Dom bess
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
میرا نام یاسر ہے میری عمر لگ بھگ 25 سال سے زیادہ ہے میں ایک گاؤں کا رہائشی تھا تعلیم مکمل ہونے کے بعد میری سکول میں جاب ہو گئی پہلے میں شہر میں پوسٹنگ تھی کچھ عرصہ بعد شہر سے باہر ایک اور گاؤں میں پوسٹنگ ہوگئی گاؤں کا سکول پرائ۔ری سکول سے ہائی سکول پروموٹ ہوا تھا میں سکینڈری سکول ٹیچر تھا تو اس لیے میرے ساتھ دو اور ٹیچر کی یہاں ٹرانسفر ہوئی باقی ٹیچر تو گاؤں کے قریب سے ہی آتے تھے انہیں کوئی مسئلہ نہیں تھا میں پہلے شہر میں رہتا تھا اب وہاں سے آنا بھی تھوڑا مشکل تھا میرا گاؤں بھی کچھ دور تھا اس لیے آنا جانا مشکل تھا میں نے وہیں گاؤں میں رہائش رکھنے کا سوچا میرے ساتھ ٹیچر جن کا نام اقبال تھا وہ وہیں کے رہائشی تھے انہوں نے میری مشکل کو بھانپ لیا اور بولے کہ گاؤں اچ ہک گھر ہے تھوڑے حالات اوہناں دے ٹائٹ ہین اوہناں دی بیٹھک اچ رہائیش رکھ لئے اوہناں دا مسئلہ وی حل ہو جاتی تے تیرا وی میں بولا فر گل کرو اقبال صاحب بولے چل فر گل کر لیندے ہاں چھٹی کے بعد ہم وہاں چلے گئے اقبال صاحب تھوڑی بڑی عمر کے آدمی تھے اور استاد بھی تھے اس لیے گاؤں میں ان کی کافی عزت تھی ہم چلتے ہوئے ایک گھر کے سامنے پہنچے گھر کی حالت سے لگ رہا تھا کہ کافی پرانا گھر ہے اور مکین بھی کافی خستہ ہیں مالی طور پر زنگ لگا گیٹ کہیں کہیں سے گل کر ٹوٹا ہوا تھا حالت سے لگ رہا گا کافی پرانا ہے اقبال صاحب نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ایک خوبصورت سی نسوانی آواز آئی کون اقبال صاحب بولے میں آں صباحت دروازہ کھول دروازہ کھلا تو سامنے ایک پکی عمر کی عورت باہر نکلی اس کا نام صباحت تھا شکل سے زیادہ بڑی عمر کی عورت تو نہیں لگ رہی تھی کپڑوں سے غربت صاف نظر آ رہی تھی شکل سے کافی اچھی بھلی لگ رہی تھی ہلکی ہلکی گرمیاں تھیں جس کی وجہ سے اس نے لان کا ایک سوٹ ڈال رکھا تھا جو صباحت کے بھرے ہوئے جسم پر کسا ہوا تھا جس سے صباحت کا جسم جابجا نظر آ رہا تھا جس پر ایک پرانے سے دوپٹے کو لپیٹ رکھا تھا جو صباحت کے جسم کو چھپانے کی ایک ناکام سی کوشش کر رہا گا کسے لباس کے اونچے چاک جن کو صباحت نے شلوار اوپر کرکے کے چھپانے کی کوشش کر رکھی تھی بتا رہے تھے کہ یہ سوٹ اسے چھوٹا تھا لیکن اسے مجبوراً ڈالنا پڑا تھا کیونکہ گرمیاں آگئیں تھیں اور سردیوں کے سوٹ اب پہنے نہیں جاتے تھے یہ بھی یقینا صباحت سے چھوٹی عمر کی عورت کا کوئی لباس تھا جسے مشکل سے اسے ڈال رکھا تھا میں صباحت کو دیکھ کر مچل سا گیا اس کی عمر تو کافی ہوگی لیکن جسامت سے وہ بالکل جوان عورت لگ رہی تھی میں اس کے جسم کو غور رہا تھا کہ اس نے اقبال صاحب کو سلام کیا اور بولی استاد جی آج ساڈے غریب خانے تے کیویں آنا ہویا استاد جی مسکرا کر بولی صبو سنا گھر بار ٹھیک ہے وہ بولی جی شکر ہے تسی سناؤ اقبال بولے بچیاں وی ٹھیک ہین وہ بولی جی استاد جی میں صبو کے جسم کا بغور اندازہ لگا رہا تھا اچھا بھلا سیکسی جسم تھا صبو کا صبو کے موٹے تھن اس کے دوپٹے کے اندر سے بھی ابھرے صاف نظر آرہے تھے اس نے مجھے سوالیہ نظر سے دیکھا اور استاد جی کو دیکھا تو اقبال صاحب بولے صبو بیٹھک کھول وت دسدا گل وہ بولی جی استاد جی اور مڑ گئی مڑتے ہوئے اس کا گیٹ کھلا تھا تو اس کی لباس میں کسی چوڑی گانڈ مجھے نظر آئی میں اسکی گانڈ کو غور رہا تھا کہ اتنے میں وہ گیٹ بند کرنے کےلیے مڑی تو اس کی نظر مجھ پر پڑی مجھے اپنی گانڈ تاڑتے ہوئے دیکھ لیا میں نے نظر چرا کر اسے دیکھا تو وہ منہ نیچے کر گئی اس کا چمکتا گلابی چہرہ شرم سے دمک سا گیا گیٹ بند کرکے اس نے بیٹھک کھولی تو وہ اب چادر میں لپٹی آئی تھی مجھے یہ دیکھ کر شرمندگی سی ہوئی کہ میرے تاڑنے پر اس نے خود کو ڈھانپ لیا پتا نہیں کیا سوچے گی ہم اندر گئے تو دو چارپائیاں پڑی تھیں ہم چارپائی پر بیٹھ گئے وہیں ایک پرانی کرسی پڑی تھی جس پر صبو بیٹھ گئی اقبال صاحب بولے صبو گزارہ کیو جیا ہو رہیا صبو منہ نیچے کیے اپنے بادامی رنگ کے ہاتھوں کو ایک دوسرے میں دے کر مروڑتی ہوئی ان کو دیکھ کر بولی بس استاد جی تھواڈے جئے بندیاں دی مدد نال گزارہ ہو رہیا استاد بولے میں تے آکھیا اے کہ بچی نوں شہر بھیجوا کے کسے کم لگوا دندا آں کجھ تے گزارہ ہوجاسی صبو بولی میرا وی دل تے ہا پر استاد جی کی کرئیے جوان بچی ہے ہکلی کیویں شہر بھیجاں نالے او وی آکھدی اے کہ باہر جاکے غیر مرداں اچ اس تو کم نہیں ہوندا مڑ گزارہ چلیا ہویا ہی ہے سکا سنا کھا کے گزارہ ہو رہیا اہناں بچیاں دی شادی ہوجاندی تے کوئی مسئلہ ناہ اسی گزارہ کر لوئیے ہا اقبال صاحب خاموش سے ہوئے اور بولے اچھا اے یاسر ہے شہر توں آیا اے سکول اچ استاد لگا ہے نواں دورو آندا اے انڑ جانڑ دا مسئلہ ہیس۔ صبو جب سے بیٹھک میں آئی تھی پہلی بار مجھے غورا میں نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا تو اس نے نظر چرا لی مجھے بہت برا لگا کہ ایسے غلط نظر سے دیکھ کر پہلے دن ہی امپریشن اچھا نہیں پڑا پتا نہیں کیا کرے گی اقبال صاحب بولے میرا دل ہا اے بیٹھک اس نوں کروائے تے دے دیو اس نوں رہائش مل جاسی تے تھواڈا وی کجھ آسرا بن جاسی یہ سن کر صبو کے چہرے پر ایک چمک سی آئی اور اس نے مجھے دیکھا اور مسکرا کر بولی جی او تے گل تھواڈی ٹھیک ہے اقبال صاحب بولے میں جانڑدا آں بچیاں آلا گھر اے پر اے اچھے خاندان دا بچہ ہے نالے اس صرف بیٹھک اچ رہنا اے صبو بولی استاد جی او تے ٹھیک ہے پر اے کھاسی پیسی کتھو فر بندے دیاں ہور ضروریات وی ہوندیاں ہینڑ اقبال صاحب بولے کوئی گل نہیں صبو ہک بندے دی روٹی نوں توں نہیں پکا سگسیں مہمان اے اپنے کھانے پینے دا اے تھوانوں معاوضہ وی دیسی کیوں یاسر کی خیال میں نے جلدی سے ہاں جی سر میں اپنے حصے دا سودا سلف دی دا رہساں اس پر صبو کا چہرہ جو پہلے غربت سے مرجھا رہا تھا اور چمک کر گلابی سا ہوگیا اقبال صاحب بولے چلو سہی اے صبو فر میرے خیال اچ بیٹھک دا کرایہ 5 ہزار کافی ہے اس وقت پانچ ہزار بہت پیسے تھے صبو کی تو یہ سن کر باچھیں کھل گئی وہ بولی استاد جی ٹھیک ہے میں اپنی دھیاں توں پچھ پئیں استاد بولے ہاں ہاں پچھ ا جا کے اسی بیٹھے آں اوہناں نوں میرا وی دسی کہ پریشانی آلی گل کوئی نہیں صبو اندر چلی گئی پوچھنے کچھ دیر بعد وہ واپس آئی تو بولی استاد جی ٹھیک ہے فر کوئی مسئلہ نہیں رہ لئو میں نے صبو کا گول سا۔ چہرہ دیکھا جس پر ہلکی سی خوشی تھی مجھے اچھا لگا کہ میری وجہ سے کسی کو تو خوشی ملی اس نے مجھے مسکرا کر دیکھا صبو شکل و صورت سے اچھی بھلی خوبصورت عورت تھی عمر چالیس کے اوپر تھی لیکن وہ35 سے زیادہ کی لگ بالکل نہیں رہی تھی۔ میں بولا ٹھیک ہے کل میں اپنا سامان لئے آسان گا صبو بولی ٹھیک ہے کل تک میں بیٹھک دی صفائی وغیرہ کر کے ٹھیک کر رکھساں میں بولا ٹھیک ہے اور ہم وہاں سے نکل آئے میں گھر آیا اور صبح اپنا ضرورت کا سامان لے کر سکول آیا پھر سکول سے سیدھا صبو کے گھر پہنچا میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو صبو نے گیٹ کھولا تو سامنے صبو آج تھوڑی پہلے سے اچھی بنی سنوری نکلی آج شاید وہ نہائی تھی اس لیے آج چمک رہی تھی صبو کا سفید رنگ مزید نکھر آیا تھا مجھے دیکھ کر صبو مسکرائی اور بولی آگئے ہو جی میرے ساتھ اقبال صاحب بھی تھے صبو نے بیٹھک کھولی اقبال صاحب نے سامان اندر رکھوایا اور سیٹ کروا کر وہ چلے گئے بیٹھک کافی کھلی تھی صبو نے صفائی کرکے چارپائیوں پر نئی چادر لگا دی تھی بستر بھی پڑا تھا بیٹھک کے سامنے کافی کھلی جگہ کا صحن بھی تھی بیٹھک بھی کافی کھلی تھی میں تھوڑا دیر آرام کیا مجھے واشروم کا مسئلہ نظر آیا کیونکہگاوں کے اندر حمام تھا پر وہ کافی فاصلے پر تھا میں گاؤں کے حمام سے فریش ہوکر واپس آیا تو تھوڑی دیر بعد صبو اندر آئی اس نے خود جو چادر میں لپیٹ رکھا تھا وہ کل والے لباس میں ہی تھی جس میں اس کا نگ انگ نظر آ رہا تھا اس نے کھانا رکھا اور بولی آپ کہاں چلے گئے تھے میں نے کہا حمام پر گیا تھا ہاتھ منہ دھونے وہ کھانا اور پانی رکھ کر چکی گئی صبو کا ایک بیٹا بھی تھا جس کا ندیم تھا وہ سکول میں میرا ہی شاگرد تھا وہ کچھ دیر بعد اندر آیا میں کھانا کھا رہا تھا وہ پاس بیٹھ گیا میں نے کھانا کھانے لگا میں نے دیکھ لیا تھا کہ ان لوگوں کا گزر بسر مشکل سے ہوتا ہے کیونکہ صبو کے خاوند کا انتقال ہوچکا تھا اور ان کا گزارہ گاؤں کے لوگوں اور کچھ زمین پر تھا مجھے صبو کچھ دل کو بھا سی گئی تھی میں نے سوچا کیوں نا اسے اپنا بنایا جائے یہ سوچ کر صباحت کا انگ انگ میرے ذہن میں گھوم گیا تو میرے لن نے انگڑائی لی میں نے سوچا کیوں نا اسے اپنا بنایا جائے یہ کام کرنے کےلیے مجھے ان کی مدد بھی کرنی چاہئیے لیکن ایسے کروں کہ یہ خود میری طرف کھینچی چلی آئے مالی طور پر مجھے کوئی مسئلہ نہیں تھا نوکری کے علاؤہ اپنے گاؤں میں زمین بھی تھی اس لیے میں نے فیصلہ کرلیا اگر صباحت جو خریدنا بھی پڑجائے تو خرید لوں گا میں کھانا کھا چکا تو میں نے دیمی کو برتن دیے اور اسے کہا کہ اپنی امی کو بھیجے وہ چلا گیا کچھ ہی دیر میں اندر صباحت داخل ہوئی مارچ کا مہینہ تھا اور ہلکی ہلکی گرمی بھی تھی دن کے وقت تو سردی نہیں ہوتی لیکن رات کو ٹھنڈ ہوتی تھی اس لیے صباحت نے اس وقت بھی گرم چادر سے خود کو لپیٹ رکھا تھا میں سمجھ گیا کہ اس کے پاس گرمیوں کی چادر کی نہیں ہے جو خود کو وہ اس گرم چادر میں لپیٹ کر میرے سامنے آئی مجھے تھوڑا برا بھی لگا کہ پتا نہیں وہ میرے بارے میں کیا سوچ رہی ہے وہ بولی آپ نے بلایا میں مسکرا بولا آنٹی جی بیٹھ جائیں وہ بیٹھ گئی ابھی نئی نئی ملاقات تھی تو واقفیت نہیں تھی اس لیے وہ بھی چپ ہی تھی میں بولا آنٹی آپ مجھ سے بڑی ہیں آپ مجھے آپ نا بلایا کریں تم کہ لیا کریں یا میرے نام سے بک لیا کریں وہ مسکرا دی میں بولا آپ تو بڑی ہیں آپ بھی شرما رہی ہیں اس پر آنٹی صباحت ہنس کر بولی اتنی بھی بڑی نہیں جتنا بنا دیا ہے میں ہنس کر بولا مجھ سے تو ہیں نا وہ مسکرا کر بولی کہیں سے لگتی ہوئی بڑی بھلا میں اس بات پر میں ہنس دیا آنٹی بھلے ہی عورت تھی لیکن وہ پکی عورت تھی بازاری عورتوں کی طرح نہیں لگتی تھی اور بات بھی پکی کرتی تھی اس سے لگتا کہ اس میں کوئی برائی نہیں ہے میں مسکرا کر بولا نہیں آپ تو بالکل جوان لگتی ہیں آنٹی مسکرا دی اور بولی اچھا بلایا کیوں ہے کچھ چاہئیے میں نے بٹوا نکالا اور پندرہ ہزار گن کر آنٹی کی طرف بڑھایا اتنے پیسے دیکھ کر آنٹی کی نظر میں چمک سی ائی آنٹی نے پندرہ ہزار دیکھ کر مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھا اور بولی اے اتنے پیسے کس لئی میں بولا آنٹی اے اصول ہے کہ جدو وی کرائے تے مکان دتا جاندا ایڈوانس سیکیورٹی مالک مکان نوں دتی جاندی اے تھواڈی سکیورٹی میں نے آگے پیسے بڑھائے آنٹی نے گہری نظر مجھے دیکھا اور پیسے پکڑ کر پانچ ہزار نکال باقی میری طرف بڑھا کر بولی اے شہر دے قانون شہر اچ ہی رہن دے ایتھے کوئی نہیں لوڑ پنج ہزار کافی ہے میں مسکرا کر بولا نہیں آنٹی جی رکھ لوو چنگے ہوندے لوڑ اچ کم اسنڑ آنٹی بولی وے نہیں وے توں ایڈی مہربانی نا وکھا میں بولا نہیں آنٹی مہربانی نہیں اے تھواڈا حق اے ایہو اصول اے آنٹی چپ ہوکر مجھے دیکھنے لگی میں بولا آنٹی جی رکھ لو آنٹی نے پیسے ولیٹ کر ہاتھ میں دبا لیے اور بولی ویسے زیادتی کر رہیا ایں میں بولا کوئی زیادتی نہیں آنٹی جی آنٹی چپ ہوکر بولی اچھا اے دس دے کہ تیری روٹین کی ہے جو سکی سنی اسی کھاندے ہاں کھا لیسیں جے ناں دل کرے تے باہر ہوٹل ہے روڈ تے اوتھوں کھا لویں میں ہنس کر آنٹی کو دیکھا اور بٹوہ کھولا میرے پاس کافی پیسے تھے انٹی کو بھی نظر آگئے میں نے پانچ ہزار نکالا تو آنٹی گہری نظروں سے میرے بٹوے کو تاڑ رہی تھی میرے دیکھنے پر آنٹی نظر چرا سی گئی میں مسکرا کر بولا آنٹی جی باہروں کیوں کھانا اپنا گھر ہے جے تسی تنگ نا پوو تے تھواڈے کولو ہی کھا لواں گے آنٹی بولی اسی تنگ نہیں ہوندے ویسے اپنی اپنی پسند ہوندی ہوسگدا ساڈی پکی تینوں پسند نا آوے میں ہنس دیا اور آنٹی کے خوبصورت بادامی رنگ کے ہاتھوں کو دیکھ کر میرا ذہن بولا کہ کیوں ناگرم لوہے پر سٹ لگائی جائے یہ سوچ کر میں تھوڑا گھبرایا بھی کہ کہیں آنٹی تپ نا جائے کیونکہ آنٹی ظاہری طور پر تو ایسی لگ نہیں رہی تھی کہ اس میں کوئی غلط بات ہو اندر کیا تھا یہ میں نہیں جانتا تھا میں نے سوچا جو ہو گا دیکھیں زیادہ سے زیادہ ناراض ہی ہو گی ایسی عورتوں کو اپنی عزت زیادہ پیاری ہوتی ہیں۔ میں یہ سوچا اور بولا اتنے سوہنے ہتھا دی پکی ہووے تے کیوں نہیں کھانی اس بات پر آنٹی چونک سی گئی اور گہری نظر سے مجھے دیکھا میں نے آنٹی کو دیکھا تو آنٹی مجھے غور رہی تھی آنٹی کا انداز سنجیدہ تھا میں گھبرا گیا کہ کہیں آنٹی کو برا تو نہیں لگا میرا دل دھڑکنے لگا میں نظر چرا گیا آنٹی شاید کچھ کہتی لیکن میرا لال منہ اور میری گھبراہٹ دیکھ کر وہ سمجھ گئی کہ میں شرمندہ ہوا ہوں اس بات پر آنٹی چپ ہی رہی وہ میری بات سمجھ گئی تھی کہ میں۔ ے کہاں سے اور کس طرف بات کی ہے لیکن وہ چپ رہی مجھے شرمندگی ہوئی میں نے اپنی خفت مٹانے کےلیے بات بدل کر بولی آنٹی اے سودا سلف دے پیسے مینوں تےپتا نہیں آپ ہی جا کے لئے لئو جو جو وی لینا ہے میں جانتا تھا کہ پانچ ہزار میں تو پورے خاندان کا مہینے بھر کا راشن جاتا ہے لیکن میں نے جان بوجھ کر آنٹی کا دل جیتنے کےلیے اتنے پیسے دئیے تھے کہ وہ پیسے دیکھ کر پگھل جائے کیونکہ عورت کا دل جیتنے کا یہ بھی ایک طریقہ تھا کہ اسے بھرپور پیسہ کھلاؤ عورت پیسے اور پیار کی ہی بھولی ہوتی ہے آنٹی بولی نہیں بیٹا آگے ہی توں کافی دے دتے ہینڑ اہناں نال گزارہ ہوجاسی بیٹا سن کر میرا دل تو ڈوب گیا مجھے پتا تھا صباحت نے مجھے بیٹا کیوں کہا تھا کہ میں سمجھ جاؤں کہ اس کے دل میں ایسی کوئی بات نہیں میں مایوس ہوا لیکن دل نہیں ہارا میں بولا نہیں آنٹی جی او تے تھواڈے ہینڑ اے میرے ہینڑ رکھ لوو آنٹی بولی نہیں وے تینوں آپ نوں وی لوڑ ہوسی وت توں آکھنا سارے میں لئے گئی آں میں مسکرا کر بولا آنٹی جی پتر وی سدیندے ہو تے وت ایو جہیاں گلاں وی کردے ہو رکھ لئو میرے کول کافی ہینڑ نہیں مکدے یہ سن کر آنٹی بھی تھوڑی سے شرمندہ ہوئی کہ میں تو ہٹنے والا نہیں اور پھر پکڑ کر دوسرے پیسوں کے ساتھ ملا لیے میں جانتا تھا آنٹی اس میں سے بچا لائے گی میں بولا آنٹی جی اس سارے پیسیاں دا سامان لئے کے آنا مہنگ بھر دا سجائے گا فر نا جانا پوے گا آنٹی بھی جانتی تھی کہ اس سے پورے خاندان کا راشن مل جانا وہ بولی اچھا ٹھیک ہے اور اٹھ کر چلی گئی میں لیٹ کر آرام کرنے لگا مجھے چائے کی طلب ہوئی لیکن باتوں میں یاد ہی نہیں رہا اتنے میں دیمی اندر آیا اور بولا سر جی امی پچھ کجھ چاہیدا میں بولا ہاں یار چائے دی طلب ہے وہ بولا جی استاد جی اور چکا گیا اتنے میں آنٹی صباحت اندر آئی اور بولی کی اس ٹائم چائے ضروری ہے میں بولا ہاں میری تے روٹین ہے وہ مسکرا کر بولی جے نا ملے تے میں بولا کیوں وہ مسکرائی اور بولی اس ٹائم ساڈے گھر دودھ نہیں ہوندا میری نظر آنٹی صباحت کے تنے مموں پر پڑی جو تن ہوا میں چادر سے بھی نظر آرہے تھے میں انہیں دیکھتے ہوئے بے اختیار بولا تیرے ہوندیاں وی گھر اچ دودھ کوئی نہیں آنٹی صباحت میرا اشارہ سمجھ گئی جس سے وہ اور میں دونوں چونک گئے آنٹی اک منہ شرم سے لال سرخ ہو گیا اور وہ کچھ کہ نا سکی میں بھی یہ بات کرکے شرمندہ سا ہو کر بولا میرا مطلب ہا میرے ہوندیاں وی دودھ کوئی نہیں آنٹی کا منہ لال تھا اور آنکھوں میں گلابی ڈورے تیرنے لگے آنٹی خاموش رہی اتنے میں دیمی اندر آیا میں بولا دیمی ایتھے ددھ آلی دکان ہے وہ بولا جی استاد جی ہے نکڑ تے میں نے جیب سے پانچ سو کا نوٹ نکالا اور بولا جا لئے کے آ آنٹی بھی نکل گئی میں دل ہی دل میں خوش بھی ہوا کہ آنٹی ان باتوں پر کہ کچھ نہیں لیکن ڈر بھی رہا تھا کہ کہیں آٹھ کر باہر نا پھینک دے میں بھی بے جھجھک پہلے دن ہی شروع ہوا ہوا تھا مجھے بھی رہ رہ کر آنٹی صباحت کی شرافت کا خیال آ رہا تھا میں سوچ رہا تھا کہ اگر اسے یہی کرنا ہوتا تو وہ اتنا مشکل گزارہ کیوں کر رہی ہوتی وہ پہلے ہی اپنے جسم کو استعمال کرے آسانیاں پیدا کر لیتی لیکن میرا دل تھا کہ صباحت پر فدا ہو رہا تھا میں انہی سوچوں میں تھا کہ دیمی واپس آیا وہ صرف ڈیڑھ سو کا دودھ لایا تھا میں نے پچاس روپے اسے دے دئیے وہ پچاس روپیہ دیکھ کر ہکا بکا ہوا اتنے پیسے اس نے کبھی دیکھے نہیں تھے دیمی کی عمر 15 سال تھی وہ ابھی نائنتھ میں بیٹھنے لگا تھا اور میری کلاس میں تھا وہ پچاس روپے پکڑ کر خوش ہوگیا میرے ذہن میں ایک بات آئی میں سمجھ گیا کہ آنٹی کیوں میری ایسی باتوں کو خاموشی سے سہ رہی تھی کیونکہ میں کافی پیسے دے چکا تھا پیسہ بھی بڑی عجیب چیز ہے بڑے بڑے غیرت مندوں کی غیرت سلا دیتا ہے آنٹی صباحت میرے بٹوے کو بھرا ہوا دیکھ چکی تھی کچھ یہ رعب بھی پڑ چکا تھا میں نے تین سو جیب میں رکھا اور پانج سو کا نوٹ نکال کر دیمی کو دیا اور بولا جا اپنی امی نوں دے دئیں اکھیں سر نے دتا رکھ لئو وہ چلا گیا مجھے امید تھی وہ چائے لائے گی اور پیسے شاید واپس کر جائے کیونکہ اس چھوٹی سی ملاقات میں مجھے اس میں غیرت نظر آئی تھی میں یہ سمجھ گیا تھا کہ ساری عورتیں اپنی عزت کا سودہ کرنے والی نہیں ہوتیں لیکن اس نے چائے دیمی کے ہاتھ بھیجی اور پیسے بھی واپس نہیں کیا مجھے تیر نشانے پر لگتا دکھائی دیا جس سے میرا دل خوش تو ہوا لیکن مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ قابو آئے گی میرے میں سوچنے لگا کہ کہیں اس لیے چپ نا ہو کہ صبح اقبال صاحب کو ہی شکائت لگا دے لیکن اب کیا ہو سکتا تھا میں نے چائے پی روٹین کے کچھ کام کیے بیٹھک کی سیٹنگ کی چونکہ میں اب گاؤں میں ہی رہنا تھا تو اقبال صاحب عصر سے کچھ پہلے آئے اور مجھ سے حال چال پوچھا میں نے کہا سب ٹھیک ہے وہ بولے اچھا فر توں اپنے سٹوڈنٹس نوں فری ٹائم اچ پڑھا لیا کر میرے پاس نویں کلاس تھی جو نئی نئی شروع ہوئی تھی اقبال صاحب سکول کے عارضی پرنسپل تھے اس لیے وہ چاہتے تھے کہ ہم پہلے سال سے ہی تیاری اچھی کروائیں میں بولا ٹھیک ہے تو وہ مجھے لے کر گاؤں میں آ گئے اور جس جس گھر کا لڑکا نویں میں پڑھتا گا سب سے مجھے ملوایا اور بتایا کہ یہ یہیں رہے گا اور بچوں کو سکول کے بعد بھی پڑھائے گاؤں والے اس بات پر خوش ہوئے کہ چلو بچوں کو کہیں اور جانا نہیں پڑے گا اس طرح دو تین گھنٹے ہو گئے ہم واپس آئے اقبال صاحب چلے گئے میں اندر بیٹھا تھا کہ اتنے میں اندر سے آنٹی صباحت آئی اس نے وہی چادر لے رکھی تھی آتے ہی چارپائی پر بیٹھ گئی ۔یں تھوڑا گھبرایا ہوا تھا میں نے ادھر نہیں دیکھا وہ کچھ دیر تو خاموش رہی میں سمجھا کہ یہ اب مجھے سنائے گی وہ کچھ دیر خاموش رہ کر بولی آج کی پکاوئیے میں مسکرا دیا میرے دل کو تسلی ہوئی تو میں مسکرا کر بولا جو وی پکا لئو اسی کھا لساں میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ منہ نیچے کیے بیٹھی تھی اس نے مٹھی سے پانچ سو نکالا اور بولی اس دی کی لوڑ ہا کیوں دتے نہیں میں مسکرا کر بولا بس لوڑ ہا ناں وہ بولا کی میں اس کی آنکھوں میں دیکھ کر چپ کرکے سب کچھ برداشت کرن دی اس کی آنکھیں مجھے غورنے لگی اس کا لال چہرہ بولا میں تینوں ایو جہئ لگدی ہاں اس کا نداز بڑا سنجیدہ تھا میں گھبرا سا گیا لیکن میں خود پر قابو پا کر بولا توں کی سمجھیا میں تینوں کیو جیا سمجھ رہیا میرے سوال پر وہ چونک سی گئی اور منہ نیچے کر گئی میں سمجھ گیا کہ اسے یہ اچھا نہیں لگ رہا اس لیے میں نے سوچا کہ اس سے معذرت کر لو میں بولا آنٹی اگر تینوں اچھا نہیں لگ رہیا تے میں معذرت کردا آں پر اس تے ہک سنجیدہ غور تے کریں کہ اے کیوں ضروری ہے۔ وہ بولی کیوں ضروری ہے میں غور کیوں کراں میں بولا ایویں ہی میں آکھیا وہ بولی یاسر میں ایو جئی نہیں آں تے مینوں کے ایڈی پیسیاں دی لوڑ ہوندی تے میں پہلے ہی اے کر لیندی میں مسکرا دیا اور بولا آنٹی سوری اگر تھوانوں برا لگا تے میں معذرت کردا آں آنٹی بولی کوئی گل نہیں جو ہونا ہا ہو گیا میں بولا جی میں نظر جھکا کے بیٹھا تھا آنٹی سے بھی شاید کوئی بات نا ہوئی اور چلی گئی میں بڑا مایوس ہوا کہ آنٹی میرے قابو نہیں آئی مجھے کوئی طریقہ نہیں آیا زبردستی کرنے کا بھی سوچا لیکن یہ طریقہ غلط تھا شام کے کھانے کے وقت میں حمام میں گیا ہوا تھا واپس آیا تو آنٹی کھانا لائی کھڑی تھی مجھ سے بولی یاسر اتنا دور نا گیا کر گھر دے نال ہی واشروم ہے ایتھو ہو لیا کر اور دروازہ کھول کر مجھے دکھایا بیٹھک کے ساتھ سامنے ہی واشروم تھے میں بولا جی آگے تو نہیں جاندا یہکہ کر آنٹی نے کھانا رکھا آج آنٹی نے گوشت پکایا ہوا تھا میں سمجھ گیا کہ آج میری وجہ سے ان لوگوں نے بھی گوشت کھایا ہے آنٹی اس بات پر تھوڑی خوش تھی کہ آج ان کے گھر بھی گوشت پکا تھا مجھے اچھا لگا آنٹی کھانا رکھ کر چلی گئی میں کھانا کھایا کچھ دیر بعد دیمی برتن لے گیا میں نے اسے کہا کہ چائے پلا دینا دودھ ہو تو وہ بولا جی اچھا کچھ دیر بعد ہی آنٹی چائے لے کر آگئی آنٹی کو دیکھ کر میں مسکرا گیا آنٹی مسکرائی وہ اپنی چائے بھیلائی تھی میں چپ تھا آنٹی بولی کیوں چپ ہو میں بولا کجھ بس ایویں وہ بولی ہلا چھوڑ اے دس گھر اچ کون ہے شادی ہوئی کہ نہیں میں مسکرا کر بولا دو بہنوں ہین شادی شدہ باقی امی ابو گھر ہینڑ میں ہلے شادی نہیں کیتی آنٹی مسکرائی کیوں تینوں لوڑ تے بڑی ہے آنٹی نے مجھے اس بار گل ماری تھی میں مسکرا دیا اور بولا بس مینوں کوئی پسند نہیں آ رہی ہلے آنٹی مسکرائی کیوں نہیں آ رہی میں بولا بس ایویں ہی آنٹی چپ ہو گئی وہ مزید کریدنا نہیں چاہتی تھی میں بولا تسی سناؤ تھواڈے کتنے بچے وہ بولی تین بچے ہینڑ دو وڈیاں دھیاں ہینڑ اے ہک نکا دیمی ہے میں بولا پڑھیاں لکھیاں آنٹی بولی ہاں وڈی نصرت تے ایف اے ہی کیتا ہے چھوٹی سعدیہ بی اے کیتا اے آنٹی یہ کہ کر رک سی گئی اور چونک کر مجھے دیکھا اپنی بیٹیوں کے نام بتا کر وہ شرمندہ سی ہوئی میں مسکرا دیا اور بولا اچھے نام ہینڑ آنٹی بھی اس بار میری شرارت پر مسکرا دی مجھے اچھا لگا میں بولا اچھا شادیاں نہیں کیتیاں آنٹی بولی کدے کرئیے شادیاں ساڈے آل کون کردا میں بولا کیوں آنٹی بولی دو تین رشتے آئے پر ساڈے حالات ویکھ کے پچھاں ہٹ گئے نصرت دی عمر تے ہنڑ 28 سال ہو گئی سعدیہ 26 سال دی ہے میں حیران سا ہوا کہ آنٹی کی بیٹیاں اتنی بڑی اور آنٹی خود لڑکی لگ رہی آنٹی مجھے چپ دیکھ کر بولی کی ہویا میں مسکرا کر بولا واری نصرت 28 سال دی وہ بولی ہاں کیوں میں ہنس کر بولا مینوں تے یقین نہیں آ رہیا وہ بولی کیوں نہیں آ رہیا میں ہنس کر بولا آنٹی توں آپ 30 سال دی لگ رہی ہیں اس بات پر آنٹی نے ہنس کر خود کو دیکھا اور بولی بڑا شریر ہیں میں بولا نہیں واقعی آنٹی توں تے بالکل لڑکی لگ رہی ہیں آنٹی بولی بس کر نا مسکے لا میری عمر تے 40 تو آتے ہو گئی اے میں بولا پر آنٹی لگدی نہوں 35 تے آتے دی کی کھاندی آنٹی شرما سی گئی اور بولی نا مذاق کر میں بولا سچی آنٹی بولی گل تے تیری ٹھیک ہے اکثر لوگ مینوں آکھدے ہینڑ کہ توں اپنی دھیاں دی بھین لگدی ہیں میں بولا سچ ہی آکھدے ہینڑ آنٹی ہنس دی اور بولی 15 سال دی عمر وچ میری شادی ہوگئی ہا آگے آپ اندازہ لا لئے میں مسکرا کر بولا تے آنٹی فر توں ہی میں نے پوچھا تے میاں کدو فوت ہوگیا آنٹی بولی دس ہک سال تے ہو گئے۔ میں چونک کر بولی آنٹی تے توں دس سال کنج کڈھ لئے آنٹی شرما سی گئی اور بولی کی مطلب کنج کڈھ لئے میں بولا عورت تے مرد توں بغیر ہک منہ نہیں رہ سگدی تے توں دس سال کڈھی ودی آنٹی شرما رہی تھی بولی بس بچیاں دی مجبوری نوں برداشت کر گئی میں بولا اپنے آپ تے ترس نہیں آیا آنٹی نے مدہوش آنکھوں سے مجھے دیکھا مجھے ایسا لگا کہ میں نے آنٹی کے جذبات جگا سے دئیے ہوں یہ دیکھ کر میرا دل زور سے دھڑکا آنٹی مدہوش آنکھوں سے مجھے دیکھ کر بولی کئی موقعے ملے مینوں بڑے بڑے لوگاں آفر کیتی پر میں اپنے آپ نوں بچائی رکھیا اپنے بچیاں واسطے کہ اس دا اثر بچیاں تے برا پیندا میں بولا ہاں آنٹی جی اے تے گل ٹھیک ہے تھواڈی ہم دونوں چائے پی چکے تھے میں بولا فر بچے تے جوان ہوگئے فر نہیں خیال آیا آنٹی منہ نیچے کر گئی اور بولی فر بچے جوان ہوگئے تے مزید دھیان کرنا پیا اپنا دل تے پتھر رکھنا پیا کہ جوان بچیاں نوں پتا لگسی کہ ماں کی کر رہی تے او کی سوچسن میں مسکرا گیا آنٹی کھل رہی تھی پر شرما کر اکھٹی سی ہوئی پڑی تھی آنٹی نے آپنی چادر کے ہو سے پیسے نکال کر مجھے دیے اور بولی اے تیرا پنج سو تو رکھ لئے اس دی لوڑ نہیں پہلے ہی کافی دتے آنٹی میرے سامنے چارپائی پر بیٹھی تھی آنٹی کے گھٹنے میرے قریب تھے آنٹی نے پیسے میری طرف کیے تو میں نے پیسے پکڑ کر آنٹی کا ہاتھ پکڑ لیا آنٹی گھبرا سی گئی نرم ملائم ہاتھ کا لمس محسوس کرکے میں کانپ سا گیا آنٹی بھی کانپ گئی اور گھبرا کر مجھے دیکھا میں نے پیسے آنٹی کی ہتھیلی پر رکھے اور ہتھ سے دیا کر مٹھی بند کرکے بولا آنٹی جی اے صرف تھواڈے پیسے ہینڑ اے او نہیں جہڑے پہلے دتے اے بڑے خاص ہینڑ آنٹی مجھے دیکھ کر شرم سے لال بھی ہو رہی تھی آنٹی کا جسم کانپتا ہوا مجھے صاف محسوس ہو رہا تھا آنٹی کے ماتھے پر پسینے کی ہلکی سی تریلی اٹھ آئی تھی آنٹی کا گلہ خشک ہوگیا وہ کچھ کہنا چاہتی تھی کچھ کہ نا پائی اور مسلسل مجھے مدہوش آنکھوں سے گھورے جا رہی تھی میرا لن تن کر تیار کھڑا تھا آنٹی کا ہاتھ گرم ہو رہا تھا آنٹی نے کی آنکھوں میں گلابی ڈورے سے تیرنے لگے آنٹی نے اپنا بازو چھڑوانا چاہا میں نے مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا آنٹی کے چہرے پر شرمندگی کی لالی اور ہلکا سا پسینہ تر آیا تھا آنٹی کے چہرے پر التجا تھی کہ چھوڑ دوں پر میں نے نہیں چھوڑا آنٹی نے مٹھی تو دبا رکھی تھی جس میں پیسے تھے انٹی نے اپنے دوسرے ہاتھ کو اٹھا کر میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچا پر میری گرفت مضبوط تھی آنٹی کے ہلکے ہلکے ناخن بڑھے ہوئے تھے انٹی نے اپنے ناخن میرے ہاتھ پر دبا دئیے آنٹی کے ناخن مجھے چبھ سے گئے جس سے مزے کی ایک لہر میرے اندر اتر سی گئی لیکن میں نے چھوڑا پھر بھی نہیں آنٹی نے کانپتی آواز میں مجھے پکارا یاسر،،،، باہں چھوڑڑر اور زور لگا کر سسسسسسییی کرکے بولی چھوڑ وی آنٹی کے ناخن میرے بازو میں اتر رہے تھے ہر میں چھوڑنا نہیں چاہتا تھا آنٹی کے چہرے پر پسنے چھوٹ رہے تھے اسی لمحے دروزی کھلا اور دیمی اندر آگیا جس سے ہم دنوں چونکے دیمی نے مجھے اپنی ماں کا بازو پکڑ ہوئے دیکھ لیا تھا دینی ابھی۔ یا نیا جوان ہو رہا تھا اسے سیکس کا تو شاید پتا ہو لیکن اتنی باریکی کا ابھی اسے اندازہ نہیں تھا یا شاید اسے اندازہ ہوا ہو کہ میں کیوں اس کی ماں کا بازو پکڑ رکھا تھا دیمی کے آنے پر ہم دونوں چونک کر ایک دوسرے کو چھوڑ دیا دیمی نے کچھ بولنے سے پہلے جائزہ لیا کہ کیا ہو رہا تھا تب تک ہم ہم پوزیشن پر جا چکے تھے دیمی بولا امی باجی بلا رہی اے وہ بولی اچھا اور اسی انداز سے اٹھی اور تیزی ے چلی گئی میرے تو پسینے چھوٹ گئے آنٹی صباحت کے بازو میں چبھے ناخن اب درد کرنے لگے تھے میں تو درد سے تڑپ سا گیا لیکن اس مزے دار درد کو میں نے اپنی غذا سمجھا آنٹی پیسے تو لے گئی تھی ساتھ میں میرا پیغام اب واضح پہنچ چکا تھا اس تک کہ میں کیا چاہتا ہوں اب اس پر منحصر تھا کہ وہ کیا کرتی ہے میرا دل خوشی سے جھوم رہا تھا کچھ دیر میں پڑا رہا اور جلدی ہی سو گیا۔ صبح جاگ ہوئی تو مجھے سکول کےلیے نہانا تھا میں اٹھا تو دیمی اندر آیا دیمی کو کہا کہ مجھے نہانا ہے اس نے کہا واشروم میں نہا لیں میں اٹھا اور قمیض اتار کر اندر کی طرف واشروم کی طرف گیا تو سامنے واشروم سے آنٹی صباحت پیشاب کرکے نکلتی نظر آئی آنٹی نے دوپٹہ نہیں لے رکھا تھا وہ اسی کسے لباس میں تھی جس میں آنٹی صباحت کا انگ انگ تن کر کھڑا صاف نظر آ رہا تھا میں آنٹی کو دیکھ کر مچل سا گیا آنٹی کی نظر میرے ننگے بدن پر پڑی اس نے میت جسم کو گھورا اور ایک نظر مجھے دیکھ کر نظر جھکا لی دیمی میرے ساتھ تھا اس لیے کوئی بات نا ہو سکی میں واشروم چلا گیا نہا کر نکلا تو دیمی کھڑا تھا اسے بھی نہانا تھا میں نکلا تو میں نے گھر کا جائزہ لیا گاؤں کے گھر کافی کھلے ہوتے ہیں تو ان کا گھر بھی کافی کھلا تھا بیچ میں کافی صحن تھا اور پیدل چل کر آگے دو کمرے تھے جن کے آگے چھوٹا سا برآمدہ تھا ایک طرف کیچن تھی گھر تو پرانی طرز کا تھا پر پر اتنا پرانا نہیں تھامین اندازہ لگاتا ہوا اندر آیا تیار ہوا تو اتنے میں دیمی ناشتہ لایا میں ناشتہ کرکے چائے پی کر سکول آگیا رات والی بات مجھے ستا رہی تھی کہ پتا نہیں کچھ برا نا ہوا جئے چھٹی ہوئی تو میں گھر آیا میں نے کپڑے بدلے اور واشروم چلا گیا میں دروازے سے نکلا ہی تھا کہ سامنے سے ایک لڑکی واشروم سے نکلتی نظر آئی واشروم سے نکلتے ہوئے وہ اپنا قمیض سیدھا کرتی ہوئی نکلی تھی جس سے اس کا پیٹ باہر مجھے نظر آگیا گورا پیٹ دیکھ کر میں چونک کر رک گیا میری نظر اس سے ملی تو وہ چونک کر گھبرا سی گئی اس نے بھی دوپٹہ نہیں ہوا تھا جس سے میں اسے دیکھ کر مچل گیا وہ بھی ایک کسے ہوئے پرانے لان کے لباس میں تھی جس میں اس کا انگ انگ صاف نظر آ رہا تھا میں میری نظر اس کے تنے مموں پر پڑی تو میں مچل کر رہ گیا آنٹی صباحت کی جسامت کی ہو بہو لڑکی میرے سامنے تھی سونے پر سہاگا اس نے برا نہیں ڈالی ہو تھی شاید اس کے پاس برا پہننے کو تھی ہی نہیں جس سے اس کے مموں کے موٹے نپلز صاف نظر آ رہے تھے میں آنکھیں پھاڑے اس کے مموں کو غور رہا تھا وہ جلدی سے آگے ہاتھ دھوئے میری نظر اس سے ملی تو اس کا رنگ اڑا ہوا تھا میں سمجھ گیا یہی نصرت ہے اس کی جسامت آنٹی کی طرح تھی بھرا ہوا جسم گداز ابھرے ہوئے تن کر کھڑے ممے چوڑی باہر کو نکلی گانڈ تنے ہوئے نپلز میں یہ دیکھ کر مچل رہا تھا وہ جلدی سے وہاں سے چلی گئی میں تو اس کے خمار میں رہ گیا میں واشروم سے ہوکر واپس آیا میرا ذہن ماؤف تھا لن پھٹ رہا تھا بے اختیار میرا ہاتھ لن پر چلا گیا میں چارپائی پر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر لن کو شلوار کے اندر ہی مسلتا ہوا آنٹی اور نصرت کو یاد کرنے لگا نیرا لن تن کر کھڑا گا میرا کہنی جتنا لمبا اور موٹا لن شلوار میں بھی پورا کلہ لگ رہا تھا ابھی ایک منٹ ہی ہوا گا لن مسلتے ہوئے کہ اچانک دروازہ کھلا اور آنٹی اندر آگئی سامنے میں ہاتھ میں لن کے کر مسل رہا تھا آنٹی میرا کہنی جتنا لن دیکھ کر چونک کر منہ پر ہاتھ رکھ کر گھٹی سی چیخ مار کر کراہ گئی میں چیخ کی آواز سے چونکا سامنے آنٹی کو اپنا لن تاڑتے دیکھ کر میں اچھلا اور لن جلدی سے چڈوں میں دبا لیا آنٹی نے مجھے غورا اور گھونٹ بھر کر اندر آکر بولی بندہ دروازہ تے بندکر لیندا اور کھانا رکھ کر چلی گئی میں شرم سے پانی پانی ہوگیا آنٹی چلی گئی تو میں سر پکڑ کر رہ گیا کہ یہ کیا ہوگیا آنٹی کے سامنے لن نکال کر آنٹی کو بھی برا لگا ہوگا میں اٹھا اور کھانا کھانے لگا کھانا کھا کر فری ہوا دیمی برتن لے گیا عصر سے پہلے چائے کا وقت تھا میں اندر لیٹا تھا کہ اتنے میں دروازہ کھلا اور آنٹی صباحت اندر آگئی اس کے ہاتھ میں چائے تھے انٹی نے چادر کی بجائے دوپٹہ لے رکھا تھا جو آنٹی نے اپنے مموں پر سامنے سے رکھا ہوا تھا آنٹی کا سر ننگا تھا آنٹی کے جسم کو دیکھ کر میں آٹھ سا بیٹھا آنٹی مجھے دیکھ کر ہلکا سا مسکرائی اور قریب آ کر چائے میری طرف بڑھائی میں آنٹی کے دوپٹے میں سے نظر آتے تنے ہوئے مموں کو دیکھ رہا تھا آنٹی بولی چائے پی لئو جناب آنٹی کے انداز میں شوخی تھی میں سمجھ گیا کہ آنٹی کیا چاہتی ہے آنٹی مجھے چائے پکڑا کر مڑنے لگی تو میں نے آنٹی کا بازو پکڑ لیا آنٹی بازو پکڑتے ہی مڑی تو آنٹی کی لمبی گے میرے سامنے آگئی نیچے موٹی ابھری گانڈ تھرک گئی آنٹی بولی وے کملیا چھوڑ مینوں میں ہنس دیا اور اٹھ کر کھڑا ہو کر آنٹی صباحت کے پیچھے آگیا آنٹی اپنا چھڑواتی ہوئی بولے وے کنجرا آرام کر میں مسکرا کر آنٹی کو کھینچ کر اپنے سینے لگا لیا آنٹی کا چوڑا جسم پیچھے سے میرا ساتھ لگ گیا آنٹی تو تپ رہی تھی مجھے لگا کہ آگ سے جا ٹکرایا ہوں آنٹی کی گانڈ میرے ساتھ لگ گئی آنٹی بولی یاسر پاگل نا بن کوئی آ جاسی گیا میں آنٹی صباحت کی گت جو ہاتھ ڈال کر پیچھے کھینچا تو آنٹی کی کراہ نکل گئی آنٹی نے نا مزاحمت کی نا میرا ساتھ دیا بس مجھے منع کرتی ہوئی بولی کملیا کوئی آجاسی میں نے آنٹی کی کمر میں ہاتھ ڈالا اور اپنے ساتھ لگا کر اپنے ہونٹوں کو آنٹی کے گال پر رگڑ کر گال چوس لی جس سے آنٹی نے سسک کر کراہ بھری اور میرے ساتھ خود ہی لگ گئی میں نے ہاتھ ڈال کر اپنا لن آنٹی کی گانڈ میں دبا کر آنٹی کے ہونٹوں کو دبا کر چوستا ہوا ہلکے ہلکے دھکے مارنے لگا آنٹی بھی سسکتی ہوئی میرے ہونٹ دبا کر چوستی ہوئی مچلنے لگی میرا لن آنٹی صبو کے چڈوں میں گھس گیا جسے آنٹی نے دبا لیا میں ہلکے ہلکے دھکے مارتا آنٹی صبو کے چڈوں جو چودنے لگا آنٹی کے چڈوں کی گرمی سے میں نڈھال ہوکر کر آنٹی کا دوپٹہ کھینچ کر آنٹی کے موٹے تنے مموں کو دبا کر مسلنے لگا جس سے آنٹی بھی سسکتی ہوئی کراہ سی آنٹی نے برا نہیں ڈالی ہوئی تھی جس سے آنٹی کے مموں کے اجڑے نپلز میرے ہاتھ میں آگئے میں نپلز دبا کر مسکرا ہوا بے قابو ہوگیا آنٹی کے چڈوں نے میرے لن کو نڈھال رکھے میری جان کھینچ لی میں کراہ کر تڑپ گیا مجھے ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوئی ساتھ ہی میرے لن نے ایک لمبی پچکاری آنٹی کے چڈوں میں ماری اور میں آنٹی کے ہونٹوں کو دبا کر چوستا ہوا کرلا سا گیا میرا جسم کانپنے لگا آنٹی کی بھی کراہ نکلی اور آنٹی کا جسم بھی جھٹکا کھانے لگا آنٹی بھی فارغ ہونے لگی فارغ ہوتے ہوئے مجھ سے کھڑا نا ہوا گیا میں آہیں بھرتا آنٹی کو کمر سے پکڑ کر دبا کر چارپائی پر بیٹھ گیا آنٹی بھی جھٹکے کھاتہ میرے ہونٹ چوستا میری جھولی میں بیٹھ گئی اسی لمحے دروازہ کھلا اور دیمی اندر آگیا سامنے اپنی ماں کو میری جھولی میں بیٹھ کر میرے ہونٹ چوستا دیکھ کر جھٹکے مار کر فارغ ہوتا دیکھ کر دینی چونک کر رک گیا میرے ہاتھ اس کی ماں کے مموں کو دبوچ رکھے تھے اپنی ماں کو میری جھولی میں بیٹھ کر مجھے چومتا دیکھ کر وہ سمجھ گیا کہ کیا ہو رہا ہے ہم بھی تب تک چونک گئے ہم فارغ ہو کر بس سنبھل ہی رہے تھے کہ دیمی آگئا دیمی کے آنے پر آنٹی چونک کر جلدی سے میری جھولی سے اٹھ گئی ہم دونوں گھبرا سے گئے دیمی ایک لمحے تک خاموش رہا پھر وہ سمجھ گیا اور بولا امی باجی بلا رہی اور جلدی سے ہٹ گیا آنٹی کھڑی تھی ابھی اس کے حواس بحال نہیں ہوئے تھے اور اس کا جسم ہلکے ہلکے جھٹکے مار رہا تھا سسکتی ہوئی بولی تینوں آکھیا وی ہے کوئی آجاسی گیا اور واپس پھر میری جھولی میں بیٹھ کر حواس بحال کرنے لگی میں آگے ہوکر آنٹی صبو کے ہونٹ چوستا ہوا ممے مسلنے لگا بغیر برا کے ممے دیکھ کر میں بولا آج برا لاہ کے آئی ہیں کی ارادہ ہا آنٹی نے ہانپتے ہوئے مجھے دیکھا اور مسکرا کر بولی وے نہیں وے کوئی ارادہ ناہ میں بولا فر وہ بولی برا ہے ہی کوئی نا میں سمجھ گیا کہ ان لوگوں کے پاس برا نہیں ہے میں بولا کیوں جس پر وہ مسکرا دی اور بولی بس ہے جے نہیں میں بولا میں لیا دیواں جس پر وہ ہنس دی اور بولا لیا دے میں بولا سائز کی ہے وہ اٹھ کر جاتی ہوئی بولی فر دساں گی مڑ کدائیں اندا ہئی دیمی وہ اٹھ کر چلی گئی میرا دل مزے سے باغ باغ ہوگیا جو میں چاہتا تھا وہ اتنی جلدی ہو جائے گا سوچا نہیں تھا میرا دل خوشی سے جھوم رہا تھا میں چائے پینے لگا اتنے میں دیمی آیا تو اندر آ کر بولا استاد جی کلاس دے لڑکے آگئے ہینڑ میں بولا ہلا اوراں آ وہ چلتا ہوا آگے آیا اس کا چہرہ شرم سے لال تھا منہ جھکا کر کھڑا ہوگیا میں نے بٹوے سے دو سو روپے نکال کر اسے پکڑائے اور بولا دیمی کسے نوں نہیں پتا لگے کہ اسی کی کر رہے ہاسے اس نے ہاں میں سر ہلایا میں بولا ہور وی پیسے ملن گے چپ رہیں تاں وہ بولا جی استاد جی ٹھیک ہے میں نے دو ہزار روپے نکال کے اسے دئیے اور بولا جا کے اپنی امی نو دیویں اکھیں استاد اوراں دتے نے وہ بولا ٹھیک ہے اور چلا گیا میں اٹھا اور واشروم سے ہوکر باہر آیا تو دیمی اے پرچی لایا جس پر دو تین سائز کی برا لکھی ہوئی تھیں میں سمجھ گیا کہ آنٹی کی بیٹیوں کو بھی برا کی ضرورت ہے کیونکہ پہلے جب نصرت میرے سامنے آئی تو وہ بھی برا کے بغیر تھی میں باہر آیا بچے آگئے ان کو شام تک پڑھایا پھر وہیں پاس ایک چھوٹا قصبہ تھا میں وہاں گیا اس میں دکان تھیں انڈر گارمنٹس کی میں وہاں سے مختلف برا لے کر آیا میں واپس آیا تو شام کافی ہو چکی تھی اتنے میں آنٹی اندر آئی وہ کھانا لائی تھی اسی طرح آگے دوپٹہ ڈال رکھاتھا مجھے دیکھ کر مسکرائی اور کھانا رکھ کر بولی کدے گیا ہائیں میں بولا تیرے کم ہی گیا ہاس اور شاپر اسے پکڑا دیا آنٹی بولی اے تے کم چنگا کیتا ہئی چھوریں بڑے دن تو بغیر برا توں وادیاں ہانڑ میں مسکرا کر کھانا کھانے لگا آنٹی پاس ہی خاموش بیٹھی تھی میں بولا کیوں چپ ہو وہبولی بس ایویں ہی میں بولا وت وی وہ مسکرا دی اور بولی پیسے کیوں دتے نہیں دیمی دے ہتھ میں مسکرایا کیوں تیری محنت ہا آنٹی مجھے دیکھ کر ہنس دی اور بولی میری کی محنت ہا میں بولا ساری تیری ہی محنت ہا آنٹی مسکرا دی میں بولا ہلا راتیں ملسیں آنٹی نے نظر جھکا لی اور بولی اتنا کافی نہیں میں بولا نہیں آنٹی بولی اگے وی میں میں تیرا ساتھ دتا ہنڑ ہمت نہیں میں بولا جتنے پیسے اکھسیں دیساں گیا آنٹی چپ ہو گئی کچھ نا بولی میں بولا ہک وار ملساں صرف وہ بولی نہیں آگے دیمی ویکھ لیا میں بولا آؤ کجھ نہیں اکھدا میری ذمہ داری وہ خاموشی سے مدہوش نظروں سے مجھے غورتی رہی میں بولا چل صرف ہک وار میرے بسترے اچ میرے نال لیٹ جائیں ہور کجھ نہیں کردا جس پر وہ مسکرا دی اور بولی تیرے نال لیٹ گئی تے وت توں کوئی مینوں چھڈنا میں ہنس کر بولا میں ایڈا وی میں کوئی نہیں ودا تیری اجازت تو بغیر آگے نا ودھساں اس پر وہ ہنس دی اور بولی توں رہن دے میں بولا ویکھ لئے وہ کچھ نا بولی اور چپ بیٹھی رہی میں کھانا کھا چکا تووہ بولی صرف تیرے کول سوساں گئی میں بولا ہاں صرف سونا ہے آنٹی بولی کریں کجھ نا جے کرسیں تے وت میں نیڑے نہیں آنا میں بولا وعدہ پیسے کتنے لیسیں میرے کول سونڑ دے وہ بولی کوئی نہیں جتنے دے دیویں میں مسکرا دیا اور آگے ہوکر آنٹی کے ہونٹ چوم لیے آنٹی شرما کر اٹھ کر کھانا لے کر چلی گئی کچھ دیر بعد چائے دیمی لایا میں چائے پی کر لیٹ گیا تھوڑی دیر بعد دس بجے کے قریب دروازہ کھلا اور آنٹی صباحت اندر آ گئی میں تو مچل کر جلدی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا اس نے دروازہ بند کیا اور اندر میرے پاس آ گئی میں بے قراری سے کھڑا تھا پاس آتے ہی آنٹی صبو کو میں نے پکڑ کر اپنے ساتھ لگا لیا آنٹی سسک کر بولی وے نہیں توں صرف آکھیا کول سونا ہے کرنا کجھ نہیں میں بولا میری جان اے تے گل کوئی نا ہوئی وہ مسکرا کر بولی کیوں آنٹی صبو میرے ساتھ لگی تھی صبو کے ممے میرے سینے میں دبے تھے میں نے دوپٹہ کھینچ کر اتار کر ایک سائیڈ پر رکھ دیا وہ بولی آگے کر نہوں لیا میں بولا او تے اتو اتو کیتا اے میں بولا ہلا وت آجا بسترے اچ تے یہ کہ کر آنٹی میرے بستر میں چلی گئی میں نے قمیض اتارا اور اوپر سے ننگا ہوکر آنٹی کے ساتھ بستر میں گھس گیا آنٹی مجھے ننگا دیکھ کر بولی وے اے کی میں بولا کی ہویا ننگا کیوں ہویا ایں میں مسکرا کر بولا اتنا تے ہوونڑ تے دے تیرے جسم دا لمس محسوس تے ہووے آنٹی مسکرا کر بولی بڑا بے حیا ہیں میں مسکرا کر اندر گھس کر آنٹی صبو کو باہوں میں بھر کر سینے سے دبوچ لیا میرا لن تن کر کھڑا تھا جو آنٹی صبو کے چڈوں میں گھس گیا آنٹی بولی وے کی کروں ہیں توں تے بے حیائی تے آگیا ہیں میں مسکرا کر بولا میری جان کیوں فکر کر رہی ہیں کجھ نہیں اکھدا اور آگے ہوکر آنٹی کے ہونٹوں کو دبا کر چوسنے لگا آنٹی میرے ہونٹ چوستی ہوئی میرا ساتھ دینے لگی میں بھی آنٹی کے چڈوں میں لن مسلنے لگا آنٹی کو بھی مزہ آنے لگا آنٹی کے ممے میرے سینے میں دبے تھے میں نے ممے پکڑ کر دبوچ لیے جو کے برا میں قید تھے میں بولا برا پائی ہوئی ہے وہ بولی ہاں میں بولا کیوں آنٹی بولی بس میری مرضی میں مسکرا کر بولا آنٹی جی میرے کول آندیاں ہویاں آگے تو برا توں بغیر آونا آنٹی مسکرا کر بولی کیوں کوئی وجہ میں ہنس کر بولا بس میری مرضی وہ بولی تیری کیوں مرضی میرا جسم ہے میری مرضی میں مسکرا کر آنٹی کے ہونٹ چومتا ہوا لن آنٹی کے چڈوں میں مسلتا ہوا قمیض اوپر کرکے آنٹی کے ممے ننگے کرنے کی کوشش کی لیکن قمیض آنٹی نے پکڑ کر نیچے کردیا اور بولی اتو اتو ہی کر میں بولا انج تے مزہ نہیں ہونا آنٹی بولی میری تیرے کول سونڑ دی گل ہوئی ہا اس کم دی نہیں ہوئی سی میں مسکرا کر بولا اے وی کر لئے حرج تے کوئی نہیں آنٹی بولی جی نہیں میں بولا آنٹی جی میرا نال کھول کے لن تے پکڑ ہک وار آنٹی بولی سنے لتر آر ودھدا جا رہیا ایں آنٹی تھوڑی سخت لہجے میں بولی تو میں خاموش ہوگیا میں سمجھ گیا کہ آنٹی پیسوں کےلیے آئی ہے آنٹی کا اپنا دل شاید نہیں ہے میں آنٹی کے رویے پر تھوڑا افسردہ ہوا اور خاموش ہوکر لن رگڑتا ہوا مزہ لینے لگا صبو کو بھی احساس ہوا کہ زیادہ تلخ لہجے میں بات کر دی ہے جس پر وہ شرمندہ ہوگئی اور شرمندگی سے آگے کچھ نا بول سکی میں دھکے مارتا ہوا لن صبو کے چڈوں میں رگڑنے لگا تیزی سے آنٹی کو شاید اچھا نہیں لگا میرے سے یوں بات کرنا جس پر وہ شرمندہ سی تھی میں نے جلدی جلدی لن کو رگڑ کر فارغ ہوگیا آنٹی بھی سسکتی ہوئی جلدی سے فارغ ہو گئی میں اور آنٹی خاموشی سے کچھ دیر پڑے رہے میرا دل بجھ سا گیا تھا کہ آنٹی پیسوں کےلیے کر رہی ہے اس کا دل نہیں ایک پارٹنر اگر سیکس میں ساتھ نا دے تو دوسرے کو بھی مزہ نہیں آتا اس لیے مجھے خاص مزہ نہیں آیا آنٹی شرمندگی سے منہ دوسری طرف کرکے لیٹ گئی میں نے پیچھے ہوکر اٹھا اوراپنے بٹوے سے پانچ ہزار نکال کر آنٹیکے برا میں مموں کے بیچ ڈال دئیے اور اٹھ کر واشروم چلا آیا میں واشروم سے نکلا تو آنٹی بھی واشروم میں آئی میں کمرے میں آکر انتظار کرنے لگا کہ شاید آئے لیکن آنٹی کو پیسوں سے غرض تھا وہ پیسے لے کر تتر ہو گئی مجھے بڑا افسوس ہوا میں نے سوچا کہ اس طرح تو میں پیسے ضائع ہی کر رہا ہوں چھوڑو جب دل ہوا آنٹی کو چار پیسے دے کر پانی نکال لیا کروں گا یہ سوچ کر آنکھ لگ گئی صبح اٹھا تو طبیعت بجھی سی تھی میں نہا کر نکلا تو دیمی کھانا لایا چائے پی کر میں سکول آگیا دیمی آج سکول نہیں آیا اسے اپنی ماں کے ساتھ بازار جانا تھا ظاہر بات ہے آنٹی کو کافی پیسے جو مل گئے تھے خریداری تو بنتی تھی سکول سے واپس آیا تو کمرے کو کافی درستگی سے صاف ہوا پڑا تھا ہر چیز بڑی اکیلے سے رکھی تھی مجھے لگا شاید آنٹی نے کر دیا ہو لیکن آنٹی تو بازار تھی اور ابھی آئی نہیں تھی پھر یہ کس نے کیا ہو میرا خیال نصرت کی طرف گیا تو میرا دل مچل سا گیا وہی نصرت جو کل نظر آئی تھی وہ بھی کافی خوبصورت تھی ماں سے زیادہ ہی خوبصورت تھی میرے لن نے انگڑائی لی پر میرا موڈ نہیں تھا رات سے ہی موڈ آف تھا اس لیے میں لیٹ کر آرام کرنے لگا اتنی دیر میں دیمی اور اس کی ماں آگئے کچھ دیر بعد کھانا آیا کھانا کھا کر میں لیٹ گیا تھوڑی دیر میں اونگ آگئی میں سو گیا سوتے ہوئے میری آنکھ کھلی مجھے لگا کہ دروازہ کھلا اور کوئی آیا لیکن اندر کوئی نہیں آیا آنٹی تھی جو دروازے میں مجھے سویا دیکھ کر مڑ گئی میرا بھی موڈ نہیں تھا وگرنہ پہلے تو دل کرتا رہتا تھا کہ آنٹی پاس ہی رہے آنٹی مڑ گئی میں پھر سو گیا عصر کے وقت جاگا دیمی چائے لایا چائے پی کر کچھ دیر فریش ہوا اور پھر بچوں کو پڑھانے لگا شام کو فری ہوا کھانا وغیرہ کھا کر کچھ دیر اقبال صاحب کی طرف چلا گیا گپ شپ لگا کر واپس آیا تو میں آ کر لیٹ گیا اتنے میں آنٹی صباحت دروازہ کھول کر اندر آئی تو میں بستر میں لیٹا ہوا تھا وہ آ کر میری والی چارپائی پر میرے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی اور بولی ناراض ہیں میں بولا نہیں ناراض تے کوئی نہیں وہ بولی فر کی آج سارا دن لفٹ ہی نہیں کروائی ہنڑ وی نہیں بلایا میں مسکرا کر بولا ایویں موڈ نہیں وہ بولی کیوں اور ہاتھ آگے میرے ماتھے پر رکھ کر بولی موڈ کیوں نہیں طبیعت تے ٹھیک ہے وہ آگے ہوئی تو اس کا دوپٹہ ہٹ گیا جس سے نیچے اس کے تنے مموں کے ابھرے ہوئے نپلز قمیض میں سے نظر آنے لگے یہ دیکھ کر میں مچل گیا آنٹی صبو میرے لن کے ساتھ کمر لگا کر بیٹھی تھی جس سے میرے لن نے آنٹی کی گرمائش سے سر اٹھایا آنٹی کے ممے دیکھ کر میرے لن نے انگڑائی لی جس کو آنٹی کی کمر نے محسوس کر لیا آنٹی ہنس کر بولی توں تے اکھ رہیا ہائیں تیرا موڈ نہیں میں مسکرا کر بولا میرا موڈ تے ہوندا پر توں ساتھ نہیں دیندی آنٹی میرے اوپر جھک سی گئی اور بولی یاسر سوری تینوں تے پتا نہیں پر میں آج تک اپنے مرد توں علاؤہ کسے ہور کول نہیں ستی رات توں جو کجھ منگیا بس مینوں تھوڑا اچھا نہیں لگا اس توں سوری پچھے مینوں وی لگا کہ غلط کیتا صباحت میرے سینے کے اوپر اپنے ممے دبا کر میرے ہونٹ چوم کر بولی آج شکائیت دا موقع نا دیساں گئی میں اس کی بات پر ہنس دیا اور بولا سچی وہ بولی وعدہ میں بولا تے فر اندر آ بسترے اچ وہ اٹھی اور اپنا دوپٹہ سائڈ پر پھینکا اور میں نے اٹھ کر قمیض اتار دیا تو صباحت جلدی سے میرے ساتھ بستر میں گھس کر میرے سینے سے لگ کر میرے ہونٹ چومنے لگی میں نے اس کے قمیض کو ہاتھ ڈال کر اوپر کھینچا اور صباحت نے اپنا قمیض پکڑ کر خود کھینچ دیا صباحت کے ابھرے ہوئے تن کر کھڑے موٹے ممے میرے سامنے ننگے ہوگئے میں گلابی نپلز دیکھ کر ان پر ٹوٹ پڑا اور پوری شدت سے چوستا ہوا نچوڑنے لگا صباحت سسکتی ہوئی مچلنے اور میرا سر دباتی ہوئی ہاتھ نیچے کیا اور میرا نالا کھول کر میرا لن کھینچ کر باہر نکال کر مسلتی ہوئی سسکنے لگی صباحت کے نرم ہاتھوں کا لمس اپنے لن پر محسوس کرکے میں تڑپ سا گیا اور دبا کر ممے مسل کر چوسنے لگا صباحت نے میرا لن دبا کر اپنے چڈوں میں بھر لیا اور مسلنے لگی میں نے اپنا ایک ہاتھ نیچے کیا اور صباحت کی شلوار تھوڑی نیچے کھینچ کر لن اندر ڈالنا چاہا تو صباحت نے اپنی شلوار خود ہی چتڑوں سے نیچے کردی میں نے یہ دیکھا تو موقع سمجھ کر اپنا پاؤں صباحت کی شلوار میں ڈالا اور نیچے دبا کر صباحت کی شلوار پیروں تک اتار دی جس دیکھ کر صباحت بھی مچل گئی میرے ساتھ لگی صباحت فل ننگی ہوچکی تھی صباحت کی پھدی کی گرمی میرے لن تک محسوس ہو رہی تھی میرا دل کیا کے پھدی کا نظارہ لوں میں بولا صبو پھدی تے وکھا صبو بولی نہیں جی میں بولا صرف ویکھساں ہور کجھ نہیں کردا صبو نے مجھے غورا اور مسکرا کر بولی بڑا تیز ہیں میں بولا وعدہ صرف ویکھساں وہ بولی توں اپنے وعدے تے قائم نہوں رہندا اور سیدھی ہوکر بولی ویکھ لئے تے صرف ویکیھں مین آٹھ کر اور ہوکر اپنی شلوار اتار دی وہ بولی شلوار کویں لاہ رہیاں ایں میں بولا صرف لاہ رہیا کردا کجھ نہیں صبو کا چہرہ شرم سے لال ہوگیا اس نے آنکھیں بند کرلیں صباحت آج تک شوہر کے علاؤہ کسی کے سامنے ننگی نہیں ہوئی تھی اس لیے وہ شرما رہی تھی میں نے صباحت کے پیروں میں آکر اس کی ٹانگیں اٹھا کر کھول دیں جس سے صباحت کی کھلے ہونٹوں والی پھدی میرے سامنے تھی کم استعمال سے دہانہ ابھی تک گلابی تھا اور پھدی کا منہ ابھی تنگ ہو رہا تھا میں یہ منظر دیکھ کر رہ نا سکا رہ صباحت بھی نہیں پائی اور بے اختیار پھدی کا دہانہ کھولتی بند کرتی پانی چھوڑ رہی تھی میں سمجھ گیا کہ یہ فل گرم ہے سٹ لگانی چاہئیے میں نے ہاتھ آگے کرکے انگوٹھا دبا کر پھدی کے ہونٹوں کو محسوس کیا صباحت لمس محسوس کرکے کراہ کر کانپتی ہوئی بے اختیار گھٹنے اٹھا کر سینے سے لگا لیے جس سے اس کی پھدی میرے سامنے واضح ہو گئی میرا لن جھٹکے کھاتا بے قابو ہونے لگا اتنے عرصے بعد کسی مرد کے ہاتھ کو پھدی پر محسوس کرکے صباحت پگھل گئی اور کراہ کر بولی اففف اماںںں مر گئی صباحت کی پھدی سے پانی کی دھار سی نکل گئی میں اوپر صباحت کے اوپر آکر صباحت پر جھکا اور اس کے ہونٹوں کو چوم لیا میرا لن بے اختیار صباحت کی پھدی سے ٹچ ہوا تو اس کی ہلکی سی کرلاٹ نکلی ساتھ ہی صباحت نے جھرجھری بھر کر کانپنے لگی اس کی ہمت جواب دے رہی تھی اتنے عرصے بعد کوئی لن اس کی پھدی کے اتنا قریب تھا اس کا ضبط ٹوٹ گیا تھا اور وہ تیز تیز سانس لیتی ہانپنے لگی رہا مجھ سے بھی نا گیا میں نے صباحت کی ٹانگ اٹھا کر اپنے کادھ پر رکھ کر نیچے صباحت کے اوپر جھک گیا جس سے صباحت دوہری ہوکر کانپ گئی میں نے لن صباحت کی پھدی کے دہانے سے پکڑ کر سیٹ کیا تو صباحت بھی سمجھ گئی جس سے بے اختیار صباحت کانپتی آواز میں ہلکی ہلکی آواز سے کرانے لگی جیسے اس کے زخم پر مرہم رکھ دیا ہو اس کا جسم تھر تھر کانپنے لگا دس سالسے صباحت کی پھدی لن کو ترس رہی تھی آج اس کی تراس پوری ہونے لگی تو وہ برداشت نہیں کرپارہی تھی اس کا جسم تھر تھر کانپنے لگا میں نے لن کو دہانے پر دبا کر گانڈ کا زور لگا تو میرا لن کا ٹوپہ پچ کی آواز سے صباحت کی پھدی کو کھولتا ہوا اندر اتر گیا صباحت نے تڑپ کر بے اختیار کوہاٹ ماری صباحت کی کوہاٹ سینے سے ابھر کر کمرے میں گونج گئی میں ڈر کر رک کر منہ نیچے کیا اور اور اس کا منہ دبا لیا صباحت بے اختیار تڑپتی ہوئی صدا رہی تھی اس کا تیز سانس فضا میں صاف سنائی دے رہا تھا وہ شوہاٹ مار کر کانپ رہی تھی میں نے زور سے منہ قابو کرلیا صباحت کی پھدی کا دہانہ میرے لن کو قابو کرکے اپنی طرف کھینچنے لگا مجھ سے بھی نا رہا گیا میں نے بے اختیار گانڈ زور سے دباتے ہوئے اپنا کہنی جتنا لن صباحت کی پھدی میں دبا دیا جس سے میرا لن صباحت کی پھدی کو کھولتا ہوا ایک جھٹکے میں پورا جڑ تک صباحت کی پھدی میں اتر گیا لن اترتے ہی صباحت بے اختیار زور سے سینہ اٹھا کر زوردار لمبی چیخ ماری اور سانس کھینچ کھینچ کر لمبی لمبی غراہٹیں مارتی چلاتی گئی جو میرے منہ میں دب گئی تھیں صباحت کا جسم زور زور سے تڑپنے لگا اور میرے لن کو پھدی دبوچ کر مسلنے لگی صباحت کے اندر آگ لگی تھی کئی سالوں سے بھڑکتی آگ میرا لن جلا رہی تھی صباحت بے قابو ہوکر بے اختیار تڑپ رہی تھی میں نے لن کھینچا اور ہلکے ہلکے دھکے مارتا لن صباحت کی پھدی میں اندر باہر کرتا صباحت کی پھدی کو چودنے لگا مسلسل بند پڑی پھدی کا دہانہ تنگ ہوگیا تھا جس نے میرا لن کو دبوچ رکھا تھا اور میں مزے سے نڈھال تھا تین چار دھکوں پر ہی صباحت بے اختیار کرکار مار کر ہر سانس کی جگہ اب غراتی ہوئی تڑپ کر پھڑکنے لگی صباحت کو اتنا مزہ آیا کہ وہ اب باقاعدہ بڑھکنے لگی تھی صباحت کے سینے سے بڑھکنے کی آواز نکل رہی تھی میں نے آج تک ایسی گرم عورت نہیں یکھ تھی بڑھکنے کے ساگ ہی صباحت نے کمر اٹھا کر تڑپ کر جھٹکے مارنے شروع کردیے صباحت کی پھدی کی گرمی میری جان بھی کھینچ رہی تھی میں نے بے اختیار گانڈ اٹھا کر تیز تیز دھکے مارتا ہوا تیزی سے صباحت کو چودنے لگا اس کے ساتھ ہی صباحت کا جسم اکڑ گیا اور بے اختیار ایک لمبے جھٹکے کے ساتھ ہی صباحت کی پھدی نے میرے لن پر پانی کا ایک لمبا فوارہ ماری اور ساتھ ہی اس کا اکڑا جسم جھٹکے کھا کر فارغ ہونے لگا صباحت کو فارغ ہوتا دیکھ کر میں رک گیا صباحت بڑھکتی ہوئی فارغ ہورہی تھی اس کی آوازیں میں دبا رہا تھا دو منٹ میں صباحت فارغ ہوتی پر سکون ہوکر آہیں بھرنے لگی دو منت میں حواس بحال ہوئے تو بولی افففف ظالمممم کی کر دتا ہئی آج تے میرے اندر ٹھڈ پا دتی ہئی میں اس کو چومتا ہوا بولا وت ویکھ لئے مزہ آیا کہ نہیں وہ بولی ایسا ویسا آج تے جو مزہ آیا آگے کدی نہیں آیا یہ سن کر میں اس کی گال چوسنے لگا دو منٹ بعد وہ میری کمر دبا کر مجھے پھر چودنے کا اشارہ کیا میں نے ٹانگیں دبا کر گانڈ کھینچ کر تیزی سے دھکے مارتا صباحت کو چودنے لگا صباحت آہیں بھرتی کرتی ہوئی میرا ساتھ دے رہی تھی میں پوری شدت سے دھکے مارتا اسے چود رہا تھا دو منٹ میں ہم پھر فارغ ہوکر نڈھال پڑے تھے میں کچھ دیر پڑا رہا صباحت کا دل ابھی تک بھرا نہیں تھا پانچ منٹ بعد اس نے پھر مجھے گرم کیا اور میں نے پھر پوری شدت سے کس کس کر دھکے مارتا صباحت کو چودتا رہا ہم دنوں تھک کر نڈھال تھے صباحت کا جسم اتنے عرصے بعد چدائی سے تھکن سے چور تھا وہ سیدھی لیٹی تھکن سے چور ہانپ رہی تھی اس کا سفید جسم چمک رہا تھا میں اٹھا اور لن نکال لیا میں نے بٹوے سے پندرہ ہزار نکال کر صباحت کے مموں کے درمیان رکھ دیے اس نے آنکھیں کھولیں اور پیسے اٹھا کر بولی تینوں کی لگدا میں پیسیاں واسطے تیرے کول آندی میں رک کر اس کو دیکھنے لگا چدائی کے مزے سے گلابی ہوتا چہرہ بہت بھلا لگ رہا تھا میں آگے ہوکر بولا نہیں پر اے تیرا حق اے وہ آگے ہوکر میرے ہونٹ چوم کر بولی میری جان میری ضرورت صرف دو ٹائم دی روٹی ہے توں او پوری کیتی رکھ میں روز تیری رات سجاون آواں گی میں بولا میری جان میں حاضر جس چیز دی وی لوڑ ہووے منگ لئیں میں ناہں نہیں کردا وہ مسکرا دی اور پیسے پکڑ کر لیٹ گئی میں اٹھا اور شلوار پہن کر واشروم چلا گیا میں اوپر سے ننگا تھا میں واشروم سے نکلا تو سامنے نصرت کھڑی تھی مجھے دیکھ کر میں اسے دیکھ کر چونک گیا میں اوپر سے ننگا تھا تو اس نے ایک نظر بھر کر میرے جسم کو دیکھا میں نے اس کے تنے ہوئے مموں کو نظر بھر کر دیکھا آج وہ میری لائی ہوئی برا ڈال رکھی تھی نصرت کے اکڑے ممے برا میں قید بہت بھلے لگ رہے تھے میں تو دیکھتا رہ گیا نصرت آنکھیں پھاڑے میرے ننگے بدن کو دیکھ رہی تھی 28 سال کی بھرپور جوان کنواری الڑ مٹیار اپنے سامنے ننگے جسم کو دیکھ کر بے حال سی ہوگئی پھر اسے خیال آیا اور وہ جلدی سے میرے پاس سے گزرتی اندر واشروم میں چکی گئی میں نے پیچھے سے اسے دیکھا تو اس کی پتلی کمر کے نیچے چوری تھرکتی گانڈ پر پڑی بالووں کی گت چتڑ چوم رہی تھی وگھوم کر مجھے دیکھا تو میں اس کی گانڈ تاڑ رہا تھا اس نے جلدی سے دروازہ بند کرلیا میرا لن پھر سے کھڑا ہوچکا تھا میں نے ہاتھ دھوئے اور اندر آیا تو صباحت ابھی تک ننگی لیٹی تھی میں نے شلوار اتاری اور اس پر پھر سے چڑھ گیا لن اس کی پھدی میں پھیلتا ہوا چودنے لگا میرے حواس پر نصرت چھائی تھی مجھے لگا کہ میں نصرت کو چود رہا ہوں اس لیے میں نے کس کس دھکے مارتے ہوئے چارپائی اور صباحت دونوں کو ہلا کر رکھ دیا صباحت کراہ کر تڑپ سی گئی تھی میرے لن جے گھسوں نے صباحت کی پھدی مسل کر صباحت کو تڑپا دیا تھا ہم فارغ ہوئے تو وہ بولی کی ویکھ کے آیا ہیں میں ہنس دیا اور اس کو چومنے لگا ہم دنوں ایک دوسرے کی باہوں میں سو گئے صبح کے قریب صباحت نے مجھے جگایا اور ایک راؤنڈ بھرپور چدائی کا لگوا کر پھر وہ چلی گئی میں سو گیا صبح اٹھا تو جسم ہلکا پھلکا تھا میں نہا کر کھانا کھا کر سکول چلا گیا رات کو جو مزہ ملا تھا آج دن اچھا گزرا واپس آیا تو کپڑے بدل رہا تھا کہ صباحت اندر داخل ہوئی میں قمیض اتار چکا تھا صباحت اندر آئی تو مجھے دیکھ کر مسکرا دی آج تو وہ پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی اس نے آج ناک میں کوکا ڈال رکھا تھا جو قیامت لگ رہا تھا اس کے حسن پر قیامت ڈھا رہا تھا میں یہ دیکھ کر مچل گیا اور اسے اپنی باہوں میں بھر کر اس کے ہونٹ چوم کر واہ میری جان آج تے بہوں سوہنی لگ رہی ہیں کوکا تیرا تے بہوں جب رہیا اور ہونٹ چوم لیے صباحت مسکرا کر بولی بس رات نوں تیرے لن دی چدائی میری پیاس مکا دتی آج دا دن جتنا سکون دا گزریا آگے اتنا سکون نہیں آیا میں اس کے کوکے کو چوم کر بولا اے تے چنگا کیتا ہئی ہنڑ تینوں یہن دا سواد وی اسی وہ ہنس دی اور بولی گھر آلے دے جانڑ تو بعد میں کوکا لاہ دتا ہا کہ اسدا مقصد ہی نا رہیا ہنڑ اسدا پانڑ دا مقصد وت آگیا اے میرا لن صباحت کے لمس سے تن چکا تھا میں نے اسے الگ کر چارپائی پر گھوڑی بنا کر قمیض ہٹا کر اس کی شلوار اتار دی جس سے اس کی گانڈ ننگی ہوگئی صباحت نے کوئی مزاحمت نا کی میں نے لن نکال کر پھدی پر سیٹ کیا اور صباحت کی گت پکڑ کر کس کر دھکا مارا اور لن صباحت کی پھدی کے پار کر کے کس کس کرن دھکے مارتا صباحت کو گھوڑی بنا کر چودنے لگا صباحت گت کھینچنے سے درمیان سے دوہری ہوکر میرے سینے سے الگی اور کرنے لگی میں تیز تیز دھکے مارتا صباحت کو چودتا ہوا چومنے لگا صباحت بھی میرا ساتھ دیتی ہوئی آہیں بھر رہی تھی اس کی آہیں کمرے میں گونج رہی تھیں میں کس کس کرنے دھکے مارتا دومنٹ تک چودتا ہوا نڈھال ہوکر فارغ ہونے کے قریب تھا کہ اتنے میں دروازہ کھلا اور دیمی اندر آگیا سامنے دیمی مجھے اپنی ماں کو گھوڑی بنا کر چودتا ہوا دیکھ کر رک گیا آنکھوں کے سامنے ماں کی لائیو چدائی دیکھ کر وہ چونک گیا اسی لمحے صباحت کا جسم اکڑ گیا ور میری بھی کراہ نکل گئی صباحت کا جسم جھٹکے نار کر فارغ ہونے لگا میں نے لن جڑ تک صباحت کے اندر اتار کر کراہتا فارغ ہوکر پیچھے سے صباحت کو باہوں میں بھر کر صباحت کی کمر کے ساتھ چمٹ کر کا پتا ہوا فارغ ہونے لگا ہمیں دیمی کا پتا چل چکا تھا پر ہم اپنا مزہ کرکرا نہیں کرنا چاہتے تھے ہم نے سوچا کہ خود ہی چکا جائے گا دیمی مجھے اپنی ماں کے پیچھے چمٹا دیکھ رہا تھا وہ اپنی ماں کی ننگی گاند اور آدھی ننگی کمرے میرے لن کے ساتھ لگا دیکھ کر سمجھ گیا کہ میرا لن اس کی ماں کے اندر ہے وہ بڑے انہماک سے اپنی ماں صباحت کے جسم کو جھٹکے مار کر فارغ ہوتا دیکھ رہا تھا اس کی ماں کی آنکھیں بند تھیں اور وہ کراہ کر سسک رہی تھی اسے اپنی ماں کی مزے سے بھری سسکیاں صاف سنائی دے رہی تھی صباحت کے جھٹکے کن ہونے لگے اور وہ سنبھلنے لگی وہ ابھر تک میرے سینے لگی ہانپتی ہوئی کانپنے لگی دینی اپنی ماں کی ننگی گانڈ کو میرے ساتھ لگا دیکھ کر سمجھ گیا کہ استاد جی اس کی ماں کو چود رہے تھے اس کےلیے یہی کافی تھا وہ مڑ کر نکل گیا تو سسکارتی ہوئی صباحت بولی اسی ہر وار ہی جلدی اچ غلطی کرجاںدے آں دروازے دی کنڈی لگانی چاہیدی میرا پتر تیرے کولو یہاںدا ویکھ کے کی سوچدا ہوسی کہ میری ماں ایو جہی میں اسی کی گال چوم کر بولا کجھ نہیں سوچدا فکر نا کر وہ بولا او تے فکر نہیں ماں نوں چدواندا ویکھ کے خراب نا ہوجاوے میں مسکرا کر اس کو چومنے لگا ہم کھڑے ہوکر ایک دوسرے کو چومنے لگے میرا لن ابھی تک صباحت کی پھدی میں تھا ہم دونوں کا دل نہیں کر رہا تھا کہ ایک دوسرے کو چھوڑیں صباحت ویسے ہی اتنے عرصے بعد پھدی مروا کر بے قرار تھی اور میں صباحت کا دیوانہ ہو چکا تھا ہم ایک دوسرے کو چوم رہے تھے ہمارا موڈ ایک بار پھر تھا کہ پھر دروازہ کھلا اور دیمی اندر آگیا سامنے اپنی ماں کے پیچھے مجھے ابھی تک چمٹا دیکھ کر چومتا دیکھ کر وہ رک گیا اس بار صباحت کو برا لگا کہ اس کا بیٹا میرے ساتھ ننگا دیکھ رہا ہے وہ جلدی سے خود ہی آگے ہو کر اپنی گانڈ آگے کھینچ لی جس سے دیمی کے سامنے ہی میرا لن اس کی ماں کی پھدی سے باہر نکل آیا ساتھ ہی دیمی میرا لن اپنی ماں کی پھدی سے پچ کیآواز سے نکلتا دیکھ کر مچل گیا ساتھ ہی اس کی ماں کی گوری گانڈ مجھ سے الگ ہوئی تو اس کی نظر پڑی اپنی ماں کی گانڈ کی گہری لکیر سے میرا تنا لن ٹچ ہوتا وہ دیکھ رہا تھا میرا لن اس کی ماں کی پھدی کے پانی سے تر تھا جسے دیکھ کر وہ گھونٹ بھر رک رہ گیا صباحت جلدی سے اوپر ہوئیا ور جلدی سے اپنے بیٹے کے سامنے اپنی شلوار پکڑ کر اوپر کرکے خود کو ڈھانپ لیا دیمی میرے لن کو دیکھتا بولا امی آجا روٹی پکا دے صباحت مڑی تو اپنے بیٹے کو دیکھ کر اس کا منہ لال سرخ تھا وہ بولی آئی دیمی نظر اپنی ماں کے چہرے پر پڑی جہاں آج اس نے کوکا ڈالا ہوا تھا دیمی سمجھ گیا کہ امی نے اس کے استاد کےلیے کوکا ڈالا ہے تاکہ وہ استاد جی کو خوبصورت لگے اور استاد اسے پورے مزے سے چودے دیمی یہ سوچتا مڑ گیا صباحت بھی چلی گئی میں واشروم سے آکر کپڑے بدلے تو دیمی کھانا لایا مجھے کھانا دے جو وہ کھڑا ہو گیا میں اسکی مرض سمجھ گیا وہ مجھے دیکھ کر ہنس دیا میں نے بٹوے سے سو روپیہ نکالا تو وہ بولا استاد جی چپ رہن دی اے قیمت بہت تھوڑی ہے میں ہنس دیا وہ بھی ہنس کر بولا استاد جی اتنا کجھ ویکھںکے دو سو تے بنڑدا میں نے ہنس کر تین سو نکالا اور اسے پکڑا کر بولا میری جان ہنڑ راجی ہیں وہ ہنس کر بولا استاد جی ہنڑ کوئی شکائیت نہیں تھواڈے نال میں ہان دیا وہ پیسے جیب میں ڈال کر نکل گیا میں سوچنے لگا کہ کیسا کمینہ ہے ماں کی چدائی کے یہ بھی پیسے وصول کرتا ہے میں نے سوچا چلو اچھا ہی ہے اس کی زبان تو بند ہے نا میں نے کھانا کھولا اور کھانے لگا کھانا کھا کر کچھ دیر آرام کیا عصر کے وقت بچوں کو پڑھا کر میں اقبال صاحب کی طرف چلاگیا انہیں کوئی کام تھا میں واپس آیا تو شام ہو چکی تھی تھوڑی دیر میں صباحت آئی کھانے کو شاید ابھی دیر تھی تو وہ میرے پاس آئی آتے ہی میرے پاس بیٹھ گئی اس کا چہرہ اترا ہوا تھا میں بولا کی بنیا کوئی پریشانی وی بولی نہیں کوئی نہیں گی الحال لیکن لگ رہا تھا کہ کوئی بات ہے اور میرے قریب ہوکر خود ہی میرے ہونٹ دبا کر چوستی ہوئی اپنا دوپٹہ اتار کر پھینک دیا میں اسے چوستا ہو اپنے سینے سے لگا کر چارپائی پر لٹا کر اوپر چڑھ سا گیا اور اس کے ہونٹ چوسنے لگا صباحت نے میرا لن باہر کھینچا اور مسلتی ہوئی میرے ہونٹ دبانے لگی اس وقت پہلے تو وہ کبھی نہیں آئی آج خیر تھی خود ہی میرے نیچے پڑی تھی میں اوپر ہوا اور اسکی شلوار کھینچ کر اتار دی صباحت نے اپنی ٹانگیں اٹھا کر کھول لیں میں۔ نے لن صباحت کی پھدی پر ٹکا کر کس کر دھکا مارا اور ہوا لن جڑ تک پھدی میں اتار کر کس کے دھکے مارتا صباحت کی پھدی چودنے لگا صباحت آہیں بھرتی کرانے لگی میں رکے بغیر ٹانگیں کاندھوں سے دبا کر صباحت کو دوہرا کرکے چود رہا تھا میرے دھکوں سے چارپائی ہلتی ہوئی آوازیں دے رہیں تھی میں چھوٹنے کے قریب تھا اور زور سے دھکے مارتا چود رہا تھا کہ دروازہ کھلا اور دیمی پھر اندر آگیا وہ بھی جانتا تھا شاید کہ اس کی ماں میرے پاس آئی ہے اس لیے وہ بھی پیسوں کے لالچ میں دیکھنے آیا تھا جیسے ہی وہ اندر آیا اور اپنی ماں کی پھدی میں میرا لن تیزی سے اندر باہر ہوتا دیکھ کر رک گیا اسی دوران صباحت کی کراہ نکلی اور اس کا جسم جھٹکے مارتا فارغ ہونے لگا ساتھ ہی میں بھی کراہ کر لن جڑ تک پھدی میں اتار کر رک کر فارغ ہوتا صبو کو چومنے لگا صبو ہانپتی ہوئی میرے ہونٹ دبا کر چوس رہی تھی دیمی کھڑا اپنی ماں کی پھدی میں میرا جڑ تک اترا لن منی چھوڑتا دیکھ رہا تھا اس کی ماں کی پھدی دبوچ کر جھٹکے مار کر فارغ ہو رہی تھی دو منٹ تک ہم فارغ ہوکر سنبھلے تو دیمی بولا امی آجا کھانا کھا لئے صبو ہانپتی ہوئی مجھے ہی چوم رہی تھی دیمی مڑ گیا میں لن اندر اتارے ہوئے تھا وہ میرے ہونٹ چومنے جا رہی تھی صبو میرے ہونٹ چھوڑ کر میری آنکھوں میں دیکھ کر بولی یاسر ہک کم تے کر میں بولا حکم کر میری جان وبو بولی یاسر کجھ لوگاں کولو میں آدھار چایا ہویا ہا تے واپس نہیں کر سگی ہنڑ لوگ تنگ کر رہے ہینڑ جے اگر توں چاہوں تے کجھ پیسے دے دے میں انج تے نہیں واپس کر سگدی با تینوں پھدی ہی دے سگدی آں تیری رکھیل بن کے رہساں میں اس کی بات سن کر ہنس دیا اور بولا اتنی ساری گل وہ بولی نہیں گل تے وڈی ساری ہے میں بولا کتنے پیسے ہینڑ صبو بولی ہے 3 لکھ روپیا پر توں جتنے دے سگدا ایں دے چا تینوں پہلو دس رہی آں میں واپس نہیں کر سگدی انج ہی پوری کرنے نہ میں ہنس دیا اور بولا میری جان کے تین لکھ ہی دیوان تے کتنا عرصہ لگسی پورا ہوونڑ اچ اس نے میری آنکھوں میں دیکھا اور بولی یاسر اتنے نہیں توں لکھ دے چا جتنے میں لاہ سگاں اتنے تے میرے کولو نہیں لاہ ہونے میں ہنس کر پیچھے ہوا اور لن نکال کر بولا ہلا جا کھانا لئے آ وت کردے آں گل وہ اٹھی اور شلوار ڈال کر چکی گئی میں بھی شلوار پہن کر واشروم چلا گیا۔ میں واشروم سے نکلا تو میری ٹکر اس بار صباحت کی چھوٹی بیٹی سعدیہ سے ہوئی میں نکلا تو سامنے سعدیہ کھڑی تھی مجھے دیکھ کر وہ چونک سی گئی گھر میں پہلی بار کوئی غیر مرد دیکھا تھا تو تھوڑی گھبرائی سعدیہ کی جسامت تھوڑی پتلی تھی قد بھی ٹھیک ٹھاک تھا سر پر دوپٹہ جسے سے اوپر کا حصہ ڈھانپا ہوا تھا نیچے چوڑی گانڈ نظر آ رہی تھی سعدو کا لباس بھی کافی چھوٹا تھا جس سے چاک اونچے تھے چاک سے ننگے ہوتے بدن کو چھپانے کے شلوار اوپر پیٹ تک چڑھائی ہوئ تھی جس سے اس کی پاؤں کی گوری پنڈلیاں کافی اوپر تک ننگی تھیں میں اسے دیکھ کر مچل گیا صباحت کی بیٹیاں بھی صباحت سے کچھ کم نا تھیں میں نے ہاتھ چوتھے ہوئے سوچا کہ جس طرح صباحت ہے یہ تو فل کنواری ان ٹچ ہوں گی ان کو مسلنے کا مزہ اجائے یہ سوچ کر میں مچل سا گیا بیٹھک آیا تو میرے ذہن میں ایک سوچ ابھری لیکن یہ ایسی بات تھی اگر صباحت کو پتا چلتی تو وہ ناراض ہو جاتی ویسے بھی کسی کی مجبوری کا فایدہ اٹھانا اچھی بات بھی نا تھی اتنے میں دیمی کھانا لایا وہ مجھے دیکھ کر مسکرا دیا میں اس سے کھانا لیا تو پاس ہی کھڑا ہوگیا میرے ذہن پر وہ بات تھی دیمی کا خیال ہی نہیں رہا میں سوچ میں ڈوبا تھا وہ کچھ دیر تو کھڑا رہا پھر بولا جناب جی میرا حصہ میں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو وہ مسکرا رہا تھا اس کے چہرے کی کمی مسکراہٹ میں مجھے دلال نظر آیا ماں کے جسم کی کمائی کھانے کی اسے بھی کے لگ چکی تھی عادت تو میں نے ہی ڈالی تھی میں نے مسکرا بٹوہ اٹھایا اور 200 روپے نکال کر اسے دے دیے مجھے تو ایک بار خیال آیا کہ اسے بھی اس کی ماں شکار پر بھیجتی ہے دونوں ہاتھوں سے کما رہی ہے آتے ہوئے اسے کہتی ہوگی کہ آجانا درواازہ بھی آتے ہوئے صباحت کھول کے آتی تھی ورنہ اتنا بیٹے کا نا پتا ہوتا تو دروازہ بھی بند کر کے آتی وہ بھی عین اسوقت آتا تھا جب میں اور صباحت فارغ ہونے والے ہوتے خیر کوئی نہیں ماں بیٹے کی روزی لگی تھی میرے ذہن میں بار بار وہی بات آ رہی تھی میں کھانا کھاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کیا کیا جائے ایک دل کرتا بات کروں ایک دل کرتا اچھا نہیں لگے گا پھر پتا نہیں وہ مانے گی بھی کہ نہیں جس طرح وہ بتاتی تھی اس طرح تو نصرت بھی نا مانے کہ وہ بہت غیرت مند لڑکی ہے میں انہی سوچ میں کھانا کھا کر کچھ دیر آرام کیا تو اتنے میں صباحت چائے لے کر اندر داخل ہوئی اس کے گلابی چہرے پر ناک میں کوکا قیامت لگ رہا تھا وہ پاس آئی اور چائے مجھے پکڑا کر میرے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی اب اس کے اور میرے درمیان کچھ پردہ تو رہا نہیں تھا وہ بھی چپ تھی میں بھی چپ تھا وہ تو پیسے کی پریشانی پر چپ تھی میں یہ سوچ کر چپ تھا کہ کہوں کہ نا کہوں میں چائے پی کر کپ رکھا تو وہ بولی فر کی صلاح ہے میں مسکرا کر اسے باہوں میں بھرا اور چارپائی پر لیٹ کر اسے بازو سے پکڑ کر اپنے ساتھ لٹا لیا وہ بھی میرے ساتھ لگتی ہوئی میرے ساتھ لپٹ کر مجھے باہوں میں بھر لیا میں بولا سوچ لیا ہے وہ بولی کی میں بولا اے ہی کہ توں پیسے منگے ہینڑ تینوں تے ناہں نہیں ہوندی نا اس کا چہرہ کھل سا گیا اور میرا گال چوم کر بولی سوہنا جانی میرا میرے کولو جو ہو پیا میں تیرے واسطے کرساں گئی میرا دل تو کیا کہ کہ دوں پر میرا دل رک سا گیا میں سوچ میں ڈوبا تھا میرا لن نصرت کا سوچ کر تن کر کھڑا تھا جسے صباحت اپنی ران کے نیچے دبا کر مسل رہی تھی میں چھت کو دیکھتا کچھ سوچ رہا تھا اس نے اپنا ہاتھ نیچے میری شلوار کے اندر ڈال کر پکڑ کر مسلتی ہوئی میری گال چوم لی صباحت کے نرم ہاتھ کا لمس محسوس کرکے میں مچل سا گیا میں خیالوں میں نصرت کا سوچ رہا تھا وہ مجھے چپ دیکھ کر بولی جانی کی گل ہنڑ توں کیوں چپ ہیں کوئی مسئلہ ہے میں مسکرا کر بولا نہیں کوئی مسئلہ نہیں اور اسے پیار سے دیکھ ے لگا وہ میرے ہونٹ چوم کر بولی وت کی ہویا میرا دل کیا کہ دوں جو ہو جو ہوگا دیکھا جائے گا یہ سوچ رہا تھا کہ وہ بولی کی گل اے کچھ سوچ اچ ڈب گیا ایں ڈھیر پیسے تے نہیں منگ لئے میں ہنس دیا اور بولا نہیں جان من بس کجھ سوچ رہیا وہ بولا اچھا جی مینوں وی دسو اس کا ہاتھ میرے لن کو مسل رہا تھا اس نے میرا نالا کھولا اور لن کھینچ کر باہر نکال کر مسلتی ہوئی بولی مینوں وی دسو میں سسک کر بولا ہائے تینوں دسیاں تے توں ناراض ہو جانا وہ بولی ہائیں کوئی ایسی ویسی گل اے میں بولا بس انج ہی سمجھ وہ بولی فر وی دس تے سہی میں بولا وعدہ کر ناراض نا ہوسیں وہ میرے ہونٹ چوم کر مسجد آکر بولی تیرے نال ناراض ہوکے جانا کتھے میں اسے دیکھنے لگا تو وہ بولی میری جان بول نہیں ہوندی تیری قسم میں بولا میں سوچ رہیا ہاس کہ توں آکھ رہی ہیں کہ 3 لکھ دی لوڑ ہے تینوں توں میرے کولو 4 لکھ کل لئے تے اپنی دھی نصرت مینوں دے چا صباحت مجھے دیکھ رہی تھی یہ بات سن کر اس کا رنگ ایک بار تو اڑ گیا اس کا ہاتھ رک سا گیا اس کے چہرے پر کئی رنگ آئے وہ اپنی گھبراہٹ چھپانے کےلیے مسکرا گئی میں بولا اگر برا لگا تے دس دے میں صرف اپنے آلو گل کیتی اگر تینوں نہیں منظور تے کوئی گل نہیں پیسے تینوں فر وی دیساں اس کا چہرہ گلابی سا ہوگیا 4 لاکھ کا سن کر اس کا دل بھی پھوٹ پڑا تھا لیکن اس کی بیٹی مانے گی کے نہیں اس نے سر میرے سینے پر رکھا اور میرا لن مسلتی ہوئی بولی یاسر میں ساری زندگی اپنی دھیاں نوں اس کم تو دور رکھنے واسطے اپنے دل تے پتھر رکھ کے گھر بیٹھی رہی ہاں میں چاہندی تے کسے نال سیٹ ہوکے اپنی تے اپنی دھیاں دی زندگی اچھی گزاردی اسی آج وی لوگاں دے پرانے کپڑیاں تے گزارہ کردیا ہاں ویکھںتے توں رہیاں ہونا کہ ساڈے پرانے کپڑے سانوں پورے وی نہیں آندے فر وی گزار کر رہیا ہاں میں اپنی دھیاں دی بڑی اچھی تربیت کیتی ہے آج تک گھرو باہر نہیں کڈھیا نہیں تے بڑے موقعے ملے تیرے تو پہلے میں یہ سن کر اپنی بات پر شرمندہ سا ہوگیا میں بولا سوری میرا مطلب اے ناہ میں تے اے آکھیا کہ چلو نصرت وی ہنڑ جوان ہے جدو تک اسدا رشتہ نہیں ہوندا میں اسدی تے او۔ میرے تے خوش رہندی کوئی گل نہیں میری جان میں آج ابو نوں آکھیا اے اوہ پیسے بھیج دیسنڑ کل تینوں مل جاسنڑ یہ سنکر اس نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا اور بولی ناراض تے نہوں ہویا میں مسکرا کر اس کے ہونٹ چوم کر بولا نہیں میری جان گل تے میں گھٹیا کیتی ناراض تے تیرا ہونا بنڑدا وہ آگے ہوکر میرے ہونٹ چومنے لگی اور لن ہاتھ میں پکڑ کر مسلنے لگی اسی دوران پھر دینی دروازہ کھول کر اندر آیا تو سامنے اس کی ماں میرے ساتھ لیٹی میرے ہونٹ چومتی ہوئی میرا لن ننگا کر کے مسل رہی تھی وہ اپنی ماں کے ہاتھ میں میرا لن دیکھ کر بولا امی باجی بلا رہی ہے اس نے سر اٹھا کر اپنے بیٹے کو دیکھا اور بولی ہلا آوندی ہاں دیمی مڑ گیا میں بولا دروازہ بند کرکے آئی کر وہ ہنس کر بولی کیوں دیمی دا خرچہ چلیا ہوا کیوں بند کرواواں میں ہنس دیا اور اوپر اٹھی اور میری ٹانگوں کے پاس جا کر بیٹھ کر دونوں ہاتھوں سے میرے لن کو مسلتی ہوئی مجھے دیکھ کر مسکرا دی میں سسک کر اسے دیکھ رہا تھا اس نے نیچے ہوکر میرے لن کے ٹوپے پر ہونٹ رکھ کر میرے لن کا ٹوپہ چوم لیا صباحت کے نرم ہونٹوں کا لمس لن پر محسوس کرکے میں مچل کر کراہ سا گیا صباحت نے اپنا قمیض اوپر کیا اور اپنے موٹے ممے ممے کرکے نیچے ہوئی اور میرے لن کو اپنے مموں کے بیچ رکھ کر دبا کر مسلنے لگی میں تو مزے سے مچل گیا صباحت میرا لن مموں کے بیچ رکھ کر مسل رہی تھی میں سسک کر کراہ رہا تھا اس نے تھوڑی دیر تک لن مالا اور پھر اوپر ہوکر منہ نیچے کیا اور منہ کھول کر میرے لن کا ٹوپہ منہ میں بھر کر دبا کر چوس لیا صباحت کے گرم منہ کو لن پر محسوس کرکے میں مچل کر کراہ گیا صباحت نے اپنے ہونٹ لن پر دبا کر کس کر منہ لن پر دبا کر آدھا لن منہ میں بھر کر ہونٹ کس کر چوپا مارا صباحت کے نرم ہونٹوں کی رگڑ سے میرا لن نڈھال ہوگیا بے اختیار مجھے اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی جس پر میں تڑپ کر کانپنے لگا صباحت نے رکے بغیر اپنا تیزی سے اوپر نیچے کرتی میرے لن کو ہونٹوں میں کس کر تیز تیز چوپے مارتی میرا لن چوسنے لگی صباحت کے گرم منہ کی رگڑ میرے لن کی جان نکال رہی تھی صباحت بھی ہانپتی ہوئی اوپر نیچے ہو رہی تھی جس سے اس کے ناک کے نتھنے پھول رہے تھے جس پر کوکا اوپر نیچے ہوکر میری جان نکال رہا تھا صباحت تیز تیز چوپے مارتی لن چوس کر پی رہی تھی میں تڑپ کر کراہ رہا تھا میری ہمت ٹوٹنے والی تھی کہ دیمی پھر آگیا سامنے اپنی ماں کو میرا لن منہ کس کر تیز تیز چوپے مارتا دیکھ کر رک گیا ایک دو چوپوں کے بعد میری ہمت ٹوٹ گئی میں نے کراہ کر گانڈ اوپر صباحت کی طرف اٹھا کر جھٹکا مارا اور ساتھ ہی ایک لمبی منی کی پچکاری صباحت کے گلے میں مارتا ہوا چھوٹ گیا صباحت کا منہ میری منی سے بھر گیا دیمی اپنی ماں کے منہ میں میرے لن فارغ ہوتا دیکھ راہ تھا صباحت نے رک کر لن کا ٹوپہ دبا کر منہ میں بھرا اور گھونٹ بھر کر منی اندر اتار لی دیمی اپنی ماں کو میری منی پیرس دیکھ رہا تھا میں کراہتا ہوا منی کی پچکاری صباحت کے منہ میں چھوڑ رہا تھا دیمی میرے لن کو جھٹکے مارتا اپنی ماں کے منہ میں منی چھوڑتا دیکھ رہا تھا میرے لن جے جھٹکے سے اپنی ماں کے ہلتے سر اور ہانپنے سے ناک کے نتھنے میں اوپر نیچے ہوتے کوکے کو دینی بھی دیکھ رہا تھا وہ اپنی ماں کے گلے سے نیچے پیٹ میں جاتی منی دیکھ رہا تھا وہ اپنی ماں کے ننگے ممے بھی دیکھ رہا تھا میں کراہ کر فارغ ہوتا اینڈ پر تھا آخری دو چار قطرے صباحت نچوڑ رہی تھی کہ وہ بولا امی آجا صباحت نے میرے لن کے ٹوپے کو ہونٹ میں دبوچ کر چوستے ہوئے اپنی مستی بھری آنکھوں کو اٹھا کر اپنے بیٹے کو دیکھا جو گھونٹ بھرتا ہوا اپنی ماں کے منہ کو دیکھ رہا تھا جو میرا لن چوس رہی تھی اس نے آنکھ کے اشارے سے اسے جانے کا کہا دیمی مڑ گیا تو پچ کی آواز سے اس نے لن چھوڑ دیا میں لیٹ کر سکون کر رہا تھا صباحت کو منی پیتا دیکھ کر سکون مل گیا تھا میں لیٹا ہوا تھا اس نے میرا لن چوما اور شلوار کے اندر ڈال کر خود ہی نالہ باندھ دیا اور اٹھ کر اپنا قیمیض نیچے کیا اور دوپٹہ لے کر چلی گئی