Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

Moral Story گھٹن

Joined
Nov 24, 2024
Messages
385
Reaction score
25,490
Location
pakistan
Gender
Male
Online
’’غیرت کے نام پر‘‘اس کی زبان سے یہ الفاظ سن کر میرا جسم ساکت ہوگیا۔
’’کک کیوں؟‘‘میرا چلتا قلم رک گیا تھا۔
’’آپ کے خیال میں غیرت صرف مرد میں ہوتی ہے؟عورت غیرت کے نام پر قتل نہیں کرسکتی؟‘‘وہ بات مکمل کر کے ہنس پڑی۔
’’کتنا عجیب ہے نا یہ؟ایک عورت نے ایک مرد کو غیرت کے نام پر قتل کردیا۔‘‘اس نے مجھ سے پوچھا اور میرے پاس اس کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
’’لوگ بھی حیران ہوں گے مجھ پر، لیکن میرا ایک سوال ہے کہ غیرت کے نام پر قتل ہونے والی صرف عورت ذات کیوں ہو؟مرد ذات بھی تو حد پار کرتے ہیں؟اور مرد کو قانون غیرت کے نام پر قتل کرنے کے بعد رعایت بھی دیتا ہے؟مجھے بھی ملے گی رعایت؟میں بھی بچ جاؤں گی نا پھانسی اور عمرقید سے؟‘‘اس کی باتیں تلخ مگر سچ تھیں۔
میں…ثناحمید،ایک قلم کار،ایک پولیس افسرکی بیوی۔ جو ہمیشہ ایسے قیدیوں کی سچی کہانیاں تحریر کرتی ہوں۔ آج پہلی بار اپنے الفاظ کی طاقت میں کمی محسوس کررہی تھی۔
’’تمہاری باتیں بالکل سچ ہیں سکینہ، ایک ایک لفظ سچ ہے، مگر یہ ہمارا معاشرہ ہی ایسا ہے۔‘‘اپنی بات پر میں خودمطمئن نہیں تھی۔
’’مس، ہمارا کیا قصور تھا؟جو اتنے برس ذلیل ہوئیں؟ پتا ہے میں برقع پہنتی ہوں اس لیے نہیں کہ وہ سختی کرتاتھابلکہ اس لیے کہ یہ میرے اللہ اورمیرے پیارے نبیؐ کا حکم ہے۔ میں اپنی مرضی سے یہ سب کرتی تھی۔ میں ہی کیاہمارے گھر کی ہر لڑکی ہر عورت ایسے کرتی تھی۔ نماز کی پابندی، قرآن مجید کی تلاوت، مگر وہ برا تھا، بہت برا۔ اسے شک تھا ہم پر، ہر وقت شک کرتا تھا۔‘‘سکینہ نے چہرے پر ہاتھ رکھے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
میں نے سپاہی کو اشارہ کیا۔ اس نے قریب پڑے گھڑے سے پانی لا کر سکینہ کو دیا۔پانی حلق سے اتارنے کے بعد وہ کچھ سنبھلی۔
’’میں پوری کہانی سنناچاہتی ہوں۔‘‘ میں نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔
’’ایک شرط پر میں سب سچ سچ بتا دوں گی کہ آپ جب کسی اور کو بتانے لگیں یا سنانے لگیں تو پلیز، کچھ باتیں چھپا لینا، میرا راز ہو گا آپ کے پاس،میری امانت۔‘‘ اس نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھااور میں نے وعدہ کر لیا۔




کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس کے چہرے پرکرب کے آثار دکھائی دیے۔مجھے لگاجیسے وہ کچھ بولے گی ۔اس کے ہونٹ تھرتھرائے￿ مگرالفاظ اس کی زبان سے ادا نہ ہوسکے۔
’’آپ ایک کام کریں۔‘‘وہ جیسے ہار گئی۔
’’کیا؟‘‘
’’آپ یہ ڈائری مجھے دے دیں میں خو د اپنی کہانی لکھ دوں گی۔ آپ کل آکر ڈائری لے جانا۔‘‘ اس کی تجویز قابل ِ قبول تھی۔ میں نے اس کی بات مان کر پن اور ڈائری اسے پکڑا دی اور باہر جانے ہی لگی تھی کہ سپاہی دوڑ کر میرے پاس آیا۔
’’میڈم ہم یہ نہیں کرسکتے، قیدی کے پاس کچھ چھوڑ کر نہیں جاسکتے یہ قانون کے خلاف ہے۔‘‘ میں ایس پی کی بیوی نہ ہوتی تو شاید وہ ڈائری اورپن سکینہ سے چھین لیتا، مگروہ بے حد احترام سے بات کررہا تھا۔
’’میں ایس پی صاحب کو کال کرتی ہوں،تم انہیں یہ قانون بتا دینا۔‘‘ میں نے پرس سے اپنا سیل فون نکالا۔
’’نن نہیں میڈم…سوری۔‘‘وہ پیچھے ہٹ گیا۔ واپسی پرسکینہ کی باتیں میرے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برس رہی تھیں۔ وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں لگتی تھی مگراس کی باتوں سے ایک عجیب طرح کی تلخی ظاہر ہوتی تھی۔ شاید حالات کے سردوگرم نے اسے یہ باتیں سکھادی تھیں۔
’’یہ کہانی آگے بڑھانے سے پہلے میں اپنا تعارف کروا دوں۔ میرانام ثنا حمید ہے اور میں ایس پی حمید احمد کی بیوی ہوں۔ میں ایک لکھاری ہوں جو پولیس قید میں آنے والے بہت سے قیدیوں کے سچے واقعات اور ان کے پیچھے موجود کہانیاں ایک مشہورڈائجسٹ میں لکھ رہی ہوں۔ان تحریروں پر مشتمل میری کتاب ’’حقائق‘‘شائع ہوچکی ہے۔اس کام میں مجھے اپنے شوہر کی مکمل حمایت حاصل ہے اور وہ ہر جگہ میری مدد کرتے ہیں۔میرے شوہر پولیس میں نہ ہوتے تو شاید میں یہ کام کبھی نہ کرسکتی، لیکن اب میرے لیے یہ بہت آسان ہے۔خیربات ہورہی تھی سکینہ کی کہانی کی۔‘‘
اگلے دودن میں کچھ مصروفیت کی وجہ سے سکینہ سے ملنے نہ جاسکی۔تیسرے دن جب میں اس کے پاس پہنچی، تو وہ شدت سے میری منتظر تھی۔ سکینہ کو قتل کے جرم میں عمر قید کی سزاہوئی تھی۔ اس نے اس سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی ہوئی تھی۔
’’کیسی ہو سکینہ؟‘‘میں اس کے پاس بیٹھ کر مسکرائی۔
’’جیل کی قیدی کیسی ہو سکتی ہے؟‘‘اس کی مسکراہٹ ہمیشہ ایسی ہی ہوتی تھی۔ اداسی اور پریشانی لیے۔
’’ان شااللہ سب بہتر ہوگا۔‘‘میں نے اس کا کندھاتھپتھپایا۔
’’آپ کی یہ ڈائری‘‘اس نے ڈائری اٹھا کر مجھے دی۔
’’میں نے پوری کوشش کی ہے اپنے حالات اور واقعات کو کہانی کی شکل میں لکھ سکوں۔ آپ پڑھ کر بتادیجیے گا میں اس میں کتنی کامیاب ہوئی ہوں۔‘‘
’’ضرور‘‘میں تھامے جانے لگی۔ اس نے پیچھے سے آواز دی۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔
’’میری سزا کم ہو جائے￿ گی نا؟‘‘نمی اس کی آنکھوں کے کنارے پر دکھائی دی۔
’’ہو جائے گی پریشان نہ ہو۔‘‘ میں نے اس سے نظریں چرا لیں۔
’’اللہ کر ے ہو جائے میرا دم گھٹتا ہے یہاں، مجھے لگتا ہے کسی دن میں یہیں مرجاؤں گی۔‘‘ گہری سانس خارج کر کے اس نے جملہ مکمل کیا۔
’’ان شااللہ ہو جائے گی سزا کم۔‘‘میرے قدم باہر جاتے ہوئے لڑکھڑا رہے تھے۔ قیدی اکثر اپنی سزا قبول کرکے اپنے فیصلے قسمت پر چھوڑ دیتے ہیں، مگرسکینہ کا معاملہ اور تھا۔ وہ صرف بائیس سال کی تھی۔ جوانی سے بھرپور۔ گھر آکر میں نے سارے کام نمٹائے￿ اور ڈائری لے کر بیٹھ گئی۔ سکینہ کی ہینڈ رائٹنگ گزارے لائق ہی تھی۔ پہلے صفحے سے کہانی شروع کرنے کے بعد میں ایک لمحہ بھی اس سے نظر نہیں ہٹا پائی تھی۔
٭…٭…٭

دین محمد کی محلے ہی میں کریانے کی چھوٹی سی دکان۔ مذہبی گھرانہ تھا۔ صبروشکر سے جو ملتا گزارہ کر لیتے۔ دین محمد کی بیوی حاجرہ اڑتیس سال کی سادہ سی خاتون تھی جب کہ دین محمد پچاس کے پیٹے میں تھا۔ اشعر ان کا بڑا بیٹا،سکینہ دوسرے نمبر پر جب کہ ثمینہ تیسرے اورآخری نمبر پر تھی۔ اشعر سخت مزاج اور غصے کا تیز تھا۔ ذرا سی بات پر بھڑک اٹھتا اور دین محمد نرم مزاج ہر بات میں بہتری کا پہلو ڈھونڈنے والا۔ یوں یہ گھرانہ اپنی زندگی گزار رہا تھا۔
’’امی، امی۔‘‘سکینہ نے ماں کو آواز دی۔
’’جی بیٹا۔‘‘حاجرہ نے اس کی طرف دیکھا۔
’’امی اشعر بھائی سے کہہ دیں نا، مجھے اور ثمینہ کو لے چلے آج میلاد ہے پھپھو کے گھر۔‘‘
’’تمہیں پتا ہے سکینہ وہ نہیں لے کر جائے گا پہلے کب وہ تمہیں گھر سے باہر نکلنے دیتا ہے۔‘‘
’’مگر امی ہم برقع پہن کر جائیں گی۔‘‘ اس نے ضد کی۔
’’میں کہتی تو ہوں پر مانے گا نہیں۔‘‘ حاجرہ نے اٹھ کر چپل پہنی اور بیٹھک کی طرف بڑھی جہاں اشعر اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھاتھا۔
’’اشعر بیٹا، بہنیں بلا رہی ہیں،اُنہیں پھپھو کے گھر چھوڑ آؤ۔‘‘ اشعر تنک کر بولا۔
’’امی رہنے دیں۔کیا ضرورت ہے جانے کی۔ بار بار گھر سے نکلتی اچھی نہیں لگتیں۔‘‘وہ اٹھ کر ماں کے پاس آگیا۔
’’بیٹا میلاد ہے پھپھو کے گھر، جانے دو انہیں۔‘‘ماں نے پیار سے کہا، مگر وہ اشعر ہی کیا جس پر کسی بات کا اثر ہو۔
’’امی وہاں لڑکے بھی ہوں گے۔‘‘
’’پردے میں جائیں گی بیٹا۔‘‘




’’نہیں امی،مجھے نہیں پسند ان کا کہیں جانا۔‘‘ اس نے صاف انکار کردیا۔ حاجرہ واپس آگئی۔
’’کہا ہے نا، نہیں جانے دے گا۔ پھر ضد کی ضرورت کیا ہے؟‘‘اس نے سکینہ کو گھورا۔ سکینہ افسردہ ہو کر اندر چلی گئی۔ ثمینہ بال سنوار رہی تھی۔
’’نہ کر تیاری،ہٹلر نہیں مان رہا۔‘‘ اس نے دانت پیسے۔
’’مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی بھائی ہمیں سکول کیسے جانے دیتا ہے۔‘‘ ثمینہ نے سوال اٹھایا۔
’’ابا بھیجتے ہیں ثمی، ورنہ یہ تو ہمیں جیل میں ڈال دے۔‘‘ اس کا غصے سے برا حال تھا۔
’’جیل میں کتنا مزہ آئے گا، نہ بھائی ہوں گے نہ کوئی کسی کام سے روکے گا۔‘‘ثمینہ کی بے تکی بات پر وہ اسے گھورنے لگی۔
’’جیل کہا ہے کینیڈا نہیں۔‘‘
’’اسکول والی آزادی چھوڑ کر گھر کون سا جیل سے کم ہے؟‘‘ثمینہ اداس ہوگئی۔
’’چل بس کر، زیادہ اداکاری مت کرو ابا سے کہوں گی وہ شام کو لے جائے گا۔‘‘ سکینہ نے تسلی دی۔ وہ میٹرک میں تھی جب کہ ثمینہ آٹھویں کی طالبہ تھی۔ اشعر ہی انہیں اسکول چھوڑنے جاتا تھا اوروہیں سے بائیک پر اپنے کالج چلا جاتا۔ شام کے وقت دین محمد گھرآیا اوردونوں بیٹیوں کو پھپھو کے گھر لے گیا۔ پھپھو کا بڑا بیٹا سکینہ کا منگیتر تھا۔ اس لیے سکینہ بہت کم ان کے گھرآتی تھی۔ دونوں کی بات بچپن سے طے تھی۔ واپسی پر جب وہ گھر داخل ہوئے تو اشعر غصے سے بھرا پڑا تھا۔
’’ابا کیا ضرورت تھی انہیں لے جانے کی؟میں نے منع کیا تھا۔‘‘
’’تو سیانا نہ بن، میری بہن کا گھر ہے وہ ،کوئی پرایا نہیں۔‘‘دین محمد نے جھڑکا۔
’’ہونہہ بہن کا گھر۔‘‘اس نے سرجھٹکا۔
’’ابا وہاں سکینہ کی منگنی ہوئی ہے یوں لے جانا ٹھیک نہیں۔‘‘ اس نے باپ کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’مجھے سمجھ نہیں آتی مولوی میں ہوں یا تم؟‘‘دین محمد کی بات سن کرسکینہ اور ثمینہ کا قہقہہ گونجا۔
’’مسجد میں تو تم جاتے نہیں، نماز عید کی پڑھتے ہو۔ جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے کہہ دیں، تو ہر دو جمعے چھوڑ کرتیسرا پڑھتے ہو اور دلیل یہ کہ جناب اسلام کے دائرے سے خارج نہیں ہو رہے۔ بہنوں پر سختی اتنی جیسے خودتو ہر وقت مذہب کاپابند ہو۔‘‘ ابا نے کھری کھری سنادیں۔
’’ابا، جتنا آپ جانتے ہیں میں اتنا علم نہیں رکھتاپر میری غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ میری بہنیں گھر سے باہر قدم رکھیں۔ اسکول بھی آپ کی وجہ سے بھیجتا ہوں۔‘‘ اس نے انگلی اٹھا کرکہا۔
’’تو تم خود کیوں ایسے کالج میں پڑھتے ہو جہاں مخلوط نظام تعلیم ہے؟‘‘انہوں نے تنگ آکر پوچھ ہی لیا۔
’’میں لڑکا ہوں اس لیے۔‘‘اس نے ہٹ دھرمی سے جواب دیا اور تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭
اس دن ثمینہ کو بخار تھا۔اشعر نے بائیک نکالی اور سکینہ کو آواز دی۔
’’سکینہ آ جاؤ لیٹ ہو رہے ہیں۔‘‘ سکینہ نقاب پہنے گیٹ سے برآمد ہوئی۔ اس کی آنکھیں بھی مشکل سے دکھائی دے رہی تھیں۔ اشعر نے تنقیدی نظروں سے اسے گھورااور بائیک اسٹارٹ کرنے لگا۔ اسی لمحے ان کی پڑوسن شہناز بیگم کی آواز سنائی دی۔
’’اشعر بیٹا، بات سننا۔‘‘
’’جی آنٹی۔‘‘اشعر نے مڑ کر دیکھا۔
’’بیٹا آج ثانیہ کی وین نہیں آئی، وہ بھی تمہارے کالج میں پڑھتی ہے نا؟ بیٹا اسے بھی ساتھ لیتے جاؤ۔‘‘ سکینہ ثانیہ کو جانتی تھی جو پورے محلے میں بدنام تھی۔ شکل وصورت اچھی تھی، مگر کردار ٹھیک نہیں تھا۔
’’ہونہہ،اشعر اسے لے جائے گا؟ سوچ ہے آپ کی آنٹی شہناز۔‘‘اس نے سوچتے ہوئے سرجھٹکا، مگراگلے ہی لمحے اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب اشعر نے کہا۔
’’بھیج دیں آنٹی،میں لے جاتا ہوں۔‘‘ وہ حیرت سے بھائی کو دیکھنے لگی۔
ثانیہ اپنے گھر سے نکلی۔ دوپٹا گلے میں لٹکا ہوا تھااور آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگا رکھاتھا۔ مالی لحاظ سے وہ دین محمد سے کہیں زیادہ مضبوط تھے اور پھر ثانیہ اکلوتی لاڈلی بیٹی تھی اس طرح کے ناز نخرے جچتے تھے اسے۔ اشعر اور سکینہ کے ساتھ بائیک پر جانے میں اس نے ذرا بھی جھجک محسوس نہ کی۔ بلکہ پورے سفر میں وہ اور اشعرکالج کی باتیں کرتے رہے اور آپس میں ہنسی مذاق بھی کررہے تھے۔ سکینہ درمیان میں بیٹھی دانت پیستی رہی۔
’’گھر میں جناب کی غیرت اور عزت سکھ کا سانس نہیں لینے دیتی اور یہاں؟دیکھو کیسے دانت نکال رہا ہے بے شرم۔‘‘ اس دن واپسی پر بھی ثانیہ اشعر کے ساتھ آئی۔ سکینہ گھر واپس آئی اورساری بات ثمینہ کو بتائی۔ وہ بھی حیران تھی کہ اتنا سخت مزاج اشعر یہ کیسے کر سکتا ہے؟ سکینہ کچھ دیر ٹھنڈی آہیں بھرتی رہی اور پھر بولی۔
’’ثمی،یہ معاشرے کا دستور ہے۔ یہاں اپنی عزت اور غیرت تو سب کے لیے اہم ہے، مگر دوسروں کی مائیں بہنیں صرف عورتیں ہیں جنہیں لوگ ایسے دیکھتے ہیں جیسے نظروں ہی نظروں میں کھا جائیں گے۔ کتنے برے ہوتے ہیں نا وہ لوگ جو اس منافقت میں زندہ رہتے ہیں۔ کاش سب یہ بات سوچیں۔‘‘ اس کی بات بہت گہری تھی۔
تھوڑے دنوں بعدان کے گھر عجیب طرح کی صورت حال تھی۔ سکینہ نے سن گن لینے کی کوشش کی، مگر ماں نے جھڑک دیا۔بات تب کھلی جب اتوار کی صبح دین محمد نے اشعر کو خوب سنائیں۔

’’تم میں شرم و حیا نام کی کوئی چیز ہے؟پورا محلہ تیرے عشق کی باتیں کرتا پھر رہا ہے۔‘‘
’’بکواس کرتے ہیں لوگ۔ ابا میں اسی لیے کہہ رہا ہوں میری شادی کر دیں ثانیہ سے۔‘‘ اس کی زبان سے نکلنے والے الفاظ نے سکینہ،ثمینہ سمیت حاجرہ کو بھی حیران کر دیا۔
’’ایسے کیسے کر دوں شادی؟ وہ لڑکی ٹھیک نہیں۔ پورے محلے میں بدنام ہے۔ ‘‘دین محمد نے بہ مشکل خود پر قابو پایا۔ جوان اولاد تھی، ہاتھ کیسے اٹھاتا۔
’’مجھے نہیں پتا۔ شادی کروں گا، تو صرف ثانیہ سے وہ بھی چند دنوں کے اندر اندر۔‘‘ اس نے جیسے اپنافیصلہ سنادیا۔ ساتھ ہی تیزتیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا۔
دین محمد سر پکڑ کربیٹھ گیا، تو یہ بات تھی۔ موصوف پچھلے دو ہفتوں سے ثانیہ کے چکر میں تھے۔ جوانی چیز ہی ایسی ہے جب آتی ہے۔ انسان کی عقل جذبات کی قیدی بن جاتی ہے۔ اشعر کی ضد نے گھر کا ماحول خراب کردیا۔ حاجرہ اوردین محمد کسی صورت رشتہ لے جانے کو تیار نہ تھے۔آخر اشعر نے خودکشی کی ایسی کامیاب کوشش کی جس میں مرنے کا چانس مشکل سے ایک فیصد تھا۔ دین محمد کی اکڑ ٹوٹ گئی۔ اشعر کو اسپتال سے گھر واپس لے آئے اور دوسرے دن ثانیہ کا رشتہ مانگنے چلے گئے۔ حاجرہ بھی ساتھ تھی۔
’’ارے حاجرہ اوردین محمدبھائی آج ہمارے گھر کیسے آنا ہوا؟‘‘شہناز بیگم انہیں دیکھ کر حیران ہوئی۔ خالد صاحب بھی گھر پر تھے۔
’’بس شہناز بہن۔ آج آپ سے کچھ مانگنے آیا ہوں۔‘‘ دین محمد کے الفاظ میں تھکن تھی۔
’’کک کیا؟آئیں بیٹھیں۔ میں چائے بناتی ہوں آپ کے لیے۔‘‘ان کا سوال شہناز کی سمجھ میں آرہا تھا۔ پانچ منٹ میں چائے دیگر لوازمات کے ساتھ سامنے رکھی تھی۔
’’شہناز بہن،میرا بیٹا اشعر ابھی پڑھ رہا ہے۔خدا اسے اچھی نوکری دے کامیاب کرے۔ میں چاہتا ہوں آپ ثانیہ کو ہماری بیٹی بنادیں۔‘‘ ان کی بات سن کر شہناز بیگم نے گہری سانس لی۔
’’بھائی دین محمد، ثانیہ جذباتی ہے اور بے وقوف بھی۔ میں جانتی ہوں دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں، مگر میں معذرت چاہتی ہوں ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ آپ کی مالی حیثیت ایسی نہیں جہاں ہماری بیٹی خوش رہ سکے۔ وقتی جذبات ہیں اس کے ورنہ شادی کے بعدحالات کا سامنا کرے گی، تو مسئلہ بنے گا اس کے لیے۔ ہم نے بیٹی کو بہت لاڈ پیار سے پالا ہے اب ہم کیسے کرسکتے ہیں ایسے گھر میں رشتہ۔‘‘ ان کے منہ سے انکار سن کر دین محمد دل ہی دل میں خوش ہوا کہ چلو معاملہ خود بہ خود رفع دفع ہوگیا۔
حاجرہ اوردین محمد خالی ہاتھ لوٹے، تو اشعر چارپائی پر لیٹا پرامید نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔
’’کروالی بوڑھے ماں باپ کی عزت؟ ہو گئے خوش؟ صاف صاف کہہ دیا انہوں نے، غریب گھر میں رشتہ نہیں دے سکتے اورجناب پر عشق کا بھوت سوار ہے۔‘‘ دین محمدآتے ہی اس پر برس پڑا۔
’’اس لیے تجھے پال پوس کر بڑا کیا تھا؟تجھے پڑھایا لکھایا تھا؟اشعر تم نے خوب صلہ دیا ہے اپنے بوڑھے ماں باپ کو۔‘‘ دین محمد ہاتھوں میں سرپکڑے آنسوچھپانے لگے۔حاجرہ خاموش تھی اور اشعر کے دماغ میں کیا چل رہا ہے یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔
دو دن خاموشی سے گزرے۔ عجب فضاتھی شہر کی۔ آتی گرمیوں کی نوید لاتی دھوپ دن بھر جسم کو حرارت بخشتی اورشام ٹھنڈی ہو جاتی۔ اس دن آسمان کو بادلوں کے لشکر نے چھپا لیا اور خوب بارش برسی۔ سکینہ کو بارش بہت پسند تھی پر نہ جانے کیوں اس دن اسے اچھی نہیں لگی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے بارش کے بعد طوفان آئے گا اور درختوں کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکے گا اوربہار کی یہ بارش اس موسم کے سارے پھول بکھیر دے گی اور یہی ہوا، مگر یہ موسم کا طوفان نہ تھا، تیز ہوا نہ تھی، دھول اور مٹی کے جھکڑ نہ تھے۔ یہ تو حالات کی تبدیلی میں آنے والا طوفان تھا۔ رات کو بارش تھم گئی مگر ہلکی ہلکی رم جھم کے ساتھ ہوا چلتی رہی۔
وہ سب کمبل لپیٹے سو رہے تھے۔جب رات کے دو بجے دروازے پر زور سے دستک ہوئی۔ دین محمد ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔
’’اس وقت کون آگیا الٰہی خیر۔‘‘ چپل پہن کر وہ دروازے کی طرف بڑھا، تو سکینہ بھی باپ کے پیچھے چل پڑی۔ دین محمد نے دروازہ کھولا ، تو ثانیہ کے والد دہاڑتے ہوئے اندرآگئے۔




’’کہاں ہے وہ کمینہ کتا۔‘‘ ان کے منہ سے گالیاں ابل رہی تھیں۔
’’کک کون؟‘‘دین محمد ڈر کر پیچھے ہٹا۔
’’تیرا بیٹا اشعر؟‘‘ثانیہ کا باپ اِدھراُدھر دیکھتا ہوا دوسرے کمروں کی جانب لپکا۔
’’شرافت کی حد ہوتی ہے خالد صاحب۔ کس نے حق دیا ہے آپ کو یوں میرے گھر میں گھسنے کا؟‘‘ دین محمد چنگھاڑا۔
’’تیرے بیٹے نے۔ ثانیہ گھر سے غائب ہے وہ بھگا کر لے گیا اسے۔‘‘ خالد کی بات سن کردین محمد کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی۔ اس نے خالد کے ساتھ مل کر پورا گھرچھان مارا۔ اشعر کہیں نہیں تھا۔ثانیہ کا باپ بچوں کی طرح رو رہا تھا۔ بے شک اولاد آزمائش ہے۔ دین محمد نے دلاسا دینے کے انداز میں اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
’’میں لٹ گیا دین محمد۔ میں برباد ہوگیا تیرے بیٹے اور اس ثانیہ نے مل کر میری عزت اچھال دی۔ میں محلے میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔‘‘ اس کی بات سچ تھی۔ دین محمد کی اپنی سالوں کی کمائی گئی عزت کو اشعر برباد کر کے جاچکا تھا۔ وہ جو عزت اور غیرت کے نام پر اپنی بہنوں کو گھر سے نہیں نکلنے دیتاتھا۔ آج خودکسی کی بیٹی لے کر بھاگ گیا تھا۔ ثانیہ کا باپ روتا ہوا باہر نکل گیا۔ اشعر اور ثانیہ نے کب یہ پروگرام بنایا، سب بے خبر تھے۔ اگلے چند دن دونوں کو بہت ڈھونڈا گیا، مگر وہ کہیں نہ ملے۔ پورا محلہ باخبر ہوچکا تھا۔ ثمینہ اورسکینہ نے گھر سے نکلنا بند کردیا۔ لوگ انہیں عجیب نظروں سے گھورتے تھے۔ دین محمد اورحاجرہ خاموش رہتے۔زندگی کی گاڑی گھسٹ کر چلنے لگی اور ایک دن پھردین محمد لوگوں کی باتوں اورطعنوں سے تنگ آکر دنیا سے منہ موڑ گیا۔صرف ایک ماہ سہ پایا تھا وہ عذاب۔ ایک رات سویا اور سویا ہی رہ گیا۔ ہارٹ اٹیک نے اس کی آنکھ نہیں کھلنے دی۔ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا وہ۔ ان کی زندگی میں اندھیرا چھا گیا تھا۔ صبح روتے ہوئے ہوتی اورشام سسکیوں میں ڈھل جاتی۔ دین محمد کی موت کے بعد سکینہ کے منگیتراسحاق نے گھر سنبھالنے میں انہیں مدد دی۔ دین محمد کی دکان کے لیے ایک ایماندار ملازم کا بندوبست کیا اورگھر کاسارانظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اسکول تو کب کا چھوٹ گیاتھا۔ سکینہ اور ثمینہ گھر کا کام کرنے کے بعد ماں کے پاس بیٹھ جاتیں اور خاموشی سے سلائی کڑھائی میں مصروف رہتیں۔ اڑوس پڑوس والے ان کے گھر کم کم ہی آتے تھے۔ اسحاق شام کو ان کے گھر سے ہو کر اپنے گھر جاتاتھا۔حاجرہ سوچ رہی تھی وہ سکینہ کو بیاہ دے، مگر ابھی آزمائش باقی تھی۔
وہ جولائی کاگرم دن تھا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ سکینہ نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔سامنے اشعر کھڑاتھا۔ الجھے، بکھرے بال۔ بڑھی ہوئی شیو، میلی جینز۔ دور دراز کی مسافت طے کرنے والے مسافر سے بھی زیادہ برا حال تھا اس کا۔ سکینہ کو سمجھ نہیں آئی کیا ری ایکٹ کرے۔ بھاگ کر ’’بھائی ‘‘کہے اور گلے سے لگ جائے یا باپ کے قاتل کاگلا دبا دے۔
وہ ساکت کھڑی اسے دیکھ رہی تھی جس کے چہرے پر دھول تھی۔ یہاں سے جاتے وقت وہ کتنا صحت مند اور خوب صورت تھا۔ آنکھوں میں زندگی کی چمک تھی، مگر اب جیسے وہ شکستہ حال ہو کر لوٹاتھا۔ آنکھوں میں عجیب قسم کے تاثرات تھے۔سکینہ نے غور سے اسے دیکھا۔ ہونٹ کالے ہو رہے تھے۔ شاید اُسے سگریٹ نوشی کی لت لگ چکی تھی۔ وہ ایک طرف ہوگئی۔ اشعر اندر داخل ہوا۔ حاجرہ نے اسے دیکھا، تو جیسے بے جان ہوگئی۔ ’’امی‘‘ کہتا ہوا اشعر ماں کی جانب لپکا۔
’’اب کیا لینے آیا ہے اشعر؟‘‘ الفاظ جیسے حاجرہ کی زبان سے پھسلے ہوں۔
’’امی میرا گھر ہے یہ۔‘‘وہ ماں کے گلے لگنا چاہتاتھا مگر حاجرہ نے منہ موڑلیا۔
’’وہی گھرہے یہ جسے تم نے اس لڑکی کے لیے چھوڑا تھا۔‘‘وہ اب بھی اس کی طرف نہیں دیکھ رہی تھیں۔

’’تیرا باپ مر گیا اشعر۔ لوگوں کے طعنوں نے مارڈالا اسے۔‘‘
’’ثانیہ نے طلاق لے لی ہے مجھ سے امی۔میں نے چھوڑ دیا ہے اس حرافہ کو۔ میں یہاں سے اسے دوسرے شہر دوست کے پاس لے گیا تھا۔ وہ وہاں ایک اور لڑکے کے چکر میں پڑ گئی۔ اب چھوڑ دیا میں نے اور لوٹ آئی ہے وہ بھی۔ غلطی ہوئی تھی ہم سے۔‘‘ نہ لہجے میں شرمندگی نہ چہرے پر بیتے دنوں کی ندامت۔ ایک لفظ تھا’’غلطی۔‘‘ پر اشعر جیسا بے وقوف کیا جانے۔ غلطیاں مانی نہیں جاتیں۔ ان کا اعتراف نہیں کیا جاتا۔ غلطی بھگتی جاتی ہے۔ ہر غلطی پر معافی نہیں ملتی۔ کچھ کی سزا ملتی ہے۔
اشعر کے لوٹ آنے سے معمول بدل گیا۔ ثانیہ اور اس کے والدین نے محلہ چھوڑ دیا۔ عزت سے پیاری کوئی چیز نہیں ہوتی۔ نہ گھر،نہ گلی، نہ محلہ۔ایک ہفتے بعد جب اشعر دکان پر گیا ہوا تھا، حاجرہ کے پاس محلے کے چند سرکردہ لوگ آئے جو اہل محلہ کے چھوٹے بڑے مسائل حل کرتے تھے۔ سکینہ نے انہیں بیٹھک میں بٹھایا۔ سلام دعا کے بعدایک بڑی عمر کے شخص نے بات شروع کی۔
’’حاجرہ بہن، دین محمد کی ہم سب دل سے عزت کرتے تھے۔ ان کی موت کا ہمیں بہت دکھ ہوا۔ آپ ان کی بیوہ ہیں آپ کی اور بچیوں کی عزت ہمارے دل میں دین محمد کی وجہ سے بہت زیادہ ہے، مگر آج ہم مجبور ہوکر یہاں آئے ہیں۔ اشعر کا چال چلن درست نہیں۔ پہلے ایک لڑکی کو بھگا چکا ہے، اب ہم ایسے شخص کو محلے میں نہیں رہنے دیں گے۔ آپ یا تو اسے گھر سے نکال دیں یا پھر یہ گھر بیچ کر کہیں اور چلے جائیں۔‘‘ ان کی بات درست تھی یا غلط، مگر حاجرہ کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح لگی۔ اکلوتے بیٹے کو گھر سے نکالنا ناممکن تھا اور گھر چھوڑ کر کہیں اور جانابھی ممکن نہ تھا۔اس نے منت سماجت کر کے تھوڑے عرصے کی مہلت مانگ لی۔
اشعر واپس لوٹ آیا تھا، مگر آئے دن کسی نہ کسی سے اس کا جھگڑا ہوجاتا۔ گھر کا ماحول اس کی وجہ سے سخت خراب تھا۔ اس نے اسحاق کے گھرآنے پر پابندی لگا دی جس کے بعد سکینہ کی منگنی ٹوٹنے کا خدشہ تھا۔ مہلت مانگے ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ اشعر نے ایک نیا کارنامہ سرانجام دیا۔ اس دن وہ گھر لوٹا، تو اس کے ساتھ ایک جوان عورت تھی۔ چال ڈھال اوربولنے کے انداز سے وہ کوئی بازاری عورت لگتی تھی۔ پتا چلایہ اشعر کی بیوی ہے۔ ثانیہ کو چھوڑنے کے بعد اس سے نکاح کر لیا تھا۔ حاجرہ کو کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی۔ اشعر اپنا آپ پہلے ہی دکھا چکا تھا ۔اب اس طرح کے کام اسے جچتے تھے۔نازو نام کی اس عورت نے آتے ہی ہنگامہ کھڑا کردیا۔وہ اشعر کو اپنا حصہ الگ کرنے پر زور دے رہی تھی۔سکینہ نے ان کی باتیں سنیں۔ اسے اندازہ ہوگیا بہت جلد اشعر انہیں گھر سے نکال دے گا۔ ایک ہفتہ مزید گزرا تھا کہ اشعر نے حکم جاری کردیا۔
’’سکینہ اور ثمینہ کی شادی کر دو۔‘‘سکینہ کا رشتہ تو طے تھا، مگر ثمینہ کہاں جاتی؟اس کا حل بھی بہت جلدسامنے آگیا۔
٭…٭…٭




وہ پینتیس سے کچھ اوپر کا دکھائی دیتاتھا۔ چہرے پر زخم کا نشان، الجھے بال اور منہ میں پان دبائے وہ ان لوگوں میں سے تھا جنہیں دیکھ کر کسی بھی شریف گھر کی لڑکی چڑ محسوس کر سکتی تھی۔ نازو سے ملنے کے بعد وہ حاجرہ اور اشعر کے سامنے آ بیٹھا۔
’’امی یہ ہیں شکیل بھائی، نازو کے کزن۔ کپڑے کا کاروبار کرتے ہیں۔ بہت بڑی دکان ہے ان کی مارکیٹ میں۔‘‘ اشعر نے تفصیل بتائی جب کہ حاجرہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
’’اپنی چھوٹی بہن کے لیے اس کا رشتہ لے آیا ہے؟اشعر بیچنا ہے ثمینہ کو۔‘‘ ان کے الفاظ نے اشعر کا چہرہ سرخ کر دیا۔
’’حد ہوتی ہے ہر بات کی امی۔ سکینہ کی شادی کرنی ہے ساتھ ہی ثمینہ کافرض بھی پورا کر لیں اور مرد کی عمر نہیں دیکھتے۔ اچھا کماتے ہیں شکیل بھائی۔‘‘ شکیل اس دوران مونچھوں کو تاؤ دے کرسکینہ اور ثمینہ کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
’’تم جیسا بے غیرت بیٹا خدا کسی ماں کو نہ دے۔‘‘ حاجرہ یہ کہہ کر اٹھ گئی۔ اشعر نے بہ مشکل شکیل کو روکا۔ یہی نہیں بلکہ رات کے کھانے کے بعد اسے گھر میں ٹھہرا لیا۔
وہ پوری رات حاجرہ سو نہیں سکی۔ اپنی بیٹیوں کو اپنے پاس لٹائے اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ مرغی کی طرح انہیں اپنے پروں میں چھپا لے۔ اگلے دو دن شکیل ان کے گھر رہا۔تیسری رات وہ واقعہ پیش آیا جس نے حاجرہ کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کردیا۔ اس رات چائے نازو نے بنائی تھی۔ اس نے پتا نہیں چائے میں کیا ملایا۔ اشعر سمیت سب گہری نیند سو گئے۔ مگرخدا کو کچھ اور منظور تھا۔ خوش قسمتی سے حاجرہ نے چائے نہیں پی تھی۔ وہ جاگ رہی تھی۔ سب کے سو جانے کے بعد شکیل گھر میں داخل ہوا۔ نازو نے اسے وہ کمرا دکھایا جہاں حاجرہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ سوتی تھی۔ چوری چھپے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے سامنے نظر دوڑائی۔ حاجرہ نے اس کی طرف منہ کیااور زور سے چیخی۔
’’کک کون ہے؟‘‘اس کے منہ سے بے اختیار چیخیں نکلیں۔شکیل گھبرا کر باہر دوڑا۔ حاجرہ نے دیکھا نازو اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔ اس نے دونوں کو پہچان لیا۔ کھیل سمجھ آنے کے بعدوہ کچن کی طرف گئی اور چھری اٹھا کر اپنے پاس رکھ لی۔ اگلے دن اس نے اشعر سے بات کی اور رات والے واقعہ کی تفصیل بتائی۔
’’امی میں کہتا ہوں شادی کر دو اس کی۔ وہ شکیل نہیں ہو گا کوئی اور ہو گاپتا نہیں میری غیر موجودگی میں کس کس کے ساتھ منہ کالا کیا ہے انہوں نے۔‘‘ وہ اپنی بہنوں کے بارے میں کہہ رہا تھا۔ حاجرہ کا ہاتھ اٹھا اور’’چٹاخ‘‘کی آواز گونجی۔
’’میری بیٹیاں تیرے جیسی نہیں۔‘‘
’’یہ آپ کہتی ہیں محلہ نہیں۔ دو دن کا وقت ہے آپ کے پاس۔ ثمینہ کی شادی کی تیاری کریں ورنہ میں اسے شکیل کے ساتھ رخصت کر دوں گا۔‘‘ وہ اپنا فیصلہ سنا کر چلا گیا۔ حاجرہ نے پورا دن سوچااور آخر ایک نتیجے پر پہنچ گئی۔ اس رات نازو والا طریقہ اس نے اپنایا تھا، مگر گزر جانے والی رات کی طرح آج سکینہ نے چائے نہیں پی تھی۔ اُسے ماں پر شک ہوگیا تھا۔ اس رات طوفان آیا تھا۔ ویسا ہی طوفان جیسا پہلا آیا تھا۔ گھر کی جڑیں مضبوط ہو جانے کے باوجودوہ گھر کسی بوڑھے درخت کی طرح طوفان کا زور برداشت نہ کر سکا اور دھڑام سے نیچے آگرا۔ رات ایک بجے کا وقت تھا جب حاجرہ تیز دھار چھری لیے اپنے کمرے سے نکلی۔اس کے پیچھے سکینہ بھی چپکے سے روانہ ہوگئی۔ حاجرہ کا رُخ اشعر کے کمرے کی طرف تھا جہاں دونوں میاں بیوی بے ہوشی کی نیند سو رہے تھے۔ حاجرہ کی بوڑھی ہڈیوں میں پتا نہیں اتنا زور کہاں سے آگیا۔ اس نے پوری قوت سے چھری کا وار اشعر کی گردن پر کیا۔ شہ رگ کٹ گئی اور خون بہنے لگا۔ ایک دو منٹ کے لیے وہ تڑپا۔ منہ سے عجیب سی آوازیں نکلیں، مگروہ چلا نہیں سکا۔تیس سیکنڈ لگے ہوں گے اسے ٹھنڈا ہونے میں۔ سکینہ نے منہ پر ہاتھ رکھ کر بہ مشکل اپنی چیخ روکی۔ اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے۔ وہ دبے قدموں آگے بڑھی۔اس نے دیکھا۔ حاجرہ اشعر کو مار کر بے ہوش ہو چکی تھی۔ شاید اس کی برداشت جواب دے تھی۔ سکینہ نے چھری اس کے ہاتھ سے پکڑ لی۔ اس گھسیٹ کر پیچھے کیا…اور…قاتل بن گئی۔
حاجرہ کے لاکھ چیخنے چلانے کے باوجود پتھربنی سکینہ نے بیان نہ بدلا۔اس نے بھائی کے قتل کا اعتراف کرلیا تھا۔وجہ بار بار پوچھنے پر جواب بس ایک ہی ملتا۔
’’غیرت کے نام پر مارا ہے اسے۔‘‘ ثمینہ کی شادی اسحاق سے ہوگئی۔ وہ حاجرہ کو بھی ساتھ لے گیاجو اب چلتی پھرتی لاش کی صورت تھی۔نازو اور شکیل کی کچھ خبر نہ ہوئی کہ دونوں کہاں چلے گئے۔ یوں یہ کہانی اختتام کو پہنچی۔
٭…٭…٭
کہانی ختم کر کے میں اٹھی، تو میرے دماغ میں آندھی چل رہی تھی۔وہ جس کا جیل کی کوٹھڑی میں دم گھٹتا تھا وہ بے قصور تھی۔وہ اپنی ماں کی جگہ سزا بھگت رہی تھی۔ وہ رات میں نے مشکل سے کاٹی۔ دوسرے دن جب میں جیل پہنچی تو وہاں ہنگامی صورتِ حال تھی۔ سکینہ نے خودکشی کر لی تھی۔جو پن اس نے کہانی لکھنے کے لیے استعمال کیا تھا اسی سے اپنی رگیں کاٹ لیں اس معصوم نے۔ وہ ہارچکی تھی گھٹن سے۔ مجھ سے ہمت نہیں ہوئی۔ آخری بار اس کا چہرہ دیکھ سکوں۔ میں پلٹنے ہی والی تھی کہ ایک سپاہی میری طرف بڑھا۔
’’میڈم صاحبہ یہ اس نے آپ کے لیے دیا تھا۔‘‘ اس کا اشارہ سکینہ کی طرف تھا۔ یہ میری ڈائری ہی کا ایک ورق تھا ۔شاید کل اس نے پھاڑ کر اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ میں نے تھکے انداز میں اس کا خط پڑھا۔
’’میں مایوس ہو چکی ہوں۔ مجھے پتا ہے میں برا کررہی ہوں پر معاف کر دینا مس۔ گھٹن برداشت نہیں ہورہی۔ میرے راز خود تک محدود رکھنا۔‘‘ اس کے الفاظ پڑھ کر کل اس کا بولا گیا جملہ میرا دماغ میں گھوم گیا۔
میرا دم گھٹتا ہے یہاں،مجھے لگتا ہے کسی دن میں یہیں مرجاؤں گی۔‘‘ کاش! میں نے سکینہ سے ڈائری لیتے ہوئے پن بھی لے لیا ہوتا۔نم آنکھیں لیے میں جیل سے باہر نکل آئی۔(ختم شد)
٭…٭…٭
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat