Master Mind
Premium
Offline
- Thread Author
- #1
میرا نام ندیم ہے اور یہ میری بیوی نجمہ کے ساتھ بیتی ایک داستان ہے جو بالکل سچے سچی ہے یہ واقعات دو ماہ قبل واقعہ ہوئے۔ میں اس داستان کو آپ سب کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں اور ہر رات یہ واقعات قسط وار شائع کروں گا۔
میں ہر روز جم جاتا ہوں اور وہاں میرے ساتھ ایکسر سائز کرنے والا چوہدری میرا دوست بن گیا۔ آہستہ آہستہ یہ روٹین بن گئی کہ ہم لوگ پورا ہفتہ اکٹھے جم کرتے اور ویک اینڈ پر پینے پلانے کا شغل بھی اکٹھے کرنے لگے۔
ہر اتوار کی طرح اس بار بھی ہم شام کو چھے بجے ڈرنک کرنے ڈھابے پہنچے اور پینے کا دور چلنے لگا۔ دو گھنٹے پینے کے بعد چوہدری بولا “چل یار! ہاسٹل چل کر دوستوں سے مل کر آتے ہیں"۔ چوہدری کے کچھ دوست ہاسٹل رہتے ہیں جن سے میں کافی دفعہ نہ صرف مل چکا تھا بلکہ ان سے میری بھی اچھی دوستی ہو چکی تھی سو میں نے ہاں میں گردن ہلا دی۔ ہم ان سے ملنے ہاسٹل پہنچے اور وہاں سے ہم سب اکٹھے گھومنے کو لانگ ڈرائیو پر نکلے۔ یہ ہماری روٹین بن چکی تھی کہ پینے کے بعد ہم چوہدری کے دوستوں کو ہاسٹل سے لے کر لانگ ڈرائیو پر نکلتے اور شہر سے باہر ایک نسبتاً ویران ڈھابے پر، جو ٹرک ڈرائیوروں کے لیے بنایا گیا تھا، رکتے اور ایک ایک بیئر مزید مارتے اور اس کے بعد اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے۔ اس بار بھی ہم نے یہی کیا اور شہر سے باہر ڈھابے پر بیئر پیتے ہوئے باتیں کر رہے تھے کہ اس دوران چوہدری کی گرل فرینڈ کا فون آیا جسے اٹینڈ کرنے کے لیے وہ باہر نکل گیا۔ جب بھی چوہدری کی گرل فرینڈ کا فون آتا وہ تقریباً آدھے گھنٹے سے ایک گھنٹے تک طویل ہوتا تھا۔ اس کے جاتے ہی ایک دوست بولا "سالا گرل فرینڈ صرف چودنے کے لیے بناتا ہے اور ہر چار پانچ مہینے بعد گرل فرینڈ بدل لیتا ہے۔ میں نے کہا "یار! سب لوگ ایسے ہی کرتے ہیں کہ لڑکی صرف چودنے کے لیے پھنساتے ہیں۔”
اس کا ایک دوست بولا “اس بار بھڑوے نے کسی شادی شدہ لڑکی کو پٹایا ہے اور کیا چکنی چیز ہے سالی۔ شوہر ڈاکٹر ہے اور ڈیوٹی سے رات کو ہی لوٹتا ہے۔ جب اس کا شوہر شہر سے باہر ہو یا ہسپتال میں ہو تب چوہدری اس کی بیوی کو گھماتا پھراتا اور خوب چودتا ہے۔”
ایک دوست بولا “کئی بار تو ہمارے ہاسٹل میں بھی لا کر چودا ہے سالی کو۔۔۔ لیکن بہن چود کبھی اپنی گرل فرینڈ ہم سے شیئر نہیں کرتا بلکہ اس کا موبائل نمبر تک نہیں دیتا ہمیں۔”
اسی دوران چوہدری واپس آ گیا لیکن میں نے اس کے ہاسٹل کے دوستوں کے سامنے اس سے کچھ پوچھا نہیں۔ اس کے بعد میں نے ان دوستوں کو ہاسٹل ڈراپ کر دیا۔ اب کار میں صرف میں اور چاہدری رہ گئے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا “بیٹاً آخر یہ معاملہ کیا ہے اور کون ہے وہ لڑکی؟”
“یار ہے ایک ڈاکٹر کی بیوی جو اسے سارا دن باہر رہتا ہے اور اسے زیادہ ٹائم نہیں دے پاتا۔” چوہدری نے ہنستے ہوئے بتایا۔
پھر میں نے پوچھا “یار! تُو نے اسے پٹایا کیسے؟”
چوہدری بولا “کچھ نہیں یار! ایک دن اس کا شوہر میرے ہوٹل میں آیا تھا، اس کے کسی کزن کی شادی تھی جس کے لیے اس نے کمرے بک کروائے۔ میں نے اچھی سروس دے دی اور ڈسکاؤنٹ بھی اچھا دیا، بس اس کے بعد اس سے اچھی جان پہچان ہو گئی۔ وہیں میں اس کی بیوی سے ملا تھا۔ ڈاکٹر کو کچھ دن کے لیے شہر سے باہر جانا پڑا تھا اور اس نے اپنی بیوی کا موبائل نمبر دے دیا کہ بل وغیرہ کے معاملات کے لیے میں اس سے راابطہ کر لوں۔ میں نے بل کے بہانے اس کی بیوی سے فون پر رابطہ رکھا اور اس دوران چکنی چپڑی باتوں سے اسے پٹا لیا۔”
میں بولا “واہ یار یہ تو زبردست کام کیا تو نے۔”
چوہدری بولا “یار شادی شدہ لڑکیاں زیادہ سیکس کی بھوکی ہوتی ہیں اور جلدی پٹ جاتی ہیں لیکن فن آنا چاہیے انھیں پٹانے کا تو کوئی بھی شادی شدہ عورت پٹائی جا سکتی ہے۔
پھر میں نے چوہدری کو گھر اتارا اور خود اپنے گھر آ گیا۔ گھر پہنچ کر میں نے اپنی کیوٹ بیوی نجمہ کو چودا اور سو گیا۔
نجانے کیوں اگلا سارا دن میں یہی سوچتا رہا کہ کیا واقعی چوہدری سچ کہہ رہا تھا کہ ہر شادی شدہ عورت کو اتنی آسانی سے پٹایا جا سکتا ہے۔ شام کو جم میں چوہدری ملا اور بولا "یار میرا بٹوہ شاید تیری کار میں رہ گیا ہے۔”
میں نے کہا “یار پتا نہیں! کار میں تو نہیں دیکھا۔۔۔ ہاں آج صبح میری بیوی نے کار کی صفائی کی تھی۔۔۔ اس نے نکال کر رکھ نہ دیا ہو۔۔۔ تُو شام کو گھر آ جا میں دیکھ لوں گا اگر ہوا تو۔۔۔”
اس نے کہا “ٹھیک ہے! میں شام کو آؤں گا۔”
میں نے کہا “یار جب گھر آ ہی رہا ہے تو ڈنر بھی وہیں کر لینا۔”
وہ بولا “ٹھیک ہے۔”
میں نے فون پر اپنی بیوی نجمہ سے کہا کہ آج رات ایک دوست آ رہا ہے تو کھانا ذرا اچھا بنا لینا۔
رات کو چوہدری پہنچا تو ہم نے پہلے ڈرنک کرنا شروع کیا۔ ڈرنک کرتے ہوئے چوہدری بولا “یار تپو تو بڑا خوش قسمت ہے کہ تجھے اتنی سیکسی بیوی ملی ہے۔ کاش مجھے بھی اتنی ہی سیکسی بیوی مل جائے تو زندگی کا مزا آ جائے۔”
یہ سن کر میں ہنس پڑا اور وہ بھی ہنسنے لگا لیکن ساتھ ہی ساتھ میں اس کی آنکھوں میں اپنی بیوی نجمہ کے لیے ہوس دیکھ رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ نظروں سے میری بیوی کا ریپ کر رہا ہو۔ نجمہ جب بھی جھک کر اسے کھانا یا پانی پیش کرتی وہ براہ راست نجمہ کے گریبان میں سے جھانکتے اس کے مموں کو گھورنے لگتا۔ نجانے کیوں اچانک مجھے خیال آیا کہ اگر چوہدری کی گرل فرینڈ کی جگہ نجمہ ہوتی تو کیا ہوتا اور یہ سوچ کر میرا لوڑا کھڑا ہا گیا۔ ڈنر کے دوران چوہدری نجمہ کے ساتھ باتیں کرتے کرتے اس کے ساتھ کافی گھل مل گیا تھا اور اس سے کافی دوستی کر لی تھی جس میں وہ کافی ماہر تھا۔ ڈنر کے بعد ہم نے سگریٹ پیے اور پھر چوہدری کو بائے بول کر میں اور نجمہ سونے چلے گئے۔
ساری رات میں یہی سوچتا رہا کہ اگر چوہدری نے میری بیوی کو پھنسا لیا اور چود دیا تو۔۔۔ بجائے غصہ آنے کے میرا لوڑا اس سوچ سے کھڑا ہو گیا تھااور میں نجمہ کو بے حد جوش سے چودنے لگا۔ میں نے سوچا کہ اگر صرف سوچ کر اتنا مزا آ رہا ہے تو حقیقت میں نجمہ کو چوہدری کے نیچے ننگی لیٹے ہوئے اس کے لوڑے سے چدواتے دیکھ کر کتنا لطف آئے گا۔ میں اس قسم کی باتیں سوچ کر سیکس اور ہوس سے پاگل ہو رہا تھا کہ چوہدری میری بیوی نجمہ کو فرنچ کس کر رہا ہے۔۔۔ چوہدری میری بیوی نجمہ کو لانگ ڈرائیو پر گھمانے لے جا رہا ہے اور نجمہ کی شلوار کے اوپر سے اس کی چکنی سڈول رانوں پر ہاتھ پھیر رہا ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
اگلے روز بھی سارا دن میں دفتر میں یہی کچھ سوچتا رہا۔۔۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر مجھے کیا ہو رہا ہے، کیوں ایسی سوچیں آ رہی ہیں۔۔۔ شام کو جم گیا تو وہاں چوہدری ملا اور ملتے ہی بولا “یار آج ایکسرسائز کا بالکل دل نہیں کر رہا۔۔ چل کہیں گھومنے چلتے ہیں۔”
میں نے او کے کر دیا اور ہم لوگ ڈرائیو پر نکل گئے۔
چوہدری مجھ سے بولا “یار چل میرے فارم ہاؤس پر چلتے ہیں۔۔۔ وہاں بیئر پیتے ہیں۔” ہم نے بیئر کی چار بوتلیں، کھانے کے لیے چکن کباب اور تندوری نان لیے اور کوئی پندرہ بیس منٹ میں ہم اس کے فارم ہاؤس پہنچ گئے جو کہ شہر سے بمشکل تمام پندرہ بیس کلو میٹر کی دوری پر تھا۔
چوہدری کا فارم ہاؤس زیادہ بڑا نہیں تھا لیکن اچھی طرح سلیقے سے سیٹ کیا ہوا تھا۔ ایک خاصا بڑا سا گھر تھا جس کے چاروں اطراف میں باغ تھا۔
فارم ہاؤس پر چوہدری نے ایک پٹھان کو اس کی فیملی سمیت رکھا ہوا تھا جو حفاظت، دیکھ بھال اور باغبانی کے ساتھ ساتھ مہمانوں کی خاطر تواضع بھی کرتے تھے۔ راستے سے ہی چاہدری نے گارڈ کو فون کر کے اسے ایک کمرہ صاف کر کے اس میں کرسیاں میز لگانے کا کہہ دیا تھا جو ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی لگا دی گئی تھیں۔
ہم اس کمرے میں بیٹھ کر بیئر پینے اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔ میں نے جان بوجھ کر چوہدری سے اس کی شادی کا موضوع چھیڑ دیا۔ جس پر وہ کہنے لگا “یار ابھی شادی کا نہیں بلکہ کھیلنے کودنے اور عیاشی کرنے کا وقت ہے۔” جس پر ہم دونوں ہنس پڑے۔ اس دوران ہم کافی پی چکے تھے۔ چوہدری بولا “یار ندیم تُو کچھ بھی بول لیکن تُو بہت خوش قسمت ہے۔”
میں نے پوچھا “وہ کیسے بھائی؟”
اس پر وہ بولا “یار تجھے اتنی سیکسی بیوی مل گئی ہے، مجھے بھی اتنی ہی سیکسی لڑکی مل جائے تو فوراً شادی کر لوں۔” لیکن یہ جملہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں نجمہ کے لیے جو ہوس تھی وہ قابلِ دیدتھی۔
میں نے کہا “ہاں یار! خوش قسمت تو میں واقعی ہوں۔”
پھر چوہدری مجھ سے پوچھنے لگا “یار نجمہ بھابھی کی کوئی بہن وہن نہیں ہے کیا؟”
میں نے پوچھا “وہ کیوں؟”
اس نے کہا “یار اگر ہے تو میں اس کو ہی پٹا لوں گا۔ آخر وہ بھی تو اپنی بہن کے جتنی ہی سیکسی ہو گی نا اور نجمہ بھابھی جیسا ہی ٹیسٹ ہو گا اس کا بھی۔” یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگا اور میں بھی مسکرا دیا۔
مجھے اس کی باتوں پر ذرا بھی غصہ نہیں آ رہا تھا بلکہ میں یہ تصور کر رہا تھا کہ چوہدری میری بیوی نجمہ کے ساتھ بیٹھا ہے اور اس کے ساتھ مستیاں کر رہا ہے۔
یہی سب سوچ سوچ کر میرا لوڑا کھڑا ہوا جا رہا تھا۔ پینے اور کھانے کے بعد ہم لوگ واپس لوٹے تو راستے میں مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ کچھ ایسا کیا جائے جس سے چوہدری کو نجمہ سے یاری گانٹھنے کا موقع مل سکے اور ان کے بیچ نزدیکی بڑھے اور سیکس کا تعلق قائم ہو سکے۔ تھوڑی دیر ایسی ہی باتیں سوچ کر میں نے بعد چوہدری سے کہا “چوہدری! یار کل تپو کیا کر رہا ہے؟”
اس نے کہا “کچھ بھی ایسا خاص نہیں۔ تُو بتا کیا کوئی پلان ہے؟”
میں نے کہا “یار تُو نے آج اپنا فارم ہاؤس دکھایا اور وہاں مجھے پارٹی بھی دی۔۔۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کل تُو ڈنر میرے ساتھ میرے غریب خانے پر کر لے۔ بول آئے گا نا؟”
چوہدری بولا “ہاں ہاں یار کیوں نہیں! ضرور آؤں گا۔ تُو ٹائم بتا دے۔”
میں نے کہا “آٹھ بجے آ جانا۔۔۔ تھوڑی بہت پی لیں گے اور پھر ڈنر اکٹھے کریں گے اور ڈنر نجمہ خود اپنے ہاتھ سے بنائے گی۔” جیسے ہی میں نے نجمہ کا نام لیا چوہدری کے چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں ہوس آ گئی۔
مجھے بہت تجسس ہو رہا تھا کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ مجھے اپنا پلان آگے بڑھتا دیکھ کر خوشی بھی ہو رہی تھی اور ڈر بھی لگ رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ جب چوہدری گھر آئے گا تو کیا نجمہ اس سے دوستی کرے گی ،اکیا وہ چوہدری کو قریب آنے دے گی، کیا نجمہ چوہدری کو چودنے دے گی، کیا میرا اپنی بیوی کو دوسرے مرد سے چدوانے کا پلان کامیاب ہو گا یا نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ یہی سب سوچ سوچ کر میرا لوڑا تو کھڑا ہو رہا تھا لیکن ساتھ ہی عجیب سا ڈر بھی لگ رہا تھا کہ کہیں نجمہ کو معلوم تو نہیں ہو جائے گا کہ میں نے خود اسے کسی اور سے چدوانے کا مکمل پلان بنایا ہے، وہ غصہ تو نہیں کر جائے گی۔ لیکن پھر میں نے سوچا کہ میری بیوی بھلا کیوں برا مانے گی، میں نے چوہدری کو صرف رات کو کھانے پر ہی تو بلایا ہے۔ گھر پہنچ کر میں نے نجمہ کو بتایا کہ میں نے کل رات کو چوہدری کو کھانے پر بلایا ہے۔ یہ سن کر اس نے کسی خاص رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔
اگلے روز رات کو دروازے کی بیل بجی۔ میں نے نجمہ سے کہا کہ جا کر دروازے پر دیکھے کہ کون ہے، شاید چوہدری ہو گا۔
نجمہ نے ایک بے حد سیکسی قمیض شلوار پہنی ہوئی تھی جس کا گلا اس کے تمام ڈریسز کی طرح کافی کھلا تھا جس میں سے اس مموں کی درمیانی لائن اور آدھے ممے باہر نکلتے نظر آ رہے تھے، دوپٹہ لینے کی زحمت وہ یوں بھی کم ہی کرتی تھی۔ دروازے پر چوہدری ہی تھا جسے نجمہ نے خوش آمدید کہا اور اندر آنے کو کہا۔ چوہدری نے اندر آتے آتے نجمہ پر کمنٹ پاس کیا “نجمہ! اس ڈریس میں تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔” نجمہ شرما کر رہ گئی لیکن منہ سے کچھ نہ کہا۔
اس کے بعد ہم لوگ ٹی وی روم میں بیٹھ کر ڈرنک کرنے لگے اور دیحہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر وائن پینے لگی۔ میں دیکھ رہا تھا کہ چوہدری بار بار نجمہ کو کافی نزدیک سے نظروں ہی نظروں میں پرکھ رہاتھا اور جب جب میری بیوی اسے کچھ پیش کرنے کے لیے جھکتی وہ نجمہ کے کھلے گلے میں سے جھانک کر نجمہ کے مموں کی لائن کو للچائی ہوئی نظروں سے گھورنے لگتا تھا۔ نجمہ نے جو کرتا شلوار پہنا ہوا تھا اس کے کھلے گلے میں سے نجمہ کے آدھے سے زیادہ ممے تو نظر آ ہی جاتے تھے۔ نجمہ کے ایک دم گورے اور چکنے ممے جو عائشہ تکیہ کے مموں جیسے تھے یہ بڑے بڑے اور گورے گورے لیکن نجمہ کے نپلز گلابی ہیں کالے نہیں۔
مجھے لگ رہاتھا کہ چوہدری کی حالت خراب ہو رہی ہےاور میرا اپنا لوڑا بھی ایک دم تنا ہوا تھا۔ پتا نہیں نجمہ کو معلوم ہو چکا تھا یا نہیں کہ چوہدری اس کے ممے دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن نجمہ کافی فرینک قسم کی لڑکی ہے اور اسے اس بات سے زیادہ فرق بھی نہیں پڑتا تھا شاید اسی لیے وہ چوہدری کو بار بار کچھ پیش کر رہی تھی اور ہر بار پہلے سے کچھ زیادہ جھک رہی تھی اور وہ بھی بالکل چوہدری کے چہرے کے سامنے۔ نجمہ کے یوں بار بار چوہدری کے آگے جھکنے سے میری یہ خواہش کہ کہ نجمہ کو کسی غیر مرد سے چدواتا دیکھوں پوری ہوتی نظر آ رہی تھی۔
باتوں باتوں میں ہم نے تقریباً چار بوتل بیئر کی ختم کر ڈالی تھیں۔ نجمہ نے کہا کہ میری وائن کی بوتل ختم ہو گئی ہے، یہ بوتل پہلے ہی آدھی تھی اس لیے جلدی ختم ہو گئی۔
میں نے کہا “یار رات بہت بیت چکی ہے اور اس وقت کہیں سے وائن نہیں ملے گی۔ اس لیے تم بیئر ہی پی لو۔”
نجمہ بولی “نا بھئی نا! مجھے بیئر بہت چڑھ جاتی ہےاور میں ہوش کھو بیٹھتی ہوں اور مجھے کچھ یاد نہیں رہتا کہ میں نے کیا کچھ کیا ۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا "ہاں! مجھے یاد ہے تم نے ہنی مون کے دن کیا کیا ڈرامہ کیا تھا۔”
تبھی چوہدری نے پوچھا “کیا ہوا تھا اس دن؟”
یہ سن کر میں اور نجمہ ہنسنے لگے مگر چوہدری بولا “پلیز بتاؤ نا کیا ہوا تھا اس دن؟”
میں بولا “رات کو ہم لوگ ڈسکو گئے تھے اور وہاں وائن نہ ہونے کے باعث میں نے نجمہ کو بیئر کے چار پانچ پیگ پلا دیے اور اس کے بعد نجمہ نے ڈسکو فلور پر جا کر خوب ڈانس کیا اور یہی نہیں بلکہ نجمہ کسی کے ساتھ بھی ڈانس کرنے لگ جاتی تھی اور ڈانس کرتے کرتے اتنی مستی میں آ گئی کہ اپنی ٹی شرٹ بھی اتار دی۔”
یہ سن کر چوہدری نے قہقہہ لگایا۔ میں بولا “وہ تو خیر اچھا ہوا کہ وہ کینیڈا تھا اور وہاں سبھی لوگ تقریباً ننگے ہی تھے تو کچھ فرق نہیں پڑا۔”
یہ باتیں سن کر نجمہ کا چہرہ شرم کے مارے لال ہو گیا اور وہ بولی “شٹ اپ یار! میں نے کون سا یہ سب جان بوجھ کر کیا تھا۔۔۔ میں اس وقت نشے میں تھی اور مجھے کچھ ہوش ہی نہیں تھا۔”
یہ سن کر چوہدری بولا “نشے میں انسان وہی کرتا ہے جو اس کا دل چاہتا ہے یا اس کی جو دلی خواہش ہوتی ہے۔” یہ سن کر نجمہ مزید شرمانے لگی اور مسکرا کر خاموش ہو گئی۔
میں یہ سب سن رہا تھا اور دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ آج اپنی بیوی نجمہ کو بیئر پلا ہی دیتا ہوں کیونکہ نجمہ آج کافی موڈ میں ہے اور آج چوہدری بھی پر ہے، آج دونوں کو اتنی پلا دیتا ہوں کہ دونوں اپنے ہوش کھو بیٹھیں اور پھر دیکھتا ہوں کیا ہوتا ہے۔ چوہدری یہ تو جان ہی چکا تھا کہ پینے کے بعد نشے میں نجمہ کو کچھ شرم حیا اور ہوش نہیں رہتا تو و سکتا ہے کہ وہ اس بات کا فائدہ ہی اٹھا لے اور مجھے اپنی بیوی نجمہ کو کسی غیر مرد سے اپنے سامنے چدواتے ہوئے دیکھنے کا موقع مل جائے۔
یہی سب سوچ کر میں نے نجمہ سے کہا “یار ایک گلاس بیئر سے کچھ نہیں ہو گا، پی لو۔”
نجمہ نے پھر بھی انکار میں گردن ہلائی اور بولہ “نہ بابا مجھے ڈر لگتا ہے۔”
میں نے اسے کہا “یار پی لو، اچھا نہیں لگتا نا کہ ہم دونوں پی رہے ہیں اور تم یوں ہی بیٹھی ہوئی ہو۔”
تبھی چوہدری نے کہا “ہاں بھابھی اگر آپ نہیں پییں گی اور یونہی خالی بیٹھی رہیں گی تو ہمیں اچھا نہیں لگے گا،ہم باتیں کرتے رہیں گے اور آپ بور ہوں گی۔”
نجمہ پھر بھی نہ مانی تو میں نے تھوڑا سا غصے میں کہا “نجمہ! تم اپنے گھر میں ہی ہو، اگر نشہ چڑھنے لگے گا تو سو جانا۔ اب مہمان کے ساتھ یہ تو مت کرو ۔ کبھی کبھار مہمانوں کے ساتھ تو بیئر چلتی ہے۔ کم آن تھوڑی سی پیو ہمارے ساتھ یار۔” یہ کہہ کر میں نے نجمہ کے ہاتھ میں کنگ فشر کی سٹرونگ بیئر کا گلاس تھما دیا۔
اس سے پہلے میری بیوی نے اگر کبھی بیئر پی بھی تھی تو وہ ایک دم لائٹ بیئر تھی لیکن میں نے آج اسے جان بوجھ کر سٹرانگ بیئر دی تھی تا کہ وہ جلد از جلد اور زیادہ نشے میں دھت ہو جائے۔
پھر ہم لوگ باتیں کرنے لگے اور باتوں کے دوران صاف لگ رہا تھا کہ نجمہ کو نشہ چڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اسے کافی جلدی نشے چھانے لگا تھا کیونکہ ایک تو وہ کافی دنوں کے بعد بیئر پی رہی تھی او ردوسرے وہ بیئر تھی بھی کافی سٹرانگ۔ اس کا بیئر کا گلاس ختم ہو چکا تھا اور میں جانتا تھا کہ ایک مرتبہ نشے میں آ جانے کے بعد وہ اور زیادہ پینے سے نہیں جھجکتی تھی۔ میں نے اسے کہا “تم بیٹھو، میں کچن سے جا کر فرج میں سے بیئر نکال کر لاتا ہوں۔”
تبھی چوہدری بولا “یار میرے لیے بھی ایک لے آنا۔” میں نے چوہدری سے جواب میں “ضرور” کہا اور مسکراتا ہوا کچن کی طرف بڑھ گیا۔
میں کچن میں گیا اور وہاں سے وہسکی کی بوتل نکالی جو میں کچن کے اوپر والے شیلف میں ہمیشہ چھپا کر رکھتا ہوں اور نجمہ کے بیئر کے گلاس میں دو پیگ وہسکی ملا دی۔ مجھے معلوم تھا کہ نجمہ کو چڑھ چکی ہے اور نشے میں اسے ذائقے کا فرق کہاں معلوم ہونا تھا۔ اسی طرح میں نے تھوڑی سی وہسکی چوہدری کی بیئر میں بھی ملائی اور گلاس لے کر دوبارہ ان کے پاس ہال میں آ گیا اور ان کے گلاس ان کے ہاتھوں میں تھما دیے۔
ہم لوگ پھر سے ڈرنک کرنے لگے تھے۔ اب نجمہ کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ وہسکی نے اپنا کمال دکھا دیا تھا، کاک ٹیل نے اثر تو کرنا تھا، اسے پوری طرح چڑھ چکی تھی اور وہ مکمل نشے میں دھت ہو چکی تھی۔ چوہدری کو بھی کافی چڑھ چکی تھی۔ اب میں نے سوچا کہ کیسے دونوں کو مزید قریب لایا جائے۔ میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور میں نے نجمہ سے کہا “نجمہ، میرا موبائل کچن میں رہ گیا ہے، وہ تو مجھے لادو پلیز۔”
نجمہ نے اثبات میں گردن ہلائی اور اٹھ کر نشے میں لہراتی ہوئی اپنے مست چوتڑ مٹکاتے کچن کی طرف بڑھ گئی۔ جیسے ہی وہ ہال سے نکلی میں نے صوفے پر اپنے پاس اس جگہ جہاں نجمہ بیٹھی ہوئی تھی، بیئر گرا دی۔ اس دوران نجمہ کچن سے واپس لوٹی اور بولی “آپ کا موبائل وہاں تو نہیں ہے۔”
اس دوران میں صوفے پر نیم دراز ہو گیا تھا تا کہ نجمہ کے پاس کوئی جگہ نہ بچے بیٹھنے کو۔ میں نے جواباً کہا"اوہ اچھا، شاید مجھے کافی نشہ چڑھ گیا ہے تبھی بھولنے لگا ہوں، خیر کوئی بات نہیں ابھی مل جائے گا۔ میں تھوڑا ریسٹ کرتا ہوں تب تک تم دونوں انجوائے کرو۔"
صوفے پر میں نیم دراز تھا اور باقی ماندہ جگہ بیئر گرنے کے باعث پوری طرح گیلی ہو رہی تھی۔ اب نجمہ کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا تھا سوائے چوہدری کے ساتھ بیٹھنے کے۔ چوہدری اس کی پریشانی بھانپ گیا اور اسے بولا “بھابھی! ادھر آ جائیں! یہاں کافی جگہ ہے۔ ادھر بیٹھ جائیں۔” نجمہ اب چوہدری کے پاس اس کے بازو میں بیٹھ گئی اور وہ دونوں ڈرنک کرنے لگے۔
میں کچھ ہی دیر میں سونے کی ایکٹنگ کرنے لگا لیکن آنکھوں کی جھری سے انھی کی جانب دیکھتا رہا اور ان دونوں کی باتیں سننے لگا۔ وہ دونوں کافی نشے میں تھے اور اب تک ایک دوسرے سے کافی فرینک بھی ہو چکے تھے۔ چوہدری بار بار نجمہ سے یہی پوچھ رہا تھا کہ “بھابھی! آپ نے ہنی مون پر ڈسکو میں اپنی ٹی شرٹ کیوں اتاری تھی؟” اور جواب میں نجمہ صرف ہنس رہی تھی۔ کچھ دیر ان کی باتیں سننے کے بعد مجھے لگا کہ شاید مجھے ان دونوں کو کچھ مزید تنہائی دی جانی چاہیے اور تھوڑی اور پلانی چاہیے، تب شاید کچھ کام بن سکے۔
اس خیال کے تحت میں اٹھا اور بولا “یار آخری ڈرنک ایک ایک وہسکی کی لی جائے اور سویاجائے۔”
چوہدری بولا “یار وہسکی نہیں کاک ٹیل ہو جائے۔”
میں نے کہا “کوئی بات نہیں یار پی لیتے ہیں۔ ویسے بھی بیئر تو کافی پی چکے ہیں۔ چلو کچھ نیا آزماتے ہیں اور یوں بھی نجمہ کو وہسکی زیادہ پسند ہے۔” نجمہ فل ٹُن تھی اسی لیے میری بات پر محض مسکرا دی۔ اور چوہدری نے تو یوں بھی کیا ہی منع کرنا تھا۔ میں اٹھا اور پہلے اپنے بیڈ روم میں گیا اور وہاں سے چار ویاگرا نکالیں اور پھر کچن میں آ گیا۔ دونوں کے گلاسوںمیں دو، دو گولیاں ویاگرا کی ڈال کر اچھی طرح انھیں حل کیااور تھوڑی سی کولڈ ڈرنک بھی شامل کر دی تا کہ ایک تو ذائقے میں فرق محسوس نہ ہو اور دوسرا ویاگرا نظر نہ آئے۔ پھر لا کر ان دونوں کو ان کے گلاس پکڑائے اور ان سے کہا “یار تم لوگ اپنی ڈرنک آرام سے پیو، مجھ سے مزید نہیں بیٹھا جا رہا، میں چلا سونے۔”
پھر میں نے چوہدری سے کہا “یار تُو کافی پی چکا ہے اس لیے پلیز اس حالت میں گاڑی ڈرائیو مت کرنا، یہیں گیسٹ روم میں سو جانا اور صبح چلا جانا۔” اس کے میں نے نجمہ سے کہا “نجمہ، چوہدری کو گیسٹ روم تک چھوڑ کر آ جانا۔ گڈ نائٹ!”
یہ کہہ کر میں اپنے بیڈ روم میں گھس گیا اور وہاں کی لائٹیں بجھا دیں اور کی ہول سے باہر ہال میں جھانکنے لگا۔ دونوں فل ٹُن تھے اور نجانے کیا کیا بول رہے تھے۔ اتنا سمجھ آ رہا تھا کہ چوہدری نجمہ سے پوچھ رہا تھا کہ بھابھی، شادی سے پہلے آپ کا کوئی بوائے فرینڈ تھا؟ نجمہ کا جواب “ہاں” سن کر میں سخت حیران ہوا اور میرا لوڑا پہلے سے بھی زیادہ ٹائٹ ہو گہا۔
پھر چوہدری نے پوچھا “کیا آپ نے کبھی اسے کس کی تھی؟” اور اس پر بھی نجمہ نے کہا “ہاں! کالج کی پارٹی تھی اور ہم لوگوں کا کالج میں آخری دن تھا۔ تب اس نے مجھے فرینچ کس کی تھی۔ ”
مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کیونکہ نجمہ نے مجھے کبھی یہ نہیں بتایا تھا اور آج ایک اجنبی کو جو ابھی ابھی اس کا دوست بنا تھا، یہ سب بتا رہی تھی۔
پھر چوہدری نے کہا “نہیں بھابھی، یہ نہیں ہو سکتا، مجھے تو یقین نہیں آ رہا کہ آپ کو فرینچ کس کرنا آتا ہو گا۔”
نجمہ بولی “یار مجھے آتا ہے۔”
چوہدری بولا “نہیں بھابھی، مجھے یقین ہے آپ کو نہیں آتا ہو گا۔”
نجمہ چڑ گئی اور بولی “آتا ہے بھئی مجھے، کیا ثبوت دوں تمھیں کہ مجھے فرینچ کس کرنا آتا ہے؟ ہاں بولو، بولو!”
میں سمجھ گیا کہ چوہدری کے دماغ میں یقیناً وہی بات ہو گی کہ نشے چڑھنے کے بعد نجمہ کو کچھ ہوش نہیں رہتا اور اگلے روز اسے کچھ یاد بھی نہیں رہتا تو شاید وہ اسی بات کا ناجائز فائدہ اٹھانا چاہ رہا تھا۔ اس کے ذہن میں یہی ہو گا کہ جب یہ لڑکی پبلک میں اپنی ٹی شرٹ نشے کی حالت میں اتار سکتی ہے تو اس حالت میں وہ اسے فرینچ کس بھی کر سکتی ہے۔ مجھے لگا کہ اب جلد ہی کچھ سیکسی دکھنے کو ملنے والا ہے اور یہی سوچ کر میرا لورا اکڑنے لگا تھا۔
چوہدری اب اپنی جگہ سے کھسکا اور نجمہ کے بالکل ساتھ آ کر بیٹھ گیا اور نجمہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا “اب مجھے ثابت کریں کہ آپ کو فرینچ کس کرنی آتی ہے۔” یہ کہتے ہی اس نے میری بیوی کی کمر کے گرد ہاتھ ڈالا اور میری بیوی کو اپنی جانب کھینچتے ہوئے اس کے گلابی اور رسیلے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسنا شروع کر دیا، نجمہ نے قطعاً کوئی مزاحمت نہ بلکہ چند ہی لمحوں میں وہ ایک دوسرے کی زبانیں چوس رہے تھے۔ تقریباً پانچ منٹ تک فرینچ کس کرنے کے بعد چوہدری نے نجمہ کے ہونٹوں کو چھوڑا اور اس کے چہرے کو دیکھنے لگا، شاید وہ نجمہ کا ردعمل دیکھنا چاہتا ہو گا لیکن نجمہ کے چہرے پر محض ایک ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ یہ دیکھ کر چوہدری نے میری بیوی نجمہ کو اپنی جانب کھینچا اور اسے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیا اور ایک مرتبہ پھر اس کے رسیلے ہونٹوں کو چوسنے لگا۔ اس بار نجمہ بھی جواباً چوہدری کو اپنی بانہوں میں زور زور سے جکڑ رہی تھی اور بے حد سیکسی انداز میں اسے کس کر رہی تھی۔ پھر نجمہ چوہدری کے پورے چہرے کو اپنی زبان سے ہر جگہ چاٹنے لگی۔ چوہدری اس دوران اپنے دونوں ہاتھ نجمہ کے مموں پر لے جا کر اس کے مخروطی ابھاروں کو دبانے اور مسلنے لگا تھا۔
پھر چوہدری نے نجمہ کی شلوار میں ہاتھ ڈالا، چونکہ میری بیوی نجمہ اپنی شلوار میں ازاربند کی بجائے ہمیشہ الاسٹک استعمال کرتی ہے لہٰذا چوہدری کو زیادہ مسئلہ نہ ہوا اور بہت آسانی سے اس کا ہاتھ میری بیوی کی شلوار میں چلا گیا تھا اور اس نے نجمہ کو تھوڑا سا اوپر اٹھا کر اس کی شلوار نیچے کھینچ کر اس کی رانوں میں کر دی اور نجمہ کی پینٹی میں ہاتھ ڈال کر اس کی ملائم چوت کے سہلانے لگا۔ نجمہ کی جانب سے بجائے کسی مزاحمت کے اس کی زوردار سسکیاں سن کر چوہدری کا حوصلہ بڑھا اور اس نے پہلے تو میری بیوی کی قمیض اتاری اور کچھ دیر اس کے سینے اور ستواں پیٹ کو سہلانے اور چومنے کے بعد اس نے ایک جھٹکے سے نہ صرف نجمہ کا برا اتار پھینکا بلکہ ٹانگوں میں پڑی نجمہ کی شلوار کو بھی ایک ہاتھ سے اس کی ٹانگوں سے نکال دیا۔ یہ دیکھ کر میری حالت خراب ہو رہی تھی کہ میری بیوی نجمہ چوہدری کی گود میں اس حالت میں بیٹھی تھی کہ سوائے پینٹی کے وہ پوری ننگی ہو چکی تھی۔ اس کا قیامت خیز بدن حشر برپا کر رہا تھا۔ اس کے گلابی ابھرے ہوئے نپلز والے گورے دودھیا ممے، اس کا ستواں پیٹ، اس کی ملائم اور چکنی رانیں، غرض کہ کسی بھی مرد کو مارنے کے مکمل سامان ہو چکے تھے۔ چوہدری کی گود میں بیٹھے ہوئے اس کے میڈیم سائز بوبس ہلکے ہلکے اچھل رہے تھے، اس کے بوبس بالکل ایسے تھے جیسے کسی کالج کی نوجوان دوشیزہ کے ہوں۔
واہ کیا سین تھا کہ میری بیوی کے ان قیامت خیز مموں کو میرا دوست چوہدری میرے ہی گھر میں نہ صرف ننگے کر چکا تھا بلکہ انھیں پاگلون کی طرح بے خوف ہو کر چوس بھی رہا تھا اور آہستہ آہستہ کاٹ بھی رہا تھا اور میری بیوی بڑے مزے سے اپنی مرضی سے اس کی گود میں ننگی بیٹھی اس سے اپنے ممے چسوا رہی تھی اور جواب میں سیکسی آہیں بھرتے ہوئے اس کو فرینچ کس بھی کر رہی تھی۔ میری خوبصورت بیوی کے ننگے ممے چوہدری کے بے تحاشا چوسنے سے دودھیا سے سرخی مائل ہو رہے تھے۔
مجھے زندگی میں اتنا مزا کبھی نہیں آیا تھا۔ میں اپنا لوڑا پینٹ سے باہر نکال کر ہاتھ میں لے کر ہلانے لگا تھا۔ میرا پلان کامیاب ہو گیا تھا۔
پھر چوہدری نے میری بیوی نجمہ کو ہلکا سا دھکا دیا اور اسے صوفے پر گرا دیا۔ نجمہ پشت کے بل صوفے پر گرگئی اور وہیں لیٹ گئی۔ اب چوہدری نے ہاتھ بڑھا کر میری بیوی کی پینٹی بھی اس کی ٹانگوں سے گھسیٹ کر اتار دی تھی اور نجمہ سر سے پاؤں تک بالکل ننگی میرے دوست کے سامنے پڑی تھی۔ چوہدری آگے کی جانب جھکا اور نجمہ کی رانوں کو چاٹتا ہوا اوپر کی طرف بڑھتے ہوئے اپنی زبان نجمہ کی چوت پر رکھ دی۔ نجمہ کے منہ سے ایک زوردار آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ نکلی۔ چوہدری اب نجمہ کی چوت چاٹ رہا تھا اور نجمہ مزے میں سسکتے ہوئے آہیں بھر رہی تھی، بڑبڑا رہی تھی آہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ اوہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ میں مر گئی۔۔۔ آہستہ۔۔۔ آہستہ کرو چوہدری ۔۔۔ مر جاؤں گی۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ اور کرو۔۔۔ زور سےےےے ہاں کرتے رہو پلیز ایسے ہی کرتے رہو۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ میں مری۔۔۔ بہت مز آ رہا ہے ڈارلنگ۔۔۔ اوہ یس بے بی پلیز
چوہدری لگاتار دس منٹ تک میری بیوی نجمہ کی چوت کو چاٹتا رہا اور پھر وہ نجمہ کے مموں کو اور بغلوں کو چوسنے لگا۔ وہ بہت بہت دیر تک نجمہ کے مموں اور اس کی بالوں سے پاک بغلوں کو چومتا اور چوستا رہا۔ پھر نجمہ نے اسے کچھ اشارا کیا اور چوہدری لیٹ گیا۔ نجمہ نے چوہدری کی پینٹ کی بیلٹ اور زپ کھولی اور چوہدری کی ٹانگوں سے کھینچ کر اس کی پینٹ اتار دی۔ اب چوہدری انڈر ویئر پہنے لیٹا تھا۔ اس کے انڈرویئر کا ابھار کافی بڑا تھا، جس سے مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ چوہدری کا لوڑا کافی بڑا ہو گا۔ میری بیوی نجمہ چوہدری کے اوپر جھکی اور دانتوں سے اس کا انڈرویئر پکڑ کر نیچے کھینا۔ واؤ کیا سین تھا، ایسا تو میری بیوی نے کبھی میرے ساتھ بھی نہیں کیا تھا۔ نجمہ نے جونھی چوہدری کا انڈرویئر نیچے کیا، اس کے لوڑا پھنپھناتا ہوا اچھل کر باہر آ گیا۔ چوہدری کا لوڑا دیکھ کر میرو تو گانڈ ہی پھٹ گئی، یہ موٹا لوڑا جس کی لمبائی کسی طرح بھی ساڑھے نو انچ سے کم نہیں ہو گی۔ اسے دیکھ کر نجمہ کی تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ نجمہ کا منہ حیرت سے کھلا ہوا تھا اور وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ گئی تھی، یقیناً وہ چوہدری کا لوڑا دیکھ کر بے حد خوفزدہ ہو گئی تھی۔ لیکن اب چوہدری اسے پیچھے کیسے ہٹنے دیتا۔
چوہدری مسکرایا اور اس نے نجمہ کو پکڑ کر اپنی جانب کھینچا ارو اسے تسلی دیتے ہوئے بولا “بھابھی آپ فکر نہ کریں، میں زبردستی نہیں کروں گا۔ آپ جیسا چاہیں گی ویسا ہی کروں گا اور اگر آپ نہیں چاہیں گی تو نہیں کروں گا۔”
نجمہ اس کی بات سن کر کچھ پر سکون ہوئی لیکن میں جانتا تھا یہ محض تسلی ہی ہے۔
مجھے ایک جانب تو چوہدری کا مست لوڑا دیکھ کر اس سے حسد محسوس ہو رہا تھا لیکن دوسری جانب ہی مجھے یہ سوچ سوچ کر ہی بے انتہا لطف آ رہا تھا کہ کیسے یہ موٹا اور لمبا لوڑا میری بیوی کی چوت میں جائے گا۔
نجمہ اب چوہدری کا لوڑا اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ہلانے لگی اور کچھ دیر بعد اپنا منہ چوہدری کے لوڑے کے پاس لے گئی اور ایک نظر چوہدری کے چہرے کو دیکھ کر اسے ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے نوازا اور اس کے لوڑے کو بے حد پیار بھرے انداز میں چوم لیا۔ اب کی بار چوہدری کی آہیں بلند ہوئیں۔
جاری ہے