Urdu Story World
Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

Welcome to Urdu Story World!

Forum Registration Fee is 1000 PKR / 3 USD

Register Now!
  • فورم رجسٹریشن فیس 1000لائف ٹائم

    پریمیم ممبرشپ 95 ڈالرز سالانہ

    وی آئی پی پلس ممبرشپ 7000 سالانہ

    وی آئی پی ممبر شپ 2350 تین ماہ

    نوٹ: صرف وی آئی پی ممبرشپ 1000 ماہانہ میں دستیاب ہے

    WhatsApp: +1 540 569 0386

    ای میل: [email protected]

Sex Story ‎ہنی مون

Master Mind

Premium
Joined
Dec 25, 2022
Messages
1,185
Reaction score
20,703
Location
Australia
Offline

‎میرا نام روبینہ ہے. میری عمر پچیس سال ہے. حال ہی میں شادی ہوئی ہے اور میں اپنے خاوند کے ہمراہ ہنی مون پر ہوں. میرا تعلق نسبتاً امیر گھرانے سے ہے اور جہاں میری شادی ہوئی ہے وہ ہم سے بھی زیادہ امیر ہیں. میں بچپن سے اچھے تعلیمی اداروں سے پڑھی ہوں. ہمارے گھر کا ماحول بھی کافی آزادانہ ہے. اس سے میری مراد یہ ہے کہ خیالات اور رہن سہن ایسا ہے جیسا ایلیٹ کلاس کے گھرانوں کا ہوا کرتا ہے. اتنے ماڈرن ہونے کے باوجود شادی کے بعد مجھے اپنی زندگی کا سب سے بڑا سرپرائز ملا. میں لباس میں ہمیشہ جینس اور شرٹ پسند کرتی تھی. کالج اور یونیورسٹی میں بھی میرا لباس یہ ہی تھا. لڑکوں سے دوستی بھی تھی لیکن ایک حد تک. میں نے کبھی کسی کو حد کراس نہیں کرنے دی. ایسا اس لئے کے مجھے معلوم تھا کہ اگر میں نے کوئی ایسا قدم اٹھا لیا تو پھر واپسی ممکن نہیں ہو گی. پارٹیوں میں جانا میرا معمول تھا. ویکینڈز پر ایسی پارٹیاں بھی ہوتی تھیں جہاں شراب نوشی اور دیگر نشہ اور چیزیں عام چلتی تھیں. میں نے بھی کی مرتبہ شراب پی تھی لیکن ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا تھا کہ نشے میں آوٹ نا ہو جاؤں. سگریٹ نوشی بھی دوستوں کے ہمراہ چلتی رہتی تھی. یہ تمہید باندھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ سب کو اچھی طرح سے اندازہ ہو جائے کہ میرا لائف سٹائل کیسا تھا. ایسے بیک گراؤنڈ کی وجہ سے میں یہ سمجھتی تھی کہ مجھ سے زیادہ ماڈرن شاید ہی کوئی ہو اس ملک میں.

‎میری شادی بھی انتہائی ماڈرن سیٹنگ میں ہوئی تھی اور میں نے اپنے شوہر کے ہمراہ اسٹیج پر ڈانس بھی کیا تھا. مجھے اس بات کی بے حد خوشی تھی کہ میرا شوہر بھی میری طرح آزادانہ خیالات کا ملک ہے اور وہ مجھ پر کسی قسم کی پابندیاں لگانے سے گریز کرے گا. ویسے تو میں رتی برابر پریشان نہیں تھی کیوں کہ مجھے اپنی طبیعت کا بھی پتہ تھا. اگر شوہر مجھ پر پابندیاں لگاتا تو میں نے برداشت ہی نہیں کرنی تھیں. میں ان عورتوں میں سے تو تھی نہیں کہ اپنا گھر بچانے کی خاطر میں سری زندگی شوہر کی فرمانبردار بن کر رہتی. خیر، شادی خوب دھوم دھڑکے سے ہوئی. سب رسمیں ہوئیں. سہاگ رات بھی منا لی. اگلے دن معلوم ہوا کہ میرے شوہر شہریار نے ہنی مون کے لئے جرمنی کی ٹکٹس پہلے ہی خرید رکھی ہیں. میں پاکستان سے باہر کی مرتبہ سفر کر چکی تھی لیکن جرمنی کبھی نہیں گیی تھی. شائد شہریار کو بھی اس بات کا پتہ تھا تب ہی اس نے جرمنی کا انتخاب کیا تھا. میرا ویزہ لگنے میں ایک ہفتہ لگا اور ہم ویزہ لگتے ہی جرمنی روانہ ہو گئے. کراچی سے برلن کا سفر سات گھنٹے سے زیادہ وقت میں طے ہوا. وقت کے فرق کی وجہ سے جب ہم وہاں پہنچے تو صبح صادق کا وقت تھا. برلن کے مغربی حصّے میں ہمارا ہوٹل تھا. شائد میں ان تفصیلی باتوں سے آپ سب کو بور کر رہی ہوں لیکن معذرت چاہتی ہوں کہ میرے لکھنے کا انداز ہی کچھ ایسا ہے. جب تک باریک سے باریک باتیں بیان نہ کر دن مجھے لگتا ہے کہ میری تحریر معیاری نہیں ہے. امید ہے آپ لوگ غصہ نہیں کریں گے.

‎ائیرپورٹ سے ٹیکسی لے کر ہم ہوٹل پہنچے اور کمرے میں پہنچ کر بیڈ پر گر گئے. تھکاوٹ کے باوجود ایک دوسرے سے لپٹنے پر شہوت بھڑک اٹھی اور ہم نے سیکس کیا. ویسے یہ بتاتی چلوں کہ میرا تجربہ ہے کہ سیکس کا اصل مزہ صبح کے وقت آتا ہے جب آپ سو کر اٹھیں. یہ بات نہیں کہ رات کو مزہ نہیں آتا، آتا ہے لیکن اگر صبح کو دس گنا زیادہ مزہ آتا ہے. پتہ نہیں وجہ کیا ہے. ہم دونوں سیکس کر کے ایک دوسرے سے لپٹ کر سو گئے. آنکھ کھلی تو لنچ کا وقت تھا. ہم نے اکٹھے غسل کیا اور اور ہوٹلکی لابی میں لنچ کر کے روانہ ہو گئے. اس وقت مجھے بھی معلوم نہیں تھا کہ ہماری اگلی منزل کہاں ہے. شہریار سے پوچھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں لیکن اس نے بھی بس یہ ہی کہا کہ تھوڑا صبر کرو. مجھے بے چینی تو تھی لیکن یہ بے چینی جلد ہی شدید حیرانی میں بدل گی جب ہم اپنی منزل پر پہنچے. ہماری منزل سٹرانڈ بینڈ وانسی جھیل تھی. ابھی ہم جھیل کے ساحل تک پہنچے نہیں تھے کیوں کہ ٹیکسی نے ہمیں سرک پر اتارا تھا اور یہاں سے آدھ کلومیٹر پیدل واک تھی. جھیل کے ساحل پر لوگ دھندلے سے نظر آ رہے تھے. یہ گرمیوں کا موسم تھا. شہر یار نے پنٹس کی بجے شارٹس پہنے تھے اور ٹی شرٹ پہنی تھی. میں نے بھی بغیر بازوں والی ٹی شرٹ پہنی تھی لیکن جینز پہنی تھیں جو کے ٹخنوں سے کچھ اپر تک تھی. جیسے جیسے ہم ساحل کے قریب ہوتے گئے ویسے ویسے ہر چیز واضح ہوتی گی. یہ گروبر جھیل کا مشرقی کنارہ تھا. شائد اپ سوچ رہے ہوں کہ جھیل میں ایسی کیا خاص بات ہو سکتی ہے لیکن خاص بات تو تھی اس جھیل میں. میں کراچی کا سمندر ہزاروں بار گھوم چکی تھی اور منوڑا، ہاکس بے، کلفٹن، سی ویو سب جگہیں میری دیکھی بھالی تھیں. وانسی جھیل ان سب جگہوں سے مختلف اور بہتر تھی. جھیل کے کنارے کیبن بنے ہوے تھے. اسی ترتیب میں آگے شاور لگے تھے. ایک سائیڈ پر واشرومز بنے ہوے تھے. کیبن اور واشروم تو ٹھیک لیکن میں کھلے میں شاور دیکھ کر حیران ہوئی لیکن میری اس حیرانگی کی جگہ ایک اور حیرانگی نے لے لی لوں کہ جو نظارہ میری آنکھیں دیکھ رہی تھیں مجھے اس پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا. جھیل کے کنارے بے شمار لوگ تھے. تا حد نگاہ لوگ ہی لوگ تھے. ننگے لوگ. بچے، بوڑھے، جوان، مرد، خواتین. سب کے سب ننگے. میں جو اپنے آپ کو اتنی ماڈرن سمجھتی تھی، شرم کے مارے نظریں جھکا کر شہریار سے کہنے لگی کہ واپس چلیں یہ آپ مجھے کہاں لے آئے ہیں ۔(جاری ہے )
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 
Back
Top