Story Lover
Well-known member
Online
- Thread Author
- #1
پہلی محبت بارش کے پہلے قطرے کی مانند ہوتی ہے۔ معصوم مگر نڈر اور بہادر۔ یہ دل کی دھرتی کو نرم کر کے اتنا زرخیز کر دیتی ہے کہ پھر اس پر جو پھول پودے اگتے ہیں وہ سب محبت کی باس سے مہکتے ہیں۔ اس لیے پہلی محبت جس کو ملے وہ اس کی قدر کرے اور جس کو نہ ملے وہ اس کو پانے کی دعا کرے۔ عاشی نے ایک جذب کے عالم میں پڑھتے ہوئے موبائل سے نظریں ہٹائیں وہ تینوں دم سادھے اسے سن رہی تھیں۔واہ ! کتنے خوب صورت جملے ہیں۔ کیا خوب لکھا ہے کسی نے رانیہ بڑبڑائی۔ یہ تو نثر میں شاعری ہے اور کتنی سحر انگیز ہے۔ سارہ بھی کھوئے کھوئے انداز میں بولی۔ لکھا ہے کہ پہلی محبت جس کو ملے وہ اس کی قدر کرے۔ اب نجانے کس خوش نصیب کو ملتی ہو گی یہ پہلی محبت وانیہ نے حسرت سے کہا۔ اور نہیں تو کیا۔ ہمیں تو اس کا موقع ہی نہیں ملا۔ ابھی انٹر ہی کیا تھا تو اماں نے پکڑ کر اپنے بھانجے کے ساتھ نکاح پڑھوا دیا ۔ اب پہلی سمجھو یا آخری یہی تمہاری محبت ہے ۔ رانیہ نے کسی فلمی ہیروین کی طرح شرماتے ہوئے دوپٹے کا پلو انگلی پر مروڑتے ہوئے کہا تو ان تینوں کا بے ساختہ قہقہہ نکل گیا اور ماحول پر چھائی کثافت کم ہوگئی۔ اور نہیں تو کیا۔ مجھے دیکھ لو۔ زندگی کی چوبیس بہاریں دیکھ چکی ہوں مگر ابھی تک وہ بونگا مجھے ڈھونڈ ہی نہیں پایا جس سے مجھے پہلی محبت ہوگی۔ وانیہ نے بھی مایوسی سے سر ہلایا تو محفل مزید کشت زعفران بن گئی۔ مگر میں ابھی پر امید ہوں۔ تلاش جاری ہے۔ سارہ نے چاروں اطراف یوں نظریں گھمائیں جیسے پہلی محبت اس کمرے کے کسی کونے کھدرے میں چھپی بیٹھی ہو۔ سب کی پھر ہنسی چھوٹ گئی۔ ارے عاشی تم بھی تو منہ سے کچھ پھوٹو اچانک رانیہ کا دھیان عاشی کی طرف گیا جو بدستور موبائل ہاتھ میں تھامے زیر لب مسکرارہی تھی۔ اس کے لبوں پر بڑی پر اسرار سی مسکراہٹ تھی۔ اس وقت وہ تینوں کہاں جانتی تھیں کہ ان چاروں میں سے ایک وہی تو تھی جو پہلی محبت کا ذائقہ چکھ چکی تھی۔ مگر ابھی اس نے یہ بات تو خود سے بھی چھپائی تھی۔ ان سے کیسے کہہ دیتی ۔ اس لیے رانیہ کے ٹوکنے پر بھی سر جھٹک کر مسکراتی ہی رہی۔
☆☆☆
یوں تو وہ تینوں کمبائن اسٹڈی کے لیے سارہ کے گھر جمع ہوئی تھیں مگر کمبائن اسٹڈی بھی آن لائن ہو رہی تھی اور آن لائن کی تو یہی مشکل ہوتی ہے کہ غلطی سے کہیں اور کلک ہو جائے تو کچھ اور بھی کھل جاتا ہے۔ ابھی بھی وہ زور و شور سے شیکسپئیر کی تصنیفی صلاحیتوں پر مقالہ گوگل پر سرچ کر رہی تھیں کہ عاشی کی اچانک انگلی کہیں ٹچ ہوئی ۔ اور پہلی محبت کے عنوان سے ایک نامعلوم پیچ کھل گیا۔ اور وہ سب شیکسپئیر اور اس کی کی تصنیفی صلاحیتوں کو بھول بھال کر پہلی محبّت کی تشریح میں کھو گئیں ۔ اب باتوں کا رخ متوقع منگنیوں اور شادیوں وغیرہ کی جانب ہو گیا تھا۔ اتنے میں سارہ کا بھتیجا بھاگتا ہوا آیا۔ عاشی خالہ ! آپ کو باہر مبین بھائی لینے آئے ہیں۔ وہ جی بھر کر بدمزہ ہوئی۔ اس کا ابھی کچھ دیر مزید رکنے کا ارادہ تھا مگر اماں کو گھر میں چین کہاں تھا۔ وہ چادر اوڑھ کر ان سب کو خدا حافظ کہہ کر باہر آئی تو سامنے سر جھکائے مبین کھڑا تھا۔ وہ اندر ہی اندر کلس کر رہ گئی۔محترم کا حلیہ ہی قابل دید تھا۔ ہلکے گلابی رنگ کے قمیض شلوار کے ساتھ واش ایبل جوتے پہن رکھے تھے۔ بالوں کی عین سر کے درمیان سے مانگ نکلی ہوئی تھی۔ اور انہیں خوب جما جما کر کنگی کر رکھی تھی۔ میں خود ہی آجاتی ۔ اس نے تیز لہجے میں کہا اور جلدی سے قدم آگے بڑھا دیے۔ اب تھی تو یہ بدتمیزی مگر وہ چپ چاپ اس کے پیچھے چلنے لگا۔ یونہی گھر کا دروازہ نظر آیا۔ تو وہ ذرا سارک کر بولا ۔ چچی جان سے کہیے گا کہ میرے لیے دو پہر کا کھانا نہ بنائیں، میں چچا جان کے پاس دکان پر جا رہا ہوں۔ وہ پوری بات سنے بغیر اندر گھس گئی۔ سامنے امان کیریاں کاٹ رہی تھیں۔ او ہوا ماں ! آپ روز اس عجوبے کو بھیج دیتی ہیں یہ تیسری گلی میں تو گھر ہے سارہ کا۔ میں خود ہی آ جایا کروں گی ، اول جلول سے حلیے میں آجاتا ہے اٹھ کر۔ اب اگر ان میں سے کوئی باہر جھانک نے تو کیا سوچے۔اس نے ساری بھراس ماں پر نکالی۔ خاموش ہو جاؤ۔ پٹر پٹر بولے جا رہی ہو۔ آج کل حالات ہیں اکیلے آنے جانے کے۔ اتنے اسٹریٹ کرائم ہو رہے ہیں۔ اور ہاں بے چارے کے حلیے کو کیا ہوا۔ اچھا بھلا صاف ستھرا تو رہتا ہے۔ ہاں آج کل کے لڑکوں کی طرح بے ہودہ فیشن نہیں کرتا ۔ صاف ستھرا تو رہتا ہے مگر روز گلابی رنگ کا جوڑا پہننا ضروری ہے کیا۔ آپ اسے کم از کم کسی اور رنگ کے چار جوڑے ہی سلوادیں ۔ابھی بقر عید پر تو سلوا کر دیے تھے۔ بچہ اتنا سیدھا ہے کہ ایک ہی رنگ کے تھان سے چار سوٹ کٹو الایا۔ خیر مردوں کے کپڑوں کے رنگ کون دیکھتا ہے۔ تو چھوڑ یہ باتیں۔ میں مربہ بنارہی ہوں چینی سے چاشنی تیار کر کے دو۔ ہیں چینی کی چاشنی مجھ سے کہاں ٹھیک بنے گی۔ وہ بے زاری سے بولی ۔ میں سکھاتی ہوں تو چل کچن میں۔ خانہ داری کے ڈھنگ بھی سیکھنے ضروری ہیں۔ اماں آج کوئی رعایت دینے کے موڈ میں نہیں تھیں۔
☆☆☆
انگلی شام وہ پھر سارہ کے گھر جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی جب اماں نے منع کر دیا۔ آج رہنے دو۔ ماسی رشیدہ کا ابھی فون آیا ہے۔ تمہارے رشتے کے لیے کچھ مہمان لارہی آف اماں میں تنگ آچکی ہوں۔ اس رشتہ پریڈ سے ۔ اس میں تنگ آنے والی کیا بات ہے۔ لڑکیوں کے رشتے آتے جاتے رہتے ہیں۔ چلو شاباش ڈرائنگ روم صاف کر کے تیار ہو جاؤ۔ بادل نخواستہ اس نے صفائی کی۔ تیار ہونے کے لیے کمرے میں آئی۔ الماری کھولی تو فقط دو جوڑے استری شدہ لٹک رہے تھے۔ ایک تو کالا تھا جس کی قمیص بہت چھوٹی تھی۔ وہ تو اماں پہننے نہ دیتیں۔ اس نے دوسر ا والا نکالا اور غسل خانے میں گھس گئی۔ تیار ہو کر کچن میں برتن وغیرہ سیٹ کر رہی تھی۔ تو مبین بیکری سے سامان لیے چلا آیا۔سامان لیتے ہوئے اس نے سرسری سا دیکھا۔ وہ گلابی جوڑا ہی پہنے ہوئے تھا۔ پھر اس نے خود کو دیکھا۔ اتفاق سے اس نے بھی کڑھائی والا گہرا گلابی کرتا ہی زیب تن کر رکھا تھا۔ اس میچنگ پر وہ دل ہی دل میں فقط مسکرا کر رہ گئی۔ مقررہ وقت سے کچھ پہلے ہی مہمان تشریف لے آئے ۔ فقط دو میاں بیوی ہی تھے۔ ماسی رشیدہ نے بتا رکھا تھا کہ خاتون کسی اسکول میں ہیڈ مسٹریس کے عہدے پر فائز ہیں۔ اس وقت بھی وہ تیکھی نظروں سے اطراف کا جائزہ لیتے ہوئے اچھی خاصی تیز و طرار دکھ رہی تھیں جبکہ شوہر بے چارے جھینپے جھینپے سے ان کے پہلو میں دبکے بیٹھے تھے۔ وہ شربت لیے اندر داخل ہوئی اور دھیرے سے سلام کر کے سامنے صوفے پر ٹک گئی۔ بیٹا آپ کا نام اور تعلیم انٹرویو کا آغاز ہوا۔ خاتون کی نظریں آر پار دیکھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ جی عرشیہ سلیم میں ایم اے انگلش کر رہی ہوں ۔ اس نے بھی بلا جھجھکے اعتماد سے جواب دیا۔ آخر اتنی تو پریکٹس ہو ہی چکی تھی۔ کیا شادی کے بعد جاب کا ارادہ ہے۔ خاتون کی آنکھیں چمکیں۔ ہرگز نہیں آنٹی اس نے ان کے ارمانوں پر پانی پھیرا مجھے گھر میں رہنا ہی پسند ہے۔ مگر کیوں؟ آج کل کے حالات میں شوہر کی ایک نوکری سے کیا بنتا ہے؟؟ وہ اپنی بات پر زور دے کر بولیں۔ ہاں تو وہ دو نوکریاں کرلے ۔ پھر عورت کی تعلیم کا فائدہ؟ خاتون اپنی بات پر بضد تھیں۔تعلیم بچوں کی تربیت میں کام آجائے گی ۔ وہ بھی ہار ماننے پر تیار نہیں تھی۔اماں منہ کھولے دونوں کی باتوں بلکہ ایک طرح کی بحث سن رہی تھیں۔ ایسے موقعوں پر وہ ان کی طرف دیکھنے سے احتراز ہی کرتی تھی۔ آخر عورت کے نوکری کرنے میں کیا ہرج ہے۔ خاتون زچ ہو چکی تھیں۔اس سے گھر ڈسٹرب ہوتا ہے۔ نہیں ہوتا۔ میں نے ساری عمر نوکری کی ہے اور ساتھ ساتھ اپنے اہل خانہ کا بھی خوب خیال رکھا ہے ۔ آئی ! یہ تو آپ خود کہہ رہی ہیں۔ اصل صورت حال تو آپ کے اہل خانہ ہی بتا سکتے ہیں کہ آپ گھر کیسے چلا رہی ہیں۔ اب دیکھیں ناکہ آپ خود تو نیا سوٹ پہن کر خوب نک سک سے تیار ہیں۔ مگر انکل بے چارے ملگجے سے پرانے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔اب کے خاتون کا ضبط جواب دے گیا ہے وہ اماں کو خوب باتیں سنا کر میاں کے ہمراہ پاؤں پٹختی چلی گئیں پھر اماں کے ہاتھوں اس کی خوب درگت بنی مگر وہ ڈھیٹ بنی مسکراتی رہی۔ مبین بے چارہ اندر داخل ہوا تو سامنے میز پر کھانے پینے کے سامان کو جوں کا توں پڑا دیکھ کر حیرت سے کبھی اماں کے لال بھبھو کا چہرے کو دیکھتا اور کبھی مجرم بنی عاشی کو جو قطعی شرمندہ نظر نہیں آرہی تھی۔
☆☆☆
رات کو وہ فارغ ہو کر کمرے میں آئی تو اس کے موبائل کی اسکرین روشن تھی۔ سارا ان باکس سے بھرا پڑا تھا۔ وہ بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور ایک ایک مسیج پڑھنے لگی ۔ مہذب الفاظ اور نہایت شائستہ انداز ، نہ کوئی بے باک جملہ نہ کوئی عامیانہ بات۔ لفظ لفظ محبت سے پرویا ہوا مگر نہ کوئی چھچھورا پن اور نہ ہی چاند ستارے توڑ لانے کے وعدے۔ یہی وہ انداز محبت کی انفرادیت جس نے عاشی کو سلطان کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ سلطان کو وہ اماں کی ایک دیرینہ دوست کی شادی پر ملی تھی۔ شادی پر تو وہ جانا ہی نہیں چاہ رہی تھی مگر اماں زبردستی لیے گئیں۔ پہلا فنکشن مہندی کا تھا اور اس کا خیال تھا کہ یہ فنکشن تو سکھی سہیلیوں کے ساتھ ہی انجوائے کیا جاتا ہے۔ اس کی تو کوئی جان پہچان ہی نہیں ہے مگر اماں نے ایک نہ سنی۔ وہ سفید غرارہ سویٹ پر پیلا دوپٹہ اوڑھے بولائی بولائی پھر رہی تھی۔ تمام عور تیں اور لڑکیاں پیلے اور ہرے رنگ کے لباس زیب تن کیے تھیں مگر وہ سلک کے سفید غرارہ سوٹ میں بہت منفرد لگ رہی تھی۔ ایک قطار میں مہندی کے تھال سجے تھے۔ وہ پاس سے گزر رہی تھی جب پیچھے سے کسی نے پکارا۔ سینے محترمہ ! اس نے پلٹ کر دیکھا۔ آف وائٹ کرتا شلوار میں ایک خوب رو سالڑ کا کھڑا تھا۔ اس نے ہراساں ہو کر ادھر ادھر دیکھا۔ اماں بھی نجانے کہاں مصروف تھیں۔ محترمہ ! آپ کے دوپٹے نے آگ پکڑلی ہے۔ اس نے پلو اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا جو شعلے کی زد میں تھا۔ زمین پر پڑے کسی تھال میں جلتی موم بتی نے دوپٹے کے کونے کو پکڑ لیا تھا۔ اس لڑکے نے نہایت احتیاط سے پلو کو چٹکی سے پکڑا اور پھر دوسرے ہاتھ سے نکال دیا۔ آگ بجھ گئی۔ اس نے وحشت زدہ ہو کر پلو اس کے ہاتھ سے چھڑایا اور دور بھاگ گئی۔ پھر سارے فنکشن میں دو کالی آنکھیں اس کا سکھ چین برباد کرتی رہیں۔ گھر آکر بھی اس کا دل عجیب سا شور کرتارہا ۔ پھر اماں حیران رہ گئیں جب وہ ولیمے پر بلاچون و چرا جانے کے لیے مان گئی۔ ذرا سادگی سے تیار ہونا ۔ اماں نے نصیحت کی۔ اس نے آسمانی کلر کی میکسی کے ساتھ برائے نام میک اپ کیا کانوں میں سلور آویزے اس کے چہرے کی آرائش کو چار چاند لگارہے تھے۔ وہ ایک کونے میں میں کھڑی کولڈ ڈرنک کے چھوٹے چھوٹےسپ لے رہی تھی۔ جب اسے وہی نظر آیا۔ بلیک ٹو پیس میں آج وہ پہلے دن سے بھی زیادہ شان دار اور سو پر دکھ رہا تھا۔ اس نے موبائل سامنے صوفے پر بیٹھی ایک آنٹی کو تھمایا۔ اس وقت اس کی نظریں اس سے ملیں۔ اس نے جھٹ نظریں جھکالیں ۔ وہ اس کی ادا پر دھیرے سے مسکرایا اور پھر پلٹ گیا۔ جب دولہا دلہن کو سلامی کے لیے اسٹیج پر بیٹھایا گیا تو ادھر بہت رش بڑھ گیا۔ لوگ سلامی دینے اور تصویر بنوانے کے لیے دولہا دلہن کے گرد جمع تھے۔ اماں یوں ہجوم میں جانے سے گھبراتی تھیں کیونکہ ان کو سانس کا مسئلہ تھا۔ انہوں نے اس سے کہا کہ جب رش کم ہو تو وہ لفافہ دولہا کی والدہ کو پہنچادے۔ جب بھیڑ کچھ کم ہوئی تو وہ جھجکتے ہوئے آگے بڑھی۔ عین اسی وقت وہ لڑکا بھی اپنی والدہ کو لفافہ پکڑا رہا تھا۔ اس نے جلدی سے لفافہ دولہا کی والدہ کو تھمایا اور پھر ادھر ادھر دیکھے بنا تیزی سے نیچے اتر آئی۔ پھر سارا وقت اسے یوں لگا جیسے دو آنکھیں کا اس کا تعاقب کر رہی ہوں ۔ گھر آ کر بھی وہ کئی دن تک کھوئی کھوئی رہی ۔ کبھی خود کو ڈانٹتی ڈپٹتی اور کبھی چپکے چپکے مسکراتی نجانے وہ کون تھا۔ اب دوبارہ کبھی ملے گا بھی یا نہیں۔ شاید زندگی کے کسی موڑ پر سامنا ہو تو وہ پہچانے بھی نہ ، بھلا دو سیکنڈ کی ایک آدھ ملاقات کو کون یاد رکھتا ہے۔ لڑکیاں تو پاگل ہوتی ہیں۔ ذراسی ستائشی نظر پر خوابوں کے بڑے بڑے محل بنا لیتی ہیں۔ وہ بھی تو ایک عام سی لڑکی تھی۔ خوابوں ، خیالوں میں رہنے والی مگر خواب بھی کبھی کبھی حقیقت بن کر مہربان ہو ہی جاتے ہیں۔
☆☆☆
اس دن دو پہر کو وہ گھر پر اکیلی تھی۔ اماں شاید پڑوس میں گئی تھیں۔ گیٹ پر بیل ہوئی۔ اس نے جھانکا تو باہر کو ریئر والا کھڑا تھا۔ اس نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا۔ وہ ایک لفافہ اس کی جانب بڑھا کر تیزی سے موٹر سائیکل اڑاتا ہوا نکل گیا۔ ایڈریس تو اس کے گھر کا ہی لکھا تھا۔ وہ لفافے کو الٹ پلٹ کر دیکھ ہی رہی تھی جب عین اسی وقت مبین اندر داخل ہوا۔ چچا جان کے لیے ٹفن پیک کر دیں۔ وہ اس کے ہاتھ میں تھامے لفافے کو عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ شاید یونیورسٹی والوں نے رول نمبر سلپ بھیجی ہے۔ اس نے خواہ مخواہ وضاحت کی اور پھر لفافہ تھاے اندر بڑھ گئی۔ اس نے مبین کو ٹفن پیک کر کے تھمایا۔ پھر اپنے کمرے میں جاکر لفافہ کھولا۔ اندر چھوٹا سا خط تھا جس نے اس کی دنیا اتھل پتھل کر دی۔ لکھا تھا۔ میرا نام سلطان ہے۔ مگر میں آپ کا نام نہیں جانتا۔ بس اتنا کہوں گا کہ آپ جو کوئی بھی ہیں آپ کو اس دن شادی میں دیکھا تو دل ہار بیٹھا تھا۔ یقین مانیں پہلی بار ہارا ہوں اور اب اپنے دل کی ہی نہیں اپنے گھر کی مکین بھی بنانا چاہتا ہوں۔ ہوٹل میں لفافے پر آپ کا ایڈریس نوٹ کر لیا تھا۔ ہے تو یہ غیر اخلاقی حرکت مگر معذرت خواہ ہوں اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ پہلے بھی دو بار آیا تھا ۔ آنٹی نے دروازہ کھولا تو ۔ ایڈریس غلط ہے۔ کا بہانہ بنا کر پلٹ گیا۔ خوش نصیبی سے آج آپ سامنے آئیں۔ موبائل نمبر لکھ دیا ہے۔ میں تین دن تک انتظار کروں گا۔ اگر آپ کی جانب سے خاموشی رہی تو میں بھی اپنے دل کو سمجھالوں گا کہ شاید پہلی محبت میرے نصیب میں نہیں ہے۔ اللہ حافظ تین دن میں یہ خط اس نے کوئی تین سو بار پڑھا مگر پھاڑ کر پھینکنے کی جرات نہ کر سکی۔ آخر شام میں اس نے کال ملاہی لی۔ پہلی بیل پر ہی فون اٹھالیا۔ سلطان سے بات کر کے اس کے تمام خوف اڑن چھو ہو گئے۔ وہ بہت سچا اور کھرا انسان تھا۔ اس نے دو ٹوک الفاظ میں بتایا کہ وہ افیئر چلانے کے چکروں میں بالکل نہیں ہے۔ وہ سیدھا سیدھا اپنے گھر والوں کو رشتے کے لیے بھیجے گا۔ وہ ابھی تک ایسا کر بھی گزرتا مگر پہلے عاشی کی رائے لینی بھی ضروری تھی۔ وہ محبت میں بھی دوسرے فریق کی رضامندی کے احترام کا قائل تھا اگر وہ رابطہ نہ کرتی تو بھی مشکل سے ہی سہی مگر دل میں محبت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیتا۔ پھر عاشی نے حیران ہو کر پوچھا کہ آخر اسے پہلی نظر میں اسے کیا اتنا اچھا لگا کہ اس نے اس کی ہمراہی کا فیصلہ کیا۔ سادگی اور معصومیت اس کا جواب دو ٹوک
تھا۔ پھر اس نے بھی اس سے پوچھا کہ اسے بھی ا س کی کس بات نے متاثر کیا جو اس نے تعلق جوڑنا چاہا۔ عاشی کا جواب بھی واضح اور دوٹوک تھا۔ سلطان ! تمہارے لفظوں کی تصنع سے پاک سچائی نے، زمین و آسمان کے قلابے ملاتے وعدے وعید کے بغیر محبت کے اظہار نے میری رائے کو عزت دینے اور اور . بس اتنا کافی ہے عاشوا! وہ گھمبیر لہجے میں بولا۔ سلطان کا تعلق بھی اس کی طرح ایک مڈل کلاس فیملی سے تھا اس کے باپ کا چھوٹا سا موٹر سائیکلوں کا شو روم تھا۔ یوں تو اس نے انجینئر نگ پڑھی تھی۔ مگر ملک میں جو نوکریوں کا حال تھا تو اسے بھی مستقبل میں غالباً ابا کی دکان ہی سنبھالتی تھی۔ گھر میں ماں باپ کے علاوہ اس کی دو چھوٹی بہنیں تھیں۔ جن میں سے ایک کی نسبت طے تھی دوسری کا مسئلہ کچھ اٹکا ہوا تھا۔ اس بے چاری کی تعلیم کم تھی اور شکل وصورت بھی واجبی سی تھی۔ بس اس کے لیے بھاگ دوڑ کی جارہی تھی۔ اس کے بعد راستہ صاف تھا۔ اس کی اماں نے اسے مکمل اختیار دے رکھا تھا کہ وہ اپنی پسند سے اپنی جیون ساتھی کا انتخاب کر سکتا ہے۔ مگر فی الحال وہ دونوں بیٹیوں کو ٹھکانے لگانا چاہ رہی تھیں۔ وہ ہوتا ہے نا ماؤں کو عدم تحفظ کہ اکلوتے بیٹے کو پہلے نہیں بیاہنا کہ کہیں ہاتھوں سے نہ نکل جائے۔
☆☆☆
وہ سلطان کی محبت میں سرشار اور آسودہ سی رہتی۔ وہ بالکل بھی ڈیمانڈنگ نہیں تھا۔ نہ کبھی ملاقات کی خواہش نہ بار بار رابطے پر اصرار اور نہ ہی کوئی تصویر وغیر ہ سینڈ کرنے کی فرمائش اس نے خود ہی ایک آدھ بار کہا تھا سلطان اپنی کوئی تازہ ترین پک تو بھیجو تو وہ ہنس دیا۔ شکل دیکھ کر کیا کرو گی عاشو ! دل سے دل کی راہ ملی ہوئی ہو تو صورتوں کو تکنے میں کیا رکھا ہے۔ وہی ناک ہے۔ وہی آنکھیں ہیں کان ہے وہی اچھا بس بس ۔ وہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتی۔
☆☆☆
امتحانات قریب آچکے تھے ۔ آج وہ سب سارہ کے گھر آخری بار جمع ہو رہی تھیں۔ اس نے اپنا نیالان کا کرتا شلوار پہنا۔ گیراج سے گزرنے لگی اچانک اوپر سے گدلے پانی کی بوچھاڑ نے اسے بھگو دیا۔ اس نے غصے سے اوپر دیکھا تو مبین پانی والی ٹنکی صاف کر رہا تھا۔ بتا نہیں سکتے تھے۔ مارے صدے کے اس کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں۔کیا ہوا ہے ؟ اماں باہر آئیں ۔ یہ دیکھیں میرے کپڑوں کا حشر آخر اسے کب عقل آئے گی ؟ وہ روہانسی ہو رہی تھی۔ تمیز سے بات کرو میں نے ہی اسے کہا تھا کہ ٹنکی صاف کر دے۔ مگر اب میں سارہ کے گھر کیسے جاؤں وہ کھا جانے والی نظروں سے اوپر بھیگی بلی بنے مبین کو دیکھ رہی تھی۔ صرف دو پٹہ ہی تو بھیگا ہے۔ لاؤ میں دھو کر ڈرائی کر دیتی ہوں ۔ اماں نے اس کو ٹھنڈا کرنا چاہا تو وہ پاؤں پٹختی اندر چلی گئی۔
☆☆☆
کب امتحانات آئے اور کب گزر بھی گئے پتابھی نہیں چلا ۔ اب وہ فارغ تھی۔ اماں نے اس کے لیے رشتہ مہم بھی تیز کر دی تھی۔ سلطان سے اس کا بدستور رابطہ تھا۔ اس کی دوسری بہن کا رشتہ طے ہو چکا تھا۔ عنقریب دونوں کی شادیاں تھیں۔ پھران کی منزل بھی قریب تھی۔
☆☆☆
اس دن وہ اپنا لیپ ٹاپ کھولے بیٹھی تھی جب اماں کچھ کا غذ ہاتھ میں تھا لے چلی آئیں۔ عاشی ! یہ داخلہ فارم تو فل کر دو اور ساتھ ہی اپنی بی۔ ایس کی بکس بھی ڈھونڈ دو۔ وہ کیوں اماں ..؟ وہ اپنا مبین پڑھائی شروع کر رہا ہے۔ تمہارے ابا کا خیال ہے کہ اسے اپنی تعلیم بھی مکمل کرنی چاہیے۔ اچھا ! اس نے فارم پر سرسری سی نظر ڈالی۔ میٹرک اور ایف اے میں نمبر تو اچھے لے رکھے ہیں اس نے ۔ وہ کچھ حیران ہوئی۔ ہاں بچہ تو لائق تھا۔ بس ماں مرگئی تو باپ دوسری بیوی بچوں میں پڑ کر غافل ہو گیا۔ وہ تو اس کا چچا ایک ہوٹل میں ڈیلوری بوائے بھرتی کروانے گیا تھا۔ تمہارے ابا بھی مل گئے وہاں اتفاق سے انہوں نے کہا خاندان کا بچہ ہے۔ میرے پاس چھوڑ دو۔ دوکان کا حساب کتاب دیکھ لے گا۔ اب دیکھو دوکان کے ساتھ ساتھ گھر کے بھی کتنے کام دیکھ لیتا ہے ۔ امان کے لہجے میں ستائش تھی۔ وہ لا پروائی سے فارم فل کرنے لگی۔
☆☆☆
پھر ایک شام سلطان کا میسج آیا کہ اس کی ماں نے اس سے شادی کی بات کی تو اس نے اس کے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے۔ اور انہیں کوئی اعتراض بھی نہیں ہے اور اب وہ چند دن تک رشتہ لانے والی ہیں۔ وہ خوشیوں کے ہنڈولے میں جھولنے لگی۔
☆☆☆
پھر چند دن تو کیا ایک ایک کر کے کئی دن گزر گئے۔ کوئی نہ آیا۔ وہ روز انتظار کرتی ، روز مایوس ہوتی۔ سلطان کا موبائل بھی مستقل بند جا رہا تھا۔ آپ کے مطلوبہ نمبر سے رابطہ ممکن نہیں ہے کے الفاظ اس کے کانوں میں سیسہ گھولتے۔ ایک خوفناک انکشاف اس کے سامنے تھا اور وہ نظریں چرا رہی تھی۔ کیا وہ بھی محبت کے نام پر دھوکا کھا چکی ہے۔ یہ فریب اس کے نصیب میں لکھا تھا۔ ایڈریس اس کے پاس موجود تھا۔ دل چاہتا تھا کہ گھر جا کر اس کا گریبان پکڑے مگر کس حیثیت سے؟ کسی رشتے سے؟ جگ ہنسائی کے سوا کیا ملتا ۔ سچ کہا ہے کہ محبت کی حیثیت رشتے سے ہوتی ہے اور وہ بھی یہی کہا کرتا تھا جو رشتہ بناتے بناتے پلٹ گیا۔ اماں نے ایک آدھ بار اس کی اداسی کا سبب پوچھا بھی تو اس نے رزلٹ کی ٹینشن بتا کر مطمئن کر دیا۔ اس دن وہ سالن بنانے لگی تو گھی نہیں تھا۔ اس نے اماں سے کہا کہ مبین سے کہیں گھی لا دے۔ اب وہ یہاں کہاں ہوتا ہے۔ یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے چکا ہے۔ اپنی پڑھائی کرتا ہے۔ ساتھ پارٹ ٹائم جاب بھی کر رہا ہے۔ تمہارے ابا تو خرچا اٹھانے کے لیے تیار تھے مگر وہ خود دار بچہ ہے نہیں مانا۔ اماں بتا رہی تھیں تو اسے بھی احساس ہوا کہ اس نے کئی دن سے مبین کو گھر میں دیکھا ہی نہیں تھا۔ اپنی گم سم کیفیت کی وجہ سے وہ اس کی غیر موجود گی سے لاعلم رہی۔ پھر اس نے محلے کے ایک بچے سے گھی منگوالیا۔
☆☆☆
ڈھیر سارے دن مزید سرک گئے۔ ایک اد اس کی شام اچانک اس کے موبائل پر سلطان کی کال آنے لگی۔ ہیلو! کیسی ہو؟ اس کی تھکی تھکی آواز سنائی دی تو وہ پھٹ پڑی۔ جو اس کے منہ میں آیا وہ بولتی چلی گئی۔ وہ چپ چاپ سنتا رہا۔ جب وہ تھک کر خاموش ہوئی تو فقط اتنا بولا۔ میں کہیں مصروف تھا۔ اب یہ بتانے کے لیے فون کیا ہے کہ شام میں امی ابو آ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی فون بند ہو گیا۔ اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اس کی سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ اماں کو کیسے بتائے جب گیٹ پر بیل ہوئی۔ اس کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ اماں نے اسے گیٹ کھولنے کے لیے کہا تو وہ نروس سی دروازے تک گئی۔ اللہ کرے وہ نہ ہوں۔ حلیہ بھی اتنا ابتر ہے۔ مگر سامنے وہی دونوں تھے۔ انکل کی شکل سلطان سے بہت مل رہی تھی اور آنٹی کو تو اس دن اس نے ہوٹل میں دیکھے رکھا تھا۔ وہ دل ہی دل میں سلطان کو صلواتیں سناتی انہیں ڈرائنگ لے آئی۔ دونوں میاں بیوی نے نہایت مہذب طریقے سے اس کا رشتہ طلب کیا۔ سلطان کی امی نے ان دونوں کی محبت کی کہانی کو بیچ میں لائے بغیر اماں سے کہا کہ انہوں نے ان کی دوست کے بیٹے کی شادی پر عاشی کو دیکھا تھا تو فوراً ہی اپنے بیٹے کے لیے پسند کر لیا تھا مگر اس وقت ان کا بیٹا زیر تعلیم تھا اور وہ اپنی بچیوں کے لیے راشتے ڈھونڈ رہی تھیں۔ اب فارغ ہیں۔ تو اسی سلسلے میں آئی ہیں۔ اماں کو ان دونوں میاں بیوی کی انکساری اور سادگی بہت بھائی۔ بیٹے کے والدین ہونے کی وجہ سے کوئی غرور اور اکثر ان کے رویے میں دکھائی نہیں دی۔ جاتے جاتے وہ اپنے ہاں آنے کی دعوت دے گئے۔
☆☆☆
اس کا تو مانو خوشی سے برا حال تھا۔ مگر سلطان نجانے کیوں فون بند کر کے بیٹھا تھا۔ شاید اس دن اس کی بکو اس کا برا مان گیا تھا۔ کوئی بات نہیں وہ بعد میں اسے منالے گی۔ اماں ابا نے جمعہ کے روزان کے ہاں جانے کا پروگرام طے کیا۔ اگلے دن اباکوکسی ضروری کام سے بینک جانا تھا۔ مبین انہیں لینے آیا تو وہ اسے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ وہ تو سرتا پا بدل چکا تھا۔ جدید تراش خراش کا کرتا شلوار، نیا ہیئر کٹ تعلیم نے اس کے چہرے کو ایک اعتماد سا بخش دیا تھا۔ ویسے تو اس نے اسے کبھی درخور اعتنا نہیں جانا تھا۔ مگر آج چونکہ وہ اس سے متاثر بھی ہوئی تھی اور اس کا موڈ بھی اچھا تھا اس لیے چہک کر بولی۔ واہ مبین تم تو بالکل بدل گئے۔ شکر ہے اب تو گلابی جوڑا بھی نہیں پہنا ہوا ۔ وہ بھی بغیر شرمائے جنتے ہوئے اعتماد سے بولا۔ گلابی جوڑے تو سارے آنٹی نے کام والی کے شوہر کو دے دیئے تھے۔
☆☆☆
اماں ابا گئے تو خوش خوش تھے مگر واپسی پر بہت خاموش سے لگے۔ خاص طور پر اماں بہت بجھی بجھی تھیں۔ انہوں نے کوئی تبصرہ ہی نہیں کیا۔ اب وہ خود سے پوچھتی کیا اچھی لگتی۔ پھر اس نے سوچا کہ شاید اماں ابا کسی بہت زیادہ خوش حال خاندان کی توقع کر رہے تھے جبکہ سلطان والے تو ان کی طرح مڈل کلاس تھے۔ رات کو وہ چائے دینے گئی تو اماں ابا آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے۔ لوگ تو بہت اچھے ہیں۔ نہایت شریف اور سلجھے ہوئے ہیں۔ لڑکا بھی اچھا ہے۔ برسر روزگار بھی ہے۔ مگر ابا کی آواز سنائی دی۔ ہاں عاشی کے ابا بات تو پھر وہی ہے۔ ہماری چاندر ستاروں سی بیٹی ہے۔ اب کوئی جوڑ بھی تو ہو۔ لوگ کیا کہیں گے۔ہیں۔ اس پر حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ کیا ان لوگوں کو سلطان پسند نہیں آیا تھا۔ کہیں غلطی سے کسی اور کو تو نہیں دیکھ لیا۔ پھر اسے یہ یاد کر کے ہنسی آگئی کہ اماں ہر وقت یہی کہتی رہتی میں کہ وہ اپنی پیاری بیٹی کو شہزادوں جیسے لڑکے سے بیا ہیں گی ۔ اب شاید سلطان ان کی پسند کے معیار پر پورا نہیں اترا تھا۔ حالانکہ وہ اچھا خاصا ہینڈ سم تھا۔ یا شاید اسے ہی محبت میں اتنا خوب رو دیکھتا تھا۔ وہ اسی گومگو میں تھی جب شام میں سلطان کی کال آگئی۔ سلطان ! پتا نہیں اماں ابا اتنے خاموش کیوں ہیں؟ اس نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔ مجھے اندازہ تھا۔ وہ اداسی سے ہنسا۔ پھر اچانک بولا ۔ عاشی ! کل کہیں ملیں اس نے ایسی فرمائش پہلے بھی نہیں کی تھی۔ وہ تو ایسی ملاقاتوں کو اچھا ہی نہیں سمجھتا تھا۔ وہ بھی چاہنے کے باوجود انکار نہ کر پائی۔ دہ مقررہ وقت پر ریسٹورنٹ پہنچی۔ وہ اس سے پہلے موجود تھا۔ ٹیبل کا رخ دوسری جانب تھا۔ اسے اس کی پشت نظر آ رہی تھی۔ وہ سہج سہج کر قدم اٹھاتی گھوم کر سامنے آئی۔ سلطان ؟ اس نے ترنت اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی بے ساختہ چیخ کا گلا گھونٹا۔ سامنے سلطان تو نہیں کوئی اور شخص بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے کا ایک حصہ نجانے جلا ہوا تھا یا مسخ ہو چکا تھا۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ صرف آنکھیں وہی تھیں کالی… گھور کالی اس کے اپنے نصیبوں کی طرح کالی۔ یہ کیا ہو ا سلطان؟ وہ اس کے سامنے کرسی پرڈھے سی گئی۔ دو مہینے پہلے ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ زیادہ چوٹیں تو تو نہیں آئیں مگر موٹر سائیکل کی ٹینکی میں پٹرول فل بھرا تھا تو اس میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ چہرہ زیادہ متاثر ہوا۔ وہ بتا رہا تھا مگر وہ صدمے سےگم صم سنے گئی۔ اسے دیکھنے کی تو تاب ہی نہیں رہی تھیں۔ دونوں کے درمیان خاموشی کی چادر تنی رہی۔ لفظ گونگے ہو چکے تھے۔ کافی دیر بعد وہ ہمت کر کے جانے کے لیے اٹھی۔ وہ باوجود کوشش کے بھی ایک حرف اس کو تسلی یا امید کا نہ کہہ سکی۔ جب وہ جا رہی تھی تو سلطان ہمت کر کے صرف اتنا کہہ سکا۔ عاشی ! خود کو کسی بھی فیصلے کے لیے مجبور نہ کرنا اس کے الفاظ عاشی کے علاوہ کچھ فاصلے پر موجود کسی اور نے بھی سنے تھے۔
☆☆☆
پھر اماں ابا کے ساتھ وہ بھی خاموش اور گپ چپ سی ہو گئی۔ ایک شام اداسی سے اپنے ناخن کتر رہی تھی جب اماں اس کے پاس آبیٹھیں۔ عاشی بیٹا ! مبین کے چچا نے بھی تمہارے لیے اس کا رشتہ ڈالا ہے ۔ اس نے زخمی نظروں سے ماں کو دیکھا۔ وہ مبین کے بارے میں اس کے خیالات سے آگاہ تھیں۔ بیٹا ! اب وہ پہلے والا مبین نہیں رہا۔ بہت بدل گیا۔ ہے۔ پھر گھر کا دیکھا بھالا لڑکا ہے۔ تمہارے ابو بھی رضا مند ہیں ۔ وہ نجانے کیا کیا کہہ رہی تھیں۔ اس کے دل و دماغ میں تو عجیب سی جنگ ہو رہی تھی۔ قدرت نے یہ اس کے ساتھ کیسا مذاق کیا تھا۔ یہ کیسی آزمائش تھی۔ محبت کرنے والے دعوے تو بہت کرتے ہیں کہ تو دوسرے – ہم تو ایک دوسرے کی روح سے پیار کرتے ہیں۔ شکلوں صورتوں میں کیا رکھا ہے مگر جب وقت آتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ وہ اسی ادھیڑ بن میں تھی جب ویک اینڈ گزار نے مبین چلا آیا۔ اس نے اس پر ذرا گہری نظر ڈالی ۔ وہ واقعی بہت زیادہ بدل چکا تھا۔ گھر میں اب دبی دبی زبان میں اس کے اورکہیں رشتے کی بات چل رہی تھی۔ اس نے نہ تو واضح اقرار کیا تھانہ انکار شش پنج میں تھی۔ صبح اماں کا بی پی لو ہو گیا تو انہوں نے اسے کہا کہ وہ مبین کو ناشتہ بنا دے۔ اس نے ناشتہ بنا کہ آواز دی مگر وه شاید مصروف تھا۔ کافی دیر بعد وہ خود ہی ٹرے میں ناشتہ لیے دروازے تک آئی۔ ابھی اندر جانے ہی لگی تھی جب وہ فون پر غالباً اپنے چچا سے باتیں کرتا سنائی دیا۔ اپنا نام سن کر ٹھٹک گئی۔ چچا جان ! میں کب کہہ رہا ہوں کہ عاشی اچھی لڑکی نہیں ہے۔ وہ تو بہت اچھی لڑکی ہے۔ مگر چچا جان وہ تو کسی اور کو پسند کرتی ہے۔ میرا تو خیال تھا کہ وہ خود ہی آگے بڑھ کر انکار کر دے گی۔ مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ چچا جان ! ساتھی تو ہر حال میں ساتھ نبھانے والا ہوتا ہے۔ راستہ بدلنے والے لوگ مجھے پسند نہیں۔ اس کی باتیں سن کر اس کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔ وہ اس کی خاموشی کو نجانے کیا سمجھا تھا۔ شاید وہ اس کی اور سلطان کی کہانی کو جانتا تھا۔ اس دن ہوٹل میں بھی وہی موجود تھا۔ اس نے نکلتے وقت اس کی جھلک دیکھ لی تھی۔ وہ ٹرے اٹھائے سیدھی اس کے سامنے جا پہنچی۔ تمہیں کسی نے کہا کہ میں راستہ بدلنے جا رہی ہوں ۔ اس نے کڑے تیوروں سے اسے گھورا وہ بھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بے خوفی سے دیکھتا رہا۔ اس کا مزید پارہ چڑھ گیا۔ ایک آدھ بار تم سے ہنس کر جو بات کر لی تو تم سمجھے کہ میں تم پر فریفتہ ہو چکی ہوں۔ میرا راستہ آج بھی وہی ہے جو پہلے تھا۔ وہ کھڑاک سے دروازہ بند کر کے باہر نکل گئی۔
☆☆☆
اماں ! مجھے سلطان سے ہی شادی کرنی ہے۔ اگلے دن اس نے ٹھوس لہجے میں کہا۔ بیٹا ! تم نے اسے دیکھا ہوا نہیں ہے اس ۔ لیے کہہ رہی ہو۔ اماں ! میں نے اسے دیکھا ہوا ہے پہلے بھی اور اب بھی ۔ کچھ بھی چھپانا بے کار تھا۔ اس نے الف سے لیے کریے تک تمام کہانی سنا دی۔ جب خاموش ہوئی تو اماں اس کے دونوں ہاتھ تھام کر دھیرے سے بولیں۔ عاشی جانو! بے شک سلطان اپنی ذات میں ایک ہیرا ہے۔ مگر ہم بھی انسان ہیں اور اسی دنیا اور معاشرے میں رہتے ہیں جذباتی فیصلہ نہ کرو تم تھک جاؤ گی۔ میری بچی ٹھیک کہا اماں آپ نے کہ ہم بھی انسان ہیں۔ مگر خلوص ، وفا جیسے الفاظ بھی ہم دونوں کے لیے بنے ہیں۔ آپ فکر نہ کریں۔ میں راستہ بدلنے والوں میں سے ہوں اور نہ پلٹ کر دیکھنے والوں سے۔
☆☆☆
ساحل سمندر پر گلابی سی شام اتر رہی تھی۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے فضا کو خوشگوار بنار ہے۔ ابھی کل ہی تو ویک اینڈ تھا۔ اس لیے آج رش برائے نام تھا۔ وہ دونوں ایک چٹان کی آڑ میں پاس پاس بیٹھے تھے۔ کچھ فاصلے پر ان کے دونوں بچے ریت سے کھیل رہے تھے۔ عاشی کی زلفیں اڑ اڑ کر سلطان کے کندھے کو چھورہی تھیں۔ ہائے اللہ ! میں کیچر لانا بھول گئی۔ اس نے انہیں سمیٹتے ہوئے سلطان کے چہرے کو محبت پاش نظروں سے دیکھا۔ ہر بار دیکھنے پر اس کا نرم خو چہرا اسے وہی سکون اور خوشی دیتا تھا جو اس کو اندر تک سر شار کر دیتی تھی۔ اب تو کئی اپریشنز کے بعد اس کا چہرہ پہلے سے کافی بہتر ہو گیا تھا مگر بالکل پہلے والا تو نہیں ہو سکتا تھا۔ اسے کوئی ملال بھی نہیں تھا۔ وہ بہت خوش تھی۔ دنیا والے ان کو دیکھ کر عجیب سے کمنٹ پاس کرتے دکھی کر دینے والے اور اذیت ناک مگر اسے کوئی پروا نہیں تھی اور نہ اس نے کبھی سلطان کو کرنے دی تھی۔ اماں نے ٹھیک کہا تھا۔ سلطان واقعی ہیرا تھا۔ اماں نے بھی بھانپ لیا تھا اور پھر اس کے فیصلے کی زیادہ مخالفت نہیں کی تھی۔ آج وہ اپنی جنت میں خوش تھی۔ چلیں ! سلطان نے محبت سے کہا۔ وہ اس کے بازو کا سہارا لے کر اٹھی۔ سلطان نے دونوں بچوں کو پکارا اور وہ سب اپنی گاڑی کی سمت چل دیئے۔ جب وہ نکل رہے تھے تو مبین بھی ایک ماڈرن سی لڑکی کا ہاتھ تھا مے اندر آ رہا تھا۔ اس خوش باش فیملی کو دیکھ کر اس نے جوش و خروش سے ہاتھ لہرایا۔ جوابا انہوں نے بھی ہاتھ لہرائے۔ سب کو اپنے اپنے نصیب کامل چکا تھا۔ اور ہر کوئی اس سے خوش تھا۔ وفا اور خلوص کبھی رائیگاں نہیں جاتے ۔ یہ وقت نے ثابت کر دیا تھا۔
☆☆
☆☆☆
یوں تو وہ تینوں کمبائن اسٹڈی کے لیے سارہ کے گھر جمع ہوئی تھیں مگر کمبائن اسٹڈی بھی آن لائن ہو رہی تھی اور آن لائن کی تو یہی مشکل ہوتی ہے کہ غلطی سے کہیں اور کلک ہو جائے تو کچھ اور بھی کھل جاتا ہے۔ ابھی بھی وہ زور و شور سے شیکسپئیر کی تصنیفی صلاحیتوں پر مقالہ گوگل پر سرچ کر رہی تھیں کہ عاشی کی اچانک انگلی کہیں ٹچ ہوئی ۔ اور پہلی محبت کے عنوان سے ایک نامعلوم پیچ کھل گیا۔ اور وہ سب شیکسپئیر اور اس کی کی تصنیفی صلاحیتوں کو بھول بھال کر پہلی محبّت کی تشریح میں کھو گئیں ۔ اب باتوں کا رخ متوقع منگنیوں اور شادیوں وغیرہ کی جانب ہو گیا تھا۔ اتنے میں سارہ کا بھتیجا بھاگتا ہوا آیا۔ عاشی خالہ ! آپ کو باہر مبین بھائی لینے آئے ہیں۔ وہ جی بھر کر بدمزہ ہوئی۔ اس کا ابھی کچھ دیر مزید رکنے کا ارادہ تھا مگر اماں کو گھر میں چین کہاں تھا۔ وہ چادر اوڑھ کر ان سب کو خدا حافظ کہہ کر باہر آئی تو سامنے سر جھکائے مبین کھڑا تھا۔ وہ اندر ہی اندر کلس کر رہ گئی۔محترم کا حلیہ ہی قابل دید تھا۔ ہلکے گلابی رنگ کے قمیض شلوار کے ساتھ واش ایبل جوتے پہن رکھے تھے۔ بالوں کی عین سر کے درمیان سے مانگ نکلی ہوئی تھی۔ اور انہیں خوب جما جما کر کنگی کر رکھی تھی۔ میں خود ہی آجاتی ۔ اس نے تیز لہجے میں کہا اور جلدی سے قدم آگے بڑھا دیے۔ اب تھی تو یہ بدتمیزی مگر وہ چپ چاپ اس کے پیچھے چلنے لگا۔ یونہی گھر کا دروازہ نظر آیا۔ تو وہ ذرا سارک کر بولا ۔ چچی جان سے کہیے گا کہ میرے لیے دو پہر کا کھانا نہ بنائیں، میں چچا جان کے پاس دکان پر جا رہا ہوں۔ وہ پوری بات سنے بغیر اندر گھس گئی۔ سامنے امان کیریاں کاٹ رہی تھیں۔ او ہوا ماں ! آپ روز اس عجوبے کو بھیج دیتی ہیں یہ تیسری گلی میں تو گھر ہے سارہ کا۔ میں خود ہی آ جایا کروں گی ، اول جلول سے حلیے میں آجاتا ہے اٹھ کر۔ اب اگر ان میں سے کوئی باہر جھانک نے تو کیا سوچے۔اس نے ساری بھراس ماں پر نکالی۔ خاموش ہو جاؤ۔ پٹر پٹر بولے جا رہی ہو۔ آج کل حالات ہیں اکیلے آنے جانے کے۔ اتنے اسٹریٹ کرائم ہو رہے ہیں۔ اور ہاں بے چارے کے حلیے کو کیا ہوا۔ اچھا بھلا صاف ستھرا تو رہتا ہے۔ ہاں آج کل کے لڑکوں کی طرح بے ہودہ فیشن نہیں کرتا ۔ صاف ستھرا تو رہتا ہے مگر روز گلابی رنگ کا جوڑا پہننا ضروری ہے کیا۔ آپ اسے کم از کم کسی اور رنگ کے چار جوڑے ہی سلوادیں ۔ابھی بقر عید پر تو سلوا کر دیے تھے۔ بچہ اتنا سیدھا ہے کہ ایک ہی رنگ کے تھان سے چار سوٹ کٹو الایا۔ خیر مردوں کے کپڑوں کے رنگ کون دیکھتا ہے۔ تو چھوڑ یہ باتیں۔ میں مربہ بنارہی ہوں چینی سے چاشنی تیار کر کے دو۔ ہیں چینی کی چاشنی مجھ سے کہاں ٹھیک بنے گی۔ وہ بے زاری سے بولی ۔ میں سکھاتی ہوں تو چل کچن میں۔ خانہ داری کے ڈھنگ بھی سیکھنے ضروری ہیں۔ اماں آج کوئی رعایت دینے کے موڈ میں نہیں تھیں۔
☆☆☆
انگلی شام وہ پھر سارہ کے گھر جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی جب اماں نے منع کر دیا۔ آج رہنے دو۔ ماسی رشیدہ کا ابھی فون آیا ہے۔ تمہارے رشتے کے لیے کچھ مہمان لارہی آف اماں میں تنگ آچکی ہوں۔ اس رشتہ پریڈ سے ۔ اس میں تنگ آنے والی کیا بات ہے۔ لڑکیوں کے رشتے آتے جاتے رہتے ہیں۔ چلو شاباش ڈرائنگ روم صاف کر کے تیار ہو جاؤ۔ بادل نخواستہ اس نے صفائی کی۔ تیار ہونے کے لیے کمرے میں آئی۔ الماری کھولی تو فقط دو جوڑے استری شدہ لٹک رہے تھے۔ ایک تو کالا تھا جس کی قمیص بہت چھوٹی تھی۔ وہ تو اماں پہننے نہ دیتیں۔ اس نے دوسر ا والا نکالا اور غسل خانے میں گھس گئی۔ تیار ہو کر کچن میں برتن وغیرہ سیٹ کر رہی تھی۔ تو مبین بیکری سے سامان لیے چلا آیا۔سامان لیتے ہوئے اس نے سرسری سا دیکھا۔ وہ گلابی جوڑا ہی پہنے ہوئے تھا۔ پھر اس نے خود کو دیکھا۔ اتفاق سے اس نے بھی کڑھائی والا گہرا گلابی کرتا ہی زیب تن کر رکھا تھا۔ اس میچنگ پر وہ دل ہی دل میں فقط مسکرا کر رہ گئی۔ مقررہ وقت سے کچھ پہلے ہی مہمان تشریف لے آئے ۔ فقط دو میاں بیوی ہی تھے۔ ماسی رشیدہ نے بتا رکھا تھا کہ خاتون کسی اسکول میں ہیڈ مسٹریس کے عہدے پر فائز ہیں۔ اس وقت بھی وہ تیکھی نظروں سے اطراف کا جائزہ لیتے ہوئے اچھی خاصی تیز و طرار دکھ رہی تھیں جبکہ شوہر بے چارے جھینپے جھینپے سے ان کے پہلو میں دبکے بیٹھے تھے۔ وہ شربت لیے اندر داخل ہوئی اور دھیرے سے سلام کر کے سامنے صوفے پر ٹک گئی۔ بیٹا آپ کا نام اور تعلیم انٹرویو کا آغاز ہوا۔ خاتون کی نظریں آر پار دیکھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ جی عرشیہ سلیم میں ایم اے انگلش کر رہی ہوں ۔ اس نے بھی بلا جھجھکے اعتماد سے جواب دیا۔ آخر اتنی تو پریکٹس ہو ہی چکی تھی۔ کیا شادی کے بعد جاب کا ارادہ ہے۔ خاتون کی آنکھیں چمکیں۔ ہرگز نہیں آنٹی اس نے ان کے ارمانوں پر پانی پھیرا مجھے گھر میں رہنا ہی پسند ہے۔ مگر کیوں؟ آج کل کے حالات میں شوہر کی ایک نوکری سے کیا بنتا ہے؟؟ وہ اپنی بات پر زور دے کر بولیں۔ ہاں تو وہ دو نوکریاں کرلے ۔ پھر عورت کی تعلیم کا فائدہ؟ خاتون اپنی بات پر بضد تھیں۔تعلیم بچوں کی تربیت میں کام آجائے گی ۔ وہ بھی ہار ماننے پر تیار نہیں تھی۔اماں منہ کھولے دونوں کی باتوں بلکہ ایک طرح کی بحث سن رہی تھیں۔ ایسے موقعوں پر وہ ان کی طرف دیکھنے سے احتراز ہی کرتی تھی۔ آخر عورت کے نوکری کرنے میں کیا ہرج ہے۔ خاتون زچ ہو چکی تھیں۔اس سے گھر ڈسٹرب ہوتا ہے۔ نہیں ہوتا۔ میں نے ساری عمر نوکری کی ہے اور ساتھ ساتھ اپنے اہل خانہ کا بھی خوب خیال رکھا ہے ۔ آئی ! یہ تو آپ خود کہہ رہی ہیں۔ اصل صورت حال تو آپ کے اہل خانہ ہی بتا سکتے ہیں کہ آپ گھر کیسے چلا رہی ہیں۔ اب دیکھیں ناکہ آپ خود تو نیا سوٹ پہن کر خوب نک سک سے تیار ہیں۔ مگر انکل بے چارے ملگجے سے پرانے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔اب کے خاتون کا ضبط جواب دے گیا ہے وہ اماں کو خوب باتیں سنا کر میاں کے ہمراہ پاؤں پٹختی چلی گئیں پھر اماں کے ہاتھوں اس کی خوب درگت بنی مگر وہ ڈھیٹ بنی مسکراتی رہی۔ مبین بے چارہ اندر داخل ہوا تو سامنے میز پر کھانے پینے کے سامان کو جوں کا توں پڑا دیکھ کر حیرت سے کبھی اماں کے لال بھبھو کا چہرے کو دیکھتا اور کبھی مجرم بنی عاشی کو جو قطعی شرمندہ نظر نہیں آرہی تھی۔
☆☆☆
رات کو وہ فارغ ہو کر کمرے میں آئی تو اس کے موبائل کی اسکرین روشن تھی۔ سارا ان باکس سے بھرا پڑا تھا۔ وہ بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور ایک ایک مسیج پڑھنے لگی ۔ مہذب الفاظ اور نہایت شائستہ انداز ، نہ کوئی بے باک جملہ نہ کوئی عامیانہ بات۔ لفظ لفظ محبت سے پرویا ہوا مگر نہ کوئی چھچھورا پن اور نہ ہی چاند ستارے توڑ لانے کے وعدے۔ یہی وہ انداز محبت کی انفرادیت جس نے عاشی کو سلطان کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ سلطان کو وہ اماں کی ایک دیرینہ دوست کی شادی پر ملی تھی۔ شادی پر تو وہ جانا ہی نہیں چاہ رہی تھی مگر اماں زبردستی لیے گئیں۔ پہلا فنکشن مہندی کا تھا اور اس کا خیال تھا کہ یہ فنکشن تو سکھی سہیلیوں کے ساتھ ہی انجوائے کیا جاتا ہے۔ اس کی تو کوئی جان پہچان ہی نہیں ہے مگر اماں نے ایک نہ سنی۔ وہ سفید غرارہ سویٹ پر پیلا دوپٹہ اوڑھے بولائی بولائی پھر رہی تھی۔ تمام عور تیں اور لڑکیاں پیلے اور ہرے رنگ کے لباس زیب تن کیے تھیں مگر وہ سلک کے سفید غرارہ سوٹ میں بہت منفرد لگ رہی تھی۔ ایک قطار میں مہندی کے تھال سجے تھے۔ وہ پاس سے گزر رہی تھی جب پیچھے سے کسی نے پکارا۔ سینے محترمہ ! اس نے پلٹ کر دیکھا۔ آف وائٹ کرتا شلوار میں ایک خوب رو سالڑ کا کھڑا تھا۔ اس نے ہراساں ہو کر ادھر ادھر دیکھا۔ اماں بھی نجانے کہاں مصروف تھیں۔ محترمہ ! آپ کے دوپٹے نے آگ پکڑلی ہے۔ اس نے پلو اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا جو شعلے کی زد میں تھا۔ زمین پر پڑے کسی تھال میں جلتی موم بتی نے دوپٹے کے کونے کو پکڑ لیا تھا۔ اس لڑکے نے نہایت احتیاط سے پلو کو چٹکی سے پکڑا اور پھر دوسرے ہاتھ سے نکال دیا۔ آگ بجھ گئی۔ اس نے وحشت زدہ ہو کر پلو اس کے ہاتھ سے چھڑایا اور دور بھاگ گئی۔ پھر سارے فنکشن میں دو کالی آنکھیں اس کا سکھ چین برباد کرتی رہیں۔ گھر آکر بھی اس کا دل عجیب سا شور کرتارہا ۔ پھر اماں حیران رہ گئیں جب وہ ولیمے پر بلاچون و چرا جانے کے لیے مان گئی۔ ذرا سادگی سے تیار ہونا ۔ اماں نے نصیحت کی۔ اس نے آسمانی کلر کی میکسی کے ساتھ برائے نام میک اپ کیا کانوں میں سلور آویزے اس کے چہرے کی آرائش کو چار چاند لگارہے تھے۔ وہ ایک کونے میں میں کھڑی کولڈ ڈرنک کے چھوٹے چھوٹےسپ لے رہی تھی۔ جب اسے وہی نظر آیا۔ بلیک ٹو پیس میں آج وہ پہلے دن سے بھی زیادہ شان دار اور سو پر دکھ رہا تھا۔ اس نے موبائل سامنے صوفے پر بیٹھی ایک آنٹی کو تھمایا۔ اس وقت اس کی نظریں اس سے ملیں۔ اس نے جھٹ نظریں جھکالیں ۔ وہ اس کی ادا پر دھیرے سے مسکرایا اور پھر پلٹ گیا۔ جب دولہا دلہن کو سلامی کے لیے اسٹیج پر بیٹھایا گیا تو ادھر بہت رش بڑھ گیا۔ لوگ سلامی دینے اور تصویر بنوانے کے لیے دولہا دلہن کے گرد جمع تھے۔ اماں یوں ہجوم میں جانے سے گھبراتی تھیں کیونکہ ان کو سانس کا مسئلہ تھا۔ انہوں نے اس سے کہا کہ جب رش کم ہو تو وہ لفافہ دولہا کی والدہ کو پہنچادے۔ جب بھیڑ کچھ کم ہوئی تو وہ جھجکتے ہوئے آگے بڑھی۔ عین اسی وقت وہ لڑکا بھی اپنی والدہ کو لفافہ پکڑا رہا تھا۔ اس نے جلدی سے لفافہ دولہا کی والدہ کو تھمایا اور پھر ادھر ادھر دیکھے بنا تیزی سے نیچے اتر آئی۔ پھر سارا وقت اسے یوں لگا جیسے دو آنکھیں کا اس کا تعاقب کر رہی ہوں ۔ گھر آ کر بھی وہ کئی دن تک کھوئی کھوئی رہی ۔ کبھی خود کو ڈانٹتی ڈپٹتی اور کبھی چپکے چپکے مسکراتی نجانے وہ کون تھا۔ اب دوبارہ کبھی ملے گا بھی یا نہیں۔ شاید زندگی کے کسی موڑ پر سامنا ہو تو وہ پہچانے بھی نہ ، بھلا دو سیکنڈ کی ایک آدھ ملاقات کو کون یاد رکھتا ہے۔ لڑکیاں تو پاگل ہوتی ہیں۔ ذراسی ستائشی نظر پر خوابوں کے بڑے بڑے محل بنا لیتی ہیں۔ وہ بھی تو ایک عام سی لڑکی تھی۔ خوابوں ، خیالوں میں رہنے والی مگر خواب بھی کبھی کبھی حقیقت بن کر مہربان ہو ہی جاتے ہیں۔
☆☆☆
اس دن دو پہر کو وہ گھر پر اکیلی تھی۔ اماں شاید پڑوس میں گئی تھیں۔ گیٹ پر بیل ہوئی۔ اس نے جھانکا تو باہر کو ریئر والا کھڑا تھا۔ اس نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا۔ وہ ایک لفافہ اس کی جانب بڑھا کر تیزی سے موٹر سائیکل اڑاتا ہوا نکل گیا۔ ایڈریس تو اس کے گھر کا ہی لکھا تھا۔ وہ لفافے کو الٹ پلٹ کر دیکھ ہی رہی تھی جب عین اسی وقت مبین اندر داخل ہوا۔ چچا جان کے لیے ٹفن پیک کر دیں۔ وہ اس کے ہاتھ میں تھامے لفافے کو عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ شاید یونیورسٹی والوں نے رول نمبر سلپ بھیجی ہے۔ اس نے خواہ مخواہ وضاحت کی اور پھر لفافہ تھاے اندر بڑھ گئی۔ اس نے مبین کو ٹفن پیک کر کے تھمایا۔ پھر اپنے کمرے میں جاکر لفافہ کھولا۔ اندر چھوٹا سا خط تھا جس نے اس کی دنیا اتھل پتھل کر دی۔ لکھا تھا۔ میرا نام سلطان ہے۔ مگر میں آپ کا نام نہیں جانتا۔ بس اتنا کہوں گا کہ آپ جو کوئی بھی ہیں آپ کو اس دن شادی میں دیکھا تو دل ہار بیٹھا تھا۔ یقین مانیں پہلی بار ہارا ہوں اور اب اپنے دل کی ہی نہیں اپنے گھر کی مکین بھی بنانا چاہتا ہوں۔ ہوٹل میں لفافے پر آپ کا ایڈریس نوٹ کر لیا تھا۔ ہے تو یہ غیر اخلاقی حرکت مگر معذرت خواہ ہوں اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ پہلے بھی دو بار آیا تھا ۔ آنٹی نے دروازہ کھولا تو ۔ ایڈریس غلط ہے۔ کا بہانہ بنا کر پلٹ گیا۔ خوش نصیبی سے آج آپ سامنے آئیں۔ موبائل نمبر لکھ دیا ہے۔ میں تین دن تک انتظار کروں گا۔ اگر آپ کی جانب سے خاموشی رہی تو میں بھی اپنے دل کو سمجھالوں گا کہ شاید پہلی محبت میرے نصیب میں نہیں ہے۔ اللہ حافظ تین دن میں یہ خط اس نے کوئی تین سو بار پڑھا مگر پھاڑ کر پھینکنے کی جرات نہ کر سکی۔ آخر شام میں اس نے کال ملاہی لی۔ پہلی بیل پر ہی فون اٹھالیا۔ سلطان سے بات کر کے اس کے تمام خوف اڑن چھو ہو گئے۔ وہ بہت سچا اور کھرا انسان تھا۔ اس نے دو ٹوک الفاظ میں بتایا کہ وہ افیئر چلانے کے چکروں میں بالکل نہیں ہے۔ وہ سیدھا سیدھا اپنے گھر والوں کو رشتے کے لیے بھیجے گا۔ وہ ابھی تک ایسا کر بھی گزرتا مگر پہلے عاشی کی رائے لینی بھی ضروری تھی۔ وہ محبت میں بھی دوسرے فریق کی رضامندی کے احترام کا قائل تھا اگر وہ رابطہ نہ کرتی تو بھی مشکل سے ہی سہی مگر دل میں محبت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیتا۔ پھر عاشی نے حیران ہو کر پوچھا کہ آخر اسے پہلی نظر میں اسے کیا اتنا اچھا لگا کہ اس نے اس کی ہمراہی کا فیصلہ کیا۔ سادگی اور معصومیت اس کا جواب دو ٹوک
تھا۔ پھر اس نے بھی اس سے پوچھا کہ اسے بھی ا س کی کس بات نے متاثر کیا جو اس نے تعلق جوڑنا چاہا۔ عاشی کا جواب بھی واضح اور دوٹوک تھا۔ سلطان ! تمہارے لفظوں کی تصنع سے پاک سچائی نے، زمین و آسمان کے قلابے ملاتے وعدے وعید کے بغیر محبت کے اظہار نے میری رائے کو عزت دینے اور اور . بس اتنا کافی ہے عاشوا! وہ گھمبیر لہجے میں بولا۔ سلطان کا تعلق بھی اس کی طرح ایک مڈل کلاس فیملی سے تھا اس کے باپ کا چھوٹا سا موٹر سائیکلوں کا شو روم تھا۔ یوں تو اس نے انجینئر نگ پڑھی تھی۔ مگر ملک میں جو نوکریوں کا حال تھا تو اسے بھی مستقبل میں غالباً ابا کی دکان ہی سنبھالتی تھی۔ گھر میں ماں باپ کے علاوہ اس کی دو چھوٹی بہنیں تھیں۔ جن میں سے ایک کی نسبت طے تھی دوسری کا مسئلہ کچھ اٹکا ہوا تھا۔ اس بے چاری کی تعلیم کم تھی اور شکل وصورت بھی واجبی سی تھی۔ بس اس کے لیے بھاگ دوڑ کی جارہی تھی۔ اس کے بعد راستہ صاف تھا۔ اس کی اماں نے اسے مکمل اختیار دے رکھا تھا کہ وہ اپنی پسند سے اپنی جیون ساتھی کا انتخاب کر سکتا ہے۔ مگر فی الحال وہ دونوں بیٹیوں کو ٹھکانے لگانا چاہ رہی تھیں۔ وہ ہوتا ہے نا ماؤں کو عدم تحفظ کہ اکلوتے بیٹے کو پہلے نہیں بیاہنا کہ کہیں ہاتھوں سے نہ نکل جائے۔
☆☆☆
وہ سلطان کی محبت میں سرشار اور آسودہ سی رہتی۔ وہ بالکل بھی ڈیمانڈنگ نہیں تھا۔ نہ کبھی ملاقات کی خواہش نہ بار بار رابطے پر اصرار اور نہ ہی کوئی تصویر وغیر ہ سینڈ کرنے کی فرمائش اس نے خود ہی ایک آدھ بار کہا تھا سلطان اپنی کوئی تازہ ترین پک تو بھیجو تو وہ ہنس دیا۔ شکل دیکھ کر کیا کرو گی عاشو ! دل سے دل کی راہ ملی ہوئی ہو تو صورتوں کو تکنے میں کیا رکھا ہے۔ وہی ناک ہے۔ وہی آنکھیں ہیں کان ہے وہی اچھا بس بس ۔ وہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتی۔
☆☆☆
امتحانات قریب آچکے تھے ۔ آج وہ سب سارہ کے گھر آخری بار جمع ہو رہی تھیں۔ اس نے اپنا نیالان کا کرتا شلوار پہنا۔ گیراج سے گزرنے لگی اچانک اوپر سے گدلے پانی کی بوچھاڑ نے اسے بھگو دیا۔ اس نے غصے سے اوپر دیکھا تو مبین پانی والی ٹنکی صاف کر رہا تھا۔ بتا نہیں سکتے تھے۔ مارے صدے کے اس کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں۔کیا ہوا ہے ؟ اماں باہر آئیں ۔ یہ دیکھیں میرے کپڑوں کا حشر آخر اسے کب عقل آئے گی ؟ وہ روہانسی ہو رہی تھی۔ تمیز سے بات کرو میں نے ہی اسے کہا تھا کہ ٹنکی صاف کر دے۔ مگر اب میں سارہ کے گھر کیسے جاؤں وہ کھا جانے والی نظروں سے اوپر بھیگی بلی بنے مبین کو دیکھ رہی تھی۔ صرف دو پٹہ ہی تو بھیگا ہے۔ لاؤ میں دھو کر ڈرائی کر دیتی ہوں ۔ اماں نے اس کو ٹھنڈا کرنا چاہا تو وہ پاؤں پٹختی اندر چلی گئی۔
☆☆☆
کب امتحانات آئے اور کب گزر بھی گئے پتابھی نہیں چلا ۔ اب وہ فارغ تھی۔ اماں نے اس کے لیے رشتہ مہم بھی تیز کر دی تھی۔ سلطان سے اس کا بدستور رابطہ تھا۔ اس کی دوسری بہن کا رشتہ طے ہو چکا تھا۔ عنقریب دونوں کی شادیاں تھیں۔ پھران کی منزل بھی قریب تھی۔
☆☆☆
اس دن وہ اپنا لیپ ٹاپ کھولے بیٹھی تھی جب اماں کچھ کا غذ ہاتھ میں تھا لے چلی آئیں۔ عاشی ! یہ داخلہ فارم تو فل کر دو اور ساتھ ہی اپنی بی۔ ایس کی بکس بھی ڈھونڈ دو۔ وہ کیوں اماں ..؟ وہ اپنا مبین پڑھائی شروع کر رہا ہے۔ تمہارے ابا کا خیال ہے کہ اسے اپنی تعلیم بھی مکمل کرنی چاہیے۔ اچھا ! اس نے فارم پر سرسری سی نظر ڈالی۔ میٹرک اور ایف اے میں نمبر تو اچھے لے رکھے ہیں اس نے ۔ وہ کچھ حیران ہوئی۔ ہاں بچہ تو لائق تھا۔ بس ماں مرگئی تو باپ دوسری بیوی بچوں میں پڑ کر غافل ہو گیا۔ وہ تو اس کا چچا ایک ہوٹل میں ڈیلوری بوائے بھرتی کروانے گیا تھا۔ تمہارے ابا بھی مل گئے وہاں اتفاق سے انہوں نے کہا خاندان کا بچہ ہے۔ میرے پاس چھوڑ دو۔ دوکان کا حساب کتاب دیکھ لے گا۔ اب دیکھو دوکان کے ساتھ ساتھ گھر کے بھی کتنے کام دیکھ لیتا ہے ۔ امان کے لہجے میں ستائش تھی۔ وہ لا پروائی سے فارم فل کرنے لگی۔
☆☆☆
پھر ایک شام سلطان کا میسج آیا کہ اس کی ماں نے اس سے شادی کی بات کی تو اس نے اس کے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے۔ اور انہیں کوئی اعتراض بھی نہیں ہے اور اب وہ چند دن تک رشتہ لانے والی ہیں۔ وہ خوشیوں کے ہنڈولے میں جھولنے لگی۔
☆☆☆
پھر چند دن تو کیا ایک ایک کر کے کئی دن گزر گئے۔ کوئی نہ آیا۔ وہ روز انتظار کرتی ، روز مایوس ہوتی۔ سلطان کا موبائل بھی مستقل بند جا رہا تھا۔ آپ کے مطلوبہ نمبر سے رابطہ ممکن نہیں ہے کے الفاظ اس کے کانوں میں سیسہ گھولتے۔ ایک خوفناک انکشاف اس کے سامنے تھا اور وہ نظریں چرا رہی تھی۔ کیا وہ بھی محبت کے نام پر دھوکا کھا چکی ہے۔ یہ فریب اس کے نصیب میں لکھا تھا۔ ایڈریس اس کے پاس موجود تھا۔ دل چاہتا تھا کہ گھر جا کر اس کا گریبان پکڑے مگر کس حیثیت سے؟ کسی رشتے سے؟ جگ ہنسائی کے سوا کیا ملتا ۔ سچ کہا ہے کہ محبت کی حیثیت رشتے سے ہوتی ہے اور وہ بھی یہی کہا کرتا تھا جو رشتہ بناتے بناتے پلٹ گیا۔ اماں نے ایک آدھ بار اس کی اداسی کا سبب پوچھا بھی تو اس نے رزلٹ کی ٹینشن بتا کر مطمئن کر دیا۔ اس دن وہ سالن بنانے لگی تو گھی نہیں تھا۔ اس نے اماں سے کہا کہ مبین سے کہیں گھی لا دے۔ اب وہ یہاں کہاں ہوتا ہے۔ یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے چکا ہے۔ اپنی پڑھائی کرتا ہے۔ ساتھ پارٹ ٹائم جاب بھی کر رہا ہے۔ تمہارے ابا تو خرچا اٹھانے کے لیے تیار تھے مگر وہ خود دار بچہ ہے نہیں مانا۔ اماں بتا رہی تھیں تو اسے بھی احساس ہوا کہ اس نے کئی دن سے مبین کو گھر میں دیکھا ہی نہیں تھا۔ اپنی گم سم کیفیت کی وجہ سے وہ اس کی غیر موجود گی سے لاعلم رہی۔ پھر اس نے محلے کے ایک بچے سے گھی منگوالیا۔
☆☆☆
ڈھیر سارے دن مزید سرک گئے۔ ایک اد اس کی شام اچانک اس کے موبائل پر سلطان کی کال آنے لگی۔ ہیلو! کیسی ہو؟ اس کی تھکی تھکی آواز سنائی دی تو وہ پھٹ پڑی۔ جو اس کے منہ میں آیا وہ بولتی چلی گئی۔ وہ چپ چاپ سنتا رہا۔ جب وہ تھک کر خاموش ہوئی تو فقط اتنا بولا۔ میں کہیں مصروف تھا۔ اب یہ بتانے کے لیے فون کیا ہے کہ شام میں امی ابو آ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی فون بند ہو گیا۔ اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اس کی سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ اماں کو کیسے بتائے جب گیٹ پر بیل ہوئی۔ اس کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ اماں نے اسے گیٹ کھولنے کے لیے کہا تو وہ نروس سی دروازے تک گئی۔ اللہ کرے وہ نہ ہوں۔ حلیہ بھی اتنا ابتر ہے۔ مگر سامنے وہی دونوں تھے۔ انکل کی شکل سلطان سے بہت مل رہی تھی اور آنٹی کو تو اس دن اس نے ہوٹل میں دیکھے رکھا تھا۔ وہ دل ہی دل میں سلطان کو صلواتیں سناتی انہیں ڈرائنگ لے آئی۔ دونوں میاں بیوی نے نہایت مہذب طریقے سے اس کا رشتہ طلب کیا۔ سلطان کی امی نے ان دونوں کی محبت کی کہانی کو بیچ میں لائے بغیر اماں سے کہا کہ انہوں نے ان کی دوست کے بیٹے کی شادی پر عاشی کو دیکھا تھا تو فوراً ہی اپنے بیٹے کے لیے پسند کر لیا تھا مگر اس وقت ان کا بیٹا زیر تعلیم تھا اور وہ اپنی بچیوں کے لیے راشتے ڈھونڈ رہی تھیں۔ اب فارغ ہیں۔ تو اسی سلسلے میں آئی ہیں۔ اماں کو ان دونوں میاں بیوی کی انکساری اور سادگی بہت بھائی۔ بیٹے کے والدین ہونے کی وجہ سے کوئی غرور اور اکثر ان کے رویے میں دکھائی نہیں دی۔ جاتے جاتے وہ اپنے ہاں آنے کی دعوت دے گئے۔
☆☆☆
اس کا تو مانو خوشی سے برا حال تھا۔ مگر سلطان نجانے کیوں فون بند کر کے بیٹھا تھا۔ شاید اس دن اس کی بکو اس کا برا مان گیا تھا۔ کوئی بات نہیں وہ بعد میں اسے منالے گی۔ اماں ابا نے جمعہ کے روزان کے ہاں جانے کا پروگرام طے کیا۔ اگلے دن اباکوکسی ضروری کام سے بینک جانا تھا۔ مبین انہیں لینے آیا تو وہ اسے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ وہ تو سرتا پا بدل چکا تھا۔ جدید تراش خراش کا کرتا شلوار، نیا ہیئر کٹ تعلیم نے اس کے چہرے کو ایک اعتماد سا بخش دیا تھا۔ ویسے تو اس نے اسے کبھی درخور اعتنا نہیں جانا تھا۔ مگر آج چونکہ وہ اس سے متاثر بھی ہوئی تھی اور اس کا موڈ بھی اچھا تھا اس لیے چہک کر بولی۔ واہ مبین تم تو بالکل بدل گئے۔ شکر ہے اب تو گلابی جوڑا بھی نہیں پہنا ہوا ۔ وہ بھی بغیر شرمائے جنتے ہوئے اعتماد سے بولا۔ گلابی جوڑے تو سارے آنٹی نے کام والی کے شوہر کو دے دیئے تھے۔
☆☆☆
اماں ابا گئے تو خوش خوش تھے مگر واپسی پر بہت خاموش سے لگے۔ خاص طور پر اماں بہت بجھی بجھی تھیں۔ انہوں نے کوئی تبصرہ ہی نہیں کیا۔ اب وہ خود سے پوچھتی کیا اچھی لگتی۔ پھر اس نے سوچا کہ شاید اماں ابا کسی بہت زیادہ خوش حال خاندان کی توقع کر رہے تھے جبکہ سلطان والے تو ان کی طرح مڈل کلاس تھے۔ رات کو وہ چائے دینے گئی تو اماں ابا آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے۔ لوگ تو بہت اچھے ہیں۔ نہایت شریف اور سلجھے ہوئے ہیں۔ لڑکا بھی اچھا ہے۔ برسر روزگار بھی ہے۔ مگر ابا کی آواز سنائی دی۔ ہاں عاشی کے ابا بات تو پھر وہی ہے۔ ہماری چاندر ستاروں سی بیٹی ہے۔ اب کوئی جوڑ بھی تو ہو۔ لوگ کیا کہیں گے۔ہیں۔ اس پر حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ کیا ان لوگوں کو سلطان پسند نہیں آیا تھا۔ کہیں غلطی سے کسی اور کو تو نہیں دیکھ لیا۔ پھر اسے یہ یاد کر کے ہنسی آگئی کہ اماں ہر وقت یہی کہتی رہتی میں کہ وہ اپنی پیاری بیٹی کو شہزادوں جیسے لڑکے سے بیا ہیں گی ۔ اب شاید سلطان ان کی پسند کے معیار پر پورا نہیں اترا تھا۔ حالانکہ وہ اچھا خاصا ہینڈ سم تھا۔ یا شاید اسے ہی محبت میں اتنا خوب رو دیکھتا تھا۔ وہ اسی گومگو میں تھی جب شام میں سلطان کی کال آگئی۔ سلطان ! پتا نہیں اماں ابا اتنے خاموش کیوں ہیں؟ اس نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔ مجھے اندازہ تھا۔ وہ اداسی سے ہنسا۔ پھر اچانک بولا ۔ عاشی ! کل کہیں ملیں اس نے ایسی فرمائش پہلے بھی نہیں کی تھی۔ وہ تو ایسی ملاقاتوں کو اچھا ہی نہیں سمجھتا تھا۔ وہ بھی چاہنے کے باوجود انکار نہ کر پائی۔ دہ مقررہ وقت پر ریسٹورنٹ پہنچی۔ وہ اس سے پہلے موجود تھا۔ ٹیبل کا رخ دوسری جانب تھا۔ اسے اس کی پشت نظر آ رہی تھی۔ وہ سہج سہج کر قدم اٹھاتی گھوم کر سامنے آئی۔ سلطان ؟ اس نے ترنت اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی بے ساختہ چیخ کا گلا گھونٹا۔ سامنے سلطان تو نہیں کوئی اور شخص بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے کا ایک حصہ نجانے جلا ہوا تھا یا مسخ ہو چکا تھا۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ صرف آنکھیں وہی تھیں کالی… گھور کالی اس کے اپنے نصیبوں کی طرح کالی۔ یہ کیا ہو ا سلطان؟ وہ اس کے سامنے کرسی پرڈھے سی گئی۔ دو مہینے پہلے ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ زیادہ چوٹیں تو تو نہیں آئیں مگر موٹر سائیکل کی ٹینکی میں پٹرول فل بھرا تھا تو اس میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ چہرہ زیادہ متاثر ہوا۔ وہ بتا رہا تھا مگر وہ صدمے سےگم صم سنے گئی۔ اسے دیکھنے کی تو تاب ہی نہیں رہی تھیں۔ دونوں کے درمیان خاموشی کی چادر تنی رہی۔ لفظ گونگے ہو چکے تھے۔ کافی دیر بعد وہ ہمت کر کے جانے کے لیے اٹھی۔ وہ باوجود کوشش کے بھی ایک حرف اس کو تسلی یا امید کا نہ کہہ سکی۔ جب وہ جا رہی تھی تو سلطان ہمت کر کے صرف اتنا کہہ سکا۔ عاشی ! خود کو کسی بھی فیصلے کے لیے مجبور نہ کرنا اس کے الفاظ عاشی کے علاوہ کچھ فاصلے پر موجود کسی اور نے بھی سنے تھے۔
☆☆☆
پھر اماں ابا کے ساتھ وہ بھی خاموش اور گپ چپ سی ہو گئی۔ ایک شام اداسی سے اپنے ناخن کتر رہی تھی جب اماں اس کے پاس آبیٹھیں۔ عاشی بیٹا ! مبین کے چچا نے بھی تمہارے لیے اس کا رشتہ ڈالا ہے ۔ اس نے زخمی نظروں سے ماں کو دیکھا۔ وہ مبین کے بارے میں اس کے خیالات سے آگاہ تھیں۔ بیٹا ! اب وہ پہلے والا مبین نہیں رہا۔ بہت بدل گیا۔ ہے۔ پھر گھر کا دیکھا بھالا لڑکا ہے۔ تمہارے ابو بھی رضا مند ہیں ۔ وہ نجانے کیا کیا کہہ رہی تھیں۔ اس کے دل و دماغ میں تو عجیب سی جنگ ہو رہی تھی۔ قدرت نے یہ اس کے ساتھ کیسا مذاق کیا تھا۔ یہ کیسی آزمائش تھی۔ محبت کرنے والے دعوے تو بہت کرتے ہیں کہ تو دوسرے – ہم تو ایک دوسرے کی روح سے پیار کرتے ہیں۔ شکلوں صورتوں میں کیا رکھا ہے مگر جب وقت آتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ وہ اسی ادھیڑ بن میں تھی جب ویک اینڈ گزار نے مبین چلا آیا۔ اس نے اس پر ذرا گہری نظر ڈالی ۔ وہ واقعی بہت زیادہ بدل چکا تھا۔ گھر میں اب دبی دبی زبان میں اس کے اورکہیں رشتے کی بات چل رہی تھی۔ اس نے نہ تو واضح اقرار کیا تھانہ انکار شش پنج میں تھی۔ صبح اماں کا بی پی لو ہو گیا تو انہوں نے اسے کہا کہ وہ مبین کو ناشتہ بنا دے۔ اس نے ناشتہ بنا کہ آواز دی مگر وه شاید مصروف تھا۔ کافی دیر بعد وہ خود ہی ٹرے میں ناشتہ لیے دروازے تک آئی۔ ابھی اندر جانے ہی لگی تھی جب وہ فون پر غالباً اپنے چچا سے باتیں کرتا سنائی دیا۔ اپنا نام سن کر ٹھٹک گئی۔ چچا جان ! میں کب کہہ رہا ہوں کہ عاشی اچھی لڑکی نہیں ہے۔ وہ تو بہت اچھی لڑکی ہے۔ مگر چچا جان وہ تو کسی اور کو پسند کرتی ہے۔ میرا تو خیال تھا کہ وہ خود ہی آگے بڑھ کر انکار کر دے گی۔ مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ چچا جان ! ساتھی تو ہر حال میں ساتھ نبھانے والا ہوتا ہے۔ راستہ بدلنے والے لوگ مجھے پسند نہیں۔ اس کی باتیں سن کر اس کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔ وہ اس کی خاموشی کو نجانے کیا سمجھا تھا۔ شاید وہ اس کی اور سلطان کی کہانی کو جانتا تھا۔ اس دن ہوٹل میں بھی وہی موجود تھا۔ اس نے نکلتے وقت اس کی جھلک دیکھ لی تھی۔ وہ ٹرے اٹھائے سیدھی اس کے سامنے جا پہنچی۔ تمہیں کسی نے کہا کہ میں راستہ بدلنے جا رہی ہوں ۔ اس نے کڑے تیوروں سے اسے گھورا وہ بھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بے خوفی سے دیکھتا رہا۔ اس کا مزید پارہ چڑھ گیا۔ ایک آدھ بار تم سے ہنس کر جو بات کر لی تو تم سمجھے کہ میں تم پر فریفتہ ہو چکی ہوں۔ میرا راستہ آج بھی وہی ہے جو پہلے تھا۔ وہ کھڑاک سے دروازہ بند کر کے باہر نکل گئی۔
☆☆☆
اماں ! مجھے سلطان سے ہی شادی کرنی ہے۔ اگلے دن اس نے ٹھوس لہجے میں کہا۔ بیٹا ! تم نے اسے دیکھا ہوا نہیں ہے اس ۔ لیے کہہ رہی ہو۔ اماں ! میں نے اسے دیکھا ہوا ہے پہلے بھی اور اب بھی ۔ کچھ بھی چھپانا بے کار تھا۔ اس نے الف سے لیے کریے تک تمام کہانی سنا دی۔ جب خاموش ہوئی تو اماں اس کے دونوں ہاتھ تھام کر دھیرے سے بولیں۔ عاشی جانو! بے شک سلطان اپنی ذات میں ایک ہیرا ہے۔ مگر ہم بھی انسان ہیں اور اسی دنیا اور معاشرے میں رہتے ہیں جذباتی فیصلہ نہ کرو تم تھک جاؤ گی۔ میری بچی ٹھیک کہا اماں آپ نے کہ ہم بھی انسان ہیں۔ مگر خلوص ، وفا جیسے الفاظ بھی ہم دونوں کے لیے بنے ہیں۔ آپ فکر نہ کریں۔ میں راستہ بدلنے والوں میں سے ہوں اور نہ پلٹ کر دیکھنے والوں سے۔
☆☆☆
ساحل سمندر پر گلابی سی شام اتر رہی تھی۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے فضا کو خوشگوار بنار ہے۔ ابھی کل ہی تو ویک اینڈ تھا۔ اس لیے آج رش برائے نام تھا۔ وہ دونوں ایک چٹان کی آڑ میں پاس پاس بیٹھے تھے۔ کچھ فاصلے پر ان کے دونوں بچے ریت سے کھیل رہے تھے۔ عاشی کی زلفیں اڑ اڑ کر سلطان کے کندھے کو چھورہی تھیں۔ ہائے اللہ ! میں کیچر لانا بھول گئی۔ اس نے انہیں سمیٹتے ہوئے سلطان کے چہرے کو محبت پاش نظروں سے دیکھا۔ ہر بار دیکھنے پر اس کا نرم خو چہرا اسے وہی سکون اور خوشی دیتا تھا جو اس کو اندر تک سر شار کر دیتی تھی۔ اب تو کئی اپریشنز کے بعد اس کا چہرہ پہلے سے کافی بہتر ہو گیا تھا مگر بالکل پہلے والا تو نہیں ہو سکتا تھا۔ اسے کوئی ملال بھی نہیں تھا۔ وہ بہت خوش تھی۔ دنیا والے ان کو دیکھ کر عجیب سے کمنٹ پاس کرتے دکھی کر دینے والے اور اذیت ناک مگر اسے کوئی پروا نہیں تھی اور نہ اس نے کبھی سلطان کو کرنے دی تھی۔ اماں نے ٹھیک کہا تھا۔ سلطان واقعی ہیرا تھا۔ اماں نے بھی بھانپ لیا تھا اور پھر اس کے فیصلے کی زیادہ مخالفت نہیں کی تھی۔ آج وہ اپنی جنت میں خوش تھی۔ چلیں ! سلطان نے محبت سے کہا۔ وہ اس کے بازو کا سہارا لے کر اٹھی۔ سلطان نے دونوں بچوں کو پکارا اور وہ سب اپنی گاڑی کی سمت چل دیئے۔ جب وہ نکل رہے تھے تو مبین بھی ایک ماڈرن سی لڑکی کا ہاتھ تھا مے اندر آ رہا تھا۔ اس خوش باش فیملی کو دیکھ کر اس نے جوش و خروش سے ہاتھ لہرایا۔ جوابا انہوں نے بھی ہاتھ لہرائے۔ سب کو اپنے اپنے نصیب کامل چکا تھا۔ اور ہر کوئی اس سے خوش تھا۔ وفا اور خلوص کبھی رائیگاں نہیں جاتے ۔ یہ وقت نے ثابت کر دیا تھا۔
☆☆