہ فلیٹ بدل گیا ہے۔ ذرا سوچو، انہیں حیران اور بھونچکا کرنے میں کتنا لطف آئے گا، شیام نے کہا۔ کیا ہماری دوست لڑکیاں چکرائے گی؟ ہاں، سمجھ گیا، سمجھ گیا… مہندر نے پرجوش انداز میں کہا۔ اس کے ہونٹ اور آنکھیں مسکرانے لگی تھیں۔ تم نے کیا زبردست خیال پیش کیا ہے۔ ہم انہیں اوپر سے نیچے، نیچے سے اوپر دوڑا دوڑا کر پاگل کر دیں گے۔ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا۔ وہ چکرا جائیں گے کہ ہم بارہویں منزل پر ہیں یا تیر ہویں منزل پر … دونوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارا، پھر زور زور سے قہقہے لگانے لگے۔ شیام نے اس کا ہاتھ دبایا اور پھر اچانک خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا۔ پاگل .. وہ زیر لب بڑ بڑایا۔ ہاں، اس طرح کسی کو بھی پاگل بنایا جا سکتا ہے۔ یہ کھیل تو ہر کسی کو پاگل کر دے گا۔ کیا کہا تم نے …؟ مہندر ٹھیک سے سن نہ سکا۔ میر ا مطلب ہے کہ ہم ایک فلیٹوں کے ذریعے کسی کو بھی سچ مچ پاگل کر سکتے ہیں۔ ہر شخص یہی سمجھے گا کہ وہ بارہویں منزل کے فلیٹ میں موجود ہے، جبکہ وہ تیرہویں منزل کے فلیٹ میں ہو گا۔ مہندر نے اس کے چہرے کو دیکھا تو اس کے تاثرات میں استعجاب سا آ گیا، پھر شیام نے پر خیال انداز میں کہا۔ میں کچھ اور سوچ رہا ہوں دوست ! بے حد سنجیدگی سے میرے ذہن میں ایک ترکیب جنم لے رہی ہے۔ پھر اس نے چونک کر مہندر کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا اور اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔ ہو گیا مسئلہ حل …. برے دن ، بھیک مانگنے سے پہلے ہی رخصت ہو گئے۔ اب ہمیں نحوست اور بے کاری کا سامنا کرنا نہیں پڑے گا۔ ونڈر فل دوست ! یہ تو بہت بڑی خوش خبری ہے۔ مہندر خوش ہو کر بولا تو اس کے لہجے میں سرشاری تھی۔ لیکن کیسے …؟ کیا اس اس کا تعلق اس فلیٹ سے ہے؟ میری سمجھ میں تو مہندر نے دیکھا کہ شیام کے چہرے پر ایک عجیب سی دمک اور آنکھوں میں وحشیانہ چمک کی سرخی ابھر آئی ہے۔ شیام اس کی بات تیزی سے کاٹ کر بولا تو اس کے آواز میں ارتعاش ساتھا۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ہو گیا، ہو گیا مسئلہ حل …. ہم دونوں یہ فلیٹ کرایے پر لے لیں گے۔ ان کی آرائش اور زیبائش میں ذرہ برابر فرق نہیں ہو گا، جیسے جڑواں بچوں میں ہوتا ہے کہ ان کی ماں بھی نہیں پہچان پاتی۔ دو لیکن کیوں ؟ کس لیے ؟ مہندر کے چہرے پر الجھن اور ناگواری کی ابھر آئی۔اس لیے کہ پر میلا آنٹی کو دوبارہ پاگل کرنا ہے ، تاکہ علاج کے لیے وہ پھر سے اسپتال میں داخل ہو جائے۔ شیام کا لہجہ معنی خیز ہو گیا۔
مہندر سر کھجانے لگا، پھر جیسے ہی وہ بات کی تہ تک پہنچا، اس طرح اچھلا، جیسے اسے کرنٹ لگا ہو۔ سمجھ گیا… سمجھ گیا میرے دوست ! تم انہیں پھر پاگل ثابت کر کے اسپتال بھیج دینا چاہتے ہو ؟ ویری گڈ شیام ! تم واقعی بلا کے ذہین آدمی ہو۔ اس کا مجھے اندازہ تھا۔ وہ کہنے گا۔ اس طرح تم کارخانے کی مشقت و محنت سے بچ جائو گے اور جب تک آنٹی اسپتال میں زیر علاج رہیں گی ، تم پر اخراجات کی کوئی پابندی بھی عائد نہیں ہو گی۔ گویا سر کڑاہی میں اور انگلیاں بھی جس طرح گھی میں تھیں، ویسے ہی رہیں گی۔ تم بہت بڑے مائنڈ مین ہو۔ یہی میں بھی چاہتا ہوں، مگر اس معاملے پر مزید غور کر نا پڑے گا۔ ممکن ہے ایک جیسے فلیٹوں کے ذریعے میں ہمیشہ کے لیے ان سے نجات حاصل کرلوں۔ ان کا وکیل پانڈے، مجھے یک مشت کوئی بڑی رقم نہیں دے گا، لیکن خیر کوئی بات نہیں۔ گزشتہ برس میری سال گرہ پر انہوں نے مجھے دس ہزار کی رقم دی تھی۔ ایک روز جب وہ تجوری ٹھیک سے بند کرنا بھول گئی تھیں ، تب میں نے ایک لاکھ روپے کی گڑی پار کر لی تھی۔ وہ ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے اور میں اس کی حفاظت کرتا آ رہا ہوں۔ کیا تمہاری آنٹی کو اتنی بڑی رقم غائب ہونے کا پتا نہیں چلا ؟ انہوں نے کوئی ہنگامہ کھڑا نہیں کیا؟ وہ وکیل سے گا ہے بگاہے چھوٹی موٹی رقمیں منگواتی رہتی تھیں، ضرورت مندوں ، اور رفاہی اداروں کی مالی مدد کے لیے اور پھر ان کا دماغی توازن بھی ٹھیک نہیں تھا۔ ان کی یادداشت بھی تو کم زور ہے۔ کیا تجوری کی چابیاں تمہارے پاس نہیں ہیں ؟ اگر وہ مل جائیں تو سمجھو کہ خزانہ مل گیا۔ کیا تم نے کبھی تلاش نہیں کی کیں تجوری کی چابیاں … وہ بڑی کھوسٹ ، بہت ہو شیار ہے۔ شیام نے جواب دیا۔ تجوری کوڈ نمبر سے کھولتی ہے۔ میرے اندازے کے مطابق تجوری میں کروڑوں کی رقم ہو گی۔ تم نے مجھے اعتماد میں نہیں لیا، ورنہ کسی نقب زن کی خدمات حاصل کر لی جائیں۔ مہندر بولا۔ یہ کیسے ممکن ہوتا . اس کے ساتھ خواب گاہ میں ایک جواں سال ملازمہ سوتی تھی۔ اسپتال میں ہونے کے باوجود اب بھی ملازمہ وہاں سوتی ہے اور اندر سے دروازہ مقفل کر لیتی ہے تا کہ کوئی اسے پریشان نہ کرے۔ ہاں، وہ جتنی حسین ہے ، اتنی ہی پر کشش ہے اور بلا کی طرار بھی۔مہندر بولا۔ ایک روز میں نے اسے دبوچا تو اس نے میرے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا اور کسی زہریلی ناگن کی طرح پھنکار کر بولی کہ میرا بھائی جوڈو کراٹے کا ماہر ہے ، وہ اب تک چار مردوں کی گردن اور ٹانگیں توڑ چکا ہے۔شیام قہقہہ مار کر بڑے زور سے ہنسا۔ اس نے غلط نہیں کہا۔ اس کا بھائی باڈی بلڈر ہے۔ اسے دیکھ کر بدن پر سنسنی دوڑ جاتی ہے۔
دونوں فلیٹ کرایے پر لینے کے بعد ہفتہ بھر اسی بھاگ دوڑ میں گزرا تھا۔ انہوں نے نشست گاہ اور خواب گاہوں کے لئے جدید ترین اور بے حد شان دار فرنیچر خریدا تھا، تا کہ ہر کسی کو ان کے ذوق کا اندازہ ہو سکے۔ سرخ رنگ کے دبیز اور خوب صورت ڈیزائن کے ایرانی قالین، آئینے اور تصویریں،گل دان، الماریاں اور شوکیس، غرض ضرورت کا ہر سامان، کسی بات کی کمی اور کسر نہیں چھوڑی تھی۔ جو چیز بھی خریدی، جڑواں خریدی تھی۔ خریداری تو آسان تھی، لیکن بڑا مسئلہ انہیں سلیقے اور ترتیب سے مخصوص جگہ بت رکھنا تھا۔ انہوں نے ہر چیز کو رکھنے کے لیے نقشے بنائے تاکہ دونوں کمروں کی آرائش میں ذرا بھی فرق نہ آئے۔ بار بار ان کا ناقدانہ انداز سے جائزہ لیا کہ کوئی چیز دوسرے فلیٹ سے مختلف جگہ پر تو نہیں رکھ دی گئی۔ وہ رات گئے بڑی جانفشانی سے کام کرتے تھے۔ ان کی محنت بار آور ہوئی۔ دونوں فلیٹوں کی ہر چیز ایک ہی مقام پر تھی۔ تمام تیاریوں سے مطمئن اور خوش ہو کر ایک رات کا پیشگی اس کا جشن منایا اور ایک دوسرے سے امتحان لیا۔ دونوں پہلے ایک فلیٹ میں گئے۔ ان میں ایک اپنی آنکھیں بند کر لیتا اور دوسر الفٹ کا بٹن دباتا۔ جب لفٹ تیر ہویں فلور پر رکتی تو ایک ، دوسرے دوست کو سہارا دیتا اور فلیٹ میں لے جاتا اور اس کی آنکھیں کھلوا کے پوچھتا کہ وہ کس فلیٹ میں موجود ہے ؟ ان کے اندازے غلط ہو جاتے تو انہیں بے حد مسرت ہوتی –
خوش خبری … دوروز بعد شیام نے فلیٹ میں داخل ہو کے اونچی آواز میں کہا۔ کل پرمیلا آنٹی تشریف لا رہی ہیں۔ انہیں کل اسپتال سے فارغ کر دیا جائے گا۔ ان کی صحت اور جسمانی کشش قابل رشک ہو گئی ہے اور وہ کسی دوشیزہ کی طرح لگ رہی ہیں۔ کہیں تم ان پر ریشہ خطی نہ ہو جانا۔ خود کو قابو میں رکھنا، ورنہ سارا کھیل بگڑ جائے گا۔ توقع ہے کہ ان کا وکیل انہیں کل لے کر آئے گا۔ تمہیں اس نادر منصوبے میں اپنا کردار یاد ہے نا ! خوب یاد ہے ، لیکن میرے خیال میں ایک دفعہ یہ کردار دوہرانے میں کوئی حرج نہیں۔ شیام قالین پر ٹہلنے لگا، پھر اس نے چند لمحوں کے بعد رک کر کہا۔ میرے دوست ! آنٹی اپنے وکیل، نگراں اور محافظ مسٹر پانڈے کے ساتھ عمارت میں داخل ہوں گی، میں ان کا والہانہ اور پر جوش انداز سے سواگت کروں گا، پھر انہیں بتائوں گا کہ اس عمارت کی تیرہویں منزل کو بھی بارہویں منزل بنادیا گیا ہے۔ اس طرح ان کے ذہن میں یہ نکتہ محفوظ ہو جائے گا۔ شیام نے توقف کر کے گہر اسانس لیا، پھر اپنی بات جاری رکھی۔ میں اسے لفٹ میں لے جا کر بارہویں منزل کا بٹن دبائوں گا۔ ان کا وکیل اور میں بارہویں منزل سے اتریں گے تو انہیں احساس نہیں ہو گا کہ وہ غلط منزل پر اتر گئے ہیں، پھر ہم فلیٹ میں داخل ہو جائیں گے۔ وہاں میں اور پانڈے کچھ دیر آنٹی کی چاپلوسی کریں گے اور وہاں سے رخصت ہو جائیں گے۔ بارہویں منزل کے فلیٹ کا دروازہ کھلا۔ شیام ، آنٹی پر میلا اور وکیل باہر آئے۔ شیام آگے آگے چل رہا تھا۔ فلیٹ کے دروازے کی پیشانی پر لفظ چاند کی طرح چمک رہے تھے۔ یہ بات قریب ہونے اور غور سے دیکھنے پر ظاہر ہوتی تھی کہ اسے ٹیپ سے چیکایا گیا ہے۔ پر میلا اور اس کے وکیل نے اس پر دھیان دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ شیام نے ڈرامائی انداز سے دروازہ کھولا اور ایک قدم پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا، تاکہ اندر جانے کا راستہ دے سکے۔ آنٹی اندر داخل ہوئی اور ناقدانہ انداز سے فلیٹ کا جائزہ لیا، پھر اس کے چہرے کی کرختگی نرمی میں بدل گئی۔ آنٹی ! یہ ہے آپ کا فلیٹ … وہ فخریہ انداز سے بولا۔ وہ ایک صوفے پر بیٹھ گئی اور کشن گود میں رکھ کے اس پر ہاتھ پھیر نے لگی۔ وکیل بھی ایک کرسی میں دھنس گیا اور جیب سے سگار نکال کر پینے لگا۔ بہت خوب صورت …. خواب ناک ماحول اور خوش نما فلیٹ ہے۔ آنٹی نے طفلانہ انداز میں سراہتے ہوئے کہا۔ شیام !میرا خیال تھا کہ تم اپنی آنٹی کو بھول چکے ہو ، لیکن خوش قسمتی سے میرا خیال غلط ثابت ہوا۔ اس نے شیام کی طرف انگلی اٹھائی۔ لیکن تمہیں اس کی آرائش و زیبائش پر اتنی رقم خرچ نہیں کرنی چاہیے تھی۔ آنٹی ! میں کچھ سمجھا نہیں؟ شیام نے بھولپن سے دیکھا۔ یہ مت سمجھو کہ میں تم سے دور رہ کے تمہارے حالات سے بے خبر تھی۔ مجھے ایک ایک بات کا علم رہتا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ اس فلیٹ کی آرائش پر تم نے اپنی جمع شدہ پونجی خرچ کر ڈالی ہے۔ واقعی تم اپنی بوڑھی آنٹی کا بہت خیال کرتے ہو۔ ذرہ نوازی ہے آنٹی ! شیام نے انکساری سے کہا۔ اور کیوں نہ کرتا ! کیا آپ میری آنٹی نہیں ہیں ؟تمہاری آنٹی بھی تو تمہارا کتنا خیال رکھتی ہیں۔ وکیل پانڈے نے مسکراہتے ہوئے پر میلا کی طرف دیکھا۔ کیوں ٹھیک ہے نامیڈم پر میلا ! یقیناً ! اس نے اپنا سر تپائی پر رکھ دیا، پھر وکیل کی طرف دیکھ کر شیام سے کہا۔ میں یہاں آنے سے پہلے ان کے دفتر گئی تھی۔ وہاں ہم تمہارے مستقبل کے بارے میں بہت دیر باتیں کرتے رہے اور ہم نے ایک شان دار منصوبہ بنا لیا۔ ہیں سمجھتی ہوں کہ اب اس منصوبے پر عمل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ سب سے پہلے تمہارا تعلیمی سلسلہ ہے، جو تم نے کسی وجہ سے مکمل نہیں کیا، لیکن اب بھی وقت ہے کہ مکمل کر لو۔ میرا خیال ہے کہ میں تمہیں کسی کیڈٹ کالج میں داخل کروا دوں۔ وہ اپنا منصوبہ بتارہی تھی اور شیام کا ذہن ایک لمحے کے لیے اپنے منصوبے کی طرف چلا گیا۔ وہ بولا۔ آنٹی ! یہ وقت ان باتوں کا ہے ؟ وہ دل ہیں خود سے مخاطب ہو کر بولا۔ میں نے بھی آپ کے لیے ایک منصوبہ بنایا ہوا ہے ، آپ کے مستقبل کا۔ کاش! ہیں آپ کو بتا سکتا، میرا منصوبہ یہ ہے کہ جتنا جلد ہو سکے آپ کی سمادھی بنا دی جائے – تو نے میرے چچا کے مرنے کے بعد خوب عیش کیے اور دولت دونوں ہاتھوں سے لٹاتی رہی اور اب نفسیاتی مریضہ بن چکی ہے ، لہٰذا اب تجھے اس سنسار سے رخصت ہو جانا چاہیے۔ میں تو نوجوان ہوں، میرے دل میں کتنے ارمان بھرے ہوئے ہیں۔ میں کسی حسین اور نوجوان دوشیزہ سے بیاہ کر کے دنیا کی سیر و سیاحت کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ دن کی بات ہے ، میں اس دولت کا مالک بن جائوں گا، جو میرے چچا کی ہے۔
ہاں شیام ! آنٹی کی آواز فضا میں ابھری تو اس کے خیالات بکھر گئے۔ وہ کہہ رہی تھیں۔ یہ وقت ان باتوں کا نہیں ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ تم کسی فوجی اسکول سے میٹرک کر لو تو تمہاری تعلیم مکمل ہو جائے گی۔ میں چاہتی ہوں کہ تم پونا کے کارخانے میں کام کرو۔ اس طرح تمہیں کارخانے کے ہر کام سے واقفیت ہو جائے گی۔ میڈم ! اب مجھے چلنا چاہیے۔ وکیل نے کہا۔ آپ کو میری ضرورت تو نہیں؟ مجھے دفتر میں بہت کام ہے میں آپ کی بہت شکر گزار ہوں۔ وکیل نے پر میلا سے رسمی انداز میں ہاتھ ملایا اور باہر نکل گیا تو وہ اسے اپنے منصوبے کی تفصیلات بتانے لگی۔ اس نے پورا ایک سال اس پر صرف کیا تھا۔ وہ پر جوش انداز میں اپنی معلومات کا خزانہ لٹارہی تھی اور شیام کے کان لفٹ کی آواز پر لگے ہوئے تھے۔ جو نہی اس نے لفٹ کا دروازہ بند ہونے کی آواز سنی، اپنی جیب سے چاقو نکال کر پر میلا کو دکھایا۔ وہ یکدم خاموش ہو گئی۔ شیام ! یہ کیا ہے ؟ اس کی آواز میں ارتعاش تھا کیونکہ شیام کے چہرے پر ایک خوف ناک مسکراہٹ چپکی ہوئی تھی۔یہ چاقو ہے آنٹی۔ تم اس کا کیا کرو گے ؟ اسے تم نے کس لیے جیب میں رکھا ہوا ہے ؟ شیام نے بٹن دبایا تو چا تو کھل گیا۔ اس کی کڑ کڑاہٹ نے پرمیلا کے بدن میں دہشت کی لہر دوڑا دی۔ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور چہرہ بے لہو ہو گیا۔ وہ سہم کر صوفے کے کونے میں سمٹ گئی۔ اب صحیح معنوں میں آپ کو خوش آمدید کہوں گا آنٹی … ! شیام نے ڈرامائی انداز سے ہاتھ گھما کے چا قو صوفے کی پشت میں سفاکی سے گھونپ دیا۔ پر میلا دہشت زدہ ہو کر اچھل کر کھڑی ہو گئی۔ اس کے خشک ہونٹ ہل رہے تھے، لیکن آواز نہیں نکل رہی تھی۔ آنٹی ! یہ ہیں میرے جذبات ، آپ کے فلیٹ کے متعلق یہ کہہ کر اس نے کشن میں چا قو مار کر اسے چیر دیا۔ یہ ہے آپ کے فوجی اسکول کے متعلق میری رائے … اس نے آرام دہ کرسی کی سیٹ میں چاقو کی نوک سے بندر بنا دیا۔ شیام شیام ہوش میں آئو۔ کیا تم پاگل ہو گئے ہو ؟ آنٹی ! آپ کو دیکھ کے مجھے کتنی خوشی ہوئی ہے ، اسے بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ یہ ہے اس کا ثبوت- اس نے پوری قوت سے تپائی پر لات ماری۔ وہ لڑھکتی ہوئی قد آدم لیمپ سے جا ٹکرائی۔ ہیں مجھے خوش آمدید کہتا ہوں، بوڑھی چڑیل ! پھر اس نے اچھل کر دیوار کے ساتھ لٹکی ہوئی تصویر پر گھونسا مارا تو وہ فورا ہی پھٹ گئی۔ اس نے گل دان قالین پر پھینک دیا اور ٹیبل لیمپ زمین پر اچھال دیا۔ پر میلا دہشت زدہ سی اسے دیکھے جارہی تھی اور لرزتی ٹانگوں سے الٹے قدموں آہستہ آہستہ دروازے کی طرف کھسک رہی تھی۔ شیام ! ہوش میں آئو ، کیا تم پاگل ہو…! یہ کر کیا رہے ہو ؟ کھلا چا قو اس کے ہاتھ میں تھا، جس کی نوک پرمیلا کی طرف تھی۔ وہ خوف ناک انداز میں مسکراتے ہوئے بولا۔ مجھے آپ سے بے انتہا محبت ہے آنٹی ! میں آپ کا دل مرتبان میں بند کر کے شوکیس میں رکھ دوں گا، تا کہ آپ ہمیشہ میری نظروں کے سامنے رہیں۔ یکدم پرمیلا گلا پھاڑ پھاڑ کے وکیل کو پکارنے لگی، پھر فلیٹ کا دروازہ کھول کر لفٹ کے پاس گئی اور بجلی کی سی عجلت سے بار بار لفٹ کا بٹن دبانے لگی۔ وہ دہشت سے بار بار مڑ کے دیکھ رہی تھی۔ اب شیام بڑے پر سکون انداز سے دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ لفٹ چند لمحوں میں لفٹ اوپر آ گئی۔ پرمیلا فور اس میں گھس گئی اور لفٹ نیچے کی طرف روانہ ہو گئی۔ شیام واپس اندر گیا۔ میز پر پرمیلا کا پرس رکھا تھا، اس نے پرس اٹھا کر باہر کا دروازہ بند کیا اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر کی منزل پر آ گیا، جہاں فلیٹ کے دروازے پر بارہ “ کا لفظ سونے کی طرح چمک رہا تھا۔ اس نے قفل کھولا اور احتیاط سے پرس اس ٹیبل پر رکھ دیا۔ اس کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ ابھر آئی تھی، پھر اس نے ایک میگزین اٹھایا اور کرسی پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں ایک دھما کے سے دروازہ کھلا اور پرمیلا آندھی کی طرح وکیل کے ساتھ اندر آئی۔ اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے اور بدن غصے سے کانپ رہا تھا۔
یہ … یہ بیٹھا ہے۔ اس نے ہذیانی انداز میں چیختے ہوئے کہا۔ شیام فوراً کھڑا ہو گیا۔ اس نے رسالہ تپائی پر رکھ دیا اور حیران نظروں سے دونوں کی طرف باری باری دیکھا۔ اس نے اپنے بال سنوار کر حلیہ بھی درست کر لیا تھا اور پہلے جیسا سیدھا سادہ اور معصوم نظر آرہا تھا، بے حد فرماں بردار ، اپنی آنٹی سے بے پناہ محبت کرنے والا۔ پر میلا نے نفرت بھرے لہجے میں شیام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وکیل سے کہا۔ اس کا دماغی توازن بگڑ گیا ہے۔ پانڈے نے تحیر زدہ نظروں سے شیام کو دیکھا پھر کمرے میں نظریں دوڑائیں۔ ہر چیز اپنی جگہ سلیقے و ترتیب سے رکھی تھی۔ اس کی نظریں دیوار گیر تصویر کی طرف اٹھ گئیں اور وہاں سے گل دان کو دیکھنے لگیں۔ اس کے بعد اس نے پر میلا کو دیکھا، جو منہ کھولے، پھٹی پھٹی نظروں سے نشست گاہ کی ایک ایک چیز کو دیکھ رہی تھی۔ یہ نا ممکن ہے ، ایسا نہیں ہو سکتا ۔ میں نے بھیانک خواب نہیں دیکھا ہے۔ اس کے حلق سے پھنسی پھنسی آواز نکلی۔ یہ کیسے ممکن ہے ؟ مجھے کیا ہو گیا ہے ؟ یہ سب کیا ہے پرمیلا شریمتی جی ! وکیل نے خشک اور پاٹ دار لہجے میں سرزنش کی۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ یقین کیجئے ، میں جھوٹ نہیں بول رہی۔ شیام نے چاقو سے مجھ پر حملہ کیا تھا۔ اس نے صوفہ پھاڑ دیا تھا اور تصویر … اور تپائی بھی الٹ دی تھی۔ وکیل نے پر میلا کے پاس جا کر اس کا شانہ تھپتھپایا۔ آنٹی ! میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے کہ یہ سب کیا ہے ؟ شیام نے بے بسی سے کہا۔ آنٹی اچانک دوڑتی ہوئی یہاں سے چلی گئیں اور اب نہ جانے کیا کہہ رہی ہیں- وہ پر میلا کی طرف بڑھا تو وہ بری طرح چلائی۔ اسے میرے قریب مت آنے دینا۔ یہ مجھے قتل کرنا چاہتا ہے۔ آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے ۔ شیام آپ سے بے پناہ محبت کرتا ہے ، اسے دکھ ہو گا۔ وکیل نے شیام کو معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ شیام نے اس کی نظروں کا مطلب سمجھ کر زور سے سر ہلایا۔ آپ دیکھ سکتی ہیں پر میلا جی ! سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ ہر چیز اپنی جگہ درست حالت میں موجود ہے۔ شیام کا دل مسرت سے اچھل رہا تھا۔ وکیل کی نظروں نے اسے اپنی کامیابی کا یقین دلایا۔ وکیل نادانستہ طور پر اس سازش میں شریک ہو گیا تھا۔ میر اخیال ہے پرمیلا جی ! وکیل نے کہا۔ آپ کو مکمل آرام کی ضرورت ہے۔ اب آپ خواب گاہ میں جاکر لیٹ جائیں۔ کل ہم سکون اور اطمینان سے اس موضوع پر گفتگو کریں گے۔پلیز پلیز ! پرمیلا سسکیاں لینے لگی۔ شیام نے اس سے پہلے کبھی اس کو روتے نہیں دیکھا تھا۔ پتا نہیں مجھے کیا ہو گیا ہے ؟ سب ٹھیک ہو جائے گا، آپ پروانہ کیجئے۔ شیام ! تمہاری آنٹی کی خواب گاہ کون سی ہے ؟ اس طرف سر ! شیام نے سامنے والے کمرے کے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔ وکیل سسکیاں لیتی ہوئی پر میلا کو سہارا دے کر خواب گاہ میں لے گیا۔ شیام نے کھڑکیوں کے پر دے کھینچ دیے اور وہ خواب گاہ کا دروازہ بند کر کے نشست گاہ میں جا کر بیٹھ گئے۔ شیام نے وکیل کی طرف دیکھا اور تاسف کے انداز میں بڑ بڑایا، پھر گہری سانس لے کر بولا۔ اتنی جلدی بیماری کا حملہ … مجھے توقع نہیں تھی۔ اتنی جلدی بیماری کا حملہ- میرا خیال ہے کہ اسپتال والوں سے کوئی غلطی ہو گئی۔ میں انہیں فون پر صورت حال سے آگاہ کروں گا۔ کل تک ڈاکٹر معائنہ کرنے پہنچ جائے گا۔ کل تک ہمیں کوئی انتظام کرنا پڑے گا۔ میں سمجھ رہا ہوں سر ! شیام نے گھمبیر انداز میں سر ہلایا اور اپنے دفتر چلا گیا۔
شیام کا دل چاہ رہا تھا کہ خوشی سے ناچنا شروع کر دے۔ کچھ دیر بعد فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے لیک کر ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف مہندر تھا۔ کیسا رہا شیام ! سب ٹھیک ہے نا …؟ہاں، سب ٹھیک ہے۔ کاش ، تم یہاں ہوتے اور اپنی آنکھوں سے وہ منظر دیکھتے ۔ آنٹی کی حالت قابل دید تھی۔ وکیل کے مکالمے سے بھی معلوم ہو رہا تھا کہ وہ ان کی ذہنی حالت کو سمجھ رہا ہے۔ نیچے کیا حالت ہے ؟ایسا معلوم ہو رہا ہے ، جیسے یہاں کوئی پاگل آئے تھے۔ کوئی چیز سلامت نہیں ہے۔وہ تو ٹھیک ہے ، لیکن تم بار بار کریڈل کیوں دبار ہے ہو ؟“ میں… میں تو نہیں دبا رہا. وہ اک دم خاموش ہو گیا، کیونکہ اس نے بھی کلک کی آواز سن لی تھی۔ شیام کو یاد آیا کہ ایک ٹیلی فون، خواب گاہ ہیں بھی موجود ہے اور اس کا رابطہ اس فیملی فون سے بھی ہے۔ اس کا چہرہ فق ہو گیا۔ مہندر تم ریسیور رکھ دو، میں دو منٹ بعد تمہیں فون کروں گا۔ اس نے خواب گاہ کا دروازہ کھولا۔ پر میلاریسیور تھامے بستر پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں خوف سے پھیلی ہوئی تھیں۔ آنٹی ! شیام نے زخمی آواز میں کہا۔ ” آپ ہماری گفتگو سن رہی تھیں ؟ دفع ہو جائو یہاں سے .. اور آئندہ مجھے اپنی منحوس صورت بھول کر بھی نہیں دکھانا۔پر میلا نے چیخ کر کہا۔ شیام کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اس نے سفاک لہجے میں کہا۔ آپ نے بہت برا کیا آنٹی ! اتنا برا کہ حد سے زیادہ برا… اس نے کرسی سے کشن اٹھایا اور آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھنے لگا۔ وہ غصے سے پاگل ہو رہا تھا۔ کشن اسے نادر ہتھیار معلوم ہوا تھا۔ پر میلا کا ہوا تھا۔ پر میلا کی نگاہیں دہشت سے اور زیادہ پھیل گئیں۔ وہ بستر پر پیچھے ہو کر دیوار سے چپک گئی۔میرے قریب مت آنا شیام ! مجھے تنہا چھوڑ دو۔ آپ نے بہت برا کیا آنٹی ! آپ نے ہماری باتیں کیوں سنیں ؟ آپ کواس کی کیا ضرورت تھی ؟ نہیں شیام ، نہیں۔ اس نے ایک دل خراش چیخ ماری۔ سانس لینے کے لیے اس کا منہ کھل گیا۔ اس کے پھیپھپڑے تازہ ہوا کے لیے بے چین تھے۔ میرے قریب مت آنا۔ شیام نے کشن اس کے منہ پر رکھا اور دباؤ ڈالنے لگا۔ اس کی آنکھیں حلقوں سے باہر ابلنے لگیں اور چہرہ نیلا پڑ گیا۔ اس کے حلق سے عجیب فہم آواز نکلی ، تب شیام نے ہاتھ روک لیے اور اس کے اور ناقابل چہرے کی کیفیت دیکھنے لگا۔ وہ چند لمحوں تک سانس لینے کی کوشش کرتی رہی، پھر اس کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔ اس کی آنکھیں اب بھی کھلی ہوئی تھیں، لیکن ان میں زندگی کی رمق نہیں تھی۔ خواب گاہ کی فضا میں موت کا سکوت طاری تھا۔
☆☆☆
پر میلا کی آخری رسومات کے دو ہفتے بعد شیام ، مہندر کے ساتھ وکیل کے دفتر پہنچا تو وکیل گھمبیر لہجے میں بولا۔ شیام ! میں نے تمہیں ، تمہاری آنٹی کی آخری وصیت کے سلسلے میں یہاں بلانے کی زحمت دی ہے۔ شیام بے چینی سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ وکیل کہہ رہا تھا۔ میں تمہیں ان کی وصیت پڑھ کر سنادوں۔ تمہیں اندراحات کا پہلے سے علم تو ہو گا ؟ مجھے صرف تفصیلات سے دل چسپی ہے۔ شیام نے جواب دیا۔تفصیلات ؟ وکیل حیران رہ گیا۔ جی ہاں، میرا اشارہ آنٹی کی دولت اور جائیداد کی طرف ہے۔ میں اب ان کی ہر چیز کا مالک ہوں، اس لیے جاننا چاہتا ہوں کہ میری دولت اور جائیداد کی تفصیل کیا ہے ؟ وکیل نے گہری سانس لی۔ مجھے اندیشہ تھا کہ تم ضرورت سے غلط فہمی کا شکار ہو۔ مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ تمہیں میڈم پرمیلا کی دولت و جائیداد میں سے ایک کوڑی بھی نہیں مل سکتی۔ شیام نے بے یقینی سے وکیل کو دیکھا۔ تمہیں یاد ہے کہ تمہاری آنٹی اسپتال سے واپسی پر پہلے میرے دفتر آئی تھیں۔ انہوں نے مجھے فوراً ایک نیا وصیت نامہ تیار کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کی رو سے تم ان کی ساری دولت اور کاروبار کے مالک تھے۔ میں نے وصیت نامہ تیار کر کے گواہوں کے دستخط بھی لے لیے تھے۔ پھر اب کیا ہوا؟ انہوں نے ایک وصیت نامہ تمہارے والدین کی وفات سے پہلے بھی تیار کروایا تھا۔ اس کی رو سے ان کی تمام دولت و جائیداد ، خیراتی ورفاہی اداروں میں تقسیم ہوئی تھی۔ لیکن پر اناوصیت نامہ تو نئے وصیت نامہ کے بعد خود بخود منسوخ ہو گیا۔ اس کی حیثیت کاغذ کے ایک پرزے سے زیادہ نہیں ہے۔ تم ٹھیک کہہ رہے ہو شیام ! لیکن موجودہ حالت میں پرانا وصیت نامہ منسوخ نہیں ہوا۔ قانونی طور پر قطعی درست ہے اور اس پر عمل کیا جائے گا۔ کیا مطلب …؟ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟ نیا وصیت نامہ تیار کرواتے وقت تمہاری آنٹی کا دماغی توازن درست نہیں تھا، کیونکہ اس کے چند دن بعد ہی فلیٹ والا واقعہ پیش آیا، یعنی انہوں نے خیالی طور پر تمہیں چاقو سے حملہ کرتے دیکھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسپتال کے ماہرین سے غلطی ہو گئی۔ اصل میں تمہاری آنٹی کا دماغی توازن درست نہیں تھا۔ اس حالت میں یہ وصیت ، قانون کی نظر میں صفر معلوم ہوتی ہے۔ اب ان کا پرانا وصیت نامہ ہی درست تسلیم کیا جائے گا اور اتنی بڑی جائیداد و کار و بار کی فروخت کی رقم خیراتی اور رفاہی اداروں میں تقسیم کرنے کی ذمے داری مجھ پر آ گئی ہے۔ میں نے تمہیں اس لیے بلایا ہے کہ تم سے یہ معلوم کیا جائے کہ مرحومہ کون سے خیراتی ادارے کو زیادہ پسند کرتی تھیں ؟ شیام سن ہوتے دماغ سے سب سن رہا تھا۔ اس کی ساری پلاننگ فیل ہو گئی تھی۔ اس نے اپنی آنٹی کا اور آنٹی کی وصیت نے اس کا خون کر دیا تھا۔