jatt-lahoria
Gold
Offline
- Thread Author
- #1
1
زید صحرا میں اپنی جیپ چلا رہا تھا۔ وہ اس صحرائی سرحد پر انٹیلی جنس یونٹ کے کمانڈنٹ کے طور پر تعینات تھا۔ ایجنسی کو سخت شک تھا کہ دشمن اس علاقے میں پاکستان کے خلاف کوئی خطرناک منصوبہ بنا رہا ہے اور وہ ایک قابل انٹیلی جنس افسر چاہتے تھے اس لیے ایجنسی نے اپنے بہترین افسر کو اس علاقے میں انٹیلی جنس یونٹ کا کمانڈنٹ تعینات کیا۔ زید اس علاقے میں کیپٹن اسامہ کی شناخت پر تعینات تھا۔ اس نے ابھی ایک ہفتہ اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ گزارا تھا کہ اگلا مشن آیا تو اسے اس علاقے میں آنا پڑا، اگرچہ حرا زید کے اتنی جلدی اس سے دور جانے کی وجہ سے زیادہ خوش نہیں تھی لیکن چونکہ وہ خود ایک سپاہی تھی اس لیے وہ سمجھتی تھی کہ ڈیوٹی ہر سپاہی کی اولین ترجیح ہے۔ اسے اس علاقے میں تعینات ہوئے تقریباً 6 ماہ ہوچکے تھے لیکن وہ ابھی تک دشمن کی اس خطرناک سرگرمی کا سراغ نہیں لگا پا رہا تھا جو اس علاقے میں چل رہی تھی اور وہ سمجھ گیا تھا کہ دوسری طرف انٹیلی جنس یونٹ کا کمانڈنٹ بہت ہوشیار ہے اور وہ بڑی کامیابی کے ساتھ ان سرگرمیوں کو پاکستانی انٹیلی جنس سے چھپانے میں کامیاب ہورہا تھا۔ پاکستانی ایجنسی اس مشن سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھی اس لیے انہوں نے زید سے کہا کہ وہ اس علاقے میں انٹیلی جنس یونٹ کے کمانڈنٹ کے طور پر کام جاری رکھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ انہیں جلد یا بدیر کچھ معلومات مل جائیں گی لیکن ضرورت بہترین کمانڈنٹ کی تھی۔ علاقے کی سب سے دور پوسٹ پر موجود سپاہیوں کو دشمن کے علاقے میں ایک غیر معمولی نقل و حرکت کی اطلاع ملی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ زید اس حرکت کو خود چیک کرے اور یہی وجہ تھی کہ وہ خود اس علاقے میں جا رہا تھا کیونکہ اس کا ڈرائیور چھٹی پر تھا اور مشن بہت اہم تھا اس لیے اس نے خود اکیلے جانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اس علاقے میں آکر صحرا میں گاڑی چلانے کی تربیت حاصل کی تھی اور اب وہ صحرا میں گاڑی چلانے کا ماہر بن چکا تھا۔ وہ صحرا میں آسانی سے گاڑی چلا رہا تھا کہ اچانک اس کے سامنے ریت کا طوفان نمودار ہوا۔ زید کو صحرا میں رہنے کے بارے میں ایک ماہ کی ٹریننگ دی گئی تھی اور اس ٹریننگ میں سب سے زیادہ زور ریت کے طوفانوں پر دیا گیا تھا اس لیے وہ اس طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھا۔ اس کی جیپ میں صحرائی چشمہ تھا تو اس نے اسے باہر نکالا اور اپنی آنکھوں پر پہن لیا۔ اب وہ ریت میں دیکھنے کے قابل تھا لیکن بینائی زیادہ واضح نہیں تھی۔ انسٹرکٹر ٹریننگ کی طرف سے اس کو یہ واضح ہدایت تھی کہ وہ طوفان کے دوران نہ رکے اور آگے بڑھتا رہے کیونکہ اگر وہ کہیں رک جائے گا تو اس پر ریت کا ڈھیر لگ جائے گا اور وہ ٹنوں ریت کے نیچے آجائے گا جس کے نتیجے میں دم گھٹ جائے گا اور موت واقع ہو جائے گی۔ . زید جیپ کو کافی رفتار سے چلاتا رہا لیکن طوفان اتنی شدت کا تھا کہ جیپ ریت میں پھنس گئی اور وہ سمجھ گیا کہ یہ آگے نہیں بڑھے گی۔اس نے فوراً جیپ چھوڑنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ریت جیپ پر چڑھنے لگی تھی اور جیپ جلد ہی ریت میں ڈوبنے والی تھی۔ وہ اپنا اسلحہ اور ضروری سامان اپنے ساتھ لے کر جیپ سے باہر نکل آیا۔ اس نے پوسٹ کی سمت کا اندازہ لگایا اور پھر اس طرف چلنا شروع کر دیا۔ وہ ایک مضبوط سپاہی تھا اس لیے اسے ریت کے اس شدید طوفان میں چلنے میں کوئی پریشانی نہیں تھی، آخر کار طوفان رک گیا لیکن زید نہیں رکا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ کچھ دیر میں پوسٹ پر پہنچ جاؤں گا لیکن پوسٹ نہیں آئی اور اس نے سوچا۔ اس نے پوسٹ تک پہنچنے کے متوقع وقت سے کہیں زیادہ لمبا سفر کر لیا تھا۔ اس نے رک کر دیکھا، غروب آفتاب قریب آچکا تھا اور رات ہونے والی تھی، اس نے دیکھا کہ کچھ فاصلے پر سبزہ ہے تو وہ اس طرف چلنے لگا۔ وہ ہریالی کی طرف چلتا رہا اور پھر ایک سڑک پر پہنچا جب کہ سڑک کے دوسری طرف ایک نہر تھی اور پھر ہرے بھرے کھیت تھے۔ زید نے دل میں سوچا، "پاکستانی طرف میں ہریالی ہے لیکن ایسے کھیت نہیں ہیں جہاں فصلیں کاشت کی جا تی ہوں اور نہ ہی کوئی نہر ہو، ارے نہیں! اب میں پاکستان میں نہیں ہوں تو بہت برا ہو گا یہ تو۔" اس نے نقشہ نکالا اور اس کا بدترین خوف سچ ثابت ہوا کیونکہ وہ پاکستان میں نہیں تھا اور اب وہ ہندوستان کی سرزمین پر کھڑا تھا۔ اس زمانے میں سرحد پر باڑھ نہیں لگائی گئی تھی اس لیے لوگوں کے لیے سرحد عبور کرنا زیادہ مشکل نہیں تھا اور ریت کے ان طوفانوں کی وجہ سے بہت سے لوگ غلطی سے سرحد پار کر جاتے تھے، کبھی ان عام شہریوں کو واپس اپنے ملکوں میں بھیج دیا جاتا اور کبھی قیدیوں کے طور پر لیا جاتا اور یہ سرحد کے دونوں طرف ہوتا تھا۔ زید انڈیا میں پکڑے جانے کا مطلب سمجھتا تھا، وہ انڈین ایجنسیوں کے سب سے بڑے دشمنوں میں سے ایک تھا اور اس نے انہیں اتنا نقصان پہنچایا تھا اس لیے وہ سمجھ گیا کہ وہ اس کے ساتھ کیا کریں گے۔ اس نے نقشہ دیکھا اور سوچا کہ سرحد اس سے زیادہ دور نہیں ہے اس لیے اس نے واپس جا کر سرحد پار کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ آگے بڑھنے ہی والا تھا کہ سڑک پر ایک کار آئی اور تیزی سے اس کی طرف بڑھی۔ زید کسی بھی صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو گیا، اب اندھیرا ہوتا جا رہا تھا اور سرحد کے اس حصے میں اس کی موجودگی مشکوک تھی اسی لیے گاڑی تیزی سے اس کی طرف آئی اور اسے لگا کہ وہ ایک سے زیادہ بندوقوں کے نشانے پر ہے۔ زید کے لیے بی ایس ایف کے عام سپاہیوں سے نمٹنا کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن جیسے ہی سپاہی باہر نکلے، زید سمجھ گیا کہ اگر وہ ان سے لڑے گا تو سیدھی موت ہوگی کیونکہ وہ دو بھارتی بلیک کیٹ کمانڈوز کی بندوقوں کے نشانے پر تھا۔ اسی دوران ایک شہری بھی باہر نکلا اور زید سمجھ گیا کہ وہ سی بی آئی کے ایریا کمانڈر کے سامنے ہے۔ اس نے سرحد کے اس طرف ہر قابل ذکر شخص کی تفصیلات کا مطالعہ کیا تھا اور وہ آفیسر کرشن کانت کی شناخت سے واقف تھا۔ اس کے پاس واحد پلس پوائنٹ یہ تھا کہ اس کے ساتھ اس کی حقیقی شناخت کی کوئی علامت نہیں تھی اور کوئی بھی اسے پہلی نظر میں نہیں پہچان سکتا تھا۔ کرشن کانت نے کہا، "اپنا ہتھیار چھوڑ دو ورنہ میرے کمانڈوز تمہیں گولی مار دیں گے۔" زید نے اپنا ہتھیار اور بیگ زمین پر گرا دیا اور اپنے ہاتھ اپنی گردن کے پیچھے رکھ لیے۔ زید کو اس حقیقت کا علم تھا کہ اس علاقے میں انٹیلی جنس افسران کے تین پراسرار قتل ہوچکے تھے اور ہندوستانی حکومت نے ہر سینئر انٹیلی جنس افسر کے لیے یہ لازمی قرار دیا تھا کہ وہ کم از کم دو بلیک کیٹ کمانڈوز کی سیکیورٹی کے بغیر باہر نہ جائے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ کرشن کانت کو اس علاقے میں سی بی آئی نے بی ایس ایف اور انڈین آرمی کے افسران پر نظر رکھنے کے لیے تعینات کیا تھا کیونکہ اس بات کی بہت سی شکایات موصول ہوئی تھیں کہ بی ایس ایف اور انڈین آرمی کے افسران اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ کرشن کانت نے کہا، ’’ہم نے تمہیں رنگے ہاتھوں پکڑا ہے اور اب تم اس کے لیے جوابدہ ہو گے۔‘‘ زید نے اپنے اعصاب کو پرسکون رکھا اور انتہائی اطمینان سے کہا، ’’دراصل، مسٹر کرشناکانت مجھے روکنے کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔‘‘ کرشن کانت اس کا نام سن کر حیران ہوئے اور بولے، "تم میرا نام کیسے جانتے ہو؟" زید نے کہا، "میں تمہارا نام اور تمہاری ذمہ داری دونوں کو اچھی طرح جانتا ہوں" کرشن کانت بہت خفیہ مشن پر تھا اور اوپر کے اہلکاروں میں بہت کم لوگ اس کی اصل شناخت سے واقف تھے۔ یہ ایک جوا تھا جو زید نے کھیلا اور وہ کرشن کانت کو الجھانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ کرشن کانت نے کہا "تم کون ہو اور مجھے کیسے جانتے ہو" زید نے کہا" میں تمہیں اپنی اصل شناخت نہیں بتانا چاہتا لیکن میں تم میں سے ہوں اور تم نے مجھے دشمن کے علاقے میں بہت اہم مشن پر جانے سے روکا ہے"۔ کرشن کانت نے کہا، "تمہارا یہ کہنا کہ تم ہمارے ایجنٹوں میں سے ایک ہو" اس کے چہرے کے تاثرات نہیں بدلے اور اس نے کہا، "میں نے تم سے کہا نا کہ میں تمہیں کچھ نہیں بتاؤں گا لیکن میں تم میں سے ہوں اور تم ایک بہت اہم مشن میں رکاوٹ بن رہے ہو" کرشن کانت نے کہا، "میں کیسے مان سکتا ہوں کہ آپ ہم میں سے ہیں، مجھے اپنی شناخت دکھائیں۔" وہ تم سے آپ پر آگیا تھا. اس بچگانہ تبصرے پر زید کے ساتھ ساتھ کمانڈوز بھی ہنسنے لگے۔ زید نے کہا، "یہ دونوں کمانڈوز بھی جانتے ہیں کہ ہم اپنے ساتھ کوئی شناخت نہیں رکھتے، اگر تم جیسے افسر ہوتے تو ہم ہمیشہ دشمن کے علاقے میں پکڑے جاتے۔" کرشن کانت نے کہا، "تو پھر مجھے کوئی ایسی بات بتائیں جس کی وجہ سے۔ میں یقین کر سکوں کہ آپ ہم میں سے ہیں" ایک کمانڈو نے کہا، "اپنا سروس کوڈ بتادیں" زید نے مسکرا کر کہا، "تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں یہ سروس کوڈ صرف بریگیڈیئر کٹاریہ کو بتا سکتا ہوں" یہ ایک غلطی تھی جو زید نے کی تھی۔ کیونکہ دوسرے کمانڈو نے فوراً مشورہ دیا ’’جناب ہمیں ان کو بریگیڈ ہیڈ کوارٹر لے جانا چاہیے اور اگر یہ ہم میں سے ہیں تو ہم ان کی سرحد پار کرنے میں مدد کریں گے" کرشن کانت فوراً اس پر راضی ہو گیا جبکہ زید نے دشمن کو ایسا آئیڈیا دینے پر اپنے آپ پر ہی لعنت بھیجی۔ کمانڈوز نے اسے گاڑی میں بیٹھنے کو کہا وہ جانتا تھا کہ وہ اس کا ہتھیار اسے واپس نہیں دیں گے تو اس نے بیگ رکھ لیا اور کمانڈوز نے بھی بیگ دینے میں تعرض نہ کیا. اس نے دل ہی دل میں کہا "سالو اس ہتھیار کے بدلے تم مجھے بہت کچھ واپس دو گے"۔ یہ ایک فوجی کار تھی اور زید پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا جبکہ دونوں کمانڈوز زید کے دونوں طرف بیٹھے تھے۔ کرشن کانت ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر تھا اور گاڑی نہر کے کنارے بریگیڈ ہیڈکوارٹر کی طرف بڑھنے لگی۔ زید کا چہرہ بہت پرسکون دکھائی دے رہا تھا لیکن اس کے اندر ایک طوفان تھا کیونکہ وہ اس حقیقت سے واقف تھا کہ وہ انڈین ایجنٹ نہیں ہے اور اگر وہ بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پہنچے گا تو یہ پتہ چل جائے گا۔ یہ واضح تھا کہ اسے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پہنچنے سے پہلے کچھ کرنا تھا لیکن وہ دو اچھے تربیت یافتہ بلیک کیٹ کمانڈوز کے درمیان بیٹھا ہوا تھا اور ان سے بچنا بہت مشکل تھا۔ لیکن قدرت زید پر مہربان تھی کیونکہ گاڑی رک گئی. اس کی وجہ سڑک پر بی ایس ایف کی ایک جیپ تھی جو کھڑی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ جیپ میں کوئی خرابی ہے جس کی وجہ سے جیپ رک گئی ہے اور اس کے سامنے بی ایس ایف کے 3 جوان کھڑے تھے۔ کرشن کانت اور ایک کمانڈو گاڑی سے باہر نکلے اور بی ایس ایف کے ان سپاہیوں سے بات کرنے لگے۔ زید کو لگا کہ یہ قدرت کی طرف سے بھیجا جانے والا موقع ہے اور گاڑی دوبارہ چلنے سے پہلے اسے کچھ کرنا ہوگا۔ اس نے دونوں طرف دیکھا، ایک طرف کھلا میدان تھا اور یہ گراؤنڈ بارڈر کی طرف جاتا تھا اور اس گراؤنڈ کے آخر میں پاکستان تھا جبکہ دوسری طرف نہر تھی اور اس نہر کے بعد سرسبز و شاداب میدان تھے۔ زید کے ساتھ بیٹھا کمانڈو بائیں طرف تھا اور اس طرف گراؤنڈ تھا جبکہ دائیں طرف والا کمانڈو گاڑی سے اتر چکا تھا اور اب وہ بی ایس ایف کے جوانوں سے بات کر رہا تھا۔ زید کا جلد فیصلہ کرنے کا وقت تھا، اس نے تجزیہ کیا کہ بائیں جانب نیچے جانا مشکل ہے کیونکہ کمانڈو بائیں جانب بیٹھا تھا اور اگر زید اس کمانڈو سے جان چھڑانے میں کامیاب ہو بھی جاتا تو بھی وہ تقریباً 4 بندوقوں کے نشانے پر ہوتا اور اس صورت میں موت واضح ہوتی۔ اس نے پھر دائیں طرف دیکھا تو ظاہر تھا کہ وہ ہندوستانی سرزمین میں مزید گہرائی میں جانے والا تھا لیکن وہ جانتا تھا کہ ہندوستان کی سرزمین پر رہنا اس کے لیے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اس کی پہلی ترجیح ان کمانڈوز اور کرشن کانت سے چھٹکارا حاصل کرنا تھا کیونکہ وہ آزاد رہ کر کچھ بھی کر سکتا تھا۔ اس نے کمانڈو کی طرف دیکھا جو بے حد آرام سے بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا۔ اپنے سکون سے زید نے کمانڈوز اور کرشن کانت دونوں پر یہ تاثر ڈال لیا تھا کہ وہ ان میں سے ایک ہے اور ان کو بھی لگتا تھا کہ وہ فارمیلٹی پوری کررہے ہیں۔ زید کو دوسرا فائدہ یہ تھا کہ دائیں طرف کے کمانڈو نے دروازہ کھلا چھوڑ دیا تھا اور گاڑی اور نہر کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں تھا۔ کمانڈوز نے زید کا ہتھیار لے لیا تھا لیکن اس کے اعتماد کی وجہ سے اس کا بیگ نہیں اٹھایا تھا۔ کمانڈو کی بندوق اس کی گود میں تھی جبکہ زید کے لیے دوسری خوش قسمتی یہ تھی کہ کمانڈو بائیں ہاتھ کا آدمی تھا اور اس کی پستول دائیں طرف تھی۔ زید پہلے ہی ہولسٹر کا بکسوا کھول چکا تھا اور کمانڈو اس سے بے خبر تھا۔ اچانک زید نے کمانڈو کا پستول نکالا اور کمانڈو کی بندوق پر ہاتھ رکھ کر کمانڈو کی ناک پر اپنا سر مارا اور کمانڈو اس ٹکر سے پیچھے کھڑکی پر گرا، وہ گاڑی سے باہر نکلا اور نہر میں چھلانگ لگا دی۔ اور کچھ ہی دیر میں دوسری طرف چلا گیا۔ کرشن کانت اور دیگر تمام لوگ ابھی تک حالات کا تجزیہ نہیں کر پائے تھے اور حالات کے تجزیہ میں اس تاخیر نے زید کے حق میں کام کیا کہ اچانک اس نے اپنی بندوق سے گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ پہلی چند گولیوں نے ڈرائیور کے ساتھ ساتھ کار میں موجود کمانڈو کو چاٹ لیا اور اگلی چند گولیوں سے 2 بی ایس ایف جوان ہلاک اور تیسرا زخمی ہو گیا اور کرشن کانت بھی اس کی فائرنگ سے زخمی ہو گیا۔ زندہ اور صحیح سلامت بچ جانے والا واحد شخص وہ کمانڈو تھا جو جیپ کے پیچھے چھپا ہوا تھا لیکن زید گاڑی اور جیپ دونوں کے ٹائر پنکچر کرنے میں کامیاب رہا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ بچ جانے والا چاہے کمانڈو ہے لیکن وہ زید کا پیچھا نہیں کرے گا اور اپنے زخمی سپاہیوں کو نہیں چھوڑے گا۔ اس نے کچھ اور گولیاں چلائیں اور پھر وہ کھیتوں میں جانے لگا اور جلد ہی وہ اس کمانڈو کی بھی گولیوں کی پہنچ سے دور نکل گیا۔
بریگیڈئیر کٹاریہ اس وقت اپنے کمرے میں تھا. وہ اور اس کی بیوی نیتا بلکل ننگے تھے اور اس وقت کٹاریہ کا لن اس کی بیوی کی پھدی میں تھا اور وہ ٹانگیں اٹھاۓ اپنی بیوی کو چودنے میں مصروف تھا. وہ کچھ دیر قبل ہی بریگیڈ ہیڈکوارٹر سے آیا تھا اور ایک ہفتے کی کسر نکالنے والا تھا. اسی لیے اس نے کچھ کھانے پینے سے قبل ہی نیتا کو ننگا کیا اور اب اسے چود رہا تھا. نیتا کے ممے اچھل رہے تھے اور وہ بھی گانڈ اٹھا اٹھا کر اپنے شوہر کا لن لے رہی تھی اور چلا رہی تھی "ااااااااااااااااااااااااااااااااااااااہہہہہہہہہہہ ہہہ فففکککک ممممیییی ووووووووووووووووووووووووووووووکککیییییی آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآہہہہہہہ ہہی چچچچوووووووووووووووووووووووووووووودددددددددددددددد ددددددددددددووووووووووووووووووووووووووووووووو ممممجججھھھےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے ااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااوووو ووووووووووووووووووووووووہہہہہہہہہہ یییییسسسس فففککک مممیییی مممموووووووووووووووووووورررررررررررررررررررررررررر رررررررررررررر اااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااا اااااہہہہہہہہ ککککممممنننگگگگگ آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآہہہہ ہہہہ" نیتا کا جسم اکڑا اور اس کا پانی کٹاریہ کو اپنے لن پر محسوس ہوا جبکہ وہ اسے چودتا رہا اور چند تیز جھٹکوں کے بعد کراہا "کککککممممنننگگگگگ نننیییتتتوووووووووووووووووووووووووووووو آآآآہہہہہ آآآآآہہہہہ" اس نے پوری شدت سے اپنی بیوی کی پھدی کو اپنے پانی سے سیراب کر دیا اور اس کی ٹانگیں کندھے سے اتار کر اس کے اوپر گر کر ہانپنے لگا. لن سکڑ کر باہر آیا تو کٹاریہ اس کے اوپر سے اتر کر ساتھ لیٹ گیا. نیتا اپنی پھدی کے پانی ہاتھ لگا کر بولی "ییووووو فففلللڈڈڈ ممییی ااااپپپ للائک اولڈ دیز وکی" وہ کٹاریہ کو پیار سے وکی بولتی تھی. وہ بولا "تم آج بھی ویسی ہی سندر ہو جیسی سہاگرات پے تھیں تو ایسی خوبصرتی................" فون کی گھنٹی بجی تو اس نے فون اٹھا کر واپس کریڈل پر پٹختے ہوۓ کہا "باسٹرڈز.... بیوی سے رومینس تک نہیں کرنے دیتے" نیتا ہنسی لیکن تبھی دوسرا فون بجا تو وہ چونک کر بولا "اٹ مسٹ بی سم تھنگ امپورٹنٹ" اس نے فون اٹھایا اور جیسے جیسے وہ سنتا گیا. اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہوتا گیا اور وہ چلایا "مجھے سارے آفیسرز آدھے گھنٹے میں کانفرنس روم میں چاہئیں اور اگر کسی مادرچود نے ماں چدوائی تو انکوائری گانڈ میں ڈال دوں گا" اس نے فون پٹخا اور ٹشو سے لن صاف کر کے الماری کی طرف بڑھا تو نیتا نے کہا "وکرم کھانا.........." وہ بولا "اٹس ارجینٹ" نیتا بھی ننگی ہی اٹھ کر وردی پہننے میں اس کی مدد کرنے لگی. اسے بیک وقت اس کی ڈیوٹی سے محبت پر پیار بھی آتا تھا اور غصہ بھی. کچھ ہی دیر میں کانفرنس روم میں تمام اہم افسر موجود تھے. بی ایس ایف کمانڈنٹ نے ساری صورتحال پر بریفنگ دی تو کٹاریہ نے کرشن کانت کو چند موٹی موٹی گالیاں دیں اور کہا "پتا نہیں کس بہن چود کو یہ خیال آیا کہ اپنے افسروں پر نظر رکھنے کے لیے ایسے چوتیے کو یہاں بھیج دے. کتی کے بچے نے ناصرف اس پاکستانی ایجنٹ کو گنوا.................... ایک منٹ............ یہ پاکستانی ایجنٹ یا تو پاکستان سے جارہا تھا یا آرہا تھا................ لیکن یہ عام پاکستانی ایجنٹ نہیں ہے. یہ کرشن کانت کی اصل شناخت سے آگاہ تھا مطلب یہ دہلی سے آرہا تھا اور ایسا.................... اوہ نو...... ہی از ڈیفینیٹلی دیٹ باسٹرڈ وائٹ فلاور" سب افسران چونک اٹھے. کرنل وجے نے کہا "سر. آپ کو اتنا یقین کیوں ہے کہ وہ وائٹ فلاور ہی ہے" وہ بولا "کیونکہ اس کو تم نہیں جانتے لیکن میں جانتا یوں. ہمارے اتنا اندر تک کوئی پاکستانی ایجنٹ نہیں گھسا ہوا جتنا وہ گھسا ہوا ہے. کرشن کانت کی اصل شناخت سے تم سب واقف نہیں تھے لیکن وہ واقف ہے. اسی سے اندازہ ہو رہا ہے کہ اٹ مسٹ بی وائٹ فلاور" کرنل سوریہ رگھوونشی نے کہا "سر پھر تو ہمیں بارڈر کے ہر طرف دیکھنا ہو گا" وہ بولا "نو. وہ بہت چالاک ہے. لک ان ایوری ہول اون آور سائڈ. وہ گھس کے مارنے والوں میں سے ہے. بھاگنے والوں میں سے نہیں" بی ایس ایف کمانڈنٹ سوریہ کانت نے کہا "سر. آپ ہدایات دے دیں جو ہر جوان تک پہنچا سکوں" کرنل کٹاریہ نے اسے ہدایات دیں اور اپنے لیے کافی منگوائی کیونکہ وہ پر اعتماد تھا کہ یہ ایجنٹ وائٹ فلاور ہی ہے اس بار وہ اسے بھاگنے نہیں دے گا. ایجنٹ وائٹ فلاور بریگیڈیئر کٹاریہ کی زندگی کی سب سے بڑی اور بدترین حقیقت تھی۔ اسے دل نواز لاشاری کی دیکھ بھال اور حفاظت کا ٹاسک دیا گیا تھا اور وہ تقریباً 3 سال تک کامیابی سے اپنا کام سرانجام دیتا رہا اور پاکستانی ایجنٹ لاشاری کے قریب نہ آسکے۔ اس نے اور اس کے ایجنٹوں نے پاکستان کے ایک بہترین ایجنٹ کو بھی ماردیا جس نے لاشاری کو مارنے کی کوشش کی لیکن یہ وہ وقت تھا جب وائٹ فلاور اس مشن میں شامل ہوا اور کٹاریا کو یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وائٹ فلاور نے لاشاری کی جگہ کا پتہ کیسے لگایا اور وہ کیسے اسے دہلی سے باہر لے جانے میں کامیاب ہو گیا۔ اگر لاشاری کو بھارت میں قتل کیا جاتا تو سینئر حکام کی جانب سے کٹاریا پر اتنی سخت کارروائی نہ ہوئی ہوتی لیکن جب پاکستان میں دل نواز لاشاری کے فوجی عدالت میں ٹرائل کی خبر بھارتی حکومت تک پہنچی تو حکام نے کٹاریا کے خلاف سخت ایکشن لیا۔ بظاہر کٹاریا کو بریگیڈیئر کے عہدے پر ترقی دی گئی اور پھر اتنے اہم سرحدی علاقے میں تعینات کیا گیا لیکن اہل علم کو معلوم تھا کہ یہ کوئی انعام نہیں بلکہ سزا تھی جو کٹاریا کو دی گئی تھی اور اسے ایجنسی سے نکالا جا چکا تھا۔ اب وہ صرف ایک سادہ بریگیڈ کمانڈر تھا اور اس کی غفلت کی سزا کے طور پر اسے دہلی سے کئی میل دور تعینات کیا گیا تھا۔ ایک زمانے میں یہ چرچا تھا کہ کٹاریا اپنی ذہانت کی بدولت ایجنسی کے اعلیٰ ترین عہدے پر ضرور پہنچیں گے لیکن اس ایک ناکامی نے کٹاریا کے خوابوں اور کیریئر کو برباد کر دیا اور کٹاریا اس سب کا ذمہ دار وائٹ فلاور کے ایجنٹ کو ٹھہراتا تھا۔ اس ملاقات کے چند ہی لمحوں میں سرحد پر بھارتی فوج اور بی ایس ایف کے وائرلیس سیٹ ایجنٹ سفید وائٹ فلاور کے نام سے گونجنے لگے اور سپاہیوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس پاکستانی ایجنٹ کو پکڑنے کا فریضہ پوری لگن سے انجام دیں اور بریگیڈ کمانڈر کی طرف سے یہ بھی اعلان کیا گیا تھا کہ وہ اس شخص کو ذاتی حیثیت میں انعام دیں گے جو اسے پکڑے گا۔ ان میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ ایجنٹ وائٹ فلاور بھی ان میں سے ایک وائرلیس سیٹ استعمال کر رہا ہے اور دشمن سے اپنا نام اتنی شدت سے سن کر مسکرا رہا ہے۔
سرحد کے پاکستانی جانب بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں ایک اور اہم کانفرنس جاری تھی۔ کیپٹن اسامہ کے لاپتہ ہونے کے بارے میں سینئر پاکستانی حکام کو آگاہ کردیا گیا تھا اور یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ وہ بھارتی علاقے میں ہے اور وہ غلطی سے سرحد پار کر گیا ہے۔ بھارتی جانب سے فائرنگ کی آوازیں آنے کے بعد یہ خدشہ سچ ثابت ہوا اور اب تمام اہم افسران کانفرنس روم میں جمع ہو چکے تھے۔ بریگیڈیئر رؤف نے کہا " ہمیں درست معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ فائرنگ کے اس واقعے میں کیا ہوا اور ہمارا لڑکا اب کیسا ہے"، کرنل مراد نے کہا، "جناب، میرے لڑکے اس پر کام کر رہے ہیں اور ہمیں کچھ وقت میں درست معلومات مل جائیں گی۔ "بریگیڈیئر رؤف نے پھر کہا، "حضرات، ہمیں واضح ہونا چاہیے کہ ہم کیپٹن اسامہ کو کسی بھی قیمت پر انڈین آرمی کے ہاتھ میں نہیں چھوڑیں گے۔" میجر جنید نے کہا، "جناب، ہمیں بس اپنے اعصاب کو پرسکون کرنا ہے اور اس کے پیغام کا انتظار کرنا ہے۔" کرنل ستار نے کہا، "میجر، آپ کو اپنے لڑکے پر بہت اعتماد لگتا ہے کیونکہ آپ اس کے سیکشن کمانڈر ہیں لیکن لگتا ہے آپ کو بریگیڈیئر کٹاریا کے بارے میں نہیں معلوم" جنید نے مسکرا کر کہا، "سر، میں بریگیڈیئر کٹاریہ کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ لیکن بریگیڈیئر کٹاریہ کو اس بات کا علم نہیں کہ وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی مصیبت کے پیچھے جا رہے ہیں" ایک کیپٹن کمرے میں داخل ہوا اور کہا، "جناب، ہم نے ابھی انڈین آرمی کے وائرلیس سیٹ پر ایک وائرلیس کال انٹرسیپٹ کی ہے اور وہ مسلسل اعلان کر رہے ہیں۔ فوجیوں کو کہ انہوں نے اس پاکستانی کو پکڑنا ہے۔ کسی بھی قیمت پر فائز کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایجنٹ وائٹ فلاور ہے" سب چونک گئے۔ بریگیڈیئر رؤف نے کہا "کیپٹن. اس سے تمہارا کیا مطلب ہے‘‘ کپتان کچھ کہنے ہی والے تھے کہ ایک میجر کمرے میں داخل ہوا اور بولنے کی اجازت مانگی۔ بریگیڈیئر نے میجر کو بولنے کی اجازت دی اور میجر نے بریگیڈیئر کو نہر کے کنارے ہونے والی لڑائی کے بارے میں بتایا۔ کیپٹن نے کہا، "جناب، کیپٹن اسامہ سویلین لباس میں تھے اس لیے ہندوستانیوں کا خیال ہے کہ وہ ہمارے ایجنٹوں میں سے ہیں جو یا تو پاکستان آ رہا تھا یا کسی سنگین مشن کے لیے انڈیا میں داخل ہو رہا تھا۔" بریگیڈیئر رؤف نے ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ "اس کا مطلب ہے کہ ہمارا لڑکا فی الحال ان کی تحویل سے فرار ہو گیا ہے" جنید نے کہا، "میں نے آپ کو بتایا تھا کہ بریگیڈیئر کٹاریا کو نہیں معلوم کہ وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی مصیبت کا پیچھا کر رہے ہیں"۔ کرنل ستار بولنے ہی والا تھا کہ ایک سپاہی کمرے میں داخل ہوا اور اس نے میجر کو ایک چٹ دے دی جو نہر کے کنارے لڑائی کی خبر لے کر آیا تھا۔ اس نے چٹ پڑھی اور کہا ’’یہ کیپٹن اسامہ کا پیغام ہے اور یہ کوڈ ورڈز میں ہے‘‘ میجر جنید نے چٹ تھام لی اور اس نے کاغذ پر لکھنا بھی شروع کر دیا کہ کوڈ والے پیغام کو ڈی کوڈ کیا جائے۔ اس نے کہا "جناب اس نے ہندوستانیوں کی ان کے وائرلیس سیٹ پر گفتگو بھی سنی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی ان میں سے ایک وائرلیس سیٹ استعمال کر رہا ہے، وہ کہتا ہے کہ ہمیں اپنے اعصاب کو پرسکون کرنا چاہیے اور ایسا کام کرنا چاہیے کہ ہماری طرف سے کچھ نہیں ہوا ہے سرحد پر کیونکہ ہندوستانیوں کو یہ نہیں معلوم کہ اس نے غلطی سے سرحد پار کی ہے۔ اس کا مزید کہنا ہے کہ وہ بتائے گا کہ وہ کب اور کیسے بارڈر کراس کرے گا اور ہمیں اس وقت اس کی مدد کرنی ہے" کرنل ستار نے کہا، "میجر مجھے ماننا پڑے گا کہ آپ نے اپنے لڑکوں کی بہت اچھی تربیت کی ہے کیونکہ ایسی حالت میں اعصاب کو پرسکون رکھنا قابل تعریف ہے" بریگیڈیئر رؤف نے بھی کہا "جہاں تک مجھے معلوم ہے، ایجنٹ وائٹ فلاور بھی آپ کے ماتحت ہے۔ یہ سن کر خوشی ہوئی کہ ہمارے ایجنٹ نے انڈین آرمی کے بریگیڈیئر پر ایسا اثر ڈالا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ ہمارا عام کپتان بھی ایجنٹ وائٹ فلاور ہے" جنید نے اپنے سامنے بیٹھے افسروں کی طرف دیکھا اور کہا "بدقسمتی سے اس بار وہ ٹھیک سوچ رہا ہے۔‘‘ بریگیڈیئر رؤف اپنی کرسی سے اٹھے اور کہا "اس سے تمہارا کیا مطلب ہے" جنید نے کہا " کیپٹن اسامہ ایجنٹ وائٹ فلاور ہے اور بریگیڈیئر کٹاریہ نے دہلی میں اس کا سامنا کیا ہے، یہ ایجنٹ وائٹ فلاور کی ٹیم تھی جو دل نواز لاشاری کو پاکستان لے کر آئی تھی اور بریگیڈیئر کٹاریہ۔ اس ٹیم کا انچارج تھا جو دہلی میں لاشاری کی حفاظت کر رہی تھی" کرنل ستار نے کہا "اس کا مطلب ہے کہ ہمارا ایک بڑا اثاثہ اب خطرے میں ہے" جنید مسکرایا اور بولا، "نہیں جناب، ہمارا اثاثہ دنیا کا سب سے غیر متوقع شخص ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں کہہ رہا تھا کہ بریگیڈیئر کٹاریا کو نہیں معلوم کہ وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی مصیبت کا پیچھا کر رہے ہیں۔ ہمارا ایجنٹ جانتا ہے کہ دشمن سے کیسے نمٹنا ہے" بریگیڈیئر رؤف نے کہا، "لیکن میجر، میں پریشان ہوں کیونکہ وہ اکیلا ہے اور انڈین آرمی کا مکمل بریگیڈ بی ایس ایف کے ساتھ اس کا پیچھا کر رہا ہے" جنید نے مسکرا کر کہا، "جناب، ہمیں صرف پرسکون رہنا ہے۔ جیسا کہ اس نے کہا کیونکہ اس کے پاس شیطان کا دماغ ہے اور اس سے کسی بھی چیز کی توقع کی جا سکتی ہے، اگر مجھے اس کی طرف سے فون آئے اور وہ مجھے بتائے کہ وہ دہلی سے بول رہا ہے تو مجھے حیرت نہیں ہوگی" بریگیڈئیر رؤف نے کہا "ٹھیک ہے جنٹلمین۔ یہ میٹنگ ابھی ختم ہو گئی ہے لیکن آپ سب کو کسی بھی ہنگامی صورت حال کے لیے سٹینڈ بائی پر رہنا چاہیے" جنید کانفرنس روم سے باہر نکلا تو ایک سپاہی نے آ کر بتایا کہ اس کے لیے فون آیا ہے۔ جنید نے کہا، "ہیلو" حرا کی آواز آئی، "جنید، میں حرا ہوں" جنید چونک گیا اور بولا، "ہاں حرا، کیا ہوا" اس نے کہا، "مجھے ابھی خبر ملی ہے کہ ہمارے ایک افسر نے حد عبور کر لی ہے۔ غلطی سے۔ میں زید سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن رابطہ قائم نہیں ہو رہا۔” جنید نے ایک گہرا سانس لیا اور کہا۔” حرا میری بات سنو، زید وہ افسر ہے جو غلطی سے سرحد پار کر گیا ہے" وہ بے چینی سے بولی "اب وہ کیسا ہے" جنید نے ہنستے ہوئے کہا، "تم اس کے بارے میں کیوں پوچھ رہی ہو، بہتر ہے کہ تم دشمن کے بارے میں پوچھو" وہ الجھ کر بولی، "کیا مطلب ہے" جنید نے اسے لڑائی کے بارے میں بتایا۔ نہر کے کنارے والی اور بولا "تمہارے شوہر کی عادت ہے کہ وہ ہمیشہ ہندوستانیوں کو نقصان پہنچا کر اپنی آمد کا اعلان کرتا ہے، میں جانتا ہوں کہ اس کا اس طرح انتظار کرنا تمہارے لیے مشکل ہے لیکن تمہیں سمجھ جانا چاہیے کہ تم پاک فوج کے سب سے زیادہ پاگل افسر کی بیوی ہو۔ عام طور پر لوگ مصیبتوں سے بھاگتے ہیں لیکن وہ ایک ایسا شخص ہے جو براہ راست بھاگتا ہے مصہنتوں کی طرف لیکن تم فکر نہ کرو وہ اپنے کام کو اچھی طرح جانتا ہے اور وہ جلد ہی واپس آجائے گا" اس نے کہا، "مجھے صورتحال سے آگاہ کرتے رہنا" اس نے ہاں کہا اور فون بند کر دیا۔
بریگیڈیئر کٹاریا اور ان کی ٹیم صبح اسی کانفرنس روم میں بیٹھی تھی۔ بی ایس ایف کمانڈنٹ سوریا کانت اور کرنل رگھوونشی نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ بھارتی فوج اور بی ایس ایف نے علاقے کے ہر سوراخ کی تلاشی لی لیکن انہیں پاکستانی ایجنٹ کا سراغ نہیں مل سکا۔ کرنل وجے نے کہا" مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ یا تو اسے زمین کھا گئی ہے یا آسمان نے اسے نگل لیا ہے"، بریگیڈیئر کٹاریہ نے کہا، ’’ہم نے اس علاقے کے ہر ایگزٹ پوائنٹ کو گھیرے میں لے لیا ہے اس لیے اس علاقے سے باہر جانا ناممکن ہے، وہ یقیناً اسی علاقے میں ہے اور تمہارے آدمیوں نے تلاش کرنے میں غلطی کی ہو گی" ایک حوالدار بولنے ہی والا تھا کہ کرنل وجے نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور بولا، "تمہیں نہیں معلوم کہ بریگیڈیئر صاحب بیٹھے ہیں، تمہاری ہمت کیسے ہوئی ان کے سامنے بولنے کی" بریگیڈیئر کٹاریہ نے کرنل وجے کی طرف غصے سے دیکھا اور کہا، "شٹ اپ وجے، یہ بہت سینئر حوالدار ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ کب اور کہاں بولنا ہے" اس نے حوالدار کی طرف دیکھا اور اسے بولنے کو کہا۔ حوالدار رام داس نے کہا، "جناب، ہماری فورسز نے اس علاقے کے ہر کونے کو چیک کیا تھا لیکن مندر کے بڑے پنڈت کے کمرے کو چیک نہیں کیا گیا ہے" بی ایس ایف کمانڈنٹ سوریہ کانت نے کہا، "ہاں یہ سچ بول رہا ہے" رام داس نے کہا، "جناب، میں اور دو دوسرے سپاہی نچلی ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمیں مندر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے، ایک آدمی نے بتایا کہ بڑے پنڈت کے کمرے میں ایک مہمان ٹھہرا ہوا ہے، میں نے یہ بات میجر سوریہ بھان سنگھ کو بتائی لیکن انہوں نے مجھے ڈانٹ دیا اور کہا کہ مجھے اونچی ذات والوں سے حلن محسوس ہوتی ہے" بریگیڈیئر کٹاریہ نے غصے سے کرنل وجے کی طرف دیکھا اور کہا، "اگر یہ سچ ہے تو نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہو"
جاری ہے.............
زید صحرا میں اپنی جیپ چلا رہا تھا۔ وہ اس صحرائی سرحد پر انٹیلی جنس یونٹ کے کمانڈنٹ کے طور پر تعینات تھا۔ ایجنسی کو سخت شک تھا کہ دشمن اس علاقے میں پاکستان کے خلاف کوئی خطرناک منصوبہ بنا رہا ہے اور وہ ایک قابل انٹیلی جنس افسر چاہتے تھے اس لیے ایجنسی نے اپنے بہترین افسر کو اس علاقے میں انٹیلی جنس یونٹ کا کمانڈنٹ تعینات کیا۔ زید اس علاقے میں کیپٹن اسامہ کی شناخت پر تعینات تھا۔ اس نے ابھی ایک ہفتہ اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ گزارا تھا کہ اگلا مشن آیا تو اسے اس علاقے میں آنا پڑا، اگرچہ حرا زید کے اتنی جلدی اس سے دور جانے کی وجہ سے زیادہ خوش نہیں تھی لیکن چونکہ وہ خود ایک سپاہی تھی اس لیے وہ سمجھتی تھی کہ ڈیوٹی ہر سپاہی کی اولین ترجیح ہے۔ اسے اس علاقے میں تعینات ہوئے تقریباً 6 ماہ ہوچکے تھے لیکن وہ ابھی تک دشمن کی اس خطرناک سرگرمی کا سراغ نہیں لگا پا رہا تھا جو اس علاقے میں چل رہی تھی اور وہ سمجھ گیا تھا کہ دوسری طرف انٹیلی جنس یونٹ کا کمانڈنٹ بہت ہوشیار ہے اور وہ بڑی کامیابی کے ساتھ ان سرگرمیوں کو پاکستانی انٹیلی جنس سے چھپانے میں کامیاب ہورہا تھا۔ پاکستانی ایجنسی اس مشن سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھی اس لیے انہوں نے زید سے کہا کہ وہ اس علاقے میں انٹیلی جنس یونٹ کے کمانڈنٹ کے طور پر کام جاری رکھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ انہیں جلد یا بدیر کچھ معلومات مل جائیں گی لیکن ضرورت بہترین کمانڈنٹ کی تھی۔ علاقے کی سب سے دور پوسٹ پر موجود سپاہیوں کو دشمن کے علاقے میں ایک غیر معمولی نقل و حرکت کی اطلاع ملی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ زید اس حرکت کو خود چیک کرے اور یہی وجہ تھی کہ وہ خود اس علاقے میں جا رہا تھا کیونکہ اس کا ڈرائیور چھٹی پر تھا اور مشن بہت اہم تھا اس لیے اس نے خود اکیلے جانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اس علاقے میں آکر صحرا میں گاڑی چلانے کی تربیت حاصل کی تھی اور اب وہ صحرا میں گاڑی چلانے کا ماہر بن چکا تھا۔ وہ صحرا میں آسانی سے گاڑی چلا رہا تھا کہ اچانک اس کے سامنے ریت کا طوفان نمودار ہوا۔ زید کو صحرا میں رہنے کے بارے میں ایک ماہ کی ٹریننگ دی گئی تھی اور اس ٹریننگ میں سب سے زیادہ زور ریت کے طوفانوں پر دیا گیا تھا اس لیے وہ اس طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھا۔ اس کی جیپ میں صحرائی چشمہ تھا تو اس نے اسے باہر نکالا اور اپنی آنکھوں پر پہن لیا۔ اب وہ ریت میں دیکھنے کے قابل تھا لیکن بینائی زیادہ واضح نہیں تھی۔ انسٹرکٹر ٹریننگ کی طرف سے اس کو یہ واضح ہدایت تھی کہ وہ طوفان کے دوران نہ رکے اور آگے بڑھتا رہے کیونکہ اگر وہ کہیں رک جائے گا تو اس پر ریت کا ڈھیر لگ جائے گا اور وہ ٹنوں ریت کے نیچے آجائے گا جس کے نتیجے میں دم گھٹ جائے گا اور موت واقع ہو جائے گی۔ . زید جیپ کو کافی رفتار سے چلاتا رہا لیکن طوفان اتنی شدت کا تھا کہ جیپ ریت میں پھنس گئی اور وہ سمجھ گیا کہ یہ آگے نہیں بڑھے گی۔اس نے فوراً جیپ چھوڑنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ریت جیپ پر چڑھنے لگی تھی اور جیپ جلد ہی ریت میں ڈوبنے والی تھی۔ وہ اپنا اسلحہ اور ضروری سامان اپنے ساتھ لے کر جیپ سے باہر نکل آیا۔ اس نے پوسٹ کی سمت کا اندازہ لگایا اور پھر اس طرف چلنا شروع کر دیا۔ وہ ایک مضبوط سپاہی تھا اس لیے اسے ریت کے اس شدید طوفان میں چلنے میں کوئی پریشانی نہیں تھی، آخر کار طوفان رک گیا لیکن زید نہیں رکا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ کچھ دیر میں پوسٹ پر پہنچ جاؤں گا لیکن پوسٹ نہیں آئی اور اس نے سوچا۔ اس نے پوسٹ تک پہنچنے کے متوقع وقت سے کہیں زیادہ لمبا سفر کر لیا تھا۔ اس نے رک کر دیکھا، غروب آفتاب قریب آچکا تھا اور رات ہونے والی تھی، اس نے دیکھا کہ کچھ فاصلے پر سبزہ ہے تو وہ اس طرف چلنے لگا۔ وہ ہریالی کی طرف چلتا رہا اور پھر ایک سڑک پر پہنچا جب کہ سڑک کے دوسری طرف ایک نہر تھی اور پھر ہرے بھرے کھیت تھے۔ زید نے دل میں سوچا، "پاکستانی طرف میں ہریالی ہے لیکن ایسے کھیت نہیں ہیں جہاں فصلیں کاشت کی جا تی ہوں اور نہ ہی کوئی نہر ہو، ارے نہیں! اب میں پاکستان میں نہیں ہوں تو بہت برا ہو گا یہ تو۔" اس نے نقشہ نکالا اور اس کا بدترین خوف سچ ثابت ہوا کیونکہ وہ پاکستان میں نہیں تھا اور اب وہ ہندوستان کی سرزمین پر کھڑا تھا۔ اس زمانے میں سرحد پر باڑھ نہیں لگائی گئی تھی اس لیے لوگوں کے لیے سرحد عبور کرنا زیادہ مشکل نہیں تھا اور ریت کے ان طوفانوں کی وجہ سے بہت سے لوگ غلطی سے سرحد پار کر جاتے تھے، کبھی ان عام شہریوں کو واپس اپنے ملکوں میں بھیج دیا جاتا اور کبھی قیدیوں کے طور پر لیا جاتا اور یہ سرحد کے دونوں طرف ہوتا تھا۔ زید انڈیا میں پکڑے جانے کا مطلب سمجھتا تھا، وہ انڈین ایجنسیوں کے سب سے بڑے دشمنوں میں سے ایک تھا اور اس نے انہیں اتنا نقصان پہنچایا تھا اس لیے وہ سمجھ گیا کہ وہ اس کے ساتھ کیا کریں گے۔ اس نے نقشہ دیکھا اور سوچا کہ سرحد اس سے زیادہ دور نہیں ہے اس لیے اس نے واپس جا کر سرحد پار کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ آگے بڑھنے ہی والا تھا کہ سڑک پر ایک کار آئی اور تیزی سے اس کی طرف بڑھی۔ زید کسی بھی صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو گیا، اب اندھیرا ہوتا جا رہا تھا اور سرحد کے اس حصے میں اس کی موجودگی مشکوک تھی اسی لیے گاڑی تیزی سے اس کی طرف آئی اور اسے لگا کہ وہ ایک سے زیادہ بندوقوں کے نشانے پر ہے۔ زید کے لیے بی ایس ایف کے عام سپاہیوں سے نمٹنا کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن جیسے ہی سپاہی باہر نکلے، زید سمجھ گیا کہ اگر وہ ان سے لڑے گا تو سیدھی موت ہوگی کیونکہ وہ دو بھارتی بلیک کیٹ کمانڈوز کی بندوقوں کے نشانے پر تھا۔ اسی دوران ایک شہری بھی باہر نکلا اور زید سمجھ گیا کہ وہ سی بی آئی کے ایریا کمانڈر کے سامنے ہے۔ اس نے سرحد کے اس طرف ہر قابل ذکر شخص کی تفصیلات کا مطالعہ کیا تھا اور وہ آفیسر کرشن کانت کی شناخت سے واقف تھا۔ اس کے پاس واحد پلس پوائنٹ یہ تھا کہ اس کے ساتھ اس کی حقیقی شناخت کی کوئی علامت نہیں تھی اور کوئی بھی اسے پہلی نظر میں نہیں پہچان سکتا تھا۔ کرشن کانت نے کہا، "اپنا ہتھیار چھوڑ دو ورنہ میرے کمانڈوز تمہیں گولی مار دیں گے۔" زید نے اپنا ہتھیار اور بیگ زمین پر گرا دیا اور اپنے ہاتھ اپنی گردن کے پیچھے رکھ لیے۔ زید کو اس حقیقت کا علم تھا کہ اس علاقے میں انٹیلی جنس افسران کے تین پراسرار قتل ہوچکے تھے اور ہندوستانی حکومت نے ہر سینئر انٹیلی جنس افسر کے لیے یہ لازمی قرار دیا تھا کہ وہ کم از کم دو بلیک کیٹ کمانڈوز کی سیکیورٹی کے بغیر باہر نہ جائے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ کرشن کانت کو اس علاقے میں سی بی آئی نے بی ایس ایف اور انڈین آرمی کے افسران پر نظر رکھنے کے لیے تعینات کیا تھا کیونکہ اس بات کی بہت سی شکایات موصول ہوئی تھیں کہ بی ایس ایف اور انڈین آرمی کے افسران اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ کرشن کانت نے کہا، ’’ہم نے تمہیں رنگے ہاتھوں پکڑا ہے اور اب تم اس کے لیے جوابدہ ہو گے۔‘‘ زید نے اپنے اعصاب کو پرسکون رکھا اور انتہائی اطمینان سے کہا، ’’دراصل، مسٹر کرشناکانت مجھے روکنے کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔‘‘ کرشن کانت اس کا نام سن کر حیران ہوئے اور بولے، "تم میرا نام کیسے جانتے ہو؟" زید نے کہا، "میں تمہارا نام اور تمہاری ذمہ داری دونوں کو اچھی طرح جانتا ہوں" کرشن کانت بہت خفیہ مشن پر تھا اور اوپر کے اہلکاروں میں بہت کم لوگ اس کی اصل شناخت سے واقف تھے۔ یہ ایک جوا تھا جو زید نے کھیلا اور وہ کرشن کانت کو الجھانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ کرشن کانت نے کہا "تم کون ہو اور مجھے کیسے جانتے ہو" زید نے کہا" میں تمہیں اپنی اصل شناخت نہیں بتانا چاہتا لیکن میں تم میں سے ہوں اور تم نے مجھے دشمن کے علاقے میں بہت اہم مشن پر جانے سے روکا ہے"۔ کرشن کانت نے کہا، "تمہارا یہ کہنا کہ تم ہمارے ایجنٹوں میں سے ایک ہو" اس کے چہرے کے تاثرات نہیں بدلے اور اس نے کہا، "میں نے تم سے کہا نا کہ میں تمہیں کچھ نہیں بتاؤں گا لیکن میں تم میں سے ہوں اور تم ایک بہت اہم مشن میں رکاوٹ بن رہے ہو" کرشن کانت نے کہا، "میں کیسے مان سکتا ہوں کہ آپ ہم میں سے ہیں، مجھے اپنی شناخت دکھائیں۔" وہ تم سے آپ پر آگیا تھا. اس بچگانہ تبصرے پر زید کے ساتھ ساتھ کمانڈوز بھی ہنسنے لگے۔ زید نے کہا، "یہ دونوں کمانڈوز بھی جانتے ہیں کہ ہم اپنے ساتھ کوئی شناخت نہیں رکھتے، اگر تم جیسے افسر ہوتے تو ہم ہمیشہ دشمن کے علاقے میں پکڑے جاتے۔" کرشن کانت نے کہا، "تو پھر مجھے کوئی ایسی بات بتائیں جس کی وجہ سے۔ میں یقین کر سکوں کہ آپ ہم میں سے ہیں" ایک کمانڈو نے کہا، "اپنا سروس کوڈ بتادیں" زید نے مسکرا کر کہا، "تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں یہ سروس کوڈ صرف بریگیڈیئر کٹاریہ کو بتا سکتا ہوں" یہ ایک غلطی تھی جو زید نے کی تھی۔ کیونکہ دوسرے کمانڈو نے فوراً مشورہ دیا ’’جناب ہمیں ان کو بریگیڈ ہیڈ کوارٹر لے جانا چاہیے اور اگر یہ ہم میں سے ہیں تو ہم ان کی سرحد پار کرنے میں مدد کریں گے" کرشن کانت فوراً اس پر راضی ہو گیا جبکہ زید نے دشمن کو ایسا آئیڈیا دینے پر اپنے آپ پر ہی لعنت بھیجی۔ کمانڈوز نے اسے گاڑی میں بیٹھنے کو کہا وہ جانتا تھا کہ وہ اس کا ہتھیار اسے واپس نہیں دیں گے تو اس نے بیگ رکھ لیا اور کمانڈوز نے بھی بیگ دینے میں تعرض نہ کیا. اس نے دل ہی دل میں کہا "سالو اس ہتھیار کے بدلے تم مجھے بہت کچھ واپس دو گے"۔ یہ ایک فوجی کار تھی اور زید پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا جبکہ دونوں کمانڈوز زید کے دونوں طرف بیٹھے تھے۔ کرشن کانت ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر تھا اور گاڑی نہر کے کنارے بریگیڈ ہیڈکوارٹر کی طرف بڑھنے لگی۔ زید کا چہرہ بہت پرسکون دکھائی دے رہا تھا لیکن اس کے اندر ایک طوفان تھا کیونکہ وہ اس حقیقت سے واقف تھا کہ وہ انڈین ایجنٹ نہیں ہے اور اگر وہ بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پہنچے گا تو یہ پتہ چل جائے گا۔ یہ واضح تھا کہ اسے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پہنچنے سے پہلے کچھ کرنا تھا لیکن وہ دو اچھے تربیت یافتہ بلیک کیٹ کمانڈوز کے درمیان بیٹھا ہوا تھا اور ان سے بچنا بہت مشکل تھا۔ لیکن قدرت زید پر مہربان تھی کیونکہ گاڑی رک گئی. اس کی وجہ سڑک پر بی ایس ایف کی ایک جیپ تھی جو کھڑی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ جیپ میں کوئی خرابی ہے جس کی وجہ سے جیپ رک گئی ہے اور اس کے سامنے بی ایس ایف کے 3 جوان کھڑے تھے۔ کرشن کانت اور ایک کمانڈو گاڑی سے باہر نکلے اور بی ایس ایف کے ان سپاہیوں سے بات کرنے لگے۔ زید کو لگا کہ یہ قدرت کی طرف سے بھیجا جانے والا موقع ہے اور گاڑی دوبارہ چلنے سے پہلے اسے کچھ کرنا ہوگا۔ اس نے دونوں طرف دیکھا، ایک طرف کھلا میدان تھا اور یہ گراؤنڈ بارڈر کی طرف جاتا تھا اور اس گراؤنڈ کے آخر میں پاکستان تھا جبکہ دوسری طرف نہر تھی اور اس نہر کے بعد سرسبز و شاداب میدان تھے۔ زید کے ساتھ بیٹھا کمانڈو بائیں طرف تھا اور اس طرف گراؤنڈ تھا جبکہ دائیں طرف والا کمانڈو گاڑی سے اتر چکا تھا اور اب وہ بی ایس ایف کے جوانوں سے بات کر رہا تھا۔ زید کا جلد فیصلہ کرنے کا وقت تھا، اس نے تجزیہ کیا کہ بائیں جانب نیچے جانا مشکل ہے کیونکہ کمانڈو بائیں جانب بیٹھا تھا اور اگر زید اس کمانڈو سے جان چھڑانے میں کامیاب ہو بھی جاتا تو بھی وہ تقریباً 4 بندوقوں کے نشانے پر ہوتا اور اس صورت میں موت واضح ہوتی۔ اس نے پھر دائیں طرف دیکھا تو ظاہر تھا کہ وہ ہندوستانی سرزمین میں مزید گہرائی میں جانے والا تھا لیکن وہ جانتا تھا کہ ہندوستان کی سرزمین پر رہنا اس کے لیے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اس کی پہلی ترجیح ان کمانڈوز اور کرشن کانت سے چھٹکارا حاصل کرنا تھا کیونکہ وہ آزاد رہ کر کچھ بھی کر سکتا تھا۔ اس نے کمانڈو کی طرف دیکھا جو بے حد آرام سے بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا۔ اپنے سکون سے زید نے کمانڈوز اور کرشن کانت دونوں پر یہ تاثر ڈال لیا تھا کہ وہ ان میں سے ایک ہے اور ان کو بھی لگتا تھا کہ وہ فارمیلٹی پوری کررہے ہیں۔ زید کو دوسرا فائدہ یہ تھا کہ دائیں طرف کے کمانڈو نے دروازہ کھلا چھوڑ دیا تھا اور گاڑی اور نہر کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں تھا۔ کمانڈوز نے زید کا ہتھیار لے لیا تھا لیکن اس کے اعتماد کی وجہ سے اس کا بیگ نہیں اٹھایا تھا۔ کمانڈو کی بندوق اس کی گود میں تھی جبکہ زید کے لیے دوسری خوش قسمتی یہ تھی کہ کمانڈو بائیں ہاتھ کا آدمی تھا اور اس کی پستول دائیں طرف تھی۔ زید پہلے ہی ہولسٹر کا بکسوا کھول چکا تھا اور کمانڈو اس سے بے خبر تھا۔ اچانک زید نے کمانڈو کا پستول نکالا اور کمانڈو کی بندوق پر ہاتھ رکھ کر کمانڈو کی ناک پر اپنا سر مارا اور کمانڈو اس ٹکر سے پیچھے کھڑکی پر گرا، وہ گاڑی سے باہر نکلا اور نہر میں چھلانگ لگا دی۔ اور کچھ ہی دیر میں دوسری طرف چلا گیا۔ کرشن کانت اور دیگر تمام لوگ ابھی تک حالات کا تجزیہ نہیں کر پائے تھے اور حالات کے تجزیہ میں اس تاخیر نے زید کے حق میں کام کیا کہ اچانک اس نے اپنی بندوق سے گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ پہلی چند گولیوں نے ڈرائیور کے ساتھ ساتھ کار میں موجود کمانڈو کو چاٹ لیا اور اگلی چند گولیوں سے 2 بی ایس ایف جوان ہلاک اور تیسرا زخمی ہو گیا اور کرشن کانت بھی اس کی فائرنگ سے زخمی ہو گیا۔ زندہ اور صحیح سلامت بچ جانے والا واحد شخص وہ کمانڈو تھا جو جیپ کے پیچھے چھپا ہوا تھا لیکن زید گاڑی اور جیپ دونوں کے ٹائر پنکچر کرنے میں کامیاب رہا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ بچ جانے والا چاہے کمانڈو ہے لیکن وہ زید کا پیچھا نہیں کرے گا اور اپنے زخمی سپاہیوں کو نہیں چھوڑے گا۔ اس نے کچھ اور گولیاں چلائیں اور پھر وہ کھیتوں میں جانے لگا اور جلد ہی وہ اس کمانڈو کی بھی گولیوں کی پہنچ سے دور نکل گیا۔
بریگیڈئیر کٹاریہ اس وقت اپنے کمرے میں تھا. وہ اور اس کی بیوی نیتا بلکل ننگے تھے اور اس وقت کٹاریہ کا لن اس کی بیوی کی پھدی میں تھا اور وہ ٹانگیں اٹھاۓ اپنی بیوی کو چودنے میں مصروف تھا. وہ کچھ دیر قبل ہی بریگیڈ ہیڈکوارٹر سے آیا تھا اور ایک ہفتے کی کسر نکالنے والا تھا. اسی لیے اس نے کچھ کھانے پینے سے قبل ہی نیتا کو ننگا کیا اور اب اسے چود رہا تھا. نیتا کے ممے اچھل رہے تھے اور وہ بھی گانڈ اٹھا اٹھا کر اپنے شوہر کا لن لے رہی تھی اور چلا رہی تھی "ااااااااااااااااااااااااااااااااااااااہہہہہہہہہہہ ہہہ فففکککک ممممیییی ووووووووووووووووووووووووووووووکککیییییی آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآہہہہہہہ ہہی چچچچوووووووووووووووووووووووووووووودددددددددددددددد ددددددددددددووووووووووووووووووووووووووووووووو ممممجججھھھےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے ااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااوووو ووووووووووووووووووووووووہہہہہہہہہہ یییییسسسس فففککک مممیییی مممموووووووووووووووووووورررررررررررررررررررررررررر رررررررررررررر اااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااا اااااہہہہہہہہ ککککممممنننگگگگگ آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآہہہہ ہہہہ" نیتا کا جسم اکڑا اور اس کا پانی کٹاریہ کو اپنے لن پر محسوس ہوا جبکہ وہ اسے چودتا رہا اور چند تیز جھٹکوں کے بعد کراہا "کککککممممنننگگگگگ نننیییتتتوووووووووووووووووووووووووووووو آآآآہہہہہ آآآآآہہہہہ" اس نے پوری شدت سے اپنی بیوی کی پھدی کو اپنے پانی سے سیراب کر دیا اور اس کی ٹانگیں کندھے سے اتار کر اس کے اوپر گر کر ہانپنے لگا. لن سکڑ کر باہر آیا تو کٹاریہ اس کے اوپر سے اتر کر ساتھ لیٹ گیا. نیتا اپنی پھدی کے پانی ہاتھ لگا کر بولی "ییووووو فففلللڈڈڈ ممییی ااااپپپ للائک اولڈ دیز وکی" وہ کٹاریہ کو پیار سے وکی بولتی تھی. وہ بولا "تم آج بھی ویسی ہی سندر ہو جیسی سہاگرات پے تھیں تو ایسی خوبصرتی................" فون کی گھنٹی بجی تو اس نے فون اٹھا کر واپس کریڈل پر پٹختے ہوۓ کہا "باسٹرڈز.... بیوی سے رومینس تک نہیں کرنے دیتے" نیتا ہنسی لیکن تبھی دوسرا فون بجا تو وہ چونک کر بولا "اٹ مسٹ بی سم تھنگ امپورٹنٹ" اس نے فون اٹھایا اور جیسے جیسے وہ سنتا گیا. اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہوتا گیا اور وہ چلایا "مجھے سارے آفیسرز آدھے گھنٹے میں کانفرنس روم میں چاہئیں اور اگر کسی مادرچود نے ماں چدوائی تو انکوائری گانڈ میں ڈال دوں گا" اس نے فون پٹخا اور ٹشو سے لن صاف کر کے الماری کی طرف بڑھا تو نیتا نے کہا "وکرم کھانا.........." وہ بولا "اٹس ارجینٹ" نیتا بھی ننگی ہی اٹھ کر وردی پہننے میں اس کی مدد کرنے لگی. اسے بیک وقت اس کی ڈیوٹی سے محبت پر پیار بھی آتا تھا اور غصہ بھی. کچھ ہی دیر میں کانفرنس روم میں تمام اہم افسر موجود تھے. بی ایس ایف کمانڈنٹ نے ساری صورتحال پر بریفنگ دی تو کٹاریہ نے کرشن کانت کو چند موٹی موٹی گالیاں دیں اور کہا "پتا نہیں کس بہن چود کو یہ خیال آیا کہ اپنے افسروں پر نظر رکھنے کے لیے ایسے چوتیے کو یہاں بھیج دے. کتی کے بچے نے ناصرف اس پاکستانی ایجنٹ کو گنوا.................... ایک منٹ............ یہ پاکستانی ایجنٹ یا تو پاکستان سے جارہا تھا یا آرہا تھا................ لیکن یہ عام پاکستانی ایجنٹ نہیں ہے. یہ کرشن کانت کی اصل شناخت سے آگاہ تھا مطلب یہ دہلی سے آرہا تھا اور ایسا.................... اوہ نو...... ہی از ڈیفینیٹلی دیٹ باسٹرڈ وائٹ فلاور" سب افسران چونک اٹھے. کرنل وجے نے کہا "سر. آپ کو اتنا یقین کیوں ہے کہ وہ وائٹ فلاور ہی ہے" وہ بولا "کیونکہ اس کو تم نہیں جانتے لیکن میں جانتا یوں. ہمارے اتنا اندر تک کوئی پاکستانی ایجنٹ نہیں گھسا ہوا جتنا وہ گھسا ہوا ہے. کرشن کانت کی اصل شناخت سے تم سب واقف نہیں تھے لیکن وہ واقف ہے. اسی سے اندازہ ہو رہا ہے کہ اٹ مسٹ بی وائٹ فلاور" کرنل سوریہ رگھوونشی نے کہا "سر پھر تو ہمیں بارڈر کے ہر طرف دیکھنا ہو گا" وہ بولا "نو. وہ بہت چالاک ہے. لک ان ایوری ہول اون آور سائڈ. وہ گھس کے مارنے والوں میں سے ہے. بھاگنے والوں میں سے نہیں" بی ایس ایف کمانڈنٹ سوریہ کانت نے کہا "سر. آپ ہدایات دے دیں جو ہر جوان تک پہنچا سکوں" کرنل کٹاریہ نے اسے ہدایات دیں اور اپنے لیے کافی منگوائی کیونکہ وہ پر اعتماد تھا کہ یہ ایجنٹ وائٹ فلاور ہی ہے اس بار وہ اسے بھاگنے نہیں دے گا. ایجنٹ وائٹ فلاور بریگیڈیئر کٹاریہ کی زندگی کی سب سے بڑی اور بدترین حقیقت تھی۔ اسے دل نواز لاشاری کی دیکھ بھال اور حفاظت کا ٹاسک دیا گیا تھا اور وہ تقریباً 3 سال تک کامیابی سے اپنا کام سرانجام دیتا رہا اور پاکستانی ایجنٹ لاشاری کے قریب نہ آسکے۔ اس نے اور اس کے ایجنٹوں نے پاکستان کے ایک بہترین ایجنٹ کو بھی ماردیا جس نے لاشاری کو مارنے کی کوشش کی لیکن یہ وہ وقت تھا جب وائٹ فلاور اس مشن میں شامل ہوا اور کٹاریا کو یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وائٹ فلاور نے لاشاری کی جگہ کا پتہ کیسے لگایا اور وہ کیسے اسے دہلی سے باہر لے جانے میں کامیاب ہو گیا۔ اگر لاشاری کو بھارت میں قتل کیا جاتا تو سینئر حکام کی جانب سے کٹاریا پر اتنی سخت کارروائی نہ ہوئی ہوتی لیکن جب پاکستان میں دل نواز لاشاری کے فوجی عدالت میں ٹرائل کی خبر بھارتی حکومت تک پہنچی تو حکام نے کٹاریا کے خلاف سخت ایکشن لیا۔ بظاہر کٹاریا کو بریگیڈیئر کے عہدے پر ترقی دی گئی اور پھر اتنے اہم سرحدی علاقے میں تعینات کیا گیا لیکن اہل علم کو معلوم تھا کہ یہ کوئی انعام نہیں بلکہ سزا تھی جو کٹاریا کو دی گئی تھی اور اسے ایجنسی سے نکالا جا چکا تھا۔ اب وہ صرف ایک سادہ بریگیڈ کمانڈر تھا اور اس کی غفلت کی سزا کے طور پر اسے دہلی سے کئی میل دور تعینات کیا گیا تھا۔ ایک زمانے میں یہ چرچا تھا کہ کٹاریا اپنی ذہانت کی بدولت ایجنسی کے اعلیٰ ترین عہدے پر ضرور پہنچیں گے لیکن اس ایک ناکامی نے کٹاریا کے خوابوں اور کیریئر کو برباد کر دیا اور کٹاریا اس سب کا ذمہ دار وائٹ فلاور کے ایجنٹ کو ٹھہراتا تھا۔ اس ملاقات کے چند ہی لمحوں میں سرحد پر بھارتی فوج اور بی ایس ایف کے وائرلیس سیٹ ایجنٹ سفید وائٹ فلاور کے نام سے گونجنے لگے اور سپاہیوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس پاکستانی ایجنٹ کو پکڑنے کا فریضہ پوری لگن سے انجام دیں اور بریگیڈ کمانڈر کی طرف سے یہ بھی اعلان کیا گیا تھا کہ وہ اس شخص کو ذاتی حیثیت میں انعام دیں گے جو اسے پکڑے گا۔ ان میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ ایجنٹ وائٹ فلاور بھی ان میں سے ایک وائرلیس سیٹ استعمال کر رہا ہے اور دشمن سے اپنا نام اتنی شدت سے سن کر مسکرا رہا ہے۔
سرحد کے پاکستانی جانب بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں ایک اور اہم کانفرنس جاری تھی۔ کیپٹن اسامہ کے لاپتہ ہونے کے بارے میں سینئر پاکستانی حکام کو آگاہ کردیا گیا تھا اور یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ وہ بھارتی علاقے میں ہے اور وہ غلطی سے سرحد پار کر گیا ہے۔ بھارتی جانب سے فائرنگ کی آوازیں آنے کے بعد یہ خدشہ سچ ثابت ہوا اور اب تمام اہم افسران کانفرنس روم میں جمع ہو چکے تھے۔ بریگیڈیئر رؤف نے کہا " ہمیں درست معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ فائرنگ کے اس واقعے میں کیا ہوا اور ہمارا لڑکا اب کیسا ہے"، کرنل مراد نے کہا، "جناب، میرے لڑکے اس پر کام کر رہے ہیں اور ہمیں کچھ وقت میں درست معلومات مل جائیں گی۔ "بریگیڈیئر رؤف نے پھر کہا، "حضرات، ہمیں واضح ہونا چاہیے کہ ہم کیپٹن اسامہ کو کسی بھی قیمت پر انڈین آرمی کے ہاتھ میں نہیں چھوڑیں گے۔" میجر جنید نے کہا، "جناب، ہمیں بس اپنے اعصاب کو پرسکون کرنا ہے اور اس کے پیغام کا انتظار کرنا ہے۔" کرنل ستار نے کہا، "میجر، آپ کو اپنے لڑکے پر بہت اعتماد لگتا ہے کیونکہ آپ اس کے سیکشن کمانڈر ہیں لیکن لگتا ہے آپ کو بریگیڈیئر کٹاریا کے بارے میں نہیں معلوم" جنید نے مسکرا کر کہا، "سر، میں بریگیڈیئر کٹاریہ کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ لیکن بریگیڈیئر کٹاریہ کو اس بات کا علم نہیں کہ وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی مصیبت کے پیچھے جا رہے ہیں" ایک کیپٹن کمرے میں داخل ہوا اور کہا، "جناب، ہم نے ابھی انڈین آرمی کے وائرلیس سیٹ پر ایک وائرلیس کال انٹرسیپٹ کی ہے اور وہ مسلسل اعلان کر رہے ہیں۔ فوجیوں کو کہ انہوں نے اس پاکستانی کو پکڑنا ہے۔ کسی بھی قیمت پر فائز کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایجنٹ وائٹ فلاور ہے" سب چونک گئے۔ بریگیڈیئر رؤف نے کہا "کیپٹن. اس سے تمہارا کیا مطلب ہے‘‘ کپتان کچھ کہنے ہی والے تھے کہ ایک میجر کمرے میں داخل ہوا اور بولنے کی اجازت مانگی۔ بریگیڈیئر نے میجر کو بولنے کی اجازت دی اور میجر نے بریگیڈیئر کو نہر کے کنارے ہونے والی لڑائی کے بارے میں بتایا۔ کیپٹن نے کہا، "جناب، کیپٹن اسامہ سویلین لباس میں تھے اس لیے ہندوستانیوں کا خیال ہے کہ وہ ہمارے ایجنٹوں میں سے ہیں جو یا تو پاکستان آ رہا تھا یا کسی سنگین مشن کے لیے انڈیا میں داخل ہو رہا تھا۔" بریگیڈیئر رؤف نے ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ "اس کا مطلب ہے کہ ہمارا لڑکا فی الحال ان کی تحویل سے فرار ہو گیا ہے" جنید نے کہا، "میں نے آپ کو بتایا تھا کہ بریگیڈیئر کٹاریا کو نہیں معلوم کہ وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی مصیبت کا پیچھا کر رہے ہیں"۔ کرنل ستار بولنے ہی والا تھا کہ ایک سپاہی کمرے میں داخل ہوا اور اس نے میجر کو ایک چٹ دے دی جو نہر کے کنارے لڑائی کی خبر لے کر آیا تھا۔ اس نے چٹ پڑھی اور کہا ’’یہ کیپٹن اسامہ کا پیغام ہے اور یہ کوڈ ورڈز میں ہے‘‘ میجر جنید نے چٹ تھام لی اور اس نے کاغذ پر لکھنا بھی شروع کر دیا کہ کوڈ والے پیغام کو ڈی کوڈ کیا جائے۔ اس نے کہا "جناب اس نے ہندوستانیوں کی ان کے وائرلیس سیٹ پر گفتگو بھی سنی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی ان میں سے ایک وائرلیس سیٹ استعمال کر رہا ہے، وہ کہتا ہے کہ ہمیں اپنے اعصاب کو پرسکون کرنا چاہیے اور ایسا کام کرنا چاہیے کہ ہماری طرف سے کچھ نہیں ہوا ہے سرحد پر کیونکہ ہندوستانیوں کو یہ نہیں معلوم کہ اس نے غلطی سے سرحد پار کی ہے۔ اس کا مزید کہنا ہے کہ وہ بتائے گا کہ وہ کب اور کیسے بارڈر کراس کرے گا اور ہمیں اس وقت اس کی مدد کرنی ہے" کرنل ستار نے کہا، "میجر مجھے ماننا پڑے گا کہ آپ نے اپنے لڑکوں کی بہت اچھی تربیت کی ہے کیونکہ ایسی حالت میں اعصاب کو پرسکون رکھنا قابل تعریف ہے" بریگیڈیئر رؤف نے بھی کہا "جہاں تک مجھے معلوم ہے، ایجنٹ وائٹ فلاور بھی آپ کے ماتحت ہے۔ یہ سن کر خوشی ہوئی کہ ہمارے ایجنٹ نے انڈین آرمی کے بریگیڈیئر پر ایسا اثر ڈالا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ ہمارا عام کپتان بھی ایجنٹ وائٹ فلاور ہے" جنید نے اپنے سامنے بیٹھے افسروں کی طرف دیکھا اور کہا "بدقسمتی سے اس بار وہ ٹھیک سوچ رہا ہے۔‘‘ بریگیڈیئر رؤف اپنی کرسی سے اٹھے اور کہا "اس سے تمہارا کیا مطلب ہے" جنید نے کہا " کیپٹن اسامہ ایجنٹ وائٹ فلاور ہے اور بریگیڈیئر کٹاریہ نے دہلی میں اس کا سامنا کیا ہے، یہ ایجنٹ وائٹ فلاور کی ٹیم تھی جو دل نواز لاشاری کو پاکستان لے کر آئی تھی اور بریگیڈیئر کٹاریہ۔ اس ٹیم کا انچارج تھا جو دہلی میں لاشاری کی حفاظت کر رہی تھی" کرنل ستار نے کہا "اس کا مطلب ہے کہ ہمارا ایک بڑا اثاثہ اب خطرے میں ہے" جنید مسکرایا اور بولا، "نہیں جناب، ہمارا اثاثہ دنیا کا سب سے غیر متوقع شخص ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں کہہ رہا تھا کہ بریگیڈیئر کٹاریا کو نہیں معلوم کہ وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی مصیبت کا پیچھا کر رہے ہیں۔ ہمارا ایجنٹ جانتا ہے کہ دشمن سے کیسے نمٹنا ہے" بریگیڈیئر رؤف نے کہا، "لیکن میجر، میں پریشان ہوں کیونکہ وہ اکیلا ہے اور انڈین آرمی کا مکمل بریگیڈ بی ایس ایف کے ساتھ اس کا پیچھا کر رہا ہے" جنید نے مسکرا کر کہا، "جناب، ہمیں صرف پرسکون رہنا ہے۔ جیسا کہ اس نے کہا کیونکہ اس کے پاس شیطان کا دماغ ہے اور اس سے کسی بھی چیز کی توقع کی جا سکتی ہے، اگر مجھے اس کی طرف سے فون آئے اور وہ مجھے بتائے کہ وہ دہلی سے بول رہا ہے تو مجھے حیرت نہیں ہوگی" بریگیڈئیر رؤف نے کہا "ٹھیک ہے جنٹلمین۔ یہ میٹنگ ابھی ختم ہو گئی ہے لیکن آپ سب کو کسی بھی ہنگامی صورت حال کے لیے سٹینڈ بائی پر رہنا چاہیے" جنید کانفرنس روم سے باہر نکلا تو ایک سپاہی نے آ کر بتایا کہ اس کے لیے فون آیا ہے۔ جنید نے کہا، "ہیلو" حرا کی آواز آئی، "جنید، میں حرا ہوں" جنید چونک گیا اور بولا، "ہاں حرا، کیا ہوا" اس نے کہا، "مجھے ابھی خبر ملی ہے کہ ہمارے ایک افسر نے حد عبور کر لی ہے۔ غلطی سے۔ میں زید سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن رابطہ قائم نہیں ہو رہا۔” جنید نے ایک گہرا سانس لیا اور کہا۔” حرا میری بات سنو، زید وہ افسر ہے جو غلطی سے سرحد پار کر گیا ہے" وہ بے چینی سے بولی "اب وہ کیسا ہے" جنید نے ہنستے ہوئے کہا، "تم اس کے بارے میں کیوں پوچھ رہی ہو، بہتر ہے کہ تم دشمن کے بارے میں پوچھو" وہ الجھ کر بولی، "کیا مطلب ہے" جنید نے اسے لڑائی کے بارے میں بتایا۔ نہر کے کنارے والی اور بولا "تمہارے شوہر کی عادت ہے کہ وہ ہمیشہ ہندوستانیوں کو نقصان پہنچا کر اپنی آمد کا اعلان کرتا ہے، میں جانتا ہوں کہ اس کا اس طرح انتظار کرنا تمہارے لیے مشکل ہے لیکن تمہیں سمجھ جانا چاہیے کہ تم پاک فوج کے سب سے زیادہ پاگل افسر کی بیوی ہو۔ عام طور پر لوگ مصیبتوں سے بھاگتے ہیں لیکن وہ ایک ایسا شخص ہے جو براہ راست بھاگتا ہے مصہنتوں کی طرف لیکن تم فکر نہ کرو وہ اپنے کام کو اچھی طرح جانتا ہے اور وہ جلد ہی واپس آجائے گا" اس نے کہا، "مجھے صورتحال سے آگاہ کرتے رہنا" اس نے ہاں کہا اور فون بند کر دیا۔
بریگیڈیئر کٹاریا اور ان کی ٹیم صبح اسی کانفرنس روم میں بیٹھی تھی۔ بی ایس ایف کمانڈنٹ سوریا کانت اور کرنل رگھوونشی نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ بھارتی فوج اور بی ایس ایف نے علاقے کے ہر سوراخ کی تلاشی لی لیکن انہیں پاکستانی ایجنٹ کا سراغ نہیں مل سکا۔ کرنل وجے نے کہا" مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ یا تو اسے زمین کھا گئی ہے یا آسمان نے اسے نگل لیا ہے"، بریگیڈیئر کٹاریہ نے کہا، ’’ہم نے اس علاقے کے ہر ایگزٹ پوائنٹ کو گھیرے میں لے لیا ہے اس لیے اس علاقے سے باہر جانا ناممکن ہے، وہ یقیناً اسی علاقے میں ہے اور تمہارے آدمیوں نے تلاش کرنے میں غلطی کی ہو گی" ایک حوالدار بولنے ہی والا تھا کہ کرنل وجے نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور بولا، "تمہیں نہیں معلوم کہ بریگیڈیئر صاحب بیٹھے ہیں، تمہاری ہمت کیسے ہوئی ان کے سامنے بولنے کی" بریگیڈیئر کٹاریہ نے کرنل وجے کی طرف غصے سے دیکھا اور کہا، "شٹ اپ وجے، یہ بہت سینئر حوالدار ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ کب اور کہاں بولنا ہے" اس نے حوالدار کی طرف دیکھا اور اسے بولنے کو کہا۔ حوالدار رام داس نے کہا، "جناب، ہماری فورسز نے اس علاقے کے ہر کونے کو چیک کیا تھا لیکن مندر کے بڑے پنڈت کے کمرے کو چیک نہیں کیا گیا ہے" بی ایس ایف کمانڈنٹ سوریہ کانت نے کہا، "ہاں یہ سچ بول رہا ہے" رام داس نے کہا، "جناب، میں اور دو دوسرے سپاہی نچلی ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمیں مندر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے، ایک آدمی نے بتایا کہ بڑے پنڈت کے کمرے میں ایک مہمان ٹھہرا ہوا ہے، میں نے یہ بات میجر سوریہ بھان سنگھ کو بتائی لیکن انہوں نے مجھے ڈانٹ دیا اور کہا کہ مجھے اونچی ذات والوں سے حلن محسوس ہوتی ہے" بریگیڈیئر کٹاریہ نے غصے سے کرنل وجے کی طرف دیکھا اور کہا، "اگر یہ سچ ہے تو نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہو"
جاری ہے.............