Offline
- Thread Author
- #1
پیاسی سدرہ باجی
قسط . . . . . پہلی
رائیٹر . . . علی جی شیخ
کبھی کبھی زندگی بھی بڑے بڑے امتحان میں ڈال دیتی ہے جس بارے میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا
وہ کر گزرتا ہے یہ کہانی بھی کچھ اس طرح کی ہی ہے جس میں ایک بھائی اپنی ہی بڑی بہن کے ساتھ سیکس کرنے کے لئے راضی ہوجاتا ہے وہ کچھ ایسے مناظر دیکھنے کے بعد کہانی شرو ع کرنے سے پہلے کچھ اپنی فیملی کے بارے میں بتاتا چلوں
میرے گھر چار افراد ہیں
ابو ۔۔ نام انور
عمر 55 سال
سرکاری ملازم ہیں
امی ۔۔ نام سائیرا بانو
عمر 42 سال
ہاؤس وائف ہیں
باجی ۔۔ سدرہ
عمر 24 سال
پڑھائی سے فارغ ہوئی تو ابو نے اسکی شادی کروا دی اسکا شوہر لاہور میں ایک کمپنی میں کام کرتا ہے باجی کی شادی کو 3 سال ہوگئے ہیں مگر اسکا کوئی بچا نہیں ہے معقول سیلری کی وجہ سے 6 7 ماہ بعد 2 دن کے لئے آتا ہے سسرال والوں سے باجی کی بنی نہیں تو وہ ھمارے ساتھ ھمارے گھر میں رہتی۔ ہے
پھر میں ۔ نام وسیم
عمر 20 سال
انٹر میں پڑھ رہا ہوں
میں بچپن سے ہی بھولا بھالا سا لڑکا تھا نہ کسی سے زیادہ ملنا جلنا نہ ہی میرے دوست یار تھے بچپن سے ہی اکیلا رہنے کا عادی تھا اس لئے زیادہ کچھ نہیں تھا پتا دنیا میں کیا چل رہا ہے مگر میری باجی کافی ہوشیار تھی اکیلی کہی بھی چلی جاتی کوئی روک ٹوک نہیں تھی کالج بھی اکیلی جاتی تھی اور واپس بھی اکیلی ہی آتی تھیمیرا ایک کزن رضوان اکثر ھمارے گھر آیا کرتا تھا خاص طور پر جب گھر میں کوئی بھی نہیں ہوتا تو وہ آجاتا تھا میں اسکو اکثر کالج سے واپسی پر گھر سے نکلتے دیکھتا مگر کبھی ایسا ویسا خیال دل میں نہیں آیا ایک دن میں کالج سے جلدی گھر پر آگیا اس دن امی کہی گئی ہوئی تھی اتفاق سے دروازہ کھلا تھا میں جب اندر آیا تو گھر میں خالی لگا ہمارا گھر ڈبل سٹوری بنا ہوا ہے دو روم نیچے ایک اوپر نیچے کے دونوں روم میں جاکر دیکھا مگر وہاں کوئی بھی نہیں تھا مجھے بڑی حیرت ہوئی کے امی اور باجی ایسے کیسے گھر کھلا چھوڑ کر جا سکتی ہیں یہی سوچتا ہوا میں اوپر والے روم میں جانے لگا جب میں روم کے قریب پھنچا تو مجھے عجیب و غریب آوازیں سنائی دی آواز کسی لڑکی کی تھی روم لاک تھا میں نے اندر دیکھنے کیلئے کوئی سوراخ تلاش کرنا شرو ع کر دیا جیسے ہی میں روم کی کھڑکی تک پھنچا جو دوسری سائیڈ پر تھی کھڑکی تو بند تھی مگر اس میں ایک چھید مجھے مل گیا جب میں نے اس چھید پر اپنی آنکھ رکھ کر اندر جھانکا تو۔ سامنے بیڈ پر میرا کزن ننگا کسی پر الٹا لیٹا ہوا اپنی گانڈ اوپر نیچے کر رہا تھا نیچے لڑکی تھی جو یقینن میری باجی سدرہ ہی تھی کیوں کہ میں پورا گھر چھان مارا مگر وہ مجھے کہی دکھائی نہیں دی میں سمجھ رہا تھا رضوان باجی کے ساتھ زبردستی کر رہا ہے تو مجھ سے برداش نہ ہوا اور میں دروازے پر آیا دروازہ زور زور سے پیٹنے لگ گیا اور بولا رضوان آج باہر نکل میں تجھے جان سے مار دونگا دروازہ بجانا میں نہیں چھوڑا غصے اور طیش میں اور زیادہ بجانے لگا جب دروازہ نہ کھلا تو میں بولا کمینے دروازہ کھول ورنہ میں توڑ کر اندر آجاؤں گا میرا اتنا بولنا تھا کے دروازہ کھل گیا مگر جیسے ہی دروازہ کھلا رضوان مجھے دھکا دیتا ہوا وہاں سے بھاگ نکلا دھکا دینے کی وجہ سے میں دور جا گرا جس سے اسکو بھاگنے میں زیادہ آسانی ہوگئی اور وہ تیز رفتاری سے زینا اترتا ہوا میری نظروں سے اوجھل ہوگیا میں نے جلدی سے اٹھ کر اسکے پیچھے بھاگنے کی کوشش کی مگر تب تک وہ گھر سے نکل کر جا چکا تھا
میں واپس روم میں آیا تو باجی کپڑے پہن چکی تھی مگر دونوں ہاتھ منہ پر رکھ کر رو رہی تھی میں باجی کے پاس گیا بولا۔ باجی رو مت میں اس کتے کو نہیں چھوڑونگا اسکی ہمت کیسے ہوئی تمارے ساتھ زبردستی کرنے کی تو باجی روتی ہوئی۔ بولی نہیں بھائی دفع کرو بس تم یہ بات کسی کو مت بتانا ورنہ تماری باجی کی کوئی عزت
نہیں رہے گی اگر تم چاہتے ہو کے تماری باجی زندہ رہے تو اس بات کو یہی دفن کر دو رضوان تو لڑکا ہے لوگ مجھے ہی غلط کہے گے تو میں۔ بولا۔ ٹھیک ہے باجی میں کسی کو کچھ نہیں نہیں بتاؤنگا مگر اب اس حرام کی اولاد کو۔ گھر میں آنے مت دینا تو باجی بولی ہاں بھائی اب وہ گھر نہیں آئے گا میں باجی کے آنسوں صاف کرتا بولا بس باجی رو مت میں بھی اس بات کو بھول جاتا ہوں تم بھی بھول جاؤ تو باجی خوش ہوتی ہوئی بولی تھنکس بھائی تم نے اپنی بہن کی عزت بچا لی اس بات کو گزرے 3 مہینے ہوگئے اسکے بعد رضوان دوبارہ مجھے دکھائی نہیں دیا میرے انٹر کے پیپر چل رہے تھے اسی دوران ایک اولڈ ٹیچر کی ڈیتھ کی وجہ سے پیپر کینسیل کرنا پڑھ گیا تو میں کالج سے سیدھا گھر آگیا گھر آیا تو۔ دروازہ بند تھا کافی دیر بجایا مگر کسی نے بھی نہیں کھولا مجھے غصہ تو۔ بہت آیا میں وہاں سے تھوڑا دور ایک شاپ پر جاکر کھڑا ہوگیا ابھی کھڑے ہوئے 5 منٹ بھی نہ گزرے تھے کے ھمارے گھر کا دروازہ کھلا اندر سے ایک اجنبی لڑکا نکلا جسکو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا وہ لڑکا گھر سے نکل کر بائیک پر بیٹھا اور وہاں سے نکل گیا میں یہ سب دیکھ رہا تھا اس لڑکے کے جانے کے بعد میں گھر گیا جہاں مجھے باجی گھر میں اکیلی ملی مگر وہ ایسے دکھا رہی جیسے کچھ بھی نہیں ہوا مجھے غصہ تو بہت آرہا تھا میں میں . خود پر قابو رکھ کر روم میں چلا گیا اب مجھے اپنی باجی پر شک ہونا شروع ہو گیا تھا کہ ہو نہ ہو اس دن جو کچھ ہورہا تھا وہ سب باجی کی رضامندی سے ہورہا تھا اور میں پاگل یہ سمجھ رہا تھا کے میری باجی تو بڑی معصوم ہے اب مجھے اور زیادہ غصہ آنے لگ گیا اور میں نے سوچ لیا کہ گھر پر نظر رکھا کرونگا خیر دن جیسے تیسے کر کے گزر گیا رات کو کھانا کھانے کے بعد سب سونے کے لئے چلے گئے میری باجی کا کمرہ اوپر والا تھا میں نیچے والے کمرے میں سویا کرتا تھا رات کے 12 بجے میرے دل میں آیا باجی کو دیکھ آؤں کیا کر رہی ہے تو میں روم سے نکل کر اوپر چلا گیا اسی سوراخ سے اندر دیکھا باجی لیٹی ہوئی ہے اسکا ایک ہاتھ شلوار میں ہے اور وہ ابھی چوت کو بری طرح سے مسل رہی ہے باجی کی چوت دیکھ کر میری حالت خراب ہونے لگی باجی نے اپنی دونوں ٹانگیں کھڑی کی ہوئی تھی اور سسكاریاں لیتی ہوئی تیز تیز اپنی چوت میں انگلی چلا رہی تھی یہ منظر دیکھ کر میرا 7 انچ کا لوڑا شلوار میں کھڑا ہوگیا اور درد کرنے لگا مجھے سیکس کے بارے میں اتنا نہیں پتا تھا مگر یہ پتا تھا کہ سیکس ہوتا ہے میں نے آج تک مٹھ تک نہیں ماری تھی جس کی سب سے بڑی وجہ میرا بھولا پن تھا میرا سارا دھیان اندر تھا کہ باجی اٹھ کر بیٹھ گئی جیسے ہی باجی بیٹھی ایک تار لٹک گیا پہلے تو میں نہ سمجھ پایا مگر جب باجی نے ٹانگیں لٹکا کر بیڈ کے کونے پر آئ تو پتا چلا یہ موبائل کی ہینڈ فری ہے یہ مجھے دوسرا جھٹکا لگا کیوں کہ ھمارے گھر میں کسی کے بھی پاس موبائل نہیں تھا ابو کی اتنی امدان نہیں تھی کہ موبائل کا خرچہ اٹھا سکے تو پہلا سوال میرے دماغ میں یہ آیا کے باجی کے پاس موبائل کہاں سے آیا ابھی میں یہی سوچ رہا تھا کہ باجی سرک کر نیچے بیٹھ گئی جس سے باجی کے بوبس مجھے دکھائی دینے لگے میری باجی اتنی موٹی نہیں سمارٹ ہیں سائز 32 ہے پتلی کمر گانڈ سارا سی باہر کو نکلی ہوئی تھی جس سے مجھے بعد میں پتا چلا باجی گانڈ مروانے کا بھی شوق کچھ زیادہ ہی رکھتی ہے میں وہاں کھڑا باجی باجی کے بوبس دیکھ کر اپنا لن مسل رہا تھا آج پہلی بار لن مسلنے کا مزہ لے رہا تھا میرا لن اتنا ٹائیٹ ہوگیا تھا کہ اب درد کرنے لگا تھا باجی اب اپنا ایک مما ہاتھ میں پکڑ کر دبا رہی تھی کہی اپنا نپل مسل رہی تھی دوسرے ہاتھ سے ہینڈ فری پکڑ کر پتا نہیں کس سے بات کرنے میں لگی ہوئی تھی میں نے تھوڑا آنکھ کو سوراخ پر دبایا تو اندر کا پورا منظر نظر آنے لگا اب میری پیاری باجی پوری ننگی میری آنکھ میں قید ہوگئی تھی اور وہ دنیاں جہاں سے بے خبر ہوکر اپنے جسم سے کھیل رہی تھی کبھی اپنا مما دباتی تو کبھی اپنی انگلی چوت میں ڈال کر اندر باہر کرتی میں بھی اب تیزی سے لن مسلنے میں لگ گیا اور خیالوں میں اپنی باجی کو چود بھی رہا تھا جب میرا پانی نکلنے والا ہوا تو میرے منہ سے تیز سیکس بھری اہ نکل گئی میری آواز سنتے ہی باجی ادھر اؤدھر دیکھنے لگ گئی میرا پانی نکلنے کو تھا اور مجھے سے بڑی غلطی ہوگئی تو مجبورن مجھے وہاں سے بھاگنا پڑھ گیا آخری بار میں نے دیکھا باجی اٹھ کھڑی ہوئی اور اسکے چہرے پر ہوائیاں اوڑھ رہی تھی میں وہاں سے نیچے آگیا مجھے پتا تھا اب باجی باہر نکل کر ضرور دیکھے گی جب میں نیچے اتر رہا تھا تب دروازہ ا کھلنے کی آواز آئ میں اپنے کمرے میں آیا پیپر سے فری ہوکر میں جان بوج کر گھر سے باہر جانے ایکٹنگ کرتا اور دیر سے گھر آتا ایک دن میں باجی کی نظروں سے چپ کر کہی چپ کر بیٹھ گیا اماں نے کہی جانا تھا تو وہ کچھ دیر بعد باجی کو دروازہ بند کرنے کا کہ کر چلی گئی اماں کے جانے کے کوئی 20 منٹ بعد دروازہ کھلنے کی آواز آئ تو میں سمجھ گیا رنڈی نے اپنے یار کو چدوانے کے لئے بلا لیا ہے اب میں انتظار میں تھا کب باجی اپنے یار کو لیکر اوپر روم میں جائے تو میں نکل کر چھاپہ ماروں میرے پلان کے مطابق ایسا ہی ہوا باجی اور اس اجنبی کے قدموں کی آواز زینہ چڑھتے سنی 5 منٹ بعد میں وہاں سے نکلا ایک موٹا سا ڈنڈا ہاتھ کر کے اوپر چلا گیا سوراخ سے آنکھ لگا کر دیکھا تو دونوں بیڈ پر بٹہے کسسنگ کر رہے تھے کچھ دیر اور صبر کر کے دیکھتا رہا اب وہ اجنبی شخص اٹھا اور اپنے کپڑے اتارنے لگا جب سارے کپڑے اتار لئے تب میں دروازے پر آیا دروازہ زور زور سے بجانے لگا ساتھ بولتا جارہا تھا تیری ماں کی چوت تو باہر نکل آج تو تجھے جان سے مار دونگا رنڈی کچھ دیر دروازہ پیٹنے کے بعد میں تھوڑا سا دور ہوکر کھڑا ہوگیا کہی پہلے کی طرح اس بار بھی دھوکے سے بہاگ نہ جائے اس نے بھی ایسا ہی کیا اپنے ہاتھ سیدھے کیے روم سے بھاگتا ہوا بہار آیا مگر میں تو پہلے ہی ہوشیاری پکڑ چکا تھا تو جیسے ہی وہ باہر نکلا میں نے ڈنڈے سے اسکی پٹائی شرو ع کر دی وہ روکنے کیلئے ساتھ آگے کرتا تو کبھی ہاتھ تو کبھی اسکی کونی پر ڈنڈا پڑھ جاتا بدحواس تو وہ دروازہ پیٹنے سے ہی ہوگیا تھا اوپر سے میرے وار نے اسکی مت مار دی تھی جب کافی ڈنڈے کھا لئے تو اسنے بھاگنے پر اتفاق کیا اور زینے کی طرف بھاگ نکلا اس دوران بھی میں نے تین چار ڈنڈے زور کے اسکی پیٹھ پر دے مارے جس سے ذینے
پر اسکا پاؤں پھسلا اور وہ لڑکتا ہوا نیچے گر گیا جب تک میں نیچے آیا اسکو بھاگنے کا موقع مل گیا اور وہ جلدی سے دروازہ کھول کر بھاگ گیا مگر اسکو اچھی خاصی سزا مل گئی تھی میں اب واپس اوپر آیا تو باجی روم میں بیٹھی رو رہی تھی جیسے ہی میں اندر گیا باجی بھاگ کر آئ اور میرے پیروں پر گر کر معافی مانگنے لگ گئی کے مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی اس بار معاف کر دو آج کے بعد میں کبھی ایسا کام نہیں کرونگی مجھ پر غصہ سوار تھا میں باجی کو دھکا دے کر بولا رنڈی اتنی ہی آگ لگی ہوئی ہے تو اپنے شوہر کو کیوں نہیں بلا لیتی جو یوں ہماری عزت کیوں خراب کر رہی ہو آنے دو آج ابا کو بتاتا ہوں تمارے سارے کارٹون کرتوت یہ بولنا تھا کہ باجی زور زور سے سسكيا لیتی ہوئی رونے لگی پھر روتے ہوئے بولی تمیں کیا ملے گا ایسا کر کے تم خود اپنی بہن کو بدنام کروگے میں کہہ رہی ہوں اب ایسا کوئی کام نہیں کرونگی آخری بار معاف کر دو اور ادھر اکر ایک بار میری بات سن لو اسکے بعد جو تمارا دل کرے کرنا مگر ایک بار میری کہانی سن لو تو میں بولا بکواس بند کرو جو کچھ میں نے دیکھا ہے اسکے بعد کچھ کہنے کو رہ کیا جاتا ہے پہلے رضوان سے منہ کالا کرواتی رہی اسکے بعد یہ پتا نہیں کون تھا جسکو گھر بلا کر چدواتی رہی اب میرے سامنے معصوم بننے کی کوشش کر رہی ہو مجھے . تو تمیں اپنی بہن کہتے ہوئے بھی شرم آرہی ہے آج تو میں ابو کو بتا کر ہی رہونگا تو باجی پھر سے میرے پیروں پر گر کر معافی ماگنے لگی بولی ایسا مت کرو ابو مجھے جان سے مار دیں گے اس کے علاوہ کوئی اور حل ہے تو وہ نکال لو مگر ایسا مت کرو تو میں غصے سے باجی کو وہی چھوڑ کر روم سے نکل کر نیچے آگیا 1 گھنٹے بعد امی بھی گھر آگئی میں دن کا بنا کھانا کھاے باہر چلا واپس آنے میں دیر ہوگئی تب تک ابو کھانا کھا کر سو چکا تھا امی بھی جا کر ابھی کے پاس سوگئی میں اپنے روم میں چلا گیا اور بیڈ پر لیٹ کر آج کے بارے میں سوچنے لگا غصہ اتنا تھا کہ اب تک کھانا بھی نہیں کھایا باجی نے اچھا نہیں کیا ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ میرے روم کا دروازہ کھلا دیکھا تو سدرہ باجی ہاتھ میں کھانا لئے کھڑی ہوئی تھی میں۔ نے اسکو دیکھ کر اپنا منہ دوسری طرف کر دیا کچھ دیر بعد باجی میرے بیڈ پر آکر بیٹھ گئی
جاری ہےپیاسی سدرہ باجی
قسط . . دوسری
رائیٹر . . علی جی شیخ
باجی میرے پیچھے بیٹھی ہوئی تھی اور مجھے اسکے بدن کی گرمی محسوس ہورہی تھی تو میں ذرا سا سرک کر آگے ہوگیا
تو . باجی بولی وسیم کم از کم میری ایک بار بات تو سن لو اسکے بعد تم جو بھی کہوگے میں تماری ہر بات مانو گی بس بار مجھے اپنی صفائی کا موقع دو مجھے غصہ تھا اور میں کچھ بول نہیں رہا تھا بس دل ہی دل میں باجی کو برا بھلا کہہ اور چاہ رہا تھا کہ باجی یہاں سے چلی جائے باجی اپنی بات جاری رکھتی ہوئی بولی جس سے ابو امی نے میری شادی کروائی ہے وہ نہ یہاں رہتا ہے نہ ہی مجھے اس میں سے وہ لذت ملتی ہے جس کی ہر مرد اور عورت کو ضرورت ہوتی ہے اسکی بڑی وجہ میرے شوہر کا عضو بہت چھوٹا اور پتلا ہے ایک اور بات وہ آتا بھی ہر 6 سے 7 ماہ بعد ہے وہ بھی 2 راتوں کے لئے ہے اب تم بتاؤ کیا میری ضرورت پوری ہو جائے گی ان دو راتوں میں نہیں وسیم کسی بھی لڑکی کی نہیں ہوگی میں کتنا برداش کروں تم نہیں جانتے 2 سال دن رات میں نے کیسے گزارے ہیں اسکے بعد مجبور ہوکر یہ قدم اٹھایا میں سدرہ کی باتیں سن رہا تھا جب وہ بول کر چپ ہوئی تو میں نے کہا تو اس کا مطلب تم ہر اس مرد سے ناجائز تعلق رکھو گی جو جسکو ہم جانتے تک نہیں کیا تمیں امی ابو کی عزت کی ذرا پرواہ نہیں جب انکو پتا چلے گا جیسے مجھے پتا چلا تو کیا گزرے گی انکے دل پر کیا رہ جائے گا ان کے منہ میں کیا وہ سر اٹھا کر چل پائیں گے ؟ میں غصے میں ایک سانس میں سب کچھ بول گیا اور پھر بولا تم چاہتی ہو میں تمارا دلال بن کر تمارے لئے مرد تلاش کرتا پھروں دفع ہوجا یہاں سے مجھ تماری شکل سے نفرت ہوگئی ہے میرا ایسا بولنا تھا کہ سدرہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی میں اسکا رونا نظر انداز کرتا بولا
میرے سامنے یہ ڈرامہ مت کر اگر اتنی ہی فکر ہوتی تو یہ سے پہلے ہماری عزت کی پرواہ کرتی مگر تم نے اپنے نفس کی۔ مانی سدرہ ابھی بھی رو رہی تھی ایک بھائی اپنی بہن کی خوشی کے لئے جان تک قربان کر دیتا ہے مگر میں اسکے رونے کی وجہ بنا ہوا تھا وہ بھی اس کی اپنی غلطی کی وجہ سے نہ وہ اتنا گھٹیا کام کرتی نہ میں ایسا کرتا میرا ضمیر اور غیرت اس بات کو م سے صاف انکاری تھے جب میں بول کر چپ ہوا تو
سدرہ بولی ہاں مانی نفس کی کیوں کہ میں انسان ہوں میری بھی ضرورت ہے مجھے بھی کسی کے جسم کی ضرورت ہے تو میں بولا تو چلی جاؤ اپنے شوہر کے پاس کیا اس کے لئے ضروری ہے تم باہر کسی اور مرد سے رشتہ بنا کر گھر بلا کر اپنا منہ کالا کرواؤ جاؤ چلی جاؤ مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی اتنا کہ کر میں اٹھا اور سدرہ کو بازو سے پکڑ کر روم سے باہر نکال کر دروازہ بند کر دیا اور واپس اکر اپنے بیڈ پر لیٹ گیا کافی دیر ایسے ہی پڑا رہا پھر نہ جانے کس وقت میری آنکھ لگ گئی پیپر کے بعد میں فری تھا تو امی مجھے جلدی اٹھانے نہیں آتی تھی اس بات کو 3 ماہ گزر چکے تھے اس بیچ میں بھائی جان بھی ہوکر چلے گئے تھے مگر میں باجی سے بلکل بھی بات نہیں کرتا تھا اس دوران باجی نے کئی بار بات کرنی چاہی مگر میں نہ اسکو جواب دیتا تھا نہ ہی اسکی طرف دیکھتا تھا امی ابو جب ہوتے اور باجی ساتھ میں بیٹھی ہوئی ہوتی تب میں وہاں جاتا ہی نہیں تھا
کے باجی کو بات کرنے کا موقع ملے گھر میں فارغ تھا تو کلاتھ مارکیٹ میں ایک شاپ پر لگ گیا ابو نے بہت کہا مگر میں نے یہ کہہ کر بات کو ختم کر دیا کے گھر بیٹھنے سے تو اچھا ہی ہے نہ میں کام کروں شاپ پر لگے ابھی 2 ماہ ہی ہوے تھے کے وہاں ایک انٹی سے میری دوستی ہوگئی یہ اس دن کی بات تھی جب شاپ کے مالک کی بیوی کو بچہ ہونے والا تھا اور وہ شاپ میرے حوالے کر کے خود چلا گیا انٹی کپڑے لینے ویسے بھی وہاں آتی رہتی تھی اس دن موقع دیکھ کر دوستی کی آفر کر دی انٹی کا شوہر باہر ملک میں جاب کرتا تھا اور سال میں ایک مہینے کے لئے آتا تھا انٹی کا اپنا الگ گھر لیا ہوا تھا ایک بیٹا تھا جو ابھی 4 5 سال کا تھا سیلری سے زیادہ انٹی مجھے جیب خرچ دے دیا کرتی تھی اسی نے مجھے بھی موبائل لے کر دے دیا تھا رات کو کافی دیر انٹی مجھ سے باتیں کیا کرتی آہستہ آہستہ وہ سیکسی باتوں پر آگئی مگر جیسے کے میں ایک اناڑی تھا اوپر سے باجی والی سین نے سیکس سے میرا دل کھٹا کر دیا تھا مجھے سیکس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی بس انٹی کی خوشی کے لئے اسکی ہاں میں ہاں ملا دیا کرتا تھا ایک دن انٹی شاپ پر تو اس وقت میں شاپ پر اکیلا تھا شاپ کا مالک جس کا نام سلیم تھا جسکو میں سلیم بھائی کہہ کر بلاتا بہت ہی اچھا انسان تھا کبھی میری غلطی پر ڈانٹتا نہیں سمجھاتا تھا وہ گھر پر گیا ہوا تھا انٹی بولی آج میرے گھر پر آجانا مجھے تم سے ایک ضروری کام ہے
شاپ سے 7 بجے چھٹی لے کر میں انٹی کے گھر چلا گیا
جب میں اسکے گھر گیا تو۔ انٹی کافی بن ٹھن کر بیٹھی ہوئی تھی جب پوچھا کہ کہی جارہی ہو تو انٹی بولی نہیں تمارے لئے تیار ہوئی ہوں تو میں ہنس دیا بولا بھلا میرے لئے کیوں تیار ہونے لگی تو بولی بدھو کے بدھو ہی رہو گے معشوق یار کے لئے کیوں سجتی ہے تمہیں نہیں پتا تو میں نے کہا میں نے کونسی 8 10 معشوق بنا لی کے پتا ہو اس بات کا تو انٹی بولی تھوڑا صبر کرو منا سو جائے تو بتاتی ہوں
یہ بتاؤ کیا کھاؤ گے تو میں بولا کچھ بھی نہیں اور تم نے تو کہا تھا کوئی ضروری بات کرنی ہے تو انٹی ہنس کر بولی میری جان تھوڑا صبر کرو بات بھی کرتے ہیں اور پیار بھی تم اندر جاکے بیٹھو میں آتی ہوں تو میں اندر روم میں جاکر بیٹھ گیا روم اے سی چل رہا تھا اور میں ایسے جاکر بیٹھ گیا کچھ دیر بعد بعد مجھے ٹھنڈ لگنا شرو ع ہوگئی تو میں كمبل اوڑھ کر بیٹھ گیا کوئی 20 منٹ بعد انٹی ہاتھ میں چاۓ اور کچھ نمکو اور کیک لے کر آگئی نمکو تو میں نے نہیں کھائی کیک اور چاۓ پی لی چاۓ کے برتن رکھ کر انٹی میرے پاس كمبل میں آگئی سامنے ڈیوائیڈر پر ٹی وی رکھا ہوا تھا تو انٹی نے ریمول سے آن کردی جس پر ایک انگلش مووی چل رہی تھی میں انٹی کو دیکھ رہا تھا وہ کیا کر رہی ہے اور سوچ رہا تھا ضروری بات تو اس نے ابھی تک بتائی ہی نہیں اور یہ پتا نہیں کیا کر رہی ہے کچھ دیر فلم چلی تو اس میں ایک کسسنگ سین آیا کسسنگ بھی کافی وائلڈ تھی پہلی بار ایسا کس دیکھ رہا تھا کیوں کے لڑکا کسسنگ کے ساتھ ساتھ لڑکی کے بوبس بھی دبا رہا تھا میرا دھیان پورا پورا فلم میں چلتی کسسنگ میں تھا اب لڑکے نے لڑکی چوت پر ہاتھ پھیرنا شرو ع کر دیا اور لڑکی کے شرٹ اوپر کر کے بوبس چوسنا بھی سٹارٹ کر دیا تھا مجھے محسوس ہوا کہ کوئی مجھے دیکھ رہا ہے تو میں نے گردن گھما کر جب انٹی کو دیکھا تو وہ مجھے ہی دیکھ رہی تھی تو میں نے مارے شرم کے گردن جھکا لی تو انٹی نے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ لیا لڑکی کے گورے ممے دیکھ کر میرا لن کھڑا ہوگیا تھا انٹی بولی وسیم کبھی ایسا کس کیا کسی کو تو میں نے گردن نفی میں ہلا دی پھر بولا ایسا تو کیا میں نے کبھی کسی لڑکی کو ویسا کس بھی نہیں کیا تو انٹی میری آنکھوں میں دیکھتی ہوئی اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں کے پاس لے آئ جب انٹی کو اتنا قریب دیکھا تو اے سی میں بھی میرے پسینے چھوٹ گئے انٹی میری آنکھوں میں دیکھتی ہوئی اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے جیسے ہی انٹی کے ہونٹ میرے ہونٹوں پر آئے تو میرا گلہ ہی خشک ہوگیا حلق تو میرا وہ سین دیکھ کر ہی ہوگیا تھا جو میں نے زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا انٹی میرے ہونٹ ہونٹوں میں لیکر چوسنے لگی تو میری آنکھیں خود بہ خود بند ہوتی چلی گئی انٹی ایک ہاتھ میری گردن میں تھا اور وہ ہاتھ سے سهلاتی ہوئی کبھی میرا اوپر والا ہونٹ تو کبھی نیچے والا چوسنے لگی کوئی 5 منٹ تک میرے ہونٹ چوسنے کے بعد انٹی مجھ سے جدا ہوئی تو میں نے اپنی آنکھیں کھول دی مگر میری آنکھوں میں بے شمار خمار بھر آیا تھا جیسے میں نے کوئی نشہ آور چیز کھا لی ہو زندگی کا پہلا کس تھوڑا عجیب تو لگا مگر اس سے میری حالت اور بگڑ گئی میں نے ٹی وی کی جانب دیکھا تو اب لڑکا لڑکی کی چوت چاٹ رہا تھا ساتھ ایک ہاتھ سے اسکا مما پکڑ کر کبھی پورا تو کبھی نپل مسل رہا تھا یہ میرے لئے ایک عجیب بات تھی ابھی میں سین میں کھویا ہوا تھا کہ انٹی نے كمبل میں ہاتھ ڈال کر میرا 7 انچ لمبا 3 انچ موٹا لوڑا اپنی مٹھی میں بھر لیا اور شلوار کے اوپر ۔ اوپر نیچے کرتی میری مٹھ مارنے لگی انٹی کے نرم ہاتھ میں لن کا آنا تھا کہ وہ اور تن کر سخت لوہے کی راڈ بن گیا فلم میں لڑکا کبھی دانہ تو کبھی اپنی زبان چوت کے اندر ڈال کر زبان سے لڑکی کی چوت کی چدائی کر رہا تھا بیچ بیچ میں چوت منہ میں لیکر چوس لیتا تو لڑکی کی اہ نکل جاتی انٹی نے اب میرا آزار بند پکڑ کر کھول دیا اور میرا ننگا لوڑا پکڑ کر لیا دوسرے ہاتھ سے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے بوب پر رکھ دیا
تو میں نے بھی اس لڑکے کی طرح انٹی کا مما پکڑ کر دبا دیا مگر اناڑی تھا تو ذرا زور سے دبا دیا جس سے انٹی کو تھوڑا درد ہوا بولی جانی آرام سے دباؤ اتنی زور سے نہیں تو میں انٹی کی چھاتی پر ہاتھ پھیرنے لگا تو انٹی کے تنے ہوے نپل میرے ہاتھ میں لگنے لگے تو اسکے نپل پکڑ کر مسل دیتا تو انٹی کے منہ سے سسكی
نکل جاتی اب فلم میں لڑکی لڑکے کا لنڈ چوس رہی تھی اور لڑکا آنکھیں بند کر کے اہ آہ آہ کر رہا تھا انٹی نے مجھے لیٹا دیا اور میری شلوار اتار کر لنڈ پر جھک گئی میرے لنڈ کا ٹوپا چوم کر اپنی زبان نکال کر لنڈ سے نکلتا ہوا پانی چاٹنے لگی اسکے بعد لن منہ میں لیکر کچھ دیر چوسا پھر اٹھ کر اپنی شلوار قمیض اتار کر میرے پیٹ پر چڑھ کر بیٹھ گئی ہاتھ پیچھے لے جاکر لنڈ پکڑا اور اپنی چوت پے رکھ کر اس پر بیٹھ گئی لن کسی رکاوٹ کے پورا کا پورا انٹی کی چوت کو کھولتا ہوا اندر چلا گیا اسکے بعد اپنے ہاتھ میرے سینے پر رکھے اپنی گانڈ اٹھا کر واپس لنڈ پر مارتی لنڈ پر اچھلنے لگی میرے ہاتھ پکڑ کر اپنے بوبس پر رکھ دیے تو میں نے دونوں نپل چٹکی میں پکڑ کر مسلنا شرو ع کر دیا جس کے بعد انٹی تیزی سے اپنی گانڈ چلا چلا اور پورا کا پورا لن اپنی چوت میں لے کر مجھ سے چدوا رہی تھی 3 منٹ بعد مجھ پر جهكی اور اپنا مما میرے منہ پے رکھ دیا مما منہ پر رکھنا تھا کہ میرا منہ خود ہی کھل گیا اور میں مما چوسنے لگا جیسے کے یہ میرا پہلا عمل تھا اور اس کھیل میں ۔ میں اناڑی تھا
تو انٹی کے جاندار جھٹکے زیادہ دیر برداش نہ کر پایا ابھی 5 7 منٹ بھی نہیں ہوے ہونگے کے میری زندگی کی پہلی منی نکلنے والی تھی میں سمجھا میرا پیشاب آنے والا ہے تو میں انٹی کے کان میں بولا میرا پیشاب نکلنے والا ہے تو انٹی ایک تجربے کار عورت تھی بولی نکلنے دو نکال دو سارا کا سارا میری چوت میں اور خود بہت ہی تیزی سے کمر چلا کر لنڈ پر پھدی مارنے لگی اب میرے ہاتھ انٹی کی گانڈ پر پوھنچ گئے تو میں بھی گانڈ کو دباتا ہوا نیچے سے دھکے مارنے لگا ابھی تیز تیز 5 6 دھکے ہی مارے ہونگے کے انٹی آہ افففف اااااه اوہ میں گئی میں گئی راجہ میں جارہی ہوں کہنے لگی انٹی کی اتنی سیکسی آواز سن کر میرا پانی بھی انٹی کی پھدی کو بھرنے کیلئے تیار ہوگیا اور میں نیچے سے بری طرح سے جھٹکے کھاتا فارغ ہونے لگا ساتھ انٹی بھی ھلتی ہوئی جھٹکے کھا رہی تھی
جب انٹی کا پانی نکل گیا تو وہ مجھ پر ڈھیر ہوگئی اسکے 36 کے ممے مانو میرے سینے میں گڑھ جائیں گے 5 منٹ تک ہم دونوں کی تیز سانسوں سے کمرہ بج رہا تھا اسکے بعد انٹی اتر کر میرے ساتھ لیٹ گئی میرے ساتھ ساتھ انٹی کا جسم بھی پسینہ پسینہ ہوگیا تو انٹی نے كمبل اوپر ڈال دیا اور خود میرے سینے پر سوگئی
پیاسی سدرہ باجی
رائیٹر ۔۔۔۔ . . علی جی شیخ
قسط تیسری
انٹی نے كمبل اوپر ڈال دیا اور خود میرے سینے پر سوگئی
انٹی میرے سینے پر لیٹی تو اسکو نیند آگئی مجھے گھر جانا تھا سو کہاں نیند آنی تھی میں نے آہستہ سے کر کے انٹی کو تکے پر سلایا جیسے اسکی نیند خراب نہ ہو خود بیڈ سے اتر کر واش روم میں چلا گیا واش روم سے فری ہوکر اپنی شلوار پهنی اور روم سے باہر نکل کر جیسے جانے لگا تو۔ انٹی نے آواز دی وسیم کہاں جارہے ہو میں نے پلٹ کر دیکھا تو انٹی اٹھ کر بیٹھی ہوئی تھی اور اپنے بکھرے بال سنوار رہی تھی تو میں بولا گھر جارہا ہوں بہت دیر ہوگئی ہے بولی رکو تو میں وہی باہر پڑے صوفے پر بیٹھ گیا کچھ ہی دیر میں انٹی نکلی میرے پاس اکر بیٹھ گئی مجھے 2 ہزار تھما کر بولی اس میں سے ڈرائی فروٹ لے کر جانا اور کھانا بھی پیسے میری جیب میں ڈال کر میرے ہونٹوں پر ایک طویل بھوسہ دیا اسکے بعد میں وہاں سے نکل کر گھر آگیا دروازہ باجی نے کھولا مگر میں اسکو اگنور کرتا ہوا اپنے روم میں چلا آیا اور بیڈ پر لیٹ کر انٹی کے ساتھ گزرے لمحے یاد کرنے لگا جیسے ہی وہ باتیں یاد آئین میرا لنڈ ایک بار پھر سے کھڑا ہوگیا سیکس کا چسکا بہت برا ہوتا ہے ایک بار لگ جائے تو پھر روکنا مشکل ہوجاتا ہے یہی میرے ساتھ بھی ہوا اس رات کے بعد میری زندگی ہی بدل گئی تھی ان تین مہینو میں 5 بار انٹی کے ساتھ سیکس کر چکا تھا جس نے مجھے ہر بات سکھا دی سیکس میں کیسے لڑکی اور عورت کو خوش کرنا ہے سب اسکے بعد ہم کھل کر فون سیکس کیا کرتے تھے اسکے بعد جب میں جاتا تو ویسا ہی سیکس کرتے جس میں 69 71 47 بھی انٹی نے مجھے سکھا دیا اب تو میں کھل کر انٹی کی چوت بھی چاٹ لیا کرتا تھا اور تب تک نہیں چھوڑتا جب تک انٹی فارغ نہیں ہوجاتی ایک بار تو اسکا پانی میرے منہ میں بھی چلا گیا تھا اور انٹی نے ہی بتایا کیسے کب تیز کب آہستہ جھٹکے مارنے ہیں ساتھ مجھے ٹامینگ کی بھی دوائی لیکر دے دی جسکو کھانے کے بعد میں انٹی پر کافی دیر تک چڑھا رہتا تھا اب تو ہر لڑکی ہر عورت کو شہوت بھری نظر سے دیکھنے لگا تھا ایسے ہی میرے 3 مہینے گزرے جس میں میں نے سیکس سیکھا تین مہینے گزر جانے کے بعد ایک دن میں گھر آیا تو گھر پر امی ابو نہیں تھے ابو امی کو لیکر ایک آفس دوست کی دعوت پر گیا ہوا تھا گھر میں سدرہ باجی اکیلی تھی جب میں گھر آیا تو اسی نے دروازہ کھولا ان تین مہینو میں ۔ میں نے سدرہ سے بات تک نہیں کی ہاں ابو کو بھی کچھ نہیں بتایا کیوں نہیں بتایا یہ میں خود بھی سمجھ نہ پایا آج تک خیر میں گھر اکر اپنے روم میں جانے لگا تو سدرہ بولی وسیم اب تو معاف کر دو اور کتنا ناراض رھو گے دیکھو اب تو میں وہ سب کچھ چھوڑ دیا ہے مجھ سے تماری بے رخی برداش نہیں ہوتی کیا تم مجھے کبھی معاف نہیں کروگے ؟ باجی کی بات سن کر پلٹا اور بولا اگر سدھر گئی ہو تو اپنے لئے اچھا کیا ہے مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا میرا لہجہ ابھی سخت تھا تو سدرہ کی آنکھوں سے آنسوں نکلنا شروع ہو گئے اسی لمحے سدرہ بھاگتی ہوئی میرے پاس آئ اور میرے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی میں اسکو خد سے الگ کرنا چاہتا تھا مگر الگ نہ کر پایا وہ روتی رہی اور میں آہستہ آہستہ نرم پڑھتا گیا سدرہ نے مجھے کس کے سینے سے لگایا ہوا تھا جیسے میں ابھی اسکو چھوڑ کر بھاگ جاؤنگا
سدرہ کے آنسوں میری قمیض بھگو رہے تھے اور میں موم کی طرح پگھل رہا تھا سدرہ اور میرا قد قریب قریب ایک جتنا ہی تھا بس دو تین انچ ہی بڑا تھا میں مگر اس وقت سدرہ کے بوبس میرے سینے میں دبے ہوے تھے اسکا تو پتا نہیں مگر مجھے صاف صاف سدرہ باجی کے بوبس فیل ہورہے تھے وہ مسلسل مجھ سے چپکی رو رہی تھی کب میرے ہاتھ اسکی پیٹھ پر آئے مجھے کچھ یاد نہیں مگر اب میں اسکی بیک کو سهلاتا ہوا تسلی دینے لگا باجی روٹی رہی اور میں اتنا نرم پڑھ گیا کے میری بھی آنکھیں نم ہونا شروع ہو گئی تھی کافی دیر رونے کے بعد سدرہ کی بھررائی آواز میرے کانوں میں پڑی
سدرہ روتی ہوئی بولی مجھ معاف نہیں کروگے اتنی سزا تو دے دی اب کیا مجھے مارنے پر تلے ہو پلیز مجھے معاف کر دو اب کوئی ایسی غلطی دوبارہ نہیں کرونگی تم مجھے مار لو گالیاں دے دو مگر اب اس طرح مت رہو مجھ سے نہیں ہوتا برداش اب میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کہوں کیا کروں کیوں کہ اب مجھے خود شرمندگی محسوس ہورہی تھی کے میں ہی اپنی پیاری باجی کے رونے کی وجہ بن رہا ہوں سدرہ پھر بولی بولو وسیم ایسے چپ نہ رہو بتاؤ تم مجھے معاف نہیں کروگے کبھی بھی تب میرے منہ سے نکلا نہیں ایسی کوئی بھی بات نہیں اور اب میں ناراض نہیں ہوں تو سدرہ نے اپنا چہرہ اوپر کیا اور میرے گال پر کس کر دی بولی سچ بتاؤ تم اب ناراض نہیں ہو نہ مجھ سے تو میں بولا نہیں اب ناراض نہیں ہوں تب سدرہ کی فرمائش سن کر میں دنگ رہ گیا سدرہ بولی اگر تم ناراض نہیں تو مجھے ایک کس کرو تو میں اسکا چہرہ دیکھنے لگا جو ابھی تک اسنے میری گردن سے لگایا ہوا تھا میں اسکو دیکھتا ہوا بولا کس مگر کہاں تو وہ بولی جہاں بھی کرو بس مجھے کس کر کے یقین دلاؤ کے تم ناراض نہیں ہو تب اور تو کچھ نہیں سوجھا
میں نے بھی سدرہ کا گال چوم لیا گال چوم کر بولا بس کر دی کس اب تو مجھے چھوڑ دو میں نے کھانا ۔ کھانا ہے بہت بھوک لگ رہی ہے تو سدرہ نے نا میں اپنی گردن ہلا دی تو میں پھر بولا کیا ایسے ہی رہنا ہے اور امی ابو کہاں گئے ہیں تب سدرہ نے بتایا ابو کے دوست کی دعوت ہے وہاں گئے ہوے ہیں تو میں نے پوچھا تم نہیں گئی تو سدرہ بولی نہیں مجھے آج تمیں منانا تھا ابو نے تو۔ کہا چلو مگر میں نہیں گئی
سوچا آج موقع اچھا ہے کیسے بھی کر کے تمہیں راضی کرونگی بہت ہوگئی نارضگی سدرہ اب بھی مجھ سے چپکی ہوئی تھی اور چھوڑنے کا نام نہیں لے رہی تھی تو میں نے کہا اچھا
اب تو چھوڑ دو ہوگیا نہ میں راضی مجھے کھانا کھانے دو تو سدرہ نے پھر سے اپنا چہرہ اٹھایا میرے گال پر اپنے ہونٹ رکھے اور میرا گال چوم کر ہلکا سا کاٹ کر چھوڑ دیا جو کے اب میں وہ والا وسیم نہیں تھا تو سدرہ کے ایسے کرنے سے میرے لن کو ایک جھٹکا لگا تو میں۔ جلدی سے اسسے الگ ہوگیا بولا تم کھانا لے اؤ میں کپڑے چینج کرنے جارہا ہوں میں اندر گیا تو۔ انٹی کی کال آگئی اس سے بات کرتا کرتا واش روم میں گھس گیا وہاں سے فارغ ہونے سے پہلے ہی کال کاٹ کر موبائل جیب میں رکھا کپڑے بدل کر واپس آیا تو۔ سدرہ کھانا لا چکی تھی ابھی میں کھانا کھا رہا تھا کہ ابو امی والے آگے تو سدرہ جو میرے پاس بیٹھی ہوئی تھی باہر چلی گئی کھانا کھا کر فری ہوا اسکے بعد اپنے بیڈ پر لیٹ گیا دروازہ بند کر کے انٹی سے باتوں میں لگ گیا ایک گھنٹے بات کرنے کے بعد میں سوگیا صبح مجھے سدرہ نے اٹھایا جو اپنے ساتھ ناشتہ بھی لے آئ تھی
ناشتہ کر کے میں شاپ پر چلا گیاکچھ دن تو ایسے ہی نارمل گزر گئے کچھ خاص بات نہ ہوئی انٹی کو بھی ڈیٹ آگئی تو اسکی طرف بھی جانا نہیں ہوا یہاں پنجاب میں شاپ جمعہ کو آدھا دن اور سنڈے کو پورا دن شاپ بند رہتی ہیں جمعہ کا دن تھا میں شاپ سے جلدی گھر آرہا تھا کہ راستے میں ایک بک شاپ دیکھی میں یوں ہی دیکھنے کے لئے شاپ میں چلا گیا بکس دیکھتے دیکھتے میں ناولز پے چلا گیا جہاں میں نے ایک بک دیکھی جس کا عنوان تھا ماے سسٹر نہ چاہتے ہوے بھی وہ بک میں نے خرید لی بک لے کر گھر آگیا اور اپنے بیڈ پر رکھ کر نہانے چلا گیا واپس آیا تو بک میرے بیڈ پر نہیں تھا میں بڑا حیران ہوا کہ آج تک کوئی ایسی چیز یہاں سے نہیں گئی آج کیسے چلی گئی امی سے پوچھا تو امی نے کہا بیٹا پتا نہیں میں تو تیرے روم میں آئ ہی نہیں میں نے بات رافا دفع کر کے چھوڑ دی سنڈے والے دن میں سورہا تھا جب میری آنکھ کھلی تو دیکھا بک سائیڈ ٹیبل پر رکھی ہوئی ہے دل میں سوچا کہی یہاں بھوت تو نہیں جو چیز گئی بھی اور خود بہ خود واپس بھی آگئی میں نے اٹھ کر ناشتہ کیا ناشتے سے فری ہوکر اپنے روم میں آگیا بیڈ پر لیٹ کر ناول اٹھا کر پڑھا تو میرے کان کھڑے ہوگئے
مجھے نہیں پتا تھا یہ کوئی سیکسی ناول ہوگا
ناول میں بہن بھائی کے سیکس کی کھلی داستان تھی جس کو پڑھ کر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی کے یہ میں کیا اٹھا لایا
8 10 ورق ہی پڑھے کہ بک بند کر کے چھپا کے رکھ دی سوچا کہی کسی کے ہاتھ لگ گئی تو بہت برا ہوگا جیسے کے امی یا ابو کے بک تو میں نے رکھ دی مگر اسکی لکھائی میرے ذہن
گھوم رہی تھی کیسے ایک بھائی اپنی ہی۔ سگی بہن کے ساتھ سیکس کرنے کے لئے طریقے ڈھونڈھ رہا تھا
پھر مجھے یاد آیا کیسے میں سدرہ کو اس رات چھپ چھپ کر دیکھ رہا تھا اور اپنا لن مسل رہا تھا
اپنے خیال کو جھٹکنے کے لئے میں روم سے باہر آگیا جہاں ابو کہی جانے کے لئے تیار ہورہے تھے پوچھا تو بتایا چچا کے گھر جارہا ہوں
امی باہر بیٹھی سبزی کاٹ رہی تھی سدرہ کہی دکھائی نہیں دی جب امی سے پوچھا امی بولی اوپر ہے جا بلا لا تو میں اٹھ کر اوپر چلا گیا باجی کے روم کا دروازہ کھلا تھا تو میں اندر چلا گیا باجی اندر نہیں تھی شاید وہ نہا رہی تھی اسکا موبائل بیڈ پر پڑا تھا اٹھا کر دیکھا تو موبائل کیمرے والا تھا جب کہ میرے پاس سادہ سا موبائل تھا موبائل پر لاک نہیں لگا ہوا تھا میں نے بٹن دبا کر جو سكرین پر دیکھا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی موبائل پر ایک ویڈیو پش پڑی تھی جو کوئی سیکسی مووی کا سین تھا
میں نے جلدی سے اپنا نمبر ڈائل کیا تو باجی کا نمبر میرے پاس آگیا اسکے بعد اپنا نمبر ڈیلیٹ کر کے کے موبائل پر وہی مووی لگا کر وہی رکھ کر باہر نکل آیا اب میں باجی کو چیک کرنا چاہتا تھا کے سچ میں اسنے وہ سب چھوڑ دیا ہے یا مجھے پاگل بنانے کیلئے ایسے ہی کہہ دیا 5 منٹ میں ایسے ہی باہر کھڑا رہا جب مجھے واش روم کا گیٹ کھلنے کی آواز آئ تو میں باجی کے روم میں چلا گیا باجی مجھے یوں اچانک دیکھ کر تھوڑا گھبرا گئی جلدی سے اپنا دوپٹہ موبائل پر پھینک دیا میں نے دیکھ تو لیا تھا مگر انجان بنا رہا بولی کیسے آنا ہوا تو میں بولا نیچے چلو امی بلا رہی ہے میں تمہیں بلانے آیا ہوں بولی تم چلو میں آتی ہوں تو میں واپس نیچے آگیا کچھ دیر بعد باجی بھی نیچے آگئی اب میں رات کا انتظار کرنے لگا باجی کو نہیں پتا تھا کہ میرے پاس بھی موبائل ہے انٹی کی وجہ سے ہر وقت موبائل سلینٹ پر رہتا ہے کیوں کہ انٹی کسی بھی ٹائم کال کر لیتی تھی آج میں کہی گیا بھی نہیں سارا دن گھر پر ہی تھا باجی ہلکی پھلکیہ ہنسی مذاق ہوتی رہی رات کا کھانا کھانے کے بعد میں جلدی ہی اپنے روم میں آگیا
روم میں آتے ہی باجی کے نمبر پر ہیلو کا میسج کیا اور رپلائے کا ویٹ کرنے لگ گیا کافی دیر ہوگئی مگر باجی کا کوئی جواب نہیں آیا تو میں نے ایک اور میسج کر دیا اپنا فرضی نام لکھ کر دوستی کی آفر کر دی نام میں نے ریحان بتایا اور موبائل رکھ کر دوبارہ جواب انے کا ویٹ کرنے لگا
مگر باجی کی طرف سے کوئی رپلائے نہ ملا تو میں نے موبائل رکھ دیا اور خود لیٹ گیا ایسے ہی پورا ہفتہ گزر گیا میں روز دو چار میسج کرتا مگر کوئی رپلائے نہ آتا کال میں کر نہیں سکتا تھا کیوں کہ مجھے ڈر تھا کہ کہی باجی میری آواز نہ پہچان لے ہفتہ گزر جانے کے بعد میں نے میسج کرنا چھوڑ دیا سوچا باجی سچ کہہ رہی تھی اس نے سب چھوڑ دیا نمبر اپنے پاس سیو رکھا مگر اسکے بعد کوئی میسج نہیں کیا اس بات کو گزرے پانچ دن ہوگئے کے ایک رات میرے نمبر پر میسج آیا اس وقت میں انٹی سے بات کر رہا تھا جب بات کر کے فری ہوا تو میسج دیکھا تو میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی میسج سدرہ باجی کا تھا جس میں اسنے بس اتنا لکھا آپکو میرا نمبر کس نے دیا تو میں نے جواب میں لکھ دیا کسی نے نہیں ایسے ہی نمبر ملا کے میسج کر دیا
تو باجی کا جواب آیا ایسے کیسے نمبر ملایا تو میں۔ نے جواب لکھا بس ملا لیا اپ ہیں کون ؟ تو باجی بولی کوئی بھی ہوں تم سے مطلب اپنا کام کرو تو میں بولا۔ اپنا کام تو میں صبح ہی کرتا ہوں ابھی تو رات ہوگئی ہے تو باجی بولی میرا مطلب کے مجھے میسج مت کرو تو میں نے میسج بھیجا مجھے تو اپ سے دوستی کرنی ہے اپ چاہے جو بھی ہو تو باجی نے جواب دیا دیکھو بھائی میں شادی شدہ عورت ہوں تم کسی اور سے دوستی کر لو تو میں نے جواب لکھا تو کیا ہوا اگر شادی شدہ ہو تو میں نے دوستی کا کہا ہے شادی کرنے کے لئے تو نہیں کہا اس بار باجی کا ذرا سخت میسج آیا بولی تمہیں سمجھ میں نہیں آرہا کیا جو۔ بار بار میسج کر رہے ہو اب کے میسج آیا تو تمارا نمبر اپنے شوہر کو دے دونگی تو میں ہنس کر بولا ہاہاہا شوق سے دے دو میں کسی سے ڈرنے والا نہیں ہوں
پیاسی سدرہ باجی
رائیٹر . . . . علی جی شیخ
قسط . . . . . چار
تو میں۔ ہنس کر بولا ہاہاہاہا شوق سے دے دو میں کسی سے ڈرنے والا نہیں ہوں
تو سدرہ کا میسج آیا تم ہنس لو بعد میں رونا پڑے گا تمہیں تو میں نے جواب میں لکھا رونے کی بات مت کرو یہ تو وقت ہی بتائیگا
کون روتا ہے سدرہ نے جواب میں لکھا دیکھو میں تمہیں شرافت سے سمجھا رہی ہوں آج کے بعد کوئی میسج مت کرنا ورنہ ؟؟؟
تو میں نے جواب دیا کیا ورنہ میں تو روز میسج کرونگا تمہیں جو کرنا ہے کر لو اسکے بعد سدرہ کا کوئی جواب نہیں آیا تو میں نے بھی موبائل رکھ دیا دل ہی دل میں سوچنے لگا سچ میں۔ باجی بدل گئی ہے ورنہ اسکا لہجہ اتنا سخت نہ ہوتا موبائل رکھ کر ٹائم دیکھا تو ابھی 10 ہی بجے سوچا جلدی سو جاتا ہوں کافی دیر لیٹنے کے بعد بھی مجھے نیند نہیں آئ تو اٹھ کر وہی بک نکالی کہانی کافی دلچسپ تھی ایک چھوٹا بھائی اپنی دو بہنوں کے ساتھ سیکس کرتا ہے مگر اس میں بھائی کو راضی پہلے سب سے بڑی بہن کرتی ہے پھر اپنی دوسری بہن کو چھوٹے بھائی سے چدواتی ہے کہانی اتنی ہاٹ تھی کے میں بہت زیادہ گرم ہوگیا سوچا مٹھ مار کر ٹھنڈا کر لیتا ہوں خود کو مگر پتا نہیں کس خیال میں روم سے باہر نکلا تو سوچا باجی کو دیکھ کر آجاؤں کیا کر رہی ہے تو میں ننگے پیر ہی اوپر چلا گیا اپنے اسی سوراخ سے آنکھ لگا کر دیکھا سدرہ باجی پوری ننگی بیڈ پر لیٹی ہوئی ہے پوری تو نہیں مگر بوبس اور آدھی ٹانگیں نظر آرہی تھی باجی نے ایک ہاتھ پھدی پے رکھا ہوا تھا دوسرے ہاتھ میں موبائل پکڑا ہوا پھدی والے ہاتھ کی بیچ والی انگلی سے چوٹ کا دانہ سهلا رہی تھی یہ منظر دیکھ کر تو میری اور حالت خراب ہوگئی سوچا کمینی مجھے کہہ رہی تھی سدھر گئی ہوں اور یہاں اپنی پھدی میں فنگرنگ کر رہی ہے مگر اس پر میں ناراض نہیں ہوا کیوں کے مجھے پتا تھا سدرہ جیسے گرم لڑکی کے لئے سیکس کے بنا رہنا اتنا آسان نہیں دوسری بات وہ کسی سے چدوا نہیں رہی تھی میں باجی کو دیکھ کر پنا لن مسل رہا تھا اور وہ اپنی مستی میں مست ہوکر اپنا دانہ سهلا رہی تھی کہانی پڑھنے کے بعد ویسے ہی میرا لن پھٹنے کو ہوگیا تھا اب یہ شو دیکھ کر تو لنڈ کی نیس ہی پھول گئی تھی
پہلے کی بات اور تھی تب میں نے چوت کا مزہ نہیں چکھا تھا مگر اب تو چکھ بھی لیا اور کافی کچھ سیکھ بھی لیا اب باجی نے اپنی انگلی چوت میں اندر ڈالی اور اپنی بھی انگلی سے اپنی چوت کی چدائی کرنے لگی ادھر میں باجی کو دیکھتا ہوا اپنا لن مسلنے میں لگا ہوا تھا اب باجی نے تیز رفتاری سے انگلی چلانا شروع کردی ساتھ اپنی ٹانگیں بھی اٹھا لی جب میں نے یہ سین دیکھا تو میرا ہاتھ بھی اپنے موٹے لن پر تیزی سے چلنے لگا باجی کی انگلی اسی کے پانی سے گیلی ہورہی تھی میرا دل کیا ابھی کے ابھی دروازہ کھول کر اندر چلا جاؤں اور باجی کی پھدی کو چوس چوس کر اسکا سارا رس پی لوں یہ خیال آتے ہی میرا لن فل تن گیا اور منی لن کے راستے سے دوڑتی ہوئی لن سے نکلنے لگی وہاں باجی کی پھدی سے بھی اسکی منی نکل رہی تھی عجیب اتفاق تھا کہ ہم دونوں ایک ساتھ فارغ ہوگئے اس بار پہلے والی غلطی نہیں کی میں نے اپنی آواز کو دبا لیا
پانی نکلنے کے بعد میری شلوار گیلی ہوگئی تو میں وہاں سے چل کر اپنے روم میں آگیا روم میں آتے ہی اپنے کپڑے نکالے اور واش روم میں نہا کر چینج کر کے باہر نکل آیا گیلی شلوار ایسے ہی ٹپ میں ڈال دی اور باہر نکل کر بیڈ پر گر کر
آنکھیں بند کی تو نیند آگئی پانی نکل جانے کے بعد ویسے بھی اچھی نیند آجاتی ہے صبح میں تھوڑا لیٹ اٹھا
اٹھ کر باہر نکلا تو باجی کپڑے دھو رہی تھی جب میری نظر میری رات والی شلوار پر پڑی تو مجھے رات والا سارا منظر نظر آنے لگا اور سدرہ مجھے ننگی دکھائی دینے لگی وہ دوسری طرف منہ کر کے بیٹھی ہوئی تھی اپنی قمیض کا دامن اٹھا کر اپنی ران میں پھنسایا ہوا تھا لاسٹک والی شلوار ہونے کی وجہ سے تھوڑی سی نیچے كهسک گئی تھی اور سدرہ کی گانڈ کی لائن صاف نظر آرہی تھی شاید وہ اپنا کوئی سوٹ دھو رہی تھی وہ بھی ہاتھ سے مشین میں
خراب ہونے کا ڈر ہوگا اس لئے ہاتھ سے دھو رہی ہوگی جب وہ آگے جھکتی تو اسکی گانڈ اٹھ جاتی جس سے مجھے اسکی پھنسی شلوار میں گانڈ کی دراڑ صاف نظر آرہی تھی لگتا ہے سدرہ کی چھٹی حس نے اسکو خبردار کر دیا کے کوئی تماری گانڈ تاڑ رہا ہے
تو سدرہ نے پیچھے مڑ کر مجھے دیکھا تو میں نے نظر گھما لی پر پھر بھی اسکو پتا چل گیا تھا کہ میں اسکی گانڈ کا نظارہ کر رہا تھا وہ کچھ دیر مجھے دیکھتی رہی پھر دوبارہ اپنے کام میں لگ گئی میں پکڑا تو گیا تھا مگر جان کر انجان بنتے ہوے بولا باجی امی کہاں ہے مجھے ناشتہ چاہیے تو سدرہ اسی طرح کپڑے دھوتے ہوئے بولی خالہ کے گھر گئی ہوئی ہے میرے خالہ تین گلی چھوڑ کر رہتی ہیں امی اکثر وہاں آتی جاتی رہتی ہیں تو میں سدرہ سے بولا تو اب مجھے ناشتہ کون دے گا تو باجی اپنا کام کرتی ہوئی بولی تم اپنا کام کر لو تو بتا دینا میں ناشتہ بنا دونگی اپنا کونسا کام کر لوں باجی کی بات کا جواب دیتے ہوئے بولا تو باجی نے گردن گھما کر پھر سے مجھے دیکھا میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی وہی جو ابھی کچھ دیر پہلے کر رہے تھے اس کی ماں کی چوت مطلب باجی نے مجھے دیکھ لیا اپنی گانڈ کو گھورتے ہوئے اوہ شٹ یار کیسے پتا چل گیا اسکو
میں اپنی گھبراہٹ چھپاتا
ہوا بولا کیا ہوگیا ہے باجی میں کونسا کام کر رہا تھا تم اٹھو میرے لئے ناشتہ بنا دو میں نے پھر شاپ پر بھی جانا ہے تو باجی صاف پانی میں اپنے ہاتھ دھوتی ہوئی بولی کوئی نہیں تو جا نہا لے میں ناشتہ تیار کر کے لے آتی ہوں پھر میں وہاں سے
روم میں چلا گیا نہا کر باہر اکر بیٹھ گیا اپنی کی گئی غلطی پے سوچنے لگا کے باجی کیا سوچ رہی ہوگی کیسے میں اسکی گانڈ کو تاڑ رہا تھا اب مجھے بھی شرمندگی ہورہی تھی کے میں یہ کر کیا رہا تھا رات جو کچھ دیکھ کر مٹھ ماری تب باجی کو نہیں تھا پتا مگر صبح تو باجی نے مجھے پکڑ لیا پہلی بار غلطی کی اور پکڑا گیا 15 منٹ بعد باجی ناشتہ لے آئ باجی کو دیکھ کر دیکھتا ہی رہ گیا باجی جو قمیض پهنی ہوئی تھی وہ ایک کرتا تھا جس کے آگے والی 2 بٹن
کھلے تھے اور باجی کے بوبس کی لائن نظر آرہی تھی باجی نے جب مجھے پھر سے پکڑ لیا بولی لگتا ہے بھائی اب بڑا ہوگیا ہے امی سے بات کرنی پڑے گی اور ہسنے لگ گئی تو میں پھر سے شرمندہ ہوتا ہوا نیچے دیکھنے لگا کہانی نے کافی گندا اثر ڈال دیا تھا مجھ پر میں اپنی ہی بہن کے پرائیویٹ پارٹس کو دیکھ رہا تھا باجی تو ہنستی ہوئی روم سے چلی گئی اور میں بیٹھا خود کو لعنتین کر رہا تھا کہ میں یہ کیا کر رہا ہوں اسکے بعد آدھا ناشتہ کیا اور تیار ہوکر گھر سے نکل گیا شاپ پر پوھنچ کر شاپ کھولی جو میں ہی کھولتا تھا سلیم بھائی تو دیر سے آتے تھے ابھی شاپ کی صفائی کر رہا تھا کے وہاں ایک لڑکی آئ جو دیکھنے میں ٹھیک ٹھاک لگ رہی تھی اس کو بیٹھنے کا کہ کر میں نے صفائی کی اور کاؤنٹر پر کھڑا ہوگیا لڑکی نے چند ایک سوٹ نکلوا کر دیکھے باتوں باتوں میں بتا چلا کہ یہ دوسرے شہر سے نیو آئین ہیں پہلے کسی اور جگہ رہتے تھے لڑکی نے 2 سوٹ پسند کیے
میں نے پیک کر کے اسکو دیے تو بولی مجھے انڈر گارمنٹس بھی چاہیے تو میں بولا یہ تو ھمارے پاس نہیں ہوتا تو لڑکی کہنے کہنے لگی کیا اپ مجھے یہ چیز لا کر دے سکتے ہو مجھے نہیں پتا کہاں سے ملتی ہیں تو میں نے کہا ابھی تو مارکیٹ پوری طرح کھلی بھی نہیں ہے اگر آپکو لینی ہے تو 4 بجے کے ٹائم چکر لگا لیں بولی نہیں میں آپکو اپنا پتا بتا دیتی ہوں اپ لا کر مجھے دے جانا میں دوبارہ نہیں آ سکتی تو میں نے کہا ٹھیک ہے اپ اپنا پتا اور پیسوں کے ساتھ سائز بھی دے جاؤ میں لیکر آپکو دے جاؤں گا بولی سائز خود لے لو مجھے نہیں پتا ابھی مارکیٹ میں اتنی چہل قدمی نہیں تھی انچ ٹیپ اٹھا کر سائیڈ میں کھڑا کیا اور سائز لینے لگا تو پتا چلا لڑکی نے برا نہیں پهنی
ہوئی پوچھنے پر پتا چلا کے اسکے پاس ہیں ہی نہیں پہلے بار لے رہی ہے بوبس اور ہپ کا سائز کیا جو 34/36 تھا اسکے بعد اسکا نام پوچھا تو کہنے لگی میرا نام نیلم ہے اور میں نور بستی میں رہتی ہوں ہوں جو مارکیٹ سے چند قدم دور تھی مزید پوچھنے پر پتا چلا گھر میں چھوٹا بھائی ابو اور امی ہیں ابو امی جاب کرتے ہیں بھائی پڑھتا ہے گھر میں یہ اکیلی ہوتی ہے 2 بجے تک اسکے بعد بولی تم کل صبح میں اکر دے جانا سوٹ اور باقی کے سامان کے پیسے دے کر چلی گئی اسکے بعد سلیم بھائی آگئے سارا دن کام کیا لڑکی کے لئے 2 سیٹ لے کر رکھ دے رات کو شاپ بند کر کے گھر لے آیا سوچا صبح شاپ پر جانے سے پہلے ہی دے اوں گا اسکے بعد گھر آیا تو باجی نے دروازہ کھولا باجی کو کھانا لانے کا کہ کر روم میں آگیا شاپر بیڈ پر رکھ کر واش روم چلا گیا اتنا بھی دھیان نہ رہا کہ اگر باجی نے شاپر کھول کر دیکھ لیا تو کیا سوچے گی جب میں واش روم سے نکلا تو میرے ٹٹے ہی شارٹ ہوگئے باجی بیڈ کے پاس کھڑی ہوئی تھی اور شاپر سے برا اور انڈر وئیر نکال کر دیکھ رہی تھی اب اگر باجی نے یہ سوال کر دیا کے کس کے لئے لاۓ ہو تو میرے لئے بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہوجاے گا میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا بیڈ پر پوھنچا تو باجی مجھے دیکھ کر چونک گئی میری طرف شک کی نگاہ سے دیکھنے لگی تو میں بولا جلدی سے بولا سلیم بھائی شاپ پر بھول گئے تھے صبح جاتے ہوئے انکو دے جاؤنگا باجی بولی سلیم بھائی بھول گئے تھے ؟؟ اچھااا تو میں نظریں چراتا ہوا بولا جی سلیم بھائی بھول گئے تھے تو۔ باجی بولی سلیم بھائی تو تمارے ساتھ ہی شاپ بند کرتے ہیں نہ ؟؟؟ میں کہا ہاں آج وہ جلدی چلے گئے تھے تو باجی مجھے گھورتے ہوئے بولی پکی بات ہے تو میں بولا جی باجی پکی بات ہے تو باجی بولی سائز تو کسی کنواری لڑکی کا لگ رہا ہے تو میں جلدی سے بولا کیا باجی تم بھی پولیس والی کی طرح سوال پے سوال کیے جارہی ہو سائز مجھے کیا پتا کس کا ہے تو باجی بولی کھانا کھا کر اپنے روم میں آگیا تم سے بڑی ہوں سب جانتی ہوں سچ سچ بتاؤ کس کا ہے صبح کی حرکت کی وجہ سے پہلے ہی باجی سے ڈرا ہوا تھا تو باجی کو ساری کہانی بتا دی ساری بات سن کر باجی بولی بڑے ہوشیار ہوگئے ہو اب سائز بھی لے لیتے ہو تو میں بولا لینا تو نہیں آتا ایک دو بار لیتے ہوئے دیکھا ہے تو لے لیا پھر باجی تو پھر اپنی باجی کے لئے بھی کبھی لے آیا کرو تو میں بولا کیسی باتیں کر رہی ہو باجی میں کیسے تمارے لئے لا سکتا ہوں تو باجی کا جواب سن کر میرا گلا ہی خشک ہوگیا باجی بولی اپنی سگی بہن کی۔ گانڈ تاڑ سکتے ہو اسکی چھاتی پر نظر رکھ سکتے ہو بہن بھائی کے سیکس کی کہانیاں پڑھ سکتے ہو تو یہ بھی کر سکتے ہو ابے اسکی ماں کا بھوسڑا ماروں اسکا مطلب جو بک گم ہوئی تھی وہ باجی لے گئی تھی تو میں جلدی سے بولا وہ غلطی سے ہوگیا باقی بک کا مجھے نہیں پتا تھا کے کیسی ہے میں تو بھائی بہن کا پیار اچھا پیار سمجھ کر لایا تھا یہ نہیں پتا تھا کہ کوئی سیکسی کہانی ہے تو باجی آنکھیں پھاڑ کر بولی اچھااا تمہیں نہیں پتا تھا تو میں بولا باجی یقین کرو مجھے نہیں پتا تھا تو۔ باجی بولی پھر تو تمہیں یہ بھی پتا نہیں ہوگا کے تماری شلوار پے وہ نشان کیسے آیا تو میں انجان بنتا بولا کونسا نشان باجی تو باجی بولی ابھی دکھاتی ہوں یہ بول کر باجی روم سے چلی گئی اور کچھ دیر بعد واپس آئ تو اسکے ہاتھ میں میری کل رات والی شلوار تھی باجی دونوں ہاتھوں میں شلوار پکڑ کر مجھے آگے والا حصہ دکھاتی ہوئی بولی یہ والا نشان میں نے دیکھا تو وہاں کافی بڑا نشان بنا ہوا تھا جو کل رات باجی کو فنگر کرتے ہوئے مٹھ ماری تھی اسکا تو میں پریشان ہوتا ہوا بولا باجی مجھے نہیں پتا کس چیز کا نشان ہے مجھے پریشان دیکھ کر باجی بولی جب نہیں پتا تو تمارے چہرے سے رنگ کیوں غائب ہوگیا میں کوئی بچی نہیں ہوں سب پتا ہے یہ کس چیز کا نشان ہے باجی کی بات سن کر سوچا میں بھی بتا دوں کے وہ رات کو کیا کرتی ہے مگر پھر خود ہی چپ ہوگیا مجھے چپ دیکھ کر باجی بولی بھائی اب مجھ سے دوستی کر لو تماری بہت مدد کیا کروں گی اب میرے پاس باجی کی بات کا کوئی جواب نہیں تھا نہ اسکو پتا تھا کے اسکا بھائی اب بہت کچھ سیکھ چکا ہے مجھے خاموش دیکھ کر باجی پھر سے بولی کروگے نہ مجھ سے دوستی یہ بات کرتے ہوئے باجی کی آواز میں شہوت صاف جھلک رہی تھی تو میں نے گردن اٹھا کر باجی کو دیکھا جو مجھے ہی دیکھ رہی تھی
جب میں کچھ نہ بولا تو باجی بولی پھر اب میں کھل کر کسی کے ساتھ بھی دوستی کر سکتی ہوں نہ میرا بھائی تو مجھے سہارا نہیں دے رہا تو بولا باجی کیسی باتیں کر رہی ہو ایسا کبھی مت کرنا ورنہ اب کی بار جو ناراض ہوا تو۔ کبھی بات نہیں کرونگا تو باجی میرے پاس اکر بولی بھائی میں اب ایسے نہیں رہ سکتی تم مجھے سہارا نہیں دوگے تو میں پھر سے کوئی غلط قدم اٹھا لونگی تو میں نے کہا نہیں ایسا نہیں ہوگا باجی میں نہیں چاہتا تم ایسا کچھ کرو تو باجی میرے گال سهلاتی بولی بھائی پھر تم خود کیوں نہیں اپنی باجی کو سمبھال لیتے تو میں نے کہا باجی تم تمہیں اگر یہ منظور ہے تو میں کیا کہہ سکتا ہوں یہ سن کر باجی جهكی اور میرے گال پے کس کر بولی تھنکس بھائی اب دیکھنا میں تمہیں کتنا پیار دیتی ہوں تم کھانا کھا لو پھر میرے روم میں آجانا باقی کی باتیں وہاں کریں گے کھانا کھا کر
انٹی کو کال کی اس سے ایک گھنٹہ بات کر کے فری ہوا پھر اٹھ کر اوپر باجی کے روم کی طرف چل دیا اس سے پہلے امی۔ ابو کو۔ دیکھا جو بے خبر سو رہے تھے باجی کے روم کے دروازے پر پوھنچا تو۔ دروازہ کھلا تھا
پیاسی سدرہ باجی
رائیٹر . . . . علی جی شیخ
قسط . . . . . پانچ
باجی کے روم کے دروازے پر پوھنچا تو۔ دروازہ کھلا تھا
آج میرا دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا ایسے اس ٹائم کبھی بھی باجی کے روم میں نہیں آیا ارادہ تو نیک تھا مگر باجی کی کہی باتوں کی وجہ سے پتا نہیں کیوں دل حلق کو آرہا تھا نہیں جاتا تو بات اور بگڑ جائے کا ڈر تھا اس لئے دل کو مظبوط کر کے ہاتھ بڑھا کر دروازے کو ہلکا سا دھکا دیا تو وہ کھلتا چلا گیا اندر باجی اندر بہت ہی پیارے پنجابی فٹنگ والا سوٹ پہن کر آئینے میں اپنا عکس دیکھ رہی تھی چہرے پر ہلکا سا میک اپ کیا ہوا تھا جو اس کے حسن کو چار چاند لگا رہا تھا باجی نے جو سوٹ باجی نے پہنا ہوا تھا وہ ایک پیلے کلر کی شارٹ پنجابی شرٹ اور دھوتی نما شلوار پہنی ہوئی تھی جس پر آری اڈے کا گولڈن کام ہوا ۔ ہوا تھا اوپر سے لائٹ براؤن کلر کے کھلے بال کندھے پر سلک کا دوپٹہ سجاے رکھا تھا پاؤں میں گولڈن کلر کی پمپی پہنی ہوئی تھی جو اس پر کمال لگ رہی تھی اور اس سوٹ میں باجی قیامت ڈها رہی تھی جب میں نے باجی کو اس روپ میں دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا ایسا لگ رہا تھا باجی کوئی حور ہو جو آسمان سے ابھی ابھی اتر کر آئ ہو
ابھی میں۔ باجی کے حسن میں کھویا ہوا تھا کے باجی ایک دم سے پلٹی جس سے اسکے بال اسکے خوبصورت سے چہرے پر آگے جس کو باجی نے اپنی انگلی سے کان کے پیچھے پھنسا دیا مجھے ایسے منہ کھولے خود کو دیکھا تو باجی مسکرا کر بولی بھائی ایسے کیا دیکھ رہے ہو باجی اس وقت آواز کہی دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی میں باجی کے سحر سے ایک دم ایسے باہر آیا جیسے میں کوئی بہت ہی زیادہ خوبصورت خواب دیکھ رہا تھا باجی کو دیکھتے ہوئے بولا اپنی نظر اتار لو کہی آج میری ہی نظر نہ لگ جائے تو باجی ہنس کر بولی چل پاگل اب اتنی بھی اچھی نہیں لگ رہی تو میں نے کہا نہیں باجی قسم لے لو جس کی چاہے لینی ہو تم بہت ہی زیادہ پیاری لگ رہی ہو اس پنجابی سوٹ میں تم اگر میری سگی بہن نہ ہوتی تو میں تم سے شادی کر لیتا تو باجی بولی اوے باجی کے دیوانے واپس آجا اپنی دنیا میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوسکتا سمجھے نہ تو میں نے کہا کہہ تو تم بھی ٹھیک رہی ہو ایسا کچھ نہیں ہونے والا ایک بات تو بتاؤ تو باجی بولی ہاں پوچھو نہ تو میں بولا آج کس کے لئے اتنا تیار ہوئی ہو جب کہ آج کوئی دعوت بھی نہیں تو باجی بلی بدھو کہی کے تمارے لئے خاص طور پر تیار ہوئی ہوں کیوں تمیں میرا تیار ہونا پسند نہیں آیا تو میں نے کہا کیسی باتیں کر رہی ہو باجی تم تیار ہو اور مجھے پسند نہ آؤ ایسا تو کبھی ہو نہیں سکتا ابھی اتنا ہی کہا کہ باجی ایک ادا سے چلتی ہوئی میرے پاس آئ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے بیڈ پر لے گئی مجھے بیٹھا کر خود دروازہ بند کرنے چلی گئی جو میں کھلا چھوڑ آیا تھا جب باجی دروازہ بند کرنے جارہی تھی تو اسکی گانڈ مٹک رہی تھی میں دل میں سوچ رہا تھا آج تو باجی دل پر بجلياں گرا رہی ہے پتا نہیں اسکا ارادہ کیا ہے باجی واپس بیڈ پر اکر مجھ سے جڑ کر بیٹھ گئی بولی ہاں بھائی اب بتاؤ کیا سوچا تم نے کروگے نہ مجھ سے دوستی تو میں نے بھی ہاں میں سر ہلا دیا پھر باجی بولی اب بتاؤ کل میرے لئے دوستی کا کیا گفت لے اؤگے تو میں نے کہا جو میری دوست کہے تو باجی نے کہا وہی گفت چاہیے جو آج تم کسی اور کے لئے لاۓ ہو تو میں نے کہا باجی مجھے تمارا سائز نہیں معلوم تو باجی نے میرے ہاتھ پکڑ کر اپنے بوبس پر رکھ دیے بولی اب تو ہم دوست ہیں خود ہی سائز لے لو باجی کی اس حرکت پر میرا گلا خشک ہوگیا اور مجھ پر سکتا طاری ہوگیا تو باجی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتی ہوئی بولی بھائی یہ تمہیں کیا ہوا تمیں اتنا پسینہ کیوں آرہا ہے سالی ایک تو پری کی طرح سج دھج کے بیٹھی ہوئی ہوئی ہے اوپر سے اتنی بے باقی سے میرے ہاتھ اپنی مست بوبس پر رکھ دیے ہیں اور پوچھ رہی ہے بھائی پسینہ کیوں آرہا ہے ارے بہنا اب میں وہ والا وسیم نہیں رہا اب تمارا بھائی فل سیکس کرنا سیکھ چکا ہے یہ سب میں دل میں کہہ گیا مجھے ایسے خاموش دیکھ کر باجی بولی بولو نہ کیا ہوا کچھ نہیں میرے منہ سے بس اتنا نکلا تو باجی ہنس دی پھر بولی ہاں بتاؤ کیا سائز ہے میرا تو میں بولا باجی مجھے ایسے کیسے پتا چلے گا کے کیا سائز ہے تمارا اس کے لئے تو سائز لینا پڑے گا تو باجی بولی اسکی ضرورت نہیں ہے مجھے اپنا سائز پتا ہے میں تو تمہیں چیک کر رہی تھی تو میں بولا اچھا جی کر لیا چیک تو باجی میرے لن کو دیکھتی ہوئی بولی ابھی کہاں ابھی بہت کچھ چیک کرنا باقی ہے تو میں معصوم بنتا ہوا بولا اور کیا چیک کروگی باجی تو باجی مجھے کندھا مارتی ہوئی بولی اب اتنے بھی بھولے نہیں کے تمہیں پتا نہ ہو تو میں پھر سے معصوم بننے کی ایکٹنگ کرتا بولا سچ باجی مجھے کچھ بھی نہیں پتا تو باجی شرارت سے بولی بھائی سچ میں اس لڑکی کی ناپ لی تھی یا مجھے پاگل بنا رہے تھے
تو میں نے کہا بھلا میں کیوں جھوٹ بولنے لگا تم سے اچھا تم کہتے ہو تو مان لیتی ہوں باجی میری بات سن کر بولی میرے ہاتھ ابھی تک باجی کے بوبس پر رکھے ہوئے تھے جن کو میں هٹانا بھی بھول گیا تھا پھر باجی بولی میرے جگر کے تکڑے میرا سائز 32/36 ہے تو میں نے کہا کیوں باجی تمارا سائز ابھی تک کم کیوں ہے تو باجی بولی کیا بتاؤ بھائی ایک تو میرا شوہر مجھے کم پیار کرتا ہے دوسرا ان سے کھیلنے والا کوئی نہیں اور ابھی تک بچہ بھی نہیں ہوا جو میرا سائز بڑھ جائے مجھے خود بڑے ممے اچھے لگتے ہیں میری ایک دوست ہے اس کے 36 ہیں جب کے وہ ابھی تک کنواری ہے میں جب اسکو دیکھتی ہوں تو مجھے بہت جلن ہوتی ہے کہ اس کے اتنے پیارے ہیں ہر لڑکا بڑا بوڑھا اسکے بوبس کو ہی دیکھتا ہے
اب تمہیں میرا سائز پتا چل گیا اب کل مجھے گفٹ لازمی چاہیے سمجھے تو میں نے کہا باجی نہیں بھی بولتی تب بھی میں لے آتا اسکے بعد باجی میری آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی وسیم تمہیں کس کرنا آتا ہے تو میں نے کہا نہیں باجی میں نے ابھی تک کسی کو کس کیا ہی نہیں سفید جھوٹ بولتا ہوا بولا تو باجی بولی کبھی دل بھی نہیں کیا تمارا آج صبح تو میری گانڈ اور بوبس کو تاڑ رہے تھے تو میں شرم سے سر جھکاتا ہوا بولا سوری باجی پہلی بار پتا نہیں کیسے مجھ سے یہ خطا ہوگئی تو باجی بولی اچھی خطا ہوئی ہے ورنہ مجھے کیسے پتا چلتا کہ میرا پیارا بھائی بڑا ہوگیا ہے اب اپنی ہی بہن پے نظر رکھے ہوئے ہے یہ بولتے باجی ہنس پڑی تو میں نے کہا کیا باجی تم بھی میری ٹانگ کھینچ رہی ہو ارے ابھی کہا کھینچی ہے ابھی تو کھینچنا باقی ہے باجی شرارت سے بولی
اسکے بعد باجی میرے اور قریب آئ میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں کے پاس لاکر کانپتے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے میرے ہونٹ جو اب تک ایسی باتوں کی وجہ سے خشک ہو چکے تھے اب باجی نے اپنے ہونٹوں میں لیکر چوسنا شرو ع کر دیے کیا بتاؤں میری کیسی حالت ہوگئی تھی اس وقت باجی کے ہونٹ چوسنا مجھے اتنا پسند آرہا تھا کہ میں نے نہ چاہتے ہوے بھی اپنے ہونٹ کھول دیے اتنا مزہ تو انٹی کے ساتھ بھی نہیں آرہا تھا جتنا جتنا باجی کے ساتھ کسسنگ کرتے آرہا تھا میں باجی کے سر کے پیچھے ہاتھ ڈالا اور خود بھی باجی کے رس بھرے ہونٹوں سے جام پی رہا تھا باجی کبھی اوپر تو کبھی نیچے والا ہونٹ چوستی جب باجی اوپر والا ہونٹ چوس رہی ہوتی تو میں نیچے والا ہونٹ چوستا کافی دیر ہم کسسنگ کرتے رہے اسکے بعد باجی نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈالی تو میں اسکو چوس کر اسکا رس پی رہا تھا جب چوس چوس کر تھک گیا تو باجی نے کس توڑا بولی بھائی مجھے بھی اپنی زبان دو میں نے بھی چوسنی ہے تو میں نے اپنی زبان باجی کے منہ میں گھسا دی تو باجی بھی میری زبان چوسنے لگی کیا بتاؤ کتنا مزہ آرہا تھا اپنی ہی باجی سے اپنی زبان چوسوانے میں اففففف دل کر رہا تھا وقت رک جائے اور ایسے ہی باجی میری زبان کو چوستی رہے میری شلوار میں میرا لوڑا اپنے آب اؤ تاب سے تنبو بنا کر کھڑا ہوگیا تھا کہ باجی نے میرا لن شلوار کے اوپر سے ہی اپنے ہاتھ میں میرا لوڑا پکڑ لیا اور ہاتھ اوپر سے نیچے لے جاتی ہوئی میرے لن کی لمبائی اور موٹائی ناپنے لگی انٹی کی دی ہوئی دوائی سے میرا لن کافی موٹا ہو چکا تھا جب باجی نے میرا لن ناپا تو کس توڑ کر بولی اففففف وسیم تمارا لوڑا کتنا موٹا لگ رہا ہے اتنا کہہ کر باجی نے میرا ازار بند کھول کر میرا فل تنا ہوا لن باہر نکال لیا لن کو دیکھ کر باجی کی آنکھوں میں عجیب سی چمک آگئی بنا کچھ بولے ہی جھکی میرے موٹے سے ٹوپے پر اپنے ہونٹ رکھ دیے تو مارے مزے کے میری آنکھیں بند ہوگئی باجی نے میرے لن پر کس کی بارش کر دی جب کافی بار باجی نے پورا لن چوم لیا تو اپنے منہ کھولا اور میرا لن اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی دو چار چوپے لگانے کے بعد منہ سے لن نکال کر بولی کہاں چھپا رکھا تھا اتنا مست لوڑا پتا ہوتا تو۔ کب کا اسکو اپنی پیاسی چوت میں لے لیتی اب یہ میرا ہے صرف میرا سی آہ اسکو تو میں کھا جاؤں گی دیکھنا بھائی کیسے کیسے چدواتی ہوں تماری اس مست لن سے میں باجی کے منہ سے اتنی کھلی کھلی باتیں سن کر حیران ہوگیا کیسے بے شرمی سے کھلے الفاظ میں سب کچھ کہہ گئی میرے خیال میں ایسا تو کوئی رنڈی بھی نہیں بول سکتی
باجی جب بول کر رکی تو واپس میرے لن پر جهكی اور لن منہ میں بھر کر چوسنے لگ گئی بیچ بیچ میں اپنی زبان کی نوک میرے لن کے سوراخ میں ڈال لیتی تو میری جان جانے لگ جاتی نہ چاہتے ہوے بھی میرے منہ سے آہ آہ کرتی آہیں نکل رہی تھی اور میں نے ہاتھوں میں باجی کا سر بھی پکڑ لیا باجی میرا لن چوستی اپنا ہاتھ میرے سینے پر لائی اور مجھے دھکا دے کر بیڈ پر لیٹنے کا اشارہ کیا تو میں بیڈ پر لیٹ گیا میری ٹانگیں لٹکی ہوئی تھی اور باجی ہم همممم کرتی ہوئی میرے لن کے چوپے مار رہی تھی لن باجی کی تھوک سے پورا گیلا ہو چکا تھا اور باجی کے منہ سے نکلا تھوک بہتا ہوا میرے ٹٹو کو بھگو رہا تھا لن کی چوسآئی کرتی ہوئی باجی ہاتھ بھی چلا رہی تھی جس سے مجھے ایک الگ ہی مزہ آرہا تھا میرا لن تو انٹی بھی چوس چکی ہے مگر باجی کی بات اور تھی اسکا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ کاٹ کر کھا جاتی باجی ہلکے ہلکے دانت تو تو ٹوپے پے گاڑھ رہی تھی جس سے میں اوپر اٹھ جاتا ایسا کرنے سے مجھے ایک عجیب سا مزہ مل رہا تھا اور میں مزے میں آہیں بھر رہا تھا اب میں خود بھی جھٹکے مار کر اپنی پیاری سی باجی کا منہ چود رہا تھا ہاتھوں سے تو باجی کا سر پکڑا ہوا تھا اور اپنا موٹا تازہ لوڑا تیزی سے
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔