- Admin
- #1
Offline
بر طرف مکمل خاموشی کا عالم تھا سورج اپنی پوری آب و تاب آگ برسا رھا تھا گرمیوں سے کی اس گرم دوپہر میں جب لوگ اپنے گھروں میں دیکے
سکون کی گہری نیند سو رہے تھے
قسمت کا مارا روفی چھت کے ایک کونے پر لیٹا اپنی قسمت کو کوس رھا تھا واہ کیا قسمت تھی جو اسے آج اسے اس موز پر لے آئی تھی کہ آج وہ اپنے تمام خدشات اور شکوک
وشبہات کو دور کرنے کا پختہ ارادہ کرچکا تھا
اسے شدت سے نائلہ کے چھت پر آنے کا انتظارتھا وقت کافی بیت چکا تھا اور یوں لگ رہا تھا کہ آج وہ ہو سکتا ہے نہیں آئے گی پھر نیچے سیڑھیوں پر کسی کی آہٹ سنتے ہی اسے لگا
کہ اس کا انتظار رائیگاں نہیں گیا
چھت کی سیڑھیوں کے دروازے سے نمودار ہوتی نائلہ دیے قدموں چھت کے سرے پر واقع پانی کی ٹینکی کی طرف بڑھ رہی تھی کافی عرصے سے اسے یہ شک پوچلا تھا
کہ نائلہ کا پڑوس میں کسی سے کوئی چکر چل رہا ہے پہلے پہل تو اس نے اس کو اپنا وہم جانا اور اپنی سوچ کو انتہائی لغو تصور کیا مگر پھر نائلہ کو بزی با قاعدگی سے بے مقصد چھت پر جاتے دیکھا تو اسے بھی کھد بد رہنے لگی نائلہ کی شوخ اور بے باک طبیعت کا
تو اندازہ تھا مگر شک کرنے پر بھی دل آمادہ نہ ہوتا
آخر مجبور ہوکر سارے معاملے کی کھوج لگانے کا فیصلہ کیا اس وقت بھی چلچلاتی دھوپ میں وہ پسینے سے شرابور چھپ کر چھت پر تاک لگائے بیٹھا تھا نائلہ کو چھت پر آئے کچھ دیر ہوچلی تھی اور ہے
سکونی کے ساتھ ٹہلتے ہوئے کسی کا انتظار اس کے چہرے پر صاف عیاں تھا روفی کوبھی اس کی طرح اب کسی دوسرے مردکی آمد کا انتظارتھا
سکونی کے ساتھ ٹہلتے ہوئے کسی کا انتظار اس کے چہرے پر صاف عیاں تھا روفی کوبھی اس کی طرح اب کسی دوسرے مردکی آمد کا انتظارتھا
اس کی نگاہیں چھت پرہی لگی ہوئی تھیں پر کافی دیر سے چھپ کر اس طرح الٹا لیٹے روفی کو اکتابت ہو رہی تھی
تھکاوٹ اور گرمی سے اس کے اعصاب ڈھیلے پڑتے جارہے تھے
اپنے اندیشے بھی بے بنیاد ثابت ہوتے دکھائی دے رہے تھے پھر اس کی سوئی ہوئی حسیات جاگنے لگیں اور رگوں میں خون کی گردش تیز ونے لگی دوسرا فریق بھی اب ظاہر ہوچکا تھا
اسے دیکھ کر روفی کو شدید حیرت نے آ لیا تھا اس کا خیال تھا کہ نائلہ کا اڑوس پڑوس کے کسی نوجوان سے آنکھ متکا چل رہا ہوگا مگر اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ وہ اس وقت برابر والی چهت پر خضر انکل کو دیکھے گا
روفی کو خضر انکل سے برگز ایسی امید نہیں تھی اس کی جوانی اور عمر سے کئی گنا بڑے مرد سے بھی چکر ہو سکتا تھا تو ان کے بچے تھے پھر ان دو گھروں کے اہل خانہ میں راہ وسم بھی کافی پرانا تھا
بڑا ہونے کے ناطے وہ ان کی عزت بھی بہت کرتا تھا اور
پڑوسی ہونے کے وجہ سے کچھ بے تکلفی بھی تھی گھر پر کوئی بڑا نہ موجود ہونے کی وجہ سے وہ اگر اوقات مختلف امور میں اس کی مدد بھی کرتے رہتے تھے
یہ تواسے معلوم تھا کہ پچاس سے اوپر کے ہونے کے باوجود محلہ کی بہت سی عورتیں ان
کی شاندار شخصیت اور مردانہ وجابت پر مرتیں تھیں ان کا اونجا قد کاٹھ اور مظبوط کسرتی جسم اس عمر میں بھی اچھے اچھے جوانوں کو حسد میں مبتلا کردیتا تھا
بڑی میچور عمر کی عورتیں تو ایک طرف بہت سی جوان لڑکیاں بھی دل وجان سے ان پر
بڑی میچور عمر کی عورتیں تو ایک طرف بہت سی جوان لڑکیاں بھی دل وجان سے ان پر
فدا تھیں یہ بھی اس کو اندازہ تھا کہ بہت سی حسین لڑکیوں کو تو وہ فیض یاب بھی کرچکے ہیں
بہر حال اپنی بڑی آپی کو خضر انکل کے لیے بے تاب دیکھ کر روفی کو دکھ اور افسوس نے آلیا انیس برس کا خوبرو مگر سیدھا سادھا روفی گھر میں
سے سب سے چھوٹا اور کالج کے دوسرے سال میں تھا
ماں باپ تو بچپن میں گزر گئے تھے، ایک بڑا بھائی تھا جو روزگار کے لیئے بیرون ملک مقیم تھا گھر کے کل افراد قل وقت دو بڑی بہنوں اور ایک پیاری بهایی پربی مشتمل تھے صحت مند سیکسی جوان بدن اور کی
مالک ستائیس برس کی نائلہ دونوں بہنوں میں بڑی اور
شادی کو تیار بیٹھی تھی
چھوٹی بہن چوبیس سالہ نورین ابھی کالج کے چوتھے سال میں تھی اور بی اے کی تیاری میں مصروف تھی اوپر والے نے دونوں بہنوں کو حسن و جمال سے اس طرح نوازا تھا
کہ ان کی جوانی اور سیکسی ین بہت سے دیکھنے والوں کو مشکل میں ڈال دیتی تھی
شروع جوانی سے ہی اپنے قیامت خیز جوانی پر اٹھنے والی پرستائش نظروں اور پزیرائی نے نائلہ کو شوخ اور بے باک بنادیا تھا اپنی وبصورتی سے بھی واقف تھی اور اپنی
جوانی پر کچھ ناز بھی تھا اس جوانی کے عاشق اور طلبگار تو کئی تھے اور اسکو بھی ان کی توجہ اچھی محسوس ہوتی
مگر وہ بھی ہر کسی کو گھاس نہیں ڈالتی تھی مغرور لڑکی مشہور ہو چکی تھی کالج کے آغاز میں کئی لوگ دوستی اور قربت کے خواہشمند ہوئے تو
اس نے اپنی تمام تر بےباکی کوچند لو لیٹرز کے تبادلے تحفوں نذرانوں کی وصولی اور ایک آدھ خوش نصیب کے ساتھ باہر گھومنے پھرنے تک محودود رکھا
اس نے اپنی تمام تر بےباکی کوچند لو لیٹرز کے تبادلے تحفوں نذرانوں کی وصولی اور ایک آدھ خوش نصیب کے ساتھ باہر گھومنے پھرنے تک محودود رکھا
اس نے کبھی کسی کو چوت کا اصل دیدار تک نا کرایا تھا سب اس کی پھدی لینے کے دعوے
دار تو بن چکے تھے لیکن سچ پوچھیں تو جہاں تک میرا خیال ہے ا سنے پھدی اوپر اوپر سے لن رکھنے کے لیئے بھی نہیں دی ہوگی کیونکہ لڑکی پھدی اگر ایک بار کسی
مرد کے سامنے ننگی کر لے تو پھر اس کو لن لینے سے کوئی نہیں روک سکتا
مرد کے سامنے ننگی کر لے تو پھر اس کو لن لینے سے کوئی نہیں روک سکتا
عورت تما تر شر و حیا کے باوجود بھی لن لینئے نا کالی نہیں لوٹا کرتی یہ الگ بات ہے کہ وہ شلوار نا اتار چکی ہو چوما چاٹی تک رکھا ہو تو چوت دینے سے بچ سکتی ہے تو ادھر بھی معاملہ بھی کچھ اس طرح کا ہی دکھائی دینے لگا تھا لیکن روفی کو اس نائیلہ کی بچی سے کچھ زیادہ ہے وابستی
ہو چکی تھی وہ ا سکی پھدی مارے بنا نہی ٹلنے والا تھا
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔