Offline
- Thread Author
- #1
دوستو! یہ میری اپنی کاوش ہے اگر آپ سب لوگوں کو لگے کہ مجھے لکھنا چاہیے تو میں آگے لکھوں گا یہ کہانی کچھ مرچ مصالحہ لگا کے پیش کرنے کی کوشش کروں گا لیکن زیادہ تر واقعات میری زاتی زندگی سے ہیں بس کچھ ردوبدل کر کے پیش کرنے کی کوشش ہے
میرا تعلق ساہیوال کے ایک گاؤں سے ہے میرا والد گورنمنٹ ملازم تھے۔ہم 3بھائی اور ایک بہن ہیں۔یہ کہانی 90کی دہائی سے شروع ہوتی ہے اس وقت تک ہمارے گاؤں میں بجلی بھی نہیں آئی تھی میں گھر میں سب چھوٹا تھا اور ایک شرارتی قسم کا بچہ تھا۔خیر بات کہیں اور نکل جائے گی۔کہانی کی طرف آتے ہیں۔ہمارا گھر گاوں کے معزز گھرانوں میں شامل ہوتا تھا میرے دادا کا کافی دبدبہ تھا
جب میری عمر 10سال تھی تو مجھے کچھ سیکس واقعات دیکھنے کو ملے جن سے میرے اندر سیکس کی خواہش پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ معزرت میں اپنا تعارف کروانا بھول گیا تو دوستو میرا نام بلو ہے میرے بڑھے بھائی کا نام بوٹا اور اس سے چھوٹے کانام ھاشم اور بہن کا نام رجو ہے نام بدلے گئے ہیں۔
خیر جب میری عمر 8سال تھی اور میں تیسری کلاس میں پڑھتا تھا تو ہم سب کزن اور آس پڑوس کے لڑکے اور لڑکیاں خوب کھیلا کرتے تھے۔ہمارا گھر گاوں ے ایک کونے میں تھا گھر کے ساتھ 2 ایکڑ کماد ہوا کرتا تھا جو لوگ کماد کی فصل کے بارے میں جانتے ہیں ان کو پتہ ہوگا یہ پورے سال می فصل ہوتی ہے۔ تو ہم لکن میٹی کھیلتے ہوے اکثر کماد میں چھپ جایا کرتے تھے۔ایسے ہی ایک دن میں اور ہمارے گوانڈیوں کی کڑی ناہید جو کہ ہماری رستہ دار بھی تھی ہم میں کافی دوستی تھی۔ہم اکثر ایک ساتھ چھپا کرتے تھے۔ ہم اس دن بھی چھپنے کے لیے کماد میں داخل ہوئے اور آگے چلتے گئے ابھی ہم تھڑا ہی آگے گئے تھے کہ ہمیں عجیب سی آوازیں آنے لگیں۔ ہم ڈرتے ڈرتے آگے بڑھے لیکن ناہید تو ڈر کی وجہ سے کانپ رہی تھی اس نے سرگوشی میں کہا کہ بلو مینوں بہت ڈر لگدا پیا ای ایتھے باہرلا(سور) ہونا اے آپاں چلیے میں نے اس کو چپ رہنے کا کہا اور ہاتھ کھینچ کے آگے لے کر جانے لگا۔وہ ڈرتے آگے بڑھی۔ کچھ آوازیں واضح آنے لگیں تو ہم نے غور کیا تو ایسا لگا جیسے کوئی رو رہا ہے۔ہم ٹھٹک کے رک گئے کچھ دیر آواز کی سمت کا تعین کرنے کے بعد پھر دبے پاؤں آگے بڑھنے لگے۔ تو آوازیں کچھ واضح ہونے لگیں جیسے کوئی سسک رہا ہے آہ آہ آہ آہ اوئی ہولی کر وغیرہ ہم لھر ہمت کی اور تھڑا سا آگے کھسک ک دیکھا تو ہماری کمیوں کی ایک جوان اور سیکسی جسم کی مالک لڑکی عاصمہ فل ننگی لیٹی ہوئی ہے اور اس کی 38 سائز کے غبارے جو دودھ سے زیادہ سفید ایسے جیسے ان میں کسی ہوا بھر کے بانھ دیا ہو اور اوپر اڑنے کی کوشش میں دائیں بائیں ہل رہے تھے اور چٹے سفید مموں کے اوپر ان کا گارڈ بڑی شان بےنیازی سے گلابی وردی پہنے بیٹھا تھا۔اور ایک مرد جس کی ہماری طرف کمر تھی اس نے عاصمہ کی ٹانگیں اٹھائی ہوئی تھیں اور ان کے بیچ میں زور زور سے گھسے مار رھا تھا ننگے ممے دیکھ کے اور گھسوں می سپیڈ کی وجہ سے ہمیں سمجھ نہیں آ رھی تھی کہ یہ سب کیا چل رہا ہے۔میں ناہید کے پیچھے کھڑا تھا اور جھک کے دیکھنے کی کوشش میں میرا اگلا حصہ ناہید کی بنڈ سے لگا ہوا تھا کم اتنے محو تھے یہ سب کاروائی دیکھنے میں کہ یہ بھول گئے کہ ہمیں اگر انہوں دیکھ لیا تو کیا ھوگا۔ اچانک عاصمہ کی آواز میں تیز ہو گیئیں وہ عجیب و غریب آوازیں نکالنے لگ گئی ااااااآاااآہہہہااااکککککاااا ہو زور دی ہورررررررر زووووووورررعع دی پاڑ دے میرا اندر ہاں میییییںںںں گئی اور یکدم اچھلی تو اس کے 38 سائز کے مسمیوں نے بھی قلابازیاں کھانی شروع کر دیں کچھ دیر جھٹکے کھانے کے بعد وہ رک گئی تو اس آدمی نے اس کو کو گھمایا جس سے اس کا رخ بدل گیا اب عاصمہ کتیا کی طرع گوڈے مودھے مارکر جھک گئی پیچھے سے اس آدمی نے جیسے ہی لن ھاتھ میں لکڑ کے ڈالنے کے لیے آگے کیا تو ہم دونوں کی نظر میں لن آیا اتنا بڑھا ناہید کے منہ سے ہائے نکل گئی اگر میں اس کے منہ ہاتھ رکھ کے اس کا منہ بند نہ کرتا تو شاید اس کی آواز ان تک پہنچ جاتی میرا منہ بھی حیرت سے کھل گیا۔ لیکن جب اس نے ایک جھٹکےسے اندر ڈالا تو افففففففففف نہ پوچھو کیا مزہ آیا یہ سب دیکھ میری چھوٹی سی للی بھی کھڑی ہو گئ اور ناہید کی گانڈ کی دراڈ میں گھس گئی۔ادھر وہ گھسے مارنا سٹارٹ ہوا ادھر مجگے پتہ نہیں کیا۔ ھوا جیسے اس نے عاصمہ کی گانڈ کو پکڑ رکھا تھا ویسے میں نے بھی ناہید کی گانڈ کو ساہیڈوں سے پکڑ کے گھسے مارنے شروع کر دیے واہا ں عاصمہ کی آہیں آنا شروع ہو گئئں جب ایک لمبا موٹا کالا ناگ پیچھے سے پھدی میں گھستا تھا تو عاصمی کی اوئی مااااااممممااںںں کی آواز آتی لیکن وہ ظالم مرد لگا تا ر گھسے پے گھسا مار رہا تھا ادھر میں بھی لگا ہوا تھا انجانے میں ناہید نے بھی گانڈ میرے ساتھ مزید چپکا لی تھی۔یکدم اس آدمی نے عاصمہ کو اس کی گانڈ سے پکڑ کے گھمایا اور جیسے ہی وہ خود نیچے لیٹنے کے لی عاصمہ کی جگہ آیا تو ہم دونوں کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا کینک وہ کوئی اور نہیں بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ میرا بڑھا بھائی تھا جو عاصمہ کی پھدی کا بھرتا بنا رہا تھا میرے تو ٹٹے شاٹ ہو گئے میں جلدی سے ناہید کا بازو کھینچتے ہوے اس کو واپس لے آیا اور باہر نکل آئے جہاں ہمیں ڈھونڈنے والے بچے تھک ہار کر بیٹھے جیسے ہی ہم باہر نکلے تو سب حیران ہوئے اور پوچھنے لگے کہ ہم کیا کرتے رہے میں جلدی سے بولا تم لوگوں ڈہونڈے نہیں گئے تو اب یہ کیسی باتیں کرتے ہو ایک لڑکی تھی چھنو تھی تو وہ بھی ہماری رشتہ دار لیکن اس عمر میں بھی بہت بڑھی توپ تھی وہ مجھے عجیب نظروں سے دیکھتی رہی میں پریشان ہو اور اس سے پوچھا انج اکھا ں پاڑ پاڑ کے کی ویکھی جانی ایں میرے منہ تے کی لگا اے وہ بولی میں سب سمجھنی آں تسی کی کر دے رے او میری تو شلوار گیلی ہونے والی ہو گئی اے سالی نے کدھرے بھا بوٹے نوں تا ں نئیں ویکھ آئی بڑی کتی چیز اے میں وی کچا نہیں سی بولیا نی مطبل تیرا کی کر دے رہے آں اسی اپنا منہ سمبھا کے بول وہ کم نہیں سی تو اپنا بوتھا ویکھیا ای چوہا جیا آ نی ناہید آپاں چلیے آپاں نہیں اینا نال کھیڈنا اے تاں ہیگے ای بتمیز نیں گل کرن دی تمیز نہیں ایناں لیکن ناہید بولی نہیں میں نے ابھی کھیلنا ہے تو جا آگے سے چھنو نے جواب دیا مینوں پتہ تو کی کھیلنا اے میں نے جواب دیا چل بھج جا ایتھوں باندریے جئیے بھج جا ناہید بھی شیر یو گئی وہ بھی بولنے لگ گئی جا جا کر اپنا کم کر
اسی طرح لڑتے جھگڑتے شام ہو گئی اور ہم اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ۔۔۔
لیکن شام کو جب بھا بوٹا گھر آیا تو میں اس کی طرف غور سے دیکھنے لگا۔
بھا نے مجھے دیکھ کر کہا کی ویکھی جانا ایں مینے شرمندہ ہو کر کہا کچھ نہیں اس کے بعد کھانا کھایا اور پھر ہم کھیلنے کے لیے ویڑ ے میں اکثھے ہو گئے ہمارا ویڑا بھت بڑا تھا اصل میرے دادا لوگ تین بھائی تھے تینو۔ کر گھروں کے درمیان کوئی دیوار نہیں تھی مطلب کہ ایک ہی صحن تھا کوئی ایک ایکڑ میں تینوں بھائیوں کے گھر تھے۔ناہید بھی آ گئی ہم پھر کھیلنے لگ گئے جب چھپنے کی باری آئی تو میں نے نائید کو اشارہ کیا وہ میرے پاس آ کر بول ہوں کی گل اے میں نے کہا آپاں دونویں اکٹھے چھپاں گے وہ بولی پراں مر مینوں سب پتا اے تو کیوں میرے نال چھپن دی گھل کرنا پیا ایں میں نے کی مظلب تو وی آودے بھرا طراں کریں گا میرے نال جیویں او عاصمی باجی نوں ۔۔۔۔ یہ کہیتے ہوئے وس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ اور جانے لگی میں اس کھیچا اور ایک طرف چل پڑا کیوں سب چھپ گئے تھے صرف ہم دو ہی رہ گئے تھے جلدی جلدی ہم گھر می بیک سائیڈ ہر گئے جہاں بھینسوں کا باڑہ تھا اور اس سے پہلے چھوٹی دیوار جس ساتھ گندم رکھنے کے لیے بڑولے یعنی دیسی گودام بنے ہوے تھے ہم وہاں پہنچے تو ناہید نے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور بولی دور جا کر چھپ میرے نیڑےنا آئیں میں شرمندہ سا ہو گیا اصل میں میرا ارادہ اس کی نرم ملائم گانڈ کے ساتھ کھیلنے کا تھا دن میں جب میں نے اس کی گانڈ میں اپنی للی رگڑی تھی تو بہت مزہ آیا تھا اب۔ بھی یہ ارادہ لیکن اس سالی کو پتہ نہیں کیا ہوا کہ دور دور ہو گئی میں پھر بھی اس کے قریب کوا اسی وقت جس بچے سر باری تھی اسکی آواز قریب سے آئی تو ناہید جلدی سے میرے پاس ہی آ گئ اور میرے آگے کھڑی ہو کر جھک کر سامنے دیکھنے کی کوشش کر نے لگی چونکہ گاوں میں بجلی نہیں ہوتی تھی چاند کی روسنی ہوتی تھی یا دیوا یا لالٹین سے روشنی کرتے تھےچاند کی روشنی میں نے اس کی بنڈ کے ابھار کو دیکھا تو میری للی ایک بار پھر کھڑی ہو گئی اور میں نے اس کی گانڈ کی پھاڑیوں کو پکڑ لیا افففففففففف کیا مزہ آیا اتنی نرم بنڈ کہ میں میرا دل کیا اس بنڈ کو چوم لوں لیکن میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ناہید کی گانڈ کو چوم لوں اچانک اس نے گھوم کے میری طرف دیکھا اور بولی پچھاں ہو کہ کھڑ میں شرمندہ ہو گیا ۔میں بھی کہاں بماپنے ارادے سے باز آنے والا تھا چاہے چھوٹی عمر تھی پر دل تو تھا نہ ایک سین نے میرے اندر ہلچل مچا رکھی تھی میرا بھی بھا کی طرح زور زور سے گھسے مارنے کا دل کر رہا تھا اور تو کچھ ہو نہیں سکتا تھا کیونکہ ناہید کو شک ہو گیا تھا یا کوئی اور بات تھی جو اس نے مجھے لتاڑ دیا اچانک میرے اندر جے شیطان نے مجھے اکسایا بلو پت کجھ کر یہ بھت اچھ موقع کے میں آہستہ آواز میں ناہید کو بلایا جو جھک کر آگگ دیکھ تہی تھی کہ اپنی باری دینا والا میرا کزن بالو ادھر تو نہیں آرھا دوستو بالو میرے چاچے کا بیٹا ہے عمر میں مجھ سے کوئی 2 سال بڑھا لیکن جسامت میں 4گنا تھا ۔
ناہید نے میری بات کا جواب نہ دیا ایسا شو کرایا جیسے اس سنا ہی نہ ہو میں ایک بار پھر آہستہ سے پکارا نہیدی گل سن اس نے کھر جواب نہ دیا تو میں نے آگے بڑھ کر اس کی پتلی کمر کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا کیا بتاؤں کیسا احساس تھا ایسا لگا جیسے میں نے کسی روئی کی کو چھو لیا ہو اتنا نرم وملائم کمر کہ لگا جیسے پانی میں ہاتھ ڈال لیا نیم گرم پانی جس میں شیمپو کی ملاوٹ ہو میرے ہاتھ پھسل رہے تھے دل کیا کہ یہ وقت یہاں ہی رک جائے یہ بس کچھ لمحات کے کیے تھا اس چڑیل نے ڑصے سے میری طرف کر کہا کی اے تینوں بندہ بن کے کھڑ جا میں نے بھی فوری جواب دیا میں می کیتا تینوں کنیاں آوازاں دتیا تو سنیا ای نہیں تو اس نے بول کی گل اے میں نے اپنا منہ اس کے کان کے پاس کیا اور سرگوشی میں بولا آپاں وہ اوہ کھیڈ کھڈیے تو اس نے جواب دیا کونسی میں نے جلدی سے کہا وہی جو بھا اور عاصمہ کھیل رہے تھے اس نے غصے سے مجھے دیکھا اور مجھے دھکا دے کر چلی گئی جیسے ہی وہ باہر گئی۔ بالونے اس کو کاتھ لگایا اور ناکید کی باری آ گئی سب باہر نکل آئے اسی وقت میری دشمن چھنو بھی مٹکتی ہوئی آ پہنچی اس ںے بھی کھیل میں حصہ لینا ہے بولی اب مان گئے ناہید کو ہم نے کہا کہ جا و اس دروازت کو ہاتھ لگا کر آو دوستو بتاتا چلوں کہ کمارے دادا لوگ 3بھائی تھے گھر الگ الگ تھے درمیان میں کوئی دیوار نہیں تھی لیکن دروازے الگ الگ تھے یعنی کہ اگر اگر ایک طرف سے میں داخل ہوں تو دوسری طرف ایک ایکڑ پر تیسرا دروازہ تھا ہمارہ گھر پہلے اس کے بعد میرے دادا کے دوسرے دونں بھائیوں کا گھر تھا کم نے ناہید تیسرے دروازے کو ہاتھ لگانے کو کہا ہم سب چھپنے کے لیے بھاگ کھڑے ہوے سب نے اپنی مرضی کی جگہ پسند کی میں اپنے گھر کی بیک سائیڈ پر گیا جدھر بھینسوں کا بڑا سا کمرہ تھا جو کہ گرمیوں میں رات جو خالی ہوتا تھا دن میں بھینسیں باندھی جاتی تھیں اس میں گھس گیا کہوں کہ وہاں اندھیرا تھا کوئی نہیں آتا تھا اس طرف ابھی مجھے چھپے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ مجھے کسی کی سانسوں می آواز اپنے بھت قریب سے سنائی دی میری تو بنڈ بند ہو گئی ڈر کہ مارے میں بالکل سہم گیا اندھیرے کی وجہ دکھائی تو کچھ دے نیں رھا تھا کچھ دیر بعد جب آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے مے قابل ہوئیں تو میں نے آواز کی سمت ڈرتے ڈرتے دیکھا تو مجھے چھنو دکھائی دی وہ بھی میری طرف دیکھ رہی تھی پھر آہستہ سے چلتی ہوئی میری قریب آئی اور بولی دن نوں اوہدے نال کماد اچ کی کرن گیا سی میں نے کہا کچھ نیں سب کھیل رہے تھے ہم سب بھی چھپ گئے تھے اس نے عجیب حرکت کی آگے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی ٹانگوں کے بیچ لگایا مجھے عجیب سا لگا پر مزہ بھی بیت آیا جلدی سے ہاتھ ہٹایا اور اس سے کہا آ کی کردی پئی ایں وہ بولی میں تینوں پیا ر کر دی آں آ جا آپاں پیار کرییے اس عمر میں پیار کا کجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ پیار کیا ہوتا ہے میں نے پوچھا کیسے کرتے ہیں پیار وہ بولی جا اوے کھوتیا تینو ں آ وی نیں پتا میں نے اپنی منڈی ہلائی نہیں اس نے آگے بڑھ کر مری گال چوم لی اور بولی ایسے میں نے بھی ہمت کر کے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس گال پے چمی لے لی اور کہا بس وہ بولی بس کی انج نہیں اس نے مجھے اپنے ساتھ لگایا اور کس کے جپھی ڈال لی میں اس معملے میں جاھل تھا چپ کر کے کھڑا رہا تو اس نے میرامے ہاتھ پکڑ کر اپنی کمر پر لگا لیے جیسے ہی میرے ہاتھ اس کی کمر پر گیی مجھے ناکیڈ کی کمر یا د آ گئی جب کمر یاد آئی تو اس کی پولی پولی بنڈ بھی یاد آئی اس کی بنڈ کی دراڈ بھی جس میں میری للی پھنس گئی تھی اور میں نے گھسے بھی لگائے تھے جب بھا عصمہ کو کماد میں انےواہ چود رہا تھا یہ سوچ آتے ہی میری للی میں ہلچل ہوئی اور للی کھڑی ہو گئی اور چھنو کی ٹانگوں میں گھس گئی لیکن مجھے کوئی تجربہ نہیں تھا میں ایک بار پھر سے اس کے گال چومے اس نے بھی میں نے اپنے ہاتھ آہستہ سے نیچے سرکاے اور اس بنڈ کے ابھار جہاں سے شروع ہوتے تھے جس کو پنجابی میں چھوٹی ڈھوئی کہتے ہیں وہا تک لے آیا اور ایک بار پھر اس کی چمی لی اس نے چھی چمیاں لینی شروع کر دی اسی دوران میرے ہاتھ اس کی گانڈ تک پہیچ گئے جیسے ہی میرے ہاتھ اس کی گانڈ تک پہنچے اس کی گانڈ میں ارتعاش پیدا ہوا کیونکہ دونوں کاتھ نیچے لا رہا تھا جن کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسی ہوئی تھیں اس وجہ سے اس کی گانڈ کی دراڈ میں میرے انگوٹھے لگے کیا مست گانڈ تھی یاروں جیسے کھیر ملائی ہوتی ہے اف گرم گرم کھر لر جیسے نرم نرم دودھ کی ملائی کی جم جاتی ہے جس کو کھانے میں بہت مزہ آتا ہے میں بھی اسی مزے میں کھو گیا اور مجھے پتہ ہی نہ چلا کب میں نے اس کو گھمایا اور پیچھے سے اس کو جپھی ڈال لی وہ بھی چپ کر کے کھڑی رہی میں کچھ دیر رکا رہا تو اس نے گانڈ سے میری للی کو گھسا لگایا تو میں بھی شروع ہو لھر گھسے پے گھسا دہی گھسا مزے میں کھو گیا اور جب میں نے اپنے ہاتھ آگے لے جا کر اس کے سینے لے لگائے تو میرے ہاتھ میں دو چھوٹی چھوٹی گیندیں آئیں میں جللدی سے بولا آ گینداں کس کی ہیں وہ بولی بدھوں آ گینداں نیں نے اہیناں ممے اکھدے نے مجھے کچھ سمجھ نہ پھر بھی کہا اچھا اور اپنا کام جاری رکھا گھسے لگاتا وہ بولی جکدی کر میں بولا کری تاں جاناں پر تینوں آ کیویں پتا کہ پیار انج کری دا اے لیکن وہ تو کہیں اور پہینچی ہوئی تھی اس سسکاریا ں نکلنے لگ گئیں مجھ یکدم عاصمہ یاد آ گئی وہ بھی ایسے ہی آہیں بھر رھی تھی چھنو نے اپنے ہاتھ پیچھے کر مے میری گردن میں ڈال کر مجھے زور سے اپنی طرف کھیچا میرا منہ اس کی گردن پر جا لگا لیلن میں رکا نہیں لگا رہا اس شاید مزہ آ رھا تھا مزہ تو مجھے بھی آ رہا تھا لیکن کیونکہ اس کی عمر ہم سے زیادہ تھی کوئی 13 14 سال کی ہو گی ہم تو ابھی بچے تھے اس لیے مجھے کجھ سمجھ نہیں آ رہی تھی بس یہ اندازہ ہوا وہ بھی عاصمہ کو چدتے دیکھ کر کہ یہ تب ہوتا جب زور زور سے گھسے لگائے جائیں میں نے اپنی سپیڈ تیز کر اس کی سسکاریا ں بھی بڑھ گئیں یکددم وہ اکڑ گئی اور اپنی بنڈ زور سے میری للی کے ساتھ لگا لی میرے چوتڑوں پر ہاتھ رکھ کر مجھ اپنی طرف دھکیلا اور کس لیا مجے چونکہ پتہ نہیں تھا کہ یہ سب کیا ہے اس لیے پریشان ہو اوپر سے سالی نے اتنی زور سے میرے چوتڑ لکڑے ہوے تھے اس کے ناخن چب رہے تھے لیکن میری للی اس کی گانڈ کی دراڈ میں تھی جس کا مجھے مزہ آ رہا اسی دوران اس نے مجھے چھوڑا اور گھوم کر مجھے اپنی باہوں میں بھر لیا اور انےواہ میرا منہ چومنے لگ گیئی اور ایک منٹ بعد باہر سب بچوں کا شور ہوا ججی پکڑا گیا جو کہ میری پھپھو کا بیٹا ہے ۔ اس کے بعد کوئی خاص سین نہ ہوا سب کھیل کر اور کچھ اپنی ماوں کی گالیاں سں کر اپنے اپنے گھر چلے گئیے میں بھی اپنی چارپائی پر لیٹ گیا اور سونے لگا لیکن مجھے کہاں نیند آنےوالی ےھی پاسے بدلتا رہا اور آج کے واقعات مے بارے میں سوچتا رہا کافی ٹائم گزر گیا شاید آدھی رات سے اوپر ٹائم ہو گا مجھے پیشاب کی حاجت ہوئی تو میں پیشاب کرنے کی نیت سے اٹھا اور واشروم کی طرف چل پڑا جو کہ تینوں گھرں میں مشترکہ تھا اور ایک کونے میں تھا اس میں نہانے والا جس کو غسل خانہ کہتے تھے الگ اور لیٹرین الگ تھی اس کے قریب ہی نلکہ لگا تھا میں نے کیٹرین جانے کی زہمت نہیں کی نلکے سے تھوڑا آگے ہو کر جہاں نالی بنی تھی جس سے پانی باہر جاتا تھا گھر کے سامنے بہنے والے کھالے میں میں پیشاب ہی کر دھا تھا کہ میرے کانوں آوزیں آئی ہولی کر آہ آہ آہ آہ آہ اوئیییئیجججج اوئی امااااااااااا آہہہہاہاکااکاہاکااکااکک کچھ خیال کر ہولیںکر میں نے آواز کی سمت کا اندازہ لگایا اور بلی کی چال چلتے ہوے بڑھنے لگا نلکے کے پاس میرے درمیانے دادا یعنی کہ دادا کے بھائی نے بیٹھک بنائی ہوئی تھی اس طرف سے آوازیں آ رہی تھیں وہاں عام طور پر رات کے وقت کوئی نہیں ہوتا تھا سب گھر میں سوتے تھے اپنے اپنے ویہڑے میں میں ہولی ہولی چلتا ہوا آگے بڑھا اور چھپ کر بیٹھک کے ساتھ ہی گیراج تھا جہاں ٹرکثر کھڑا ہوتا تھا بیٹھک اور گیراج کے درمیان ایک چھوٹا سا روشندان تھا جس رات کی وقت دیوا یا لالٹین رکھتے تھے اس وقت وہاں کچھ نہیں تھا میں وہاں گیا اور اند کا سین د یکھنے کی کوشش کی جس میں کامیاب بھی ہوا
میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرا بھا بوٹا پھر سے کسی چود رھا تھا اس بار اس ایک ٹانگ اوپر تھی اور بھا اس کی پھدی میں لن کا پمپ ایکشن چلا رہا تھا عجیب ماحول تھا دونوں الف ننگے تھے بھا کی سپیڈ تیز تھی بھا گھسے مرنے کے ساتھ ساتھ آگے کو جھکتا اور مموں و چومتا اس لڑکیچآوازیں کبھ کم کبھی تیز آ رہی تھیں اااووووووہہہہہہہہہہ ہہییییاااااہہہہہہااااا اوئی ماںںںںں آرام ناک نہیں ہندا تیرے توں جیسے کی مینے یہ آواز سنی تو میں حیران رہ گیا کہ یہ تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نجاں لوھاری ہے جو کہ گاؤں کی دوسری نکر ہر رہتی تھی اور اکثر ہم اس کے گھر جاتے تھے کبھی کوئی بنوانے کبھی کوئی میری للی فل سخت کو بکی تھی بھا نے اس کی دونوں ٹانگوں کو اس کے مموں مے ساتھ لگالیا جس سے اس گانڈ مجھے نظر آئی اءک لمح کے لیے یہ گانڈ دیکھ کر میرا ہاتھ للی پر چلا گیا اور میں نے للی مسلنی شروع کر دی ادھر بھا نے اپناگھوڑا نجاں کی کی پھدی میں دوڑانا شروع کر دیا بھا کی آواز بھی آتی چپ کر سالیے کوئی آ گیا تاں اہنے وی تیری مارنی اے پر اس کی آوازوں میں کوئی کمی نہں آ رہی تھی وہ مسلسل سسک رہی تھی آااااآااااااآمممممییییجئئی اہ اہاہاہاہ آہہہآہہہآہہہہہ بھا نے ایک دم اس کو گھمایا اور اور گھڑی بنا لیا اس پہلے کہ وہ سمبھلتی پیچھے سے اپنا لن اس کی پھدی میں گھسا دیا اس کی ایک دم آواز نکلی ہائے میں مر گئ مار دتا ای اوئے ظالماں آاااااہہہہہہککککککککہی کھوانا ایں ایس نوں بھا بولا پھدیاں کھواناںمینے ابھی تک نجاں کی صرف آواز سنی تھی اس کو دیکھا نہیں تھا کوئی تین منٹ بھا اس کو ایسے چدتا رہا پھر بھانے اس کی گردن پر ہاتھ اور پیچھے کھینچا اب سین یہ تھا کہ گانڈ اس کی بھا کے ساتھ لگی اور ممے اس کے اوپر کو اٹھے ہوئے تھی دونں کے منہ میری مخالف سمت تھے بھا نے ایک ہاتھ اس کی گردن میں اور دوسرا ہاتھ اس کے مموں پر رکھ دیا اسی دوراں نجاں کی آواز میں شدت آگئی پھاڑ پھاڑ دے میری سارا اندر دے اندر زور نال یو زور نال کر آہہہہہہہ ںہہہہہہتتتتتت مزہ آ رہیا اے ااااااااآہہہہہااااہۃہہہہہہہہہہہ کر کر کر ککککککررررررررررررر زور نال کر اس کت ساتھ ہی شاید وہ فارغ ہو گئی تھی مجھے فارغ ہونے کا بعد میں پتہ چلا تھا کہ اس کو فارغ ہونا کہتے ہیں کچھ دیر بھا رکا رھا پھر اس کو سیدھا کرنے لگا تو اس نے بھا کو گرایا اور اوپر آ گئی جب وہ اوپر آئی تو میری سانس اوپر کی اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی جب اس کے مموں پر میری نظر پڑی دوستوں میں تو عاصمہ کے ممے دیکھ کر حیران ھو گیا تھا لیکن یہ دیکھنے کے بعد تو میری آنکھیں باہر کو آنے لگیں میرا دل کیا ان سے دودھ پی لوں ابھی
40سائیز کے ممے شان بے نیازی سے سے اس کے سینے میں اپنی سپنی چوکی پر براجمان تھے۔میں تو نجاں کے ممے دیکھنے میں مگن تھا کہ نیچے سے بھا نے ایک زوردار جھٹکا مارا تو اس کی ان فوم جیسی پہاڑیوں میں جیسے طوفان آگیا وہ دائیں بائیں ایسے بھاگنے لگیں جیسے کسی ہرن کو اگر رسی سے باندھ دیا جائے تو وہ اچھلتا ہے میری تو یہ سین دیکھ کر سانس اٹک گئی ادھر بھا کو روک کر نجاں خود آرام آرام سے اوپر نیچے ہونے لگ گئی ساتھ ساتھ اپنے ممے بھی مسلنے لگی تو بھا نے اس کو اپنے اوپر گرا لیا اور اس کے ہونٹوں اپنے ہونٹ رکھ دیے یہ میرے لیے اک نئی چیز تھی میں ان کی چودائی دیکھنے میں نست اپنی للی کو مسل رھاتھا ادھر بھا ۔۔۔
نجاں کی پھدی میں نیچے سے ٹھوکنا شروع کر چکا تھا کمرے میں پچک پچک کی آواز گونج رہی تھی 5 منٹ بعد بھا اٹھا اور نجاں کو اٹھاکر کیا اور دیوار کے ساتھ اس کی کمر لگا دی ساتھ اس کی ایک ٹانگ اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھ لی ماررررررررر ڈالا ای وے آآاااااااآآآاااااااااائئئئئیییییی یکدم نجاں کی آوز آئی میں تو اس کی پھدی کےد رشن کرنے میں ڈوبا تھامجھے تب پتہ چلا جب بھانے ایک ہی جھٹکے پورا 8انچ لمبا 3 انچ موٹا لوڑا اس کی رس بھر رسیلی آب چودائی سے بھری بھولی ہوئی پھدی میں گسا دیا اس کی اتنی اونچی تھی کہ شاید اندر ویڑے تک بھی گئی تھی اس لیے ایک آواز آئی۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا تعلق ساہیوال کے ایک گاؤں سے ہے میرا والد گورنمنٹ ملازم تھے۔ہم 3بھائی اور ایک بہن ہیں۔یہ کہانی 90کی دہائی سے شروع ہوتی ہے اس وقت تک ہمارے گاؤں میں بجلی بھی نہیں آئی تھی میں گھر میں سب چھوٹا تھا اور ایک شرارتی قسم کا بچہ تھا۔خیر بات کہیں اور نکل جائے گی۔کہانی کی طرف آتے ہیں۔ہمارا گھر گاوں کے معزز گھرانوں میں شامل ہوتا تھا میرے دادا کا کافی دبدبہ تھا
جب میری عمر 10سال تھی تو مجھے کچھ سیکس واقعات دیکھنے کو ملے جن سے میرے اندر سیکس کی خواہش پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ معزرت میں اپنا تعارف کروانا بھول گیا تو دوستو میرا نام بلو ہے میرے بڑھے بھائی کا نام بوٹا اور اس سے چھوٹے کانام ھاشم اور بہن کا نام رجو ہے نام بدلے گئے ہیں۔
خیر جب میری عمر 8سال تھی اور میں تیسری کلاس میں پڑھتا تھا تو ہم سب کزن اور آس پڑوس کے لڑکے اور لڑکیاں خوب کھیلا کرتے تھے۔ہمارا گھر گاوں ے ایک کونے میں تھا گھر کے ساتھ 2 ایکڑ کماد ہوا کرتا تھا جو لوگ کماد کی فصل کے بارے میں جانتے ہیں ان کو پتہ ہوگا یہ پورے سال می فصل ہوتی ہے۔ تو ہم لکن میٹی کھیلتے ہوے اکثر کماد میں چھپ جایا کرتے تھے۔ایسے ہی ایک دن میں اور ہمارے گوانڈیوں کی کڑی ناہید جو کہ ہماری رستہ دار بھی تھی ہم میں کافی دوستی تھی۔ہم اکثر ایک ساتھ چھپا کرتے تھے۔ ہم اس دن بھی چھپنے کے لیے کماد میں داخل ہوئے اور آگے چلتے گئے ابھی ہم تھڑا ہی آگے گئے تھے کہ ہمیں عجیب سی آوازیں آنے لگیں۔ ہم ڈرتے ڈرتے آگے بڑھے لیکن ناہید تو ڈر کی وجہ سے کانپ رہی تھی اس نے سرگوشی میں کہا کہ بلو مینوں بہت ڈر لگدا پیا ای ایتھے باہرلا(سور) ہونا اے آپاں چلیے میں نے اس کو چپ رہنے کا کہا اور ہاتھ کھینچ کے آگے لے کر جانے لگا۔وہ ڈرتے آگے بڑھی۔ کچھ آوازیں واضح آنے لگیں تو ہم نے غور کیا تو ایسا لگا جیسے کوئی رو رہا ہے۔ہم ٹھٹک کے رک گئے کچھ دیر آواز کی سمت کا تعین کرنے کے بعد پھر دبے پاؤں آگے بڑھنے لگے۔ تو آوازیں کچھ واضح ہونے لگیں جیسے کوئی سسک رہا ہے آہ آہ آہ آہ اوئی ہولی کر وغیرہ ہم لھر ہمت کی اور تھڑا سا آگے کھسک ک دیکھا تو ہماری کمیوں کی ایک جوان اور سیکسی جسم کی مالک لڑکی عاصمہ فل ننگی لیٹی ہوئی ہے اور اس کی 38 سائز کے غبارے جو دودھ سے زیادہ سفید ایسے جیسے ان میں کسی ہوا بھر کے بانھ دیا ہو اور اوپر اڑنے کی کوشش میں دائیں بائیں ہل رہے تھے اور چٹے سفید مموں کے اوپر ان کا گارڈ بڑی شان بےنیازی سے گلابی وردی پہنے بیٹھا تھا۔اور ایک مرد جس کی ہماری طرف کمر تھی اس نے عاصمہ کی ٹانگیں اٹھائی ہوئی تھیں اور ان کے بیچ میں زور زور سے گھسے مار رھا تھا ننگے ممے دیکھ کے اور گھسوں می سپیڈ کی وجہ سے ہمیں سمجھ نہیں آ رھی تھی کہ یہ سب کیا چل رہا ہے۔میں ناہید کے پیچھے کھڑا تھا اور جھک کے دیکھنے کی کوشش میں میرا اگلا حصہ ناہید کی بنڈ سے لگا ہوا تھا کم اتنے محو تھے یہ سب کاروائی دیکھنے میں کہ یہ بھول گئے کہ ہمیں اگر انہوں دیکھ لیا تو کیا ھوگا۔ اچانک عاصمہ کی آواز میں تیز ہو گیئیں وہ عجیب و غریب آوازیں نکالنے لگ گئی ااااااآاااآہہہہااااکککککاااا ہو زور دی ہورررررررر زووووووورررعع دی پاڑ دے میرا اندر ہاں میییییںںںں گئی اور یکدم اچھلی تو اس کے 38 سائز کے مسمیوں نے بھی قلابازیاں کھانی شروع کر دیں کچھ دیر جھٹکے کھانے کے بعد وہ رک گئی تو اس آدمی نے اس کو کو گھمایا جس سے اس کا رخ بدل گیا اب عاصمہ کتیا کی طرع گوڈے مودھے مارکر جھک گئی پیچھے سے اس آدمی نے جیسے ہی لن ھاتھ میں لکڑ کے ڈالنے کے لیے آگے کیا تو ہم دونوں کی نظر میں لن آیا اتنا بڑھا ناہید کے منہ سے ہائے نکل گئی اگر میں اس کے منہ ہاتھ رکھ کے اس کا منہ بند نہ کرتا تو شاید اس کی آواز ان تک پہنچ جاتی میرا منہ بھی حیرت سے کھل گیا۔ لیکن جب اس نے ایک جھٹکےسے اندر ڈالا تو افففففففففف نہ پوچھو کیا مزہ آیا یہ سب دیکھ میری چھوٹی سی للی بھی کھڑی ہو گئ اور ناہید کی گانڈ کی دراڈ میں گھس گئی۔ادھر وہ گھسے مارنا سٹارٹ ہوا ادھر مجگے پتہ نہیں کیا۔ ھوا جیسے اس نے عاصمہ کی گانڈ کو پکڑ رکھا تھا ویسے میں نے بھی ناہید کی گانڈ کو ساہیڈوں سے پکڑ کے گھسے مارنے شروع کر دیے واہا ں عاصمہ کی آہیں آنا شروع ہو گئئں جب ایک لمبا موٹا کالا ناگ پیچھے سے پھدی میں گھستا تھا تو عاصمی کی اوئی مااااااممممااںںں کی آواز آتی لیکن وہ ظالم مرد لگا تا ر گھسے پے گھسا مار رہا تھا ادھر میں بھی لگا ہوا تھا انجانے میں ناہید نے بھی گانڈ میرے ساتھ مزید چپکا لی تھی۔یکدم اس آدمی نے عاصمہ کو اس کی گانڈ سے پکڑ کے گھمایا اور جیسے ہی وہ خود نیچے لیٹنے کے لی عاصمہ کی جگہ آیا تو ہم دونوں کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا کینک وہ کوئی اور نہیں بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ میرا بڑھا بھائی تھا جو عاصمہ کی پھدی کا بھرتا بنا رہا تھا میرے تو ٹٹے شاٹ ہو گئے میں جلدی سے ناہید کا بازو کھینچتے ہوے اس کو واپس لے آیا اور باہر نکل آئے جہاں ہمیں ڈھونڈنے والے بچے تھک ہار کر بیٹھے جیسے ہی ہم باہر نکلے تو سب حیران ہوئے اور پوچھنے لگے کہ ہم کیا کرتے رہے میں جلدی سے بولا تم لوگوں ڈہونڈے نہیں گئے تو اب یہ کیسی باتیں کرتے ہو ایک لڑکی تھی چھنو تھی تو وہ بھی ہماری رشتہ دار لیکن اس عمر میں بھی بہت بڑھی توپ تھی وہ مجھے عجیب نظروں سے دیکھتی رہی میں پریشان ہو اور اس سے پوچھا انج اکھا ں پاڑ پاڑ کے کی ویکھی جانی ایں میرے منہ تے کی لگا اے وہ بولی میں سب سمجھنی آں تسی کی کر دے رے او میری تو شلوار گیلی ہونے والی ہو گئی اے سالی نے کدھرے بھا بوٹے نوں تا ں نئیں ویکھ آئی بڑی کتی چیز اے میں وی کچا نہیں سی بولیا نی مطبل تیرا کی کر دے رہے آں اسی اپنا منہ سمبھا کے بول وہ کم نہیں سی تو اپنا بوتھا ویکھیا ای چوہا جیا آ نی ناہید آپاں چلیے آپاں نہیں اینا نال کھیڈنا اے تاں ہیگے ای بتمیز نیں گل کرن دی تمیز نہیں ایناں لیکن ناہید بولی نہیں میں نے ابھی کھیلنا ہے تو جا آگے سے چھنو نے جواب دیا مینوں پتہ تو کی کھیلنا اے میں نے جواب دیا چل بھج جا ایتھوں باندریے جئیے بھج جا ناہید بھی شیر یو گئی وہ بھی بولنے لگ گئی جا جا کر اپنا کم کر
اسی طرح لڑتے جھگڑتے شام ہو گئی اور ہم اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ۔۔۔
لیکن شام کو جب بھا بوٹا گھر آیا تو میں اس کی طرف غور سے دیکھنے لگا۔
بھا نے مجھے دیکھ کر کہا کی ویکھی جانا ایں مینے شرمندہ ہو کر کہا کچھ نہیں اس کے بعد کھانا کھایا اور پھر ہم کھیلنے کے لیے ویڑ ے میں اکثھے ہو گئے ہمارا ویڑا بھت بڑا تھا اصل میرے دادا لوگ تین بھائی تھے تینو۔ کر گھروں کے درمیان کوئی دیوار نہیں تھی مطلب کہ ایک ہی صحن تھا کوئی ایک ایکڑ میں تینوں بھائیوں کے گھر تھے۔ناہید بھی آ گئی ہم پھر کھیلنے لگ گئے جب چھپنے کی باری آئی تو میں نے نائید کو اشارہ کیا وہ میرے پاس آ کر بول ہوں کی گل اے میں نے کہا آپاں دونویں اکٹھے چھپاں گے وہ بولی پراں مر مینوں سب پتا اے تو کیوں میرے نال چھپن دی گھل کرنا پیا ایں میں نے کی مظلب تو وی آودے بھرا طراں کریں گا میرے نال جیویں او عاصمی باجی نوں ۔۔۔۔ یہ کہیتے ہوئے وس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ اور جانے لگی میں اس کھیچا اور ایک طرف چل پڑا کیوں سب چھپ گئے تھے صرف ہم دو ہی رہ گئے تھے جلدی جلدی ہم گھر می بیک سائیڈ ہر گئے جہاں بھینسوں کا باڑہ تھا اور اس سے پہلے چھوٹی دیوار جس ساتھ گندم رکھنے کے لیے بڑولے یعنی دیسی گودام بنے ہوے تھے ہم وہاں پہنچے تو ناہید نے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور بولی دور جا کر چھپ میرے نیڑےنا آئیں میں شرمندہ سا ہو گیا اصل میں میرا ارادہ اس کی نرم ملائم گانڈ کے ساتھ کھیلنے کا تھا دن میں جب میں نے اس کی گانڈ میں اپنی للی رگڑی تھی تو بہت مزہ آیا تھا اب۔ بھی یہ ارادہ لیکن اس سالی کو پتہ نہیں کیا ہوا کہ دور دور ہو گئی میں پھر بھی اس کے قریب کوا اسی وقت جس بچے سر باری تھی اسکی آواز قریب سے آئی تو ناہید جلدی سے میرے پاس ہی آ گئ اور میرے آگے کھڑی ہو کر جھک کر سامنے دیکھنے کی کوشش کر نے لگی چونکہ گاوں میں بجلی نہیں ہوتی تھی چاند کی روسنی ہوتی تھی یا دیوا یا لالٹین سے روشنی کرتے تھےچاند کی روشنی میں نے اس کی بنڈ کے ابھار کو دیکھا تو میری للی ایک بار پھر کھڑی ہو گئی اور میں نے اس کی گانڈ کی پھاڑیوں کو پکڑ لیا افففففففففف کیا مزہ آیا اتنی نرم بنڈ کہ میں میرا دل کیا اس بنڈ کو چوم لوں لیکن میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ناہید کی گانڈ کو چوم لوں اچانک اس نے گھوم کے میری طرف دیکھا اور بولی پچھاں ہو کہ کھڑ میں شرمندہ ہو گیا ۔میں بھی کہاں بماپنے ارادے سے باز آنے والا تھا چاہے چھوٹی عمر تھی پر دل تو تھا نہ ایک سین نے میرے اندر ہلچل مچا رکھی تھی میرا بھی بھا کی طرح زور زور سے گھسے مارنے کا دل کر رہا تھا اور تو کچھ ہو نہیں سکتا تھا کیونکہ ناہید کو شک ہو گیا تھا یا کوئی اور بات تھی جو اس نے مجھے لتاڑ دیا اچانک میرے اندر جے شیطان نے مجھے اکسایا بلو پت کجھ کر یہ بھت اچھ موقع کے میں آہستہ آواز میں ناہید کو بلایا جو جھک کر آگگ دیکھ تہی تھی کہ اپنی باری دینا والا میرا کزن بالو ادھر تو نہیں آرھا دوستو بالو میرے چاچے کا بیٹا ہے عمر میں مجھ سے کوئی 2 سال بڑھا لیکن جسامت میں 4گنا تھا ۔
ناہید نے میری بات کا جواب نہ دیا ایسا شو کرایا جیسے اس سنا ہی نہ ہو میں ایک بار پھر آہستہ سے پکارا نہیدی گل سن اس نے کھر جواب نہ دیا تو میں نے آگے بڑھ کر اس کی پتلی کمر کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا کیا بتاؤں کیسا احساس تھا ایسا لگا جیسے میں نے کسی روئی کی کو چھو لیا ہو اتنا نرم وملائم کمر کہ لگا جیسے پانی میں ہاتھ ڈال لیا نیم گرم پانی جس میں شیمپو کی ملاوٹ ہو میرے ہاتھ پھسل رہے تھے دل کیا کہ یہ وقت یہاں ہی رک جائے یہ بس کچھ لمحات کے کیے تھا اس چڑیل نے ڑصے سے میری طرف کر کہا کی اے تینوں بندہ بن کے کھڑ جا میں نے بھی فوری جواب دیا میں می کیتا تینوں کنیاں آوازاں دتیا تو سنیا ای نہیں تو اس نے بول کی گل اے میں نے اپنا منہ اس کے کان کے پاس کیا اور سرگوشی میں بولا آپاں وہ اوہ کھیڈ کھڈیے تو اس نے جواب دیا کونسی میں نے جلدی سے کہا وہی جو بھا اور عاصمہ کھیل رہے تھے اس نے غصے سے مجھے دیکھا اور مجھے دھکا دے کر چلی گئی جیسے ہی وہ باہر گئی۔ بالونے اس کو کاتھ لگایا اور ناکید کی باری آ گئی سب باہر نکل آئے اسی وقت میری دشمن چھنو بھی مٹکتی ہوئی آ پہنچی اس ںے بھی کھیل میں حصہ لینا ہے بولی اب مان گئے ناہید کو ہم نے کہا کہ جا و اس دروازت کو ہاتھ لگا کر آو دوستو بتاتا چلوں کہ کمارے دادا لوگ 3بھائی تھے گھر الگ الگ تھے درمیان میں کوئی دیوار نہیں تھی لیکن دروازے الگ الگ تھے یعنی کہ اگر اگر ایک طرف سے میں داخل ہوں تو دوسری طرف ایک ایکڑ پر تیسرا دروازہ تھا ہمارہ گھر پہلے اس کے بعد میرے دادا کے دوسرے دونں بھائیوں کا گھر تھا کم نے ناہید تیسرے دروازے کو ہاتھ لگانے کو کہا ہم سب چھپنے کے لیے بھاگ کھڑے ہوے سب نے اپنی مرضی کی جگہ پسند کی میں اپنے گھر کی بیک سائیڈ پر گیا جدھر بھینسوں کا بڑا سا کمرہ تھا جو کہ گرمیوں میں رات جو خالی ہوتا تھا دن میں بھینسیں باندھی جاتی تھیں اس میں گھس گیا کہوں کہ وہاں اندھیرا تھا کوئی نہیں آتا تھا اس طرف ابھی مجھے چھپے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ مجھے کسی کی سانسوں می آواز اپنے بھت قریب سے سنائی دی میری تو بنڈ بند ہو گئی ڈر کہ مارے میں بالکل سہم گیا اندھیرے کی وجہ دکھائی تو کچھ دے نیں رھا تھا کچھ دیر بعد جب آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے مے قابل ہوئیں تو میں نے آواز کی سمت ڈرتے ڈرتے دیکھا تو مجھے چھنو دکھائی دی وہ بھی میری طرف دیکھ رہی تھی پھر آہستہ سے چلتی ہوئی میری قریب آئی اور بولی دن نوں اوہدے نال کماد اچ کی کرن گیا سی میں نے کہا کچھ نیں سب کھیل رہے تھے ہم سب بھی چھپ گئے تھے اس نے عجیب حرکت کی آگے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی ٹانگوں کے بیچ لگایا مجھے عجیب سا لگا پر مزہ بھی بیت آیا جلدی سے ہاتھ ہٹایا اور اس سے کہا آ کی کردی پئی ایں وہ بولی میں تینوں پیا ر کر دی آں آ جا آپاں پیار کرییے اس عمر میں پیار کا کجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ پیار کیا ہوتا ہے میں نے پوچھا کیسے کرتے ہیں پیار وہ بولی جا اوے کھوتیا تینو ں آ وی نیں پتا میں نے اپنی منڈی ہلائی نہیں اس نے آگے بڑھ کر مری گال چوم لی اور بولی ایسے میں نے بھی ہمت کر کے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس گال پے چمی لے لی اور کہا بس وہ بولی بس کی انج نہیں اس نے مجھے اپنے ساتھ لگایا اور کس کے جپھی ڈال لی میں اس معملے میں جاھل تھا چپ کر کے کھڑا رہا تو اس نے میرامے ہاتھ پکڑ کر اپنی کمر پر لگا لیے جیسے ہی میرے ہاتھ اس کی کمر پر گیی مجھے ناکیڈ کی کمر یا د آ گئی جب کمر یاد آئی تو اس کی پولی پولی بنڈ بھی یاد آئی اس کی بنڈ کی دراڈ بھی جس میں میری للی پھنس گئی تھی اور میں نے گھسے بھی لگائے تھے جب بھا عصمہ کو کماد میں انےواہ چود رہا تھا یہ سوچ آتے ہی میری للی میں ہلچل ہوئی اور للی کھڑی ہو گئی اور چھنو کی ٹانگوں میں گھس گئی لیکن مجھے کوئی تجربہ نہیں تھا میں ایک بار پھر سے اس کے گال چومے اس نے بھی میں نے اپنے ہاتھ آہستہ سے نیچے سرکاے اور اس بنڈ کے ابھار جہاں سے شروع ہوتے تھے جس کو پنجابی میں چھوٹی ڈھوئی کہتے ہیں وہا تک لے آیا اور ایک بار پھر اس کی چمی لی اس نے چھی چمیاں لینی شروع کر دی اسی دوران میرے ہاتھ اس کی گانڈ تک پہیچ گئے جیسے ہی میرے ہاتھ اس کی گانڈ تک پہنچے اس کی گانڈ میں ارتعاش پیدا ہوا کیونکہ دونوں کاتھ نیچے لا رہا تھا جن کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسی ہوئی تھیں اس وجہ سے اس کی گانڈ کی دراڈ میں میرے انگوٹھے لگے کیا مست گانڈ تھی یاروں جیسے کھیر ملائی ہوتی ہے اف گرم گرم کھر لر جیسے نرم نرم دودھ کی ملائی کی جم جاتی ہے جس کو کھانے میں بہت مزہ آتا ہے میں بھی اسی مزے میں کھو گیا اور مجھے پتہ ہی نہ چلا کب میں نے اس کو گھمایا اور پیچھے سے اس کو جپھی ڈال لی وہ بھی چپ کر کے کھڑی رہی میں کچھ دیر رکا رہا تو اس نے گانڈ سے میری للی کو گھسا لگایا تو میں بھی شروع ہو لھر گھسے پے گھسا دہی گھسا مزے میں کھو گیا اور جب میں نے اپنے ہاتھ آگے لے جا کر اس کے سینے لے لگائے تو میرے ہاتھ میں دو چھوٹی چھوٹی گیندیں آئیں میں جللدی سے بولا آ گینداں کس کی ہیں وہ بولی بدھوں آ گینداں نیں نے اہیناں ممے اکھدے نے مجھے کچھ سمجھ نہ پھر بھی کہا اچھا اور اپنا کام جاری رکھا گھسے لگاتا وہ بولی جکدی کر میں بولا کری تاں جاناں پر تینوں آ کیویں پتا کہ پیار انج کری دا اے لیکن وہ تو کہیں اور پہینچی ہوئی تھی اس سسکاریا ں نکلنے لگ گئیں مجھ یکدم عاصمہ یاد آ گئی وہ بھی ایسے ہی آہیں بھر رھی تھی چھنو نے اپنے ہاتھ پیچھے کر مے میری گردن میں ڈال کر مجھے زور سے اپنی طرف کھیچا میرا منہ اس کی گردن پر جا لگا لیلن میں رکا نہیں لگا رہا اس شاید مزہ آ رھا تھا مزہ تو مجھے بھی آ رہا تھا لیکن کیونکہ اس کی عمر ہم سے زیادہ تھی کوئی 13 14 سال کی ہو گی ہم تو ابھی بچے تھے اس لیے مجھے کجھ سمجھ نہیں آ رہی تھی بس یہ اندازہ ہوا وہ بھی عاصمہ کو چدتے دیکھ کر کہ یہ تب ہوتا جب زور زور سے گھسے لگائے جائیں میں نے اپنی سپیڈ تیز کر اس کی سسکاریا ں بھی بڑھ گئیں یکددم وہ اکڑ گئی اور اپنی بنڈ زور سے میری للی کے ساتھ لگا لی میرے چوتڑوں پر ہاتھ رکھ کر مجھ اپنی طرف دھکیلا اور کس لیا مجے چونکہ پتہ نہیں تھا کہ یہ سب کیا ہے اس لیے پریشان ہو اوپر سے سالی نے اتنی زور سے میرے چوتڑ لکڑے ہوے تھے اس کے ناخن چب رہے تھے لیکن میری للی اس کی گانڈ کی دراڈ میں تھی جس کا مجھے مزہ آ رہا اسی دوران اس نے مجھے چھوڑا اور گھوم کر مجھے اپنی باہوں میں بھر لیا اور انےواہ میرا منہ چومنے لگ گیئی اور ایک منٹ بعد باہر سب بچوں کا شور ہوا ججی پکڑا گیا جو کہ میری پھپھو کا بیٹا ہے ۔ اس کے بعد کوئی خاص سین نہ ہوا سب کھیل کر اور کچھ اپنی ماوں کی گالیاں سں کر اپنے اپنے گھر چلے گئیے میں بھی اپنی چارپائی پر لیٹ گیا اور سونے لگا لیکن مجھے کہاں نیند آنےوالی ےھی پاسے بدلتا رہا اور آج کے واقعات مے بارے میں سوچتا رہا کافی ٹائم گزر گیا شاید آدھی رات سے اوپر ٹائم ہو گا مجھے پیشاب کی حاجت ہوئی تو میں پیشاب کرنے کی نیت سے اٹھا اور واشروم کی طرف چل پڑا جو کہ تینوں گھرں میں مشترکہ تھا اور ایک کونے میں تھا اس میں نہانے والا جس کو غسل خانہ کہتے تھے الگ اور لیٹرین الگ تھی اس کے قریب ہی نلکہ لگا تھا میں نے کیٹرین جانے کی زہمت نہیں کی نلکے سے تھوڑا آگے ہو کر جہاں نالی بنی تھی جس سے پانی باہر جاتا تھا گھر کے سامنے بہنے والے کھالے میں میں پیشاب ہی کر دھا تھا کہ میرے کانوں آوزیں آئی ہولی کر آہ آہ آہ آہ آہ اوئیییئیجججج اوئی امااااااااااا آہہہہاہاکااکاہاکااکااکک کچھ خیال کر ہولیںکر میں نے آواز کی سمت کا اندازہ لگایا اور بلی کی چال چلتے ہوے بڑھنے لگا نلکے کے پاس میرے درمیانے دادا یعنی کہ دادا کے بھائی نے بیٹھک بنائی ہوئی تھی اس طرف سے آوازیں آ رہی تھیں وہاں عام طور پر رات کے وقت کوئی نہیں ہوتا تھا سب گھر میں سوتے تھے اپنے اپنے ویہڑے میں میں ہولی ہولی چلتا ہوا آگے بڑھا اور چھپ کر بیٹھک کے ساتھ ہی گیراج تھا جہاں ٹرکثر کھڑا ہوتا تھا بیٹھک اور گیراج کے درمیان ایک چھوٹا سا روشندان تھا جس رات کی وقت دیوا یا لالٹین رکھتے تھے اس وقت وہاں کچھ نہیں تھا میں وہاں گیا اور اند کا سین د یکھنے کی کوشش کی جس میں کامیاب بھی ہوا
میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرا بھا بوٹا پھر سے کسی چود رھا تھا اس بار اس ایک ٹانگ اوپر تھی اور بھا اس کی پھدی میں لن کا پمپ ایکشن چلا رہا تھا عجیب ماحول تھا دونوں الف ننگے تھے بھا کی سپیڈ تیز تھی بھا گھسے مرنے کے ساتھ ساتھ آگے کو جھکتا اور مموں و چومتا اس لڑکیچآوازیں کبھ کم کبھی تیز آ رہی تھیں اااووووووہہہہہہہہہہ ہہییییاااااہہہہہہااااا اوئی ماںںںںں آرام ناک نہیں ہندا تیرے توں جیسے کی مینے یہ آواز سنی تو میں حیران رہ گیا کہ یہ تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نجاں لوھاری ہے جو کہ گاؤں کی دوسری نکر ہر رہتی تھی اور اکثر ہم اس کے گھر جاتے تھے کبھی کوئی بنوانے کبھی کوئی میری للی فل سخت کو بکی تھی بھا نے اس کی دونوں ٹانگوں کو اس کے مموں مے ساتھ لگالیا جس سے اس گانڈ مجھے نظر آئی اءک لمح کے لیے یہ گانڈ دیکھ کر میرا ہاتھ للی پر چلا گیا اور میں نے للی مسلنی شروع کر دی ادھر بھا نے اپناگھوڑا نجاں کی کی پھدی میں دوڑانا شروع کر دیا بھا کی آواز بھی آتی چپ کر سالیے کوئی آ گیا تاں اہنے وی تیری مارنی اے پر اس کی آوازوں میں کوئی کمی نہں آ رہی تھی وہ مسلسل سسک رہی تھی آااااآااااااآمممممییییجئئی اہ اہاہاہاہ آہہہآہہہآہہہہہ بھا نے ایک دم اس کو گھمایا اور اور گھڑی بنا لیا اس پہلے کہ وہ سمبھلتی پیچھے سے اپنا لن اس کی پھدی میں گھسا دیا اس کی ایک دم آواز نکلی ہائے میں مر گئ مار دتا ای اوئے ظالماں آاااااہہہہہہککککککککہی کھوانا ایں ایس نوں بھا بولا پھدیاں کھواناںمینے ابھی تک نجاں کی صرف آواز سنی تھی اس کو دیکھا نہیں تھا کوئی تین منٹ بھا اس کو ایسے چدتا رہا پھر بھانے اس کی گردن پر ہاتھ اور پیچھے کھینچا اب سین یہ تھا کہ گانڈ اس کی بھا کے ساتھ لگی اور ممے اس کے اوپر کو اٹھے ہوئے تھی دونں کے منہ میری مخالف سمت تھے بھا نے ایک ہاتھ اس کی گردن میں اور دوسرا ہاتھ اس کے مموں پر رکھ دیا اسی دوراں نجاں کی آواز میں شدت آگئی پھاڑ پھاڑ دے میری سارا اندر دے اندر زور نال یو زور نال کر آہہہہہہہ ںہہہہہہتتتتتت مزہ آ رہیا اے ااااااااآہہہہہااااہۃہہہہہہہہہہہ کر کر کر ککککککررررررررررررر زور نال کر اس کت ساتھ ہی شاید وہ فارغ ہو گئی تھی مجھے فارغ ہونے کا بعد میں پتہ چلا تھا کہ اس کو فارغ ہونا کہتے ہیں کچھ دیر بھا رکا رھا پھر اس کو سیدھا کرنے لگا تو اس نے بھا کو گرایا اور اوپر آ گئی جب وہ اوپر آئی تو میری سانس اوپر کی اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی جب اس کے مموں پر میری نظر پڑی دوستوں میں تو عاصمہ کے ممے دیکھ کر حیران ھو گیا تھا لیکن یہ دیکھنے کے بعد تو میری آنکھیں باہر کو آنے لگیں میرا دل کیا ان سے دودھ پی لوں ابھی
40سائیز کے ممے شان بے نیازی سے سے اس کے سینے میں اپنی سپنی چوکی پر براجمان تھے۔میں تو نجاں کے ممے دیکھنے میں مگن تھا کہ نیچے سے بھا نے ایک زوردار جھٹکا مارا تو اس کی ان فوم جیسی پہاڑیوں میں جیسے طوفان آگیا وہ دائیں بائیں ایسے بھاگنے لگیں جیسے کسی ہرن کو اگر رسی سے باندھ دیا جائے تو وہ اچھلتا ہے میری تو یہ سین دیکھ کر سانس اٹک گئی ادھر بھا کو روک کر نجاں خود آرام آرام سے اوپر نیچے ہونے لگ گئی ساتھ ساتھ اپنے ممے بھی مسلنے لگی تو بھا نے اس کو اپنے اوپر گرا لیا اور اس کے ہونٹوں اپنے ہونٹ رکھ دیے یہ میرے لیے اک نئی چیز تھی میں ان کی چودائی دیکھنے میں نست اپنی للی کو مسل رھاتھا ادھر بھا ۔۔۔
نجاں کی پھدی میں نیچے سے ٹھوکنا شروع کر چکا تھا کمرے میں پچک پچک کی آواز گونج رہی تھی 5 منٹ بعد بھا اٹھا اور نجاں کو اٹھاکر کیا اور دیوار کے ساتھ اس کی کمر لگا دی ساتھ اس کی ایک ٹانگ اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھ لی ماررررررررر ڈالا ای وے آآاااااااآآآاااااااااائئئئئیییییی یکدم نجاں کی آوز آئی میں تو اس کی پھدی کےد رشن کرنے میں ڈوبا تھامجھے تب پتہ چلا جب بھانے ایک ہی جھٹکے پورا 8انچ لمبا 3 انچ موٹا لوڑا اس کی رس بھر رسیلی آب چودائی سے بھری بھولی ہوئی پھدی میں گسا دیا اس کی اتنی اونچی تھی کہ شاید اندر ویڑے تک بھی گئی تھی اس لیے ایک آواز آئی۔۔۔۔۔۔۔۔