kashmiri
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
کہانی ایک دلہن کی دو سہاگ راتوں کی
یہ کہانی میرے ایک دوست راہول کی ہے، جس کا تعلق بھارت کے اترپردیش کے شہر کانپور سے ہے۔ میری اس کے ساتھ دوستی بنگلور میں ہوئی ، جب میں وہاں کچھ وقت کےلئے شفٹ ہو گیا تھا۔
اس کی شادی کو دس سال ہوگئے تھے اور دو بچوں کی پیدائش کے باوجود اس کی بیوی خاصی خوبصورت ، سڈول اور ماڈل جیسی باڈی کی مالک تھی۔ آگے کی کہانی اسی کی زبانی سنئے:
کانپور کے پرانے گنجان آباد شہر میں میری فیملی جس مکان میں رہتی تھی، اس کی دیوار سے لگے ہوئے دوسرے سیٹ میں سینی سر نام کی فیملی رہتی تھی جس میں معمر میاں بیوی، ان کے دو بیٹے اور بڑے بیٹے کی بیوی شامل تھی۔ ان کا چھوٹا بیٹا ذہنی طور پر معذور تھا۔ عمر کے لحاظ سے تو بچیس سال کا تھا، مگر اس کے دماغ کی نشونما اسکی پیدائش کے دو یا تین سال کے بعد رک گئی تھی۔ اس کی ہر وقت رال ٹپکی رہتی تھی۔ وہ خود کھانا کھا سکتا تھا نہ ناک صاف کرسکتا تھا۔ تن و نوش اور جسمانی صحت اسکی اچھی تھی۔
چونکہ لوگ اسکو پاگل سمجھتے تھے، اسلئےاس سے دور دور ہی رہتے تھے۔ وہ بھی بیچارہ اپنے ماں باپ کے رحم و کرم پر تھا۔ اپنے بڑے بھائی سے بہت ڈرتا تھا، کیونکہ وہ اس کی وقتاً فوقتاً پٹائئ کرتا رہتا تھا۔
میرا کمرہ مکان کی دوسری منزل پر تھا۔ اس کے متصل اس پاگل لڑکے، جس کا نام ارجن تھا کا کمرہ تھا۔ ہمارا مکان دراصل کسی وقت ایک ہی رہا ہوگا۔ بعد میں دیوار کھڑا کرکے اس کو دو الگ الگ سیٹوں میں بانٹ دیا گیا تھا۔
میرے کمرے کی دیوار کے اوپر ایک روشندان تھا، جو تاریک شیشے سے بند کیا گیا تھا۔ رات کو کسی وقت ارجن کے چیخنے چلانے کی آوازیں آتی تھیں۔ پھر اس کی ماں کی جھڑکیاں سنائی دیتی تھی۔ کبھی اس کا بھیا اسکو ڈنڈے سے پیٹتا تھا۔ میں کان بند کرکے رضائی اوڑھ کو سو جاتا تھا۔
اسی دوران گریجویشن کرنے کے بعد میں نے ایک ایڈوارٹائزنگ کے کورس میں داخلہ لیکر ایک کیم کارڈر خریدا تھا۔ اب یہ ایک مشغلہ سا بن گیا تھا کہ روز ہاتھ میں کیم کارڈر لیکر بازار، پارکوں، چڑیا گھر وغیرہ کا چکر لگا کر ریکارڈنگ کرتا رہتا تھا۔ پھر انسٹیچوٹ میں اسکو ایڈیٹ کرکے چھوٹی موٹی شوقیہ ڈاکومیٹری بناتا تھا۔ کسی وقت اشتہار وغیرہ یا کسی کیمپین کےلئے بھی میٹیریل مل جاتا تھا۔
ایک دن معلوم ہوا کہ پاگل ارجن کی شادی طے ہو گئی ہے اور اگلے ہفتے ہی رخصتی وغیرہ ہے۔ گھر پر بھابھی، میری ماں، اور دیگر افراد بحث کررہے تھے، آخر کس اندھے نے اپنی لڑکی اس پاگل کے حوالے کردی ہے۔ اگلے روز معلوم ہوا کہ لڑکی یتیم ہے اور اپنے ماموں یا چچا کے ساتھ رہتی تھی اور وہ شاید اب اس سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں۔ یہ بھی پتہ چلا کہ ارجن کے والدین نے اچھی خاصی رقم ان کے چچا کی دی ہے۔ یعنی ایک طرح سے لڑکی خریدی ہے۔
خیر شادی کا دن آیا اور جس جس نے بھی لڑکی دیکھی، اس نے منہ میں انگلیاں دبائی۔ کیونکہ لڑکی انتہائی خوبصورت تھی۔ نکھرا نکھرا گورا رنگ، جیسے شہد میں دودھ گھول دیا گیا ہو۔ وہ بلکل ایشوریہ رائے یا سشمتا سین سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ ان دنوں مس یونیورس اور مس ورلڈ کا خطاب ان دو ماڈلوں نے جیتا تھا۔
لہذا، جو بھی گھر آتا تھا۔ وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر کہتا تھا ہا ہا دلہن تو بلکل ایشوریہ رائے کی کاپی لگتی ہے۔ کیا روپ اور نکھار پایا ہے۔ مگر سب بیکار، کیسے کرے گی نبھاہ پاگل کے ساتھ۔ اس کی خوبصورتی کی تعریفیں کرنے کے بعد لوگ لڑکی کی قسمت پر تاسف کا اظہار کرتے تھے۔
اس دوران ایک دھماکہ دار خیال دماغ میں آیا۔ کیوں نہ ارجن اور اس لڑکی کی سہاگ رات کو ریکارڈ کیا جائے۔ میں نے اپنے کمرے میں آکر کیم کارڈر کو چیک کیا۔ اس میں نئی کیسٹ ڈالی اور اس کی بیٹری چیک کی۔ اب روشندان تک پہنچنے کا مسئلہ تھا۔ وہ بھی حل ہوگیا۔ کمرے میں ایک اونچا اسٹول رکھا تھا، جس سے چھت وغیرہ کی صفائی کی جاتی تھی۔
اسٹول پر چڑھ کر اب شیشے کا ایشو تھا۔ اس پر کالا رنگ چڑھایا گیا تھا۔ میں نے اسکو جب کھرچا، تو رنگ جلدی اتر گیا۔ میں نے بس ایک کونے سے رنگ اتارا۔ خیریت ہوئی کہ دوسری طرف رنگ نہیں تھا۔ اس کے اترتے ہی، پورا کمرہ میری نظروں کے سامنے تھا۔ سامنے بیڈ نظر آرہا تھا، اس کو تیار کیا گیا تھا۔ نیا شیٹ بچھا تھا اوراس پر پھولوں کی پتیاں بکھری ہوئی تھیں۔ ابھی کمرے میں کوئی نہیں تھا۔ میں نے کیم کارڈر کے لینز کےلئےجگہ بنائی۔
خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ کونے سے میں نے قلم سے شیشے کا ٹکڑا کاٹا اور اس میں لینز کو فٹ کردیا۔ کھڑکی کچھ ایسی جگہ پر تھی، کہ پورا کمرہ نظروں کے سامنے تھا۔ دوسری طرف سے اس پر نظر نہیں پڑسکتی تھی۔ لہذا پکڑے جانے کا خطرہ کم ہی تھا۔
نیچے جاکر میں نے ڈنر کیا۔ پاس کے گھر سے اب محلے کی عورتوں کی گانوں کی آوازیں آنا بند ہو گئی تھیں۔ انہوں نے شادی کا کچھ زیادہ اہتمام نہیں کیا تھا۔ بس سادہ طریقے سے ہی شادی کی تھی۔ میرے بھیا اور بھابھی بارات کےساتھ گئے تھے۔ وہ وہاں کے قصے سنا رہے تھے۔مجھے ان سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
کھانا کھا کر میں سیدھا کمرے میں آگیا۔ اسٹول پرچڑھ کردیکھا کہ کہ دلہن بیڈ پر سمٹی سی بیٹھی کپڑے کی کوئی گھٹری سی لگ رہی تھی۔ اس کے بس گورے خوبصورت پیر نظر آرہے تھے۔ اس نے گھونگھٹ اوڑھا ہوا تھا۔ خیر کپڑؐں کی گھٹری کا لفافہ ہی بتایا رہا تھا کہ اس کے اند ایک قیامت چھپی ہوئی ہے۔
اسی دوران ارجن پاگل اندر آیا۔ بیڈ پر اپنی دلہن کو دیکھ کر اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ خیر بیڈ پر پہنچ کر اس نے اپنے لئے کچھ جگہ بنائی اور لیٹنے لگا۔ لڑکی کے ہاتھ گھونگٹ سے نمودار ہوئے اور ارجن کے بال سہلانے لگے۔ لڑکی کو شاید معلوم تھا کہ اس کی قسمٹ پھوٹ گئی ہے اور اب زندگی کسی طرح گذارنی ہے۔ ارجن کو بھی شاید یہ کچھ اچھا لگ رہا تھا۔
یہ بھی بتاوں کہ ارجن کے بڑھے بھائی کی شادی کو کئی سال ہو چکے تھے اور انکی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اس کی بیوی بھدی ڈھول جیسی عورت تھی۔
میرا جوش جو ارجن کی سہاگ رات کو ریکارڈ کرنے کا تھا، مانند پڑتا جا رہا تھا۔ لگتا تھا کہ بیڈ روم میں کوئی ایکشن نہیں ہونے والا ہے۔ ارجن تو سونے جا رہا تھا۔ اب میں کیم کارڈر کو بند کرنے ہی والا تھا کہ ارے یہ کیا، کمرے کا دروازہ پٹ سے کھلا اورارجن کا بڑا بھائی اندر آگیا۔
بیڈ کے پاس پہنچ کر اس نے ارجن کو زور سے دھکا دیکر نیچے گرادیا اور پھر اس کو لات مار کر کونے کی طرف دھکیل دیا۔ وہ تھرتھر کانپتے ہوئے کونے میں بیٹھ گیا۔
لڑکی کا گھونگٹ ابھی بھی اس کے سر پر تھا۔ ارجن کے بھائی نے اس کا گھونگٹ اٹھانے کے بجائے نوچ ڈالا۔ لڑکی نے جب نظریں اوپر کی اس کی بڑی بری ہرنی جیسی آنکھوں میں وحشت تھی۔ شاید اسکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ ارجن کے بھیا نے اس کو بیڈ پر گرادیا اور اس پر سوار ہوکر باقی کپڑے نوچنے لگا۔
مگر لڑکی نے اس کو دھکا دے دیا اور چیخنے، رونے لگی۔ وہ خوب مزاحمت کر رہئ تھی۔ اسی دوران کمرے کا دروازہ پھر کھلا اور ارجن کے والدین اور بھابی سب کمرے کے اندرآگئے۔ میں تو سوچ رہا تھا کہ وہ اب ارجن کے بھیا پر خوب برسیں گے اوردلہن کی عزت کو تار تار ہونے سے بچائیں گے۔
مگر یہ کیا۔ ارجن کے باپ نے لڑکی کو پکڑ کر بیڈ پر لٹا کر اسکے دونوں ہاتھ پکڑے اور اس کے منہ میں کوئی رومال ٹھونس دی۔ لڑکی کی ساس یعنی ارجن کی ماں نے اس کے باقی زیر جامہ اتار کر پورا ننگا کردیا۔ لڑکی ابھی بھی ٹانگوں سے مزاحمت کر رہی تھی۔ انکو لاتیں مار رہی تھی۔
اس کی ساس نے اس کی ایک ٹانگ مضبوطی سے پکڑی اور دوسری ٹانگ موٹی تازی بھابھی نے پکڑ کر ان کو ایک دوسرے سے دور کردیا۔
اس دوران ارجن کے بھائی نے اپنے کپڑے اتار دئے تھے۔ وہ کالا کلوٹا اور کسرتی جسم کا مالک تھا۔ اس کا لنڈ تو انتہا تک کھڑا تھا۔ کالا کلوٹا بھجنگ سا لنڈ نو، دس انچ سے کم نہیں رہا ہوگا۔ لمبا ہونے کے ساتھ وہ کسی شہتیر کی طرح موٹا تھا۔
وہ اس پر تھوک مل رہا تھا۔ لڑکی کی ٹانگیں کیا تھیں، بس جیسے سنگ مرمر کے تراشیدہ عضو تھے۔ اس کی پینٹی کب کی پھاڑ کر اتاری جا چکی تھی۔
بھابھی اس کے پیٹ کی طرح اشارہ کرکے اس کو کہہ رہی تھی کہ ’’یہ پاگل تھوڑی اس میں کچھ ڈال پائے گا۔ تمہیں تو اس خاندان کا وارث پیدا کرنا ہے۔ کوئی مفت میں کیوں پالے گا تمہیں؟‘‘
لڑکی کی مزاحمت تو اب دم توڑ چکی تھی۔ اس کے باوجود وہ کسمسا رہی تھی۔ شاید آخری وقت تک اس کو امید تھی کہ کسی کواس پر رحم آجائے گا۔ میرا کیم کارڈر سب ریکارڈ کر رہا تھا۔ اس کے برف جیسے سفید ممے چھتیس کے سائز کے رہے ہونگے۔ جس کے اوپر گلابی رنگ کے نپلز بھلے لگ رہے تھے، جو ابھی اندر کی طرف ہی مڑے تھے۔ لگتا تھا کہ ان تک ابھی کسی مرد کی رسائی نہیں ہوئی ہے۔
یقین کریں اس وقت میں اسکے جسم کو بھول ہی گیا تھا۔ کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ میرا اپنا لنڈ جو تھوڑی دیر پہلے بلکل کھڑا تھا، اب یہ سین دیکھنے کے بعد بیٹھ چکا تھا۔
چونکہ دو عورتوں نے اس کی ٹانگیں پکڑی ہوئی تھی۔ اس کی صاف و شفاف چوت نظر آرہی تھی۔ صاف لگ رہا تھا کہ وہ کنواری ہے۔ چوت کے لب ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ تھے۔ کلی ٹورس کے پاس گوشت کی ہلکی تہیں جمی ہوئی تھیں۔ جو چاٹنے اور چاہنے کےلئے انتہائی موزوں لگ رہے تھے۔
ارجن کے بھیا نے اپنا کالا بھجنگ لمبا اور موٹا لنڈ اس کی چوت پر فٹ کردیا۔ مگر جگہ خشک تھی۔ اس نے لنڈ کو دوبارہ تھوک سے تر کیا۔ اور کچھ تھوک چوت کے لبوں کے بیچ بھی گرائی۔ مگر راستہ پھر بھی تنگ لگ رہا تھا۔
ایک کونے میں جاکر اس نے شاید تیل یا کریم کی شیشی نکال کر لنڈ کے سر کے اوپر انڈیل دی اور پھر پورے لنڈ پر پھیر دی۔ انگلی سے اس نے چوت کے لبوں کو دور کرکے ان کے بیچ بھی کریم یا تیل لگایا۔ سوراخ ابھی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ میں نے کم کارڈر کو زوم کیا ہوا تھا۔
تھوڑی دیر لنڈ کو اوپر نیچے کرکے اس نے ایک زور دار دھکے کے ساتھ لنْڈ کا سر اندرکر دیا۔ لڑکی کےلئے یہ کسی دھماکہ سے کم نہیں رہا ہوگا۔
وہ درد کی شدت سے تلملا رہی تھی۔ چونکہ اس کے منہ میں رومال تھا، وہ بس او او او ہی کر پارہی تھی۔ اس کا باقی بدن لرز رہا تھا۔ اس کے ہاتھ سسر کے مضبوط ہاتھوں نے دبائے ہوئے تھے۔ ٹانگیں ساس اور بھابھی نے دبا کر رکھے ہوئے تھے۔ حرکت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ مگر اس کے چہرے کے نقوش دیکھ کر ہی پتہ چلتا تھا کہ وہ کس قدر تکلیف میں تھی۔
ایک زور دار دھکا ریکر ارجن کے بھائی نے آدھا لنڈ اندر پہنچا دیا ۔ خون کا فوارہ چوت سے جاری ہوگیا۔ ارجن کا بھائی اپنی بیوی سے کہہ رہا تھا کہ پہلی بار کوئی فرسٹ ہینڈ چیز ہاتھ لگی ہے۔ ورنہ زندگی میں سیکنڈ ہینڈ پر ہی گذارہ کرنا پڑا ہے۔
گاڑی سیکنڈ ہینڈ، یہ مکان سیکنڈ ہینڈ اور پھر بیوی کی طرف دیکھ کر کہا کہ جب یہ آئی تو یہ بھی چد چکی تھی۔ اسکی بیوی نے برا سا منہ بنا کر کہا کہ ’’آپنا کام کرو۔ یہ کون سا موقعہ یہ باتیں کرنے کا، اور تم خود کونسا فرسٹ ہینڈ تھے۔۔‘‘
تھوڑی دیر کےلئے جب اس نے لنڈ باہر نکالا وہ خون سے تر تھا۔ لڑکی تکلیف سے دوہری ہو رہی تھی۔ اس مردود نے پھر زور دار جھٹکے کے ساتھ لنڈ کو اندر کر دیا اور اس بار وہ جڑ تک اندر چلا گیا۔ اگر لڑکی کے منہ میں رومال نہ ہوتا تو اس کی چیخیں نکلنی تھیں۔ اسکا سوراخ اتنا تنگ اور خشک تھا کہ چند لمحے تک ارجن کے بھیا کواپنے لنڈ کو حرکت دینا ہی مشکل ہوگیا تھا۔
ایک دو دھکوں کے بعد ہی وہ اس کے اوپر ڈھیر ہوکر اس کی چوت میں منی انڈیلنے لگا۔ چند لمحون کے بعد کھڑا ہوکر لڑکی کے پیٹ پر تھوک کر کپٹرے پہن کر باہر چلا گیا۔ لڑکی اس دوران اب ہوش و حواس سے بیگانہ ہو چکی تھی۔ بس تکلیف سے دوہری ہوکر ہاو ہو کر رہی تھی۔
دونوں عورتوں اور اس کے سسر نے اس کے ہاتھ، پیر چھوڑ دئے۔ اس کی بھابھی کسی ٹشو پیپر سے اس کے چوت کو صاف کررہی تھی۔ اس کے لبوں کو کھول کر شاید دیکھ رہی تھی کہ کیا واقعی پردہ بکارت پھٹ گیا ہے۔
اس دوران اس کے سسر نے اپنی دھوتی اوپر کرکے اپنے لنڈ کر نکال کر اس کے جسم سے مس کیا اور پھر اس کی چوت میں داخل کردیا۔ لڑکی تو تقریبا بے ہوش تھی۔ مگر اس کے نے شرم سسر نے اس کے اوپر لیٹ کر اپنی بیوی اور بہو کے سامنے ہی چند دھکے لگا کر منی اپنی بہو کے چوت میں ڈال دی۔ اس کو فارغ ہونے میں چند ہی سیکنڈ لگے۔
ارجن کونے میں اونگھ رہا تھا۔ اس کو شاید کوئی آئیڈیا نہیں تھا کہ کمرے میں کیا ہو رہا ہے ۔ میرا جسم پسینے سے تر تھا۔ کمرے میں اب خاموشی طاری تھی۔ اب وہاں صرف لڑکی اور اس کا شوہر موجود تھے۔
خاصی دیر کے بعد ہوش میں آکر اس نے اپنے شوہر کو اٹھایا اور بیڈ تک لے جاکر اس کے اوپر چادرتانی اور خود لنگڑاتے ہوئے باتھ روم کی طرف روانہ ہوگئی۔ واپس آکر اس نے لائٹ آف کی اور چادر کے اندر ارجن کے بغل میں ہی سو گئی۔ صاف لگتا تھا کہ اس کو چلنے پھرنے میں تکلیف ہو رہی ہے۔
لگتا تھا کہ وہ اپنی قسمت پر صبر کرکے بیٹھ گئی تھی۔ میں بھی اسٹول سے نیچے اترا۔ نیند تو کوسوں دور تھی۔ کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ اس کی چوت اور باڈی یاد کرکے ماسٹربیشن کرنا چاہتا تھا، مگر پھر جو کچھ اس کے ساتھ بیت گئی تھی، یاد آکر لنڈ خود بخود بیٹھ جاتا تھا۔
اگلے روز شاید ان کے ہاں کوئی مہمان وغیرہ آئے تھے۔ پاگل ارجن سونے کےلئے آیا، تو لڑکی نے اس کو بغل میں سلادیا اور اس کے بالوں وغیرہ کو سہلا یا۔ باتھ روم لے جاکر اس کا منہ وغیرہ دھو کر اس کی ٹپکتی رال صاف کی۔ وہ بلکل ایک سچی پتی ورتا عورت کی طرح شوہر کا خیال رکھ رہی تھی۔ وہ اس کو کھانا بھی اپنے ہاتھ سے کھلا رہی تھی۔ اگلی دو تین راتوں کو خاموشی سی رہی ۔۔
رات کو ڈنر پر میری بھابھی، جو ان کے گھر جاتی تھی، بھی بتا رہی تھی کہ پڑوس والوں کی نئی خوبصورت بہو اپنے پاگل پتی کا بہت خیال رکھتی ہے۔ وہ کہہ رہی تھی کہ سینی فیملی کے دن پھر گئے ہیں۔ اس پاگل ارجن کو سنبھالنے کےلئے ان کے پاس لڑکی آگئی ہے۔ آنٹی یعنی لڑکی کی ساس کے تو اب مزے ہیں۔
مگرمیرے بھیا اور ماں کا کہنا تھا کہ کمائے گا کون؟ یہ تو ابھی ماں باپ زندہ ہیں۔ ان کے مرنے کے بعد پاگل کہاں سے کماکر بیوی کو پالے گا۔ اس کا بھائی تو پہلے ہی اس سے بیزار ہے۔ میں نے ان کو نہیں بتایا کہ ارجن کا بھائی بیڈ روم میں کمائی کی قیمت کیسے وصول کر رہا ہے۔
قتل اور عدالت
ایک ہفتہ بعد، میں نے اسٹول پر چڑھ کر کیم کارڈر لگایا ہوا تھا۔ پاگل ارجن اور اس کی بیوی بیڈ پر بیٹھے کر ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ جیسے کسی بچے کو بہلایا، پھسلایا جاتا ہے وہ ایسے ہی اس سے کھیل رہی تھی۔
بس اسی دوران ارجن کا کالا کلوٹا، بن مانس جیسا بھیا اندر آگیا۔ اس نے اس کو بیڈ سے اترنے کےلئے کہا اور خود لڑکی کے اوپر چڑھ گیا۔ شاید اب ارجن کو لگ رہا تھا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے۔ دراصل شاید پہلی بار گھر پر اسکے ساتھ کوئی پیار سے برتاو کررہا تھا۔ باہر بھی تو لوگ اس سے دور دور ہی رہتےتھے۔ اس لئے لڑکی کےلئے اس کے دل میں ہمدردی اور لگاو سا پیدا ہو گیا تھا۔
وہ بیڈ کے کنارے پر ہی کھڑا رہا۔ تھوڑی دیر لڑکی کا کسمسانا اور رونا دیکھ کر وہ شاید فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ کیا کرنا ہے۔۔ اس کا بھیا لڑکی کی ساڑی کو اوپر کرنے کی جستجو کر رہا تھا۔ اسی دوران ارجن نے اس کو پیچھے سے پکڑا اور کھنچ کر بیڈ سے نیچے گرایا۔ ۔ شاید پہلی بار اس نے ایسی جرات کی تھی۔ اس کی ایسی حرکت سے شدیدغصہ میں اسکا بھیا پاگل ہوگیا۔ اس نے واپس ارجن کو زور دار دھکا دے دیا۔ وہ پیٹھ کے بل ایک ٹوٹی سی کرسی پر گر گیا، جس کی لوہے کی راڈ اس کے سر کے پچھلے حصے میں لگی۔ وہ فرش پر ڈھیر ہو گیا۔
بھیا تو ارجن کی جرات سے تلملایا ہوا تھا۔ اس نے تکیہ لیکر ارجن نے منہ پر رکھ کر اسکو دبانا شروع کیا۔ مجھے لگتا تھا کہ شاید ارجن کی سانس اس کے سر کے پچھلے حصے میں لویے کا سریہ لگنے سے ہی ختم ہو گئی تھی۔ مگر تکیہ رکھنے سے وہ شاید یقین کرنا چاہتا تھا کہ اس کی سانسوں کی ڈوریقنیی طور پر ٹوٹ جائے۔
لڑکی ہکا بھکا اور جیسے ٹرانس میں تھی۔ اس کو یقین نہیں تھا کہ اسکے شوہر کی موت ہو چکی ہے۔ تھوڑی دیر بعد جب بھیا کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا، تو اس کو احساس ہوگیا کہ اس نے کیا کیا ہے۔ اس نے آواز دیکر ماں، باپ اور بیوی کو بلایا اور وہ ارجن کی نبض دیکھنے لگے۔ تھوڑی دیر انہوں نے آپس میں کچھ کانا پھوسی کرکے مشورہ کیا اور باہر چلے گئے۔ لڑکی بیڈ پر بےحس پڑی تھی۔
میں اسٹول سے نیچے اترا ہی تھا کہ سینوں کے گھر سے رونے پیٹنے کی آوازیں آنی لگی۔ نیچے کھٹ پٹ ہو رہی تھی۔ میں بھی نیچے اترا تو دیکھا کہ پاپا، ممی ، بھیا اور بھابھی اور دیگر محلہ والے سینیوں کے گھر کی طرف جا رہے تھے۔ بتایا گیا کہ دلہن نے اپنے پاگل شوہر کا خون کر دیا ہے۔ ارجن کا بھائی اور ان کی بھابھی محلہ والوں سے کہہ رہے تھے کہ ’’اگر اتنی نفرت تھی پاگل سے ، پھر شادی سے انکار کیوں نہیں کیا؟ ہم نے تو لڑکا دکھایا تھا۔ ہم نے تو یتیم لڑکی کی کفالت کےلئے اس کا گھر بسایا تھا۔‘‘
مجھے غصہ تو آرہا تھا ، مگر کیا کرتا۔ میں اور میرا کیم کارڈر اس پورے واقعہ کا عینی گواہ تھا۔
تھوڑی دیر بعد پولیس آگئی اور لاش اور لڑکی کو اپنے ساتھ لے کر گئی۔ لڑکی صدمے سے ٹرانس میں تھی۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ اگلے دن اخباروں میں پہلے صفحے پر خبر تھی، کہ کیسے ایک دلہن نے اپنے پاگل پتی کو موت کی نیند سلادیا۔ کیونکہ وہ سیکس نہیں کر پایا تھا۔
روز کچھ نہ کچھ اس واقعے سے متعلق اخباروں میں چھپتا تھا۔ اس کے چاچا کا بیان تھا کہ ان کے لئے یہ لڑکی مر چکی ہے۔ محلہ والوں ،گھر والوں اور اخباروں سے پتہ چلا کہ لڑکی کا پولیس ریمانڈ ختم ہو گیا ہےا ور اس کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔
ایک یا دو ماہ بعد معلوم ہوا کہ چارچ شیٹ فائل ہوگئی ہے۔ جتنا کچھ ا سکے بارے میں اخباروں میں چھپا، وہ جھوٹ کا پلندہ تھا۔ بتایا گیا کہ لڑکی نے قتل کا اقرار کیا ہے۔ وہ اپنی قسمت ایک پاگل کے حوالے کرنے سے اپ سیٹ تھی۔
اس دوران ایک دو بار میں بھی عدالت میں کاروائی دیکھنے کےلئے گیا۔ اس لڑکی کو عدالت کی طرف سے ہی وکیل دیا گیا تھا۔ جیسا کہ معلوم ہی ہوگا کہ ایسا وکیل بس دکھانے کےلئے ہوتا ہے۔ وہ کوئی کام نہیں کرتا ہے۔ بس سرکاری وکیل کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔
میرا ضمیر مجھے کچوکے دے رہا تھا۔ کچھ سمجھ۔ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔ اسی دوران میں نے ایک ایڈ ایجنسی جوائن کی تھی اور وہاں میرے ایک کولیگ کا باپ شہر کا نامی گرامی وکیل تھا۔۔ میں نے ایک دن اسکو بتایا کہ آفس کے بعد کچھ ضروری بات کرنی ہے۔ وہ میرے کالج کا ساتھی بھی تھا۔
آفس کے بعد ہم ایک ریسٹورینٹ میں بیٹھے اور میں نے اس کو مختصراً پوری بات بتائی۔ ایک لمبی سانس لینے کے بعد بائک پر بٹھا کر وہ مجھے اپنے والد کے دفتر لے گیا۔ اس کا بات شہر کی بار کا صدر وغیرہ بھی تھا۔ جب وہاں کلائیٹس کا رش کم ہو، تو اسنے میری طرف اشارہ کرکے اپنے باپ سے کہا کہ ان کو آپ سے کام ہے۔
مجھے الفاظ ہی نہیں مل رہے تھے۔ شرم بھی آڑے آرہی تھی۔ وکیل انکل نے کہا دیکھو وکیل اور ڈاکٹر کو پورا کچا چھٹابتایا کروں تاکہ وہ صحیح علاج یا اسٹریجی ترتیب دے سکے۔ اگر کچھ چھپایا تو کلائیٹ یا مریض کو ہی نقصان ہوگا۔
جب میں نے داستان شروع کی، تو میرا دوست باہر چلا گیا تھا۔ میں نے شرماتے، لجاتے پوری داستان وکیل انکل کے گوش گذار کرلی۔ انہوں نے پوچھا کہ کیم کارڈر کہا ں ہے۔ وہ میں اپنے ساتھ بیگ میں ہی رکھتا تھا۔ میں نے بیگ سے نکال کر اس میں کیسٹ لگائی۔ میں نے پلے کا بٹن دبایا اور خود باہر چلا گیا۔ ویسے میں نے اس کیسٹ کی آفس میں ایک دن رات گئے کاپی بھی بنائی تھی۔ ان دنوں اس طرح کے ایکوپمنٹ وغیرہ افورڈ کرنا مشکل ہوتا تھا۔ مجھے خطرہ تھا کہ کہیں اوریجنل کیسٹ ضائع یا گم وغیرہ نہ ہوجائے۔
تھوڑی دیرکے بعد انہوں نے مجھے اندر بلایا اور کیم کارڈ کو بند کرنے کے بعد بتایا کہ ان کے ساتھ گاڑی میں سوار ہو جاوں۔ بیٹے کو انہوں نے گھر جانے کےلئے کہا۔
میں ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا، جو کئی راستوں سے گذرتے ہوئے سول لائن علاقہ میں ایک جج کے گھر کے باہر رک گئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہی جج اس مقدمہ کی سماعت کر رہا تھا۔
مجھے گاڑی میں ہی بٹھا کر وہ اندر چلے گئے اور کافی دیر کے بعد مجھے اندر بلایا گیا۔ جج صاحب نے کیم کارڈر چلانے کےلئے کہا۔ میں نے پلے کیا، اور وہ دونوں غور سے دیکھ رہے تھے اور بیچ بیچ میں مجھے اسکو پاز کرنے کےلئے کہتے تھے۔ ان کے سامنے اس کو چلانا اور دیکھنا بہت برا لگ رہا تھا۔
جج نے وکیل انکل کو بتایا کہ پہلے دن سے ہی مجھے یہ کیس مشکوک لگ رہا تھا۔ اس کا آئی او یعنی تفتیشی افسر بھی نامی راشی ہے، مگر ہمیں تو قانون کی عینک سے دیکھنا پڑتا ہے جو اندھا ہوتا ہے۔ اس کیس میں کوئی سرا نہیں مل رہا تھا۔ اسلئے چارج فریم کرنے کےلئے میں ابھی تک تاریخ پر تاریخ دے رہا تھا۔ انہوں نے اس کے بعد ٓآپس میں پھر گفتگو کی اور جج نے بھی اس دوران کسی سے فون پر بات کی۔
تھوڑی دیر بعد وکیل انکل نے مجھے پھر گاڑی میں بٹھادیا اور اسی سرکاری کالونی کے دوسرے سرے پر پھر گاڑی روکی۔ یہ شہر کے پولیس چیف یعنی ایس ایس پی کی کوٹھی تھی۔ لگتا تھا کہ جج صاحب نے ان سے ہی فون پر بات کی تھی۔
بعد میں مجھے معلوم ہو اکہ انہوں نے طے کیا تھا کہ بجائے وکیل دفاع کی طرف سے کورٹ میں یہ ویڈیو ریکارڈنگ پیش کی جائے، اور مجھے بطور گواہ پیش کیا جائے، پولیس کو ہی دوبارہ تففیش کا حکم دے دیا جائے۔ مجھے قانونی موشگافیوں کا کچھ زیادہ علم نہیں ہے۔ مگر پتہ چلا کہ ویڈیو ریکارڈنگ اس وقت تک شاید کورٹ میں ایڈمیسبل نہیں تھی۔ دوسرا جو پولیس افیسر اس کیس کی تفتیش پر مامور تھا، وہ تو پہلے مجھے ہی اندر کردیتا کہ میں نے کیسے یہ ویڈیو بنائی۔ پھر سینی فیملی بھی کیس بنا سکتی تھی، کہ ان کی پرائیوسی متاثر ہوئی ہے۔
اس لئے وکیل انکل اور جج صاحب نے ایک پلان بنایا تھا، جس میں انہوں نے ایس ایس پی کو بھی شامل کیا تھا، جو ایک نوجوان اور شفاف آفیسر تھا۔ شاید مسابقتی امتحان پاس کرنے کے بعد اس کی پہلی ہی فیلڈ پوسٹنگ تھی۔ اس نے اگلے دن ہی اس کیس کا تفتیشی افسر تبدیل کرکے ایک اچھے اور محنتی پولیس انسپکٹر کو یہ کیس سونپ دیا، جس نے میرا بیان لیا۔
پھر میرے گھر آکر میرے کمرے کا معائنہ کرکے پولیس فوٹو گرافر سے کھڑکی کے روشندان وغیرہ کی تصویریں لیں۔ پھر سینیوں کے گھر جاکر وہاں بھی ارجن کے کمرے کے اندر کی تصویریں بنائیں اور ان کے پورے گھر کی تلاشی لی۔ خصوصاً ارجن کے کمرے کی باریک بینی سے چانچ پڑتال کی۔ کرسی کی لوہے کی راڈ پر اس کو خون کے داغ بھی ملے۔ پھر بیڈ شیٹ وغیرہ کا اس نے معائنہ کیا۔
کسی کو علم نہیں تھا کہ آخر کئی ماہ بعد پولیس کو دوبارہ تفتیش کی کیوں ضرورت پیش آرہی ہے؟ معلوم ہوا کہ پچھلے تفتیشی افسر کو ارجن کے گھر والوں نے اچھی خاصی رقم کھلائی تھی۔ اس کو ایس ایس پی نے دھمکا دیا تھا کہ اگر اس کیس میں مداخلت کی کوشش کی تو رشوت لینے اورجھوٹا چارچ شیٹ فائل کرنے کے جرم میں معطلی اور لمبی سزا ہوگی۔ میں جیل ہوگی۔ ارجن نے گھر والوں نے اس سے ملنے کی بھر پور کوشش کی، مگر اس نے لمبی چٹھی لی اور شہر سے ہی بھاگ گیا۔
وکیل انکل نے اس دوران جیل میں لڑکی سے ملنے کےلئے اجازت نامہ حاصل کردیا تھا ور مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ لڑکی کو مبہم سی یاداشت تھی، کہ میں اس کے سسرال والوں کا پڑوسی ہوں۔ کیونکہ ہماری کوئی ایسی ملاقات نہیں ہوئی تھی، جو یاد رہ سکتی تھی۔
وکیل صاحب نے اسکو پوری بات بتائئ۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور کہہ رہی تھی کہ اس کو جیل میں ہی رہنے دیا جائے۔ کیونکہ باہر اس کا کوئی نہیں ہے۔ کیم کارڈر وغیرہ کا سن کر تو وہ اشتعال میں تھی۔
مگر وکیل انکل نے اس کو ٹھنڈا کیا اور بتایا کہ اس لڑکے نے غلطی تو کی ہے، مگر اس نے اب اپنی زندگی داو پر لگائی ہے۔ اور دیکھو بھگوان بھی جو کرتا ہے ، اچھا ہی کرتا ہے۔ اگر یہ ویڈیو ریکارڈنگ نہیں کرتا تو تم قاتل بن چکی تھی۔
بڑی مشکل سے اس نے وکالت نامہ پر دستخط کردئے۔ مگر میری طرف وہ ایسے دیکھ رہی تھی، کہ جیسے کچا چبائے۔
اگلی پیشی پر پولیس نے درخواست دی، کہ اس کیس میں کچھ نئے پہلو سامنے آئے ہیں اور اس کی ازسر نو تفتیش کی اجازت دے دی جائے۔ اس دن پتہ چلا کہ کمرہ عدالت میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے پیچھے بہت کچھ پہلے ہی ہوا ہوتا ہے۔ چونکہ درخواست خود سرکاری وکیل کی طرف سے ہی تھی، تو کون مخالفت کرتا۔ سرکار کی طرف سے لڑکی کو دیا گیا وکیل کو بھی بدل دیا گیا تھا۔ اس کے بدلے مورچہ وکیل انکل نے خود ہی سنبھالا۔
نئے تفتیشی افسر نے چند دنوں کے اند رہی ارجن کے بھائی کو قتل کے الزام میں اور اس کے باپ کو لڑکی کو ریپ کرنے اور دونوں عورتوں کو اس کی معاونت کرکے کے الزام میں گرفتار کردیا۔
جج نے کیس کی کاروائی ان کیمرہ یعنی اپنے کمرہ میں کرنے کا آرڈر دے دیا تھا۔ مگر عدالت میں یہ ویڈیو چلانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ کیونکہ پولیس ریمانڈ کے دوران ہی ملزموں نے جرم قبول کر دیا تھا۔ ارجن کے کمرہ میں ہی نئے تفتیشی افسر کو اتنے ثبوت ملے، کہ میری گواہی کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ اس نے میرا بس اتنا ہی بیان ریکارڈ کیا، کہ کمرے سے چیخنے، چلانے کی آوازیں اور کئی مردوں کی آوازیں آرہی تھیں۔
لوہے کی راڈ پر خون کے دھبے،شیٹ پر ارجن کے بھائی اور والد کا مادہ منویہ، جس کو فارنسک نے کنفرم کر دیا۔ غرض اس نئے تفتیشی افسر کو بہت کچھ ثبوت کے روپ میں مل گیا۔
علاوہ ازیں جج صاحب نے باقی سب کچھ ویڈیو پر دیکھ ہی لیا تھا۔ لڑکی دوسری پیشی پر ہی بری ہو گئی اور عدالت نے اس کو ناری نکیتن بھیج دیا۔
مقدمہ چلتا رہا اور سال بھر بعد ملزمین کو لمبی سزائیں سنائئ گئیں۔ یہ کیس کانپور میں عرصہ تک چرچا میں رہا۔
میں کئی بار اس لڑکی سے ملنے کےلئے ناری نکیتن گیا، مگر وہ مجھ سے ملنے سے کتراتی تھی۔ جب میں نے وہاں کی منیجر سے درخواست کی کہ میں اس سے شادی کرنا چاہ رہا ہوں اور باضابطہ درخواست دی، تو اس نے بھی لڑکی کو سمجھایا بجھایا۔ اس کو بتایا کہ زندگی کافی لمبی ہے کب تک ناری نکیتن میں رہو گی۔
میں نے جب گھر پر شادی کا ذکر کیا، تو ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا، جس کا مجھے اندازہ تھا۔ ان کو ابھی تک اس معاملے میں میرے کردار کا پتہ نہیں تھا۔
اسی دوران میں نے شہر کے پوش علاقے شیام نگر میں ایک فلیٹ کرایہ پر لے لیا تھا۔ ناری نکیتن کی چند خواتین، افسران اور چند دوستوں کے ہمراہ ایک آریہ سماج مندر میں ہم ایک سادہ سی تقریب میں شادی کے بندھنوں میں بندھ گئے۔
میری بیوی سندھیا جس کو دیکھ کر تم لوگ عش عش کرتے ہو اور اس کو ماڈل جیسی کہتے ہو، وہی لڑکی ہے۔ اس کو بہت جتن کے بعد میں نے حاصل کیا ہے۔
دوسری سہاگ رات
خیر شادی کی سادہ تقریب کے بعد ہی ہم ساحلی شہر گوا ہنی مون منانے روانہ ہوگئے۔ وہ میرے ساتھ ابھی بھی کچھ کچھی کچھی سی لگ رہی تھی۔ اس کا سرد رویہ میرے لئے تکلیف دہ تھا۔
میں نے جہاز میں اس کو کہا کہ تم ذہنی معْذور ارجن کو تو بہت ہی پیار کررہی تھی، کہیں تمہارا پیار حاصل کرنے کےلئے مجھے بھی پاگل تو نہیں ہونا پڑے گا۔ پہلی بار اس کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اس کے چہرے کی بناوٹ ایسی ہے کہ مسلراہٹ سے اس پر ڈمپل پڑتے ہیں، جو اس کو اور بھلا بنادیتے ہیں۔
وہ کہنے لگی ، ’’مجھے ابھی سب کچھ خواب سا لگتا ہے۔ مجھے اپنی قسمت پر زیادہ بھروسہ نہں ہے۔‘ کہیں یہ خواب ٹوٹ نہ جائے‘ میں نے اس کا گورا ہاتھ ہاتھوں میں لیکر اس پر بوسہ ثبت کیا۔ گوا تک فلائٹ میں ہی وہ کھل چکی تھی۔
میں نے سمندر کے کنارے ہی ایک کاٹیج بک کیا ہوا تھا۔ پہلے ارادہ تھا کہ تھکن کی وجہ سے آج آرام کیا جائے۔ صبح سے ناری نکیتن سے آریہ سماج مندر، انتظامات، اور پھر فلیٹ جاکر پیکنگ کرنا اور پھر ایر پورٹ روانہ ہونا، پھر کانپور سے پہلے ممبئی اور پھر گوا کی فلائٹ غرض خوب خواری ہوئی تھی۔
مگر جب ڈنر کے بعد ہم بیڈ پر لیٹ گئے، تو اس کی بھینی بھینی خوشبو سے میرا لنڈ تھکن کے باوجود جاگ گیا۔ ناری نکیتن کی ساتھیوں نے اسکو دلہن کی طرح تیار کیا ہوا تھا۔
میں نے اس کی ساڑھی کو اوپر کرکے اس کے مموں کو سہلانا شروع کیا۔ میں نے جب ان کو پہلی بار کیم کارڈر سے دیکھا تھا، تو اس کے نپلز اندر کی طرف تھے۔ مگر اب وہ باہر نکلے ہوئے تھے۔ ضرور کسی کی ان تک اب رسائی ہوئی ہے۔ جتنا سیکس اس نے ارجن کےکمرے میں کیا تھا، وہاں تو کسی کو اس کے مموں کو چوسنے کی فرصت نہیں تھی۔
جب میں نے اس کو بتایا تو پہلے تو اس نے پہلے میرے گالوں پر چپت ماری۔ وہ میرے کیم کارڈر والی حرکت کو ابھی بھی معاف کرنے کےلئے تیار نہیں تھی۔
اس نے کہا کہ جیل میں جب میری انٹری ہوئی، تو ایک دبنگ خاتون قیدی کے حوالے کیا گیا، جو مجھے سیل میں لے گئی۔ معلوم ہوا کہ ان دبنگ مجرم قیدی خواتین، جو عمر قید یا لمبی سزائیں بھگت رہی ہیں، کا باضابط اپنا حرم ہوتا ہے۔ نئئ آنے والی لڑکیوں کو وہ آپس میں بانٹتے ہیں اور انکو لزبن سیکس کےلئے مجبور کرتے ہیں۔
کبھی وہ ڈامیننٹ پارٹنر بنتی ہے، تو کبھی لڑکی کو ڈامیننٹ پارٹر بننے پر مجبور کرتی ہیں۔
’’جس دبنگ خاتون کے حوالے مجھے کیا گیا، اس کی سیل میں تین اور زیر سماعت لڑکیاں تھیں۔ جو سات ماہ، میں نے وہاں گذارے، اس دوران انہوں نے میرے مموں کو خوب چوسا اور چوت کی بھی، زبان اور انگلیوں سے خوب خبر لی ہے۔ اب میں وہ دلہن نہیں ہو، جس پر تمہارا دل آگیا تھا۔‘‘
میں نے اس کے ماتھے پر کس کیا۔ اس کے چہرے پر نمودار ڈمپل پر زبان کی نوک لگائی۔ پھر اس کے چہرے پر زبان پھیر کر اسکے ہونٹوں پر زبان پھیر دی۔ ان پر اپنے ہونٹ ثبت کرکے ان کو چوسا۔ جیسے ان سے شہد ٹپک رہا تھا۔
زبان سے اسکے ہونٹوں کو الگ کرکے اس کو اندر داخل کرکے اس کی زبان ڈھونڈنے لگا۔ میری زبان اس کی زبان سے اٹھکلیان کرنے لگی۔ وہ بھی اب جوش میں آچکی تھی۔ جیل میں قیدی خواتین نے اس کو سیکس کے بارے میں بہت کچھ بتایا تھا۔ اب وہ چھوئی موئئ سی دلہن نہیں تھی، جس کو میں نے پہلی بار کم کارڈر کے ذریعے دیکھا تھا۔
میں نے اس کی ساڑی اور بلاوز کو اتاردیا۔ برا اس نے پہلے ہی اتار کر رکھ دی تھی۔ میں نے اس کے مموں کو ہاتھوں میں لیا۔ لگتا تھا جیل میں قیدی عورتوں نے اس کے ساتھ خوب کھیلا تھا۔ وہ اب تھوڑا بڑے بھی لگ رہے تھے۔
برف جیسے سفید ممے اور، ان کے اوپر گلابی نپلز میرا منہ چڑا رہے تھے۔ میں نے اس پر زبان پھیر کر اس کو چوسنا شروع کیا۔ چوستے چوستے نیچے پیٹ کے بٹن کے اندر زبان اتاری اور پھر دانتوں سے اس کی پینٹی کو اتار کر دور پھینک دیا۔
اس کے چوت کے لب اب کھلے ہوئے تھے۔ اس کا تیا پاچہ ارجن کے بھائی نے کر کے رکھا ہوا تھا۔ جب وہ سین ہو رہا تھا، تو اس وقت میں دعا کر رہا تھا کہ اس کا کلی ٹورس پر جو گوشت ہے اس کا مزا لینے کا کبھی موقعہ ملے ۔ لگتا تھا کہ بھگوان اس وقت میری ہی طرف دھیان دے کر میری استدعا سن رہا تھا۔
میں نے زبان کی نوک اس کی کلی ٹورس پر ابھرے ٹشو پر لگائی، وہ جوش اور مزے سے تلملا گئی۔ اس کی باڈی کو ایک جھٹکا سا لگا۔ اس کے کلی ٹورس کی شکل کچھ نپلز جیسی تھی۔ میں نے اس کو منہ میں لیکر چوسا۔ اس دوران چوت کے سوراخ سے پانی بہنا شروع ہو گیا تھا۔ میں نے اس میں انگلی داخل کی، تو اس نے کہا کہ اصل چیز داخل کردو۔ انگلیاں اس میں بہت جا چکی ہیں۔جب اصلی اوزار ہو، تو باقی فالتو اوزار کیوں استعمال کرنے ہیں۔
میں نے اپنے کپڑے کب کے اتار دئے تھے، میرا چھ انچ کا لنڈ کمانڈوز کی طرح کھڑا اپریشن کرنے کےلئے تیار تھا۔ اس نے اب میری طرف منہ کرکے میرا لنڈ پہلے ہاتھ میں لیا اور پھر میرے ٹٹوں کو سہلایا۔ اس نے زبان کی نوک میرے ٹٹوں پر لگائی اور پھر اس کو آہستہ آہستہ اوپر لاکرلنڈ کے نیچے سے سرکاتے ہوئے اسکے سر کے نیچے زبان پھیرتی رہی اور پھر ہاتھ میں پکڑ کر اس کواپنے شہد جیسے ہونٹوں کے بیچ لیجاکر منہ میں لے لیا۔ کیا مزا تھا۔ بیان ہی نہں کر پا رہا ہوں۔
اس نے بعد میں بتایا کہ جیل میں قیدی خواتین نے اورل کرنے کی یہ ٹکنیک اس کو سکھائی تھی۔
اب آدھا لنڈ اس کے منہ میں تھا اور وہ اس کے نیچے کے سائڈ پر اپنی زبان چلا رہی تھی۔ جس سے میرا لنڈ کے ننھے سوراخ سے رس باہر آرہا تھا۔ وہ اس کو زبان کی نوک سے ٹیسٹ کرکےپھر اس کو میرے منہ میں گھسا کر مجھے ٹیسٹ کرنے کےلئے دیتی تھی۔
فور پلے اب بہت ہو چکا تھا۔ اس کی برف جیسی سفید ٹانگوں ، جو اب تھوڑی بہت ریڈ ہو چکی تھی، کو میں نے الگ کیا اور اپنا لنڈ اس کے کلی ٹورس سے ٹکرا کر اوپر نیچے کرنے لگا۔ سوراخ سے اب پانی سیلاب کی طرح بہہ رہا تھا۔ میں اوپر نیچے کر ہی رہا تھا کہ اس نے لنڈ کو ہاتھ میں پکڑ کر اس کو سوراخ کے دہانے پر فٹ کرکے نیچے سے خود ہی زور دار جھٹکا لگادیا۔
چھ انچ کا لنڈ اس کے تر سوراخ میں بغیر کسی مزاحمت کے اندر چلا گیا۔
میں نے تھوڑی دیر سانس لینے کی کوشش کی، مگر وہ نیچے سے ہی جھٹکے مار رہی تھی۔ میں اب اس کے اوپر سوار ہوگیا، اور نیچے سے ہلکے جھٹکے مارنا شروع کئے۔ ہر جھٹکے پر اس کا جسم واپس جھٹکے لگاتا تھا۔ میں نے اس کے ممے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے تھے۔ اس کے نپلز میرے منہ میں تھے۔ زبان کبھی اس کے منہ کے اندر تو کبھی اس کےنپلز کا مزا چکھ رہی تھی۔
میں نے جھٹکے تیز تر کر دئے تھے۔ وہ اوو ااا اااا ا ی ای ای ا ہی ہی ہی کی آوازیں نکال رہی تھی۔ اس دوران اس کی باڈی اکڑنے لگی اور اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے مجھے بھینچ لیا۔ اہا اہا اہا ایا کرکے اس کی چوت تنگ ہونے لگی۔ میرا لنڈ محسوس کررہا تھا کہ اس کی چوت کے مسلز بند اور کھل رہے ہیں۔ لنڈ کے اوپر دباو بنا رہے ہیں۔ وہ چھوٹ رہی تھی۔ اس کے ساتھ میرے ٹٹے بھی اکڑ رہے تھے۔ میں نے کئی بار منی کو اوپر آنے سے روک دیا تھا۔ مگر اب حالات کنٹرول سے باہر تھے۔ میرے لنڈ نے منی کی جھڑی اس کے چوت کی تہوں میں بہا دی۔
چند لمحوں کے بعد جب ہمیں ہوش آیا، تو میں اس کے اوپر بھی لیٹا رہا۔ اس کو بتایا کہ یہ تمہاری دوسری سہاگ رات ہے۔ کیسی رہی۔۔وہ خاموش رہی۔ وہ اس پر بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔
سچ ہے کہ عورت کے ساتھ سیکس اگر زبردستی کیا جائے، توانتہائی بدترین تشدد ہے، اور اگر مرضی سے کیا جائے، تو اس سے لطیف شئے کوئی اور نہیں ہے۔
اس نے کہا کہ جب پاگل ارجن کے ساتھ شادی کی بات چل رہی تھی، تو اس نے بالی ووڈ کی ایک فلم دیکھی تھی، جس میں سنجو کمار اسی طرح پاگل ہوتا ہے اور اس کے والدین ممتاز کو لاکر اس کی خدمت کرواتے ہیں۔ ممتاز اس کی خدمت کرکے اس کو پیار کا احساس کرواکے ٹھیک کرتی ہے۔
’’میرا بھی خیال تھا کہ اگر میں ارجن کے ساتھ وہی رویہ اپناوں، تو وہ بھی شاید ٹھیک ہوجائیگا۔ چند دنوں میں ہی وہ مجھ سے ہل گیا تھا۔ جب اس نے اپنے بھائی کو میرے اوپر سے اٹھا کر دھکا دیا، مجھے اس کی وہ ادا بہت بائی۔ مگر اس کے بعد جوکچھ ہوا، وہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ ‘‘
اسی طرح باتیں کرتے ہوئے ہم سو گئے۔ اگلی صبح جب میں جاگ گیا، تو میرا نیم استادہ لنڈ کا سر اس کے سوراخ کے دہانے پرہی تھا۔ میرا سر اس کے مموں پر ٹکا تھا۔ اس کو دیکھ کر اور رات کے واقعات یاد کرکے میرا لنڈ اکڑ رہا تھا۔
چونکہ اس کاسر پوائینٹ پر ہی تھا، اس لئے چوت کی دیواروں کو پرے دھکیلتا ہوا وہ اندر داخل ہوگیا، جس سے وہ بھی جاگ گئی۔ اس کے جاگنے سے چوت کی دیواریں تر ہونا شروع ہوگئی۔ میں نے لنڈ کو حرکت دینا شروع کی اور کئی جھٹکوں کے بعد ہم دونوں ایک بار پھر ساتھ ہی فارغ ہوگئے۔
اگلے چار روز تک کون گوا گھومتا۔ کس کو باہر تفریح کرنے کا ہوش تھا۔۔
رات کو کئی بار، پھر ناشتہ سے قبل اور پھر ناشتہ کے بعد، لنچ سے قبل اور لنچ کے بعد سیکس کے دور چلتے تھے۔ ہاں دوپہر کو ہم ساحل کی سیر کرنے نکلتے تھے۔ وہاں نوجوان جوڑوں کو بوس و کنار کرتے ہوئے پھر گرم ہوکر واپس کمرے میں آکر سیکس کرکے ڈنر کرتے تھے۔
رات تو پھر اپنی ہی ہوتی تھی۔ اس دوران اس کی سفید باڈی، خون کی روانی اور میرے جسم کی رگڑ سے لال ہو گئی تھی۔ اس کا کلر بکلل شہد جیسا ہوگیا تھا ، جس کو دودھ میں گھول دیا گیا ہو۔
چار روز بعد ہم واپس کانپور پہنچے۔ تو آفس میں معلوم ہوا کہ میری پروموشن ہو گئی ہے اور تبادلہ بنگلور کیا گیا ہے۔ تب سے میں یہیں مقیم ہوں اور اب ایک بڑی ایڈ ایجنسی میں اچھی پوسٹ پر ہوں۔ میری بیوی کی شکل و صورت کے علاوہ اس کی قسمت سے میری بھی جلد ہی ترقیاں ہوتی گئیں۔
گھر والے تو پہلے خاصے ناراض تھے ، قطع تعلق کرکے رکھا ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ معاملات ٹھیک ہوتے گئے۔ میں نے بھابھی کو ایک روز فون پر سارے واقعات یعنی کیم کارڈر سے لیکر عدالت تک کا سفر وغیرہ سب اٹکتے ہوئے گوش گذار کردئے۔ اس کی سندھیا سے بات بھی کروائی۔
اس نے میری والدہ اور بھائی کو بتاکر منوالیا۔ میری والدہ اکثر اب میرے ساتھ ہی رہنے آتی ہے۔ سندھیا بھی ان کا خاص خیال رکھتی ہے۔ ہم نے بنگلور میں ہی مکان لیا ہوا ہے۔ کانپور میں بھی میں نے بھیا اور بھابھی کی مدد کرکے پوش علاقے میں مکان خریدا۔ سینی فیملی کا بوڑھا، معلوم ہوا کہ چھ سات سال بعد جیل سے چھوٹ گیا تھا، مگر طبعی موت مر گیا۔ بہو اور ساس بھی پانچ، چھ سال بعد چھوٹ گئی تھیں اور مکان بیچ کر گاوں چلی گئی تھیں۔۔ بیٹے کو عمر قید ہو گئی تھی۔ وہ شاید ابھی بھی جیل میں ہی ہے۔
؍؍؍؍؍؍؍؍
یہ کہانی میرے ایک دوست راہول کی ہے، جس کا تعلق بھارت کے اترپردیش کے شہر کانپور سے ہے۔ میری اس کے ساتھ دوستی بنگلور میں ہوئی ، جب میں وہاں کچھ وقت کےلئے شفٹ ہو گیا تھا۔
اس کی شادی کو دس سال ہوگئے تھے اور دو بچوں کی پیدائش کے باوجود اس کی بیوی خاصی خوبصورت ، سڈول اور ماڈل جیسی باڈی کی مالک تھی۔ آگے کی کہانی اسی کی زبانی سنئے:
کانپور کے پرانے گنجان آباد شہر میں میری فیملی جس مکان میں رہتی تھی، اس کی دیوار سے لگے ہوئے دوسرے سیٹ میں سینی سر نام کی فیملی رہتی تھی جس میں معمر میاں بیوی، ان کے دو بیٹے اور بڑے بیٹے کی بیوی شامل تھی۔ ان کا چھوٹا بیٹا ذہنی طور پر معذور تھا۔ عمر کے لحاظ سے تو بچیس سال کا تھا، مگر اس کے دماغ کی نشونما اسکی پیدائش کے دو یا تین سال کے بعد رک گئی تھی۔ اس کی ہر وقت رال ٹپکی رہتی تھی۔ وہ خود کھانا کھا سکتا تھا نہ ناک صاف کرسکتا تھا۔ تن و نوش اور جسمانی صحت اسکی اچھی تھی۔
چونکہ لوگ اسکو پاگل سمجھتے تھے، اسلئےاس سے دور دور ہی رہتے تھے۔ وہ بھی بیچارہ اپنے ماں باپ کے رحم و کرم پر تھا۔ اپنے بڑے بھائی سے بہت ڈرتا تھا، کیونکہ وہ اس کی وقتاً فوقتاً پٹائئ کرتا رہتا تھا۔
میرا کمرہ مکان کی دوسری منزل پر تھا۔ اس کے متصل اس پاگل لڑکے، جس کا نام ارجن تھا کا کمرہ تھا۔ ہمارا مکان دراصل کسی وقت ایک ہی رہا ہوگا۔ بعد میں دیوار کھڑا کرکے اس کو دو الگ الگ سیٹوں میں بانٹ دیا گیا تھا۔
میرے کمرے کی دیوار کے اوپر ایک روشندان تھا، جو تاریک شیشے سے بند کیا گیا تھا۔ رات کو کسی وقت ارجن کے چیخنے چلانے کی آوازیں آتی تھیں۔ پھر اس کی ماں کی جھڑکیاں سنائی دیتی تھی۔ کبھی اس کا بھیا اسکو ڈنڈے سے پیٹتا تھا۔ میں کان بند کرکے رضائی اوڑھ کو سو جاتا تھا۔
اسی دوران گریجویشن کرنے کے بعد میں نے ایک ایڈوارٹائزنگ کے کورس میں داخلہ لیکر ایک کیم کارڈر خریدا تھا۔ اب یہ ایک مشغلہ سا بن گیا تھا کہ روز ہاتھ میں کیم کارڈر لیکر بازار، پارکوں، چڑیا گھر وغیرہ کا چکر لگا کر ریکارڈنگ کرتا رہتا تھا۔ پھر انسٹیچوٹ میں اسکو ایڈیٹ کرکے چھوٹی موٹی شوقیہ ڈاکومیٹری بناتا تھا۔ کسی وقت اشتہار وغیرہ یا کسی کیمپین کےلئے بھی میٹیریل مل جاتا تھا۔
ایک دن معلوم ہوا کہ پاگل ارجن کی شادی طے ہو گئی ہے اور اگلے ہفتے ہی رخصتی وغیرہ ہے۔ گھر پر بھابھی، میری ماں، اور دیگر افراد بحث کررہے تھے، آخر کس اندھے نے اپنی لڑکی اس پاگل کے حوالے کردی ہے۔ اگلے روز معلوم ہوا کہ لڑکی یتیم ہے اور اپنے ماموں یا چچا کے ساتھ رہتی تھی اور وہ شاید اب اس سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں۔ یہ بھی پتہ چلا کہ ارجن کے والدین نے اچھی خاصی رقم ان کے چچا کی دی ہے۔ یعنی ایک طرح سے لڑکی خریدی ہے۔
خیر شادی کا دن آیا اور جس جس نے بھی لڑکی دیکھی، اس نے منہ میں انگلیاں دبائی۔ کیونکہ لڑکی انتہائی خوبصورت تھی۔ نکھرا نکھرا گورا رنگ، جیسے شہد میں دودھ گھول دیا گیا ہو۔ وہ بلکل ایشوریہ رائے یا سشمتا سین سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ ان دنوں مس یونیورس اور مس ورلڈ کا خطاب ان دو ماڈلوں نے جیتا تھا۔
لہذا، جو بھی گھر آتا تھا۔ وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر کہتا تھا ہا ہا دلہن تو بلکل ایشوریہ رائے کی کاپی لگتی ہے۔ کیا روپ اور نکھار پایا ہے۔ مگر سب بیکار، کیسے کرے گی نبھاہ پاگل کے ساتھ۔ اس کی خوبصورتی کی تعریفیں کرنے کے بعد لوگ لڑکی کی قسمت پر تاسف کا اظہار کرتے تھے۔
اس دوران ایک دھماکہ دار خیال دماغ میں آیا۔ کیوں نہ ارجن اور اس لڑکی کی سہاگ رات کو ریکارڈ کیا جائے۔ میں نے اپنے کمرے میں آکر کیم کارڈر کو چیک کیا۔ اس میں نئی کیسٹ ڈالی اور اس کی بیٹری چیک کی۔ اب روشندان تک پہنچنے کا مسئلہ تھا۔ وہ بھی حل ہوگیا۔ کمرے میں ایک اونچا اسٹول رکھا تھا، جس سے چھت وغیرہ کی صفائی کی جاتی تھی۔
اسٹول پر چڑھ کر اب شیشے کا ایشو تھا۔ اس پر کالا رنگ چڑھایا گیا تھا۔ میں نے اسکو جب کھرچا، تو رنگ جلدی اتر گیا۔ میں نے بس ایک کونے سے رنگ اتارا۔ خیریت ہوئی کہ دوسری طرف رنگ نہیں تھا۔ اس کے اترتے ہی، پورا کمرہ میری نظروں کے سامنے تھا۔ سامنے بیڈ نظر آرہا تھا، اس کو تیار کیا گیا تھا۔ نیا شیٹ بچھا تھا اوراس پر پھولوں کی پتیاں بکھری ہوئی تھیں۔ ابھی کمرے میں کوئی نہیں تھا۔ میں نے کیم کارڈر کے لینز کےلئےجگہ بنائی۔
خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ کونے سے میں نے قلم سے شیشے کا ٹکڑا کاٹا اور اس میں لینز کو فٹ کردیا۔ کھڑکی کچھ ایسی جگہ پر تھی، کہ پورا کمرہ نظروں کے سامنے تھا۔ دوسری طرف سے اس پر نظر نہیں پڑسکتی تھی۔ لہذا پکڑے جانے کا خطرہ کم ہی تھا۔
نیچے جاکر میں نے ڈنر کیا۔ پاس کے گھر سے اب محلے کی عورتوں کی گانوں کی آوازیں آنا بند ہو گئی تھیں۔ انہوں نے شادی کا کچھ زیادہ اہتمام نہیں کیا تھا۔ بس سادہ طریقے سے ہی شادی کی تھی۔ میرے بھیا اور بھابھی بارات کےساتھ گئے تھے۔ وہ وہاں کے قصے سنا رہے تھے۔مجھے ان سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
کھانا کھا کر میں سیدھا کمرے میں آگیا۔ اسٹول پرچڑھ کردیکھا کہ کہ دلہن بیڈ پر سمٹی سی بیٹھی کپڑے کی کوئی گھٹری سی لگ رہی تھی۔ اس کے بس گورے خوبصورت پیر نظر آرہے تھے۔ اس نے گھونگھٹ اوڑھا ہوا تھا۔ خیر کپڑؐں کی گھٹری کا لفافہ ہی بتایا رہا تھا کہ اس کے اند ایک قیامت چھپی ہوئی ہے۔
اسی دوران ارجن پاگل اندر آیا۔ بیڈ پر اپنی دلہن کو دیکھ کر اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ خیر بیڈ پر پہنچ کر اس نے اپنے لئے کچھ جگہ بنائی اور لیٹنے لگا۔ لڑکی کے ہاتھ گھونگٹ سے نمودار ہوئے اور ارجن کے بال سہلانے لگے۔ لڑکی کو شاید معلوم تھا کہ اس کی قسمٹ پھوٹ گئی ہے اور اب زندگی کسی طرح گذارنی ہے۔ ارجن کو بھی شاید یہ کچھ اچھا لگ رہا تھا۔
یہ بھی بتاوں کہ ارجن کے بڑھے بھائی کی شادی کو کئی سال ہو چکے تھے اور انکی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اس کی بیوی بھدی ڈھول جیسی عورت تھی۔
میرا جوش جو ارجن کی سہاگ رات کو ریکارڈ کرنے کا تھا، مانند پڑتا جا رہا تھا۔ لگتا تھا کہ بیڈ روم میں کوئی ایکشن نہیں ہونے والا ہے۔ ارجن تو سونے جا رہا تھا۔ اب میں کیم کارڈر کو بند کرنے ہی والا تھا کہ ارے یہ کیا، کمرے کا دروازہ پٹ سے کھلا اورارجن کا بڑا بھائی اندر آگیا۔
بیڈ کے پاس پہنچ کر اس نے ارجن کو زور سے دھکا دیکر نیچے گرادیا اور پھر اس کو لات مار کر کونے کی طرف دھکیل دیا۔ وہ تھرتھر کانپتے ہوئے کونے میں بیٹھ گیا۔
لڑکی کا گھونگٹ ابھی بھی اس کے سر پر تھا۔ ارجن کے بھائی نے اس کا گھونگٹ اٹھانے کے بجائے نوچ ڈالا۔ لڑکی نے جب نظریں اوپر کی اس کی بڑی بری ہرنی جیسی آنکھوں میں وحشت تھی۔ شاید اسکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ ارجن کے بھیا نے اس کو بیڈ پر گرادیا اور اس پر سوار ہوکر باقی کپڑے نوچنے لگا۔
مگر لڑکی نے اس کو دھکا دے دیا اور چیخنے، رونے لگی۔ وہ خوب مزاحمت کر رہئ تھی۔ اسی دوران کمرے کا دروازہ پھر کھلا اور ارجن کے والدین اور بھابی سب کمرے کے اندرآگئے۔ میں تو سوچ رہا تھا کہ وہ اب ارجن کے بھیا پر خوب برسیں گے اوردلہن کی عزت کو تار تار ہونے سے بچائیں گے۔
مگر یہ کیا۔ ارجن کے باپ نے لڑکی کو پکڑ کر بیڈ پر لٹا کر اسکے دونوں ہاتھ پکڑے اور اس کے منہ میں کوئی رومال ٹھونس دی۔ لڑکی کی ساس یعنی ارجن کی ماں نے اس کے باقی زیر جامہ اتار کر پورا ننگا کردیا۔ لڑکی ابھی بھی ٹانگوں سے مزاحمت کر رہی تھی۔ انکو لاتیں مار رہی تھی۔
اس کی ساس نے اس کی ایک ٹانگ مضبوطی سے پکڑی اور دوسری ٹانگ موٹی تازی بھابھی نے پکڑ کر ان کو ایک دوسرے سے دور کردیا۔
اس دوران ارجن کے بھائی نے اپنے کپڑے اتار دئے تھے۔ وہ کالا کلوٹا اور کسرتی جسم کا مالک تھا۔ اس کا لنڈ تو انتہا تک کھڑا تھا۔ کالا کلوٹا بھجنگ سا لنڈ نو، دس انچ سے کم نہیں رہا ہوگا۔ لمبا ہونے کے ساتھ وہ کسی شہتیر کی طرح موٹا تھا۔
وہ اس پر تھوک مل رہا تھا۔ لڑکی کی ٹانگیں کیا تھیں، بس جیسے سنگ مرمر کے تراشیدہ عضو تھے۔ اس کی پینٹی کب کی پھاڑ کر اتاری جا چکی تھی۔
بھابھی اس کے پیٹ کی طرح اشارہ کرکے اس کو کہہ رہی تھی کہ ’’یہ پاگل تھوڑی اس میں کچھ ڈال پائے گا۔ تمہیں تو اس خاندان کا وارث پیدا کرنا ہے۔ کوئی مفت میں کیوں پالے گا تمہیں؟‘‘
لڑکی کی مزاحمت تو اب دم توڑ چکی تھی۔ اس کے باوجود وہ کسمسا رہی تھی۔ شاید آخری وقت تک اس کو امید تھی کہ کسی کواس پر رحم آجائے گا۔ میرا کیم کارڈر سب ریکارڈ کر رہا تھا۔ اس کے برف جیسے سفید ممے چھتیس کے سائز کے رہے ہونگے۔ جس کے اوپر گلابی رنگ کے نپلز بھلے لگ رہے تھے، جو ابھی اندر کی طرف ہی مڑے تھے۔ لگتا تھا کہ ان تک ابھی کسی مرد کی رسائی نہیں ہوئی ہے۔
یقین کریں اس وقت میں اسکے جسم کو بھول ہی گیا تھا۔ کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ میرا اپنا لنڈ جو تھوڑی دیر پہلے بلکل کھڑا تھا، اب یہ سین دیکھنے کے بعد بیٹھ چکا تھا۔
چونکہ دو عورتوں نے اس کی ٹانگیں پکڑی ہوئی تھی۔ اس کی صاف و شفاف چوت نظر آرہی تھی۔ صاف لگ رہا تھا کہ وہ کنواری ہے۔ چوت کے لب ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ تھے۔ کلی ٹورس کے پاس گوشت کی ہلکی تہیں جمی ہوئی تھیں۔ جو چاٹنے اور چاہنے کےلئے انتہائی موزوں لگ رہے تھے۔
ارجن کے بھیا نے اپنا کالا بھجنگ لمبا اور موٹا لنڈ اس کی چوت پر فٹ کردیا۔ مگر جگہ خشک تھی۔ اس نے لنڈ کو دوبارہ تھوک سے تر کیا۔ اور کچھ تھوک چوت کے لبوں کے بیچ بھی گرائی۔ مگر راستہ پھر بھی تنگ لگ رہا تھا۔
ایک کونے میں جاکر اس نے شاید تیل یا کریم کی شیشی نکال کر لنڈ کے سر کے اوپر انڈیل دی اور پھر پورے لنڈ پر پھیر دی۔ انگلی سے اس نے چوت کے لبوں کو دور کرکے ان کے بیچ بھی کریم یا تیل لگایا۔ سوراخ ابھی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ میں نے کم کارڈر کو زوم کیا ہوا تھا۔
تھوڑی دیر لنڈ کو اوپر نیچے کرکے اس نے ایک زور دار دھکے کے ساتھ لنْڈ کا سر اندرکر دیا۔ لڑکی کےلئے یہ کسی دھماکہ سے کم نہیں رہا ہوگا۔
وہ درد کی شدت سے تلملا رہی تھی۔ چونکہ اس کے منہ میں رومال تھا، وہ بس او او او ہی کر پارہی تھی۔ اس کا باقی بدن لرز رہا تھا۔ اس کے ہاتھ سسر کے مضبوط ہاتھوں نے دبائے ہوئے تھے۔ ٹانگیں ساس اور بھابھی نے دبا کر رکھے ہوئے تھے۔ حرکت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ مگر اس کے چہرے کے نقوش دیکھ کر ہی پتہ چلتا تھا کہ وہ کس قدر تکلیف میں تھی۔
ایک زور دار دھکا ریکر ارجن کے بھائی نے آدھا لنڈ اندر پہنچا دیا ۔ خون کا فوارہ چوت سے جاری ہوگیا۔ ارجن کا بھائی اپنی بیوی سے کہہ رہا تھا کہ پہلی بار کوئی فرسٹ ہینڈ چیز ہاتھ لگی ہے۔ ورنہ زندگی میں سیکنڈ ہینڈ پر ہی گذارہ کرنا پڑا ہے۔
گاڑی سیکنڈ ہینڈ، یہ مکان سیکنڈ ہینڈ اور پھر بیوی کی طرف دیکھ کر کہا کہ جب یہ آئی تو یہ بھی چد چکی تھی۔ اسکی بیوی نے برا سا منہ بنا کر کہا کہ ’’آپنا کام کرو۔ یہ کون سا موقعہ یہ باتیں کرنے کا، اور تم خود کونسا فرسٹ ہینڈ تھے۔۔‘‘
تھوڑی دیر کےلئے جب اس نے لنڈ باہر نکالا وہ خون سے تر تھا۔ لڑکی تکلیف سے دوہری ہو رہی تھی۔ اس مردود نے پھر زور دار جھٹکے کے ساتھ لنڈ کو اندر کر دیا اور اس بار وہ جڑ تک اندر چلا گیا۔ اگر لڑکی کے منہ میں رومال نہ ہوتا تو اس کی چیخیں نکلنی تھیں۔ اسکا سوراخ اتنا تنگ اور خشک تھا کہ چند لمحے تک ارجن کے بھیا کواپنے لنڈ کو حرکت دینا ہی مشکل ہوگیا تھا۔
ایک دو دھکوں کے بعد ہی وہ اس کے اوپر ڈھیر ہوکر اس کی چوت میں منی انڈیلنے لگا۔ چند لمحون کے بعد کھڑا ہوکر لڑکی کے پیٹ پر تھوک کر کپٹرے پہن کر باہر چلا گیا۔ لڑکی اس دوران اب ہوش و حواس سے بیگانہ ہو چکی تھی۔ بس تکلیف سے دوہری ہوکر ہاو ہو کر رہی تھی۔
دونوں عورتوں اور اس کے سسر نے اس کے ہاتھ، پیر چھوڑ دئے۔ اس کی بھابھی کسی ٹشو پیپر سے اس کے چوت کو صاف کررہی تھی۔ اس کے لبوں کو کھول کر شاید دیکھ رہی تھی کہ کیا واقعی پردہ بکارت پھٹ گیا ہے۔
اس دوران اس کے سسر نے اپنی دھوتی اوپر کرکے اپنے لنڈ کر نکال کر اس کے جسم سے مس کیا اور پھر اس کی چوت میں داخل کردیا۔ لڑکی تو تقریبا بے ہوش تھی۔ مگر اس کے نے شرم سسر نے اس کے اوپر لیٹ کر اپنی بیوی اور بہو کے سامنے ہی چند دھکے لگا کر منی اپنی بہو کے چوت میں ڈال دی۔ اس کو فارغ ہونے میں چند ہی سیکنڈ لگے۔
ارجن کونے میں اونگھ رہا تھا۔ اس کو شاید کوئی آئیڈیا نہیں تھا کہ کمرے میں کیا ہو رہا ہے ۔ میرا جسم پسینے سے تر تھا۔ کمرے میں اب خاموشی طاری تھی۔ اب وہاں صرف لڑکی اور اس کا شوہر موجود تھے۔
خاصی دیر کے بعد ہوش میں آکر اس نے اپنے شوہر کو اٹھایا اور بیڈ تک لے جاکر اس کے اوپر چادرتانی اور خود لنگڑاتے ہوئے باتھ روم کی طرف روانہ ہوگئی۔ واپس آکر اس نے لائٹ آف کی اور چادر کے اندر ارجن کے بغل میں ہی سو گئی۔ صاف لگتا تھا کہ اس کو چلنے پھرنے میں تکلیف ہو رہی ہے۔
لگتا تھا کہ وہ اپنی قسمت پر صبر کرکے بیٹھ گئی تھی۔ میں بھی اسٹول سے نیچے اترا۔ نیند تو کوسوں دور تھی۔ کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ اس کی چوت اور باڈی یاد کرکے ماسٹربیشن کرنا چاہتا تھا، مگر پھر جو کچھ اس کے ساتھ بیت گئی تھی، یاد آکر لنڈ خود بخود بیٹھ جاتا تھا۔
اگلے روز شاید ان کے ہاں کوئی مہمان وغیرہ آئے تھے۔ پاگل ارجن سونے کےلئے آیا، تو لڑکی نے اس کو بغل میں سلادیا اور اس کے بالوں وغیرہ کو سہلا یا۔ باتھ روم لے جاکر اس کا منہ وغیرہ دھو کر اس کی ٹپکتی رال صاف کی۔ وہ بلکل ایک سچی پتی ورتا عورت کی طرح شوہر کا خیال رکھ رہی تھی۔ وہ اس کو کھانا بھی اپنے ہاتھ سے کھلا رہی تھی۔ اگلی دو تین راتوں کو خاموشی سی رہی ۔۔
رات کو ڈنر پر میری بھابھی، جو ان کے گھر جاتی تھی، بھی بتا رہی تھی کہ پڑوس والوں کی نئی خوبصورت بہو اپنے پاگل پتی کا بہت خیال رکھتی ہے۔ وہ کہہ رہی تھی کہ سینی فیملی کے دن پھر گئے ہیں۔ اس پاگل ارجن کو سنبھالنے کےلئے ان کے پاس لڑکی آگئی ہے۔ آنٹی یعنی لڑکی کی ساس کے تو اب مزے ہیں۔
مگرمیرے بھیا اور ماں کا کہنا تھا کہ کمائے گا کون؟ یہ تو ابھی ماں باپ زندہ ہیں۔ ان کے مرنے کے بعد پاگل کہاں سے کماکر بیوی کو پالے گا۔ اس کا بھائی تو پہلے ہی اس سے بیزار ہے۔ میں نے ان کو نہیں بتایا کہ ارجن کا بھائی بیڈ روم میں کمائی کی قیمت کیسے وصول کر رہا ہے۔
قتل اور عدالت
ایک ہفتہ بعد، میں نے اسٹول پر چڑھ کر کیم کارڈر لگایا ہوا تھا۔ پاگل ارجن اور اس کی بیوی بیڈ پر بیٹھے کر ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ جیسے کسی بچے کو بہلایا، پھسلایا جاتا ہے وہ ایسے ہی اس سے کھیل رہی تھی۔
بس اسی دوران ارجن کا کالا کلوٹا، بن مانس جیسا بھیا اندر آگیا۔ اس نے اس کو بیڈ سے اترنے کےلئے کہا اور خود لڑکی کے اوپر چڑھ گیا۔ شاید اب ارجن کو لگ رہا تھا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے۔ دراصل شاید پہلی بار گھر پر اسکے ساتھ کوئی پیار سے برتاو کررہا تھا۔ باہر بھی تو لوگ اس سے دور دور ہی رہتےتھے۔ اس لئے لڑکی کےلئے اس کے دل میں ہمدردی اور لگاو سا پیدا ہو گیا تھا۔
وہ بیڈ کے کنارے پر ہی کھڑا رہا۔ تھوڑی دیر لڑکی کا کسمسانا اور رونا دیکھ کر وہ شاید فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ کیا کرنا ہے۔۔ اس کا بھیا لڑکی کی ساڑی کو اوپر کرنے کی جستجو کر رہا تھا۔ اسی دوران ارجن نے اس کو پیچھے سے پکڑا اور کھنچ کر بیڈ سے نیچے گرایا۔ ۔ شاید پہلی بار اس نے ایسی جرات کی تھی۔ اس کی ایسی حرکت سے شدیدغصہ میں اسکا بھیا پاگل ہوگیا۔ اس نے واپس ارجن کو زور دار دھکا دے دیا۔ وہ پیٹھ کے بل ایک ٹوٹی سی کرسی پر گر گیا، جس کی لوہے کی راڈ اس کے سر کے پچھلے حصے میں لگی۔ وہ فرش پر ڈھیر ہو گیا۔
بھیا تو ارجن کی جرات سے تلملایا ہوا تھا۔ اس نے تکیہ لیکر ارجن نے منہ پر رکھ کر اسکو دبانا شروع کیا۔ مجھے لگتا تھا کہ شاید ارجن کی سانس اس کے سر کے پچھلے حصے میں لویے کا سریہ لگنے سے ہی ختم ہو گئی تھی۔ مگر تکیہ رکھنے سے وہ شاید یقین کرنا چاہتا تھا کہ اس کی سانسوں کی ڈوریقنیی طور پر ٹوٹ جائے۔
لڑکی ہکا بھکا اور جیسے ٹرانس میں تھی۔ اس کو یقین نہیں تھا کہ اسکے شوہر کی موت ہو چکی ہے۔ تھوڑی دیر بعد جب بھیا کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا، تو اس کو احساس ہوگیا کہ اس نے کیا کیا ہے۔ اس نے آواز دیکر ماں، باپ اور بیوی کو بلایا اور وہ ارجن کی نبض دیکھنے لگے۔ تھوڑی دیر انہوں نے آپس میں کچھ کانا پھوسی کرکے مشورہ کیا اور باہر چلے گئے۔ لڑکی بیڈ پر بےحس پڑی تھی۔
میں اسٹول سے نیچے اترا ہی تھا کہ سینوں کے گھر سے رونے پیٹنے کی آوازیں آنی لگی۔ نیچے کھٹ پٹ ہو رہی تھی۔ میں بھی نیچے اترا تو دیکھا کہ پاپا، ممی ، بھیا اور بھابھی اور دیگر محلہ والے سینیوں کے گھر کی طرف جا رہے تھے۔ بتایا گیا کہ دلہن نے اپنے پاگل شوہر کا خون کر دیا ہے۔ ارجن کا بھائی اور ان کی بھابھی محلہ والوں سے کہہ رہے تھے کہ ’’اگر اتنی نفرت تھی پاگل سے ، پھر شادی سے انکار کیوں نہیں کیا؟ ہم نے تو لڑکا دکھایا تھا۔ ہم نے تو یتیم لڑکی کی کفالت کےلئے اس کا گھر بسایا تھا۔‘‘
مجھے غصہ تو آرہا تھا ، مگر کیا کرتا۔ میں اور میرا کیم کارڈر اس پورے واقعہ کا عینی گواہ تھا۔
تھوڑی دیر بعد پولیس آگئی اور لاش اور لڑکی کو اپنے ساتھ لے کر گئی۔ لڑکی صدمے سے ٹرانس میں تھی۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ اگلے دن اخباروں میں پہلے صفحے پر خبر تھی، کہ کیسے ایک دلہن نے اپنے پاگل پتی کو موت کی نیند سلادیا۔ کیونکہ وہ سیکس نہیں کر پایا تھا۔
روز کچھ نہ کچھ اس واقعے سے متعلق اخباروں میں چھپتا تھا۔ اس کے چاچا کا بیان تھا کہ ان کے لئے یہ لڑکی مر چکی ہے۔ محلہ والوں ،گھر والوں اور اخباروں سے پتہ چلا کہ لڑکی کا پولیس ریمانڈ ختم ہو گیا ہےا ور اس کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔
ایک یا دو ماہ بعد معلوم ہوا کہ چارچ شیٹ فائل ہوگئی ہے۔ جتنا کچھ ا سکے بارے میں اخباروں میں چھپا، وہ جھوٹ کا پلندہ تھا۔ بتایا گیا کہ لڑکی نے قتل کا اقرار کیا ہے۔ وہ اپنی قسمت ایک پاگل کے حوالے کرنے سے اپ سیٹ تھی۔
اس دوران ایک دو بار میں بھی عدالت میں کاروائی دیکھنے کےلئے گیا۔ اس لڑکی کو عدالت کی طرف سے ہی وکیل دیا گیا تھا۔ جیسا کہ معلوم ہی ہوگا کہ ایسا وکیل بس دکھانے کےلئے ہوتا ہے۔ وہ کوئی کام نہیں کرتا ہے۔ بس سرکاری وکیل کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔
میرا ضمیر مجھے کچوکے دے رہا تھا۔ کچھ سمجھ۔ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔ اسی دوران میں نے ایک ایڈ ایجنسی جوائن کی تھی اور وہاں میرے ایک کولیگ کا باپ شہر کا نامی گرامی وکیل تھا۔۔ میں نے ایک دن اسکو بتایا کہ آفس کے بعد کچھ ضروری بات کرنی ہے۔ وہ میرے کالج کا ساتھی بھی تھا۔
آفس کے بعد ہم ایک ریسٹورینٹ میں بیٹھے اور میں نے اس کو مختصراً پوری بات بتائی۔ ایک لمبی سانس لینے کے بعد بائک پر بٹھا کر وہ مجھے اپنے والد کے دفتر لے گیا۔ اس کا بات شہر کی بار کا صدر وغیرہ بھی تھا۔ جب وہاں کلائیٹس کا رش کم ہو، تو اسنے میری طرف اشارہ کرکے اپنے باپ سے کہا کہ ان کو آپ سے کام ہے۔
مجھے الفاظ ہی نہیں مل رہے تھے۔ شرم بھی آڑے آرہی تھی۔ وکیل انکل نے کہا دیکھو وکیل اور ڈاکٹر کو پورا کچا چھٹابتایا کروں تاکہ وہ صحیح علاج یا اسٹریجی ترتیب دے سکے۔ اگر کچھ چھپایا تو کلائیٹ یا مریض کو ہی نقصان ہوگا۔
جب میں نے داستان شروع کی، تو میرا دوست باہر چلا گیا تھا۔ میں نے شرماتے، لجاتے پوری داستان وکیل انکل کے گوش گذار کرلی۔ انہوں نے پوچھا کہ کیم کارڈر کہا ں ہے۔ وہ میں اپنے ساتھ بیگ میں ہی رکھتا تھا۔ میں نے بیگ سے نکال کر اس میں کیسٹ لگائی۔ میں نے پلے کا بٹن دبایا اور خود باہر چلا گیا۔ ویسے میں نے اس کیسٹ کی آفس میں ایک دن رات گئے کاپی بھی بنائی تھی۔ ان دنوں اس طرح کے ایکوپمنٹ وغیرہ افورڈ کرنا مشکل ہوتا تھا۔ مجھے خطرہ تھا کہ کہیں اوریجنل کیسٹ ضائع یا گم وغیرہ نہ ہوجائے۔
تھوڑی دیرکے بعد انہوں نے مجھے اندر بلایا اور کیم کارڈ کو بند کرنے کے بعد بتایا کہ ان کے ساتھ گاڑی میں سوار ہو جاوں۔ بیٹے کو انہوں نے گھر جانے کےلئے کہا۔
میں ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا، جو کئی راستوں سے گذرتے ہوئے سول لائن علاقہ میں ایک جج کے گھر کے باہر رک گئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہی جج اس مقدمہ کی سماعت کر رہا تھا۔
مجھے گاڑی میں ہی بٹھا کر وہ اندر چلے گئے اور کافی دیر کے بعد مجھے اندر بلایا گیا۔ جج صاحب نے کیم کارڈر چلانے کےلئے کہا۔ میں نے پلے کیا، اور وہ دونوں غور سے دیکھ رہے تھے اور بیچ بیچ میں مجھے اسکو پاز کرنے کےلئے کہتے تھے۔ ان کے سامنے اس کو چلانا اور دیکھنا بہت برا لگ رہا تھا۔
جج نے وکیل انکل کو بتایا کہ پہلے دن سے ہی مجھے یہ کیس مشکوک لگ رہا تھا۔ اس کا آئی او یعنی تفتیشی افسر بھی نامی راشی ہے، مگر ہمیں تو قانون کی عینک سے دیکھنا پڑتا ہے جو اندھا ہوتا ہے۔ اس کیس میں کوئی سرا نہیں مل رہا تھا۔ اسلئے چارج فریم کرنے کےلئے میں ابھی تک تاریخ پر تاریخ دے رہا تھا۔ انہوں نے اس کے بعد ٓآپس میں پھر گفتگو کی اور جج نے بھی اس دوران کسی سے فون پر بات کی۔
تھوڑی دیر بعد وکیل انکل نے مجھے پھر گاڑی میں بٹھادیا اور اسی سرکاری کالونی کے دوسرے سرے پر پھر گاڑی روکی۔ یہ شہر کے پولیس چیف یعنی ایس ایس پی کی کوٹھی تھی۔ لگتا تھا کہ جج صاحب نے ان سے ہی فون پر بات کی تھی۔
بعد میں مجھے معلوم ہو اکہ انہوں نے طے کیا تھا کہ بجائے وکیل دفاع کی طرف سے کورٹ میں یہ ویڈیو ریکارڈنگ پیش کی جائے، اور مجھے بطور گواہ پیش کیا جائے، پولیس کو ہی دوبارہ تففیش کا حکم دے دیا جائے۔ مجھے قانونی موشگافیوں کا کچھ زیادہ علم نہیں ہے۔ مگر پتہ چلا کہ ویڈیو ریکارڈنگ اس وقت تک شاید کورٹ میں ایڈمیسبل نہیں تھی۔ دوسرا جو پولیس افیسر اس کیس کی تفتیش پر مامور تھا، وہ تو پہلے مجھے ہی اندر کردیتا کہ میں نے کیسے یہ ویڈیو بنائی۔ پھر سینی فیملی بھی کیس بنا سکتی تھی، کہ ان کی پرائیوسی متاثر ہوئی ہے۔
اس لئے وکیل انکل اور جج صاحب نے ایک پلان بنایا تھا، جس میں انہوں نے ایس ایس پی کو بھی شامل کیا تھا، جو ایک نوجوان اور شفاف آفیسر تھا۔ شاید مسابقتی امتحان پاس کرنے کے بعد اس کی پہلی ہی فیلڈ پوسٹنگ تھی۔ اس نے اگلے دن ہی اس کیس کا تفتیشی افسر تبدیل کرکے ایک اچھے اور محنتی پولیس انسپکٹر کو یہ کیس سونپ دیا، جس نے میرا بیان لیا۔
پھر میرے گھر آکر میرے کمرے کا معائنہ کرکے پولیس فوٹو گرافر سے کھڑکی کے روشندان وغیرہ کی تصویریں لیں۔ پھر سینیوں کے گھر جاکر وہاں بھی ارجن کے کمرے کے اندر کی تصویریں بنائیں اور ان کے پورے گھر کی تلاشی لی۔ خصوصاً ارجن کے کمرے کی باریک بینی سے چانچ پڑتال کی۔ کرسی کی لوہے کی راڈ پر اس کو خون کے داغ بھی ملے۔ پھر بیڈ شیٹ وغیرہ کا اس نے معائنہ کیا۔
کسی کو علم نہیں تھا کہ آخر کئی ماہ بعد پولیس کو دوبارہ تفتیش کی کیوں ضرورت پیش آرہی ہے؟ معلوم ہوا کہ پچھلے تفتیشی افسر کو ارجن کے گھر والوں نے اچھی خاصی رقم کھلائی تھی۔ اس کو ایس ایس پی نے دھمکا دیا تھا کہ اگر اس کیس میں مداخلت کی کوشش کی تو رشوت لینے اورجھوٹا چارچ شیٹ فائل کرنے کے جرم میں معطلی اور لمبی سزا ہوگی۔ میں جیل ہوگی۔ ارجن نے گھر والوں نے اس سے ملنے کی بھر پور کوشش کی، مگر اس نے لمبی چٹھی لی اور شہر سے ہی بھاگ گیا۔
وکیل انکل نے اس دوران جیل میں لڑکی سے ملنے کےلئے اجازت نامہ حاصل کردیا تھا ور مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ لڑکی کو مبہم سی یاداشت تھی، کہ میں اس کے سسرال والوں کا پڑوسی ہوں۔ کیونکہ ہماری کوئی ایسی ملاقات نہیں ہوئی تھی، جو یاد رہ سکتی تھی۔
وکیل صاحب نے اسکو پوری بات بتائئ۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور کہہ رہی تھی کہ اس کو جیل میں ہی رہنے دیا جائے۔ کیونکہ باہر اس کا کوئی نہیں ہے۔ کیم کارڈر وغیرہ کا سن کر تو وہ اشتعال میں تھی۔
مگر وکیل انکل نے اس کو ٹھنڈا کیا اور بتایا کہ اس لڑکے نے غلطی تو کی ہے، مگر اس نے اب اپنی زندگی داو پر لگائی ہے۔ اور دیکھو بھگوان بھی جو کرتا ہے ، اچھا ہی کرتا ہے۔ اگر یہ ویڈیو ریکارڈنگ نہیں کرتا تو تم قاتل بن چکی تھی۔
بڑی مشکل سے اس نے وکالت نامہ پر دستخط کردئے۔ مگر میری طرف وہ ایسے دیکھ رہی تھی، کہ جیسے کچا چبائے۔
اگلی پیشی پر پولیس نے درخواست دی، کہ اس کیس میں کچھ نئے پہلو سامنے آئے ہیں اور اس کی ازسر نو تفتیش کی اجازت دے دی جائے۔ اس دن پتہ چلا کہ کمرہ عدالت میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے پیچھے بہت کچھ پہلے ہی ہوا ہوتا ہے۔ چونکہ درخواست خود سرکاری وکیل کی طرف سے ہی تھی، تو کون مخالفت کرتا۔ سرکار کی طرف سے لڑکی کو دیا گیا وکیل کو بھی بدل دیا گیا تھا۔ اس کے بدلے مورچہ وکیل انکل نے خود ہی سنبھالا۔
نئے تفتیشی افسر نے چند دنوں کے اند رہی ارجن کے بھائی کو قتل کے الزام میں اور اس کے باپ کو لڑکی کو ریپ کرنے اور دونوں عورتوں کو اس کی معاونت کرکے کے الزام میں گرفتار کردیا۔
جج نے کیس کی کاروائی ان کیمرہ یعنی اپنے کمرہ میں کرنے کا آرڈر دے دیا تھا۔ مگر عدالت میں یہ ویڈیو چلانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ کیونکہ پولیس ریمانڈ کے دوران ہی ملزموں نے جرم قبول کر دیا تھا۔ ارجن کے کمرہ میں ہی نئے تفتیشی افسر کو اتنے ثبوت ملے، کہ میری گواہی کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ اس نے میرا بس اتنا ہی بیان ریکارڈ کیا، کہ کمرے سے چیخنے، چلانے کی آوازیں اور کئی مردوں کی آوازیں آرہی تھیں۔
لوہے کی راڈ پر خون کے دھبے،شیٹ پر ارجن کے بھائی اور والد کا مادہ منویہ، جس کو فارنسک نے کنفرم کر دیا۔ غرض اس نئے تفتیشی افسر کو بہت کچھ ثبوت کے روپ میں مل گیا۔
علاوہ ازیں جج صاحب نے باقی سب کچھ ویڈیو پر دیکھ ہی لیا تھا۔ لڑکی دوسری پیشی پر ہی بری ہو گئی اور عدالت نے اس کو ناری نکیتن بھیج دیا۔
مقدمہ چلتا رہا اور سال بھر بعد ملزمین کو لمبی سزائیں سنائئ گئیں۔ یہ کیس کانپور میں عرصہ تک چرچا میں رہا۔
میں کئی بار اس لڑکی سے ملنے کےلئے ناری نکیتن گیا، مگر وہ مجھ سے ملنے سے کتراتی تھی۔ جب میں نے وہاں کی منیجر سے درخواست کی کہ میں اس سے شادی کرنا چاہ رہا ہوں اور باضابطہ درخواست دی، تو اس نے بھی لڑکی کو سمجھایا بجھایا۔ اس کو بتایا کہ زندگی کافی لمبی ہے کب تک ناری نکیتن میں رہو گی۔
میں نے جب گھر پر شادی کا ذکر کیا، تو ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا، جس کا مجھے اندازہ تھا۔ ان کو ابھی تک اس معاملے میں میرے کردار کا پتہ نہیں تھا۔
اسی دوران میں نے شہر کے پوش علاقے شیام نگر میں ایک فلیٹ کرایہ پر لے لیا تھا۔ ناری نکیتن کی چند خواتین، افسران اور چند دوستوں کے ہمراہ ایک آریہ سماج مندر میں ہم ایک سادہ سی تقریب میں شادی کے بندھنوں میں بندھ گئے۔
میری بیوی سندھیا جس کو دیکھ کر تم لوگ عش عش کرتے ہو اور اس کو ماڈل جیسی کہتے ہو، وہی لڑکی ہے۔ اس کو بہت جتن کے بعد میں نے حاصل کیا ہے۔
دوسری سہاگ رات
خیر شادی کی سادہ تقریب کے بعد ہی ہم ساحلی شہر گوا ہنی مون منانے روانہ ہوگئے۔ وہ میرے ساتھ ابھی بھی کچھ کچھی کچھی سی لگ رہی تھی۔ اس کا سرد رویہ میرے لئے تکلیف دہ تھا۔
میں نے جہاز میں اس کو کہا کہ تم ذہنی معْذور ارجن کو تو بہت ہی پیار کررہی تھی، کہیں تمہارا پیار حاصل کرنے کےلئے مجھے بھی پاگل تو نہیں ہونا پڑے گا۔ پہلی بار اس کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اس کے چہرے کی بناوٹ ایسی ہے کہ مسلراہٹ سے اس پر ڈمپل پڑتے ہیں، جو اس کو اور بھلا بنادیتے ہیں۔
وہ کہنے لگی ، ’’مجھے ابھی سب کچھ خواب سا لگتا ہے۔ مجھے اپنی قسمت پر زیادہ بھروسہ نہں ہے۔‘ کہیں یہ خواب ٹوٹ نہ جائے‘ میں نے اس کا گورا ہاتھ ہاتھوں میں لیکر اس پر بوسہ ثبت کیا۔ گوا تک فلائٹ میں ہی وہ کھل چکی تھی۔
میں نے سمندر کے کنارے ہی ایک کاٹیج بک کیا ہوا تھا۔ پہلے ارادہ تھا کہ تھکن کی وجہ سے آج آرام کیا جائے۔ صبح سے ناری نکیتن سے آریہ سماج مندر، انتظامات، اور پھر فلیٹ جاکر پیکنگ کرنا اور پھر ایر پورٹ روانہ ہونا، پھر کانپور سے پہلے ممبئی اور پھر گوا کی فلائٹ غرض خوب خواری ہوئی تھی۔
مگر جب ڈنر کے بعد ہم بیڈ پر لیٹ گئے، تو اس کی بھینی بھینی خوشبو سے میرا لنڈ تھکن کے باوجود جاگ گیا۔ ناری نکیتن کی ساتھیوں نے اسکو دلہن کی طرح تیار کیا ہوا تھا۔
میں نے اس کی ساڑھی کو اوپر کرکے اس کے مموں کو سہلانا شروع کیا۔ میں نے جب ان کو پہلی بار کیم کارڈر سے دیکھا تھا، تو اس کے نپلز اندر کی طرف تھے۔ مگر اب وہ باہر نکلے ہوئے تھے۔ ضرور کسی کی ان تک اب رسائی ہوئی ہے۔ جتنا سیکس اس نے ارجن کےکمرے میں کیا تھا، وہاں تو کسی کو اس کے مموں کو چوسنے کی فرصت نہیں تھی۔
جب میں نے اس کو بتایا تو پہلے تو اس نے پہلے میرے گالوں پر چپت ماری۔ وہ میرے کیم کارڈر والی حرکت کو ابھی بھی معاف کرنے کےلئے تیار نہیں تھی۔
اس نے کہا کہ جیل میں جب میری انٹری ہوئی، تو ایک دبنگ خاتون قیدی کے حوالے کیا گیا، جو مجھے سیل میں لے گئی۔ معلوم ہوا کہ ان دبنگ مجرم قیدی خواتین، جو عمر قید یا لمبی سزائیں بھگت رہی ہیں، کا باضابط اپنا حرم ہوتا ہے۔ نئئ آنے والی لڑکیوں کو وہ آپس میں بانٹتے ہیں اور انکو لزبن سیکس کےلئے مجبور کرتے ہیں۔
کبھی وہ ڈامیننٹ پارٹنر بنتی ہے، تو کبھی لڑکی کو ڈامیننٹ پارٹر بننے پر مجبور کرتی ہیں۔
’’جس دبنگ خاتون کے حوالے مجھے کیا گیا، اس کی سیل میں تین اور زیر سماعت لڑکیاں تھیں۔ جو سات ماہ، میں نے وہاں گذارے، اس دوران انہوں نے میرے مموں کو خوب چوسا اور چوت کی بھی، زبان اور انگلیوں سے خوب خبر لی ہے۔ اب میں وہ دلہن نہیں ہو، جس پر تمہارا دل آگیا تھا۔‘‘
میں نے اس کے ماتھے پر کس کیا۔ اس کے چہرے پر نمودار ڈمپل پر زبان کی نوک لگائی۔ پھر اس کے چہرے پر زبان پھیر کر اسکے ہونٹوں پر زبان پھیر دی۔ ان پر اپنے ہونٹ ثبت کرکے ان کو چوسا۔ جیسے ان سے شہد ٹپک رہا تھا۔
زبان سے اسکے ہونٹوں کو الگ کرکے اس کو اندر داخل کرکے اس کی زبان ڈھونڈنے لگا۔ میری زبان اس کی زبان سے اٹھکلیان کرنے لگی۔ وہ بھی اب جوش میں آچکی تھی۔ جیل میں قیدی خواتین نے اس کو سیکس کے بارے میں بہت کچھ بتایا تھا۔ اب وہ چھوئی موئئ سی دلہن نہیں تھی، جس کو میں نے پہلی بار کم کارڈر کے ذریعے دیکھا تھا۔
میں نے اس کی ساڑی اور بلاوز کو اتاردیا۔ برا اس نے پہلے ہی اتار کر رکھ دی تھی۔ میں نے اس کے مموں کو ہاتھوں میں لیا۔ لگتا تھا جیل میں قیدی عورتوں نے اس کے ساتھ خوب کھیلا تھا۔ وہ اب تھوڑا بڑے بھی لگ رہے تھے۔
برف جیسے سفید ممے اور، ان کے اوپر گلابی نپلز میرا منہ چڑا رہے تھے۔ میں نے اس پر زبان پھیر کر اس کو چوسنا شروع کیا۔ چوستے چوستے نیچے پیٹ کے بٹن کے اندر زبان اتاری اور پھر دانتوں سے اس کی پینٹی کو اتار کر دور پھینک دیا۔
اس کے چوت کے لب اب کھلے ہوئے تھے۔ اس کا تیا پاچہ ارجن کے بھائی نے کر کے رکھا ہوا تھا۔ جب وہ سین ہو رہا تھا، تو اس وقت میں دعا کر رہا تھا کہ اس کا کلی ٹورس پر جو گوشت ہے اس کا مزا لینے کا کبھی موقعہ ملے ۔ لگتا تھا کہ بھگوان اس وقت میری ہی طرف دھیان دے کر میری استدعا سن رہا تھا۔
میں نے زبان کی نوک اس کی کلی ٹورس پر ابھرے ٹشو پر لگائی، وہ جوش اور مزے سے تلملا گئی۔ اس کی باڈی کو ایک جھٹکا سا لگا۔ اس کے کلی ٹورس کی شکل کچھ نپلز جیسی تھی۔ میں نے اس کو منہ میں لیکر چوسا۔ اس دوران چوت کے سوراخ سے پانی بہنا شروع ہو گیا تھا۔ میں نے اس میں انگلی داخل کی، تو اس نے کہا کہ اصل چیز داخل کردو۔ انگلیاں اس میں بہت جا چکی ہیں۔جب اصلی اوزار ہو، تو باقی فالتو اوزار کیوں استعمال کرنے ہیں۔
میں نے اپنے کپڑے کب کے اتار دئے تھے، میرا چھ انچ کا لنڈ کمانڈوز کی طرح کھڑا اپریشن کرنے کےلئے تیار تھا۔ اس نے اب میری طرف منہ کرکے میرا لنڈ پہلے ہاتھ میں لیا اور پھر میرے ٹٹوں کو سہلایا۔ اس نے زبان کی نوک میرے ٹٹوں پر لگائی اور پھر اس کو آہستہ آہستہ اوپر لاکرلنڈ کے نیچے سے سرکاتے ہوئے اسکے سر کے نیچے زبان پھیرتی رہی اور پھر ہاتھ میں پکڑ کر اس کواپنے شہد جیسے ہونٹوں کے بیچ لیجاکر منہ میں لے لیا۔ کیا مزا تھا۔ بیان ہی نہں کر پا رہا ہوں۔
اس نے بعد میں بتایا کہ جیل میں قیدی خواتین نے اورل کرنے کی یہ ٹکنیک اس کو سکھائی تھی۔
اب آدھا لنڈ اس کے منہ میں تھا اور وہ اس کے نیچے کے سائڈ پر اپنی زبان چلا رہی تھی۔ جس سے میرا لنڈ کے ننھے سوراخ سے رس باہر آرہا تھا۔ وہ اس کو زبان کی نوک سے ٹیسٹ کرکےپھر اس کو میرے منہ میں گھسا کر مجھے ٹیسٹ کرنے کےلئے دیتی تھی۔
فور پلے اب بہت ہو چکا تھا۔ اس کی برف جیسی سفید ٹانگوں ، جو اب تھوڑی بہت ریڈ ہو چکی تھی، کو میں نے الگ کیا اور اپنا لنڈ اس کے کلی ٹورس سے ٹکرا کر اوپر نیچے کرنے لگا۔ سوراخ سے اب پانی سیلاب کی طرح بہہ رہا تھا۔ میں اوپر نیچے کر ہی رہا تھا کہ اس نے لنڈ کو ہاتھ میں پکڑ کر اس کو سوراخ کے دہانے پر فٹ کرکے نیچے سے خود ہی زور دار جھٹکا لگادیا۔
چھ انچ کا لنڈ اس کے تر سوراخ میں بغیر کسی مزاحمت کے اندر چلا گیا۔
میں نے تھوڑی دیر سانس لینے کی کوشش کی، مگر وہ نیچے سے ہی جھٹکے مار رہی تھی۔ میں اب اس کے اوپر سوار ہوگیا، اور نیچے سے ہلکے جھٹکے مارنا شروع کئے۔ ہر جھٹکے پر اس کا جسم واپس جھٹکے لگاتا تھا۔ میں نے اس کے ممے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے تھے۔ اس کے نپلز میرے منہ میں تھے۔ زبان کبھی اس کے منہ کے اندر تو کبھی اس کےنپلز کا مزا چکھ رہی تھی۔
میں نے جھٹکے تیز تر کر دئے تھے۔ وہ اوو ااا اااا ا ی ای ای ا ہی ہی ہی کی آوازیں نکال رہی تھی۔ اس دوران اس کی باڈی اکڑنے لگی اور اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے مجھے بھینچ لیا۔ اہا اہا اہا ایا کرکے اس کی چوت تنگ ہونے لگی۔ میرا لنڈ محسوس کررہا تھا کہ اس کی چوت کے مسلز بند اور کھل رہے ہیں۔ لنڈ کے اوپر دباو بنا رہے ہیں۔ وہ چھوٹ رہی تھی۔ اس کے ساتھ میرے ٹٹے بھی اکڑ رہے تھے۔ میں نے کئی بار منی کو اوپر آنے سے روک دیا تھا۔ مگر اب حالات کنٹرول سے باہر تھے۔ میرے لنڈ نے منی کی جھڑی اس کے چوت کی تہوں میں بہا دی۔
چند لمحوں کے بعد جب ہمیں ہوش آیا، تو میں اس کے اوپر بھی لیٹا رہا۔ اس کو بتایا کہ یہ تمہاری دوسری سہاگ رات ہے۔ کیسی رہی۔۔وہ خاموش رہی۔ وہ اس پر بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔
سچ ہے کہ عورت کے ساتھ سیکس اگر زبردستی کیا جائے، توانتہائی بدترین تشدد ہے، اور اگر مرضی سے کیا جائے، تو اس سے لطیف شئے کوئی اور نہیں ہے۔
اس نے کہا کہ جب پاگل ارجن کے ساتھ شادی کی بات چل رہی تھی، تو اس نے بالی ووڈ کی ایک فلم دیکھی تھی، جس میں سنجو کمار اسی طرح پاگل ہوتا ہے اور اس کے والدین ممتاز کو لاکر اس کی خدمت کرواتے ہیں۔ ممتاز اس کی خدمت کرکے اس کو پیار کا احساس کرواکے ٹھیک کرتی ہے۔
’’میرا بھی خیال تھا کہ اگر میں ارجن کے ساتھ وہی رویہ اپناوں، تو وہ بھی شاید ٹھیک ہوجائیگا۔ چند دنوں میں ہی وہ مجھ سے ہل گیا تھا۔ جب اس نے اپنے بھائی کو میرے اوپر سے اٹھا کر دھکا دیا، مجھے اس کی وہ ادا بہت بائی۔ مگر اس کے بعد جوکچھ ہوا، وہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ ‘‘
اسی طرح باتیں کرتے ہوئے ہم سو گئے۔ اگلی صبح جب میں جاگ گیا، تو میرا نیم استادہ لنڈ کا سر اس کے سوراخ کے دہانے پرہی تھا۔ میرا سر اس کے مموں پر ٹکا تھا۔ اس کو دیکھ کر اور رات کے واقعات یاد کرکے میرا لنڈ اکڑ رہا تھا۔
چونکہ اس کاسر پوائینٹ پر ہی تھا، اس لئے چوت کی دیواروں کو پرے دھکیلتا ہوا وہ اندر داخل ہوگیا، جس سے وہ بھی جاگ گئی۔ اس کے جاگنے سے چوت کی دیواریں تر ہونا شروع ہوگئی۔ میں نے لنڈ کو حرکت دینا شروع کی اور کئی جھٹکوں کے بعد ہم دونوں ایک بار پھر ساتھ ہی فارغ ہوگئے۔
اگلے چار روز تک کون گوا گھومتا۔ کس کو باہر تفریح کرنے کا ہوش تھا۔۔
رات کو کئی بار، پھر ناشتہ سے قبل اور پھر ناشتہ کے بعد، لنچ سے قبل اور لنچ کے بعد سیکس کے دور چلتے تھے۔ ہاں دوپہر کو ہم ساحل کی سیر کرنے نکلتے تھے۔ وہاں نوجوان جوڑوں کو بوس و کنار کرتے ہوئے پھر گرم ہوکر واپس کمرے میں آکر سیکس کرکے ڈنر کرتے تھے۔
رات تو پھر اپنی ہی ہوتی تھی۔ اس دوران اس کی سفید باڈی، خون کی روانی اور میرے جسم کی رگڑ سے لال ہو گئی تھی۔ اس کا کلر بکلل شہد جیسا ہوگیا تھا ، جس کو دودھ میں گھول دیا گیا ہو۔
چار روز بعد ہم واپس کانپور پہنچے۔ تو آفس میں معلوم ہوا کہ میری پروموشن ہو گئی ہے اور تبادلہ بنگلور کیا گیا ہے۔ تب سے میں یہیں مقیم ہوں اور اب ایک بڑی ایڈ ایجنسی میں اچھی پوسٹ پر ہوں۔ میری بیوی کی شکل و صورت کے علاوہ اس کی قسمت سے میری بھی جلد ہی ترقیاں ہوتی گئیں۔
گھر والے تو پہلے خاصے ناراض تھے ، قطع تعلق کرکے رکھا ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ معاملات ٹھیک ہوتے گئے۔ میں نے بھابھی کو ایک روز فون پر سارے واقعات یعنی کیم کارڈر سے لیکر عدالت تک کا سفر وغیرہ سب اٹکتے ہوئے گوش گذار کردئے۔ اس کی سندھیا سے بات بھی کروائی۔
اس نے میری والدہ اور بھائی کو بتاکر منوالیا۔ میری والدہ اکثر اب میرے ساتھ ہی رہنے آتی ہے۔ سندھیا بھی ان کا خاص خیال رکھتی ہے۔ ہم نے بنگلور میں ہی مکان لیا ہوا ہے۔ کانپور میں بھی میں نے بھیا اور بھابھی کی مدد کرکے پوش علاقے میں مکان خریدا۔ سینی فیملی کا بوڑھا، معلوم ہوا کہ چھ سات سال بعد جیل سے چھوٹ گیا تھا، مگر طبعی موت مر گیا۔ بہو اور ساس بھی پانچ، چھ سال بعد چھوٹ گئی تھیں اور مکان بیچ کر گاوں چلی گئی تھیں۔۔ بیٹے کو عمر قید ہو گئی تھی۔ وہ شاید ابھی بھی جیل میں ہی ہے۔
؍؍؍؍؍؍؍؍