Online
- Thread Author
- #1
دوستو میں سیالکوٹ کے کہ ایک نواحی گاوں کے متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں
میری یہ سٹوری ھے ان دنوں کی
جب مکاں کچے اور لوگ سچے ہوا کرتے تھے
جب گاوں کے اٹھارہ سال تک کے لڑکے اور لڑکیاں سیکس نام کی کسی چیز کے واقف نھی ھوتے تھے
اسی لیے سب ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک چلے جاتے تھے میری عمر اس تقریباً 14 /15سال کے لگ بھگ ھوگی ہمارے گاوں میں صرف ایک ھی پرائمری سکول تھا جس میں صرف دو کمرے ھوتے تھے اور اس سکول میں دو ماسٹر جی پڑھاتے تھے ایک ماسٹر جی تقریباً چالیس سال کا تھا جس کا نام جمال دین تھا اور ایک ماسٹر صفدر صاحب تھے جو تقریباً اٹھائیس تیس سال کے لگ بھگ ھوں گے جو شہر سے پڑھانے آتے تھے سکول میں ایک کلاس میں پہلی سے تیسری کلاس کے بچے پڑھتے تھے اور دوسری کلاس میں چوتھی اور پانچویں کلاس کے بچے پڑھتے تھے
میں اس وقت چوتھی کلاس میں اچھے نمبروں سے پاس ھوا تھا اور میرے ابو جان مجھے شہر کے سکول میں داخل کروانے کے بارے میں امی جان سے بحث کررھے تھے
شہر کہ سکول کا سن کر میرے تو پاوں زمین پر نھی لگ رھے تھے
اور دل میں طرح طرح کے لڈو پھوٹ رھے تھے بڑی بڑی عمارتیں بڑی بڑی گاڑیوں اور شہر کی رونق کے خیالوں میں ڈوبا میں امی جان اور ابو جان کے بحث مباحثہ کو سن رھا تھا
امی جان میرے شہر جانے سے منع کررھی تھی کہ ابھی یاسر بچہ ھے چھوٹا ھے ناسمجھ ھے کیسے شہر جاے گا امی ابو طرح طرح کی دلیلیں دے کر منع کررھی تھی کہ یاسر کو ایک سال اور پڑھنے دو پھر کچھ سمجھدار ھو جاے گا تو چلا جاے گا آخر کار کافی دیر کی بحث مباحثے کے بعد جیت امی جان کی ھوئی
میں نے جب اپنے ارمانوں پر پانی پھرتے دیکھا تو رونے والا منہ بنا کر باہر نکل کر آنٹی فوزیہ کے گھر کی طرف چل پڑا جو ہماری ھی گلی میں رہتی تھی انکا گھر ھمارے گھر سے پانچ چھ گھر چھوڑ کر آتا تھا
میں آنٹی فوزیہ کے گھر داخل ھوا اور اونچی آواز میں سلام کیا آنٹی فوزیہ
بہت ھی نرم دل اور پیار کرنے والی خاتون تھی انکا قد پانچ فٹ چھ انچ اور چھاتی چھتیس انچ کی اور پیٹ بلکل اندر کی طرف تھا اور ہلکی سی گانڈ باہر کو نکلی ھوئی تھی
رنگ انکا سفید تھا
دوستو یہ سب مجھے اس وقت نھی پتہ تھا بلکہ بعد میں پتہ چلا آپکو پہلے بتانا ضروری سمجھا اس لیے بتا دیا،،
میں نے آنٹی فوزیہ کو دیکھا جو صحن میں لگے بیری کے درخت کے نیچے چارپائی پر بیٹھی سبزی بنا رھی تھی
میں چلتا ھوا آنٹی فوزیہ کے پاس پہنچ گیا آنٹی فوزیہ نے مجھے دیکھ کر میرے سر پر پیار دیا اور کہا آگیا میرا شزادہ لگتا ھے آج گھر سے مار پڑی ھے میں منہ لٹکاے آنٹی فوزیہ کے پاس بیٹھ گیا
آنٹی فوزیہ بولی کیا ھوا ایسے کیوں رونے والا منہ بنا رکھا ھے میں نے آنٹی فوزیہ کو ساری روداد سنا دی
آنٹی فوزیہ نے مجھے اپنے کندھے کے ساتھ لگا لیا اور مجھے پیار سے سمجھانے لگ گئی کہ دیکھ پُتر تیری امی کو تجھ سے پیار ھے تو ھی تجھے شہر جانے سے روک رھی ھے اور تم لوگوں کے حلات بھی ابھی ایسے ہیں کہ شہر جانے کے لیے ٹانگے کا کرایہ نھی دے سکتے
میں نے آنٹی کی بات کاٹتے ھوے کہا وہ گاما تانگے والا بچوں کو شہر لے کر تو جاتا ھے تو آنٹی فوزیہ بولی
دیکھ پُتر وہ زمینداروں کے بچے ہیں وہ لوگ تانگے کا کرایہ دے سکتے ہیں تم ایک سال اور پڑھ لو پھر پھر عظمی اور نسرین
(آنٹی فوزیہ کی بیٹیاں)
بھی شہر جانے لگ جائیں گی تو تم بھی اپنی بہنوں کے ساتھ پیدل ہی نمبرداروں کی زمین کے بنے بنے نہر کی طرف سے چلے جایا کرنا ابھی دل لگا کر پڑھو میں جیسے تمہارے امی ابو کہتے ہیں انکی بات مانو میں نے اچھے بچوں کی طرح ہاں میں سر ہلایا تو آنٹی فوزیہ نے پیار سے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنے ساتھ لگا لیا اور شاباش دیتے ھوے بولی یہ ھوئی نہ بات،،
میں نے آنٹی فوزیہ سے پوچھا کہ عظمی کدھر ھے تو آنٹی بولی وہ کمرے میں موڈ بنا کر بیٹھی ھے نسرین تو ٹیوشن چلی گئی ھے مگر یہ ایسی ضدی لڑکی ھے کہ میرا کہنا ھی نھی مانتی میں یہ سن کر انٹی کے پاس سے اٹھا اور عظمی کے پاس چلا گیا میں نے دیکھا کہ عظمی سر جھکائے کرسی پر بیٹھی ھوئی ھے،
میں نے جاتے ھی عظمی کو چھیڑنے لگ گیا
کہ چنگی مار پئی اے نہ آ ھا آھا
تو عظمی نے جوتا اٹھایا اور میرے پیچھے بھاگ پڑی میں آگے آگے بھاگتا کمرے سے باہر آگیا اور آنٹی کے پاس آکر رک گیا آنٹی فوزیہ نے عظمی کو ڈانٹا کہ کیوں میرے شزادے کو مار رھی ھو تو عظمی بولی
تواڈا شزادہ ھوے گا میرے ناں سر چڑیا کرے آیا وڈا شزادہ بوتھی ویکھی شزادے دی
میں نے بھی عظمی کو منہ چڑھا دیا عظمی
زمین پر پاوں پٹختی واپس کمرے میں چلی گئی
دوستو
آنٹی فوزیہ کی بس دو ھی بیٹیاں تھی وہ بھی جڑواں اس کے بعد ان کے ہاں اولاد نھی ھوئی انکا کوئی بیٹا نھی تھا اس لیے مجھے وہ اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتی تھی میرا بھی ذیادہ وقت انکے ھی گھر گزرتا تھا اور انکے گھر یا باہر کے کام سودا سلف وغیرہ میں ھی لا کر دیتا تھا ویسے تو میں اپنے گھر میں نعاب تھا وہ اس لیے کہ میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے گھر کا لاڈلا بھی تھا
باقی بہن بھائی سب مجھ سے بڑے تھے
عظمی اور نسرین میری ہم عمر ھی تھی نسرین کی نسبت عظمی ذیادہ خوبصورت تھی نسرین بھی کم خوبصورت نھی تھی مگر عظمی کا رنگ نسرین کی نسبت ذیادہ سفید تھا اور جسمانی طور پر بھی عظمی نسرین سے ذیادہ سیکسی تھی عظمی کا قد تقریباً میرے ھی جتنا پانچ فٹ تھا مگر ہم ساتھ کھڑے ھوتے تھے تو عظمی مجھ سے چھوٹی ھی لگتی تھی ویسے عظمی صحت کے معاملے میں مجھ سے ذیادہ صحت مند تھی عظمی کا رنگ کافی سفید تھا جیسے کشمیری ھو اور جسم بھی بھرا بھرا تھا پندرہ سال کی ھی عمر میں اسکے ممے چھوٹے سائز کے مالٹے جتنے تھے اور پیچھے سے بُنڈ بھی کافی باھر کو نکلی ھوئی تھی میں اکثر اسے موٹو کہہ کر بھی چھیڑ لیتا تھا
جبکہ نسرین دبلی پتلی سی تھی اسکے بھی چھوٹے چھوٹے ممے تھے مگر عظمی سے کم ھی تھے
میں دوبارا عظمی کے کمرے میں گیا اور عظمی کو منانے لگ گیا کافی کوشش کے بعد آخر کار میں اسے منانے میں کامیاب ھوگیا میں اور عظمی آنٹی فوزیہ کو کھیلنے کا کہہ کر باھر گلی میں آگئے آنٹی فوزیہ نے پیچھے سے آواز دی کہ جلدی آ جانا ذیادہ دور مت جانا
ہم نے آنٹی فوزیہ کی بات سنی ان سنی کی اور گلی میں نکل کر کھیت کی طرف چل پڑے
دوستو ھماری گلی کی نکڑ پر سڑک تھی اور سڑک کی دوسری طرف کھیت شروع ھوجاتے تھے سڑک کے ساتھ والا کھیت خالی ھوتا تھا اس میں کوئی فصل نھی ھوتی تھی جبکہ اس کھیت کے آگے والے کھیتوں میں فصل کاشت کی جاتی تھی اور اس وقت کپاس کی فصل کا موسم تھا اور کپاس کے پودے اس وقت تقریباً پانچ فٹ تک ھوتے تھے اور کپاس کی فصل کے آگے والے کھیت جو نہر کے قریب تھے ان میں مکئی کی فصل کاشت کی ھوئی تھی اور جو دوست گاوں کے رھنے والے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مکئی کے پودے چھ سات بلکل آٹھ فٹ تک اونچے ھوتے ہیں اور ان کھیتوں کے درمیان ایک پگڈنڈی جسے ہم بنا کہتے تھے وہ کپاس اور مکئی کے کھیتوں کے بیچوں بیچ نہر کی طرف جاتی تھی اور نہر پر چھوٹا سا لکڑی کا پل تھا جسکو کراس کر کے لوگ یا سکول کے بچے شہر کی طرف جاتے تھے ھمارے گاوں اور شہر کا فاصلہ تقریباً دو کلو میٹر تھا
خیر ہم دونوں نے سڑک کراس کی اور کھیت میں چلے گئے جہاں پہلے ھی کافی سارے ہمارے ہم عمر لڑکے اور لڑکیاں کھیل رھے تھے جن کی عمر دس سے پندرہ سال ھی تھی کچھ ہماری گلی کے کچھ ادھر ادھر کی گلیوں کے تھے
دوستو،،
ہمارا پسندیدہ کھیل لُکن میٹی سٹیپو باندر کِلا وانجو پکڑن پکڑائی ھوتا تھ
جب ہم کھیت میں پہنچے تو سب بچے ہاتھوں پر ہاتھ مار کر چُھپن چھپاٰئی کی باریاں لے رھے تھے ہمیں آتا دیکھ کر ہماری گلی کا ھی ایک لڑکا زاہد جو ہمارا سب سے اچھا دوست تھا وہ غصے سے بولا
آگئی ہنساں دی جوڑی اینی دیر کردتی یار
میں نے کہا یار ایس میڈم نے دیر کرادتی رُس کے بیٹھی تھی نواب زادی
تو میں اور عظمی نے بھی اپنی اپنی باری پُگی اور تین بچوں کی باری آگئی جنہوں نے باقی بچوں کو ڈھونڈنا تھا
ہم سب چُھپنے کے لیے کپاس کی فصل کی طرف بھاگے سب بچے علیحدہ علیحدہ اپنی اپنی جگہ پر چھُپ گئے جبکہ میں اور عظمی کپاس کی فصل میں سے ھوتے ھوے کافی آگے کی طرف نکل آے تو عظمی بولی یاسر بس ادھر ھی چھپ جاتے ہیں میں نے سنا ھے کہ مکئی میں اوندے سور آے ھوے ہیں
دوستو ان دنوں ہمارے گاوں میں افواہ پھیلی ھوئی تھی کہ نہر کے پاس کھیتوں میں سور آے ھوے ہیں اس لیے ھو بھی ادھر جاے احتیاط سے جاے،
مگر ہماری عمر ڈرنے کی کہاں تھی بس سکول سے آتے ھی کھیل کھیل بس کھیل نہ کھانے کی فکر نہ پینے کی نہ گرمی نہ سردی کی فکر
میں نے عظمی کو تسلی دی کہ کچھ نھی ہوتا یار
پنڈ والے ایویں چولاں ماردے نے کہ کوئی چھلیاں نہ توڑے
عظمی بولی نئی یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے
تو ہم ایسے ھی باتیں کرتے کرتے کپاس کی فصل کے آخر میں پہنچ گئے جہاں ایک پانی کا کھالا تھا جسکو کراس کر کے دوسری طرف مکئی کی فصل شروع ھوجاتی تھی
کھالے کے ساتھ ساتھ کافی بڑے بڑے مختلف قسم کے درخت تھے
میں نے عظمی کو کہا چلو ہم درختوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں یہاں سے ہمیں وہ ڈھونڈ نھی سکیں گے میں نے چھلانگ لگا کر کھالا کراس کیا اور پھر عظمی نے بھی ڈرتے ڈرتے چھلانگ لگائی اور میں اسکی ھی طرف منہ کر کے کھڑا تھا عظمی نے جب چھلانگ لگائی تو سیدھی آکر میرے سینے سے ٹکرائی میں نے اسکو بانھوں میں بھر کر سنبھال لیا ایسا کرنے سے اس کے ممے میرے سینے میں پیوست ھوگئے
ہمارے ذہن اس وقت سیکس سے بلکل پاک ھوتے تھے اس لیے کبھی بھی ذہن میں کوئی گندا خیال نھی آیا تھا میں اکثر کبھی کبھی عظمی کو جپھی ڈال کر اوپر کی طرف اٹھا کر گھمانے لگ جاتا تھا اور اس کا وزن ذیادہ ھونے کی وجہ سے کبھی کبھار ایک دوسرے کے اوپر گر بھی جاتے تھے ۔۔۔
عظمی جب مجھ سے ٹکرائی تو میں نے اسے سنبھال کر ٹالی کے درخت کے پیچھے لے آیا
اور عظمی میرے آگے کھڑی ھوگئی اور میں عظمی کے پیچھے اسکی بُنڈ کے ساتھ لگ کر کھڑا ھوگیا اور دونوں آگے پیچھے اپنے سروں کو نکال کر سامنے بنے کی طرف دیکھنے لگ گئے میرا لن جو اس وقت کوئی چار ساڑے چار انچ کا ھوگا جو سویا ھوا عظمی کی بُنڈ کے دراڑ کے اوپر بلکل ساتھ چپکا ھوا تھا اور ہم ڈھونڈنے والوں کا انتظار کرنے لگ گئے کہ اچانک عظمی نے؟؟؟؟؟
چانک عظمی نے گبھرائی ہوئی آواز میں کہا یاسر مجھے لگ رھا ھے جیسے مکئی میں کوئی ھے چلو ادھر سے میں پیچھے سے عظمی کے ساتھ بلکل چپکا ھوا تھا یہ بات نھی تھی کہ مجھے سیکس والا مزہ آرھا تھا بس ویسے ھی مجھے عظمی کی نرم نرم گانڈ کے ساتھ. چپک کر کھڑے ھونا اچھا لگ رھا تھا میں نے عظمی کو کہا کوئی بھی نھی ھے یار ایک تو تم ڈرپوک بہت ھو عظمی کچھ دیر اور کھڑی رھی پھر اس نے مجھے پیچھے کیا اور جلدی سے کھالے پر سے چھلانگ لگا کر دوسری طرف چلی گئی اور مجھے کہنے لگی تم کھڑے رھو میں تو جارھی ھوں میں بھی چارو ناچار اسکے پیچھے ھی کھالا پھیلانگ چل پڑا تب ہمیں بچوں کی آوازیں بھی سنائی دینے لگ گئی کی انہوں نے کسی بچے کو ڈھونڈ لیا تھا اس لیے خوشی میں شور مچارھے تھے ہم دونوں بھی اتنی دیر میں ان بچوں کے پاس جا پہنچے پھر کچھ دیر ہم نے ادھر کی پکڑن پکڑائی کھیلتے رھے اور پھر شام ھونے لگی تو ہم اپنے اپنے گھروں کی طرف چل دیے
ایسے ہی وقت گزرتا رھا سکول سے گھر اور گھر سے کھیل کود
ایک دن ہم سکول میں اپنی کلاس میں بیٹھے تھے کلاس کیا تھی نیچے ٹاٹ بچھے ھوتے تھے جدھر جدھر چھاوں جاتی ادھر ادھر ہماری کلاس گھیسیاں کرتی کرتی جاتی ہمارے ٹیچر سر صفدر صاحب تھے جو کہ شاید ابھی تک کنوارے ھی تھے اور شہری بابو ھونے کی وجہ سے کافی بن ٹھن کر رھتے تھے
ہماری کلاس میں ایک لڑکا صغیر پڑھتا تھا اسکی امی آنٹی فرحت سکول آئی اور ماسٹر جی کو سلام کیا تب ماسٹر جی نے مجھے آواز دی کی یاسر جاو کمرے سے کرسی لے کر آو میں بھاگا بھاگا گیا اور کمرے سے ایک کرسی اٹھا کر لے آیا جس پر آنٹی فرحت بیٹھ گئی
دوستو آنٹی فرحت کا تعارف کرواتا چلوں،،
آنٹی فرحت کا خاوند ایک حادثے میں فوت ھوگیا تھا اور انکا ایک ھی بیٹا تھا انکے شوہر کی وفات کے بعد آنٹی فرحت کی امی انکو اپنے پاس ہمارے گاوں ھی لے آئی تھی
آنٹی فرحت کافی شریف اور پردہ دار عورت تھی انہوں نے بڑی سی چادر سے اپنا آپ ڈھانپ رکھا تھا اور چادر سے ھی چہرے پر نقاب کیا ھوا تھا نقاب سے ان کی بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں ھی نظر آرھی تھی اور انکی آنکھیں ھی انکے باقی حسن کی تعریف کے لیے کافی تھی جس کی آنکھیں ھی ایسی ھوں کہ جو بھی انکو دیکھے تو بس اس جھیل میں ایسا ڈوبے کہ کسی اور چیز کا اسے ھوش نہ رھے
انٹی فرحت کا قد پانچ فٹ سات انچ تھا اور باقی کا فگر آگے چل کر بتاوں گا
انٹی فرحت آہستہ آہستہ ماسٹر جی سے پتہ نھی کیا باتیں کررھی تھی میں نے غور کیا کہ ماسٹر جی آنٹی فرحت کے ساتھ کافی فری ھونے کی کوشش کررہے ہیں اور ان سے بات کرتے ھوے اپنے منہ کے بڑے سٹائل بنا رھے ہیں تب ماسٹر جی نے صغیر کو آواز دی کے اپنا دستہ لے کر آے صغیر سر جھکائے اپنا دستہ لیے ماسٹر جی اور انٹی فرحت کے پاس جا پہنچا ماسٹر جی نے دستہ کھولا اور کچھ ورق پلٹنے کے بعد دستہ انٹی فرحت کی طرف بڑھا دیا آنٹی فرحت نے دستہ دیکھا اور پھر شرمندہ سی ھوکر اپنے بیٹے کو گھورنے لگ گئی تب ماسٹر جی نے مجھے آواز دی کہ یاسر ادھر آو میں ذرہ آفس میں جا رھا ھوں تم کلاس کا دھیان رکھو کوئی بچہ شرارت نہ کرے،،
دوستو میں کلاس میں سب سے لائق تھا اور میرا قد بھی تقریباً سب بچوں سے بڑھا تھا اس لیے میں کلاس میں سب سے آگے بیٹھتا تھا اور ماسٹر جی نے مجھے کلاس کا مانیٹر بھی بنا رکھا تھا اور میرے ساتھ عظمی بیٹھی ھوتی تھی ماسٹر جی مجھے سمجھا کر اٹھے اور آنٹی فرحت اور انکے بیٹے کو کمرے میں بنے آفس کی طرف آنے کا کہا اور خود آفس کی طرف چل پڑے اور انکے جاتے ھی انٹی فرحت کرسی سے اٹھی تو پیچھے سے چادر سمیت قمیض انکی گانڈ میں پھنسی ھوئی تھی جسکو انہوں نے بڑی ادا سے باہر نکالا اور اپنے بیٹے کا ھاتھ پکڑ کر ماسٹر جی کے پیچھے پیچھے چل پڑی
اور میں کلاس کی طرف منہ کرکے کھڑا ھوگیا اب میرا منہ کمروں کی طرف تھا جب کہ ساری کلاس کی پیٹھ کمروں کی طرف تھی کلاس کمروں کی مخلاف سمت بیٹھتی تھی
کچھ ھی دیر بعد مجھے صغیر کمرے سے نکلتا ھوا نظر آیا اور آکر میرے پاس سے گزرنے لگا تو میں نے اسے پوچھا سنا خوب کلاس لگی ماسٹر جی اور آنٹی جی سے تو شرمندہ سا ھوکر جا کر کلاس میں بیٹھ گیا تقریباً دس پندرہ منٹ کے بعد مجھے پیشاب آگیا میں نے عظمی کو اپنی جگہ کھڑا کیا اور کمروں کے پیچھے بنے ھوے صرف نام کے واش روم کی طرف چل پڑا
دوستو سکول میں دو ھی کمرے تھے ایک کمرے کو تو جب سے میں نے دیکھا تالا ھی لگا ھوا تھا جبکہ دوسرے آدھے کمرے میں پہلے آفس بنا ھوا تھا جس میں ایک میز اور دو تین کرسیاں پڑی تھی جب کے کمرے کے دوسرے حصے میں ایک الماری لگا کر پارٹیشن کی گئی تھی اور اس کے پیچھے. دو چارپایاں پڑی تھی جن پر اکثر ماسٹر جی آرام کرنے کے لیے لیٹ جاتے تھے اور الماری کے سائڈ سے ایک تین فٹ کی جگہ رکھی تھی جس کے اگے دیوار اور
جس کے آگے دیوار اور الماری میں کیل ٹھونک کر رسی کے ساتھ پردہ لٹکایا ھوا تھا
میں پیشاب کر کے واپس جانے کے لیے کمرے کے پیچھے بنی ہوئی کھڑکی کے پاس سے گزرنے لگا تو مجھے آنٹی فرحت کی آواز سنائی دی جو ماسٹر جی کو کہہ رھی تھی
کہ ماسٹر جی نہ کرو تمہیں **** کا واسطہ مجھے جانے دو میں ایسی نھی ھوں مگر ماسٹر جی اسے تسلیاں دے رھے تھے کہ کچھ نھی ھوتا بس دو منٹ کی بات ھے کسی کو پتہ نھی چلے گا
پھر آنٹی فرحت کی آواز آئی کہ نھی ماسٹر جی مجھے جانے دو کسی نے دیکھ لیا تو میری پورے گاوں میں بدنامی ھوجاے گی
میں نے جلدی سے کھڑکی میں جھانکنے کے لیے اوپر کی طرف جمپ لگایا مگر کھڑکی میرے قد سے اونچی تھی اس لیے میں اندر دیکھنے میں ناکام رھا،
اچانک آنٹی فرحت کی چیخ سنائی دی میں چیخ سن کر گبھرا گیا اور جلدی سے دبے پاوں کمرے کے دروازے کی طرف دوڑا میں نے دروازے کو آہستہ سے کھولا کیوں کہ مجھے یہ کنفرم ھوگیا تھا کہ ماسٹر جی دفتر والے حصہ میں نھی ہیں بلکہ دفتر کے پچھلے حصہ میں آنٹی فرحت کو لے گئے ہیں
مگر پھر بھی میں نے ڈرتے ڈرتے بڑی احتیاط سے دروازہ کھول کر اندر جھانکا تو میرا خیال بلکل درست نکلا دفتر واقعی ھی خالی تھا
میں آہستہ سے دبے پاوں پنجوں پر چلتا ھوا کمرے میں داخل ھوا اور آہستہ سے دروازہ بند کر دیا اور پردے کے پاس جا پہنچا
میں نے جب تھوڑا سا پردہ ھٹا کر اندر جھانکا تو میرے تو پاوں تلے سے زمیں نکل گئی اندر کا منظر ھی میری سوچ کے برعکس تھا
اندر کا سین دیکھ کر تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے میں تو یہ سوچ کر اندر آیا تھا کہ پتہ نھی ماسٹر جی اور فرحت آنٹی کی لڑائی ھو رھی اور ماسٹر جی نے فرحت آنٹی کو مارا ھے جس وجہ سے فرحت آنٹی کی چیخ نکلی تھی
مگر یہاں تو ساری فلم ھی الٹ تھی
میں آنکھیں پھاڑے اندر دیکھنے لگ گیا کہ ماسٹر جی نے فرحت آنٹی کو جپھی ڈالی ھوئی تھی اور ماسٹر جی فرحت آنٹی کے ہونٹوں میں ہونٹ ڈال کر چوس رھے تھے اور آنٹی فرحت کی آگے سے قمیض اوپر تھی اور انکے دونوں بڑے بڑے گول مٹول چٹے سفید چھتیس سائز کے ممے بریزئیر سے آزاد تھے اور ماسٹر جی کا ایک ھاتھ آنٹی فرحت کے ایک مُمے پر تھا اور دوسرا ھاتھ آنٹی فرحت کی بُنڈ پر رکھ کر اوپر نیچے پھیر رھے تھے ۔
انٹی فرحت کو بھی شاید مزہ آرھا تھا کیوں کہ آنٹی فرحت نے اپنا ایک ہاتھ ماسٹر جی کی گردن پر رکھا ھوا تھا اور اپنی انگلیوں کو انکی گردن کے گرد پھیرتی کبھی اوپر سر کہ بالوں پر لے جاتی
دوستو میں نے زندگی میں پہلی دفعہ کسی عورت کو ننگا دیکھا تھا اور وہ بھی اس عورت کو جس کے بارے میں میں سوچ بھی نھی سکتا کہ یہ بھی ایسی گندی حرکت کرسکتی ھے اور وہ بھی کسی غیر مرد کے ساتھ اس حال میں میرا تو دیکھ کر برا حال ھورھا تھا ماتھے پر پسینہ اور نیچے سے میری ٹانگیں کانپ رھی تھی
ادھر ماسٹر جی اور آنٹی فرحت دنیا سے بے خبر اپنی مستی میں گم تھے
ماسٹر جی مسلسل آنٹی فرحت کے ہونٹ چوس رھے تھے پھر ماسٹر جی نے آنٹی فرحت کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ علیحدہ کیے تو میں نے دیکھا کہ آنٹی فرحت کی آنکھیں بند تھی اور وہ کسی سرور میں کھوئی ھوئی تھی اور منہ چھت کی طرف تھا اب ماسٹر جی نے آنٹی فرحت کی گالوں کو چومنا شروع کردیا ماسٹر جی کبھی آنٹی فرحت کے گالوں کو چومتے کبھی زبان پھیرتے تو کبھی ان کے گال کو منہ میں بھر کر چوسنے لگ جاتے
آنٹی فرحت کا رنگ تو پہلے ھی چٹا سفید تھا اب بلکل ٹماٹر کی طرح سرخ ھوچکا تھا
ماسٹر جی آنٹی فرحت کے گالوں کو چومتے چومتے انکے گلے پر زبان پھیرنے لگ گئے ماسٹر جی جیسے ھی گلے سے زبان پھیر کر اوپر ٹھوڑی کی طرف لے کر جاتے تو آنٹی فرحت کو پتہ نھی کیا ھوتا وہ ایک دم پنجوں کے بل کھڑی ھوجاتی اور بند آنکھوں سے چھت کی طرف منہ کیے ایک لمبی سسکاری لیتے ھوے سسسسسیییی کرکے ماسٹر جی کے ساتھ مزید چمٹ جاتی
ماسٹر جی نے اب زبان کا رخ آنٹی فرحت کے کان کی لو کی طرف کیا جیسے جیسے ماسٹر جی کی زبان آنٹی فرحت کے کان کی لو سے ھوتی ھوئی کان کے پیچھے کی طرف جاتی تو آنٹی فرحت ایک جھرجھری سی لیتی اور اپنی پھدی والے حصہ کو ماسٹر جی کے لن والے حصہ کے ساتھ رگڑتی اور منہ سے عجیب عجیب سی آوازیں نکالتی ماسٹر جی بھی آنٹی فرحت کو پاگل کرنے کے چکر میں تھے ماسٹر جی تین چار، منٹ تک ایسے ھی کبھی گالوں پر کبھی گلے پر کبھی کان کے پیچھے زبان پھیرتے رھے پھر ماسٹر جی تھوڑا نیچے ھوے اور آنٹی فرحت کے بڑے سے ممے پر لگے براون نپل پر زبان پھیرنے لگ گئے آنٹی فرحت کے ممے کا نپل کافی موٹا اور ایک دم اکڑا ھوا تھا
ماسٹر جی مسلسل اپنی زبان کو نپل پر پھیرے جا رھے تھے اور کبھی نپل کے گرد براون دائرے پر زبان گھماتے انٹی فرحت مزے سے سسسییی افففففف اممممم کری جارھی تھی
ماسٹر جی اب اپنا ایک ھاتھ انٹی فرحت کے پیٹ پر پھیر رھے تھے اور کبھی اپنی انگلی انکی ناف کے سوارخ میں پھیرنے لگ جاتے اب ماسٹر جی نے ایک ممے کو اپنے منہ میں بھر لیا تھا اور زور زور سے چوسی جارھے تھی انکی تھوک سے سارا مما گیلا ھو گیا تھا
ماسٹر جی اپنے ھاتھ کو بھی آہستہ آہستہ نیچے پھدی کے قریب لے جا رھے تھے
آنٹی فرحت کی حالت دیکھنے والی تھی انکا ھاتھ مسلسل ماسٹر جی کے سر کے بالوں کو مٹھی میں لیے ھوے تھا کبھی بالوں کو مٹھی میں بھر لیتی کبھی انگلیوں کو بالوں میں پھیرنے لگ جاتی
ماسٹر جی نے اپنا ھاتھ آنٹی فرحت کی شلوار کے نالے پر رکھ لیا اور انگلیوں سے نالے کا سرا تلاش کرنے لگ گئے آنٹی فرحت کو شاید محسوس ھوگیا تھا کہ ماسٹر جی اب اگلے کس مرحلے میں داخل ھونے کی کوشش میں ہیں اس لیے انہوں نے اپنا ایک ھاتھ جلدی سے ماسٹر جی کے ھاتھ پر رکھ کر زور سے دبا دیا ماسٹر جی نے اپنی آنکھیں اوپر کر کے انٹی فرحت کی آنکھوں میں دیکھا تو آنٹی فرحت نے نھی میں سر ہلایا جیسے کہنا چاہ رھی ھو کہ بس اس سے آگے کچھ نھی کرنا
مگر
ماسٹر وی کسے چنگے استاد دا
چھنڈیا ھویا سی
ماسٹر جی نے بڑے پیار اے اپنا ھاتھ چھڑوایا جیسے اپنا ارادہ بدل لیا ھو مگر ماسٹر جی نے ھاتھ چھڑواتے ہوے شلوار کے نالے کے سرے کو اپنی انگلیوں کے درمیان پھنسا لیا تھا
اور ایک جھٹکے سے نالا کھینچا تو آنٹی فرحت کی شلوار کا نالا کھل گیا اس سے پہلے کہ انٹی فرحت کچھ سمجھتی انکی شلوار انکے پاوں میں پڑی تھی
میری آنکھوں کے سامنے اب آنٹی فرحت کی گوری گوری موٹی بھری بھری ننگی ٹانگیں اور اوپر پٹوں کے درمیاں گولڈن رنگ کے بالوں میں ڈھکی انکی پھولی ھوی پُھدی تھی یہ سین دیکھتے ھی میرا ھاتھ خود ھی اپنے لن پر چلا گیا جو پتہ نھی کب سے کھڑا تھا اور لن پر ھاتھ جاتے ھی انگلیوں نے لن کو مسلنا شروع کردیا ،،
ادھر ماسٹر جی نے بھی موقعہ ضائع کئے بغیر جلدی سے اپنا ایک ھاتھ آنٹی فرحت کی پھدی پر رکھ دیا اور ھاتھ کی درمیانی انگلی کو پھدی کے اوپر نیچے کرنے لگ گیا انٹی فرحت نے جلدی سے اپنا ھاتھ ماسٹر جی کے ھاتھ کے اوپر رکھ کر ھاتھ کو ہٹانے لگ گئی مگر ماسٹر جی کا داو کام کر گیا تھا جلد ھی آنٹی فرحت ماسٹر جی کا ھاتھ ہٹانے کے بجاے انکے ھاتھ کو اپنے ھاتھ سے پھدی پر دبانے لگ گئی اب آنٹی فرحت اپنی ٹانگوں کو مزید کھول کر ماسٹر جی کے ھاتھ کو آگے پیچھے جانے کا راستہ دے رھی تھی ماسٹر جی نے اپنی ایک انگلی جیسے ھی پھدی کے اندر کی آنٹی فرحت کے منہ سے ایک لمبی سی سسسسسسسییی نکلی اور ساتھ ھی ماسٹر جی کا سر پکڑ کر اوپر کی طرف لے گئی اور دونوں کے ہونٹ پھر ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے اب ماسٹر جی سے ذیادہ جوش و جنون آنٹی فرحت میں تھا وہ پاگلوں کی طرح ماسٹر جی کے ہونٹ چوس رھی تھی ادھر ماسٹر کی انگلیاں سپیڈ سے پھدی کے اندر باہرھو رھی تھی
اچانک آنٹی فرحت کی آنکھیں نیم بند ھونے لگ گئی اور منہ سے ھاےےےےےے امممممم اففففففف میں گئی میں گئیییییی کی آوازیں آنے لگ گئی ماسٹر جی نے جب یہ اوازیں سنی تو اپنے ھاتھ کی سپیڈ اور تیز کردی اچانک آنٹی فرحت نے اپنی دونوں ٹانگوں کو ماسٹر جی کے ھاتھ سمیت ذور سے آپس میں بھینچ لیا اور نیچے کی طرف جھکتی گئی اتنا جھکتی گئی کہ نیچے ھی پاوں کے بل پیشاب کرنے کے انداز میں بیٹھ گئی ماسٹر جی بھی ھاتھ کے پھنسے ھونے کی وجہ سے ساتھ ساتھ نیچے ھوتے گئے آنٹی فرحت نے اپنے گٹنوں پر دونوں بازو رکھے اور بازوں پر سر رکھ کر بیٹھی رھی
کچھ دیر ایسے ھی بیٹھنے کے بعد ماسٹر جی نے آنٹی فرحت کو کھڑا کیا تو آنٹی فرحت نے اٹھتے ھوے ساتھ ھی اپنی شلوار اوپر کرلی اور ذور سے ماسٹر جی کو پیچھے کی طرف دھکا دیا اور جلدی سے اپنی شلوار کا نالا باندھ لیا ماسٹر جی حیران پریشان آنٹی فرحت کا منہ دیکھے جارھے تھے ماسٹر جی نے پھر آنٹی فرحت کو بازوں سے پکڑ کر کہا فرحت کیا ھوا تو آنٹی فرحت نے کہا چھوڑو مجھے خبردار میرے قریب مت آنا ماسٹر جی کے دماغ پر تو پھدی سوار تھی
انکی منی تو انکے دماغ کو چڑ گئی تھی چڑتی بھی کیسے نہ بیچارا ایک گھنٹے سے خوار ھورھا تھا
ماسٹر جی جب دیکھا کہ پھدی ھاتھ سے نکل رھی ھے تو جلدی سی آنٹی فرحت کو پیچھے سے جپھی ڈال لی اور آنٹی فرحت کو گھما انکا منہ پردے کی طرف کردیا آنٹی فرحت کی نظر پردے پر جیسے ھی پڑی
میرے تے ٹٹے ای تاں چڑ گئے
مجھے لگا کہ آنٹی فرحت نے مجھے دیکھ لیا ھے جبکہ میں بلکل تھوڑا سا پردہ سرکا کہ اندر دیکھ رھا تھا
میں بنا کچھ سوچے سمجھے وھاں سے بھاگا اور سیدھا کلاس کی طرف آگیا مجھے کلاس کی طرف آتے دیکھ عظمی بھی میری طرف متوجہ ھوگئی میں پسینے سے شرابور تھا اور میرے دل کی دھڑکن ٹرین کی سپیڈ جتنی تیز چل رھی تھی میں اس قدر گبھرایا اور ڈرا ھوا تھا کہ میں نے یہ بھی پروا نھی کی کہ عظمی مجھے غور سے دیکھ رھی ھے اور میں عظمی کو نظر انداز کرتا ھوا اسکے پاس سے گزر کر اپنی جگہ پر جاکر بیٹھ گیا
عظمی کو بھی میری حالت کا اندازہ ھوگیا تھا وہ گبھرائی ھوئی میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور مجھے کندھے سے پکڑ کر بولی یاسر کیا ھوا اتنی دیر کہاں لگا دی اتنے گبھراے ھوے کیوں ھو کیا ھوا سب خیریت تو ھے ناں عظمی نے ایک ھی سانس میں کئی سوال کردئے یہ تو شکر ھے کہ اس نے یہ سب آہستہ سے پوچھا تھا ورنہ پیچھے بیٹھے سب بچے سن لیتے میں نے کچھ دیر گبھراے ھوے ھی عظمی کو دیکھتا رھا اسے بتانے کو میرے پاس کوئی الفاظ نھی تھے مجھے ایسے اپنی طرف دیکھتے عظمی نے مجھے بازوں سے پکڑے پھر جنجھوڑا یاسر بولو کیا سوچ رھے ھو
میں ایک دم سکتے سے باہر آیا اور اپنی انگلی اپنے منہ پر رکھ کر اسے چپ رھنے کا اشارہ کیا اور آہستہ سے اسے کہا کہ گھر جاتے ھوے بتاوں گا ابھی چپ رھو
وہ میری حالت دیکھ کر چپ کر کے بیٹھ گئی
میرا دھیان اب کمرے کے دروازے کی طرف ھی تھا
اور دل میں کئی وسوسے آرھے تھے کہ پتہ نھی میرے ساتھ اب کیا ھوگا آنٹی فرحت نے اگر مجھے دیکھ لیا ھے تو ماسٹر جی کو ضرور بتاے گی
یاسر پتر توں تے گیا ھن
ھن تیری خیر نئی
ماسٹر جی نے تو مار مار میرا برا حال کردینا ھے اور گھر میرے گھر شکایت پہنچ گئی تو پھر ابو نے الگ سے مارنا ھے
میری اپنی قیاس آرائیاں جاری تھی تو میں ماسٹر جی کو کمرے سے باہر نکل کر تیز تیز قدموں سے کلاس کی طرف آتے دیکھا
ماسٹر جی کو آتے دیکھ کر میرا تو گلا خشک ھوگیا بیٹھے ھی میرا جسم کانپ رھا تھا
ماسٹر جی
کلاس میں آکر کرسی پر بیٹھ گئے انکے چہرے پر غصہ صاف صاف جھلک رھا تھا
اب مجھے نھی معلوم تھا کہ یہ غصہ میرے دیکھنے کا ھے یا پھدی ملنے کی ناکامی کا تھا
خیر ماسٹر جی نے بڑی کرخت آواز میں کہا یاسررررر میں ایسے اٹھ کر کھڑا ہوا جیسے میرے نیچے سے کسی سوئی چبھوئی ھو
میں نے اٹھتے ھی کہا یس سر
ماسٹر جی بولے
تمہیں کہا تھا سب بچوں کے گھر کا کام چیک کرو تم نے کیا
میں حیران پریشان کھڑا تھا مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ ماسٹر جی نے صرف کلاس کا دھیان رکھنے کا کہا تھا
میں نے کہا نھی سر آپ نے مجھے صرف دھیان رکھنے کا کہا تھا
تو ماسٹر جی غصہ سے بولے الو کے پٹھے اگر نھی کہا تھا تو کرلیتے تمہیں مانیٹر کس لیے بنایا ھے
بیٹھ جاو
میں جلدی سے بیٹھ گیا
اور دل میں ماسٹر جی کو برا بھلا کہنے لگ گیا
کہ گانڈو تینوں پھدی نئی ملی ایدے وچ وی میرا ای قصور اے
پھر ماسٹر جی نے سب بچوں کو ہوم ورک چیک کروانے کا کہا اور باری باری سب کا ہوم ورک چیک کرنے لگ گئے
ماسٹر جی نے پھدی کی ناکامی کا سارا غصہ ان بچوں پر نکالا جنہوں نے ہوم ورک نھی کیا ھوا تھا
مجھے کچھ تسلی ھوگئی تھی کہ ماسٹر جی کو نھی پتہ چلا کہ میں بھی انکی پھدی لینے کی خواری کو دیکھ رھا تھا
چھٹی سے گھر واپس آرھے تھے تو نسرین عظمی اور محلے کے کچھ بچے بھی ہمارے ساتھ ساتھ ھی تھے مجھے عظمی کے چہرے پر کافی بےچینی سی نظر آرھی تھی
ہم سب اکٹھے ھی چل رھے تھے کہ اچانک عظمی نے ھاتھ میں پکڑا دستہ نیچے پھینک دیا اور ظاہر ایسے کروایا جیسے خود ھی اسکے ھاتھ سے نیچے گرا ھو اور عظمی نیچے بیٹھ کر دستہ اٹھانے لگ گئی میں بھی اس کے پاس کھڑا ھوگیا جبکہ نسرین سمیت باقی بچے آگے گزر گئے عظمی نے جب دیکھا کہ ساتھ والے بچے اب کچھ آگے چلے گئے ہیں تو وہ اٹھ کھڑی ھوئی اور ہم دونوں گھر کی طرف چلنے لگ گئے تو عظمی نے مجھ سے کہا اب بتاو کیا ھوا تھا
میں نے کہا یار بتا دوں گا صبر تو کرو تو عظمی بولی ابھی بتا دو کیا مسئلہ ھے تو میں نے کہا یار یہ لمبی بات ھے ہمارا گھر آنے والا ھے اتنی جلدی کیسے بتا دوں تو عظمی بولی جلدی جلدی بتاو کہ ھوا کیا تھا جو اتنا ڈرے ھوے تھے تو میں نے کہا یار وہ ماسٹر جی اور آنٹی فرحت،،،،،،،
یہ کہہ کر میں پھر چپ ھوگیا اتنے میں ھم اپنی گلی کا موڑ مڑ کر گلی میں داخل ھوچکے تھے اور کچھ آگے نسرین اکیلی کھڑی ھمارا انتظار کررھی تھی نسرین کو دیکھ کر میں نے شکر ادا کیا کہ فلحال جان چھوٹی عظمی نے مجھے پھر کہنی ماری بولو کیا ماسٹر جی اور آنٹی فرحت تو میں نے بھی اسے کہنی مارتے ھوے سامنے نسرین کی طرف اشارہ کرتے ھوے خاموش کرادیا اور پھر بتاوں گا کہہ کر ٹال دیا اتنے میں ہم نسرین کے پاس پہنچ گئے تو نسرین بولی
تواڈے دوناں دیا لتاں ٹُٹیاں ھویاں نے لتاں کڑیس کڑیس کے ٹُردے او
میں نے شوخی سے کہا
تینوں جے پر لگے ھوے نے جیڑا اوڈ کے اگے اگے پہنچ جانی اے
تو نسرین پھوں پھوں کرتی چل پڑی پہلے میرا گھر آیا میں ان دونوں کو بات بات کرتا گھر داخل ھوگیا اور امی جان جو سلام کیا اور کمرے کی طرف چل دیا سکول بیگ رکھا اور دھڑم سے چارپائی پر گر گیا جیسے بڑی محنت مزدوری کر کے آیا ھوں
لیٹتے ھی آنکھیں بند کرلی اور ماسٹر جی اور فرحت کے بارے میں سوچنے لگ گیا
دوستو فرحت کو اب میں انٹی نھی بولوں گا سالی اب اس لائق ھی نھی رھی،،،،
میری آنکھوں کے سامنے فرحت کے گورے گورے خربوزے جتنے ممے آرھے تھے کیا گول مٹول نرم سے چٹے سفید دودہ سے بھرے پیالے تھے جسکو ماسٹر منہ لگا کر مزے لے لے کر پی رھا تھا کیا گورا پیٹ جو بلکل اندر کی طرف تھا کیا کمال کی گوری چٹی ٹانگیں
کیا موٹے گول گول پٹ تھے اور انکے درمیاں گولڈن پھدی واہ کیا بات تھی ماسٹر گانڈو تو بڑا خوش قسمت نکلا
یہ سوچتے سوچتے مجھے نھی پتہ چلا کب میں اپنے لن کو پکڑ کر مسلی جا رھا ھوں اور لن ساب بھی ٹنا ٹن کھڑے تھے
کہ اچانک امی جان کی آواز نے مجھے خیالوں سے لا باھر پھینکا
یاسررررر
امی کی آواز سنتے ھی میں ہڑبڑا کر اٹھ کر بیٹھ گیا اور اونچی آواز میں بولا جی امی جی
تو امی کی برآمدے سے پھر آواز آئی پتر آکر روٹی کھا لو
میں جلدی سے اٹھا اور باہر برامدے میں آکر امی کے پاس بیٹھ گیا جو چولہے پر روٹیاں پکا رھی تھی
روٹی کھا کر میں پھر کمرے میں آگیا اور ہوم ورک کرنے لگ گیا ہوم ورک کر کے میں پھر لیٹ گیا اور پتہ نھی کب میری آنکھ لگی جب میں اٹھا تو اس وقت چاربج رھے تھے
امی نے بتایا کہ دو دفعہ عظمی تمہیں بلانے آئی تھی کہ امی یاسر کو بلا رھی ھے
تبھی میری بہن نازی جسکا اصل نام نازیہ تھا پیار سے اسے ناشی کہتے تھے وہ بولی ان لوگوں نے اسے نوکر سمجھا ھوا ھے جب بھی کوئی کام ھوتا ھے تو منہ اٹھا کر اسے بلانے آجاتے ہیں اور یہ نواب زادہ گھر میں تو نواب بن کر رھتا ھے اور ان کے گھر نوکری کر کے خوش ھے
امی نے میری بہن کو ڈانٹا کہ بکواس نہ کر فوزیہ اسے اپنا بیٹا سمجھتی ھے اور اپنی بیٹیوں سے بڑھ کر اسے پیار کرتی ھے اس لیے مان سے اسے کوئی باھر کا کام کہہ دیتی ھے اگر یہ انکا کوئی کام کربھی دیتا ھے تو تمہیں کیا تکلیف ھے
امی کی ڈانٹ سن کر نازی غصہ سے میری طرف دیکھتی باہر نکل گئی میں نے بھی اسے جاتے جاتے منہ چڑھا دیا اور باہر کو نکل گیا باہر گلی میں آتے ھی میں نے اپنا رخ سیدھا آنٹی فوزیہ کے گھر کی طرف کیا اور سیدھا انکے دروازے پر جا پہنچا جب میں اندر داخل ھوا تو انٹی فوزیہ کو سلام کیا اور ان سے اپنے سر پر پیار لیا
تو آنٹی بولی کھل گئی آنکھ میرے شہزادے کی تو میں نے کہا جی آنٹی مجھے امی نے بتایا تھا کہ عظمی دو دفعہ مجھے بلانے آئی تھی خیریت تو ھے کچھ منگوانا تھا تو آنٹی بولی
پتر کنک کے دانے شیدے کی چکی پر چھوڑ آ شام کو جاکر پھر لے آنا میں نے آنٹی کے حکم کی تعمیل کرتے ھوے کہا جی آنٹی جی ابھی چھوڑ آتا ہوں میں نے چاروں طرف نظر گھمائی تو مجھے عظمی اور نسرین نظر نھی آئیں میں نے انٹی سے ان دونوں کا پوچھا تو آنٹی نے بتایا کہ نسریں تو مَلکوں کے گھر ٹیویشن پڑھنے چلی گئی مگر عظمی اندر کمرے میں ہے دھونے والے کپڑے اکھٹے کر رھی ھے کل جمعہ ھے تو ان دونوں بہنوں کو سکول سے تو چھٹی ھوگی تو ہم نے کل نہر پر کپڑے دھونے جانا ھے
میں نے ھممم کر کے سر ہلایا اور انٹی سے گندم کا پوچھا تو آنٹی بولی پتر تم سائکل صحن میں نکالو اور میں کنک کا توڑا اٹھا کر لے آتی ہوں تم سے تو اٹھایا نھی جانا میں نے جلدی سے دیوار کے ساتھ لگی سائکل کو پکڑا اور اسے لے کر صحن میں باھر کے دروازے کی طرف منہ کر کے کھڑا ھوگیا آنٹی اتنی دیر میں گندم کا تھیلا اٹھا کر لے آئی آنٹی نے دوپٹہ نھی لیا ھوا تھا جیسے ھی انٹی گندم کا تھیلا سائکل کے فریم میں رکھنے کے لیے جھکی تو ان کے کھلے گلے سے دونوں مموں کا نظارا میرے سامنے تھا آنٹی فوزیہ کے ننگے ممے دیکھ کر ایکدم میری انکھوں کے سامنے فرحت کے گورے چٹے ممے آگئے اور میں ٹکٹکی باندھے آنٹی فوزیہ کے گلے میں جھانکی جا رھا تھا اور آنٹی فوزیہ میری گندی نظروں سے بے خبر اپنے دھیان گندم کے تھیلے کو سائکل کے فریم میں چین کے کور کے اوپر. سیٹ کر رھی تھی
جیسے ذور ذور سے تھیلے کو ادھر ادھر کرتی تو ویسے ھی آنٹی کے گورے گورے دودہ کے پیالے چھلکتے میں نددیدوں کی طرح آنٹی کے ممے دیکھی جارھا تھا ،
دوستو ایسا پہلے بھی ھوتا ھوگا مگر میں نے پہلے کبھی ایسا ریکٹ نھی کیا تھا تب میری معصومیت بچپنا اور سیکس سے ناآشنائی کی وجہ تھی اور یہ ھی وجہ تھی کہ آنٹی نے مجھے دیکھ کر کبھی بھی سر پر دوپٹہ یا سینے کو دوپٹے سے ڈھانپا نھی تھا جس حال میں بھی آنٹی فوزیہ بیٹھی ھوتی ویسے ھی رھتی انکی نظر میں
میں بچہ تھا معصوم تھا
مگر سالے ماسٹر کی کرتوت نے میرے اندر سیکس کی چنگاری بھر دی تھی اور میرے اندر کے مرد نے اپنی ایک آنکھ کھول لی تھی
آنٹی نے گندم کا تھیلا سہی کرکے رکھ دیا اور میں سائکل کو لے کر پیدل ھی گھر سے باہر نکل آیا سائکل کا ہنڈل بھی آگے سے ہل رھا تھا اور میں ڈگمگاتے ھوے چلا جارھا تھا کہ اچانک مجھے پیچھے سے عظمی کی آواز آئی جو مجھے رکنے کا کہہ رھی تھی میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عظمی دوڑتی ھوئی آرھی تھی میں اسے دیکھ کر رک گیا
تبھی عظمی میرے پاس آکر رکی اور اپنی ہتھیلی کھول کر میرے آگے کردی اور بولی بُدھو پیسے تو لیتا جا میں نے اسکی ہتھیلی سے ایک روپیہ پکڑا اور اپنی قمیض کی اگلی جیب میں ڈال لیا اور پھر سے چل پڑا عظمی بھی میرے ساتھ ساتھ سائکل کو پیچھے سے پکڑے چلی آرھی تھی تو میں نے اسے کہا یار تم جاو میں دانے لے جاوں گا تو وہ بولی ذیادہ شوخا نہ بن اور کل والے واقعہ کا بتا کہ کیا ھوا تھا میں اسی لیے تمہارے پیچھے آئی ھوں
میں عظمی کی بات سن کر پریشان ھوگیا تو اور بولا یار کچھ بھی نھی ھے
تو عظمی نے غصہ سے کہا سیدھی طرح کہو کہ بتانا نھی چاھتے
میں نے کہا نھی یار ایسی بات نھی ھے
تو عظمی بولی
تو بتاو پھر
میں نے کہا یار تم لڑکی ھو میں تم سے گندی بات نھی کرسکتا اب کیسے تم سے گندی باتیں کروں،
تو عظمی ایک دم غصہ میں آگئی اور بولی،
میں تیری بوتھی نہ پن دیواں گی جے میرے نال گندی گل کیتی
تو میں نے کہا
دُرفٹے منہ تیرا
میں ماسٹر جی اور انٹی فرحت کی بات کررھا ھوں
تو وہ بولی تم بتاو نہ پھر کیا دیکھا تھا تم
تو میں نے کہا یار دفعہ کرو کوئی اور بات کرو
تو عظمی نے غصہ سے سائکل کو چھوڑا اور رک کر کھڑی ھوگئی اور مجھے گھورتے ھوے بولی
جا دفعہ ھو نئی تے نہ سئی مینوں اج توں بعد نی بُلائیں تیری میری کٹی اور یہ کہتے ھوے اپنی چیچی چھوٹی انگلی میری طرف کرتے ھوے واپس بھاگ گئی
دوستو اس وقت ہماری ناراضگی کٹی اور صلح پکی سے ھوا کرتی تھی
میں جلدی جلدی گندم چکی پر چھوڑ کر واپس آنٹی کے گھر آگیا اور دیکھا عظمی گھر میں نھی تھی تو میں نے آنٹی سے پوچھا تو آنٹی نے بتایا کہ وہ تو تمہیں پیسے دینے گئی تھی میں تو سمجھی کے تمہارے ساتھ ھی چلی گئی ھوگی
تو میں نے کہا آنٹی وہ تو اسی وقت واپس آگئی تھی
آنٹی بولی
فیر او وان (کھیت) وچ دفعہ ھوگئی ھونی اے
میں نے انٹی سے کہا میں دیکھ کر آتا ھو
تب تک شام ڈھلنے والی تھی
میں گلی کی نکڑ پر پینچا تو سامنے دیکھا عظمی سامنے کھیت کی پگڈنڈی پر بیٹھی ھوئی تھی اور کھیت میں کھیلتے ھوے بچوں کو دیکھ رھی تھی
میں نے سڑک کراس کی اور کھیت میں داخل ھوگیا مجھے اپنی طرف آتے دیکھ کر عظمی وھاں سے اٹھی اور کھیت کی دوسری طرف بنی پگڈنڈی کی طرف چل پڑی میں نے بھی اپنا رخ اسی طرف کردیا اور عظمی کے کچھ فاصلے پر اسکے پیچھے پیچھے چلتا ھوا اس کے سر پر جا پہنچا تب تک عظمی پگڈنڈی پر بیٹھ چکی تھی
میں بھی اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا عظمی تھوڑا کھسک کر مجھے سے دور ھوکر بیٹھ گئی میں بھی کھسک کر اسکے اور قریب ھوگیا عظمی نے میری طرف غصے سے دیکھا اور بولی
کی تکلیف اے میرے پِچھے کیوں پیا ایں اپنی جگہ تے جا کہ بیٹھ
میں نے کہا اپنی جگہ پر ھی بیٹھا ھوں تمہاری گود میں تو نھی بیٹھا
تو عظمی بولی
جا دفعہ ھو جان چھڈ میری
میں نے کہا یار ناراض کس بات پر ھو کچھ باتیں ایسی بھی ھوتی ھیں جو لڑکیوں سے نھی کی جاتی
تم ایسے فضول میں منہ بنا کر بیٹھ گئی ھو
تو عظمی بولی
میں تیرے کولوں کش پُچھیا اے جیڑا توں مینوں نئی دسنا جا اپنا کم کر جا کہ
عظمی کا رویہ مجھ سے برداشت نہ ھوا میں نے اسکا بازو پکڑا اور رونے والے انداز سے کہا
چل آ تینوں دسدا آں
تو عظمی نے غصہ سے اپنا بازو مجھ سے چھڑوایا اور بڑے غصیلے انداز سے بولی
تینوں سُندا نئی اک دفعہ کے دتا اے ناں کہ میں کُش نئی سُننا جا جان چھڈ میری
میرا رونا تے پہلے ای وٹ تے پیا سی
میں روتے ھوے وھاں سے اٹھا اور کھیت سے ھوتا ھوا کپاس کے کھیت کے ساتھ پانی والے کھالے کی پگڈنڈی پر بیٹھ گیا اور اپنے گُٹنوں میں سر دے کر رونے لگ گیا
دوستو میں گھر اور محلے میں سب لڑکوں سے خوبصورت لاڈلا ھونے کی وجہ سے بہت احساس دل تھا مجھ سے کسی کی ذرا سی بھی ڈانٹ یا پریشانی برداشت نھی ھوتی تھی
اسی وجہ سے عظمی کے سخت رویعے کی وجہ سے روتے ھو میری ہچکی بندھ گئی تھی
مجھے ایسے روتے ھوے بیٹھے کچھ ھی دیر ھوئی تھی کہ مجھے اپنے دائیں کندھے پر نرم سے ھاتھ محسوس ھوے تو میں نے سر اٹھا کر پہلے دائیں طرف اپنے کندھے پر رکھے ہاتھ کو دیکھا اور پھر بائیں طرف گردن گھما کر دیکھا تو عظمی بیٹھی تھی اور پیار سے میرے دائیں کندھے پر ھاتھ رکھ کر مجھے اپنی طرف کھینچتے ھوے چپ کرا رھی تھی
عظمی بولی
میرے شونے کو غصہ آگیا ھے
میں نے غصے سے اپنے کندھے اچکاے اور منہ دوسری طرف کر کے بیٹھ گیا عظمی پھر بولی
میرا چھونا چھونا کاکا نراج ھوگیا اے
اچھا ادھر منہ کرو میری طرف عظمی نے میری ٹھوڑی کو پکڑ کر اپنی طرف منہ کیا اور اپنے دونوں ھاتھ اپنے کانوں کی طرف لے گئی اور اپنے کان پکڑ کر کہنے لگی
معاف کردو سوری بابا
تو میں اسکی معصومیت اور ادا دیکھ کر نا چاہتے ھوے بھی ہنس پڑا
تو عظمی نے شوخی سے میرے کندھے پر چپیڑ ماری اور بولی
چل شوخا
اور ہم دونوں ھنس پڑے
عظمی بولی اچھا بتاو کیا بتانا تھا
تو میں نے کہا
یار بات ایسی ھے کی میں ادھر نھی بتا سکتا اگر کسی نے ہماری بات سن لی تو ہم دونوں کی خیر نھی ایسا کرو کل جب تم آنٹی کے ساتھ کپڑے دھونے نہر پر جاو گی تو تب. میں بھی تم لوگوں کے ساتھ چلوں گا ادھر موقع دیکھ کر بتاوں گا
تو عظمی نے بھی اثبات میں سر ہلایا اور ہم پھر کھیلتے ھوے بچوں میں شامل ھوکر کھیلنے لگ گئے
اگلے دن جمعہ تھا سکول سے ہمیں چھُٹی تھی
میں صبح جلدی اٹھا ناشتہ کرکے امی جان کو فوزیہ آنٹی کے گھر جانے کا کہہ کر باہر گلی میں آگیا اور سیدھا آنٹی کے گھر پہنچ گیا گھر میں داخل ہوتے ھی آنٹی کو سلام کیا اور انکل بھی آج گھر ھی تھے انکو بھی سلام کیا انکل مجھے چھیڑنے لگ گئے کہ
یاسر پتر سنا ھے تم شہری بابو بننے جارھے ھو
میں نے شرماتے ھوے کہا جی انکل میرا ارادہ تو اسی سال تھا کہ شہر میں داخلہ لے لوں مگر امی جان نھی مانی تو انکل نے مجھے پیار سے ساتھ لگا لیا اور میرے سر پر ھاتھ پھیرتے کہنے لگے
چلو چنگی گل اے اگلے سال توں تھوڑا برا ھوجاے گا اور سمجھدار بھی اور پھر تیری دونوں بہنیں بھی شہر ھی جانے لگ جائیں انکے ساتھ ھی چلے جایا کرنا میں ھاں میں سر ہلاتا ھوا انکل کے پاس سے اٹھا اور آنٹی فوزیہ کی طرف چل پڑا جو چارپائی پر بیٹھی قینچی سے اپنے پاوں کے ناخن کاٹ رھی تھی میں نے پیچھے سے جاکر آنٹی کے گلے میں اپنی دونوں باہیں ڈال کر بڑے رومیٹک انداز سے آنٹی فوزیہ کو جپھی ڈال لی ،
آنٹی فوزیہ نے ہلکے نیلے رنگ کا سوٹ پہنا ھوا تھا جسے ہلکا فروزی بھی کہا جاسکتا تھا سوٹ کا کلر ہلکا ہونے کی وجہ سے پیچھے سے آنٹی کے کالے رنگ کے بریزئیر کے سٹرپ صاف نظر آرھے تھے
اور سوٹ کا کلر
انٹی پر بہت جچ رھا تھا
میں نے انٹی کو چھیڑتے کہا کہ آنٹی خیر ھے آج بڑی تیار شیار ھوئی ھو شادی پر جارھی ھو یا پھر آج انکل گھر پر ہیں اس لیے تو آنٹی فوزیہ
حیرت سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی
چل گندا بچہ شرم نھی آتی اپنی انٹی سے ایسے بات کرتے ھوے
اور ساتھ ھی انکل کی طرف دیکھتے ھوے کہا سن لو عظمی کے ابا ہمارا شہزادا ابھی شہر نھی گیا مگر اسکو شہر کی ہوا لگ گئی ھے تو انکل بھی اونچی آ واز میں ہنستے ھوے کہنے لگے منڈا جوان ھوگیا اے اسی لیے تم پر لائن مار رھا ھے
میں شرمندہ سا ھو کر جھینپ سا گیا اور جلدی سے آنٹی کے گلے سے اپنی باہیں نکالی اور کمرے میں عظمی لوگوں کے پاس بھاگ گیا مجھے پیچھے سے آنٹی اور انکل کے قہقہوں کی آواز سنائی
اور آنٹی ہنستے ھوے کہہ رھی تھی
گل تے سن کتھے چلاں آں
مگر تب تک میں کمرے میں داخل ھوچکا تھا
اندر گیا تو عظمی اور نسرین کسی بات پر اپس میں بحث کررھی تھی مجھے دیکھ کر دونوں خاموش ھوگئی تو نسرین نے ناک چڑھاتے ھوے کہا آگیا ویلا
تو میں نے بھی اسی کے سٹائل میں اسے جواب دیتے ھوے کہا
توں تے بڑی کاموں اے سارا دن پڑھائی دا بہانہ بنا کہ ویلی بیٹھی ریندی ایں
سارا کام آنٹی کو کرنا پڑتا ھے کھوتے جنی ھوگئی ایں ہانڈی روٹی وی کرلیا کر
عظمی کھلکھلا کر ہنس پڑی تو نسرین کا تیور اور چڑھ گیا اس نے عظمی کو مارنا شروع کردیا
میں جاکر انکے ساتھ بیٹھ گیا کافی دیر ھماری آپس میں نوک جھونک جاری رھی
تقریباً ایک گھنٹے کہ بعد آنٹی اندر آئی اور عظمی اور نسرین کو کہنے لگی
چلو کُڑیو جلدی نال کہڑے چُکو تے نہر تے چلو میرے نال
نسرین نے برا سا منہ بنایا اور اٹھ کر باہر نکل گئی اس کے پیچھے ھی میں اور عظمی بھی کمرے سے باہر نکل آے
کپڑوں کی ایک گٹھڑی عظمی نے سر پر اٹھائی ایک نسرین نے اور ایک میں نے اور آنٹی نے باقی کا سامان صابن کپڑے دھونے والا ڈنڈا اور دیگر ضروری چیزیں ایک لوھے کے تانبیے میں ڈال کر سر پر رکھا اور کپڑے دھونے والا ڈنڈا ھاتھ میں پکڑا اور ہم گھر سے نہر کی طرف چل پڑے کھیتوں میں پہنچ کر آگے پگڈنڈی شروع ھوجاتی تھی جو کھیتوں کے بیچو بیچ نہر کی طرف جاتی تھی ہم سب آگے پیچھے چلتے ھوے نہر کی طرف جار رھے تھے سب سے آگے نسرین تھی اسکے پیچھے عظمی اور اسکے پیچھے میں اور میرے پیچھے آنٹی فوزیہ تھی ہم لڑکھڑاتے ھوے جارھے تھے کیوں کہ پگڈنڈی کی جگہ ہموار نھی تھی کہ اچانک میری نظر عظمی کی گول مٹول بُنڈ پر پڑی جو باہر کو نکلی ھوئی تھی اور اس کے ڈگمگا کر چلنے کی وجہ سے کبھی تھرتھراتی کبھی بُنڈ کی ایک پھاڑی اوپر جاتی کبھی دوسری عظمی کی سیکسی بُنڈ دیکھ کر میں تو سب کچھ بھول چکا تھا اور میری نظر عظمی کی ہلتی ھوئی بنڈ کے نظارے کررھی تھی ہم ایسے ھی چلتے چلتے نہر پر پہنچ گئے اور نہر کے کنارے پر جاکر صاف جگہ دیکھ کر کپڑوں کی گھٹڑیاں نیچے گھاس پر رکھ دی اور بیٹھ کر لمبے لمبے سانس لینے لگ گئے
انٹی نہر کے پانی کے پاس کنارے پر بیٹھ گئی اور ہمیں ایک گٹھڑی کھولنے کو کہا میں جلدی سی اٹھا اور ایک گٹھڑی کو کھولا اور اس میں سے کپڑے نکال نکال کر آنٹی کو دینے لگ گیا جس میں ذیادہ کپڑے انکل کے ھی تھے
آنٹی فوزیہ نے اپنا دوپٹہ اتارا اور پاوں کے بل. بیٹھ کر کپڑے دھونے لگ گئی میری جب نظر آنٹی کے گلے پر پڑی تو آنٹی کی قمیض کا گلا کافی کھلا تھا اور اس میں چٹا سفید آنٹی کا سینہ دعوت نظارہ دے رھا تھا میں آنٹی کے سامنے کھڑا آنٹی کو کپڑے دھوتے دیکھ رھا تھا اور عظمی اور نسرین باقی کی گٹھڑیوں کو کھولنے میں مصروف تھی
وہ دونوں گٹھڑیوں کو کھولنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ چونچیں بھی لڑا رھی تھی اس لیے انکا دھیان میری طرف نھی تھا
پھر آنٹی نے ایک قمیض کو صابن لگانا شروع کردیا صابن لگانے اور قمیض پر برش مارنے کی وجہ سے آنٹی کو تھوڑا نیچے کی طرف جھکنا پڑا جسکا فائدہ مجھے یہ ھوا کہ آنٹی کے مموں کے درمیانی لائن مجھے صاف نظر آنے لگ گئی اور میں اس نظارے کو دیکھ کر بہت لطف اندوز ھورھا تھا اور آنٹی جب قمیض پر برش مارتی تو آنٹی کے بڑے بڑے ممے ذور ذور سے اچھل کر قمیض کے گلے سے باہر کو آنے کے لیے بے تاب ہوجاتے تھے اور یہ سب دیکھ کر میری حالت قصائی کے پھٹے کے سامنے کھڑے کُتے جیسی تھی،
دوستو آنٹی فوزیہ کہ بارے میں اس وقت بھی میرے دل دماغ کوئی غلط خیال نھی تھا
بس پتہ نھی کیوں مجھے آنٹی کی بُنڈ اور مموں کو دیکھ کر ایک عجیب سا نشہ ھوجاتا اور یہ سب کچھ کرتے مجھے بہت اچھا محسوس ھوتا،،،
میں انٹی کے مموں میں کھویا ھوا تھا کہ انٹی نے قمیض پر برش مارنا بند کیا اور قمیض کو اٹھا کر نہر میں ڈبونے کے لیے جُھکی
تو دوستو یقین کرو بے ساختہ میری ایڑھیاں اوپر کو اٹھی جو نظارا میرے سامنے تھا میرا بس چلتا تو اسی وقت آگے بڑھ کر آنٹی کے دونوں دودھیا رنگ کے مموں کو اپنے دونوں دونوں ھاتھوں کی مٹھیوں میں بھر لیتا اور ذور سے سائکل پر لگے پاں پاں کرنے والے ھارن کی طرح بجانے لگ جاتا
آنٹی فوزیہ کے دونوں ممے گلے سے بلکل باہر کی طرف تھے اور میں یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کہ آنٹی نے برا بھی نھی پہنی ھوئی تھی شاید آتے ھوے گھر ھی اتار آئی تھی آنٹی کےمموں کے صرف نپل ھی قمیض کے گلے کے کنارے پر اٹکے ھوے تھے اور انکے مموں پر گول براون دائرہ بھی نظر آرھا تھا
یہ دیکھ کر میرا تو حلق خشک ھونے لگ گیا
کہتے ہیں نہ کہ عورت کی چھٹی حس بہت تیز ھوتی ھے اسے اسی وقت پتہ چل جاتا ھے کہ کون اسکی طرف دیکھ رھا ھے اور اسکے جسم کے کون سے اعضا پر نظر کا تیر لگ رھا ھے
یہ ھی میرے ساتھ ھوا آنٹی کی چھٹی حس نے کام کیا اور آنٹی نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا
میں آنٹی کے مموں میں اسقدر کھویا ھوا تھا کہ مجھے یہ بھی احساس نھی ھوا کہ آنٹی مجھے دیکھ رھی ھے اچانک آنٹی نے اپنا ایک ھاتھ اپنے سینے پر رکھا اور مجھے آواز دی کہ یاسر
میں انٹی کی آواز سن کر ہڑبڑا گیا اور گبھرا کر آنٹی کی آنکھوں میں انکھیں ڈال کر بولا جی آنٹی جی
تو آنٹی ہلکے سے مسکرائی اور بولی بیٹا ادھر جا کر اپنی بہنوں کے ساتھ بیٹھ جاو ادھر پانی کے چھینٹے تم پر پڑ رھے ہیں میں شرمندہ سا سر جھکائے عظمی لوگوں کے پاس جاکر بیٹھ گیا شرم کے مارے میں نے دوبارا آنٹی کی طرف نھی دیکھا بلکہ انکی طرف پیٹھ کرکے منہ کھیتوں کی طرف کر کے بیٹھ گیا
کچھ دیر بیٹھنے کے بعد آنٹی کی آواز آئی کی عظمی یہ کپڑے سوکھنے کے لیے ڈال دو عظمی جلدی سے اٹھی اور کپڑوں کا لوھے کا ٹپ جسے ہم تانبیہ اور بٹھل بھی کہتے تھے اٹھا کر نہر کے کنارے سے نیچے اترنے لگی مگر جگہ ہموار نہ ہونے کی وجہ سے اس سے نیچے نھی اترا جارھا تھا تبھی اس نے مجھے آواز دی کہ یاسر کپڑے نیچے لے جاو مجھ سے نھی یہ اٹھا کر نیچے جایا جا رھا میں جلدی سے اس کے پاس پہنچا اور کپڑے پکڑ کر نیچے اترنے لگ گیا وہ بھی میرے پیچھے پیچھے نیچے آرھی تھی
نیچے آکر عظمی نے اپنا دوپٹہ اتار کر مجھے پکڑایا اور اپنے بالوں کو پیچھے سے پکڑ کر گول کر کے پونی کرنے لگ گئی ایسے کرنے سے اس کے ممے بلکل اوپر کو ھوگئے میری پھر نظر عظمی کے مموں پر ٹک گئی عظمی نے میری طرف دیکھا اور آنکھ کے اشارے کے ساتھ اپنا سر اوپر کو ہلاتے ھوے مجھ سے پوچھا کیا ھے میں اس کے اچانک اس اشارے سے کنفیوژ سا ھوگیا اور اسے کہنے لگا جججججلدی کپڑے ڈال لو آنٹی نے پھر آواز دے دینی ھے
تو عظمی جلدی جلدی کپڑوں کو نہر کے کنارے پر اگی صاف گھاس کے اوپر پھیلانے لگ گئی
میں اپنی ان حرکتوں سے خود بڑا پریشان ھوگیا تھا
اور دل ھی دل میں ماسٹر اور فرحت کو گالیاں دینے لگ گیا
کہ
گشتی دے بچیاں نے مینوں وی کیڑے کم تے لادتا اے
چنگا پلا شریف بچہ سی
تبھی عظمی نے سارے کپڑے پھیلا دیے اور مجھے اوپر چلنے کا کہا تو میں اسکے پیچھے پیچھے اسکی ہلتی گانڈ کا نظارا کرتے کرتے اوپر چڑھنے لگ گیا
ہم پھر جاکر اسی جگہ بیٹھ گئے فرق بس اتنا تھا کہ اب میرا منہ آنٹی کی طرف تھا انٹی میرے سامنے سائڈ پوز لیے بیٹھی کپڑے دھو رھی تھی آنٹی کے کپڑے بھی کافی گیلے ہو چکے تھے جس میں سے انکی ران صاف نظر آرھی تھی اور سائڈ سے کبھی کبھی مما بھی نظر آجاتا
آنٹی نے پھر آواز دی کے یہ بھی کپڑے سُکنے ڈال دو میں جلدی سے اٹھا اور کپڑوں کا ٹب پکڑا اور عظمی کو ساتھ لیے نیچے اگیا اب ہم کچھ دور چلے گئے تھے کیوں کہ اب وہاں کوئی صاف جگہ نھی تھی اس لیے ہم تھوڑا آگے مکئی کی فصل کے پاس چلے گئے
تو عظمی بولی اب بتاو مجھے کیا بتانا تھا
میں انٹی لوگوں کی طرف دیکھنے کی کوشش کی مگر وہ اونچی جگہ اور ذیادہ فاصلے کی وجہ سے نظر نہ آے تو میں نے عظمی کو کہا تم ساتھ ساتھ کپڑے ڈالتی جاو میں تمہیں بتاتا جاوں گا تو عظمی نے اثبات میں سر ہلایا میں نے عظمی کو کہا کہ دیکھو یہ بات تمہارے اور میرے درمیان میں ھی رھے ورنہ ہم دونوں پھنسیں گے بلکہ تم یہ بات نسرین کے ساتھ بھی مت کرنا عظمی بولی تم نے مجھے پاگل سمجھ رکھا ھے جو میں کسی کو بتاوں گی
میں نے کہا اس دن ماسٹر اور فرحت گندے کام کر رھے تھے میں انکو دیکھ رھا تھا کہ اچانک فرحت کی نظر مجھ پر پڑی تو میں ڈر کر بھاگ آیا ،،،
عظمی حیرانگی سے بولی کون سا گندا کام کررہے تھے میں پریشان ہوکر بات بناتے ہوے بولا وہ ھی گندا کام تو عظمی معصومیت سے میری طرف منہ کر کے بولی کون ساااااااا
میں نے گبھراے ھوے لہجے میں کہا یار اب میں کیسے بتاوں مجھے شرم آرھی ھے تو عظمی بولی دیکھتے ھوے شرم نھی آئی تھی جو اب بتاتے ھوے شرم آرھی ھے تو میں نے کہا یار میں کون سا انکو دیکھنے کے لیے اندر گیا تھا وووہ تو مجھے آنٹی فرحت کی چیخ سنائی دی تھی تو میں گبھرا کر اندر دیکھنے چلا گیا کہ پتہ نھی آنٹی کو کیا ھوا ھوگا مگر جب میں اندر گیا تو آنٹی فرحت اور ماسٹر جی،،،
یہ کہہ کر میں پھر چپ ھوگیا تو عظمی جھنجھلا کر بولی
درفٹے منہ اگے وی بولیں گا کہ نئی
میں سر کے بالوں میں ھاتھ پھیرتے ھوے سر کُھجاتے ہوے نیچے منہ کر کے بولا
ماسٹر جی نے فرحت آنٹی کو ننگا کیا ھوا تھا اور جپھی ڈالی ھوئی تھی
اور دونوں ایک دوسرے کی چُمیاں لے رھے تھے
اور ماسٹر جی نے انٹی کے دودو ننگے ھی پکڑے ھوے تھے
میں نے ایک سانس میں ھی اتنا کچھ بتا دیا
عظمی میرے بات سنتے ھی ایسے اچھلی جیسے اسے کسی سانپ نے کاٹ لیا ھو
اور اپنے دونوں ھاتھ منہ کے اگے رکھ کر بولی
ھاےےےے ****** میں مرگئی
فیر
میں ابھی آگے بتانے ھی لگا تھا کہ نسرین نے نہر کے اوپر سے ہماری طرف آتے ھوے آواز دے دی کہ
امی بلا رئی اے تواڈیاں گلاں ای نئی مُکن دیاں
میں نے عظمی کو کہا یار کل جب ہم کھیلنے آئیں گے تو تفصیل سے ساری بات بتاوں گا
ابھی چلو ورنہ آنٹی غصہ ھونگی
میں یہ کہہ کر نہر کے اوپر چڑھنے کے لیے چل پڑا میرے پیچھے پیچھے. عظمی بھی بڑبڑاتی نسرین کو گالیاں دیتی آگئی۔
کچھ دیر مذید ہم نہر پر ھی رھے پھر ہم نے سارے کپڑے سمیٹے اور پہلے کی طرح آگے پیچھے چلتے ہوے ہنسی مزاق کرتے گھر کی طرف چل پڑے راستے میں بھی کوئی خاص بات نھی ھوئی
مگر نجانے کیوں میں آنٹی سے نظریں چرا رھا تھا
ایسے ھی چلتے ہوے ھم گھر پہنچ گئے
اگلے دن سکول میں کچھ خاص نھی ھوا شام کو میں آنٹی فوزیہ کے گھر گیا عظمی اور نسرین کو ساتھ لے کر کھیت کی طرف پڑا کھیت میں پہنچے تو پہلے ھی کافی بچے جمع ھوچکے تھے ہم لُکم میٹی کھیلنے کے لیے اپنی اپنی باریاں پُگنے لگ گئے آخر
میرے عظمی اور ایک محلے کہ لڑکے کے سر باری دینی آئی ہم تینوں سڑک پر جاکر اپنا منہ کھیت کی دوسری طرف کر کے کھڑے ھوگئے اور باقی سب بچے اپنی اپنی جگہ پر چھُپنے کے لیے اِدھر اُدھر بھاگ گئے کچھ دیر بعد ایک بچے کی آواز آئی کہ
لب لو
تو ہم تینوں کھیت کی طرف بھاگے خالی کھیت سے گزر کر کپاس کے کھیت کے قریب آکر کھڑے ھوگئے. اور آپس میں مشورہ کرنے لگ گئے کہ کون کسطرف سے ڈھونڈنا شروع کرے ہمارے ساتھ والا لڑکا کہتا کہ یاسر تم نہر والے بنے سے جاو عظمی درمیان سے جاے اور میں دوسری طرف سے جاتا ھوں
عظمی بولی نہ بابا میں نے اکیلی نے نھی جانا مجھے ڈر لگتا ھے تو تبھی میں نے عظمی کا ھاتھ پکڑ کر دبا دیا شاید وہ میرا اشارا سمجھ گئی تھی اس لیے چُپ ھوگئی
تب میں نے کہا کچھ نھی ھوتا
نئی تینوں جِن کھاندا
اور میں نے اس لڑکے کو دوسری طرف جانے کا کہا وہ میری بات سنتے ھی دوسری طرف بھاگ گیا
میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر کپاس کے کھیت کے درمیان نہر کی طرف جاتی ھوئی پگڈنڈی پر چل پڑے عظمی راستے میں ھی مجھ سے پوچھنے لگ گئی کہ اب تو بتا دو اب کون سا کوئی ھے یہاں میں نے اسے کہاں چلو کھالے کے پاس جاکر بیٹھ کر بتاتا ھوں عظمی نے اثبات میں سر ہلایا ،،
تھوڑا آگے جاکر میں نے عظمی کو اپنے آگے کر لیا اور میں اسکے پیچھے پیچھے چل پڑا ہم چلتے چلتے کپاس کی فصل کے آخر میں چلے گئے اس سے آگے پانی کا کھالا تھا جسکو کراس کر کے مکئی کی فصل شروع ھوجاتی تھی میں نے عظمی کو کھالا کراس کرنے کا کہا اور اسکے پیچھے ھی میں نے بھی چھلانگ لگا کر کھالے کی دوسری طرف پہنچ گیا
میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑا اور کھالے کے کنارے پر لگی ٹاہلی کے پیچھے کی طرف لے گیا جہاں پر گھاس اگی ھوئی تھی اور بیٹھنے کے لیے بہت اچھی اور محفوظ جگہ تھی ہمیں وھاں بیٹھے کوئی بھی نھی دیکھ سکتا تھا ،،
ہم دونوں چوکڑیاں مار کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے
تب عظمی نے مجھ سے بےچین ھوتے ھوے کہا
چلو بتاو نہ اب
میں تھوڑا کھسک کر اسکے اور قریب ھوگیا اب ھم دونوں کے گھُٹنے آپس میں مل رھے تھے
میں نے عظمی کو کہا کہاں تک بتایا تھا تو عظمی بولی
تم شروع سے بتاو مجھے سہی سمجھ نھی آئی تھی
تو میں نے بتانا شروع کردیا
کہ میں نے دیکھا ماسٹر جی نے فرحت کی قمیض آگے سے اٹھائی ھوئی تھی اور انکے بڑے بڑے مموں کو ھاتھ سے مسل رھے تھے اور دونوں ایک دوسرے کے ھونٹ چوس رھے تھے
ماسٹر جی پھر فرحت کے ممے چوسنے لگ گئے تب فرحت نے بھی اپنی آنکھیں بند کی ھوئی تھی
عظمی بڑے غور سے میری بات سن رھی تھی اسکا رنگ بھی ٹماٹر کی طرح سرخ ھوتا جارھا تھا
عظمی بولی پھر کیا ھوا
تو میں نے کہا ماسٹر جی نے فرحت کا نالا کھول دیا تھا اور اسکی شلوار نیچے گر گئی تھی
اور ماسٹر جی نے اپنا ھاتھ وھاں پر رکھ دیا
تو عظمی بولی کہاں
تو میں نے کہا نیچے
عظمی بولی کہاں نیچے
تو میں نے ایکدم اپنی انگلی عظمی کی پھدی کے پاس لیجا کر اشارے سے کہا یہاں پر
تو عظمی ایکدم کانپ سی گئی
جبکہ میری انگلی صرف اسکی قمیض کو ھی چھوئی تھی
عظمی نے کانپتے ھوے جلدی سے میرا ھاتھ پکڑ کر پیچھے کر دیا
میں نے پھر بتانا شروع کردیا کہ کیسے ماسٹر جی فرحت کی پھدی کو مسلتے رھے اور کیسے فرحت مدہوش ہوکر نیچے بیٹھ گئی اور فرحت نے کیسے میری طرف دیکھا اس دوران عظمی بڑی بےچین سی نظر آرھی تھی اور بار بار اہنے ہونٹوں پر زبان پھیرتی
کہ اچانک عظمی نے اپنا ھاتھ پیچھے کھینچا
تو میں ایک دم چونکا
کہ میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑ کر اپنی گود میں رکھا ھوا تھا اور نیچے سے میرا لن تنا ھوا تھا شاید عظمی نے میرے لن پر اپنا ھاتھ محسوس کر لیا تھا
عظمی بولی شرم نھی آتی گندے کام کرتے ھوے میں نے بڑی معصومیت اور حیرانگی سے کہا اب کیا ھوا ھے
تو عظمی بولی
میں گھر جاکر امی کو بتاتی ھوں کہ آپکا یہ شہزادا جوان ھوگیا ھے اسکی شادی کردو اب
تو میں نے کہا
میری کون سی جوانی تم نے دیکھ لی ھے
اور میں بھی آنٹی کو سب بتا دوں گا
اور میں بھی کہہ دوں گا کہ عظمی سے ہی کردو میری شادی تو عظمی شوخی سے بولی کہ شکل دیکھی اپنی
بچو تم ایک دفعہ گھر تو چلو پھر پتہ چلے گا
میں بھی اندر سے ڈر گیا کہ سالی سچی مُچی ھی نہ بتا دے
میں نے بھی عظمی کو دھمکی دیتے ھوے کہہ دیا
کہ جاو جاو بتا دو مجھے نھی ٹینشن
میں بھی بتا دوں گا کہ تم نے مجھ سے پوچھا تھا تو بتا دیا
تو عظمی نے میرے لن کی طرف دیکھا جو ابھی تک قمیض کو اوپر اٹھاے عظمی کو سلامی دے رھا
عظمی بولی نہ نہ میں تو تمہارے جوان ھونے کا امی کو بتاوں گی
تو میں نے گبھراتے ھوے کہا
کون جوان کونسی جوانی
تو عظمی نے ذور سے میرے لن پر تھپڑ مارا اور ہنستے ھوے بولی
یہ جوانی اور یہ کہہ کر اٹھ کر بھاگ نکلی
اسکے اس طرح تھپڑ مارنے سے میرے لن پر ہلکی سی درد تو ہوئی مگر میں برداشت کرگیا اور ایسے ھی ڈرامائی انداز میں بولا
ھاےےےےے میں مرگیا افففففف
عظمی نے ایک نظر پیچھے میری طرف دیکھا اور ہنستے ھوے بولی
مزا آیا
اور کھالا پھلانگ کر دوسری طرف چلی گئی اور میں بھی اسکے پیچھے بھاگا کہ ٹھہر بتاتا ھوں تجھے کیسے مزا آتا ھے
مجھے پیچھے آتے دیکھ کر عظمی نے گھر کی طرف پگڈنڈی پر بھاگنا شروع کردیا مگر میں نے اسے کچھ دور جاکر پیچھے سے جپھی ڈال کر پکڑ لیا
میرا لن عظمی کی نرم سی گول مٹول پیچھے نکلی ھوئی گانڈ کے ساتھ چپک گیا میرے دونوں ھاتھ اسکے نرم سے پیٹ پر تھے عظمی ہنستے ھوے بولی چھوڑو مجھے چھوڑو مجھے میں امی کو بتاوں گی
میں نے عظمی کو اور کس کے پکڑ لیا اسی چھینا جھپٹی میں میرے لن نے پھر سر اٹھا لیا اور عظمی کی بُنڈ کی دراڑ میں گھسنے کی کوشش کرنے لگ گیا
عظمی نے بھی شاید لن کو اپنی بُنڈ پر محسوس کرلیا تھا اس لیے وہ اور ذیادہ مچلنے لگ گئی اور اپنا آپ مجھ سے چُھڑوانے کی کوشش کرنے لگ گئی مگر مرد مرد ھی ھوتا ھے چاھے چھوٹی عمر کا یا بڑی عمر کا
عظمی کا جب یہ احساس ھوگیا کہ ایسے ذور آزمائی سے جان نھی چھوٹنے والی تو عظمی نیچے بیٹھنے لگ گئی جب عظمی آگے کو جُھک کر نیچے ھونے لگی تو پیچھے سے میرا لن عظمی کی گانڈ کی دراڑ میں کپڑوں کو اندر کی طرف دھکیل چکا تھا اور لن کی ٹوپی اسکی بنڈ کی موری کے اوپر جالگی اور آگے سے میرے دونوں ھاتھ اس کے پیٹ سے کھسکتے ھوے اسے دونوں مموں پر آگئے
عظمی کو نیچے جھک کر بیٹھنا مہنگا پڑا
عظمی کے دونوں ممے جیسے ھی میرے ھاتھ میں آے تو مجھے بھی ایک جھٹکا سا لگا
اور میں نے عظمی کے دونوں مموں کو اپنی مُٹھیوں میں بھر لیا
عظمی کو جب میری اس کاروائی کا احساس ھوا تو عظمی نے رونا شروع کردیا
اور روتے ھوے غصے سے بولی چھوڑو مجھے میں امی کو بتاوں گی تم میرے ساتھ گندی حرکتیں کرتے ھو
عظمی کو روتا دیکھ کر اور اسکی دھمکی سن کر میں بھی ڈر گیا
اور ساتھ ھی میں نے اسے چھوڑ دیا
عظمی ویسے ھی پاوں کے بل بیٹھ کر اپنے دونوں بازو اپنے گھٹنوں پر رکھ کر اور اپنا منہ بازوں میں دے کر رونے لگ گئ
میں اسکی یہ حالت دیکھ کر مزید ڈر گیا اور اسے کہنے لگ گیا کہ
یار اپنی دفعہ تم رونے لگ جاتی ھو خود جو مرضی کرلیتی ھو میں نے کبھی ایسے غصہ کیا ھے
چلو اٹھو نھی تو میں جارھا ھوں تو عظمی روتے ھوے بولی جاو دفعہ ھوجاو میں نے نھی جانا تمہارے ساتھ
تو میں بھی غصے سے اسے وھیں چھوڑ کر گھر کی طرف چل پڑا کچھ ھی آگے جاکر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عظمی بھی سر نیچے کئے آہستہ آہستہ چلی آرھی تھی
کچھ دن ایسے ھی گزر گئے میں بھی ان دنوں ڈرتا آنٹی فوزیہ کے گھر نھی گیا کہ عظمی نے کہیں میری سچی ھی شکایت نہ لگا دی ھو
مگر ایسا کچھ نھی ھوا،
ایک دن ہم سکول میں بیٹھے تھے کہ
فرحت بڑی سی چادر لیے اور نقاب کیے ھوے آگئی اور ہمارے پاس سے گزر کر ماسٹر جی کہ پاس جاکر ماسٹر جی کو سلام کیا
جب فرحت میرے پاس سے گزری تو اس سے بڑی دلکش خوشبو آئی تھی جیسے ابھی نہا کر آئی ھو
فرحت کو دیکھ کر ماسٹر جی کے چہرے پر عجیب سی چمک آئی اور ماسٹر جی نے شیطانی مسکان کے ساتھ فرحت کے سلام کا جواب دیا اور بڑے انداز سے فرحت کو بیٹھنے کا کہا
میں نے فرحت کو دیکھا تو ساتھ بیٹھی عظمی کو کہنی ماری اور فرحت کی طرف آنکھ سے اشارا کیا
تو عظمی نے جوابی کاروائی کرتے ھوے مجھے کہنی ماردی اور منہ بسور کر بولی دفعہ ھو ے
فرحت ماسٹر جی سے آنکھیں مٹک مٹک کر باتیں کرنی تھی جبکہ چہرے پر نقاب تھا صرف آنکھیں ھی نظر آرھی تھی
ماسٹر جی سے بات کرتے ھوے فرحت کے ہونٹوں سے ذیادہ آنکھیں ہل رھی تھی
وہ دونوں بڑی آہستہ آہستہ باتیں کررھے تھے
اور باتوں کے ھی دوران فرحت کبھی کبھی نہ نہ میں سر ہلاتی ایک دفعہ تو اس نے اپنے کان کو ہاتھ لگایا تھا
میں نے بڑی کوشش کی کہ انکی کسی بات کی مجھے سمجھ آجاے مگر
میں ناکام ھی رھا بس انکی باڈی لینگویج سے ھی قیاس کر کے انکی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا
کہ اچانک ماسٹر جی نے ظہیر کو آواز دی اور ظہیر جلدی سے کھڑا ھوا اور سیدھا ماسٹر جی کے پاس جا پہنچا ماسٹر جی نے کرسی پر ھی بیٹھے ہوے ھی ظہیر کو اپنے دائیًں طرف کرسی کے بازو کے پاس کھڑا اسی کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنے ساتھ لگا کر کھڑا کرلیا اورظہیر کے بارے میں فرحت سے باتیں کرنے لگ گیا
بات کرتے کرتے فرحت نے اپنا نقاب اتار دیا تھا
میری جب نظر فرحت پر پڑی
میں تو سکتے کہ عالم میں آگیا
کیا پٹاخہ بن کر آج آئی تھی سالی
مجھے تو پتہ تھا کہ ماسٹر جی سر میں نھی بلکہ لن میں درد ھے ماسٹر جی کو کمرے کی طرف جاتا دیکھ کر میں بھی اٹھ کر ماسٹر جی کی کرسی کے پاس جاکر کھڑا ھوگیا اور ساتھ پڑی ھوی کرسی پر بیٹھ گیا ،
کرسی پر بیٹھتے ھی میں نے عظمی کو اپنی آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوے سر ہلاتے کمرے کی طرف متوجہ کیا تو عظمی نے برا سا منہ بنا کر مجھے گھورا اور پھر اپنی گود میں پڑی کتاب کی طرف دیکھنے لگ گئی
میں نے سب بچوں کو ہوم ورک چیک کروانے کا کہا سب سے پہلے عظمی میرے پاس آئی اور بڑے نخرے اور شوخی سے دستہ مجھے پکڑایا
میں نے عظمی کی طرف دیکھتے ھوے کہا کہ میں کام چیک کر کے کمرے میں جارھا ھوں تم نے آنا ھے تو آجانا اور خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا
عظمی بولی شرم نھی آتی تمہیں ایسے گھٹیا کام کرتے میں نے کہا تمہیں شرم نھی آتی ایسی گھٹیا باتیں سنتے تو عظمی غصے سے مجھے گھورتے ھوے بولی چل چل جلدی کام چیک کر آیا وڈا شریف ذادہ
میں نے کام چیک کرکے دستہ اسے واپس دے دیا
پھر سب بچوں کا جلدی جلدی کام چیک کیا اور جاکر عظمی کے پاس بیٹھ گیا
عظمی میری طرف دیکھتے ھوے بولی گئے نئی اب تو میں نے کہا تم چلو گی تو میں بھی جاوں گا
تو عظمی بولی مجھے مرنے کا شوق نھی
اگر ماسٹر جی کو پتہ چل گیا نہ تو سکول سے بھی مار پڑے گی اور گھر سے بھی
تو میں نے کہا یار گبھراتی کیوں ھو
میں ہوں نہ تمہارے ساتھ
تو عظمی بڑی شوخی سے بولی
وجہ ویکھی اے اپنی آیا وڈا پہلوان
تو میں نے بھی فوری جواب دیتے ھوے کہا کہ کبھی ازما کر دیکھ لینا اس پہلوان کو تو عظمی بولی
کی مطلب اے تیرا
تو میں نے جلدی سے بات کو گھماتے ھوے کہا
میرا مطلب کہ کُشتی کر کے دیکھ لینا
تو عظمی بولی جا جا ویکھے تیرے ورگے
میں نے کہا اچھا یار جانا ھے تو میرے پیچھے کمروں کے پیچھے کی طرف آجانا میں تمہارا تھوڑی دیر انتظار کروں گا ورنہ تمہاری مرضی یہ کہہ کر میں اٹھنے لگا تو عظمی نے میرا بازو پکڑ لیا ،
اور بولی یاسر نہ جاو مجھے ڈر لگ رھا ھے میں نے اپنا بازو چھڑواتے ھوے کہا تم تو ھو ھی ڈرپوک میں نے کہا نہ کہ کچھ نھی ھوتا اور یہ کہہ کر میں کمروں کی طرف چل پڑا کمروں کے پیچھے پہنچ کر میں نے کمرے کی دیوار کی اوٹ سے کلاس کی طرف دیکھا تو مجھے عظمی آتی ھوئی دیکھائی دی،
کچھ ھی دیر بعد عظمی میرے پاس پہنچ گئی میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کمرے کی کھڑکی کے پاس آگیا اور یہ کنفرم کرنے لگ گیا کہ ماسٹر جی اور فرحت واقعی دفتر کے پیچھے بنے سٹور میں ھی ہیں یا کہ ابھی دفتر میں ھی ہیں تو میں نے کھڑکی کے پاس ھوکر اندر سے آواز سننے کی کوشش کی تو دونوں جنسیں اندر ھی تھی میں نے عظمی کا پھر ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر کمرے کے پیچھے سے ھوتا ھوا دوسری طرف دروازے کے پاس پہنچ گیا
عظمی پھر بولی یاسر میرا دل گبھرا رھا ھے
میں نے دروازے کے پاس پہنچ کر کلاس کی طرف دیکھا تو سب بچے دوسری طرف منہ کر کے اپنے دھیان میں لگے ھوے تھے
میں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ھوے عظمی خاموش رہنے کا اشارا کیا
اور آہستہ سے دروازہ کھولا اور دونوں اندر داخل ھوگئے کیوں کہ دروازے کی اندر سے کُنڈی نھی تھی صرف باہر ھی کُنڈی لگی ھوئی تھی اندر داخل ہوتے ھی میں نے بڑے آرام سے دروازہ بند کردیا
دوستو
دفتر والے حصہ میں کھڑکی نہ ھونے کی وجہ سے اندھیرا سا تھا
بلکہ دفتر کی پچھلی سائڈ پر کھڑکی ھونے کی وجہ سے اسطرف کافی روشنی تھی جسکا ہمیں یہ فائدہ ھوا کہ ہم دوسری طرف آسانی سے دیکھ سکتے تھے اور دوسری طرف والے ہمیں نھی دیکھ سکتے تھے
میں عظمی کو لیے ھوے پردے کے پاس پہنچا
میں نے آگے ہوکر تھوڑا سا پردہ ہٹایا تو اندر ماسٹر جی نے فرحت کو چارپائی پر لٹایا ھوا تھا اور خود اس کے اوپر لیٹ کر فرحت کے ہونٹ چوس رھے تھے ماسٹر جی کی گانڈ فرحت کی پھدی کے اوپر تھی اور انکا لن فرحت کی پھدی کے ساتھ چپکا ھوا تھا اور فرحت کے ممے ماسٹر جی کے سینے تلے دبے ھوے تھے اور ماسٹر جی فرحت کے ہونٹ چوستے ھوے ساتھ ساتھ اپنی گانڈ کو ہلا ہلا کر اپنا لن فرحت کی پھدی کے ساتھ رگڑ رھے تھے فرحت بھی مزے سے اپنے دونوں بازو ماسٹر جی کی کمر پر رکھ کر زور سے بازوں کو بھینچ رھی تھی
عظمی نے مجھے کندھے سے ہلایا تو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عظمی نے اشارے سے اندر کی صورتحال کا پوچھا تو میں نے اسے اپنے آگے کردیا اور خود اسکے پیچھے کھڑا ھوگیا
عظمی نے جب اندر کا سین دیکھا تو اپنا ھاتھ منہ پر رکھ کر ایکدم پیچھے ہٹی جس سے اسکی گانڈ میرے لن کے ساتھ رگڑ کھا گئی
اور ساتھ ھی دوسرے ھاتھ سے اہنے کانوں کو چھوتے ھوے توبہ توبہ کرنے لگ گئی
میں نے عظمی کے منہ پر ہاتھ رکھا اور سے لیتے ھوے الماری کی دوسری نکر پر آگیا
مجھے ڈر تھا کہ عظمی کوئی آواز نہ نکال دے
میں الماری کے پاس اکر اندر دیکھنے کی جگہ تلاش کرنے لگ گیا تو مجھے ایک جگہ سوراخ نظر آیا جس میں کپڑا ڈوھنسا ھوا تھا میں نے آرام سے کپڑا باہر کی طرف کھینچا تو کافی بڑا سا شگاف نظر آیا شگاف اتنا بڑا تھا کہ ہم دونوں آسانی سے ایک دوسرے کے پیچھے کھڑے ہوکر اندر کا نظارا دیکھ سکتے تھے
میں نے انگلی ہونٹوں پر رکھتے ھوے عظمی کو خوموش رہنے کا اشارہ کیا اور عظمی کو اپنے آگے کھڑا کر دیا
الماری میں خانے بنے ھوے تھے جس میں کچھ کتابیں وغیرہ تھی اور کچھ خانے خالی تھی اور سوراخ والا خانہ بھی خالی تھا
سوراخ تھوڑا نیچے تھا اس لیے عظمی کو تھوڑا جھکنا پڑا جس سے اسکی گانڈ باہر کو نکل آئی اور عظمی تھوڑا سا نیچے جھک کر اپنے دونوں ھاتھ خانے کی پھٹیوں پر رکھ کر اندر کی طرف دیکھنے لگ گئی
میں بھی اسی سٹائل میں اسکے اوپر جھک کر اپنی ٹھوڑی اسکے کندھے پر رکھ کر اندر دیکھنے لگ گیا
عظمی نے سکول یونیفارم پہنا ھوا تھا اور میں نے بھی یونیفارم کا کپڑا ریشمی ٹائپ کا تھا جو قدرے ملائم تھا
میں پیچھے سے بلکل عظمی کی گانڈ کے ساتھ چپک گیا پہلے تو عظمی تھوڑا سا کسمکسائی مگر میں نے اسکا بازو دبا کر اسے کھڑے رھنے کا کہا تو وہ شانتی سے کھڑی ھوگئی،
اندر اب ماسٹر جی فرحت کے اوپر سے اٹھ کر اسکے ساتھ لیٹ گئے تھے جبکہ فرحت بلکل سیدھی ھی لیٹی ھوئی تھی ماسٹر جی سائڈ سے اسکے ساتھ لیٹے ھوے تھے
ماسٹر جی نے اپنی ایک ٹانگ فرحت کی ناف کے نیچے پھدی کے اوپر رکھی ھوئی تھی ایک ھاتھ سے فرحت کا مما دبا رھے تھے
فرحت بھی فُل مزے میں تھی اس نے اپنے دونوں ھاتھ اپنے سر کے پیچھے دائیں بائیں کر کے چارپائی کے سرھانے کی طرف لگے لوہے کے پائپ کو پکڑا ھوا تھا
ماسٹر جی مسلسل فرحت کے ہونٹوں پر لگی سرخی کو چوس چوس کر ختم کررھے تھے اب فرحت کے پنک ہونٹ ھی رہ گئے تھے ہونٹوں پر لگی ساری لپسٹک ماسٹر جی کھا چُکے تھے
پھر ماسٹر جی نے ہونٹوں کو چھوڑا اور فرحت کی ٹھوڑی پر زبان پھیرتے پھیرتے نیچے گلے پر آگئے ماسٹر جی کی لمبی زبان فرحت کہ گلے پر رینگتی کبھی نیچے سینے تک جاتی کبھی اوپر نیچے سے اوپر ٹھوڑی تک آتی فرحت بھی زبان کے لمس کو برداشت نھی کررھی تھی وہ ایکدم کبھی اوپر کو اچھلتی کبھی اپنے سر کو مزید اوپر کی طرف کرکے لمبی سی سسکاری لیتی اور آنکھیں بند کئے فرحت سسییییی افففففف امممممم کی آوازیں نکال رھی تھی ماسٹر جی نے ایسے ھی زبان کو پھیرتے پھیرتے زبان کا رخ دائیں کان کی طرف کیا جیسے ھی ماسٹر کی زبان نے فرحت کے کان کی لو کو ٹچ کیا تو فرحت ایک دم ایسے اچھلی جیسے اسے کرنٹ لگا ھو اور اس نے زور سے سیییی کیا اور دونوں بازوں ماسٹر جی کی کمر کے گرد ڈال کر زور سے جپھی ڈال لی اور نیچے سے گانڈ اٹھا کر ماسٹر جی کے لن کے ساتھ اپنی پھدی کا ملاپ کرانے لگ گئی
ماسٹر جی بھی کسی ماہر چودو کی طرح اپنے حربے استعمال کررھے تھے اور فرحت بھی ماسٹر جی سحر میں پھس چکی تھی
ماسٹر جی نے جب دیکھا کہ فرحت کی کمزوری ادھر ھی ھے تو ماسٹر جی بار بار اپنی زبان کو کان کی لو پر رکھ کر زبان کو پھیرتے پھیرتے پیچھے سے اوپر لے جاتے اور پھر ویسے ھی اوپر سے نیچے تک لے آتے
پھر اچانک ماسٹر جی نے پورا کان منہ میں ڈالا اور نکال کر کان کے اندر
ھاااااا کر کے منہ کی ھوا کان میں ڈالی تو فرحت ایکدم کانپ سی گئی
ماسٹر نے اسی دوران اپنا ایک ھاتھ پیچھے لیجا کر فرحت کو تھوڑا سا اوپر کیا اور پیچھے سے قمیض اوپر کر دی اور پھر ھاتھ کو اگے لاکر آگے سے قمیض اوپر کر کے کندھوں تک لے گئے فرحت کے مموں پر قمیض تھوڑی سی پھنسی تھی مگر ماسٹر جی نے قمیض کے اندر ھاتھ ڈال کر پہلے دایاں مما باھر نکالا بھر بایاں اور قمیض کندھوں تک لے گئے
اب فرحت کا چٹا سفید پیٹ اور کالے رنگ کی برا میں چھپے چٹے سفید ممے نظر آرھے تھے ماسٹر جی نے اپنا ھاتھ برا میں ڈالا اور ایک ممے کو آزاد کردیا پھر وہاں سے ھی ھاتھ کو دوسری طرف لے جا کر دوسرا مما بھی بریزئیر سے نکال دیا۔۔۔
فرحت کے گورے گورے موٹے ممے دیکھ کر میرا تو برا حال ھورھا تھا میرا لن ایکدم اکڑا ھوا تھا اور عظمی کی گانڈ کی دراڑ میں کپڑوں سمیت گھسا ھوا تھا
میرا دھیان لن کی طرف اس لیے گیا کہ میں نے محسوس کیا کہ عظمی اپنی گانڈ کو پیچھے سے ہلا رھی تھی عظمی کہ جزبات کو دیکھ کر اور ماسٹر جی کا سیکس دیکھ کر میرا بھی حوصلہ بڑھ گیا اور میں نے اپنے دونوں ھاتھ آگے کر کے عظمی کے مالٹے کے سائز کے مموں پر رکھ دیے
عظمی نے گردن گھما کر میری طرف ایک نظر دیکھا اور پھر دوسری طرف دیکھنے لگ گئی
عظمی اب مسلسل گانڈ کو دائیں بائیں کر رھی تھی، میں نے آہستہ آہستہ مموں کو دبانا شروع کردیا
عظمی کو بھی یہ سب اچھا لگ رھا تھا اس لیے اس نے اپنا ایک ھاتھ میرے ھاتھ پر رکھ لیا اور جیسے جیسے میں مموں کو دباتا عظمی بھی ویسے ھی میرا ھاتھ دبانے لگ جاتی
اچانک مجھے ایک جھٹکا لگا
جب میں نے اپنا لن عظمی کے نرم نرم ھاتھ میں محسوس کیا عظمی نے اپنا دوسرا ھاتھ پیچھے لیجا کر میرا لن ھاتھ میں پکڑ لیا تھا اور اسے آہستہ آہستہ دبانے لگ گئی
فرحت کو دیکھ کر میں تو حیران ھی رھ گیا کہ سالی آج بڑی لش پش ھوکر آئی ھے آنکھوں میں کاجل ہونٹوں پر سرخ رنگ کی لپسٹک جو اسے بہت ھی سوٹ کررھی تھی
ایک بات تو کنفرم ہوچکی تھی کہ فرحت نے مجھے دیکھا نھی تھا اگر دیکھا ھوتا تو وہ لازمی میری طرف دیکھتی یا پھر کوئی ایسا ردعمل ظاہر کرتی جس سے مجھے شک ھوتا کہ اس نے مجھے دیکھ لیا ھے مگر وہ تو مجھے بلکل نظرانداز کر کے ماسٹر جی کے ساتھ ایسے محو گفتگو تھی جیسے مجھے جانتی ھی نھی
میں بھی آنکھیں پھاڑے فرحت کے چہرے کو ھی دیکھی جارہی تھا
ماسٹر جی نے کچھ دیر ظہیر کی کمر پر تھپ تھپی دے کر اسے واپس کلاس میں بھیج دیا اور پھر فرحت سے باتیں کرنے لگ گیا،،
دوستوں یہاں میں ایک بات بتاتا چلوں کہ سکول میں ماسٹر تو دو ھی تھے جنکا تعارف پہلے کروا چکا ھوں مگر ذیادہ تر سکول میں ایک وقت میں ایک ھی ماسٹر ھوتا تھا جب ایک ھوتا تو دوسرا چھٹی پر ھوتا کیوں کہ اس دور میں گاوں کے سکولوں پر اتنی توجہ نھی ھوتی تھی ماسٹرز تو بس ٹائم پاس ھی کرنے آتے تھے
اس لیے اس دن بھی ماسٹر صفدر اکیلے ھی تھے اس لیے فرحت سے گپ شپ لگا رھے تھے
جس انداز سے دونوں باتیں کر رھے تھے کسی بچے کی بھی توجہ انکی طرف نھی تھی اگر میں نے انکی کرتوت کو دیکھا نہ ھوتا تو شاید میں بھی انکی طرف اتنی توجہ نہ دیتا،
ماسٹر جی اور فرحت اپنی باتوں میں مسلسل مست تھے
میں نے ایک دفعہ پھر عظمی کو کہنی ماری اور آہستہ سے کہا لگتا ھے آج پھر ماسٹر جی فرحت کے ساتھ گندا کام کریں گے
اگر تم نے بھی دیکھنا ھے تو دونوں چلیں گے دیکھنے
تو عظمی بولی
مروانا اے مینوں آپ تے مریں ای مریں گا نال مینوں وی مروائیں گا
میں نے کہا یار کُش نئی ہوندا
تو عظمی بولی نہ بابا نہ میں تے نئی جانا
ہم یہ باتیں کر ھی رھے تھے کہ فرحت جانے کے لیے اٹھی اور پھر سے نقاب کر لیا اور ماسٹر جی کو سلام کر کے واپس جانے لگی فرحت جیسے ھی میرے پاس سے گزری تو مجھے پھر اس سے بھینی بھینی سے تبت پوڈر کی خوشبو آئی اور میں بھی ناک کو سکیڑ کر اس خوشبو سے لطف اندوز ھوا
دوستو جیسا کے میں پہلے بھی بتا چکا ھوں کہ کمرے ہماری کلاس کی مخالف سمت تھے ہماری پیٹھ کمروں کی طرف تھی اور سکول کے گیٹ سے اندر آنے والی کچی سڑک کمروں کے آگے سے ھوتی ھوئی ہماری کلاس کی طرف آتی تھی اگر کوئی سڑک کے راستے سے باھر کی طرف جاتا تو کمروں کے آگے سے گزر کر واپس جاتا
فرحت کے وھاں سے جانے کے فورن بعدماسٹر جی نے سبکو ھوم ورک چیک کرانے کا کہا میں جلدی سے اٹھا اور میرا پہلے ھی دھیان فرحت ھی کی طرف تھا تو میں نے اٹھتے ھی سر گھما کر پیچھے دیکھا تو مجھے فرحت دفتر والے کمرے میں داخل ھوتی نظر آگئی میں نے جلدی سے سر واپس گھما لیا ایسا بس دو تین سیکنڈ میں ھی ھوا
اور میں دستہ پکڑے ماسٹر جی کے پاس جا پہنچا،
ماسٹر جی بولے
تینوں بڑی کالی اے کم چیک کروانا دی پُھپھی نوں ٹیم دتا ھوگیا اے،
میں جھینپ سا گیا اور سر نیچے کیے کھڑا ھوگیا ماسٹر جی نے غصہ سے دستہ میرے ھاتھ سے لیا اور جلدی جلدی ایک نظر چند ورقوں پر ماری اور دستہ مجھے واپس پکڑاتے ھو کہنے لگے
میں ذرہ کمرے میں سونے کے لیے جارھا ھوں میرے سر میں درد ھے
تم سب بچوں کا کام چیک کرو اور خبردار کسی بچے کی آواز بھی میرے کانوں میں پڑی تو تمہاری خیر نھی
میں نے یس سر کہا اور دستہ لیے اپنی جگہ ہر جاکر بیٹھ گیا
اتنے ماسٹر جی اٹھے اور مجھے اپنی جگہ پر آنے کا کہا اور جاتے جاتے مجھے پھر اپنی دھمکی کی یاددھانی کرواتے ہوے کمرے کی طرف چل پڑے
دوسری طرف ماسٹر جی مزے لے لے کر فرحت کے دونوں مموں کو باری باری چوس رھے تھے ماسٹر جی کبھی مموں کے تنے ھوے نپلوں پر گولائی کے گرد زبان پھیرتے کبھی نپلوں کی سائڈ پر براون دائرے پر زبان پھیرتے اور کبھی ممے کو منہ میں بھر کر ہلکی ہلکی دندیاں کاٹتے اور فرحت اس سے فل انجواے کرتی ھوئی ماسٹر کے بالوں میں انگلیاں پھیر رھی تھی اور منہ چھت کی طرف کیے آنکھیں بند کرکے اففففف اسسسسسس سسییییی اففففف کی آوازیں نکال رھی تھی ماسٹر جی تقریباً دس منٹ تک دودہ کے پیالوں کو منہ لگا کر دودہ ختم کرنے کی کوشش کرتے رھے مگر دودہ کہ پیالے تھے کہ چھت کی طرف منہ اٹھاے ماسٹر جی کا منہ چڑھا رھے تھے
ماسٹر جی نے اب فرحت کے تھنوں کو چھوڑا اور مموں کے درمیان لائن میں زبان پھیرتے پھر فرحت کے اوپر اگئے اور زبان کو پیٹ کی طرف لے آے ماسٹر جی کُتے کی طرح زبان کو پیٹ پر پھیر کر پیٹ چاٹ رھے تھے جیسے پیٹ پر شہد لگا ھو
ماسٹر جی نے زبان کو فرحت کی ناف کی طرف گھمایا اور لمبی زبان کی نوک سے
ناف کے سوراخ کے چاروں طرف پھیرنے لگے
جیسے جیسے زبان ناف کے دائرے میں گھومتی فرحت بن پانی کے مچھلی کی طرح تڑپنے لگ جاتی
۔ماسٹر جی اب سیدھے ھوکر گُھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور اپنی قمیض اتارنے لگے پھر ماسٹر جی نے فرحت کا نالا کھولا اسی دوران فرحت نے شلوار کو پکڑ لیا مگر ماسٹر جی نے شلوار کو چھڑوا کر شلوار فرحت کے گُھٹنوں تک کی اور پھر باری باری دونوں ٹانگوں سے شلوار نکال کر نیچے پھینک دی
ماسٹر جی نے جب فرحت کلین شیو بالوں سے پاک چٹی سفید باہر کو پھولی ھوئی پھدی دیکھی تو ماسٹر جی کے منہ میں پانی آگیا
ماسٹر جی نے بنا وقت ضائع کئے اپنی لمبی زبان نکالی اور سیدھی فرحت کی پھدی کے دانے پر رکھ کر کتے کی طرح دانے کو چاٹنے لگ گئے
جیسے ھی ماسٹر کی زبان نے پھدی کے دانے کو چھوا تو فرحت تین فٹ چارپائی سے اچھل کر واپس گری اور اس نے ھاےےےےےےےے میں گئی کہ آواز نکالی
تو ماسٹر جی نے اپنے دونوں ھاتھوں سے فرحت کے بازو پکڑ کر اسکو چارپائی پر دبا دیا کہ اب یہ دوبارا اوپر نہ اٹھے
ماسٹر جی اب زبان کی نوک سے پھدی کے اوپر والے حصہ ھڈی کی جگہ پر کُتے کی طرح زبان کو پھیرنے لگ گئے
فرحت کی حالت ایسی تھی جیسے ابھی اسکی جان نکلنے والی ھو اس نے دونوں ٹانگیں چھت کی طرف کھڑی کی ھوئی تھی اور اسکی ٹانگیں کانپ رھی تھی
اور ماسٹر جی کی زبان اپنا جادو دیکھانے میں مصروف تھی
اِدھر عظمی مسلسل میرا لن دباے جارھی تھی اور میں اسکے ممے دبا رھا تھا
مجھے نجانے کیا سوجی میں نے اپنا یک ھاتھ نیچے کیا اور اس سے پہلے کہ عظمی کچھ سمجھتی میں نے اپنا ہاتھ عظمی کی شلوار میں گھسا دیا اور اپنی چاروں انگلیاں عظمی کی چھوٹی اور نرم سی پھدی پر رکھ کر دبانے لگ گیا
عظمی کو ایکدم کرنٹ سا لگا اس نے جلدی سے میرا ھاتھ پکڑ لیا مگر میں مسلسل ایسے ھی پھدی کو دباے جارھا تھا عظمی نے میرا لن چھوڑ کر اپنی پھدی کے اوپر رکھے ہوے میرے ھاتھ کے اوپر رکھ دیا تھا میرا لن آزاد ھوتے ھی دوبارا عظمی کی گانڈ میں گھس گیا عظمی کو اب مزا آنے لگ گیا تھا پہلے وہ میرا ھاتھ باہر کو کھینچ رھی تھی پھر میرے ھاتھ کو اپنی پھدی پر دبانے لگ گئی اسکی پھدی پہلے ھی کافی گیلی ھوچکی تھی میری انگلیاں آپس مین چپک رھی تھی میں زور سے تیزی تیزی سے ھاتھ اوپر نیچے کرنے لگ گیا اور پیچھے سے گھسے مارنے لگ گیا اور ایک ھاتھ سے ممے کو دبانے لگ گیا عظمی ایک دم کانپنے لگ گئی اور اس نے اپنی گانڈ کو فل پیچھے میرے لن کے ساتھ جوڑ دیا میرا لن عظمی کی موٹی گانڈ کے دراڑ میں پھنس گیا اور اس نے اپنی گانڈ کو زور سے بھینچ کر میرے لن کو جکڑ لیا اور ساتھ ھی اپنی ٹانگوں کو میرے ھاتھ سمیت جکڑ لیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی مجھے اچانک محسوس ھوا جیسے گرم گرم مادہ میری انگلیوں سے بہتا ھوا عظمی کی ٹانگوں سے نیچے جارھا ھے
میں نے غور کیا تو عظمی کی پھدی لِیک کر رھی تھی
ادھر ماسٹر جی نے اپنا کام چَک کے رکھا ھوا تھا
ماسٹر جی فرحت کی پھدی کو کھویا ملائی سمجھ کر مزے لے لے کر کبھی چوستے کبھی چاٹتے ماسٹر جی پھدی چاٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی ایک انگلی کو بجی پھدی کے اندر باہر تیزی سے کر رھے تھے کہ
اچانک فرحت کی ٹانگیں اکڑنا شروع ھوگئی اور فرحت کا جسم ایک دم کانپا اور فرحت کی پھدی سے ایک مادہ اور پانی سے ملی جلی پھوار نکلی جو سیدھی ماسٹر جی کے منہ کے اندر اور باھر گری پھر دوسری تیسری ماسٹر جی کا منہ فرحت کی منی اور پانی سے بھر گیا یہ سب دیکھ کر میرا تو دل خراب ھونے لگ گیا
اور عظمی جب یہ سب دیکھا تو اس نے ایکدم
ہپھھھ کیا اور اس کے منہ سے الٹی نکل کر سیدھی الماری پر گری الٹی کرتے ہوے اس نے کھانسی لی تو اسکی آواز ماسٹر جی اور فرحت نے بھی سن لی
ماسٹر جی کو ایکدم کرنٹ لگا اور چھلانگ مار کر چارپائی سے نیچے اترے اور گبھرا کر پردے کی طرف دیکھتے ھوے بولے کون ھے،،،
ماسٹر جی کو ایکدم کرنٹ لگا اور چھلانگ مار کر چارپائی سے نیچے اترے اور گبھرا کر پردے کی طرف دیکھتے ھوے بولے کون ھے،،،
کون ھے
میرے تو ایکدم سے پاوں تلے سے زمین ھی نکل گئی میں نے عظمی کو بازو سے پکڑا اور دروازے کی طرف دوڑ لگا دی اور جلدی سے باہر نکلے اور جیسے ھی میری سامنے نظر پڑی تو،،،،،،،،،،،
میں نے باہر نکلتے ھی دروازہ آہستہ سے بند کیا اور سامنے کلاس کہ طرف دیکھا تو سب بچے اپنی اپنی گپوں میں مصروف تھے میں نے عظمی کو کہا کہ تم جلدی سے کلاس کی طرف جاو میں کمروں کے پیچھے سے ھو کر آتا ھوں عظمی ابھی بھی ہلکا ہلکا کھانس رھی تھی میں اسے دروازے پر ھی چھوڑ کر کمروں کے پیچھے واش روم کی طرف بھاگ گیا اور جلدی سے واش روم میں داخل ھوگیا پیشاب کر کے میں باہر نکلا اور دوبارا کھڑکی کے پاس جاکر کان لگا کر اندر کے حالات معلوم کرنے لگ گیا
ڈر کے مارے میرا بھی برا حال تھا اور یہ سوچ سوچ کر میرا دل حلق کو آنے والا ھوگیا تھا کہ اگر ماسٹر جی کو پتہ چل گیا کہ ہم دونوں ھی کمرے میں تھے تو ماسٹر جی نے تو ہمیں چھوڑنا ھی نھی مار مار برا حال کردینا ھے اور بدنامی الگ سے ہونی ھے
میں بڑے غور سے اندر کی سچویشن معلوم کرنے کے لیے دھیان اندر کی طرف کیے کھڑا تھا تبھی ماسٹر جی کی آواز آئی کوئی بھی نھی ھے یار تم ایسے ڈر رھی ھو
تو فرحت بولی تم پاگل تو نھی ھوگئے میں نے خود کسی لڑکی کے کھانسنے کی آواز سنی ھے تم کہہ رھے ھو کوئی نھی ھے تب ماسٹر جی کی آواز آئی کہ یار میں دفتر میں دیکھ کر آیا ھوں کوئی بھی نھی ھے اور دروازہ بھی ویسے ھی بند ھے اگر کوئی اندر سے باہر جاتا تو لازمی دروازہ کھلا ھوتا یا دروازہ کھلنے یا بند ھونے کی آواز آتی میں تسلی کرکے آیا ھوں
تو فرحت کی آواز آئی ماسٹر جی
مینوں جان دیو ******دی قسمیں میرا دل پھڑکی جاندا پیا اے
مینوں بڑا ڈر لگ ریا اے
ماسٹر جی پھر منت کرتے ھوے بولے یار تمہیں مجھ پر یقین نھی ھے کیا مجھے اپنی عزت کا خیال نھی تم کیوں پریشان ھورھی ھو
شاید کوئی بچی ادھر سے گزری ھو اس کے کھانسنے کی آواز میں نے بھی سنی تھی مگر
میں دفتر میں دیکھ کر ایا ھوں کوئی بھی نھی ھے
میں نے ان دونوں کی آواز سنی تو سکون کا سانس لیا اور شکر ادا کیا کہ بچ گئے
تبھی فرحت کی آواز آئی
نہ کرو ماسٹر جی اب مجھے جانے دو بہت دیر ھوگئی ھے اب میرا دل نھی کررھا اتنا کچھ تو کر لیا اب کوئی کسر رھ گئی ھے
اور پھر کمرے میں خاموشی ھوگئی
میں نے جلدی سے اپنے دونوں ھاتھ کھڑکی کے بنیرے پر رکھے اور اپنے دونوں پاوں دیوار کے ساتھ لگا کر جمپ مار کر کھڑکی کے اندر دیکھا تو ماسٹر جی پھر فرحت کو جپھی ڈالے اس کے ہونٹ چوس رھے تھے
میں کچھ سیکنڈ ھی ایسے اوپر رھ سکا اور میرے پاوں دیوار سے پھسلتے ھوے واپس زمین پر آگئے
میں نے دو تین ٹرائیاں ماری مگر مجھ سے اوپر نھی ھوا گیا
میں اب سوچ میں پڑ گیا کہ اندر کا نظارا کیسے دیکھوں
کیوں کہ میں دوبارا اندر کمرے میں جانے کا رسک نھی لے سکتا تھا
اچانک میری نظر سکول کی بیرونی دیوار پر پڑی جس کی کافی ساری اینٹیں نیچے گری ہوئی تھی میں جلدی سے دیوار کی طرف گیا اور وہاں بیٹھ کر چھ سات اینٹوں کو اوپر نیچے جوڑ کر اٹھا کر کھڑکی کے پاس لے آیا اور آرام سے نیچے رکھ دی اور انکو دیوار کے ساتھ چوکڑی بنا کر جوڑ دیں میں نے اینٹوں کے اوپر چڑھ کر اندر دیکھنے کی کوشش کی مگر تھوڑا سا فرق بچا
میں جلدی سے پھر دیوار کے پاس گیا اور مزید اینٹیں اٹھا کر لے آیا اور ان اینٹوں کے اوپر ساری اینٹیں جوڑ دی اب کافی اونچی چوکڑی بن چکی تھی
میں نے ایک ھاتھ کھڑکی کی بنی پر رکھا اور جمپ مار کر اینٹوں کی چوکڑی کے اوپر چڑھ گیا،
اب میں آسانی سے اندر کا سارا نظارہ دیکھ سکتا تھا
،،،
ماسٹر جی نے فرحت کھڑے کھڑے فرحت کی قمیض اوپر کی ھوئی تھی اور نیچے ھوکر اسکے ممے چوس رھے تھے فرحت بھی اب سکون سے اہنے ممے چسوا رھی تھی ماسٹر جی نے اپنے دونوں ھاتھ اسکی گانڈ کے پیچھے رکھے ھوے تھے اور گانڈ کی دونوں پھاڑیوں کو پکڑ کر دبا رھے تھے
اور ماسٹر جی اپنا لن فرحت کی ٹانگوں کے درمیان پھنسا کہ گھسے مار رھے تھے فرحت کی دونوں آنکھیں بند تھی اور ماسٹر کی کمر کے گرد دونوں بازو ڈال کر ہاتھ ماسٹر جی کی کمر پر پھیر رھی تھی
،،
استاد جی یہ منظر دیکھ کر میرا لن پھر تن گیا اور میں اپنے لن کو مسلنے لگ گیا
ماسٹر جی نے ایک ھاتھ فرحت کی گانڈ سے ہٹایا اور آگے لا کر اسکا نالا کھول دیا نالا کھلتے ھی فرحت کی شلوار اسکی پاوں میں گر گئی اور ماسٹر جی نے اپنا ھاتھ فرحت کی پھدی پر رکھ کر پھدی کو مسلنے لگ گیا اور ساتھ ساتھ اس کا مما بھی چوسنے لگ گیا
کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا
پھر ماسٹر جی نے فرحت کی قمیض جو پہلے ھی اسکے کندھوں تک تھی اسکو اتارنے کی کوشش کی مگر فرحت نے منع کردیا کہ اگر کوئی آگیا تو اتنی جلدی میں قمیض نھی پہن سکوں گی
ماسٹر جی نے بھی ذیادہ اصرار نھی کیا اور اپنی قمیض اتار دی اور فرحت کو چارپائی پر لٹا دیا اب فرحت بلکل ننگی چارپائی پر لیٹی ھوئی تھی اور اس نے دونوں ٹانگیں سیدھی کر کے پھدی کو چھپانے کی کوشش کررھی تھی قمیض ویسے ھی اس کے گلے تک تھی فرحت کے ممے بلکل کنواری لڑکی کی طرح تنے ھوے تھے اور مموں پر ہلکے بروان کلر کے نپل بھی تنے ھوے تھے فرحت کا جسم دیکھ کر کوئی کہہ نھی سکتا تھا کہ اسکا دس سال کا بیٹا بھی ھے
لیٹنے کی وجہ سے اسکا پیٹ بھی بلکل ساتھ لگا ھوا تھا فرحت کی ٹانگوں پر بال بھی نہ ھونے کے برابر تھے شاید گولڈن کلر کے بال تھے جو دور سے مجھے نظر نھی آرھے تھے لگ ایسے رھا تھا جیسے اس نے ویکس کی ھوئی ھے جبکہ اس دور میں ویکس وغیرہ کا تصور بھی نھی کیا جاتا تھا بس بال صفا پوڈر ھوتا تھا جس سے پھدی کی بال صاف کیے جاتے تھے
فرحت کا چہرے کا رنگ تو سفید تھا ھی مگر اسکے جسم کا کلر کسی کشمیری بٹنی سے کم نھی تھا
میرا دور سے دیکھ کر ھی برا حال ھوئی جا رھا تھا تو سوچیں جو اس کے جسم کے ساتھ مستیاں کررھا تھا اسکا کیا حال ھوگا
ماسٹر جی فرحت کو لٹا کر چارپائی کے پاس کھڑے ھوگئے اور اپنی شلوار کا نالا کھولا اور شلوار اتار دی
جیسے ھی ماسٹر جی کی شلوار اتری تو ماسٹر جی کا شیش ناگ لہراتا ھوا سامنے کھڑا تھا
ماسٹر جی کا لوڑا تھا کہ
کھوتے کا لن
ماسٹر جی کا لن دیکھتے ھی میرے منہ سے بےساختہ نکلا
او تواڈی پین نوں ایڈا وڈا لن اففففف
فرحت کا جب دھیان ماسٹر جی کے لن کی طرف گیا تو فرحت کی آنکھوں میں عجیب سی چمک آئی اور اسکا منہ کھلے کا کھلا رھ گیا ماسٹر جی نے اپنے لن کے پھولے ھوے ٹوپے پر ہاتھ پھیرا اور فرحت کے منہ کی طرف. لن کو کر کے اسکے قریب ھوگئے
فرحت ایک دم گبھرا گئی اور منہ دوسری طرف کر لیا
ماسٹر نے فرحت کے سر کو پکڑ کر اپنے لن کی طرف کیا اور لن کو ھاتھ میں پکڑ کر فرحت کے ہونٹوں پر مارنے لگ گئے فرحت نے ھاتھ اپنے ھونٹوں پر رکھتے ھو ے نھی میں سر ہلایا
تو ماسٹر جی نے فرحت کا ھاتھ اسکے منہ سے علیحدہ کرتے ھوے کہا یار بس تھوڑا سا پیار کردو
تو فرحت بولی
میں نے یہ گندہ کام کبھی نھی کیا
اے تے ہے وی ایڈا وڈا تے اینا موٹا نہ بابا میرے منہ وچ نئی آنا
ماسٹر جی نے پھر منت کرتے ھوے کہا
یار بس ایک پوری کردو اور لن کی ٹوپی کو فرحت کے ہونٹوں پر رکھ دیا فرحت نے برا سا منہ بنا کر دو تین چُمیاں ٹوپے پر لے لیں اور ھاتھ سے بس کا اشارہ کردیا
مگر ماسٹر جی کہاں باز آنے والے تھے ماسٹر جی نے پھر سے منتیں کردی کہ بس تھوڑا سا منہ میں ڈال لو
تو فرحت نھی نھی کرتی رھی مگر ماسٹر جی نے لن کو اسکے منہ پر رکھ کر ہلکا سا پُش کیا تو ٹوپے کی دباو سے مجبوراً فرحت کو منہ کھولنا پڑا اور فرحت نے بڑا سا منہ کھول کر صرف ٹوپا ھی منہ میں لیا اور تھوڑا سا چوس کر باہر نکال دیا اور الٹی کرنے کے سٹائل سے چارپائی کے سائڈ پر ھوکر نیچے تھوکنے لگ گئی اور کھانسنے لگ گئی
اور کھانسے ھوے بولی میرا سانس ھی بند کردیا اینا موٹا لن اے
ماسٹر جی بولے. یار ابھی تو صرف ٹوپا ھی اندر کیا تھا اور تم اسے کرنے لگ گئی ھو ماسٹر جی نے پھر لن فرحت کے ہونٹوں پر پھیرا اور اسے منہ کھولنے کو کہا تو فرحت نے آآآ کر کے منہ کھول دیا اور ماسٹر جی نے ایکدم کافی سارا لن اسکے منہ میں ٹھونس دیا اور ساتھ ھے اسکے سر کو مضبوطی سے اس انداز میں پکڑ لیا کے فرحت اپنا سر پیچھے کر کے لوڑا منہ سے نہ نکال لے. اور ماسٹر جی ساتھ ھی گھسے مارنے لگ گئے
فرحت کی منہ میں آدھے سے بھی کم لن گیا ھوا تھا
مگر فرحت کا منہ پھولا ھوا تھا اور اس کے منہ سے غوں غوں غوں کی آوازیں آرھی تھی ایکدم فرحت کی آنکھیں باہر کو آنے لگ گئی اور انکھوں سے پانی نکلنا شروع ھوگیا اور ذور لگا کر ماسٹر سے اپنا سر چھڑوانے لگ گئی
آخر کار ماسٹر جی کو بھی بیچاری پر ترس آگیا اور لن کو اسکے منہ سے نکال دیا
لن نکلتے ھی فرحت زور زور سے کھانستے ھوے اٹھ کر بیٹھ گئی اور اپنا ھاتھ گلے پر
پھیرتی ھوئی لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی
ماسٹر جی جلدی سے اسکے پاس بیٹھ گئے اور اس سے معافی مانگنے لگ گئے
تو فرحت بولی تم نے مجھے جانور سمجھ رکھا ھے ایسے بھی کوئی کرتا ھے حد ھے تمہاری میرا سانس بند ھونے لگا تھا اور تمہیں اپنے مزے کی پڑی ھوئی تھی
میں جارھی ھوں میں نے نھی کچھ کروانا
تو ماسٹر جی شرمندہ سے گبھراے ھوے بولے کہ یار غلطی ھوگئی
اچھا لیٹو اب نھی کرتا
فرحت کہنے لگی میں لیٹوں گی تو ھی کچھ کرو گے چھوڑو مجھے جانے دو
ماسٹر جی نے جب دیکھا کہ اتنی خواری کے بعد بھی شکار ہاتھ سے نکل رھا ھے تو ماسٹر جی نے جلدی سے پینترا پلٹا اور مسکے لگانا شروع ھوگئی
کہ یار تم خوبصورت ھی اتنی ھو کنواری لڑکی سے بڑھ کر تمہارا جسم ھے اتنے پیارے ہونٹ ہیں کہ مجھ سے رھا نھی گیا
میں نے بھی تمہاری پھدی کو زبان سے چاٹا ھے
کیا کمال کی چیز ھو تم لگتا ھی نھی کہ تم شادی شدہ ھو اور ایک بچے کی ماں ھو
میں کیا کروں مجھے سمجھ ھی نھی آرھا تھا کہ میں کیا کررھا ھوں
عورت کی سب سے بڑی کمزوری اسکی تعریف ھے اور ماسٹر جی کا حربہ کامیاب ھوگیا اور ماسٹر جی نے تعریف کرتے کرتے فرحت کو پھر چار پائی پر لٹا کر اسکے اوپر آگئے
ماسٹر جی نے اوپر آتے ھی کچھ دیر فرحت کے مموں کو باری باری چوسا اور ایک ھاتھ سے پھدی کو مسلا تو فرحت پھر گرم ھوگئی
ماسٹر جی تھوڑا نیچے ھوے اور فرحت کی دونوں ٹانگوں کو پکڑ کر اوپر کیا اور اپنے لوڑے کے موٹے ٹوپے کو فرحت کی پھدی کے لبوں کے درمیان اوپر نیچے کرنے لگ گئے
تو فرحت نے کہا
ماسٹر جی مجھے ڈر لگ رھا ھے اتنا بڑا لن ھے آپکا میرے خاوند کا تو اس سے بھی آدھا لن تھا مجھے تو اس سے بھی درد ھونے لگ جاتی تھی
اب یہ اتنا بڑا لن میں کیسے لے سکوں گی
تو ماسٹر جی نے کہا
میری جان کچھ نھی ھوتا بس برداشت کرنا پھر دیکھنا کیسے مزہ ھی مزہ آتا ھے
ایسے باتیں کرتے کرتے اور فرحت کو تسلیان دیتے ھوے ماسٹر جی نے فرحت کی ٹانگوں کو اپنے کندھوں پر رکھا اور ٹانگوں کو کندھوں سے لے کر فرحت کے اوپر جھک گئے
اب فرحت کی ٹانگیں مل ماسٹر جی کے کندھوں پر تھی اور ماسٹر جی اپنا سر فرحت کے منہ کے قریب لے گئے اور اپنے دونوں ھاتھوں کو فرحت کی ٹانگوں کے نیچے سے گزار کر اسکے کندھوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا فرحت کے پیر اسکے سر کے پاس پہنچ گئے
نیچے سے ماسٹر جی کا ٹوپا پہلے ھی پھدی کے ہونٹوں میں پھنسا ھوا تھا
اس سے پہلے کہ فرحت کچھ بولتی یا سمجھتی ماسٹر جی نے ایک جاندار گھسا مارا پھدی گیلی ھونے کی وجہ سے لن بغیر کسی رکاوٹ کے پھدی کے ریشوں کو چیرتا ھوا اندر گہرائی تک جا پہنچا اور ٹوپا جاکر بچے دانی کا حال چال پوچھنے لگ گیا
جیسے ھی لوڑے نے اپنا کام کیا فرحت کے منہ سے ایک ذور دار چیخ نکلی
ھاےےےےےےےے میں مر گئی
ھاےےےےےےے
ھاےےےےےےے وے ماسٹرا ماردتا ای
ھاےےےےےےے وے کی کردتا ای
ھاےےےےےےےے امممییییی میری پھدی گئی ھاےےےےےے
اففففففففففف
فرحت کی چیخ اتنی ذور کی تھی کہ اگر کوئی کمرے کے تھوڑے فاصلے پر بھی ھوتا تو اس کی چیخ سن لیتا فر حت کا یہ حال دیکھ کر میں بھی ایک دفعہ کانپ گیا
ماسٹر جی بھی ایک دفعہ ہل گئے اور جلدی سے ایک ھاتھ. فرحت کے منہ پر رکھ دیا اور لن اندر ھی جڑ تک رھنے دیا
فرحت ایسے تڑپ رھی تھی جیسے پہلی دفعہ چدی ھو
اور حقیقتاً واقعی فرحت کے حال پر ترس آرھا تھا
فرحت کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور اپنے دونوں ھاتھ ماسٹر کے سینے پر رکھ کر ماسٹر جی کو پیچھے دھکیل رھی تھی اور کبھی سینے پر مکے مار رھی تھی
کچھ دیر ایسے ھی چلتا رھا دو منٹ تک ماسٹر جی نے کوئی حرکت نہ کی بس فرحت کے منہ کو چومتے رھے اور اپنے ہونٹوں سے اسکے آنسو چُنتے رھے
پھر ماسٹر نے فرحت کی ٹانگوں کو چھوڑ دیا فرحت نے ٹانگیں ماسٹر جی کے کندھوں سے نیچے اتار کر سیدھی کرلی اور دو تین دفعہ ٹانگوں کو اٹھا اٹھا کر چار پائی پر مارتی رھی
کچھ دیر بعد فرحت بھی کچھ ریلکس ھوئی تو ماسٹر جی نے اہستہ آہستہ لن کو اندر باہر کرنا شروع کردیا
فرحت ھوے ھوے افففف سسسسسیییی کرتی رھی اور ساتھ ساتھ ہولی کر ہولی کر ہولی کر کہتی رھی
تقریبا پانچ منٹ تک ایسے ھی دونوں لگے رھے پھر فرحت کو بھی مزہ آنے لگ گیا اور ماسٹر جی کی بھی گھسوں کی سپیڈ تیز ھوتی گئی
آخر کار لن اور پھدی کی صلح ھوگئی ،،
،،
اب فرحت بھی گانڈ اٹھا اٹھا کر پورا لن اندر لے رھی تھی ماسٹر جی نے ایک بار پھر فرحت کی ٹانگیں اوپر کر دیں اور زور زور سے گھسے مارنے لگ گئے
فرحت کے ممے بھی اسی ردھم میں اوپر نیچے ھورھے تھے اور فرحت بھی سسکاریاں لے رھے تھی
فرحت نے اب دونوں ھاتھ ماسٹر کی گانڈ پر رکھ لیے اور ماسٹر کی گانڈ کو پھدی کی طرف دھکیلتی
اور منہ سے عجیب عجیب آوازیں نکالتی
ماسٹر اگے کر ماااسٹر ساررررراا اگگگے کردے سارررا اگگے کردے
انکھیں بند
منہ کھلا
اور کہے جارھی تھی
سسسسسی پورا کردے سارا کردے زورررر دی ماسٹر ھاااں انج ای ایتھے مار ایتھے مار سٹ. آآ ھااااا افففففف
اچانک فرحت کی ٹانگیں کانپنا شروع ھوئی اور جسم اکڑنے لگ گیا
اور ایکدم بولی میں گئی میں گئی گئی گئییییییییی
اور ساتھ ھی ماسٹر جی کو کس کے جپھی ڈال کر اسکا منہ چومنے لگ گئی اور یکدم جسم ڈھیلا چھوڑ کر لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی
ادھر ماسٹر جی کی بھی سپیڈ تیز ھوگئی چند گھسوں کے بعد یکدم ماسٹر جی نے اپنا لوڑا پھدی سے باھر نکالا اور فرحت کے مموں کی طرف ٹوپا کر کے تیز تیز مٹھ مارنے لگ گئے
پھر ایک لمبی پچکاری لن سے نکلی جو سیدھی فرحت کے مموں پر گری اور کچھ چھینٹے فرحت کے منہ پر پڑے فرحت نے اسی وقت اپنا ھاتھ منہ کے اگے کر لیا
پھر دوسری پچکاری مموں سے پچھے پھر تیسری پچکاری ناف پر اور پھر ماسٹر جی کے ہاتھ سے منی بہتی ھوئی پھدی کے اوپر گرنے لگ گئ ماسٹر جی بھی لمبے لمبے سانس لے رھے تھے
یہ سب دیکھتے میں اپنے لن کو مسلنے میں مصروف تھا اور میرا سارا دھیان اندر ھی تھا مجھے یہ بھی احساس تک نہ ھوا کے میرے پیچھے بھی کوئی کھڑا ھے وہ تو مجھے تب پتہ چلا جب کسی نے میری شلوار کو پکڑ کر نیچے کھینچا جس سے میری لاسٹک والی شلوار نیچے چلی گئی اور میں نے جیسے ھی گبھرا کر پیچھے دیکھا تو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
میری شلوار گُھٹنوں تک نیچے چلی گئی تھی میں نے جلدی سے دونوں ھاتھ سے شلوار کو اوپر کرتے ہوے پیچھے مڑتے دیکھا تو عظمی اپنے منہ پر ھاتھ رکھے ہنسی جارھی تھی
میں نے اسے گھور کر دیکھا اور چھلانگ مار کر اینٹوں سے نیچے اتر گیا
جب میں نے چھلانگ لگائی تو میرے لن نے قمیض کو آگے سے اٹھایا ھوا تھا عظمی نے بھی ایک نظر میری اٹھی ھوئی قمیض کو دیکھا اور منہ دوسری طرف کر لیا میں نے اسے بازو سے پکڑ کر زور سے ہلایا اور غصے سے اشارہ کرتے ھوے پوچھا کہ کیا تکلیف ھے تو وہ کچھ بولنے ھی لگی تھی کہ میں نے اسے انگلی منہ پر رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور اسکا ھاتھ پکڑ کر کلاس کی طرف چل دیا
میں تیز تیز قدم اٹھانے اسے لے کر جارھا تھا
۔۔۔
کلاس میں پہنچ کر عظمی اپنی جگہ پر بیٹھ گئی اور میں کرسی پر کمروں کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا
۔۔۔
اور عظمی کی طرف گھورتے ھوے دیکھ کر اپنے منہ پر ھاتھ پھیر کر اسے انگلی دیکھاتے ھوے اشارہ کیا کہ دیکھ لوں گا تجھے
۔۔
کچھ دیر بعد ماسٹر جی کمرے سے نکل کر کلاس کی طرف آتے دیکھائی دئے میں نے جان بوجھ کر ماسٹر جی کو ایسے نظر انداز کیا جیسے میں نے انہیں دیکھا ھی نھی
۔۔۔
ماسٹر جی اتنے میں میرے قریب سے گزرتے ھوے میرے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوے بولے۔۔۔۔
سنا چھوٹے ماسٹر کی ہوریا اے،
میں ایکدم ایسے چونکہ جیسے ماسٹر جی کی آمد کا مجھے پتہ ھی نھی چلا
میں جلدی سے کھڑا ھوگیا اور بولا
سر بچوں کی نگرانی کررھا ھوں آپکی طبعیت کیسی ھے اب
ماسٹر جی کے چہرے پر شیطانی سی مسکراہٹ آئی اور ماسٹر جی نے کرسی پر بیٹھتے ھوے ٹانگیں سیدھی کی اور دونوں ھاتھ سر سے اوپر لیجا کر ایک لمبی سی جمائی لی اور بولے ٹھیک ھے اب جاو شاباش جا کر اپنی جگہ پر بیٹھ جاو
میں جاکر عظمی کے پاس بیٹھ گیا
مجھے پھر نھی پتہ چلا کہ فرحت کب گئی
فرحت نے مجھے کہنی ماری اور بولی
مروان لگا سی نا اج تو میں نے کہا بلے بھی بلے الٹی تم نے کی کھانسی تمہاری نکلی اور مروانے میں لگا تھا
تو عظمی نے گھورتے ھوے کہا
اینی دیر اوتھے کھڑا کی کردا ریا سی
،
میں نے کہا کچھ نھی بس ویسے ھی کھڑا تھا
تو اس نے مجھے پھر کہنی ماری اور بولی سہی سہی بتا کیا دیکھ رھا تھا
ماسٹر جی کو پتہ چل گیا کہ نھی
میں نے کہا
تم گبھراو مت کچھ نھی ھوا
اور میں نے ماسٹر کی طرف اشارہ کرتے ھوے
اسے خاموش کروا دیا کہ راستے میں سب بتا دوں گا،
ماسٹر جی آنکھیں بند کیے کرسی پر بیٹھے کرسی کو آگے پیچھے کر کر کے پتہ نھی کس سوچ میں گم تھے
پھر ہمیں چھٹی ھوگئی اور گھر جاتے وقت کافی سارے بچے ہمارے ساتھ ساتھ تھے اس لیے عظمی سے کچھ خاص بات نہ ھو سکی
شام کو میں کھیلنے کے لیے گھر سے نکل کر سیدھا آنٹی فوزیہ کے گھر گیا
تو جیسے ھی میں دروازے سے اندر داخل ہوا تو آنٹی فوزیہ دروازے کے بلکل ساتھ ھی لگے ہوے نلکے سے برتن دھو رھی تھی،
میں نے آنٹی کو سلام کیا تو آنٹی نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور مسکرا کر سلام کا جواب دیا ۔۔۔۔
آنٹی فوزیہ نے پیلے رنگ کی قمیض اور سفید شلوار پہنی ھوئی تھی اور کُھرے کی بنی پر بیٹھ کر برتن دھونے میں مصروف ھوگئی
میں بھی آنٹی کے پاس ھی کھڑا ھوگیا آنٹی پاوں کے بل بیٹھی تھی اس لیے انہوں نے پیچھے سے قمیض اٹھا کر آگے دونوں ٹانگوں میں دی ھوئی تھی کہ قمیض پیچھے سے گیلی نہ ھو
اور آنٹی کی گانڈ پاوں کے بل بیٹھنے سے پیچھے کو نکلی ھوئی تھی اور انکی تھوڑی سی کمر بھی ننگی ھورھی تھی میری کمبخت آنکھوں نے کھڑے ھوتے ھی آنٹی کی گانڈ کا اچھے سے ایکسرا کیا
میں نے آنٹی سے عظمی لوگوں کا پوچھا تو آنٹی نے بتایا کہ دونوں کمرے میں پڑھ رھی ہیں
میں پہلے تو کمرے کی طرف چلنے لگا مگر آنٹی کے جسم کا نظارا کرنے کے لیے فلحال اپنا ارادہ ملتوی کردیا،
اور نلکے کی ہتھی پکڑا کر اوپر نیچے کرتے ھوے آنٹی سے بولا
آنٹی میں نلکا گیڑتا ھوں آپ آرام سے برتن دھو لو
آنٹی بولی پتر تم جاو اندر میں دھو لوں گی تم ایسے اپنے کپڑے گیلے کرو گے مگر میں نے آنٹی کو کہا کہ کچھ نھی ھوتا
اور زور زور سے نلکے کی ہتھی کو گیڑتے ھو آنٹی کے جسم کا معائنہ کرنے لگا
آنٹی نے لان کی قمیض پہنی ھوئی تھی اور پیلے رنگ میں سے کالے رنگ کے برا کے سٹرپ صاف نظر آرھے تھے
آنٹی جب جھک کر برتن کو مانجھتی تو پیچھے سے اپنی گانڈ کو بھی اوپر نیچے کرتی
برتن دھوتے آنٹی کی شلوار ایک سائڈ سے کافی گیلی ھوگئی تھی اور اس میں سے انکا گورا جسم دعوت نظارا دے رھا تھا
آنٹی کی گانڈ کی ایک سائڈ صاف نظر آرھی تھی میں چوری چوری نظر گھما کر دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرتا رھا
تب تک آنٹی نے سارے برتن دھوکر لوھے کی ٹوکری میں رکھ لیے اور کھڑی ھوکر پیچھے سے گانڈ میں پھنسی شلوار کو نکالا اور قمیض کو درست کیا،
تو میں برتنوں کی ٹوکری کو اٹھانے لگا
آنٹی بولی پتر رہنے دے
میں خود اٹھا لوں گی تیرے سے برتن گر جائیں گے،
اور یہ کہہ کر آنٹی میرے سامنے ھی نیچے کو ٹوکری اٹھانے کے لیے جھکی تو آنٹی کے گلے پر میری بے ساختہ نظر پڑی ان کے چٹے چٹے مموں کا نظارا بلکل میرے سامنے تھا
کالے بریزئیر میں انکے گورے ممے کیا قیامت لگ رھے تھے
اوپر سے پیلا رنگ انپر بہت جچ رھا تھا آنٹی نے برتنوں کی ٹوکری اٹھائی اور سیدھی ھوگئی،
میں سکتے کے عالم میں کھڑا ویسے ھی آنٹی کی چھاتی کو دیکھے جارھا تھا
آنٹی نے مجھے آواز دی یاسرررر
میں ایک دم ہڑبڑا گیا اور آنٹی کی طرف گبھراے ھوے بولا
ججججی آنٹی تو آنٹی
مسکرا کر بولی
کون سے خیالوں میں کھو جاتے ھو
میں نے کہا کہیں نھی آنٹی جی
تو آنٹی بولی چلو کمرے میں
اور آنٹی میرے آگے آگے برتنوں کی ٹوکری کو اٹھاے اپنے پیٹ کے ساتھ لگاے چلی جارھی تھی
میں آنٹی کے پیچھے انکی ہلتی ھوئی گانڈ کو گھورتے چلا جارھا تھا
آنٹی کمرے میں داخل ھو کر سامنے دیوار پر لگے لکڑی کے پھٹے پر برتن جوڑنے لگ گئی اور میں عظمی اور نسرین کے پاس جا کر کھڑا ھوگیا
،،،،
اور تالی مار کر بولا واہ جی واہ بڑی پڑھائیاں ھو رھی ہیں،
نسرین بولی
ہاں تینوں کوئی تکلیف اے
آپ تے پڑنا نئی دوسریاں نوں گلاں کرنیاں،
میں نے بھی جواباً کہا
جناں مرضی پڑ لو ہُناں تے فیل ای اے
تو اس دفعہ عظمی بولی
تم تو ہر دفعہ فرسٹ آتے ھو جیسے
میں نے کہا
***
شکر ھے فرسٹ ھی آتا ھوں
تمہاری طرح رشوت دے کر پاس نھی ہوتا
تو نسرین جھلا کر بولی
اممییییی اسے بولو ہمیں پڑھنے دے خود تو سارا دن آوارہ پھرتا ھے اور دوسروں کو پڑھنے نھی دیتا،
تو آنٹی جو پہلے ھی ہماری باتوں پر ہنس رھی تھی
ہنستے ھوے بولی
بھائی ھے تمہارا. اب تم لوگوں کے ساتھ نھی مزاق کرے گا تو کس سے کرے گا،
تو عظمی بولی امی آپ کی ان ھی باتوں نے اسے سر پر چڑھا رکھا ھے
تو انٹی غصے سے بولی بکواس نہ کر تے چپ کر کے پڑھ،
تو عظمی نے غصہ سے اپنی کتابیں بیگ میں ڈالنا شروع کردی کہ پڑھ لیا جتنا پڑھنا تھا
اب یہ شیطان کا چیلا آگیا اس نے پڑھنے دینا ھے،
تو میں نے آنٹی کی طرف بڑا معصوم سا چہرہ بنا کر دیکھا اور کہا آنٹی جی دیکھ لیں مجھے کیا کہہ رھی ھے تو آنٹی بولی
ایدی زبان وڈن والی ھوئی اے جو منہ وچ اندہ پونکدیندی اے
تو عظمی مجھے گھورنے لگ گئی
میں نے عظمی کی طرف دیکھا اور زبان نکال کر اسے منہ چڑایا تو وہ مجھے مارنے کے لیے بھاگی تو میں کمرے سے باھر کو بھاگا اور وہ میرے پیچھے پیچھے بھاگتی آگئی
میں گلی میں نکل کر کھیتوں کی طرف بھاگا اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو عظمی بھی تیز تیز چلتی جوتا ھاتھ میں پکڑے آرھی تھی
میں رک گیا اور اس کی طرف دیکھ کر پھر زبان نکال کر منہ چڑایا تو اس نے ھاتھ میں پکڑا جوتا میری طرف پھینکا جو مجھ سے کچھ ھی دور گرا میں نے آگے بڑھ کر اسکا جوتا اٹھایا اور کھیت کی طرف بھاگ گیا
وہ بھی ایک پاوں میں جوتا پہنے اور ایک ننگے پاوں سے ھی مجھے برا بھلا کہتی میرے پیچھے بھاگی
میں کھیت میں پہنچا تو کافی سارے بچے کھیل رھے تھے
میں کپاس کے کھیت کے باہر پگڈنڈی پر بیٹھ کر گلی کی طرف دیکھنے لگ گیا
تو مجھے عظمی بڑے غصے میں آتی دیکھائی دی اور سیدھا میری ھی طرف رخ کیا اور کچھ فاصلے پر آکر کھڑی ھوگئی اور نیچے کھیت سے ایک بڑا سا مٹی ڈھیلا اٹھا کر مجھے مارنے کے لیے ڈرانے لگ گئی اور کہنے لگی
جُتی دے میری چولے نئی تے تیرا سَر پاڑ دینا اے
میں نے اسے دیکھ کر اپنے دونوں ھاتھ کانوں کو لگا کر اس سے معافی مانگنے لگ گیا
اور اسکی جوتی کا پاوں اسکی طرف پھینک دیا
عظمی آگے آئی اور جوتا پہن کر میرے سامنے کھڑی ھوگئی اور بولی
ہُن پج پتر،،
کتھے پجیں گا
اور زور سے مٹی کا ڈھیلا میرے پیروں میں مارا میں نے دونوں پاوں اوپر کرلیے
اور اس سے کہنے لگ گیا بس کر یار ہن بچے دی جان لینی اے
تو عظمی بلکل میرے سامنے اپنے دونوں ھاتھ اپنی
وکھیوں پر رکھے بڑی شوخی سے بولی
بچہ تے ویکھو
وڈے وڈے کم کردا اے تے ہے بچہ واہ واہ
تو میں نے کہا اچھا بابا اب معاف بھی کردو
تو وہ میرے ساتھ ھی پگڈنڈی پر بیٹھ گئی
میں نے کہا اگر جناب کا غصہ اتر گیا ھے تو کھیلیں
تو عظمی بولی بچُو میں پڑھائی چھوڑ کر تیرے پیچھے کھیلنے نھی آئی تو میں حیران ھوتے اسکی طرف دیکھ کر بولا تو جناب کس لیے آئی ہیں،
تو عظمی بولی سہی سہی بتاو کہ کھڑکی سے کیا دیکھ رھے تھے،
تو میں نے بڑی شوخی سے اسکی طرف دیکھا اور اسکا کان پکڑ کر کھینچتے ھوے کہا
اچھااااا اے سار ڈرامہ کھڑکی والی گَل پُچھن واسطے کیتا سی،
تو عظمی نے اپنا کان چُھڑواتے ھوے بولی آئیییییی میرا کَن چھڈ باندر جیا نہ ھوے تے
تو میں نے اسکا کان چھوڑ دیا
تو وہ بولی ایسے امی نے آنے نھی دینا تھا
تو میں نے اسکی گال پر چُٹکی کاٹتے ھوے کہا بڑی تیز ھوگئی ایں،
تو عظمی نے جلدی سے اپنی گال کو پیچھے کیا اور میرا ھاتھ پکڑ کر اپنی گود میں رکھا اور بولی چلو اب بتا بھی دو
تو میں نے کہا یار یہ کوئی جگہ ھے
بات کرنے کی یہاں سب بچے ہیں کسی نے ہماری بات سن لی تو،،،،،،
تو عظمی بولی
تو پھر کہاں جاکر بتانا ھے تو میں نے کہا وہاں کھالے کے پاس ٹاہلی کے پیچھے بیٹھ کر بتاوں گا اگر سننا ھے تو چلو ادھر چل کر سب کچھ تفصیل سے بتاوں گا
عظمی کچھ دیر سوچتے ھوے بولی
چلو
میں نے کہا تم ادھر ھی بیٹھو میں پہلے جاتا ھوں تم تھوڑی دیر بعد آجانا تو
عظمی بولی نہ نہ مجھے اکیلی کو ڈر لگتا ھے میں نے نھی آنا اکیلی نے
تو میں نے کہا یار میں تھوڑا اگے جاکر رک کر تمہارا انتظار کرلوں گا جب تم آجاو گی تو پھر اکھٹے ھی کھالے پر چلیں گے تو عظمی نے اثبات میں سر ہلا دیا
اور میں نے سب بچوں پر نظر دوڑائی تو سب بچے اپنے دھیان میں لگے ھوے تھے
میں وہیں سے پیچھے کی طرف کھسکتا ھوا کپاس کے پودوں میں گُھس گیا اور پھر اٹھ کر پودوں کے درمیان سے ھی پگڈنڈی پر آگیا اور کھالے کی طرف چل پڑا کچھ ھی دور جاکر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا
کچھ ھی دور جاکر میں کھڑا ھوگیا اور عظمی کو دیکھنے لگ گیا تقریباََ تین چار منٹ بعد عظمی آتی دیکھائی دی
اور پھر ہم دونوں کھالے کی طرف چل پڑے میں نے اس سے تسلی کرلی کی کسی نے دیکھا تو نھی تو اس نے مجھے تسلی دلا دی کی میں سب کی نظروں سے بچ کر ھی آئی ھوں
اتنے میں ہم کھالے کہ پاس پہنچ گئے اور پھر باری باری کھالا کراس کیا اور ٹاہلی کے بڑے سے درخت کے پیچھے جاکر بیٹھ گئے
میں اور عظمی بلکل ساتھ ساتھ بیٹھ گئے
تو عظمی بولی بتاو اب
میں نے کہا
میں تمہیں کلاس کی طرف بھیجنے کے بعد کمرے کے پیچھے گیا اور کھڑکی سے اندر کے حلات جاننے کے لیے کان لگا کھڑا ھوگیا کہ ماسٹر جی اب کیا کہتے ہیں
مگر ماسٹر جی کو ہمارے ادھر آنے کا پتہ نھی چلا تھا
اور ماسٹر جی فرحت کو پھر گندے کام کرنے کا کہہ رھے تھے اور فرحت ڈری ہوئی نہ نہ کررھی تھی
تبھی مجھے ایسا لگا کہ ماسٹر جی نے پھر فرحت کے ساتھ گندا کام کرنا شروع کردیا ھے تو میں نے اینٹیں اکھٹی کی اور انکو دیوار کے ساتھ رکھ کر اوپر کھڑا ھوگیا
جب میں نے اندر دیکھا تو ماسٹر جی فرحت کے سارے کپڑے اتارے ھوے تھے اور انکے دودو چوس رھے تھے اور اپنا ایک ھاتھ فرحت کی پیشاب والی جگہ پر رکھ کر مسل رھے تھے
میں جیسے جیسے عظمی کو بتا رھا تھا عظمی کا رنگ سرخ ھوتا جارھا تھا اور وہ میری بات سنتے ہوے بار بار اپنی زبان کو ہونٹوں پر پھیر رھی تھی
میرا لن بھی نیچے سے سر اٹھا چکا تھا
عظمی بولی اچھا پھر کیا ھوا
تو میں نے کہا پھر ماسٹر جی نے اپنی شلوار اتاری اور اپنا اپپپنا
تو عظمی بولی کیااااا اپنا
تو میں نے اسکا ھاتھ پکڑا اور اپنے اکڑے ھوے لن پر رکھ کر کہا
ماسٹر جی اپنا یہ لن نکال کر فرحت کے منہ میں ڈال دیا
تو عظمی نے جلدی سے اپنا ھاتھ واپس کھینچا اور مجھے گھورتے ھوے کہا
تمیز نال زیادہ شوخا نہ بن
میں جھینپ سا گیا اور خاموش ھوگیا
عظمی پھر بولی
اگے دس فیر کی ہویا
میں نے کہا
پھر ماسٹر جی نے فرحت کی بھی شلوار اتار دی اور گندے کام کرنے لگ گئے،
عظمی بولی یاسررررررر سہی طرح بتاو کہ پھر کیا ھوا
میں نے اسے گھورتے ھوے کہا کہ پھر تم نے میری شلوار کھینچ کر اتار دی تھی
تو عظمی میری بات سن کر شرمنده سی ھوگئی اور سر نیچے کرتے ھوے بولی کہ وووہ وہ تو میں نے تمہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے تمہاری شلوار کو کھینچا تھا مجھے کیا پتہ تھا کہ تم اتنی ڈھیلی الاسٹک والی شلوار پہنتے ھو
تو میں نے کہا جب اتنی ذور سے کھینچی تھی تو نالا بھی ھوتا تو تب بھی شلوار اتر جانی تھی
تو عظمی بولی تم اب کون سا بچے ھو جو الاسٹک پہنتے ھو
تو میں نے کہا تم بھی تو الاسٹک ھی پہنتی ھو
تو عظمی نے اپنی قمیض آگے سے اوپر کر کے اپنا نالا مجھے دیکھاتے ھوے کہا
اے ویکھ بَچُو لاسٹک نئی نالا اے
عظمی نے جب قمیض اوپر کی تو اسکا چٹا سفید پیٹ مجھے نظر آیا اسکا پیٹ دیکھتے ھی میرے لن نے نیچے سے ایک ذور دار جھٹکا مارا
پھر عظمی بولی اچھا اب بتا بھی دو کہ پھر کیا ھوا
مجھے تو سارا کچھ بھول کر عظمی کے گورے جسم کو دیکھنے اور چومنے کی پڑ گئی مگر میں اندر سے ڈر رھا تھا کہ یہ موڈی لڑکی ھے اگر اس نے شور مچا دیا یا گھر بتا دیا تو سارا قصور میرا ھی نکلنا ھے،
اس لیے میں پہل کرنے سے گبھرا رھا تھا
عظمی نے مجھے کندھے سے ہلاتے ھوے پھر کہا ہیلو میں کیا پوچھ رھی ھوں
تو میں نے کہا ہاں ہاں ہاں
وہ وہ وہ بتا تو دیا کہ پھر دونوں گندے کام کرنے لگ گئے تھے
تو عظمی بولی یاسسسرررر کے بچے تفصیل سے بتاو کہ کیا کیا کررھے تھے
آخر میرا بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا
میں نے نشے کے سے انداز کھسک کر اسکے سامنے آیا اور اسکے سامنے آیا اور اسکے دونوں کندھوں کو پکڑا
اور منہ اسکے منہ کے قریب کیا اور بڑے رومینٹک انداز سے اسے کہا تفصیل سے بتاوں تو عظمی نے ہاں میں صرف سر ھی ہلایا اور میں نے ویسے ھی اسکو کندھوں سے پکڑے پیچھے کی طرف دھکیل کر گھاس پر لٹا دیا اور اسکے اوپر لیٹ گیا عظمی نے بڑی کوشش کی اپنا آپ چھڑوانے کی مگر کامیاب نہ ھوسکی
آخر کار تھک کر
رونے والا منہ بنا کر میری طرف دیکھنے لگ گئی.
میں نے ہونٹ اسکے ہونٹوں کے کچھ فاصلے پر کئیے ھوے تھے
عظمی نے اب اپنے نیچے والے ہونٹ کو ایسے باہر نکالا جیسے
چھوٹا بچہ رونے سے پہلے نیچے والا ہونٹ باہر نکال کر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیتا ھے
بلکل ویسے ھی عظمی نے اپنا. نیچے والا ہونٹ باہر کو نکالا ھوا تھا اسکے ہونٹ تو پہلے ھی پنک کلر کے تھے مگر ہونٹ کا اندر کا حصہ سرخی مائل تھا
میں جیسے ھی اسکے ہونٹوں کو چومنے لگا تو
عظمی نے اپنے ایک ہاتھ کا مکا بنایا اور مجھے دیکھانے لگ گئی میں نے سر کے اشارے سے پوچھا کیا ھے
تو عظمی نے اہنے نیچے والے ہونٹ کو مذید باھر نکالتے ھوے کہا
ماروں گی
دوستو
اس وقت جیسا سٹائل اور جیسی معصومیت اور انداز تھا عظمی اگر آپ اس سین کو امیجینیشن کریں تو آپ عظمی کے دلفریب گلاب کے کھلتے پھول جیسے ہونٹوں کو کھا جائیں
کچھ ایسا ھی میرے ساتھ ھوا اور میں اسکی ادا اسکی معصومیت پر مر مٹا اور بے ساختہ اسکے نچلے ہونٹ کو اپنے ہونٹوں میں جکڑ لیا اور چوسنے لگ گیا
عظمی پہلے تو کچھ دیر مچلی مگر پھر اس نے بھی اپنا ایک ھاتھ میری گردن کے پیچھے رکھ لیا
بلکل فرحت کی طرح کیوں کہ سیکس کے بارے میں جتنا کچھ ہم دونوں نے سیکھا اور سمجھا اور دیکھا تھا وہ ماسٹر جی اور فرحت سے ھی سیکھا تھا
مختصراً وہ جوڑی اس جوڑی کی سیکس ٹیچر تھی
خیر
ہم دونوں اب مسلسل ایک دوسرے کے ہونٹ چوس رھے تھے. مجھے بھی بہت اچھا لگ رھا تھا اور عظمی کے منہ کے لباب کو اپنے لباب کے ساتھ مکس کر کے اندر نگھلتے وقت ایک عجیب سا مزہ اور سواد آرھا تھا ایسے ھی کبھی عظمی میری زبان کو چوستی کبھی میں عظمی کی زبان کو چوستا
عظمی اب مکمل طور پر میرے کنٹرول میں آچکی تھی اور میں اسکا بھرپور فائدہ اٹھا رھا تھا
میں نے ایک ھاتھ سے عظمی کی ایم مسمی کو پکڑا اور دبانے لگ گیا عظمی کا مما میرے ھاتھ میں پورا آیا ھوا تھا
اور میرا لن عظمی کی تھائی کے ساتھ ٹکریں مارھا تھا
کچھ دیر بعد میں نے عظمی کی قمیض کو اوپر کرنے کی کوشش کی تو عظمی نے میرا ہاتھ پکڑا لیا میں نے ہاتھ چُھڑوایا اورپھر سے قمیض اوپر کرنے لگا تو قمیض کا نچلا حصہ زمین کے ساتھ لگا ھونے کی وجہ سے آگے سے قمیض بس پیٹ سے تھوڑا اوپر مموں کے نیچے تک ھوئی
میں نے اسی کو غنیمت جانا اور عظمی کے گورے چٹے سفید روئی کی طرح نرم پیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگ گیا
میرا ھاتھ جیسے ھی عظمی کے پیٹ پر رینگتا ھوا عظمی کے مموں کے قریب گیا عظمی ایک دم مچلی اور میرے ھاتھ کو مضبوطی سے پکڑ لیا میں نے بھی تھوڑا زور لگا کر اپنے ھاتھ کو عظمی کی قمیض کے نیچے سے گزار کر عظمی کی ایک مسمی کو پکڑ لیا
دوستو عظمی کا مما اتنا نرم اور ملائم تھا کہ کیا بتاوں مجھے تو ایسے لگا جیسے میں نے کوئی روئی کا گولا ہاتھ میں پکڑا لیا ھو ھو
میں نے تین چار دفعہ جوش میں آکر عظمی کے ممے کو کچھ زیادہ ھی زور سے دبا دیا
عظمی کو شاید کچھ ذیادہ ھی درد ھوگئی اور اس نے ایک لمبی سی سسکاری لی اور پھر ہلکی سی چیخ ماری اور غصے سے بولی جانور مت بنو آرام سے کرو
میں نے ساتھ ھی اپنے ھاتھ کو نرم کرلیا اور پیار سے آرام آرام سے ممے کو دباتا رھا اور انگلی سے اسکے اکڑے ھوے چھوٹے سے نپل کو بھی چھیڑتا رھا جس سے عظمی
مزے کی وادیوں میں کھو گئی
اور
ہمممممم اففففف سسسسسیییی کرنے لگ گئی
عظمی میرے ھونٹوں کو پاگلوں کی طرح چوس رھی تھی دو تین دفعہ تو اس نے میرے ہونٹ پر کاٹ بھی دیا تھا مجھے درد تو ھوا مگر میں نے اسپر ظاہر نھی کیا اور میں بھی مزے سے ایک ھاتھ سے اسکے دونوں مموں کو باری باری اپنی مٹھیوں میں بھرتا اور کبھی ہاتھ کو پیٹ پر لے آتا
کچھ دیر ایسے ھی ہم ہر چیز سے بیگانے ھوکر اپنی مستی میں لگے رھے پھر میں ہاتھ عظمی کے نالے پر رکھا اور نالے کی گانٹھ کے سرے کو انگلیوں سے تلاش کرنے لگ گیا
میں اس انداز سے نالے کے سرے کو تلاش کررھا تھا کہ عظمی کو شک بھی نہ ھو کہ میں اسکا نالا کھولنے لگا ھوں
تھوڑی سی محنت کرنے کے بعد میں نے ایک جھٹکے سے نالے کے سرے کو کھینچا تو نالا کھل گیا اس سے پہلے کہ عظمی اپنی شلوار کو پکڑی یا میرے ہاتھ کو پکڑتی
میں نے جلدی سے اپنی تین انگلیاں اسکی پھدی پر رکھ کر اسکی پھدی کو مسلنے لگ گیا
ایسا بس چند سیکنڈ میں ھی ھوا عظمی کی پھدی نے جیسے ھی میری انگلیوں کو دیکھا تو پھدی سے آنسووں کی جھڑی لگ گئی اور عظمی نے ایک لمبی سی سسکاری لی اور مجھے کس کر جپھی ڈالتے ھوے بولی سسسسیییی ھااااےےےےے یاسسسرررر کے بچچچےےےے
کی کیتا ای
ادھر پھدی کے آنسووں نے میری انگلیوں کو تر کردیا اور میری انگلیاں آپس چِپ چِپ کرنے لگ گئی میں نے عظمی کی پھدی پر انگلیوں کا دباو بڑھا دیا تھا اور عظمی بھی ویسے ھی مچل رھی تھی. پھدی کو مسلنے کی سپیڈ میری بھی کافی تیز ھوگئی اسی دوران عظمی نے مجھے کس کر بڑے زور سے اپنے بازوں میں جکڑ لیے اور گانڈ اٹھا اٹھا کر پھدی کا مساج کروانے لگ گئی پھر اس نے ایک لمبی سے ھاااااااااا کی اور اپنی دونوں ٹانگوں کو آپس میں زور سے بھینچ لیا اور پھدی سے گرم گرم لاوا نکل کر میری انگلیوں کو جلاتا ھوا عظمی کی گانڈ سے نیچے گھاس پر گرنے لگا
عظمی تین چار دفعہ کانپی اور ٹھنڈی ھوگئی مگر میں تو ویسے کا ویسا ھی تھا عظمی کی سیکسی آوازیں سن کر اور اسکی پھدی کا لمس پاکر میرا جزبہ اور جنون تو اور بڑھ چکا تھا میں پھر ایک دفعہ عظمی کی پھدی کے اوپر ھی اپنی انگلیوں کو پھیرنے لگ گیا اور دوسرے ھاتھ سے عظمی کی قمیض کو زور لگا کر مموں سے اوپر کردیا
اور جوش میں آکر عظمی کا مما منہ ڈال لیا مجھے ایسا کر کے اتنا مزہ آرھا تھا کہ اس مزے کی کیفیت کو میں یہاں لفظوں میں بیان نھی کرسکتا
میرا ھاتھ سپیڈ سے پھدی کے اوپر ھی حرکت کر رھا تھا اور میرا لن عظمی کے پٹ کے ساتھ گھسے مارنے اور رگڑنے میں مصروف تھا
کہ اچانک جوش میں نے اپنی درمیان والی پوری انگلی عظمی کی پھدی کے اندر گھسا دی پھدی بھی گیلی تھی اور انگلی بھی گیلی
جب انگلی اور پھدی راضی
تو کیا کرے گا قاضی
جیسے ھی انگلی عظمی کی پھدی کے اندر گئی عظمی نے ایک ذور دار چیخ مار کر مجھے پیچھے کو پورے ذور سے دھکا دیا
میں عظمی کے اچانک اس رد عمل پر بہت ذیادہ ھی ڈر گیا اور پیچھے کی طرف جاگرا
اتنے میں مجھے اپنے پیچھے سے کھالے کے بنے پر؟؟؟
میں عظمی کی چیخ سن کر اور اسکے زور دار دھکے کی وجہ سے پہلے ھی سہم گیا تھا اوپر سے جیسے ھی بنے پر کسی کے دوڑے آنے کی آواز سنی تو میرے اور زیادہ ترا نکل گئے میں نے ڈر کے مارے جلدی سے ٹاہلی کی اوٹ لیتے ھوے دوسری طرف دیکھا تو مجھے چار پانچ بڑے بڑے کُتے ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ھوے آگے پیچھے بنے پر ہماری طرف ھی دوڑے آتے ھوے نظر آے
کُتوں کو دیکھ کر میری تو گانڈ پھٹنے والی ہوگئی
میں نے جلدی سے عظمی کی طرف دیکھا جو اپنا نالا باندھ رھی تھی اسنے بھی کتوں کی آوازیں سن لی تھی
اس لیے رنگ اسکا بھی اڑا ھوا تھا
میں نے ڈرے ھوے انداز سے عظمی کو کہا
او تواڈی پین نوں عظمی چھیتی کر کُتے آگئے نے
عظمی نے جلدی جلدی سے کپڑے سہی کیے اور میرے پیچھے کھڑی ھو کر کُتوں کو دیکھنے لگ گئی
میں نے جلدی سے اسکا ھاتھ پکڑا
اور مکئی کی فصل کے بیچو بیچ نہر کی طرف دوڑ لگا دی
ہم نے پیچھے مڑ کر نھی دیکھا تھوڑی ھی دیر بعد بھاگتے ھوے ہم نہر پر چڑھ کر ھی پیچھے دیکھنے لگ گئے اور اپنے گُٹنوں پر ھاتھ رکھ کر جھکے ھوے زور زور سے سانس لینے لگ گئے
کچھ دیر بعد عظمی سیدھی ھوئی اور اپنے مموں پر ھاتھ رکھ کر بولی
شکر ھے آج. بچ گئے
میں نے بھی کہا ھاں یار واقعی قسمت نے بچا لیا
اور پھر ہم نے نہر سے پاوں دھوے اور منہ ھاتھ. دھو کر نہر کے کنارے پر چلتے ھوے
ٹرین کی پٹری کے پُل پر پُہنچ گئے
ٹرین کی پٹری ہمارے گاوں کے پاس سے ھی گزرتی تھی ہم تھوڑی دیر وہاں کھڑے رھے اور پٹری پر ھی گاوں کی طرف چل دئیے
میں نے عظمی کو کہا چلو دیکھتے ہیں کون پٹری کے اوپر زیادہ دیر تک چلتا ھے عظمی بولی مجھ سے نھی چلا جانا میرے پہلے ھی جلن ھورھی ھے
میں نے کہا کہاں جلن ھورھی ھے
تو وہ غصے سے بولی
جتھے توں چول ماری اے
میں امی نوں دساں گی کہ میرے نال گندے کم کردا اے
تو میں نے کہا
یار ایک تو تم روز مجھے امی کی دھمکیاں دیتی رھتی ھو جاو بتا دو
میں بھی تمہاری ساری کرتوت بتاوں گا تو عظمی بولی جاو بتا دینا
میں نے عظمی کا ھاتھ پکڑتے ھوے کہا
اچھا بتاو نہ کہاں جلن ھورھی ھے میں دبا دیتا ھوں
تو عظمی بولی
بوتا شوخا نہ بن وڈا آیا دبان والا
میں نے کہا عظمی
تو وہ میری طرف دیکھ کر بولی
کی اے
تو میں نے کہا یار معاف کردو غلطی سے ھوگیا تھا
تو وہ بولی غلطی سے ھوا تھا یا پھر جان بوجھ کر کیا تھا
تو میں نے کہا قسم سے مجھے پتہ ھی نھی چلا اور میں نے انگلی اندر کردی مجھے مزا ھی اتنا آرھا تھا کہ مجھے ہوش ھی نہ رھا
تو عظمی بولی
تمہیں پتہ بھی ھے کہ کتنی درد ھوئی تھی میری. ایک دم سے جان نکل گئی تھی
میں نے کہا ہاں یار واقعی تمہاری تو چیخ ھی نکل ،،،،،گئی تھی،،
مگر مجھے بعد میں پتہ چلا کہ سالی نے مزے والی چیخ ماری تھی،،،
اور میں نے حیرانگی سے،،
عظمی کی طرف دیکھا اور عظمی سے کہا یار تم بھی لڑکی ھو اور وہ فرحت بھی تو لڑکی ھی ھے
مگر اسے نے تو
،،،،،،،،،،،،
اتنا کہہ کر میں خاموش ھوگیا
تو عظمی بولی
کیا اسنے تو
میں نے کہا کچھ نھی
چلو نہ یار پٹری کے اوپر چلتے ہیں عظمی بولی نئی پہلے بتاو
کہ کہا کہنے لگے تھے
میں نے کہا یار پھر کبھی بتاوں گا لمبی بات ھے ابھی اندھیرا ھو رھا ھے یہ نہ ھو کہ امی لوگ ہمیں ڈھونڈنے کھیت میں پہنچ جائیں
عظمی نے جب امی کا سنا تو تیز تیز چلنے لگ گئی
اتنی دیر میں ہم گاوں پہنچ گئے اور تیز تیز چلتے جب گلی کی نکڑ پر پہنچے تو سامنے سے نسرین چلی آرھی تھی
ہم بھی نسرین کی طرف چل دیے تو وہ بڑے غصے سے بولی
مل گیا ٹیم ویلیاں نوں کار آندا
تسی کار چلو اک واری آوارہ گردو
ابو دس دے نے توانوں
عظمی بولی
چل چل آئی وڈی کماں والی
اور یہ کہہ کر اسکو نظر انداز کرتی ھوئی گھر کی طرف چلدی نسرین بھی اسکے پیچھے پیر پٹختی پُھوں پُھوں کرتی چلدی
میں تو سیدھا اپنے گھر ھی چلا گیا
مجھے انکل سے ویسے ھی ڈر لگتا تھا
ایسے ھی دن گزرتے رھے
ہمارے پیپر شروع ھوگئے پھر رزلٹ بھی آگیا میں. کلاس میں فرسٹ آیا تھا
اور عظمی اور نسرین نے بھی اچھے نمبر لیے تھے مگر وہ صرف پاس ھی ھوئی اس دوران
میری عظمی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ چلتی رھی
موقع ملتے ھی ہم کسنگ بھی کرلیتے
عظمی نے کئی دفعہ مجھ سے پوچھا تھا کہ اس دن کیا بتانے لگے تھے مگر میں ہر دفعہ یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ پھر بتاوں گا
عظمی نے بھی اب مجھے پوچھنا چھوڑ دیا تھا
ادھر سکول میں
ہم نے دوبارا فرحت کو نھی دیکھا شاید ماسٹر جی نے اسے چودنے کے لیے کسی اور جگہ کا بندوبست کرلیا تھا
رزلٹ کے بعد اب ہم تینوں نے شہر کے سکول میں داخلہ لینا تھا
کچھ دنوں بعد. ہماری نئی یونیفارم کتابیں اور بیگ بھی آگیا
ابو مجھے شہر کے گورمنٹ مڈل سکول میں داخل کروا آے اور عظمی نسرین میرے سکول کے کچھ فاصلے پر گرلز مڈل سکول میں داخل ھوگئی،،،
دوستو پہلا دن تو میرا سکول میں بڑا ھی کنفیوژن میں گزرا میں سکول کی عمارت کو کمروں کو اور کمروں میں پڑے ڈیسکوں کو اور چھت پر لگے پنکھوں کو اور دیواروں پر لگے رنگ برنگے چارٹوں کو دیکھ دیکھ کر بہت خوش ھوتا رھا
اوپر سے ہماری کلاس میں زیادہ بچے شہری ھی تھے جو فر فر اردو بولتے تھے
کچھ ممی ڈیڈی بچوں نے میرا خوب مزاق بھی اڑایا اور میری ٹوٹی پھوٹی اردو سن کر کھلکھلا کر ہنسنے لگ جاتے
میں شرمندہ سا ھوجاتا
سکول میں سب سے زیادہ مزہ مجھے جس چیز کو دیکھ کر آیا وہ تھی برآمدوں میں دیواروں کے اوپر پینٹنگ کی ھوئی علامہ اقبال اور قائد اعظم کی تصویر یں
میں انکو بڑے غور سے دیکھتا اور دوسری طرف جاتا تو وہ دونوں میری ھی طرف دیکھ رھے ھوتے پھر دوسری طرف جاتا تو تب بھی میری ھی طرف دیکھ رھے ھوتے. میں یہ سب دیکھ کر بہت خوش ھوتا رھا اور اس چیز کو بہت انجواے کیا
خیر ہم صبح صبح جلدی جلدی تیار ھو کر سکول کی طرف نکل پڑتے کیوں کہ ہمیں سکول جانے سے زیادہ خوشی شہر جانے کی ھوتی
اور ہم نے جانا بھی پیدل ھوتا تھا وہ بھی کھیتوں کے بیچ سے کیوں کے ادھر سے ہمیں شارٹ کٹ پڑتا تھا نہر پر ایک چھوٹا سا لکڑی کا پُل بنا ھوا تھا جس سے گزر کر ہم شہر کی طرف جاتے تھے
سکول جاتے ھوے بھی عظمی سے کھڑمستیاں نھی ھوسکتی تھی کیوں کے ہمارے ساتھ باجی صدف ھوتی تھی جو عظمی اور نسرین کی ٹیویشن ٹیچر بھی تھی اور شہر کڑھائی اور سلائی کا کام سیکھنے جاتی تھی
واپسی پر وہ ہمارے ساتھ نہی ھوتی تھی کیوں کہ انکو چھٹی لیٹ ھوتی تھی
مگر پھر بھی واپسی پر نسرین کے ہوتے ھوے میں عظمی سے سواے ہنسی مزاق کے اور کچھ نھی کرسکتا تھا
باجی صدف بھی کافی شوخ مزاج تھی
اسکی عمر کوئی بیس سال کے لگ بھگ تھی اور
تھی بڑی سیکسی سی
چھتیس سائز کے ممے تھے جو برقے میں بھی باہر کو نکلے نظر آتے تھے اور موٹی موٹی آنکھیں پیٹ نہ ھونے کے برابر تھا اور اسکی گانڈ تو کمال کی تھی بلکل گول مٹول اور باہر کو نکلی ھوئی ایک تو وہ برقعہ بھی بڑا فٹنگ والا پہنتی تھی جس سے اسکے ممے اور گانڈ بلکل برقعہ میں پھنسے ھوتے اور جب وہ چلتی تو پیچھے سے ہلتی ھوئی گانڈ کا نظارا ھی الگ ھوتا
رنگ اسکا تھوڑا گندمی تھا مگر اسکے رنگ میں ایک کشش تھی جو ہر دیکھنے والے کو اپنی طرف کھینچ لیتی بات کرتے ھوے آنکھوں کو وہ اکثر بڑی ادا سے جھپکا جھپکا کے بات کرتی
جب وہ میرے آگے آگے بنے پر چلتی ھوتی تو میری کوشش یہ ھی ھوتی کی میں باجی صدف کے پیچھے ھی رھوں اور اسکی ہلتی ھوئی گانڈ شہر تک جاتے دیکھتا رھوں
وہ اکثر مجھے چھیڑتی رہتی
جب بھی وہ ہمارے ساتھ سکول جانے کے لیے شامل ھوتی تو آتے ھی میری گال پر چُٹکی کاٹ کر کہتی سنا شزادے چلیں
میں اپنی گال کو مسلتا ھوا کہتا کہ چلو باجی
مگر دل ھی دل میں اس کو گالیاں دیتا کہ سالی روز اتنی زور سے چٹکی کاٹ دیتی ھی،،
کسے دن میں ایدی بُنڈ تے دندی وڈ کے پج جانا اے،
مگر یہ میرا خیالی پلان تھا میں ایسا صرف سوچ ھی سکتا تھا پریکٹیکل کرنا ناممکن تھا
دوستو
کافی دن ایسا ھی چلتا رھا
ہماری کلاس میں ایک لڑکا تھا اسد
جس کو سب اونٹ کہتے تھے
کیوں کہ اسکی عمر کوئی اٹھارہ سال کے لگ بھگ تھی اور اسکا قد ساری کلاس کے لڑکوں سے بڑا تھا وہ واقعی ھی ہمارے بیچ اونٹ ھی لگتا
اسد پڑھائی میں بلکل نلائق تھا اسی وجہ سے وہ ابھی تک چھٹی کلاس میں ھی رھا تھا
ویسے اسکے ٹشن وشن سے لگتا تھا کہ یہ کسی کھاتے پیتے گھرانے کا لڑکا ھے
سارا دن بس کتاب کو دیکھتا ھی رھتا پڑھتا کچھ بھی نہ
شکل سے بلکل سالا پُھکرا لگتا تھا
اوپر سے میری بدقسمتی اس سالے کی سیٹ بھی میرے ساتھ ڈیسک پر ھی تھی
میں نے اکثر نوٹ کیا کہ اسد جان بوجھ کر کبھی میرے پٹ پر ہاتھ رکھ دیتا تھا اور کبھی بینچ پر ھاتھ رکھ کر انگلیاں میری گانڈ کے نیچے پھنسا دیتا
میں کافی دن اسکو اتفاق سمجھ کر اگنور کر دیتا
تھا
ایک دن میں نے دیکھا. کہ اسد بڑا مست ھوا ڈیسک کے خانے میں کتاب رکھے بڑے غور سے کتاب کو دیکھ رھا تھا اور ساتھ ساتھ اپنے لن کو پکڑ کر مسلی جا رھا تھا میں کافی دیر اسکی حرکتوں کو نوٹ کرتا رھا پہلے تو میں سمجھا شاید اسکے خارش ھورھی ھے مگر اس نے ایک دفعہ کتاب کا صفحہ پلٹنے کے لیے لن سے ھاتھ ہٹایا تو اسکی شلوار میں تمبو بنا ھوا تھا جو قمیض کو بھی اوپر تک اٹھاے ھوے تھا
میں یہ سب دیکھ کر ایکدم چونکا اور کتاب کو غور سے دیکھنے لگ گیا جیسے ھی میری نظر کتاب پر پڑی.،،
میرے تو پسینے چھوٹ گئے اور ایکدم میں نے جھر جُھری سی لی اور آنکھیں پھاڑے کتاب کو ھی دیکھے جارھا تھا ،
جو اصل میں سیکسی پکچر کا رسالہ تھا جسے میں کتاب سمجھ رھا تھا
رسالے میں انگریز لڑکوں اور لڑکیوں کی تصویریں تھی
جس میں کسی جگہ
لڑکا لڑکی کی پھدی کو چاٹ رھا تھا کہیں لڑکی لڑکے کے لن کو منہ میں لے کر چوس رھی تھی کہیں گوری گھوڑی بنی ھوئی تھی اور گورے نے اسکے بال پکڑے ھوے تھے اور لن پیچھے. سے اسکی پھدی میں ڈالا ھوا تھا
کسی جگہ. گوری اپنے ممے چسوا رھی تھی کسی جگہ دو دو گورے ایک گوری کو آگے پیچھے سے چود رھے تھے اور کسی جگہ دو گوریاں آپس میں ھے ایک دوسری کی پھدی چاٹ رھی تھی یا ممے چوس رھی تھی کہیں گوری اپنی انگلی پھدی میں ڈال کر لیٹی ھوئی تھی
ایسے بہت سے پوز تھے
میں رسالا دیکھنے میں فل مگن ھوگیا تھا اور نیچے سے میرا لن اچھل اچھل کر مجھے آوازیں دے رھا تھا مگر میں لن سے بیگانہ ھوکر بس انگریز گوریوں کی پھدیاں اور ممے اور چٹی چٹی بُنڈیں دیکھنے میں مصروف تھا کہ اچانک مجھے جھٹکا لگا اور میں نے گبھرا کر جب نیچے دیکھا تو،
میں نے نیچے کی طرف دیکھا تو اسد نے میرا لن پکڑا ھوا تھا اور لن کو مٹھی میں دبا رھا تھا میں نے ایک جھٹکے اس کے ھاتھ سے اپنا لن چُھڑوایا اور غصے سے اس کی طرف دیکھتے ھوے کہا
اوے کیا مسئلہ ھے تجھے تمیز سے رہو تو وہ مسکرا کر بولا یار میں تو تیرا لن چیک کر رھا تھا کہ کتنا بڑا ھوگیا ھے
میں نے کہا تو نے میرا لن اپنی گانڈ میں لینا ھے جو چیک کررھا ھے،
تو بولا یار ابھی تیری عمر نھی ھے گانڈ میں لن ڈالنے کی ابھی تو تجھے یہ بھی نھی پتہ ھوگا کہ
بیر دی بُنڈ کتھے ہوندی اے
تو میں بولا
او پائی میں ایتھے پڑن آنداں ایں بیر دی بُنڈ ویکھن نئی،
تو اسد نے میرا ھاتھ پکڑا اور اپنے لن پر رکھ کر کہا یہ دیکھ ایسا ھوتا ھے بُنڈ پاڑ لن
تو میں نے جھٹکے سے اپنا ھاتھ پیچھے کرتے ھوے کہا
اوے توں باز نئی آنا
آ لین دے ماسٹر جی نوں
میں دسنا اے توں جیڑے کم کرن لگیا ھویاں اے
تو اسد نے میری کمر پر ھاتھ پھیرتے ھوے کہا
یار تم تو غصہ ھی کرگئے میں تو اس لیے کہہ رھا تھا کہ اپنے لن کی مالش کیا کرو دیکھنا کیسے دنوں میں میرے لن جتنا ھوتا ھے
تو میں نے کہا او بھائی اپنی اور میری عمر اور قد کا فرق دیکھ
پہلے پھر یہ بات کرنا
تیری عمر ذیادہ ھے اس لیے تیرا لن بھی بڑا ھی ھوگا میں ابھی چھوٹا ھوں اس لیے میرا لن بھی چھوٹا ھے
تو اسد بولا یار ایک تو تم غصہ بہت کرتے ھو میں تیرے فائدے کی ھی بات کررھا ھوں
اور دیکھ لن کا عمر اور قد سے کوئی تعلق نھی
لن کو جتنی جلدی اور جتنا مرضی بڑا کرسکتے ھو
میں اسد کی باتوں میں آچکا تھا اس لیے میرا غصہ کافی حد تک ٹھنڈا ھوگیا تھا
اس لیے میں اسکی باتوں کو غور سے سن رھا تھا
تو میں نے کہا وہ کیسے کرسکتے ہیں
تو اسد بولا یاسر ویرے دیکھ سیدھی سی بات ھے
میں یاروں کا یار ھوں اور گانڈو لوگوں کو میں اپنے پاس بھی نھی بھٹکنے دیتا
تم مجھے اچھے لڑکے لگے ھو میں کافی دنوں سے تجھ سے دوستی کرنا چاھتا تھا مگر ججھک رھا تھا
تو میں نے کہا دیکھ اسد میں پینڈو جیا تے سدھا سادھا جیا بندا واں
اسی پنڈ دے لوک وی یاراں دے یار ہوندے آں
تے جدے نال اک واری یاری لا لٰیے تے اودے واسطے جان وی دے دیندے آں،
اسد نے میری طرف ہاتھ بڑھایا اور مجھے کہنے لگا بس یار مجھے بھی ایسا ھی سمجھ اور میں نے بھی اسکے ھاتھ میں دوستی کا ھاتھ دے دیا
اور کافی دیر ہم ایک دوسرے کو اپنے اپنے بارے میں بتاتے رھے
اسد نے بتایا کہ اسکی بس ایک بہن ھی ھے جو اس سے ایک سال چھوٹی ھے اور میٹرک کر رھی ھے اور اس کے ابو اسکے بچپن میں ھی ایک کار ایکسڈینٹ میں ہلاک ہوگئے تھے جس میں اسکے ماموں اور ممانی بھی ساتھ ھی ہلاک ھوے تھے
اور اسکا ایک کزن ھے جو اس کے ماموں کا ھی بیٹا تھا
جو کچھ دن پہلے کینڈا چلا گیا تھا
اسد کے ابو اور ماموں بوتیک کا کام کرتے تھے جو اب اسد کی امی نے سمبھالا ھوا تھا
اسد کا پڑھائی میں بلکل بھی دل نھی لگتا تھا جس وجہ سے وہ تین چار دفعہ فیل ھوا تھا اور اسی وجہ سے ابھی تک چھٹی کلاس میں ھی تھا اسد نے بتایا کہ اسے سیکس کا بہت شوق ھے اور خاص کر لڑکوں کی بُنڈیں بہت مارتا ھے
جب اس، نے مجھے یہ بتایا تو میں نے اسے مکا مارتے ھوے کہا ماما تبھی میرے پٹوں پر ھاتھ پھیرتا رہتا تھا
تو اس نے ہنس کر کہا کہ ہاں یار میں نے تجھ پر بڑی دفعہ ٹرائی ماری مگر تم ویسے لڑکے نھی نکلے ورنہ اب تک تم بھی میرے نیچے ھوتے
میں نے اسد کے ہاتھ پر زور سے ہاتھ مارا اور دونوں کھل کھلا کر ہنس پڑے
تو میں نے کہا یار یہ گندے رسالے کہاں سے لاتا ھے اور تجھے ڈر نھی لگتا تو اسد بڑے فخر سے بولا جگر یہ تو کچھ بھی نھی ھے میرے پاس تو ایسے ایسے رسالے پڑے ہیں کہ تو دیکھ کر چھوٹ جاے
تو میں نے حیرانگی سے پوچھا کہ تم انکو رکھتے کہاں پر ھو تو وہ بولا کہ میرے کزن والا کمرہ اب میرے پاس. ھی ھوتا ھے اس میں الماریاں ہیں وہیں چھپا دیتا ھوں میرا کزن بھی بڑا حرامی تھا کسی دن تجھے گھر لیجا کر ایسی ایسی ایٹمیں دیکھاوں گا کہ تو یاد کرے گا کہ کس سخی دل سے پالا پڑا ھے
میں نے کہا واہ یار تیری تو موجیں لگی ھوئی ہیں
تو اسد بولا میرے ساتھ رھو گے تو تیری بھی موجیں ھونگی
میں نے کہا نئی یار ایسی بھی بات نھی بس تیری دوستی ھی کافی ھے میرے لیے
اسی دوران ہمیں تفری ہوگئی. ہاف ٹائم کی گھنٹی بجتے ھی سب بچے باہر کو بھاگے. ہم بھی نکل کر باہر گراونڈ میں آگئے پھر ہم سڑک کی طرف چلے گئے وھاں ریڑھی سے انڈے والے نان کھاے اور پھر گراونڈ میں آکر ایک طرف بیٹھ کر باتیں کرنے لگ گئے
اسد بولا سنا جگر گاوں میں کسی بچی کی پھدی بھی ماری ھے اب تک یاں پھر کنوارہ ھی پھر رھا ھے تو میں نے کہا نہ یار. ہمارے گاوں میں ایسا ویسا کچھ نھی ھوتا
اگر ایسا کچھ ھو تو پتہ لگنے پر ویسے ھی لڑکے لڑکی کو جان سے مار دیتے ہیں
تو اسد بولا
ابھی تیرا لن چھوٹا ھے نہ اسی لیے پھدی کی طلب نھی کرتا اور مجھے تو لگتا کہ تم نے ابھی تک مٹھ بھی نھی ماری ھوگی
تو میں نے حیران ھوتے ھوے پوچھا کہ یار چھوٹے لن کی تو سمجھ آگئی مگر یہ مٹھ مارنا کیا ھے
تو اسد نے ہنستے ھوے میرے کندھے پر ھاتھ مارتے ھوے کہا
جا یار. تم واقعی پکے پینڈو ھو
چل کسی دن تجھے یہ چسکا بھی ڈال دوں گا
میں کچھ دیر خاموش رھا اور جھجھکتے ھوے اسد سے بولا
یار کیا واقعی لن کے بڑے ھونے کا عمر سے کوئی تعلق نھی
تو اسد میری طرف دیکھتے ھوے بولا
تم نے بڑا کرنا ھے تو بتا دیکھنا چند دنوں میں ھی لن بڑا نہ ھوا تو کہنا
میں نے حیرانگی سے اسکی طرف دیکھتے ھوے کہا سچی
تو اسد بولا
مچی
تو میں نے کہا یار وہ کیسے تو اسد بولا ہے میرے پاس ایک نسخہ
تو میں نے کہا کونسا
تو اسد بولا بیس روپے کا ھے بس
تو میں پریشان سا ھوکر بول بیسسسسس روپے کا
نہ یار مجھے تو گھر سے پچاس پیسے خرچہ ملتا ھے اور اسکا میں نان کھا لیتا ھوں میرے پاس اتنے پیسے کہاں سے آنے ہیں
تو اسد بولا چھڈ یار
یاراں دے ہوندیاں پریشان نئی ھوئی دا
میں نے کہا کیا مطلب
تو اسد بولا
یار میں تجھے لا دوں گا پیسوں کی فکر نہ کر
تو میں نے کہا نھی یار میں ایسے نھی لے سکتا جب میرے پاس پیسے ھونگے میں تجھے بتا دوں گا
تو اسد غصے سے میری طرف دیکھتے ھوے بولا
ماما فیر کردتی نہ پینڈواں والی گل
نالے یاری لائی اے تے نالے فرق رکھنا اے
میں نے کہا نھی یار ایسی بھی بات نھی بس مجھے شرم آتی ھے
تو اسد بولا
چل ایسے کر مجھ سے ادھار کرکے لے لینا جب تیرے پاس پیسے ھونگے تو دینا
اب تو ٹھیک ھے
میں نے کچھ دیر سوچتے ھوے اسد کی طرف دیکھا اور اثبات میں سر ہلا دیا
اتنی دیر میں ہاف ٹائم بھی ختم ھوگیا اور ہم دونوں کلاس کی طرف چل دیے
اور اسد نے بتایا کہ میں کل ھی اپنے یار کے لیے تحفہ لے آوں گا
میں دل ھی دل میں بہت خوش ھوتا رھا
چھٹی کے بعد میں عظمی اور نسرین کے سکول کی طرف چلا گیا اور انکو ساتھ لے کر گھر کی طرف چلدیا
دوسرے دن میں سکول کے لیے تیار ھوکر عظمی کے گھر گیا اور ان دونوں کو لے کر ہم تینوں باجی صدف کے گھر اسے ساتھ لینے چلے گئے
باجی صدف تیار ھوکر بیٹھی تھی بس برقعہ ھی پہننا تھا ہمیں دیکھ کر باجی صدف بولی بس دومنٹ میں ابھی آئی اور کمرے کی طرف چلی گئی
باجی صدف لگتا تھا ابھی ابھی نہائی تھی کیوں پیچھے سے گیلے بال اسکی قمیض کو بھی گیلا کیے ھوے تھے
باجی صدف نے آج پنک کلر کا سوٹ پہنا ھوا تھا جو اسپر بہت جچ رھا تھا
باجی صدف تھوڑی ھی دیر بعد برقعہ پہنے باہر آگئی اور ہم سکول کی طرف چلدیے
کھیت کی پگڈنڈی پر ہم سب آگے پیچھے چل رھے تھے سب سے آگے نسرین تھی اس سے پیچھے عظمی اور پھر باجی صدف اور اس کے پیچھے میں تھا اور باجی صدف کی ہلتی ھوئی گانڈ کا نظارہ کرتے ھوے مزے سے مست ھوکر چل رہا تھا اور ہمارا فاصلہ بھی کچھ ذیادہ نھی تھا بس ایک قدم کے فاصلے پر میں باجی صدف کے پیچھے چل رھا تھا میرا لن بھی قمیض کو اوپر اٹھاے پیچھے سے باجی صدف کی گانڈ کو اشارے کر رھا تھا جب ہم آدھے راستے پر پہنچے تو ایکدم کپاس کی فصل جو اب سوکھ چکی تھی اس میں سے ایک کالے رنگ کی بلی نکل کر تیزی سے عظمی اور باجی صدف کے درمیان سے نکل کر پگڈنڈی کے دوسری طرف بھاگ گئی بلی شاید باجی صدف کے پاوں کے اوپر سے گزری تھی باجی صدف نے زور دار چیخ ماری اور پیچھے کو ھوئی جس سے اسکا پاوں بھی پگڈنڈی سے سلپ ھوا اور نیچے گرنے ھی لگی تھی کے میں نے جلدی سے باجی صدف کو پیچھے سے جپچھی ڈال دی اور گرنے سے بچا لیا
یہ سب اتنی جلدی سے ھوا کہ مجھے بھی سمجھ نہ آئی کے باجی کو کہاں سے پکڑوں
میرے پکڑنے سے پہلے باجی کافی نیچے کو جھک چکی تھی اور انکی بُنڈ جو پہلے ھی باہر کو نکلی ھوئی تھی جھکنے کی وجہ سے اور باہر نکل گئی تھی میں نے ویسے ھی اسکو پیچھے سے جب جپھی ڈالی تو میرے ھاتھوں اسکے دونوں بڑے بڑے اور نرم ممے آگئے اور میرا لن اس کی بُنڈ کی دراڑ کے اوپر ٹکر مار کر اندر گھسنے کی کوشش کرنے لگ گیا
ایسا بس کوئی تیس چالیس سیکنڈ ھی ھوا
باجی صدف نے جلدی سے اپنے دونوں ھاتھ میرے ھاتھوں پر رکھے اور جھٹکے سے مموں کو آزاد کروا دیا مگر میں نے بھی ممے چھوڑتے وقت ہلکے سے دبا کر اس انداز سے چھوڑے کے باجی کو ایسے لگے جیسے انکے چھڑانے کی وجہ سے مموں پر دباو آیا تھا
اور میرے ھاتھ باجی کے پیٹ پر آگئے تھے
اور لن صاحب ابھی تک باجی کی گانڈ میں گھسنے کی ٹرائیاں مار رھے تھے
باجی اب سمبھل چکی تھی اور عظمی اور نسرین بھی گبھرا کر کھڑی ھوگئی تھی اور عظمی نے بھی آگے بڑھ کر باجی کو بازوں سے پکڑ کر سیدھا کیا
طمیں نے پوچھا باجی کیا ھوا تھا بچ تو گئی چوٹ تو نھی آئی تو باجی ایکدم آگے کو ہوئی اور بڑی حیرت سے میری آگے سے اٹھی ھوئی شلوار کو ایک نظر دیکھا اور پھر اپنا آپ مجھ سے چھڑوا کر
بولی ھاں ھاں بچ گئی ھوں
بلی نے اچانک چھلانگ لگائی تو میں ڈر کر پھسل گئی
شکر ہے تم نے مجھے پکڑ لیا نھی تو میری پاوں میں موچ آجانی تھی
تو میں نے کہا باجی ***** نہ کرے کہ آپکے پاوں میں موچ اجاے
تو باجی مجھے غور سے دیکھتے ھوے میری گال پر چٹکی کاٹتے ھوے بولی
شکریہ یاسر
تو میں نے کہا کوئی بات نھی باجی یہ تو میرا فرض بنتا تھا
تو وہ تھوڑا ہنسی اور ایک دفعہ پھر میری قمیض کی طرف دیکھا جہاں اب سب شانتی تھی اور مسکرا کر پھر میرے آگے چل پڑی
میں نے اس دوران عظمی کی طرف دیکھا وہ پتہ نھی کیوں مجھے گھورے جارھی تھی
خیر ہم سکول پہنچ گئے
اور میں دل ھی دل میں بلی کو دعائیں دیتا رھا جسکی وجہ سے مجھے باجی صدف کے جسم کو چھونا نصیب ھوا وہ بھی ڈریکٹ مموں کو اور گانڈ کو
جسکو روز حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا رھتا تھا،
عظمی لوگوں کو سکول چھوڑ کر میں واپس اپنے سکول آگیا کچھ دیر پڑھانے کے بعد ٹیچر بھی کمرے سے باہر چلے گئے اور سب بچے اپنی اپنی گپوں میں مصروف ھوگئے
تب اسد نے بیگ سے دو چھوٹی سی شیشیاں نکالی اور مجھے دیکھاتے ھوے کہا یہ ھے وہ جادوئی نسخہ جس کی مالش سے دنوں میں تیرا لن پھدی پاڑ لن بن جاے گا
میں نے شیشیوں کو پکڑتے ھوے انکو حیرانگی سے دیکھا جن کے ڈھکن الگ الگ کلر کے تھے اور اسد سے کہا
یہ کیا ھے
تو وہ بولا
جگر اس میں تیل ھے
رات کو تم نے پہلے یہ سفید ڈھکن والے تیل کی سارے لن پر ہلکے ہلکے مالش کرنی ھے اور لن پر سوتی کپڑا لپیٹ دینا ھے اور پھر آدھے گھنٹے بعد کالے ڈھکن والی شیشی کے تیل سے ٹوپی کو چھوڑ کر نچلے حصہ پر مالش کرنی ھے اور پھر وہ ھی کپڑا دوبارا لپیٹ لینا ھے
تو میں نے کہا کتنے دن کرنی ھے تو اس نے بتایا بس جب تک یہ تیل ختم نھی ھوتا
تب تک روز مالش کرتے رہنا تجھے دنوں میں فرق کا پتہ چل جاے گا
میں نے خوش ھوکر شیشیاں اپنے بیگ میں رکھ دی
پھر ایکدم مجھے یاد آیا کہ گھر جاکر انکو رکھوں گا کہاں پر پھر سوچا جگہ بھی مل ھی جاے گی ایک دفعہ لے کر گھر تو پہنچوں
پھر ہاف ٹائم ھوگیا اور ہم باہر نکل کر گراونڈ میں چلے گئے اسد بولا پھر کب میرے گھر چلے گا تو میں نے بتایا کہ یار میں تمہارے گھر چلا تو جاتا مگر میں جا نھی سکتا
تو وہ بولا
جا کیوں نھی سکتا
میں نے کہا یار دراصل میرے ساتھ میری آنٹی کی بیٹیاں بھی شہر سکول آتی ہیں اور انکو ساتھ لے کر آنے اور جانے کی ڈیوٹی بھی میری ھے اس لیے
تو اسد کچھ دیر سوچتے ھوے بولا
کہ اگر ہم سکول سے پُھٹہ لگا لیں تو
میں نے کہا وہ کیا ھوتا ھے
تو اسد ہنستے ھوے میرے سر پر تھپڑ مارتے ھوے بولا
جا اوے توں وی نہ حالے تک ہینڈو ای ایں
میں نے اسے کہا ماما جدوں مینوں پتہ ای نئی کہ پُھٹہ ھوندا کی اے تے مینوں سمجھ کنج آے گی
تو وہ ہنستا ھوا بولا
کہ یار سکول سے بھاگ کر چھٹی کرنے کو پُھٹہ لگانا کہتے ہیں
تو میں نے فٹ کیا
سالیا مینوں مروانا اے
ابھی تو میرا شوق بھی نھی پورا ھوا شہر آنے کا اور تو مجھے سکول سے نکلوانے کا پروگرام بنا رھا ھے
تو اسد بولا یار پریشان نہ ھو تیرا یار ھے نہ اس سکول کا بھیدی
تو بس ٹینشن نہ لے تیرے پر اگر کوئی بات آئی تو میں سب سنبھال لوں گا
مجھے پتہ ھے کی کیا کرنا ھے
بس تو مجھ پر بھروسہ رکھ
میں نے کچھ دیر سوچتے ھوے پھر اسے کہا
یار ویکھیں کِتے مروا نہ دیویں
تو اسد بولا یار مجھ پر یقین نھی تو میں نے کہا نھی
تو اسد غصے سے کھڑا ھوکر مُکا بنا بازو اوپر کر کے کہنے لگا
لن تے چڑ فیر
اور جانے لگا تو میں نے اسے بازو سے پکڑ کر نیچے بٹھاتے ھوے کہا
ایویں ھن شوخا نہ بن چل فیر ویکھی جاے گی جو ھوے گا
تو اسد بولا چل پھر کل تیار رہنا ہم اسمبلی کے وقت سکول کے کمروں کے پیچھے بیرونی دیوار سے نکل کر سکول سے. باھر نکل جاءیں گے
تو میں نے کہا یار سکول کی دیواریں تو کافی اونچی ہیں تو وہ بولا اس بات کی فکر نہ کر بس تو تیار رہنا
میں نے اثبات میں سر ہلایا
اور ہم دونوں اٹھے اور باہر سڑک پر اکر نان کھانے لگ گئے
سکول سے واپس. جاتے بھی کچھ خاص نھی ھوا
دوسرے دن پلاننگ کے تحت ہم کمروں کے پیچھے چلے گئے کیوں کے سکول کا مین گیٹ بند ھوگیا تھا اور کوئی بچہ باھر نھی جاسکتا تھا
ہم کمروں کے پیچھے سے چلتے ھوے ایک جگہ پہنچے جہاں سے بڑا سا نالا تھا جو سکول کی بیرونی دیوار کے نیچے سے باہر کو جاتا تھا جو اس وقت سوکھا ھوا تھا شاید بارش کے پانی کے لیے وہ نالا بنایا ھوا تھا
نالے کا سوراخ اتنا بڑا تھا کہ ہم آسانی سے نکل کر دوسری طرف جاسکتے تھے
پہلے اسد نیچے گھسا اور دوسری
طرف گردن نکال کر تسلی کرنے لگا اور پھر جلدی سے مجھے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور باھر نکل گیا میں بھی اسکے پیچھے ھی باہر آگیا
ہم تیز تیز قدم اٹھاتے ایک چھوٹی سی گلی میں گھس گئے وہ گلی آگے جاکر بازار میں کھلتی تھی میں نے اسد سے کہا یار چھٹی کے وقت میں نے سکول پہنچنا ھے تو اسد بولا یار پریشان نہ ھو ساری ٹینشن دماغ سے نکال دے اور میرے ساتھ چل پھر دیکھنا تو سب کچھ بھول جاے گا
میں چپ کرگیا اور اسکے ساتھ ساتھ تیز قدموں سے چلتا رھا
ہم بازار سے ھوتے ھوے پھر ایک گلی میں گھس گئے گلی بھی بازار کی ھی طرح تھی
مگر ادھر آمدورفت بہت ھی کم تھی
اسد نے ایک دکان کے آگے رکتے ھوے مجھے کہا چل یار آج تجھے ایک گرما گرم چیز دیکھاتا ھوں تو میں نے کہا کہاں پر تو اس نے دکان کی طرف اشارہ کیا جس کے اگے پردہ لگا ھوا تھا اور اندر سے ویڈیو گیم کا شور آرھا تھا
اسد نے میرا ھاتھ پکڑا اور مجھے لے کر دکان میں گھس گیا
کاونٹر پر ایک انکل بیٹھا ھوا تھا
اسد نے اسے ایک روپیہ دیا اور اسے کہا سپیشل گیم تو اس نے کافی سارے سکے اسد کو تھما دیے اور سائڈ پر بنے ایک کیبن کی طرف اشارہ کیا اور بولا ادھر چلے جاو خالی ھے
میں بونگوں کی طرح دکان میں لگی بڑی بڑی گیموں کو دیکھ رھا تھا جہاں پانچ چھ بچے مختلف گیمیں کھیل رھے اور وہ بچے بھی سکول یونیفارم میں ھی تھے
اسد کیبن کی طرف چل دیا اور میں بھی اسکے پیچھے کیبن کے اندر گھس گیا
اسد نے ایک سکہ گیم میں ڈالا اور گیم سٹارٹ کر کے کھیلنے لگ گیا میں حیران ھوکر رنگین سکرین پر چلتی ھوئی گیم کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رھا تھا
میں نے زندگی میں پہلی دفعہ رنگین ٹی وی دیکھا تھا
اسد نے گیم ختم کی اور میرے پٹ پر ھاتھ مار کر بولا تیار ھوجا اب
میں نے گبھرا کر اسد کی طرف دیکھا تو
اسد نے کہا جگر ادھر دیکھ تو میں سکرین کی طرف دیکھنے لگ گیا اتنے میں ایک بڑی خوبصورت انگریز لڑکی جس نے ہاف سکرٹ پہنا ھوا تھا اور اونچی ہیل والی جوتی پہنی ھوئی تھی اسکے ممے اتنے بڑے تھے جیسے ابھی سکرٹ کو پھاڑ کر باہر آجائیں گے
وہ بڑی ادا سے جسم کو لہراتی ھوئی ہماری طرف آئی
اور بڑی ادا سے کھڑی ھوگئی اور ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگا کر ھاتھ کو چوما اور ہماری طرف پھونک ماردی اور سکرین پر انگلش میں لکھا ھوا
ویلکم ٹو مائی سویٹ ھارٹ
آیا
اور وہ لڑکی گھومی اور پیچھے اپنی بڑی سی گول مٹول سی گانڈ پر دونوں ھاتھوں کو رکھا اور بڑے سٹائل سے ھاتھوں کو اپنی گانڈ پر پھیرا اور اسی سٹائل سے چلتی ھوئی واپس چلی گئی
تو اسد نے میری طرف دیکھا اور بولا
سنا فیر
میں نے کہا یار بچی تو کمال کی تھی
تو اسد بولا
آگے آگے دیکھ
تو اسد پھر گیم کھیلنے لگ گیا اور کچھ ھی دیر بعد اسد نے دوسری سٹیج بھی کھیل لی اور وہ ھی لڑکی پھر دوبارا اسی سٹائل سے کمر کو لہراتی گانڈ کو مٹکاتی ھوئی چلی آئی اور پھر سے ہوائی چُمی ہماری طرف پھینکی اور بڑے سٹائل سے کندھوں پر اپنے دونوں ھاتھ رکھے اور کندھوں سے سکرٹ نیچے اتار دیا سکرٹ مموں پر آکر رک گیا
اور پھر اس لڑکی نے بڑی ادا سے کمر کو ہلایا اور ساتھ ساتھ سکرٹ کو نیچے کرتی گئی جب سکرٹ اسکے مموں سے نیچے اترا تو سرخ کلر کے بریزیر میں اسکے بڑے بڑے گول مٹول ممے قیامت ڈھا رھے تھے اسکے ممے دیکھ کر میرا تو حلق خشک ھونے لگ گیا اور میں نے بے ساخت اپنے لن کو پکڑ کر مسلنے لگ گیا
لڑکی نے آہستہ آہستہ کمر کو لہراتے ھوے سکرٹ گانڈ تک اتارا دیا اور پھر دونوں ھاتھ اپنے کولہوں پر رکھ کر گانڈ کو لہراتے ھو سکرٹ گانڈ سے بھی نیچے اتار کر چھوڑ دیا
سکرٹ اسکے پاوں میں گر گیا
اب وہ سرخ بریزیر اور سرخ ھی پینٹی میں تھی اسکے پورے جسم پر ایک بھی بال نھی تھا کیا کمال کا فگر تھا یار
لڑکی کچھ دیر کھڑی ادائیں کرتی رھی اور پھر واپس چلی گئی
اسد نے میری طرف دیکھا اور بولا سنا جگر مزہ آیا کہ نھی میں نے اپنے ماتھے سے پسینہ صاف کرتے ھوے اسے کہا یار کمال کردتا ای
کیا بم پھوڑ کے گئی ھے مزہ اگیا
تو اسد بولا آگے دیکھ
اور اسد نے اگلی سٹیج کھیلنی شروع کردی
تو میں نے کہا
یار اسکا نام کیا ھے تو اسد نے سکرین پر ایک سائڈ پر اسی لڑکی کی چھوٹی سی تصویر کے نیچے لکھے نام کی طرف اشارہ کرتے ھوے کہا
اسکا نام جولی ھے تو میں نے کہا واہ کیا نام ھے جولی
تو اسد ہنسنے لگ گیا
اور بولا
نام تو ایسے پوچھ رھا ھے جیسے اس سے شادی کرنی ھے
تو میں نے ایک لمبا سا سانس اندر کھینچ کر سانس باہر چھوڑا اور آہ بھرتے ھوے کہا ساڈی قسمت وچ کتھوں ایھو جیاں پریاں
تو اسد کھل کھلا کر ہنس پڑا اور بولا
میرے شزادے تو لن تو ایک دفعہ بڑا کر پھر دیکھ ایسی تو کیا اس سے بھی سپیشل پھدیاں تیرا انتظار کریں گی
تو میں نے حسرت بھری اواز نکالتے ھوے کہا
پتہ نئی او وقت کدوں آنا اے تو
اسد بولا بس صبر کر صبر دا پھل مٹھا ھوندا اے
تبھی اسد نے سٹیج مکمل کی اور پیچھے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لی
تو جولی پھر گانڈ کو لہراتی بل کھاتی کیٹ واک کرتی ہماری طرف آکر کھڑی ھوگئی
اور پھر ایک فلائنگ کس ہماری طرف پھینکی جسے میں نے آگے ھاتھ کر کے پکڑ کر اپنی مٹھی میں بند کر کے اپنے سینے کے ساتھ مٹھی کو لگا لیا
جولی نے دونوں ھاتھ کمر کے پیچھے کیے اور بریزیر کے ہک کھول دیے اور کندھوں سے بریزیر کے سٹرپ سرک کر نیچے بازوں تک کر دیے اور ھاتھ آگے کر کے مموں پر بریزیر کے کپ کے اوپر رکھ لیے اور آنکھ سے اشارہ کر کے ہمیں پوچھا کہ اتاردوں
میں جو بے صبری سے اسکے مموں کو دیکھنے کے لیے ترسا بیٹھا تھا جلدی سے بولا
لا وی دے ہن کناں ترسائیں گی
تو اس نے میری بات مان کر مموں سے بریزیر کے کپوں کو ہٹا دیا
اور میں جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھا اور دونوں ھاتھوں سے اسکے ممے پکڑنے کی کوشش کرنے لگ گیا اور سکرین کو نوچنے لگ گیا اتنے میں
میں ایکدم اچھلا کیوں کہ اسد نے پیچھے سے میری گانڈ میں انگلی دے دی تھی
میں اچھل کر واپس اپنی جگہ بیٹھ گیا اور بولا جا اوے پین یکہ سارا مزا ای خراب کردتا ای
تو اسد ھنستے ھوے بولا سالیا ساری سکرین روک لئی سی مینوں وی تے ویکھن دے
تب جولی نے اپنے گول مٹول مموں کو پکڑا اور ایک ممے کو اپنے منہ کی طرف لے گئی اور نپل پر زبان پھیر کر ممے کو چھوڑ دیا پھر دوسرے ممے کے نپل پر زبان پھیری اور واپس. چلی گئی
اسد نے پھر گیم کھیلنا شروع کردی اور کچھ ھی دیر بعد سٹیج ختم کی اور پھر سے جولی بڑے بڑے مموں کو لہراتی گانڈ کو ہلاتی چلی آئی ابھی جولی نے فلائنگ کس کی ھی تھی کہ اچانک ایک جھماکہ ھوا اور،،،،،،
،وغیرہ
جھماکہ ہوتے ہی لائٹ بند ھوگئی
میں نے اور اسد نے ایک آواز میں ھی واپڈا والوں کو تگڑی سی گالی دی اور ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگ گئے
میں نے اسد کو کہا یار چلو دفعہ کرو پھر کبھی دیکھیں گے اور ہم دکان سے باہر نکل کر اسد کے گھر کی طرف چل دیے
اسد کے گھر کے سامنے پہنچ کر اسد نے جیب سے چابی نکالی اور مجھے رکنے کا کہہ کر گیٹ کھول کر اندر داخل ھوگیا
میں باہر کھڑا حیرانگی اور حسرت بھری نگاہوں سے اسد کے گھر کو باہر سے دیکھنے لگ گیا اور سوچنے لگ گیا کہ باہر سے اتنا خوبصورت گھر ھے تو اند سے کتنا خوبصورت ھوگا
اتنے میں اسد نے بیٹھک کر دروازہ کھول کر مجھے اندر آنے کا اشارا کیا
میں جیسے ھی اندر داخل ہوا تو اپنے پینڈو ہونے کا ثبوت دینے لگ گیا اور کمرے کی سجاوٹ کو دیکھ کر واہ واہ کرنے لگ گیا کیا کمال کی کمرے میں سیٹنگ کی ھوئی تھی بڑے بڑے صوفے اور صوفوں کے اگے پڑا بڑا سا شیشے کا ٹیبل دیواروں کے ساتھ لگی رنگ برنگی پینٹنگ دیواروں پر لمبے سائز کے خوبصورت پردے
کیونکہ اتنا خوبصورت کمرہ اور یہ سب چیزیں میں نے زندگی میں پہلی دفعہ دیکھی تھی ہمارے گاوں میں تو بس بیٹھکوں میں چارپایاں اور موُڑے پڑے ھوتے تھے یا جو اچھے زمیندار ھوتے انکے لکڑی کے صوفے ھوتے مگر یہاں تو سب کچھ ھی میرے لیے نیا تھا،،
اسد میری حالت دیکھ کر ہنستے ھوے بولا
جگر بیٹھ میں تھوڑی دیر تک آیا
اس سے پہلے کہ میں اسے کچھ کہتا وہ جلدی سے گھر کے اندر کی طرف جاتے دروازے سے نکل کر اندر چلا گیا اور میں کھڑا ھوکر پھر کمرے کی ہر ہر چیز غور سے دیکھنے لگ گیا
کچھ دیر میں گردن کو گھماتے کمرے کی چاروں اطراف کا جائزہ لیتا رھا
پھر میں صوفے پر بیٹھ گیا
بیٹھتے ھی میجھے ایسے لگا جیسے میں صوفے مین دھنس کر پیچھے کی طرف گرنے لگا ہوں
دوستو اس وقت اگر میری کوئی حالت دیکھتا تو شاید ہنسی کے دورے سے بےہوش ہوجاتا
میں ہڑبڑا کر پھر سے کھڑا ھوگیا اور پریشان ھوکر صوفے کو دیکھنے لگ گیا
پھر میں نے ڈرتے ڈرتے صوفے کی سیٹ پر ہاتھ پھیرا اور اسکو دبا کر تسلی کرنے لگ گیا کہ صوفہ سہی سلامت ھی ھے
میں دوبارا ڈرتے ڈرتے صوفے پر آہستہ سے بیٹھ گیا اب صوفے کی سیٹ اتنی نیچے نھی ھوئی تھی
دراصل ہوا یہ تھا کہ پہلے میں بڑی شوخی سے صوفے پر پورے وزن کے ساتھ بیٹھا تھا
صوفہ انتہائی نرم تھا اس لیے میرے ذور سے بیٹھنے کی وجہ سے صوفے کا میٹرس بھی نیچے کی طرف گیا اور میں ڈر گیا تھا
میں بیٹھ کر تھوڑا تھوڑا نیچے سے گانڈ کو اٹھا اٹھا کر صوفے کا مزہ لے رھا تھا
کہ اچانک گھر کے اندر کی طرف والے دروازے کا پردہ سرکہ اور
ایک حسین دلفریب پری کا چہرہ نمودار ھوا
چہرہ کیا تھا چودہویں کا چاند تھا
میرے تو ہوش ھی ہوا ھوگئے میرا تو اس وقت یہ حال تھا کہ
اس کے بے ہجاب ھونے تک یاسر
شامل تھے ہم بھی ہوش والوں میں
چودہویں کے چاند جیسا روشن چمکتا چہرہ گلابی ہونٹ چہرے پر معصومیت آنکھوں کا ٹھاٹھیں مارتا ساگر شاید حسن کی ساری تعریفیں اس چہرے میں ھی تھی
اس کی انکھوں نے مجھے غور سے دیکھا اور میری گستاخ آنکھوں نے بھی جرات کردی اسکی آنکھوں کے سمندر میں ڈبکی لگانے کی
پھر وہ حسین چہرہ پردے کی اوٹ لے کر گم ھوگیا
مگر میں اس حسین چہرے کے سحر میں ابھی تک جکڑا پردے کو دیکھی جارھا تھا اور میری نظریں پھر اس گستاخی کے لیے ترسی اسکو تلاش کررھی تھی
مگر وہ جاچکی تھی
ھاےےےےےے افففففف ٹھنڈی آھ بھری اور پھر اسی کے بارے میں سوچنے لگ گیا کہ کون تھی یہ حسینا۶
کچھ دیر اسی قاتلہ کے بارے میں سوچتا رھا جو ایک ھی نظر میں میرا سب کچھ لے اڑی تھی
کہ اسد اندر داخل ھوا میں نے حسرت بھری نگاہوں سے پھر پردے کی طرف دیکھا کہ شاید وہ ھی حسینہ جلوہ گر ھے
مگر وہ سالا اسد تھا
اسد ہاتھ میں ٹرے لیے ھوے ایا جس میں مشروب تھا اور بسکٹ وغیرہ
اسد میرے پاس آیا اور ٹرے ٹیبل پر رکھ کر میرے ساتھ بیٹھ گیا اور بولا سوری یار وہ کپڑے بدلنے میں دیر ھوگئی تھی
مگر میں تو اپنے خیالوں میں کھویا ھوا تھا کہ اسد نے مجھے گم سم دیکھ کر کندھے سے پکڑ کر ہلاتے ھوے کہا
اوے کتھے پُنچیا ھویاں اے
طبعیت تے سئی اے
تو اسے میں کیا بتاتا
کہ
یہ طبیب بھلا اب میری مرض کو کیا سمجھیں،
تم اب آ بھی جاو
کہ یہ وصل بیماری ھے
میں نے ایکدم چونکتے ھوے اسد سے کہا نھی نھی میں ٹھیک ھوں بس ایسے ھی تمہارا گھر دیکھ کر بس اپنی غریبی کے بارے میں سوچ رھا تھا
تو اسد نے مجھے کندھے سے پکڑا اور بولا
چھڈ یار ایویں چولان مار دیاں ایں دوبارا اے گل نہ سوچیں یاری وچ امیری غریبی نئی ہوندی
اور ساتھ ھی مشروب کا گلاس مجھے پکڑا دیا اور کہنے لگا چل جلدی سے پی پھر تجھے ایک گرم گرم چیز دیکھاتا ھوں
میں تو پہلے ھی گرم ھو چکا تھا اسے اب کیا بتاتا
میں نے ایک ہی سانس میں گلاس ختم کیا اور اسد کو کہنے لگ گیا کہ یار تمہارا گھر بہت خوبصورت ھے
تو اسد نے شکریہ ادا کیا
کچھ سوچتے ہوے میں نے اسد سے پوچھا یار تیری امی نے نھی پوچھا کہ تو سکول سے اتنی جلدی واپس اگیا ھے
تو وہ ہنس کر بولا
کہ امی تو بوتیک پر چلی گئی ہیں اور رات کو ھی واپس آئیں گی گھر میں بس سسٹر ھی ھے اور اسکو رشوت وغیرہ لگا دیتا ھوں تو وہ امی کو نھی بتاتی تو میں ہمممم کر کے چپ کر کے اندازہ لگانے لگ گیا کہ ہو نہ ہو وہ حسین پری اسد کی بہن ھی ھوگی
کچھ دیر ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رھے پھر اسد نے مجھے کہا چل اٹھ اوپر کمرے میں چلتے ہیں
میں اسد کے پیچھے بیٹھک سے نکل کر انکے گھر میں داخل ھوے
اور سامنے ٹی وی لاونج سے سیڑیاں چڑھ کر اوپر جانے لگ گئے اسد میرے آگے جارھا تھا میں نے پیچھے سے سارے گھر کا جائزہ لیا
مگر مجھے وہ قاتل حسینہ کہیں نظر نہ آئی
ہم اوپر پہنچے تو اسد مجھے لے کر ایک کمرے میں چلا گیا جب میں کمرے میں داخل ھوا تو وہ کمرا بھی کمال کا تھا سامنے بڑا سا جہازی سائز کا بیڈ پڑا تھا اور بیڈ کے بلکل اوپر چھت کے ساتھ شیشے کا بڑا سا جھومر لٹک رھا تھا اور دوسرے طرف ایک بڑی سی الماری بنی ھوئی تھی جس میں بڑے سائز کا ٹی وی پڑا تھا اور نچلے حصے میں وی سی آر اور اس سے نچلے حصہ میں کافی ساری ویڈیو کیسٹوں کا انبار لگا ھوا تھا
اور کمرے کی ایک سائڈ پر چھوٹا سا دروازہ تھا جو شاید اٹیچ باتھ کا لگ رھا تھا
اسد نے مجھے بیڈ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور دروازہ لاک کرنے چلا گیا
دروازہ لاک کر کے اس نے ٹی وی اون کیا اور وی سی آر کے پیچھے کی طرف ھاتھ مارتے ھو کچھ تلاش کرنے لگ گیا کچھ دیر بعد اسکے ھاتھ میں ایک ویڈیو کیسٹ تھی جو اس نے وی سی آر میں لگا دی اور وی سی آر اور ٹی وی کا ریمورٹ لے کر میرے ساتھ بیڈ پر جمپ مار کر بیٹھ گیا میں ابھی تک ٹانگیں نیچے لٹاے بیٹھا تھا تو اسد نے مجھے کہا جگر اوپر ھوکر بیٹھ جا کیا
نئ نویلی دلہن کی طرح شرما رھا ھے یہ اپنا ھی گھر سمجھ
میں بھی ٹانگیں پھیلا کر بیڈ پر بیٹھ گیا
تبھی سامنے ٹی وی پر بلیو فلم چل گئی اور انگریز گوریوں کو مختلف پوزوں میں چود رھے تھے
میں بڑی دلچسپی سے ویڈیو دیکھ رھا تھا اور ساتھ ساتھ اپنے لن کو بھی مسل رھا تھا
کافی دیر بعد
۔میری اچانک اسد پر نظر پڑی تو اسد نے اپنا بڑا سا لن نکال کر ھاتھ میں پکڑا ھوا تھا
اور لن پر ھاتھ سے مُٹھی بنا کر اوپر نیچے کری جارھا تھا
میں نے اسے ھاتھ سے ہلا کر کہا
سالیا اے کی کری جاناں اے
تو اسد نے بڑی سیکسی سی آواز میں کہا
مٹھ مار رھا ھوں تو بھی ایسے کر پھر دیکھ کتنا مزہ آتا ھے اور پھر سے ٹی وی کی طرف دیکھ کر مُٹھ مارنے لگ گیا
میرا بھی فلم دیکھ کر دماغ خراب ھوچکا تھا میں نے بھی شلوار میں سے لن نکالا اور جیسے اسد کر رھا تھا ویسے ھی کرنے لگ گیا
مجھے کچھ خاص مزہ نھی آرھا تھا تو میں نے اسد کو کہا
گانڈو ایسے تو بلکل بھی مزہ نھی آرھا اس سے زیادہ تو لن کو مسلنے میں مزہ آتا ھے
تو اسد نے پہلے میرے لن کی طرف دیکھا اور
بولا سالا صاب لن کو چکنا تو کرلے
میں نے کہا کیسے
تو اس نے سرھانے کے پاس پڑی ایک شیشی مجھے پکڑاتے ھوے کہا اسکو پہلے لن پر اچھی طرح لگا پھر مُٹھ مار
میں نے شیشی کا ڈھکن کھولا اور اپنی ھتھیلی پر الٹایا تو اس میں سے منی کی طرح کا سفید سا گاڑھا گاڑھا محلول نکلا اور اس میں سے خوشبو سی آرھی تھی میں کہ
یار یہ کیا ھے
تو بولا
ماما نظر نھی آرھا شیمپو ھے
تو میں نے حیرانگی سے پوچھا یہ کیا ھوتا ھے
تو وہ ہنس کر بولا
جا اوے گانڈو
اس سے سر کے بالوں کو دھوتے ہیں
اور میں سر کو جھٹکا کہ شیمپو کو لن پر لگا کر مُٹھ مارنے لگ گیا
شیمپو کے ساتھ مُٹھ مارتے ہوے مجھے بھی اب مزہ آرھا تھا اور ایک عجیب سے لُطف کی لہر میرے جسم میں گزر رھی تھی کے اچانک اسد کے لن سے منہ کے فوارے چھوٹنا شروع ھوگئے اور کچھ دیر تک اسد لمبے لمبے سانس لیتا رھا
مگر میرے چھوٹنے کا امکان ابھی تک دور دور تک نھی تھا مجھے بس مزہ ھی آرھا تھا مگر لن چھوٹنے کا نام نھی لے رھا تھا
اسد اٹھ کر واش روم چلا گیا تھا اور میں اپنی دھن میں دے دھنا دھن لگا ھوا تھا اب تو شیمپو بھی خُشک ھو چکا تھا میں نے تین چار دفعہ تھوک پھینک کر گیلا کیا مگر پھر خشک ھو جاتا تھا
اسد واش روم سے فری ھو کر واپس کمرے میں آگیا
اور حیرانگی سے میری طرف دیکھتے ھوے بولا
اوے توں حالے تک فارغ نئی ھویا
میں نے کہا یار کچھ نکل ھی نھی رھا
تو اسد بولا
پہلے کبھی چھوٹا ھے تو میں نے نفی میں سر ہلا دیا تو اسد بولا
فیر میرا لوڑا چُھٹیں گاں اویں اپنی باواں وچ کھلیاں پان لگیا ھویاں اے
چار دن تیل دی مالش کر فیر ویکھیں تیرے لن وچوں وی کیویں فوارے نکلدے
میں بھی ھاتھ چلا چلا کر تھک چکا تھا
میں ایسے ھی اٹھا اور واش روم میں گھس کر اپنا آپ دھویا اور باہر آگیا
اسد نے ٹی وی بند کردیا تھا اور فلم بھی نکال کر چھپا دی تھی اور ہم کمرے سے نکل کر سیڑیاں اترنے لگے جب میں اسد کے پیچھے پیچھے آدھی سیڑیاں ھی اترا تھا کہ مجھے نیچے کچن سے وہ حسن کی شہزادی نکلتی ھوئی ٹی وی لاونج میں آتی ھوئی نظر آئی اسکے ھاتھ میں چاے کا بڑا سا مگ پکڑا ھوا تھا اور چاے کی چسکیا لیتی ھوئی
بڑی ادا سے چلی آرھی تھی
دوستو اس حسینہ کا کیا قیامت فگر تھا
اس نے ہلکے پیلے رنگ کی شرٹ اور سفید شلوار پہنی ھوئی تھی اور قمیض کی اتنی فٹنگ تھی کہ میرے جیسا پینڈو یہ ھی سوچتا رہتا کہ یہ قمیض کے اندر گُھسی کیسے اور قمیض کافی شورٹ تھی جو اسکے گُٹنوں سے بھی اوپر اور پھدی والے حصہ سے کچھ نیچے تھی
اسکے چھتیس سائز کے ممے آگے کو ایسے تنے ھوے تھے کہ جیسے ابھی قمیض کو پھاڑ کر باہر نکل آئیں اور پیٹ تو بلکل نظر ھی نھی آرھا تھا کمر ایسی تھی کہ میں دونوں ھاتھ کی انگلیاں جوڑ کر کمر کو پکڑتا تو میرے ھاتھوں میں اسکی کمر آجاتی
دوپٹہ نام کی چیز ھی نظر نھی آئی
وہ ظالم جب چاہے کی چُسکی لیتی تو ساتھ اپنی لمبی سی پلکوں کو جھپکاتی اور اس کے گلابی ہونٹ خوش قسمت کپ کو چھو کر آپس میں مل جاتے اور اس کے نرم سے روئی کے گولے جیسے پنک گالوں پر ڈنپل بن جاتا
پانچ فٹ پانچ انچ کی یہ حسینہ حسن کا کرشمہ تھی
چاے کے کپ کو ہونٹ لگاتے ھی اس حسینہ نے اپنی ساگر جیسی آنکھوں پر چھاوں کی ہوئی پلکوں کو اٹھا کر میری طرف دیکھا آنکھوں سے آنکھیں ملیں دونوں کے قدم رک گئے
اور اس ظالم کو شاید ہوش آیا اور میری موجودگی کا احساس ھوا
اور وہ میرے دل پر چُھریاں چلاتی واپس پلٹی اور اسکی بتیس سائز کی گول مٹول پیچھے نکلی ھوئی گانڈ تھر تھرائی اور ساتھ ھی گانڈ کو چھلکاتی ھوئی تیز تیز قدم اٹھاتی کمرے کی طرف چلدی اسے دیکھتے دیکھتے ھی وہ قاتلہ میرا سب کچھ لے کر میری نظروں سے اوجھل ہوگئی اور میں وہیں خالی ھاتھ رھ گیا
اتنے میں اسد کی آواز آئی کہ آ بھی جاو سکول کی چھٹی کا ٹائم ھوگیا ھے تو میں ایکدم سے ہڑبڑایا اور تیز تیز قدم اٹھاتا ھوا نیچے آگیا اور گھر سے نکلتے وقت اسد نے اندر منہ کرکے آواز دی
مہری دروازہ لاک کر لو
اور ہم سکول کی طرف تیز تیز قدموں سے چل پڑے میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کیا نام ھوا مہری اب میں اسد سے بھی نھی پوچھ سکتا تھا کہ تمہاری بہن کا اصل نام کیا ھے
خود ھی جوڑ توڑ لگا کر سوچنے لگ پڑا جب کچھ سمجھ نہ آیا تو اسی نام پر اکتفا کیا
اور من ھی من میں ٹھنڈی آہ بھر کر دل نے پکارا مہرییییی
سکول کے قریب پہنچے تو چھٹی ھوچکی تھی اور اسد نے مجھے الوداع کیا اور واپس گھر کی طرف ھی چلا گیا دل تو میرا بھی کررھا تھا کہ دوبارا پھر اس کے ساتھ چلا جاوں مگر مجبوری تھی
میں سیدھا عظمی کے سکول گیا اور ان دونوں کو ساتھ لے کر گھر کی طرف چلدیا
مگر میرے دماغ پر مہری ھی چھائی ھوئی تھی جبکہ عظمی کی گانڈ ہل ہل کر مجھے اپنی طرف متوجہ کر رھی تھی مگر میرا دھیان کہیں اور ھی تھا
راستے میں عظمی نے کافی دفعہ مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی اور ہنسی مزاق کا ماحول بنایا مگر میں سیریس ھی رھا
تو عظمی نے مجھ سے پوچھا بھی کہ کیا ھوا سکول سے مار پڑی ھے یا طبعیت خراب ھے
مگر میں نے اسے ٹال مٹول کردیا
ایسے ھی ہم گھر پہنچ گئے
دوستو کافی دن ایسے ھی گزر گئے کھیتوں کی فصلیں بھی کٹ چکی تھی بلکہ اسکی جگہ نئی فصل بھی کھیت سے سر اٹھا رھی تھی
اسد روز مجھ سے پوچھتا سنا آج مالش کی کوئی فرق پڑا کہ نھی پڑا کبھی کبھار وہ میرا لن بھی پکڑ کر چیک کرلیتا اور مجھے کہتا واہ یار بڑی جلدی تیل اثر کررھا ھے اور دوبارا اسد کے گھر جانے کا بھی اتفاق نھی ہوا
اسکی یہ بھی ایک وجہ تھی کہ دوسرے دن ماسٹر جی نے میری اچھی بھلی کلاس لی تھی اور دوبارا سکول سے بھاگنے پر سکول سے نکال دینے کی دھمکی بھی ملی تھی اس لیے میری دوبارا جرات نھی ھوئی
فصلیں ابھی چھوٹی تھی اس لیے مجھے عظمی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کا بھی موقع میسر نہ آیا
اور روز جاتے ھوے باجی صدف کی گانڈ اور آتے ھوے عظمی اور کبھی نسرین کی گانڈ کا نظارا ملتا رھتا
وقت کا پہیہ اتنی تیزی سے گھوما کہ پتہ ھی نہ چلا کہ کب سالانہ پیر سر پر آگئے
پڑھائی میں جتنا تیز پہلے تھا مگر اسد کی دوستی کی وجہ سے اب اتنا ھی نالائک ھوگیا تھا
پیپروں کے شروع ھونے میں ایک مہینہ رھ گیا تھا
اور موسم بھی کافی سرد ھوچکا تھا
میں نے عظمی کو بتایا کہ یار میری تو پیپروں کی تیاری ھی نھی ھورھی میں تو اس سال فیل ہو جاوں گا
تو عظمی نے کہا تم بھی ہمارے ساتھ باجی صدف کے گھر ٹیویشن پڑھنے چلے جایا کرو
مجھے اسکا مشورہ کافی مفید لگا اور ویسے بھی میں باجی صدف کے جسم کا نظارا کرنے کے لیے ترسا رھتا تھا
میں نے امی سے بات کی کہ شہر کی پڑھائی بہت مشکل ھے اس لیے مجھے بھی باجی صدف کے پاس ٹیویشن رکھوا دو
امی نے بھی حامی بھر لی کہ میرے پُتر نوں پڑائی دا کناں فکر اے
دوسرے دن سے میں نے ٹیوشن جانا شروع کردیا میں جب بھی باجی صدف کہ گھر جاتا تو باجی صدف ویسے ھی میری گال پر چٹکی لاًزمی کاٹتی اور میں انکی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک دیکھتا.
اب یہ چمک کیسی تھی مجھے اس کا اندازہ لگانا مشکل ھو رھا تھا کیوں کہ وہ میرے ساتھ کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کرتی جس کی وجہ سے میں فائنل ڈسیزن لے سکتا
مگر ایک بات تھی جو میں نے نوٹ کی کہ باجی صدف اپنے مموں پر دوپٹہ نھی لیتی تھی اور کام چیک کروانے جب میں انکے پاس جاتا تو اسکے گلے سے انکے مموں کا اوپر والا حصہ صاف نظر آتا
تھا
اس کے چہرے کی نسبت اسکے مموں والا حصہ ذیادہ سفید تھا
ایک دن ہم ٹیوشن کے لیے باجی صدف کے گھر گئے تو باجی صدف گھر میں نظر نھی آئی تو انکی امی نے بتایا کہ تم لوگ بیٹھ کر پڑھنا شروع کرو تمہاری باجی نہا رھی ھے
انکا واش روم بیرونی دروازے کے بلکل ساتھ ھی تھا
ہم اپنی جگہ پر بیٹھ کر کتابیں بیگ میں سے نکالنے لگ گئے
تو باجی صدف کی امی نے مجھے آواز دی کے یاسر بیٹا بات سنو میں جلدی سے اٹھا اور انکے پاس پہنچ گیا تو آنٹی نے کہا کہ بیٹا
پوڑی لا کے ٹارے توں چھیٹیاں تھلے سُٹ دے
)
(سیڑی لگا کر واش روم کے کے
کل سامنے بیرونی دیوار کے ساتھ بنے برآمدے سے کپاس کی سوکھی چھڑیاں اتار دو)
میں نے آنٹی کے حکم کی تعمیل کرتے ھو ے کہا اچھا آنٹی جی ابھی اتار دیتا ھوں
میں نے بانس کی بنی ھوئی سیڑھی اٹھائی اور دیوار کے ساتھ لگا کر برآمدے کی چھت پر چڑھ گیا اور سوکھی سوکھی چھڑیاں چُن چُن کر نیچے پھینکنے لگ گیا
ابھی میں نے چند ھی چھڑیاں نیچے پھینکیں تھی کہ اچانک میرا دھیان واش روم کی دیوار پر بنے بڑے سے روشن دان پر پڑا
جیسے ھی میری نظر روشن دان کے اندر پڑی کیوں کہ واش روم کی چھت برآمدے کی چھت سے کافی چھوٹی تھی اس لیے چھت پر کھڑے ہوکر واش روم کا اندر کا سارا منظر بلکل صاف نظر آتا تھا حطہ کہ واش روم کا فرش بھی نظر آتا تھا
روشن دان کا سوراخ کافی بڑا سا تھا اور آگے کوئی جالی وغیرہ بھی نھی تھی
میں تو واش روم کے اندر کا منظر دیکھتے ھی رھ گیا
کی صدف بلکل ننگی کھڑی تھی
)دوستو ایک بات یاد رکھنا جس آنٹی اور جس باجی پر نیت خراب ھوگئی تھی انکو میں صرف نام سے پکاروں گا،،،،
صدف ٹانگیں کھولے کھڑی اپنی پھدی پر کچھ لگا رھی تھی مجھے اسکا ایک مما نظر آیا
میں نے جلدی سے پہلے نیچے دیکھا تو مجھے آنٹی کہیں نظر نھی آئی اور عظمی اور نسرین اور باقی کے بچے دوسری طرف منہ کرکے پڑھنے میں مصروف تھے
میں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور تھوڑا پیچھے ھوکر واش روم میں دیکھنے لگ گیا
اب نیچے سے کوئی مجھے دیکھ نھی سکتا تھا کہ میں اوپر کیا کررھا ھوں
صدف بڑے آرام سے پھدی پر بال صفا پوڈر کا لیپ کررھی تھی کچھ دیر بعد صدف ٹانگیں پھلا کر دیورا کے ساتھ ٹیک لگا کر لکڑی کی پھٹی پر بیٹھ گئی
اب صدف کے نیم گورے ممے بلکل صاف نظر آرھے تھے اسکے مموں پر براون سا دائرہ بنا ھوا تھا اور چھوٹے چھوٹے نپل تھے پیٹ بلکل اندر کی طرف گیا ھوا تھا
کچھ دیر صدف ایسے ھی بیٹھی رھی
تب میں اٹھا اور کچھ چھڑیاں اور اٹھا کر نیچے پھینک دیں
اور پھر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا
تب صدف پانی کے ٹب سے ڈبے میں پانی ڈال کر پھدی والے حصہ کو دھو رھی تھی اور ذور ذور سے پھدی کو مل مل پھر پانی ڈال دیتی
پھر صدف کھڑی ھوئی اور تولیہ لے کر پھدی کو صاف کرنے لگ گئی
مجھے صرف اسکی ٹانگیں ھی نظر آرھی تھی اور ایک مما نظر آرھا تھا کیوں کے صدف سائڈ پوز سے کھڑی تھی
پھدی صاف کر کے وہ پھر ٹانگیں کھول کر تھوڑا نیچے جھک کر اپنی پھدی کا معائنہ کرنے لگ گئی کہ کوئی بال رھ تو نھی گیا
جب اچھی طرح اس نے تسلی کرلی تو پھر سے لکڑی کی پھٹی پر بیٹھ گئی اور اپنے بالوں کی پونی کھولی اور جھٹکے سے سر کو دائیں بائیں کر کے بالوں کو کھلارنے لگی صدف
جیسے جیسے بالوں جھٹکتی اسکے ممے بھی ویسے ھی ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتے
میرا لن ایکدم اکڑ گیا اور میں ھاتھ سے لن کو حوصلہ دینے لگ گیا
پھر صدف سر جھکا کر پانی کے ڈبے بھر بھر کر اپنے سر کے بالوں کو گیلا کرنے لگ گئی پھر اس نے کپڑے دھونے والا صابن اٹھایا اور سر کے
بالوآئی
و لگانے لگ گئی اور اچھی طرح صابن لگا کر بالوں کو منہ کے آگے کر کے سر جھکا کر بالوں کو دونوں ھاتھوں میں لے کر ھاتھ آپس میں رگڑنا شروع کردیا کچھ دیر ایسے ہی کرتی رھی
اور میں وقفے وقفے سے چھڑیاں اٹھا کر نیچے پھینکتا رھا
پھر صدف نے بالوں کو اچھی طرح سے دھویا اور اپنے جسم پر پانی ڈالنا شروع کردیا
اور ساتھ ساتھ کبھی اپنے مموں کو مسلتی کبھی نیچے ھاتھ لیجا کر پھدی کو مسلتی اور کبھی کمر کے پیچھے ھاتھ لیجا کر کمر کو مسلتی
واش روم میں 100واٹ کا بلب جل رھا تھا جس کی گولڈن لائٹ میں صدف کا جسم چمک رھا تھا
صدف کے ممے ٹن ٹنا ٹن کھڑے تھے اور ھاتھ لگانے کے بعد مستی سے جھومتے صدف نے جسم پر صابن لگانا شروع کردیا اور پھر صابن کو اچھی طرح پورے جسم پر ملنا شروع کردیا صدف جب مموں کو مسلتی تو اپنی انگلی اور انگوٹھے سے ممے کے نپل کو بھی پکڑ کر مسل دیتی ایسے اس نے کئی بار کیا
اور جب پھدی پر صابن کی مالش کرتی تو ایکدم اپنی آنکھیں بند کر کے سر کو دیوار کے ساتھ لگا لیتی کافی دیر یہ ھی سین چلتا رھا
پھر صدف تھوڑا سا اوپر ھوئی اور اپنی گانڈ کو اچھی طرح ملنے لگ گئے اسکی گانڈ کیا تھی کمر کے حساب سے کمر کے نیچے سپیڈ بریکر ھی تھا
اگر اسکی گردن سے ھاتھ پھیرتے ھوے کمر سے نیچے لیجا کر گانڈ کہ اوپر سے گزاریں تو ایسے ھی لگے گا کہ
کارپٹ روڈ پر اچانک سپیڈ بریکر آگیا ھے
گانڈ کو اچھی طرح مل لینے کے بعد اس نے تین انگلیاں گانڈ کی دراڑ میں ڈال کر ھاتھ کو اوپر نیچے کر کے دراڑ کی صفائی کرنے لگ گئی
پھر وہ اپنی جگہ پر بیٹھ گئی اور پانی اپنے جسم پر ڈالنا شروع کردیا
میں فل مست ھوکر پورا دھیان لگا کر صدف کے سیکسی جسم کا نظارہ کر رھا تھا اور اس کے انگ انگ کو باخوبی زہن نشین کررھا تھا
صدف نے سارے جسم کو اچھی طرح سے دھو لیا تھا اور اب وہ ایک جھٹکے سے کھڑی ھوئی جب وہ کھڑی ھوئی تو اسکے دودہ کے پیالے ایسے چھلکے جیسے ابھی پیالوں سے سارا دودہ اچھل کر باہر گر جاے گا صدف نے تولیہ روشن دان میں لٹکا دیا تھا
صدف نے جیسے ھی میری طرف منہ کر کے تولیہ پکڑنے کے لیے ھاتھ آگے بڑھایا تو اسکی سیدھی نظر مجھ پر پڑی اور نظروں سے نظریں ملی اور صدف نے جلدی سے تولیہ کھینچا اور اپنے مموں کے آگے کرتے ھوے ایک زور دار چیخ ماری
اور ساتھ ھی مجھے آنٹی کے واش روم کی طرف دوڑے انے کی آواز آئی
جیسے ھی میں نے صدف کی چیخ سنی اور ساتھ ھی آنٹی کے دوڑے آنے کی آواز سنی تو
میری تو گانڈ پھٹ گئی
میں خود کو کوسنے لگ گیا
کہ
پین یکہ صبر نئی ہوندا سی ہن پتہ لگے گا ہور ویکھ ممے تے پھدیاں
خیر مجھے اور تو کچھ نہ سوجا میں نے جلدی جلدی سے تین چار چھڑیوں کے بنڈل اٹھاے اور نیچے پھینک کر
جلدی سے سیڑھی سے اتر کر نیچے صحن میں آگیا تو میں نے واش روم کی طرف دیکھا تو آنٹی عظمی اور نسرین بھی دروازے کے باہر کھڑی صدف سے پوچھ رھی تھی کیا ھوا مگر اندر سے کوئی آواز نہ آئی میں جلدی سے جاکر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا اور کتاب نکال کر پڑھنے لگ گیا
پڑھتا کیا میری تو ڈر کے مارے گانڈ پھٹ رھی تھی
مجھے تو یہ سمجھ نھی آرھی تھی کہ میں اب کروں کیا اور میرے ساتھ ھوگا کیا
،،
اتنے میں صدف سر کے بالوں کو تولیہ لپیٹے واش روم سے نکلی اور کسی سے بھی کچھ بات کیے بغیر تیز تیز قدم اٹھاتی میرے پاس سے گزر کر کمرے کی طرف چلی گئی
اور کمرے کے دروازے پر کھڑی ھوکر پیچھے مڑ کر دیکھا اور ایک قہر بھری نظر مجھ پر ڈالی اور کمرے میں داخل ہو کر ذور سے دروازہ بند کردیا
میری تو بیٹھے کی ٹانگیں کانپ رھی تھی کہ پتہ نھی آنے والا وقت کیسا ھوگیا صدف اور اسکی امی میرے ساتھ کیا کرے گی صدف کا ابو تو تھا بھی بڑے غصے والا اور بدمعاش ٹائپ کا تھا
اتنے میں عظمی اور نسرین بھی میرے پاس آکر بیٹھ گئی میں نے انجان بنتے ھوے عظمی سے پوچھا کہ تم لوگ کدھر گئے تھے تو عظمی بولی تمہیں باجی کی چیخ نھی سنائی دی تو میں نے حیران ھوتے ھوے کہا کہ نھی میں تو ٹارے کے اوپر چڑھ کر چھیٹیاں پھینک رھا تھا
تو کیا ھوا تھا باجی نے چیخ کیوں ماری تھی
تو صدف نے منہ بسورتے ھوے کہا پتہ نھی آنٹی نے پوچھا بھی تھا مگر وہ ڈری سی اپنے کمرے میں چلی گئی کچھ بولی ھی نھی
تب آنٹی کی مجھے آواز آئی
کہ یاسر
میں نے گبھراے ھوے آنٹی کی طرف بنا دیکھے کہا
ججججی آنٹی ججججی تو آنٹی بولی
پتر اینیاں وڑیاں چھیٹیاں تھلے سُٹ دیتیاں ای میں تے تینوں تھوڑیان جیاں کیاں سی
تو میں اب آنٹی کو کیا بتاتا کہ تمہاری بیٹی کی مہربانی ھے جو اس نے مجھے اپنے دھیان لگائی رکھا تھا
میں نے کہا آنٹی جی مجھے پتہ نھی چلا کہو تو دوبارا اوپر رکھ دوں
تو آنٹی بولی
نئی رہن دے کل کم آ جان گیاں پہلے ای تھک گیا ھویں گا
میں خاموش رھا اور پڑھنے کی ایکٹنگ کرنے لگ گیا جبکہ میرا دل دماغ صدف کے کمرے کی طرف تھا
اور سوچ رھا تھا کہ اب سالی باہر نکل کر پتہ نھی کیا ہنگامہ کرے گی
تبھی سامنے کمرے کا دروازہ کھلا اور صدف نے منہ باھر نکال کر اپنی امی کو آواز دی اور دوبارا دروازہ بند کردیا
آنٹی جلدی سے کمرے کی طرف چلی گئی اور دروازہ کھول کر اندر داخل ھوگئی
میری تو حالت ایسے ھوگئی کہ کاٹو تو جسم میں لہو نھی
رہی سہی کسر بھی نکل گئی
میرا دماغ پھٹنے والا ھوگیا کہ
کاکا اب خیر نھی صدف نے اپنی ماں کو بتانے کے لیے اندر بلایا ھے اور اس نے اپنی ماں کو
سب کچھ بتا دینا ھے اور آنٹی نے اپنے بندے کو
تے کاکا تینوں فیر وجے ای وجے
اونے تے تینوں ویسے ای وڈ کے رکھ دینا اے
ایسے ھی الٹے سیدھے خیال میرے دماغ میں چل رھے تھے
مجھے کچھ اور تو نہ سوجا
میں نے جلدی سے کتابیں اپنے بیگ میں رکھنا شروع کردی اور ایکدم سے اٹھا اور بیگ کندھے سے لٹکایا اور باہر کو چلدیا
تو عظمی نے حیران ھوتے ھوے مجھے آواز دی کے کدھر جارھے ھو تو میں نے کہا میرے سر میں درد ھورھا ھے مجھے چکر آرھے ھیں باجی کو بتا دینا میں گھر جارھا ھوں
میں نے عظمی کا جواب سنے بغیر باہر دروازے کی طرف دوڑ لگا دی اور کب میں گھر پہنچا مجھے نھی پتہ رات کو مجھے بہت تیز بخار چڑھ گیا میرا جسم کانپ رھا تھا
عظمی لوگ دوسرے دن سکول ٹائم ہمارے گھر آئیں اور امی سے پوچھنے لگ گئی کہ یاسر ابھی تک تیار نھی ھوا تو امی نے بتایا کہ وہ تو کل کا بیمار پڑا ھے تو عظمی اور نسرین دونوں کمرے میں ائیں اور میرے ماتھے ہر ھاتھ رکھ کر بخار چیک کرنے لگ گئی
میں نے کہا تم جاو سکول میں نے آج نھی جانا
تو وہ دونوں بولیں ہم اکیلی کیسے جائیں گی
نہ بابا ہمیں تو ڈر لگتا ھے تو میں نے کہا ڈر کیسا باجی بھی تو ساتھ ھی جاے گی تو وہ دونوں بولیں
جاتے ھی ساتھ ھونگی واپسی پر تو اکیلی ھی آئیں گی
ہم بھی آج چھٹی کرلیتی ہیں کل تمہارے ساتھ ھی جائیں گی تو میں خاموش ھوگیا اب میں کیا انکو کہتا مجھ سے تو ہلا نھی جارھا تھا بخار کی شدت اتنی تھی
وہ دونوں کچھ دیر بیٹھی اور اپنے گھر بتانے کے لیے چلی گئی کہ میری طبعیت نھی سہی ھے
کچھ ھی دیر بعد آنٹی فوزیہ گبھرائی ھوئی کمرے میں آئی انکے پیچھے ھی عظمی اور امی بھی تھیں
آنٹی نے آتے ھی میرا منہ سر چومنا شروع کردیا اور بولی
ھاے ھاے کی ھویا میرے شزادے نوں کیویں بخار نال تپدا پیا اے
میں انٹی کے اتنے بے تحاشا پیار
اور فکر کو دیکھ کر رونے لگ گیا
آنٹی نے مجھے اٹھایا اور اپنے سینے کے ساتھ لگا کر مجھے چپ کروانے لگ گئی
میں اور ذور ذور سے بچوں کی طرح رونے لگ گیا
تو عظمی کہنے لگی
امی ایدھے سارے ڈرامے نے کل چنگا پلا سی
تو آنٹی نے غصہ سے نیچے جھک کر اپنی چپل اٹھائی اور عظمی کو دے ماری اور بولی
چل دفعہ ھو کسے کُتی دی بچی میرا لال بخار نال ادھ موا ھوگیا تے تینوں بکواس کرن دئی پئی اے
عظمی کو جب جوتا پڑا تو.
ناچاھتے ھوے بھی روتے روتے میری. ہنسی نکل گئی اور عظمی مجھے گھورتے ھوے اہنے منہ پر ھاتھ پھیرتے ھوے برا سا منہ بنا کر ایک سائڈ پر کھڑی ھوگئی
اور آنٹی نے میرا سر پکڑا کر پھر اپنے سینے سے لگا لیا اور میرے سر پر ھاتھ پھیرنے لگ گئی
آنٹی کا پیار دیکھ کر مجھے خود پرغصہ آنے لگ گیا کہ
میں کتنا برا ھوں کہ آنٹی مجھے اپنی بیٹیوں سے بھی بڑھ کر پیار کرتی ہیں اور میرے لیے کتنی فکر مند ہیں اور میں کتنا گھٹیا اور گندا انسان ھوں جو ہر وقت انکے بارے میں غلط سوچتا رھتا ھوں اور انکو گندی نظر سے دیکھتا رہتا ہوں
مجھے رہ رہ کر اپنے آپ پر غصہ آرھا تھا اور شرمندگی سے اپنے آپ میں مرا جارھا تھا
خیر آنٹی دوگھنٹے کے قریب میرے پاس ھی بیٹھی رھی اور مجھے اپنے ھاتھ سے دلیہ کھلایا
پھر آنٹی شام کو آنے کا کہہ کر مجھے پھر ڈھیر سارا پیار کرکے چلی گئی اور میں اکیلا لیٹا آنے والے اچھے برے وقت کے بارے میں سوچتا رھا
اچانک مجھے خیال آیا کہ اگر صدف نے اپنی امی کو بتایا ھوتا تو لازمی عظمی یا نسرین کو بھی پتہ چل جانا تھا مگر انہوں نے میرے ساتھ ایسی کوئی بات نھی کی
پھر نیگٹیو سوچ نے آگھیرا کہ بچو اگر عظمی لوگوں کے سامنے بات کرنا ھوتی تو صدف نے اپنی ماں کو اندر کمرے میں کیون بلانا تھا. وہ باہر آکر بھی کہہ سکتی تھی
انہیں سوچوں میں مجھے پتہ ھی نھی چلا کہ میں کب سو گیا
شام کو میری بہن نے مجھے اٹھایا کہ تیری ٹیویشن والی باجی اور اسکی امی ائی ہیں
ان دونوں کا سن کر میری تو ٹانگیں پھر کانپنے لگ گئیں
اور میں نے کانپتے ھوے مری ھوئی آواز نکالتے ھوے اپنی بہن نازی کو کہا کہ انکو کہو کہ میں سورھا ھون
تو وہ غصہ سے بولی
صبح کے سوے مرے ھو ابھی تک نیند نھی پوری ھوئی
وہ اتنی دور سے ائی ہیں اور تم نواب زادے بہانے بنا رھے ھو
میں نے غصہ سے اسکی طرف دیکھتے ھوے کہا کہ
جانی اے کہ نئی
تو وہ پیر پٹختی ھوئی باہر چلی گئی
اس سے پہلے کہ میں کچھ سوچتا آنٹی اور صدف کمرے میں داخل ھویں
انکو دیکھتے ہی میرا رنگ اڑ گیا اور اتنے میں آنٹی آگے بڑھیں اور؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ور میرے سر پر پیار دیتے ھوے بولیں کیا ھو یاسر بیٹا کل تو اچھے بھلے تھے
ہمیں بتا کر بھی نھی آے چپ کر کے گھر آگئے تھے
میری وجہ سے تمہاری طبعیت خراب ھوئی ھے نہ میں تمہیں چھیٹیاں اتارنے کو کہتی نہ تمہارا یہ حال ھوتا
صدف میرے سامنے کھڑی بڑے غور سے مجھے دیکھے جارھی تھی جیسے مجھے پہچاننے کی کوشش کررھی تھی
میں ڈرتا اس سے نظریں بھی نھی ملا رھا تھا
پھر آنٹی صدف کو یہ کہہ کر چلی گئی
کہ
تم اپنے ویرے کے پاس بیٹھو میں ذرہ آپاں کے پاس جارھی ہوں
مجھے یہ سن کر پھر ایک جھٹکا سا لگا کہ شاید آنٹی امی کو میری کرتوت بتانے جارھی ھے
تو آنٹی کے جاتے ھی صدف مجھے گھورتے ھوے میرے پاس میرے کولہوں کے پاس بیٹھ گئی اور آگے ہوکر میرے گال پر ذور سے چُٹکی کاٹ کر بولی
ہاں جی سناو بے شرم ویرے کیویں بخار چڑیا
تو میں شرم سے ڈوبا جارھا تھا چپ کر کے منہ دوسری طرف کر کے رونے لگ گیا
تو صدف نے ایک ھاتھ میرے دائیں طرف میری
بغل کے قریب رکھا اور میرے اوپر جُھک کر اپنا منہ میرے منہ کے کچھ فاصلے پار کرتے ھوے ایک ھاتھ سے میرا چہرہ پکڑ کر سیدھا کیا اس حالت میں صدف کے ممے میرے سینے سے کچھ فاصلے پر ھی تھے
جبکہ اسکی گانڈ میرے کولہوں کے ساتھ لگی ھوئی تھی اور اسکے ناف کا حصہ بھی میرے پیٹ کے ساتھ لگا ھوا تھا
صدف بولی
بچو ذیادہ ڈرامے نہ کر
اب تجھے بڑے رونے آرھے ہیں جب بے شرموں کی طرح مجھے ننگا نہاتے ھوے دیکھ رہا تھا تب تیرا یہ رونا کہاں تھا
شکر کرو میں نے امی کو یاں ابو کو نھی بتایا ورنہ جو تیرا حال ھونا تھا
تجھے پتہ نھی
ابھی تیری عمر ھے یہ کام کرنے کی جو تو کررھا ھے
شرم کر اپنی عمر دیکھ اور کام دیکھ ابھی سے تجھے جوانی چڑھی ھوئی ھے بڑا ھوکر کیا کرے گا
صدف نے ایک ھی سانس میں مجھے لمبا سا لیکچر دے دیا
مجھے یہ سن کر کچھ حوصلہ ھوگیا کہ صدف نے گھر نھی بتایا اور شکر ادا کرنے لگ گیا
صدف اسی سٹائل میں میرے اوپر جھکی ھوئی میرے منہ کو اپنی انگلیوں اور انگھوٹھے سے ایسے دبایا ھوا تھا جیسے بچے کو زبردستی دوائی پلانے کے لیے اسکا منہ ایسے پکڑ کر زبردستی کھولتے ہیں
میں سکتے کے عالم میں صدف کے چہرے کی طرف دیکھی جارھا تھا جس کے چہرے پر نہ پیار تھا نہ ھی غصہ
پھر صدف میرے منہ کو ہلاتے ھوے بولی
بتا اب تیرا کیا کروں
بتاوں اپنے ابو کو یا تیری امی کو
تو میں چت لیٹا ھوا تھا اور صدف میرے اوپر جھکی ھوئی تھی اسکی چھاتی میرے سینے سے تھوڑا ھی اوپر تھی
میرے ھاتھ بلکل سیدھے چارپائی پر تھے
میں نے صدف کی جب پھر دھمکی سنی تو میں اس سے ھاتھ جوڑ کر معافی مانگنے کے لیے اپنے دونوں ھاتھ اوپر کر نے لگا تو میرے دونوں ھاتھوں کی انگلیاں پہلے اسکے پیٹ سے ٹکرائیں پھر دونوں مموں سے نپل کے نچلے حصہ سے ٹکرائیں اور نپلوں کو چھوتی ھوئی صدف کے چہرے کے سامنے کرکے ھاتھ جوڑ لیے میری دونوں کہنیاں اب بھی صدف کے دونوں مموں کے ساتھ ٹچ تھی یہ سب اتنی جلدی سے ھوا کہ صدف کو سنبھلنے کا موقع ھی نھی ملا
مگر یہ سب ھوا غیر ارادی طور پر تھا
میں نے روتے ھوے ھاتھ جوڑتے کہا باجی مجھے معاف کردو
****** کی قسم میں نے جان بوجھ کر آپ کو نھی دیکھا تھا بس ایسے انجانے میں مجھ سے غلطی ھوگئی
پلیز آئندہ کبھی بھی ایسا نھی ھوگا
پلیز کسی کو مت بتانا
تو صدف بولی بس بس زیادہ ڈرامے مت کرو
مجھے سب پتہ ھے
کہ تم مجھے کن نظروں سے دیکھتے ھو
اس دن جب میں گری تھی تب بھی کیا اچانک ھی سب ھوا تھا
اور روز جاتے ھوے میں نوٹ کرتی رہتی ھوں تمہاری نظریں کدھر ھوتی ہیں
میں یہ سب سن کر مزید شرمندہ ھونے لگ گیا
اچانک مجھے اپنی کہنیوں پر صدف کے مموں کا لمس محسوس ھوا اور میرا ایکدم دھیان اسکے مموں پر چلا گیا اور اسکی گانڈ تو پہلے ھی میرے ساتھ جڑی ھوئی تھی اتنا خیال آتے ھی میرے لن ساب نے انگڑائی لی اور کھڑا ھوگیا
صدف اپنی دھن میں مجھے گنوای جارھی تھی کہ
جب تم کام چیک کروانے آتے ھو تب بھی تمہاری نظریں کدھر ھوتی ہیں اب اتنے معصوم بن رھے ھو
اچھا سب باتیں چھوڑو یہ بتاو جب میں سکول جاتے گرنے لگی تھی تو تم نے جب مجھے پیچھے سے جپھی ڈالی تھی تو تمہاری قمیض کیوں اوپر ھوئی ھوئی تھی
میں نے کہا مجھے نھی پتہ
کہاں سے اور کیوں قمیض اوپر تھی
صدف بولی اچھا سب بھول گئے میں بتاوں کس چیز نے تمہاری قمیض اوپر کی ھوئی تھی
اس سے پہلے کے میں کچھ سمجھتا صدف نے ھاتھ پیچھے کر کے میرے اکڑے ھوے لن کو پکڑ لیا جو تیل کی مالش کر کر شیش ناگ بن چکا تھا
صدف نے لن کو پکڑتے ھوے کچھ کہنے کے لیے لب ہلاے اس کے منہ سے بس اتنا ھی نکلا
اسسسسسسسسس کییییییی وجہہہہہہہ
اور صدف کا منہ حیرانگی سے کھلے کا کھلا رھ گیا
اور کچھ سیکنڈ اس نے میرے لن کو اچھی طرح سے ٹٹول کر چیک کیا کہ واقعی. اسکے ھاتھ میں میرا ھی لن ھے
تو اسے ایک جھٹکا لگا اور جمپ مار کر کھڑی ھوگئی اور میرے اکڑے لن کو جو قمیض کو تمبو بناے کھڑا تھا
آنکھیں پھاڑے دیکھی جارھی تھی اور پھر ایکدم اسے ہوش آیا اور چہرے پر دونوں ہاتھ رکھ کر بنا کچھ کہے باہر بھاگ گئی
دوسرے دن میری طبیعت کافی بہتر ھوچکی تھی اور صدف کا خوف بھی تقریبا اتر چُکا تھا
میں سکول کے لیے تیار ھونے لگ گیا امی نے مجھے کافی روکا کہ آج بھی چھٹی کر لو
مگر میں نے سکول جانے کا اصرار کر کے امی کو منا لیا اور تیار ھوکر آنٹی فوزیہ کے گھر جا پہنچا آنٹی سے سلام دعا اور حال احوال بتانے کے بعد ہم تینوں گھر سے نکل آے اور میں سیدھا کھیت کی طرف جانے لگا تو عظمی نے میرا بازو پکڑتے ھوے کہا کہ باجی کو بھی ساتھ لے کر جانا ھے وہ ہمارا انتظار کررھی ھوگی تو میں نے کہا یار چلو وہ خود ھی آجاے گے ہمیں پہلے ھی دیر ھورھی ھے
مگر عظمی اور نسرین کی ضد کی وجہ سے مجھے مجبوراً صدف کے گھر جانا پڑا ہم جب اندر داخل ھوے تو صدف برقعہ پہنے تیار بیٹھی تھی اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور پھر نظریں جھکا کر باہر کی طرف چل پڑی ہم بھی اسکے پیچھے پیچھے گھر سے نکل کر سکول کی طرف چل پڑے
دوستوں جہاں پہلے کپاس کی فصل ھوا کرتی تھی اب وہاں بھی مکئی کی فصل کاشت کردی تھی اور مکئی کا ان دوستوں کو پتہ ھے جو گاوں میں رہتے ہیں کہ یہ فصل دنوں میں بڑھتی ھے اور تقریبا سات آٹھ فٹ ھوجاتی ھے
ہم آگے پیچھے چل رھے تھے میں سب سے پیچھے تھا اور میرے آگے عظمی تھی اور اس کے آگے صدف اور سب سے آگے نسرین تھی
کچھ دور جاکر صدف کو پتہ نھی کیا ھوا وہ بہانے سے عظمی کو آگے کر کے خود پیچھے آگئی
اور مڑ کر مجھے دیکھا
اسکی آنکھوں میں مجھے واضح طور پر شرارت نظر آرھی تھی
مگر میں نے اسکے دیکھنے کا کوئی رسپونس نھی دیا اور
میں نے غور سے اسکی گانڈ کو ایک نظر دیکھا تو
آج اسکی گاند کافی باہر کو نکلی ھوئی تھی
میں نے دوبارا غور سے دیکھا تو واقعی ایسا ھی تھا
میں سوچ ھی رھا تھا کہ یہ کیا ماجرا ھے کہ
چلتے چلتے میری نظر اسکے پاوں کی طرف پڑی تو
آج وہ اونچی ہیل پہن کر آئی تھی جس کی وجہ سے اسکی گانڈ مزید باہر کو نکلی ھوئی تھی
اور وہ جب قدم آگے کو بڑھاتی تو اسکی گانڈ کا ایک حصہ جب اوپر کو جاتا تو ساتھ برقعے کو بھی کھینچ کر اوپر لے جاتا
اسکی سیکسی گانڈ دیکھ کر میرا تو دماغ خراب ھونے لگ گیا
جبکہ میں نے سوچ لیا تھا کہ کچھ بھی ھوجاے آج کے بعد صدف کے جسم کو نھی دیکھنا کیوں کہ سالی کو پتہ نھی کیسے پتہ چل جاتا تھا
خیر میں ناچاھتے ھوے بھی مسلسل نظر ٹکاے صدف کی گانڈ کو دیکھی جارھی تھا
کہ اچانک صدف رکی اور ایکدم پیچھے مڑ کر میری طرف دیکھا
اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سر کے اشارے سے پوچھا کیا دیکھ رھے ھو
تو میں نے شرمندہ سا ھوکر سر نیچے جھکا لیا
میں نے شرمندہ سا ھوکر سر نیچے جھکا لیا
ایسا بس چند ھی سیکنڈ کے لیے ھوا تھا
اور صدف بڑی ادا سے منہ دوسری طرف کر کے پھر چلنے لگ گئی
بس ایسے ھی تانکہ جھانکی میں ہم سکول پہنچ گئے
کلاس میں اسد مجھے بڑی گرمجوشی سے ملا اور پوچھنے لگ گیا کہ کل کیوں نھی آے میں نے اسے بخار کا بتایا اور کچھ دیر وہ میری خیر خبر لیتا رھا اور ہم پڑھائی میں مصروف ھوگئے
ھاف ٹآئم کے وقت ہم گراونڈ میں بیٹھ کر باتیں کررھے تھے کہ اسد نے پوچھا سنا پھر. کیسی جارھی ھے لن کی مالش تو میں نے کہا یار میرا لن تو واقعی اب پہچانا نھی جاتا کہ یہ میرا لن ھی ھے
جب کھڑا ھوتا ھے میری قمیض میں تنبو بن جاتا ھے
تو اسد فخر سے سر اوپر کر کے میرے کندھے پر ھاتھ مارتے ھوے بولا
دیکھا جگر میں نے کہا تھا نہ کہ یہ تیل نھی جادو ھے جادو
تو میں نے کہا ھاں یار واقعی میں تم سچ ھی کہتے تھے
اسد نے پھر مجھ سے پوچھا سنا لن سے مال شال نکلنا شروع ھوگیا
تو میں نے کہا یار میں نے دوبارا مٹھ ھی نھی ماری تو وہ ہنسنے لگ گیا
اور بولا کوئی حال نئی تیرا چیک تو کرنا تھا
تو میں نے کہا اچھا یار کبھی موقع ملا تو چیک کروں گا
اور کچھ دیر ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رھے اور پھر ھاف ٹائم ختم ھوگیا اور ہم پھر کلاس میں چلے گئے
کلاس میں کچھ خاص نہ ھوا چھٹی ھوئی اور میں عظمی لوگوں کو لے کر گھر آگیا
شام کو ہم ٹیوشن چلے گئے
صدف نے آج سفید سوٹ پہنا ھوا تھا اور بلیک جرسی پہنی ھوئی تھی جس میں اسکے ممے تنے ھوے تھے اور جرسی کی وجہ سے ممے مزید بڑے بڑے لگ رھے تھے
صدف ہمارے سامنے کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھی ہماری طرف دیکھ رھی تھی اور اسکی ذیادہ نظر مجھ پر ھی تھی جیسے ھی میں سر اٹھا کر اسکے مموں کو دیکھتا تو سالی کو اپنی طرف ھی دیکھتا ھو پاکر شرمندہ سا ھوکر پھر جلدی سے سر نیچے کر کے گود میں رکھی کتاب کو پڑھنے لگ جاتا
میں نے ایک بات پر غور کیا کہ اگر صدف کو پتہ ھے کہ میں بار بار اسکے مموں کو ھی دیکھ رھا ھوں تو
سالی مموں پر دوپٹہ کیوں نھی لیتی
پتہ نھی اسکے دل میں کیا تھا
کیوں میرا کڑا امتحان لے رھی تھی کس بات کی سزا مجھے دے رھی تھی
تبھی صدف کی امی کمرے سے نمودار ھوئی اور صدف کو کہا کہ میں زرہ درزن کے گھر جارھی ھوں تیرے سوٹ کا پتہ کرنے تھوڑی دیر تک آجاوں گی
صدف کے دو بھائی تھے ایک لاہور میں کام کرتا تھا جو مہینے میں ایک دفعہ ھی گھر آتا تھا
اور دوسرا اپنے ابو کے ساتھ بس ڈرائیور تھا
باپ بس چلاتا تھا اور بیٹا کنڈیکڑ تھا
اس وقت گھر میں صدف اور میں اور عظمی اور نسرین اور محلے کے کچھ بچے تھے
صدف کی امی درزن کے گھر کا کہہ کر باہر چلی گئی اور صدف نے ایک بچے کو کہا کہ جاکر باہر کے دروازے کی کنڈی لگا آے
اور پھر ہماری طرف متوجہ ھوکر بیٹھ گئی
اور وقفہ وقفہ سے بچوں کے نام لے لے کر انکو سبق یاد کرنے کا کہتی رہی
کچھ ھی دیر بعد صدف اٹھی اور کمرے کی طرف چلی گئی
اور
تھوڑی دیر بعد اس نے دروازے سے سر نکالا اور مجھے آواز دی کے یاسر میں نے کہا جی باجی
تو اس نے کہا ادھر آو یہ ٹرنک کپڑوں کی پیٹی کے اوپر رکھوا دو
میں اچھا باجی کہتے ھوے اٹھا اور کمرے میں داخل ھوگیا
جب میں کمرے میں داخل ھوا تو صدف مجھے کمرے میں نظر نہ آئی کمرے کے ساتھ ایک دروازہ تھا جو شاید سٹور روم تھا
میں دروازے کی طرف چل دیا جیسے ھی میں اندر داخل ھوا تو
Quote
صدف پیٹی کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی تھی
تو میں اسے دیکھ کر وہیں رک گیا اور اسکی طرف دیکھتے ھوے بولا کہ باجی کہاں ھے ٹرنک جو اوپر رکھنا ھے تو وہ آگے بڑھی اور میرا بازو پکڑ کر مجھے سٹور کی نکر کی طرف لے گئی اور پھر میرے سامنے اپنی بغلوں ہاتھ دے کر ایسے کھڑی ھوگئی جیسے اسے بہت سردی لگ رھی ھو اور آہستہ سے بولی تم نے باز آنا ھے کہ نھی
میں نے حیران ھوکر پوچھا کے باجی اب میں نے کیا کیا ھے تو صدف جھٹ سے بولی
زیادہ معصوم مت بنو
میں تو جو تمہیں سمجھتی تھی تم تو میری سوچ کے بلکل برعکس نکلے
میں نے پھر کہا باجی کچھ بتائیں تو سہی کہ میں نے کیا کیا ھے
تو صدف بولی پہلے تو تم مجھے یہ باجی باجی کہنا بند کرو میں تمہاری باجی نھی سمجھے
کوئی اپنی باجیوں کو بھی اس نظر سے دیکھتا ھے
میں نے سر جھکا لیا
تو صدف آگے بڑھی اور مجھے دونوں کندھوں سے پکڑ کر بولی
سچ سچ بتاو تم چاھتے کیا ھو
میں نے سر جھکائے کہا کچھ نھی باجی
تو صدف بھی جھنجھلا کر بولی پھر باجی
میں نے تمہیں کہا کہ مجھے باجی نہ کہو
تو میں نے سرجھکاے ھے کہا کہ اچھا اب نھی کہتا
تو صدف تھوڑے نرم لہجے میں بولی یاسر میری طرف دیکھو
میں نے سر اٹھایا تو میری آنکھوں سے آنسو نکل رھے تھے
تو صدف نے پیار سے اپنے ایک ھاتھ سے میرے آنسو صاف کیے جبکہ دوسرا ھاتھ ابھی تک میرے ایک کندھے پر ھی تھا اور بولی دیکھو یاسر تمہارے دل میں جو بھی ھے مجھے سچ سچ بتا دو
میں وعدہ کرتی ھوں کسی کو نھی بتاوں گی
مگر شرط یہ ھے اگر تم مجھے اپنا دوست سمجھ کر سچ بتاو گے تب
تو میں نے کہا کچھ بھی نھی ھے ایسا
تو صدف بولی پھر جھوٹ
میں نے کہا نہ کہ اس وقت یہ سمجھو کہ ہم دونوں دوست ہیں
کیا تم مجھے اپنا دوست نھی بنا سکتے میں نے ہاں میں سر ہلایا تو
صدف بولی کہ دوستوں سے دل کی بات چھپاتے ہیں کیا
میں نے ایک ھاتھ سے اپنے آنسو صاف کرتے ھو نھی میں سر ہلایا
تو صدف بولی
تو پھر مجھے بتاو اپنے دل کی بات
تو میں سمبھلتے ھوے کہا
کہ آپ ناراض ھوجاو گی تو
صدف بولی
یار جب میں خود کہہ رھی ھوں تو ناراض کیسے ھو جاوگی
پھر کچھ دیر صدف بولی اچھا یہ بتاو کہ میں تمہیں اچھی لگتی ھوں
تو میں نے سر ہلا کر ھاں میں جواب دیا تو صدف نے مجھے کندھوں سے ہلاتے ھوے کہا
یہ کیا گونگوں کی طرح اشارے کررھے ھو زبان نھی ھے منہ میں
میں نے آہستہ سے کہا ھاں جی
تو صدف نے پھر پوچھا کہ کتنی اچھی لگتی ھوں تو میں نے کہا بہت اچھی لگتی ھو
تو صدف بولی اچھا یہ بتاو کہ
میرے جسم کا کون سا حصہ تمہیں زیادہ اچھا لگتا ھے
تو میں نے کہا آپ سر سے پاوں تک ھی اچھی لگتی ھو
تو صدف بولی
پھر بھی کوئی حصہ تو ھوگا جو تم زیادہ اچھا لگتا ھے
تو میں نے اشارے سے اسکے مموں کی طرف انگلی کرتے ھوے کہا یہ
تو صدف نے پوچھا
اور
میں نے اسکی گانڈ کی طرف اشارہ کیا کہ یہ
تو صدف نے کہا
اچھا جی
اور پھر صدف نے اپنے ممے پر ہاتھ رکھتے ھوے کہا یہ تمہیں کتنا کہ اچھا لگتا ھے
تو میں نے کہا بہت تو اچانک صدف نے میرے دونوں ھاتھ پکڑے اور اپنے مموں پر رکھ کر اپنے ھاتھوں کو دبا دیا جس سے اسکے ممے میری مٹھی میں بھینچے گئے
اور صدف کے منہ سے ایک سسکاری سی نکلی سسسسی اور بڑی سیکسی آواز نکال کر بولی لو پھر انکو اچھی طرح دباو
اندھا کا چاھے دو آنکھیں
میں نے آہستہ آہستہ صدف کے گول مٹول مموں کو دبانا شروع کردیا
کچھ دیر ایسے ھی دباتا رھا اور صدف میرے ھاتھوں کے اوپر ھاتھ رکھے منہ چھت کی طرف کرکے آنکھیں بند کیے سسسییی سسسییی کرتی رھی
میں نے حوصلہ کیا اور آگے بڑھا
اور اپنا ایک ھاتھ صدف کی کمر پر رکھ کر اسے اپنی طرف کیا اور صدف نے اچانک اپنی آنکھیں کھولی اور میری طرف نشیلی آنکھوں سے دیکھا اسکی آنکھوں میں سرخ ڈورے صاف نظر آرھے تھے
میں نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک جھٹکا دیا اور صدف میرے سینے سے لگ گئی اور ساتھ ھی میں نے اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیے
صدف کو فرنچ کس نھی کرنا آتی تھی اس لیے وہ اوپر اوپر سے میرے ہونٹوں کو چوم رھی تھی
میں نے بہت کوشش کی کے صدف کا اوپر والا یا نیچے والا ہونٹ اپنے ہونٹوں میں بھر لوں مگر وہ منہ ھی نھی کھول رھے تھی بس ہونٹوں سے ہونٹ ملا کر چومی جارھی تھی میرے دونوں ھاتھ اسکی کمر پر تھے اور اسکے دونوں ھاتھ میری کمر پر اور جسم بلکل ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر ایک جسم بنے ھوے تھے میرا لن بھی نیچے سے تن کر صدف کی پھدی کے اوپر ٹکریں مار مار کر اسے ھوشیار باش کر رھا تھا
تبھی میں نے صدف کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ جدا کیے اور زبان اسکے ہونٹوں پر پھیرنے لگ گیا اور زبان کی نوک اسکے ہونٹوں کے بیچھ اندر کی طرف دبانے لگ گیا تھوڑی سی کوشش کے بعد اسکے نرم ملائم گلاب کی کلی کیطرح تھوڑا سا کھلے اور میری زبان کو اندر جانے کا راستہ دیا اور میری زبان نے باقی کا راستہ خود ھی ہموار کر لیا اور کافی ساری زبان اسکے منہ میں ڈال کر اسکا اوپر والا ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے کر آہستہ آہستہ چوسنے لگ گیا اور اپنی زبان کو اسکے منہ کے اندر چاروں اطراف پھرنے لگ گیا اور کبھی اسکے زبان سے چھیڑ چھیڑ کرنے لگا جاتا
صدف بھی اپنی زبان کو میری زبان سے ٹکرانا شروع ھوگئی اور میرا نیچے والا ہونٹ بھی چوسنے لگ گئی
منہ کے اندر زبان کی زبان کے ساتھ. لڑائی جاری تھی اور باھر ھونٹوں کی ہونٹوں کے ساتھ لڑائی جاری تھی اور نیچے سے لن اور پھدی ابھی تک ایک دوسرے سے مشورہ کرنے میں مصروف تھے اور صدف کے ممے میرے سینے میں دبے ھوے تھے اور میرے ھاتھ اب اسکی گانڈ کی دونوں پھاڑیوں کو جکڑے ھوے تھے اور صدف کا ھاتھ میری کمر پر تھا اور دوسرا میری گردن کے اوپر بالوں میں
کہ اتنے میں اچانک باھر سے کمرے سے برتن گرنے کی آواز آئی اور ہم دونوں کو کرنٹ لگا اور ہوش میں آتے ھے جھٹکے سے ایک دوسرے سے الگ ھوے
اور
Quote
صدف نے مجھے جلدی سے پٹیوں کے اوپر چڑھنے کو کہا میں بجلی سی تیزی سے جمپ مار کر پیٹی کے اوپر چڑھ گیا اور ایسے ھی پیٹی کے اوپر پڑے ٹرنک کو ادھر ادھر کرنے میں مصروف ھوگیا
صدف نے خود سنبھالا اور اپنے کپڑے سہی کرتی ھوئی دوسرے کمرے میں چلی گئی
میں کافی دیر ویسے ھی پیٹی کے اوپر بیٹھا رھا اور میرے کان باہر کی طرف کھڑے تھے اور میری ٹانگیں کانپ رھی تھی تقریباً دس منٹ بعد صدف مسکراتی ھوئی سٹور میں داخل ھوئی اور مجھے یوں سہمے ھوے دیکھ کر ہنستے ھوے بولی
تیری کیوں جان تے بنی ھوئی اے چل تھلے آجا کُش نئی ھویا بلی نے برتن پھینکے تھے
میں بلی کو گندی گالیاں دیتے ھوے شکر کرتے نیچے آگیا اور
صدف نے کہا کہ تم باہر جاکر بیٹھ جاو اور تھوڑی دیر تک سب کوچھٹی ھو جانی ھے تم گھر کا چکر لگا کر پھر آجانا
امی ابھی ایک گھنٹہ سے پہلے نھی آتی میں نے کہا آنٹی تو درزن کے پاس گئی تھی اتنی دیر کیسے لگائیں گی تو صدف بولی
تمہیں میری امی کا نھی پتہ وہ بہت باتونی ھے تم بے فکر رھو اگر وہ آ بھی گئی تو میں انکو کہہ دوں گی کہ میں اکیلی تھی اس لیے تمہیں روک لیا تھا
میں نے پھر ڈرتے ھوے انداز میں کہا کہ دیکھنا کہیں مروا نہ دینا تو صدف نے مجھے باھر جانے کے لیے دھکہ دیا کہ اب جاو بھی میں سب سنبھال لوں گی اور پھر پیچھے سے آہستہ سے آواز دی کے یاسر جلدی آجانا
میں باہر آکر عظمی کے پاس بیٹھ گیا عظمی مجھے غور سے دیکھتے ھوے بولی
تمہیں اتنی سردی میں بھی پسینہ کیوں آیا ھوا ھے
تو میں نے اپنا ہاتھ ماتھے پر پھیرتے ھوے کہا کہ
تمہاری باجی صاحبہ نے اتنا بھاری ٹرنک جو مجھ سے اٹھوا کر پیٹی پر رکھوایا ھے
میں نے نھی کل سے پڑھنے آنا تو عظمی بولی کیوں کیا ھوا تو میں نے برا سا منہ بناتے ھوے کہا کہ میں یہاں کام کرنے آتا ھوں یاں پڑھنے
تو عظمی ہنستے ھوے بولی
کوئی بات نھی کسی کا کام کردینے سے تم چھوٹے تو نھی رھ جاو گے
کچھ دیر ہم ایسے ھی باتیں کرتے رھے اتنے میں صدف کمرے سے باہر نکلی اور سب کو چھٹی کرنے کا کہا
ہم نے جلدی سے اپنی کتابیں بیگ میں رکھی اور سلام لے کر باہر کو نکلنے لگے میں سب سے آخر میں تھا تو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو صدف نے مجھے ھاتھ کے اشارے سے جلدی آنے کا کہا اور میں نے اثبات میں سر ہلایا اور باہر نکل آیا اور تیز تیز قدموں سے گھر پہنچا اور بیگ رکھتے ھی امی کو کہا کہ باجی صدف نے مجھے بلوایا ھے تو امی
نے کہا ابھی تو انکے ھی گھر سے آرھے ھو تو میں نے کہا کہ باجی نے کہا تھا کہ گھر بیگ رکھ کر جلدی آنا شاید انہوں نے کچھ منگوانا تھا
تو امی نے کیا جلدی آجانا زیادہ اندھیرا نہ کرنا
امی نے کیا جلدی آجانا زیادہ اندھیرا نہ کرنا
دھند پڑنا شروع ھوجاتی ھے میں نے ابھی تھوڑی دیر بعد آنے کا کہا اور بھاگتا ھوا صدف کے گھر پہنچ گیا اور دروازہ کھولا اور اندر داخل ھوا تو صدف سامنے ھی چارپائی پر بیٹھی ھوئی دروازے کی طرف ھی دیکھ رھی تھی اور مجھے اشارے سے دروازہ بند کرنے کا کہا تو میں نے دروازہ بند کردیا اور سنگلی کی بنی کنڈی کو لگا دیا
اور چلتا ھوا صدف کے پاس آگیا صدف کھڑی ھوئی اور مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا میں اس کے پیچھے چلتا ھوا کمرے میں داخل ھوا اور صدف نے کمرے کا دروازہ بھی بند کردیا
اور مجھے کمرے میں بچھی چارپائی بیٹھنے کہا اور میرے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی
میں نے اسکے جسم کا جائزہ لیا تو اس نے اب جرسی نھی پہنی ھوئی تھی
صدف نے میرا ھاتھ پکڑ کر کہا
تم کیا چیز ھو
میں نے حیرانگی سے پوچھا کیوں کیا ھوا تو وہ میری گال پر چٹکی کاٹتے ھوے بولی
یہ کس کرنا کہاں سے سیکھا ھے تو میں نے کہا آپ سے
تو میرے کندھے پر مکا مارتے ھوے بولی
چل شوخا
سچ بتاو کہاں سے سیکھا ھے تو میں کہا
صحیح کہہ رھا ھوں آپ سے کس کرتے وقت ھی مجھے پتہ ھی نھی چلا کہ میں کیا کررھا ھوں اور ساتھ ھی میں نے اپنے دونوں ھاتھوں سے اسکے بازوں کے نیچے سے سائڈ کیطرف سے جپھی ڈال دی اور اسکو پیچھے کی طرف دھکیل کر چارپائی پر لٹا دیا اور خود بھی اسکے ساتھ ھی لیٹ گیا تو صدف بولی چھوڑو مجھے کیا کررھے ھو میں نے اس لیے تمہیں بلوایا ھے کیا
تو میں نے اسکی بات سنی ان سنی کر کے ایک ھاتھ سے صدف کا مما مسلنا شروع کردیا صدف بلکل سیدھی لیٹی ھوئی تھی اور اسکی ٹانگیں نیچے فرش کی طرف لٹکی ھوئی تھی میں اسپر ترچھا لیٹا ھوا تھا میرا ایک بازو اسکی کمر کے نیچے تھا اور دوسرا اسکے سینے پر اور میرا ھاتھ مسلسل اسکے ممے کو مسلی جارھا تھا
کچھ دیر بعد عظمی بولی یاسر تمہارا بازو میری کمر میں چُبھ رھا ھے اسے نکالو میں نے بازوں اس کی کمر کے نیچے سے نکال کر اسکی گردن کے نیچے رکھ دیا اور تھوڑا اوپر ھوکر اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھنے لگا تو صدف نے منہ دوسری طرف کر کے اپنے ہونٹوں پر ھاتھ رکھ لیا
اور نہ نہ میں سر ہلانے لگ گئی
میں نے اسکا مما چھوڑا اور اسکا ھاتھ پکڑ کر منہ سے ہٹا دیا اور ہونٹوں کو اسکے ہونٹوں پر رکھ کر کسنگ شروع کردی
صدف کچھ دیر احتجاج کرتی رھی مگر پھر ٹھنڈی ھوکر میرا ساتھ دینے لگ گئی میں نے اسی دوران اسکی قمیض کو آگے سے تھوڑا اوپر کیا اور ھاتھ قمیض کے اندر ڈال کر مموں تک لے گیا صدف نے میرا ھاتھ پکڑنے کی کوشش کی مگر اس سے پہلے اسکا مما میرے ھاتھ میں آچکا تھا میں یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کہ اس نے بریزیر بھی نھی پہنا ھوا تھا
یعنی سالی نے پوری تیاری کررکھی تھی بس نخرے کررھی تھی
عظمی کے ممے میرے ھاتھ سے بڑے تھے اس لیے پورا مما ھاتھ میں نھی آرھا تھا میں کبھی ممے کو دباتا کبھی اکڑے ھوے نپلوں کو انگلیوں کے درمیان پھنسا کر مسل دیتا
تب صدف لمبی لمبی سسکاریاں لیتی اور اففففف آہستہ کرو آرام سے کرو کہتی
اور پورے جوش سے میرے ہونٹ چوس رھی تھی کافی دیر یہ ھی سین چلتا رھا میں نے اس کے ممے سے ھاتھ ہٹا کر پیچھے اسکی کی کمر کی طرف لی گیا اور گردن کے پیچھے والے ھاتھ سے اسکی گردن کو اوپر کیا اور اسکو چارپائی پر سیدھا کردیا اب ہم دونوں کی ٹانگیں بھی چار پائی پر تھیں
اور صدف بلکل سیدھا چارپائی پر لیٹی تھی جبکہ میں سائڈ لے کر اسکے اوپر تھا میں نے صدف کی کمر سے قمیض اوپر کی طرف کردی اور پھر ھاتھ آگے لاکر آگے سے بھی ساری قمیض اٹھا کر اسکے مموں سے اوپر کرتے ھوے اسکے گلے تک کردی
اب صدف لے نیم گورے چھت کی طرف تنے ممے بلکل ننگے میری آنکھوں کے سامنے تھے
میں اسکے اتنے دلکش موٹے گول مٹول مموں کو دیکھ کر انپر ٹوٹ پڑا اور باری باری دونوں مموں کو چوسنا شروع کردیا صدف میرے سر پر ھاتھ رکھ کر مموں پر دبا رھی تھی اور نیچے سینے کو اوپر اٹھا اٹھا کر مزے لے لے کر مجھے ممے چوسنے لو سگنل دے رھی تھی اور ساتھ ساتھ لمبے لمبے سانس لے رھی تھی
میں کبھی صدف کے اکڑے ھوے نپل پر زبان پھیرتا کبھی پورا مما منہ
میں لینے کی کوشش کرتا کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا
پھر میں نے اپنا ایک ھاتھ اسکے پیٹ پر رکھ کر اسکی ناف میں انگلی گھمانے لگ گیا
میں جیسے اسکی ناف کو چھیڑتا صدف اتنا ذیادہ مچلتی
پھر میں نے پھرتی سے اپنا ہاتھ اسکی شلوار میں ڈال دیا اور یہ دیکھ کر حیران ھوا کہ اس نے بھی میری طرح بس لاسٹک ھی پہنی ھوئی ھے اس لیے میرا ھاتھ آسانی سے اندر چلا گیا اور اسکی پھدی کی ملائم جلد سے ھوتا ھو اسکی پھدی کے ہونٹوں پر جا پہنچا
میرا ھاتھ جیسے ھی صدف کی پھدی کے اوپر لگا صدف نے ایک زور دار جھر جھری لی لمبی سی ھاےےےےےےے میں مر گئی کیا اور مجھے کس کر جپھی ڈال کر سر نھی نھی میں ہلانے لگ گئی
مگر میں ا
اب کہاں رکنے والا تھا
میں نے محسوس کیا کہ صدف کی پھدی کے ہونٹ کافی گیلے ہیں جس سے میری انگلیاں اسکی پھدی کے اوپر چپک رھی تھی
میں مسلسل اسکی ملائم ریشم سی نازک بالوں سے پاک پھدی کو مسل رھا تھا اور ساتھ ساتھ اسکے ایک ممے کو بے دردی سے منہ کی مار مار رھا تھا
اور میرا لن اسکے پٹ میں گھسنے کی کوشش میں تھا جسکو صدف بخوشی سے برداشت کر کے مزے میں ڈوبی سسکیاں لے رھی تھی کہ اچانک اس کی سسکیوں میں شدت پیدا ھوگئی
مجھے بھی جوش آگیا
میں نے لن کو مزید اسکے کولہے کے ساتھ رگڑنا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ اپنے ھاتھ کی سپیڈ تیز کردی اور ایکدم سے درمیان والی انگلی پھدی کے اندر تک گھسا دی جیسے ھی انگلی اندر گئی تبھی صدف کا چھوٹنے کا وقت سر پر تھا صدف نے زور سے گانڈ کو اوپر کی طرف کر کے ایکدم نیچے چارپائی پر پھینکا
اور ھاےےےےےےےے امییییییک کی آواز آتے ھی صدف کہ جسم نے جھٹکے لینے شروع کردیے اور پھدی کو سکیڑ لیا جس میں میری انگلی تھی اور انگلی ایسے تھی جیسے آگ کی بھٹی میں ھو اور ٹانگوں کو زور سے آپس میں بھینچ لیا اور صدف نے اسی سمے اپنا ھاتھ نیچے کر کے میرے لن کو بھی ذور سے پکڑ لیا اور ذور ذور سے جھٹکے لینے لگی اور ساتھ ھی سیییییی افففففف اممممم ہمممممم ھاےےےےےےےے کر کہ ٹھنڈی ھوگئی اور اسکی ٹانگوں جکڑا میرا ھاتھ اسکی پھدی کے پانی اور منی سے گیلا ھوگیا تھا
اسکی پھدی سے مسلسل پانی نکل رھا تھا
اب اسکا جسم وقفے وقفے سے ہلکے ہلکے جھٹکے کھا رھا تھا
صدف کے جسم نے ہلکے ہلکے جھٹکے کھاے اور ساتھ ھی وہ بےجان سی ھوگئی
جیسے ھی اسکی ٹانگیں ڈھیلی ہوئی میں نے ہاتھ باہر نکال کر اس کی شلوار سے اپنے ھاتھ کو صاف کیا اور پھر سے اسکے مموں کو چوسنا شروع کردیا
صدف پہلے تو کچھ بےچین سی رھی پھر کچھ ھی دیر بعد وہ دوبارا سے گرم ہونا شروع ھوگئی
میں نے آہستہ آہستہ سے صدف کی شلوار کو نیچے کھسکانا شروع کردیا
پہلے اسکی شلوار گانڈ سے نیچے کی اور پھر آگے سے کھینچ کر گھٹنوں تک نیچے کردی
صدف نے تھوڑا احتجاج کیا مگر میں نے تھوڑی سی زبردستی کی اور شلوار نیچے کرنے میں کامیاب ہوگیا
اور جلدی سے اپنی شلوار نیچے کی اور صدف کے اوپر آکر لن اسکی پھدی کے اوپر رکھنے لگا تو صدف نے جلدی سے اپنا ھاتھ اپنی پھدی کے اوپر رکھ لیا اور مجھے کہنے لگی یہ کیا کرنے لگے ھو پاگل تو نھی ھوگئے
تو میں نے کہا کچھ نھی ھوتا
تو اس نے کہا چھوڑو مجھے خبردار اگر اندر کیا مجھے برباد کرنا ھے
میں نے کہا اندر کرنے سے تم کیسے برباد ھوجاو گی کسی کو پتہ تھوڑا لگنا ھے
تو صدف بولی تم پاگل ھو جو میری بات نھی سمجھ رھے مجھے مارنا ھے
میں نے کہا یار بس تھوڑا سا اندر کروں گا ایک دفعہ ھاتھ تو پیچھے کرو تو صدف نھی میں سر ہلاتے ھوے کہنے لگی
ہرگز بھی نھی کیوں مجھے برباد کرنے پر تلے ھو
میں کنواری ھوں شادی شدہ نھی جو کچھ نھی ھوگا
مگر میرے دماغ پر منی سوار تھی میں نے زبردستی صدف کا ھاتھ پکڑ کر اسکے سر کے قریب کر دیا اس نے دوسرا ھاتھ نیچے لیجانا چاھا مگر میں نے راستے میں اسکا ھاتھ پکڑ کر اسکے سر کے پاس لیجا کر چارپائی پر دبا دیا اب میرے دونوں ھاتھوں میں اسکی دونوں کلائیاں تھی اور صدف سر ادھر ادھر مار رھی تھی اور نیچے سے گانڈ اٹھا کر دائیں بائیں کرتے ھوے میرے نیچے سے نکلنے کی کوشش کرتی رھی مگر مرد کے آگے عورت بے بس ھی ھوتی ھے میں نے اپنی گانڈ ہلا ہلا کر لن اسکی پھدی پر سیٹ کرنا شروع کردیا مگر وہ نیچے سے ہلے جارھی تھی اور مجھے دھمکیاں دینے لگ گئی کہ میں اپنی امی کو بتاوں گی ابو کی بتاوں گی مگر مجھ پر صدف کی دھمکیوں کا کوئی اثر نھی ھورھا تھا
مجھے جب بھی لگتا کہ لن سہی نشانے پر ھے تو میں ذور سے گھسا مارتا مگر لن پھدی سے سلپ ھوکر اس کے چڈوں کے درمیان گھس جاتا
ایک تو صدف کی پھدی بہت گیلی تھی دوسرا جب بھی گھسا مارتا تو صدف اوپر کی طرف کھسک جاتی اور میرا وار خالی جاتا
مگر جب بھی میرا لن اسکے چڈوں کے درمیان جاتا تو میرے جسم میں مزے کی لہر دوڑ جاتی
صدف اب رونے لگ گئی تھی اور مجھے اموشنل بلیک میل کرتے ھوے کہنے لگی
یاسر میں نے زندگی میں پہلی بار کسی لڑکے کو دوست بنایا ھے اور مجھے تم پر بہت بھروسہ تھا کہ تم میرے ساتھ کچھ غلط نھی کرو گے
مگر تم بھی ہوس کے پجاری نکلے
کیا ملے گا تمہیں میری عزت برباد کرکے
میں تو تمہیں اپنا بہت اچھا دوست سمجھتی تھی
اگر تم مجھے دوست سمجھتے ھو تو پلیز اندر مت کرنا
ورنہ میں کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نھی رھوں گی اور ساتھ ساتھ روئی جارھی تھی
مجھے بھی اب صدف کے چڈوں میں گھسے مارنے میں مزہ آرھا تھا
اس لیے میں نے بھی اندر کرنے کا ارادہ ملتوی کرتے ھوے کہا
اچھا یار نھی اندر کرتا مگر مجھے ایسے تو کرنے دو
تو صدف بولی ایسے بھی اندر جاسکتا ھے تو میں نے کہا یار ایک دفعہ کہہ دیا نہ کہ نھی اندر کرتا تو نھی کرتا
تو صدف بولی دیکھ لو یاسر اب میں تمہیں نھی روکوں گی
اگر تمہیں میری عزت پیاری ھوئی تو اندر نھی کرو گے
میں نے کہا یار مجھے تمہاری عزت پیاری ھے تو کہہ رھا ھوں کہ اندر نھی کرتا
صدف نے اب ہلنا بند کردیا تھا اور میں اب اسکی چڈوں کے بیچ ھی لن کو اندر باھر کر رھا تھا
میں اب صدف کی کلائیاں بھی چھوڑ دی تھی اور بلکل سیدھا اس کے اوپر لیٹ کر اسکی پھدی کو اپنے لن سے رگڑیں لگاتا ھوا اوپر نیچے ھورھا تھا
مجھے بہت مزہ آرھا تھا
اب صدف کہ بھی آنکھیں بند ھونا شروع ھوگئی
میں گھسے مارنے کے ساتھ ساتھ صدف کا پورا چہرہ چوم رھا تھا
آہستہ آہستہ میرے گھسوں میں شدت آرھی تھی اور چارپائی چیخ چیخ کر آہستہ کرنے کا کہہ رھی تھی
نیچے سے چارپائی کی چوں چوں کی آوزیں پورے کمرے میں گونج رھی تھی اور میں اب ایک ردھم سے گھسے ماری جارھا تھا اور مزے کی شدت میں بھی اضافہ ھوتا جارھا تھا
صدف نے میری کمر کو ذور سے جکڑ رکھا تھا
کہ اچانک صدف نے اپنی ٹانگوں کو آپس میں کس کر ملانا شروع کیا اور اسکے چڈوں نے میرے لن کو جکڑ لیا اور پھر ڈھیلا چھوڑ دیا
جب صدف نے میرے لن کو جکڑا تو میرا لن پھنس کے اسکے چڈوں میں گیا تو مجھے اتنا مزہ آیا کہ میں بیان نھی کرسکتا
میں نے صدف کو کہا جانی ویسے ھی کرو
تو صدف نے پھر چڈوں کو آپس میں جوڑ کر جسم کو اکڑا لیا
میں گھسے مارتے ھوے بولا
ھاں ھاں ایسے ھی بڑا مزہ آرھا ھے
ایسے ھی رکھنا بس
تو
صدف بھی فل نشے میں تھی اور ہم دونوں کے ہونٹ آپس میں ملتے اور کبھی جدا ھوتے
صدف بڑی نشیلی آواز میں بولی یاسر
میں نے کہا
جی جان
صدف بولی مزہ آرھا ھے میں نے اسکے ہونٹوں کو چومتے ھوے کہا بُہہہہتتتت مزہ آرھا ھے
تمہیں بھی مزہ آرھا ھے
تو صدف نشے کی سی حالت میں بولی. بہتتتت مزہ آرھا ھے
پھر وہ بولی یاسر مجھے چھوڑو گے تو نھی
میں نے کہا نھی جان
پھر بولی مجھے دھوکا تو نھی دو گے
میں نے کہا نھی جان
صدف پھر بولی
یاسر مجھے بدنام تو نھی کرو گے
میں نے کہا سوچنا بھی مت
پھر بولی
یاسر تم نے پہلے بھی کسی کے ساتھ کیا ھے
تو میں نے کہا نھی جان میرا بھی پہلی ھی دفعہ ھے
تو وہ بولی
سچ کہہ رھے ھو نہ میں نے کہا جی جان
تو صدف نیند کی سی حالت میں بولی
کھاو میری قسم
میں نے کہا
تمہاری قسم جان جی
پھر صدف کو ایکدم جوش چڑھا اور دونوں ھاتھون سے میرا چہرہ پکڑ کر بڑی سپیڈ کے ساتھ پورے چہرے پر چھوٹی چھوٹی پاریاں کرنے لگ گئی اور پھر آنکھیں بند کر کے میری کمر پر ھاتھ رکھ کر مجھے اپنے ساتھ کس کے لگا لیا
میری گھسے مارنے کی سپیڈ بہت تیز ھوچکی تھی اور صدف کی بالوں سے صاف چکنی ملائم نرم پھدی کے ساتھ رگڑ رگڑ کر اندر باھر ھو رھا تھا
اچانک مجھے لگا جیسے میرا سارا خون میرے لن میں اکھٹا ھو رھا ھے اور مجھے بہت تیز کا پیشاب آرھا ھے
پھر وہ وقت آگیا کہ مجھ سے برداشت نہ ھوا اور سارے جہان کا مزہ اکھٹا ھوکر میرے لن میں آگیا اور میں نے بے ساختہ صدف کے ہونٹوں میں اپنے ہونٹ جکڑ لیے اور جتنا ممکن تھا اسکو اپنے جسم میں سمونے لگا اور کس کر صدف کو جپھی ڈال دی
صدف کے بڑے بڑے ممے میرے سینے میں دب گئے تھے
اور پھر میرے جسم کو ایک زبردست جھٹکا لگا اور میرے لن سے منی نکلتی گئی مجھے نھی پتہ کہ کتنی دفعہ میرے لن سے منی نکلی بس مجھے تو مزے ھی مزے آرھے تھے
جیسے جیسے میرے لن سے منی نکلنا کم ھورھی تھی
ویسے ھی میرے گھسے بھی سلو موشن میں لگ رھے تھے اور پھر صدف کے چڈوں نے میرے لن کو اچھی طرح نچوڑ لیا
میں صدف کے مموں پر اپنے گال رکھ کر لمبے لمبے سانس لینے لگ گیا اور صدف اس دوران میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے بولی اب خوش میں کافی دیر ایسے ھی پڑا رھا پھر صدف نے مجھے ہلایا کہ اب اٹھ بھی جاو کہ امی آے گی تب ھی اٹھو گے میں امی کا نام سنتے ھی صدف کے اوپر سے اٹھا اور اپنے لن کو دیکھنے لگ گیا جو سرخ ھو چکا تھا اور نیم مرجھا گیا تھا میں نے صدف کی شلوار سے ھی لن کو صاف کیا تو صدف کہنے لگی پاگل ھوگئے ھو میرے کپڑے گندے کررھے ھو مگر میں نے تب تک لن صاف کرلیا تھا اور شلوار اوپر کی تب صدف بھی جلدی سے اٹھی اور اپنی قمیض نیچے کر کے کھڑی ھوکر شلوار اوپر کرلی
اور چارپائی سے چادر اکھٹی کرتی ھوئی بولی یاسر تم گھر جاو امی بھی آنے ھی والی ھے میں امی کے آنے سے پہلے چادر بدل دوں
میں نے چادر کی طرف دیکھا تو چادر ایک جگہ سے کافی گیلی ھوگئی تھی اور اس پر گاڑھی گاڑھی منی اب بھی نظر آرھی تھی
میں نے صدف کو بازوں سے پکڑ کر اپنی طرف اسکا منہ کیا اور ایک لمبی سی فرنچ کس کی تو صدف اپنا آپ چھڑواتے ھوے بولی
اب دفعہ بھی ھوجاو میں اسکو چھوڑ
کر کمرے سے نکلنے ھی لگا تھا کہ
دوستو میں نے جیسے ہی ایک قدم
ابھی دروازے کی دہلیز سے باہر رکھا ھی تھا کہ پیچھے سے صدف نے مجھے آواز دی کہ یاسر میں نے پلٹ کر اسکو دیکھا
تو وہ مجھے ہوائی چمی دیتے ھوے بولی شکریہ
میں نے کہا کس بات کا تو صدف بولی میرا بھروسہ نہ توڑنے کا
اور میں نے ہممم کیا اور باھر نکل آیا اور بیرونی دروازے کی کنڈی کھولی اور گلی میں نکلا تو گلی میں کافی اندھیرا ھوچکا تھا
میں تیز تیز قدموں سے چلتا گھر کی طرف چلا گیا
رات کو نیند بڑے مزے کی آئی صبح سکول کی لیے تیار شیار ھوکر
آنٹی فوزیہ کے گھر چلا گیا تو آنٹی سے سلام دعا لی آنٹی نے پیار سے میری گال اور ماتھے کو چوما اور کہنے لگی میرے شزادے کی پیپروں کی تیاری کیسی جارھی ھے میں نے کہا بہت اچھی جارھی ھے
تو آنٹی میرے سر پر ھاتھ پھیرتے ھوے بولی شاباش
بس انج ای دل لا کہ پڑیا کر
ایس دفعہ وی فرسٹ ای آویں
تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا
اب میں کیا بتاتا کہ میرے تو پاس ھونے کی بھی چانس نھی
اتنی دیر میں عظمی اور نسرین بھی تیار ھوکر کمرے سے نکل آئیں
اور نسرین مجھے آنٹی کی بغل میں بیٹھا دیکھ کر بولی
امی تُسی کی ہر ویلے اینوں گودی وچ واڑی رکھدے او
تو آنٹی غصے سے بولی
تینوں کی تکلیف اے میرا اکو اک ای تے پتر اے
ہے کو ایدے ورگا سوہنا سُنکھا
تو نسرین کی بجاے عظمی بولی
شکل دیکھی اسکی آیا وڈا شزادہ
تو میں نے زبان نکال کر اسکو منہ چڑھایا
اور آنٹی نے مزید مجھے اپنے ساتھ لگا کر کہا
چلو دفعہ
ھووو کی ہر ویلے میرے منڈے دے پچھے پئیاں رہندیاں جے
تو نسرین بولی جے ماں پتر دا پیار ختم ھوگیا ھوے تے سکول جان دی اجازت مل سکدی اے
تو میں ہنستے ھو آنٹی سے الگ ھوا اور جانے لگا تو آنٹی بولی یاسر پتر بہنوں کو دھیان سے لے کر جانا آج باہر دُھند بھی کافی پڑی ھوئی ھے
میں نے جی اچھا کہا اور
انکو ساتھ لے کر گھر سے نکل کر صدف کے گھر کی طرف چلدییے
گلی سے نہر کی طرف دیکھ کر صاف پتہ چل رھا تھا کہ دھند کی شدت کتنی ھے کیوں کہ ہمیں تو کھیت بھی نظر نھی آرھے تھے خیر ہم صدف کے گھر پہنچے تو
صدف بھی تیار ھی بیٹھی تھی ہمیں دیکھ کر جلدی سے وہ بھی باہر کو آنے لگی تو اسکی امی بھی ساتھ ھی آگئی اور مجھے وہ ھی بات کہنے لگ گئی جو آنٹی فوزیہ نے کہی تھی کہ دھند بہت ھے بہنوں کو دھیان سے لے کر جانا
میں نے جی اچھا کہا اور دل ھی دل میں کہا چلو جی اک ھور پین دا اضافہ ھوگیا
ہم سکول کی طرف چل دیے
صدف ایسے شرما شرما کر مجھے دیکھ رھی تھی جیسے میری منگیتر ھو
راستے میں دھند کافی پڑی ھوئی تھی اس لیے ہم سنبھل سنبھل کر جارھے تھے تھوڑا سا بھی ایک دوسرے کا فاصلہ بڑھتا تو ایکدوسرے کی نظروں سے اوجھل ھوجاتے عظمی اور نسرین بھی ڈر ڈر کر جارھی تھی جبکہ صدف میرے آگے تھی اور بلکل میرے ساتھ ساتھ ھی جارھی تھی
مجھے اچانک شرارت سوجھی تو میں نے ھاتھ آگے کر کے صدف کی گانڈ میں پورا چپہ دے دیا صدف نے ایکدم ھائی کیا اور جھٹکے سے میرا ہاتھ جھٹک دیا
تبھی عظمی نے پیچھے مڑ کر پوچھا کیا ھوا باجی تو صدف بولی کچھ نھی میرا پیر پھسلنے لگا تھا
تو عظمی بولی باجی دھیان سے چلیں آگے سے تو کچھ نظر بھی نھی آرھا صدف نے پیچھے مڑ کر غصے سے دیکھا اور عظمی کی طرف اشارہ کیا کہ کچھ تو کیال کرو اگر عظمی دیکھ لے گی تو
تھوڑا سا ھی آگے گئے تھے کہ میں نے پھر آگے بڑھ کر صدف کی گانڈ پر پیار سے ہاتھ پھیرا اس دفعہ صدف بولی تو کچھ نہ مگر میرا ھاتھ پیچھے کرنے لگ گئی ایسے ھی میں کھڑمستیاں کرتا رھا اور ہم نہر کہ پل پر پہنچ گئے وہاں کچھ ذیادہ ھی دھند تھی
جب ہم نے نہر کا پل کراس کیا تو عظمی اور نسرین کچھ زیادہ ھی آگے چلی گئی تھی جبکہ صدف اور میں تھوڑا پیچھے تھے تب صدف نے کہا تمہیں چھٹی کس وقت ھوتی ھے میں نے نے کہا آج تو ہاف ڈے جمعرات ھے آج تو گیارہ بجے چھٹی ھوجانی ھے ویسے. ایک بجے چھٹی ھوتی ھے
تو صدف بولی میں دوبجے واپس آتی ھوں آج میں ٹانگے کی بجاے ادھر سے واپس آوں گی تم پُل پر میرا انتظار کرو گے پھر ہم اکھٹے واپس گاوں آجائیں گے میں نے کہا
واپسی پر میرے ساتھ یہ دونوں مصیبتیں ھوتی ہیں
میں انکو گھر چھوڑ کر دوبارا نہر کے پل پر آسکتا ھوں
آج تو ویسے ھی جمعرات ھے
تو تم بھی جلدی آجانا
تو صدف کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی
میں کوشش کروں گی کہ باراں بجے تک واپس آجاوں
تم ساڑھے باراں بجے پُل موجود ھونا
میں نے کہا ٹھیک ھے مگر تم آجانا یہ نہ ھو کہ میں انتظار ھی کرتا رہوں تو صدف نے میری گال پر چٹکی کاٹتے ھوے کہا فکر نہ کر میرے شزادے صدف اپنے وعدے توں نئی مُکر دی
اور پھر ایسے ھی باتیں کرتے کرتے ہم سکول پہنچ گئے صدف اپنی اکیڈمی کے راستے کی طرف چلی گئی اور ہم اپنے اپنے سکول میں چلے گئے
کلاس میں اسد سے بھی کچھ خاص بات نہ ھوئی بس وہ ھی سیکسی رسالہ دیکھا اور کچھ سیکسی باتیں کی
اور اسد نے میرا لن پکڑا جو رسالہ دیکھنے کی وجہ سے کھڑا ھوچکا تھا
تو اسد نے حیرانگی سے کہا واہ جگر تیرا لن تو پورے جوبن پر آگیا ھے
یہ تو اب پھدی پاڑ لن بن گیا
میں لکھ کر گارنٹی دیتا ھوں کہ تو جسکی بھی ایک دفعہ پھدی مارے گا دوبارا وہ تیرے لن کو ترسے گی تیری چُدی پھدی تیری مرید ھوجاے گی
میں خوش ھوتے ھوے بولا
بس یار یہ تیری مہربانی ھے
تو وہ ہنس کر بولا دیکھ لیا پھر ہماری یاری کا رزلٹ
میں نے اسکی کمر پر تھپکی دیتے ھوے کہا یار تیرا یہ احسان کبھی نھی بھولوں گا تو اسد نے کہا گانڈو یاری میں احسان نھی ھوتا
تو اچانک مجھے صدف کے کہے ھوے الفاظ یاد آے کہ
اندر مت کرنا میں برباد ھوجاوں گی
میں شادی شدہ نھی کنواری ھوں
تو میں نے اسد سے کہا یار ایک بات پوچھنی تھی
اسد بولا
دو پوچھ یار
تو میں نے کہا یار یہ کنواری لڑکی اور شادی شدہ میں کیا فرق ھوتا ھے
تو اسد بولا کیا مطلب
میں نے کہا مطلب کہ
کنواری لڑکی کے ساتھ سیکس کیا جاے اور شادی شدہ کے ساتھ کیا جاے تو اس میں کیا فرق ھوتا ھے
تو اسد بولا
کنواری سیل پیک ھوتی ھے
اسکی سیل کھولنا پڑتی ھے جبکہ شادی شدہ کی پہلے ھی کھلی ھوتی ھے
تو میں نے حیران ھوتے ھوے کہا کہ یار یہ سیل کیا ھوتی ھے تو اسد ہنستے ھوے بولا
جا اوے چلیا تینوں حالے تک اے ای نئی پتہ
کملیا سیل لڑکی کے کنوارے ھونے کا ثبوت ھوتا ھے
اسکی پھدی کے اندر ایک پردہ ہوتا ھی
جب لن اسکی پھدی میں جاتا ھے اور پردے کو پھاڑ کر آگے چلا جاے تو اسکی سیل یعنی پردہ پھٹ جاتا ھے اور اسکی پھدی سے خون نکل آتا ھے
اسے سیل ٹوٹنا کہتے ہیں
میں نے حیران ھوتے ھوے اسد کی طرف دیکھتے ھوے کہا
یار اس سے لڑکی کو درد بھی ھوتا ھے
اور خون کتنا نکلتا ھے
تو اسد بولا
کسی کسی لڑکی کے بہت ذیادہ درد بھی ھوتی ھے اور خون بھی ذیادہ نکلتا ھے اور کسی لڑکی کے نارمل سی درد ھوتی ھے اور خون بھی کچھ خاص نھی نکلتا
اور کچھ تو کنواری بھی ھوتی ہیں اور سیل بھی خود ھی توڑ لیتی ہیں
میں نے پوچھا وہ کیسے
تو اسد بولا
جیسے ہم مٹھ مار کر فارغ ھوجاتے ہیں ایسے ھی کچھ گرم اور سیکسی لڑکیاں اپنی پھدی میں انگلی کرتی ہیں اور جو جوش میں آکر انگلی ذیادہ اندر کردیتی ہیں انکی سیل ٹوٹ جاتی ھے
اور میں نے تو ایک انگلش فلم میں دیکھا تھا کہ
لڑکی اپنی پھدی میں کھیرا اور بینگن بھی لے رھی تھی اور ایک تو موم بتی اپنی پھدی میں لے رھی تھی
اور ایک لڑکی تو اپنی بنڈ کی موری میں بھی پورا کھیرا لے رھی تھی
میں حیران ھوتے ھوے اسد کو دیکھی جارھا تھا کہ سالے کو لڑکیوں کہ بارے میں کتنا پتہ ھے
تو میں نے کہا واہ یار بڑی معلومات ھے تیری
یار مجھے ایک بات کی سمجھ نھی آئی کہ پھدی میں تو چلو مان لیا کہ سب کچھ لے سکتی ہیں مگر یہ گانڈ میں کیسے لیتی ہیں تو اسد بولا
جناب کئی کنواری لڑکیاں تو گانڈ بھی بڑے شوق سے مرواتی ہیں اور جنکو چسکا پڑ جاے تو وہ اتنی پھدی نھی مرواتی جتنی گانڈ مرواتی ہیں
میں ہیییں کہا
اور اسد کو کہا یار انکے درد نھی ھوتا تو اسد نے کہا پہلے پہلے ھوتا ھے مگر بعد میں یہ گانڈ پیچھے کر کر کے پورا لیتی ہیں
اور کنواری لڑکی کو یہ فائدہ ھوتا ھے کہ اسکی سیل ٹوٹنے سے بھی بچ جاتی ھے اور لن کا سواد بھی چکھ لیتی ھیں
ابھی ہم یہ باتیں کر ھی رھے تھے کہ ماسٹر جی کمرے میں داخل ھوے اور ہم دونوں شریف زادے بن کر بیٹھ گئے،،۔۔
چھٹی ہوتے ھی میں عظمی لوگوں کو ساتھ لے کر گھر چلا گیا اور کھانا وغیرہ کھا کر میں کھیلنے کے بہانے سے گھر سے نکلا اور نہر کی طرف چل دیا گھر سے میں ٹائم دیکھ کر نکلا تھا اس لیے مقررہ وقت میں ابھی پندرہ منٹ پڑے تھے
میں تیز تیز قدموں سے چلتا نہر پر پہنچ گیا اور نہر کے کنارے پر بیٹھ کر صدف کا انتظار کرنے لگ گیا
تھوڑی تھوڑی دیر بعد میں اٹھ کر نہر کی دوسری طرف شہر کو جاتی کچی سڑک کی طرف دیکھتا رہتا
کہ شاید اب صدف آتی ھوئی نظر آجاے
وقت تھا کہ گزر ھی نھی رہا تھا
ایک ایک منٹ مجھے ایک گھنٹے جیسا لگ رھا تھا
جیسے جیسے وقت گزرتا جارھا تھا میری
بےچینی بڑھتی جارھی تھی
سچ کہا ھے شاعر نے
در پر نظر آہٹ پر کان دل میں اضطراب،۔
پوچھے کوئی ستم گروں سے مزہ انتظار کا۔
میرا حال بھی کچھ ایسا ھی تھا
دل میں وسوسے آرھے تھے کہ پتہ نھی صدف نے آنا ھے کہ نھی کہیں وہ ٹانگے پر تو نھی چلی گئی وغیرہ وغیرہ
تقریباً
ایک گھنٹے بعد صدف جلوہ گر ہوئی
جب میں نے اسے آتا دیکھا تو بجاے ادھر رکنے کے میں اسکی طرف چل دیا
اور اس کے پاس پہنچتے ھی اس سے گلے شکوے کرنے شروع کردئے کہ میں ایک گھنٹہ سے ادھر خوار ھو رھا ھوں تو صدف نے اپنی عادت کے مطابق
میری گال پر چٹکی کاٹ کر مسکراتے ھوے کہا
پھر کیا ھوا میرے میاں مٹھو
تو میں اپنی گال کو مسلتے ھوے بولا
یہ کیا تم ہر وقت میری گال پر چٹکیاں کاٹتی رہتی ھو
تو صدف بولی میری مرضی
میں تو کاٹوں گی جاو جو کرنا ھے کرلو
تو میں نے کہا جس دن میں نے کاٹی نہ تو اس دن تم نے رونے لگ جانا ھے
اسی دوران ہم پُل کراس کر کے گاوں کی طرف آگئے تھے
میں نے ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی آ تو نھی رھا
جب میری تسلی ھوئی تو
میں نے چلتے چلتے ھی صدف کا نقاب نیچے کھینچا اور اسکی گال کو چوم لیا
تو صدف مصنوعی غصے سے بولی شرم کرو سرعام گندی حرکتیں کر رھے ھو
تو میں نے کہا دیکھ لے جس نے دیکھنا ھے
تو صدف میری طرف دیکھتے ھوے بولی
واہ جی واہ
بڑی گل اے منڈا تے رانجھا بن گیا اے
تو میں پھر صدف کی گال پر چُمی لیتے ھوے کہا
کہ جب ہیر اتنی پیاری ھو تو ہر دیکھنے والا رانجھا بن جاتا ھے
تو صدف بولی
اچھا جی میں نے کہا
ہاں جی
صدف بولی
بڑی گل اے
میں نے کہا بس یہ باتیں کرنے کے لیے مجھے بلوایا تھا تو صدف بولی اور کیا کرنا تھا
میں نے کہا کچھ بھی نھی میرا مطلب ھے کہ کچھ دیر ادھر کہیں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں پھر چلے جائیں گے ویسے بھی تو تمہاری اکیڈمی کی چھٹی میں بھی ابھی دو گھنٹے پڑے ھیں اور گھر تک آتے بھی آدھا گھنٹہ لگ جاتا ھے
تو صدف بولی نھی یاسر مجھے ڈر لگتا ھے اگر کسی گاوں والے دیکھ لیا تو تم سوچ بھی نھی سکتے کہ ہمارے ساتھ کیا ھوگا
تو میں نے کہا یار ہم ادھر کہیں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں جہاں سے ہمیں کوئی دیکھ بھی نھی سکتا
تو صدف بولی
پاگل ادھر کدھر ایسی جگہ ھے جہاں کوئی ہمیں دیکھ نھی سکتا
تو میں نے صدف کا ہاتھ پکڑا اور کہا چلو
تو صدف اپنا ھاتھ چھڑواتے ھو بولی
تم پاگل تو نھی ھو
ھاتھ تو چھوڑو میرا
تم آگے آگے چلو میں تمہارے پیچھے پیچھے آتی ھوں
مگر میری ایک شرط ھے
تو میں نے پوچھا کیا شرط ھے جناب کی
تو صدف بولی اگر مجھے وہ جگہ محفوظ نہ لگی تو میں نے پھر ادھر نھی رکنا
تو میں نے کہا یار چلو تو سہی ایک دفعہ
نہ پسند آے جگہ تو بیشک چلی جانا
اور یہ کہ کر میں صدف کے آگے آگے چلنے لگ گیا
میں صدف کو لے کر اسی جگہ پہنچ گیا جہاں عظمی کے ساتھ کھڑمستیاں کرتا ھوتا تھا
صدف نے چاروں طرف کا جائزہ لیا تو اسے بھی جگہ پسند آگئی
دوستو اب وہ جگہ پہلے سے بھی ذیادہ محفوظ تھی
کیوں کہ اسکے دونوں اطراف مکئی اگی ھوئی تھی جو اب اتنی اونچی ھو چکی تھی کہ ہم کھڑے بھی ھوتے تو کوئی ہمیں دیکھ نھی سکتا تھا ۔۔۔
صدف اسے
میں ٹاہلی کی اوٹ میں ایک دوسرے کے سامنے گھاس پر بیٹھ گئے
صدف بولی یاسر تمہیں اس جگہ کا کیسے پتہ ھے تو میں نے کہا گرمیوں میں ہم جب لُکن میٹی کھیلتے تھے تب ہم ادھر آکر چُھپ جاتے تھے
تو صدف بولی کون کون
میں نے گلی کے دوتین لڑکوں کا نام لیتے ھوے بتایا کہ ہم سب ادھر ھی آکر چُھپتے تھے
تو صدف بولی عظمی اور نسرین بھی تمہارے ساتھ ھوتی تھی میں نے کہا نھی یار وہ اتنی دور آنے سے ڈرتی تھی اس لیے وہ پیچھے کپاس میں ھی چُھپ جاتی تھی
تو صدف ہمممم کر کے خاموش ھوگئی
میں نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد
بولا صدف اس دن مزہ آیا تھا تو صدف نے شرما کر منہ نیچے کر لیا اور بولی
گندی باتیں نہ کرو
تو میں نے کہا یار گندی باتیں کیسے ھوئی
وہ تو پیار تھا
اور پیار کی باتیں گندی تھوڑی ھوتی ہیں
تو صدف ایکدم میری طرف دیکھتے ھوے بولی
تم چیز کیا ھو
مجھے تو تم نے پریشان کرکے رکھا ھوا ھے
میں نے کہا
وہ کیسے جی
تو صدف بولی
تمہاری عمر کتنی ھے
تو میں نے کہا
یہ ھی کوئی سولہ سال
تو صدف بولی
سولہ سال کی عمر میں تم ایک منجھے ھوے مرد بن گئے ھو
تو میں نے کہا
وہ کیسے
تو صدف بولی ذیادہ معصوم بننے کی ایکٹنگ مت کرو
تم اچھی طرح جانتے ھو میں کیا کہنا چاھ رھی ھوں
تو میں نے پھر معصوم سا چہرہ بناتے ھوے کہا
سچی مجھے نھی پتہ کہ تم ایسا کیوں کہہ رھی ھو
تو صدف بولی اپنی حرکتوں پر غور کرو خود ھی سمجھ آجاے گی
میں نے پھر کہا
کون سی حرکتیں جناب،،
اسی دوران میں نے صدف کا ھاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھ میں لے کر اپنا دوسرا ھاتھ اسکے ھاتھ پر پھیرنے لگ گیا تھا
تو صدف بولی وہ ہی جو میرے ساتھ کرتے رھتے ھو اور کل تو تم نے مجھے حیران پریشان کردیا تھا میں تو ساری رات تمہارے بارے میں ھی سوچتی رھی کہ جسے میں بچہ سمجھ کر لاڈ سے چھیڑتی تھی اس بچے نے تو میری نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں،،
تو میں نے کہا یار بتاو بھی کہ ایسا میں نے کیا کردیا ھے جس سے تم اتنی پریشان ھو
تو صدف بولی پہلی بات تو یہ ھے کہ تمہاری عمر کے بچوں کو سیکس کے بارے میں تو بلکل بھی پتہ نھی ھوتا
مگر تم تو اتنی چھوٹی عمر میں اتنے اکسپرٹ ھو
اور صدف نے میرے لن کی طرف اشارہ کرتے ھوے کہا
( جو ہلکا سا سر اٹھا چکا تھا )
تمہارا یہ تو اتنا بڑا ھے کہ جب میں نے ھاتھ میں پکڑا تھا تو میں ایکدم ہل گئی تھی کہ یہ تمہارا وہ ھے یا لوھے کا راڈ ھے
میں نے کہا یار نام لے کر بتاو نہ کہ کیا لوھے کا راڈ ھے
تو صدف شرماتے ھوے اپنی گود کی طرف دیکھتے ھوے بولی
مجھے شرم آتی ھے
تو میں نے کہا
یار کل تم خود ھی کہہ رھی تھی کہ دوستی میں شرم نھی ھوتی اب تمہیں چھمیں آرھی ہیں
اور اسکے ساتھ ھی میں نے صدف کا پکڑا ھوا ھاتھ اپنے لن پر رکھا
اور، کہا
بتاو نہ یار
اسے کیا کہتے ہیں
جیسے ھی صدف کا ہاتھ میرے لن کے ساتھ ٹچ ھوا
لن ساب نے زور سے اوپر کو جھٹکا مارا
جیسے کہتا ھو
کہ
نہ چھیڑ ملنگاں نوں
صدف نے ہاتھ پیچھے کھینچنے کی کوشش کی
تو میں نے ھاتھ کو اور مضبوطی سے پکڑتے ھو صدف کو کہا یار نہ کرو کیا ھوتا ھے بتاو نہ اسے کیا کہتے ہین
تو صدف بولی مجھے شرم آتی ھے
تو میں نے پھر سے اصرار کیا
تو صدف نے سر نیچے کیے ھوے ھی آہستہ سے کہا لن
میں نے کہا
کیا کہا مجھے سنا نھی
تو صدف بولی مجھے نھی پتہ چھوڑو میرا ھاتھ
میں نے کہا یار اب ایسے نخرے تو نہ کرو
صدف نے ھاتھ کی مُٹھی کو زور سے بند کیا ھوا تھا میں نے اپنی انگلیوں کی مدد سے
۔۔۔۔
اسکی مٹھی کو کھولنے کی کوشش کرنے لگ گیا کچھ دیر زور ازمائی کے بعد میں نے اسکی مُٹھی کو کھول دیا
تب اس نے ہلکی سی شرارتی چیخ مارتے ھوے کہا ھوے میری انگلیاں ٹوٹ گئی
تو میں نے اسکی ہتھیلی کو چومتے ھوے کہا
میری جان کی انگلیاں کیسے ٹوٹ سکتی ہیں
اور ساتھ ھی اسکی کھلی ہتھیلی کو اپنے لن پر رکھ کر اسکی مٹھی بند کردی صدف نے تھوڑا سا پھر نخرا کیا مگر پھر اس نے میرے لن کو نرمی سے پکڑ لیا
لن ساب پورے جوبن پر تھے اور لن کی ٹوپی پھنکارے مار رھی تھی
صدف نے لن کو ہاتھ میں پکڑا تو بولی یاسر اتنا بڑا کیسے کیا
تو میں نے اسے تیل کا بتانا مناسب نہ سمجھا
اور جھوٹ بولتے ھوے کہا
یار میں نے اسے کیسے بڑا کرنا ھے
خود ھی بڑا ھوگیا ھے مجھے تو خود سمجھ نھی آئی کہ میرا لن اتنی جلدی کیسے بڑا ھوگیا ھے
تو صدف بولی چل چوٹھا
میں نے کہا سچی کہہ رھا ھوں
صدف بولی
اچھا اب تم یہ بھی کہو کہ جس مہارت کے ساتھ کل تم میرے ساتھ کسنگ کر رھے تھے اور جیسے میرے انکو چوس رھے تھے
صدف نے انگلی اپنے مموں کی طرف کرتے ھوے کہا
یہ بھی تمہیں خود ھی پتہ چل گیا تھا
میں نے کہا یار تمہیں مجھ پر یقین کیوں نھی آرھا ھے اگر تمہیں مجھ پر یقین ھی نھی تو پھر ہماری دوستی کا کیا فائدہ،
اور میں نے روٹھنے والا منہ بنا لیا
تو صدف نے پھر میری گال پر چُٹکی کاٹتے ھوے کہا
ڈرامے بازا میں سب سمجھنی آں
تو میں نے کہا یار ہم لڑنے کے لیے ادھر بیٹھیں ہیں تو صدف بولی
نہ جھوٹ بولو پھر
میں نے غصے سے صدف کا ھاتھ اپنے لن سے ہٹاتے ھوے کہا اور اٹھتے ھوے بولا جب تمہیں میری ہر بات ھی جھوٹ لگ رھی ھے تو پھر میرا یہاں بیٹھنے کا کیا کام
صدف نے ساتھ ھی میرا بازو نیچے کھینچا اور میں پھر اسی جگہ صدف کے سامنے بیٹھ گیا
صدف بولی ایک تو تم ڈرامے بہت کرتے ھو
تو میں نے برا سا منہ بناتے ھوے کہا یار ڈرامے کیسے مجھے دکھ ھوتا ھے جب میری سچی بات سن کر بھی تم اسے جھوٹ سمجھتی ھو
تو صدف بولی یاسر مجھے ڈر لگتا ھے کہ کہیں تم مجھے دھوکا نہ دے دو
میں نے کہا اگر تمہیں ایسا لگتا ھے تو پھر آج کے بعد میں تمہیں شکل بھی نھی دیکھاوں گا
تو صدف نے آگے کو ہو کر میری دونوں کانوں پر ھاتھ رکھے اور میرے ہونٹ چوم کر بولی
یاسر تمہیں نھی پتہ تم مجھے کتنے پیارے لگتے ھو
میں نے اپنے دونوں ھاتھ اسکی کمر پر لیجاتے ھوے اسے پیچھے کی طرف لیٹانے لگا اور خود اسکے اوپر لیٹ گیا اور کچھ بولے بغیر ھی اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے تو صدف نے مجھے پیچھے دھکیلتے ھوے کہا
اوےےےےےے میرا بُرقعہ گندا ھوگیا
کیوں مجھے پھنسواے گا
میں بھی جلدی سے اسکے اوپر سے ہٹ گیا
اور صدف پھر اٹھ کر بیٹھ گئی
میں نے صدف کو کہا کہ برقعہ اتار دو
تو صدف بولی
یاسر اگر کوئی آگیا تو
تو میں نے کہا یار ادھر کوئی نھی آتا تم اس بات کی پرشانی نہ لو
اور ساتھ ھی میں نے صدف کے دونوں ھاتھ پکڑے اور اسے کھڑا کرنے لگ گیا تو صدف کھڑے ھوتے ھوے بولی
یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے کوئی آ نہ جاے
میں نے کہا یار مجھ پر بھروسہ رکھو مجھے اپنی اور تمہاری عزت کا خیال ھے
تو صدف بولی ایسے ھی کھڑے کھڑے کسنگ کرلیتے ہیں
تو میں نے اسی دوران نیچے جھک کر صدف کے برقعے کا پلا پکڑا اور اوپر اسکے پیٹ تک لے آیا اور بولا یار کچھ نھی ھوتا
اور پھر اسکے برقعے کو اسکے مموں تک کردیا مموں پر برقعہ پھنسا ھوا تھا اس لیے میں تھوڑا زور لگا برقعہ اوپر کرنے لگا تو صدف
بولی او ہو
کیا ھے میرا برقعہ پھاڑنا ھے
میں نے کہا اتنا تنگ پہنتی کیوں ھو
تو صدف بولی تنگ نہ پہنتی تو تم مجھے ایسے دیکھتے کیسے اور ہماری دوستی کیسے ھوتی
اور ساتھ ھی صدف نے پہلے دونوں ھاتھوں سے برقعہ اپنے مموں سے اوپر کیا اور اپنے بازو اوپر کر کے برقعہ اتارنے لگی
جیسے ھی صدف نے بازو اوپر کیے اور برقعہ اسکے منہ پر آیا تو میرے سامنے صدف کے تنے ھوے ممے مجھے گھورتے ھوے نظر آئے صدف کے ممے ویسے بھی بڑے تھے اور گولائی شیپ میں تھے کچھ صدف نے جب برقعہ اتارنے کے لیے بازو اوپر کیے تو اس کے ممے مذید آگے کی طرف آگئے
مجھ سے رھا نہ گیا
ابھی برقعہ صدف اپنے سر سے نکالنے میں مصروف تھی کہ میں نے اسکے دونوں مموں کو پکڑ کر پی پی پی پی کر کے بجایا اور ایسے ھی اسکو جپھی ڈال لی صدف نے برقعے سے سر نکالتے ھوے اپنے بالوں کو صحیح کرتے ھوے مجھے کہا
صبر نئی ہندا اصلوں ای بے صبرا ھو جانا اے میں کِتے پج چلی آں
تو میں نے اسکے ہونٹ چومتے ھوے کہا
میری جانو تمہارے دُدو دیکھ کر اور تمہارا سیکسی جسم دیکھ کر مجھے ہوش کہاں رھتا ھے
تو صدف بولی مسکے بڑے لانے آندے نے
میں نے کہا میرے پیار کو مسکے تو نہ کہو
اور میں نے اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے
اسکی چھاتیاں میرے سینے کے ساتھ لگ کر دبی ہوئی تھی اور میرے ھاتھ اسکی کمر
۔۔۔
پر تھدی
صدف نے بھی اپنے ھاتھ میرے کمر پر رکھ لیے تھے
اور نیچے سے میرا لن اسکی پھدی سے تھوڑا اوپر اسکی ناف سے تھوڑا نیچے لگا ہوا تھا
صدف بے شک عمر میں مجھ سے دو تین سال بڑی تھی مگر اسکا قد مجھ سے تھوڑا سا چھوٹا ھی تھا
اسکے ہونٹ چومت ھوے بھی مجھے تھوڑا سر جھکانا پڑا تھا
ہم کچھ دیر ایسے ھی ایک دوسرے کے ہونٹ چوستے رھے کبھی میں صدف کا اوپر والا ہونٹ چوستا تو صدف میرا نیچے والا ہونٹ چوستی کبھی میں اسکا نیچے والا ہونٹ چوستا تو وہ میرا اوپر والا ہونٹ چوستی
کبھی زبانوں کی لڑائی ھوتی تو کبھی سانسوں کے ایکے دوسرے کے اندر ٹرانسفر ھوتا
تو کبھی ایک دوسرے کے لباب کو نگھلتے
اسی دوران میں نے صدف کی پیچھے سے قمیض اوپر کر کے اسکی لاسٹک والی شلوار میں ھاتھ ڈال کر اسکی گول مٹول سڈول گانڈ کے چوتڑوں کو پکڑ کر مٹھیاں بھرنے لگ گیا
صدف کی گانڈ بہت ھی ملائم تھی
اور کافی گوشت چڑھا ھوا تھا
ساتھ ساتھ میں اپنی گانڈ کو دائیں بائیں ہلا ہلا کر لن اسکے جسم کے ساتھ رگڑ رھا تھا
صدف کا بھی یہ ھی حال تھا
وہ بھی ایڑیاں اٹھا کر لن کو پھدی کے ساتھ ملانے کی کوشش کررھی تھی میں بھی تھوڑا سا نیچے ھوا اور لن اور پھدی کا ملاپ کر دیا
اب میرے ہونٹ صدف کے ہونٹوں کو چوم اور چوس رھے تھے اور میرے سینے کے نپل صدف کی چھاتیوں کے نپلوں کو چوم رھے تھے
اور نیچے سے لن اور پھدی بھی بھرپور انداز میں مشاورت کررھے تھے
کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا
پھر ہم دونوں الگ ھوے اور صدف اپنے ہونٹوں کو مسلتی ھوئی بولی
میرے ساڑ پین لگ گیا اے
میں نے صدف سے پوچھا تمہارے پاس کوئی دوپٹہ یا چادر ھے تو اس نے کہا کیا کرنی ھے تو میں نے کہا بتاو تو سہی ھے کہ نھی
تو اس نے اپنے شولڈر بیگ کی طرف اشارہ کرتے ھوے کہا اس میں چادر پڑی ھے میں نے آگے بڑھ کر اسکے بیگ کی زپ کھولی تو اوپر ھی مجھے چادر نظر آگئی میں نے چادر نکالی جو کہ گرم شال تھی اسکو گھاس پر بچھا دیا
صدف آگے بڑھ کر چادر پکڑ کر اٹھانے لگی کہ میری چادر گندی کرنی ھے سارے گھاس کے داغ لگ جانے ہین
میں نے کہا یار اسکا رنگ
اسکا رنگ گہرہ ھے داغ نظر نھی آئیں گے تو صدف بولی پاگل میں نے اکیڈمی میں اوپر لینی ھوتی ھے تو میں نے کہا یار کل کون سا تم نے جانا ھے
کل دھو لینا
تو صدف چپ ھوگئی
میں نے چادر درست کر کے بیچھا دی اور صدف کو لے کر چادر کے اوپر بیٹھ گیا اور بیٹھتے ھی میں نے صدف کو سیدھا لٹا دیا اور اسکی قمیض پیٹ سے اوپر تک کردی تو
صدف بولی کیا کررھے ھو اگر کوئی اچانک آگیا تو مرواو گے تم
میں نے کہا یار ایک تو تم ڈرتی بہت ھو میں ہوں نہ تمہارے ساتھ
تو صدف چپ کر گئی میں نے اسکے پیٹ پر ھاتھ پھیرا اور ھاتھ کو نیچے اسکی کمر تک لے گیا اور ھاتھ سے اسکو تھوڑا اوپر ہونے کا کہا تو صدف نے گانڈ اٹھا کر کمر اوپر کو کی تو میں نے نیچے سے اسکی قمیض اوپر کردی اور پھر ھاتھ آگے لا کر آگے سے بھی اسکی قمیض اسکے مموں سے اوپر کردی
صدف نے سکن کلر کا بریزیر پہنا ھوا تھا
میں نے اسکے مموں کو بریزیر کے اوپر سے ھی مسلنا شروع کردیا
جوش میں آکر مجھ سے اسکا مما ذیادہ دبایا گیا تو
صدف نے زور سے سیییییییی کیا اور بولی جانور نہ بنو آرام سے کرو
میں نے ھاتھ نرم کر لیا اور پھر بریزیر کو نیچے سے پکڑ کر اوپر کردیا اور اسکے کھلتے ھوے ممے ایکدم میرے سامنے آے میں مموں پر ایسے جھپٹا جیسے بچہ بھوک کی حالت میں مموں کو منہ مارتا ھے
صدف میرے سر کے بالوں میں انگلیاں پھیر کر سسکیاں لینے لگ گئی
میں نے ایک ھاتھ اسکی شلوار میں ڈالدیا اور پھدی کو مسلنے لگ گیا صدف کا برا حال ھورھا تھا
صدف کی پھدی کافی گیلی ھوچکی تھی
میں نے دوسرے ھاتھ سے اپنی شلوار نیچے کی اور لن کو باھر نکال لیا
اور صدف کا ایک ھاتھ پکڑ کر اپنے ننگے لن پر رکھا
تو صدف پہلے ھی سیکس میں چُور چُور ھوئی تھی اس نے بھی بنا کچھ کہے لن کو پکڑ لیا اور مٹھیاں بھرنے لگی ساتھ ساتھ وہ میرے لن کے سائز کو بھی ناپ رھی تھی کبھی ٹوپے کو انگلیاں لگا کر اسکی موٹائی کو چیک کرتی کبھی لن کو جڑ سے پکڑتی اور پھر ٹوپے تک ھاتھ کو لا کر لمبائی چیک کرتی
میں صدف کی پھدی مسلنے کے ساتھ ساتھ اسکی شلوار بھی نیچے کردیتا یہاں تک کہ اسکی شلوار اسکے گھٹنوں سے نیچے کردی تھی اور میں نے اپنی شلوار بھی اپنے پیروں تک نیچے کردی تھی اور پھر اسی پوزیشن میں شلوار کو پاوں کے ساتھ ھی اتار دیا اور پھر اپنی قمیض اوپر گلے تک کی اور اپنے ننگے جسم کو صدف کے ننگے جسم کے ساتھ ٹچ کرنے لگ گیا
صدف ابھی تک لن کو ٹٹول رھی تھی جیسے اسے ابھی تک یقین ھی نھی ھوا ھو کہ یہ واقعی میرا ھی لن ھے
تو میں نے اپنی ایک ٹانگ صدف کی ٹانگوں کے درمیان کی اور پاوں کے ذریعے اسکی شلوار مزید نیچے کی طرف لے گیا اور اسکے پاوں سے اتار دی
۔۔۔۔
صدف اور میری قمیض ھی جسم پر تھی وہ بھی دونوں کے کندھوں تک تھیں
جبکہ ہم دونوں کا سینے سے پیروں تک کا جسم بلکل ننگا تھا
میں نے صدف کے ھاتھ میں پکڑے لن پر ھاتھ رکھ کر ہلاتے ھوے کہا اپنے اس شزادے کے ہونٹوں پر ایک کس تو کردو تو صدف نے میرے ھونٹوں پر کس کردی میں نے کہا اس شزادے کے نھی اس کے اور ساتھ ھی میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور لن ہلا کر اسکے منہ کی طرف کردیا تو صدف نے پریشان ھوکر کہا شرم کرو گندے کام مجھ سے کرواتے ھو
کیا ایسے بھی کوئی گندے کام کرتا ھے تو میں نے کہا
بس ایک چھوٹی سی کس کردو کچھ نھی ھوتا
اور لن صدف کے ہونٹوں کے بلکل قریب کردیا صدف نھی نھی میں سر ہلانے لگ گئ اور ہونٹوں کو مضبوطی سے آپس میں بھینچ لیا
میں مزید آگے کی طرف ھوا اور لن اسکے ہونٹوں پر رکھ کر اسے کہنے لگا
بس ایک چمی بس بس ایک
تو صدف نے آنکھیں بند کر کے کڑوی دوائی پیتے ھوے ایک چھوٹی سے چُمی لی اور دوسری طرف منہ کر کے تھوکنے لگ گئی
اور کہنے لگ گئی
گندے بےشرم گندے کام کرتے ھو
میں نے کہا تم کو مجھ سے پیار نھی ھے
پیار کیا ھوتا ھے اور کسکو پیار کہتے ہیں یہ میں تمہیں بتاتا ھوں
اور میں یہ کہتے ھی اسکی ٹانگوں کے پاس آیا اور اسکی دونوں ٹانگیں اوپر کی تو صدف گبھرا کر بولی کیا کرنے لگے ھو
تو میں نے کہا پیار کرنے لگا ہوں
تو صدف بولی کیڑا پیار اے جیڑا لتاں چُک کے کری دا
تو میں نے کہا بس دیکھتی جاو تو صدف نے اپنی پھدی پر ھاتھ رکھ کر ھاتھ کو دباتے ھوے کہا اندر کرنے لگے ھو
تو میں نے کہا نھی میری جان جب نے منع کردیا ھے کہ اندر نھی کرنا تو پھر بار بار کیوں مجھے کہہ رھی ھو تو
صدف بولی پھر کیا کرنے لگے ھو تو میں نے کہا یار ایک دفعہ ھاتھ تو ہٹاو
تو صدف نے ڈرتے ڈرتے ھاتھ پیچھے کرلیا
تو میں کھلتی کلی کو غور سے دیکھنے لگ گیا
صدف کی پھدی گیلی ھونے کی وجہ سے چمک رھی تھی
اور پھدی کے دونوں باریک سے ہونٹ آپس میں ملے ہوے تھے
اور ہونٹوں کی لمبائی بھی چھوٹی سی تھی
میں نے اپنا ہاتھ آگے کیا اور دو انگلیاں جوڑ کر پھدی کے ہونٹوں کو کھولا
تو گلابی ہونٹ تھوڑا سا کھلے اور اندر کی جلد ایسے سرخ نظر آئی جیسے سارا خون ادھر ھی جمع ھو
پھدی کے شروع کے حصے میں چھوٹی سی جھلی تھی شاید پیشاب کرنے کا سوراخ تھا
میں نے اس جھلی کو انگلی سے دبا کر مسلنا شروع کیا تو صدف ایک دم تڑپی اور میری کلائی کو مضبوطی سے پکڑ لیا
میں کچھ دیر چھوٹی سی جھلی کے ساتھ کھیلتا رھا
پھر میں نے پھدی کے قریب منہ کر سونگھا تو مجھے بدبو سی آئی اور ابھکائی سی آنے لگی میں نے تھوڑا سا اپنا منہ پیچھے کیا
کہ اچانک مجھے اپنا چیلنج یاد آگیا
کہ پیار کیا ہوتا ھے میں بتاتا ھون
تو میں نے سانس روک کر زبان باہر نکالی اور پھدی کے لبوں کے درمیان ایک چھوٹے سے ابھرے ھوے دانے کے اوپر رکھ کر زبان کو اوپر نیچے کر کے چاٹنا شروع کردیا
جیسے ھی میں نے یہ عمل کیا صدف
کے منہ سے آواز نکلی
ھاےےےےےےےےےے میییییں مرگئیییییییی
اور وہ یہ کہتے ھی ساتھ ھی اوپر کو اٹھی اور دونوں ھاتھوں سے میرے سر کو پیچھے کی طرف دھکیلا اس کے اس اچانکے دھکے سے ایک دفعہ تو میری زبان اسکی پھدی کے ہونٹون سے نکل گءی مگر میں نے اسکی ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھی اور اسکے بازوں کو مضبوطی سے پکڑ کے زمین کے ساتھ لگا دیا اور
پھر سے پھدی کے لبوں میں زبان پھیرنے لگ گیا
۔۔صدف ذور ذور سے سر دائیں بائیں مار رھی تھی اور اپنا آپ مجھ سے چھڑوانے کی کوشش کررھی تھی مگر میں نے اسکو قابو ھی ایسے کیا ھوا تھا کہ میرے شکنجے سے نکل ھی نھی سکتی تھی
صدف ساتھ سسکیاں اور اففففففف یاسرررررررر نہ کرو میں مرجاوں گی
ھاےےےےے یاسر میری جان نکل رھی ھے
یاسرررررر پلیززززززز نہ کرو ھاےےےےےے امممممممم اففففففف
صدف کی سسکیاں اور آہیں سن کر مجھے اور جوش چڑھ رھا تھا
اور میں زور زور سے پھدی کو لِک کر رھا تھا کہ اچانک صدف کی سسکیاں اور آہیں تیز ھوگئی اور اس نے بُنڈ اوپر کر کے پُھدی کو میرے منہ کے ساتھ مزید جوڑ کر اوپر کو گھسے مارنے شروع کردیا اور دونوں ھاتھ سے چادر کو مٹھی میں بھر لیا
اچانک صدف نے اپنی ٹانگیں بلکل سیدھی آسمان کی طرف کر کے اکڑا لیں
اور پھر وہ ھوا جسکی وجہ سے عظمی کو الٹیاں آئی تھی
صدف کی پھدی سے ایک لمبی سی پھوار نکلی
اور صدف نے زور سے ھاےےےےےےےےے میں گئیییییییی اور اسکی پھدی سے نکلنے والی پھوار میرے منہ پر میرے ناک پر میری آنکھوں پر پڑی اس سے پہلے کے دوسری پھوار بھی میرے منہ پر پڑتی میں پیچھے کو ہٹ کر منہ کے آگے ہاتھ رکھ لیا
اور باقی کی تین چار منی اور پانی کی پھواریں میرے ھاتھ پر گری
اور ساتھ ھی صدف کی پھدی کے ہونٹ کھلتے بند ھوتے مجھے گالیاں دیتے نظر آے
اور صدف بےجان ھوکر جسم ڈھیلا چھوڑ کر لیٹی لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی
کچھ دیر بعد صدف کچھ سنبھلی تو میں اسکی ٹانگوں کے درمیان اسکے اوپر لیٹ کر اپنا منہ اسکے منہ کے قریب کیا تو اچانک اس نے میرے دونوں کانوں کو اپنی مٹھیوں میں بھینچ کر ذور سے میرے سر کو ہلاتے ھوے کہا
میں تیری جان کڈ لینی اے
تو میں نے مسکرا کر کہا
دیکھ لیا میرے پیار کا ثبوت اسے کہتے ہیں پیار تو صدف نے ویسے ھی میرے کان پکڑے میرا منہ اپنے منہ کے قریب کیا اور ایک لمبی سی فرنچ کس کی اور بولی
آئی لو یو
یاسر میں تیری ھوں میرا سب کچھ تیرا ھے
یہ جسم بھی تیرا ھے یہ جان بھی تیری ھے
جیسے چاھے کر میں تجھے کبھی نھی روکوں گی
میں نے یہ سن کر کہا
اندر کردوں
تو صدف بڑی بہادری کا مظاہرہ کرتے ھوے بولی کردو
میں نے کہا سیل ٹوٹ جاے گی
صدف بولی ٹوٹنے دو
میں نے کہا عزت چلی جاے گی
تو صدف بولی جانے دو
میں نے کہا کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نھی رھو گی
تو صدف بولی نھی پروا
میں نے کہا برباد ہو جاو گی
تو صدف بولی
ہونے دو
صدف ایسے بول رھی تھی جیسے اس پر جادو کیا ھو اور وہ سحر میں جکڑے ہر بات کا پوزٹیو جواب دے رھی ھو
میں ساتھ ساتھ اس سے باتیں کر رھا تھا اور ساتھ ساتھ اسکی ٹانگوں کو مزید کھول کر اپنے لن کے پھولے ھوے ترسے ھوے پیاسے ٹوپے کو اسکی چوت کے لبوں میں سیٹ کرچکا تھا
اب پوزیشن یہ تھی کہ بس مجھے ایک دھکا لگانا تھا
میں نے صدف سے پھر کہا سوچ لو
تو وہ اسی نشیلے انداز میں بولی سوچ لیا
میں نے کہا پھر مجھے مت کہنا
تو صدف بےساختہ بولی نھی کہتی
میں نے اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں کے مزید قریب کیے
اور کہا تیار ھو
تو اس نے کہا تیار ھوں
میں نے اسکے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر اسکا منہ بند کیا اور اپنے دونوں ھاتھ اسکے کندھوں پر رکھ کر کندھوں کو مضبوطی سے پکڑا
اور ایک زور دار گھسا مارا صدف کی پھدی گیلی تھی میرا لن خشک تھا
گھسا اتنا جاندار تھا کہ پھدی کو چیرتا ھوا ساری رکاوٹوں کو ہٹاتا ھوا سارے کا سارا اندر چلا گیا صدف
میرے نیچے سے ایسے تڑپی جیسے مرغی کو چھری پھیر کر ٹھنڈا ھونے کے لیے چھوڑ دیا ھو
صدف نے پورے زور سے چیخ ماری تھی
مگر اسکی چیخ میرے منہ کے اندر ھی گونج کر خاموش ھوگئی صدف ایک دم اوپر کو اچھلی مگر اسکے کندھے میرے ھاتھوں میں تھے اس نے پھدی اوپر نیچے آگے پیچھے کرنے کی پوری کوشش کی مگر میرا سارا وزن اسکے پھدی والے حصہ پر تھا
صدف کی آنکھون سے آنسووں کی جھڑی لگ گئی جو اس کی بند آنکھوں سے بہہ رھی تھی
میں گھسا مار کر اسکے اوپر لن اندر کیے ھی لیٹا رھا
صدف تین چار منٹ تک مجھے پیچھے کرنے کی کوشش کرتی رھی اور میں اسے دلاسا دیتا رھا
کچھ دیر بعد صدف کچھ ریلکس ھوگئی
میں نے اب اسکے کندھے چھوڑ دیے تھے اور اسکے بالوں میں انگلیاں پھیر رھا تھا اسکے آنسو صاف کر رھا تھا
صدف کچھ بول نھی رھی تھی بس روے
جارھی تھی مجھے ایسے لگ رھا تھا کہ میرا لن کسی گرم بھٹی میں ھے اور اسکی پھدی نے میرے لن کو اپنے شکنجے میں جکڑا ھوا ھے
میں اس سے باتیں کر رھا تھا مگر وہ گم سم سی بس روے جارھی تھی اسکی یہ حالت دیکھ کر میرا بھی دل بھر آیا میں ایک جھٹکے سے اس سے الگ ھوا اور لن باہر ایک جھٹکے سے باہر آیا تو صدف نے پھر زور سے چیخ ماری مجھے اس کا دھیان ھی نھی تھا کہ لن نکالتے ھوے بھی درد ھوگا
اس لیے اسکی چیخ لازمی آس پاس تک گئی تھی
۔۔۔
میرا تو ایکدم رنگ،اڑ گیا
میں نے اپنے لن کی طرف دیکھا تو لن خون کے ساتھ لت پت تھا اور اسکی پھدی سے کافی خون نکل کر نیچے چادر میں سمو گیا تھا، اسکی پھدی سے اب بھی سرخ پانی سا نکل رھا تھا
مجھے تو یہ ٹینشن پڑ گئی تھی کہ اگر کسی نے صدف کی چیخ سنی ھوگی تو لازمی ادھر آے گا
مگر صدف اس سب سے لاعلم ھوکر نیم بے ہوشی کی سی حالت میں مجھے دیکھی جارہی تھی اور اسکی آنکھوں سے آنسو اب بھی جاری تھے
مجھے تو سمجھ نھی آرھی تھی کہ میں اب کیا کروں
کہ اچانک؟؟؟؟؟؟
میری یہ سٹوری ھے ان دنوں کی
جب مکاں کچے اور لوگ سچے ہوا کرتے تھے
جب گاوں کے اٹھارہ سال تک کے لڑکے اور لڑکیاں سیکس نام کی کسی چیز کے واقف نھی ھوتے تھے
اسی لیے سب ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک چلے جاتے تھے میری عمر اس تقریباً 14 /15سال کے لگ بھگ ھوگی ہمارے گاوں میں صرف ایک ھی پرائمری سکول تھا جس میں صرف دو کمرے ھوتے تھے اور اس سکول میں دو ماسٹر جی پڑھاتے تھے ایک ماسٹر جی تقریباً چالیس سال کا تھا جس کا نام جمال دین تھا اور ایک ماسٹر صفدر صاحب تھے جو تقریباً اٹھائیس تیس سال کے لگ بھگ ھوں گے جو شہر سے پڑھانے آتے تھے سکول میں ایک کلاس میں پہلی سے تیسری کلاس کے بچے پڑھتے تھے اور دوسری کلاس میں چوتھی اور پانچویں کلاس کے بچے پڑھتے تھے
میں اس وقت چوتھی کلاس میں اچھے نمبروں سے پاس ھوا تھا اور میرے ابو جان مجھے شہر کے سکول میں داخل کروانے کے بارے میں امی جان سے بحث کررھے تھے
شہر کہ سکول کا سن کر میرے تو پاوں زمین پر نھی لگ رھے تھے
اور دل میں طرح طرح کے لڈو پھوٹ رھے تھے بڑی بڑی عمارتیں بڑی بڑی گاڑیوں اور شہر کی رونق کے خیالوں میں ڈوبا میں امی جان اور ابو جان کے بحث مباحثہ کو سن رھا تھا
امی جان میرے شہر جانے سے منع کررھی تھی کہ ابھی یاسر بچہ ھے چھوٹا ھے ناسمجھ ھے کیسے شہر جاے گا امی ابو طرح طرح کی دلیلیں دے کر منع کررھی تھی کہ یاسر کو ایک سال اور پڑھنے دو پھر کچھ سمجھدار ھو جاے گا تو چلا جاے گا آخر کار کافی دیر کی بحث مباحثے کے بعد جیت امی جان کی ھوئی
میں نے جب اپنے ارمانوں پر پانی پھرتے دیکھا تو رونے والا منہ بنا کر باہر نکل کر آنٹی فوزیہ کے گھر کی طرف چل پڑا جو ہماری ھی گلی میں رہتی تھی انکا گھر ھمارے گھر سے پانچ چھ گھر چھوڑ کر آتا تھا
میں آنٹی فوزیہ کے گھر داخل ھوا اور اونچی آواز میں سلام کیا آنٹی فوزیہ
بہت ھی نرم دل اور پیار کرنے والی خاتون تھی انکا قد پانچ فٹ چھ انچ اور چھاتی چھتیس انچ کی اور پیٹ بلکل اندر کی طرف تھا اور ہلکی سی گانڈ باہر کو نکلی ھوئی تھی
رنگ انکا سفید تھا
دوستو یہ سب مجھے اس وقت نھی پتہ تھا بلکہ بعد میں پتہ چلا آپکو پہلے بتانا ضروری سمجھا اس لیے بتا دیا،،
میں نے آنٹی فوزیہ کو دیکھا جو صحن میں لگے بیری کے درخت کے نیچے چارپائی پر بیٹھی سبزی بنا رھی تھی
میں چلتا ھوا آنٹی فوزیہ کے پاس پہنچ گیا آنٹی فوزیہ نے مجھے دیکھ کر میرے سر پر پیار دیا اور کہا آگیا میرا شزادہ لگتا ھے آج گھر سے مار پڑی ھے میں منہ لٹکاے آنٹی فوزیہ کے پاس بیٹھ گیا
آنٹی فوزیہ بولی کیا ھوا ایسے کیوں رونے والا منہ بنا رکھا ھے میں نے آنٹی فوزیہ کو ساری روداد سنا دی
آنٹی فوزیہ نے مجھے اپنے کندھے کے ساتھ لگا لیا اور مجھے پیار سے سمجھانے لگ گئی کہ دیکھ پُتر تیری امی کو تجھ سے پیار ھے تو ھی تجھے شہر جانے سے روک رھی ھے اور تم لوگوں کے حلات بھی ابھی ایسے ہیں کہ شہر جانے کے لیے ٹانگے کا کرایہ نھی دے سکتے
میں نے آنٹی کی بات کاٹتے ھوے کہا وہ گاما تانگے والا بچوں کو شہر لے کر تو جاتا ھے تو آنٹی فوزیہ بولی
دیکھ پُتر وہ زمینداروں کے بچے ہیں وہ لوگ تانگے کا کرایہ دے سکتے ہیں تم ایک سال اور پڑھ لو پھر پھر عظمی اور نسرین
(آنٹی فوزیہ کی بیٹیاں)
بھی شہر جانے لگ جائیں گی تو تم بھی اپنی بہنوں کے ساتھ پیدل ہی نمبرداروں کی زمین کے بنے بنے نہر کی طرف سے چلے جایا کرنا ابھی دل لگا کر پڑھو میں جیسے تمہارے امی ابو کہتے ہیں انکی بات مانو میں نے اچھے بچوں کی طرح ہاں میں سر ہلایا تو آنٹی فوزیہ نے پیار سے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنے ساتھ لگا لیا اور شاباش دیتے ھوے بولی یہ ھوئی نہ بات،،
میں نے آنٹی فوزیہ سے پوچھا کہ عظمی کدھر ھے تو آنٹی بولی وہ کمرے میں موڈ بنا کر بیٹھی ھے نسرین تو ٹیوشن چلی گئی ھے مگر یہ ایسی ضدی لڑکی ھے کہ میرا کہنا ھی نھی مانتی میں یہ سن کر انٹی کے پاس سے اٹھا اور عظمی کے پاس چلا گیا میں نے دیکھا کہ عظمی سر جھکائے کرسی پر بیٹھی ھوئی ھے،
میں نے جاتے ھی عظمی کو چھیڑنے لگ گیا
کہ چنگی مار پئی اے نہ آ ھا آھا
تو عظمی نے جوتا اٹھایا اور میرے پیچھے بھاگ پڑی میں آگے آگے بھاگتا کمرے سے باہر آگیا اور آنٹی کے پاس آکر رک گیا آنٹی فوزیہ نے عظمی کو ڈانٹا کہ کیوں میرے شزادے کو مار رھی ھو تو عظمی بولی
تواڈا شزادہ ھوے گا میرے ناں سر چڑیا کرے آیا وڈا شزادہ بوتھی ویکھی شزادے دی
میں نے بھی عظمی کو منہ چڑھا دیا عظمی
زمین پر پاوں پٹختی واپس کمرے میں چلی گئی
دوستو
آنٹی فوزیہ کی بس دو ھی بیٹیاں تھی وہ بھی جڑواں اس کے بعد ان کے ہاں اولاد نھی ھوئی انکا کوئی بیٹا نھی تھا اس لیے مجھے وہ اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتی تھی میرا بھی ذیادہ وقت انکے ھی گھر گزرتا تھا اور انکے گھر یا باہر کے کام سودا سلف وغیرہ میں ھی لا کر دیتا تھا ویسے تو میں اپنے گھر میں نعاب تھا وہ اس لیے کہ میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے گھر کا لاڈلا بھی تھا
باقی بہن بھائی سب مجھ سے بڑے تھے
عظمی اور نسرین میری ہم عمر ھی تھی نسرین کی نسبت عظمی ذیادہ خوبصورت تھی نسرین بھی کم خوبصورت نھی تھی مگر عظمی کا رنگ نسرین کی نسبت ذیادہ سفید تھا اور جسمانی طور پر بھی عظمی نسرین سے ذیادہ سیکسی تھی عظمی کا قد تقریباً میرے ھی جتنا پانچ فٹ تھا مگر ہم ساتھ کھڑے ھوتے تھے تو عظمی مجھ سے چھوٹی ھی لگتی تھی ویسے عظمی صحت کے معاملے میں مجھ سے ذیادہ صحت مند تھی عظمی کا رنگ کافی سفید تھا جیسے کشمیری ھو اور جسم بھی بھرا بھرا تھا پندرہ سال کی ھی عمر میں اسکے ممے چھوٹے سائز کے مالٹے جتنے تھے اور پیچھے سے بُنڈ بھی کافی باھر کو نکلی ھوئی تھی میں اکثر اسے موٹو کہہ کر بھی چھیڑ لیتا تھا
جبکہ نسرین دبلی پتلی سی تھی اسکے بھی چھوٹے چھوٹے ممے تھے مگر عظمی سے کم ھی تھے
میں دوبارا عظمی کے کمرے میں گیا اور عظمی کو منانے لگ گیا کافی کوشش کے بعد آخر کار میں اسے منانے میں کامیاب ھوگیا میں اور عظمی آنٹی فوزیہ کو کھیلنے کا کہہ کر باھر گلی میں آگئے آنٹی فوزیہ نے پیچھے سے آواز دی کہ جلدی آ جانا ذیادہ دور مت جانا
ہم نے آنٹی فوزیہ کی بات سنی ان سنی کی اور گلی میں نکل کر کھیت کی طرف چل پڑے
دوستو ھماری گلی کی نکڑ پر سڑک تھی اور سڑک کی دوسری طرف کھیت شروع ھوجاتے تھے سڑک کے ساتھ والا کھیت خالی ھوتا تھا اس میں کوئی فصل نھی ھوتی تھی جبکہ اس کھیت کے آگے والے کھیتوں میں فصل کاشت کی جاتی تھی اور اس وقت کپاس کی فصل کا موسم تھا اور کپاس کے پودے اس وقت تقریباً پانچ فٹ تک ھوتے تھے اور کپاس کی فصل کے آگے والے کھیت جو نہر کے قریب تھے ان میں مکئی کی فصل کاشت کی ھوئی تھی اور جو دوست گاوں کے رھنے والے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مکئی کے پودے چھ سات بلکل آٹھ فٹ تک اونچے ھوتے ہیں اور ان کھیتوں کے درمیان ایک پگڈنڈی جسے ہم بنا کہتے تھے وہ کپاس اور مکئی کے کھیتوں کے بیچوں بیچ نہر کی طرف جاتی تھی اور نہر پر چھوٹا سا لکڑی کا پل تھا جسکو کراس کر کے لوگ یا سکول کے بچے شہر کی طرف جاتے تھے ھمارے گاوں اور شہر کا فاصلہ تقریباً دو کلو میٹر تھا
خیر ہم دونوں نے سڑک کراس کی اور کھیت میں چلے گئے جہاں پہلے ھی کافی سارے ہمارے ہم عمر لڑکے اور لڑکیاں کھیل رھے تھے جن کی عمر دس سے پندرہ سال ھی تھی کچھ ہماری گلی کے کچھ ادھر ادھر کی گلیوں کے تھے
دوستو،،
ہمارا پسندیدہ کھیل لُکن میٹی سٹیپو باندر کِلا وانجو پکڑن پکڑائی ھوتا تھ
جب ہم کھیت میں پہنچے تو سب بچے ہاتھوں پر ہاتھ مار کر چُھپن چھپاٰئی کی باریاں لے رھے تھے ہمیں آتا دیکھ کر ہماری گلی کا ھی ایک لڑکا زاہد جو ہمارا سب سے اچھا دوست تھا وہ غصے سے بولا
آگئی ہنساں دی جوڑی اینی دیر کردتی یار
میں نے کہا یار ایس میڈم نے دیر کرادتی رُس کے بیٹھی تھی نواب زادی
تو میں اور عظمی نے بھی اپنی اپنی باری پُگی اور تین بچوں کی باری آگئی جنہوں نے باقی بچوں کو ڈھونڈنا تھا
ہم سب چُھپنے کے لیے کپاس کی فصل کی طرف بھاگے سب بچے علیحدہ علیحدہ اپنی اپنی جگہ پر چھُپ گئے جبکہ میں اور عظمی کپاس کی فصل میں سے ھوتے ھوے کافی آگے کی طرف نکل آے تو عظمی بولی یاسر بس ادھر ھی چھپ جاتے ہیں میں نے سنا ھے کہ مکئی میں اوندے سور آے ھوے ہیں
دوستو ان دنوں ہمارے گاوں میں افواہ پھیلی ھوئی تھی کہ نہر کے پاس کھیتوں میں سور آے ھوے ہیں اس لیے ھو بھی ادھر جاے احتیاط سے جاے،
مگر ہماری عمر ڈرنے کی کہاں تھی بس سکول سے آتے ھی کھیل کھیل بس کھیل نہ کھانے کی فکر نہ پینے کی نہ گرمی نہ سردی کی فکر
میں نے عظمی کو تسلی دی کہ کچھ نھی ہوتا یار
پنڈ والے ایویں چولاں ماردے نے کہ کوئی چھلیاں نہ توڑے
عظمی بولی نئی یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے
تو ہم ایسے ھی باتیں کرتے کرتے کپاس کی فصل کے آخر میں پہنچ گئے جہاں ایک پانی کا کھالا تھا جسکو کراس کر کے دوسری طرف مکئی کی فصل شروع ھوجاتی تھی
کھالے کے ساتھ ساتھ کافی بڑے بڑے مختلف قسم کے درخت تھے
میں نے عظمی کو کہا چلو ہم درختوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں یہاں سے ہمیں وہ ڈھونڈ نھی سکیں گے میں نے چھلانگ لگا کر کھالا کراس کیا اور پھر عظمی نے بھی ڈرتے ڈرتے چھلانگ لگائی اور میں اسکی ھی طرف منہ کر کے کھڑا تھا عظمی نے جب چھلانگ لگائی تو سیدھی آکر میرے سینے سے ٹکرائی میں نے اسکو بانھوں میں بھر کر سنبھال لیا ایسا کرنے سے اس کے ممے میرے سینے میں پیوست ھوگئے
ہمارے ذہن اس وقت سیکس سے بلکل پاک ھوتے تھے اس لیے کبھی بھی ذہن میں کوئی گندا خیال نھی آیا تھا میں اکثر کبھی کبھی عظمی کو جپھی ڈال کر اوپر کی طرف اٹھا کر گھمانے لگ جاتا تھا اور اس کا وزن ذیادہ ھونے کی وجہ سے کبھی کبھار ایک دوسرے کے اوپر گر بھی جاتے تھے ۔۔۔
عظمی جب مجھ سے ٹکرائی تو میں نے اسے سنبھال کر ٹالی کے درخت کے پیچھے لے آیا
اور عظمی میرے آگے کھڑی ھوگئی اور میں عظمی کے پیچھے اسکی بُنڈ کے ساتھ لگ کر کھڑا ھوگیا اور دونوں آگے پیچھے اپنے سروں کو نکال کر سامنے بنے کی طرف دیکھنے لگ گئے میرا لن جو اس وقت کوئی چار ساڑے چار انچ کا ھوگا جو سویا ھوا عظمی کی بُنڈ کے دراڑ کے اوپر بلکل ساتھ چپکا ھوا تھا اور ہم ڈھونڈنے والوں کا انتظار کرنے لگ گئے کہ اچانک عظمی نے؟؟؟؟؟
چانک عظمی نے گبھرائی ہوئی آواز میں کہا یاسر مجھے لگ رھا ھے جیسے مکئی میں کوئی ھے چلو ادھر سے میں پیچھے سے عظمی کے ساتھ بلکل چپکا ھوا تھا یہ بات نھی تھی کہ مجھے سیکس والا مزہ آرھا تھا بس ویسے ھی مجھے عظمی کی نرم نرم گانڈ کے ساتھ. چپک کر کھڑے ھونا اچھا لگ رھا تھا میں نے عظمی کو کہا کوئی بھی نھی ھے یار ایک تو تم ڈرپوک بہت ھو عظمی کچھ دیر اور کھڑی رھی پھر اس نے مجھے پیچھے کیا اور جلدی سے کھالے پر سے چھلانگ لگا کر دوسری طرف چلی گئی اور مجھے کہنے لگی تم کھڑے رھو میں تو جارھی ھوں میں بھی چارو ناچار اسکے پیچھے ھی کھالا پھیلانگ چل پڑا تب ہمیں بچوں کی آوازیں بھی سنائی دینے لگ گئی کی انہوں نے کسی بچے کو ڈھونڈ لیا تھا اس لیے خوشی میں شور مچارھے تھے ہم دونوں بھی اتنی دیر میں ان بچوں کے پاس جا پہنچے پھر کچھ دیر ہم نے ادھر کی پکڑن پکڑائی کھیلتے رھے اور پھر شام ھونے لگی تو ہم اپنے اپنے گھروں کی طرف چل دیے
ایسے ہی وقت گزرتا رھا سکول سے گھر اور گھر سے کھیل کود
ایک دن ہم سکول میں اپنی کلاس میں بیٹھے تھے کلاس کیا تھی نیچے ٹاٹ بچھے ھوتے تھے جدھر جدھر چھاوں جاتی ادھر ادھر ہماری کلاس گھیسیاں کرتی کرتی جاتی ہمارے ٹیچر سر صفدر صاحب تھے جو کہ شاید ابھی تک کنوارے ھی تھے اور شہری بابو ھونے کی وجہ سے کافی بن ٹھن کر رھتے تھے
ہماری کلاس میں ایک لڑکا صغیر پڑھتا تھا اسکی امی آنٹی فرحت سکول آئی اور ماسٹر جی کو سلام کیا تب ماسٹر جی نے مجھے آواز دی کی یاسر جاو کمرے سے کرسی لے کر آو میں بھاگا بھاگا گیا اور کمرے سے ایک کرسی اٹھا کر لے آیا جس پر آنٹی فرحت بیٹھ گئی
دوستو آنٹی فرحت کا تعارف کرواتا چلوں،،
آنٹی فرحت کا خاوند ایک حادثے میں فوت ھوگیا تھا اور انکا ایک ھی بیٹا تھا انکے شوہر کی وفات کے بعد آنٹی فرحت کی امی انکو اپنے پاس ہمارے گاوں ھی لے آئی تھی
آنٹی فرحت کافی شریف اور پردہ دار عورت تھی انہوں نے بڑی سی چادر سے اپنا آپ ڈھانپ رکھا تھا اور چادر سے ھی چہرے پر نقاب کیا ھوا تھا نقاب سے ان کی بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں ھی نظر آرھی تھی اور انکی آنکھیں ھی انکے باقی حسن کی تعریف کے لیے کافی تھی جس کی آنکھیں ھی ایسی ھوں کہ جو بھی انکو دیکھے تو بس اس جھیل میں ایسا ڈوبے کہ کسی اور چیز کا اسے ھوش نہ رھے
انٹی فرحت کا قد پانچ فٹ سات انچ تھا اور باقی کا فگر آگے چل کر بتاوں گا
انٹی فرحت آہستہ آہستہ ماسٹر جی سے پتہ نھی کیا باتیں کررھی تھی میں نے غور کیا کہ ماسٹر جی آنٹی فرحت کے ساتھ کافی فری ھونے کی کوشش کررہے ہیں اور ان سے بات کرتے ھوے اپنے منہ کے بڑے سٹائل بنا رھے ہیں تب ماسٹر جی نے صغیر کو آواز دی کے اپنا دستہ لے کر آے صغیر سر جھکائے اپنا دستہ لیے ماسٹر جی اور انٹی فرحت کے پاس جا پہنچا ماسٹر جی نے دستہ کھولا اور کچھ ورق پلٹنے کے بعد دستہ انٹی فرحت کی طرف بڑھا دیا آنٹی فرحت نے دستہ دیکھا اور پھر شرمندہ سی ھوکر اپنے بیٹے کو گھورنے لگ گئی تب ماسٹر جی نے مجھے آواز دی کہ یاسر ادھر آو میں ذرہ آفس میں جا رھا ھوں تم کلاس کا دھیان رکھو کوئی بچہ شرارت نہ کرے،،
دوستو میں کلاس میں سب سے لائق تھا اور میرا قد بھی تقریباً سب بچوں سے بڑھا تھا اس لیے میں کلاس میں سب سے آگے بیٹھتا تھا اور ماسٹر جی نے مجھے کلاس کا مانیٹر بھی بنا رکھا تھا اور میرے ساتھ عظمی بیٹھی ھوتی تھی ماسٹر جی مجھے سمجھا کر اٹھے اور آنٹی فرحت اور انکے بیٹے کو کمرے میں بنے آفس کی طرف آنے کا کہا اور خود آفس کی طرف چل پڑے اور انکے جاتے ھی انٹی فرحت کرسی سے اٹھی تو پیچھے سے چادر سمیت قمیض انکی گانڈ میں پھنسی ھوئی تھی جسکو انہوں نے بڑی ادا سے باہر نکالا اور اپنے بیٹے کا ھاتھ پکڑ کر ماسٹر جی کے پیچھے پیچھے چل پڑی
اور میں کلاس کی طرف منہ کرکے کھڑا ھوگیا اب میرا منہ کمروں کی طرف تھا جب کہ ساری کلاس کی پیٹھ کمروں کی طرف تھی کلاس کمروں کی مخلاف سمت بیٹھتی تھی
کچھ ھی دیر بعد مجھے صغیر کمرے سے نکلتا ھوا نظر آیا اور آکر میرے پاس سے گزرنے لگا تو میں نے اسے پوچھا سنا خوب کلاس لگی ماسٹر جی اور آنٹی جی سے تو شرمندہ سا ھوکر جا کر کلاس میں بیٹھ گیا تقریباً دس پندرہ منٹ کے بعد مجھے پیشاب آگیا میں نے عظمی کو اپنی جگہ کھڑا کیا اور کمروں کے پیچھے بنے ھوے صرف نام کے واش روم کی طرف چل پڑا
دوستو سکول میں دو ھی کمرے تھے ایک کمرے کو تو جب سے میں نے دیکھا تالا ھی لگا ھوا تھا جبکہ دوسرے آدھے کمرے میں پہلے آفس بنا ھوا تھا جس میں ایک میز اور دو تین کرسیاں پڑی تھی جب کے کمرے کے دوسرے حصے میں ایک الماری لگا کر پارٹیشن کی گئی تھی اور اس کے پیچھے. دو چارپایاں پڑی تھی جن پر اکثر ماسٹر جی آرام کرنے کے لیے لیٹ جاتے تھے اور الماری کے سائڈ سے ایک تین فٹ کی جگہ رکھی تھی جس کے اگے دیوار اور
جس کے آگے دیوار اور الماری میں کیل ٹھونک کر رسی کے ساتھ پردہ لٹکایا ھوا تھا
میں پیشاب کر کے واپس جانے کے لیے کمرے کے پیچھے بنی ہوئی کھڑکی کے پاس سے گزرنے لگا تو مجھے آنٹی فرحت کی آواز سنائی دی جو ماسٹر جی کو کہہ رھی تھی
کہ ماسٹر جی نہ کرو تمہیں **** کا واسطہ مجھے جانے دو میں ایسی نھی ھوں مگر ماسٹر جی اسے تسلیاں دے رھے تھے کہ کچھ نھی ھوتا بس دو منٹ کی بات ھے کسی کو پتہ نھی چلے گا
پھر آنٹی فرحت کی آواز آئی کہ نھی ماسٹر جی مجھے جانے دو کسی نے دیکھ لیا تو میری پورے گاوں میں بدنامی ھوجاے گی
میں نے جلدی سے کھڑکی میں جھانکنے کے لیے اوپر کی طرف جمپ لگایا مگر کھڑکی میرے قد سے اونچی تھی اس لیے میں اندر دیکھنے میں ناکام رھا،
اچانک آنٹی فرحت کی چیخ سنائی دی میں چیخ سن کر گبھرا گیا اور جلدی سے دبے پاوں کمرے کے دروازے کی طرف دوڑا میں نے دروازے کو آہستہ سے کھولا کیوں کہ مجھے یہ کنفرم ھوگیا تھا کہ ماسٹر جی دفتر والے حصہ میں نھی ہیں بلکہ دفتر کے پچھلے حصہ میں آنٹی فرحت کو لے گئے ہیں
مگر پھر بھی میں نے ڈرتے ڈرتے بڑی احتیاط سے دروازہ کھول کر اندر جھانکا تو میرا خیال بلکل درست نکلا دفتر واقعی ھی خالی تھا
میں آہستہ سے دبے پاوں پنجوں پر چلتا ھوا کمرے میں داخل ھوا اور آہستہ سے دروازہ بند کر دیا اور پردے کے پاس جا پہنچا
میں نے جب تھوڑا سا پردہ ھٹا کر اندر جھانکا تو میرے تو پاوں تلے سے زمیں نکل گئی اندر کا منظر ھی میری سوچ کے برعکس تھا
اندر کا سین دیکھ کر تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے میں تو یہ سوچ کر اندر آیا تھا کہ پتہ نھی ماسٹر جی اور فرحت آنٹی کی لڑائی ھو رھی اور ماسٹر جی نے فرحت آنٹی کو مارا ھے جس وجہ سے فرحت آنٹی کی چیخ نکلی تھی
مگر یہاں تو ساری فلم ھی الٹ تھی
میں آنکھیں پھاڑے اندر دیکھنے لگ گیا کہ ماسٹر جی نے فرحت آنٹی کو جپھی ڈالی ھوئی تھی اور ماسٹر جی فرحت آنٹی کے ہونٹوں میں ہونٹ ڈال کر چوس رھے تھے اور آنٹی فرحت کی آگے سے قمیض اوپر تھی اور انکے دونوں بڑے بڑے گول مٹول چٹے سفید چھتیس سائز کے ممے بریزئیر سے آزاد تھے اور ماسٹر جی کا ایک ھاتھ آنٹی فرحت کے ایک مُمے پر تھا اور دوسرا ھاتھ آنٹی فرحت کی بُنڈ پر رکھ کر اوپر نیچے پھیر رھے تھے ۔
انٹی فرحت کو بھی شاید مزہ آرھا تھا کیوں کہ آنٹی فرحت نے اپنا ایک ہاتھ ماسٹر جی کی گردن پر رکھا ھوا تھا اور اپنی انگلیوں کو انکی گردن کے گرد پھیرتی کبھی اوپر سر کہ بالوں پر لے جاتی
دوستو میں نے زندگی میں پہلی دفعہ کسی عورت کو ننگا دیکھا تھا اور وہ بھی اس عورت کو جس کے بارے میں میں سوچ بھی نھی سکتا کہ یہ بھی ایسی گندی حرکت کرسکتی ھے اور وہ بھی کسی غیر مرد کے ساتھ اس حال میں میرا تو دیکھ کر برا حال ھورھا تھا ماتھے پر پسینہ اور نیچے سے میری ٹانگیں کانپ رھی تھی
ادھر ماسٹر جی اور آنٹی فرحت دنیا سے بے خبر اپنی مستی میں گم تھے
ماسٹر جی مسلسل آنٹی فرحت کے ہونٹ چوس رھے تھے پھر ماسٹر جی نے آنٹی فرحت کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ علیحدہ کیے تو میں نے دیکھا کہ آنٹی فرحت کی آنکھیں بند تھی اور وہ کسی سرور میں کھوئی ھوئی تھی اور منہ چھت کی طرف تھا اب ماسٹر جی نے آنٹی فرحت کی گالوں کو چومنا شروع کردیا ماسٹر جی کبھی آنٹی فرحت کے گالوں کو چومتے کبھی زبان پھیرتے تو کبھی ان کے گال کو منہ میں بھر کر چوسنے لگ جاتے
آنٹی فرحت کا رنگ تو پہلے ھی چٹا سفید تھا اب بلکل ٹماٹر کی طرح سرخ ھوچکا تھا
ماسٹر جی آنٹی فرحت کے گالوں کو چومتے چومتے انکے گلے پر زبان پھیرنے لگ گئے ماسٹر جی جیسے ھی گلے سے زبان پھیر کر اوپر ٹھوڑی کی طرف لے کر جاتے تو آنٹی فرحت کو پتہ نھی کیا ھوتا وہ ایک دم پنجوں کے بل کھڑی ھوجاتی اور بند آنکھوں سے چھت کی طرف منہ کیے ایک لمبی سسکاری لیتے ھوے سسسسسیییی کرکے ماسٹر جی کے ساتھ مزید چمٹ جاتی
ماسٹر جی نے اب زبان کا رخ آنٹی فرحت کے کان کی لو کی طرف کیا جیسے جیسے ماسٹر جی کی زبان آنٹی فرحت کے کان کی لو سے ھوتی ھوئی کان کے پیچھے کی طرف جاتی تو آنٹی فرحت ایک جھرجھری سی لیتی اور اپنی پھدی والے حصہ کو ماسٹر جی کے لن والے حصہ کے ساتھ رگڑتی اور منہ سے عجیب عجیب سی آوازیں نکالتی ماسٹر جی بھی آنٹی فرحت کو پاگل کرنے کے چکر میں تھے ماسٹر جی تین چار، منٹ تک ایسے ھی کبھی گالوں پر کبھی گلے پر کبھی کان کے پیچھے زبان پھیرتے رھے پھر ماسٹر جی تھوڑا نیچے ھوے اور آنٹی فرحت کے بڑے سے ممے پر لگے براون نپل پر زبان پھیرنے لگ گئے آنٹی فرحت کے ممے کا نپل کافی موٹا اور ایک دم اکڑا ھوا تھا
ماسٹر جی مسلسل اپنی زبان کو نپل پر پھیرے جا رھے تھے اور کبھی نپل کے گرد براون دائرے پر زبان گھماتے انٹی فرحت مزے سے سسسییی افففففف اممممم کری جارھی تھی
ماسٹر جی اب اپنا ایک ھاتھ انٹی فرحت کے پیٹ پر پھیر رھے تھے اور کبھی اپنی انگلی انکی ناف کے سوارخ میں پھیرنے لگ جاتے اب ماسٹر جی نے ایک ممے کو اپنے منہ میں بھر لیا تھا اور زور زور سے چوسی جارھے تھی انکی تھوک سے سارا مما گیلا ھو گیا تھا
ماسٹر جی اپنے ھاتھ کو بھی آہستہ آہستہ نیچے پھدی کے قریب لے جا رھے تھے
آنٹی فرحت کی حالت دیکھنے والی تھی انکا ھاتھ مسلسل ماسٹر جی کے سر کے بالوں کو مٹھی میں لیے ھوے تھا کبھی بالوں کو مٹھی میں بھر لیتی کبھی انگلیوں کو بالوں میں پھیرنے لگ جاتی
ماسٹر جی نے اپنا ھاتھ آنٹی فرحت کی شلوار کے نالے پر رکھ لیا اور انگلیوں سے نالے کا سرا تلاش کرنے لگ گئے آنٹی فرحت کو شاید محسوس ھوگیا تھا کہ ماسٹر جی اب اگلے کس مرحلے میں داخل ھونے کی کوشش میں ہیں اس لیے انہوں نے اپنا ایک ھاتھ جلدی سے ماسٹر جی کے ھاتھ پر رکھ کر زور سے دبا دیا ماسٹر جی نے اپنی آنکھیں اوپر کر کے انٹی فرحت کی آنکھوں میں دیکھا تو آنٹی فرحت نے نھی میں سر ہلایا جیسے کہنا چاہ رھی ھو کہ بس اس سے آگے کچھ نھی کرنا
مگر
ماسٹر وی کسے چنگے استاد دا
چھنڈیا ھویا سی
ماسٹر جی نے بڑے پیار اے اپنا ھاتھ چھڑوایا جیسے اپنا ارادہ بدل لیا ھو مگر ماسٹر جی نے ھاتھ چھڑواتے ہوے شلوار کے نالے کے سرے کو اپنی انگلیوں کے درمیان پھنسا لیا تھا
اور ایک جھٹکے سے نالا کھینچا تو آنٹی فرحت کی شلوار کا نالا کھل گیا اس سے پہلے کہ انٹی فرحت کچھ سمجھتی انکی شلوار انکے پاوں میں پڑی تھی
میری آنکھوں کے سامنے اب آنٹی فرحت کی گوری گوری موٹی بھری بھری ننگی ٹانگیں اور اوپر پٹوں کے درمیاں گولڈن رنگ کے بالوں میں ڈھکی انکی پھولی ھوی پُھدی تھی یہ سین دیکھتے ھی میرا ھاتھ خود ھی اپنے لن پر چلا گیا جو پتہ نھی کب سے کھڑا تھا اور لن پر ھاتھ جاتے ھی انگلیوں نے لن کو مسلنا شروع کردیا ،،
ادھر ماسٹر جی نے بھی موقعہ ضائع کئے بغیر جلدی سے اپنا ایک ھاتھ آنٹی فرحت کی پھدی پر رکھ دیا اور ھاتھ کی درمیانی انگلی کو پھدی کے اوپر نیچے کرنے لگ گیا انٹی فرحت نے جلدی سے اپنا ھاتھ ماسٹر جی کے ھاتھ کے اوپر رکھ کر ھاتھ کو ہٹانے لگ گئی مگر ماسٹر جی کا داو کام کر گیا تھا جلد ھی آنٹی فرحت ماسٹر جی کا ھاتھ ہٹانے کے بجاے انکے ھاتھ کو اپنے ھاتھ سے پھدی پر دبانے لگ گئی اب آنٹی فرحت اپنی ٹانگوں کو مزید کھول کر ماسٹر جی کے ھاتھ کو آگے پیچھے جانے کا راستہ دے رھی تھی ماسٹر جی نے اپنی ایک انگلی جیسے ھی پھدی کے اندر کی آنٹی فرحت کے منہ سے ایک لمبی سی سسسسسسسییی نکلی اور ساتھ ھی ماسٹر جی کا سر پکڑ کر اوپر کی طرف لے گئی اور دونوں کے ہونٹ پھر ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے اب ماسٹر جی سے ذیادہ جوش و جنون آنٹی فرحت میں تھا وہ پاگلوں کی طرح ماسٹر جی کے ہونٹ چوس رھی تھی ادھر ماسٹر کی انگلیاں سپیڈ سے پھدی کے اندر باہرھو رھی تھی
اچانک آنٹی فرحت کی آنکھیں نیم بند ھونے لگ گئی اور منہ سے ھاےےےےےے امممممم اففففففف میں گئی میں گئیییییی کی آوازیں آنے لگ گئی ماسٹر جی نے جب یہ اوازیں سنی تو اپنے ھاتھ کی سپیڈ اور تیز کردی اچانک آنٹی فرحت نے اپنی دونوں ٹانگوں کو ماسٹر جی کے ھاتھ سمیت ذور سے آپس میں بھینچ لیا اور نیچے کی طرف جھکتی گئی اتنا جھکتی گئی کہ نیچے ھی پاوں کے بل پیشاب کرنے کے انداز میں بیٹھ گئی ماسٹر جی بھی ھاتھ کے پھنسے ھونے کی وجہ سے ساتھ ساتھ نیچے ھوتے گئے آنٹی فرحت نے اپنے گٹنوں پر دونوں بازو رکھے اور بازوں پر سر رکھ کر بیٹھی رھی
کچھ دیر ایسے ھی بیٹھنے کے بعد ماسٹر جی نے آنٹی فرحت کو کھڑا کیا تو آنٹی فرحت نے اٹھتے ھوے ساتھ ھی اپنی شلوار اوپر کرلی اور ذور سے ماسٹر جی کو پیچھے کی طرف دھکا دیا اور جلدی سے اپنی شلوار کا نالا باندھ لیا ماسٹر جی حیران پریشان آنٹی فرحت کا منہ دیکھے جارھے تھے ماسٹر جی نے پھر آنٹی فرحت کو بازوں سے پکڑ کر کہا فرحت کیا ھوا تو آنٹی فرحت نے کہا چھوڑو مجھے خبردار میرے قریب مت آنا ماسٹر جی کے دماغ پر تو پھدی سوار تھی
انکی منی تو انکے دماغ کو چڑ گئی تھی چڑتی بھی کیسے نہ بیچارا ایک گھنٹے سے خوار ھورھا تھا
ماسٹر جی جب دیکھا کہ پھدی ھاتھ سے نکل رھی ھے تو جلدی سی آنٹی فرحت کو پیچھے سے جپھی ڈال لی اور آنٹی فرحت کو گھما انکا منہ پردے کی طرف کردیا آنٹی فرحت کی نظر پردے پر جیسے ھی پڑی
میرے تے ٹٹے ای تاں چڑ گئے
مجھے لگا کہ آنٹی فرحت نے مجھے دیکھ لیا ھے جبکہ میں بلکل تھوڑا سا پردہ سرکا کہ اندر دیکھ رھا تھا
میں بنا کچھ سوچے سمجھے وھاں سے بھاگا اور سیدھا کلاس کی طرف آگیا مجھے کلاس کی طرف آتے دیکھ عظمی بھی میری طرف متوجہ ھوگئی میں پسینے سے شرابور تھا اور میرے دل کی دھڑکن ٹرین کی سپیڈ جتنی تیز چل رھی تھی میں اس قدر گبھرایا اور ڈرا ھوا تھا کہ میں نے یہ بھی پروا نھی کی کہ عظمی مجھے غور سے دیکھ رھی ھے اور میں عظمی کو نظر انداز کرتا ھوا اسکے پاس سے گزر کر اپنی جگہ پر جاکر بیٹھ گیا
عظمی کو بھی میری حالت کا اندازہ ھوگیا تھا وہ گبھرائی ھوئی میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور مجھے کندھے سے پکڑ کر بولی یاسر کیا ھوا اتنی دیر کہاں لگا دی اتنے گبھراے ھوے کیوں ھو کیا ھوا سب خیریت تو ھے ناں عظمی نے ایک ھی سانس میں کئی سوال کردئے یہ تو شکر ھے کہ اس نے یہ سب آہستہ سے پوچھا تھا ورنہ پیچھے بیٹھے سب بچے سن لیتے میں نے کچھ دیر گبھراے ھوے ھی عظمی کو دیکھتا رھا اسے بتانے کو میرے پاس کوئی الفاظ نھی تھے مجھے ایسے اپنی طرف دیکھتے عظمی نے مجھے بازوں سے پکڑے پھر جنجھوڑا یاسر بولو کیا سوچ رھے ھو
میں ایک دم سکتے سے باہر آیا اور اپنی انگلی اپنے منہ پر رکھ کر اسے چپ رھنے کا اشارہ کیا اور آہستہ سے اسے کہا کہ گھر جاتے ھوے بتاوں گا ابھی چپ رھو
وہ میری حالت دیکھ کر چپ کر کے بیٹھ گئی
میرا دھیان اب کمرے کے دروازے کی طرف ھی تھا
اور دل میں کئی وسوسے آرھے تھے کہ پتہ نھی میرے ساتھ اب کیا ھوگا آنٹی فرحت نے اگر مجھے دیکھ لیا ھے تو ماسٹر جی کو ضرور بتاے گی
یاسر پتر توں تے گیا ھن
ھن تیری خیر نئی
ماسٹر جی نے تو مار مار میرا برا حال کردینا ھے اور گھر میرے گھر شکایت پہنچ گئی تو پھر ابو نے الگ سے مارنا ھے
میری اپنی قیاس آرائیاں جاری تھی تو میں ماسٹر جی کو کمرے سے باہر نکل کر تیز تیز قدموں سے کلاس کی طرف آتے دیکھا
ماسٹر جی کو آتے دیکھ کر میرا تو گلا خشک ھوگیا بیٹھے ھی میرا جسم کانپ رھا تھا
ماسٹر جی
کلاس میں آکر کرسی پر بیٹھ گئے انکے چہرے پر غصہ صاف صاف جھلک رھا تھا
اب مجھے نھی معلوم تھا کہ یہ غصہ میرے دیکھنے کا ھے یا پھدی ملنے کی ناکامی کا تھا
خیر ماسٹر جی نے بڑی کرخت آواز میں کہا یاسررررر میں ایسے اٹھ کر کھڑا ہوا جیسے میرے نیچے سے کسی سوئی چبھوئی ھو
میں نے اٹھتے ھی کہا یس سر
ماسٹر جی بولے
تمہیں کہا تھا سب بچوں کے گھر کا کام چیک کرو تم نے کیا
میں حیران پریشان کھڑا تھا مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ ماسٹر جی نے صرف کلاس کا دھیان رکھنے کا کہا تھا
میں نے کہا نھی سر آپ نے مجھے صرف دھیان رکھنے کا کہا تھا
تو ماسٹر جی غصہ سے بولے الو کے پٹھے اگر نھی کہا تھا تو کرلیتے تمہیں مانیٹر کس لیے بنایا ھے
بیٹھ جاو
میں جلدی سے بیٹھ گیا
اور دل میں ماسٹر جی کو برا بھلا کہنے لگ گیا
کہ گانڈو تینوں پھدی نئی ملی ایدے وچ وی میرا ای قصور اے
پھر ماسٹر جی نے سب بچوں کو ہوم ورک چیک کروانے کا کہا اور باری باری سب کا ہوم ورک چیک کرنے لگ گئے
ماسٹر جی نے پھدی کی ناکامی کا سارا غصہ ان بچوں پر نکالا جنہوں نے ہوم ورک نھی کیا ھوا تھا
مجھے کچھ تسلی ھوگئی تھی کہ ماسٹر جی کو نھی پتہ چلا کہ میں بھی انکی پھدی لینے کی خواری کو دیکھ رھا تھا
چھٹی سے گھر واپس آرھے تھے تو نسرین عظمی اور محلے کے کچھ بچے بھی ہمارے ساتھ ساتھ ھی تھے مجھے عظمی کے چہرے پر کافی بےچینی سی نظر آرھی تھی
ہم سب اکٹھے ھی چل رھے تھے کہ اچانک عظمی نے ھاتھ میں پکڑا دستہ نیچے پھینک دیا اور ظاہر ایسے کروایا جیسے خود ھی اسکے ھاتھ سے نیچے گرا ھو اور عظمی نیچے بیٹھ کر دستہ اٹھانے لگ گئی میں بھی اس کے پاس کھڑا ھوگیا جبکہ نسرین سمیت باقی بچے آگے گزر گئے عظمی نے جب دیکھا کہ ساتھ والے بچے اب کچھ آگے چلے گئے ہیں تو وہ اٹھ کھڑی ھوئی اور ہم دونوں گھر کی طرف چلنے لگ گئے تو عظمی نے مجھ سے کہا اب بتاو کیا ھوا تھا
میں نے کہا یار بتا دوں گا صبر تو کرو تو عظمی بولی ابھی بتا دو کیا مسئلہ ھے تو میں نے کہا یار یہ لمبی بات ھے ہمارا گھر آنے والا ھے اتنی جلدی کیسے بتا دوں تو عظمی بولی جلدی جلدی بتاو کہ ھوا کیا تھا جو اتنا ڈرے ھوے تھے تو میں نے کہا یار وہ ماسٹر جی اور آنٹی فرحت،،،،،،،
یہ کہہ کر میں پھر چپ ھوگیا اتنے میں ھم اپنی گلی کا موڑ مڑ کر گلی میں داخل ھوچکے تھے اور کچھ آگے نسرین اکیلی کھڑی ھمارا انتظار کررھی تھی نسرین کو دیکھ کر میں نے شکر ادا کیا کہ فلحال جان چھوٹی عظمی نے مجھے پھر کہنی ماری بولو کیا ماسٹر جی اور آنٹی فرحت تو میں نے بھی اسے کہنی مارتے ھوے سامنے نسرین کی طرف اشارہ کرتے ھوے خاموش کرادیا اور پھر بتاوں گا کہہ کر ٹال دیا اتنے میں ہم نسرین کے پاس پہنچ گئے تو نسرین بولی
تواڈے دوناں دیا لتاں ٹُٹیاں ھویاں نے لتاں کڑیس کڑیس کے ٹُردے او
میں نے شوخی سے کہا
تینوں جے پر لگے ھوے نے جیڑا اوڈ کے اگے اگے پہنچ جانی اے
تو نسرین پھوں پھوں کرتی چل پڑی پہلے میرا گھر آیا میں ان دونوں کو بات بات کرتا گھر داخل ھوگیا اور امی جان جو سلام کیا اور کمرے کی طرف چل دیا سکول بیگ رکھا اور دھڑم سے چارپائی پر گر گیا جیسے بڑی محنت مزدوری کر کے آیا ھوں
لیٹتے ھی آنکھیں بند کرلی اور ماسٹر جی اور فرحت کے بارے میں سوچنے لگ گیا
دوستو فرحت کو اب میں انٹی نھی بولوں گا سالی اب اس لائق ھی نھی رھی،،،،
میری آنکھوں کے سامنے فرحت کے گورے گورے خربوزے جتنے ممے آرھے تھے کیا گول مٹول نرم سے چٹے سفید دودہ سے بھرے پیالے تھے جسکو ماسٹر منہ لگا کر مزے لے لے کر پی رھا تھا کیا گورا پیٹ جو بلکل اندر کی طرف تھا کیا کمال کی گوری چٹی ٹانگیں
کیا موٹے گول گول پٹ تھے اور انکے درمیاں گولڈن پھدی واہ کیا بات تھی ماسٹر گانڈو تو بڑا خوش قسمت نکلا
یہ سوچتے سوچتے مجھے نھی پتہ چلا کب میں اپنے لن کو پکڑ کر مسلی جا رھا ھوں اور لن ساب بھی ٹنا ٹن کھڑے تھے
کہ اچانک امی جان کی آواز نے مجھے خیالوں سے لا باھر پھینکا
یاسررررر
امی کی آواز سنتے ھی میں ہڑبڑا کر اٹھ کر بیٹھ گیا اور اونچی آواز میں بولا جی امی جی
تو امی کی برآمدے سے پھر آواز آئی پتر آکر روٹی کھا لو
میں جلدی سے اٹھا اور باہر برامدے میں آکر امی کے پاس بیٹھ گیا جو چولہے پر روٹیاں پکا رھی تھی
روٹی کھا کر میں پھر کمرے میں آگیا اور ہوم ورک کرنے لگ گیا ہوم ورک کر کے میں پھر لیٹ گیا اور پتہ نھی کب میری آنکھ لگی جب میں اٹھا تو اس وقت چاربج رھے تھے
امی نے بتایا کہ دو دفعہ عظمی تمہیں بلانے آئی تھی کہ امی یاسر کو بلا رھی ھے
تبھی میری بہن نازی جسکا اصل نام نازیہ تھا پیار سے اسے ناشی کہتے تھے وہ بولی ان لوگوں نے اسے نوکر سمجھا ھوا ھے جب بھی کوئی کام ھوتا ھے تو منہ اٹھا کر اسے بلانے آجاتے ہیں اور یہ نواب زادہ گھر میں تو نواب بن کر رھتا ھے اور ان کے گھر نوکری کر کے خوش ھے
امی نے میری بہن کو ڈانٹا کہ بکواس نہ کر فوزیہ اسے اپنا بیٹا سمجھتی ھے اور اپنی بیٹیوں سے بڑھ کر اسے پیار کرتی ھے اس لیے مان سے اسے کوئی باھر کا کام کہہ دیتی ھے اگر یہ انکا کوئی کام کربھی دیتا ھے تو تمہیں کیا تکلیف ھے
امی کی ڈانٹ سن کر نازی غصہ سے میری طرف دیکھتی باہر نکل گئی میں نے بھی اسے جاتے جاتے منہ چڑھا دیا اور باہر کو نکل گیا باہر گلی میں آتے ھی میں نے اپنا رخ سیدھا آنٹی فوزیہ کے گھر کی طرف کیا اور سیدھا انکے دروازے پر جا پہنچا جب میں اندر داخل ھوا تو انٹی فوزیہ کو سلام کیا اور ان سے اپنے سر پر پیار لیا
تو آنٹی بولی کھل گئی آنکھ میرے شہزادے کی تو میں نے کہا جی آنٹی مجھے امی نے بتایا تھا کہ عظمی دو دفعہ مجھے بلانے آئی تھی خیریت تو ھے کچھ منگوانا تھا تو آنٹی بولی
پتر کنک کے دانے شیدے کی چکی پر چھوڑ آ شام کو جاکر پھر لے آنا میں نے آنٹی کے حکم کی تعمیل کرتے ھوے کہا جی آنٹی جی ابھی چھوڑ آتا ہوں میں نے چاروں طرف نظر گھمائی تو مجھے عظمی اور نسرین نظر نھی آئیں میں نے انٹی سے ان دونوں کا پوچھا تو آنٹی نے بتایا کہ نسریں تو مَلکوں کے گھر ٹیویشن پڑھنے چلی گئی مگر عظمی اندر کمرے میں ہے دھونے والے کپڑے اکھٹے کر رھی ھے کل جمعہ ھے تو ان دونوں بہنوں کو سکول سے تو چھٹی ھوگی تو ہم نے کل نہر پر کپڑے دھونے جانا ھے
میں نے ھممم کر کے سر ہلایا اور انٹی سے گندم کا پوچھا تو آنٹی بولی پتر تم سائکل صحن میں نکالو اور میں کنک کا توڑا اٹھا کر لے آتی ہوں تم سے تو اٹھایا نھی جانا میں نے جلدی سے دیوار کے ساتھ لگی سائکل کو پکڑا اور اسے لے کر صحن میں باھر کے دروازے کی طرف منہ کر کے کھڑا ھوگیا آنٹی اتنی دیر میں گندم کا تھیلا اٹھا کر لے آئی آنٹی نے دوپٹہ نھی لیا ھوا تھا جیسے ھی انٹی گندم کا تھیلا سائکل کے فریم میں رکھنے کے لیے جھکی تو ان کے کھلے گلے سے دونوں مموں کا نظارا میرے سامنے تھا آنٹی فوزیہ کے ننگے ممے دیکھ کر ایکدم میری انکھوں کے سامنے فرحت کے گورے چٹے ممے آگئے اور میں ٹکٹکی باندھے آنٹی فوزیہ کے گلے میں جھانکی جا رھا تھا اور آنٹی فوزیہ میری گندی نظروں سے بے خبر اپنے دھیان گندم کے تھیلے کو سائکل کے فریم میں چین کے کور کے اوپر. سیٹ کر رھی تھی
جیسے ذور ذور سے تھیلے کو ادھر ادھر کرتی تو ویسے ھی آنٹی کے گورے گورے دودہ کے پیالے چھلکتے میں نددیدوں کی طرح آنٹی کے ممے دیکھی جارھا تھا ،
دوستو ایسا پہلے بھی ھوتا ھوگا مگر میں نے پہلے کبھی ایسا ریکٹ نھی کیا تھا تب میری معصومیت بچپنا اور سیکس سے ناآشنائی کی وجہ تھی اور یہ ھی وجہ تھی کہ آنٹی نے مجھے دیکھ کر کبھی بھی سر پر دوپٹہ یا سینے کو دوپٹے سے ڈھانپا نھی تھا جس حال میں بھی آنٹی فوزیہ بیٹھی ھوتی ویسے ھی رھتی انکی نظر میں
میں بچہ تھا معصوم تھا
مگر سالے ماسٹر کی کرتوت نے میرے اندر سیکس کی چنگاری بھر دی تھی اور میرے اندر کے مرد نے اپنی ایک آنکھ کھول لی تھی
آنٹی نے گندم کا تھیلا سہی کرکے رکھ دیا اور میں سائکل کو لے کر پیدل ھی گھر سے باہر نکل آیا سائکل کا ہنڈل بھی آگے سے ہل رھا تھا اور میں ڈگمگاتے ھوے چلا جارھا تھا کہ اچانک مجھے پیچھے سے عظمی کی آواز آئی جو مجھے رکنے کا کہہ رھی تھی میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عظمی دوڑتی ھوئی آرھی تھی میں اسے دیکھ کر رک گیا
تبھی عظمی میرے پاس آکر رکی اور اپنی ہتھیلی کھول کر میرے آگے کردی اور بولی بُدھو پیسے تو لیتا جا میں نے اسکی ہتھیلی سے ایک روپیہ پکڑا اور اپنی قمیض کی اگلی جیب میں ڈال لیا اور پھر سے چل پڑا عظمی بھی میرے ساتھ ساتھ سائکل کو پیچھے سے پکڑے چلی آرھی تھی تو میں نے اسے کہا یار تم جاو میں دانے لے جاوں گا تو وہ بولی ذیادہ شوخا نہ بن اور کل والے واقعہ کا بتا کہ کیا ھوا تھا میں اسی لیے تمہارے پیچھے آئی ھوں
میں عظمی کی بات سن کر پریشان ھوگیا تو اور بولا یار کچھ بھی نھی ھے
تو عظمی نے غصہ سے کہا سیدھی طرح کہو کہ بتانا نھی چاھتے
میں نے کہا نھی یار ایسی بات نھی ھے
تو عظمی بولی
تو بتاو پھر
میں نے کہا یار تم لڑکی ھو میں تم سے گندی بات نھی کرسکتا اب کیسے تم سے گندی باتیں کروں،
تو عظمی ایک دم غصہ میں آگئی اور بولی،
میں تیری بوتھی نہ پن دیواں گی جے میرے نال گندی گل کیتی
تو میں نے کہا
دُرفٹے منہ تیرا
میں ماسٹر جی اور انٹی فرحت کی بات کررھا ھوں
تو وہ بولی تم بتاو نہ پھر کیا دیکھا تھا تم
تو میں نے کہا یار دفعہ کرو کوئی اور بات کرو
تو عظمی نے غصہ سے سائکل کو چھوڑا اور رک کر کھڑی ھوگئی اور مجھے گھورتے ھوے بولی
جا دفعہ ھو نئی تے نہ سئی مینوں اج توں بعد نی بُلائیں تیری میری کٹی اور یہ کہتے ھوے اپنی چیچی چھوٹی انگلی میری طرف کرتے ھوے واپس بھاگ گئی
دوستو اس وقت ہماری ناراضگی کٹی اور صلح پکی سے ھوا کرتی تھی
میں جلدی جلدی گندم چکی پر چھوڑ کر واپس آنٹی کے گھر آگیا اور دیکھا عظمی گھر میں نھی تھی تو میں نے آنٹی سے پوچھا تو آنٹی نے بتایا کہ وہ تو تمہیں پیسے دینے گئی تھی میں تو سمجھی کے تمہارے ساتھ ھی چلی گئی ھوگی
تو میں نے کہا آنٹی وہ تو اسی وقت واپس آگئی تھی
آنٹی بولی
فیر او وان (کھیت) وچ دفعہ ھوگئی ھونی اے
میں نے انٹی سے کہا میں دیکھ کر آتا ھو
تب تک شام ڈھلنے والی تھی
میں گلی کی نکڑ پر پینچا تو سامنے دیکھا عظمی سامنے کھیت کی پگڈنڈی پر بیٹھی ھوئی تھی اور کھیت میں کھیلتے ھوے بچوں کو دیکھ رھی تھی
میں نے سڑک کراس کی اور کھیت میں داخل ھوگیا مجھے اپنی طرف آتے دیکھ کر عظمی وھاں سے اٹھی اور کھیت کی دوسری طرف بنی پگڈنڈی کی طرف چل پڑی میں نے بھی اپنا رخ اسی طرف کردیا اور عظمی کے کچھ فاصلے پر اسکے پیچھے پیچھے چلتا ھوا اس کے سر پر جا پہنچا تب تک عظمی پگڈنڈی پر بیٹھ چکی تھی
میں بھی اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا عظمی تھوڑا کھسک کر مجھے سے دور ھوکر بیٹھ گئی میں بھی کھسک کر اسکے اور قریب ھوگیا عظمی نے میری طرف غصے سے دیکھا اور بولی
کی تکلیف اے میرے پِچھے کیوں پیا ایں اپنی جگہ تے جا کہ بیٹھ
میں نے کہا اپنی جگہ پر ھی بیٹھا ھوں تمہاری گود میں تو نھی بیٹھا
تو عظمی بولی
جا دفعہ ھو جان چھڈ میری
میں نے کہا یار ناراض کس بات پر ھو کچھ باتیں ایسی بھی ھوتی ھیں جو لڑکیوں سے نھی کی جاتی
تم ایسے فضول میں منہ بنا کر بیٹھ گئی ھو
تو عظمی بولی
میں تیرے کولوں کش پُچھیا اے جیڑا توں مینوں نئی دسنا جا اپنا کم کر جا کہ
عظمی کا رویہ مجھ سے برداشت نہ ھوا میں نے اسکا بازو پکڑا اور رونے والے انداز سے کہا
چل آ تینوں دسدا آں
تو عظمی نے غصہ سے اپنا بازو مجھ سے چھڑوایا اور بڑے غصیلے انداز سے بولی
تینوں سُندا نئی اک دفعہ کے دتا اے ناں کہ میں کُش نئی سُننا جا جان چھڈ میری
میرا رونا تے پہلے ای وٹ تے پیا سی
میں روتے ھوے وھاں سے اٹھا اور کھیت سے ھوتا ھوا کپاس کے کھیت کے ساتھ پانی والے کھالے کی پگڈنڈی پر بیٹھ گیا اور اپنے گُٹنوں میں سر دے کر رونے لگ گیا
دوستو میں گھر اور محلے میں سب لڑکوں سے خوبصورت لاڈلا ھونے کی وجہ سے بہت احساس دل تھا مجھ سے کسی کی ذرا سی بھی ڈانٹ یا پریشانی برداشت نھی ھوتی تھی
اسی وجہ سے عظمی کے سخت رویعے کی وجہ سے روتے ھو میری ہچکی بندھ گئی تھی
مجھے ایسے روتے ھوے بیٹھے کچھ ھی دیر ھوئی تھی کہ مجھے اپنے دائیں کندھے پر نرم سے ھاتھ محسوس ھوے تو میں نے سر اٹھا کر پہلے دائیں طرف اپنے کندھے پر رکھے ہاتھ کو دیکھا اور پھر بائیں طرف گردن گھما کر دیکھا تو عظمی بیٹھی تھی اور پیار سے میرے دائیں کندھے پر ھاتھ رکھ کر مجھے اپنی طرف کھینچتے ھوے چپ کرا رھی تھی
عظمی بولی
میرے شونے کو غصہ آگیا ھے
میں نے غصے سے اپنے کندھے اچکاے اور منہ دوسری طرف کر کے بیٹھ گیا عظمی پھر بولی
میرا چھونا چھونا کاکا نراج ھوگیا اے
اچھا ادھر منہ کرو میری طرف عظمی نے میری ٹھوڑی کو پکڑ کر اپنی طرف منہ کیا اور اپنے دونوں ھاتھ اپنے کانوں کی طرف لے گئی اور اپنے کان پکڑ کر کہنے لگی
معاف کردو سوری بابا
تو میں اسکی معصومیت اور ادا دیکھ کر نا چاہتے ھوے بھی ہنس پڑا
تو عظمی نے شوخی سے میرے کندھے پر چپیڑ ماری اور بولی
چل شوخا
اور ہم دونوں ھنس پڑے
عظمی بولی اچھا بتاو کیا بتانا تھا
تو میں نے کہا
یار بات ایسی ھے کی میں ادھر نھی بتا سکتا اگر کسی نے ہماری بات سن لی تو ہم دونوں کی خیر نھی ایسا کرو کل جب تم آنٹی کے ساتھ کپڑے دھونے نہر پر جاو گی تو تب. میں بھی تم لوگوں کے ساتھ چلوں گا ادھر موقع دیکھ کر بتاوں گا
تو عظمی نے بھی اثبات میں سر ہلایا اور ہم پھر کھیلتے ھوے بچوں میں شامل ھوکر کھیلنے لگ گئے
اگلے دن جمعہ تھا سکول سے ہمیں چھُٹی تھی
میں صبح جلدی اٹھا ناشتہ کرکے امی جان کو فوزیہ آنٹی کے گھر جانے کا کہہ کر باہر گلی میں آگیا اور سیدھا آنٹی کے گھر پہنچ گیا گھر میں داخل ہوتے ھی آنٹی کو سلام کیا اور انکل بھی آج گھر ھی تھے انکو بھی سلام کیا انکل مجھے چھیڑنے لگ گئے کہ
یاسر پتر سنا ھے تم شہری بابو بننے جارھے ھو
میں نے شرماتے ھوے کہا جی انکل میرا ارادہ تو اسی سال تھا کہ شہر میں داخلہ لے لوں مگر امی جان نھی مانی تو انکل نے مجھے پیار سے ساتھ لگا لیا اور میرے سر پر ھاتھ پھیرتے کہنے لگے
چلو چنگی گل اے اگلے سال توں تھوڑا برا ھوجاے گا اور سمجھدار بھی اور پھر تیری دونوں بہنیں بھی شہر ھی جانے لگ جائیں انکے ساتھ ھی چلے جایا کرنا میں ھاں میں سر ہلاتا ھوا انکل کے پاس سے اٹھا اور آنٹی فوزیہ کی طرف چل پڑا جو چارپائی پر بیٹھی قینچی سے اپنے پاوں کے ناخن کاٹ رھی تھی میں نے پیچھے سے جاکر آنٹی کے گلے میں اپنی دونوں باہیں ڈال کر بڑے رومیٹک انداز سے آنٹی فوزیہ کو جپھی ڈال لی ،
آنٹی فوزیہ نے ہلکے نیلے رنگ کا سوٹ پہنا ھوا تھا جسے ہلکا فروزی بھی کہا جاسکتا تھا سوٹ کا کلر ہلکا ہونے کی وجہ سے پیچھے سے آنٹی کے کالے رنگ کے بریزئیر کے سٹرپ صاف نظر آرھے تھے
اور سوٹ کا کلر
انٹی پر بہت جچ رھا تھا
میں نے انٹی کو چھیڑتے کہا کہ آنٹی خیر ھے آج بڑی تیار شیار ھوئی ھو شادی پر جارھی ھو یا پھر آج انکل گھر پر ہیں اس لیے تو آنٹی فوزیہ
حیرت سے میری طرف دیکھتے ھوے بولی
چل گندا بچہ شرم نھی آتی اپنی انٹی سے ایسے بات کرتے ھوے
اور ساتھ ھی انکل کی طرف دیکھتے ھوے کہا سن لو عظمی کے ابا ہمارا شہزادا ابھی شہر نھی گیا مگر اسکو شہر کی ہوا لگ گئی ھے تو انکل بھی اونچی آ واز میں ہنستے ھوے کہنے لگے منڈا جوان ھوگیا اے اسی لیے تم پر لائن مار رھا ھے
میں شرمندہ سا ھو کر جھینپ سا گیا اور جلدی سے آنٹی کے گلے سے اپنی باہیں نکالی اور کمرے میں عظمی لوگوں کے پاس بھاگ گیا مجھے پیچھے سے آنٹی اور انکل کے قہقہوں کی آواز سنائی
اور آنٹی ہنستے ھوے کہہ رھی تھی
گل تے سن کتھے چلاں آں
مگر تب تک میں کمرے میں داخل ھوچکا تھا
اندر گیا تو عظمی اور نسرین کسی بات پر اپس میں بحث کررھی تھی مجھے دیکھ کر دونوں خاموش ھوگئی تو نسرین نے ناک چڑھاتے ھوے کہا آگیا ویلا
تو میں نے بھی اسی کے سٹائل میں اسے جواب دیتے ھوے کہا
توں تے بڑی کاموں اے سارا دن پڑھائی دا بہانہ بنا کہ ویلی بیٹھی ریندی ایں
سارا کام آنٹی کو کرنا پڑتا ھے کھوتے جنی ھوگئی ایں ہانڈی روٹی وی کرلیا کر
عظمی کھلکھلا کر ہنس پڑی تو نسرین کا تیور اور چڑھ گیا اس نے عظمی کو مارنا شروع کردیا
میں جاکر انکے ساتھ بیٹھ گیا کافی دیر ھماری آپس میں نوک جھونک جاری رھی
تقریباً ایک گھنٹے کہ بعد آنٹی اندر آئی اور عظمی اور نسرین کو کہنے لگی
چلو کُڑیو جلدی نال کہڑے چُکو تے نہر تے چلو میرے نال
نسرین نے برا سا منہ بنایا اور اٹھ کر باہر نکل گئی اس کے پیچھے ھی میں اور عظمی بھی کمرے سے باہر نکل آے
کپڑوں کی ایک گٹھڑی عظمی نے سر پر اٹھائی ایک نسرین نے اور ایک میں نے اور آنٹی نے باقی کا سامان صابن کپڑے دھونے والا ڈنڈا اور دیگر ضروری چیزیں ایک لوھے کے تانبیے میں ڈال کر سر پر رکھا اور کپڑے دھونے والا ڈنڈا ھاتھ میں پکڑا اور ہم گھر سے نہر کی طرف چل پڑے کھیتوں میں پہنچ کر آگے پگڈنڈی شروع ھوجاتی تھی جو کھیتوں کے بیچو بیچ نہر کی طرف جاتی تھی ہم سب آگے پیچھے چلتے ھوے نہر کی طرف جار رھے تھے سب سے آگے نسرین تھی اسکے پیچھے عظمی اور اسکے پیچھے میں اور میرے پیچھے آنٹی فوزیہ تھی ہم لڑکھڑاتے ھوے جارھے تھے کیوں کہ پگڈنڈی کی جگہ ہموار نھی تھی کہ اچانک میری نظر عظمی کی گول مٹول بُنڈ پر پڑی جو باہر کو نکلی ھوئی تھی اور اس کے ڈگمگا کر چلنے کی وجہ سے کبھی تھرتھراتی کبھی بُنڈ کی ایک پھاڑی اوپر جاتی کبھی دوسری عظمی کی سیکسی بُنڈ دیکھ کر میں تو سب کچھ بھول چکا تھا اور میری نظر عظمی کی ہلتی ھوئی بنڈ کے نظارے کررھی تھی ہم ایسے ھی چلتے چلتے نہر پر پہنچ گئے اور نہر کے کنارے پر جاکر صاف جگہ دیکھ کر کپڑوں کی گھٹڑیاں نیچے گھاس پر رکھ دی اور بیٹھ کر لمبے لمبے سانس لینے لگ گئے
انٹی نہر کے پانی کے پاس کنارے پر بیٹھ گئی اور ہمیں ایک گٹھڑی کھولنے کو کہا میں جلدی سی اٹھا اور ایک گٹھڑی کو کھولا اور اس میں سے کپڑے نکال نکال کر آنٹی کو دینے لگ گیا جس میں ذیادہ کپڑے انکل کے ھی تھے
آنٹی فوزیہ نے اپنا دوپٹہ اتارا اور پاوں کے بل. بیٹھ کر کپڑے دھونے لگ گئی میری جب نظر آنٹی کے گلے پر پڑی تو آنٹی کی قمیض کا گلا کافی کھلا تھا اور اس میں چٹا سفید آنٹی کا سینہ دعوت نظارہ دے رھا تھا میں آنٹی کے سامنے کھڑا آنٹی کو کپڑے دھوتے دیکھ رھا تھا اور عظمی اور نسرین باقی کی گٹھڑیوں کو کھولنے میں مصروف تھی
وہ دونوں گٹھڑیوں کو کھولنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ چونچیں بھی لڑا رھی تھی اس لیے انکا دھیان میری طرف نھی تھا
پھر آنٹی نے ایک قمیض کو صابن لگانا شروع کردیا صابن لگانے اور قمیض پر برش مارنے کی وجہ سے آنٹی کو تھوڑا نیچے کی طرف جھکنا پڑا جسکا فائدہ مجھے یہ ھوا کہ آنٹی کے مموں کے درمیانی لائن مجھے صاف نظر آنے لگ گئی اور میں اس نظارے کو دیکھ کر بہت لطف اندوز ھورھا تھا اور آنٹی جب قمیض پر برش مارتی تو آنٹی کے بڑے بڑے ممے ذور ذور سے اچھل کر قمیض کے گلے سے باہر کو آنے کے لیے بے تاب ہوجاتے تھے اور یہ سب دیکھ کر میری حالت قصائی کے پھٹے کے سامنے کھڑے کُتے جیسی تھی،
دوستو آنٹی فوزیہ کہ بارے میں اس وقت بھی میرے دل دماغ کوئی غلط خیال نھی تھا
بس پتہ نھی کیوں مجھے آنٹی کی بُنڈ اور مموں کو دیکھ کر ایک عجیب سا نشہ ھوجاتا اور یہ سب کچھ کرتے مجھے بہت اچھا محسوس ھوتا،،،
میں انٹی کے مموں میں کھویا ھوا تھا کہ انٹی نے قمیض پر برش مارنا بند کیا اور قمیض کو اٹھا کر نہر میں ڈبونے کے لیے جُھکی
تو دوستو یقین کرو بے ساختہ میری ایڑھیاں اوپر کو اٹھی جو نظارا میرے سامنے تھا میرا بس چلتا تو اسی وقت آگے بڑھ کر آنٹی کے دونوں دودھیا رنگ کے مموں کو اپنے دونوں دونوں ھاتھوں کی مٹھیوں میں بھر لیتا اور ذور سے سائکل پر لگے پاں پاں کرنے والے ھارن کی طرح بجانے لگ جاتا
آنٹی فوزیہ کے دونوں ممے گلے سے بلکل باہر کی طرف تھے اور میں یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کہ آنٹی نے برا بھی نھی پہنی ھوئی تھی شاید آتے ھوے گھر ھی اتار آئی تھی آنٹی کےمموں کے صرف نپل ھی قمیض کے گلے کے کنارے پر اٹکے ھوے تھے اور انکے مموں پر گول براون دائرہ بھی نظر آرھا تھا
یہ دیکھ کر میرا تو حلق خشک ھونے لگ گیا
کہتے ہیں نہ کہ عورت کی چھٹی حس بہت تیز ھوتی ھے اسے اسی وقت پتہ چل جاتا ھے کہ کون اسکی طرف دیکھ رھا ھے اور اسکے جسم کے کون سے اعضا پر نظر کا تیر لگ رھا ھے
یہ ھی میرے ساتھ ھوا آنٹی کی چھٹی حس نے کام کیا اور آنٹی نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا
میں آنٹی کے مموں میں اسقدر کھویا ھوا تھا کہ مجھے یہ بھی احساس نھی ھوا کہ آنٹی مجھے دیکھ رھی ھے اچانک آنٹی نے اپنا ایک ھاتھ اپنے سینے پر رکھا اور مجھے آواز دی کہ یاسر
میں انٹی کی آواز سن کر ہڑبڑا گیا اور گبھرا کر آنٹی کی آنکھوں میں انکھیں ڈال کر بولا جی آنٹی جی
تو آنٹی ہلکے سے مسکرائی اور بولی بیٹا ادھر جا کر اپنی بہنوں کے ساتھ بیٹھ جاو ادھر پانی کے چھینٹے تم پر پڑ رھے ہیں میں شرمندہ سا سر جھکائے عظمی لوگوں کے پاس جاکر بیٹھ گیا شرم کے مارے میں نے دوبارا آنٹی کی طرف نھی دیکھا بلکہ انکی طرف پیٹھ کرکے منہ کھیتوں کی طرف کر کے بیٹھ گیا
کچھ دیر بیٹھنے کے بعد آنٹی کی آواز آئی کی عظمی یہ کپڑے سوکھنے کے لیے ڈال دو عظمی جلدی سے اٹھی اور کپڑوں کا لوھے کا ٹپ جسے ہم تانبیہ اور بٹھل بھی کہتے تھے اٹھا کر نہر کے کنارے سے نیچے اترنے لگی مگر جگہ ہموار نہ ہونے کی وجہ سے اس سے نیچے نھی اترا جارھا تھا تبھی اس نے مجھے آواز دی کہ یاسر کپڑے نیچے لے جاو مجھ سے نھی یہ اٹھا کر نیچے جایا جا رھا میں جلدی سے اس کے پاس پہنچا اور کپڑے پکڑ کر نیچے اترنے لگ گیا وہ بھی میرے پیچھے پیچھے نیچے آرھی تھی
نیچے آکر عظمی نے اپنا دوپٹہ اتار کر مجھے پکڑایا اور اپنے بالوں کو پیچھے سے پکڑ کر گول کر کے پونی کرنے لگ گئی ایسے کرنے سے اس کے ممے بلکل اوپر کو ھوگئے میری پھر نظر عظمی کے مموں پر ٹک گئی عظمی نے میری طرف دیکھا اور آنکھ کے اشارے کے ساتھ اپنا سر اوپر کو ہلاتے ھوے مجھ سے پوچھا کیا ھے میں اس کے اچانک اس اشارے سے کنفیوژ سا ھوگیا اور اسے کہنے لگا جججججلدی کپڑے ڈال لو آنٹی نے پھر آواز دے دینی ھے
تو عظمی جلدی جلدی کپڑوں کو نہر کے کنارے پر اگی صاف گھاس کے اوپر پھیلانے لگ گئی
میں اپنی ان حرکتوں سے خود بڑا پریشان ھوگیا تھا
اور دل ھی دل میں ماسٹر اور فرحت کو گالیاں دینے لگ گیا
کہ
گشتی دے بچیاں نے مینوں وی کیڑے کم تے لادتا اے
چنگا پلا شریف بچہ سی
تبھی عظمی نے سارے کپڑے پھیلا دیے اور مجھے اوپر چلنے کا کہا تو میں اسکے پیچھے پیچھے اسکی ہلتی گانڈ کا نظارا کرتے کرتے اوپر چڑھنے لگ گیا
ہم پھر جاکر اسی جگہ بیٹھ گئے فرق بس اتنا تھا کہ اب میرا منہ آنٹی کی طرف تھا انٹی میرے سامنے سائڈ پوز لیے بیٹھی کپڑے دھو رھی تھی آنٹی کے کپڑے بھی کافی گیلے ہو چکے تھے جس میں سے انکی ران صاف نظر آرھی تھی اور سائڈ سے کبھی کبھی مما بھی نظر آجاتا
آنٹی نے پھر آواز دی کے یہ بھی کپڑے سُکنے ڈال دو میں جلدی سے اٹھا اور کپڑوں کا ٹب پکڑا اور عظمی کو ساتھ لیے نیچے اگیا اب ہم کچھ دور چلے گئے تھے کیوں کہ اب وہاں کوئی صاف جگہ نھی تھی اس لیے ہم تھوڑا آگے مکئی کی فصل کے پاس چلے گئے
تو عظمی بولی اب بتاو مجھے کیا بتانا تھا
میں انٹی لوگوں کی طرف دیکھنے کی کوشش کی مگر وہ اونچی جگہ اور ذیادہ فاصلے کی وجہ سے نظر نہ آے تو میں نے عظمی کو کہا تم ساتھ ساتھ کپڑے ڈالتی جاو میں تمہیں بتاتا جاوں گا تو عظمی نے اثبات میں سر ہلایا میں نے عظمی کو کہا کہ دیکھو یہ بات تمہارے اور میرے درمیان میں ھی رھے ورنہ ہم دونوں پھنسیں گے بلکہ تم یہ بات نسرین کے ساتھ بھی مت کرنا عظمی بولی تم نے مجھے پاگل سمجھ رکھا ھے جو میں کسی کو بتاوں گی
میں نے کہا اس دن ماسٹر اور فرحت گندے کام کر رھے تھے میں انکو دیکھ رھا تھا کہ اچانک فرحت کی نظر مجھ پر پڑی تو میں ڈر کر بھاگ آیا ،،،
عظمی حیرانگی سے بولی کون سا گندا کام کررہے تھے میں پریشان ہوکر بات بناتے ہوے بولا وہ ھی گندا کام تو عظمی معصومیت سے میری طرف منہ کر کے بولی کون ساااااااا
میں نے گبھراے ھوے لہجے میں کہا یار اب میں کیسے بتاوں مجھے شرم آرھی ھے تو عظمی بولی دیکھتے ھوے شرم نھی آئی تھی جو اب بتاتے ھوے شرم آرھی ھے تو میں نے کہا یار میں کون سا انکو دیکھنے کے لیے اندر گیا تھا وووہ تو مجھے آنٹی فرحت کی چیخ سنائی دی تھی تو میں گبھرا کر اندر دیکھنے چلا گیا کہ پتہ نھی آنٹی کو کیا ھوا ھوگا مگر جب میں اندر گیا تو آنٹی فرحت اور ماسٹر جی،،،
یہ کہہ کر میں پھر چپ ھوگیا تو عظمی جھنجھلا کر بولی
درفٹے منہ اگے وی بولیں گا کہ نئی
میں سر کے بالوں میں ھاتھ پھیرتے ھوے سر کُھجاتے ہوے نیچے منہ کر کے بولا
ماسٹر جی نے فرحت آنٹی کو ننگا کیا ھوا تھا اور جپھی ڈالی ھوئی تھی
اور دونوں ایک دوسرے کی چُمیاں لے رھے تھے
اور ماسٹر جی نے انٹی کے دودو ننگے ھی پکڑے ھوے تھے
میں نے ایک سانس میں ھی اتنا کچھ بتا دیا
عظمی میرے بات سنتے ھی ایسے اچھلی جیسے اسے کسی سانپ نے کاٹ لیا ھو
اور اپنے دونوں ھاتھ منہ کے اگے رکھ کر بولی
ھاےےےے ****** میں مرگئی
فیر
میں ابھی آگے بتانے ھی لگا تھا کہ نسرین نے نہر کے اوپر سے ہماری طرف آتے ھوے آواز دے دی کہ
امی بلا رئی اے تواڈیاں گلاں ای نئی مُکن دیاں
میں نے عظمی کو کہا یار کل جب ہم کھیلنے آئیں گے تو تفصیل سے ساری بات بتاوں گا
ابھی چلو ورنہ آنٹی غصہ ھونگی
میں یہ کہہ کر نہر کے اوپر چڑھنے کے لیے چل پڑا میرے پیچھے پیچھے. عظمی بھی بڑبڑاتی نسرین کو گالیاں دیتی آگئی۔
کچھ دیر مذید ہم نہر پر ھی رھے پھر ہم نے سارے کپڑے سمیٹے اور پہلے کی طرح آگے پیچھے چلتے ہوے ہنسی مزاق کرتے گھر کی طرف چل پڑے راستے میں بھی کوئی خاص بات نھی ھوئی
مگر نجانے کیوں میں آنٹی سے نظریں چرا رھا تھا
ایسے ھی چلتے ہوے ھم گھر پہنچ گئے
اگلے دن سکول میں کچھ خاص نھی ھوا شام کو میں آنٹی فوزیہ کے گھر گیا عظمی اور نسرین کو ساتھ لے کر کھیت کی طرف پڑا کھیت میں پہنچے تو پہلے ھی کافی بچے جمع ھوچکے تھے ہم لُکم میٹی کھیلنے کے لیے اپنی اپنی باریاں پُگنے لگ گئے آخر
میرے عظمی اور ایک محلے کہ لڑکے کے سر باری دینی آئی ہم تینوں سڑک پر جاکر اپنا منہ کھیت کی دوسری طرف کر کے کھڑے ھوگئے اور باقی سب بچے اپنی اپنی جگہ پر چھُپنے کے لیے اِدھر اُدھر بھاگ گئے کچھ دیر بعد ایک بچے کی آواز آئی کہ
لب لو
تو ہم تینوں کھیت کی طرف بھاگے خالی کھیت سے گزر کر کپاس کے کھیت کے قریب آکر کھڑے ھوگئے. اور آپس میں مشورہ کرنے لگ گئے کہ کون کسطرف سے ڈھونڈنا شروع کرے ہمارے ساتھ والا لڑکا کہتا کہ یاسر تم نہر والے بنے سے جاو عظمی درمیان سے جاے اور میں دوسری طرف سے جاتا ھوں
عظمی بولی نہ بابا میں نے اکیلی نے نھی جانا مجھے ڈر لگتا ھے تو تبھی میں نے عظمی کا ھاتھ پکڑ کر دبا دیا شاید وہ میرا اشارا سمجھ گئی تھی اس لیے چُپ ھوگئی
تب میں نے کہا کچھ نھی ھوتا
نئی تینوں جِن کھاندا
اور میں نے اس لڑکے کو دوسری طرف جانے کا کہا وہ میری بات سنتے ھی دوسری طرف بھاگ گیا
میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر کپاس کے کھیت کے درمیان نہر کی طرف جاتی ھوئی پگڈنڈی پر چل پڑے عظمی راستے میں ھی مجھ سے پوچھنے لگ گئی کہ اب تو بتا دو اب کون سا کوئی ھے یہاں میں نے اسے کہاں چلو کھالے کے پاس جاکر بیٹھ کر بتاتا ھوں عظمی نے اثبات میں سر ہلایا ،،
تھوڑا آگے جاکر میں نے عظمی کو اپنے آگے کر لیا اور میں اسکے پیچھے پیچھے چل پڑا ہم چلتے چلتے کپاس کی فصل کے آخر میں چلے گئے اس سے آگے پانی کا کھالا تھا جسکو کراس کر کے مکئی کی فصل شروع ھوجاتی تھی میں نے عظمی کو کھالا کراس کرنے کا کہا اور اسکے پیچھے ھی میں نے بھی چھلانگ لگا کر کھالے کی دوسری طرف پہنچ گیا
میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑا اور کھالے کے کنارے پر لگی ٹاہلی کے پیچھے کی طرف لے گیا جہاں پر گھاس اگی ھوئی تھی اور بیٹھنے کے لیے بہت اچھی اور محفوظ جگہ تھی ہمیں وھاں بیٹھے کوئی بھی نھی دیکھ سکتا تھا ،،
ہم دونوں چوکڑیاں مار کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے
تب عظمی نے مجھ سے بےچین ھوتے ھوے کہا
چلو بتاو نہ اب
میں تھوڑا کھسک کر اسکے اور قریب ھوگیا اب ھم دونوں کے گھُٹنے آپس میں مل رھے تھے
میں نے عظمی کو کہا کہاں تک بتایا تھا تو عظمی بولی
تم شروع سے بتاو مجھے سہی سمجھ نھی آئی تھی
تو میں نے بتانا شروع کردیا
کہ میں نے دیکھا ماسٹر جی نے فرحت کی قمیض آگے سے اٹھائی ھوئی تھی اور انکے بڑے بڑے مموں کو ھاتھ سے مسل رھے تھے اور دونوں ایک دوسرے کے ھونٹ چوس رھے تھے
ماسٹر جی پھر فرحت کے ممے چوسنے لگ گئے تب فرحت نے بھی اپنی آنکھیں بند کی ھوئی تھی
عظمی بڑے غور سے میری بات سن رھی تھی اسکا رنگ بھی ٹماٹر کی طرح سرخ ھوتا جارھا تھا
عظمی بولی پھر کیا ھوا
تو میں نے کہا ماسٹر جی نے فرحت کا نالا کھول دیا تھا اور اسکی شلوار نیچے گر گئی تھی
اور ماسٹر جی نے اپنا ھاتھ وھاں پر رکھ دیا
تو عظمی بولی کہاں
تو میں نے کہا نیچے
عظمی بولی کہاں نیچے
تو میں نے ایکدم اپنی انگلی عظمی کی پھدی کے پاس لیجا کر اشارے سے کہا یہاں پر
تو عظمی ایکدم کانپ سی گئی
جبکہ میری انگلی صرف اسکی قمیض کو ھی چھوئی تھی
عظمی نے کانپتے ھوے جلدی سے میرا ھاتھ پکڑ کر پیچھے کر دیا
میں نے پھر بتانا شروع کردیا کہ کیسے ماسٹر جی فرحت کی پھدی کو مسلتے رھے اور کیسے فرحت مدہوش ہوکر نیچے بیٹھ گئی اور فرحت نے کیسے میری طرف دیکھا اس دوران عظمی بڑی بےچین سی نظر آرھی تھی اور بار بار اہنے ہونٹوں پر زبان پھیرتی
کہ اچانک عظمی نے اپنا ھاتھ پیچھے کھینچا
تو میں ایک دم چونکا
کہ میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑ کر اپنی گود میں رکھا ھوا تھا اور نیچے سے میرا لن تنا ھوا تھا شاید عظمی نے میرے لن پر اپنا ھاتھ محسوس کر لیا تھا
عظمی بولی شرم نھی آتی گندے کام کرتے ھوے میں نے بڑی معصومیت اور حیرانگی سے کہا اب کیا ھوا ھے
تو عظمی بولی
میں گھر جاکر امی کو بتاتی ھوں کہ آپکا یہ شہزادا جوان ھوگیا ھے اسکی شادی کردو اب
تو میں نے کہا
میری کون سی جوانی تم نے دیکھ لی ھے
اور میں بھی آنٹی کو سب بتا دوں گا
اور میں بھی کہہ دوں گا کہ عظمی سے ہی کردو میری شادی تو عظمی شوخی سے بولی کہ شکل دیکھی اپنی
بچو تم ایک دفعہ گھر تو چلو پھر پتہ چلے گا
میں بھی اندر سے ڈر گیا کہ سالی سچی مُچی ھی نہ بتا دے
میں نے بھی عظمی کو دھمکی دیتے ھوے کہہ دیا
کہ جاو جاو بتا دو مجھے نھی ٹینشن
میں بھی بتا دوں گا کہ تم نے مجھ سے پوچھا تھا تو بتا دیا
تو عظمی نے میرے لن کی طرف دیکھا جو ابھی تک قمیض کو اوپر اٹھاے عظمی کو سلامی دے رھا
عظمی بولی نہ نہ میں تو تمہارے جوان ھونے کا امی کو بتاوں گی
تو میں نے گبھراتے ھوے کہا
کون جوان کونسی جوانی
تو عظمی نے ذور سے میرے لن پر تھپڑ مارا اور ہنستے ھوے بولی
یہ جوانی اور یہ کہہ کر اٹھ کر بھاگ نکلی
اسکے اس طرح تھپڑ مارنے سے میرے لن پر ہلکی سی درد تو ہوئی مگر میں برداشت کرگیا اور ایسے ھی ڈرامائی انداز میں بولا
ھاےےےےے میں مرگیا افففففف
عظمی نے ایک نظر پیچھے میری طرف دیکھا اور ہنستے ھوے بولی
مزا آیا
اور کھالا پھلانگ کر دوسری طرف چلی گئی اور میں بھی اسکے پیچھے بھاگا کہ ٹھہر بتاتا ھوں تجھے کیسے مزا آتا ھے
مجھے پیچھے آتے دیکھ کر عظمی نے گھر کی طرف پگڈنڈی پر بھاگنا شروع کردیا مگر میں نے اسے کچھ دور جاکر پیچھے سے جپھی ڈال کر پکڑ لیا
میرا لن عظمی کی نرم سی گول مٹول پیچھے نکلی ھوئی گانڈ کے ساتھ چپک گیا میرے دونوں ھاتھ اسکے نرم سے پیٹ پر تھے عظمی ہنستے ھوے بولی چھوڑو مجھے چھوڑو مجھے میں امی کو بتاوں گی
میں نے عظمی کو اور کس کے پکڑ لیا اسی چھینا جھپٹی میں میرے لن نے پھر سر اٹھا لیا اور عظمی کی بُنڈ کی دراڑ میں گھسنے کی کوشش کرنے لگ گیا
عظمی نے بھی شاید لن کو اپنی بُنڈ پر محسوس کرلیا تھا اس لیے وہ اور ذیادہ مچلنے لگ گئی اور اپنا آپ مجھ سے چُھڑوانے کی کوشش کرنے لگ گئی مگر مرد مرد ھی ھوتا ھے چاھے چھوٹی عمر کا یا بڑی عمر کا
عظمی کا جب یہ احساس ھوگیا کہ ایسے ذور آزمائی سے جان نھی چھوٹنے والی تو عظمی نیچے بیٹھنے لگ گئی جب عظمی آگے کو جُھک کر نیچے ھونے لگی تو پیچھے سے میرا لن عظمی کی گانڈ کی دراڑ میں کپڑوں کو اندر کی طرف دھکیل چکا تھا اور لن کی ٹوپی اسکی بنڈ کی موری کے اوپر جالگی اور آگے سے میرے دونوں ھاتھ اس کے پیٹ سے کھسکتے ھوے اسے دونوں مموں پر آگئے
عظمی کو نیچے جھک کر بیٹھنا مہنگا پڑا
عظمی کے دونوں ممے جیسے ھی میرے ھاتھ میں آے تو مجھے بھی ایک جھٹکا سا لگا
اور میں نے عظمی کے دونوں مموں کو اپنی مُٹھیوں میں بھر لیا
عظمی کو جب میری اس کاروائی کا احساس ھوا تو عظمی نے رونا شروع کردیا
اور روتے ھوے غصے سے بولی چھوڑو مجھے میں امی کو بتاوں گی تم میرے ساتھ گندی حرکتیں کرتے ھو
عظمی کو روتا دیکھ کر اور اسکی دھمکی سن کر میں بھی ڈر گیا
اور ساتھ ھی میں نے اسے چھوڑ دیا
عظمی ویسے ھی پاوں کے بل بیٹھ کر اپنے دونوں بازو اپنے گھٹنوں پر رکھ کر اور اپنا منہ بازوں میں دے کر رونے لگ گئ
میں اسکی یہ حالت دیکھ کر مزید ڈر گیا اور اسے کہنے لگ گیا کہ
یار اپنی دفعہ تم رونے لگ جاتی ھو خود جو مرضی کرلیتی ھو میں نے کبھی ایسے غصہ کیا ھے
چلو اٹھو نھی تو میں جارھا ھوں تو عظمی روتے ھوے بولی جاو دفعہ ھوجاو میں نے نھی جانا تمہارے ساتھ
تو میں بھی غصے سے اسے وھیں چھوڑ کر گھر کی طرف چل پڑا کچھ ھی آگے جاکر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عظمی بھی سر نیچے کئے آہستہ آہستہ چلی آرھی تھی
کچھ دن ایسے ھی گزر گئے میں بھی ان دنوں ڈرتا آنٹی فوزیہ کے گھر نھی گیا کہ عظمی نے کہیں میری سچی ھی شکایت نہ لگا دی ھو
مگر ایسا کچھ نھی ھوا،
ایک دن ہم سکول میں بیٹھے تھے کہ
فرحت بڑی سی چادر لیے اور نقاب کیے ھوے آگئی اور ہمارے پاس سے گزر کر ماسٹر جی کہ پاس جاکر ماسٹر جی کو سلام کیا
جب فرحت میرے پاس سے گزری تو اس سے بڑی دلکش خوشبو آئی تھی جیسے ابھی نہا کر آئی ھو
فرحت کو دیکھ کر ماسٹر جی کے چہرے پر عجیب سی چمک آئی اور ماسٹر جی نے شیطانی مسکان کے ساتھ فرحت کے سلام کا جواب دیا اور بڑے انداز سے فرحت کو بیٹھنے کا کہا
میں نے فرحت کو دیکھا تو ساتھ بیٹھی عظمی کو کہنی ماری اور فرحت کی طرف آنکھ سے اشارا کیا
تو عظمی نے جوابی کاروائی کرتے ھوے مجھے کہنی ماردی اور منہ بسور کر بولی دفعہ ھو ے
فرحت ماسٹر جی سے آنکھیں مٹک مٹک کر باتیں کرنی تھی جبکہ چہرے پر نقاب تھا صرف آنکھیں ھی نظر آرھی تھی
ماسٹر جی سے بات کرتے ھوے فرحت کے ہونٹوں سے ذیادہ آنکھیں ہل رھی تھی
وہ دونوں بڑی آہستہ آہستہ باتیں کررھے تھے
اور باتوں کے ھی دوران فرحت کبھی کبھی نہ نہ میں سر ہلاتی ایک دفعہ تو اس نے اپنے کان کو ہاتھ لگایا تھا
میں نے بڑی کوشش کی کہ انکی کسی بات کی مجھے سمجھ آجاے مگر
میں ناکام ھی رھا بس انکی باڈی لینگویج سے ھی قیاس کر کے انکی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا
کہ اچانک ماسٹر جی نے ظہیر کو آواز دی اور ظہیر جلدی سے کھڑا ھوا اور سیدھا ماسٹر جی کے پاس جا پہنچا ماسٹر جی نے کرسی پر ھی بیٹھے ہوے ھی ظہیر کو اپنے دائیًں طرف کرسی کے بازو کے پاس کھڑا اسی کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنے ساتھ لگا کر کھڑا کرلیا اورظہیر کے بارے میں فرحت سے باتیں کرنے لگ گیا
بات کرتے کرتے فرحت نے اپنا نقاب اتار دیا تھا
میری جب نظر فرحت پر پڑی
میں تو سکتے کہ عالم میں آگیا
کیا پٹاخہ بن کر آج آئی تھی سالی
مجھے تو پتہ تھا کہ ماسٹر جی سر میں نھی بلکہ لن میں درد ھے ماسٹر جی کو کمرے کی طرف جاتا دیکھ کر میں بھی اٹھ کر ماسٹر جی کی کرسی کے پاس جاکر کھڑا ھوگیا اور ساتھ پڑی ھوی کرسی پر بیٹھ گیا ،
کرسی پر بیٹھتے ھی میں نے عظمی کو اپنی آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوے سر ہلاتے کمرے کی طرف متوجہ کیا تو عظمی نے برا سا منہ بنا کر مجھے گھورا اور پھر اپنی گود میں پڑی کتاب کی طرف دیکھنے لگ گئی
میں نے سب بچوں کو ہوم ورک چیک کروانے کا کہا سب سے پہلے عظمی میرے پاس آئی اور بڑے نخرے اور شوخی سے دستہ مجھے پکڑایا
میں نے عظمی کی طرف دیکھتے ھوے کہا کہ میں کام چیک کر کے کمرے میں جارھا ھوں تم نے آنا ھے تو آجانا اور خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا
عظمی بولی شرم نھی آتی تمہیں ایسے گھٹیا کام کرتے میں نے کہا تمہیں شرم نھی آتی ایسی گھٹیا باتیں سنتے تو عظمی غصے سے مجھے گھورتے ھوے بولی چل چل جلدی کام چیک کر آیا وڈا شریف ذادہ
میں نے کام چیک کرکے دستہ اسے واپس دے دیا
پھر سب بچوں کا جلدی جلدی کام چیک کیا اور جاکر عظمی کے پاس بیٹھ گیا
عظمی میری طرف دیکھتے ھوے بولی گئے نئی اب تو میں نے کہا تم چلو گی تو میں بھی جاوں گا
تو عظمی بولی مجھے مرنے کا شوق نھی
اگر ماسٹر جی کو پتہ چل گیا نہ تو سکول سے بھی مار پڑے گی اور گھر سے بھی
تو میں نے کہا یار گبھراتی کیوں ھو
میں ہوں نہ تمہارے ساتھ
تو عظمی بڑی شوخی سے بولی
وجہ ویکھی اے اپنی آیا وڈا پہلوان
تو میں نے بھی فوری جواب دیتے ھوے کہا کہ کبھی ازما کر دیکھ لینا اس پہلوان کو تو عظمی بولی
کی مطلب اے تیرا
تو میں نے جلدی سے بات کو گھماتے ھوے کہا
میرا مطلب کہ کُشتی کر کے دیکھ لینا
تو عظمی بولی جا جا ویکھے تیرے ورگے
میں نے کہا اچھا یار جانا ھے تو میرے پیچھے کمروں کے پیچھے کی طرف آجانا میں تمہارا تھوڑی دیر انتظار کروں گا ورنہ تمہاری مرضی یہ کہہ کر میں اٹھنے لگا تو عظمی نے میرا بازو پکڑ لیا ،
اور بولی یاسر نہ جاو مجھے ڈر لگ رھا ھے میں نے اپنا بازو چھڑواتے ھوے کہا تم تو ھو ھی ڈرپوک میں نے کہا نہ کہ کچھ نھی ھوتا اور یہ کہہ کر میں کمروں کی طرف چل پڑا کمروں کے پیچھے پہنچ کر میں نے کمرے کی دیوار کی اوٹ سے کلاس کی طرف دیکھا تو مجھے عظمی آتی ھوئی دیکھائی دی،
کچھ ھی دیر بعد عظمی میرے پاس پہنچ گئی میں نے عظمی کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کمرے کی کھڑکی کے پاس آگیا اور یہ کنفرم کرنے لگ گیا کہ ماسٹر جی اور فرحت واقعی دفتر کے پیچھے بنے سٹور میں ھی ہیں یا کہ ابھی دفتر میں ھی ہیں تو میں نے کھڑکی کے پاس ھوکر اندر سے آواز سننے کی کوشش کی تو دونوں جنسیں اندر ھی تھی میں نے عظمی کا پھر ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر کمرے کے پیچھے سے ھوتا ھوا دوسری طرف دروازے کے پاس پہنچ گیا
عظمی پھر بولی یاسر میرا دل گبھرا رھا ھے
میں نے دروازے کے پاس پہنچ کر کلاس کی طرف دیکھا تو سب بچے دوسری طرف منہ کر کے اپنے دھیان میں لگے ھوے تھے
میں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ھوے عظمی خاموش رہنے کا اشارا کیا
اور آہستہ سے دروازہ کھولا اور دونوں اندر داخل ھوگئے کیوں کہ دروازے کی اندر سے کُنڈی نھی تھی صرف باہر ھی کُنڈی لگی ھوئی تھی اندر داخل ہوتے ھی میں نے بڑے آرام سے دروازہ بند کردیا
دوستو
دفتر والے حصہ میں کھڑکی نہ ھونے کی وجہ سے اندھیرا سا تھا
بلکہ دفتر کی پچھلی سائڈ پر کھڑکی ھونے کی وجہ سے اسطرف کافی روشنی تھی جسکا ہمیں یہ فائدہ ھوا کہ ہم دوسری طرف آسانی سے دیکھ سکتے تھے اور دوسری طرف والے ہمیں نھی دیکھ سکتے تھے
میں عظمی کو لیے ھوے پردے کے پاس پہنچا
میں نے آگے ہوکر تھوڑا سا پردہ ہٹایا تو اندر ماسٹر جی نے فرحت کو چارپائی پر لٹایا ھوا تھا اور خود اس کے اوپر لیٹ کر فرحت کے ہونٹ چوس رھے تھے ماسٹر جی کی گانڈ فرحت کی پھدی کے اوپر تھی اور انکا لن فرحت کی پھدی کے ساتھ چپکا ھوا تھا اور فرحت کے ممے ماسٹر جی کے سینے تلے دبے ھوے تھے اور ماسٹر جی فرحت کے ہونٹ چوستے ھوے ساتھ ساتھ اپنی گانڈ کو ہلا ہلا کر اپنا لن فرحت کی پھدی کے ساتھ رگڑ رھے تھے فرحت بھی مزے سے اپنے دونوں بازو ماسٹر جی کی کمر پر رکھ کر زور سے بازوں کو بھینچ رھی تھی
عظمی نے مجھے کندھے سے ہلایا تو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عظمی نے اشارے سے اندر کی صورتحال کا پوچھا تو میں نے اسے اپنے آگے کردیا اور خود اسکے پیچھے کھڑا ھوگیا
عظمی نے جب اندر کا سین دیکھا تو اپنا ھاتھ منہ پر رکھ کر ایکدم پیچھے ہٹی جس سے اسکی گانڈ میرے لن کے ساتھ رگڑ کھا گئی
اور ساتھ ھی دوسرے ھاتھ سے اہنے کانوں کو چھوتے ھوے توبہ توبہ کرنے لگ گئی
میں نے عظمی کے منہ پر ہاتھ رکھا اور سے لیتے ھوے الماری کی دوسری نکر پر آگیا
مجھے ڈر تھا کہ عظمی کوئی آواز نہ نکال دے
میں الماری کے پاس اکر اندر دیکھنے کی جگہ تلاش کرنے لگ گیا تو مجھے ایک جگہ سوراخ نظر آیا جس میں کپڑا ڈوھنسا ھوا تھا میں نے آرام سے کپڑا باہر کی طرف کھینچا تو کافی بڑا سا شگاف نظر آیا شگاف اتنا بڑا تھا کہ ہم دونوں آسانی سے ایک دوسرے کے پیچھے کھڑے ہوکر اندر کا نظارا دیکھ سکتے تھے
میں نے انگلی ہونٹوں پر رکھتے ھوے عظمی کو خوموش رہنے کا اشارہ کیا اور عظمی کو اپنے آگے کھڑا کر دیا
الماری میں خانے بنے ھوے تھے جس میں کچھ کتابیں وغیرہ تھی اور کچھ خانے خالی تھی اور سوراخ والا خانہ بھی خالی تھا
سوراخ تھوڑا نیچے تھا اس لیے عظمی کو تھوڑا جھکنا پڑا جس سے اسکی گانڈ باہر کو نکل آئی اور عظمی تھوڑا سا نیچے جھک کر اپنے دونوں ھاتھ خانے کی پھٹیوں پر رکھ کر اندر کی طرف دیکھنے لگ گئی
میں بھی اسی سٹائل میں اسکے اوپر جھک کر اپنی ٹھوڑی اسکے کندھے پر رکھ کر اندر دیکھنے لگ گیا
عظمی نے سکول یونیفارم پہنا ھوا تھا اور میں نے بھی یونیفارم کا کپڑا ریشمی ٹائپ کا تھا جو قدرے ملائم تھا
میں پیچھے سے بلکل عظمی کی گانڈ کے ساتھ چپک گیا پہلے تو عظمی تھوڑا سا کسمکسائی مگر میں نے اسکا بازو دبا کر اسے کھڑے رھنے کا کہا تو وہ شانتی سے کھڑی ھوگئی،
اندر اب ماسٹر جی فرحت کے اوپر سے اٹھ کر اسکے ساتھ لیٹ گئے تھے جبکہ فرحت بلکل سیدھی ھی لیٹی ھوئی تھی ماسٹر جی سائڈ سے اسکے ساتھ لیٹے ھوے تھے
ماسٹر جی نے اپنی ایک ٹانگ فرحت کی ناف کے نیچے پھدی کے اوپر رکھی ھوئی تھی ایک ھاتھ سے فرحت کا مما دبا رھے تھے
فرحت بھی فُل مزے میں تھی اس نے اپنے دونوں ھاتھ اپنے سر کے پیچھے دائیں بائیں کر کے چارپائی کے سرھانے کی طرف لگے لوہے کے پائپ کو پکڑا ھوا تھا
ماسٹر جی مسلسل فرحت کے ہونٹوں پر لگی سرخی کو چوس چوس کر ختم کررھے تھے اب فرحت کے پنک ہونٹ ھی رہ گئے تھے ہونٹوں پر لگی ساری لپسٹک ماسٹر جی کھا چُکے تھے
پھر ماسٹر جی نے ہونٹوں کو چھوڑا اور فرحت کی ٹھوڑی پر زبان پھیرتے پھیرتے نیچے گلے پر آگئے ماسٹر جی کی لمبی زبان فرحت کہ گلے پر رینگتی کبھی نیچے سینے تک جاتی کبھی اوپر نیچے سے اوپر ٹھوڑی تک آتی فرحت بھی زبان کے لمس کو برداشت نھی کررھی تھی وہ ایکدم کبھی اوپر کو اچھلتی کبھی اپنے سر کو مزید اوپر کی طرف کرکے لمبی سی سسکاری لیتی اور آنکھیں بند کئے فرحت سسییییی افففففف امممممم کی آوازیں نکال رھی تھی ماسٹر جی نے ایسے ھی زبان کو پھیرتے پھیرتے زبان کا رخ دائیں کان کی طرف کیا جیسے ھی ماسٹر کی زبان نے فرحت کے کان کی لو کو ٹچ کیا تو فرحت ایک دم ایسے اچھلی جیسے اسے کرنٹ لگا ھو اور اس نے زور سے سیییی کیا اور دونوں بازوں ماسٹر جی کی کمر کے گرد ڈال کر زور سے جپھی ڈال لی اور نیچے سے گانڈ اٹھا کر ماسٹر جی کے لن کے ساتھ اپنی پھدی کا ملاپ کرانے لگ گئی
ماسٹر جی بھی کسی ماہر چودو کی طرح اپنے حربے استعمال کررھے تھے اور فرحت بھی ماسٹر جی سحر میں پھس چکی تھی
ماسٹر جی نے جب دیکھا کہ فرحت کی کمزوری ادھر ھی ھے تو ماسٹر جی بار بار اپنی زبان کو کان کی لو پر رکھ کر زبان کو پھیرتے پھیرتے پیچھے سے اوپر لے جاتے اور پھر ویسے ھی اوپر سے نیچے تک لے آتے
پھر اچانک ماسٹر جی نے پورا کان منہ میں ڈالا اور نکال کر کان کے اندر
ھاااااا کر کے منہ کی ھوا کان میں ڈالی تو فرحت ایکدم کانپ سی گئی
ماسٹر نے اسی دوران اپنا ایک ھاتھ پیچھے لیجا کر فرحت کو تھوڑا سا اوپر کیا اور پیچھے سے قمیض اوپر کر دی اور پھر ھاتھ کو اگے لاکر آگے سے قمیض اوپر کر کے کندھوں تک لے گئے فرحت کے مموں پر قمیض تھوڑی سی پھنسی تھی مگر ماسٹر جی نے قمیض کے اندر ھاتھ ڈال کر پہلے دایاں مما باھر نکالا بھر بایاں اور قمیض کندھوں تک لے گئے
اب فرحت کا چٹا سفید پیٹ اور کالے رنگ کی برا میں چھپے چٹے سفید ممے نظر آرھے تھے ماسٹر جی نے اپنا ھاتھ برا میں ڈالا اور ایک ممے کو آزاد کردیا پھر وہاں سے ھی ھاتھ کو دوسری طرف لے جا کر دوسرا مما بھی بریزئیر سے نکال دیا۔۔۔
فرحت کے گورے گورے موٹے ممے دیکھ کر میرا تو برا حال ھورھا تھا میرا لن ایکدم اکڑا ھوا تھا اور عظمی کی گانڈ کی دراڑ میں کپڑوں سمیت گھسا ھوا تھا
میرا دھیان لن کی طرف اس لیے گیا کہ میں نے محسوس کیا کہ عظمی اپنی گانڈ کو پیچھے سے ہلا رھی تھی عظمی کہ جزبات کو دیکھ کر اور ماسٹر جی کا سیکس دیکھ کر میرا بھی حوصلہ بڑھ گیا اور میں نے اپنے دونوں ھاتھ آگے کر کے عظمی کے مالٹے کے سائز کے مموں پر رکھ دیے
عظمی نے گردن گھما کر میری طرف ایک نظر دیکھا اور پھر دوسری طرف دیکھنے لگ گئی
عظمی اب مسلسل گانڈ کو دائیں بائیں کر رھی تھی، میں نے آہستہ آہستہ مموں کو دبانا شروع کردیا
عظمی کو بھی یہ سب اچھا لگ رھا تھا اس لیے اس نے اپنا ایک ھاتھ میرے ھاتھ پر رکھ لیا اور جیسے جیسے میں مموں کو دباتا عظمی بھی ویسے ھی میرا ھاتھ دبانے لگ جاتی
اچانک مجھے ایک جھٹکا لگا
جب میں نے اپنا لن عظمی کے نرم نرم ھاتھ میں محسوس کیا عظمی نے اپنا دوسرا ھاتھ پیچھے لیجا کر میرا لن ھاتھ میں پکڑ لیا تھا اور اسے آہستہ آہستہ دبانے لگ گئی
فرحت کو دیکھ کر میں تو حیران ھی رھ گیا کہ سالی آج بڑی لش پش ھوکر آئی ھے آنکھوں میں کاجل ہونٹوں پر سرخ رنگ کی لپسٹک جو اسے بہت ھی سوٹ کررھی تھی
ایک بات تو کنفرم ہوچکی تھی کہ فرحت نے مجھے دیکھا نھی تھا اگر دیکھا ھوتا تو وہ لازمی میری طرف دیکھتی یا پھر کوئی ایسا ردعمل ظاہر کرتی جس سے مجھے شک ھوتا کہ اس نے مجھے دیکھ لیا ھے مگر وہ تو مجھے بلکل نظرانداز کر کے ماسٹر جی کے ساتھ ایسے محو گفتگو تھی جیسے مجھے جانتی ھی نھی
میں بھی آنکھیں پھاڑے فرحت کے چہرے کو ھی دیکھی جارہی تھا
ماسٹر جی نے کچھ دیر ظہیر کی کمر پر تھپ تھپی دے کر اسے واپس کلاس میں بھیج دیا اور پھر فرحت سے باتیں کرنے لگ گیا،،
دوستوں یہاں میں ایک بات بتاتا چلوں کہ سکول میں ماسٹر تو دو ھی تھے جنکا تعارف پہلے کروا چکا ھوں مگر ذیادہ تر سکول میں ایک وقت میں ایک ھی ماسٹر ھوتا تھا جب ایک ھوتا تو دوسرا چھٹی پر ھوتا کیوں کہ اس دور میں گاوں کے سکولوں پر اتنی توجہ نھی ھوتی تھی ماسٹرز تو بس ٹائم پاس ھی کرنے آتے تھے
اس لیے اس دن بھی ماسٹر صفدر اکیلے ھی تھے اس لیے فرحت سے گپ شپ لگا رھے تھے
جس انداز سے دونوں باتیں کر رھے تھے کسی بچے کی بھی توجہ انکی طرف نھی تھی اگر میں نے انکی کرتوت کو دیکھا نہ ھوتا تو شاید میں بھی انکی طرف اتنی توجہ نہ دیتا،
ماسٹر جی اور فرحت اپنی باتوں میں مسلسل مست تھے
میں نے ایک دفعہ پھر عظمی کو کہنی ماری اور آہستہ سے کہا لگتا ھے آج پھر ماسٹر جی فرحت کے ساتھ گندا کام کریں گے
اگر تم نے بھی دیکھنا ھے تو دونوں چلیں گے دیکھنے
تو عظمی بولی
مروانا اے مینوں آپ تے مریں ای مریں گا نال مینوں وی مروائیں گا
میں نے کہا یار کُش نئی ہوندا
تو عظمی بولی نہ بابا نہ میں تے نئی جانا
ہم یہ باتیں کر ھی رھے تھے کہ فرحت جانے کے لیے اٹھی اور پھر سے نقاب کر لیا اور ماسٹر جی کو سلام کر کے واپس جانے لگی فرحت جیسے ھی میرے پاس سے گزری تو مجھے پھر اس سے بھینی بھینی سے تبت پوڈر کی خوشبو آئی اور میں بھی ناک کو سکیڑ کر اس خوشبو سے لطف اندوز ھوا
دوستو جیسا کے میں پہلے بھی بتا چکا ھوں کہ کمرے ہماری کلاس کی مخالف سمت تھے ہماری پیٹھ کمروں کی طرف تھی اور سکول کے گیٹ سے اندر آنے والی کچی سڑک کمروں کے آگے سے ھوتی ھوئی ہماری کلاس کی طرف آتی تھی اگر کوئی سڑک کے راستے سے باھر کی طرف جاتا تو کمروں کے آگے سے گزر کر واپس جاتا
فرحت کے وھاں سے جانے کے فورن بعدماسٹر جی نے سبکو ھوم ورک چیک کرانے کا کہا میں جلدی سے اٹھا اور میرا پہلے ھی دھیان فرحت ھی کی طرف تھا تو میں نے اٹھتے ھی سر گھما کر پیچھے دیکھا تو مجھے فرحت دفتر والے کمرے میں داخل ھوتی نظر آگئی میں نے جلدی سے سر واپس گھما لیا ایسا بس دو تین سیکنڈ میں ھی ھوا
اور میں دستہ پکڑے ماسٹر جی کے پاس جا پہنچا،
ماسٹر جی بولے
تینوں بڑی کالی اے کم چیک کروانا دی پُھپھی نوں ٹیم دتا ھوگیا اے،
میں جھینپ سا گیا اور سر نیچے کیے کھڑا ھوگیا ماسٹر جی نے غصہ سے دستہ میرے ھاتھ سے لیا اور جلدی جلدی ایک نظر چند ورقوں پر ماری اور دستہ مجھے واپس پکڑاتے ھو کہنے لگے
میں ذرہ کمرے میں سونے کے لیے جارھا ھوں میرے سر میں درد ھے
تم سب بچوں کا کام چیک کرو اور خبردار کسی بچے کی آواز بھی میرے کانوں میں پڑی تو تمہاری خیر نھی
میں نے یس سر کہا اور دستہ لیے اپنی جگہ ہر جاکر بیٹھ گیا
اتنے ماسٹر جی اٹھے اور مجھے اپنی جگہ پر آنے کا کہا اور جاتے جاتے مجھے پھر اپنی دھمکی کی یاددھانی کرواتے ہوے کمرے کی طرف چل پڑے
دوسری طرف ماسٹر جی مزے لے لے کر فرحت کے دونوں مموں کو باری باری چوس رھے تھے ماسٹر جی کبھی مموں کے تنے ھوے نپلوں پر گولائی کے گرد زبان پھیرتے کبھی نپلوں کی سائڈ پر براون دائرے پر زبان پھیرتے اور کبھی ممے کو منہ میں بھر کر ہلکی ہلکی دندیاں کاٹتے اور فرحت اس سے فل انجواے کرتی ھوئی ماسٹر کے بالوں میں انگلیاں پھیر رھی تھی اور منہ چھت کی طرف کیے آنکھیں بند کرکے اففففف اسسسسسس سسییییی اففففف کی آوازیں نکال رھی تھی ماسٹر جی تقریباً دس منٹ تک دودہ کے پیالوں کو منہ لگا کر دودہ ختم کرنے کی کوشش کرتے رھے مگر دودہ کہ پیالے تھے کہ چھت کی طرف منہ اٹھاے ماسٹر جی کا منہ چڑھا رھے تھے
ماسٹر جی نے اب فرحت کے تھنوں کو چھوڑا اور مموں کے درمیان لائن میں زبان پھیرتے پھر فرحت کے اوپر اگئے اور زبان کو پیٹ کی طرف لے آے ماسٹر جی کُتے کی طرح زبان کو پیٹ پر پھیر کر پیٹ چاٹ رھے تھے جیسے پیٹ پر شہد لگا ھو
ماسٹر جی نے زبان کو فرحت کی ناف کی طرف گھمایا اور لمبی زبان کی نوک سے
ناف کے سوراخ کے چاروں طرف پھیرنے لگے
جیسے جیسے زبان ناف کے دائرے میں گھومتی فرحت بن پانی کے مچھلی کی طرح تڑپنے لگ جاتی
۔ماسٹر جی اب سیدھے ھوکر گُھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور اپنی قمیض اتارنے لگے پھر ماسٹر جی نے فرحت کا نالا کھولا اسی دوران فرحت نے شلوار کو پکڑ لیا مگر ماسٹر جی نے شلوار کو چھڑوا کر شلوار فرحت کے گُھٹنوں تک کی اور پھر باری باری دونوں ٹانگوں سے شلوار نکال کر نیچے پھینک دی
ماسٹر جی نے جب فرحت کلین شیو بالوں سے پاک چٹی سفید باہر کو پھولی ھوئی پھدی دیکھی تو ماسٹر جی کے منہ میں پانی آگیا
ماسٹر جی نے بنا وقت ضائع کئے اپنی لمبی زبان نکالی اور سیدھی فرحت کی پھدی کے دانے پر رکھ کر کتے کی طرح دانے کو چاٹنے لگ گئے
جیسے ھی ماسٹر کی زبان نے پھدی کے دانے کو چھوا تو فرحت تین فٹ چارپائی سے اچھل کر واپس گری اور اس نے ھاےےےےےےےے میں گئی کہ آواز نکالی
تو ماسٹر جی نے اپنے دونوں ھاتھوں سے فرحت کے بازو پکڑ کر اسکو چارپائی پر دبا دیا کہ اب یہ دوبارا اوپر نہ اٹھے
ماسٹر جی اب زبان کی نوک سے پھدی کے اوپر والے حصہ ھڈی کی جگہ پر کُتے کی طرح زبان کو پھیرنے لگ گئے
فرحت کی حالت ایسی تھی جیسے ابھی اسکی جان نکلنے والی ھو اس نے دونوں ٹانگیں چھت کی طرف کھڑی کی ھوئی تھی اور اسکی ٹانگیں کانپ رھی تھی
اور ماسٹر جی کی زبان اپنا جادو دیکھانے میں مصروف تھی
اِدھر عظمی مسلسل میرا لن دباے جارھی تھی اور میں اسکے ممے دبا رھا تھا
مجھے نجانے کیا سوجی میں نے اپنا یک ھاتھ نیچے کیا اور اس سے پہلے کہ عظمی کچھ سمجھتی میں نے اپنا ہاتھ عظمی کی شلوار میں گھسا دیا اور اپنی چاروں انگلیاں عظمی کی چھوٹی اور نرم سی پھدی پر رکھ کر دبانے لگ گیا
عظمی کو ایکدم کرنٹ سا لگا اس نے جلدی سے میرا ھاتھ پکڑ لیا مگر میں مسلسل ایسے ھی پھدی کو دباے جارھا تھا عظمی نے میرا لن چھوڑ کر اپنی پھدی کے اوپر رکھے ہوے میرے ھاتھ کے اوپر رکھ دیا تھا میرا لن آزاد ھوتے ھی دوبارا عظمی کی گانڈ میں گھس گیا عظمی کو اب مزا آنے لگ گیا تھا پہلے وہ میرا ھاتھ باہر کو کھینچ رھی تھی پھر میرے ھاتھ کو اپنی پھدی پر دبانے لگ گئی اسکی پھدی پہلے ھی کافی گیلی ھوچکی تھی میری انگلیاں آپس مین چپک رھی تھی میں زور سے تیزی تیزی سے ھاتھ اوپر نیچے کرنے لگ گیا اور پیچھے سے گھسے مارنے لگ گیا اور ایک ھاتھ سے ممے کو دبانے لگ گیا عظمی ایک دم کانپنے لگ گئی اور اس نے اپنی گانڈ کو فل پیچھے میرے لن کے ساتھ جوڑ دیا میرا لن عظمی کی موٹی گانڈ کے دراڑ میں پھنس گیا اور اس نے اپنی گانڈ کو زور سے بھینچ کر میرے لن کو جکڑ لیا اور ساتھ ھی اپنی ٹانگوں کو میرے ھاتھ سمیت جکڑ لیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی مجھے اچانک محسوس ھوا جیسے گرم گرم مادہ میری انگلیوں سے بہتا ھوا عظمی کی ٹانگوں سے نیچے جارھا ھے
میں نے غور کیا تو عظمی کی پھدی لِیک کر رھی تھی
ادھر ماسٹر جی نے اپنا کام چَک کے رکھا ھوا تھا
ماسٹر جی فرحت کی پھدی کو کھویا ملائی سمجھ کر مزے لے لے کر کبھی چوستے کبھی چاٹتے ماسٹر جی پھدی چاٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی ایک انگلی کو بجی پھدی کے اندر باہر تیزی سے کر رھے تھے کہ
اچانک فرحت کی ٹانگیں اکڑنا شروع ھوگئی اور فرحت کا جسم ایک دم کانپا اور فرحت کی پھدی سے ایک مادہ اور پانی سے ملی جلی پھوار نکلی جو سیدھی ماسٹر جی کے منہ کے اندر اور باھر گری پھر دوسری تیسری ماسٹر جی کا منہ فرحت کی منی اور پانی سے بھر گیا یہ سب دیکھ کر میرا تو دل خراب ھونے لگ گیا
اور عظمی جب یہ سب دیکھا تو اس نے ایکدم
ہپھھھ کیا اور اس کے منہ سے الٹی نکل کر سیدھی الماری پر گری الٹی کرتے ہوے اس نے کھانسی لی تو اسکی آواز ماسٹر جی اور فرحت نے بھی سن لی
ماسٹر جی کو ایکدم کرنٹ لگا اور چھلانگ مار کر چارپائی سے نیچے اترے اور گبھرا کر پردے کی طرف دیکھتے ھوے بولے کون ھے،،،
ماسٹر جی کو ایکدم کرنٹ لگا اور چھلانگ مار کر چارپائی سے نیچے اترے اور گبھرا کر پردے کی طرف دیکھتے ھوے بولے کون ھے،،،
کون ھے
میرے تو ایکدم سے پاوں تلے سے زمین ھی نکل گئی میں نے عظمی کو بازو سے پکڑا اور دروازے کی طرف دوڑ لگا دی اور جلدی سے باہر نکلے اور جیسے ھی میری سامنے نظر پڑی تو،،،،،،،،،،،
میں نے باہر نکلتے ھی دروازہ آہستہ سے بند کیا اور سامنے کلاس کہ طرف دیکھا تو سب بچے اپنی اپنی گپوں میں مصروف تھے میں نے عظمی کو کہا کہ تم جلدی سے کلاس کی طرف جاو میں کمروں کے پیچھے سے ھو کر آتا ھوں عظمی ابھی بھی ہلکا ہلکا کھانس رھی تھی میں اسے دروازے پر ھی چھوڑ کر کمروں کے پیچھے واش روم کی طرف بھاگ گیا اور جلدی سے واش روم میں داخل ھوگیا پیشاب کر کے میں باہر نکلا اور دوبارا کھڑکی کے پاس جاکر کان لگا کر اندر کے حالات معلوم کرنے لگ گیا
ڈر کے مارے میرا بھی برا حال تھا اور یہ سوچ سوچ کر میرا دل حلق کو آنے والا ھوگیا تھا کہ اگر ماسٹر جی کو پتہ چل گیا کہ ہم دونوں ھی کمرے میں تھے تو ماسٹر جی نے تو ہمیں چھوڑنا ھی نھی مار مار برا حال کردینا ھے اور بدنامی الگ سے ہونی ھے
میں بڑے غور سے اندر کی سچویشن معلوم کرنے کے لیے دھیان اندر کی طرف کیے کھڑا تھا تبھی ماسٹر جی کی آواز آئی کوئی بھی نھی ھے یار تم ایسے ڈر رھی ھو
تو فرحت بولی تم پاگل تو نھی ھوگئے میں نے خود کسی لڑکی کے کھانسنے کی آواز سنی ھے تم کہہ رھے ھو کوئی نھی ھے تب ماسٹر جی کی آواز آئی کہ یار میں دفتر میں دیکھ کر آیا ھوں کوئی بھی نھی ھے اور دروازہ بھی ویسے ھی بند ھے اگر کوئی اندر سے باہر جاتا تو لازمی دروازہ کھلا ھوتا یا دروازہ کھلنے یا بند ھونے کی آواز آتی میں تسلی کرکے آیا ھوں
تو فرحت کی آواز آئی ماسٹر جی
مینوں جان دیو ******دی قسمیں میرا دل پھڑکی جاندا پیا اے
مینوں بڑا ڈر لگ ریا اے
ماسٹر جی پھر منت کرتے ھوے بولے یار تمہیں مجھ پر یقین نھی ھے کیا مجھے اپنی عزت کا خیال نھی تم کیوں پریشان ھورھی ھو
شاید کوئی بچی ادھر سے گزری ھو اس کے کھانسنے کی آواز میں نے بھی سنی تھی مگر
میں دفتر میں دیکھ کر ایا ھوں کوئی بھی نھی ھے
میں نے ان دونوں کی آواز سنی تو سکون کا سانس لیا اور شکر ادا کیا کہ بچ گئے
تبھی فرحت کی آواز آئی
نہ کرو ماسٹر جی اب مجھے جانے دو بہت دیر ھوگئی ھے اب میرا دل نھی کررھا اتنا کچھ تو کر لیا اب کوئی کسر رھ گئی ھے
اور پھر کمرے میں خاموشی ھوگئی
میں نے جلدی سے اپنے دونوں ھاتھ کھڑکی کے بنیرے پر رکھے اور اپنے دونوں پاوں دیوار کے ساتھ لگا کر جمپ مار کر کھڑکی کے اندر دیکھا تو ماسٹر جی پھر فرحت کو جپھی ڈالے اس کے ہونٹ چوس رھے تھے
میں کچھ سیکنڈ ھی ایسے اوپر رھ سکا اور میرے پاوں دیوار سے پھسلتے ھوے واپس زمین پر آگئے
میں نے دو تین ٹرائیاں ماری مگر مجھ سے اوپر نھی ھوا گیا
میں اب سوچ میں پڑ گیا کہ اندر کا نظارا کیسے دیکھوں
کیوں کہ میں دوبارا اندر کمرے میں جانے کا رسک نھی لے سکتا تھا
اچانک میری نظر سکول کی بیرونی دیوار پر پڑی جس کی کافی ساری اینٹیں نیچے گری ہوئی تھی میں جلدی سے دیوار کی طرف گیا اور وہاں بیٹھ کر چھ سات اینٹوں کو اوپر نیچے جوڑ کر اٹھا کر کھڑکی کے پاس لے آیا اور آرام سے نیچے رکھ دی اور انکو دیوار کے ساتھ چوکڑی بنا کر جوڑ دیں میں نے اینٹوں کے اوپر چڑھ کر اندر دیکھنے کی کوشش کی مگر تھوڑا سا فرق بچا
میں جلدی سے پھر دیوار کے پاس گیا اور مزید اینٹیں اٹھا کر لے آیا اور ان اینٹوں کے اوپر ساری اینٹیں جوڑ دی اب کافی اونچی چوکڑی بن چکی تھی
میں نے ایک ھاتھ کھڑکی کی بنی پر رکھا اور جمپ مار کر اینٹوں کی چوکڑی کے اوپر چڑھ گیا،
اب میں آسانی سے اندر کا سارا نظارہ دیکھ سکتا تھا
،،،
ماسٹر جی نے فرحت کھڑے کھڑے فرحت کی قمیض اوپر کی ھوئی تھی اور نیچے ھوکر اسکے ممے چوس رھے تھے فرحت بھی اب سکون سے اہنے ممے چسوا رھی تھی ماسٹر جی نے اپنے دونوں ھاتھ اسکی گانڈ کے پیچھے رکھے ھوے تھے اور گانڈ کی دونوں پھاڑیوں کو پکڑ کر دبا رھے تھے
اور ماسٹر جی اپنا لن فرحت کی ٹانگوں کے درمیان پھنسا کہ گھسے مار رھے تھے فرحت کی دونوں آنکھیں بند تھی اور ماسٹر کی کمر کے گرد دونوں بازو ڈال کر ہاتھ ماسٹر جی کی کمر پر پھیر رھی تھی
،،
استاد جی یہ منظر دیکھ کر میرا لن پھر تن گیا اور میں اپنے لن کو مسلنے لگ گیا
ماسٹر جی نے ایک ھاتھ فرحت کی گانڈ سے ہٹایا اور آگے لا کر اسکا نالا کھول دیا نالا کھلتے ھی فرحت کی شلوار اسکی پاوں میں گر گئی اور ماسٹر جی نے اپنا ھاتھ فرحت کی پھدی پر رکھ کر پھدی کو مسلنے لگ گیا اور ساتھ ساتھ اس کا مما بھی چوسنے لگ گیا
کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا
پھر ماسٹر جی نے فرحت کی قمیض جو پہلے ھی اسکے کندھوں تک تھی اسکو اتارنے کی کوشش کی مگر فرحت نے منع کردیا کہ اگر کوئی آگیا تو اتنی جلدی میں قمیض نھی پہن سکوں گی
ماسٹر جی نے بھی ذیادہ اصرار نھی کیا اور اپنی قمیض اتار دی اور فرحت کو چارپائی پر لٹا دیا اب فرحت بلکل ننگی چارپائی پر لیٹی ھوئی تھی اور اس نے دونوں ٹانگیں سیدھی کر کے پھدی کو چھپانے کی کوشش کررھی تھی قمیض ویسے ھی اس کے گلے تک تھی فرحت کے ممے بلکل کنواری لڑکی کی طرح تنے ھوے تھے اور مموں پر ہلکے بروان کلر کے نپل بھی تنے ھوے تھے فرحت کا جسم دیکھ کر کوئی کہہ نھی سکتا تھا کہ اسکا دس سال کا بیٹا بھی ھے
لیٹنے کی وجہ سے اسکا پیٹ بھی بلکل ساتھ لگا ھوا تھا فرحت کی ٹانگوں پر بال بھی نہ ھونے کے برابر تھے شاید گولڈن کلر کے بال تھے جو دور سے مجھے نظر نھی آرھے تھے لگ ایسے رھا تھا جیسے اس نے ویکس کی ھوئی ھے جبکہ اس دور میں ویکس وغیرہ کا تصور بھی نھی کیا جاتا تھا بس بال صفا پوڈر ھوتا تھا جس سے پھدی کی بال صاف کیے جاتے تھے
فرحت کا چہرے کا رنگ تو سفید تھا ھی مگر اسکے جسم کا کلر کسی کشمیری بٹنی سے کم نھی تھا
میرا دور سے دیکھ کر ھی برا حال ھوئی جا رھا تھا تو سوچیں جو اس کے جسم کے ساتھ مستیاں کررھا تھا اسکا کیا حال ھوگا
ماسٹر جی فرحت کو لٹا کر چارپائی کے پاس کھڑے ھوگئے اور اپنی شلوار کا نالا کھولا اور شلوار اتار دی
جیسے ھی ماسٹر جی کی شلوار اتری تو ماسٹر جی کا شیش ناگ لہراتا ھوا سامنے کھڑا تھا
ماسٹر جی کا لوڑا تھا کہ
کھوتے کا لن
ماسٹر جی کا لن دیکھتے ھی میرے منہ سے بےساختہ نکلا
او تواڈی پین نوں ایڈا وڈا لن اففففف
فرحت کا جب دھیان ماسٹر جی کے لن کی طرف گیا تو فرحت کی آنکھوں میں عجیب سی چمک آئی اور اسکا منہ کھلے کا کھلا رھ گیا ماسٹر جی نے اپنے لن کے پھولے ھوے ٹوپے پر ہاتھ پھیرا اور فرحت کے منہ کی طرف. لن کو کر کے اسکے قریب ھوگئے
فرحت ایک دم گبھرا گئی اور منہ دوسری طرف کر لیا
ماسٹر نے فرحت کے سر کو پکڑ کر اپنے لن کی طرف کیا اور لن کو ھاتھ میں پکڑ کر فرحت کے ہونٹوں پر مارنے لگ گئے فرحت نے ھاتھ اپنے ھونٹوں پر رکھتے ھو ے نھی میں سر ہلایا
تو ماسٹر جی نے فرحت کا ھاتھ اسکے منہ سے علیحدہ کرتے ھوے کہا یار بس تھوڑا سا پیار کردو
تو فرحت بولی
میں نے یہ گندہ کام کبھی نھی کیا
اے تے ہے وی ایڈا وڈا تے اینا موٹا نہ بابا میرے منہ وچ نئی آنا
ماسٹر جی نے پھر منت کرتے ھوے کہا
یار بس ایک پوری کردو اور لن کی ٹوپی کو فرحت کے ہونٹوں پر رکھ دیا فرحت نے برا سا منہ بنا کر دو تین چُمیاں ٹوپے پر لے لیں اور ھاتھ سے بس کا اشارہ کردیا
مگر ماسٹر جی کہاں باز آنے والے تھے ماسٹر جی نے پھر سے منتیں کردی کہ بس تھوڑا سا منہ میں ڈال لو
تو فرحت نھی نھی کرتی رھی مگر ماسٹر جی نے لن کو اسکے منہ پر رکھ کر ہلکا سا پُش کیا تو ٹوپے کی دباو سے مجبوراً فرحت کو منہ کھولنا پڑا اور فرحت نے بڑا سا منہ کھول کر صرف ٹوپا ھی منہ میں لیا اور تھوڑا سا چوس کر باہر نکال دیا اور الٹی کرنے کے سٹائل سے چارپائی کے سائڈ پر ھوکر نیچے تھوکنے لگ گئی اور کھانسنے لگ گئی
اور کھانسے ھوے بولی میرا سانس ھی بند کردیا اینا موٹا لن اے
ماسٹر جی بولے. یار ابھی تو صرف ٹوپا ھی اندر کیا تھا اور تم اسے کرنے لگ گئی ھو ماسٹر جی نے پھر لن فرحت کے ہونٹوں پر پھیرا اور اسے منہ کھولنے کو کہا تو فرحت نے آآآ کر کے منہ کھول دیا اور ماسٹر جی نے ایکدم کافی سارا لن اسکے منہ میں ٹھونس دیا اور ساتھ ھے اسکے سر کو مضبوطی سے اس انداز میں پکڑ لیا کے فرحت اپنا سر پیچھے کر کے لوڑا منہ سے نہ نکال لے. اور ماسٹر جی ساتھ ھی گھسے مارنے لگ گئے
فرحت کی منہ میں آدھے سے بھی کم لن گیا ھوا تھا
مگر فرحت کا منہ پھولا ھوا تھا اور اس کے منہ سے غوں غوں غوں کی آوازیں آرھی تھی ایکدم فرحت کی آنکھیں باہر کو آنے لگ گئی اور انکھوں سے پانی نکلنا شروع ھوگیا اور ذور لگا کر ماسٹر سے اپنا سر چھڑوانے لگ گئی
آخر کار ماسٹر جی کو بھی بیچاری پر ترس آگیا اور لن کو اسکے منہ سے نکال دیا
لن نکلتے ھی فرحت زور زور سے کھانستے ھوے اٹھ کر بیٹھ گئی اور اپنا ھاتھ گلے پر
پھیرتی ھوئی لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی
ماسٹر جی جلدی سے اسکے پاس بیٹھ گئے اور اس سے معافی مانگنے لگ گئے
تو فرحت بولی تم نے مجھے جانور سمجھ رکھا ھے ایسے بھی کوئی کرتا ھے حد ھے تمہاری میرا سانس بند ھونے لگا تھا اور تمہیں اپنے مزے کی پڑی ھوئی تھی
میں جارھی ھوں میں نے نھی کچھ کروانا
تو ماسٹر جی شرمندہ سے گبھراے ھوے بولے کہ یار غلطی ھوگئی
اچھا لیٹو اب نھی کرتا
فرحت کہنے لگی میں لیٹوں گی تو ھی کچھ کرو گے چھوڑو مجھے جانے دو
ماسٹر جی نے جب دیکھا کہ اتنی خواری کے بعد بھی شکار ہاتھ سے نکل رھا ھے تو ماسٹر جی نے جلدی سے پینترا پلٹا اور مسکے لگانا شروع ھوگئی
کہ یار تم خوبصورت ھی اتنی ھو کنواری لڑکی سے بڑھ کر تمہارا جسم ھے اتنے پیارے ہونٹ ہیں کہ مجھ سے رھا نھی گیا
میں نے بھی تمہاری پھدی کو زبان سے چاٹا ھے
کیا کمال کی چیز ھو تم لگتا ھی نھی کہ تم شادی شدہ ھو اور ایک بچے کی ماں ھو
میں کیا کروں مجھے سمجھ ھی نھی آرھا تھا کہ میں کیا کررھا ھوں
عورت کی سب سے بڑی کمزوری اسکی تعریف ھے اور ماسٹر جی کا حربہ کامیاب ھوگیا اور ماسٹر جی نے تعریف کرتے کرتے فرحت کو پھر چار پائی پر لٹا کر اسکے اوپر آگئے
ماسٹر جی نے اوپر آتے ھی کچھ دیر فرحت کے مموں کو باری باری چوسا اور ایک ھاتھ سے پھدی کو مسلا تو فرحت پھر گرم ھوگئی
ماسٹر جی تھوڑا نیچے ھوے اور فرحت کی دونوں ٹانگوں کو پکڑ کر اوپر کیا اور اپنے لوڑے کے موٹے ٹوپے کو فرحت کی پھدی کے لبوں کے درمیان اوپر نیچے کرنے لگ گئے
تو فرحت نے کہا
ماسٹر جی مجھے ڈر لگ رھا ھے اتنا بڑا لن ھے آپکا میرے خاوند کا تو اس سے بھی آدھا لن تھا مجھے تو اس سے بھی درد ھونے لگ جاتی تھی
اب یہ اتنا بڑا لن میں کیسے لے سکوں گی
تو ماسٹر جی نے کہا
میری جان کچھ نھی ھوتا بس برداشت کرنا پھر دیکھنا کیسے مزہ ھی مزہ آتا ھے
ایسے باتیں کرتے کرتے اور فرحت کو تسلیان دیتے ھوے ماسٹر جی نے فرحت کی ٹانگوں کو اپنے کندھوں پر رکھا اور ٹانگوں کو کندھوں سے لے کر فرحت کے اوپر جھک گئے
اب فرحت کی ٹانگیں مل ماسٹر جی کے کندھوں پر تھی اور ماسٹر جی اپنا سر فرحت کے منہ کے قریب لے گئے اور اپنے دونوں ھاتھوں کو فرحت کی ٹانگوں کے نیچے سے گزار کر اسکے کندھوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا فرحت کے پیر اسکے سر کے پاس پہنچ گئے
نیچے سے ماسٹر جی کا ٹوپا پہلے ھی پھدی کے ہونٹوں میں پھنسا ھوا تھا
اس سے پہلے کہ فرحت کچھ بولتی یا سمجھتی ماسٹر جی نے ایک جاندار گھسا مارا پھدی گیلی ھونے کی وجہ سے لن بغیر کسی رکاوٹ کے پھدی کے ریشوں کو چیرتا ھوا اندر گہرائی تک جا پہنچا اور ٹوپا جاکر بچے دانی کا حال چال پوچھنے لگ گیا
جیسے ھی لوڑے نے اپنا کام کیا فرحت کے منہ سے ایک ذور دار چیخ نکلی
ھاےےےےےےےے میں مر گئی
ھاےےےےےےے
ھاےےےےےےے وے ماسٹرا ماردتا ای
ھاےےےےےےے وے کی کردتا ای
ھاےےےےےےےے امممییییی میری پھدی گئی ھاےےےےےے
اففففففففففف
فرحت کی چیخ اتنی ذور کی تھی کہ اگر کوئی کمرے کے تھوڑے فاصلے پر بھی ھوتا تو اس کی چیخ سن لیتا فر حت کا یہ حال دیکھ کر میں بھی ایک دفعہ کانپ گیا
ماسٹر جی بھی ایک دفعہ ہل گئے اور جلدی سے ایک ھاتھ. فرحت کے منہ پر رکھ دیا اور لن اندر ھی جڑ تک رھنے دیا
فرحت ایسے تڑپ رھی تھی جیسے پہلی دفعہ چدی ھو
اور حقیقتاً واقعی فرحت کے حال پر ترس آرھا تھا
فرحت کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور اپنے دونوں ھاتھ ماسٹر کے سینے پر رکھ کر ماسٹر جی کو پیچھے دھکیل رھی تھی اور کبھی سینے پر مکے مار رھی تھی
کچھ دیر ایسے ھی چلتا رھا دو منٹ تک ماسٹر جی نے کوئی حرکت نہ کی بس فرحت کے منہ کو چومتے رھے اور اپنے ہونٹوں سے اسکے آنسو چُنتے رھے
پھر ماسٹر نے فرحت کی ٹانگوں کو چھوڑ دیا فرحت نے ٹانگیں ماسٹر جی کے کندھوں سے نیچے اتار کر سیدھی کرلی اور دو تین دفعہ ٹانگوں کو اٹھا اٹھا کر چار پائی پر مارتی رھی
کچھ دیر بعد فرحت بھی کچھ ریلکس ھوئی تو ماسٹر جی نے اہستہ آہستہ لن کو اندر باہر کرنا شروع کردیا
فرحت ھوے ھوے افففف سسسسسیییی کرتی رھی اور ساتھ ساتھ ہولی کر ہولی کر ہولی کر کہتی رھی
تقریبا پانچ منٹ تک ایسے ھی دونوں لگے رھے پھر فرحت کو بھی مزہ آنے لگ گیا اور ماسٹر جی کی بھی گھسوں کی سپیڈ تیز ھوتی گئی
آخر کار لن اور پھدی کی صلح ھوگئی ،،
،،
اب فرحت بھی گانڈ اٹھا اٹھا کر پورا لن اندر لے رھی تھی ماسٹر جی نے ایک بار پھر فرحت کی ٹانگیں اوپر کر دیں اور زور زور سے گھسے مارنے لگ گئے
فرحت کے ممے بھی اسی ردھم میں اوپر نیچے ھورھے تھے اور فرحت بھی سسکاریاں لے رھے تھی
فرحت نے اب دونوں ھاتھ ماسٹر کی گانڈ پر رکھ لیے اور ماسٹر کی گانڈ کو پھدی کی طرف دھکیلتی
اور منہ سے عجیب عجیب آوازیں نکالتی
ماسٹر اگے کر ماااسٹر ساررررراا اگگگے کردے سارررا اگگے کردے
انکھیں بند
منہ کھلا
اور کہے جارھی تھی
سسسسسی پورا کردے سارا کردے زورررر دی ماسٹر ھاااں انج ای ایتھے مار ایتھے مار سٹ. آآ ھااااا افففففف
اچانک فرحت کی ٹانگیں کانپنا شروع ھوئی اور جسم اکڑنے لگ گیا
اور ایکدم بولی میں گئی میں گئی گئی گئییییییییی
اور ساتھ ھی ماسٹر جی کو کس کے جپھی ڈال کر اسکا منہ چومنے لگ گئی اور یکدم جسم ڈھیلا چھوڑ کر لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی
ادھر ماسٹر جی کی بھی سپیڈ تیز ھوگئی چند گھسوں کے بعد یکدم ماسٹر جی نے اپنا لوڑا پھدی سے باھر نکالا اور فرحت کے مموں کی طرف ٹوپا کر کے تیز تیز مٹھ مارنے لگ گئے
پھر ایک لمبی پچکاری لن سے نکلی جو سیدھی فرحت کے مموں پر گری اور کچھ چھینٹے فرحت کے منہ پر پڑے فرحت نے اسی وقت اپنا ھاتھ منہ کے اگے کر لیا
پھر دوسری پچکاری مموں سے پچھے پھر تیسری پچکاری ناف پر اور پھر ماسٹر جی کے ہاتھ سے منی بہتی ھوئی پھدی کے اوپر گرنے لگ گئ ماسٹر جی بھی لمبے لمبے سانس لے رھے تھے
یہ سب دیکھتے میں اپنے لن کو مسلنے میں مصروف تھا اور میرا سارا دھیان اندر ھی تھا مجھے یہ بھی احساس تک نہ ھوا کے میرے پیچھے بھی کوئی کھڑا ھے وہ تو مجھے تب پتہ چلا جب کسی نے میری شلوار کو پکڑ کر نیچے کھینچا جس سے میری لاسٹک والی شلوار نیچے چلی گئی اور میں نے جیسے ھی گبھرا کر پیچھے دیکھا تو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
میری شلوار گُھٹنوں تک نیچے چلی گئی تھی میں نے جلدی سے دونوں ھاتھ سے شلوار کو اوپر کرتے ہوے پیچھے مڑتے دیکھا تو عظمی اپنے منہ پر ھاتھ رکھے ہنسی جارھی تھی
میں نے اسے گھور کر دیکھا اور چھلانگ مار کر اینٹوں سے نیچے اتر گیا
جب میں نے چھلانگ لگائی تو میرے لن نے قمیض کو آگے سے اٹھایا ھوا تھا عظمی نے بھی ایک نظر میری اٹھی ھوئی قمیض کو دیکھا اور منہ دوسری طرف کر لیا میں نے اسے بازو سے پکڑ کر زور سے ہلایا اور غصے سے اشارہ کرتے ھوے پوچھا کہ کیا تکلیف ھے تو وہ کچھ بولنے ھی لگی تھی کہ میں نے اسے انگلی منہ پر رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور اسکا ھاتھ پکڑ کر کلاس کی طرف چل دیا
میں تیز تیز قدم اٹھانے اسے لے کر جارھا تھا
۔۔۔
کلاس میں پہنچ کر عظمی اپنی جگہ پر بیٹھ گئی اور میں کرسی پر کمروں کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا
۔۔۔
اور عظمی کی طرف گھورتے ھوے دیکھ کر اپنے منہ پر ھاتھ پھیر کر اسے انگلی دیکھاتے ھوے اشارہ کیا کہ دیکھ لوں گا تجھے
۔۔
کچھ دیر بعد ماسٹر جی کمرے سے نکل کر کلاس کی طرف آتے دیکھائی دئے میں نے جان بوجھ کر ماسٹر جی کو ایسے نظر انداز کیا جیسے میں نے انہیں دیکھا ھی نھی
۔۔۔
ماسٹر جی اتنے میں میرے قریب سے گزرتے ھوے میرے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوے بولے۔۔۔۔
سنا چھوٹے ماسٹر کی ہوریا اے،
میں ایکدم ایسے چونکہ جیسے ماسٹر جی کی آمد کا مجھے پتہ ھی نھی چلا
میں جلدی سے کھڑا ھوگیا اور بولا
سر بچوں کی نگرانی کررھا ھوں آپکی طبعیت کیسی ھے اب
ماسٹر جی کے چہرے پر شیطانی سی مسکراہٹ آئی اور ماسٹر جی نے کرسی پر بیٹھتے ھوے ٹانگیں سیدھی کی اور دونوں ھاتھ سر سے اوپر لیجا کر ایک لمبی سی جمائی لی اور بولے ٹھیک ھے اب جاو شاباش جا کر اپنی جگہ پر بیٹھ جاو
میں جاکر عظمی کے پاس بیٹھ گیا
مجھے پھر نھی پتہ چلا کہ فرحت کب گئی
فرحت نے مجھے کہنی ماری اور بولی
مروان لگا سی نا اج تو میں نے کہا بلے بھی بلے الٹی تم نے کی کھانسی تمہاری نکلی اور مروانے میں لگا تھا
تو عظمی نے گھورتے ھوے کہا
اینی دیر اوتھے کھڑا کی کردا ریا سی
،
میں نے کہا کچھ نھی بس ویسے ھی کھڑا تھا
تو اس نے مجھے پھر کہنی ماری اور بولی سہی سہی بتا کیا دیکھ رھا تھا
ماسٹر جی کو پتہ چل گیا کہ نھی
میں نے کہا
تم گبھراو مت کچھ نھی ھوا
اور میں نے ماسٹر کی طرف اشارہ کرتے ھوے
اسے خاموش کروا دیا کہ راستے میں سب بتا دوں گا،
ماسٹر جی آنکھیں بند کیے کرسی پر بیٹھے کرسی کو آگے پیچھے کر کر کے پتہ نھی کس سوچ میں گم تھے
پھر ہمیں چھٹی ھوگئی اور گھر جاتے وقت کافی سارے بچے ہمارے ساتھ ساتھ تھے اس لیے عظمی سے کچھ خاص بات نہ ھو سکی
شام کو میں کھیلنے کے لیے گھر سے نکل کر سیدھا آنٹی فوزیہ کے گھر گیا
تو جیسے ھی میں دروازے سے اندر داخل ہوا تو آنٹی فوزیہ دروازے کے بلکل ساتھ ھی لگے ہوے نلکے سے برتن دھو رھی تھی،
میں نے آنٹی کو سلام کیا تو آنٹی نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور مسکرا کر سلام کا جواب دیا ۔۔۔۔
آنٹی فوزیہ نے پیلے رنگ کی قمیض اور سفید شلوار پہنی ھوئی تھی اور کُھرے کی بنی پر بیٹھ کر برتن دھونے میں مصروف ھوگئی
میں بھی آنٹی کے پاس ھی کھڑا ھوگیا آنٹی پاوں کے بل بیٹھی تھی اس لیے انہوں نے پیچھے سے قمیض اٹھا کر آگے دونوں ٹانگوں میں دی ھوئی تھی کہ قمیض پیچھے سے گیلی نہ ھو
اور آنٹی کی گانڈ پاوں کے بل بیٹھنے سے پیچھے کو نکلی ھوئی تھی اور انکی تھوڑی سی کمر بھی ننگی ھورھی تھی میری کمبخت آنکھوں نے کھڑے ھوتے ھی آنٹی کی گانڈ کا اچھے سے ایکسرا کیا
میں نے آنٹی سے عظمی لوگوں کا پوچھا تو آنٹی نے بتایا کہ دونوں کمرے میں پڑھ رھی ہیں
میں پہلے تو کمرے کی طرف چلنے لگا مگر آنٹی کے جسم کا نظارا کرنے کے لیے فلحال اپنا ارادہ ملتوی کردیا،
اور نلکے کی ہتھی پکڑا کر اوپر نیچے کرتے ھوے آنٹی سے بولا
آنٹی میں نلکا گیڑتا ھوں آپ آرام سے برتن دھو لو
آنٹی بولی پتر تم جاو اندر میں دھو لوں گی تم ایسے اپنے کپڑے گیلے کرو گے مگر میں نے آنٹی کو کہا کہ کچھ نھی ھوتا
اور زور زور سے نلکے کی ہتھی کو گیڑتے ھو آنٹی کے جسم کا معائنہ کرنے لگا
آنٹی نے لان کی قمیض پہنی ھوئی تھی اور پیلے رنگ میں سے کالے رنگ کے برا کے سٹرپ صاف نظر آرھے تھے
آنٹی جب جھک کر برتن کو مانجھتی تو پیچھے سے اپنی گانڈ کو بھی اوپر نیچے کرتی
برتن دھوتے آنٹی کی شلوار ایک سائڈ سے کافی گیلی ھوگئی تھی اور اس میں سے انکا گورا جسم دعوت نظارا دے رھا تھا
آنٹی کی گانڈ کی ایک سائڈ صاف نظر آرھی تھی میں چوری چوری نظر گھما کر دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرتا رھا
تب تک آنٹی نے سارے برتن دھوکر لوھے کی ٹوکری میں رکھ لیے اور کھڑی ھوکر پیچھے سے گانڈ میں پھنسی شلوار کو نکالا اور قمیض کو درست کیا،
تو میں برتنوں کی ٹوکری کو اٹھانے لگا
آنٹی بولی پتر رہنے دے
میں خود اٹھا لوں گی تیرے سے برتن گر جائیں گے،
اور یہ کہہ کر آنٹی میرے سامنے ھی نیچے کو ٹوکری اٹھانے کے لیے جھکی تو آنٹی کے گلے پر میری بے ساختہ نظر پڑی ان کے چٹے چٹے مموں کا نظارا بلکل میرے سامنے تھا
کالے بریزئیر میں انکے گورے ممے کیا قیامت لگ رھے تھے
اوپر سے پیلا رنگ انپر بہت جچ رھا تھا آنٹی نے برتنوں کی ٹوکری اٹھائی اور سیدھی ھوگئی،
میں سکتے کے عالم میں کھڑا ویسے ھی آنٹی کی چھاتی کو دیکھے جارھا تھا
آنٹی نے مجھے آواز دی یاسرررر
میں ایک دم ہڑبڑا گیا اور آنٹی کی طرف گبھراے ھوے بولا
ججججی آنٹی تو آنٹی
مسکرا کر بولی
کون سے خیالوں میں کھو جاتے ھو
میں نے کہا کہیں نھی آنٹی جی
تو آنٹی بولی چلو کمرے میں
اور آنٹی میرے آگے آگے برتنوں کی ٹوکری کو اٹھاے اپنے پیٹ کے ساتھ لگاے چلی جارھی تھی
میں آنٹی کے پیچھے انکی ہلتی ھوئی گانڈ کو گھورتے چلا جارھا تھا
آنٹی کمرے میں داخل ھو کر سامنے دیوار پر لگے لکڑی کے پھٹے پر برتن جوڑنے لگ گئی اور میں عظمی اور نسرین کے پاس جا کر کھڑا ھوگیا
،،،،
اور تالی مار کر بولا واہ جی واہ بڑی پڑھائیاں ھو رھی ہیں،
نسرین بولی
ہاں تینوں کوئی تکلیف اے
آپ تے پڑنا نئی دوسریاں نوں گلاں کرنیاں،
میں نے بھی جواباً کہا
جناں مرضی پڑ لو ہُناں تے فیل ای اے
تو اس دفعہ عظمی بولی
تم تو ہر دفعہ فرسٹ آتے ھو جیسے
میں نے کہا
***
شکر ھے فرسٹ ھی آتا ھوں
تمہاری طرح رشوت دے کر پاس نھی ہوتا
تو نسرین جھلا کر بولی
اممییییی اسے بولو ہمیں پڑھنے دے خود تو سارا دن آوارہ پھرتا ھے اور دوسروں کو پڑھنے نھی دیتا،
تو آنٹی جو پہلے ھی ہماری باتوں پر ہنس رھی تھی
ہنستے ھوے بولی
بھائی ھے تمہارا. اب تم لوگوں کے ساتھ نھی مزاق کرے گا تو کس سے کرے گا،
تو عظمی بولی امی آپ کی ان ھی باتوں نے اسے سر پر چڑھا رکھا ھے
تو انٹی غصے سے بولی بکواس نہ کر تے چپ کر کے پڑھ،
تو عظمی نے غصہ سے اپنی کتابیں بیگ میں ڈالنا شروع کردی کہ پڑھ لیا جتنا پڑھنا تھا
اب یہ شیطان کا چیلا آگیا اس نے پڑھنے دینا ھے،
تو میں نے آنٹی کی طرف بڑا معصوم سا چہرہ بنا کر دیکھا اور کہا آنٹی جی دیکھ لیں مجھے کیا کہہ رھی ھے تو آنٹی بولی
ایدی زبان وڈن والی ھوئی اے جو منہ وچ اندہ پونکدیندی اے
تو عظمی مجھے گھورنے لگ گئی
میں نے عظمی کی طرف دیکھا اور زبان نکال کر اسے منہ چڑایا تو وہ مجھے مارنے کے لیے بھاگی تو میں کمرے سے باھر کو بھاگا اور وہ میرے پیچھے پیچھے بھاگتی آگئی
میں گلی میں نکل کر کھیتوں کی طرف بھاگا اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو عظمی بھی تیز تیز چلتی جوتا ھاتھ میں پکڑے آرھی تھی
میں رک گیا اور اس کی طرف دیکھ کر پھر زبان نکال کر منہ چڑایا تو اس نے ھاتھ میں پکڑا جوتا میری طرف پھینکا جو مجھ سے کچھ ھی دور گرا میں نے آگے بڑھ کر اسکا جوتا اٹھایا اور کھیت کی طرف بھاگ گیا
وہ بھی ایک پاوں میں جوتا پہنے اور ایک ننگے پاوں سے ھی مجھے برا بھلا کہتی میرے پیچھے بھاگی
میں کھیت میں پہنچا تو کافی سارے بچے کھیل رھے تھے
میں کپاس کے کھیت کے باہر پگڈنڈی پر بیٹھ کر گلی کی طرف دیکھنے لگ گیا
تو مجھے عظمی بڑے غصے میں آتی دیکھائی دی اور سیدھا میری ھی طرف رخ کیا اور کچھ فاصلے پر آکر کھڑی ھوگئی اور نیچے کھیت سے ایک بڑا سا مٹی ڈھیلا اٹھا کر مجھے مارنے کے لیے ڈرانے لگ گئی اور کہنے لگی
جُتی دے میری چولے نئی تے تیرا سَر پاڑ دینا اے
میں نے اسے دیکھ کر اپنے دونوں ھاتھ کانوں کو لگا کر اس سے معافی مانگنے لگ گیا
اور اسکی جوتی کا پاوں اسکی طرف پھینک دیا
عظمی آگے آئی اور جوتا پہن کر میرے سامنے کھڑی ھوگئی اور بولی
ہُن پج پتر،،
کتھے پجیں گا
اور زور سے مٹی کا ڈھیلا میرے پیروں میں مارا میں نے دونوں پاوں اوپر کرلیے
اور اس سے کہنے لگ گیا بس کر یار ہن بچے دی جان لینی اے
تو عظمی بلکل میرے سامنے اپنے دونوں ھاتھ اپنی
وکھیوں پر رکھے بڑی شوخی سے بولی
بچہ تے ویکھو
وڈے وڈے کم کردا اے تے ہے بچہ واہ واہ
تو میں نے کہا اچھا بابا اب معاف بھی کردو
تو وہ میرے ساتھ ھی پگڈنڈی پر بیٹھ گئی
میں نے کہا اگر جناب کا غصہ اتر گیا ھے تو کھیلیں
تو عظمی بولی بچُو میں پڑھائی چھوڑ کر تیرے پیچھے کھیلنے نھی آئی تو میں حیران ھوتے اسکی طرف دیکھ کر بولا تو جناب کس لیے آئی ہیں،
تو عظمی بولی سہی سہی بتاو کہ کھڑکی سے کیا دیکھ رھے تھے،
تو میں نے بڑی شوخی سے اسکی طرف دیکھا اور اسکا کان پکڑ کر کھینچتے ھوے کہا
اچھااااا اے سار ڈرامہ کھڑکی والی گَل پُچھن واسطے کیتا سی،
تو عظمی نے اپنا کان چُھڑواتے ھوے بولی آئیییییی میرا کَن چھڈ باندر جیا نہ ھوے تے
تو میں نے اسکا کان چھوڑ دیا
تو وہ بولی ایسے امی نے آنے نھی دینا تھا
تو میں نے اسکی گال پر چُٹکی کاٹتے ھوے کہا بڑی تیز ھوگئی ایں،
تو عظمی نے جلدی سے اپنی گال کو پیچھے کیا اور میرا ھاتھ پکڑ کر اپنی گود میں رکھا اور بولی چلو اب بتا بھی دو
تو میں نے کہا یار یہ کوئی جگہ ھے
بات کرنے کی یہاں سب بچے ہیں کسی نے ہماری بات سن لی تو،،،،،،
تو عظمی بولی
تو پھر کہاں جاکر بتانا ھے تو میں نے کہا وہاں کھالے کے پاس ٹاہلی کے پیچھے بیٹھ کر بتاوں گا اگر سننا ھے تو چلو ادھر چل کر سب کچھ تفصیل سے بتاوں گا
عظمی کچھ دیر سوچتے ھوے بولی
چلو
میں نے کہا تم ادھر ھی بیٹھو میں پہلے جاتا ھوں تم تھوڑی دیر بعد آجانا تو
عظمی بولی نہ نہ مجھے اکیلی کو ڈر لگتا ھے میں نے نھی آنا اکیلی نے
تو میں نے کہا یار میں تھوڑا اگے جاکر رک کر تمہارا انتظار کرلوں گا جب تم آجاو گی تو پھر اکھٹے ھی کھالے پر چلیں گے تو عظمی نے اثبات میں سر ہلا دیا
اور میں نے سب بچوں پر نظر دوڑائی تو سب بچے اپنے دھیان میں لگے ھوے تھے
میں وہیں سے پیچھے کی طرف کھسکتا ھوا کپاس کے پودوں میں گُھس گیا اور پھر اٹھ کر پودوں کے درمیان سے ھی پگڈنڈی پر آگیا اور کھالے کی طرف چل پڑا کچھ ھی دور جاکر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا
کچھ ھی دور جاکر میں کھڑا ھوگیا اور عظمی کو دیکھنے لگ گیا تقریباََ تین چار منٹ بعد عظمی آتی دیکھائی دی
اور پھر ہم دونوں کھالے کی طرف چل پڑے میں نے اس سے تسلی کرلی کی کسی نے دیکھا تو نھی تو اس نے مجھے تسلی دلا دی کی میں سب کی نظروں سے بچ کر ھی آئی ھوں
اتنے میں ہم کھالے کہ پاس پہنچ گئے اور پھر باری باری کھالا کراس کیا اور ٹاہلی کے بڑے سے درخت کے پیچھے جاکر بیٹھ گئے
میں اور عظمی بلکل ساتھ ساتھ بیٹھ گئے
تو عظمی بولی بتاو اب
میں نے کہا
میں تمہیں کلاس کی طرف بھیجنے کے بعد کمرے کے پیچھے گیا اور کھڑکی سے اندر کے حلات جاننے کے لیے کان لگا کھڑا ھوگیا کہ ماسٹر جی اب کیا کہتے ہیں
مگر ماسٹر جی کو ہمارے ادھر آنے کا پتہ نھی چلا تھا
اور ماسٹر جی فرحت کو پھر گندے کام کرنے کا کہہ رھے تھے اور فرحت ڈری ہوئی نہ نہ کررھی تھی
تبھی مجھے ایسا لگا کہ ماسٹر جی نے پھر فرحت کے ساتھ گندا کام کرنا شروع کردیا ھے تو میں نے اینٹیں اکھٹی کی اور انکو دیوار کے ساتھ رکھ کر اوپر کھڑا ھوگیا
جب میں نے اندر دیکھا تو ماسٹر جی فرحت کے سارے کپڑے اتارے ھوے تھے اور انکے دودو چوس رھے تھے اور اپنا ایک ھاتھ فرحت کی پیشاب والی جگہ پر رکھ کر مسل رھے تھے
میں جیسے جیسے عظمی کو بتا رھا تھا عظمی کا رنگ سرخ ھوتا جارھا تھا اور وہ میری بات سنتے ہوے بار بار اپنی زبان کو ہونٹوں پر پھیر رھی تھی
میرا لن بھی نیچے سے سر اٹھا چکا تھا
عظمی بولی اچھا پھر کیا ھوا
تو میں نے کہا پھر ماسٹر جی نے اپنی شلوار اتاری اور اپنا اپپپنا
تو عظمی بولی کیااااا اپنا
تو میں نے اسکا ھاتھ پکڑا اور اپنے اکڑے ھوے لن پر رکھ کر کہا
ماسٹر جی اپنا یہ لن نکال کر فرحت کے منہ میں ڈال دیا
تو عظمی نے جلدی سے اپنا ھاتھ واپس کھینچا اور مجھے گھورتے ھوے کہا
تمیز نال زیادہ شوخا نہ بن
میں جھینپ سا گیا اور خاموش ھوگیا
عظمی پھر بولی
اگے دس فیر کی ہویا
میں نے کہا
پھر ماسٹر جی نے فرحت کی بھی شلوار اتار دی اور گندے کام کرنے لگ گئے،
عظمی بولی یاسررررررر سہی طرح بتاو کہ پھر کیا ھوا
میں نے اسے گھورتے ھوے کہا کہ پھر تم نے میری شلوار کھینچ کر اتار دی تھی
تو عظمی میری بات سن کر شرمنده سی ھوگئی اور سر نیچے کرتے ھوے بولی کہ وووہ وہ تو میں نے تمہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے تمہاری شلوار کو کھینچا تھا مجھے کیا پتہ تھا کہ تم اتنی ڈھیلی الاسٹک والی شلوار پہنتے ھو
تو میں نے کہا جب اتنی ذور سے کھینچی تھی تو نالا بھی ھوتا تو تب بھی شلوار اتر جانی تھی
تو عظمی بولی تم اب کون سا بچے ھو جو الاسٹک پہنتے ھو
تو میں نے کہا تم بھی تو الاسٹک ھی پہنتی ھو
تو عظمی نے اپنی قمیض آگے سے اوپر کر کے اپنا نالا مجھے دیکھاتے ھوے کہا
اے ویکھ بَچُو لاسٹک نئی نالا اے
عظمی نے جب قمیض اوپر کی تو اسکا چٹا سفید پیٹ مجھے نظر آیا اسکا پیٹ دیکھتے ھی میرے لن نے نیچے سے ایک ذور دار جھٹکا مارا
پھر عظمی بولی اچھا اب بتا بھی دو کہ پھر کیا ھوا
مجھے تو سارا کچھ بھول کر عظمی کے گورے جسم کو دیکھنے اور چومنے کی پڑ گئی مگر میں اندر سے ڈر رھا تھا کہ یہ موڈی لڑکی ھے اگر اس نے شور مچا دیا یا گھر بتا دیا تو سارا قصور میرا ھی نکلنا ھے،
اس لیے میں پہل کرنے سے گبھرا رھا تھا
عظمی نے مجھے کندھے سے ہلاتے ھوے پھر کہا ہیلو میں کیا پوچھ رھی ھوں
تو میں نے کہا ہاں ہاں ہاں
وہ وہ وہ بتا تو دیا کہ پھر دونوں گندے کام کرنے لگ گئے تھے
تو عظمی بولی یاسسسرررر کے بچے تفصیل سے بتاو کہ کیا کیا کررھے تھے
آخر میرا بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا
میں نے نشے کے سے انداز کھسک کر اسکے سامنے آیا اور اسکے سامنے آیا اور اسکے دونوں کندھوں کو پکڑا
اور منہ اسکے منہ کے قریب کیا اور بڑے رومینٹک انداز سے اسے کہا تفصیل سے بتاوں تو عظمی نے ہاں میں صرف سر ھی ہلایا اور میں نے ویسے ھی اسکو کندھوں سے پکڑے پیچھے کی طرف دھکیل کر گھاس پر لٹا دیا اور اسکے اوپر لیٹ گیا عظمی نے بڑی کوشش کی اپنا آپ چھڑوانے کی مگر کامیاب نہ ھوسکی
آخر کار تھک کر
رونے والا منہ بنا کر میری طرف دیکھنے لگ گئی.
میں نے ہونٹ اسکے ہونٹوں کے کچھ فاصلے پر کئیے ھوے تھے
عظمی نے اب اپنے نیچے والے ہونٹ کو ایسے باہر نکالا جیسے
چھوٹا بچہ رونے سے پہلے نیچے والا ہونٹ باہر نکال کر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیتا ھے
بلکل ویسے ھی عظمی نے اپنا. نیچے والا ہونٹ باہر کو نکالا ھوا تھا اسکے ہونٹ تو پہلے ھی پنک کلر کے تھے مگر ہونٹ کا اندر کا حصہ سرخی مائل تھا
میں جیسے ھی اسکے ہونٹوں کو چومنے لگا تو
عظمی نے اپنے ایک ہاتھ کا مکا بنایا اور مجھے دیکھانے لگ گئی میں نے سر کے اشارے سے پوچھا کیا ھے
تو عظمی نے اہنے نیچے والے ہونٹ کو مذید باھر نکالتے ھوے کہا
ماروں گی
دوستو
اس وقت جیسا سٹائل اور جیسی معصومیت اور انداز تھا عظمی اگر آپ اس سین کو امیجینیشن کریں تو آپ عظمی کے دلفریب گلاب کے کھلتے پھول جیسے ہونٹوں کو کھا جائیں
کچھ ایسا ھی میرے ساتھ ھوا اور میں اسکی ادا اسکی معصومیت پر مر مٹا اور بے ساختہ اسکے نچلے ہونٹ کو اپنے ہونٹوں میں جکڑ لیا اور چوسنے لگ گیا
عظمی پہلے تو کچھ دیر مچلی مگر پھر اس نے بھی اپنا ایک ھاتھ میری گردن کے پیچھے رکھ لیا
بلکل فرحت کی طرح کیوں کہ سیکس کے بارے میں جتنا کچھ ہم دونوں نے سیکھا اور سمجھا اور دیکھا تھا وہ ماسٹر جی اور فرحت سے ھی سیکھا تھا
مختصراً وہ جوڑی اس جوڑی کی سیکس ٹیچر تھی
خیر
ہم دونوں اب مسلسل ایک دوسرے کے ہونٹ چوس رھے تھے. مجھے بھی بہت اچھا لگ رھا تھا اور عظمی کے منہ کے لباب کو اپنے لباب کے ساتھ مکس کر کے اندر نگھلتے وقت ایک عجیب سا مزہ اور سواد آرھا تھا ایسے ھی کبھی عظمی میری زبان کو چوستی کبھی میں عظمی کی زبان کو چوستا
عظمی اب مکمل طور پر میرے کنٹرول میں آچکی تھی اور میں اسکا بھرپور فائدہ اٹھا رھا تھا
میں نے ایک ھاتھ سے عظمی کی ایم مسمی کو پکڑا اور دبانے لگ گیا عظمی کا مما میرے ھاتھ میں پورا آیا ھوا تھا
اور میرا لن عظمی کی تھائی کے ساتھ ٹکریں مارھا تھا
کچھ دیر بعد میں نے عظمی کی قمیض کو اوپر کرنے کی کوشش کی تو عظمی نے میرا ہاتھ پکڑا لیا میں نے ہاتھ چُھڑوایا اورپھر سے قمیض اوپر کرنے لگا تو قمیض کا نچلا حصہ زمین کے ساتھ لگا ھونے کی وجہ سے آگے سے قمیض بس پیٹ سے تھوڑا اوپر مموں کے نیچے تک ھوئی
میں نے اسی کو غنیمت جانا اور عظمی کے گورے چٹے سفید روئی کی طرح نرم پیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگ گیا
میرا ھاتھ جیسے ھی عظمی کے پیٹ پر رینگتا ھوا عظمی کے مموں کے قریب گیا عظمی ایک دم مچلی اور میرے ھاتھ کو مضبوطی سے پکڑ لیا میں نے بھی تھوڑا زور لگا کر اپنے ھاتھ کو عظمی کی قمیض کے نیچے سے گزار کر عظمی کی ایک مسمی کو پکڑ لیا
دوستو عظمی کا مما اتنا نرم اور ملائم تھا کہ کیا بتاوں مجھے تو ایسے لگا جیسے میں نے کوئی روئی کا گولا ہاتھ میں پکڑا لیا ھو ھو
میں نے تین چار دفعہ جوش میں آکر عظمی کے ممے کو کچھ زیادہ ھی زور سے دبا دیا
عظمی کو شاید کچھ ذیادہ ھی درد ھوگئی اور اس نے ایک لمبی سی سسکاری لی اور پھر ہلکی سی چیخ ماری اور غصے سے بولی جانور مت بنو آرام سے کرو
میں نے ساتھ ھی اپنے ھاتھ کو نرم کرلیا اور پیار سے آرام آرام سے ممے کو دباتا رھا اور انگلی سے اسکے اکڑے ھوے چھوٹے سے نپل کو بھی چھیڑتا رھا جس سے عظمی
مزے کی وادیوں میں کھو گئی
اور
ہمممممم اففففف سسسسسیییی کرنے لگ گئی
عظمی میرے ھونٹوں کو پاگلوں کی طرح چوس رھی تھی دو تین دفعہ تو اس نے میرے ہونٹ پر کاٹ بھی دیا تھا مجھے درد تو ھوا مگر میں نے اسپر ظاہر نھی کیا اور میں بھی مزے سے ایک ھاتھ سے اسکے دونوں مموں کو باری باری اپنی مٹھیوں میں بھرتا اور کبھی ہاتھ کو پیٹ پر لے آتا
کچھ دیر ایسے ھی ہم ہر چیز سے بیگانے ھوکر اپنی مستی میں لگے رھے پھر میں ہاتھ عظمی کے نالے پر رکھا اور نالے کی گانٹھ کے سرے کو انگلیوں سے تلاش کرنے لگ گیا
میں اس انداز سے نالے کے سرے کو تلاش کررھا تھا کہ عظمی کو شک بھی نہ ھو کہ میں اسکا نالا کھولنے لگا ھوں
تھوڑی سی محنت کرنے کے بعد میں نے ایک جھٹکے سے نالے کے سرے کو کھینچا تو نالا کھل گیا اس سے پہلے کہ عظمی اپنی شلوار کو پکڑی یا میرے ہاتھ کو پکڑتی
میں نے جلدی سے اپنی تین انگلیاں اسکی پھدی پر رکھ کر اسکی پھدی کو مسلنے لگ گیا
ایسا بس چند سیکنڈ میں ھی ھوا عظمی کی پھدی نے جیسے ھی میری انگلیوں کو دیکھا تو پھدی سے آنسووں کی جھڑی لگ گئی اور عظمی نے ایک لمبی سی سسکاری لی اور مجھے کس کر جپھی ڈالتے ھوے بولی سسسسیییی ھااااےےےےے یاسسسرررر کے بچچچےےےے
کی کیتا ای
ادھر پھدی کے آنسووں نے میری انگلیوں کو تر کردیا اور میری انگلیاں آپس چِپ چِپ کرنے لگ گئی میں نے عظمی کی پھدی پر انگلیوں کا دباو بڑھا دیا تھا اور عظمی بھی ویسے ھی مچل رھی تھی. پھدی کو مسلنے کی سپیڈ میری بھی کافی تیز ھوگئی اسی دوران عظمی نے مجھے کس کر بڑے زور سے اپنے بازوں میں جکڑ لیے اور گانڈ اٹھا اٹھا کر پھدی کا مساج کروانے لگ گئی پھر اس نے ایک لمبی سے ھاااااااااا کی اور اپنی دونوں ٹانگوں کو آپس میں زور سے بھینچ لیا اور پھدی سے گرم گرم لاوا نکل کر میری انگلیوں کو جلاتا ھوا عظمی کی گانڈ سے نیچے گھاس پر گرنے لگا
عظمی تین چار دفعہ کانپی اور ٹھنڈی ھوگئی مگر میں تو ویسے کا ویسا ھی تھا عظمی کی سیکسی آوازیں سن کر اور اسکی پھدی کا لمس پاکر میرا جزبہ اور جنون تو اور بڑھ چکا تھا میں پھر ایک دفعہ عظمی کی پھدی کے اوپر ھی اپنی انگلیوں کو پھیرنے لگ گیا اور دوسرے ھاتھ سے عظمی کی قمیض کو زور لگا کر مموں سے اوپر کردیا
اور جوش میں آکر عظمی کا مما منہ ڈال لیا مجھے ایسا کر کے اتنا مزہ آرھا تھا کہ اس مزے کی کیفیت کو میں یہاں لفظوں میں بیان نھی کرسکتا
میرا ھاتھ سپیڈ سے پھدی کے اوپر ھی حرکت کر رھا تھا اور میرا لن عظمی کے پٹ کے ساتھ گھسے مارنے اور رگڑنے میں مصروف تھا
کہ اچانک جوش میں نے اپنی درمیان والی پوری انگلی عظمی کی پھدی کے اندر گھسا دی پھدی بھی گیلی تھی اور انگلی بھی گیلی
جب انگلی اور پھدی راضی
تو کیا کرے گا قاضی
جیسے ھی انگلی عظمی کی پھدی کے اندر گئی عظمی نے ایک ذور دار چیخ مار کر مجھے پیچھے کو پورے ذور سے دھکا دیا
میں عظمی کے اچانک اس رد عمل پر بہت ذیادہ ھی ڈر گیا اور پیچھے کی طرف جاگرا
اتنے میں مجھے اپنے پیچھے سے کھالے کے بنے پر؟؟؟
میں عظمی کی چیخ سن کر اور اسکے زور دار دھکے کی وجہ سے پہلے ھی سہم گیا تھا اوپر سے جیسے ھی بنے پر کسی کے دوڑے آنے کی آواز سنی تو میرے اور زیادہ ترا نکل گئے میں نے ڈر کے مارے جلدی سے ٹاہلی کی اوٹ لیتے ھوے دوسری طرف دیکھا تو مجھے چار پانچ بڑے بڑے کُتے ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ھوے آگے پیچھے بنے پر ہماری طرف ھی دوڑے آتے ھوے نظر آے
کُتوں کو دیکھ کر میری تو گانڈ پھٹنے والی ہوگئی
میں نے جلدی سے عظمی کی طرف دیکھا جو اپنا نالا باندھ رھی تھی اسنے بھی کتوں کی آوازیں سن لی تھی
اس لیے رنگ اسکا بھی اڑا ھوا تھا
میں نے ڈرے ھوے انداز سے عظمی کو کہا
او تواڈی پین نوں عظمی چھیتی کر کُتے آگئے نے
عظمی نے جلدی جلدی سے کپڑے سہی کیے اور میرے پیچھے کھڑی ھو کر کُتوں کو دیکھنے لگ گئی
میں نے جلدی سے اسکا ھاتھ پکڑا
اور مکئی کی فصل کے بیچو بیچ نہر کی طرف دوڑ لگا دی
ہم نے پیچھے مڑ کر نھی دیکھا تھوڑی ھی دیر بعد بھاگتے ھوے ہم نہر پر چڑھ کر ھی پیچھے دیکھنے لگ گئے اور اپنے گُٹنوں پر ھاتھ رکھ کر جھکے ھوے زور زور سے سانس لینے لگ گئے
کچھ دیر بعد عظمی سیدھی ھوئی اور اپنے مموں پر ھاتھ رکھ کر بولی
شکر ھے آج. بچ گئے
میں نے بھی کہا ھاں یار واقعی قسمت نے بچا لیا
اور پھر ہم نے نہر سے پاوں دھوے اور منہ ھاتھ. دھو کر نہر کے کنارے پر چلتے ھوے
ٹرین کی پٹری کے پُل پر پُہنچ گئے
ٹرین کی پٹری ہمارے گاوں کے پاس سے ھی گزرتی تھی ہم تھوڑی دیر وہاں کھڑے رھے اور پٹری پر ھی گاوں کی طرف چل دئیے
میں نے عظمی کو کہا چلو دیکھتے ہیں کون پٹری کے اوپر زیادہ دیر تک چلتا ھے عظمی بولی مجھ سے نھی چلا جانا میرے پہلے ھی جلن ھورھی ھے
میں نے کہا کہاں جلن ھورھی ھے
تو وہ غصے سے بولی
جتھے توں چول ماری اے
میں امی نوں دساں گی کہ میرے نال گندے کم کردا اے
تو میں نے کہا
یار ایک تو تم روز مجھے امی کی دھمکیاں دیتی رھتی ھو جاو بتا دو
میں بھی تمہاری ساری کرتوت بتاوں گا تو عظمی بولی جاو بتا دینا
میں نے عظمی کا ھاتھ پکڑتے ھوے کہا
اچھا بتاو نہ کہاں جلن ھورھی ھے میں دبا دیتا ھوں
تو عظمی بولی
بوتا شوخا نہ بن وڈا آیا دبان والا
میں نے کہا عظمی
تو وہ میری طرف دیکھ کر بولی
کی اے
تو میں نے کہا یار معاف کردو غلطی سے ھوگیا تھا
تو وہ بولی غلطی سے ھوا تھا یا پھر جان بوجھ کر کیا تھا
تو میں نے کہا قسم سے مجھے پتہ ھی نھی چلا اور میں نے انگلی اندر کردی مجھے مزا ھی اتنا آرھا تھا کہ مجھے ہوش ھی نہ رھا
تو عظمی بولی
تمہیں پتہ بھی ھے کہ کتنی درد ھوئی تھی میری. ایک دم سے جان نکل گئی تھی
میں نے کہا ہاں یار واقعی تمہاری تو چیخ ھی نکل ،،،،،گئی تھی،،
مگر مجھے بعد میں پتہ چلا کہ سالی نے مزے والی چیخ ماری تھی،،،
اور میں نے حیرانگی سے،،
عظمی کی طرف دیکھا اور عظمی سے کہا یار تم بھی لڑکی ھو اور وہ فرحت بھی تو لڑکی ھی ھے
مگر اسے نے تو
،،،،،،،،،،،،
اتنا کہہ کر میں خاموش ھوگیا
تو عظمی بولی
کیا اسنے تو
میں نے کہا کچھ نھی
چلو نہ یار پٹری کے اوپر چلتے ہیں عظمی بولی نئی پہلے بتاو
کہ کہا کہنے لگے تھے
میں نے کہا یار پھر کبھی بتاوں گا لمبی بات ھے ابھی اندھیرا ھو رھا ھے یہ نہ ھو کہ امی لوگ ہمیں ڈھونڈنے کھیت میں پہنچ جائیں
عظمی نے جب امی کا سنا تو تیز تیز چلنے لگ گئی
اتنی دیر میں ہم گاوں پہنچ گئے اور تیز تیز چلتے جب گلی کی نکڑ پر پہنچے تو سامنے سے نسرین چلی آرھی تھی
ہم بھی نسرین کی طرف چل دیے تو وہ بڑے غصے سے بولی
مل گیا ٹیم ویلیاں نوں کار آندا
تسی کار چلو اک واری آوارہ گردو
ابو دس دے نے توانوں
عظمی بولی
چل چل آئی وڈی کماں والی
اور یہ کہہ کر اسکو نظر انداز کرتی ھوئی گھر کی طرف چلدی نسرین بھی اسکے پیچھے پیر پٹختی پُھوں پُھوں کرتی چلدی
میں تو سیدھا اپنے گھر ھی چلا گیا
مجھے انکل سے ویسے ھی ڈر لگتا تھا
ایسے ھی دن گزرتے رھے
ہمارے پیپر شروع ھوگئے پھر رزلٹ بھی آگیا میں. کلاس میں فرسٹ آیا تھا
اور عظمی اور نسرین نے بھی اچھے نمبر لیے تھے مگر وہ صرف پاس ھی ھوئی اس دوران
میری عظمی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ چلتی رھی
موقع ملتے ھی ہم کسنگ بھی کرلیتے
عظمی نے کئی دفعہ مجھ سے پوچھا تھا کہ اس دن کیا بتانے لگے تھے مگر میں ہر دفعہ یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ پھر بتاوں گا
عظمی نے بھی اب مجھے پوچھنا چھوڑ دیا تھا
ادھر سکول میں
ہم نے دوبارا فرحت کو نھی دیکھا شاید ماسٹر جی نے اسے چودنے کے لیے کسی اور جگہ کا بندوبست کرلیا تھا
رزلٹ کے بعد اب ہم تینوں نے شہر کے سکول میں داخلہ لینا تھا
کچھ دنوں بعد. ہماری نئی یونیفارم کتابیں اور بیگ بھی آگیا
ابو مجھے شہر کے گورمنٹ مڈل سکول میں داخل کروا آے اور عظمی نسرین میرے سکول کے کچھ فاصلے پر گرلز مڈل سکول میں داخل ھوگئی،،،
دوستو پہلا دن تو میرا سکول میں بڑا ھی کنفیوژن میں گزرا میں سکول کی عمارت کو کمروں کو اور کمروں میں پڑے ڈیسکوں کو اور چھت پر لگے پنکھوں کو اور دیواروں پر لگے رنگ برنگے چارٹوں کو دیکھ دیکھ کر بہت خوش ھوتا رھا
اوپر سے ہماری کلاس میں زیادہ بچے شہری ھی تھے جو فر فر اردو بولتے تھے
کچھ ممی ڈیڈی بچوں نے میرا خوب مزاق بھی اڑایا اور میری ٹوٹی پھوٹی اردو سن کر کھلکھلا کر ہنسنے لگ جاتے
میں شرمندہ سا ھوجاتا
سکول میں سب سے زیادہ مزہ مجھے جس چیز کو دیکھ کر آیا وہ تھی برآمدوں میں دیواروں کے اوپر پینٹنگ کی ھوئی علامہ اقبال اور قائد اعظم کی تصویر یں
میں انکو بڑے غور سے دیکھتا اور دوسری طرف جاتا تو وہ دونوں میری ھی طرف دیکھ رھے ھوتے پھر دوسری طرف جاتا تو تب بھی میری ھی طرف دیکھ رھے ھوتے. میں یہ سب دیکھ کر بہت خوش ھوتا رھا اور اس چیز کو بہت انجواے کیا
خیر ہم صبح صبح جلدی جلدی تیار ھو کر سکول کی طرف نکل پڑتے کیوں کہ ہمیں سکول جانے سے زیادہ خوشی شہر جانے کی ھوتی
اور ہم نے جانا بھی پیدل ھوتا تھا وہ بھی کھیتوں کے بیچ سے کیوں کے ادھر سے ہمیں شارٹ کٹ پڑتا تھا نہر پر ایک چھوٹا سا لکڑی کا پُل بنا ھوا تھا جس سے گزر کر ہم شہر کی طرف جاتے تھے
سکول جاتے ھوے بھی عظمی سے کھڑمستیاں نھی ھوسکتی تھی کیوں کے ہمارے ساتھ باجی صدف ھوتی تھی جو عظمی اور نسرین کی ٹیویشن ٹیچر بھی تھی اور شہر کڑھائی اور سلائی کا کام سیکھنے جاتی تھی
واپسی پر وہ ہمارے ساتھ نہی ھوتی تھی کیوں کہ انکو چھٹی لیٹ ھوتی تھی
مگر پھر بھی واپسی پر نسرین کے ہوتے ھوے میں عظمی سے سواے ہنسی مزاق کے اور کچھ نھی کرسکتا تھا
باجی صدف بھی کافی شوخ مزاج تھی
اسکی عمر کوئی بیس سال کے لگ بھگ تھی اور
تھی بڑی سیکسی سی
چھتیس سائز کے ممے تھے جو برقے میں بھی باہر کو نکلے نظر آتے تھے اور موٹی موٹی آنکھیں پیٹ نہ ھونے کے برابر تھا اور اسکی گانڈ تو کمال کی تھی بلکل گول مٹول اور باہر کو نکلی ھوئی ایک تو وہ برقعہ بھی بڑا فٹنگ والا پہنتی تھی جس سے اسکے ممے اور گانڈ بلکل برقعہ میں پھنسے ھوتے اور جب وہ چلتی تو پیچھے سے ہلتی ھوئی گانڈ کا نظارا ھی الگ ھوتا
رنگ اسکا تھوڑا گندمی تھا مگر اسکے رنگ میں ایک کشش تھی جو ہر دیکھنے والے کو اپنی طرف کھینچ لیتی بات کرتے ھوے آنکھوں کو وہ اکثر بڑی ادا سے جھپکا جھپکا کے بات کرتی
جب وہ میرے آگے آگے بنے پر چلتی ھوتی تو میری کوشش یہ ھی ھوتی کی میں باجی صدف کے پیچھے ھی رھوں اور اسکی ہلتی ھوئی گانڈ شہر تک جاتے دیکھتا رھوں
وہ اکثر مجھے چھیڑتی رہتی
جب بھی وہ ہمارے ساتھ سکول جانے کے لیے شامل ھوتی تو آتے ھی میری گال پر چُٹکی کاٹ کر کہتی سنا شزادے چلیں
میں اپنی گال کو مسلتا ھوا کہتا کہ چلو باجی
مگر دل ھی دل میں اس کو گالیاں دیتا کہ سالی روز اتنی زور سے چٹکی کاٹ دیتی ھی،،
کسے دن میں ایدی بُنڈ تے دندی وڈ کے پج جانا اے،
مگر یہ میرا خیالی پلان تھا میں ایسا صرف سوچ ھی سکتا تھا پریکٹیکل کرنا ناممکن تھا
دوستو
کافی دن ایسا ھی چلتا رھا
ہماری کلاس میں ایک لڑکا تھا اسد
جس کو سب اونٹ کہتے تھے
کیوں کہ اسکی عمر کوئی اٹھارہ سال کے لگ بھگ تھی اور اسکا قد ساری کلاس کے لڑکوں سے بڑا تھا وہ واقعی ھی ہمارے بیچ اونٹ ھی لگتا
اسد پڑھائی میں بلکل نلائق تھا اسی وجہ سے وہ ابھی تک چھٹی کلاس میں ھی رھا تھا
ویسے اسکے ٹشن وشن سے لگتا تھا کہ یہ کسی کھاتے پیتے گھرانے کا لڑکا ھے
سارا دن بس کتاب کو دیکھتا ھی رھتا پڑھتا کچھ بھی نہ
شکل سے بلکل سالا پُھکرا لگتا تھا
اوپر سے میری بدقسمتی اس سالے کی سیٹ بھی میرے ساتھ ڈیسک پر ھی تھی
میں نے اکثر نوٹ کیا کہ اسد جان بوجھ کر کبھی میرے پٹ پر ہاتھ رکھ دیتا تھا اور کبھی بینچ پر ھاتھ رکھ کر انگلیاں میری گانڈ کے نیچے پھنسا دیتا
میں کافی دن اسکو اتفاق سمجھ کر اگنور کر دیتا
تھا
ایک دن میں نے دیکھا. کہ اسد بڑا مست ھوا ڈیسک کے خانے میں کتاب رکھے بڑے غور سے کتاب کو دیکھ رھا تھا اور ساتھ ساتھ اپنے لن کو پکڑ کر مسلی جا رھا تھا میں کافی دیر اسکی حرکتوں کو نوٹ کرتا رھا پہلے تو میں سمجھا شاید اسکے خارش ھورھی ھے مگر اس نے ایک دفعہ کتاب کا صفحہ پلٹنے کے لیے لن سے ھاتھ ہٹایا تو اسکی شلوار میں تمبو بنا ھوا تھا جو قمیض کو بھی اوپر تک اٹھاے ھوے تھا
میں یہ سب دیکھ کر ایکدم چونکا اور کتاب کو غور سے دیکھنے لگ گیا جیسے ھی میری نظر کتاب پر پڑی.،،
میرے تو پسینے چھوٹ گئے اور ایکدم میں نے جھر جُھری سی لی اور آنکھیں پھاڑے کتاب کو ھی دیکھے جارھا تھا ،
جو اصل میں سیکسی پکچر کا رسالہ تھا جسے میں کتاب سمجھ رھا تھا
رسالے میں انگریز لڑکوں اور لڑکیوں کی تصویریں تھی
جس میں کسی جگہ
لڑکا لڑکی کی پھدی کو چاٹ رھا تھا کہیں لڑکی لڑکے کے لن کو منہ میں لے کر چوس رھی تھی کہیں گوری گھوڑی بنی ھوئی تھی اور گورے نے اسکے بال پکڑے ھوے تھے اور لن پیچھے. سے اسکی پھدی میں ڈالا ھوا تھا
کسی جگہ. گوری اپنے ممے چسوا رھی تھی کسی جگہ دو دو گورے ایک گوری کو آگے پیچھے سے چود رھے تھے اور کسی جگہ دو گوریاں آپس میں ھے ایک دوسری کی پھدی چاٹ رھی تھی یا ممے چوس رھی تھی کہیں گوری اپنی انگلی پھدی میں ڈال کر لیٹی ھوئی تھی
ایسے بہت سے پوز تھے
میں رسالا دیکھنے میں فل مگن ھوگیا تھا اور نیچے سے میرا لن اچھل اچھل کر مجھے آوازیں دے رھا تھا مگر میں لن سے بیگانہ ھوکر بس انگریز گوریوں کی پھدیاں اور ممے اور چٹی چٹی بُنڈیں دیکھنے میں مصروف تھا کہ اچانک مجھے جھٹکا لگا اور میں نے گبھرا کر جب نیچے دیکھا تو،
میں نے نیچے کی طرف دیکھا تو اسد نے میرا لن پکڑا ھوا تھا اور لن کو مٹھی میں دبا رھا تھا میں نے ایک جھٹکے اس کے ھاتھ سے اپنا لن چُھڑوایا اور غصے سے اس کی طرف دیکھتے ھوے کہا
اوے کیا مسئلہ ھے تجھے تمیز سے رہو تو وہ مسکرا کر بولا یار میں تو تیرا لن چیک کر رھا تھا کہ کتنا بڑا ھوگیا ھے
میں نے کہا تو نے میرا لن اپنی گانڈ میں لینا ھے جو چیک کررھا ھے،
تو بولا یار ابھی تیری عمر نھی ھے گانڈ میں لن ڈالنے کی ابھی تو تجھے یہ بھی نھی پتہ ھوگا کہ
بیر دی بُنڈ کتھے ہوندی اے
تو میں بولا
او پائی میں ایتھے پڑن آنداں ایں بیر دی بُنڈ ویکھن نئی،
تو اسد نے میرا ھاتھ پکڑا اور اپنے لن پر رکھ کر کہا یہ دیکھ ایسا ھوتا ھے بُنڈ پاڑ لن
تو میں نے جھٹکے سے اپنا ھاتھ پیچھے کرتے ھوے کہا
اوے توں باز نئی آنا
آ لین دے ماسٹر جی نوں
میں دسنا اے توں جیڑے کم کرن لگیا ھویاں اے
تو اسد نے میری کمر پر ھاتھ پھیرتے ھوے کہا
یار تم تو غصہ ھی کرگئے میں تو اس لیے کہہ رھا تھا کہ اپنے لن کی مالش کیا کرو دیکھنا کیسے دنوں میں میرے لن جتنا ھوتا ھے
تو میں نے کہا او بھائی اپنی اور میری عمر اور قد کا فرق دیکھ
پہلے پھر یہ بات کرنا
تیری عمر ذیادہ ھے اس لیے تیرا لن بھی بڑا ھی ھوگا میں ابھی چھوٹا ھوں اس لیے میرا لن بھی چھوٹا ھے
تو اسد بولا یار ایک تو تم غصہ بہت کرتے ھو میں تیرے فائدے کی ھی بات کررھا ھوں
اور دیکھ لن کا عمر اور قد سے کوئی تعلق نھی
لن کو جتنی جلدی اور جتنا مرضی بڑا کرسکتے ھو
میں اسد کی باتوں میں آچکا تھا اس لیے میرا غصہ کافی حد تک ٹھنڈا ھوگیا تھا
اس لیے میں اسکی باتوں کو غور سے سن رھا تھا
تو میں نے کہا وہ کیسے کرسکتے ہیں
تو اسد بولا یاسر ویرے دیکھ سیدھی سی بات ھے
میں یاروں کا یار ھوں اور گانڈو لوگوں کو میں اپنے پاس بھی نھی بھٹکنے دیتا
تم مجھے اچھے لڑکے لگے ھو میں کافی دنوں سے تجھ سے دوستی کرنا چاھتا تھا مگر ججھک رھا تھا
تو میں نے کہا دیکھ اسد میں پینڈو جیا تے سدھا سادھا جیا بندا واں
اسی پنڈ دے لوک وی یاراں دے یار ہوندے آں
تے جدے نال اک واری یاری لا لٰیے تے اودے واسطے جان وی دے دیندے آں،
اسد نے میری طرف ہاتھ بڑھایا اور مجھے کہنے لگا بس یار مجھے بھی ایسا ھی سمجھ اور میں نے بھی اسکے ھاتھ میں دوستی کا ھاتھ دے دیا
اور کافی دیر ہم ایک دوسرے کو اپنے اپنے بارے میں بتاتے رھے
اسد نے بتایا کہ اسکی بس ایک بہن ھی ھے جو اس سے ایک سال چھوٹی ھے اور میٹرک کر رھی ھے اور اس کے ابو اسکے بچپن میں ھی ایک کار ایکسڈینٹ میں ہلاک ہوگئے تھے جس میں اسکے ماموں اور ممانی بھی ساتھ ھی ہلاک ھوے تھے
اور اسکا ایک کزن ھے جو اس کے ماموں کا ھی بیٹا تھا
جو کچھ دن پہلے کینڈا چلا گیا تھا
اسد کے ابو اور ماموں بوتیک کا کام کرتے تھے جو اب اسد کی امی نے سمبھالا ھوا تھا
اسد کا پڑھائی میں بلکل بھی دل نھی لگتا تھا جس وجہ سے وہ تین چار دفعہ فیل ھوا تھا اور اسی وجہ سے ابھی تک چھٹی کلاس میں ھی تھا اسد نے بتایا کہ اسے سیکس کا بہت شوق ھے اور خاص کر لڑکوں کی بُنڈیں بہت مارتا ھے
جب اس، نے مجھے یہ بتایا تو میں نے اسے مکا مارتے ھوے کہا ماما تبھی میرے پٹوں پر ھاتھ پھیرتا رہتا تھا
تو اس نے ہنس کر کہا کہ ہاں یار میں نے تجھ پر بڑی دفعہ ٹرائی ماری مگر تم ویسے لڑکے نھی نکلے ورنہ اب تک تم بھی میرے نیچے ھوتے
میں نے اسد کے ہاتھ پر زور سے ہاتھ مارا اور دونوں کھل کھلا کر ہنس پڑے
تو میں نے کہا یار یہ گندے رسالے کہاں سے لاتا ھے اور تجھے ڈر نھی لگتا تو اسد بڑے فخر سے بولا جگر یہ تو کچھ بھی نھی ھے میرے پاس تو ایسے ایسے رسالے پڑے ہیں کہ تو دیکھ کر چھوٹ جاے
تو میں نے حیرانگی سے پوچھا کہ تم انکو رکھتے کہاں پر ھو تو وہ بولا کہ میرے کزن والا کمرہ اب میرے پاس. ھی ھوتا ھے اس میں الماریاں ہیں وہیں چھپا دیتا ھوں میرا کزن بھی بڑا حرامی تھا کسی دن تجھے گھر لیجا کر ایسی ایسی ایٹمیں دیکھاوں گا کہ تو یاد کرے گا کہ کس سخی دل سے پالا پڑا ھے
میں نے کہا واہ یار تیری تو موجیں لگی ھوئی ہیں
تو اسد بولا میرے ساتھ رھو گے تو تیری بھی موجیں ھونگی
میں نے کہا نئی یار ایسی بھی بات نھی بس تیری دوستی ھی کافی ھے میرے لیے
اسی دوران ہمیں تفری ہوگئی. ہاف ٹائم کی گھنٹی بجتے ھی سب بچے باہر کو بھاگے. ہم بھی نکل کر باہر گراونڈ میں آگئے پھر ہم سڑک کی طرف چلے گئے وھاں ریڑھی سے انڈے والے نان کھاے اور پھر گراونڈ میں آکر ایک طرف بیٹھ کر باتیں کرنے لگ گئے
اسد بولا سنا جگر گاوں میں کسی بچی کی پھدی بھی ماری ھے اب تک یاں پھر کنوارہ ھی پھر رھا ھے تو میں نے کہا نہ یار. ہمارے گاوں میں ایسا ویسا کچھ نھی ھوتا
اگر ایسا کچھ ھو تو پتہ لگنے پر ویسے ھی لڑکے لڑکی کو جان سے مار دیتے ہیں
تو اسد بولا
ابھی تیرا لن چھوٹا ھے نہ اسی لیے پھدی کی طلب نھی کرتا اور مجھے تو لگتا کہ تم نے ابھی تک مٹھ بھی نھی ماری ھوگی
تو میں نے حیران ھوتے ھوے پوچھا کہ یار چھوٹے لن کی تو سمجھ آگئی مگر یہ مٹھ مارنا کیا ھے
تو اسد نے ہنستے ھوے میرے کندھے پر ھاتھ مارتے ھوے کہا
جا یار. تم واقعی پکے پینڈو ھو
چل کسی دن تجھے یہ چسکا بھی ڈال دوں گا
میں کچھ دیر خاموش رھا اور جھجھکتے ھوے اسد سے بولا
یار کیا واقعی لن کے بڑے ھونے کا عمر سے کوئی تعلق نھی
تو اسد میری طرف دیکھتے ھوے بولا
تم نے بڑا کرنا ھے تو بتا دیکھنا چند دنوں میں ھی لن بڑا نہ ھوا تو کہنا
میں نے حیرانگی سے اسکی طرف دیکھتے ھوے کہا سچی
تو اسد بولا
مچی
تو میں نے کہا یار وہ کیسے تو اسد بولا ہے میرے پاس ایک نسخہ
تو میں نے کہا کونسا
تو اسد بولا بیس روپے کا ھے بس
تو میں پریشان سا ھوکر بول بیسسسسس روپے کا
نہ یار مجھے تو گھر سے پچاس پیسے خرچہ ملتا ھے اور اسکا میں نان کھا لیتا ھوں میرے پاس اتنے پیسے کہاں سے آنے ہیں
تو اسد بولا چھڈ یار
یاراں دے ہوندیاں پریشان نئی ھوئی دا
میں نے کہا کیا مطلب
تو اسد بولا
یار میں تجھے لا دوں گا پیسوں کی فکر نہ کر
تو میں نے کہا نھی یار میں ایسے نھی لے سکتا جب میرے پاس پیسے ھونگے میں تجھے بتا دوں گا
تو اسد غصے سے میری طرف دیکھتے ھوے بولا
ماما فیر کردتی نہ پینڈواں والی گل
نالے یاری لائی اے تے نالے فرق رکھنا اے
میں نے کہا نھی یار ایسی بھی بات نھی بس مجھے شرم آتی ھے
تو اسد بولا
چل ایسے کر مجھ سے ادھار کرکے لے لینا جب تیرے پاس پیسے ھونگے تو دینا
اب تو ٹھیک ھے
میں نے کچھ دیر سوچتے ھوے اسد کی طرف دیکھا اور اثبات میں سر ہلا دیا
اتنی دیر میں ہاف ٹائم بھی ختم ھوگیا اور ہم دونوں کلاس کی طرف چل دیے
اور اسد نے بتایا کہ میں کل ھی اپنے یار کے لیے تحفہ لے آوں گا
میں دل ھی دل میں بہت خوش ھوتا رھا
چھٹی کے بعد میں عظمی اور نسرین کے سکول کی طرف چلا گیا اور انکو ساتھ لے کر گھر کی طرف چلدیا
دوسرے دن میں سکول کے لیے تیار ھوکر عظمی کے گھر گیا اور ان دونوں کو لے کر ہم تینوں باجی صدف کے گھر اسے ساتھ لینے چلے گئے
باجی صدف تیار ھوکر بیٹھی تھی بس برقعہ ھی پہننا تھا ہمیں دیکھ کر باجی صدف بولی بس دومنٹ میں ابھی آئی اور کمرے کی طرف چلی گئی
باجی صدف لگتا تھا ابھی ابھی نہائی تھی کیوں پیچھے سے گیلے بال اسکی قمیض کو بھی گیلا کیے ھوے تھے
باجی صدف نے آج پنک کلر کا سوٹ پہنا ھوا تھا جو اسپر بہت جچ رھا تھا
باجی صدف تھوڑی ھی دیر بعد برقعہ پہنے باہر آگئی اور ہم سکول کی طرف چلدیے
کھیت کی پگڈنڈی پر ہم سب آگے پیچھے چل رھے تھے سب سے آگے نسرین تھی اس سے پیچھے عظمی اور پھر باجی صدف اور اس کے پیچھے میں تھا اور باجی صدف کی ہلتی ھوئی گانڈ کا نظارہ کرتے ھوے مزے سے مست ھوکر چل رہا تھا اور ہمارا فاصلہ بھی کچھ ذیادہ نھی تھا بس ایک قدم کے فاصلے پر میں باجی صدف کے پیچھے چل رھا تھا میرا لن بھی قمیض کو اوپر اٹھاے پیچھے سے باجی صدف کی گانڈ کو اشارے کر رھا تھا جب ہم آدھے راستے پر پہنچے تو ایکدم کپاس کی فصل جو اب سوکھ چکی تھی اس میں سے ایک کالے رنگ کی بلی نکل کر تیزی سے عظمی اور باجی صدف کے درمیان سے نکل کر پگڈنڈی کے دوسری طرف بھاگ گئی بلی شاید باجی صدف کے پاوں کے اوپر سے گزری تھی باجی صدف نے زور دار چیخ ماری اور پیچھے کو ھوئی جس سے اسکا پاوں بھی پگڈنڈی سے سلپ ھوا اور نیچے گرنے ھی لگی تھی کے میں نے جلدی سے باجی صدف کو پیچھے سے جپچھی ڈال دی اور گرنے سے بچا لیا
یہ سب اتنی جلدی سے ھوا کہ مجھے بھی سمجھ نہ آئی کے باجی کو کہاں سے پکڑوں
میرے پکڑنے سے پہلے باجی کافی نیچے کو جھک چکی تھی اور انکی بُنڈ جو پہلے ھی باہر کو نکلی ھوئی تھی جھکنے کی وجہ سے اور باہر نکل گئی تھی میں نے ویسے ھی اسکو پیچھے سے جب جپھی ڈالی تو میرے ھاتھوں اسکے دونوں بڑے بڑے اور نرم ممے آگئے اور میرا لن اس کی بُنڈ کی دراڑ کے اوپر ٹکر مار کر اندر گھسنے کی کوشش کرنے لگ گیا
ایسا بس کوئی تیس چالیس سیکنڈ ھی ھوا
باجی صدف نے جلدی سے اپنے دونوں ھاتھ میرے ھاتھوں پر رکھے اور جھٹکے سے مموں کو آزاد کروا دیا مگر میں نے بھی ممے چھوڑتے وقت ہلکے سے دبا کر اس انداز سے چھوڑے کے باجی کو ایسے لگے جیسے انکے چھڑانے کی وجہ سے مموں پر دباو آیا تھا
اور میرے ھاتھ باجی کے پیٹ پر آگئے تھے
اور لن صاحب ابھی تک باجی کی گانڈ میں گھسنے کی ٹرائیاں مار رھے تھے
باجی اب سمبھل چکی تھی اور عظمی اور نسرین بھی گبھرا کر کھڑی ھوگئی تھی اور عظمی نے بھی آگے بڑھ کر باجی کو بازوں سے پکڑ کر سیدھا کیا
طمیں نے پوچھا باجی کیا ھوا تھا بچ تو گئی چوٹ تو نھی آئی تو باجی ایکدم آگے کو ہوئی اور بڑی حیرت سے میری آگے سے اٹھی ھوئی شلوار کو ایک نظر دیکھا اور پھر اپنا آپ مجھ سے چھڑوا کر
بولی ھاں ھاں بچ گئی ھوں
بلی نے اچانک چھلانگ لگائی تو میں ڈر کر پھسل گئی
شکر ہے تم نے مجھے پکڑ لیا نھی تو میری پاوں میں موچ آجانی تھی
تو میں نے کہا باجی ***** نہ کرے کہ آپکے پاوں میں موچ اجاے
تو باجی مجھے غور سے دیکھتے ھوے میری گال پر چٹکی کاٹتے ھوے بولی
شکریہ یاسر
تو میں نے کہا کوئی بات نھی باجی یہ تو میرا فرض بنتا تھا
تو وہ تھوڑا ہنسی اور ایک دفعہ پھر میری قمیض کی طرف دیکھا جہاں اب سب شانتی تھی اور مسکرا کر پھر میرے آگے چل پڑی
میں نے اس دوران عظمی کی طرف دیکھا وہ پتہ نھی کیوں مجھے گھورے جارھی تھی
خیر ہم سکول پہنچ گئے
اور میں دل ھی دل میں بلی کو دعائیں دیتا رھا جسکی وجہ سے مجھے باجی صدف کے جسم کو چھونا نصیب ھوا وہ بھی ڈریکٹ مموں کو اور گانڈ کو
جسکو روز حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا رھتا تھا،
عظمی لوگوں کو سکول چھوڑ کر میں واپس اپنے سکول آگیا کچھ دیر پڑھانے کے بعد ٹیچر بھی کمرے سے باہر چلے گئے اور سب بچے اپنی اپنی گپوں میں مصروف ھوگئے
تب اسد نے بیگ سے دو چھوٹی سی شیشیاں نکالی اور مجھے دیکھاتے ھوے کہا یہ ھے وہ جادوئی نسخہ جس کی مالش سے دنوں میں تیرا لن پھدی پاڑ لن بن جاے گا
میں نے شیشیوں کو پکڑتے ھوے انکو حیرانگی سے دیکھا جن کے ڈھکن الگ الگ کلر کے تھے اور اسد سے کہا
یہ کیا ھے
تو وہ بولا
جگر اس میں تیل ھے
رات کو تم نے پہلے یہ سفید ڈھکن والے تیل کی سارے لن پر ہلکے ہلکے مالش کرنی ھے اور لن پر سوتی کپڑا لپیٹ دینا ھے اور پھر آدھے گھنٹے بعد کالے ڈھکن والی شیشی کے تیل سے ٹوپی کو چھوڑ کر نچلے حصہ پر مالش کرنی ھے اور پھر وہ ھی کپڑا دوبارا لپیٹ لینا ھے
تو میں نے کہا کتنے دن کرنی ھے تو اس نے بتایا بس جب تک یہ تیل ختم نھی ھوتا
تب تک روز مالش کرتے رہنا تجھے دنوں میں فرق کا پتہ چل جاے گا
میں نے خوش ھوکر شیشیاں اپنے بیگ میں رکھ دی
پھر ایکدم مجھے یاد آیا کہ گھر جاکر انکو رکھوں گا کہاں پر پھر سوچا جگہ بھی مل ھی جاے گی ایک دفعہ لے کر گھر تو پہنچوں
پھر ہاف ٹائم ھوگیا اور ہم باہر نکل کر گراونڈ میں چلے گئے اسد بولا پھر کب میرے گھر چلے گا تو میں نے بتایا کہ یار میں تمہارے گھر چلا تو جاتا مگر میں جا نھی سکتا
تو وہ بولا
جا کیوں نھی سکتا
میں نے کہا یار دراصل میرے ساتھ میری آنٹی کی بیٹیاں بھی شہر سکول آتی ہیں اور انکو ساتھ لے کر آنے اور جانے کی ڈیوٹی بھی میری ھے اس لیے
تو اسد کچھ دیر سوچتے ھوے بولا
کہ اگر ہم سکول سے پُھٹہ لگا لیں تو
میں نے کہا وہ کیا ھوتا ھے
تو اسد ہنستے ھوے میرے سر پر تھپڑ مارتے ھوے بولا
جا اوے توں وی نہ حالے تک ہینڈو ای ایں
میں نے اسے کہا ماما جدوں مینوں پتہ ای نئی کہ پُھٹہ ھوندا کی اے تے مینوں سمجھ کنج آے گی
تو وہ ہنستا ھوا بولا
کہ یار سکول سے بھاگ کر چھٹی کرنے کو پُھٹہ لگانا کہتے ہیں
تو میں نے فٹ کیا
سالیا مینوں مروانا اے
ابھی تو میرا شوق بھی نھی پورا ھوا شہر آنے کا اور تو مجھے سکول سے نکلوانے کا پروگرام بنا رھا ھے
تو اسد بولا یار پریشان نہ ھو تیرا یار ھے نہ اس سکول کا بھیدی
تو بس ٹینشن نہ لے تیرے پر اگر کوئی بات آئی تو میں سب سنبھال لوں گا
مجھے پتہ ھے کی کیا کرنا ھے
بس تو مجھ پر بھروسہ رکھ
میں نے کچھ دیر سوچتے ھوے پھر اسے کہا
یار ویکھیں کِتے مروا نہ دیویں
تو اسد بولا یار مجھ پر یقین نھی تو میں نے کہا نھی
تو اسد غصے سے کھڑا ھوکر مُکا بنا بازو اوپر کر کے کہنے لگا
لن تے چڑ فیر
اور جانے لگا تو میں نے اسے بازو سے پکڑ کر نیچے بٹھاتے ھوے کہا
ایویں ھن شوخا نہ بن چل فیر ویکھی جاے گی جو ھوے گا
تو اسد بولا چل پھر کل تیار رہنا ہم اسمبلی کے وقت سکول کے کمروں کے پیچھے بیرونی دیوار سے نکل کر سکول سے. باھر نکل جاءیں گے
تو میں نے کہا یار سکول کی دیواریں تو کافی اونچی ہیں تو وہ بولا اس بات کی فکر نہ کر بس تو تیار رہنا
میں نے اثبات میں سر ہلایا
اور ہم دونوں اٹھے اور باہر سڑک پر اکر نان کھانے لگ گئے
سکول سے واپس. جاتے بھی کچھ خاص نھی ھوا
دوسرے دن پلاننگ کے تحت ہم کمروں کے پیچھے چلے گئے کیوں کے سکول کا مین گیٹ بند ھوگیا تھا اور کوئی بچہ باھر نھی جاسکتا تھا
ہم کمروں کے پیچھے سے چلتے ھوے ایک جگہ پہنچے جہاں سے بڑا سا نالا تھا جو سکول کی بیرونی دیوار کے نیچے سے باہر کو جاتا تھا جو اس وقت سوکھا ھوا تھا شاید بارش کے پانی کے لیے وہ نالا بنایا ھوا تھا
نالے کا سوراخ اتنا بڑا تھا کہ ہم آسانی سے نکل کر دوسری طرف جاسکتے تھے
پہلے اسد نیچے گھسا اور دوسری
طرف گردن نکال کر تسلی کرنے لگا اور پھر جلدی سے مجھے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور باھر نکل گیا میں بھی اسکے پیچھے ھی باہر آگیا
ہم تیز تیز قدم اٹھاتے ایک چھوٹی سی گلی میں گھس گئے وہ گلی آگے جاکر بازار میں کھلتی تھی میں نے اسد سے کہا یار چھٹی کے وقت میں نے سکول پہنچنا ھے تو اسد بولا یار پریشان نہ ھو ساری ٹینشن دماغ سے نکال دے اور میرے ساتھ چل پھر دیکھنا تو سب کچھ بھول جاے گا
میں چپ کرگیا اور اسکے ساتھ ساتھ تیز قدموں سے چلتا رھا
ہم بازار سے ھوتے ھوے پھر ایک گلی میں گھس گئے گلی بھی بازار کی ھی طرح تھی
مگر ادھر آمدورفت بہت ھی کم تھی
اسد نے ایک دکان کے آگے رکتے ھوے مجھے کہا چل یار آج تجھے ایک گرما گرم چیز دیکھاتا ھوں تو میں نے کہا کہاں پر تو اس نے دکان کی طرف اشارہ کیا جس کے اگے پردہ لگا ھوا تھا اور اندر سے ویڈیو گیم کا شور آرھا تھا
اسد نے میرا ھاتھ پکڑا اور مجھے لے کر دکان میں گھس گیا
کاونٹر پر ایک انکل بیٹھا ھوا تھا
اسد نے اسے ایک روپیہ دیا اور اسے کہا سپیشل گیم تو اس نے کافی سارے سکے اسد کو تھما دیے اور سائڈ پر بنے ایک کیبن کی طرف اشارہ کیا اور بولا ادھر چلے جاو خالی ھے
میں بونگوں کی طرح دکان میں لگی بڑی بڑی گیموں کو دیکھ رھا تھا جہاں پانچ چھ بچے مختلف گیمیں کھیل رھے اور وہ بچے بھی سکول یونیفارم میں ھی تھے
اسد کیبن کی طرف چل دیا اور میں بھی اسکے پیچھے کیبن کے اندر گھس گیا
اسد نے ایک سکہ گیم میں ڈالا اور گیم سٹارٹ کر کے کھیلنے لگ گیا میں حیران ھوکر رنگین سکرین پر چلتی ھوئی گیم کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رھا تھا
میں نے زندگی میں پہلی دفعہ رنگین ٹی وی دیکھا تھا
اسد نے گیم ختم کی اور میرے پٹ پر ھاتھ مار کر بولا تیار ھوجا اب
میں نے گبھرا کر اسد کی طرف دیکھا تو
اسد نے کہا جگر ادھر دیکھ تو میں سکرین کی طرف دیکھنے لگ گیا اتنے میں ایک بڑی خوبصورت انگریز لڑکی جس نے ہاف سکرٹ پہنا ھوا تھا اور اونچی ہیل والی جوتی پہنی ھوئی تھی اسکے ممے اتنے بڑے تھے جیسے ابھی سکرٹ کو پھاڑ کر باہر آجائیں گے
وہ بڑی ادا سے جسم کو لہراتی ھوئی ہماری طرف آئی
اور بڑی ادا سے کھڑی ھوگئی اور ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگا کر ھاتھ کو چوما اور ہماری طرف پھونک ماردی اور سکرین پر انگلش میں لکھا ھوا
ویلکم ٹو مائی سویٹ ھارٹ
آیا
اور وہ لڑکی گھومی اور پیچھے اپنی بڑی سی گول مٹول سی گانڈ پر دونوں ھاتھوں کو رکھا اور بڑے سٹائل سے ھاتھوں کو اپنی گانڈ پر پھیرا اور اسی سٹائل سے چلتی ھوئی واپس چلی گئی
تو اسد نے میری طرف دیکھا اور بولا
سنا فیر
میں نے کہا یار بچی تو کمال کی تھی
تو اسد بولا
آگے آگے دیکھ
تو اسد پھر گیم کھیلنے لگ گیا اور کچھ ھی دیر بعد اسد نے دوسری سٹیج بھی کھیل لی اور وہ ھی لڑکی پھر دوبارا اسی سٹائل سے کمر کو لہراتی گانڈ کو مٹکاتی ھوئی چلی آئی اور پھر سے ہوائی چُمی ہماری طرف پھینکی اور بڑے سٹائل سے کندھوں پر اپنے دونوں ھاتھ رکھے اور کندھوں سے سکرٹ نیچے اتار دیا سکرٹ مموں پر آکر رک گیا
اور پھر اس لڑکی نے بڑی ادا سے کمر کو ہلایا اور ساتھ ساتھ سکرٹ کو نیچے کرتی گئی جب سکرٹ اسکے مموں سے نیچے اترا تو سرخ کلر کے بریزیر میں اسکے بڑے بڑے گول مٹول ممے قیامت ڈھا رھے تھے اسکے ممے دیکھ کر میرا تو حلق خشک ھونے لگ گیا اور میں نے بے ساخت اپنے لن کو پکڑ کر مسلنے لگ گیا
لڑکی نے آہستہ آہستہ کمر کو لہراتے ھوے سکرٹ گانڈ تک اتارا دیا اور پھر دونوں ھاتھ اپنے کولہوں پر رکھ کر گانڈ کو لہراتے ھو سکرٹ گانڈ سے بھی نیچے اتار کر چھوڑ دیا
سکرٹ اسکے پاوں میں گر گیا
اب وہ سرخ بریزیر اور سرخ ھی پینٹی میں تھی اسکے پورے جسم پر ایک بھی بال نھی تھا کیا کمال کا فگر تھا یار
لڑکی کچھ دیر کھڑی ادائیں کرتی رھی اور پھر واپس چلی گئی
اسد نے میری طرف دیکھا اور بولا سنا جگر مزہ آیا کہ نھی میں نے اپنے ماتھے سے پسینہ صاف کرتے ھوے اسے کہا یار کمال کردتا ای
کیا بم پھوڑ کے گئی ھے مزہ اگیا
تو اسد بولا آگے دیکھ
اور اسد نے اگلی سٹیج کھیلنی شروع کردی
تو میں نے کہا
یار اسکا نام کیا ھے تو اسد نے سکرین پر ایک سائڈ پر اسی لڑکی کی چھوٹی سی تصویر کے نیچے لکھے نام کی طرف اشارہ کرتے ھوے کہا
اسکا نام جولی ھے تو میں نے کہا واہ کیا نام ھے جولی
تو اسد ہنسنے لگ گیا
اور بولا
نام تو ایسے پوچھ رھا ھے جیسے اس سے شادی کرنی ھے
تو میں نے ایک لمبا سا سانس اندر کھینچ کر سانس باہر چھوڑا اور آہ بھرتے ھوے کہا ساڈی قسمت وچ کتھوں ایھو جیاں پریاں
تو اسد کھل کھلا کر ہنس پڑا اور بولا
میرے شزادے تو لن تو ایک دفعہ بڑا کر پھر دیکھ ایسی تو کیا اس سے بھی سپیشل پھدیاں تیرا انتظار کریں گی
تو میں نے حسرت بھری اواز نکالتے ھوے کہا
پتہ نئی او وقت کدوں آنا اے تو
اسد بولا بس صبر کر صبر دا پھل مٹھا ھوندا اے
تبھی اسد نے سٹیج مکمل کی اور پیچھے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لی
تو جولی پھر گانڈ کو لہراتی بل کھاتی کیٹ واک کرتی ہماری طرف آکر کھڑی ھوگئی
اور پھر ایک فلائنگ کس ہماری طرف پھینکی جسے میں نے آگے ھاتھ کر کے پکڑ کر اپنی مٹھی میں بند کر کے اپنے سینے کے ساتھ مٹھی کو لگا لیا
جولی نے دونوں ھاتھ کمر کے پیچھے کیے اور بریزیر کے ہک کھول دیے اور کندھوں سے بریزیر کے سٹرپ سرک کر نیچے بازوں تک کر دیے اور ھاتھ آگے کر کے مموں پر بریزیر کے کپ کے اوپر رکھ لیے اور آنکھ سے اشارہ کر کے ہمیں پوچھا کہ اتاردوں
میں جو بے صبری سے اسکے مموں کو دیکھنے کے لیے ترسا بیٹھا تھا جلدی سے بولا
لا وی دے ہن کناں ترسائیں گی
تو اس نے میری بات مان کر مموں سے بریزیر کے کپوں کو ہٹا دیا
اور میں جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھا اور دونوں ھاتھوں سے اسکے ممے پکڑنے کی کوشش کرنے لگ گیا اور سکرین کو نوچنے لگ گیا اتنے میں
میں ایکدم اچھلا کیوں کہ اسد نے پیچھے سے میری گانڈ میں انگلی دے دی تھی
میں اچھل کر واپس اپنی جگہ بیٹھ گیا اور بولا جا اوے پین یکہ سارا مزا ای خراب کردتا ای
تو اسد ھنستے ھوے بولا سالیا ساری سکرین روک لئی سی مینوں وی تے ویکھن دے
تب جولی نے اپنے گول مٹول مموں کو پکڑا اور ایک ممے کو اپنے منہ کی طرف لے گئی اور نپل پر زبان پھیر کر ممے کو چھوڑ دیا پھر دوسرے ممے کے نپل پر زبان پھیری اور واپس. چلی گئی
اسد نے پھر گیم کھیلنا شروع کردی اور کچھ ھی دیر بعد سٹیج ختم کی اور پھر سے جولی بڑے بڑے مموں کو لہراتی گانڈ کو ہلاتی چلی آئی ابھی جولی نے فلائنگ کس کی ھی تھی کہ اچانک ایک جھماکہ ھوا اور،،،،،،
،وغیرہ
جھماکہ ہوتے ہی لائٹ بند ھوگئی
میں نے اور اسد نے ایک آواز میں ھی واپڈا والوں کو تگڑی سی گالی دی اور ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگ گئے
میں نے اسد کو کہا یار چلو دفعہ کرو پھر کبھی دیکھیں گے اور ہم دکان سے باہر نکل کر اسد کے گھر کی طرف چل دیے
اسد کے گھر کے سامنے پہنچ کر اسد نے جیب سے چابی نکالی اور مجھے رکنے کا کہہ کر گیٹ کھول کر اندر داخل ھوگیا
میں باہر کھڑا حیرانگی اور حسرت بھری نگاہوں سے اسد کے گھر کو باہر سے دیکھنے لگ گیا اور سوچنے لگ گیا کہ باہر سے اتنا خوبصورت گھر ھے تو اند سے کتنا خوبصورت ھوگا
اتنے میں اسد نے بیٹھک کر دروازہ کھول کر مجھے اندر آنے کا اشارا کیا
میں جیسے ھی اندر داخل ہوا تو اپنے پینڈو ہونے کا ثبوت دینے لگ گیا اور کمرے کی سجاوٹ کو دیکھ کر واہ واہ کرنے لگ گیا کیا کمال کی کمرے میں سیٹنگ کی ھوئی تھی بڑے بڑے صوفے اور صوفوں کے اگے پڑا بڑا سا شیشے کا ٹیبل دیواروں کے ساتھ لگی رنگ برنگی پینٹنگ دیواروں پر لمبے سائز کے خوبصورت پردے
کیونکہ اتنا خوبصورت کمرہ اور یہ سب چیزیں میں نے زندگی میں پہلی دفعہ دیکھی تھی ہمارے گاوں میں تو بس بیٹھکوں میں چارپایاں اور موُڑے پڑے ھوتے تھے یا جو اچھے زمیندار ھوتے انکے لکڑی کے صوفے ھوتے مگر یہاں تو سب کچھ ھی میرے لیے نیا تھا،،
اسد میری حالت دیکھ کر ہنستے ھوے بولا
جگر بیٹھ میں تھوڑی دیر تک آیا
اس سے پہلے کہ میں اسے کچھ کہتا وہ جلدی سے گھر کے اندر کی طرف جاتے دروازے سے نکل کر اندر چلا گیا اور میں کھڑا ھوکر پھر کمرے کی ہر ہر چیز غور سے دیکھنے لگ گیا
کچھ دیر میں گردن کو گھماتے کمرے کی چاروں اطراف کا جائزہ لیتا رھا
پھر میں صوفے پر بیٹھ گیا
بیٹھتے ھی میجھے ایسے لگا جیسے میں صوفے مین دھنس کر پیچھے کی طرف گرنے لگا ہوں
دوستو اس وقت اگر میری کوئی حالت دیکھتا تو شاید ہنسی کے دورے سے بےہوش ہوجاتا
میں ہڑبڑا کر پھر سے کھڑا ھوگیا اور پریشان ھوکر صوفے کو دیکھنے لگ گیا
پھر میں نے ڈرتے ڈرتے صوفے کی سیٹ پر ہاتھ پھیرا اور اسکو دبا کر تسلی کرنے لگ گیا کہ صوفہ سہی سلامت ھی ھے
میں دوبارا ڈرتے ڈرتے صوفے پر آہستہ سے بیٹھ گیا اب صوفے کی سیٹ اتنی نیچے نھی ھوئی تھی
دراصل ہوا یہ تھا کہ پہلے میں بڑی شوخی سے صوفے پر پورے وزن کے ساتھ بیٹھا تھا
صوفہ انتہائی نرم تھا اس لیے میرے ذور سے بیٹھنے کی وجہ سے صوفے کا میٹرس بھی نیچے کی طرف گیا اور میں ڈر گیا تھا
میں بیٹھ کر تھوڑا تھوڑا نیچے سے گانڈ کو اٹھا اٹھا کر صوفے کا مزہ لے رھا تھا
کہ اچانک گھر کے اندر کی طرف والے دروازے کا پردہ سرکہ اور
ایک حسین دلفریب پری کا چہرہ نمودار ھوا
چہرہ کیا تھا چودہویں کا چاند تھا
میرے تو ہوش ھی ہوا ھوگئے میرا تو اس وقت یہ حال تھا کہ
اس کے بے ہجاب ھونے تک یاسر
شامل تھے ہم بھی ہوش والوں میں
چودہویں کے چاند جیسا روشن چمکتا چہرہ گلابی ہونٹ چہرے پر معصومیت آنکھوں کا ٹھاٹھیں مارتا ساگر شاید حسن کی ساری تعریفیں اس چہرے میں ھی تھی
اس کی انکھوں نے مجھے غور سے دیکھا اور میری گستاخ آنکھوں نے بھی جرات کردی اسکی آنکھوں کے سمندر میں ڈبکی لگانے کی
پھر وہ حسین چہرہ پردے کی اوٹ لے کر گم ھوگیا
مگر میں اس حسین چہرے کے سحر میں ابھی تک جکڑا پردے کو دیکھی جارھا تھا اور میری نظریں پھر اس گستاخی کے لیے ترسی اسکو تلاش کررھی تھی
مگر وہ جاچکی تھی
ھاےےےےےے افففففف ٹھنڈی آھ بھری اور پھر اسی کے بارے میں سوچنے لگ گیا کہ کون تھی یہ حسینا۶
کچھ دیر اسی قاتلہ کے بارے میں سوچتا رھا جو ایک ھی نظر میں میرا سب کچھ لے اڑی تھی
کہ اسد اندر داخل ھوا میں نے حسرت بھری نگاہوں سے پھر پردے کی طرف دیکھا کہ شاید وہ ھی حسینہ جلوہ گر ھے
مگر وہ سالا اسد تھا
اسد ہاتھ میں ٹرے لیے ھوے ایا جس میں مشروب تھا اور بسکٹ وغیرہ
اسد میرے پاس آیا اور ٹرے ٹیبل پر رکھ کر میرے ساتھ بیٹھ گیا اور بولا سوری یار وہ کپڑے بدلنے میں دیر ھوگئی تھی
مگر میں تو اپنے خیالوں میں کھویا ھوا تھا کہ اسد نے مجھے گم سم دیکھ کر کندھے سے پکڑ کر ہلاتے ھوے کہا
اوے کتھے پُنچیا ھویاں اے
طبعیت تے سئی اے
تو اسے میں کیا بتاتا
کہ
یہ طبیب بھلا اب میری مرض کو کیا سمجھیں،
تم اب آ بھی جاو
کہ یہ وصل بیماری ھے
میں نے ایکدم چونکتے ھوے اسد سے کہا نھی نھی میں ٹھیک ھوں بس ایسے ھی تمہارا گھر دیکھ کر بس اپنی غریبی کے بارے میں سوچ رھا تھا
تو اسد نے مجھے کندھے سے پکڑا اور بولا
چھڈ یار ایویں چولان مار دیاں ایں دوبارا اے گل نہ سوچیں یاری وچ امیری غریبی نئی ہوندی
اور ساتھ ھی مشروب کا گلاس مجھے پکڑا دیا اور کہنے لگا چل جلدی سے پی پھر تجھے ایک گرم گرم چیز دیکھاتا ھوں
میں تو پہلے ھی گرم ھو چکا تھا اسے اب کیا بتاتا
میں نے ایک ہی سانس میں گلاس ختم کیا اور اسد کو کہنے لگ گیا کہ یار تمہارا گھر بہت خوبصورت ھے
تو اسد نے شکریہ ادا کیا
کچھ سوچتے ہوے میں نے اسد سے پوچھا یار تیری امی نے نھی پوچھا کہ تو سکول سے اتنی جلدی واپس اگیا ھے
تو وہ ہنس کر بولا
کہ امی تو بوتیک پر چلی گئی ہیں اور رات کو ھی واپس آئیں گی گھر میں بس سسٹر ھی ھے اور اسکو رشوت وغیرہ لگا دیتا ھوں تو وہ امی کو نھی بتاتی تو میں ہمممم کر کے چپ کر کے اندازہ لگانے لگ گیا کہ ہو نہ ہو وہ حسین پری اسد کی بہن ھی ھوگی
کچھ دیر ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رھے پھر اسد نے مجھے کہا چل اٹھ اوپر کمرے میں چلتے ہیں
میں اسد کے پیچھے بیٹھک سے نکل کر انکے گھر میں داخل ھوے
اور سامنے ٹی وی لاونج سے سیڑیاں چڑھ کر اوپر جانے لگ گئے اسد میرے آگے جارھا تھا میں نے پیچھے سے سارے گھر کا جائزہ لیا
مگر مجھے وہ قاتل حسینہ کہیں نظر نہ آئی
ہم اوپر پہنچے تو اسد مجھے لے کر ایک کمرے میں چلا گیا جب میں کمرے میں داخل ھوا تو وہ کمرا بھی کمال کا تھا سامنے بڑا سا جہازی سائز کا بیڈ پڑا تھا اور بیڈ کے بلکل اوپر چھت کے ساتھ شیشے کا بڑا سا جھومر لٹک رھا تھا اور دوسرے طرف ایک بڑی سی الماری بنی ھوئی تھی جس میں بڑے سائز کا ٹی وی پڑا تھا اور نچلے حصے میں وی سی آر اور اس سے نچلے حصہ میں کافی ساری ویڈیو کیسٹوں کا انبار لگا ھوا تھا
اور کمرے کی ایک سائڈ پر چھوٹا سا دروازہ تھا جو شاید اٹیچ باتھ کا لگ رھا تھا
اسد نے مجھے بیڈ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور دروازہ لاک کرنے چلا گیا
دروازہ لاک کر کے اس نے ٹی وی اون کیا اور وی سی آر کے پیچھے کی طرف ھاتھ مارتے ھو کچھ تلاش کرنے لگ گیا کچھ دیر بعد اسکے ھاتھ میں ایک ویڈیو کیسٹ تھی جو اس نے وی سی آر میں لگا دی اور وی سی آر اور ٹی وی کا ریمورٹ لے کر میرے ساتھ بیڈ پر جمپ مار کر بیٹھ گیا میں ابھی تک ٹانگیں نیچے لٹاے بیٹھا تھا تو اسد نے مجھے کہا جگر اوپر ھوکر بیٹھ جا کیا
نئ نویلی دلہن کی طرح شرما رھا ھے یہ اپنا ھی گھر سمجھ
میں بھی ٹانگیں پھیلا کر بیڈ پر بیٹھ گیا
تبھی سامنے ٹی وی پر بلیو فلم چل گئی اور انگریز گوریوں کو مختلف پوزوں میں چود رھے تھے
میں بڑی دلچسپی سے ویڈیو دیکھ رھا تھا اور ساتھ ساتھ اپنے لن کو بھی مسل رھا تھا
کافی دیر بعد
۔میری اچانک اسد پر نظر پڑی تو اسد نے اپنا بڑا سا لن نکال کر ھاتھ میں پکڑا ھوا تھا
اور لن پر ھاتھ سے مُٹھی بنا کر اوپر نیچے کری جارھا تھا
میں نے اسے ھاتھ سے ہلا کر کہا
سالیا اے کی کری جاناں اے
تو اسد نے بڑی سیکسی سی آواز میں کہا
مٹھ مار رھا ھوں تو بھی ایسے کر پھر دیکھ کتنا مزہ آتا ھے اور پھر سے ٹی وی کی طرف دیکھ کر مُٹھ مارنے لگ گیا
میرا بھی فلم دیکھ کر دماغ خراب ھوچکا تھا میں نے بھی شلوار میں سے لن نکالا اور جیسے اسد کر رھا تھا ویسے ھی کرنے لگ گیا
مجھے کچھ خاص مزہ نھی آرھا تھا تو میں نے اسد کو کہا
گانڈو ایسے تو بلکل بھی مزہ نھی آرھا اس سے زیادہ تو لن کو مسلنے میں مزہ آتا ھے
تو اسد نے پہلے میرے لن کی طرف دیکھا اور
بولا سالا صاب لن کو چکنا تو کرلے
میں نے کہا کیسے
تو اس نے سرھانے کے پاس پڑی ایک شیشی مجھے پکڑاتے ھوے کہا اسکو پہلے لن پر اچھی طرح لگا پھر مُٹھ مار
میں نے شیشی کا ڈھکن کھولا اور اپنی ھتھیلی پر الٹایا تو اس میں سے منی کی طرح کا سفید سا گاڑھا گاڑھا محلول نکلا اور اس میں سے خوشبو سی آرھی تھی میں کہ
یار یہ کیا ھے
تو بولا
ماما نظر نھی آرھا شیمپو ھے
تو میں نے حیرانگی سے پوچھا یہ کیا ھوتا ھے
تو وہ ہنس کر بولا
جا اوے گانڈو
اس سے سر کے بالوں کو دھوتے ہیں
اور میں سر کو جھٹکا کہ شیمپو کو لن پر لگا کر مُٹھ مارنے لگ گیا
شیمپو کے ساتھ مُٹھ مارتے ہوے مجھے بھی اب مزہ آرھا تھا اور ایک عجیب سے لُطف کی لہر میرے جسم میں گزر رھی تھی کے اچانک اسد کے لن سے منہ کے فوارے چھوٹنا شروع ھوگئے اور کچھ دیر تک اسد لمبے لمبے سانس لیتا رھا
مگر میرے چھوٹنے کا امکان ابھی تک دور دور تک نھی تھا مجھے بس مزہ ھی آرھا تھا مگر لن چھوٹنے کا نام نھی لے رھا تھا
اسد اٹھ کر واش روم چلا گیا تھا اور میں اپنی دھن میں دے دھنا دھن لگا ھوا تھا اب تو شیمپو بھی خُشک ھو چکا تھا میں نے تین چار دفعہ تھوک پھینک کر گیلا کیا مگر پھر خشک ھو جاتا تھا
اسد واش روم سے فری ھو کر واپس کمرے میں آگیا
اور حیرانگی سے میری طرف دیکھتے ھوے بولا
اوے توں حالے تک فارغ نئی ھویا
میں نے کہا یار کچھ نکل ھی نھی رھا
تو اسد بولا
پہلے کبھی چھوٹا ھے تو میں نے نفی میں سر ہلا دیا تو اسد بولا
فیر میرا لوڑا چُھٹیں گاں اویں اپنی باواں وچ کھلیاں پان لگیا ھویاں اے
چار دن تیل دی مالش کر فیر ویکھیں تیرے لن وچوں وی کیویں فوارے نکلدے
میں بھی ھاتھ چلا چلا کر تھک چکا تھا
میں ایسے ھی اٹھا اور واش روم میں گھس کر اپنا آپ دھویا اور باہر آگیا
اسد نے ٹی وی بند کردیا تھا اور فلم بھی نکال کر چھپا دی تھی اور ہم کمرے سے نکل کر سیڑیاں اترنے لگے جب میں اسد کے پیچھے پیچھے آدھی سیڑیاں ھی اترا تھا کہ مجھے نیچے کچن سے وہ حسن کی شہزادی نکلتی ھوئی ٹی وی لاونج میں آتی ھوئی نظر آئی اسکے ھاتھ میں چاے کا بڑا سا مگ پکڑا ھوا تھا اور چاے کی چسکیا لیتی ھوئی
بڑی ادا سے چلی آرھی تھی
دوستو اس حسینہ کا کیا قیامت فگر تھا
اس نے ہلکے پیلے رنگ کی شرٹ اور سفید شلوار پہنی ھوئی تھی اور قمیض کی اتنی فٹنگ تھی کہ میرے جیسا پینڈو یہ ھی سوچتا رہتا کہ یہ قمیض کے اندر گُھسی کیسے اور قمیض کافی شورٹ تھی جو اسکے گُٹنوں سے بھی اوپر اور پھدی والے حصہ سے کچھ نیچے تھی
اسکے چھتیس سائز کے ممے آگے کو ایسے تنے ھوے تھے کہ جیسے ابھی قمیض کو پھاڑ کر باہر نکل آئیں اور پیٹ تو بلکل نظر ھی نھی آرھا تھا کمر ایسی تھی کہ میں دونوں ھاتھ کی انگلیاں جوڑ کر کمر کو پکڑتا تو میرے ھاتھوں میں اسکی کمر آجاتی
دوپٹہ نام کی چیز ھی نظر نھی آئی
وہ ظالم جب چاہے کی چُسکی لیتی تو ساتھ اپنی لمبی سی پلکوں کو جھپکاتی اور اس کے گلابی ہونٹ خوش قسمت کپ کو چھو کر آپس میں مل جاتے اور اس کے نرم سے روئی کے گولے جیسے پنک گالوں پر ڈنپل بن جاتا
پانچ فٹ پانچ انچ کی یہ حسینہ حسن کا کرشمہ تھی
چاے کے کپ کو ہونٹ لگاتے ھی اس حسینہ نے اپنی ساگر جیسی آنکھوں پر چھاوں کی ہوئی پلکوں کو اٹھا کر میری طرف دیکھا آنکھوں سے آنکھیں ملیں دونوں کے قدم رک گئے
اور اس ظالم کو شاید ہوش آیا اور میری موجودگی کا احساس ھوا
اور وہ میرے دل پر چُھریاں چلاتی واپس پلٹی اور اسکی بتیس سائز کی گول مٹول پیچھے نکلی ھوئی گانڈ تھر تھرائی اور ساتھ ھی گانڈ کو چھلکاتی ھوئی تیز تیز قدم اٹھاتی کمرے کی طرف چلدی اسے دیکھتے دیکھتے ھی وہ قاتلہ میرا سب کچھ لے کر میری نظروں سے اوجھل ہوگئی اور میں وہیں خالی ھاتھ رھ گیا
اتنے میں اسد کی آواز آئی کہ آ بھی جاو سکول کی چھٹی کا ٹائم ھوگیا ھے تو میں ایکدم سے ہڑبڑایا اور تیز تیز قدم اٹھاتا ھوا نیچے آگیا اور گھر سے نکلتے وقت اسد نے اندر منہ کرکے آواز دی
مہری دروازہ لاک کر لو
اور ہم سکول کی طرف تیز تیز قدموں سے چل پڑے میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کیا نام ھوا مہری اب میں اسد سے بھی نھی پوچھ سکتا تھا کہ تمہاری بہن کا اصل نام کیا ھے
خود ھی جوڑ توڑ لگا کر سوچنے لگ پڑا جب کچھ سمجھ نہ آیا تو اسی نام پر اکتفا کیا
اور من ھی من میں ٹھنڈی آہ بھر کر دل نے پکارا مہرییییی
سکول کے قریب پہنچے تو چھٹی ھوچکی تھی اور اسد نے مجھے الوداع کیا اور واپس گھر کی طرف ھی چلا گیا دل تو میرا بھی کررھا تھا کہ دوبارا پھر اس کے ساتھ چلا جاوں مگر مجبوری تھی
میں سیدھا عظمی کے سکول گیا اور ان دونوں کو ساتھ لے کر گھر کی طرف چلدیا
مگر میرے دماغ پر مہری ھی چھائی ھوئی تھی جبکہ عظمی کی گانڈ ہل ہل کر مجھے اپنی طرف متوجہ کر رھی تھی مگر میرا دھیان کہیں اور ھی تھا
راستے میں عظمی نے کافی دفعہ مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی اور ہنسی مزاق کا ماحول بنایا مگر میں سیریس ھی رھا
تو عظمی نے مجھ سے پوچھا بھی کہ کیا ھوا سکول سے مار پڑی ھے یا طبعیت خراب ھے
مگر میں نے اسے ٹال مٹول کردیا
ایسے ھی ہم گھر پہنچ گئے
دوستو کافی دن ایسے ھی گزر گئے کھیتوں کی فصلیں بھی کٹ چکی تھی بلکہ اسکی جگہ نئی فصل بھی کھیت سے سر اٹھا رھی تھی
اسد روز مجھ سے پوچھتا سنا آج مالش کی کوئی فرق پڑا کہ نھی پڑا کبھی کبھار وہ میرا لن بھی پکڑ کر چیک کرلیتا اور مجھے کہتا واہ یار بڑی جلدی تیل اثر کررھا ھے اور دوبارا اسد کے گھر جانے کا بھی اتفاق نھی ہوا
اسکی یہ بھی ایک وجہ تھی کہ دوسرے دن ماسٹر جی نے میری اچھی بھلی کلاس لی تھی اور دوبارا سکول سے بھاگنے پر سکول سے نکال دینے کی دھمکی بھی ملی تھی اس لیے میری دوبارا جرات نھی ھوئی
فصلیں ابھی چھوٹی تھی اس لیے مجھے عظمی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کا بھی موقع میسر نہ آیا
اور روز جاتے ھوے باجی صدف کی گانڈ اور آتے ھوے عظمی اور کبھی نسرین کی گانڈ کا نظارا ملتا رھتا
وقت کا پہیہ اتنی تیزی سے گھوما کہ پتہ ھی نہ چلا کہ کب سالانہ پیر سر پر آگئے
پڑھائی میں جتنا تیز پہلے تھا مگر اسد کی دوستی کی وجہ سے اب اتنا ھی نالائک ھوگیا تھا
پیپروں کے شروع ھونے میں ایک مہینہ رھ گیا تھا
اور موسم بھی کافی سرد ھوچکا تھا
میں نے عظمی کو بتایا کہ یار میری تو پیپروں کی تیاری ھی نھی ھورھی میں تو اس سال فیل ہو جاوں گا
تو عظمی نے کہا تم بھی ہمارے ساتھ باجی صدف کے گھر ٹیویشن پڑھنے چلے جایا کرو
مجھے اسکا مشورہ کافی مفید لگا اور ویسے بھی میں باجی صدف کے جسم کا نظارا کرنے کے لیے ترسا رھتا تھا
میں نے امی سے بات کی کہ شہر کی پڑھائی بہت مشکل ھے اس لیے مجھے بھی باجی صدف کے پاس ٹیویشن رکھوا دو
امی نے بھی حامی بھر لی کہ میرے پُتر نوں پڑائی دا کناں فکر اے
دوسرے دن سے میں نے ٹیوشن جانا شروع کردیا میں جب بھی باجی صدف کہ گھر جاتا تو باجی صدف ویسے ھی میری گال پر چٹکی لاًزمی کاٹتی اور میں انکی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک دیکھتا.
اب یہ چمک کیسی تھی مجھے اس کا اندازہ لگانا مشکل ھو رھا تھا کیوں کہ وہ میرے ساتھ کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کرتی جس کی وجہ سے میں فائنل ڈسیزن لے سکتا
مگر ایک بات تھی جو میں نے نوٹ کی کہ باجی صدف اپنے مموں پر دوپٹہ نھی لیتی تھی اور کام چیک کروانے جب میں انکے پاس جاتا تو اسکے گلے سے انکے مموں کا اوپر والا حصہ صاف نظر آتا
تھا
اس کے چہرے کی نسبت اسکے مموں والا حصہ ذیادہ سفید تھا
ایک دن ہم ٹیوشن کے لیے باجی صدف کے گھر گئے تو باجی صدف گھر میں نظر نھی آئی تو انکی امی نے بتایا کہ تم لوگ بیٹھ کر پڑھنا شروع کرو تمہاری باجی نہا رھی ھے
انکا واش روم بیرونی دروازے کے بلکل ساتھ ھی تھا
ہم اپنی جگہ پر بیٹھ کر کتابیں بیگ میں سے نکالنے لگ گئے
تو باجی صدف کی امی نے مجھے آواز دی کے یاسر بیٹا بات سنو میں جلدی سے اٹھا اور انکے پاس پہنچ گیا تو آنٹی نے کہا کہ بیٹا
پوڑی لا کے ٹارے توں چھیٹیاں تھلے سُٹ دے
)
(سیڑی لگا کر واش روم کے کے
کل سامنے بیرونی دیوار کے ساتھ بنے برآمدے سے کپاس کی سوکھی چھڑیاں اتار دو)
میں نے آنٹی کے حکم کی تعمیل کرتے ھو ے کہا اچھا آنٹی جی ابھی اتار دیتا ھوں
میں نے بانس کی بنی ھوئی سیڑھی اٹھائی اور دیوار کے ساتھ لگا کر برآمدے کی چھت پر چڑھ گیا اور سوکھی سوکھی چھڑیاں چُن چُن کر نیچے پھینکنے لگ گیا
ابھی میں نے چند ھی چھڑیاں نیچے پھینکیں تھی کہ اچانک میرا دھیان واش روم کی دیوار پر بنے بڑے سے روشن دان پر پڑا
جیسے ھی میری نظر روشن دان کے اندر پڑی کیوں کہ واش روم کی چھت برآمدے کی چھت سے کافی چھوٹی تھی اس لیے چھت پر کھڑے ہوکر واش روم کا اندر کا سارا منظر بلکل صاف نظر آتا تھا حطہ کہ واش روم کا فرش بھی نظر آتا تھا
روشن دان کا سوراخ کافی بڑا سا تھا اور آگے کوئی جالی وغیرہ بھی نھی تھی
میں تو واش روم کے اندر کا منظر دیکھتے ھی رھ گیا
کی صدف بلکل ننگی کھڑی تھی
)دوستو ایک بات یاد رکھنا جس آنٹی اور جس باجی پر نیت خراب ھوگئی تھی انکو میں صرف نام سے پکاروں گا،،،،
صدف ٹانگیں کھولے کھڑی اپنی پھدی پر کچھ لگا رھی تھی مجھے اسکا ایک مما نظر آیا
میں نے جلدی سے پہلے نیچے دیکھا تو مجھے آنٹی کہیں نظر نھی آئی اور عظمی اور نسرین اور باقی کے بچے دوسری طرف منہ کرکے پڑھنے میں مصروف تھے
میں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور تھوڑا پیچھے ھوکر واش روم میں دیکھنے لگ گیا
اب نیچے سے کوئی مجھے دیکھ نھی سکتا تھا کہ میں اوپر کیا کررھا ھوں
صدف بڑے آرام سے پھدی پر بال صفا پوڈر کا لیپ کررھی تھی کچھ دیر بعد صدف ٹانگیں پھلا کر دیورا کے ساتھ ٹیک لگا کر لکڑی کی پھٹی پر بیٹھ گئی
اب صدف کے نیم گورے ممے بلکل صاف نظر آرھے تھے اسکے مموں پر براون سا دائرہ بنا ھوا تھا اور چھوٹے چھوٹے نپل تھے پیٹ بلکل اندر کی طرف گیا ھوا تھا
کچھ دیر صدف ایسے ھی بیٹھی رھی
تب میں اٹھا اور کچھ چھڑیاں اور اٹھا کر نیچے پھینک دیں
اور پھر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا
تب صدف پانی کے ٹب سے ڈبے میں پانی ڈال کر پھدی والے حصہ کو دھو رھی تھی اور ذور ذور سے پھدی کو مل مل پھر پانی ڈال دیتی
پھر صدف کھڑی ھوئی اور تولیہ لے کر پھدی کو صاف کرنے لگ گئی
مجھے صرف اسکی ٹانگیں ھی نظر آرھی تھی اور ایک مما نظر آرھا تھا کیوں کے صدف سائڈ پوز سے کھڑی تھی
پھدی صاف کر کے وہ پھر ٹانگیں کھول کر تھوڑا نیچے جھک کر اپنی پھدی کا معائنہ کرنے لگ گئی کہ کوئی بال رھ تو نھی گیا
جب اچھی طرح اس نے تسلی کرلی تو پھر سے لکڑی کی پھٹی پر بیٹھ گئی اور اپنے بالوں کی پونی کھولی اور جھٹکے سے سر کو دائیں بائیں کر کے بالوں کو کھلارنے لگی صدف
جیسے جیسے بالوں جھٹکتی اسکے ممے بھی ویسے ھی ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتے
میرا لن ایکدم اکڑ گیا اور میں ھاتھ سے لن کو حوصلہ دینے لگ گیا
پھر صدف سر جھکا کر پانی کے ڈبے بھر بھر کر اپنے سر کے بالوں کو گیلا کرنے لگ گئی پھر اس نے کپڑے دھونے والا صابن اٹھایا اور سر کے
بالوآئی
و لگانے لگ گئی اور اچھی طرح صابن لگا کر بالوں کو منہ کے آگے کر کے سر جھکا کر بالوں کو دونوں ھاتھوں میں لے کر ھاتھ آپس میں رگڑنا شروع کردیا کچھ دیر ایسے ہی کرتی رھی
اور میں وقفے وقفے سے چھڑیاں اٹھا کر نیچے پھینکتا رھا
پھر صدف نے بالوں کو اچھی طرح سے دھویا اور اپنے جسم پر پانی ڈالنا شروع کردیا
اور ساتھ ساتھ کبھی اپنے مموں کو مسلتی کبھی نیچے ھاتھ لیجا کر پھدی کو مسلتی اور کبھی کمر کے پیچھے ھاتھ لیجا کر کمر کو مسلتی
واش روم میں 100واٹ کا بلب جل رھا تھا جس کی گولڈن لائٹ میں صدف کا جسم چمک رھا تھا
صدف کے ممے ٹن ٹنا ٹن کھڑے تھے اور ھاتھ لگانے کے بعد مستی سے جھومتے صدف نے جسم پر صابن لگانا شروع کردیا اور پھر صابن کو اچھی طرح پورے جسم پر ملنا شروع کردیا صدف جب مموں کو مسلتی تو اپنی انگلی اور انگوٹھے سے ممے کے نپل کو بھی پکڑ کر مسل دیتی ایسے اس نے کئی بار کیا
اور جب پھدی پر صابن کی مالش کرتی تو ایکدم اپنی آنکھیں بند کر کے سر کو دیوار کے ساتھ لگا لیتی کافی دیر یہ ھی سین چلتا رھا
پھر صدف تھوڑا سا اوپر ھوئی اور اپنی گانڈ کو اچھی طرح ملنے لگ گئے اسکی گانڈ کیا تھی کمر کے حساب سے کمر کے نیچے سپیڈ بریکر ھی تھا
اگر اسکی گردن سے ھاتھ پھیرتے ھوے کمر سے نیچے لیجا کر گانڈ کہ اوپر سے گزاریں تو ایسے ھی لگے گا کہ
کارپٹ روڈ پر اچانک سپیڈ بریکر آگیا ھے
گانڈ کو اچھی طرح مل لینے کے بعد اس نے تین انگلیاں گانڈ کی دراڑ میں ڈال کر ھاتھ کو اوپر نیچے کر کے دراڑ کی صفائی کرنے لگ گئی
پھر وہ اپنی جگہ پر بیٹھ گئی اور پانی اپنے جسم پر ڈالنا شروع کردیا
میں فل مست ھوکر پورا دھیان لگا کر صدف کے سیکسی جسم کا نظارہ کر رھا تھا اور اس کے انگ انگ کو باخوبی زہن نشین کررھا تھا
صدف نے سارے جسم کو اچھی طرح سے دھو لیا تھا اور اب وہ ایک جھٹکے سے کھڑی ھوئی جب وہ کھڑی ھوئی تو اسکے دودہ کے پیالے ایسے چھلکے جیسے ابھی پیالوں سے سارا دودہ اچھل کر باہر گر جاے گا صدف نے تولیہ روشن دان میں لٹکا دیا تھا
صدف نے جیسے ھی میری طرف منہ کر کے تولیہ پکڑنے کے لیے ھاتھ آگے بڑھایا تو اسکی سیدھی نظر مجھ پر پڑی اور نظروں سے نظریں ملی اور صدف نے جلدی سے تولیہ کھینچا اور اپنے مموں کے آگے کرتے ھوے ایک زور دار چیخ ماری
اور ساتھ ھی مجھے آنٹی کے واش روم کی طرف دوڑے انے کی آواز آئی
جیسے ھی میں نے صدف کی چیخ سنی اور ساتھ ھی آنٹی کے دوڑے آنے کی آواز سنی تو
میری تو گانڈ پھٹ گئی
میں خود کو کوسنے لگ گیا
کہ
پین یکہ صبر نئی ہوندا سی ہن پتہ لگے گا ہور ویکھ ممے تے پھدیاں
خیر مجھے اور تو کچھ نہ سوجا میں نے جلدی جلدی سے تین چار چھڑیوں کے بنڈل اٹھاے اور نیچے پھینک کر
جلدی سے سیڑھی سے اتر کر نیچے صحن میں آگیا تو میں نے واش روم کی طرف دیکھا تو آنٹی عظمی اور نسرین بھی دروازے کے باہر کھڑی صدف سے پوچھ رھی تھی کیا ھوا مگر اندر سے کوئی آواز نہ آئی میں جلدی سے جاکر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا اور کتاب نکال کر پڑھنے لگ گیا
پڑھتا کیا میری تو ڈر کے مارے گانڈ پھٹ رھی تھی
مجھے تو یہ سمجھ نھی آرھی تھی کہ میں اب کروں کیا اور میرے ساتھ ھوگا کیا
،،
اتنے میں صدف سر کے بالوں کو تولیہ لپیٹے واش روم سے نکلی اور کسی سے بھی کچھ بات کیے بغیر تیز تیز قدم اٹھاتی میرے پاس سے گزر کر کمرے کی طرف چلی گئی
اور کمرے کے دروازے پر کھڑی ھوکر پیچھے مڑ کر دیکھا اور ایک قہر بھری نظر مجھ پر ڈالی اور کمرے میں داخل ہو کر ذور سے دروازہ بند کردیا
میری تو بیٹھے کی ٹانگیں کانپ رھی تھی کہ پتہ نھی آنے والا وقت کیسا ھوگیا صدف اور اسکی امی میرے ساتھ کیا کرے گی صدف کا ابو تو تھا بھی بڑے غصے والا اور بدمعاش ٹائپ کا تھا
اتنے میں عظمی اور نسرین بھی میرے پاس آکر بیٹھ گئی میں نے انجان بنتے ھوے عظمی سے پوچھا کہ تم لوگ کدھر گئے تھے تو عظمی بولی تمہیں باجی کی چیخ نھی سنائی دی تو میں نے حیران ھوتے ھوے کہا کہ نھی میں تو ٹارے کے اوپر چڑھ کر چھیٹیاں پھینک رھا تھا
تو کیا ھوا تھا باجی نے چیخ کیوں ماری تھی
تو صدف نے منہ بسورتے ھوے کہا پتہ نھی آنٹی نے پوچھا بھی تھا مگر وہ ڈری سی اپنے کمرے میں چلی گئی کچھ بولی ھی نھی
تب آنٹی کی مجھے آواز آئی
کہ یاسر
میں نے گبھراے ھوے آنٹی کی طرف بنا دیکھے کہا
ججججی آنٹی ججججی تو آنٹی بولی
پتر اینیاں وڑیاں چھیٹیاں تھلے سُٹ دیتیاں ای میں تے تینوں تھوڑیان جیاں کیاں سی
تو میں اب آنٹی کو کیا بتاتا کہ تمہاری بیٹی کی مہربانی ھے جو اس نے مجھے اپنے دھیان لگائی رکھا تھا
میں نے کہا آنٹی جی مجھے پتہ نھی چلا کہو تو دوبارا اوپر رکھ دوں
تو آنٹی بولی
نئی رہن دے کل کم آ جان گیاں پہلے ای تھک گیا ھویں گا
میں خاموش رھا اور پڑھنے کی ایکٹنگ کرنے لگ گیا جبکہ میرا دل دماغ صدف کے کمرے کی طرف تھا
اور سوچ رھا تھا کہ اب سالی باہر نکل کر پتہ نھی کیا ہنگامہ کرے گی
تبھی سامنے کمرے کا دروازہ کھلا اور صدف نے منہ باھر نکال کر اپنی امی کو آواز دی اور دوبارا دروازہ بند کردیا
آنٹی جلدی سے کمرے کی طرف چلی گئی اور دروازہ کھول کر اندر داخل ھوگئی
میری تو حالت ایسے ھوگئی کہ کاٹو تو جسم میں لہو نھی
رہی سہی کسر بھی نکل گئی
میرا دماغ پھٹنے والا ھوگیا کہ
کاکا اب خیر نھی صدف نے اپنی ماں کو بتانے کے لیے اندر بلایا ھے اور اس نے اپنی ماں کو
سب کچھ بتا دینا ھے اور آنٹی نے اپنے بندے کو
تے کاکا تینوں فیر وجے ای وجے
اونے تے تینوں ویسے ای وڈ کے رکھ دینا اے
ایسے ھی الٹے سیدھے خیال میرے دماغ میں چل رھے تھے
مجھے کچھ اور تو نہ سوجا
میں نے جلدی سے کتابیں اپنے بیگ میں رکھنا شروع کردی اور ایکدم سے اٹھا اور بیگ کندھے سے لٹکایا اور باہر کو چلدیا
تو عظمی نے حیران ھوتے ھوے مجھے آواز دی کے کدھر جارھے ھو تو میں نے کہا میرے سر میں درد ھورھا ھے مجھے چکر آرھے ھیں باجی کو بتا دینا میں گھر جارھا ھوں
میں نے عظمی کا جواب سنے بغیر باہر دروازے کی طرف دوڑ لگا دی اور کب میں گھر پہنچا مجھے نھی پتہ رات کو مجھے بہت تیز بخار چڑھ گیا میرا جسم کانپ رھا تھا
عظمی لوگ دوسرے دن سکول ٹائم ہمارے گھر آئیں اور امی سے پوچھنے لگ گئی کہ یاسر ابھی تک تیار نھی ھوا تو امی نے بتایا کہ وہ تو کل کا بیمار پڑا ھے تو عظمی اور نسرین دونوں کمرے میں ائیں اور میرے ماتھے ہر ھاتھ رکھ کر بخار چیک کرنے لگ گئی
میں نے کہا تم جاو سکول میں نے آج نھی جانا
تو وہ دونوں بولیں ہم اکیلی کیسے جائیں گی
نہ بابا ہمیں تو ڈر لگتا ھے تو میں نے کہا ڈر کیسا باجی بھی تو ساتھ ھی جاے گی تو وہ دونوں بولیں
جاتے ھی ساتھ ھونگی واپسی پر تو اکیلی ھی آئیں گی
ہم بھی آج چھٹی کرلیتی ہیں کل تمہارے ساتھ ھی جائیں گی تو میں خاموش ھوگیا اب میں کیا انکو کہتا مجھ سے تو ہلا نھی جارھا تھا بخار کی شدت اتنی تھی
وہ دونوں کچھ دیر بیٹھی اور اپنے گھر بتانے کے لیے چلی گئی کہ میری طبعیت نھی سہی ھے
کچھ ھی دیر بعد آنٹی فوزیہ گبھرائی ھوئی کمرے میں آئی انکے پیچھے ھی عظمی اور امی بھی تھیں
آنٹی نے آتے ھی میرا منہ سر چومنا شروع کردیا اور بولی
ھاے ھاے کی ھویا میرے شزادے نوں کیویں بخار نال تپدا پیا اے
میں انٹی کے اتنے بے تحاشا پیار
اور فکر کو دیکھ کر رونے لگ گیا
آنٹی نے مجھے اٹھایا اور اپنے سینے کے ساتھ لگا کر مجھے چپ کروانے لگ گئی
میں اور ذور ذور سے بچوں کی طرح رونے لگ گیا
تو عظمی کہنے لگی
امی ایدھے سارے ڈرامے نے کل چنگا پلا سی
تو آنٹی نے غصہ سے نیچے جھک کر اپنی چپل اٹھائی اور عظمی کو دے ماری اور بولی
چل دفعہ ھو کسے کُتی دی بچی میرا لال بخار نال ادھ موا ھوگیا تے تینوں بکواس کرن دئی پئی اے
عظمی کو جب جوتا پڑا تو.
ناچاھتے ھوے بھی روتے روتے میری. ہنسی نکل گئی اور عظمی مجھے گھورتے ھوے اہنے منہ پر ھاتھ پھیرتے ھوے برا سا منہ بنا کر ایک سائڈ پر کھڑی ھوگئی
اور آنٹی نے میرا سر پکڑا کر پھر اپنے سینے سے لگا لیا اور میرے سر پر ھاتھ پھیرنے لگ گئی
آنٹی کا پیار دیکھ کر مجھے خود پرغصہ آنے لگ گیا کہ
میں کتنا برا ھوں کہ آنٹی مجھے اپنی بیٹیوں سے بھی بڑھ کر پیار کرتی ہیں اور میرے لیے کتنی فکر مند ہیں اور میں کتنا گھٹیا اور گندا انسان ھوں جو ہر وقت انکے بارے میں غلط سوچتا رھتا ھوں اور انکو گندی نظر سے دیکھتا رہتا ہوں
مجھے رہ رہ کر اپنے آپ پر غصہ آرھا تھا اور شرمندگی سے اپنے آپ میں مرا جارھا تھا
خیر آنٹی دوگھنٹے کے قریب میرے پاس ھی بیٹھی رھی اور مجھے اپنے ھاتھ سے دلیہ کھلایا
پھر آنٹی شام کو آنے کا کہہ کر مجھے پھر ڈھیر سارا پیار کرکے چلی گئی اور میں اکیلا لیٹا آنے والے اچھے برے وقت کے بارے میں سوچتا رھا
اچانک مجھے خیال آیا کہ اگر صدف نے اپنی امی کو بتایا ھوتا تو لازمی عظمی یا نسرین کو بھی پتہ چل جانا تھا مگر انہوں نے میرے ساتھ ایسی کوئی بات نھی کی
پھر نیگٹیو سوچ نے آگھیرا کہ بچو اگر عظمی لوگوں کے سامنے بات کرنا ھوتی تو صدف نے اپنی ماں کو اندر کمرے میں کیون بلانا تھا. وہ باہر آکر بھی کہہ سکتی تھی
انہیں سوچوں میں مجھے پتہ ھی نھی چلا کہ میں کب سو گیا
شام کو میری بہن نے مجھے اٹھایا کہ تیری ٹیویشن والی باجی اور اسکی امی ائی ہیں
ان دونوں کا سن کر میری تو ٹانگیں پھر کانپنے لگ گئیں
اور میں نے کانپتے ھوے مری ھوئی آواز نکالتے ھوے اپنی بہن نازی کو کہا کہ انکو کہو کہ میں سورھا ھون
تو وہ غصہ سے بولی
صبح کے سوے مرے ھو ابھی تک نیند نھی پوری ھوئی
وہ اتنی دور سے ائی ہیں اور تم نواب زادے بہانے بنا رھے ھو
میں نے غصہ سے اسکی طرف دیکھتے ھوے کہا کہ
جانی اے کہ نئی
تو وہ پیر پٹختی ھوئی باہر چلی گئی
اس سے پہلے کہ میں کچھ سوچتا آنٹی اور صدف کمرے میں داخل ھویں
انکو دیکھتے ہی میرا رنگ اڑ گیا اور اتنے میں آنٹی آگے بڑھیں اور؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ور میرے سر پر پیار دیتے ھوے بولیں کیا ھو یاسر بیٹا کل تو اچھے بھلے تھے
ہمیں بتا کر بھی نھی آے چپ کر کے گھر آگئے تھے
میری وجہ سے تمہاری طبعیت خراب ھوئی ھے نہ میں تمہیں چھیٹیاں اتارنے کو کہتی نہ تمہارا یہ حال ھوتا
صدف میرے سامنے کھڑی بڑے غور سے مجھے دیکھے جارھی تھی جیسے مجھے پہچاننے کی کوشش کررھی تھی
میں ڈرتا اس سے نظریں بھی نھی ملا رھا تھا
پھر آنٹی صدف کو یہ کہہ کر چلی گئی
کہ
تم اپنے ویرے کے پاس بیٹھو میں ذرہ آپاں کے پاس جارھی ہوں
مجھے یہ سن کر پھر ایک جھٹکا سا لگا کہ شاید آنٹی امی کو میری کرتوت بتانے جارھی ھے
تو آنٹی کے جاتے ھی صدف مجھے گھورتے ھوے میرے پاس میرے کولہوں کے پاس بیٹھ گئی اور آگے ہوکر میرے گال پر ذور سے چُٹکی کاٹ کر بولی
ہاں جی سناو بے شرم ویرے کیویں بخار چڑیا
تو میں شرم سے ڈوبا جارھا تھا چپ کر کے منہ دوسری طرف کر کے رونے لگ گیا
تو صدف نے ایک ھاتھ میرے دائیں طرف میری
بغل کے قریب رکھا اور میرے اوپر جُھک کر اپنا منہ میرے منہ کے کچھ فاصلے پار کرتے ھوے ایک ھاتھ سے میرا چہرہ پکڑ کر سیدھا کیا اس حالت میں صدف کے ممے میرے سینے سے کچھ فاصلے پر ھی تھے
جبکہ اسکی گانڈ میرے کولہوں کے ساتھ لگی ھوئی تھی اور اسکے ناف کا حصہ بھی میرے پیٹ کے ساتھ لگا ھوا تھا
صدف بولی
بچو ذیادہ ڈرامے نہ کر
اب تجھے بڑے رونے آرھے ہیں جب بے شرموں کی طرح مجھے ننگا نہاتے ھوے دیکھ رہا تھا تب تیرا یہ رونا کہاں تھا
شکر کرو میں نے امی کو یاں ابو کو نھی بتایا ورنہ جو تیرا حال ھونا تھا
تجھے پتہ نھی
ابھی تیری عمر ھے یہ کام کرنے کی جو تو کررھا ھے
شرم کر اپنی عمر دیکھ اور کام دیکھ ابھی سے تجھے جوانی چڑھی ھوئی ھے بڑا ھوکر کیا کرے گا
صدف نے ایک ھی سانس میں مجھے لمبا سا لیکچر دے دیا
مجھے یہ سن کر کچھ حوصلہ ھوگیا کہ صدف نے گھر نھی بتایا اور شکر ادا کرنے لگ گیا
صدف اسی سٹائل میں میرے اوپر جھکی ھوئی میرے منہ کو اپنی انگلیوں اور انگھوٹھے سے ایسے دبایا ھوا تھا جیسے بچے کو زبردستی دوائی پلانے کے لیے اسکا منہ ایسے پکڑ کر زبردستی کھولتے ہیں
میں سکتے کے عالم میں صدف کے چہرے کی طرف دیکھی جارھا تھا جس کے چہرے پر نہ پیار تھا نہ ھی غصہ
پھر صدف میرے منہ کو ہلاتے ھوے بولی
بتا اب تیرا کیا کروں
بتاوں اپنے ابو کو یا تیری امی کو
تو میں چت لیٹا ھوا تھا اور صدف میرے اوپر جھکی ھوئی تھی اسکی چھاتی میرے سینے سے تھوڑا ھی اوپر تھی
میرے ھاتھ بلکل سیدھے چارپائی پر تھے
میں نے صدف کی جب پھر دھمکی سنی تو میں اس سے ھاتھ جوڑ کر معافی مانگنے کے لیے اپنے دونوں ھاتھ اوپر کر نے لگا تو میرے دونوں ھاتھوں کی انگلیاں پہلے اسکے پیٹ سے ٹکرائیں پھر دونوں مموں سے نپل کے نچلے حصہ سے ٹکرائیں اور نپلوں کو چھوتی ھوئی صدف کے چہرے کے سامنے کرکے ھاتھ جوڑ لیے میری دونوں کہنیاں اب بھی صدف کے دونوں مموں کے ساتھ ٹچ تھی یہ سب اتنی جلدی سے ھوا کہ صدف کو سنبھلنے کا موقع ھی نھی ملا
مگر یہ سب ھوا غیر ارادی طور پر تھا
میں نے روتے ھوے ھاتھ جوڑتے کہا باجی مجھے معاف کردو
****** کی قسم میں نے جان بوجھ کر آپ کو نھی دیکھا تھا بس ایسے انجانے میں مجھ سے غلطی ھوگئی
پلیز آئندہ کبھی بھی ایسا نھی ھوگا
پلیز کسی کو مت بتانا
تو صدف بولی بس بس زیادہ ڈرامے مت کرو
مجھے سب پتہ ھے
کہ تم مجھے کن نظروں سے دیکھتے ھو
اس دن جب میں گری تھی تب بھی کیا اچانک ھی سب ھوا تھا
اور روز جاتے ھوے میں نوٹ کرتی رہتی ھوں تمہاری نظریں کدھر ھوتی ہیں
میں یہ سب سن کر مزید شرمندہ ھونے لگ گیا
اچانک مجھے اپنی کہنیوں پر صدف کے مموں کا لمس محسوس ھوا اور میرا ایکدم دھیان اسکے مموں پر چلا گیا اور اسکی گانڈ تو پہلے ھی میرے ساتھ جڑی ھوئی تھی اتنا خیال آتے ھی میرے لن ساب نے انگڑائی لی اور کھڑا ھوگیا
صدف اپنی دھن میں مجھے گنوای جارھی تھی کہ
جب تم کام چیک کروانے آتے ھو تب بھی تمہاری نظریں کدھر ھوتی ہیں اب اتنے معصوم بن رھے ھو
اچھا سب باتیں چھوڑو یہ بتاو جب میں سکول جاتے گرنے لگی تھی تو تم نے جب مجھے پیچھے سے جپھی ڈالی تھی تو تمہاری قمیض کیوں اوپر ھوئی ھوئی تھی
میں نے کہا مجھے نھی پتہ
کہاں سے اور کیوں قمیض اوپر تھی
صدف بولی اچھا سب بھول گئے میں بتاوں کس چیز نے تمہاری قمیض اوپر کی ھوئی تھی
اس سے پہلے کے میں کچھ سمجھتا صدف نے ھاتھ پیچھے کر کے میرے اکڑے ھوے لن کو پکڑ لیا جو تیل کی مالش کر کر شیش ناگ بن چکا تھا
صدف نے لن کو پکڑتے ھوے کچھ کہنے کے لیے لب ہلاے اس کے منہ سے بس اتنا ھی نکلا
اسسسسسسسسس کییییییی وجہہہہہہہ
اور صدف کا منہ حیرانگی سے کھلے کا کھلا رھ گیا
اور کچھ سیکنڈ اس نے میرے لن کو اچھی طرح سے ٹٹول کر چیک کیا کہ واقعی. اسکے ھاتھ میں میرا ھی لن ھے
تو اسے ایک جھٹکا لگا اور جمپ مار کر کھڑی ھوگئی اور میرے اکڑے لن کو جو قمیض کو تمبو بناے کھڑا تھا
آنکھیں پھاڑے دیکھی جارھی تھی اور پھر ایکدم اسے ہوش آیا اور چہرے پر دونوں ہاتھ رکھ کر بنا کچھ کہے باہر بھاگ گئی
دوسرے دن میری طبیعت کافی بہتر ھوچکی تھی اور صدف کا خوف بھی تقریبا اتر چُکا تھا
میں سکول کے لیے تیار ھونے لگ گیا امی نے مجھے کافی روکا کہ آج بھی چھٹی کر لو
مگر میں نے سکول جانے کا اصرار کر کے امی کو منا لیا اور تیار ھوکر آنٹی فوزیہ کے گھر جا پہنچا آنٹی سے سلام دعا اور حال احوال بتانے کے بعد ہم تینوں گھر سے نکل آے اور میں سیدھا کھیت کی طرف جانے لگا تو عظمی نے میرا بازو پکڑتے ھوے کہا کہ باجی کو بھی ساتھ لے کر جانا ھے وہ ہمارا انتظار کررھی ھوگی تو میں نے کہا یار چلو وہ خود ھی آجاے گے ہمیں پہلے ھی دیر ھورھی ھے
مگر عظمی اور نسرین کی ضد کی وجہ سے مجھے مجبوراً صدف کے گھر جانا پڑا ہم جب اندر داخل ھوے تو صدف برقعہ پہنے تیار بیٹھی تھی اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور پھر نظریں جھکا کر باہر کی طرف چل پڑی ہم بھی اسکے پیچھے پیچھے گھر سے نکل کر سکول کی طرف چل پڑے
دوستوں جہاں پہلے کپاس کی فصل ھوا کرتی تھی اب وہاں بھی مکئی کی فصل کاشت کردی تھی اور مکئی کا ان دوستوں کو پتہ ھے جو گاوں میں رہتے ہیں کہ یہ فصل دنوں میں بڑھتی ھے اور تقریبا سات آٹھ فٹ ھوجاتی ھے
ہم آگے پیچھے چل رھے تھے میں سب سے پیچھے تھا اور میرے آگے عظمی تھی اور اس کے آگے صدف اور سب سے آگے نسرین تھی
کچھ دور جاکر صدف کو پتہ نھی کیا ھوا وہ بہانے سے عظمی کو آگے کر کے خود پیچھے آگئی
اور مڑ کر مجھے دیکھا
اسکی آنکھوں میں مجھے واضح طور پر شرارت نظر آرھی تھی
مگر میں نے اسکے دیکھنے کا کوئی رسپونس نھی دیا اور
میں نے غور سے اسکی گانڈ کو ایک نظر دیکھا تو
آج اسکی گاند کافی باہر کو نکلی ھوئی تھی
میں نے دوبارا غور سے دیکھا تو واقعی ایسا ھی تھا
میں سوچ ھی رھا تھا کہ یہ کیا ماجرا ھے کہ
چلتے چلتے میری نظر اسکے پاوں کی طرف پڑی تو
آج وہ اونچی ہیل پہن کر آئی تھی جس کی وجہ سے اسکی گانڈ مزید باہر کو نکلی ھوئی تھی
اور وہ جب قدم آگے کو بڑھاتی تو اسکی گانڈ کا ایک حصہ جب اوپر کو جاتا تو ساتھ برقعے کو بھی کھینچ کر اوپر لے جاتا
اسکی سیکسی گانڈ دیکھ کر میرا تو دماغ خراب ھونے لگ گیا
جبکہ میں نے سوچ لیا تھا کہ کچھ بھی ھوجاے آج کے بعد صدف کے جسم کو نھی دیکھنا کیوں کہ سالی کو پتہ نھی کیسے پتہ چل جاتا تھا
خیر میں ناچاھتے ھوے بھی مسلسل نظر ٹکاے صدف کی گانڈ کو دیکھی جارھی تھا
کہ اچانک صدف رکی اور ایکدم پیچھے مڑ کر میری طرف دیکھا
اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سر کے اشارے سے پوچھا کیا دیکھ رھے ھو
تو میں نے شرمندہ سا ھوکر سر نیچے جھکا لیا
میں نے شرمندہ سا ھوکر سر نیچے جھکا لیا
ایسا بس چند ھی سیکنڈ کے لیے ھوا تھا
اور صدف بڑی ادا سے منہ دوسری طرف کر کے پھر چلنے لگ گئی
بس ایسے ھی تانکہ جھانکی میں ہم سکول پہنچ گئے
کلاس میں اسد مجھے بڑی گرمجوشی سے ملا اور پوچھنے لگ گیا کہ کل کیوں نھی آے میں نے اسے بخار کا بتایا اور کچھ دیر وہ میری خیر خبر لیتا رھا اور ہم پڑھائی میں مصروف ھوگئے
ھاف ٹآئم کے وقت ہم گراونڈ میں بیٹھ کر باتیں کررھے تھے کہ اسد نے پوچھا سنا پھر. کیسی جارھی ھے لن کی مالش تو میں نے کہا یار میرا لن تو واقعی اب پہچانا نھی جاتا کہ یہ میرا لن ھی ھے
جب کھڑا ھوتا ھے میری قمیض میں تنبو بن جاتا ھے
تو اسد فخر سے سر اوپر کر کے میرے کندھے پر ھاتھ مارتے ھوے بولا
دیکھا جگر میں نے کہا تھا نہ کہ یہ تیل نھی جادو ھے جادو
تو میں نے کہا ھاں یار واقعی میں تم سچ ھی کہتے تھے
اسد نے پھر مجھ سے پوچھا سنا لن سے مال شال نکلنا شروع ھوگیا
تو میں نے کہا یار میں نے دوبارا مٹھ ھی نھی ماری تو وہ ہنسنے لگ گیا
اور بولا کوئی حال نئی تیرا چیک تو کرنا تھا
تو میں نے کہا اچھا یار کبھی موقع ملا تو چیک کروں گا
اور کچھ دیر ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رھے اور پھر ھاف ٹائم ختم ھوگیا اور ہم پھر کلاس میں چلے گئے
کلاس میں کچھ خاص نہ ھوا چھٹی ھوئی اور میں عظمی لوگوں کو لے کر گھر آگیا
شام کو ہم ٹیوشن چلے گئے
صدف نے آج سفید سوٹ پہنا ھوا تھا اور بلیک جرسی پہنی ھوئی تھی جس میں اسکے ممے تنے ھوے تھے اور جرسی کی وجہ سے ممے مزید بڑے بڑے لگ رھے تھے
صدف ہمارے سامنے کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھی ہماری طرف دیکھ رھی تھی اور اسکی ذیادہ نظر مجھ پر ھی تھی جیسے ھی میں سر اٹھا کر اسکے مموں کو دیکھتا تو سالی کو اپنی طرف ھی دیکھتا ھو پاکر شرمندہ سا ھوکر پھر جلدی سے سر نیچے کر کے گود میں رکھی کتاب کو پڑھنے لگ جاتا
میں نے ایک بات پر غور کیا کہ اگر صدف کو پتہ ھے کہ میں بار بار اسکے مموں کو ھی دیکھ رھا ھوں تو
سالی مموں پر دوپٹہ کیوں نھی لیتی
پتہ نھی اسکے دل میں کیا تھا
کیوں میرا کڑا امتحان لے رھی تھی کس بات کی سزا مجھے دے رھی تھی
تبھی صدف کی امی کمرے سے نمودار ھوئی اور صدف کو کہا کہ میں زرہ درزن کے گھر جارھی ھوں تیرے سوٹ کا پتہ کرنے تھوڑی دیر تک آجاوں گی
صدف کے دو بھائی تھے ایک لاہور میں کام کرتا تھا جو مہینے میں ایک دفعہ ھی گھر آتا تھا
اور دوسرا اپنے ابو کے ساتھ بس ڈرائیور تھا
باپ بس چلاتا تھا اور بیٹا کنڈیکڑ تھا
اس وقت گھر میں صدف اور میں اور عظمی اور نسرین اور محلے کے کچھ بچے تھے
صدف کی امی درزن کے گھر کا کہہ کر باہر چلی گئی اور صدف نے ایک بچے کو کہا کہ جاکر باہر کے دروازے کی کنڈی لگا آے
اور پھر ہماری طرف متوجہ ھوکر بیٹھ گئی
اور وقفہ وقفہ سے بچوں کے نام لے لے کر انکو سبق یاد کرنے کا کہتی رہی
کچھ ھی دیر بعد صدف اٹھی اور کمرے کی طرف چلی گئی
اور
تھوڑی دیر بعد اس نے دروازے سے سر نکالا اور مجھے آواز دی کے یاسر میں نے کہا جی باجی
تو اس نے کہا ادھر آو یہ ٹرنک کپڑوں کی پیٹی کے اوپر رکھوا دو
میں اچھا باجی کہتے ھوے اٹھا اور کمرے میں داخل ھوگیا
جب میں کمرے میں داخل ھوا تو صدف مجھے کمرے میں نظر نہ آئی کمرے کے ساتھ ایک دروازہ تھا جو شاید سٹور روم تھا
میں دروازے کی طرف چل دیا جیسے ھی میں اندر داخل ھوا تو
Quote
صدف پیٹی کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی تھی
تو میں اسے دیکھ کر وہیں رک گیا اور اسکی طرف دیکھتے ھوے بولا کہ باجی کہاں ھے ٹرنک جو اوپر رکھنا ھے تو وہ آگے بڑھی اور میرا بازو پکڑ کر مجھے سٹور کی نکر کی طرف لے گئی اور پھر میرے سامنے اپنی بغلوں ہاتھ دے کر ایسے کھڑی ھوگئی جیسے اسے بہت سردی لگ رھی ھو اور آہستہ سے بولی تم نے باز آنا ھے کہ نھی
میں نے حیران ھوکر پوچھا کے باجی اب میں نے کیا کیا ھے تو صدف جھٹ سے بولی
زیادہ معصوم مت بنو
میں تو جو تمہیں سمجھتی تھی تم تو میری سوچ کے بلکل برعکس نکلے
میں نے پھر کہا باجی کچھ بتائیں تو سہی کہ میں نے کیا کیا ھے
تو صدف بولی پہلے تو تم مجھے یہ باجی باجی کہنا بند کرو میں تمہاری باجی نھی سمجھے
کوئی اپنی باجیوں کو بھی اس نظر سے دیکھتا ھے
میں نے سر جھکا لیا
تو صدف آگے بڑھی اور مجھے دونوں کندھوں سے پکڑ کر بولی
سچ سچ بتاو تم چاھتے کیا ھو
میں نے سر جھکائے کہا کچھ نھی باجی
تو صدف بھی جھنجھلا کر بولی پھر باجی
میں نے تمہیں کہا کہ مجھے باجی نہ کہو
تو میں نے سرجھکاے ھے کہا کہ اچھا اب نھی کہتا
تو صدف تھوڑے نرم لہجے میں بولی یاسر میری طرف دیکھو
میں نے سر اٹھایا تو میری آنکھوں سے آنسو نکل رھے تھے
تو صدف نے پیار سے اپنے ایک ھاتھ سے میرے آنسو صاف کیے جبکہ دوسرا ھاتھ ابھی تک میرے ایک کندھے پر ھی تھا اور بولی دیکھو یاسر تمہارے دل میں جو بھی ھے مجھے سچ سچ بتا دو
میں وعدہ کرتی ھوں کسی کو نھی بتاوں گی
مگر شرط یہ ھے اگر تم مجھے اپنا دوست سمجھ کر سچ بتاو گے تب
تو میں نے کہا کچھ بھی نھی ھے ایسا
تو صدف بولی پھر جھوٹ
میں نے کہا نہ کہ اس وقت یہ سمجھو کہ ہم دونوں دوست ہیں
کیا تم مجھے اپنا دوست نھی بنا سکتے میں نے ہاں میں سر ہلایا تو
صدف بولی کہ دوستوں سے دل کی بات چھپاتے ہیں کیا
میں نے ایک ھاتھ سے اپنے آنسو صاف کرتے ھو نھی میں سر ہلایا
تو صدف بولی
تو پھر مجھے بتاو اپنے دل کی بات
تو میں سمبھلتے ھوے کہا
کہ آپ ناراض ھوجاو گی تو
صدف بولی
یار جب میں خود کہہ رھی ھوں تو ناراض کیسے ھو جاوگی
پھر کچھ دیر صدف بولی اچھا یہ بتاو کہ میں تمہیں اچھی لگتی ھوں
تو میں نے سر ہلا کر ھاں میں جواب دیا تو صدف نے مجھے کندھوں سے ہلاتے ھوے کہا
یہ کیا گونگوں کی طرح اشارے کررھے ھو زبان نھی ھے منہ میں
میں نے آہستہ سے کہا ھاں جی
تو صدف نے پھر پوچھا کہ کتنی اچھی لگتی ھوں تو میں نے کہا بہت اچھی لگتی ھو
تو صدف بولی اچھا یہ بتاو کہ
میرے جسم کا کون سا حصہ تمہیں زیادہ اچھا لگتا ھے
تو میں نے کہا آپ سر سے پاوں تک ھی اچھی لگتی ھو
تو صدف بولی
پھر بھی کوئی حصہ تو ھوگا جو تم زیادہ اچھا لگتا ھے
تو میں نے اشارے سے اسکے مموں کی طرف انگلی کرتے ھوے کہا یہ
تو صدف نے پوچھا
اور
میں نے اسکی گانڈ کی طرف اشارہ کیا کہ یہ
تو صدف نے کہا
اچھا جی
اور پھر صدف نے اپنے ممے پر ہاتھ رکھتے ھوے کہا یہ تمہیں کتنا کہ اچھا لگتا ھے
تو میں نے کہا بہت تو اچانک صدف نے میرے دونوں ھاتھ پکڑے اور اپنے مموں پر رکھ کر اپنے ھاتھوں کو دبا دیا جس سے اسکے ممے میری مٹھی میں بھینچے گئے
اور صدف کے منہ سے ایک سسکاری سی نکلی سسسسی اور بڑی سیکسی آواز نکال کر بولی لو پھر انکو اچھی طرح دباو
اندھا کا چاھے دو آنکھیں
میں نے آہستہ آہستہ صدف کے گول مٹول مموں کو دبانا شروع کردیا
کچھ دیر ایسے ھی دباتا رھا اور صدف میرے ھاتھوں کے اوپر ھاتھ رکھے منہ چھت کی طرف کرکے آنکھیں بند کیے سسسییی سسسییی کرتی رھی
میں نے حوصلہ کیا اور آگے بڑھا
اور اپنا ایک ھاتھ صدف کی کمر پر رکھ کر اسے اپنی طرف کیا اور صدف نے اچانک اپنی آنکھیں کھولی اور میری طرف نشیلی آنکھوں سے دیکھا اسکی آنکھوں میں سرخ ڈورے صاف نظر آرھے تھے
میں نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک جھٹکا دیا اور صدف میرے سینے سے لگ گئی اور ساتھ ھی میں نے اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیے
صدف کو فرنچ کس نھی کرنا آتی تھی اس لیے وہ اوپر اوپر سے میرے ہونٹوں کو چوم رھی تھی
میں نے بہت کوشش کی کے صدف کا اوپر والا یا نیچے والا ہونٹ اپنے ہونٹوں میں بھر لوں مگر وہ منہ ھی نھی کھول رھے تھی بس ہونٹوں سے ہونٹ ملا کر چومی جارھی تھی میرے دونوں ھاتھ اسکی کمر پر تھے اور اسکے دونوں ھاتھ میری کمر پر اور جسم بلکل ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر ایک جسم بنے ھوے تھے میرا لن بھی نیچے سے تن کر صدف کی پھدی کے اوپر ٹکریں مار مار کر اسے ھوشیار باش کر رھا تھا
تبھی میں نے صدف کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ جدا کیے اور زبان اسکے ہونٹوں پر پھیرنے لگ گیا اور زبان کی نوک اسکے ہونٹوں کے بیچھ اندر کی طرف دبانے لگ گیا تھوڑی سی کوشش کے بعد اسکے نرم ملائم گلاب کی کلی کیطرح تھوڑا سا کھلے اور میری زبان کو اندر جانے کا راستہ دیا اور میری زبان نے باقی کا راستہ خود ھی ہموار کر لیا اور کافی ساری زبان اسکے منہ میں ڈال کر اسکا اوپر والا ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے کر آہستہ آہستہ چوسنے لگ گیا اور اپنی زبان کو اسکے منہ کے اندر چاروں اطراف پھرنے لگ گیا اور کبھی اسکے زبان سے چھیڑ چھیڑ کرنے لگا جاتا
صدف بھی اپنی زبان کو میری زبان سے ٹکرانا شروع ھوگئی اور میرا نیچے والا ہونٹ بھی چوسنے لگ گئی
منہ کے اندر زبان کی زبان کے ساتھ. لڑائی جاری تھی اور باھر ھونٹوں کی ہونٹوں کے ساتھ لڑائی جاری تھی اور نیچے سے لن اور پھدی ابھی تک ایک دوسرے سے مشورہ کرنے میں مصروف تھے اور صدف کے ممے میرے سینے میں دبے ھوے تھے اور میرے ھاتھ اب اسکی گانڈ کی دونوں پھاڑیوں کو جکڑے ھوے تھے اور صدف کا ھاتھ میری کمر پر تھا اور دوسرا میری گردن کے اوپر بالوں میں
کہ اتنے میں اچانک باھر سے کمرے سے برتن گرنے کی آواز آئی اور ہم دونوں کو کرنٹ لگا اور ہوش میں آتے ھے جھٹکے سے ایک دوسرے سے الگ ھوے
اور
Quote
صدف نے مجھے جلدی سے پٹیوں کے اوپر چڑھنے کو کہا میں بجلی سی تیزی سے جمپ مار کر پیٹی کے اوپر چڑھ گیا اور ایسے ھی پیٹی کے اوپر پڑے ٹرنک کو ادھر ادھر کرنے میں مصروف ھوگیا
صدف نے خود سنبھالا اور اپنے کپڑے سہی کرتی ھوئی دوسرے کمرے میں چلی گئی
میں کافی دیر ویسے ھی پیٹی کے اوپر بیٹھا رھا اور میرے کان باہر کی طرف کھڑے تھے اور میری ٹانگیں کانپ رھی تھی تقریباً دس منٹ بعد صدف مسکراتی ھوئی سٹور میں داخل ھوئی اور مجھے یوں سہمے ھوے دیکھ کر ہنستے ھوے بولی
تیری کیوں جان تے بنی ھوئی اے چل تھلے آجا کُش نئی ھویا بلی نے برتن پھینکے تھے
میں بلی کو گندی گالیاں دیتے ھوے شکر کرتے نیچے آگیا اور
صدف نے کہا کہ تم باہر جاکر بیٹھ جاو اور تھوڑی دیر تک سب کوچھٹی ھو جانی ھے تم گھر کا چکر لگا کر پھر آجانا
امی ابھی ایک گھنٹہ سے پہلے نھی آتی میں نے کہا آنٹی تو درزن کے پاس گئی تھی اتنی دیر کیسے لگائیں گی تو صدف بولی
تمہیں میری امی کا نھی پتہ وہ بہت باتونی ھے تم بے فکر رھو اگر وہ آ بھی گئی تو میں انکو کہہ دوں گی کہ میں اکیلی تھی اس لیے تمہیں روک لیا تھا
میں نے پھر ڈرتے ھوے انداز میں کہا کہ دیکھنا کہیں مروا نہ دینا تو صدف نے مجھے باھر جانے کے لیے دھکہ دیا کہ اب جاو بھی میں سب سنبھال لوں گی اور پھر پیچھے سے آہستہ سے آواز دی کے یاسر جلدی آجانا
میں باہر آکر عظمی کے پاس بیٹھ گیا عظمی مجھے غور سے دیکھتے ھوے بولی
تمہیں اتنی سردی میں بھی پسینہ کیوں آیا ھوا ھے
تو میں نے اپنا ہاتھ ماتھے پر پھیرتے ھوے کہا کہ
تمہاری باجی صاحبہ نے اتنا بھاری ٹرنک جو مجھ سے اٹھوا کر پیٹی پر رکھوایا ھے
میں نے نھی کل سے پڑھنے آنا تو عظمی بولی کیوں کیا ھوا تو میں نے برا سا منہ بناتے ھوے کہا کہ میں یہاں کام کرنے آتا ھوں یاں پڑھنے
تو عظمی ہنستے ھوے بولی
کوئی بات نھی کسی کا کام کردینے سے تم چھوٹے تو نھی رھ جاو گے
کچھ دیر ہم ایسے ھی باتیں کرتے رھے اتنے میں صدف کمرے سے باہر نکلی اور سب کو چھٹی کرنے کا کہا
ہم نے جلدی سے اپنی کتابیں بیگ میں رکھی اور سلام لے کر باہر کو نکلنے لگے میں سب سے آخر میں تھا تو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو صدف نے مجھے ھاتھ کے اشارے سے جلدی آنے کا کہا اور میں نے اثبات میں سر ہلایا اور باہر نکل آیا اور تیز تیز قدموں سے گھر پہنچا اور بیگ رکھتے ھی امی کو کہا کہ باجی صدف نے مجھے بلوایا ھے تو امی
نے کہا ابھی تو انکے ھی گھر سے آرھے ھو تو میں نے کہا کہ باجی نے کہا تھا کہ گھر بیگ رکھ کر جلدی آنا شاید انہوں نے کچھ منگوانا تھا
تو امی نے کیا جلدی آجانا زیادہ اندھیرا نہ کرنا
امی نے کیا جلدی آجانا زیادہ اندھیرا نہ کرنا
دھند پڑنا شروع ھوجاتی ھے میں نے ابھی تھوڑی دیر بعد آنے کا کہا اور بھاگتا ھوا صدف کے گھر پہنچ گیا اور دروازہ کھولا اور اندر داخل ھوا تو صدف سامنے ھی چارپائی پر بیٹھی ھوئی دروازے کی طرف ھی دیکھ رھی تھی اور مجھے اشارے سے دروازہ بند کرنے کا کہا تو میں نے دروازہ بند کردیا اور سنگلی کی بنی کنڈی کو لگا دیا
اور چلتا ھوا صدف کے پاس آگیا صدف کھڑی ھوئی اور مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا میں اس کے پیچھے چلتا ھوا کمرے میں داخل ھوا اور صدف نے کمرے کا دروازہ بھی بند کردیا
اور مجھے کمرے میں بچھی چارپائی بیٹھنے کہا اور میرے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی
میں نے اسکے جسم کا جائزہ لیا تو اس نے اب جرسی نھی پہنی ھوئی تھی
صدف نے میرا ھاتھ پکڑ کر کہا
تم کیا چیز ھو
میں نے حیرانگی سے پوچھا کیوں کیا ھوا تو وہ میری گال پر چٹکی کاٹتے ھوے بولی
یہ کس کرنا کہاں سے سیکھا ھے تو میں نے کہا آپ سے
تو میرے کندھے پر مکا مارتے ھوے بولی
چل شوخا
سچ بتاو کہاں سے سیکھا ھے تو میں کہا
صحیح کہہ رھا ھوں آپ سے کس کرتے وقت ھی مجھے پتہ ھی نھی چلا کہ میں کیا کررھا ھوں اور ساتھ ھی میں نے اپنے دونوں ھاتھوں سے اسکے بازوں کے نیچے سے سائڈ کیطرف سے جپھی ڈال دی اور اسکو پیچھے کی طرف دھکیل کر چارپائی پر لٹا دیا اور خود بھی اسکے ساتھ ھی لیٹ گیا تو صدف بولی چھوڑو مجھے کیا کررھے ھو میں نے اس لیے تمہیں بلوایا ھے کیا
تو میں نے اسکی بات سنی ان سنی کر کے ایک ھاتھ سے صدف کا مما مسلنا شروع کردیا صدف بلکل سیدھی لیٹی ھوئی تھی اور اسکی ٹانگیں نیچے فرش کی طرف لٹکی ھوئی تھی میں اسپر ترچھا لیٹا ھوا تھا میرا ایک بازو اسکی کمر کے نیچے تھا اور دوسرا اسکے سینے پر اور میرا ھاتھ مسلسل اسکے ممے کو مسلی جارھا تھا
کچھ دیر بعد عظمی بولی یاسر تمہارا بازو میری کمر میں چُبھ رھا ھے اسے نکالو میں نے بازوں اس کی کمر کے نیچے سے نکال کر اسکی گردن کے نیچے رکھ دیا اور تھوڑا اوپر ھوکر اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھنے لگا تو صدف نے منہ دوسری طرف کر کے اپنے ہونٹوں پر ھاتھ رکھ لیا
اور نہ نہ میں سر ہلانے لگ گئی
میں نے اسکا مما چھوڑا اور اسکا ھاتھ پکڑ کر منہ سے ہٹا دیا اور ہونٹوں کو اسکے ہونٹوں پر رکھ کر کسنگ شروع کردی
صدف کچھ دیر احتجاج کرتی رھی مگر پھر ٹھنڈی ھوکر میرا ساتھ دینے لگ گئی میں نے اسی دوران اسکی قمیض کو آگے سے تھوڑا اوپر کیا اور ھاتھ قمیض کے اندر ڈال کر مموں تک لے گیا صدف نے میرا ھاتھ پکڑنے کی کوشش کی مگر اس سے پہلے اسکا مما میرے ھاتھ میں آچکا تھا میں یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کہ اس نے بریزیر بھی نھی پہنا ھوا تھا
یعنی سالی نے پوری تیاری کررکھی تھی بس نخرے کررھی تھی
عظمی کے ممے میرے ھاتھ سے بڑے تھے اس لیے پورا مما ھاتھ میں نھی آرھا تھا میں کبھی ممے کو دباتا کبھی اکڑے ھوے نپلوں کو انگلیوں کے درمیان پھنسا کر مسل دیتا
تب صدف لمبی لمبی سسکاریاں لیتی اور اففففف آہستہ کرو آرام سے کرو کہتی
اور پورے جوش سے میرے ہونٹ چوس رھی تھی کافی دیر یہ ھی سین چلتا رھا میں نے اس کے ممے سے ھاتھ ہٹا کر پیچھے اسکی کی کمر کی طرف لی گیا اور گردن کے پیچھے والے ھاتھ سے اسکی گردن کو اوپر کیا اور اسکو چارپائی پر سیدھا کردیا اب ہم دونوں کی ٹانگیں بھی چار پائی پر تھیں
اور صدف بلکل سیدھا چارپائی پر لیٹی تھی جبکہ میں سائڈ لے کر اسکے اوپر تھا میں نے صدف کی کمر سے قمیض اوپر کی طرف کردی اور پھر ھاتھ آگے لاکر آگے سے بھی ساری قمیض اٹھا کر اسکے مموں سے اوپر کرتے ھوے اسکے گلے تک کردی
اب صدف لے نیم گورے چھت کی طرف تنے ممے بلکل ننگے میری آنکھوں کے سامنے تھے
میں اسکے اتنے دلکش موٹے گول مٹول مموں کو دیکھ کر انپر ٹوٹ پڑا اور باری باری دونوں مموں کو چوسنا شروع کردیا صدف میرے سر پر ھاتھ رکھ کر مموں پر دبا رھی تھی اور نیچے سینے کو اوپر اٹھا اٹھا کر مزے لے لے کر مجھے ممے چوسنے لو سگنل دے رھی تھی اور ساتھ ساتھ لمبے لمبے سانس لے رھی تھی
میں کبھی صدف کے اکڑے ھوے نپل پر زبان پھیرتا کبھی پورا مما منہ
میں لینے کی کوشش کرتا کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا
پھر میں نے اپنا ایک ھاتھ اسکے پیٹ پر رکھ کر اسکی ناف میں انگلی گھمانے لگ گیا
میں جیسے اسکی ناف کو چھیڑتا صدف اتنا ذیادہ مچلتی
پھر میں نے پھرتی سے اپنا ہاتھ اسکی شلوار میں ڈال دیا اور یہ دیکھ کر حیران ھوا کہ اس نے بھی میری طرح بس لاسٹک ھی پہنی ھوئی ھے اس لیے میرا ھاتھ آسانی سے اندر چلا گیا اور اسکی پھدی کی ملائم جلد سے ھوتا ھو اسکی پھدی کے ہونٹوں پر جا پہنچا
میرا ھاتھ جیسے ھی صدف کی پھدی کے اوپر لگا صدف نے ایک زور دار جھر جھری لی لمبی سی ھاےےےےےےے میں مر گئی کیا اور مجھے کس کر جپھی ڈال کر سر نھی نھی میں ہلانے لگ گئی
مگر میں ا
اب کہاں رکنے والا تھا
میں نے محسوس کیا کہ صدف کی پھدی کے ہونٹ کافی گیلے ہیں جس سے میری انگلیاں اسکی پھدی کے اوپر چپک رھی تھی
میں مسلسل اسکی ملائم ریشم سی نازک بالوں سے پاک پھدی کو مسل رھا تھا اور ساتھ ساتھ اسکے ایک ممے کو بے دردی سے منہ کی مار مار رھا تھا
اور میرا لن اسکے پٹ میں گھسنے کی کوشش میں تھا جسکو صدف بخوشی سے برداشت کر کے مزے میں ڈوبی سسکیاں لے رھی تھی کہ اچانک اس کی سسکیوں میں شدت پیدا ھوگئی
مجھے بھی جوش آگیا
میں نے لن کو مزید اسکے کولہے کے ساتھ رگڑنا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ اپنے ھاتھ کی سپیڈ تیز کردی اور ایکدم سے درمیان والی انگلی پھدی کے اندر تک گھسا دی جیسے ھی انگلی اندر گئی تبھی صدف کا چھوٹنے کا وقت سر پر تھا صدف نے زور سے گانڈ کو اوپر کی طرف کر کے ایکدم نیچے چارپائی پر پھینکا
اور ھاےےےےےےےے امییییییک کی آواز آتے ھی صدف کہ جسم نے جھٹکے لینے شروع کردیے اور پھدی کو سکیڑ لیا جس میں میری انگلی تھی اور انگلی ایسے تھی جیسے آگ کی بھٹی میں ھو اور ٹانگوں کو زور سے آپس میں بھینچ لیا اور صدف نے اسی سمے اپنا ھاتھ نیچے کر کے میرے لن کو بھی ذور سے پکڑ لیا اور ذور ذور سے جھٹکے لینے لگی اور ساتھ ھی سیییییی افففففف اممممم ہمممممم ھاےےےےےےےے کر کہ ٹھنڈی ھوگئی اور اسکی ٹانگوں جکڑا میرا ھاتھ اسکی پھدی کے پانی اور منی سے گیلا ھوگیا تھا
اسکی پھدی سے مسلسل پانی نکل رھا تھا
اب اسکا جسم وقفے وقفے سے ہلکے ہلکے جھٹکے کھا رھا تھا
صدف کے جسم نے ہلکے ہلکے جھٹکے کھاے اور ساتھ ھی وہ بےجان سی ھوگئی
جیسے ھی اسکی ٹانگیں ڈھیلی ہوئی میں نے ہاتھ باہر نکال کر اس کی شلوار سے اپنے ھاتھ کو صاف کیا اور پھر سے اسکے مموں کو چوسنا شروع کردیا
صدف پہلے تو کچھ بےچین سی رھی پھر کچھ ھی دیر بعد وہ دوبارا سے گرم ہونا شروع ھوگئی
میں نے آہستہ آہستہ سے صدف کی شلوار کو نیچے کھسکانا شروع کردیا
پہلے اسکی شلوار گانڈ سے نیچے کی اور پھر آگے سے کھینچ کر گھٹنوں تک نیچے کردی
صدف نے تھوڑا احتجاج کیا مگر میں نے تھوڑی سی زبردستی کی اور شلوار نیچے کرنے میں کامیاب ہوگیا
اور جلدی سے اپنی شلوار نیچے کی اور صدف کے اوپر آکر لن اسکی پھدی کے اوپر رکھنے لگا تو صدف نے جلدی سے اپنا ھاتھ اپنی پھدی کے اوپر رکھ لیا اور مجھے کہنے لگی یہ کیا کرنے لگے ھو پاگل تو نھی ھوگئے
تو میں نے کہا کچھ نھی ھوتا
تو اس نے کہا چھوڑو مجھے خبردار اگر اندر کیا مجھے برباد کرنا ھے
میں نے کہا اندر کرنے سے تم کیسے برباد ھوجاو گی کسی کو پتہ تھوڑا لگنا ھے
تو صدف بولی تم پاگل ھو جو میری بات نھی سمجھ رھے مجھے مارنا ھے
میں نے کہا یار بس تھوڑا سا اندر کروں گا ایک دفعہ ھاتھ تو پیچھے کرو تو صدف نھی میں سر ہلاتے ھوے کہنے لگی
ہرگز بھی نھی کیوں مجھے برباد کرنے پر تلے ھو
میں کنواری ھوں شادی شدہ نھی جو کچھ نھی ھوگا
مگر میرے دماغ پر منی سوار تھی میں نے زبردستی صدف کا ھاتھ پکڑ کر اسکے سر کے قریب کر دیا اس نے دوسرا ھاتھ نیچے لیجانا چاھا مگر میں نے راستے میں اسکا ھاتھ پکڑ کر اسکے سر کے پاس لیجا کر چارپائی پر دبا دیا اب میرے دونوں ھاتھوں میں اسکی دونوں کلائیاں تھی اور صدف سر ادھر ادھر مار رھی تھی اور نیچے سے گانڈ اٹھا کر دائیں بائیں کرتے ھوے میرے نیچے سے نکلنے کی کوشش کرتی رھی مگر مرد کے آگے عورت بے بس ھی ھوتی ھے میں نے اپنی گانڈ ہلا ہلا کر لن اسکی پھدی پر سیٹ کرنا شروع کردیا مگر وہ نیچے سے ہلے جارھی تھی اور مجھے دھمکیاں دینے لگ گئی کہ میں اپنی امی کو بتاوں گی ابو کی بتاوں گی مگر مجھ پر صدف کی دھمکیوں کا کوئی اثر نھی ھورھا تھا
مجھے جب بھی لگتا کہ لن سہی نشانے پر ھے تو میں ذور سے گھسا مارتا مگر لن پھدی سے سلپ ھوکر اس کے چڈوں کے درمیان گھس جاتا
ایک تو صدف کی پھدی بہت گیلی تھی دوسرا جب بھی گھسا مارتا تو صدف اوپر کی طرف کھسک جاتی اور میرا وار خالی جاتا
مگر جب بھی میرا لن اسکے چڈوں کے درمیان جاتا تو میرے جسم میں مزے کی لہر دوڑ جاتی
صدف اب رونے لگ گئی تھی اور مجھے اموشنل بلیک میل کرتے ھوے کہنے لگی
یاسر میں نے زندگی میں پہلی بار کسی لڑکے کو دوست بنایا ھے اور مجھے تم پر بہت بھروسہ تھا کہ تم میرے ساتھ کچھ غلط نھی کرو گے
مگر تم بھی ہوس کے پجاری نکلے
کیا ملے گا تمہیں میری عزت برباد کرکے
میں تو تمہیں اپنا بہت اچھا دوست سمجھتی تھی
اگر تم مجھے دوست سمجھتے ھو تو پلیز اندر مت کرنا
ورنہ میں کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نھی رھوں گی اور ساتھ ساتھ روئی جارھی تھی
مجھے بھی اب صدف کے چڈوں میں گھسے مارنے میں مزہ آرھا تھا
اس لیے میں نے بھی اندر کرنے کا ارادہ ملتوی کرتے ھوے کہا
اچھا یار نھی اندر کرتا مگر مجھے ایسے تو کرنے دو
تو صدف بولی ایسے بھی اندر جاسکتا ھے تو میں نے کہا یار ایک دفعہ کہہ دیا نہ کہ نھی اندر کرتا تو نھی کرتا
تو صدف بولی دیکھ لو یاسر اب میں تمہیں نھی روکوں گی
اگر تمہیں میری عزت پیاری ھوئی تو اندر نھی کرو گے
میں نے کہا یار مجھے تمہاری عزت پیاری ھے تو کہہ رھا ھوں کہ اندر نھی کرتا
صدف نے اب ہلنا بند کردیا تھا اور میں اب اسکی چڈوں کے بیچ ھی لن کو اندر باھر کر رھا تھا
میں اب صدف کی کلائیاں بھی چھوڑ دی تھی اور بلکل سیدھا اس کے اوپر لیٹ کر اسکی پھدی کو اپنے لن سے رگڑیں لگاتا ھوا اوپر نیچے ھورھا تھا
مجھے بہت مزہ آرھا تھا
اب صدف کہ بھی آنکھیں بند ھونا شروع ھوگئی
میں گھسے مارنے کے ساتھ ساتھ صدف کا پورا چہرہ چوم رھا تھا
آہستہ آہستہ میرے گھسوں میں شدت آرھی تھی اور چارپائی چیخ چیخ کر آہستہ کرنے کا کہہ رھی تھی
نیچے سے چارپائی کی چوں چوں کی آوزیں پورے کمرے میں گونج رھی تھی اور میں اب ایک ردھم سے گھسے ماری جارھا تھا اور مزے کی شدت میں بھی اضافہ ھوتا جارھا تھا
صدف نے میری کمر کو ذور سے جکڑ رکھا تھا
کہ اچانک صدف نے اپنی ٹانگوں کو آپس میں کس کر ملانا شروع کیا اور اسکے چڈوں نے میرے لن کو جکڑ لیا اور پھر ڈھیلا چھوڑ دیا
جب صدف نے میرے لن کو جکڑا تو میرا لن پھنس کے اسکے چڈوں میں گیا تو مجھے اتنا مزہ آیا کہ میں بیان نھی کرسکتا
میں نے صدف کو کہا جانی ویسے ھی کرو
تو صدف نے پھر چڈوں کو آپس میں جوڑ کر جسم کو اکڑا لیا
میں گھسے مارتے ھوے بولا
ھاں ھاں ایسے ھی بڑا مزہ آرھا ھے
ایسے ھی رکھنا بس
تو
صدف بھی فل نشے میں تھی اور ہم دونوں کے ہونٹ آپس میں ملتے اور کبھی جدا ھوتے
صدف بڑی نشیلی آواز میں بولی یاسر
میں نے کہا
جی جان
صدف بولی مزہ آرھا ھے میں نے اسکے ہونٹوں کو چومتے ھوے کہا بُہہہہتتتت مزہ آرھا ھے
تمہیں بھی مزہ آرھا ھے
تو صدف نشے کی سی حالت میں بولی. بہتتتت مزہ آرھا ھے
پھر وہ بولی یاسر مجھے چھوڑو گے تو نھی
میں نے کہا نھی جان
پھر بولی مجھے دھوکا تو نھی دو گے
میں نے کہا نھی جان
صدف پھر بولی
یاسر مجھے بدنام تو نھی کرو گے
میں نے کہا سوچنا بھی مت
پھر بولی
یاسر تم نے پہلے بھی کسی کے ساتھ کیا ھے
تو میں نے کہا نھی جان میرا بھی پہلی ھی دفعہ ھے
تو وہ بولی
سچ کہہ رھے ھو نہ میں نے کہا جی جان
تو صدف نیند کی سی حالت میں بولی
کھاو میری قسم
میں نے کہا
تمہاری قسم جان جی
پھر صدف کو ایکدم جوش چڑھا اور دونوں ھاتھون سے میرا چہرہ پکڑ کر بڑی سپیڈ کے ساتھ پورے چہرے پر چھوٹی چھوٹی پاریاں کرنے لگ گئی اور پھر آنکھیں بند کر کے میری کمر پر ھاتھ رکھ کر مجھے اپنے ساتھ کس کے لگا لیا
میری گھسے مارنے کی سپیڈ بہت تیز ھوچکی تھی اور صدف کی بالوں سے صاف چکنی ملائم نرم پھدی کے ساتھ رگڑ رگڑ کر اندر باھر ھو رھا تھا
اچانک مجھے لگا جیسے میرا سارا خون میرے لن میں اکھٹا ھو رھا ھے اور مجھے بہت تیز کا پیشاب آرھا ھے
پھر وہ وقت آگیا کہ مجھ سے برداشت نہ ھوا اور سارے جہان کا مزہ اکھٹا ھوکر میرے لن میں آگیا اور میں نے بے ساختہ صدف کے ہونٹوں میں اپنے ہونٹ جکڑ لیے اور جتنا ممکن تھا اسکو اپنے جسم میں سمونے لگا اور کس کر صدف کو جپھی ڈال دی
صدف کے بڑے بڑے ممے میرے سینے میں دب گئے تھے
اور پھر میرے جسم کو ایک زبردست جھٹکا لگا اور میرے لن سے منی نکلتی گئی مجھے نھی پتہ کہ کتنی دفعہ میرے لن سے منی نکلی بس مجھے تو مزے ھی مزے آرھے تھے
جیسے جیسے میرے لن سے منی نکلنا کم ھورھی تھی
ویسے ھی میرے گھسے بھی سلو موشن میں لگ رھے تھے اور پھر صدف کے چڈوں نے میرے لن کو اچھی طرح نچوڑ لیا
میں صدف کے مموں پر اپنے گال رکھ کر لمبے لمبے سانس لینے لگ گیا اور صدف اس دوران میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ھوے بولی اب خوش میں کافی دیر ایسے ھی پڑا رھا پھر صدف نے مجھے ہلایا کہ اب اٹھ بھی جاو کہ امی آے گی تب ھی اٹھو گے میں امی کا نام سنتے ھی صدف کے اوپر سے اٹھا اور اپنے لن کو دیکھنے لگ گیا جو سرخ ھو چکا تھا اور نیم مرجھا گیا تھا میں نے صدف کی شلوار سے ھی لن کو صاف کیا تو صدف کہنے لگی پاگل ھوگئے ھو میرے کپڑے گندے کررھے ھو مگر میں نے تب تک لن صاف کرلیا تھا اور شلوار اوپر کی تب صدف بھی جلدی سے اٹھی اور اپنی قمیض نیچے کر کے کھڑی ھوکر شلوار اوپر کرلی
اور چارپائی سے چادر اکھٹی کرتی ھوئی بولی یاسر تم گھر جاو امی بھی آنے ھی والی ھے میں امی کے آنے سے پہلے چادر بدل دوں
میں نے چادر کی طرف دیکھا تو چادر ایک جگہ سے کافی گیلی ھوگئی تھی اور اس پر گاڑھی گاڑھی منی اب بھی نظر آرھی تھی
میں نے صدف کو بازوں سے پکڑ کر اپنی طرف اسکا منہ کیا اور ایک لمبی سی فرنچ کس کی تو صدف اپنا آپ چھڑواتے ھوے بولی
اب دفعہ بھی ھوجاو میں اسکو چھوڑ
کر کمرے سے نکلنے ھی لگا تھا کہ
دوستو میں نے جیسے ہی ایک قدم
ابھی دروازے کی دہلیز سے باہر رکھا ھی تھا کہ پیچھے سے صدف نے مجھے آواز دی کہ یاسر میں نے پلٹ کر اسکو دیکھا
تو وہ مجھے ہوائی چمی دیتے ھوے بولی شکریہ
میں نے کہا کس بات کا تو صدف بولی میرا بھروسہ نہ توڑنے کا
اور میں نے ہممم کیا اور باھر نکل آیا اور بیرونی دروازے کی کنڈی کھولی اور گلی میں نکلا تو گلی میں کافی اندھیرا ھوچکا تھا
میں تیز تیز قدموں سے چلتا گھر کی طرف چلا گیا
رات کو نیند بڑے مزے کی آئی صبح سکول کی لیے تیار شیار ھوکر
آنٹی فوزیہ کے گھر چلا گیا تو آنٹی سے سلام دعا لی آنٹی نے پیار سے میری گال اور ماتھے کو چوما اور کہنے لگی میرے شزادے کی پیپروں کی تیاری کیسی جارھی ھے میں نے کہا بہت اچھی جارھی ھے
تو آنٹی میرے سر پر ھاتھ پھیرتے ھوے بولی شاباش
بس انج ای دل لا کہ پڑیا کر
ایس دفعہ وی فرسٹ ای آویں
تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا
اب میں کیا بتاتا کہ میرے تو پاس ھونے کی بھی چانس نھی
اتنی دیر میں عظمی اور نسرین بھی تیار ھوکر کمرے سے نکل آئیں
اور نسرین مجھے آنٹی کی بغل میں بیٹھا دیکھ کر بولی
امی تُسی کی ہر ویلے اینوں گودی وچ واڑی رکھدے او
تو آنٹی غصے سے بولی
تینوں کی تکلیف اے میرا اکو اک ای تے پتر اے
ہے کو ایدے ورگا سوہنا سُنکھا
تو نسرین کی بجاے عظمی بولی
شکل دیکھی اسکی آیا وڈا شزادہ
تو میں نے زبان نکال کر اسکو منہ چڑھایا
اور آنٹی نے مزید مجھے اپنے ساتھ لگا کر کہا
چلو دفعہ
ھووو کی ہر ویلے میرے منڈے دے پچھے پئیاں رہندیاں جے
تو نسرین بولی جے ماں پتر دا پیار ختم ھوگیا ھوے تے سکول جان دی اجازت مل سکدی اے
تو میں ہنستے ھو آنٹی سے الگ ھوا اور جانے لگا تو آنٹی بولی یاسر پتر بہنوں کو دھیان سے لے کر جانا آج باہر دُھند بھی کافی پڑی ھوئی ھے
میں نے جی اچھا کہا اور
انکو ساتھ لے کر گھر سے نکل کر صدف کے گھر کی طرف چلدییے
گلی سے نہر کی طرف دیکھ کر صاف پتہ چل رھا تھا کہ دھند کی شدت کتنی ھے کیوں کہ ہمیں تو کھیت بھی نظر نھی آرھے تھے خیر ہم صدف کے گھر پہنچے تو
صدف بھی تیار ھی بیٹھی تھی ہمیں دیکھ کر جلدی سے وہ بھی باہر کو آنے لگی تو اسکی امی بھی ساتھ ھی آگئی اور مجھے وہ ھی بات کہنے لگ گئی جو آنٹی فوزیہ نے کہی تھی کہ دھند بہت ھے بہنوں کو دھیان سے لے کر جانا
میں نے جی اچھا کہا اور دل ھی دل میں کہا چلو جی اک ھور پین دا اضافہ ھوگیا
ہم سکول کی طرف چل دیے
صدف ایسے شرما شرما کر مجھے دیکھ رھی تھی جیسے میری منگیتر ھو
راستے میں دھند کافی پڑی ھوئی تھی اس لیے ہم سنبھل سنبھل کر جارھے تھے تھوڑا سا بھی ایک دوسرے کا فاصلہ بڑھتا تو ایکدوسرے کی نظروں سے اوجھل ھوجاتے عظمی اور نسرین بھی ڈر ڈر کر جارھی تھی جبکہ صدف میرے آگے تھی اور بلکل میرے ساتھ ساتھ ھی جارھی تھی
مجھے اچانک شرارت سوجھی تو میں نے ھاتھ آگے کر کے صدف کی گانڈ میں پورا چپہ دے دیا صدف نے ایکدم ھائی کیا اور جھٹکے سے میرا ہاتھ جھٹک دیا
تبھی عظمی نے پیچھے مڑ کر پوچھا کیا ھوا باجی تو صدف بولی کچھ نھی میرا پیر پھسلنے لگا تھا
تو عظمی بولی باجی دھیان سے چلیں آگے سے تو کچھ نظر بھی نھی آرھا صدف نے پیچھے مڑ کر غصے سے دیکھا اور عظمی کی طرف اشارہ کیا کہ کچھ تو کیال کرو اگر عظمی دیکھ لے گی تو
تھوڑا سا ھی آگے گئے تھے کہ میں نے پھر آگے بڑھ کر صدف کی گانڈ پر پیار سے ہاتھ پھیرا اس دفعہ صدف بولی تو کچھ نہ مگر میرا ھاتھ پیچھے کرنے لگ گئی ایسے ھی میں کھڑمستیاں کرتا رھا اور ہم نہر کہ پل پر پہنچ گئے وہاں کچھ ذیادہ ھی دھند تھی
جب ہم نے نہر کا پل کراس کیا تو عظمی اور نسرین کچھ زیادہ ھی آگے چلی گئی تھی جبکہ صدف اور میں تھوڑا پیچھے تھے تب صدف نے کہا تمہیں چھٹی کس وقت ھوتی ھے میں نے نے کہا آج تو ہاف ڈے جمعرات ھے آج تو گیارہ بجے چھٹی ھوجانی ھے ویسے. ایک بجے چھٹی ھوتی ھے
تو صدف بولی میں دوبجے واپس آتی ھوں آج میں ٹانگے کی بجاے ادھر سے واپس آوں گی تم پُل پر میرا انتظار کرو گے پھر ہم اکھٹے واپس گاوں آجائیں گے میں نے کہا
واپسی پر میرے ساتھ یہ دونوں مصیبتیں ھوتی ہیں
میں انکو گھر چھوڑ کر دوبارا نہر کے پل پر آسکتا ھوں
آج تو ویسے ھی جمعرات ھے
تو تم بھی جلدی آجانا
تو صدف کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی
میں کوشش کروں گی کہ باراں بجے تک واپس آجاوں
تم ساڑھے باراں بجے پُل موجود ھونا
میں نے کہا ٹھیک ھے مگر تم آجانا یہ نہ ھو کہ میں انتظار ھی کرتا رہوں تو صدف نے میری گال پر چٹکی کاٹتے ھوے کہا فکر نہ کر میرے شزادے صدف اپنے وعدے توں نئی مُکر دی
اور پھر ایسے ھی باتیں کرتے کرتے ہم سکول پہنچ گئے صدف اپنی اکیڈمی کے راستے کی طرف چلی گئی اور ہم اپنے اپنے سکول میں چلے گئے
کلاس میں اسد سے بھی کچھ خاص بات نہ ھوئی بس وہ ھی سیکسی رسالہ دیکھا اور کچھ سیکسی باتیں کی
اور اسد نے میرا لن پکڑا جو رسالہ دیکھنے کی وجہ سے کھڑا ھوچکا تھا
تو اسد نے حیرانگی سے کہا واہ جگر تیرا لن تو پورے جوبن پر آگیا ھے
یہ تو اب پھدی پاڑ لن بن گیا
میں لکھ کر گارنٹی دیتا ھوں کہ تو جسکی بھی ایک دفعہ پھدی مارے گا دوبارا وہ تیرے لن کو ترسے گی تیری چُدی پھدی تیری مرید ھوجاے گی
میں خوش ھوتے ھوے بولا
بس یار یہ تیری مہربانی ھے
تو وہ ہنس کر بولا دیکھ لیا پھر ہماری یاری کا رزلٹ
میں نے اسکی کمر پر تھپکی دیتے ھوے کہا یار تیرا یہ احسان کبھی نھی بھولوں گا تو اسد نے کہا گانڈو یاری میں احسان نھی ھوتا
تو اچانک مجھے صدف کے کہے ھوے الفاظ یاد آے کہ
اندر مت کرنا میں برباد ھوجاوں گی
میں شادی شدہ نھی کنواری ھوں
تو میں نے اسد سے کہا یار ایک بات پوچھنی تھی
اسد بولا
دو پوچھ یار
تو میں نے کہا یار یہ کنواری لڑکی اور شادی شدہ میں کیا فرق ھوتا ھے
تو اسد بولا کیا مطلب
میں نے کہا مطلب کہ
کنواری لڑکی کے ساتھ سیکس کیا جاے اور شادی شدہ کے ساتھ کیا جاے تو اس میں کیا فرق ھوتا ھے
تو اسد بولا
کنواری سیل پیک ھوتی ھے
اسکی سیل کھولنا پڑتی ھے جبکہ شادی شدہ کی پہلے ھی کھلی ھوتی ھے
تو میں نے حیران ھوتے ھوے کہا کہ یار یہ سیل کیا ھوتی ھے تو اسد ہنستے ھوے بولا
جا اوے چلیا تینوں حالے تک اے ای نئی پتہ
کملیا سیل لڑکی کے کنوارے ھونے کا ثبوت ھوتا ھے
اسکی پھدی کے اندر ایک پردہ ہوتا ھی
جب لن اسکی پھدی میں جاتا ھے اور پردے کو پھاڑ کر آگے چلا جاے تو اسکی سیل یعنی پردہ پھٹ جاتا ھے اور اسکی پھدی سے خون نکل آتا ھے
اسے سیل ٹوٹنا کہتے ہیں
میں نے حیران ھوتے ھوے اسد کی طرف دیکھتے ھوے کہا
یار اس سے لڑکی کو درد بھی ھوتا ھے
اور خون کتنا نکلتا ھے
تو اسد بولا
کسی کسی لڑکی کے بہت ذیادہ درد بھی ھوتی ھے اور خون بھی ذیادہ نکلتا ھے اور کسی لڑکی کے نارمل سی درد ھوتی ھے اور خون بھی کچھ خاص نھی نکلتا
اور کچھ تو کنواری بھی ھوتی ہیں اور سیل بھی خود ھی توڑ لیتی ہیں
میں نے پوچھا وہ کیسے
تو اسد بولا
جیسے ہم مٹھ مار کر فارغ ھوجاتے ہیں ایسے ھی کچھ گرم اور سیکسی لڑکیاں اپنی پھدی میں انگلی کرتی ہیں اور جو جوش میں آکر انگلی ذیادہ اندر کردیتی ہیں انکی سیل ٹوٹ جاتی ھے
اور میں نے تو ایک انگلش فلم میں دیکھا تھا کہ
لڑکی اپنی پھدی میں کھیرا اور بینگن بھی لے رھی تھی اور ایک تو موم بتی اپنی پھدی میں لے رھی تھی
اور ایک لڑکی تو اپنی بنڈ کی موری میں بھی پورا کھیرا لے رھی تھی
میں حیران ھوتے ھوے اسد کو دیکھی جارھا تھا کہ سالے کو لڑکیوں کہ بارے میں کتنا پتہ ھے
تو میں نے کہا واہ یار بڑی معلومات ھے تیری
یار مجھے ایک بات کی سمجھ نھی آئی کہ پھدی میں تو چلو مان لیا کہ سب کچھ لے سکتی ہیں مگر یہ گانڈ میں کیسے لیتی ہیں تو اسد بولا
جناب کئی کنواری لڑکیاں تو گانڈ بھی بڑے شوق سے مرواتی ہیں اور جنکو چسکا پڑ جاے تو وہ اتنی پھدی نھی مرواتی جتنی گانڈ مرواتی ہیں
میں ہیییں کہا
اور اسد کو کہا یار انکے درد نھی ھوتا تو اسد نے کہا پہلے پہلے ھوتا ھے مگر بعد میں یہ گانڈ پیچھے کر کر کے پورا لیتی ہیں
اور کنواری لڑکی کو یہ فائدہ ھوتا ھے کہ اسکی سیل ٹوٹنے سے بھی بچ جاتی ھے اور لن کا سواد بھی چکھ لیتی ھیں
ابھی ہم یہ باتیں کر ھی رھے تھے کہ ماسٹر جی کمرے میں داخل ھوے اور ہم دونوں شریف زادے بن کر بیٹھ گئے،،۔۔
چھٹی ہوتے ھی میں عظمی لوگوں کو ساتھ لے کر گھر چلا گیا اور کھانا وغیرہ کھا کر میں کھیلنے کے بہانے سے گھر سے نکلا اور نہر کی طرف چل دیا گھر سے میں ٹائم دیکھ کر نکلا تھا اس لیے مقررہ وقت میں ابھی پندرہ منٹ پڑے تھے
میں تیز تیز قدموں سے چلتا نہر پر پہنچ گیا اور نہر کے کنارے پر بیٹھ کر صدف کا انتظار کرنے لگ گیا
تھوڑی تھوڑی دیر بعد میں اٹھ کر نہر کی دوسری طرف شہر کو جاتی کچی سڑک کی طرف دیکھتا رہتا
کہ شاید اب صدف آتی ھوئی نظر آجاے
وقت تھا کہ گزر ھی نھی رہا تھا
ایک ایک منٹ مجھے ایک گھنٹے جیسا لگ رھا تھا
جیسے جیسے وقت گزرتا جارھا تھا میری
بےچینی بڑھتی جارھی تھی
سچ کہا ھے شاعر نے
در پر نظر آہٹ پر کان دل میں اضطراب،۔
پوچھے کوئی ستم گروں سے مزہ انتظار کا۔
میرا حال بھی کچھ ایسا ھی تھا
دل میں وسوسے آرھے تھے کہ پتہ نھی صدف نے آنا ھے کہ نھی کہیں وہ ٹانگے پر تو نھی چلی گئی وغیرہ وغیرہ
تقریباً
ایک گھنٹے بعد صدف جلوہ گر ہوئی
جب میں نے اسے آتا دیکھا تو بجاے ادھر رکنے کے میں اسکی طرف چل دیا
اور اس کے پاس پہنچتے ھی اس سے گلے شکوے کرنے شروع کردئے کہ میں ایک گھنٹہ سے ادھر خوار ھو رھا ھوں تو صدف نے اپنی عادت کے مطابق
میری گال پر چٹکی کاٹ کر مسکراتے ھوے کہا
پھر کیا ھوا میرے میاں مٹھو
تو میں اپنی گال کو مسلتے ھوے بولا
یہ کیا تم ہر وقت میری گال پر چٹکیاں کاٹتی رہتی ھو
تو صدف بولی میری مرضی
میں تو کاٹوں گی جاو جو کرنا ھے کرلو
تو میں نے کہا جس دن میں نے کاٹی نہ تو اس دن تم نے رونے لگ جانا ھے
اسی دوران ہم پُل کراس کر کے گاوں کی طرف آگئے تھے
میں نے ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی آ تو نھی رھا
جب میری تسلی ھوئی تو
میں نے چلتے چلتے ھی صدف کا نقاب نیچے کھینچا اور اسکی گال کو چوم لیا
تو صدف مصنوعی غصے سے بولی شرم کرو سرعام گندی حرکتیں کر رھے ھو
تو میں نے کہا دیکھ لے جس نے دیکھنا ھے
تو صدف میری طرف دیکھتے ھوے بولی
واہ جی واہ
بڑی گل اے منڈا تے رانجھا بن گیا اے
تو میں پھر صدف کی گال پر چُمی لیتے ھوے کہا
کہ جب ہیر اتنی پیاری ھو تو ہر دیکھنے والا رانجھا بن جاتا ھے
تو صدف بولی
اچھا جی میں نے کہا
ہاں جی
صدف بولی
بڑی گل اے
میں نے کہا بس یہ باتیں کرنے کے لیے مجھے بلوایا تھا تو صدف بولی اور کیا کرنا تھا
میں نے کہا کچھ بھی نھی میرا مطلب ھے کہ کچھ دیر ادھر کہیں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں پھر چلے جائیں گے ویسے بھی تو تمہاری اکیڈمی کی چھٹی میں بھی ابھی دو گھنٹے پڑے ھیں اور گھر تک آتے بھی آدھا گھنٹہ لگ جاتا ھے
تو صدف بولی نھی یاسر مجھے ڈر لگتا ھے اگر کسی گاوں والے دیکھ لیا تو تم سوچ بھی نھی سکتے کہ ہمارے ساتھ کیا ھوگا
تو میں نے کہا یار ہم ادھر کہیں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں جہاں سے ہمیں کوئی دیکھ بھی نھی سکتا
تو صدف بولی
پاگل ادھر کدھر ایسی جگہ ھے جہاں کوئی ہمیں دیکھ نھی سکتا
تو میں نے صدف کا ہاتھ پکڑا اور کہا چلو
تو صدف اپنا ھاتھ چھڑواتے ھو بولی
تم پاگل تو نھی ھو
ھاتھ تو چھوڑو میرا
تم آگے آگے چلو میں تمہارے پیچھے پیچھے آتی ھوں
مگر میری ایک شرط ھے
تو میں نے پوچھا کیا شرط ھے جناب کی
تو صدف بولی اگر مجھے وہ جگہ محفوظ نہ لگی تو میں نے پھر ادھر نھی رکنا
تو میں نے کہا یار چلو تو سہی ایک دفعہ
نہ پسند آے جگہ تو بیشک چلی جانا
اور یہ کہ کر میں صدف کے آگے آگے چلنے لگ گیا
میں صدف کو لے کر اسی جگہ پہنچ گیا جہاں عظمی کے ساتھ کھڑمستیاں کرتا ھوتا تھا
صدف نے چاروں طرف کا جائزہ لیا تو اسے بھی جگہ پسند آگئی
دوستو اب وہ جگہ پہلے سے بھی ذیادہ محفوظ تھی
کیوں کہ اسکے دونوں اطراف مکئی اگی ھوئی تھی جو اب اتنی اونچی ھو چکی تھی کہ ہم کھڑے بھی ھوتے تو کوئی ہمیں دیکھ نھی سکتا تھا ۔۔۔
صدف اسے
میں ٹاہلی کی اوٹ میں ایک دوسرے کے سامنے گھاس پر بیٹھ گئے
صدف بولی یاسر تمہیں اس جگہ کا کیسے پتہ ھے تو میں نے کہا گرمیوں میں ہم جب لُکن میٹی کھیلتے تھے تب ہم ادھر آکر چُھپ جاتے تھے
تو صدف بولی کون کون
میں نے گلی کے دوتین لڑکوں کا نام لیتے ھوے بتایا کہ ہم سب ادھر ھی آکر چُھپتے تھے
تو صدف بولی عظمی اور نسرین بھی تمہارے ساتھ ھوتی تھی میں نے کہا نھی یار وہ اتنی دور آنے سے ڈرتی تھی اس لیے وہ پیچھے کپاس میں ھی چُھپ جاتی تھی
تو صدف ہمممم کر کے خاموش ھوگئی
میں نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد
بولا صدف اس دن مزہ آیا تھا تو صدف نے شرما کر منہ نیچے کر لیا اور بولی
گندی باتیں نہ کرو
تو میں نے کہا یار گندی باتیں کیسے ھوئی
وہ تو پیار تھا
اور پیار کی باتیں گندی تھوڑی ھوتی ہیں
تو صدف ایکدم میری طرف دیکھتے ھوے بولی
تم چیز کیا ھو
مجھے تو تم نے پریشان کرکے رکھا ھوا ھے
میں نے کہا
وہ کیسے جی
تو صدف بولی
تمہاری عمر کتنی ھے
تو میں نے کہا
یہ ھی کوئی سولہ سال
تو صدف بولی
سولہ سال کی عمر میں تم ایک منجھے ھوے مرد بن گئے ھو
تو میں نے کہا
وہ کیسے
تو صدف بولی ذیادہ معصوم بننے کی ایکٹنگ مت کرو
تم اچھی طرح جانتے ھو میں کیا کہنا چاھ رھی ھوں
تو میں نے پھر معصوم سا چہرہ بناتے ھوے کہا
سچی مجھے نھی پتہ کہ تم ایسا کیوں کہہ رھی ھو
تو صدف بولی اپنی حرکتوں پر غور کرو خود ھی سمجھ آجاے گی
میں نے پھر کہا
کون سی حرکتیں جناب،،
اسی دوران میں نے صدف کا ھاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھ میں لے کر اپنا دوسرا ھاتھ اسکے ھاتھ پر پھیرنے لگ گیا تھا
تو صدف بولی وہ ہی جو میرے ساتھ کرتے رھتے ھو اور کل تو تم نے مجھے حیران پریشان کردیا تھا میں تو ساری رات تمہارے بارے میں ھی سوچتی رھی کہ جسے میں بچہ سمجھ کر لاڈ سے چھیڑتی تھی اس بچے نے تو میری نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں،،
تو میں نے کہا یار بتاو بھی کہ ایسا میں نے کیا کردیا ھے جس سے تم اتنی پریشان ھو
تو صدف بولی پہلی بات تو یہ ھے کہ تمہاری عمر کے بچوں کو سیکس کے بارے میں تو بلکل بھی پتہ نھی ھوتا
مگر تم تو اتنی چھوٹی عمر میں اتنے اکسپرٹ ھو
اور صدف نے میرے لن کی طرف اشارہ کرتے ھوے کہا
( جو ہلکا سا سر اٹھا چکا تھا )
تمہارا یہ تو اتنا بڑا ھے کہ جب میں نے ھاتھ میں پکڑا تھا تو میں ایکدم ہل گئی تھی کہ یہ تمہارا وہ ھے یا لوھے کا راڈ ھے
میں نے کہا یار نام لے کر بتاو نہ کہ کیا لوھے کا راڈ ھے
تو صدف شرماتے ھوے اپنی گود کی طرف دیکھتے ھوے بولی
مجھے شرم آتی ھے
تو میں نے کہا
یار کل تم خود ھی کہہ رھی تھی کہ دوستی میں شرم نھی ھوتی اب تمہیں چھمیں آرھی ہیں
اور اسکے ساتھ ھی میں نے صدف کا پکڑا ھوا ھاتھ اپنے لن پر رکھا
اور، کہا
بتاو نہ یار
اسے کیا کہتے ہیں
جیسے ھی صدف کا ہاتھ میرے لن کے ساتھ ٹچ ھوا
لن ساب نے زور سے اوپر کو جھٹکا مارا
جیسے کہتا ھو
کہ
نہ چھیڑ ملنگاں نوں
صدف نے ہاتھ پیچھے کھینچنے کی کوشش کی
تو میں نے ھاتھ کو اور مضبوطی سے پکڑتے ھو صدف کو کہا یار نہ کرو کیا ھوتا ھے بتاو نہ اسے کیا کہتے ہین
تو صدف بولی مجھے شرم آتی ھے
تو میں نے پھر سے اصرار کیا
تو صدف نے سر نیچے کیے ھوے ھی آہستہ سے کہا لن
میں نے کہا
کیا کہا مجھے سنا نھی
تو صدف بولی مجھے نھی پتہ چھوڑو میرا ھاتھ
میں نے کہا یار اب ایسے نخرے تو نہ کرو
صدف نے ھاتھ کی مُٹھی کو زور سے بند کیا ھوا تھا میں نے اپنی انگلیوں کی مدد سے
۔۔۔۔
اسکی مٹھی کو کھولنے کی کوشش کرنے لگ گیا کچھ دیر زور ازمائی کے بعد میں نے اسکی مُٹھی کو کھول دیا
تب اس نے ہلکی سی شرارتی چیخ مارتے ھوے کہا ھوے میری انگلیاں ٹوٹ گئی
تو میں نے اسکی ہتھیلی کو چومتے ھوے کہا
میری جان کی انگلیاں کیسے ٹوٹ سکتی ہیں
اور ساتھ ھی اسکی کھلی ہتھیلی کو اپنے لن پر رکھ کر اسکی مٹھی بند کردی صدف نے تھوڑا سا پھر نخرا کیا مگر پھر اس نے میرے لن کو نرمی سے پکڑ لیا
لن ساب پورے جوبن پر تھے اور لن کی ٹوپی پھنکارے مار رھی تھی
صدف نے لن کو ہاتھ میں پکڑا تو بولی یاسر اتنا بڑا کیسے کیا
تو میں نے اسے تیل کا بتانا مناسب نہ سمجھا
اور جھوٹ بولتے ھوے کہا
یار میں نے اسے کیسے بڑا کرنا ھے
خود ھی بڑا ھوگیا ھے مجھے تو خود سمجھ نھی آئی کہ میرا لن اتنی جلدی کیسے بڑا ھوگیا ھے
تو صدف بولی چل چوٹھا
میں نے کہا سچی کہہ رھا ھوں
صدف بولی
اچھا اب تم یہ بھی کہو کہ جس مہارت کے ساتھ کل تم میرے ساتھ کسنگ کر رھے تھے اور جیسے میرے انکو چوس رھے تھے
صدف نے انگلی اپنے مموں کی طرف کرتے ھوے کہا
یہ بھی تمہیں خود ھی پتہ چل گیا تھا
میں نے کہا یار تمہیں مجھ پر یقین کیوں نھی آرھا ھے اگر تمہیں مجھ پر یقین ھی نھی تو پھر ہماری دوستی کا کیا فائدہ،
اور میں نے روٹھنے والا منہ بنا لیا
تو صدف نے پھر میری گال پر چُٹکی کاٹتے ھوے کہا
ڈرامے بازا میں سب سمجھنی آں
تو میں نے کہا یار ہم لڑنے کے لیے ادھر بیٹھیں ہیں تو صدف بولی
نہ جھوٹ بولو پھر
میں نے غصے سے صدف کا ھاتھ اپنے لن سے ہٹاتے ھوے کہا اور اٹھتے ھوے بولا جب تمہیں میری ہر بات ھی جھوٹ لگ رھی ھے تو پھر میرا یہاں بیٹھنے کا کیا کام
صدف نے ساتھ ھی میرا بازو نیچے کھینچا اور میں پھر اسی جگہ صدف کے سامنے بیٹھ گیا
صدف بولی ایک تو تم ڈرامے بہت کرتے ھو
تو میں نے برا سا منہ بناتے ھوے کہا یار ڈرامے کیسے مجھے دکھ ھوتا ھے جب میری سچی بات سن کر بھی تم اسے جھوٹ سمجھتی ھو
تو صدف بولی یاسر مجھے ڈر لگتا ھے کہ کہیں تم مجھے دھوکا نہ دے دو
میں نے کہا اگر تمہیں ایسا لگتا ھے تو پھر آج کے بعد میں تمہیں شکل بھی نھی دیکھاوں گا
تو صدف نے آگے کو ہو کر میری دونوں کانوں پر ھاتھ رکھے اور میرے ہونٹ چوم کر بولی
یاسر تمہیں نھی پتہ تم مجھے کتنے پیارے لگتے ھو
میں نے اپنے دونوں ھاتھ اسکی کمر پر لیجاتے ھوے اسے پیچھے کی طرف لیٹانے لگا اور خود اسکے اوپر لیٹ گیا اور کچھ بولے بغیر ھی اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے تو صدف نے مجھے پیچھے دھکیلتے ھوے کہا
اوےےےےےے میرا بُرقعہ گندا ھوگیا
کیوں مجھے پھنسواے گا
میں بھی جلدی سے اسکے اوپر سے ہٹ گیا
اور صدف پھر اٹھ کر بیٹھ گئی
میں نے صدف کو کہا کہ برقعہ اتار دو
تو صدف بولی
یاسر اگر کوئی آگیا تو
تو میں نے کہا یار ادھر کوئی نھی آتا تم اس بات کی پرشانی نہ لو
اور ساتھ ھی میں نے صدف کے دونوں ھاتھ پکڑے اور اسے کھڑا کرنے لگ گیا تو صدف کھڑے ھوتے ھوے بولی
یاسر مجھے ڈر لگ رھا ھے کوئی آ نہ جاے
میں نے کہا یار مجھ پر بھروسہ رکھو مجھے اپنی اور تمہاری عزت کا خیال ھے
تو صدف بولی ایسے ھی کھڑے کھڑے کسنگ کرلیتے ہیں
تو میں نے اسی دوران نیچے جھک کر صدف کے برقعے کا پلا پکڑا اور اوپر اسکے پیٹ تک لے آیا اور بولا یار کچھ نھی ھوتا
اور پھر اسکے برقعے کو اسکے مموں تک کردیا مموں پر برقعہ پھنسا ھوا تھا اس لیے میں تھوڑا زور لگا برقعہ اوپر کرنے لگا تو صدف
بولی او ہو
کیا ھے میرا برقعہ پھاڑنا ھے
میں نے کہا اتنا تنگ پہنتی کیوں ھو
تو صدف بولی تنگ نہ پہنتی تو تم مجھے ایسے دیکھتے کیسے اور ہماری دوستی کیسے ھوتی
اور ساتھ ھی صدف نے پہلے دونوں ھاتھوں سے برقعہ اپنے مموں سے اوپر کیا اور اپنے بازو اوپر کر کے برقعہ اتارنے لگی
جیسے ھی صدف نے بازو اوپر کیے اور برقعہ اسکے منہ پر آیا تو میرے سامنے صدف کے تنے ھوے ممے مجھے گھورتے ھوے نظر آئے صدف کے ممے ویسے بھی بڑے تھے اور گولائی شیپ میں تھے کچھ صدف نے جب برقعہ اتارنے کے لیے بازو اوپر کیے تو اس کے ممے مذید آگے کی طرف آگئے
مجھ سے رھا نہ گیا
ابھی برقعہ صدف اپنے سر سے نکالنے میں مصروف تھی کہ میں نے اسکے دونوں مموں کو پکڑ کر پی پی پی پی کر کے بجایا اور ایسے ھی اسکو جپھی ڈال لی صدف نے برقعے سے سر نکالتے ھوے اپنے بالوں کو صحیح کرتے ھوے مجھے کہا
صبر نئی ہندا اصلوں ای بے صبرا ھو جانا اے میں کِتے پج چلی آں
تو میں نے اسکے ہونٹ چومتے ھوے کہا
میری جانو تمہارے دُدو دیکھ کر اور تمہارا سیکسی جسم دیکھ کر مجھے ہوش کہاں رھتا ھے
تو صدف بولی مسکے بڑے لانے آندے نے
میں نے کہا میرے پیار کو مسکے تو نہ کہو
اور میں نے اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے
اسکی چھاتیاں میرے سینے کے ساتھ لگ کر دبی ہوئی تھی اور میرے ھاتھ اسکی کمر
۔۔۔
پر تھدی
صدف نے بھی اپنے ھاتھ میرے کمر پر رکھ لیے تھے
اور نیچے سے میرا لن اسکی پھدی سے تھوڑا اوپر اسکی ناف سے تھوڑا نیچے لگا ہوا تھا
صدف بے شک عمر میں مجھ سے دو تین سال بڑی تھی مگر اسکا قد مجھ سے تھوڑا سا چھوٹا ھی تھا
اسکے ہونٹ چومت ھوے بھی مجھے تھوڑا سر جھکانا پڑا تھا
ہم کچھ دیر ایسے ھی ایک دوسرے کے ہونٹ چوستے رھے کبھی میں صدف کا اوپر والا ہونٹ چوستا تو صدف میرا نیچے والا ہونٹ چوستی کبھی میں اسکا نیچے والا ہونٹ چوستا تو وہ میرا اوپر والا ہونٹ چوستی
کبھی زبانوں کی لڑائی ھوتی تو کبھی سانسوں کے ایکے دوسرے کے اندر ٹرانسفر ھوتا
تو کبھی ایک دوسرے کے لباب کو نگھلتے
اسی دوران میں نے صدف کی پیچھے سے قمیض اوپر کر کے اسکی لاسٹک والی شلوار میں ھاتھ ڈال کر اسکی گول مٹول سڈول گانڈ کے چوتڑوں کو پکڑ کر مٹھیاں بھرنے لگ گیا
صدف کی گانڈ بہت ھی ملائم تھی
اور کافی گوشت چڑھا ھوا تھا
ساتھ ساتھ میں اپنی گانڈ کو دائیں بائیں ہلا ہلا کر لن اسکے جسم کے ساتھ رگڑ رھا تھا
صدف کا بھی یہ ھی حال تھا
وہ بھی ایڑیاں اٹھا کر لن کو پھدی کے ساتھ ملانے کی کوشش کررھی تھی میں بھی تھوڑا سا نیچے ھوا اور لن اور پھدی کا ملاپ کر دیا
اب میرے ہونٹ صدف کے ہونٹوں کو چوم اور چوس رھے تھے اور میرے سینے کے نپل صدف کی چھاتیوں کے نپلوں کو چوم رھے تھے
اور نیچے سے لن اور پھدی بھی بھرپور انداز میں مشاورت کررھے تھے
کچھ دیر یہ ھی سین چلتا رھا
پھر ہم دونوں الگ ھوے اور صدف اپنے ہونٹوں کو مسلتی ھوئی بولی
میرے ساڑ پین لگ گیا اے
میں نے صدف سے پوچھا تمہارے پاس کوئی دوپٹہ یا چادر ھے تو اس نے کہا کیا کرنی ھے تو میں نے کہا بتاو تو سہی ھے کہ نھی
تو اس نے اپنے شولڈر بیگ کی طرف اشارہ کرتے ھوے کہا اس میں چادر پڑی ھے میں نے آگے بڑھ کر اسکے بیگ کی زپ کھولی تو اوپر ھی مجھے چادر نظر آگئی میں نے چادر نکالی جو کہ گرم شال تھی اسکو گھاس پر بچھا دیا
صدف آگے بڑھ کر چادر پکڑ کر اٹھانے لگی کہ میری چادر گندی کرنی ھے سارے گھاس کے داغ لگ جانے ہین
میں نے کہا یار اسکا رنگ
اسکا رنگ گہرہ ھے داغ نظر نھی آئیں گے تو صدف بولی پاگل میں نے اکیڈمی میں اوپر لینی ھوتی ھے تو میں نے کہا یار کل کون سا تم نے جانا ھے
کل دھو لینا
تو صدف چپ ھوگئی
میں نے چادر درست کر کے بیچھا دی اور صدف کو لے کر چادر کے اوپر بیٹھ گیا اور بیٹھتے ھی میں نے صدف کو سیدھا لٹا دیا اور اسکی قمیض پیٹ سے اوپر تک کردی تو
صدف بولی کیا کررھے ھو اگر کوئی اچانک آگیا تو مرواو گے تم
میں نے کہا یار ایک تو تم ڈرتی بہت ھو میں ہوں نہ تمہارے ساتھ
تو صدف چپ کر گئی میں نے اسکے پیٹ پر ھاتھ پھیرا اور ھاتھ کو نیچے اسکی کمر تک لے گیا اور ھاتھ سے اسکو تھوڑا اوپر ہونے کا کہا تو صدف نے گانڈ اٹھا کر کمر اوپر کو کی تو میں نے نیچے سے اسکی قمیض اوپر کردی اور پھر ھاتھ آگے لا کر آگے سے بھی اسکی قمیض اسکے مموں سے اوپر کردی
صدف نے سکن کلر کا بریزیر پہنا ھوا تھا
میں نے اسکے مموں کو بریزیر کے اوپر سے ھی مسلنا شروع کردیا
جوش میں آکر مجھ سے اسکا مما ذیادہ دبایا گیا تو
صدف نے زور سے سیییییییی کیا اور بولی جانور نہ بنو آرام سے کرو
میں نے ھاتھ نرم کر لیا اور پھر بریزیر کو نیچے سے پکڑ کر اوپر کردیا اور اسکے کھلتے ھوے ممے ایکدم میرے سامنے آے میں مموں پر ایسے جھپٹا جیسے بچہ بھوک کی حالت میں مموں کو منہ مارتا ھے
صدف میرے سر کے بالوں میں انگلیاں پھیر کر سسکیاں لینے لگ گئی
میں نے ایک ھاتھ اسکی شلوار میں ڈالدیا اور پھدی کو مسلنے لگ گیا صدف کا برا حال ھورھا تھا
صدف کی پھدی کافی گیلی ھوچکی تھی
میں نے دوسرے ھاتھ سے اپنی شلوار نیچے کی اور لن کو باھر نکال لیا
اور صدف کا ایک ھاتھ پکڑ کر اپنے ننگے لن پر رکھا
تو صدف پہلے ھی سیکس میں چُور چُور ھوئی تھی اس نے بھی بنا کچھ کہے لن کو پکڑ لیا اور مٹھیاں بھرنے لگی ساتھ ساتھ وہ میرے لن کے سائز کو بھی ناپ رھی تھی کبھی ٹوپے کو انگلیاں لگا کر اسکی موٹائی کو چیک کرتی کبھی لن کو جڑ سے پکڑتی اور پھر ٹوپے تک ھاتھ کو لا کر لمبائی چیک کرتی
میں صدف کی پھدی مسلنے کے ساتھ ساتھ اسکی شلوار بھی نیچے کردیتا یہاں تک کہ اسکی شلوار اسکے گھٹنوں سے نیچے کردی تھی اور میں نے اپنی شلوار بھی اپنے پیروں تک نیچے کردی تھی اور پھر اسی پوزیشن میں شلوار کو پاوں کے ساتھ ھی اتار دیا اور پھر اپنی قمیض اوپر گلے تک کی اور اپنے ننگے جسم کو صدف کے ننگے جسم کے ساتھ ٹچ کرنے لگ گیا
صدف ابھی تک لن کو ٹٹول رھی تھی جیسے اسے ابھی تک یقین ھی نھی ھوا ھو کہ یہ واقعی میرا ھی لن ھے
تو میں نے اپنی ایک ٹانگ صدف کی ٹانگوں کے درمیان کی اور پاوں کے ذریعے اسکی شلوار مزید نیچے کی طرف لے گیا اور اسکے پاوں سے اتار دی
۔۔۔۔
صدف اور میری قمیض ھی جسم پر تھی وہ بھی دونوں کے کندھوں تک تھیں
جبکہ ہم دونوں کا سینے سے پیروں تک کا جسم بلکل ننگا تھا
میں نے صدف کے ھاتھ میں پکڑے لن پر ھاتھ رکھ کر ہلاتے ھوے کہا اپنے اس شزادے کے ہونٹوں پر ایک کس تو کردو تو صدف نے میرے ھونٹوں پر کس کردی میں نے کہا اس شزادے کے نھی اس کے اور ساتھ ھی میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور لن ہلا کر اسکے منہ کی طرف کردیا تو صدف نے پریشان ھوکر کہا شرم کرو گندے کام مجھ سے کرواتے ھو
کیا ایسے بھی کوئی گندے کام کرتا ھے تو میں نے کہا
بس ایک چھوٹی سی کس کردو کچھ نھی ھوتا
اور لن صدف کے ہونٹوں کے بلکل قریب کردیا صدف نھی نھی میں سر ہلانے لگ گئ اور ہونٹوں کو مضبوطی سے آپس میں بھینچ لیا
میں مزید آگے کی طرف ھوا اور لن اسکے ہونٹوں پر رکھ کر اسے کہنے لگا
بس ایک چمی بس بس ایک
تو صدف نے آنکھیں بند کر کے کڑوی دوائی پیتے ھوے ایک چھوٹی سے چُمی لی اور دوسری طرف منہ کر کے تھوکنے لگ گئی
اور کہنے لگ گئی
گندے بےشرم گندے کام کرتے ھو
میں نے کہا تم کو مجھ سے پیار نھی ھے
پیار کیا ھوتا ھے اور کسکو پیار کہتے ہیں یہ میں تمہیں بتاتا ھوں
اور میں یہ کہتے ھی اسکی ٹانگوں کے پاس آیا اور اسکی دونوں ٹانگیں اوپر کی تو صدف گبھرا کر بولی کیا کرنے لگے ھو
تو میں نے کہا پیار کرنے لگا ہوں
تو صدف بولی کیڑا پیار اے جیڑا لتاں چُک کے کری دا
تو میں نے کہا بس دیکھتی جاو تو صدف نے اپنی پھدی پر ھاتھ رکھ کر ھاتھ کو دباتے ھوے کہا اندر کرنے لگے ھو
تو میں نے کہا نھی میری جان جب نے منع کردیا ھے کہ اندر نھی کرنا تو پھر بار بار کیوں مجھے کہہ رھی ھو تو
صدف بولی پھر کیا کرنے لگے ھو تو میں نے کہا یار ایک دفعہ ھاتھ تو ہٹاو
تو صدف نے ڈرتے ڈرتے ھاتھ پیچھے کرلیا
تو میں کھلتی کلی کو غور سے دیکھنے لگ گیا
صدف کی پھدی گیلی ھونے کی وجہ سے چمک رھی تھی
اور پھدی کے دونوں باریک سے ہونٹ آپس میں ملے ہوے تھے
اور ہونٹوں کی لمبائی بھی چھوٹی سی تھی
میں نے اپنا ہاتھ آگے کیا اور دو انگلیاں جوڑ کر پھدی کے ہونٹوں کو کھولا
تو گلابی ہونٹ تھوڑا سا کھلے اور اندر کی جلد ایسے سرخ نظر آئی جیسے سارا خون ادھر ھی جمع ھو
پھدی کے شروع کے حصے میں چھوٹی سی جھلی تھی شاید پیشاب کرنے کا سوراخ تھا
میں نے اس جھلی کو انگلی سے دبا کر مسلنا شروع کیا تو صدف ایک دم تڑپی اور میری کلائی کو مضبوطی سے پکڑ لیا
میں کچھ دیر چھوٹی سی جھلی کے ساتھ کھیلتا رھا
پھر میں نے پھدی کے قریب منہ کر سونگھا تو مجھے بدبو سی آئی اور ابھکائی سی آنے لگی میں نے تھوڑا سا اپنا منہ پیچھے کیا
کہ اچانک مجھے اپنا چیلنج یاد آگیا
کہ پیار کیا ہوتا ھے میں بتاتا ھون
تو میں نے سانس روک کر زبان باہر نکالی اور پھدی کے لبوں کے درمیان ایک چھوٹے سے ابھرے ھوے دانے کے اوپر رکھ کر زبان کو اوپر نیچے کر کے چاٹنا شروع کردیا
جیسے ھی میں نے یہ عمل کیا صدف
کے منہ سے آواز نکلی
ھاےےےےےےےےےے میییییں مرگئیییییییی
اور وہ یہ کہتے ھی ساتھ ھی اوپر کو اٹھی اور دونوں ھاتھوں سے میرے سر کو پیچھے کی طرف دھکیلا اس کے اس اچانکے دھکے سے ایک دفعہ تو میری زبان اسکی پھدی کے ہونٹون سے نکل گءی مگر میں نے اسکی ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھی اور اسکے بازوں کو مضبوطی سے پکڑ کے زمین کے ساتھ لگا دیا اور
پھر سے پھدی کے لبوں میں زبان پھیرنے لگ گیا
۔۔صدف ذور ذور سے سر دائیں بائیں مار رھی تھی اور اپنا آپ مجھ سے چھڑوانے کی کوشش کررھی تھی مگر میں نے اسکو قابو ھی ایسے کیا ھوا تھا کہ میرے شکنجے سے نکل ھی نھی سکتی تھی
صدف ساتھ سسکیاں اور اففففففف یاسرررررررر نہ کرو میں مرجاوں گی
ھاےےےےے یاسر میری جان نکل رھی ھے
یاسرررررر پلیززززززز نہ کرو ھاےےےےےے امممممممم اففففففف
صدف کی سسکیاں اور آہیں سن کر مجھے اور جوش چڑھ رھا تھا
اور میں زور زور سے پھدی کو لِک کر رھا تھا کہ اچانک صدف کی سسکیاں اور آہیں تیز ھوگئی اور اس نے بُنڈ اوپر کر کے پُھدی کو میرے منہ کے ساتھ مزید جوڑ کر اوپر کو گھسے مارنے شروع کردیا اور دونوں ھاتھ سے چادر کو مٹھی میں بھر لیا
اچانک صدف نے اپنی ٹانگیں بلکل سیدھی آسمان کی طرف کر کے اکڑا لیں
اور پھر وہ ھوا جسکی وجہ سے عظمی کو الٹیاں آئی تھی
صدف کی پھدی سے ایک لمبی سی پھوار نکلی
اور صدف نے زور سے ھاےےےےےےےےے میں گئیییییییی اور اسکی پھدی سے نکلنے والی پھوار میرے منہ پر میرے ناک پر میری آنکھوں پر پڑی اس سے پہلے کے دوسری پھوار بھی میرے منہ پر پڑتی میں پیچھے کو ہٹ کر منہ کے آگے ہاتھ رکھ لیا
اور باقی کی تین چار منی اور پانی کی پھواریں میرے ھاتھ پر گری
اور ساتھ ھی صدف کی پھدی کے ہونٹ کھلتے بند ھوتے مجھے گالیاں دیتے نظر آے
اور صدف بےجان ھوکر جسم ڈھیلا چھوڑ کر لیٹی لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی
کچھ دیر بعد صدف کچھ سنبھلی تو میں اسکی ٹانگوں کے درمیان اسکے اوپر لیٹ کر اپنا منہ اسکے منہ کے قریب کیا تو اچانک اس نے میرے دونوں کانوں کو اپنی مٹھیوں میں بھینچ کر ذور سے میرے سر کو ہلاتے ھوے کہا
میں تیری جان کڈ لینی اے
تو میں نے مسکرا کر کہا
دیکھ لیا میرے پیار کا ثبوت اسے کہتے ہیں پیار تو صدف نے ویسے ھی میرے کان پکڑے میرا منہ اپنے منہ کے قریب کیا اور ایک لمبی سی فرنچ کس کی اور بولی
آئی لو یو
یاسر میں تیری ھوں میرا سب کچھ تیرا ھے
یہ جسم بھی تیرا ھے یہ جان بھی تیری ھے
جیسے چاھے کر میں تجھے کبھی نھی روکوں گی
میں نے یہ سن کر کہا
اندر کردوں
تو صدف بڑی بہادری کا مظاہرہ کرتے ھوے بولی کردو
میں نے کہا سیل ٹوٹ جاے گی
صدف بولی ٹوٹنے دو
میں نے کہا عزت چلی جاے گی
تو صدف بولی جانے دو
میں نے کہا کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نھی رھو گی
تو صدف بولی نھی پروا
میں نے کہا برباد ہو جاو گی
تو صدف بولی
ہونے دو
صدف ایسے بول رھی تھی جیسے اس پر جادو کیا ھو اور وہ سحر میں جکڑے ہر بات کا پوزٹیو جواب دے رھی ھو
میں ساتھ ساتھ اس سے باتیں کر رھا تھا اور ساتھ ساتھ اسکی ٹانگوں کو مزید کھول کر اپنے لن کے پھولے ھوے ترسے ھوے پیاسے ٹوپے کو اسکی چوت کے لبوں میں سیٹ کرچکا تھا
اب پوزیشن یہ تھی کہ بس مجھے ایک دھکا لگانا تھا
میں نے صدف سے پھر کہا سوچ لو
تو وہ اسی نشیلے انداز میں بولی سوچ لیا
میں نے کہا پھر مجھے مت کہنا
تو صدف بےساختہ بولی نھی کہتی
میں نے اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں کے مزید قریب کیے
اور کہا تیار ھو
تو اس نے کہا تیار ھوں
میں نے اسکے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر اسکا منہ بند کیا اور اپنے دونوں ھاتھ اسکے کندھوں پر رکھ کر کندھوں کو مضبوطی سے پکڑا
اور ایک زور دار گھسا مارا صدف کی پھدی گیلی تھی میرا لن خشک تھا
گھسا اتنا جاندار تھا کہ پھدی کو چیرتا ھوا ساری رکاوٹوں کو ہٹاتا ھوا سارے کا سارا اندر چلا گیا صدف
میرے نیچے سے ایسے تڑپی جیسے مرغی کو چھری پھیر کر ٹھنڈا ھونے کے لیے چھوڑ دیا ھو
صدف نے پورے زور سے چیخ ماری تھی
مگر اسکی چیخ میرے منہ کے اندر ھی گونج کر خاموش ھوگئی صدف ایک دم اوپر کو اچھلی مگر اسکے کندھے میرے ھاتھوں میں تھے اس نے پھدی اوپر نیچے آگے پیچھے کرنے کی پوری کوشش کی مگر میرا سارا وزن اسکے پھدی والے حصہ پر تھا
صدف کی آنکھون سے آنسووں کی جھڑی لگ گئی جو اس کی بند آنکھوں سے بہہ رھی تھی
میں گھسا مار کر اسکے اوپر لن اندر کیے ھی لیٹا رھا
صدف تین چار منٹ تک مجھے پیچھے کرنے کی کوشش کرتی رھی اور میں اسے دلاسا دیتا رھا
کچھ دیر بعد صدف کچھ ریلکس ھوگئی
میں نے اب اسکے کندھے چھوڑ دیے تھے اور اسکے بالوں میں انگلیاں پھیر رھا تھا اسکے آنسو صاف کر رھا تھا
صدف کچھ بول نھی رھی تھی بس روے
جارھی تھی مجھے ایسے لگ رھا تھا کہ میرا لن کسی گرم بھٹی میں ھے اور اسکی پھدی نے میرے لن کو اپنے شکنجے میں جکڑا ھوا ھے
میں اس سے باتیں کر رھا تھا مگر وہ گم سم سی بس روے جارھی تھی اسکی یہ حالت دیکھ کر میرا بھی دل بھر آیا میں ایک جھٹکے سے اس سے الگ ھوا اور لن باہر ایک جھٹکے سے باہر آیا تو صدف نے پھر زور سے چیخ ماری مجھے اس کا دھیان ھی نھی تھا کہ لن نکالتے ھوے بھی درد ھوگا
اس لیے اسکی چیخ لازمی آس پاس تک گئی تھی
۔۔۔
میرا تو ایکدم رنگ،اڑ گیا
میں نے اپنے لن کی طرف دیکھا تو لن خون کے ساتھ لت پت تھا اور اسکی پھدی سے کافی خون نکل کر نیچے چادر میں سمو گیا تھا، اسکی پھدی سے اب بھی سرخ پانی سا نکل رھا تھا
مجھے تو یہ ٹینشن پڑ گئی تھی کہ اگر کسی نے صدف کی چیخ سنی ھوگی تو لازمی ادھر آے گا
مگر صدف اس سب سے لاعلم ھوکر نیم بے ہوشی کی سی حالت میں مجھے دیکھی جارہی تھی اور اسکی آنکھوں سے آنسو اب بھی جاری تھے
مجھے تو سمجھ نھی آرھی تھی کہ میں اب کیا کروں
کہ اچانک؟؟؟؟؟؟