Offline
- Thread Author
- #1
کرشمہ آنٹی کی حسرتیں
Part 1
رفعت! بات سنو بچے!" اک خوبصورت کھنکتی سی آواز نے
مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ میں اس وقت گلی کے نکڑ کو
کراس کرنے کو تھا۔ میں نے پیچھے دیکھا تو نہایت ہی شفیق
لیکن خوبرو خاتون دروازے سے آدھی باہر کو نکلی مجھ سے
مخاطب تھی۔ یہ کرشمہ آنٹی تھی۔ میں قریب جا کے آداب
بجا الیا اور روکنے کی وجہ دریافت کی۔ کرشمہ آنٹی نے چند
اشیاء کی فہرست مجھے تھما کر دوپٹے کے اندر ہاتھ ڈاال
اور نہاں خانہ سے پیسے نکال کر مجھے دئے۔ مجھے بازار سے
آتے وقت ان کے لئے سودا سلف کا انتظام کرنا تھا۔ رفعت
یعنی میں، محلے کا شریف النفس بچوں میں تصور ہوتا تھا۔
پھوپھی نے نام تو رفعت رکھا تھا لیکن مجھ میں گن سارے
ابا کے تھے جو محلے میں اپنی وجاہت کی وجہ سے الگ
پہچان رکھتے تھے۔ ابا سیمنٹ کے ہول سیل ڈیلر تھے، بزنس
چمک رہا تھا، اس لئے محلے میں ہمیں اور بھی قدر کی نگاہ
سے دیکھا جاتا تھا۔ تاہم انہوں نے ہماری تعلیم پر خصوصی
توجہ دے رکھی تھی اور بائیس سال تک مجھے بزنس کے
جھمیلوں سے دور ہی رکھا۔ تاہم انکے لئے کھانا پانی لے کے
جانا میری ذمہ داری تھی۔ فی الوقوع میری عمر پندرہ سال
تھی، آٹھویں کا طالبعلم تھا۔موسم گرما کی چھٹیاں تھیں
اور اس وقت میں ابا کے لئے کھانا لے کر اپنی سیمنٹ کے
گودام کی طرف جا رہا تھا۔ کرشمہ آنٹی ہمارے بچپن میں
محلے شفٹ ہو گئی تھی۔ ان کے شوہر خلیل صاحب پہلے
فروٹ سیلر تھے۔ کمائی اچھی تھی لیکن تھوڑے ایم بشس
واقع ہوئے تھے۔ اسی لئے کوئی دس سال پہلے جب انہوں نے
بہتر روزگار کی خواہش ظاہر کی تو ابا نے تھوڑی معاونت
فراہم کر کے ان کا دبئ کا ویزہ کرا دیا تھا اور اب وہ اپنی
زندگی کا بیشتر حصہ وہیں کاٹ رہے تھے۔ کام کاج بہتر ہونے
کی وجہ سے اب گھر کے حاالت بدل گئے تھے۔ ان کے جانے کے
بعد کرشمہ آنٹی اپنی بیٹی کے ساتھ رہتی تھی۔ ان کی بیٹی
مجھ سے کوئی پانچ سال بڑی تھی۔ اکیلے ہونے کی وجہ سے
کبھی کبھی خلیل صاحب کا اک بھتیجا انور ان کے پاس آ
رہتا، کبھی کرشمہ آنٹی کا بھانجا سلمان۔ سلمان چونکہ ہمارا
ہم عمر تھا، اسی لئے ہم کرکٹ بھی ساتھ کھیال کرتے تھے
اور اس توسط سے کرشمہ آنٹی کے گھر آنا جانا ہوتا تھا۔
ویسے بھی کبھی وہ ہمارے گھر، کبھی محلے داری میں امی
ان کے ہاں آتے جاتے رہتے تھے۔ کرشمہ آنٹی کی عمر تب کوئیچالیس سال رہی ہوگی لیکن انکا جسم ابھی بھی جواں اور
فگر اچھی طرح مینٹینڈ تھا۔ سلمان کا داخلہ اسی سال
بورڈنگ سکول میں کرنے کی وجہ سے اور پچھلے سال بیٹی
کی شادی کرنے سے اب کرشمہ آنٹی اکیلی رہتی تھی۔ میں نے
بازار سے واپسی پہ سودا سلف ان کے گھر چھوڑنا تھا۔ کوئی
ڈیڑھ بجے گودام سے واپسی پر میں نے دروازے پر دستک
دی۔ کرشمہ آنٹی نے دور سے پوچھا "کون ہے؟"