Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Welcome!

اردو ورلڈ کے نمبر ون فورم پر خوش آمدید۔ ہر قسم کی بہترین اردو کہانیوں کا واحد فورم جہاں ہر قسم کی کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔

Register Now
  • پریمیم ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 95 ڈالرز

    وی آئی پی پلس ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 7000

    وی آئی پی ممبر شپ

    تین ماہ ۔۔۔۔ 2350

    نوٹ: صرف وی آئی پی ممبرشپ 1000 ماہانہ میں دستیاب ہے

    WhatsApp رابطہ

    +1 540 569 0386

Sex Story پلے بوائے

Master Mind

Premium
Joined
Dec 25, 2022
Messages
1,185
Reaction score
20,746
Points
113
Location
Australia
Offline

پلے بوائے .......(1)...

پہلا حصہ

یہ کہانی بارہ حصوں میں پوسٹ ہو گی ...

ڈاکٹر کنول کے اور میرے کپڑے ڈرائنگ روم سے میرےبیڈروم تک بکھرے ہوئے تھے۔۔کنول بیڈ پر لیٹی تھی،اور اس کی ٹانگوں میں بیٹھ کر میں مخصوص انداز میں بیٹھ چکا تھا،کنول شرما بھی رہی تھی اور پر جوش بھی تھی۔ڈاکٹر کنول کے گورے،متناسب ،سیکسی جسم نے پچھلے ایک ہفتے سے مجھے پاگل کیا ہواتھا۔ خوبصورت تیکھے نقوش اور سنگِ مر مر سے تراشا ہوا حسین جسم ،میری پسند کے عین مطابق۔ فور پلے تو کب کا کرچکا تھا اب تو انتہائی گرمی تھی اور بس اندر ڈالنا تھا،میں نے زیتوں کا تیل(اولیو آئل) اپنے عضو پر لگایا۔ویسے تو چکنائی کیلیے بہت کچھ ملتا ہے۔پانی ، تیل ،ریشم کو بنیاد بنا کر کئی قسم کی جیلی اور تیل عالمی مارکیٹ میں دستیاب ہیں،اور تو اور چوت اور گانڈ کیلیے علیحدہ علیحدہ چکنائی دستیاب ہے ۔ امریکہ اور یوریپ نے تو سیکس کو ایک صنعت بنا لیا ہے ۔ ۔ اسوقت ڈیوریکس پلے اور کے وائی جیلی (گانڈ کیلیے )عالمی مارکیٹ میں اچھے جا رہے ہیں۔ہر کسی کی اپنی اپنی پسند ہے کوئی( واٹر بیسڈ) پانی کے بنیادی فارمولے کو پسند کرتا ہے اور کوئی آئلی ، کوئی سلکی پسند کرتا ہے ۔لیکن میرے تجربے کے مطابق (اولیو آئل ) زیتون کا تیل بہترین ہے خاص کر کنورای چوت کیلیے تو کمال ہے ۔ڈاکٹر کنول سر اونچا کیے پر شوق نگاہوں سے میری کاروائی دیکھ رہی تھی، عضو کو ڈاکٹر کنول کی چوت پر رکھا،چوت کی پنکھڑیاں عضوسے ایک طرف کر چکا تھا اوراب میں نے تھوڑا دھکالگایا۔عضو پھسلتا ہوا کنول کی چوت میں جانے لگا۔ بڑی مہارت سے ٹھیک کنول کے پردے کے پاس جا کر میں نے عضو کو روک دیا ۔کنول تحسین آمیز نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی۔ایک ڈاکٹر ہونے کے ناطے کنول بہت سی باتیں سمجھتی تھی میں نے کچھ دیر وہیں آگے پیچھے کیا۔کنول نے سانس روکے ہوئے تھی۔ ان لمحوں کی کسک تو اسے بھی تھی،آج کسک دور ہو رہی تھی۔پہلی چومی ،پہلا مرد، پہلی چدائی جلدی بھولنے والی باتیں نہیں تھیں۔ کنول کو احساس تھا کہ یہ وقت پھر آنے والا نہیں ہے ،یہی وہ لمحے تھے جو امر ہوجانے تھے۔ساری زندگی پھر کبھی کسی طرح یہ لمحیں واپس نہیں آنے تھے ۔یہ مزہ واپس دوبارہ نہیں ملنا تھا ،اور ڈاکٹر کنول کا اشتیاق بتا رہا تھا کہ وہ یہ باتیں سمجھ رہی ہے،اور ان انمول لمحوں کو دل کی تہوں میں محفوظ کر لینا چاہتی ہے۔مجھے اندازہ تھا کنول تیار ہے اور میں نے پیچھے ہو کر اس کی چوت کے مطابق پردہ توڑنے والا جھٹکا دے مارا،عضو کنول کے پردے کو پھاڑتا ہوا چوت کے اندر چلا گیا۔ کنول نے جھٹکابڑی آسانی سے برداشت کر لیے۔ تھوڑی دیر اسکی بلیڈنگ ہوئی۔یہاں یہ بات ضروری ہے کہ پردہ بکارت ٹوٹنے سے درد توہوتا ہے لیکن درد بھرا مزہ بھی ہوتا۔اکثر لڑکیوں اس بات کو محسوس کرتی ہیں لیکن انکے ذہنوں میں درد سوار ہوتا ہے اس لیے وہ اس مزے کا اظہار نہیں کرپاتیں۔لیکن ڈاکٹر کنول اس بات کو سمجھتی تھی کہ یہ درد بے درد نہیں ہے بلکہ دردِ سکون ہے۔کنول نے یہ درد محسوس بھی کیا اور اسکے چہرے پر اسکے تاثرات بھی نظر آئے ۔میڈیکلی تو پردہ ٹوٹنے کے بعد زخم کو آرام دینے چاہیے ،لیکن جیسے درد میں مزہ محسوس نہیں کیا جاتا،اسی طرح پردہ ٹوٹنے کے بعد کون ایک رات اور انتظار کرے ۔سو میں آرام سے تنگ چوت میں عضو کو مزہ لینے کیلیے بھیجنے لگا۔عضو اندر جاتا اور نئی جگہ کی سیر کرتا تو اس کا دل پھر جانے کوکرتا،پھر نئی جگہ کو جاتا اور پھر واپس آکر کہتا دوبارہ بھیجو،چوت کی تنگی عضو سے ایسے مل رہی تھی ،جیسے کوئی بڑی گرم جوشی سے گلے لگتا ہے،جب کوئی گرم جوشی سے ملے تو اسے دوبارہ ملاقات کرنے کو دل چاہتا ہے۔کنول اس چودائی کو بہت محسوس کر رہی تھی کیونکہ اس کے چہرے کے تاثرات سے پتہ لگ رہا ۔

میں نے جب پہلی دفعہ ایک فائیو اسٹار ہوٹل کی تقریب میں کنول کودیکھاتھا تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ لڑکی سیکس کی بھوک بھی رکھتی ہے اور اس کا سیکسی جسم ان چھوا بھی لگتا ہے ۔مجھے کچھ حیرانگی ہوئی کیونکہ وہ چودائی سے دور رہنے والی لگتی نہیں تھی۔پارٹی میں ہی جب میں نےکنول کو بار بار دیکھ کر اپنی دلچسپی محسوس کروائی ،تو کنول کے چہرے اور آنکھوں سے مجھے محسوس ہوا کہ اسنے میرا دیکھنا نوٹ کر لیا ہے،لڑکیوں کے اندر پتہ نہیں کونسا انٹینا لگا ہوتا ہے کہ انہیں مرد کا دیکھنا،،تاڑنا،گھورنا فوراً محسوس ہوجاتا ہے۔ابھی تک اسکی طرف سے کوئی اچھا یا برا اظہار نہیں ہوا تھا۔سو اسکا ردِّ عمل جانچنے کیلیے میں نے اسے ٹکٹکی باندھ کر گھورنا شرو ع کردیا۔کنول تو جیسے انجان ہی بن گئی،نظر انداز کرنا اور ہوتا ہے،اور جا ن بوجھ کر انجان بننا اور ہوتا ہے،ہوسکتا ہے وہ مجھے جانتی ہو یا اسنے میرے بارے میں کچھ سناہو،اس کے انجان بننے سے مجھے اس میں دلچسپی ہوگئی یعنی وہ میرا دیکھنا محسوس کر رہی تھی ۔اور اس سے بچنا چاہتی تھی۔مجھےتو اس میں دلچسپی ہونی ہی تھی ۔اب ہماری آنکھ مچولی شروع ہوگئی ۔میں اس کی طرف دیکھتا تو وہ انجان بن جاتی اور میں جان بوجھ کر منہ ادھر کر لیتا تو وہ میری طرف دیکھنے لگتی۔میرے لیے یہ کھیل عام سی بات تھی،کچھ دیر میں نے اسے اس کھیل پر لگائے رکھا،اور پھر میں نے پھرتی سے اسکی طرف چہرہ کیا جب اس نے میری طرف چہرہ کیا ہی تھا۔ہماری نظریں ملیں اور اسنے اپنا چہرہ دوسری طرف کرلیا،لیکن اب اس کی چوری پکڑی جاچکی تھی،میں نے پھر اسے موقع دیا ،جب اس نے کن انکھیوں سے محسوس کیا کہ میں اپنے ساتھ بیٹھے دوستوں سے باتوں میں مصروف ہوگیاہوں تو پھر اسنےمیری طرف دیکھا۔لیکن یہ کیا میں تو اسی کی طرف دیکھ رہا تھا،وہ پھر پکڑی گئی تھی اب کی بار اسکی آنکھیں مسکرائی۔ سب کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے یہ کھیل جاری تھا۔ اتنے میں اسکے چہرے اور ان اداؤں میں اسے سمجھ چکا تھا۔اس میں نخرہ تھا کیونکہ اسے اپنے حسن خاص کر سیکسی جسم کی خطرناکی کا اندازہ تھا۔وہ ان لڑکیوں میں سے تھی جو اپنے حسن کا خراج (پروٹوکول ) ہر پل وصول کرتی ہیں،میں سمجھ گیا اس نے اگر اب تک چودائی نہیں کروائی تو اس کی وجہ اس کی اپنے حسن سے آگاہی ہے۔وہ اتنی جلدی کسی کو اپنی چوت نہیں دے گی،وہ اس کی پوری پوری قیمت وصول کرے گی۔اور وہ قیمت کیا ہوگی ؟ یہ اس سے بات شروع ہونے کرنے کے بعد ہی پتہ چلنا تھا۔

اندازاً وہ اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھی تھی کیونکہ یہ ا یک ولیمے کی تقریب تھی۔کچھ ہی دیر میں دولہا اور دلہن آگئے،اور سجے سنورے سٹیج پر بیٹھ گئے ۔دولہا میرا دوست تھا۔میں فوراً اسٹیج پر جاپہنچا۔دولہا(حارث) فوراً میرے گلے لگ گیا، بڑا اچھا دوست ہے۔اس نے اپنی دولہن سے میرا تعارف کرایا۔یہ ہے پرنس،جس کا میں تمھیں بتاچکا ہوں۔میرا بہت اچھا دوست ہے۔یہ ا ن دوستوں میں سے ہے جو آپ کا حوصلہ ہوتےہیں۔اور میں تمھیں ابھی بتا دوں یہ بدنام بھی بہت ہے لیکن اسے سمجھنا ہو تو کبھی اس کے فلیٹ میں دو جگہیں ضرور دیکھنا چاہیے،ایک اس کا تہہ خانہ جو اس کا ڈوجو ہے اور دوسرا اس کی لائبریری ۔ اچھا بھائی تم آج دولہا ہو جو مرضی کہہ سکتے ہو۔۔ بھابی آپ کو بڑا اچھا ساتھی ملاہے ۔اس لیے کہ اسے میرے جیسے بھی اچھے نظر آتے ہیں۔ یہ میری طرف سے سلامی قبول کریں،میں نے ایک خوبصورت سا چھوٹا سا لفافہ نکال کر دولہن کو تحفہ دیا۔ اسمیں ایک لاکھ روپے تھے۔اور لوگ بھی اسٹیج پر آنے کے منتظر تھے اور کچھ آبھی گئے تھے ،میں واپس اپنی جگہ پر آ کربیٹھ گیا۔میرے قریب وہی لوگ آتے تھے جو میری شخصیت کو سمجھتے تھے ،کچھ دوستو ں کی فیملیوں کا میں حصہ تھا،میں ان کے اعتماد اور محبت کا شکرگزار تھا۔کیونکہ میری بدنامی کے باوجود وہ مجھے چاہتے تھے۔ میرے دو اصول تھے اور وہ یہ کہ دوست کی فیملی آ پکی فیملی ہے لہذا میں نے بری نیت سے کبھی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔اور دوسرا میں ان کے دکھ سکھ کا ساتھی تھا۔ حارث کی شادی میں بھرپور طریقے سے شامل ہو ا تھا اور مہندی والی رات ایک لڑکی کو اسی ہوٹل میں چود چکا تھا جہاں مہندی کی تقریب تھی ۔پھر برات میں بھی ایک راضی ہوگئی ۔یہ وہ تھیں جو چوت کے چسکے میں پڑ چکی تھیں ۔اور اب ولیمے پر بھی ایک لڑکی نظر آگئی تھی ۔ایسا ہی ہوتا ہے۔شکرخورے کو شکر ملتی رہتی ہے۔

کچھ ہی دیر میں کھانا شروع ہوگیا۔ سیلف سروس سسٹم تھا ۔میرے خیال میں 40 کے قریب ڈشسز تو ہوں گی۔مجھے فرائی مچھلی نظر آگئی،اس کے ساتھ تھوڑے چاول ڈال کر میں کھانے کی پلیٹ لیے اپنی جگہ کی طرف آنے لگا۔میری نظریں مسلسل اس لڑکی کوتاڑتی رہیں تھی۔اور کھانا ڈالتے ہوئے میں اسکے پیچھے تھا۔وہ اپنے بھائی سے باتیں کر رہی تھی(بھائی ہی لگتا تھا) ،اور اس کے بھائی نے اسے ڈاکٹر کہا تھا۔ اسنے مجھے محسوس کیا تھا ۔اور انجان بننے کی کوشش کی تھی۔حارث کے ولیمے کا دن تھا نہیں تو اسی سے ڈاکٹر کی معلومات لے لیتا۔اگر وہ ڈاکٹر تھی تو اس کا مطلب تھا کہ ابھی نئی نئی اس شعبے میں آئی ہے،کیونکہ اسکی عمر اور انداز تو یہی کہتا تھا۔میں اس کی تاڑمیں تھا کہ وہ کہیں اکیلی ہو کوئی اس سے بات ہو یا اس سے فون نمبر مانگوں یا اپنا ہی پکڑا دوں۔بہرحال مجھے یہ موقع نہ ملا۔آہستہ آہستہ لوگ کھانا کھا کر نکلنے لگے تھے۔جب کنول اور اس کی فیملی بھی چلنے لگےتو میں نے فوراً ایک فیصلہ کرلیا۔جیسے ہی وہ حارث کےوالدین سے جانے کیلیے ملے،اور وہ باہر نکلے میں اسی وقت دروازے سے ایسے اندر داخل ہورہا تھا جیسے میں باہر کسی کام سے گیا تھا۔اور اب مجھے اندر جانے کی جلدی تھی۔بڑی ہوشیاری سے میں ڈاکٹر کی طرف سے گزرا،اور بڑی صفائی سے اسکے بیگ میں اپنا کارڈ جو کہ میں نے ہتھیلی میں پکڑا تھا انگلیاں سے تھوڑی سی زپ کھول کے کارڈ وہیں چھوڑ دیا۔اس پر صرف میرا نمبرتھا اور کچھ نہیں تھا۔یہ میرا نمبر ہر کسی کے پاس تھا،جبکہ میرا خاص نمبر معدودے چندلوگوں کے پاس تھا۔کیونکہ عام نمبر میں بند بھی کردیتا تھا۔میرے اندازوں کے مطابق وہ کال کرے گی،مگر انجان بنکر،وہی ہوا ڈاکٹر نے فون کیا،دیکھئے آپ جو بھی ہیں لیکن میں بہت حیران ہوں کہ آپ کا نمبر میرے بیگ میں کیسے آگیا۔(اگر وہ چاہتی تو وزٹنگ کارڈ پھاڑ کے پھینک دیتی )بس پھر بات شرع ہوگئی،میں نے اسے بتایا کہ میں پرنس ہوں اور اس سے بات کرنا چاہتا ہوں۔بات بڑھتی چلی گئی،اس دن ہم نے دوگھنٹے بات کی،

راہ پر ان کو ،لگاتو لائے ہیں، باتوں میں

اور کُھل جائیں گے دو چار ملاقاتو ں میں۔

پھر ہر رات ہم دو تین گھنٹے بات کرتے،اسکی منگنی ہوگئی تھی،وہ اسکا کلاس فیلو تھا۔میں ڈاکٹر کی فطرت سمجھ گیا تھا۔اس نے یقیناً ماں کی رہنمائی میں کالج میں ہی ہونہار ڈاکٹر کو پھنسا کر مستقبل محفوظ کرلیا تھا ۔۔ جس کے آگے جانے کے چانس تھے اور فیملی مضبوط تھی ،ہونہار ڈاکٹر یہی سمجھا ہوگا کہ اس نے ڈاکٹر کنول کو پھنسایا ہے۔اچھا تو یہ ڈاکٹر کنول کی قیمت تھی،وہ چوت کے بدلے اپنا مستقبل لینا چاہتی تھی۔لڑکی ہوشیار تھی ۔اسی لیے موسمی عاشقوں سے بچی ہوئی تھی۔ نہیں تو آجکل چوت پہلے دیتی ہیں۔ اور باقی باتیں بعد میں سوچتی ہیں۔جن میں سب سے پہلے یہی ہوتا ہے کہ چوت لینے کے بعد ہری جھنڈی دکھا دی جاتی ہےادھر ڈاکٹر کنول جیسی لڑکیاں بھی تھیں جو ماؤں کی رہنمائی میں لڑکے پھنساتی تھیں۔شادی وغیرہ جیسی تقریبات میں اس طرح کی لڑکیاں خوب بن ڈھن کے آتی ہیں۔ اور فیملی کہ ہر لڑکے پر ان کی مائیں چیل جیسی نظر اور ساری خبر رکھتی ہیں۔ڈاکٹر کنول نے میرے ساتھ بھی مستقبل کا کھیل کھیلنا چاہا۔اور اس نے اپنے منگیتر کا بھی مجھے ایک چارے کے طور پر بتایا تھا۔لیکن میں شکار نہیں شکاری تھا۔ہفتے کے آخر میں ،میں نے اسے ملاقات پر راضی کرلیا۔اور اپنے فلیٹ پر کینڈل ڈنر دیا۔وہیں میں نے ڈاکٹر کنول کو بانہوں میں لیکر ڈانس کیا۔اور اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔کنول جو اپنی چوت کو سنبھالے ہوئے تھی۔میرے ساتھ بہکتی گئی۔

اور اب میں اسکے اندر ڈالے اسے چود رہا تھا۔میں نے ڈاکٹر کنول کی ٹانگیں اپنے ہاتھوں سے پکڑی ہوئی تھیں اور اندر ڈالے چودائی کر رہا تھا۔میرے اندازے کے مطابق وہ سیکس کی دیوانی نکلی اور اب سیکس کو بھرپور مزے سے کر رہی تھی،اس کے جسم میں سیکسی اٹھان تھی۔ویسے ایک بات عرض کرتا چلوں ہرلڑکی ہی خوبصورت ہوتی ہے۔ کیونکہ خوبصورتی کا دوسرا نام لڑکی ہی ہے اگر رنگت کالی۔سانولی۔گوری۔نقوش بھدے۔پھر عام ۔ پھر قبول صورت ۔پھر خوش شکل۔پھر خوبصورت ۔اور درمیانہ متناسب جسم تو یہ ابتدائی حسن ہو جاتا ہے ۔اگر لڑکی اچھے گھرانے کی ہو تو اس پر خوشحالی کی خوبصورتی آجاتی ہے ۔جلد صاف شفاف ہوجسم میں کی بناوٹ متناسب ہو اور جسمانی پیچ وخم جنسی کشش لیے ہوں تو حسن مکمل ہوجاتا ہے۔اور جیسے حسن ہو تو نزاکت آ ہی جاتی ہے۔ اسطرح ناز نخرہ ادائیں ۔ ہوں تو حسن کی کشش میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اور وہ لڑکی خاص ہوجاتی ہے۔ اس میں رنگت سرخی مائل ہو نقوش انتہائی تیکھے یا معصومیت لیے ہوں اور لڑکی کی طبیعت نفیس اور مزاج میں نزاکت کی چاشنی ہو۔خوبصورت خیالات ،احساسات ،جذبات کی مالک ہو شرم و حیا ہو تو وہ خاص الخاص ہو جاتی ہے۔ایسی ہی ایک لڑکی مجھے ملی تھی اس کا نام سیما تھا،اس کی کہانی میں نے دیوی کے نام سے سب سے پہلے لکھی تھی۔ لیکن وہ کہانی نامکمل تھی میں نے اسکا ایک خوبصورت موڑ پر اختتام کردیا تھا،اب سوچتا ہوں کہ اس کہانی کو مکمل کر کے دوبارہ پرنس سیریز میں پوسٹ کردوں ۔تو میں بتا رہا تھا کہ کنول کی خوبصورتی وہاں تک تھی جہاں ناز نخرہ ادائیں مل کرلڑکی کوخاص کردیتی ہیں۔خاص کر کنول کے جسمانی نشیب و فراز کمال کے تھے،اور یہ بات کنول بھی جانتی تھی۔میں کنول کے سیکسی جسم کوچودتا ہوا بھرپور مزہ لے رہا تھا۔میں اس کے اوپر لیٹ گیا اور کچھ وزن اس پر کچھ گھٹنوں پر ڈال کرچودنے لگا،یہ بیٹھ کر یا کچھ لیٹ کر کچھ بیٹھ کرمیں چودائی کرتا رہتا ہوں،اسی طرح ایک ہی طریقے کو دوہرا کر کے مزہ لیتا ہوں،لیکن یہاں یہ ہوا کہ کنول نے لذّتِ اور ہیجان میں مجھے کمر پر اپنی دونوں ٹانگوں سے جکڑ لیا۔ مجھے اندازہ تھاکہ کنول سیکس میں بڑی اچھی ساتھی بنے گی،ا س میں سیکس کی بڑی طلب تھی۔میں اسی وقت ایک طرف پہلو کے بل ہوگیا۔کنول نے میری پیٹھ اپنی بانہوں سے کس لی،اور ٹانگوں کو اور سہولت سے کس لیا،میں نے وہیں کنول کی چودائی شروع کردی۔اُوہ ،یہ کیا پرنس،کنول سسکی،جان یہ بڑا پیارا انداز ۔ہارنی مینٹس۔ ہے ۔اسے لپٹنے کا تحفہ کہتے ہیں۔پرنس سچ میں بہت مزہ آرہا ہے اس میں۔وہ صحیح کہہ رہی تھی کیونکہ اس میں جسمانی پوزیشن کی وجہ سے عضو چوت کی گہرائی میں جاتا ہے،آہستگی اور گہرائی سے میں چودتا رہا،ضروری نہیں کہ رفتار اور دھکوں سے ہی بہتر سیکس ہوتا ہے بلکہ جو جسمانی ہیجان اور ضرورت سے ہم آہنگ ہوجائے وہی بہتر چودائی ہے،اور اس وقت کنول کو یہ اسٹائل بھا گیا تھا،مجھ سے ہیجانی انداز میں لپٹ کر اور گہرائی میں عضو لے کر وہ دوہر ا مزہ لے رہی تھے۔آہ پرنس،کنول پھر سسکی۔کیا ہوا جان۔بہت پیاسی ہوں ۔اور دل کرتا ہے ایک ہی گھونٹ سے یہ پیاس بجھ جائے۔بجھ جائے گی کنول۔ میں تمھاری پیاس بجھاؤں گا،میں نے اندر گہرائی میں عضو کو بھیجتے ہوئے کہا۔جب تم اندر ڈالتے ہو تو تو ایسے لگتا ہے جیسے میری کھوئی ہوئی چیز مجھے واپس مل گئی،کنول کا جذباتی پن بڑھ رہا تھا۔میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ تم میری چوت کا افتتاح کرو۔میرے تو اس بارے بڑے پروگرام تھے۔لیکن آج اچانک تم نے مجھے اتنا ڈسٹرب کردیا کہ میں چودائی کے بغیر رہ نہیں سکی،،اور اب دل کررہا ہے کہ تم میرے اندر گھس جاؤ۔لگتا ہے میری چوت بہت پیاسی ہے،فکر نہ کرو کنول تمھاری چودائی کی بھوک میں مٹاؤں گا،مجھے کیا ہو رہا ہے پرنس،اوہ۔۔۔میں کیا کروں ،کنول نے ہیجانی انداز میں کہا،ساتھ ہی اس نے مجھے بانہوں اور ٹانگوں سے مزید کس لیا۔آرام سے چدواتے ہوئے کنول کی شہوت میں یکدم اضافہ ہوگیا تھا۔یہ ہیجان ہی تھا اور پانی نکلنے کے بعد ہی اسے سکون ہونا تھا۔

لیکن اب کچھ مردانگی پربات آ رہی تھی۔اس لیے مردوں کا دوست انداز میں کنول کو گھوڑی بنایا(ڈوگی اسٹائل،ویسے کتی سے گھوڑی بننا ہر طر ح سے اچھا ہے ،معنوی انداز میں بھی اور عام انداز میں بھی )اور اسکی گانڈ پر ہاتھ رکھ کر پھر جوشیلی چودائی شروع کردی۔کنول کی جسمانی کیفیت کو مدِّنظر رکھتے میں نے طاقتور دھکے لگانے شروع کیے،کچھ ہی دیر میں مزے کے ساتھ آہیں بھرتے ،کنول چیخنے لگی۔ظاہر ہے پہلی چودائی میں وہ اتنے طاقتور دھکے کیسے برداشت کرسکتی تھی۔میں نے رفتار آہستہ کی ۔نہیں نہیں اسی طرح چودو پرنس،اس درد میں بڑا مزہ ہے،کنول بمشکل بولی۔ اس کی حالت ایسی تھی جیسے من پسند کھانا دیکھ کر انسان ٹوٹ پڑتا ہے لیکن کھانا زیادہ ہے اور اس کا پیٹ چھوٹا سا ہے۔ میں کنول کو مزہ چکھا دیتا لیکن پھر اس نخریلی طبیعت والی نے پھر جلدی ہاتھ نہیں آنا تھا۔بہرحال کنول کی پسند کے مطابق میں چودتا رہا لیکن کچھ اس کا لحاظ بھی کیا،وہ تو ہوش کھو بیٹھی تھی ،مجھےتواس کا خیال رکھنا ہی تھا۔میرے دھکوں سے کنول کا جسم ہل رہا تھا،کنول تو گھوڑی بنی ہوئی تھی ۔لیکن میں دیکھ رہا تھا کہ اس کی چوت میں کچھ خون آنا شروع ہو گیا ہے۔یہ بھی طےتھا وہ کافی درد میں ہے،میں وہیں دو زانو بیٹھ گیا اور کنول کو اپنے عضو پر بٹھا لیا،اس کے ہاتھ بیڈ پر لگےتھے۔ اور وہ گھٹنے اورپنڈیلیاں پر بیٹھی تھی،اس کی گانڈ میرے عضو پر بیٹھی تھی۔یہ آہستگی سے کرتا زبردست اسٹائل تھا،اس کا نام بھی ۔ہنگری ہرٹ۔بھوکا دل تھا۔اس میں عضو چوت میں پورا اندر تک جاتا ہے۔اور جی اسپاٹ کو بھی چھیڑتا ہے،میں وہیں چودائی کرنے لگا۔کنول کی بھوک کو آرام آنے لگا،کیونکہ اب اس کو جی اسپاٹ سوج کر تھوڑا بڑا ہوگیا تھا،چوت تنگ تھی اور اوپر کناروں سے اندورونی پردوں تک ہر جگہ انتہائی رگڑ ہورہی تھی۔دوسری طرف میراایک ہاتھ کنول کے پیٹ پر تھا۔ تو دسرا اسکے ممے پر۔پرنس تم کمال ہو،جیسے بھی کرتے ہو،مزے آنے لگتے ہیں۔اوہ پورا اندر جارہا ہے،گہرائی میں۔مزہ آگیا۔کنول کو سیکسی باتوں میں مزہ آرہا تھا یہ بھی اسکی بھوک کی نشانی تھی،ممے دونوں پکڑ لو نہ ،کنول نے فرمائش کی،میں نے پیٹ پر ہاتھ ہٹا کر اس کے دونوں ممے پکڑ لیا بلکہ کچھ دبا کے پکڑ لیے۔اس سے کچھ چودائی میں مشکل ہوجاتی ہے ۔لیکن میں نے سنبھال لیا۔اب خوش ہو کنول۔ہاں جان مزہ آگیا تمھارے ساتھ۔کنول سیکسی آواز میں بولی۔اس کی آواز سے انداز ہوگیا کہ کنول اب پانی چھوڑنے والی ہے۔وہی ہوا،کچھ ہی دیر میں کنول نے پانی چھوڑ دیا۔میں نے اسے اوپر کھینچ کر اس کی کمر اپنے سینے سے لگا لی،اور مموں کودونوں ہاتھوں سے دبا لیا،کچھ دیر بعد جب میں ے کنول کو چھوڑا تو وہیں اوندھی لیٹ گئی،اسے سکون آگیا تھا۔میں نےاس کی ٹانگیں اپنی ٹانگوں میں اکٹھی کی اور اس کے اوپر لیٹ گیا۔پیچھے سے اس کی چوت میں ڈالا۔اس کی کمر سے اپنا سینہ لگایا۔اس کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھے،اس کی گال پر اپنے گال لگائے اور ۔آرام سے چودائی شروع کرد ی۔گو کہ کنول کا پانی نکلا تھا اور چکنائی کافی تھی لیکن اس انداز میں چودائی سےتنگ چوت میں چکنائی کم محسوس ہورہی تھی ۔میرا جسم کنول کو اپنی لپیٹ میں لیے چودتارہا،میرا وزن بھی تھااور پھر میرا جسم بھی سخت تھا،مارشل آرٹ نے مجھے فولاد بنا دیا تھا۔بہرحال میں اپنے گھٹنوں پر کچھ وزن ڈالے کنول کو چودتا رہا۔کنول با لکل خاموش تھی،میں نے تو اپنا پانی نکالنا تھا۔میں اس کی خاموشی کو بعد میں دیکھ لیتا،میرا اتنا زیادہ وقت نہیں تھا،میں وہیں کنول کوچودتا رہا،جی بھرکےچودنے کے بعد میرا عضو میں حساسیت بڑھ گئی یہی تو میں چاہتا تھا،میں لگا رہا ،حساسیت زیادہ ہوگئی،میں نے تین چار بار اضطراری طور پر اندر باہر کیا۔اور پھر اس کی چوت سے عضو باہر نکال کر اس کی رانوں میں دے دیا۔۔کنول ایک خطرناک لڑکی تھی اور اسے اپنا پانی دینا ایک سنگین غلطی تھی،اس لیے میں نے عزل کردیا،یعنی اپنا پانی چوت سے باہر نکال دیا۔اس میں مجھے کوئی دِقت نہیں ہوتی۔

پھر میں کنول کے ساتھ ہی اوندھا لیٹ گیا،کیا بات ہے کنول ،تم اتنی چپ چاپ کیوں ہو۔پرنس میں نے تمھیں اپنا کنوارہ پن دے دیا ہے۔کہیں مجھے مایوس نہ کردینا۔بھرپورچودوائی کے وقت یہ باتیں یاد نہیں تھی۔میں نے د ل میں کہا۔نہیں جان یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں تمھیں مایوس کردوں ۔میں نے مکاری(کنول) کوہوشیاری(پرنس) سے چکر دیا۔پہلی ملاقات کو یادگاربناتے ہوئے میں نے کنول کی خوب چدائی کی تھی۔ کچھ دیر آرام کے بعد میں نے کنول کے ممے چوسے تو وہ پھر گرما گرم ہوگئی ،اس بار میں نے اسے آزاد چھوڑ دیا اور خود لیٹ گیا،کنول نے جی بھرکر حسرت نکالی ۔ اور جب پانی نکل آیا تو ہم ساتھ ساتھ لیٹ گئے۔ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد کنول بار بار کھڑی دیکھنے لگی۔ پرنس اب مجھے گھر چھوڑ آؤ ۔تیسری بار کہتے ہوئے ڈاکٹر کنول پھر گھڑی دیکھ رہی تھی ،،مگر میں آرام سے لیٹا تھا۔ ابھی میرا ارادہ کنول کو سہہ بارہ چودنے کا تھا ۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ جائے ، میرے پرسکون انداز سے کنول چڑ گئی ۔ میری جان پہ بنی ہے اور تم آرام سے لیٹے ہوئے ہو ۔ ڈاکٹر کنول روہانسی ہو گئی ۔ ارے میری جان ۔ مجھے اٹھنا ہی پڑا ۔ وقت تو دیکھو ، صبح کی گھر سے نکلی ہوں ۔ شام کو تمھارے لیے چھٹی لے لی تھی ، ڈیوٹی کا وقت بھی کب کا ختم ہوگیا ہے ۔ایمرجینسی کے بہانے تمھارے پاس رکی ہوں۔دو کالیں مما کی آچکی ہیں۔(چوداوئی کے وقت تو مما کی کالیں وصول کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔)۔ زیادہ لیٹ ہو گئی تو مما نے بھائی جان کو ہسپتال میں ہی بھیج دینا ہے۔ ڈاکٹر کنول واقعی پریشان تھی ۔اتنی دیر میں کنول کا فون پھر بجنے لگا ۔اس نے نمبر دیکھا اور میری طرف غصے سے دیکھ کہ کال سننے لگی ۔ جی مما میں آرہی ہوں آدھے گھنٹے تک ،مما آپ بلاوجہ ہی پریشان ہوتی رہتی ہیں ۔ اتنی سخت ڈیوٹی ہوتی ہےسارا دن ایک لمحے کےلیئے بھی آرام نہیں ملتا ۔ایک تو یہ ایمرجینسی مل گئی تھی ، اور اوپر سے آپ کی یہ تفتیشی کالیں مجھے پریشان کر دیتی ہیں ۔ ۔بیٹا ،مائیں تو پریشان ہی رہتی ہیں ،تم آؤ گی تو مجھے نیند آئے گی ۔ مجھے اس کی مما کی مدہم سی آواز سنائی دی ، اوکے مما میں بس نکل رہی ہوں کہہ کر ڈاکٹر کنول نے کال بند کر دی ۔ مجھے تو یہ سارا ڈرامہ لگ رہا تھا۔کنول ماں کی رہنمائی میں آج موٹی آسامی کو پھنسانے آئی تھی اور خود شکار ہوگئی تھی۔یقیناً اس کی ماں کو یہی ڈر تھا کہ کہیں ڈاکٹر اپنا جسم نہ دے بیٹھے ۔اس کی ماں نہیں جانتی تھی کہ اب اسے اسی ہونہار ڈاکٹر کو ہی داماد بنانا پڑے گا۔بہترین وقت گزارنے کے بعد کنول اب چاہتی تھی میں اسے گھر چھوڑ کے آؤں۔ میری تو رات ہی اب شروع ہوئی تھی ۔ اور میں نے سوچا تھا کہ نائیٹ ڈیوٹی کا بہانہ کر کے کنول میرے ہی پاس رک جائے گی ، اب دو بار کی چودائی پر اکتفا کر کے مجھے اسے چھوڑنے بھی جانا پڑ رہا تھا ، خیر ابھی چند دن تو کنول کے نخرے اٹھانے ہی تھے ۔ ابھی تو پہلی چودائی ہوئی تھی ۔ ۔ کنول تو پہلے ہی میری منتظر تھی جب ہم چلنے لگے تو میں نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے قریب کیا اور پوچھا ۔ کیا اپنے مریض کو یونہی بیمار چھوڑ جاؤ گی ۔ اچھا تو جناب اتنی سخت ڈیوٹی دی ہے میں نے ،میری چوت میں درد ہو رہا ہے اور جناب ابھی تک بیمارہیں۔ کنول نے بڑی ادا سے کہا ۔ لیڈی ڈاکٹر صاحبہ ۔ مریض بہت بیمار ہے اتنی سی میڈیسن سے اس کا کچھ نہیں بنے گا ،اسے ہسپتال میں داخل کرنا پڑے ۓ گا۔ میری ذومعنی بات پر کنول نے مجھے گلے سے لگاتےہوئے میرے گال پر کاٹ لیا ۔ تمھیں آئی سی یو میں ایڈمٹ کر لیا ہے ۔دن رات اپنی جان کی انتہائی نگہداشت کروں گی ۔ اب مجھے گھر چھوڑ دو مما سے میری بڑی جان جاتی ہے وہ میرا انتظار کر رہی ہیں ۔

دو میٹھی باتوں سے کنول کا موڈ ٹھیک ہو گیا تھا ۔ یہ بہت ضروری تھا نہیں تو اس نے دوبارہ آنے میں بڑے نخرے کرنے تھے ۔ گاڑی میں بھی میں اس سے میٹھی باتیں کرتا رہا ۔ کنول کو اپنے جسم کی جادوگری کا بخوبی اندازہ تھا اور وہ اس کا پروٹوکول بھی پورا پورا لیتی تھی ۔اس کے ناز نخرے مجھے لبھاتے تھے اور میرے دل میں گدگدی ہونے لگتی تھی ۔ بس مجھے یہی اتار دو، کنول اپنے گھر سے کچھ دور ہی اترنا چاہتی تھی۔ میں نے گاڑی ایک سائیڈ میں روک دی ۔ کنول ؟ میں نے اسے روکا ،وہ کار سے اترتے ہوئے مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی ۔ایک چما تو دیتی جاؤ ۔میں نے اسے چمکارا ۔کیا یہاں پر ؟ کنول حیرانی سے بولی ۔ ہاں یہیں دے دو ، اگلی ملاقات تک اس گولی سے افاقہ رہے گا ۔ میں اس کی طرف بڑھا تو وہ پھرتی سے اتر گئی ۔ کار کا دروازہ بند کر کے مجھے منہ چڑاتے ہوئے وہ جانے لگی ۔۔ سنو ، میں نے اسے پھر روک لیا۔ کیا یار ۔۔۔اب مجھے جانے بھی دو یار ۔ وہ اٹھلائی ۔ اب کل پھر ملو گی نہ ۔ نہیں یار اب دو دن ٹھہر جاؤ ۔ وہ سوچتے ہوئے بولی ۔ دو دن میں تو بغیر میڈیسن کے یہ مریض مر جائے گا ،کچھ کرو یار ۔میں نے نہایت اصرار سے کہا ۔ ۔ وہ سوچ میں پڑگئی ۔ ایسا کرو ایک ہفتے کیلیےکسی ڈاکٹر سے نائیٹ ڈیوٹیتبدیل کر لو۔۔ پھر ہم مل کر ساری رات نائیٹ ڈیوٹی دیا کریں گے ۔میں نے معنی خیز انداز میں اسے تجویز دی ۔ ٹرائی کروں گی، وہ حسب توقع نخرے کرنے لگی ۔ دیکھ لو ۔ ایسے تو کبھی کبھار اور مشکل سے ملنا ہو گا اور مما کا ڈر بھی رہے گا ۔لیکن اگر نائیٹ ڈیوٹی لیتی ہو تو پھر ملنے میں آسانی رہے گی، ساری رات ہماری ہو گی،لیکن یار نائیٹ ڈیوٹی تو ہسپتال میں دینی ہے اور ہم کیسے ملیں گے ؟ کنول سمجھتے ہوئے بھی نخرے کر رہی تھی ۔کمال ہے یار 1 بجے تک ڈیوٹی دینا ،پھر میں لے آیا کروں گا تمھیں اور صبح گھر چھوڑ آیا کروں گا،،ایک بجے کے بعد کس نے پوچھنا ہے ، مل ملا کر ایسی باتیں تو چلی رہتی ہیں ہمارے ماحول میں ۔۔ اور پھر مریض کی حالت سخت خراب ہے میڈیسن میں ناغہ نہیں ہونا چاہیے اسے سوچتے دیکھ کر میں نے ایک اور وار کیا۔ میری بات سے اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی ۔ ٹھیک ہے کرتی ہوں کچھ ۔ ڈاکڑکنول نے چلتے ہوئے کہا۔ مجھے ابھی میسج کر دینا گھر جا کے ، میں نے فکر مندی ظاہر کی ۔ اس نے سر ہلا دیا ۔ اس کی آنکھوں میں بھوک دیکھتے ہوئے میں سمجھ گیا تھا اب وہ ہر رات ایک گولی مجھے میرے فلیٹ پر دیا کرے گی اور دوسری اپنی مما کو کہ مرغا پھنس رہا ہے۔ یہ کوئی پہلی لڑکی نہیں تھی جو میری دولت دیکھ کر شادی کیلیے مجھے پھنسانے آئی تھی۔ایسی کئی آئی اور گئی۔کوئی شکار ہوگئی اورکوئی مجھ سے مایوس ہو گئی۔ ۔۔ ایک یا دو ہفتے بعد اس نے مجھے کالیں کرتے رہ جانا تھا ،پھر شاید ہی ملنا ہوتا ۔اس نے کسی اور کوڈھونڈ لینا تھا۔۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے ۔۔ چوت کا دروازہ کھلنے کے بعد آج تک کبھی بند نہیں ہو سکا ۔کنول تو چلی گئی لیکن میری بھوک ابھی باقی تھی،جیسے کھانا کھاتے ہوئے درمیان سے چھوڑ دیا ہو ، یہاں بتاتا چلوں کہ فی الحال ڈاکٹر کنول کے قصے کا اس کہانی سے اتنا ہی تعلق تھا کہ وہ مجھے بھوکا چھوڑگئی تھی(ایک وجہ اور بھی تھی جو کہ بعد میں کبھی لکھوں گا) ۔ اورمجھے اپنی بھوک مٹانے کیلیے پھر شکار کیلیے نکلنا پڑا تھا۔

راتوں کو شکار کیلیے مختلف ہائی فائی کلب /ہوٹلز/تقریبات /میں جانا میرا معمول تھا اور اب بھی عضو کی خارش مٹانے کیلیے ایک کلب میں پہنچ گیا

جاری ہے
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
Back
Top