Master Mind
Premium
Offline
- Thread Author
- #1
جب انسان کے ذہن پر سیکس طاری ہو جائے تو وہ ہر طرح کا رسک لے سکتا ہے. جواد اور نوشین کی ایک ایسی ہی ملاقات کی کہانی جس میں ان کے ایک ساتھ گزارے ہوے چند گھنٹوں کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے.
میری کوشش رہی ہے کہ کہانی میں کرداروں کی مناسبت اور حالات کے حساب سے حقیقت کا رنگ نظر آے. امید ہے کہ یہ کوشش پسند آے گی.کہانی اور اس کو بیان کرنے کے انداز کے بارے میں آپ سب کی راۓ بہت اہم ہے
ریسٹورنٹ سے نکل کر جواد نوشین کو لے کر گاڑی کی طرف بڑھا. گاڑی میں بیٹھنے کے بعد جواد نے پوچھا: اب کیا پلان ہے کہاں چلیں ؟
نوشین نے فارمل سے انداز میں جواب دیتے ہوۓ کہا کہ جہاں مرضی چلے چلو لیکن 7 بجے سے پہلے مجے گھر پہنچنا ہے. جواد نے گھڑی دیکھی تو تقریبا ساڑھے چار بجے تھے جواد نے کہا چلو پھر سفاری پارک چلتے ہیں اور نوشین نے اثبات میں سر ہلا دیا.
جواد اور نوشین کے پیار کا آغاز تقریبا دو سال پہلے ایک رانگ کال سے ہوا جو کہ آھستہ آہستہ دوستی اور پھر محبّت میں بدل گئی. جواد کی عمر چوبیس سال تھی اور وہ ایک پرائیویٹ فرم میں جاب کرتا تھا. نوشین انیس سال کی تھی اور کالج میں پڑھتی تھی. دوستی کے شروعات سے ہی نوشین نے اپنی مجبوری بتا دی تھی کہ وہ کسی بھی طرح سے جواد سے مل نہیں سکتی ہاں البتہ فون پر بات کرنے میں اس کو کوئی پرابلم نہیں تھی. جواد کو شروعات میں تو تھوڑا محسوس ہوتا تھا کہ وہ بھی اپنے دوسرے دوستوں کی طرح اپنی گرل فرینڈ کو بھر لے کر گھومے لیکن پھر اس نے فون پر ہی اکتفا کر لیا.
جواد ایک شرمیلا اور کم گو لڑکا تھا وہ اپنے قریبی دوستوں سے بھی بہت زیادہ شیر نہیں کرتا تھا. سیکس کے بارے میں بلو فلموں اور انٹرنیٹ کی وجہ سے اس کو بہت ساری معلومات تھی لیکن کبھی سیکس کا تجربہ نہیں کیا تھا. نوشین کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے تھا اس کے دو بھائی اور ایک بہن تھی.وہ دونوں بھائیوں سے چھوٹی تھی لیکن بہن اس سے کافی چھوٹی تھی. کالج سے آنے اور لے جانے کی ذمہ داری بھائیوں کی تھی جو کہ اس بخوبی نبھا تھے. اس طرح اس کا اکیلے گھر سے نکلا ہی نہیں ہوتا تھا.
دونوں سارا سارا دن ایک دوسرے سے فون اور مسسجز پر بات کرتے رہتے اور پھر یہ سلسلہ راتوں کو فون پر بات کرنے پر بھی آ گیا اور رات کو فون پر بات کرنا بہت جلد ان کو سیکسی باتوں تک لے آیا. نوشین کو سیکس کی بہت کم معلومات تھی یہاں تک کہ اس کو جنسی اعضا کے نام بھی ٹھیک سے پتا نہیں تھی. جواد نے اس کو سیکس کے متعلق معلومات دینا شروع کر دی اس کو لن، پھدی کے بارے میں تفصیل سے بتایا سیکس پوزیشنز اور سیکس کرنے کے طریقوں کے بارے میں معلومات دی. نوشین بہت انہماک سے سیکسی باتیں سنتی اور اس سے مختلف سوال کرتی اور جواد بھی کسی ماہر کی طرح اس کو تفصیلاً جواب دیتا. پھر ایسا ہو گیا کہ دونوں کے باتیں پیار محبت سے ہٹ کر فون سیکس اور لن پھدی کے بارے میں ہونے لگ گئی. نوشین جس کو کچھ عرصہ قبل تک یہ ہی پتا نہیں تھا کہ اس کی ٹانگوں کے درمیان والی جگہ کو دنیا کس نام سے جانتی ہے وہی اب جواد سے بات کرتے ہوے لن پھدی اور چودنے کا کثرت سے ذکر کرنا شروع ہو گئی. ان دو سالوں میں دونوں کی بڑی مشکل سے چار پانچ بار ملاقات ہو سکی اور اس میں بھی ان کو اتنا وقت اور تنہائی نہ مل سکی کہ جس میں وہ سب کچھ کر سکتے جو کہ وہ روزانہ فون پر کرتے تھے. بس اتنا ضرور ہو گیا اس نے جواد کا لن حقیقت میں دیکھ لیا تھا اور اس کے چوپے لگانے کا بھی ایک دو بار موقع مل گیا تھا
.
آج بھی کالج میں ایک فنکشن کی وجہ سے اور دوستوں کے ساتھ لنچ کی وجہ سے اس کو اتنی دیر تک کے لئے اجازت مل گئی تھی. جواد کا بھی ملنے کا مقصد نوشین اور اس کی دوستوں کے ساتھ لنچ کرنا تھا اور لنچ کے بعد جواد شاپنگ کرنے کا کہ کر نوشین کو اس کی دوستوں سے الگ اپنے ساتھ لے کر آیا تھا اور اس کو واقعی میں کچھ شاپنگ بھی کرنی تھی جو کہ وہ نوشین کے ساتھ کرنا چاہتا تھا لیکن جب اس کو پتا چلا کہ نوشین کے پاس ابھی اس کے ساتھ گزارنے کے لئے 2 گھنٹے سے زیادہ وقت ہے تو اس نے اپنا شاپنگ کا ارادہ ملتوی کر دیا اور گاڑی سفاری پارک کی طرف بڑھا دی. سفاری پارک شہر سے باہر ایک تفریحی مقام تھا جو کہ ابھی حال ہی میں بنایا گیا تھا. نیا اور شہر سے دور ہونے کی وجہ سے بہت کم لوگ وہاں جاتے تھے. یہ پارک ایک بڑے رقبے پر تھا جس کا بہت سارا حصہ ابھی تک گھنے درختوں پر مشتمل تھا. جواد اور نوشین پہلے بھی ایک دو بار یہاں آ چکے تھے اور ان کو یہاں ایک دوسرے سے بوس و کنار کا آسانی سے موقع مل جاتا تھا. اب بھی دونوں سفاری پارک کی طرف جا رہے تھے.
نوشین جواد کو تنگ کرنے والے انداز میں بولی: سفاری پارک جا کر کریں گے کیا ؟
جواد بولا: وہاں جا کر دیکھتے ہیں موقع ملنے پر ہے کہ کیا ہو سکتا ہے .
نوشین نے کہا کہ کیا مطلب موقع ملنے پر ؟ اگر موقع ملا تو سب کچھ کر لو گے.
جواد نے اس کو آنکھ مارتے ہوے کہا موقع تو ملنے دو پھر بتاؤں گا
نوشین نے کہا کچھ بھی ہو جائے میں نے پھدی نہیں مروانی میں نے تمہیں پہلے ہی بتایا ہوا ہے یہ نہ ہو کہ وہاں جا کر ضد کرنے لگ جاؤ
جواد نے کہا مجھے پتا ہے تم میرا موٹا لن اپنی پھدی میں برداشت نہیں کر سکتی اور میں نہیں چاہتا کہ پورا سفاری پارک تمہاری چیخیں سنے گا
نوشین پہلے تو زچ گئی پھر اسی مذاق والے انداز میں جواب دیا. چیخیں نکلوانے کے لئے لن چاہے ہوتا ہے تمہاری للی نے کیا چیخیں نکلوانی ہیں
جواد نے دانت پیستے ہوے کہا : نوشین ن ن ن ن ن ن ....... میں نے تمہاری بنڈ مار دینی ہے ... اور نوشین قہقہے لگا کر ہنسنے لگ گئی اور کہا اس کے لئے بھی للی نہیں لن چاہے اور تمہاری تو للی سے ابھی کھڑا بھی نہیں ہوا جاتا . ہا ہا ہا ہا ہا ...
جواد پھر بولا اچھا تو اسی لئے تو بس اس للی کی تھوڑی سے ٹوپی پھدی میں جانے سے ہی رونا شروع ہو گئی تھی. ہا ہا ہا ہا ہا ہا ...
نوشین برا سا منہ بنا کر بولی تم نے بھی تو اتنی بے دردی سے ماری تھی تمہیں پتا بھی تھا کہ میں پہلی بار مروا رہی تھی. تمہیں تو بس یہی ہو رہا تھا کہ بس لن پھدی میں چلا جائے. میری کوئی فکر ہی نہیں تھی.
جواد نوشین کا ہاتھ چومتے ہوے بولا: میری جان تمہاری فکر تھی تو میں نے بھی فورا ہی لن نکال لیا تھا. میری جان کو اتنا درد جو ہوا تھا.
نوشین نے تنگ کرنے کے انداز میں جواد کے لن پر ہاتھ لگاتے ہوے کہا: جو مرضی کر لو پھدی نہیں دینے والی میں اب تمہاری اس چھوٹو سی للی کو.
حالاں کہ اسے جواد کے موٹے اور لمبے لن کا بخوبی اندازہ تھا. جب پہلی بار اس نے گاڑی میں جواد کا لن دیکھا تھا تو وہ اس کے سائز کو دیکھ کر حیران رہ گئی تھی. جواد کا لن اس کی مٹھی میں بھی پورا نہیں آتا تھا اور چوپے لگاتے ہوے بھی وہ ٹوپی سے زیادہ منہ میں نہیں لے سکتی تھی. لمبائی میں بھی اس کے ہاتھ کی لمبائی سے زیادہ ہی تھا. اس لئے اسے معلوم تھا کہ جواد کا لن اس کی واقعی چیخیں نکلوا سکتا ہے اور اسے وہ درد بھی یاد تھا جو کہ اسے پھدی مرواتے ہوے صرف لن کی ٹوپی اندر جانے سے ہوئی تھی اور اس نے اسی وقت پھدی مروانے سے توبہ کر لی تھی جواد نے بعد میں بھی کی بار نوشین کو پھدی ما رنے کا کہا لیکن وہ ہمیشہ ہی اس کو پھدی پر لن رگڑنے سے زیادہ اور کچھ نہ کرنے دیتی
دونوں ایک دوسرے سے اسی طرح زبانی اور دستی چھیڑ خانی کرتےہوے جا رہے تھے. نوشین نے کہا جواد تم نے ابھی تک مجھے تیل لگا کر لن بھی نہیں دکھایا جان اتنا دل کرتا ہے تمھارے لن پر تیل لگا کر مساج کرنے کو.
جواد نے کہا کہ جب بھی ہم ملتے ہیں تو تیل ہی نہیں ہوتا اگلی دفع میں لے آؤں گا. نوشین نے اپنا ہینڈ بیگ چیک کرتے ہوے کہا میں نے تیل رکھا تو تھا بیگ میں کل رات کو . تھوڑی در کے بعد اس نے ایک چھوٹی سی تیل کی بوتل نکال کے جواد کو دکھائی اور جواد ہنسنے لگ گیا جواد نے کہا ویسے شوق ہو تو ایسا.
گاڑی جواد نے ایک چھوٹی سڑک پر موڑ لی یہ سڑک نسبتا تھوڑی سنسان تھی اور ایک نئی کالونی میں جاتی تھی. کالونی میں ابھی گنتی کے چند گھر تھے جواد نے ایک سنسان گلی میں گاڑی روکی. نوشین نے پوچھا کہ یہاں کیوں روک گئے تو جواد نے نوشین کے گا لوں پر کس کرتے ہوے کہا میری جان نے تیل والا لن نہیں دیکھنا
نوشین نے یہ سن کر جواد کو ایک بھرپور جوابی کس کی اور کہا جواد I Love You میری جان تم میری ہر خوا ہش فورا پوری کر دیتے ہو.
جواد نے کچھ دیر انتظار کیا اور جب دیکھا کہ اس طرف کافی دیر سے کوئی بھی نہیں آ رہا تو اس نے پینٹ کی زپ کھول کر اپنا لن نکال لیا نوشین بیگ میں سے تیل کی شیشی نکلنے لگ گئی. جواد کا لن آدھے سے تھوڑا زیادہ ہی پینٹ کی زپ سے باہر تھا وہ اس وقت جس جگا پر تھے وہاں پر کبھی بھی کوئی آ سکتا تھا اس لئے اس نے پورا لن باہر نکالنے کا رسک نہیں لیا.
لن کو دیکھ کر نوشین کی آنکھوں میں چمک آ گئی اور وہ مسکر ا تے ہوے تیل کی بوتل کھولنے لگی جواد نے اس کو کہا کہ پہلے لن پر تھوک لگاؤ اس کے بعد تیل لگانا تو زیادہ مزے کا لن ہو جائے گا. نوشین نے لن کو ہاتھ میں پکڑا جو کہ زیادہ موٹا ہونے کی وجہ سے اس کی مٹھی میں نہیں آ رہا تھا. نوشین نے جواد کی گود میں جھک کر اس کا لن اپنے منہ میں لے کر چوسنا شروع کردیا. وہ بڑے ماہرانہ انداز میں لن کے چوپے لگا رہی تھی. لن کو منہ سے نکال کر اس پر تھوک پھینکا اور ہاتھ سے مٹھ مارنے لگی. جواد نے نوشین کو سر سے پکڑ کر پھر اپنے لن پر جھکا دیا اور لن اس کے منہ میں دے کر چسوانا شروع ہو گیا. نوشین اب لن پر تیل لگا کر دیکھنا چاہتی تھی اور تیل والے لن سے کھیلنا چاہتی تھی لیکن جواد کو چوپے لگوانے میں بہت مزہ آ رہا تھا اور اس کو پتا تھا کہ تیل لگانے کے بعد نوشین لن منہ میں نہیں لے گی اس لئے وہ زیادہ سے زیادہ مزا لینا چاہتا تھا. نوشین اس کی گود میں جھک کر لن چوس رہی تھی اور جواد اس مزے میں گم تھا. دونوں کو اس پاس کی خبر ہی نہیں رہی کہ وہ ایک سڑک کے کنارے یہ سب کر رہے ہیں.
نوشین لن کی ٹوپی کو منہ میں لے کر چوس رہی تھی اور جواد مزے میں مدہوش تھا. اس کو ہوش اس وقت آیا جب کسی نے اس کی گاڑی کا شیشہ بجایا
شیشہ بجنے کی آواز سن کر وہ چونک گیا اور دیکھا تو با ہر 2 پولیس والے بائیک پر کھڑے ہوے تھے یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ دونوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا. نوشین بھی آواز سن کر سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اور جواد کو اتنا موقع بھی نہیں مل سکا کہ وہ اپنا لن واپس اپنی پینٹ میں ڈال سکتا.
پولیس والے نے دوبارہ شیشہ بجایا اور جواد کو باہر نکلنے کا کہا. جواد گاڑی سے باہر نکلا اور اپنا لن پینٹ میں واپس ڈالا لیکن اس سے پہلے کہ وہ زپ بینڈ کرتا پولیس والے نے تلاشی لیتے ہویے کہا : کاکا یہ کیا ہو رہا تھا
جواد نے کہا کہ کچھ نہیں سر ہم تو ہی رکے ہوے تھے بس جانے ہی لگے تھے
پولیس والا بولا: یہ لڑکی کون ہے
جواد بولا جی میری منگیتر ہے جناب
پولیس والا جواد کی جیب میں سے نکلے ہوے بٹوے اور موبائل فون کا جائزہ لیتے ہوے بولا تو منگیتر کا مطلب ہے کہ کہیں بھی شروع ہو جاؤ.
جواد نے کہا جناب ہم تو بس گھر واپس جا رہے تھے
دوسرا پولیس والا بولا تو تم نے سوچا کہ چلو تھوڑی آگ ٹھنڈی کر لیں
جو پولیس والا بٹوے کا جائزہ لے رہا تھا اس نے دوسرے کو کہا کہ صرف 2800 روپے ہیں پولیس والے نے دوبارہ سے جواد کی تلاشی لیتے ہوے کہا کہ تھانے جانا پڑے گا وہاں تمھارے گھر والوں کو بلاتے ہیں کہ بچوں کی شادی کراو جلدی سے
جواد نے منت والے انداز میں کہا سر پلیز چھوڑ دیں اگلی بار خیال رکھیں گے
ادھر نوشین گاڑی میں بیٹھی ہوئی تھی اس کا دل بہت گھبرا رہا تھا کہ پتا نہیں پولیس والے ان دونوں کے ساتھ کیا کریں
جواد پولیس والوں کی منت سماجت کر رہا تھا لیکن پولیس والے کہ رہے تھے کہ دس ہزار سے کم میں نہیں چھوڑیں گے. جواد نے کہا جناب میرے پاس جو پیسے ہیں وہ اپ نے دیکھ لئے ہیں اس کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں ہے. خوش قسمتی سے جواد آج اپنا نیا آیی فون نہیں لا یا تھا اور اپنا پرانا نوکیا موبائل ہی جلدی میں لے آیا تھا.
پولیس والے نے جواد کو موبائل دیتے ہوے کہا کہ کسی کو فون کرو کہ دس ہزار لے آے ورنہ تھانے چلو وہاں تمھارے ماں باپ کو بلا کر بات کرتے ہیں.
جواد نے کہا سر میں اس وقت کسی کو نہیں بلا سکتا اور اگر ہمارے گھر میں کسی کو پتا چل گیا تو ہماری منگنی ختم ہو جائے گی اور ہم دونوں ایک دوسرے سے بہت پیر کرتے ہیں پلیز سر ابھی میرے پاس یہی پیسے ہیں یہ لے لیں اور ہمیں جانے دیں جواد نے تقریبا رونے والے انداز میں منت کرنا شروع کر دی
کافی دیر کی منت سما جت کے بعد پولیس والوں نے پیسے جیب میں ڈالے اور کہا کہ جو کرنا ہونا ہے گھر پر کیا کرو اور آئندہ ایسے پکڑے گئے تو پھر نہیں چھوڑیں گے.
جواد نے ان کا بہت شکریہ ادا کیا اور فورا گاڑی میں بیٹھ گیا وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی مزید ایسی بات ہو جس سے پولیس والے ان کو چھوڑنے کا فیصلہ تبدیل کریں.
گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے نوشین کی طرف دیکھا جس کا خوف کی وجہ سے رنگ زرد ہو رہا تھا اور آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے جواد نے اس کو آنکھوں سے تسلی دی اور بنا کوئی بات کے گاڑی چلا دی. مین روڈ تک آنے تک اس نے ادھر ادھر کہیں دھیان نہیں دیا. مین روڈ پر پہنچنے کے بعد اس نے گاڑی نوشین کے گھر کی طرف موڑ دی اور سکون کا سانس لیا. اس نے نوشین کی طرف دیکھا جو اپنا چہرہ ہاتھوں میں لے کر رو رہی تھی. جواد نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کو تسلی دی کہ نوشی جان کچھ نہیں ہوا بہت بچت ہو گئی ہے
نوشین مسلسل رو رہی تھی اور جواد اس کو تسلیاں دے رہا تھا کہ جان کچھ نہیں ہوا شکر کرو کہ کسی بڑی مشکل سے بچ گۓ. جواد خود بھی کافی ڈر گیا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اگر پولیس والے نہ چھوڑتے تو دونوں بہت برا ہونا تھا. لیکن وہ نوشین کے سامنے بلکل نارمل ریکٹ کر رہا تھا کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ اگر اس نے بھی پریشانی ظاہر کر دی تو نوشین کو سنبھالنا مزید مشکل ہو رہا تھا .
اس نے گاڑی ایک سپر مارکیٹ کے پاس روکی اور نوشین اور اپنے لئے جوس لے کر آیا. نوشین جوس پینے کے بعد کچھ ریلکس ہوئی. جواد نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کو کہا جان کچھ بھی نہیں ہوا وہ ایک برا وقت تھا جو گزر گیا شکر کرو ہمیں کسی اور نے نہیں دیکھا اور پولیس والوں کا کیا وہ تو روزانہ پتا نہیں ایسے کتنے لوگوں سے ملتے ہیں تو ان کو تو ہماری شکلیں اور گاڑی یاد بھی نہیں رہنی اور ویسے بھی ہم نے کونسا دوبارہ وہاں جانا ہے.
نوشین اب قدرے ریلکس ہو گئی تھی وہ بولی پھر بھی جواد مجھے بہت عجیب لگ رہا ہے کہ کسی نے ہمیں اس حالت میں دیکھا وہ کیا سوچتے ہوں گے میرے بارے میں کہ کیسی لڑکی ہے جو سڑک کے کنارے یہ سب کر رہی تھی
جواد نے کہا ٹینشن کیوں لے رہی ہو جان وہ کونسا ہماری پھوپھی کے پتر ہیں جو سوچتے ہیں سوچنے دو اس سے ہمارا کیا لینا دینا. اتنا مزہ آ رہا تھا سارا مزہ خراب کر دیا . جواد نے آنکھ مار تے ہوے نوشین کو کہا. وہ نوشین کا موڈ چینج کرنے کے لئے اور توجہ ہٹانے کے لئے اس طرح سے بات کر رہا تھا.
نوشین نےمنہ بناتے ہوے کہا تمہیں تو اپنے مزے کی پڑی ہوئی تھی اتنی مشکل سے موقع مل تھا اور وہ بھی تمہیں بس لوں چسوانے کی پری ہوئی تھی تمہیں پتا بھی ہے کہ کب سے میرا دل کر رہا تھا کہ تمھارے لن پر تیل لگا کے اس کا مساج کروں اور اس سے کھیلوں لیکن تمہیں تو بس اپنی ہی پڑی ہوئی تھی. نوشین نے ناراضگی والے انداز میں کہا
جواد نے کہا جان میں تو بس تھوک لگوانے کے لئے چسوا رہا تھا تاکہ تمہیں زیادہ مزیدار لن دیکھنے کو ملے. جواد نے نوشین کو منانے کے انداز میں کہا اچھا نا جان اگلی دفع اپنی مرضی سے کھیلنا لن کے ساتھ، میں کچھ بھی نہیں کہوں گا.
نوشین نے کہا ہاں اتنا ہی آسان ہے نا تمہیں پتا ہی ہے کہ کتنی مشکل سے تو ملنے آتی ہوں اور پھر بس گاڑی میں بھی صرف اوپر اوپر سے ہی ہاتھ لگانے سے زیادہ موقع نہیں ملتا.
جواد اس وقت نوشین کے گھر سے تھوڑا ہی دور سپر مارکیٹ پر روکا ہوا تھا. اس نے ٹائم دیکھا تو ابھی ساڑھے پانچ ہی ہوے تھے. جب پولیس والوں سے جان چھڑوا کر وہاں سے نکلے تھے تو جواد کو بس یہی جلدی تھی کہ کسی طرح سے نوشین کو جلد سے جلد اس کے گھر پہنچا دے. لیکن اب وہ کافی حد تک اس واقعے کے اثرات سے نکل آیا تھا اور وہ چاہ رہا تھا کہ نوشین کے ساتھ مزید وقت گزارے تاکہ اس کے ذہن سے بھی وہ واقعہ نکال سکے.
اس نے نوشین سے پوچھا اب کیا پلان ہے تو اس نے کہا کہ مجھے گھر ڈراپ کر دو جواد نے کہا کہ ابھی تو بہت ٹائم ہے اتنی بھی کیا جلدی ہے. یہ کہ کر جواد نے لانگ ڈرائیو کے موڈ میں گاڑی شہر سے باہر جانے والی سڑک پر ڈال دی. نوشین بھی خاموش رہی شائد وہ بھی ابھی جواد کے ساتھ ہی رہنا چاہتی تھی
جواد نے گاڑی میں ہلکا سا میوزک لگایا اور نوشین نے اپنی سیٹ کی بیک کے ساتھ سر لگایا اور آنکھیں بند کر لی. تقریباً دس منٹ کے بعد جواد نے گاڑی ایک اور سڑک پر موڑی نوشین نے آنکھیں کھول کے دیکھا تو وہ سفاری پارک کی طرف جا رہے تھے. نوشین نے پوچھا جواد کہاں جا رہے ہو تو جواد نے کہا کہ اس سائیڈ پر آ گیا تھا تو سوچا سفاری پارک ہی چلتے ہیں. نوشین نے کہا جواد واپس چلو اندر نہیں جانا. جواد نے کہا جان بس تھوڑی دیر رکیں گے پھر واپس چلتے ہیں آج میں نے اپنی جان کو بلکل بھی پیآر نہیں کیا. بس تھوڑی دیر میں واپس چلتے ہیں. نوشین نے کہا جواد مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ہم ابھی اتنی بری مصیبت سے بچ کے آے ہیں لیکن جواد نے اس کو حوصلہ دیا اور ٹکٹ لے کر گاڑی سفاری پارک میں داخل کر دی.
ہفتہ کی شام ہونے کی وجہ سے وہاں ان کی امید سے زیادہ گہما گہمی تھی کچھ فیملیز بھی آئ ہوئی تھی اور کچھ جگہوں پر لوگ کرکٹ اور دوسرے کھیل بھی کھیل رہے تھے. جواد گاڑی اسی جگہ پر لے کر گیا جہاں پچھلی بار دونوں نے گاڑی لگای تھی یہ جگہ پارک کے ایک سائیڈ پر تھی جہاں بہت کم لوگ جاتے تھے لیکن وہاں کچھ فیملیز پہلے سے پکنک کے لئے موجود تھیں . اس لئے وہ جگہ اس کو اتنی محفوظ نہیں لگی. نوشین نے جواد کو کہا کہ واپس چلو آج بہت رش ہے. جواد نے کہا کہ چلو ایک چکر لگا کر واپس چلتے ہیں.
جواد پارک میں گاڑی چلاتا رہا لیکن اس کو کوئی بھی محفوظ اور موزوں جگہ نظر نہیں آیی جہاں پر وہ گاڑی روک سکے. گھومتے گھومتے وہ پارک کے دوسرے حصے میں گیا جہاں پر اس کو ایک دو گاڑیاں ہی نظر آ رہی تھی. وہ اس سے پہلے اس سائیڈ پر نہیں آے تھے. اس سائیڈ پر بہت سارے گھنے گھنے درخت تھے. اس کو درختوں کے درمیان میں ایک کچی سڑک نظر آئ جہاں سے ایک گاڑی نکل کر پارک کے مین گیٹ کی طرف کو چلی گئی. جواد نے گاڑی درختوں کے درمیان کچی سڑک کی طرف موڑی تو نوشین نے اس کو روکا کہ مجھے ڈر لگ رہا ہے وہاں بہت گھنے درخت ہیں اور شام بھی ہونے والی ہے ہمیں واپس چلنا چاہیے. جواد نے کہا کہ چلو جا کر دیکھتے ہیں ورنہ واپس آ جایں گے. اس نے گاڑی کچی سڑک پر ڈالی تھوڑا آگے جا کر اس کو لگا کہ اس سے آگے کا راستہ ہموار نہیں ہے اس لئے اس نے گاڑی وہیں درختوں کے درمیان میں ایسی جگہ روکی جہاں باہر سے گاڑی نظر نہ آ سکے.
جواد گاڑی سے اترا اور اس نے ارد گرد ماحول کا جائزہ لیا. اس کے چاروں طرف درخت تھے اور اسے اپنے آس پاس کوئی اور گاڑی یا لوگ نظر نہیں آ رہے تھے. وہ جلدی سے نوشین کی طرف آیا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر کہا کہ جان بھر آ جاؤ. نوشین نے کہا جواد ہمیں واپس چلنا چاہیے مجھے یہاں ڈر لگ رہا ہے لیکن جواد نے اس کو کہا جان بس تھوڑی دیر کے لئے آ جاؤ پھر چلتے ہیں. میں نے دیکھ لیا ہے یہاں کوئی نہیں ہے آس پاس. تم جلدی آؤ نا پہلے سے ہی وقت کم ہے اور تم مزید دیر کر رہی ہو. جواد نے اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکالتے ہوے کہا.
نوشین باہر آگئی اور جواد اس کو لے کر ایک سائیڈ پر چل پڑا.
گاڑی سے تھوڑا دور جا کر جواد نے نوشین کو ایک درخت کے ساتھ لگایا اور اس کی گردن پر کس کرنے لگا. نوشین ابھی تک ڈر رہی تھی اور اس کا دھیان ارد گرد ہی تھا اس لئے وہ جواد کو ٹھیک رسپانس نہیں دے رہی تھی. جواد نے اس کو گلے لگایا اور بے تحاشہ چومنا شروع کر دیا. پھر اس نے نوشین کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور ان کو چوسنا اور چومنا شروع کر دیا. جواد کا ایک ہاتھ اس کی گردن پر تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے ممے دبا رہا تھا.
نوشین کو بھی اب مزا آنے لگا اور وہ بھی جواد کا ساتھ دینا شروع ہو گئی تھی. ویسے دونوں اس قسم کی جگہ پر پہلی بار نہیں آے تھے. پچھلی دو تین ملاقاتیں وہ اسی پارک کے کسی ویران کونے میں اسی طرح سے گذارتے تھے کیونکہ نوشین اور جواد دونوں کسی بھی ہوٹل یا گیسٹ ہاؤس جانے سے گھبراتے تھے اور ان کے اس تعلق کے بارے میں ان کی کسی بھی قریبی دوست کو پتا نہیں تھا جو کہ وہ کسی سے محفوظ جگہ کے لئے کہ سکتے. اس لئے بس وہ جب بھی ملتے تو شہر کی سڑکوں پر گاڑی میں گھومتے رہتے اور جہاں موقع ملتا وہاں پانچ دس منٹ گاڑی روک کر کچھ پیاس بجھا لیتے اور پھر اگلی کسی جگہ کی تلاش میں نکل جاتے. جہاں تھوڑا زیادہ موقع ملتا وہاں پر جواد گاڑی میں ہی بیٹھے بیٹھے لن کے چوپے لگوا لیتا اور نوشین کی پھدی کو بھی اپنی انگلیوں سے تھوڑا سکون دے دیتا
ایک دن اسی طرح گھومتے ہویے وہ سفاری پارک آ گئے یہ جگہ ان کو کافی محفوظ لگی خاص طور پر دوپہر کے وقت تو یہاں رش نہ ہونے کے برابر ہی ہوتا تھا بس ان جیسے دو تین جوڑے کسی کونے میں گاڑیاں لگے ہوے نظر آتے. یہاں آ کر پہلی بار گاڑی میں سے نکل کر دونوں کو ایک دوسرے سے بھرپور انداز میں پیار کرنے کا موقع ملا. اس لئے اس کے بعد سے انہوں نے سفاری پارک کا رخ کرنا شروع کر دیا. آج پولیس والے واقعہ کی وجہ سے نوشین ڈر رہی تھی ورنہ وہ بھی یہاں محفوظ سمجھ کر کافی اینجوے کرتی تھی.
جواد بھرپور طریقے سے نوشین کے ساتھ محو تھا لیکن اس کو اس چیز کا بھی احساس تھا کہ جس جگہ پر وہ ہیں وہاں زیادہ دیر رکنا خطرے سے خالی نہیں ہو گا اس لئے وہ بھرپور طریقے سے نوشین کو پیار کر رہا تھا. وہ نوشین کے ہونٹوں کو مسلسل اپنے ہونٹوں میں لے کر چوس رہا تھا. اس کا ایک ہاتھ کبھی نوشین کی گردن پر آ جاتا تو کبھی اس کے بالوں میں پھیرنا شروع کر دیتا اور دوسرے ہاتھ سے اس نے نوشین نے ممے پکڑ رکھے تھے جن کو وہ بڑے پیار سے دبا رہا تھا.
نوشین بھی جواد کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی. جواد نے کس کرتے کرتے ہی اپنی پینٹ کی زپ کھول کر اپنا لن باہر نکال لیا جو کہ اس وقت فل کھڑا ہوا تھا. اس نے نوشین کا ایک ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھ دیا اور نوشین نے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر دبانا اور ہلانا شروع کر دیا. جواد نے اب اپنا ہاتھ نوشین کی پھدی پر رکھا اور شلوار کے اوپر سے ہی اس کی پھدی کو رب کرنا شروع کر دیا. نوشین جو پہلے سے ہی بہت گرم ہو رہی تھی جواد کا لن ہاتھ میں آنے اور اپنی پھدی کے ساتھ ہونے والی چھیڑ خانی سے مزید گرم ہو گئی. اس دوران دونوں نے ایک دوسرے سے کسنگ کا سلسلہ منقطع نہیں کیا اور ایک دوسرے کو زبردست انداز میں چومتے رہے. جواد نوشین کے ہونٹوں، گالوں اور گردن پر بے تحاشا چوم رہا تھا اور نوشین مزے سے مدہوش ہو رہی تھی. جواد نے نوشین کی قمیض میں ہاتھ ڈال کر اس کے ممے پکڑنے کی کوشش بھی کی لیکن قمیض تنگ ہونے کی وجہ سے وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا. اس نے اس پر مزید وقت ضائع کرنے کی بجاے قمیض کے اوپرسے ہی اکتفا کیا. جواد ارد گرد سے بلکل بے خبر نہیں تھا اس لئے وہ بار بار اپنے ارد گرد جائزہ لے رہا تھا لیکن ابھی تک تو اس کو ایسی کوئی خطرے والی بات نظر نہیں آیی تھی.
جواد نے اپنا ہاتھ نوشین کی شلوار کے اندر ڈال کے اس کی پھدی کے دانے کو اپنی انگلی سے رب کرنے لگا. نوشین نے اس کو ایسا کرنے سے روکا لیکن زیادہ مزاحمت نہیں کی. تھوڑی دیر کر بعد جواد نوشین کی شلوار نیچے کر نے لگا تو نوشین نے اس کو روک دیا اور بولی جواد بس اوپر اوپر سے ہی کرو اور کچھ نہیں کرنا.
جواد نے کہا جان کچھ نہیں ہوتا نا آرام سے کروں گا.
نوشین کو ابھی تک پچھلی بار کا پھدی مروانے والا درد اچھی طرح سے یاد تھا اس لئے اس نے جواد کا ہاتھ پیچھے کرتے ہوے تھوڑا سخت لہجے میں کہا کہ میں نے تمہیں کہا تھا کہ میں نے پھدی نہیں مروانی. مجھے پتا ہے پچھلی بار میرا کیا حال ہوا تھا. ابھی تو بس تھوڑی سی ٹوپی ہی گئی تھی اور میرا برا حال ہو گیا تھا.
جواد کو بھی معلوم تھا کہ پچھلی بار جلد بازی اور نا تجربہ کاری کی وجہ سے اس نے نوشین کو پھدی مروانے سے بد ظن کر دیا تھا اور اب نوشین اتنی آسانی سے پھدی مروانے پر راضی نہیں ہو گی اور ابھی اتنا وقت اور مناسب جگہ بھی نہیں تھی کہ جہاں وہ اس کو قائل کر سکتا. وہ جانتا تھا کہ وہ نوشین کو پھدی دینے پر منا سکتا ہے لیکن وہ خود بھی اب کسی مناسب جگہ پر ہی اس کی پھدی مارنا چاہتا تھا. اس لئے اس نے زیادہ اصرار کرنے کی بجاے کہا اچھا جان مجھے لن اپنی پھدی پر اوپر اوپر سے تو لگانے دو.
نوشین نے تھوڑے نرم لہجے میں کہا پکا نا صرف اوپر اوپر ہی لگاؤ گے اندر نہیں ڈالو گے نا
جواد بولا پرامس میری جان صرف رب ہی کروں گا. جواد نے مزید وقت ضائع کے بغیر نوشین کی شلوار تھوڑی سے نیچے کی اور اپنا لن اس کی ٹانگوں کے درمیان میں گھسا کر اس کو اپنے گلے لگا لیا.
اب جواد نے نوشین کو زور سے گلے لگایا ہوا تھا اوپر سے وہ اس کو چوم رہا تھا اور نیچے سے اس کا لن نوشین کی ٹانگوں کے درمیان پھدی کے ساتھ لگ رہا تھا اور جواد اپنے لن کو اس کی ٹانگوں میں ہی آگے پیچھے کر رہا تھا. جواد کو اپنے لن پر نوشین کی پھدی اور اس کی ٹانگوں کی رگڑ کا بہت مزہ آ رہا تھا. نوشین کو بھی اپنی ٹانگوں کے درمیان اور پھدی پر لن کی رگڑ اور اوپر سے جواد کی کسنگ بہت زیادہ مزہ دے رہی تھی.
جواد نے ایک بار پھر ارد گرد کا جائزہ لیا ان کو یہاں پر رکے ہوے تقریبآ پانچ منٹ ہو چکے تھے لیکن ابھی تک اس کو کسی قسم کا کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا تھا. شام ہوتی جا رہی تھی اور وہ لوگ ویسے بھی جہاں موجود تھے وہاں پر گھنے درختوں کی وجہ سے شام سے پہلے ہی شام کا احساس ہو رہا تھا. اس کو اندازہ تھا کہ یہاں مزید دس منٹ سے زیادہ رکنا مناسب نہیں ہو گا.
وہ نیچے سے لن پھدی پر رگڑ رہا تھا اور اوپر سے دونوں ایک دوسرے کو کسنگ کر رہے تھے. جواد ہونٹوں سے چومتے ہوے نوشین کی گردن پر آیا اور پھر گالوں پر چومنا شروع کر دیا. گالوں پر چومتے چومتے وہ اس کی کانوں پر چومنا شروع ہو گیا. کانوں پر چومنے کا احساس نوشین کے لئے نیا تھا اور وہ مزید مدہوش ہو گئی. کانوں پر چومتے چومتے جواد نے نوشین کے کان میں کہا: جان ن ن ن ن ن ن ... آئ لو یو میری جان .. آئ لو یو سو مچ نوشی...
نوشین اس کے اس انداز محبّت سے مزید مدہوش ہو گئی اور مدہوشی میں اس کو کہنے لگی آئ لو یو ٹو مائی جانو
جواد نے پھر نوشین کے کان پر کس کرتے ہویے اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوے کہا : جان ن ن ن ن ن ...
نوشین نے مدہوشی میں کہا: جی میری جان بولو.
نوشین اس وقت بہت گرم ہو چکی تھی. جواد نے لن نوشین کی پھدی کے ساتھ لگا کر نوشین کو مضبوطی سے اپنی بانہوں میں لے کر رک گیا اور اس کے کان پر کس کرتے ہوے کہا
نوشین اس کے اس انداز محبّت سے مزید مدہوش ہو گئی اور مدہوشی میں اس کو کہنے لگی آئ لو یو ٹو مائی جانو
جواد نے پھر نوشین کے کان پر کس کرتے ہویے اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوے کہا : جان ن ن ن ن ن ...
نوشین نے مدہوشی میں کہا: جی میری جان بولو.
نوشین اس وقت بہت گرم ہو چکی تھی.
جواد نے لن نوشین کی پھدی کے ساتھ لگا کر نوشین کو مضبوطی سے اپنی بانہوں میں لے کر رک گیا اور اس کے کان پر کس کر کے سرگوشی کرتے ہویے کہا: جان بنڈ ماریں ؟؟
نوشین جو کہ بہت مدہوش ہو چکی تھی اس نے ابھی صرف اتنا کہا کہ لیکن جان ن ن ن ن ن ..
جواد نے اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی کہا جان کچھ نہیں ہو گا آرام سے ماروں گا اور اگر زیادہ درد ہوا تو پھر نہیں کریں گے.
نوشین نے پھر کچھ کہنا چاہا لیکن جواد نے کہا جان ٹائم نہیں ہے جلدی کرو شام ہوتی جا رہی ہے اور ہمیں جلدی یہاں سے نکلنا ہے. اس نے نوشین سے الگ ہوکر اس کے ہونٹوں پر کس کرتے ہوے کہا جان دیکھو آپ نے پھدی دینے سے منع کیا تو میں نے کوئی ضد کی لیکن جان جی بنڈ تو مارنے دو نا.
نوشین نے پیار سے جواد کو کس کی اور کہا ٹھیک ہے میری جان مار لو.
جواد نے خوشی سے اس کو ایک بھرپور کس کی اور بولا آئ او یو سو مچ مائی سویٹ ہارٹ.
پھر وہ نوشین کو لے کر گاڑی کی طرف چل پڑا. جواد چاروں طرف کا جائزہ لے رہا تھا .آہستہ آہستہ شام ڈھلتی جا رہی تھی اور درختوں سے پرندوں کی آوازیں آ رہی تھی
وہ گاڑی سے تھوڑی دور ہی ایک درخت کے پاس رک گئے. جواد نے نوشین کا منہ دوسری طرف کیا اور اس کو جھکنے کے لئے کہا. نوشین جھک کر کھڑی ہو گئی جواد نے پیچھے سے اس کی قمیض اٹھا کر اس کی کمرسے اوپر کر دی اور اس کی شلوار اتار دی. اب نوشین آگے کے درخت پر ہاتھ رکھ کر جھک کے کھڑی ہوئی تھی اور اس کی شلوار گھٹنوں تک اتری ہوئی تھی.
جواد نیچے کو جھکا اور نوشین کے ہپس کھول کر اس کی بنڈ دیکھنا شروع ہو گیا. نوشین کی بنڈ کا سوراخ اس کے بلکل سامنے تھا. اس نے تھوک پھینکا جو سیدھا نوشین کی بنڈ کے سوراخ پر گرا. جواد نے اپنی درمیان والی انگلی سے تھوک کو اچھی طرح سے اس کی بنڈ پر لگایا.
جواد کھڑا ہو گیا اور اپنی پینٹ گھٹنوں تک اتار کر اپنا پورا لن باہر نکال لیا. اس نے لن کو اپنے بائیں ہاتھ میں لے کر ہلایا جس سے لن اور زیادہ سخت ہو گیا. اس نے لن کی ٹوپی پر تھوک پھینکا اور ہاتھ سے ٹوپی اور لن پر پھیلانے لگا. ٹینشن اور گرمی کی وجہ سے زیادہ تھوک نہیں نکل رہا تھا اس لئے اس نے اس پر اکتفا کیا اور لن پر تھوک ملتے ہوے نوشین کو کہا کہ اپنی بنڈکھولو. نوشین نے ایک ہاتھ درخت پر رکھا اور دوسرے سے اپنے ہپس کھول دیے. جواد نے لن دائیں ہاتھ میں پکڑا اور بائیں ہاتھ سے نوشین کے دوسرے ہپس کھولے. اب بنڈ کا سوراخ اس کے سامنے تھا.
جواد نے لن اس کی بنڈ پر رکھا تو نوشین نے کہا جان آرام سے کرنا مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے. جواد نے کوئی جواب دیے بغیر لن کو ہلکا سا دبایا لیکن اس کا لن پھسل پر نیچے ٹانگوں کے درمیان پھدی پر جا لگا. جواد نے پھر سے لن کو بنڈ پر سیٹ کیا اور ہاتھ میں پکڑ پر اندر ڈالنے کے لئے دبایا. تھوڑی سی لن کی ٹوپی بنڈ میں گیی لیکن نوشین کی ہلکی سی چیخ نکلی اور فورا آگے کو ہوئی اور کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی بہت زور سے چبھا ہے مجھے ڈر لگ رہا ہے.
جواد نے کہا کہ کچھ نہیں ہوتا بس تھوڑا سا درد ہوگا اور یہ کہتے ہوے اسے پھرجھکانے لگا. نوشین تھوڑی مزاحمت کرتے ہوے بولی مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ابھی تم نے تھوڑا سا لگایا ہے اور چبھن ہو رہی تھی.
جواد نے اس کو کس کرتے ہویے کہا جان کچھ نہیں ہوتا پلیز ٹائم نہیں ہے نا اور اس کو پھر جھکا دیا. نوشین ایک بار پھر اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھک کر کھڑی ہو گئی. جواد نے دیکھا کہ لن اور بنڈ دونوں پر تھوک بہت کم ہے جس کی وجہ سے بنڈ مارنے میں بھی مشکل ہو گی اور نوشین کو درد بھی زیادہ ہو گا. وہ اس بار پچھلی بار والی جلد بازی نہیں کرنا چاہتا تھا جو اس نے پھدی مارتے ہویے کی تھی. وہ نہیں چاہتا تھا کہ نوشین آیندہ بنڈ دینے سے بھی انکاری ہو جائے.
اس نے ایک بار پھر جھک کر بنڈ پر تھوک لگایا لیکن اتنا زیادہ تھوک نہیں آ رہا تھا. اس کے ذہن میں اسی وقت نوشین کے بیگ میں پڑے تیل کا خیال آیا. اس نے نوشین کو کہا کہ میں گاڑی سے تیل لے کر آتا ہوں کیونکہ تھوک لگا کر ٹھیک سے نہیں ہو رہا. وہ نوشین کا جواب سنے بغیر ہی گاڑی کی طرف دوڑا. نوشین سیدھی ہو کر کھڑی ہو گئی اور جواد کو دیکھنا شروع ہو گئی جو کہ تھوڑی ہی دور گاڑی میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا. تھوڑی دیر کے بعد جواد ہاتھ میں ایک شیشی لے کر نوشین کے پاس پہنچا. نوشین نے شیشی جواد کے ہاتھ سے لی اور کہا کہ لن پر تیل میں لگاؤں گی.
نوشین شیشی کھولنا شروع ہوگئی اور جواد اپنا لن ہاتھ میں پکڑ کر ہلانا شروع ہو گیا. لن دوبارہ سے سخت ہو گیا نوشین نے لن کو پکڑا شیشی اس پر الٹا دی. اس نے ٹوپی پر اور لن پر کافی سارا تیل گرایا اور اپنے ہاتھ سے اس کو لن پر اچھی طرح سے لگانے لگ گئی. تیل لگنے سے لن میں بہت چمک آ گئی تھی اور اس کے ہاتھ میں بہت پھسل رہا تھا. وہ ابھی مزید لن کے ساتھ کھیلنا چاہتی تھی لیکن جواد نے اس کو دوسری طرف منہ کر کے جھکنے کوکہا. وہ ایک بار پھر درخت پر ہاتھ رکھ کر جھک گئی جواد نے اس کی قمیض اوپر کی اور اس کے ہپس کھول کر کافی سارا تیل اس کی بنڈ کے سوراخ پر ڈال دیا اور انگلی سے اچھی طرح پھیلا دیا.
ایک ہاتھ سے جواد نے اور ایک ہاتھ سے نوشین نے اپنے ہپس کھولے. جواد نے لن دوسرے ہاتھ میں پکڑ کر بنڈ کے سوراخ پر رگڑنا شروع کر دیا. تھوڑی دیر لن کی ٹوپی بنڈ پر رگڑنے کے بعد جواد نے لن نوشین کی بنڈ پر فٹ کر دیا.
نوشین ایک ہاتھ درخت پر رکھ کر اور دوسرے ہاتھ سے اپنی بنڈ کھول کر جھکی ہوئی تھی. اس کے پیچھے جواد کیا کر رہا تھا وہ اس سب سے بے خبر تھی اسے بس اتنا پتا تھا کہ جواد اس کی بنڈ مارنے کے لئے تیاری کر رہا تھا وہ اپنے آپ کو ذہنی طور پر بنڈ مروانے کے لئے تیار کر چکی تھی. اس کی بنڈ پر تیل لگانے کے بعد جیسے ہی جواد نے اپنا لن اس کی بنڈ پر رکھا تو نوشین کو لن اپنی بنڈ پر محسوس کر کے ایک جھرجھری آئ اور اس نے مدہوشی میں اپنی آنکھیں بند کر لیں. اس کو جواد کے لن کی چکنی اور نرم ٹوپی اپنی بنڈ پر محسوس ہو رہی تھی اور اسے پتا تھا کہ بس تھوڑا سا اور دباؤ اور لن اس کی بنڈ میں ہو گا.وہ آنکھیں بند کر کے جواد کی طرف سے پیش رفت کر انتظار کر رہی تھی .
جواد نے لن کو بنڈ پر دبایا تو تیل کی وجہ سے لن پھسلتا ہوا نوشین کی بنڈ کے اندر گھس گیا. نوشین کے منہ سے سس س س س س ... آیی ی ی ی ی ..... کی آواز نکلی. جواد کا لن ٹوپی سے تھوڑا سا زیادہ نوشین کی بنڈ میں تھا جواد وہیں رک گیا.
نوشین کی بنڈ میں جیسے ہی لن گیا نوشین کو ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی گول سخت لیکن گرم اور چکنی چیز اس کی بنڈ کو کھول کے اندر گھس رہی ہے اس کو درد ہوا اور جلن بھی ہو رہی تھی لیکن لن کے اندر جانے کا جو مزہ اس کو آ یا تھا اس میں وہ اس درد کو بلکل بھول گئی اور اس کے مزے میں کھو سی گئی. اس کو لن اپنے اندر ایک ایک انچ تک محسوس ہو رہا تھا اور اس کو اتنا بھی پتا چل رہا تھا کہ کتنا لن اس کی بنڈ کے اندر ہے. اس کو پیچھے سے جواد کی آواز آیی: اندر چلا گیا ؟
نوشین نے مدہوشی میں جواب دیا: سس س س س س .. ہاں اندر ہی ہے.
جواد نے پھر پوچھا درد تو نہیں ہو رہا ؟
نوشین نے کہا درد تو ہو رہا ہے لیکن اتنا زیادہ نہیں ہے.
جواد نے لن ٹوپی تک باھر نکالا اور پھر آہستہ آہستہ اندر دھکیلنا شروع کر دیا. جیسے جیسے لن اندر جا رہا تھا جواد کو ایک الگ ہی مزہ آ رہا تھا. اس نے مٹھ تو کافی ماری تھی لیکن بنڈ کے اندر کی گرمی، رگڑ اور سختی جو اس وقت اس کے لن کو محسوس ہو رہی تھی وہ اس کے لئے ایک عجیب ہی فیلنگ اور مزہ تھا. اس کا موٹا لن نوشین کی بنڈ کو کھولتا ہوا اندر جا رہا تھا اور لن کے ہر انچ کے اندر جانے سے اس کا مزہ بڑھتا ہی جا رہا تھا. اس کا تقریبا آدھا لن نوشین کی بنڈ میں تھا.
نوشین کو لن اپنی بنڈ میں سرکتا ہوا صاف محسوس ہو رہا تھا لن جیسے جیسے اندر جا رہا تھا اس کا مزہ بڑھتا ہی جا رہا تھا. اس کو اپنی پھدی میں سے کچھ قطرے نکل کر ٹانگوں پر جاتے ہوے محسوس ہو رہے تھے. جواد بہت آرام آرام سے لن اس کی بنڈ میں ڈال رہا تھا. آدھا لن اس کی بنڈ میں تھا اور نوشین ارد گرد کی دنیا سے بے خبر آنکھیں بند کیے درخت پر ہاتھ رکھ کر جھکی ہوئی بنڈ مروانے کے مزے میں کھوئی ہوئی تھی. وہ مزید لن اپنے اندر چاہتی تھی اس لئے اس نے درخت پر رکھا ہوا دوسرا ہاتھ بھی اٹھا کر اپنے ہپس پر رکھ لیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی بنڈ کھول دی تاکہ لن مزید اندر جا سکے.
جواد آدھا لن ڈالنے کے بعد لن واپس باہر کھینچا. جب صرف ٹوپی کا تھوڑا سا حصہ نوشین کی بنڈ میں رہ گیا تو اس نے پہلے کی نسبت زور کا دھکا لگایا اور لن تیزی سے واپس بنڈ کے اندر گھس گیا اس بار تقریباً پورا لن بنڈ میں چلا گیا. نوشین جو دونوں ہاتھوں سے اپنی بنڈ کھول کر کھڑی ہوئی تھی اس کے منہ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ... کی آواز نکلی اور آگے کو ہوگئی اور گرنے سے بچنے کے لئے اس نے دوبارہ ایک ہاتھ سے درخت کا سہارا لے لیا. جواد کو اس وقت بہت مزہ آ رہا تھا اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ جس کے ساتھ وہ روزانہ فون پر اور خیالوں میں سیکس کرتا ہے آج حقیقت میں اسی کی بنڈ مار رہا ہے. یہ سوچ کر اس کو ایسا لگا کہ وہ بس ڈسچارج ہونے والا ہے. اس نے اپنا ذہن دوسری جانب لے جانے کے لئے ادھر ادھر کا جائزہ لیتے ہویا نوشین سے پوچھا: نوشی کیسا لگ رہا ہے
نوشین نے مدہوشی میں جواب دیا : جان بہت مزہ آ رہا ہے
جواد نے ایک بار پھر لن کو ٹوپی تک نکال کر دوبارہ دھکا مار کے اندر ڈالتے ہوے پوچھا: اب کتنا مزہ آ رہا ہے
نوشین نے پھر مدہوشی میں کہا: آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ جان ن ن ن ن ن ن ن.. بہت ت ت ت ت مزہ ...
جواد نے اب آرام آرام سے مسلسل لن کو بنڈ میں آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ نوشین سے پوچھ رہا تھا: میری جان کیا کروا رہی ہے
نوشین نے کہا: آہ ہ ہ ہ ہ ہ.. اپنی جان سے بنڈ مروا رہی ہوں. آہ ہ ہ ہ ہ ہ..آہ ہ ہ ہ ہ ہ..آہ ہ ہ ہ ہ ہ.. جان بہت مزہ آ رہا ہے.
جواد کو نوشین کی سیکسی آوازیں اور باتیں سن کر محسسوس ہوا کہ وہ اب مزے کی انتہا تک پہنچ گیا ہے اور اب مزید کنٹرول نہیں کر سکے گا تو اس نے نوشین کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ زور زور سے لن کو بنڈ میں آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا. نوشین کی بھی سیکسی آوازیں اب تیز ہو گئی تھی. جواد نے تیزی تیزی سے چھ سات جاندار جھٹکے مارے اور اس کے بعد اس کے لن سے منی کی ایک دھار نکل کر نوشین کی بنڈ میں گری.
جواد کی رفتار تیز ہونے کی وجہ سے نوشین نے اپنے دونوں ہاتھ درخت پر رکھ کر اپنے آپ کو سنبھالا ہواتھا. جواد اس کو دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑ کر زور زور سے لن بنڈ کے اندر باہر کر رہا تھا. جواد کے ان زور دار جھٹکوں سے اس کے درد میں اضافہ ہو گیا تھا اور اسے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی چیز اس کو چیرتی ہوئی اس کے اندر باہر ہو رہی ہے لیکن اس نے اس مزے میں کئی گنا اضافہ کر دیا تھا جو اس کو تھوڑی دیر پہلے آ رہا تھا. جواد کا لن جیسے ہی باھر جا کر دوبارہ پورا اندر گھستا تو اس کی آہ نکل جاتی لیکن ساتھ ہی مزے کی ایسی لہر آتی جو پہلے سے بھی زیادہ ہوتی. اس کی پھدی اس کی ٹانگوں پر بے تحاشا پانی برسا رہی تھی. پھر اس کو اپنی بنڈ کر اندر لن میں سے کچھ گرم گرم نکلتا ہوا محسوس ہوا اور ساتھ ہی جواد نے اپنا لن اس کی بنڈ میں سے نکال لیا. جیسے ہی بنڈ میں سے لن نکلا نوشین کو محسوس ہوا کہ اس کی ٹانگوں میں جان نہیں رہی وہ وہیں پر درخت کو تھامے نیچے کچی زمین پر گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گئی. اس کی آنکھیں ابھی تک بند تھی اور وہ ابھی تک اسی مزے کے احساسات میں تھی. اسے ارد گرد کا کوئی ہوش نہیں تھا.
جواد کا لن جیسے ہی ڈسچارج ہوا اس نے فورا لن کو نوشین کی بنڈ سے نکال کر اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور منہ ایک سائیڈ پر کر کے زور زور سے مٹھ لگانے لگا. اس کے لن سے منی نکل کر نیچے زمین پر گر رہی تھی جواد کی آنکھیں بند تھی اور وہ مسلسل ہاتھ سے اپنی منی نکال رہا تھا.
لن میں سے منی کا آخری قطرہ نکلنے کے بعد اس نے آنکھیں کھول کر نیچے گری ہوئی منی کو دیکھا اور پھر اپنی سائیڈ پر گھٹنوں کر بل بیٹھی نوشین کو دیکھا. نوشین کی شلوار ویسے ہی اتری ہوئی تھی اور وہ دونوں ہاتھ درخت پر رکھ کر آنکھیں بند کر کے بیٹھی ہوئی تھی. جواد نے اپنی پینٹ اوپر چڑھائی اور زپ بند کرتے ہویے نوشین کو آواز دی: جان جلدی اٹھو یہاں سے نکلیں.
نوشین اٹھی اور شلوار پہن کر اپنے کپڑے ٹھیک کرنے لگ گئی. دونوں گاڑی کی طرف بڑھے اور گاڑی باہر جانے والے راستے کی طرف بڑھا دی.
جواد نے نوشین سے پوچھا: جان مزہ آیا ؟؟
نوشین نے جواد کے گالوں پر ایک بھرپور کس کرتے ہوے کہا: بہت مزہ آیا میری جان. میں جتنا گھبرا رہی تھی اتنا ہی زیادہ مزہ آیا.
جواد نے کہا مجھے تو بہت زیادہ مزہ آیا تمہاری بنڈ بہت زبردست ہے میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اتنا زیادہ مزہ آتا ہو گا.ویسے تمہیں درد نہیں ہوا کیوں کہ یہی سنا ہے کہ بنڈ مرواتے ہوے بہت درد ہوتا ہے.
نوشین بولی: درد تو بہت ہوا تھا بلکہ ابھی بھی مجھ سے ٹھیک سے نہیں بیٹھا جا رہا بہت دکھ رہی ہے میری. جب اندر گیا نا تب تو ایسا لگا کہ کوئی چیز چیرتی ہوئی میرے اندر گھس گئی ہے لیکن لن اندر جانے کا جو مزہ تھا نا وہ اس درد سے کئی گنا زیادہ تھا اس لئے اس درد کو برداشت کر لیا.
جواد نے کہا ویسے میں نے بھی بڑے پیار سے ماری ہے.
نوشین نے کہا ویسے جان بہت مزہ آ رہا تھا لیکن تم نے بس تھوڑی سی دیر ہی کیوں ماری میرا تو ابھی دل کر رہا تھا کہ تم اپنے لن کو اور آگے پیچھے کرو.
جواد نے کہا جان پہلی بار تھا نا اور مجھے اتنا مزہ آیا کہ کنٹرول ہی نہیں کر سکا. ابھی شکر کرو پھر بھی دو منٹ مار لی ورنہ مجھے تو لگ رہا تھا کہ تمہاری بنڈ کے ساتھ لگاتے ہی فارغ ہو جاؤں گا.
شام کا اندھیرا کافی پھیل چکا تھا. پارک سے مین سڑک پر جانے والا راستہ بھی کچھ نا ہموار اور گنجان تھا. وہ دونوں باتیں کرتے جا رہے تھے کہ جواد نے محسوس کیا کہ ایک موٹرسائیکل پر دو لڑکے ان کی گاڑی کے پیچھے آ رہے ہیں. جواد نے گاڑی کی رفتار تیزکر دی. موٹر سائیکل مسلسل ان کا پیچھا کر رہی تھی بلکہ ایک دو بار تو موٹر سائیکل سوار لڑکوں نے گاڑی کے ساتھ موٹر سائیکل لا کر گاڑی روکنے کا اشارہ بھی کیا لیکن جواد پھرتی سے گاڑی پھر آگے نکال لیتا. نوشین بھی کافی گھبرا گئی. پارک سے مین سڑک تک آنے کا راستہ ہی لمبا لگ رہا تھا. موٹر سائیکل سوار تیزی سے ان کا پیچھا کر رہے تھے لیکن جواد ہمت اورمہارت کے ساتھ گاڑی چلا رہا تھا. اسے معلوم تھا کہ اس کی ذرا سے لا پرواہی ان کو بڑی مشکل میں ڈال سکتی ہے.
مین روڈ تک موٹر سائیکل نے ان کا پیچھا کیا. جیسے ہی جواد کی گاڑی مین سڑک پر پہنچی تو اس نے گاڑی کی رفتار مزید بڑھا دی. وہ مسلسل اپنے پیچھے آنے والی ٹریفک کو دیکھ رہا تھا تھوڑی دیر بعد اس کو اندازہ ہو گیا کہ اب وہ موٹر سائیکل ان کے پیچھے نہیں آ رہی. جواد نے پھر بھی رفتار کم نا کی اور تیزی سے نوشین کے گھر کی طرف بڑھا دی.
نوشین اس سارے واقعے کے دوران خوفزدہ لگ رہی تھی اور خاموشی سے بیٹھی جواد کو دیکھ رہی تھی. جب اس کو اندازہ ہوا کہ اب وہ خطرے سے باہر ہیں تو جواد سے بولی. جواد آئندہ میں نے اس طرح سے کسی پارک وغیرہ میں نہیں جانا. پہلے پولیس اور اب یہ سب کچھ. شکر ہے کہ قسمت اچھی تھی اور یہاں سے بھی جان بچ گئی لیکن ہر بار ہماری قسمت ہمارا ساتھ نہیں دے گی.
جواد نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوے کہا: ہاں واقعی ہمیں آیندہ احتیاط کرنی ہوگی.
دونوں کے دماغ سے اس وقت بنڈ ما رنے والا مزہ نکل چکا تھا اور دونوں خاموشی سے بیٹھے یہی سوچ رہے تھے کہ ان کی چند دیر حوس پوری کرتے ہوے اگر کوئی ایسا ویسا واقعہ ہو جاتا تو دونوں کبھی بھی ایک دوسرے کو معاف نا کر پاتے.
جواد نے گاڑی نوشین کے گھر سے تھوڑا دور روکی نوشین نے جواد کو کس کیا اور گاڑی سے نکل کر اپنے گھر کی طرف چلی گئی. جواد گاڑی میں بیٹھا نوشین کو اس کے گھر جاتا دیکھ رہا تھا. نوشین نے گھر پہنچ کر جواد کو میسج کیا کہ وہ خریت سے گھر پہنچ گئی ہے تو جواد نے گاڑی اپنے گھر کی طرف بڑھا دی.
دو تین دن کے بعد جواد نے یہ خبر پڑھی کہ لاہور کے مختلف پارکوں میں جوڑوں کو پریشان کرنے والا گروہ سر گرم عمل جو کہ چھپ کر خفیہ فلمیں بناتے ہیں اور ایک دو مقامات پر لڑکیوں سے زیادتی کرنے کی بھی خبریں آیی ہیں. یہ خبر سنتے ہی جواد نے نوشین کو فون کیا اور کہا کہ مجھے معاف کر دینا کہ میں نے اپنی حوس اور مزے کی خاطر تمہاری زندگی خطرے میں ڈالی.
نوشین نے کہا کہ اس میں تم اکیلے ذمے دار نہیں بلکہ میں نے بھی تمہارا ساتھ دیا بس آیندہ ہمیں خیال رکھنا پڑے گا. ویسے ایک بات ہے جواد وہاں پر بنڈ مرانے کا مزہ بڑا آیا.. نوشین نے جواد کو چھیڑتے ہوے کہا
جواد بولا تو چلو پھر چلتے ہیں وہیں پر.
اور دونوں ہنسنے لگ گئے..