Hmayu
Well-known member
Offline
- Thread Author
- #1
یک نہ شد دو شد
علیزہ کوچنگ اکیڈمی جانے کیلئے تیار ہورہی تھی اس دوان ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے اسکے موبائل کی اسکرین وقفے وقفے سےروشن ہو رہی تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر موبائل اٹھا کر چیک کیا تو دیکھا کہ ناصر کے آٹھ میسجز آئے ہوئے تھے۔اس نے باری باری تمام میسیجز چیک کئےجس میں ناصر نے ایک ہی سوال پوچھا تھا کہ وہ کوچنگ کب تک پہنچے گی؟
علیزہ نے رپلائی کیا کہ چار بجے تک۔یعنی ٹھیک پندرہ منٹ بعدوہ ناصر کو اکیڈمی پر ملے گی۔
ناصر کےساتھ علیزہ کی دوستی ابھی مہینہ پہلے ہی شروع ہوئی تھی اور وہ اسکا محلہ دار بھی تھا ۔علیزہ محلہ کی سب سے خوبصورت "بچی " تھی جو ناصر کی ذرا سی محنت سے اس کی جھولی میں آگری تھی۔آج کے دور میں موبائل پر لڑکوں لڑکیوں کی دوستی کا ہوجانا ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔سو ناصر نے بھی موبائل کا ہی سہارا لیکر علیزہ سے دوستی کی تھی۔مگر دونوں کی یہ دوستی ابھی صرف فون پر بات چیت تک ہی محدود تھی۔ علیزہ اگرچہ آج کے دور کی لڑکی تھی مگر ناصر کے پرزور اصرار پر بھی وہ اس کے ساتھ باہر ملنے کےلئے رضامندنہیں تھی وہ جانتی تھی کہ بوائے فرینڈز اپنی گرل فرینڈز سے باہر کیوں ملنا چاہتے ہیں۔ اس لئے وہ ہمیشہ ناصر کو کوئی بہانہ بنا کر ٹال دیا کرتی تھی۔جبکہ ناصر جلد از جلد وہ مقصد حاصل کرنا چاہ رہا تھا جس کے لئے اس نے علیزہ جیسی حسین آفت کواپنی محبت کے جال میں پھنسایا تھا۔ ناصر کا اصرار جب حد سے بڑھنے لگا تو علیزا نے اک بار پھر اسے ٹالنے کی کوشش کی :ناصر مجھے ڈر لگتا ہے اگر کسی نے مجھےتمھارے ساتھ باہر دیکھ لیا تو میری شامت آجائیگی۔
جوابا" ناصر اسے تسلی دیتا کہ کچھ نہیں ہوتا یار ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے تم فکر مت کرو کسی کو پتہ نہیں چلے گا اور اگر کسی نے دیکھ بھی لیا تو میں اسکا منہ بند کرنا جانتا ہوں۔(اسکا یہ کہنا کسی حد تک صحیح بھی تھا کیونکہ وہ شہر کی اک با اثر سیاسی پارٹی کا سرگرم کارکن بھی تھا جسکی وجہ سے علاقہ میں اسکا کافی رعب اور دبدبہ تھا)
لہذا ناصر کے بہت ہمت دلانےاور اصرار پر آج وہ پہلی بار اس کے ساتھ ڈیٹ پر جانے کے لئے تیار ہوئی تھی۔لیکن اس نے دل میں سوچ لیا تھا کہ اگر ناصر نے اس کے ساتھ کچھ ایسا ویسا کرنے کی کوشش کی تو وہ اسے ایک خاص حد سے آگے بڑھنے نہیں دیگی ۔پروگرام یہ طے ہوا تھا کہ جب وہ کوچنگ پہنچے گی تو ناصر اسے وہاں سے پک کر لےگا۔
مگر مسئلہ یہ تھا کہ علیزہ کے ساتھ اسکی چھوٹی بہن پری شاہ بھی اسکے ساتھ کوچنگ جاتی تھی۔پری شاہ میٹرک کی اسٹوڈینٹ تھی جبکہ علیزہ فائنل ائیر میں تھی۔
علیزہ نے ناصر کو جب یہ مسئلہ بتایا تو اس نے جواب دیا کہ کوئی بات نہیں ہم پری شاہ کو بھی اپنے ساتھ لے چلیں گے۔ویسے بھی وہ ہماری رازدار تو پہلے سے ہی ہے۔ناصر کی اس بات سے علیزہ کو کچھ اطمینان ہوا کہ پری شاہ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ناصر اس کے ساتھ کچھ ایسا ویسا نہیں کرے گا۔
مگر یہ اس کی غلط فہمی تھی۔ناصر کی حقیقت اک پلے بوائے کی تھی جو لڑکیوں کو اپنی جھوٹی محبت یا دوستی کا جھانسہ دیکرانکے جسموں سے کھیلتا تھا۔ان چھوئی کلیوں کا رس پینا اس کا مشغلہ تھااور جب کسی لڑکی سے اس کا دل بھر جاتا تھا تو وہ اسے چھوڑ کر کسی نئی کلی کی تلاش شروع کر دیتا۔علیزہ بھی اس کے لئےاپنی جنسی پیاس کی تسکین کا محض ایک ذریعہ تھی۔
علیزہ ٹھیک چار بجے پری شاہ کے ساتھ اکیڈمی پہنچ چکی تھی جہاں کچھ فاصلے پر ناصر اپنی کار میں بیٹھا انکا منتظر تھا۔
علیزہ اور ناصر کے درمیان چل رہے معاملے کا پری شاہ کو مکمل علم تھاکیونکہ دونوں بہنیں ایک ہی کمرہ استعمال کرتی تھیں اور علیزہ پری شاہ کی موجودگی میں ہی ناصر کے ساتھ گھنٹوں فون پر باتیں کیا کرتی تھی۔آج کے پروگرام کے بارے میں علیزہ نے رات کو ہی پری شاہ کو بتا دیا تھا۔لہذا دونوں آرام سے چلتی ہوئی بجائے اکیڈمی میں داخل ہونے کے ناصر کی کار میں جا بیٹھیں۔ ان کے بیٹھتے ہی ناصر نے جھٹکے سے کار آگے بڑھادی۔
دس منٹ بعد ناصر دونوں کو لئے ایک فلیٹ میں تھا ۔یہ فلیٹ اسکے دوست وسیم کی ملکیت تھا جسے دونوں دوست صرف عیاشی کے لئے استعمال کرتے تھے ۔کبھی اکھٹے اور کبھی الگ الگ۔علیزہ فلیٹ کو خالی پاکر گھبرا سی گئی تھی مگر پری شاہ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے تھوڑی مطمئن بھی تھی۔
ناصر!تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟ علیزہ نے سوال کیا ۔
تاکہ تمھیں یہ ڈر نہ ہو کہ کوئی ہمیں دیکھ نہ لے۔یہاں ہم سکون سے بیٹھ کر باتیں کرینگےاس کے بعد میں تمھاری کلاس ختم ہونے کے ٹائم پر تمہیں کوچنگ چھوڑ دونگا۔ناصر نے علیزہ سے کہا۔
ٹھیک ہے۔علیزہ بولی۔
ارے پری شاہ تم یہاں آؤ نا، میں تمہیں کچھ دکھاتا ہوں،ناصر نے پری شاہ کو مخاطب کیا جو فلیٹ کی ڈیکوریشن میں کھوئی ہوئی تھی۔
کیا ناصر بھائی؟ پری شاہ نے پوچھا۔
ناصر نے اسکا ہاتھ پکڑا اور ڈرائنگ روم میں لے گیا،
علیزہ کوچنگ اکیڈمی جانے کیلئے تیار ہورہی تھی اس دوان ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے اسکے موبائل کی اسکرین وقفے وقفے سےروشن ہو رہی تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر موبائل اٹھا کر چیک کیا تو دیکھا کہ ناصر کے آٹھ میسجز آئے ہوئے تھے۔اس نے باری باری تمام میسیجز چیک کئےجس میں ناصر نے ایک ہی سوال پوچھا تھا کہ وہ کوچنگ کب تک پہنچے گی؟
علیزہ نے رپلائی کیا کہ چار بجے تک۔یعنی ٹھیک پندرہ منٹ بعدوہ ناصر کو اکیڈمی پر ملے گی۔
ناصر کےساتھ علیزہ کی دوستی ابھی مہینہ پہلے ہی شروع ہوئی تھی اور وہ اسکا محلہ دار بھی تھا ۔علیزہ محلہ کی سب سے خوبصورت "بچی " تھی جو ناصر کی ذرا سی محنت سے اس کی جھولی میں آگری تھی۔آج کے دور میں موبائل پر لڑکوں لڑکیوں کی دوستی کا ہوجانا ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔سو ناصر نے بھی موبائل کا ہی سہارا لیکر علیزہ سے دوستی کی تھی۔مگر دونوں کی یہ دوستی ابھی صرف فون پر بات چیت تک ہی محدود تھی۔ علیزہ اگرچہ آج کے دور کی لڑکی تھی مگر ناصر کے پرزور اصرار پر بھی وہ اس کے ساتھ باہر ملنے کےلئے رضامندنہیں تھی وہ جانتی تھی کہ بوائے فرینڈز اپنی گرل فرینڈز سے باہر کیوں ملنا چاہتے ہیں۔ اس لئے وہ ہمیشہ ناصر کو کوئی بہانہ بنا کر ٹال دیا کرتی تھی۔جبکہ ناصر جلد از جلد وہ مقصد حاصل کرنا چاہ رہا تھا جس کے لئے اس نے علیزہ جیسی حسین آفت کواپنی محبت کے جال میں پھنسایا تھا۔ ناصر کا اصرار جب حد سے بڑھنے لگا تو علیزا نے اک بار پھر اسے ٹالنے کی کوشش کی :ناصر مجھے ڈر لگتا ہے اگر کسی نے مجھےتمھارے ساتھ باہر دیکھ لیا تو میری شامت آجائیگی۔
جوابا" ناصر اسے تسلی دیتا کہ کچھ نہیں ہوتا یار ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے تم فکر مت کرو کسی کو پتہ نہیں چلے گا اور اگر کسی نے دیکھ بھی لیا تو میں اسکا منہ بند کرنا جانتا ہوں۔(اسکا یہ کہنا کسی حد تک صحیح بھی تھا کیونکہ وہ شہر کی اک با اثر سیاسی پارٹی کا سرگرم کارکن بھی تھا جسکی وجہ سے علاقہ میں اسکا کافی رعب اور دبدبہ تھا)
لہذا ناصر کے بہت ہمت دلانےاور اصرار پر آج وہ پہلی بار اس کے ساتھ ڈیٹ پر جانے کے لئے تیار ہوئی تھی۔لیکن اس نے دل میں سوچ لیا تھا کہ اگر ناصر نے اس کے ساتھ کچھ ایسا ویسا کرنے کی کوشش کی تو وہ اسے ایک خاص حد سے آگے بڑھنے نہیں دیگی ۔پروگرام یہ طے ہوا تھا کہ جب وہ کوچنگ پہنچے گی تو ناصر اسے وہاں سے پک کر لےگا۔
مگر مسئلہ یہ تھا کہ علیزہ کے ساتھ اسکی چھوٹی بہن پری شاہ بھی اسکے ساتھ کوچنگ جاتی تھی۔پری شاہ میٹرک کی اسٹوڈینٹ تھی جبکہ علیزہ فائنل ائیر میں تھی۔
علیزہ نے ناصر کو جب یہ مسئلہ بتایا تو اس نے جواب دیا کہ کوئی بات نہیں ہم پری شاہ کو بھی اپنے ساتھ لے چلیں گے۔ویسے بھی وہ ہماری رازدار تو پہلے سے ہی ہے۔ناصر کی اس بات سے علیزہ کو کچھ اطمینان ہوا کہ پری شاہ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ناصر اس کے ساتھ کچھ ایسا ویسا نہیں کرے گا۔
مگر یہ اس کی غلط فہمی تھی۔ناصر کی حقیقت اک پلے بوائے کی تھی جو لڑکیوں کو اپنی جھوٹی محبت یا دوستی کا جھانسہ دیکرانکے جسموں سے کھیلتا تھا۔ان چھوئی کلیوں کا رس پینا اس کا مشغلہ تھااور جب کسی لڑکی سے اس کا دل بھر جاتا تھا تو وہ اسے چھوڑ کر کسی نئی کلی کی تلاش شروع کر دیتا۔علیزہ بھی اس کے لئےاپنی جنسی پیاس کی تسکین کا محض ایک ذریعہ تھی۔
علیزہ ٹھیک چار بجے پری شاہ کے ساتھ اکیڈمی پہنچ چکی تھی جہاں کچھ فاصلے پر ناصر اپنی کار میں بیٹھا انکا منتظر تھا۔
علیزہ اور ناصر کے درمیان چل رہے معاملے کا پری شاہ کو مکمل علم تھاکیونکہ دونوں بہنیں ایک ہی کمرہ استعمال کرتی تھیں اور علیزہ پری شاہ کی موجودگی میں ہی ناصر کے ساتھ گھنٹوں فون پر باتیں کیا کرتی تھی۔آج کے پروگرام کے بارے میں علیزہ نے رات کو ہی پری شاہ کو بتا دیا تھا۔لہذا دونوں آرام سے چلتی ہوئی بجائے اکیڈمی میں داخل ہونے کے ناصر کی کار میں جا بیٹھیں۔ ان کے بیٹھتے ہی ناصر نے جھٹکے سے کار آگے بڑھادی۔
دس منٹ بعد ناصر دونوں کو لئے ایک فلیٹ میں تھا ۔یہ فلیٹ اسکے دوست وسیم کی ملکیت تھا جسے دونوں دوست صرف عیاشی کے لئے استعمال کرتے تھے ۔کبھی اکھٹے اور کبھی الگ الگ۔علیزہ فلیٹ کو خالی پاکر گھبرا سی گئی تھی مگر پری شاہ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے تھوڑی مطمئن بھی تھی۔
ناصر!تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟ علیزہ نے سوال کیا ۔
تاکہ تمھیں یہ ڈر نہ ہو کہ کوئی ہمیں دیکھ نہ لے۔یہاں ہم سکون سے بیٹھ کر باتیں کرینگےاس کے بعد میں تمھاری کلاس ختم ہونے کے ٹائم پر تمہیں کوچنگ چھوڑ دونگا۔ناصر نے علیزہ سے کہا۔
ٹھیک ہے۔علیزہ بولی۔
ارے پری شاہ تم یہاں آؤ نا، میں تمہیں کچھ دکھاتا ہوں،ناصر نے پری شاہ کو مخاطب کیا جو فلیٹ کی ڈیکوریشن میں کھوئی ہوئی تھی۔
کیا ناصر بھائی؟ پری شاہ نے پوچھا۔
ناصر نے اسکا ہاتھ پکڑا اور ڈرائنگ روم میں لے گیا،