Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

Love Story وفا کی سزا

Joined
Nov 24, 2024
Messages
492
Reaction score
34,535
Location
pakistan
Gender
Male
Offline
ماموں، ہماری نانی اماں کے گھر کے اکلوتے چراغ ہیں، اس لیے نانا ابا نے شروع سے ہی انہیں کچھ ڈھیل دے رکھی تھی۔ کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق تھا۔ دو بہنوں کے ایک ہی بھائی تھے۔ ماں کی طرف سے بھی نرمی اور محبت حد سے بڑھ کر ملی، تو بگڑ گئے۔ اپنی مرضی کے مالک ہو گئے، نہ کسی کی سنتے تھے اور نہ مانتے تھے۔ بس جو جی میں آتا، کر گزرتے تھے۔

اچھن میاں کی یار باشی حد سے بڑھی، تو نانی اماں نے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ اب تم شادی کر لو، تمہیں بھی سکون مل جائے گا اور مجھے بھی۔ مگر ماموں کا نظریہ عورت کے بارے میں کچھ عجیب و غریب ہو چکا تھا۔ شاید انہیں صرف آزاد خیال عورتیں ہی ملی تھیں۔ گھریلو، صابر، وفاشعار اور ایثار کرنے والی ہستیوں کا ان کے ذہن میں کوئی تصور نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب بھی نانی اماں کہتیں اچھا، اب تم شادی کر ہی لو، تو وہ ہمیشہ یہی جواب دیتے کہ چھوڑو باتیں، سب عورتیں ایک سی ہوتی ہیں، مجھ کو عورت ذات پر اعتبار نہیں۔ نانی یہ بات سن کر سر پکڑ کر بیٹھ رہتیں۔

میری والدہ چونکہ ماموں سے بڑی ہیں، اس لیے ماموں امی جان کی کافی عزت کرتے ہیں۔ امی نے بھی بارہا سمجھایا کہ تمہاری سوچ غلط ہے، پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ دنیا میں سبھی تو برے نہیں ہوتے۔ ایسی عورتوں کی بھی کمی نہیں، جو اپنے گھر کی مضبوط چوکھٹ کی طرح ہوتی ہیں، جو گھر کی عزت ہوتی ہیں، شوہر کی ناموس پر جان قربان کر دیتی ہیں۔ مگر ماموں کی سمجھ میں یہ بات نہ آتی۔ ان کی سوسائٹی ہی ایسی تھی، جہاں عورت کی عزت نہیں کی جاتی تھی، اور ان کا واسطہ بھی صنفِ نازک کے ایسے طبقے سے رہا تھا جن کے پاس نسوانیت کے تقدس کا کوئی تصور نہ تھا۔

امی اور نانی جان، ماموں کو سمجھا سمجھا کر خاموش ہو گئیں۔ سال، دو سال یوں ہی گزر گئے۔ پھر نجانے کیا حادثہ ہوا کہ ایک روز ماموں گھر آتے ہی ماں کا گھٹنا پکڑ کر بیٹھ گئے کہ اماں، اب تم میری شادی کر دو، مگر دھیان سے رشتہ طے کرنا۔ میں کسی ایسی لڑکی سے ہرگز شادی نہ کروں گا، جو پہلے کسی کو دل میں بسا چکی ہو۔ مجھے تو بالکل ایسی چھوٹی موٹی سی بیوی چاہیے، جس کی پرورش سات پردوں میں ہوئی ہو۔ کبھی کسی پرندے نے بھی اسے اپنے آنگن میں نہ دیکھا ہو۔نانی اماں نے کہا، اچھا اچھا، ایسی ہی ہو گی، تو پہلے شادی پر راضی تو ہو جا۔

اب لڑکی کی تلاش شروع ہوئی۔ جو رشتہ نانی اماں دیکھ آتیں، ماموں اسے رد کر دیتے۔ امی جان نے بھی بہت کوششیں کیں، مگر انہیں کسی کے انتخاب پر اعتماد نہ تھا۔ وہ یہی کہتے کہ مجھے ڈر ہے کہ یہ پہلے سے ہی آزاد نہ ہو۔ اپنے کسی کزن وغیرہ سے تو جان پہچان ہو چکی ہو گی۔ اس لیے لڑکی کے ساتھ ساتھ اس کے کزنز کی بھی پڑتال ہونے لگی: کتنے ہیں؟ کہاں رہتے ہیں؟ گھر میں آتے ہیں یا نہیں؟ آتے ہیں تو کتنی دیر بیٹھتے ہیں؟ ظاہر ہے، اس طرح رشتہ حاصل کرنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہو گیا۔

نانی اماں اور امی جان تنگ آ گئیں۔ کہنے لگیں کہ اس لونڈے کا تو دماغ خراب ہو گیا ہے۔ یہ نہ سراہیوں میں پھنسے نہ تنکوں میں۔ اتنی برائی اس کے ذہن پر سوار ہو گئی ہے کہ اب شرافت پر سے اس کا ایمان ہی اٹھ گیا ہے۔ اس کی شادی نہیں ہو سکتی، عمر بھر کنوارہ ہی رہے گا۔ ورنہ شک اس کی خوشیوں کو کھا جائے گا۔ہم سب مایوس ہو گئے تھے۔ جب سب بیٹھ رہے، تو اللہ کی کرنی کہ امریکا سے ہماری خالہ ملنے آ گئیں۔ امی جان نے ان سے ذکر کیا۔ وہ کہنے لگیں کہ سات پردوں میں پلنے والی ایک لڑکی ہے تو، اور وہ میری نند ہے۔ میرے سسرال کا ماحول نہایت پاکیزہ ہے۔ لڑکیوں پر ہمارے گھر میں اتنی سختی کی جاتی ہے کہ انہیں کھڑکی اور دروازوں سے جھانکنے کی بھی اجازت نہیں۔ میری نند شمینہ پندرہ سال کی ہو چکی ہے۔ آج تک گھر سے باہر قدم نہیں نکالا اپنے آنگن کے سوا۔ باہر کا آسمان اس نے کبھی نہیں دیکھا۔ یقین نہیں آتا تو خود جا کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔

خالہ نے ماموں کو آمادہ کر لیا کہ ساتھ چلو، خود دیکھ لو۔ جب تم ہمارے گھر کا ماحول دیکھو گے تو تمہیں بھی فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی۔ خالہ ایک ماہ ہمارے ہاں پاکستان میں رہیں کیونکہ ان کی شادی کے بعد وہ پہلی بار میکے آئی تھیں۔ یوں ماموں کو لے کر امی جان اور نانی جان بھی خالہ کے ہمراہ چلی گئیں۔ ہم سب یہی دعا مانگ رہے تھے کہ یا اللہ، خالہ کی نند شمینہ ماموں کو پسند آ جائے اور وہ اس رشتے پر راضی ہو جائیں۔خالہ کے ہاں کا ماحول ماموں کو پسند آ گیا، گرچہ وہ شمینہ کی ایک جھلک بھی نہ دیکھ سکے۔ انہوں نے خالہ سے کہہ دیا کہ چھوٹی آپا، ٹھیک ہے، تم میری شادی اس لڑکی سے کرا دو۔ تمہارے سسرال کا ماحول واقعی ویسا ہی ہے جیسا میں چاہتا تھا، یہاں تو پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔بالآخر ثمینہ سے ماموں کی شادی ہو گئی اور وہ اپنی دلہن بیاہ کر لے آئے۔

ماموں جان، ثمینہ ممانی کو پا کر بہت خوش تھے۔ ہر ایک سے کہتے کہ بس جیسی بیوی چاہتا تھا، وہی بیوی اللہ میاں نے مجھے دے دی ہے۔ماموں، ثمینہ ممانی کا بہت خیال رکھتے۔ وہ اپنی شریکِ حیات کو صرف اپنے ساتھ ہی کہیں لے جاتے، کسی اور کے ساتھ ممانی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ میرے بھائی انور کے علاوہ کسی اور رشتہ دار کے سامنے نہیں آتی تھیں، اور نہ ہی ان سے سلام دعا یا کلام کر سکتی تھیں، کیونکہ ہمارے ماموں جان کا یہی حکم تھا۔ ثمینہ ممانی تو اپنے میکے میں ہی اس قسم کی پابندیوں کی عادی تھیں، اس لیے یہاں آ کر بھی انہیں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا۔ وہ بھی بظاہر اس زندگی سے خوش اور مطمئن نظر آتی تھیں۔

شادی کو تین سال گزر گئے۔ ایک بیٹا بھی ہو گیا۔ دونوں خوش اور مطمئن زندگی گزار رہے تھے۔ ماموں کی بے راہ روی میں کافی کمی آ گئی تھی، مگر کہتے ہیں نا کہ چور چوری سے تو جا سکتا ہے، ہیرا پھیری سے نہیں۔ اب بھی کبھی کبھار پرانے یار دوست آ کر انہیں لے جاتے، تو پھر ہفتوں ان کا کچھ پتا نہ چلتا کہ کہاں ہیں۔ البتہ کچھ ایسی خبریں ضرور مل جاتیں جنہیں نانی اماں کو ثمینہ ممانی سے چھپانا پڑتا، تاکہ ان کی بہو کا دل نہ ٹوٹے اور انہیں صدمہ نہ پہنچے۔

دوسرے بچے کی پیدائش کے بعد ثمینہ ممانی کچھ چپ چپ سی رہنے لگی تھیں، کیونکہ اب ہمارے ماموں کی توجہ ان کی طرف سے کم ہو گئی تھی۔ وہ انہیں ستانے بھی لگے تھے۔ کبھی کہتے، جب میں گھر سے باہر جاتا ہوں، کیا خبر یہاں کون کون آتا ہے؟ کبھی کہتے، تم نے پڑوسی سے بات تو نہیں کی تھی؟ کبھی کہتے، یہ دودھ والا جو دو بار گھنٹی بجاتا ہے، نجانے اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ جبکہ ایک بار گھنٹی بھی سنی جا سکتی ہے اور تم بھی صبح سویرے پانچ بجے اُٹھ جاتی ہو۔سامنے والے گھر میں اگر کوئی ایک سے دو بار بجلی جلا بجھا دیتا، تو ممانی کی شامت آ جاتی کہ یہ سگنل تمہیں تو نہیں دیتا؟ ان باتوں نے بیچاری ممانی کو کچھ اس طرح حواس باختہ کر دیا کہ وہ بات بات پر چونکنے لگیں اور انہیں جھر جھریاں آنے لگیں۔ ماموں کی شکی طبیعت نے ممانی کو چین نہ لینے دیا۔وہ اپنی بیوی کو طنزیہ باتوں سے ہر وقت دباؤ میں رکھتے۔ ایسی مہین چٹکیاں لیتے کہ بیچاری بوکھلا کر ساس کے دامن میں پناہ ڈھونڈنے لگتیں۔

اس روز بھی کوئی خاص بات نہ تھی۔ ماموں کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ ثمینہ ممانی نے نہا کر جمعہ کی نماز پڑھی اور کمرے میں آ کر بیٹھ گئیں۔ہماری نانی اماں کے بھائی کے بیٹے، اسد، اس روز مدت بعد اچانک آ گئے۔ پہلے وہ لاہور میں رہتے تھے۔ اپنی پھوپھی کے گھر کا پتہ پوچھتے پوچھتے آ نکلے۔ انہیں خبر نہ تھی کہ ماموں کیسے مزاج کے آدمی ہیں۔ وہ بےتکلفی سے ماموں کے کمرے میں آ گئے، جہاں ممانی بیٹھی تھیں۔ وہ ان کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئے اور ممانی سے خیریت دریافت کرنے لگے۔بیچاری ممانی اسد کی موجودگی سے گھبرا گئیں۔ انہوں نے پہلے کبھی اپنی ساس کے اس رشتہ دار کو نہیں دیکھا تھا۔اسد نے کہا کہ پھوپھی نے ہمیں اپنے بیٹے کی شادی میں نہیں بلایا تھا، مگر ہم دلہن کو منہ دکھائی ضرور دیں گے۔وہ زبردستی ثمینہ ممانی کو روپے دینے لگے۔کہنے لگے لے لو بھابھی، کوئی بات نہیں۔ اگرچہ تمہاری شادی کو تین سال سے زیادہ ہو چکے ہیں، لیکن ہم تو تمہیں پہلی بار ہی دیکھ رہے ہیں۔ثمینہ ممانی انکار کرنے لگیں، مگر اسد نے ان کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی رقم ان کی مٹھی میں تھما دی۔عین اسی لمحے، جب منہ دکھائی کا یہ لین دین ہو رہا تھا، ماموں کمرے میں داخل ہو گئے۔ ان کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ڈپٹ کر ممانی سے بولےشمینہ، یہ کیا میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے؟ تم اسد سے ہاتھا پائی کر رہی تھیں؟ میں تمہارے وہ ہاتھ کاٹ ڈالوں گا جنہیں اسد نے چھوا ہےشمینہ ممانی تھر تھر کانپنے لگیں۔ اتنے میں شور سن کر نانی اماں بھی کمرے میں آ گئیں۔ انہوں نے بھتیجے (اسد) کو تو گھر سے چلتا کر دیا، مگر بیٹے کو ڈانٹنے لگیں
اچھن، ہوش کے ناخن لو۔ اسد تیرا بھائی ہے، تیری بیوی اس کی بھابھی لگتی ہے۔ وہ تو خوشی سے اس کو منہ دکھائی دے رہا تھا، تُو نے اس بات کو اتنا غلط رنگ دے دیا؟ بھلا دنیا میں جینے کے یہ طریقے ہوتے ہیں؟

مگر ماموں کب قابو میں آنے والے تھے؟ وہ تو چاہتے تھے کہ ابھی اسی وقت بیوی کو زندہ گاڑ دیں یا قتل کر ڈالیں
اور بیچاری ممانی؟ ایسے لرز رہی تھیں جیسے شیر کے سامنے بندھی ہوئی بکری۔ ماموں نے ایسا شور کیا کہ ممانی دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں۔بھاگ بھاگ کر چھری اٹھاتے تھے، ابھی تیرا وہ ہاتھ کاٹتا ہوں جس سے تُو نے اسد سے روپے لیے تھے، ابھی تجھ کو مزہ چکھاتا ہوں نانی اماں بیچ میں آتیں اور ماموں کو قابو کرنے کی کوشش کرتیں۔ بڑی مشکل سے نانی اماں نے ماموں کو سنبھالا اور ممانی کو ایک کمرے میں بند کر دیا۔مگر اس واقعے کا ثمینہ ممانی کے دل و دماغ پر ایسا اثر ہوا کہ وہ پاگلوں جیسی حرکتیں کرنے لگیں۔ نہ بچوں کو سنبھالتیں، نہ گھر کا کام کرتیں۔ نانی اماں انہیں اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتی تھیں اور ڈرتی بھی تھیں کہ اگر بہو کے ماں باپ کو خبر ہو گئی تو کہیں ان کی بیٹی پر عتاب نہ آ جائے۔

کافی عرصے تک ممانی کی یہی کیفیت رہی۔ نہ کھانے پینے کا ہوش، نہ پہننے اوڑھنے کا ڈھنگ۔ ہر وقت کھوئی کھوئی رہتیں۔ آخرکار نانی اماں نے انہیں اسپتال میں داخل کر دیا۔ وہاں کافی عرصے تک ان کا علاج چلتا رہا۔ڈاکٹروں نے ماموں کو بلا کر سمجھایا اپنی بیوی کو اب کبھی کوئی صدمہ نہ دینا۔ اس کے ساتھ ایسے پیش آنا جیسے وہ نازک سا پھول ہو۔ ورنہ یہ سچ مچ پاگل ہو جائے گی، پھر اس کا علاج ممکن نہیں رہے گا ڈاکٹروں کی باتوں سے ماموں پر کافی اثر ہوا۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس بھی ہو گیا۔ ممانی کے علاج میں دلچسپی لی، دلجمعی سے علاج کرایا، پیار و محبت سے پیش آنے لگے۔ ممانی ٹھیک ہو کر گھر آ گئیں۔ ماموں مطمئن ہو گئے کہ بچوں کی ماں ٹھیک ہو گئی ہے، اور نانی اماں بھی خوش تھیں کہ بہو بیٹے کے درمیان پیدا ہوئی غلط فہمی دور ہو گئی ہے۔بقرعید کا دوسرا دن تھا۔ ماموں تیار ہو کر کہیں جانے لگے۔ممانی نے پوچھا کہاں جا رہے ہیں؟ماموں کہنے لگے میں تو اپنے دوستوں سے عید ملنے جا رہا ہوں۔ تم انور سے کہنا کہ بچوں کو گھما پھرا لائے، بلکہ تم اور اماں بھی چلی جانا۔

ایک بات میں آپ کو بتانا بھول گئی کہ ڈاکٹروں نے ماموں کو سختی سے ہدایت کی تھی کہ بیوی کو سیر و تفریح اور گھمانے پھرانے ضرور لے جایا کریں، اور اس پر زیادہ سختی نہ کیا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ثمینہ کی دماغی حالت کمزور ہے، اور اگر اسے زیادہ دباؤ میں رکھا گیا تو اس کا دماغ الٹ سکتا ہے۔ پھر ایک پاگل عورت کو سنبھالتے سنبھالتے تمہاری اپنی زندگی عذاب بن جائے گی۔ماموں اس بات سے بہت ڈر گئے تھے کہ کہیں ثمینہ ممانی سچ مچ پاگل نہ ہو جائیں۔ اب وہ ان پر سختی نہیں کرتے تھے۔ نانی اماں سے کہتے کہ یہ جہاں جانا چاہے، اسے نہ روکا کرو، بلکہ تم خود اس کو لے جایا کرو۔ کبھی کبھار ماموں خود بھی بیوی کو سیر و تفریح کرانے اور سینما یا ہوٹل لے جاتے۔ماموں کے جانے کے بعد نانی اماں نے میرے بھائی انور سے کہا کہ تم اپنی ممانی اور بچوں کو اپنے گھر لے جاؤ، یا بچوں کو چڑیا گھر دکھا لاؤ۔ آج عید کا دوسرا دن ہے، میلہ لگا ہوگا اور خوب رونق بھی ہوگی۔ تیرے ماموں اجازت دے گئے ہیں۔میں نے کہا، نانی اماں، ہم اپنے گھر نہیں جاتے، وہاں سے ہی تو ہم آئے ہیں۔ ہم کلفٹن جائیں گے، میلہ تو وہاں ہوگا۔ میرے اصرار پر انور نے مجھے اور ممانی کو بچوں سمیت ساتھ لیا اور ہم سب ٹیکسی میں بیٹھ کر کلفٹن پہنچ گئے، حالانکہ اس دن بھی ممانی بار بار یہی کہتی رہیں کہ میں نہیں جاتی، مگر نانی کے اصرار پر وہ چلی گئیں۔

واقعی خوب رونق تھی۔ کلفٹن میں میلہ لگا ہوا تھا۔ ماموں کی چھوٹی بیٹی کو میں نے گود میں اٹھا رکھا تھا اور بڑے بیٹے کی انگلی ممانی نے تھامی ہوئی تھی۔اچانک ممانی کی نظر ماموں پر پڑی، اور وہ وہیں جم کر رہ گئیں، جیسے کسی سانپ نے سونگھ لیا ہو۔ ماموں ایک خوبصورت، فیشن ایبل لڑکی کے ساتھ میلے میں گھوم رہے تھے۔ وہ بہت خوش تھے اور زور زور سے ہنس رہے تھے۔ انہوں نے پھول والے سے اس حسینہ کے لیے ہار خریدے۔ ماموں دنیا و مافیہا سے بے خبر اس لڑکی کو خوش کرنے میں لگے ہوئے تھے۔

مگر ممانی یہ منظر برداشت نہ کر سکیں۔ جب ماموں اس لڑکی کو بازو سے پکڑ کر اپنی کار میں بٹھا کر لے گئے، تو وہ چیخ مار کر رونے لگیں۔ یہ دیکھ کر انور بہت گھبرا گیا، اور ہاتھ جوڑ کر بولا: ممانی، اللہ کے واسطے لوگوں کا کچھ تو خیال کریں، تماشہ نہ بنیں، چلیے گھر چلتے ہیں۔انور اور میں انہیں جلدی سے واپس گھر لے آئے۔ یہاں آتے ہی انہوں نے خود کو کمرے میں بند کر لیا۔ نانی نے مجھے کہا:بیٹا، تم ان دونوں بچوں کو اپنے گھر لے جاؤ۔ تمہارے ماموں اور ممانی کا جھگڑا ہوگا تو بچے پریشان ہوں گے۔انور اور میں ماموں کے دونوں بچوں کو لے کر اپنے گھر چلے گئے۔نانی اماں نے دروازہ کھٹکھٹایا، مگر ممانی نے نہ کھولا۔ وہ کہنے لگیں:دُلہن، دروازہ کھولو، کھانا تو کھاؤ۔ممانی نے جواب دیا:جب تمہارا بیٹا آئے گا، تب کھاؤں گی۔نانی اماں کچھ دیر بیٹھیں، پھر پڑوس میں ٹیلیفون کرنے چلی گئیں۔ جاتے ہوئے کہنے لگیں:دُلہن، گھر اکیلا ہے، میں عائشہ کو فون کرنے جا رہی ہوں۔ تم دروازہ کھول کر سامنے والے حصے میں آبیٹھو، بڑا دروازہ بھی کھلا ہے۔ممانی نے جواب دیا:اچھا، آپ جائیں، میں دروازہ بند کر لوں گی۔نانی اماں کے جاتے ہی ثمینہ ممانی نے گھر کے تمام دروازے بند کر لیے۔ عید والے نئے کپڑے اتار کر پرانے کپڑے پہن لیے۔ پھر ماچس کی تیلی سے اپنے جسم کو آگ لگا دی۔

نانی اماں آدھا گھنٹہ پڑوس میں بیٹھی باتیں کرتی رہیں۔ واپس آ کر دروازہ کھٹکھٹایا، مگر کسی نے نہ کھولا۔ وہ دوبارہ پڑوس گئیں اور مجھے فون کیا۔ پڑوسی بھی ساتھ آ گئے۔ سب نے دروازے پر زور زور سے دستک دی، مگر اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔البتہ گھر کے اندر سے جلی ہوئی ناگوار بو آنے لگی۔ پڑوسی کہنے لگے:اناجان، جلدی کسی کو بلوا لیجئے، کچھ غیر معمولی بات لگتی ہے۔ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ماموں بھی آ گئے۔ انہوں نے گیٹ پھلانگ کر دروازہ کھولا اور کسی طرح اندر داخل ہو گئے۔ممانی جل چکی تھیں، مگر ابھی ہوش میں تھیں اور کراہ رہی تھیں۔ ماموں کو دیکھ کر بس اتنا کہا:مجھ کو پردیسی جان کر دُکھ دیتے تھے، الزام مجھ پر لگاتے تھے، اور بُرائی خود کرتے تھے۔ اب میں نہ رہوں گی تو کس کو ستاؤ گے؟ کس پر جھوٹے الزامات لگاؤ گے؟ماموں روتے رہے۔ ثمینہ ممانی بے ہوش ہو گئیں۔ انہیں اسپتال لے جایا گیا، مگر وہ راستے ہی میں دم توڑ گئیں۔

ماموں اس کے بعد بالکل بدل گئے۔ اب وہ کھوئے کھوئے رہتے ہیں، خود کو بیوی کی موت کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔پڑوسی تو کہتے ہیں کہ بیچاری کو دوسرے ملک سے بیاہ کر لائے، پھر ساس اور نندوں نے منہ پر کپڑا باندھا ہوگا، اور شوہر نے جلا دیا ہوگا۔مگر حقیقت یہ نہیں ہے۔جو حقیقت ہے، وہ میں نے بیان کر دی ہے، کیونکہ یہ واقعہ ہمارے اپنے گھر کا ہے۔
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat