Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!
  • پریمیم ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 95 ڈالرز

    وی آئی پی پلس ممبرشپ

    سالانہ ممبرشپ ۔۔۔۔ 7000

    وی آئی پی ممبر شپ

    تین ماہ ۔۔۔۔ 2350

    نوٹ: صرف وی آئی پی ممبرشپ 1000 ماہانہ میں دستیاب ہے

    WhatsApp رابطہ

    +1 540 569 0386

Sex Story ‎اطمینان اور بے سکونی

Master Mind

Premium
Joined
Dec 25, 2022
Messages
1,185
Reaction score
20,748
Points
113
Location
Australia
Offline
‎یہ واقعہ میرے ابو کے پرانے دوست کی بیٹی مریم کے ساتھ بتائے جانے والے لمحات کے بارے میں ہے مریم کے ابو
‎سرگودھا کے ایک بڑے زمیندار ہیں ان کی دو بیٹیاں ہیں جن میں سے ایک کی شادی لندن میں ہوئی ہے جبکہ دوسری لاہور میں ایک پرائیویٹ بنک میں ملازمت کرتی ہے اور آج کل لاہور کے ایک وویمن ہاسٹل میں قیام پذیر ہے یہ کوئی تین سال پہلے کی بات ہے جب مریم نے ایم اے اکنامکس کے بعد گھروالوں سے ملازمت کے لئے کہا گھر والوں نے کافی سمجھایا کہ ان کے ہاں کون سی چیز کی کمی ہے جو وہ ملازمت کرنا چاہتی ہے لیکن وہ نہ مانی اور ملازمت کی ضد پر اڑی رہی آخر کار اس کے گھر والوں کو اس کی ضد کے آگے ہار ماننا پڑی مریم نے سرگودھا سے ہی کسی بنک میں ملازمت کے لئے آن لائن اپلائی کیا جس پر اس کو انٹرویو کے لئے لاہورکال کیا گیا انٹرویو کے لئے اس کے والد صاحب اس کے ساتھ آئے مریم کے ابو کو معلوم تھا کہ میں لاہور میں رہتا ہوں انہوں نے لاہور میں قیام کے لئے میرے ابو کو کہا کہ وہ مجھے اپنے ہاں ٹھہرنے دیں میرے ابو نے مجھے سے بات کی جس پر میں نے ان کو کہا کہ جب مرضی آجائیں یہ آپ کا اپنا گھر ہے جس پر وہ مریم کے ساتھ لاہور آگئے وہ اکتوبر یا نومبر کی بات ہوگی جب مریم اور اس کے ابو اپنی گاڑی پر صبح صبح میرے گھر آگئے مجھے ان کی آمد کے بارے میں میرے ابو نے رات کو ہی آگاہ کردیا تھا میں ان لوگوں کے انتظار میں ہی تھا جب وہ لوگ آگئے میں نے اپنے نوکر کو ان لوگوں کو ناشتہ دینے کے لئے کہا اور خود دفتر چلا گیا شام کو گھر آیا تو

‎ان لوگوں سے بات چیت ہوئی ان لوگوں نے بتایا کہ انٹرویو میں کئی امیدوار تھے اور مریم کو کل پھر آنے کو کہا گیا ہے بات چیت کے دوران مریم نے کم ہی گفتگو کی میں نے بھی مریم سے زیادہ بات چیت کرنے اور فری ہونے کی کوشش نہیں کی ویسے بھی مریم میں کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی کہ میں اس میں زیادہ انٹرسٹ لیتا وہ ایک عام شکل وصورت کی مالک سانولے رنگ کی لڑکی تھی لیکن اس میں ایک خاص بات اس کو دوسری لڑکیوں سے برتری دیتی تھی اس کا قد قریباً پانچ فٹ آٹھ نو انچ ہوگا وہ کھڑی ہوتی تو اس کا قد میرے برابر معلوم ہوتا میرا قد پانچ فٹ دس انچ ہے اس کے قد کے علاوہ اس میں کوئی ایسی خوبی نہیں تھی جس کوبیان کیا جاسکے اس کی عمر بائیس تیئس سال کے قریب ہوگی خیر رات کو دس بجے کے قریب میں نے ان لوگوں سے سونے کے لئے اجازت لی اور اپنے کمرے میں آکر سو گیا اگلے روز میں ابھی سویا ہوا تھا کہ وہ لوگ انٹرویو کے لئے نکل گئے میں شام کو دفتر سے آیا تو معلوم ہوا کہ مریم کو سلیکٹ کرلیا گیا ہے اور وہ آئندہ ماہ کی یکم تاریخ سے بنک کو جوائن کررہی ہے میں نے مریم اور اس کے والد صاحب کو مبارکباد دی مریم جاب ملنے کی خوشی میں کافی خوش تھی جبکہ اس کے والد صاحب کو زیادہ خوشی نہیں ہوئی تھی اس رات بات چیت کے دوران مریم کے ابو نے کہا کہ لاہور میں مریم رہائش کہاں رکھے گی تو میں نے ان کو کہا کہ لاہور میں وویمن ہاسٹل کافی زیادہ ہیں جہاں مریم کو آسانی سے رہائش مل سکتی ہے لیکن مریم کے ابو زیادہ مطمیئن نہیں تھے تاہم میری طرف سے تسلی کے بعدانہوں نے مریم کو ہاسٹل میں رہائش کی اجازت دے دی اگلے دو تین روز ان لوگوں نے ہاسٹل میں خالی جگہ ڈھونڈنے کے لئے خرچ کئے اس حوالے سے میں نے بھی ان لوگوں کی کافی مدد کی لیکن کسی اچھے ہاسٹل میں فوری طور پر جگہ نہ مل سکی ہر جگہ سے ناکامی کے بعد مریم کے ابو مایوس ہوگئے اور انہوں نے مریم کو کہا کہ جب تک اس کو کسی اچھے ہاسٹل میں رہنے کے لئے جگہ نہیں مل جاتی وہ جاب جائن نہ کرے لیکن مریم نے کہا کہ وہ اس جاب کو کسی صورت بھی نہیں چھوڑے گی تو اس کے ابو نے کہا کہ تو پھر تم رہو گی کہاں تو اس نے فوری طورپر یہ کہہ دیا کہ جب تک کسی اچھے ہاسٹل میں جگہ نہیں ملتی وہ اسی گھر میں رہ لے گی یہ سن کر مجھے کافی دھچکا لگا کیوں کہ اس کے رہنے سے میری پرائیویسی ختم ہوجاتی لیکن میں یہ سوچ کر خاموش ہوگیا کہ ان لوگوں سے کافی پرانی شناسائی ہے اور میرے انکار پر ان کو افسوس ہوگا اس کے علاوہ مجھے یہ امید تھی کہ مریم کے ابو کسی صورت بھی اس کو ایک جوان لڑکے کے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں دیں گے میری امید کے بالکل عین مطابق مریم کے ابو نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا لیکن اس پر مریم نے کہا کہ ابو کیا ہوا جو میں چند روز اس گھر میں رہ لوں گی اس میں حرج ہی کیا ہے جس پر مریم کے ابو کو ہتھیار ڈالنا پڑے انہوں نے میرے سامنے ہی یہ بات فون پر میرے ابو کے ساتھ کردی جس پر انہوں نے بھی کہا کہ ٹھیک ہے مریم چاہے تو یہاں ساری عمر رہ لے ویسے بھی شاکر اس کا ”بھائی “ ہی تو ہے ہاسٹل کی بجائے اسی گھر میں زیادہ ٹھیک رہے گا ویسے بھی مریم کو کون سا ساری عمر جاب کرنی ہے جو سال چھ مہینے جاب کرنی ہے یہیں رہ لے ان کی اس بات پر میں بہت پریشان ہوگیا لیکن میں اپنے ابو کی بات سے کسی صورت بھی انکار نہیں کرسکتا تھا میں اس بات کی مخالفت میں چاہتے جتنے بھی دلائل دیتا ابو اپنی بات کو کسی صورت بھی رد نہ کرنے دیتے اور مجھے ”نافرمان“ کا خطاب الگ سے مل جاتااس کے علاوہ مجھے ان کی یہ بات ماننا بھی پڑتی سو میں خاموش ہوگیا مریم کی رہائش کا مسئلہ ”حل “ ہونے پر یہ لوگ اگلے روز ہی سرگودھا چلے گئے مریم کو دوہفتے بعد ہی دوبارہ آنا تھا دوہفتے بعد مریم دوبارہ اپنے والد محترم کے ساتھ دوبارہ یہاں آگئی اس کے والد صاحب دو دن لاہور میں میرے گھر ہی رہے اس دوران وہ میری عادات کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیتے رہے کہ ان کی بیٹی کو یہاں کوئی خطرہ تو نہیں اس دوران انہوں نے مریم کو سوزوکی مہران گاڑی خرید کر دی تاکہ وہ دفتر آسانی سے جاسکے اس کو بسوں ویگنوں میں دھکے نہ کھانا پڑیں اس کے بعد وہ واپس سرگودھا چلے گئے واپس جاتے ہوئے انہوں نے مجھے مریم کا خیال رکھنے کی تاکیدبھی کی ان کے جانے کے بعد میں اپنی روٹین پر آگیا میں نے یہ خیال دل سے نکال دیا کہ اس گھر میں میرے علاوہ کوئی جوان لڑکی بھی رہتی ہے لیکن میں نے گھر میں کوئی ایسا کام نہ کرتا جس سے مجھ پر ”بدچلن“ ہونے کا الزام لگ سکتا تھا مریم کی جاب سٹارٹ ہوئی تو وہ جو کپڑے پہنتی تھی اس پر کسی کو بھی اعتراض نہیں ہوسکتا تھا لیکن آٹھ دس روز بعد ہی اس کے کپڑے سکڑنا شروع ہوگئے وہ اپنے لئے سرگودھا سے جو کپڑے لائی تھی وہ اس نے بیگ میں رکھ دیئے جبکہ اپنے لئے نئے کپڑے خریدے جس کو وہ پہنتی تو دیکھنے والے کی نظر اس پر ٹھہر جاتی اور خواہ مخواہ شہوت آجاتی میرے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا لیکن میں نے اس پر کچھ بھی ظاہر نہ ہونے دیا کہ میں اس کی تبدیلی کا کوئی نوٹس لے رہا ہوں جب کبھی میں دفتر سے جلدی واپس آجاتاتو مریم سے گپ شپ بھی ہوجاتی اکثر اوقات گپ شپ کا موضوع سیاست ہوتا مریم نے یہاں آنے کے بعدپہلے دن سے کھانا پکانے کا کام اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا جبکہ دوسرے کام بدستور نوکر ہی کرتے تھے مریم نے مجھے اس بات کا بھی پابند کردیا تھا کہ میں کھانا گھر سے کھاﺅں اگر کبھی میں باہر سے کھانا کھاتا تو اس پر وہ باقاعدہ ناراض ہوتی جس پر پہلے پہل مجھے حیرانگی بھی ہوئی لیکن میں خاموش رہا وہ مجھے شروع شروع میں شاکر صاحب کہہ کر بلاتی لیکن آہستہ آہستہ صاحب کا لفظ ختم ہوگیا اور صرف شاکر رہ گیا چند ہی دنوں میں ہم دونوں آپس میں کافی حد تک گھل مل گئے تھے اکثر اوقات میں اس کو ہاسٹل میں جگہ ملنے کے بارے میں پوچھتا تو وہ کہتی کہ تلاش کررہی ہوں جلد مل جائے گی ایک روز میں نے حسب معمول کھانے کے بعد بات چیت کے دوران اس سے پھر ہاسٹل کے بارے میں پوچھا تو اس کے منہ سے خلاف توقع الفاظ سننے کو ملے اس نے جواب دیا کہ مجھے معلوم ہے کہ ایک جوان آدمی کی کیا پرائیویسی ہوتی ہے لیکن آپ اپنی سرگرمیاں ایسے ہی جاری رکھ سکتے ہیں جیسے میں یہاں پر موجود ہی نہیں ہوں آپ کو اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں نے اس کو جواب دیا کہ میری پرائیویسی زیادہ یہ بات اہم ہے کہ جوان لڑکا لڑکی ایک گھر میں رہتے ہیں اس پر لوگ باتیں بنائیں گے جس پر اس نے مزید حیرانگی کی بات کی کہ” لوگوں کو کرنے دیں باتیں جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی“اس کی یہ بات سن کر میں چپ سا ہوگیا اس رات کافی دیر تک باتیں کرتے رہے پھر رات کو گیا رہ بجے کے قریب میں اپنے کمرے میں چلا گیا اور وہ بھی اپنے لئے مخصوص کمرے میں چلی گئی بیڈ پر جاتے ہی آج پہلی بار میں نے مریم کے بارے میں کسی اور انداز میں سوچا میرے ذہن میں عجیب عجیب سے منصوبے جنم لینے لگے خیر میں نے ان تمام خیالات کو رد کردیا اور سو گیا اگلے روز ہفتہ تھا میں ابھی دفتر میں ہی تھا کہ مریم کا موبائل پر فون آگیا اس نے کہا کہ ممکن ہوتو آج جلدی گھر آجائیں میں نے ایک خاص چیز بنارہی ہوں میں بھی فارغ ہی تھا گھر چلا گیا گھر پہنچا تو مریم گاجر کا حلوہ بنا رہی تھی مجھے نہیں معلوم کہ اسے کس نے بتا دیا کہ مجھے گاجر کا حلو ہ اچھا لگتا ہے اس کے علاوہ ایک اور بات جس نے مجھے حیران کردیا وہ مریم کا لباس تھا آج اس نے میری الماری سے میری بلیک ٹی شرٹ نکال کر پہنی ہوئی تھی لگتا تھا وہ ابھی ابھی نہا کر نکلی ہے ٹی شرٹ کے نیچے اس کے ممے بتا رہے تھے کہ اس نے برا نہیں پہنا ہوا نیچے میرا ٹراﺅزر اور میرے ہی جوگر پہنے ہوئے تھے میرے گھر پہنچتے ہی اس نے کہا کہ کیسی لگ رہی ہوں میں نے اس سے کہا کہ یہ اچھی بات نہیں کہ کسی کے کپڑے نکال کر پہن لئے جائیں تو کہنے لگی کہ میں کوئی نہیں اب اس گھر کی فرد ہوں اور اس گھر کی ہر چیز پر اس وقت تک میرا بھی حق ہے جب تک میں یہاں قیام پذیر ہوں جس پر میں خاموش ہوگیاخیر شام کو چھ بجے کے قریب ہم دونوں نے کھانا کھایا اور پھر باتیں کرنے لگے اس دوران مریم نے کہا کہ کیا ہم لوگ بور سے ٹاپک پر بات چیت کرتے رہتے ہیں چلو آج شطرنج کھیلتے ہیں میں نے بھی حامی بھر لی میں اچھی خاصی شطرنج کھیل لیتا ہوںاور کافی عرصہ سے کبھی موقع نہیں ملا تھا میری ہاں پر مریم اٹھی اور اپنے کمرے میں گئی جہاں سے شطرنج اٹھا لائی ہم نے بازی لگائی میرے لئے یہ امر حیرانگی کا باعث تھا کہ مریم شطرنج کی اچھی خاصی پلیئر تھی وہ جارحانہ انداز میں کھیل رہی تھی جبکہ میں دفاعی پوزیشن پر تھامریم جب بھی کوئی چال چلتی اس کے ساتھ ہی ”چیک“ کی آواز لگاتی اور ساتھ ہی بازو اوپر کرکے

‎ہووووووووو کی آواز لگاتی میں کافی دیر تک سوچ کر اس کی چال کا جواب دیتا تو وہ فوراً نئی چال چل کر پھر” چیک“ دیتی‘ خیر میں کوشش کے باوجود اس سے پہلی باری ہار گیا اس کے بعد دوسری بازی شروع ہونے لگی تو کہنے لگی ایسے کھیلنے میں مزہ نہیں آئے گا کوئی شرط لگا کر کھیلتے ہیں میں نے کہا کیا شرط لگانی ہے تو کہنے لگی جو بھی ہارے گا وہ دونوں کے لئے چائے بنائے گا میں نے اس پر ہاں کردی اور بازی شروع ہوگئی اب کی بات مات مریم کا مقدر بنی اورمیں نے مریم سے کہا کہ چلو جلدی سے چائے بنا کر لاﺅ وہ منہ بسورتے ہوئے اٹھی کچن میں چلی گئی جاتے ہوئے میں نے آواز لگائی چائے نہیں دودھ پتی بنا لینا وہ خاموشی سے چلی گئی چند لمحوں کے بعد واپس آئی اور کہنے لگی دودھ نہیں ہے میں نے آہستہ آواز میں اس سے کہا کہ گھر کے دودھ کی بنا لو لیکن شائد اس نے سن لیا تھا میری بات سن کر مسکرادی اور کہنے لگی کیا کہا میں نے بات بدلی اور کہا کہ میرا مطلب ہے کہ خشک دودھ کی بنالوتو کہنے لگی کہ خشک دودھ کہاں ہے میں نے اس کو کہا کہ کچن کے فلاں کیبن میں پڑا ہے تو وہ پھر چلی گئی اور چند لمحوں کے بعد پھر آگئی اور کہنے لگی کہ مجھے نہیں ملتا آکر دے دو میں اٹھا اور اس کے ساتھ کچن میں چلا گیا اور اس کو ایک کیبن سے خشک دودھ کا پیکٹ نکال کر دیا اور خود واپس آنے لگا تو اس نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور کہنے لگی کہ یہیں ٹھہرو میں چائے بنا لیتی ہوں تو اکٹھے چلتے ہیں آج اس نے مجھے پہلی بار ” ٹچ“ کیا تھا خیر میں نے اس کی یہ ”حرکت“ بھی اگنور کردی اور اس کے ساتھ ہی کچن میں کھڑا ہوگیااس کی پیٹھ میری طرف تھی جبکہ میں اس کے پیچھے کھڑا ہوا تھا اس کے بال ابھی تک گیلے تھے اور کھلے ہوئے تھے جو اس کی گانڈ کے ابھار کو چھو رہے تھے وہ چائے کے لئے کیتلی میں پانی گرم کررہی تھی کہ اچانک مجھ سے گویا ہوئی
‎”شاکر کیا تمہاری کوئی گرل فرینڈ ہے“مجھے اس کی بات سن کر جیسے دھچکا لگا وہ مجھ سے کیا کہنا چاہتی تھی
‎”ہووووووں“میرے منہ سے صرف یہی لفظ نکل سکا
‎میں نے پوچھا کہ تمہاری کوئی گرل فرینڈ ہے ؟
‎نہیں
‎کیوں نہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
‎کیوں نہیں ہوسکتا
‎تم اتنے ہینڈ سم ہو کوئی بھی لڑکی تمہارے جیسے مرد کے ساتھ دوستی کرنا چاہے گی
‎”کیا تم کرو گی“میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی شکار دیکھ کر تیر چھوڑ دیا ‘ میری بات سن کر اس کو جیسے سانپ سونگ گیا وہ خاموشی ہوگئی
‎”میں نے کیا پوچھا ہے“ میں نے گرم لوہے پر ایک اور چوٹ دے ماری اور ساتھ ہی اس کو کندھوں سے پکڑ کر اس کا منہ اپنی طرف کرلیا اس کا منہ شرم سے سرخ ہورہا تھا کان بھی سرخ ہورہے تھے اس نے نگاہیں نیچی کررکھی تھی اور ایک ہاتھ کی انگلی سے اپنے چہرے پر آنے والی بالوں کی لٹ کو کانوں کے پیچھے کررہی تھی کہ میں نے اپنا سوال تیسری بار پھر دہرا دیا
‎”ہاں“ اس کے منہ سے آہستہ سی آواز نکلی پہلے وہ نظریں نیچے کئے ہوئے کھڑی تھی اب میری حالت بھی اس کی طرح ہوگئی میں نے فوری طورپر خود کو سنبھالا اور اس سے کہا
‎”چائے“میں نے اس کی توجہ کیتلی میں ابلتے ہوئے پانی کی طرف دلائی اور خود کمرے میں آگیا جہاں ابھی تک شطرنج بچھی ہوئی تھی اس نے ایک بار پھر مجھے ”چیک“ دے دیا تھابلکہ یہ صرف ”چیک“ نہیں تھا بلکہ یہ ”چیک اینڈ میٹ“ تھااب اس کے آگے کوئی چال نہیں چلی جاسکتی تھی اب بہتر تھا کہ اپنے بادشاہ کو خود ہی گرادوں اس کی جیت پر میں ناداں نہیں تھا بلکہ مجھے اس کی جیت پر خوشی محسوس ہونے لگی تھی
‎”چائے حاضر ہے“ اچانک اس کی آواز سے شطرنج پر لگی نظریں ہٹ گئیں میں نے اس کے ہاتھ سے چائے کا کپ پکڑا تو وہ میرے سامنے آبیٹھی میں نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے اس کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر جیت کی خوشی اور اطمینان عیاں تھا
‎”ہوجائے ایک اور بازی“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا
‎”میں نے کھیلنے سے پہلے ہی ہار مان لی“ میں نے جواب دیا
‎” ایک بار پھر سے اپنے داﺅ پیچ آزما لوشائد کچھ کام بن جائے“
‎”نہیں میرا کام ہار کر ہی بن گیا ہے“
‎”ہاہاہاہا ہا ہا ہا “اس نے قہقہا لگایا اور چائے کا کپ ایک طرف رکھ کر پھر سے شطرنج کے مہرے سیدھے کرنے لگی
‎” میں اب نہیں کھیلوں گا ابھی پرانی شکست کے زخم ہی نہیں بھرے تم پھر سے شکست دینا چاہتی ہو“
‎”کھیلو اور مجھے ہرا کر اپنی شکست کا بدلہ لے لو“اس کی بات سن کر میں نے بھی چائے کا کپ ایک طرف رکھا اور اپنے مہرے سیدھے کرنے لگا

‎”اب کون سی شرط ہوگی“ میں نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
‎”اس شرط پے کھیلوں گی پیا پیار کی بازی جیتوں تو تجھے پاﺅں ہاروں تو پیا تیری“اس نے پروین شاکر کا شعر کہہ دیا
‎میں ہنس دیا اور اس کی چال کا انتظار کرنے لگا اس کی بار بھی فتح اس کا مقدر بنی آخری چال چلتے ہی اس نے پھر سے قہقہا لگایا اور شطرنج کے اوپر سے دونوں ہاتھ میرے گلے میں ڈال کر مجھے اپنی طرف کھینچنے لگی میں بھی کیوں پیچھے رہتا میں نے بھی اس کو اپنی باہوں میں لے لیا اس کے گیلے بال اور اس کے جسم پر لگے باڈی لوشن سے مجھے شہوت آرہی تھی چند منٹ کے بعد اس نے مجھے خود سے علیحدہ کیا اور کہا” شاکر مجھے کبھی دھوکہ مت دینا میرے ساتھ جو بھی سلوک کرو گے منظور ہے تمہاری ہر جائز ناجائز بات کو مانوں گی مگر کبھی کسی کو میرا رقیب مت بنانا“وہ ایک ایک لفظ ٹھہر ٹھہر کر ادا کررہی تھی
‎میں نے اپنے درمیان سے شطرنج اٹھائی اور اس کو ہونٹوں سے چوم لیا پھر اس سے کہا مریم کبھی ایسا گمان بھی نہ کرنا
‎اس کے بعد اس نے ایک بار پھر مجھے اپنے گلے لگایا اور پھر مجھے ہونٹوں سے چومنے لگی اس کے بعد کافی دیر تک اس کے ساتھ باتیں ہوتی رہیں اس نے بتایا کہ وہ گاﺅں کی زندگی سے تنگ آچکی ہے اس لئے جاب کے بہانے گھر سے یہاں آگئی پہلے روز ہی اس نے مجھے دیکھا تو میں اس کو اچھا لگا اس نے مجھے دکھانے کے لئے ہی اپنے لباس میں تبدیلی کی لیکن میں ٹس سے مس نہ ہوا اور اس پر کوئی توجہ نہ دی لیکن آج شطرنج کی بساط سے سب کام ہوگئے بات چیت کے دوران اس نے بار بار مجھ سے کہا کہ وہ ہر چیز برداشت کرسکتی ہے مگر رقابت برداشت نہیں کرپائے گی اس نے مجھے بتایا کہ اس کی زندگی میں آنے والا میں پہلا مرد ہوں جس کو اس نے اس طرح سے دیکھا ہے کافی دیر تک باتیں کرنے کے بعد اس نے کہا کہ چلو اب سوتے ہیں میں نے اس کو کہا کہ آج وہ میرے کمرے میں ہی سوجائے تو اس نے مجھے ”ٹھینگا“ دکھایا اور اپنے کمرے میں جاکر کنڈی لگا لی میں اپنے کمرے میں آگیا اور سوچنے لگا کہ مریم کو کس طرح ”مطلب پر لایا جائے اس کے ساتھ یہ بھی سوچنے لگا کہ اگر اس کو میری دوسری ”سرگرمیوں“ کے بارے میں علم ہوگیا تو وہ میرے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے کیوں کہ وہ میرے گھر والوں کو بھی جانتی تھی اس کے علاوہ مجھے یہ بھی خدشہ ہونے لگا کہ اس کے ساتھ شادی ہی نہ کرنی پڑے خیر شادی کے بارے میں میں اتنا پریشان نہیں تھا کیوں کہ مریم میں ایسی کوئی خرابی نہیں تھی جس کو بنیاد بنا کر اس سے شادی سے انکار کیا جاسکے تاہم مجھے اپنی دیگر ”سوشل سرگرمیاں“ جاری رکھنا مشکل لگ رہا تھا خیر میں نے مستقبل کے بارے میں باتوں کو نظرانداز کردیا اور فوری طورپر مریم کے ساتھ سیکس کے لئے سوچنے لگا اس دوران مجھے کب نیند آئی یاد نہیں رات کو تقریباً دو بجے کے قریب مجھے اپنے کمرے میں کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی تو میری آنکھ کھل گئی
‎”وہ مجھے ے ے اصل میں ڈر لگ رہا تھا میں تمہارے کمرے میں آئی اور یہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے ٹکراگئی“ مریم پریشانی کے عالم میں زمین پر پڑے گلدان کی طرف اشارہ کررہی تھی زیرو کے بلب کی روشنی میں مریم کا چہرہ چمک رہا تھا اور وہ پریشانی کے عالم میں عام حالات کی نسبت کتنی زیادہ خوب صورت لگ رہی تھی اس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا میں اپنے بستر سے اٹھا اور اس کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا کر کہا کہ تم کو ڈر کیوں لگ رہا تھا اگر ایسا تھا تو مجھے آواز دے دیتی
‎میں نے سوچا آواز دی تو تم جاگ جاﺅ گے اور تمہارے آرام میں خلل پڑے گا اس لئے خاموشی سے آئی اور گلدان نیچے گرنے سے تمہاری آنکھ کھل گئی
‎میں اس کو پکڑ کر اپنے ساتھ بیڈ پر لے آیا اور دونوں بیڈپر بیٹھ گئے میں نے اس کے گلے میں ایک بازو ڈال لیا اور اس کو اپنے ساتھ لگا لیا اور اس سے پوچھا کہ تم کو ڈر کس بات سے لگ رہا تھا تو کہنے لگی پتا نہیں اور ساتھ ہی میرے ساتھ چمٹ گئی میں نے اس کو ہونٹوں سے کس کیا ام م م م م م م م م م م م م م کیا رسیلے ہونٹ تھے اس نے پہلے خود کو مجھ سے چھڑانے کی کوشش کی مگر پھر میرا ساتھ دینے لگی وہ بلا کی گرم لڑکی تھی میں نے اپنا ایک بازو اس کی گردن میں ڈال رکھا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے مموں کو دبانے لگا جو ایک دم ”ربڑ کی گیند“ کی مانند دبانے پر میری انگلیوں کو پیچھے کی طرف دھکیل رہے تھے اس کے ممے میرے اندازے سے زیادہ ٹائٹ تھے جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ کچھ گھنٹے اس کی طرف سے یہ کہنا سچ ہے کہ میں اس کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد ہوں اس نے پہلے میرا ہاتھ اپنے مموں سے ہٹانے کی کوشش کی پھر خود کو میرے حوالے کردیا وہ ابھی تک ٹراﺅزر اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھی چند منٹ بعد اس نے اپنا جسم ڈھیلا چھوڑ دیا جس پر میں نے اس کو بیڈ کے اوپر لٹا دیا لیکن اس کی ٹانگیں ابھی تک بیڈ کے نیچے ہی تھی میں اس کے اوپر ہی لیٹ گیا اور اس کو کسنگ شروع کردی پھر اس کی شرٹ کو اوپر کردیا
‎اف ف ف ف ف ف ف تقریباً بتیس سائز کے ایک دم گول ممے جیسے پرکار کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا ہوایک انچ کا چوتھائی حصہ کے برابر گلابی رنگ کے نپلز میرے ہواس پر بم گرانے لگے میں نے ایک ہاتھ سے ایک ممے کو پکڑا اور دوسرے ممے کے نپل کو منہ میں ڈال کر چوسنا شروع کردیا
‎ام م م م م م م “وہ مزے سے منمنانے لگی
‎میں نے ایک نپل منہ سے نکالا اور دوسرا منہ میں ڈال لیااور اس کو چوسنا شروع کردیا مجھ پر بھی عجیب سا نشہ طاری ہونے لگا تھا وہ بھی مزے سے ساتویں آسمان پر جاچکی تھی اس کے منہ سے نکلنے والی آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ام م م م م م م م اف ف ف ف ف ‘ بس س س س س کی آوازوں سے میرے جوش میں مزید اضافہ ہورہا تھا میں چند منٹ تک اس کے نپلز کو چوسنے کے بعد اٹھ کر بیٹھ گیا اس کے ساتھ وہ بھی شرٹ کو نیچے کرتے ہوئے اٹھنے لگی تو میں نے اس کو پھر سے لٹا دیا جس پر اس کے منہ سے شاکرررررررر کا لفظ نکلا تو میں نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر اسے مزید کچھ کہنے سے روک دیا وہ پھر سے لیٹ گئی میں نے اس کو پکڑ کر پوری طرح بیڈ کے اوپر کیا اور اس کے پاﺅں سے چپل اتار کر نیچے پھینک دی اس کے بعد پھر اس کی شرٹ اوپر کر کے اس کے مموں اور نپلز کو چوسا پھر اس کی ٹانگیں سیدھی کرکے ان کے اوپر بیٹھ گیا اور اس کے پیٹ پر آہستہ سے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں پھیرنے لگا جیسے اس پر کوئی جادو کررہا ہوں اس کے منہ سے پھر سسکاریاں نکلنے لگیں اور وہ اپنے ٹانگوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کرنے لگی مگر ٹانگوں پر میں بیٹھا ہوا تھا جس پر وہ ان کو اکٹھا نہ کرسکی لیکن بار بار میرے ہاتھ پیچھے کرنے کی کوشش کرتی رہی جب میں باز نہ آیا تو اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لئے اس کے منہ سے اب بھی سسکاریاں نکل رہی تھی کچھ دیر بعد اس نے اپنی زبان منہ سے باہر نکالی اور اپنے دانتوں نے نیچے دبا لی پھر میں اس کی ٹانگوں سے اتر کر پاس ہی گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور اس کے پیٹ پر اپنی زبان پھیرنے لگا جس پر اس کے منہ سے مزید زور سے سسکاریاں نکلنے لگیں اس نے ابھی بھی اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے پھر میں اس کا ٹراﺅزر اتارنے لگا تو وہ پھر سے اٹھ کر بیٹھ گئی اور کہنے لگی شاکر ررر بس میں نے اس کو پھر سے پکڑ کر لٹا دیا اور اس کا ٹراﺅزر اتار دیا پھر اس کو اٹھا یاا ور اس کی ٹی شرٹ بھی اتار دی اس کے بعد اس نے مجھے گلے لگا لیا میں نے اس کو خود سے علیحدہ کیا اور اس کو لٹا دیا اب وہ بالکل ننگی میرے سامنے لیٹی ہوئی تھی اس کا سانولا بدن میرے سامنے تھا جس کو دیکھ کر میرا بھی برا حال ہورہاتھا شلوار کے اندر سے میرے لن کا ابھار دیکھا جاسکتا تھا میںنے اٹھ کر اپنے کپڑے بھی اتارے اور اس کے اوپر لیٹ گیا اور اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئےے اچانک اس نے میرا منہ اپنے ہاتھ سے پکڑ کر ہٹایا اور کہنے لگی ” شاکر مجھے کبھی دھوکہ نہ دینا“ میں نے پھر سے اس کو اپنی ”وفاداری “ کا یقین دلایا اور اس کے ہونٹ چوسنا شروع کردیا پھر میرے ہونٹ اس کی گردن پر چلے گئے اس کے بعد اس کے مموں پر پھر میں نیچے ہوا اور اس کے پیٹ پر اپنی زبان پھیرنا شروع کردی پھر جیسے ہی میں مزید تھوڑا سا نیچے ہوا اور اس کی ناف پر میری زبان پھرنے لگی وہ مزے کی انتہا کو پہنچ رہی تھی اور دوہری ہورہی تھی اس کے منہ سے پھر نکلا ن ن ن ن نہی یں میں رکنے کی بجائے مزید تیزی سے اپنی زبان چلانے لگا میرا لن مزید ٹائٹ ہورہاتھا اور اپنے فل سائز پر پہنچ چکا تھا دل کررہا تھا کہ اپنے لن کو اس کی پھدی میں ڈال دوں مگر میں اپنے ساتھ ساتھ مریم کو بھی فل انجوائے کرانا چاہتا تھا اس کے بعد میں نے اپنے زبان مریم کی بالوں سے پاک رانوں پر پھیرنا شروع کردی اب شائد یہ سب کچھ مریم کی برداشت سے باہر ہورہا تھا اس نے اپنی ٹانگیں اکٹھی کرلیں اور مجھے سر سے پکڑ کر اوپر کرلیا اور کہنے لگی اب مزید برداشت نہیں ہورہا میں نے خود کو اس سے چھڑایا اور پھر سے اس کی ٹانگیں سیدھی کرکے ان پر باری باری زبان پھیرنے لگا اس نے مجھے پھر اوپر کیا میں سمجھ گیا کہ اب مریم پوری طرح تیار ہوچکی ہے پھر میں اس کے ٹانگوں کے درمیان میں آگیا اور اس کی ٹانگیں پکڑ کر اپنے کولہوں پر رکھنے لگا کہ اچانک اس کی نظر میرے لن پر پڑی جو لوہے کے کسی راڈ کی طرح سیدھا کھڑا ہوا تھا جس پر اس کے چہرے پر خوف طاری ہوگیا اور کہنے لگی ہائے میرے ربا ااااا یہ اتنا بڑا مجھے تو مار ڈالے گا اس نے پھر سے ٹانگیں اکٹھی کرلیں اور اٹھنے کی کوشش کرنے لگی میں نے اس کو پھر سے لٹا تو اس نے مجھ سے کہا ”شاکر پلیز آج میں مزید کچھ نہیں کرسکتی آج جانے دو یہ سب پھر کبھی “ میں نے اس کی بات ان سنی کردی اور اس کو پھر سے لٹا یا اور اس کی ٹانگیں اکٹھی کر کے پھر سے کولہوں پر رکھیںاس پھدی بالوں سے بالکل پاک تھی لگتا تھا ابھی ابھی بال صاف کئے ہوںاس کی پھدی کافی گیلی ہوچکی تھیمیںنے اس کی پھدی پر ایک بار ہاتھ پھیرا اور پھر اس کی پھدی پر اپنا لن فٹ کرکے اس کے اوپر لیٹ گیا اس نے اپنی آنکھیں سختی سے بند کرلیں میں نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور اس کے دونوں بازوں کو پھیلا کر ان پر اپنے ہاتھ رکھ دیئے اس کے بعد اس کے ہونٹوں کوچوسنا شروع کردیا جیسے ہی اس کا دھیان کسنگ کی طرف ہوا میں نے ہلکا سا جھٹکا دیا جس پر اس نے سر کو دوسری طرف کیا اور کہا شاکر مجھے بہت پین ہورہی ہے پلیز مجھے چھوڑ دو میں نے پھر سے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور اپنی فل طاقت سے اس کی پھدی میں اپنا لن دھکیل دیا جس کے ساتھ ہی اس کے ناک سے اووووووووں کی آواز نکلی اور اس کی آنکھیں جیسے پھٹنے لگی ہوں اور ساتھ ہی دونوں آنکھوں سے آنسو نکل آئے میرا آدھے سے کچھ کم لن اس کی پھدی میں جاچکا تھا میں نے اس کے ہونٹوں کو نہ چھوڑا اور اس کی کسنگ کرتا رہا تاہم اس کی پھدی میں لن کو حرکت نہ دی چند لمحے تک اسی طرح اس کے اوپر لیٹا ہوا کسنگ کرتا رہا وہ بار بار اپنے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتی رہی لیکن میں نے ان کو سختی سے پکڑے رکھا چند منٹ تک کسنگ کے بعد اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹائے تو اس کے منہ سے تکلیف کے مارے ایک چیخ نکل گئی اور ساتھ ہی وہ رونے لگی اس کے ساتھ ہی اس نے کہا شاکر میں آج زندہ نہیں بچوں گی مجھے بہت تکلیف ہورہی ہے پلیز بس کرو میں نے پھر اس کو کسنگ شروع کی اور چند لمحے بعد ایک اور زور دار جھٹکا دیا اب کی بار پھر اس کی آنکھیں ایسے کھل گئیں جیسے ابھی پھٹ جائیں گی اور ساتھ پھر سے آنسو جاری ہوگئے اب دیا جانے والا جھٹکا اپنا کام دکھا گیا تھا اور میرا لن جڑ تک اس کی پھدی میں چلا گیا تھا میں نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے ہٹائے تو وہ چیخنے لگی شاکر پلیز اس کو نکالو میں مرجاﺅں گی ہائے ئے ئے ئے ئے ئے ئے اف ف ف امی جی جی ی ی ی ی میں مر گئی چیخوں کے ساتھ ہی اس نے اپنا سر ادھر ادھر پٹخنا شروع کردیا میں نے اس کے سر کو پکڑا اور پھر کسنگ کرنے لگا لیکن اس نے پھر اپنا سر چھڑا کر سر پٹخنا شروع کردیا میں نے اس کو کہا کہ مریم ذرہ حوصلہ کرو ابھی ساری تکلیف دور ہوجائے گی لیکن اس کی چیخوں میں مزید تیزی آگئی اس کا جسم ٹھندا ہوگیا اور وہ کانپنے لگی لیکن میں نے اپنا لن اس کی پھدی سے نہ نکالا اور اس کے اوپر ہی اس کو حرکت دیئے بغیر ہی لیٹا رہا اس نے خود کو میرے نیچے سے نکالنے کی کوشش بھی کی لیکن ناکام رہی پھر چند منٹ بعد اس کی تکلیف میں کچھ حد تک کمی ہوگئی اور اس نے مجھے کمر سے پکڑ لیا پھر میں نے اس کو دوبارہ کسنگ کی اور اس سے پوچھا کہ تکلیف ختم ہوئی کہ نہیں تو اس نے ناں میں سرہلایا اور پھر کہنے لگی کچھ کم ہوئی ہے پھر میں اس کے اوپر سے اٹھا اور اپنے لن کو آہستہ آہستہ سے اس کی پھدی میں حرکت دینا شروع کی وہ پھر سے چلا اٹھی شاکر آرام سے ہائے میں مر گئی ہائے امی جی ی ی ی ی آرام اس اس س ام اف ف ف ف ف میں آہستہ آہستہ سے اس کی پھدی میں اپنے لن کو اندر باہر کرتا گیا کچھ دیر بعد اس کی آواز سے درد کا عنصر کم اور مزے کا زیادہ ہونے لگا اس پر میں نے اپنی سپیڈ تھوڑی سی بڑھائی تو وہ پھر سے چلانے لگی جس پر میں نے سپیڈ پھر سے کم کردی اب وہ میرا پوری طرح ساتھ دے رہی تھی لیکن جیسے ہی میں سپیڈ پکڑنے لگتا وہ چلانے لگتی جس پر میں آہستہ آہستہ لگا رہا تقریباً پانچ منٹ کے بعد اس نے مضبوطی سے میری کمر کو پکڑ لیا اور اس کا جسم اکڑنے لگا پھر اس کا جسم جھٹکے لینے لگا اور وہ فارغ ہوگئی اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے ناخن میری کمر پر گاڑ دیئے جس سے تکلیف کے باعث میرے ہونٹوں سے بھی تکلیف کے مارے ایک ہلکی سی آہ نکل گئی لیکن میں نے اپنا کام جاری رکھا مزید چند منٹ کے بعد وہ پھر سے چھوٹ گئی اور چند منٹ کے بعد میں بھی چھوٹ گیا میں نے اپنی ساری منی اس کی پھدی میں ہی ڈال دی اور فارغ ہوتے ہی اس کے اوپر ہی لیٹ گیا کمرے میں ہیٹر لگا ہوا تھا اور چند منٹ پہلے ہم دونوں کے جسم تپ رہے تھے لیکن اس وقت دونوں کے جسم ٹھنڈے ہوچکے تھے اس کا جسم برف کی مانند تھا میں نے اس کے اوپر لیٹے لیٹے پاس پڑا کمبل اوپر لیامیرا لن ابھی تک سختی میں تھا اور اس کی پھدی کے اندر ہی تھا ہم دونوں لمبے لمبے سانس لے رہے تھے چند منٹ اس کے اوپر ہی لیٹا رہا پھر میرا لن اس کی پھدی میں ہی اپنی سختی کھوتا گیا اور سکڑ کر خود ہی باہر نکل گیا میں اس کے اوپر سے ہٹا اور اس کے ساتھ لیٹ گیا میں نے اپنا ایک بازو اس کی گردن کے نیچے کرکے اس کی گردن اپنے کندھے پر رکھ لی وہ بے سدھ ہوچکی تھی اس کی گردن جیسے لڑک رہی ہو وہ لمبے لمبے سانس لے رہی تھی میں نے اس کے گالوں کو تھپتھپایا لیکن وہ بدستور آنکھیں بند کئے لیٹی رہی اس کا جسم ابھی تک ٹھنڈا تھا میں خیر میں نے اس کو ہلانا بند کیا اور لیٹ گیا گھڑی پر نظر پڑی تو صبح کے چار بج رہے تھے گویا ہم لوگ قریباً دو گھنٹے تک پیار پیار کھیلتے رہے پھر میری آنکھ لگ گئی ہم دونوں ایک ہی کمبل میں ننگے سو گئے میری آنکھ کھلی تو دوپہر کے گیارہ بج رہے تھے مریم ابھی تک سو رہی تھی لیکن اب اس کے جسم کا درجہ حرارت نارمل تھا میں نے اس کے گالوں کو تھپتھپایا تو ہوووں ہووووں کے کرکے اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں میں نے اس سے کہا اب کیا حال ہے تو اس نے مجھے اپنی باہوں میں بھینچ لیا میں نے اس کو کہا کہ اب اٹھو گیارہ بج رہے ہیں میں بازار سے ناشتہ لے کر آتا ہوں میں نے خود سے کمبل ہٹایا اور باتھ روم میں چلا گیا میں نے دیکھا کہ اس کی پھدی سے نکلنے والے خون سے میرا لن بھی سرخ ہوا تھا میں نے اس کو اچھی طرح سے دھویا اور پھر غسل کرکے تولیہ لپیٹ کر باہر آگیا جہاں میں نے شلوار قمیص پہنی اور اس کو اٹھنے کے لئے کہا اس نے بھی کمبل اوپر سے ہٹایا اور کھڑی ہوگئی اور کھڑی ہوتے ہی لڑکھڑا گئی میں نے اس کو سہارا نہ دیا ہوتا تو وہ گر جاتی اس نے مجھے کہا کہ مجھے ابھی تک درد ہورہا ہے میں نے اس تسلی دی کہ تھوڑی دیر میں درد ختم ہوجائے گا پھر اس کو پکڑ کر باتھ روم میں چھوڑ کر آیا تو دیکھا کہ میرے بیڈ کی چادر خون سے پوری

‎طر ح سرخ ہوچکی تھی میں نے چادر اکٹھی کرکے ایک طرف رکھی تو بیڈ کے میٹرس پر بھی خون کے داغ تھے کچھ دیر کے بعد باتھ روم سے مریم نے آواز دی کہ کپڑے پکڑا دو میں نے اس کو کپڑے دیئے تو وہ پہن کر باہر آگئی میں نے کہا کہ ناشتہ لے کر آتا ہوں تو کہنے لگی ابھی صرف چائے دوپہر میں کچھ کھائیں گے پھر ہم دونوں نے کچن میں جاکر پھر مخشک دودھ کی چائے بنائی اور پی ساتھ میں کچھ بسکٹس لئے مریم نے کہا کہ اسے ابھی تک تکلیف ہورہی ہے جس پر میں نے اس کو ایک پین کلر دی جس پر اس کو کچھ دیر بعد آرام آگیا اتوار کی چھٹی تھی ہم دونوں گاڑی پر لانگ ڈرائیو پر نکل گئے اس رات پھر میرا سیکس کا ارادہ تھا لیکن مریم نے کہا کہ ابھی بھی وہ پین فیل کررہی ہے جس پر میں نے کچھ نہ کیا لیکن ہلکی پلکی کسنگ ضرور کی اس کے بعد تقریباً تین ہفتے تک روزانہ سیکس کرتے رہے اس دوران مریم نے ہاسٹل کی تلاش بھی روک دی اور اپنے گھروالوں کو بتایاکہ وہ اس کی تلاش میں ہے جیسے ہی کوئی اچھا ہاسٹل ملا وہ یہاں سے شفٹ ہوجائے گی پھر مریم نے ایک روز مجھے بتایا کہ اس کو مینسز نہیں ہوئے تو میں نے اس کو پریگنینسی سٹک لاکر دی جس پر ہمیں معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہوچکی ہے پھر ہم لوگ ایک لیڈی ڈاکٹر کے پاس بھی گئے جس نے ہمیں مبارک باد دی کہ ہم لوگ ماں باپ بننے والے ہیں جس پر ہم دونوں کافی گھبرائے میں نے مریم کو کہا کہ وہ حمل گروا دے لیکن وہ نہ مانی جس پر ہم دونوں نے گھروالوں سے چوری نکاح کرلیا اور پھر گھر والوں کو بتادیا پہلے دونوں اطراف سے انکار کیا گیا لیکن بعد میں مجبوراً دونوں مان گئے ہماری شادی تقریباً تین ماہ تک بہت بہترین چلتی رہی اور اس دوران میں بھی اپنی دوسری ”سرگرمیوں“ سے باز رہا لیکن پھر ایک روز مریم کو میرے موبائل میں موجود مختلف لڑکیوں کے ایس ایم ایس سے میری کرتوتوں کا علم ہوگیا جس پر اس نے مجھ سے بہت لڑائی کی میں نے اس کو جھوٹ بول کر بہت منانے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانی اور اس نے ایک روز کسی لیڈی ڈاکٹر سے جاکر اپنا حمل گروا دیا اس کے بعد اس نے مجھ سے طلاق لے لی اس کے بعد اس نے اپنی رہائش ایک سرکاری ہاسٹل میں رکھ لی اور اس وقت سے ابھی تک شادی نہیں کی ہمارے درمیان طلاق کے باعث دونوں خاندانوں کے درمیان کئی سالوں سے قائم تعلقات بھی ختم ہوچکے ہیں میں ابھی تک مریم کو نہیں بھلا سکا کئی بار میں نے اس کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے رابطہ نہیں کیا میں اس کے ساتھ بتائے جانے والے ایک ایک لمحے کو ابھی تک یاد کرتا ہوں اور اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ مریم کے ساتھ سیکس کرنے اور وقت گزارنے کا جو مجھے مزہ ملا ہے میں درجنوں لڑکیوں کے ساتھ سیکس کرچکا ہوں مجھے وہ مزہ نہیں مل سکا اور نہ ہی اطمینان ہوسکا ہے
‎میں یہ کہانی نہیں لکھنا چاہتا تھا لیکن صرف اس لئے لکھی کہ اس سے ایسے لوگ نصیحت پکڑیں جو شادی شدہ ہیں وہ باہر منہ مارنے کی بجائے اپنے گھر پر توجہ دیں تو ان کی لائف مثالی بن سکتی ہے میں درجنوں لڑکیوں کے ساتھ مزے لینے کے باوجود اطمینان سے عاری ہوں اور ابھی تک وہ سکون ڈھونڈ رہا ہوں جو مجھے مریم کے ساتھ میسر ہوا تھا۔ختم شد

 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
Back
Top