What's new

Welcome!

Welcome to the World of Dreams! Urdu Story World, the No.1 Urdu Erotic Story Forum, warmly welcomes you! Here, tales of love, romance, and passion await you.

Register Now!
  • Notice

    فورم رجسٹریشن فری کردی گئی ہے----پریمیم ممبرشپ فیس 95 ڈالرز سالانہ----وی آئی پی پلس 7000 روپے سالانہ----وی آئی پی 2350 روپے تین ماہ اور 1000 روپے ایک ماہ

    Whatsapp: +1 631 606 6064---------Email: [email protected]

#Manzil_E_Mondal_______ناول: منزل موندل

#Manzil_E_Mondal_______ناول: منزل موندل
Bosses Çevrimdışı

Bosses

VIP+
Dec 24, 2022
253
4,993
93
Lahore
Gender
Male
ناول: منزل موندل
#Episode_1
#Manzil_E_Mondal_______

" ماما میں کیا ساری زندگی معافیاں مانگتے ہی گزار دوں گی؟".

فلک کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ جو امڈ کر باہر نکلنے کو تیار تھے۔ لیکن وہاں پرواہ کسے تھی۔

"میں نے کہا نا کہ جاؤ اور معافی مانگو اپنی چاچی سے۔ کہو کہ جو بدتمیزی میں نے کی ہے وہ اب نہیں ہوگی".

شمسہ بیگم نے سپاٹ لہجے میں کہا تھا۔

"لیکن میں نے کوئی بدتمیزی نہیں کی".

وہ اب بھی اپنے موقف پر قائم تھی۔

"تمہیں شرم نہیں اتی؟ ماں ایک بات کہہ رہی ہے اور اوپر سے مکری جا رہی ہو".

اس کی ڈھٹائی پر شمسہ بیگم کا پارہ ہائی ہوا تھا۔

"امی میں نے کچھ نہیں کیا آپ بھی جانتی ہیں تو کیوں میں سب کی منتیں کروں ؟ کس چیز کی معافی مانگوں جب میں نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں ہے".

وہ اب زور زور سے بول رہی تھی۔

"فلک کاش تم پیدا ہی نہ ہوتی۔ یا پھر پہلے ہی مر جاتی۔ تم اس گھر میں میرا جینا مشکل بنا رہی ہو۔ تمہارے جیسی اولاد سے اچھی میں بے اولاد تھی".

ان کے یہ الفاظ تھے یا کوڑا جو فلک کو دل پر لگا تھا۔ اور ان الفاظ نے اس کی روح کو چیر ڈالا تھا۔ وہ خاموشی سے اٹھی اور نیچے جا کر سیڑھیوں میں کھڑی ہو گئی۔ جہاں اس کے چاچو آ رہے تھے۔ ان کے سامنے جاتے وہ معافی مانگ رہی تھی اور پھر گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ چاچی سے معافی کا تھا۔ اور ان کی طنزیہ نگاہوں اور جھوٹے معافی کے بول سن کر وہ نکل آئی تھی۔

اب شمسہ بیگم کے چہرے پر ایک اطمینان تھا۔ جیسے کوئی بہت بڑا بوجھ سرک گیا ہو۔

اس نے ایک نظر ان کی طرف ڈالی جس میں سے شکایت جھلک رہی تھی۔ اور وہ نظریں چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں کہ شمسہ بیگم آپ نے اپنی اولاد کے ساتھ نا انصافی کی ہے۔

وہ خاموشی سے تیار ہوئی اور یونیورسٹی جانے سے پہلے خود کو ایک دفعہ آئینے میں دیکھا جہاں اس کا چہرہ اس کے رونے کی داستان سنا رہا تھا۔ تاسف سے اپنے آپ کو دیکھ کر اس نے ہلکا ہلکا میک اپ کیا۔ لائنر اور کاجل لگایا۔ اب وہ مطمئن تھی اور ابھی وہ تیار ہو ہی رہی تھی جب شمسہ بیگم اندر آئیں۔ اور ناشتے کی پلیٹ میز پر رکھی۔

"ناشتہ کر لو پھر آج کیا بناؤں دوپہر میں یہ بھی بتا دو".

انہوں نے ایسے کہا تھا جیسے کوئی بات ہوئی ہی نہیں ہے۔ بالکل مطمئن سا انداز اور بہت سفاک بھی۔

"امی آپ اس گھر میں اپنی جگہ مستحکم کرنے اور ایک بڑی بہو کا فرض نبھانے کی کوشش میں اپنی اولاد اور ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم ہو جائیں گی۔ اس گھر میں امن امان ہو نا ہو لیکن آپ ہم میں احساس کمتری ضرور پیدا کر دیں گی".

وہ مسکراتے ہوئے کہہ کر نکل گئی تھی اور شمسہ بیگم کو ایک گہری سوچ میں ڈال گئی تھی۔ کیونکہ ان کا دل جانتا تھا کہ وہ ایک ایک حرف سچ کہہ کر گئی ہے۔

)-)-)-)-)-)-)-)-)-)-)-)-)-)-)-)-)-)-)-)-)-)-)-)-)

"پتا نہیں میری ہی زندگی ایسی کیوں ہے؟ جس میں اور کچھ نہیں تو ایک عزت تک نہیں ملتی"

سارا دن گزارنے کے بعد وہ اب واپس آرہی تھی۔ اتنی ساری گاڑیوں کے بیچ بھی اسے لگ رہا تھا جیسے یہ ایک سنسان سڑک ہے۔ گھر دور ہونے کے باوجود وہ پیدل چلتی جا رہی تھی اور دو دن پہلے ہوا واقع یاد کر رہی تھی۔

گھر میں کام زور و شور سے جاری تھا۔ کئی مزدور لگے ہوئے تھے۔ اور فلک کی غلطی یہ تھی کہ اس نے بنا اجازت کے اپنی چاچی کا چولہا بند کر دیا تھا تاکہ ان کا سالن نہیں جل جائے۔

سالن تو بچ گیا لیکن گھر میں ایسا طوفان آیا کہ الامان۔ پورے گھر میں اس کی زبان اور بدتمیزی مشہور ہو چکی تھی۔ اور پھر اس کی امی کو گھر کے اچھے ماحول کی فکر ستانے لگی کیونکہ فلک کی دادی نے آ کر بہت سنائی تھیں کہ وہ اپنی اولاد کی پرورش اچھے سے نہیں کر سکی۔

یہی سب سوچتے فلک نے سڑک پار کی تھی۔ وہ سڑک بھی وہ جو اس شہر کی سب سے مصروف شاہراہ تھی۔ تبھی اس کا دل کیا کہ وہ وہیں رک جائے۔ اور پھر کوئی گاڑی آ کر اسے روند جائے۔

اپنے ہی ذہن میں سوچتے وہ اس سڑک پر رک بھی گئی تھی۔ اور اس سے پہلے کے کوئی گاڑی اسے کچلتی ایک ہاتھ نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا تھا۔ اور تب وہ ہوش میں آئی اور ارد گرد دیکھا۔

"بی بی مرنا ہے تو زہر کھا لو۔ یہاں سڑک پر کیوں جان دینی ہے کہ گھر والوں کو تمہاری لاش بھی نا ملے".

وہ کوئی فقیرنی تھی جو اپنے خالص لہجے میں اس سے مخاطب تھی۔

"باجی مرنا میرے بس میں کہاں ہے؟ اتنا آسان ہوتا کہ ہم بس چاہنے سے مر جاتے تو میں تب ہی مر جاتی جب میری ماں نے مجھے پہلی دفع کہا تھا کہ کاش تم پیدا ہی نہ ہوتی".

استہزاہیہ لہجے میں وہ کہہ رہی تھی۔ اور تب اس فقیرنی نے اپنے سامنے کھڑی اس لڑکی کو غور سے دیکھا جس کا قد بہت اچھا تھا جسم بھاری سا اور گندمی رنگت۔ اچھے کپڑے پہنے کہیں سے نہیں لگ رہا تھا کہ وہ کوئی ایسی بات کرے گی ۔

"بچے سب ٹھیک ہے نا؟".

اس کی ایسی باتیں سن کر ایک دم اس مانگنے والی کو سمجھ آیا تھا کہ کچھ تو غلط ہے۔ اور پھر بنا کچھ کہے وہ پھوٹ پھوٹ کر اس عورت کے گلے لگی رونے لگی۔

اس عورت کے حواس ہی اڑ گئے تھے کوئی ان سے بات تک نہیں کرتا تھا کہ بدبو آتی ہے اور وہ لڑکی ایسے بلک بلک کر رو رہی تھی۔

اسے کوئی کندھا چاہیے تھا جس سے وہ اپنے دل کا غبار ہلکا کر سکے۔ کیونکہ اس کی سننے والا اور اسے سمجھنے والا تو کوئی تھا ہی نہیں۔ خوب سارا رونے بعد شاید وہ اپنی دنیا میں آئی تھی اور اسے تب احساس ہوا کہ وہ کہاں ہے۔ فوراً اپنے آنسو صاف کرنے کی ناکام کوشش کی اور پھر بیگ سے جتنے پیسے ہاتھ آئے وہ فقیرنی جو پکڑاتی بھاگ گئی ۔ اور پیچھے سے وہ ہاتھ میں کئی نوٹ تھانے سوچ رہی تھی۔ نا جانے کون سا ایسا دکھ تھا جو اس لڑکی نے ایک راہ چلتی بدبو دار عورت کے کندھے سے لگ کر ہلکا کرنا ضروری سمجھا۔

_________________+_______________+

"ابتسام۔۔۔۔۔۔ یہ جو ہو رہا ہے یہ کوئی ناانصافی نہیں ہے تمہارے ساتھ".

صفیہ بیگم نے بغیر کسی تاثر کے کہا تھا۔

"امی!! میری پڑھائی ہے۔ میرا ایک سال ہے وہاں میں کیسے وہ سب چھوڑ دوں؟".

ابتسام نے سوال کے بدلے سوال داغا تھا۔ لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ اثر مقابل پر نہیں ہوا تھا ۔

"تمہاری بہنیں ہیں یہاں! ان کا مستقبل ہے! ان کی ضرورتیں ہیں ابتسام. اس سے زیادہ ضروری ہے کیا تمہاری وہ ایک سال کی ڈگری؟ وہ پڑھائی؟ کل کو پڑھ کر کماؤ گے جب تو بھی کسے دینا ہے تم نے؟ ہمیں ہی دینا کے نا سب کچھ تو اب کیوں نہیں کر رہے یہ ہمارے لیے".

وہ اب بالکل خاموش ہو گیا تھا اور اپنی امی کی وہ دلیلیں سن رہا تھا۔ اور سوچ رہا تھا کہ زندگی کا ایک سال چٹکی میں کیسے ضائع کر دے۔ اتنی محنت اور اتنی لگن کو ایک لحظے میں کیسے بھول جائے ۔ اور پھر اس کی اس کشمکش کو ایک جملے نے ختم کر دیا تھا.

" ابتسام میں تجھے روز محشر اپنا دودھ نہیں بخشوں گی. ابھی اس خاندان کو تیری ضرورت ہے۔ کل کو تیرے کمائے لاکھوں بھی تیرے منہ پر دے ماروں گی اگر آج تو پیچھے نہ ہٹا".

اور پھر وہ اپنی ماں کے سامنے ہار گیا تھا اور پیچھے ہٹ گیا۔

"امی میں یہاں یہ سب ایک دم چھوڑ دوں گا لیکن زندگی میں کبھی میرا مستقبل نہ بن سکا تو اس کا قصور وار بھی میں آپ سب کو ہی ٹھہراؤں گا " ۔

وہ انہیں تاسف کہتا چل دیا تھا ۔ اور صفیہ بیگم سر جھٹک کر رہ گئی تھیں۔

*******************

" بیٹا آپ کی پھپھو بتا رہی تھیں کہ کل فلک نے کھانا بنایا تھا؟" ۔

شفیق صاحب نے کچن میں کھڑی فلک سے پوچھا ۔ جس نے ہلکا سا سر اٹھایا تھا اور پھر جواب دیا ۔

"جی بابا کل فارغ تھی تو بنایا تھا".

اسے لگا تھا کہ شاید اب اس کے بابا تعریف کریں گے لیکن یہاں بھی وہ اپنی توقعات کے ہاتھوں مار کھا گئی تھی ۔

"تو بیٹا اگر کچھ بنا ہی لیا تھا تو اپنی پھپھو کو بھی بھیج دیتی۔ انہیں سارے گھر سے الگ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟".

الفاظ ایک بار بہت برے طریقے سے لگے تھے ۔ بنا جواب دیے وہ کام میں لگ چکی تھی اور دل ہی دل میں اپنے بابا سے مخاطب تھی ۔

"بابا مجھے خود پر افسوس رہے تھا۔ آپ نے ہمیں بس کما کر لا کے دیا ہے آپ آج تک ہمارے باپ نہیں بن سکے۔۔۔۔"

ایک باپ کے لیے یہ لفظ ادا کرنا کوئی بھی بیٹی نہیں چاہتی لیکن وہ کر رہی تھی کیونکہ اس کا دل اس وقت ایک ایسی جگہ پر اٹکا تھا کہ وہ جذبات کی رو میں کچھ بھی کر سکتی تھی ۔

@@@@@@@@@@@@@@@@

"آج ماما بابا کی اینیوسری ہے جلدی کرو سب کام بہت ہے " ۔ فلک جلدی جلدی ہاتھ چلا کر کیک کا آمیزہ بنا رہی تھی ۔ پسینہ اور چہرے پر چھائی تھکن اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ وہ کتنا کچھ کر رہی تھی ۔ کھانے اور باقی چیزوں کا اہتمام کرنے کے بعد اس نے جلدی سے گفٹ کھولے تھے اور اپنی امی بابا کے لیے لائے گئے کپڑے چاہ سے دیکھنے لگی ۔ اس کا آج خوش تھا اور بہت خوش تھا کیونکہ یہ وہ پہلا تحفہ تھا جو وہ اپنی کمائی سے اپنے ماں باپ کو دے رہی تھی ۔ بلکہ پہلا مہنگا تحفہ ۔ فلک سے ایک بچے جو ہوم ٹیوشن دینا شروع کیا تھا کسی کو معلوم نہیں تھا کیونکہ کسی کو اس کی زندگی میں دلچسپی ہی نہیں تھی ۔ وہ کسی کو بھی بتاتی تو فوراً انکار ہو جاتا۔

کچھ لوگ ہوتے ہیں جو ہمیں کبھی بھی اعتماد سے سر اٹھا کر آگے بڑھتا نہیں دیکھ سکتے اور فلک کی زندگی ایسے لوگوں سے بھری ہوئی تھی ۔ وہ زندگی سے بھرپور لڑکی کسی بھی ایسے لمس سے نا آشنا تھی جو اس کا ہاتھ پکڑتا اور کہتا کہ تم سب کر سکتی ہو ۔ اور پھر فلک سب کر جاتی۔

اس رات فلک نے بارہ بجنے کا انتظار کیا تھا اور جب بارہ بجے تو وہ تحفوں کے ساتھ اپنے والدین کے کمرے میں گئی ۔ سب لوگ اس کے لائے تحفوں کی تعریف کر رہے تھے ۔ جیسے ہی سب اپنے کمرے میں گئے ۔ شفیق صاحب نے فلک کو روکا تھا اور کہا کہ یہ پیسے کہاں سے آئے؟؟.

اس کی آنکھوں میں حیرت تھی لیکن جلدی سے بولی .

" بابا میں نے جمع کیے ہیں".

تب شفیق صاحب نے جو کہا وہ الفاظ نہیں نشتر تھے ۔

"بیٹا میں آپ کو پیسے آپ کے استعمال کے لیے دیتا ہوں ۔ آپ کی ماں کا خرچا اور کپڑے میری زمہ داری ہیں اور نہ ہی میرے کپڑے آپ کی ذمہ داری ہیں۔ یہ پہلی اور آخری دفعہ تھا بیٹا آگے سے یہ نہ ہو ".

اس کے بابا اپنی خود داری کے پرچم کو بلند کرنے کے لیے اپنی بیٹی کی خواہش اور خوشی کو نظر انداز کر گئے تھے ۔ یہ سوچے بغیر کے وہ لڑکی کتنی چاہ سے اور کتنے مہینوں سے اس دن کا انتظار کر رہی تھی ۔

کچھ لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں بلکہ کچھ نہیں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی مرضی ، اپنی خودداری اور اپنی خواہش کی وجہ سے دوسروں کے معصوم جذبات کا قتل کرتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی کبھی تو خود اپنے بچوں کا بھی اور ان کی معصومیت کا بھی ۔

اس وقت اپنی بیٹی کو ہر وقت اتفاق ، ایثار، محبت ، شفقت اور یگانگت کا لیکچر دیتا وہ شخص اپنی بیٹی کی خوشیاں چھین رہا تھا اور اس کے نازک جذبات کا قتل کر رہا تھا۔
 
Back
Top