Offline
- Thread Author
- #1
صبح کی سپیدی نمودار ہو رہی تھی۔ یہ پاک بھارت کا سرحدی علاقہ تھا۔ اچانک فضا میں ایک سپیس شپ نمودار ہوئی۔ آہستہ آہستہ وہ زمین کے قریب آتی گئی اور صحرا میں اتر گئی۔ سپیس شپ کا دروازہ کھلا اور اس میں سے ایک گوری چڑی والا آدمی نکلا جو بالکل نگا تھا۔ اس کے گلے میں ایک لاکٹ تھا۔ سپیس شپ دوبارہ ہو امیں بلند ہو گئی۔ یہ آدمی ارد گرد
کی چیزوں کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے ایک طرف چلنا شروع کر دیا۔ وہ ایک ٹرین کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے ایک اور شخص کو دیکھا جو پٹری کے پاس کھڑا تھا۔ جب زمینی باشندے نے مجھے شخص کو دیکھا تو بہت حیران ہوا۔ اسے وولاکٹ بہت قیمتی محسوس ہوا۔ اس نے فور انجھپٹ مار کر لاکٹ چھینا اور ٹرین کی طرف بھاگا جو چلنے والی ہی تھی۔ حیران پریشان خلائی باشندہ اس کے پیچھے بھا گا لیکن تب تک وہ چلتی ٹرین پر سوار ہو چکا تھا۔ اس نے اسے پکڑنے کی کوشش کی تو اس شخص کا ریڈیو پر ہاتھ پڑا جو خلائی آدمی کے ہاتھ میں رہ گئی۔ جو کا لگنے کی وجہ سے وہ پشت کے بل گر پڑا۔ ٹرین آگے بڑھ چکی تھی۔ یہ ٹرین پاکستان سے سامان تجارت لے کر بھارت جاتی تھی۔ یہ جگہ جہاں یہ واقعہ ہوا تھا پاکستان کے صحر اتھر میں واقع تھی۔ خلائی آدمی نے ایک طرف چلنا شروع کر دیا۔ کافی دیر چلنے کے بعد اسے کچھ مکانات نظر آئے۔ ان ندوی نے
منظر دوم
جنت جنسی عرف جگو کا تعلق انڈیا سے تھا۔ وہ تعلیم کی غرض سے برمنگھم آئی ہوئی تھی۔ ایک سال تو ٹھیک سے گزر گیا تھا۔ اس کا ماسٹر میں آخری سال تھا جب اس کی ملاقات ایک پاکستانی لڑکے سے ہوئی۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک دن وہ رات کو مارکیٹ سے واپس آرہی تھی کہ دو اوباش لڑکوں نے اس کا پیچھا کرناشروع کر دیا۔ ایک سنسان گلی میں سے گزرتے ہو انہوں نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے۔ ایک بولا: چکنی آج تو مزے آجائیں گے۔ بڑے عرصے بعد کوئی مزا نہیں ملا ہے۔ جگو نے مزاحمت کی کوشش کی لیکن انہوں نے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ لیا اور ایک طرف کھینے گئے۔ وہ اسے کھلی کی دوسری طرف کھٹڑی اپنی کار میں لے جانا چاہ رہے تھے۔ ابھی انہوں نے آدھی گلی ہی پار کی تھی کے سامنے سے ایک لڑکا کانوں
میں ہینڈ فری لگائے گنگناتا ہوا نمودار ہوا۔ دائش چوہدری
پ کا اصول ہے کہ کوئی کسی کے معاملے میں ٹانگ نہیں اڑاتا۔ مگر اُن کی بد قسمتی کہ وہ لڑکا پاکستانی تھا۔ وہ لڑکا جب پاس آیا تو جگو نے مدد کیلئے چلانا شروع کر دیا لڑکے نے پہلے تو اگنور کیا لیکن جب لڑکی زیادہ آواز سے چلائی تو لڑکے نے رک کر ار رہے ہو کہ ایک لڑکی کو کہاں لے جارہ ہو انہوںنے کہا کہ یہ تما مسلہ ہے۔ اکادو قدم آگے بدعاوی لڑکے بھی ریلیکس ہو گئے، لڑکے نے یکدم پلٹ کر دونوں کی گردن پر زور سے ہاتھ مارا جس سے دو زمین پر گر گئے اور جگو کو چھوڑ دیا۔ لڑکے نے فوراً انہیں ایک اور زور دار کک لگائی اور جگو کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف دوڑ لگادی۔ اُن میں سے ایک لڑکے نے فوراً ایک چاقو نکالا اور اسے ان کی طرف پھینکا۔ وہ چا تو سید ھالڑکے کی ران پہ لگا۔ ایک دفعہ تو وہ ڈگمگا گیا لیکن پھر اپنے آپ کو سنبھال کر دوڑنے لگ پڑی
کے نام پر اک می کردی یا نوں وی واری کی صورتحال کو مجھ پکا تھا۔ اس نے گاڑی بھگا دی۔ لڑکے کی پینٹ خون سے سرخ ہو رہی تھی۔ جگو نے ڈرئیور کو اپنے فلیٹ کا پتا بتایا۔ فلیٹ پر پانچ کر جگو نے کرایہ دیا اور لڑکے کو سہارا دے کر اندر لے گئی۔ اندر جاکر لڑکے کہ ایک کرسی پر بٹھایا۔ جگو فورامیڈیکل ایڈ کا سامان لے آئی۔ چا تو ابھی تک لڑکے کی پینٹ میں تھا جسے لڑکا نکالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اچانک اس نے ایک جھٹکا مارا اور چاقو نکال لیا۔ خون کا بہاؤ تیز ہو گیا۔ یہ دیکھ کر جگو حرکت میں آئی اور لڑکے کو پینٹ اتارنے کا کہا۔ لڑکا تھوڑا چکھایا پھر اس نے چینٹ اتار دی۔ اب وہ صرف انڈروئیر میں تھا۔ جگو نے فورا اس کی بینڈ پیج کرنا شروع کر دی۔ پانی کرنے کے بعد جنگونے اسے دوا دی اور لیٹنے کو کہا۔ لڑکا لیٹ گیا۔ جگو اس کیلئے اپنا ایک لوز ٹراؤزر لے آئی۔ لڑکے نے وہ پہن لیا۔ جگو بولی: تم آرام کرو۔ میں تمہارے لیے کچھ کھانے کو لاتی ہوں۔ جگو نے اس کا نام پوچھا تو اس نے اپنا نام سر فراز بتایا۔ جگو باہر چلی گئی۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد اس کی واپسی ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں دو شاپر تھے۔ اس نے وہ میز پر رکھے اور پچکن میں چلی گئی ۔ کچن سے پلیٹیں لا کر اس نے کھانا نکالا اور دونوں نے کھانا شروع کر دیا۔ جگو: آپ کا بہت شکریہ سرفراز صاحب ! اگر آپ نہ آتے تو پتہ نہی میرا کیا حال ہو تا۔ سر فراز: کوئی بات نہیں یہ تو میرا فرض تھا۔ جگو: آپ کو زیادہ چوٹ تو نہی لگی؟ سر فراز: چوٹ تو بہت لگی تھی پر آپ نے مرہم ایسا لگایا ہے کہ سارا دور وہی چوس لیا۔ جگو مسکرادی۔ آپ باتیں بہت اچھی کر لیتے ہیں۔ بائی دادے آپ کیا کرتے ہیں؟ سرفراز: شکریہ تعریف کا۔ آپ ہی کے مالک۔ ویسے میں ماسٹر کر رہا ہوں اور ساتھ پارٹ ٹائم جاب بھی۔ اور آپ کیا کرتی ہیں؟ جگو : میں بھی سیلہ ہوں۔ اچھا اب آپ آرام کریں صبح بات کریں گے۔
سرفراز میں پھر چلتا ہوں۔ میرے دوست ہاسٹل میں میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔ جگو: رات کے ایک بج گئے ہیں۔ ویسے بھی آپ کو چوٹ لگی ہے۔ آپ اپنے دوستوں کو فون کر کے بتا دیں۔ سر فراز : چلیں ٹھیک ہے۔ سرفراز فون کر کے دوستوں کو بتا دیتا ہے کہ وہ صبح آئے گا۔ جگو دو سرے کمرے میں سونے چلی جاتی ہے۔ اگلی صبح جو آٹھ بجے کے قریب اٹھی۔ فریش ہونے کہ بعد جب وہ دوسرے کمرے میں گئی تو پتا چلا کہ سر فراز جاچکا تھا۔ وہاں ٹیبل پر ایک کاغذ پڑا تھا۔ جگو نے اٹھا کر پڑھنا شروع کیا۔ لکھا تھا: "ڈیر جگو امجھے ذرا جلدی میں جانا پڑھ رہا ہے اس لئے بتائے بغیر جارہا ہوں۔ اس کیلئے پیشگی معافی۔ ہاں دوبارہ کبھی بھی میری ضرورت پڑے تو آپ مجھے بلا جھجھک کال کر سکتی ہیں۔ اپنا نمبر لکھ دیا ہے۔ جائے۔ سرفراز جگو یہ پڑھ کر مسکرادی۔ اس نے فوراً اس نمبر پہ گڈمار جنگ کا مسح کر دیا، اور کام کاج میں لگ گئی۔ تو بچے وہ تیار ہو کر یونیورسٹی چلی گئی۔ وہاں ایک خالی پریڈ میں اس نے موبائل چیک کیا تو سر فراز کے نمبر سے دو میسج آئے ہوئے تھے کہ کون۔ جگو مسکراتے ہوئے لکھنے لگی۔ اچھا تو اب ہم کون ہوگئے ؟ تھوڑی دیر بعد رپلائے آیا جی، دراصل پہنچانا نہی۔ جگو : اتنی جلدی بھول گئے ؟ سر فراز : آپ کا نمبر سیو نہی اس لئے پتا نہی چل رہا جگو: بس اتنا سمجھ لیں کہ آپ کے احسان مند ہیں ہم اس چوہدری
pk سر فراز : اوہ، جگو صاحبہ آپ ہیں۔ جگو: بجی۔ شکر ہے پہچان لیا۔ سر فراز: آپ کو کیسے بھول سکتا ہوں۔ فرمائیں کیسے یاد کیا ؟ جگو : کیا کسی کام کے بغیر یاد نہی کیا جا سکتا؟ سرفراز: نہیں نہیں۔ میں تو ویسے ہی کہ رہا تھا۔ جگو : پھر کب وقت دے رہے ہیں ہمیں؟ سرفراز: جب آپ کہیں۔ میں تو شام سات بجے کے بعد فری ہی ہوتا ہوں۔ جگو: تو پھر آپ آٹھ بجے کی دیز کافی نا ہو تاہوں جو تو پھر آپ آٹھ بجے سیریز کافی شاپ پر آجائے گا۔ سر فراز اور کے تین بجے کے قریب جگو یونیورسٹی سے اپنے فلیٹ چلی گئی۔ یہاں اس کے ساتھ انڈیا کی ایک اور لڑکی بھی رہتی تھی جو کسی نیوز چینل میں رپورٹر تھی۔ اس کا نام نیہا تھا۔ وہ بھی فلیٹ پر آچکی تھی۔ جگو نے کل رات کا پوچھا کہ کل وہ کہاں تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ کام کے سلسلے میں دوسرے شہر چلی گئی تھی۔۔ جگو ریسٹ کرنے لیٹ گئی۔ شام چھ بجے کے قریب جو ہا تھی۔ نہانے کیلئے باتھ چلی گئی۔ اچھی طرح نہانے کے بعد اس نے نئی ٹی شرٹ پہنی۔ پھر اس نے باہر نکل کر ہلکا سا میک اپ کیا۔
جب یہ سب نیہا نے دیکھا تو پو چھا کہ جناب آج کس پے بجلی گرانے کا ارادہ ہے ؟ جگو: جنس پڑی۔ کسی پہ نہیں۔ پر تم کیوں جل رہی ہو۔ نیا: جل کون رہا ہے، میں تور شک کر رہی ہوں۔ وہ کون خوش نصیب ہو گا جس کی قسمت میں ہی ہیر اجائے گا۔ جگو سن کے مسکرادی۔ ٹھیک سات بجے وہ کافی شاپ پہنچ گئی۔ سرفراز پہلےہی پہنچ چکا تھا۔ جگو اس کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ رسمی کلمات کے بعد سر فراز نے کہا: آپ کیا پسند کریں گی؟ جو آپ پسند کریں۔ بہر حال سر فراز نے آرڈر دے دیا۔ انہوں نے آپس میں بات چیت کرنا شروع کر دی۔ جگو نے پوچھا: آپ کی اور کیا کیا مصروفیات ہیں۔ سر فراز جی بس لائبریری چلا جاتا ہوں۔ مجھے کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ اس کے علاوہ دوستوں کے ساتھ کبھی کبھار آؤٹنگ پر بھی چلا جاتا ہوں۔ جگو : داؤ، اگر میں آپ کی دوست بن گئی تو مجھے بھی لے جائیں گے گھمانے ؟ سر فراز جی بالکل۔ جگو: گڈ، چلو پھر آج سے ہم دوست ہیں۔ سرفراز: ہم پہلے کون سادشمن تھے ؟ بگو: بابا بھی ایسی تو کوئی بات نہیں۔ اتنی دیر میں ویٹر کافی
سرو کر دیتا ہے۔ جگو: آپ کو کس قسم کی کتا بیں اچھی لگتی ہیں ؟ سرفراز: مجھے شاعری بہت اچھی لگتی ہے۔ خاص طور پہ مرزا غالب کی۔ جگو مجھے بھی بہت پسند ہے۔ تو کوئی شعر سنائیے نا۔۔۔ سر فراز: عرض کیا ہے ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی کچھ ہماری خبر نہیں آتی
جگو : داہ، واہ کیا بات ہے۔۔۔۔ اس طرح کچھ دیر اور بات کرنے کے بعد وہ اٹھ گئے۔ اسی طرح دو تین ہفتے گزر گئے۔ دونوں ملتے ملاتے رہے۔ ایک دن اسی طرح ایک کیفے پر بیٹھے تھے اور گپ شپ کر رہے تھے۔ اب اکثر سر فراز جگو کو بھی بھی کر لیتا تھا۔ کبھی ہاتھ پہ ہاتھ رکھ لیا۔ کبھی کندھے پر ہاتھ رکھ لیا۔ جگو اس کا بر انہی منائی تھی۔ اس دن بھی سر فراز جگو کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھا تھا۔ جگو : تم نے بتایا نہی کہ تم پارٹ ٹائم کہاں جاب کرتے ہیں؟ سر فراز: پاکستان ایمبیسیڈی میں۔ جگو کیا ؟؟؟؟؟ سرفراز: پاکستانی ہوں تو پاکستان ایمبیسڈی میں ہی کام کرو گا۔ پر تم اتنا تیر ان کیوں ہو رہی ہو ؟ جنگو نے فوراً اپنا ہاتھ چھڑایا اور کھڑی ہو گئی۔ سرفراز پر ہوا کیا ہے ؟ کیا پاکستانی ہونا کوئی جرم ہے ؟ جگو : تم نہی سمجھ سکو گے۔ جنگو یہ کہ کر وہاں سے روانہ ہو گئی۔ سرفراز بل پے کر کے اس کے پچھے بھا گا لیکن تب تک وہ جا چکی تھی۔ سرفراز کی سمجھ میں نہی آرہی تھی کہ جگو کو پاکستان کے نام سے کیا ہو گیا؟ بہر حال وہ اپنے ہاسٹل آگیا
جگو بھی اپنے فلیٹ پہنچ گئی تھی۔ نیہا نے پوچھا کہ کیا بات ہے آج کچھ پریشاں لگ رہی ہو۔۔ جگو : نہی کچھ نہی بس ویسے ہی۔ جگو سر فراز کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی نا تھی۔ وہ جا کر اپنے کمرے میں لیٹ گئی۔ وہ اپنا ماضی سوچ رہی تھی۔ اپنے دیش کے بارے میں۔ اپنے خاندان کے بارے میں۔ جگو کے والد ایک بزنس میں تھے۔ یوں تو وہ بہت اچھے تھے پر ایک مسلہ تھا کہ وہ مذ ہب پر اندھا اعتقاد رکھتے تھے۔ ان کے ایک خاندنی پنڈت تھے تیسوی جی۔ وہ ان کی ہر بات مانا
کرتے تھے۔ ہر جگہ پہ تیسوی جی کا عمل دخل تھا۔ جگو جب چھوٹی تھی تب اکثر جگو کے ابو اسے تیسوی جی کے پاس لے جاتے تھے۔ اور اکثر اس سے تیسوی جی کے پاؤں دبانے کا کہا جاتا تھا۔ پاؤں دبا دبا کہ اس کے ہاتھ تھک جاتے تھے۔ بعض اقات اس کے ابو اسے تیسوی کے پاس چھوڑ کے چلے جاتے تھے کہ وہ کوئی بھی اسے اپنی گود میں بٹھا لیتے تھے کیونکہ وہ تو ایک بچی تھ
چیلے بھی سمجھتے کے مہار بیج بچی کو پیار کر رہے ہیں۔ لیکن تیسری اپنی شہوت بھی پوری کر رہا ہو تا تھا۔ جب تنہائی میسر ہوتی تو تیسری اپنی بالوں سے بھری پنڈلیاں نھی کر لیتا اور جگو کو دبانے کا کہتا۔ پھر وہ جگو کا ہاتھ پکڑ کر رانوں کے اوپر رکھ دیتا ور کہتا کہ یہاں بھی رہا جو کو جو را پاتا رہتا۔ اسے تیسوی کے پیٹ کے نیچے دورانوں کے بی دھوتی کا ابھار واضح محسوس ہوتا تھا۔ ساتھ ساتھ تیسوی اس کی کمر اور گانڈ پر بھی ہاتھ پھیر تارہتا تھا۔ لیکن بات اس سے آگے نہ بڑھی کیونکہ تیسوی کو بھی پتہ تھا کہ ابھی یہ بچی ہے۔ پھر جب وہ بڑی ہوئی تو اس نے دوسرے شہر میں کالج میں داخلہ لے لیا۔ اس طرح تیسوی سے بچ گئی۔ پھر بھی جب کبھی گھر کا چکر لگا تو تیسوی کے پاس ضرور جانا پڑتا۔ تیسوی اپنی حرکتوں سے باز نہ آتا۔ کبھی اسے آشیر باد دینے کے بہانے اسے گلے سے لگالیا۔ کبھی اس کا ماتھا چوم لیتا۔ کبھی اس کی کمر پہ ہاتھ پھیر دیتا۔ جگو کا یہ سب برا نہی لگتا تھا کیونکہ یہ سب اس کے مذہب کا حصہ تھا۔ کسی کو اس سے اعتراض نہ تھا۔ پھر جب وہ کچھ اور بڑی ہوئی تو اس نے باہر جانے کی ضد کی۔ پاپا کی لاڈلی ہونے کی وجہ سے اجازت تو مل گئی پر اس شرط پر کے وہ مذہب کی پابندی کرے گی۔ اور ہراتے بعد تہوی ہی سے آشیر باچ لیا کرے گی ویڈیو کال کے ذریعے سے۔ اس طرح وہ بیلجئم آگئی۔ اس کی پوری زندگی میں اسے ایک ہی بات سکھائی گئی تھی اور وہ تھی پکستان اور مسلمان سے نفرت۔ اور اب وہ ایک پاکستانی اور مسلمان کو دل میں بٹھا بیٹھی تھی۔ اب وہ کرے تو کیا کرے۔ کوہدری
pk یہی سب سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی۔ صبح اٹھنے پر جب اس نے اپنا موبائل چیک کیا تو20 مسکالیں اور 15 میجز آئے ہوئے تھے اور بھی سرفراز کے تما ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ور ، کامیاب انسان میں ہے اور ایک غزل بھی تھی۔
بن پوچھے میر انام اور پستہ رسموں کو رکھ کے پرے چار قدم بس چار قدم چل دونا ساتھ میرے بن کچھ کہے بن کچھ سنے ہاتھوں میں ہاتھ لیے چار قدم بس چار قدم چل دونا ساتھ میرے
جگو ایک دفعہ تو مسکرادی۔ پھر سر جھٹکا اور سر فراز کو میسج کر کے پوچھا کہ وہ کہاں ہے ؟ فوراً جواب آیا کہ برج پر۔ جگو فوراً
بھاگی۔ صبح صبح کا وقت تھا۔ جگو نے ایک جیسی لی اور یہ ان پر کی گئی۔ وہاں پر پاکی اور تایا اسے سرفراز کھڑا نظر آرہا تھا۔ اس نے جیکسن کا کیا ہے ادا کیا اور سر فراز کی طرف دوڑی۔ سرفراز نے بھی اسے آن ہو اد کچھ لیا تھا۔ اس نے اپنی پائیں کھول دیں۔ جگر بھاگی بھاگی آئی اور اس سے لیٹ گئی۔ جگو: آئی اوبو سر قران سر قرات: آئی تو ہے تو جنگوں اور اس نے جگر کو پہنچی اور اس کے سر پر ہونٹ رکھ دینے کچھ دن بعد اس نے جگر کا پر، ٹھوڑی سے کار کر ان اٹھارہ جگو کی آنکھوں میں آنسو کے قطرے تیر رہے تھے۔ سر فراز نے اپنے ہونٹوں سے چوم لیا۔ جگو کے سانسوں کی حرارت اسے اپنے بہت قریب محسوس ہوئی تو ا سے ہو رہے سکون ملت
اس نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور جگو کے شرعی گال چوم یے۔ جگو کاسینہ اور تیز چلنے لگ پڑا تھا اب سرفراز نے بگو کے ہوئوں نے اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ گلاب کی پنکھڑیوں سے آگئی پارک اور لطیف اب اسے شہد سے زیادہ مقام دے رہے تھے۔ جگو نے بھی اپنے ہونٹوں کو اس کے حوالے کر دیا۔ کالی ریز کنگ کرنے کے بعد دونوں جد اہونے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر منکر ہو ہے۔ جگو نے سرفراز کا ہاتھ تھام لیا اور دونوں ایک طرف کالی رہے۔ سرفراز نے ایک
مصر یا پڑھا۔ بہت دیر کردی مہرباں آتے آتے۔ جگو مسکرادی۔ دونوں نے اکھا ناشتہ کیا۔ اور کار دونوں ارانی کہانی یونیورسٹی چلے گئے۔ اگلے دن صبح کے وقت نیانے جاتے ہوئے کہا کہ میں آتی راستے بھی آسکو گی ۔ اس کام ہے۔ جگو نے کہا ٹھیک ہے۔ جگو بھی تیار ہو کر یونیورسٹی چلی گئی۔ واپسی پر اس نے سرفراز کو تیج کیا کہ وہ اس کے فلیٹ پر آجائے۔۔ فلیٹ پر کوئی کر اس نے کچھ کامل داشتن بنا گیا۔ بازار سے ایک کمک منگولیا۔ اور سرفراز کا انکار کرنے لگی۔
کوں اور لٹل ہوئی۔ وہ بھاگ کے گئی اور دروازہ کھولا۔ آگے سر فراوان تھا۔ جو اس کے گلے لگ گئی۔ ایک لکی سی کسی کے بعد دونوں میں ہوئے۔ جگو اسے اندر لے کر آگئی ۔ اس نے سرفراز کو جینے کا کہا۔ کچھ دیر بعد وہ کھاتا لے آئی۔ سر قرار اسے مسلسل دیکھے جارہا تھا۔ آج میگو نے خاص احکامات کیے تھے۔ ہرے بلیو بیٹر سلیو لیں شرحے جو اس کی بالک سے اوپر ایک سال تھی۔ اسکا گورا گورا ہے چمک رہا تھا اور اس کی 20 کی پکی کر سر فراز کو دہی اور بارانی تھی۔ جگو نے پو چھا کہ اور پیلو میٹر 11 کیا پہلے بھی کوئی لڑکی تھی دیکھی اور فرار ہو گا اور کہا۔ دیکھی تو بیت تنہا پر تم میں نہیں دیکھی جو ہوش و جو اس چھین لگتی ہے۔ جگو مسکرا دی۔ بہر حال ہی طرح ہلکی پھلکی باتیں کرتے کرتے انہوں نے کھانا کھایا۔ جگو نے برتن پہلے اور ایک نے آئی کے سرفراز ہوا۔ آج تو دے خاص انکلیات کے ہیں۔ میر تو ہے۔ مگر انجیر بھی ہے۔ میں دل کر رہا تھا۔ کچھ وقت ساتھ جا ئیں۔ سرفراز کیا بات ہے۔ دونوں صوفے پر بیٹھ گئے اور کمک اپنے سامنے رکھ کوئی وی آن کر دیا۔ جگر نے ایک ایک کا ا اور اپنے ہاتھ سے سرفراز کو کھلایا۔ سرفراز نے آگھی پھر ایک نہیں کاتا اور جگر کو کھلایا۔
اسی طرح کچھ اور وقت گزر گیا۔ دونوں ساتھ ساتھ بیٹھے ٹی وی پر ایک گانا سن رہے تھے۔ گاہ بہت سیکسی قسم کا تھا۔ سرفراز نے اپنا ایک ہاتھ جگو کی کمر کے پیچھے سے گزار کر اس کی ران پر رکھ لیا اور دوسرا ہا تھ اس کے ہاتھ پر رکھ کر سہلانا شروع کر دیا۔ جگر کی سائیں جید ہو گئیں۔ سرفراز کے ہاتھ گردش کرنے لگ گئے تھے۔ اب اس نے جگر کا سر اپنے کندھے
پر رکھ لیا تھا۔ کچھ دیر بعد سرفراز نے اپنے ہونٹے جگو کے سب رکھ دیا۔ ساتھ ساتھ جگر کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ سے سہلاتا بھی جاری رکھا۔ اب سر فراز نے جگر کا چہرہ ٹھوڑی سے پکڑ کر اوپر اٹھایا۔ جگو کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں اور ان میں شرم اور جزبات کے ملے جلے ڈورے تیر رہے تھے۔ سرفراز جگو کی اس ادا پہ قربان ہو اجاتا تھا۔ اس نے جگو کا چہرہ اوپر کر کے اس پر بوسوں کی بوچھاڑ کر دی۔ پہلے اس کے کشادہ، سرخ و سپید ماتھے کو چوما، پھر اس کی آنکھوں کو چوما۔ پھر نرم و نازک گالوں کو انتہائی پیار سے چھا۔ پھر اس کے گلاب کی باتوں جیسے جوانوں کو چدائی دونوں کے بارے میں شاعر نے کیا ہے۔ ور کی اس کے آپ کی کیا کیسے بکھری اک گلاب کی سی ہے
سر قرار نے ہونٹوں کو پہلے اوپر سے چو مان کر اوپر والے ہونٹ کو اپنے منہ میں ڈال کے چوسنا شروع کر دیا۔ جگو کو تو جیسے وہ میں کال کے جوسار رہا کر دیا جو کرتا ہے کرنٹ مانگ گیا۔ اس کا سائنس دھر گلی کی طرح پہلے اللہ سر فراز کو اس کے ہر اک شہد سے زیادہ اچھے اور لنڈ پہ لگ رہے تھے۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کس طرح ان کو کھا جائے۔ پھر کچھ دیر بعد دونوں نے فرینچ کسنگ شروع کر دی۔ جگو بھی
اب گرم جوشی دکھا رہی تھی۔ سرفراز مسلسل ہونٹ چوسے جارہا تھا۔ اس نے ایک ہاتھ سے جگو کا سر پکڑ رہاتھا اور دوسرے ہاتھ سے جگو کی کمر سہلا رہا تھا۔ اب جگو نے سرفراز کے ہونٹ چوسنے شروع کر دیے۔ سرفراز مزے کی تھی گہرائی میں ڈوب گیا۔ اب سر فراز نے اپنے زبان جگو کے منہ میں داخل کر دی۔ جگو نے اسے چوسنا شروع کر دیا۔ دونوں کی nda زبانیں تکرار ہی تھیں۔ جسموں میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔
جگو نے آج تک یہ سب صرف فلموں میں ہی دیکھا تھا۔ مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اس کا کوئی بوائے فرینڈ نہی تھا۔ بس کبھی کبھار کسی سہیلی کے ساتھ عمران ہاشمی کی فلم دیکھ لیتی تھی۔ جس میں یہ سب بھی ہو تا تھا۔ لیکن آج عملی
طور پر یہ سب کرنے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ اب سر فراز نے اپنا ہاتھ جگو کی کمر سے ہٹا کر اس کے پستانوں کے ابھار پر رکھ دیا۔ جگو کا پھر انوکھے مزے کا احساس ہوا کسنگ ابھی تک جاری تھی۔ سرفراز نے جگو کے سینے کو بھی مسلنا شروع کر دیا تھا۔ سر فراز کو اپنی پینٹ میں بھی اکڑاؤ سا محسوس ہو رہا تھا۔ کچھ دیر بعد سرفراز نے جگو کو کھڑا کیا، اس کے ہاتھ پکڑ کر اوپر کیے اور اس کی شرٹ اتار دی۔ بے داغ، گورا جسم دعوت نظارہ دے رہا تھا۔ اوپر سے ہلکے گلابی رنگ کے برا میں قید جگو کے 36 کے لے قبر ڈھارہے تھے۔ سرفراز تو یہ سب دیکھ کر پاگل ہو گیا اور جگو کے جسم پر ٹوٹ پڑا پہلے اس کی خوبصورت صراحی دار گردن پر بوسے دیے۔ جگو کے منہ سے سکاری نکل گئی۔
پھر اس طرح چومتے چاہے وہ نیچے آیا۔ اس کے ابھاروں کو اوپر سے پیار کیا۔ پھر اس کے پیٹ پر زبان پھیری۔ پھر اس کی صاف شفاف ناف میں زبان داخل کر دی۔ جگو کو یوں محسوس ہوا کہ جیسے اس کے پورے جسم میں بجلی کی لہر سی کو ند گئی ہو۔ اس کے منہ سے پھر سکاری نکل گئی۔ کچھ دیر بعد جگو نے سرفراز کی شرٹ بھی اتار دی۔ اب سر فراز کے کشاچہ سینہ بنگا تھا۔ جگو نے بھی اس پر پیار کرناشروع کر دیا۔ کچھ دیر بعد سر فراز نے جگو کوسینے سے لگا کر پیچھے ہاتھ لے جا کر اس کے برا کی کمی بھی کھول دیں۔ بر اینیچے ڈھلکنے لگا۔ سرفراز نے اسے پکڑ کر ایک طرف پھینک دیا۔ اب جگو کا اوپری بدن مکمل بنگا تھا۔ جگو نے شرم کے مارے اپنے ہاتھ اپنے پستانوں پر رکھ لیے تھے جو انھیں چھپانے میں ناکام رہے تھے۔ سرفراز کو اس کی یہ ادا بہت اچھی لگی۔ سرفراز نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ پرے کیے۔ کیا نظارہ تھا۔ دودھ سے زیادہ سفید گورے گورے ، گول ہے ، جو بالکل تنے ہوئے تھے ، ان پر براؤن کلر کا دائرہ اور اس میں پھر ہلکے براون کلر کے چھوٹے چھوٹے تنے ہوئے نپلز۔ سرفراز نے یہ نظارہ کبھی نہ دیکھا تھا پورن مویز میں بھی اسے کبھی ایسا قدرتی حسن نظر نہ آیا تھا۔
اس نے آگے بڑھ کر ان نسوانی حسن کی علامتوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔ جگو کی سکاری نکل گئی۔ سرفراز کے پیار کرنے کا انداز اے دیوانہ بنارہا تھا۔ سر فراز کو وہ پستان انتہائی ملائم اور نرم معلوم ہورہے تھے بالکل روئی کے گولوں کی طرح۔ سر فراز نے ان پر ہاتھ پھیر ناشروع کر دیا۔ پھر اس نے جگو کو صوفے پر بٹھا دیا اور اپنے منہ میں اس کا ایک ممالے لیا۔ جگو مزے کے لئے جہان میں ڈوب گئی۔ اس کیلئے بھی یہ سب بالکل نیا تھا۔ سرفراز نے ایک بوب کو منہ میں لے لیا اور اس پر زبان پھیرنی شروع کر دی اور دوسرے ہاتھ سے دوسرے بوب کو پکڑ کر اس کو سہلانا شروع کر دیا۔ جگو کے منہ سے آو آوری ، اوئی آماده کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں تھیں۔ سرفراز نے اچھی طرح زبان پھیرنے کے بعد اس کے نپل کو چوسنا شروع کر دیا تھا۔ جگو کی آواز میں مزید بلند ہورہی تھیں جو سر فراز کو اور زیادہ گرم کر رہی تھیں۔ نیپل فل تناؤ
جس سے جگو کی لذت آمیز سکاری نکل جاتی تھی۔ ایک مے سے اچھی طرح کھیلنے کے بعد سر فراز دوسرے مے کی طرف گیا۔ اس کے ساتھ بھی وہی عمل دو ہر ایک جگو کو محسوس ہوا کے اس کی پینٹ نیچے سے گیلی ہو رہی ہے۔ اب سرفراز کو بھی اپنے جسم پر لباس بوجھ لگ رہا تھا۔ اس نے جگو کو کھڑا کیا اور اس کی پینٹ کا بیلٹ کھولا۔ پھر زپ نیچے کی۔ پھر آہستہ آہستہ اسے اتار دیا۔ اب جنگو صرف ایک پنک کلر کی پینٹی میں تھی۔ سرفراز نے اسے اپنی پینٹ کی طرف اشارہ کیا۔ جگو سمجھ گئیں۔ وہ آگے بڑھی اور اس نے سرفراز کی پینٹ بھی اتار دی۔ اب سر فراز بھی صرف ایک سفید انڈرویئر میں تھا۔ اس کے انڈر ویر میں ابھار واضح طور پر نظر آرہا تھا۔ اب سر فراز نے جگو کو اپنی بانہوں میں اٹھایا اور بیڈ پر لٹا دیا۔ پھر اس کی ٹانگیں اٹھا کر اس کی پینٹی بھی اتار دی۔ اب جگو الف نگی بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی، اور کچھ کچھ شرما بھی رہی تھی۔ دائش چوہدری
سر فراز بولا : جگو تم بہت حسین ہو۔ مجھے کچھ ہو نہ جائے۔ آئی لو یو، میری جان۔ جگو: آئی لو یو ٹو سر فراز اب سر فراز نے پھر سے اس کے پورے جسم کو چومنا شروع کر دیا۔ گردن سے ہوتے ہوئے نیچے پیٹ تک آگیا۔ پھر اس نے پیٹ سے نیچے سفر شروع کیا۔ جگو کی بے چینی بڑھنا شروع ہو گی پھر سر فراز نے اپنے لب جگو کی کنواری چوت پر رکھ دیے۔ جگو کو کرنٹ سانگہ اس نے بے اختیار سرفراز کے سپہ ہاتھ رکھ دیا سر فراز کو چوت بہت گرم گرم محسوس ہوئی، اس میں سے چکنا سا مادہ بھی نکل رہا تھا۔ جس کی خوشبو اسے دیوانہ بنارہی تھی۔ انتہائی خوبصورت براون کلر کی چوت ، اس پر ہلکے ہلکے بال، ان کے جڑے ہوئے لب، ان کے اوپر ایک چھوٹا سا دانہ جو سرخ ہو رہا تھا یہ سب نظارہ سر فراز کے جزبات کو مزید ابھار رہا تھا۔ اس کو اپنا انڈروئر پھٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے اپنے اب جگو کی چوت پہ پھیر نے شروع کر دیے۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنی زبان نکالی اور اس کو جگو کی چوت پر پھیر ناشروع کر دیا۔ جو تو مزے کی اک نئی دنیا میں پہنچ گئیں۔ سر فراز کی زبان نے جب اس کے دانے کو بھی کیا تو ہ اپنی کاری کو نہ روک پائی۔ سر فراز نے اب اس دانے کو پکڑ لیا اور اسے چوسنا شروع کر دیا اور اس پر اپنی زبان پھیرنا جاری رکھا۔ جگو اب مسلسل سسکاریاں لے رہی تھی۔ اور اپنا جسم بار بار ہلارہی تھی۔ کچھ دیر بعد اسے اپنی چوت میں بہت سی گرمی محسوس ہوئی اور یوں لگا جیسے پورے جسم میں چونٹیاں سی رینگ رہی ہوں۔ اس کے سسکاریوں کی آواز بلند ہو گئی۔ اس نے سر فراز سر فراز چلانا شروع کر دیا۔ سرفراز فوراً اٹھا اور اس جگو کے اوپر لیٹ گیا اب اس اپنے ہاتھ سے اس کی چوت کو سہلانا جاری رکھا اور خود اس کے بوب کو چوسنا شروع کر دیا۔ جگو دو ہرے مزے سے آشنا ہوئی۔ اسے سرفراز پر بے حد پیار آرہا تھا۔ اچانک اسے لگے کے اس کی سانسیں اور تیز ہو گئیں ہیں۔۔۔۔۔۔ آوہ آوچ۔ سر فراز میں گئی۔ آہ۔ آئی لو یو ، سر فراز ، اور اس کی چوت میں جیسے سیلاب آگیا۔ سرفراز کو بھی اپنی رانوں کے پاس بہت پانی محسوس ہوا جگو نے اسے اچھی طرح بھینچ لیا۔ اس کے ساتھ ہی جگو شانت ہوتی چلی گئی۔
جگو نے مزے سے آنکھیں بند کر لیں۔ کچھ دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور سرفراز کی طرف پیار سے دیکھا۔ پھر وہ اٹھی اور اس نے سرفراز کو نیچے لٹا کر اس پر بوسوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اب مزے لینے کی باری سرفراز کی تھی۔ جگو اس کو حسین تھا۔ پھر جگو اس کی رانوں کے درمیاں آگئی۔ اس نے انڈروئر کو اوپر سے ہی چومنا شروع کر دیا۔ پھر اس نے سر فراز کا انڈروئر اتار دیا۔ سرفراز کا 7 انچ کا لن ایک جھٹکے کے سیدھا کھڑا ہو گیا۔ ایک دفعہ تو وہ اسے دیکھ کر حیران ہو گئی۔ پھر اسنے اسے ہاتھوں میں لے لیا اور ہلکا ہلکا مساج شروع کر دیا۔ اب سرفراز کی سکاریاں نکل رہی تھیں۔ سرفراز : جگو میری جاں اس کو پیار تو کرو۔ جگو نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے لن کی کیپ پر ہونٹ رکھ دیے۔ دراصل وہ یہ سب پورن موویز مین دیکھ چکی تھی اور سے ہے تاکہ ایسا کرنے سے مرد کوبہت مزہ آتاہے اور اپنے محجوب وبے حد ضروریا چاہتی تھیں۔
پھر جگو نے اپنی زبان نکالی اور اس کے پورے لن پر مکمانی شروع کر دی۔ سر فراز کے چونکہ لھتے ہوئے ہوئے تھے اس لئے اس کے لن کی کیپ بہت گول تھی اور وہ جگو کو بھی بہت اچھی لگ رہی تھی۔ ابھی یہ سب ہو ہی رہا تھا کہ جنگو کے موبائل کی بیل بجی۔ جگو نے اگنور کیا۔ اور اس کا لن چوسنا جاری رکھا۔ لیکن جب کچھ دیر بعد پھر بیل بجی تو اس نے لن چھوڑ کر موبائل کو دیکھا تو نیہا کانمبر شو ہورہا تھا۔ جگو نے سرفراز کی طرف دیکھ کر کہا، ایک منٹ میری روم میٹ کی کال آرہی ہے پتہ نہی کیا بات ہے۔ جب اس نے کال اٹینڈ کی تو نیہا کی آواز آئی۔ یار میرا پروگرام کینسل ہو گیا ہے۔ میں آرہی ہوں پلیز میرے لیے کھانے کیلئے کچھ لے آؤ۔ بہت بھوک لگی ہے۔ میں آدھے گھنٹے تک پانچ رہی ہوں۔ اوکے جائے۔ جگو : نے فون بند کر کے سرفراز کی طرف دیکھا۔ وہ بھی ایسیٹ دکھائی دیا۔ جگو نے اس کے لن کی طرف دیکھا جو اس دوران سو چکا تھا۔ جگو بولی: اوہ سو سوری۔ میری روم میٹ آرہی ہے۔ کوئی بات نہی پھر کبھی سہی۔ لیکن میں تمہیں تھوڑا سا مزہ ضرور دے
سکوں گی۔ یہ کہ کر جگو جکھی اور سر فراز کے لن کو منہ میں ڈال لیا۔ تھوڑی دیر بعد سر فراز کا لنڈا انگڑائیاں لیتا ہوا اٹھ کھڑا
ہوا۔
جگو نے اس لولی پاپ کی طرح چوسنا شروع کر دیا۔وہ اپنی پوری زبان اس کے لنڈ کی کیپ پہ گھمائی اور پھر اچھی طرح اس منہ میں گہرائی تک لینے کی کوشش کرتی۔ سر فراز مزے کے ایک نئے جہان سے آشنا ہو رہا تھا۔ اس نے جگو کے سر کو اور نیچے دبانا شروع کر دیا۔ اور ساتھ ایک ہاتھ سے کا ایک پستان بھی پکڑ لیا۔ جگو مسلسل لنڈ چوسے جارہی تھی۔ کچھ دیر بعد سر فراز کو اپنے جسم میں ہلچل کا احساس ہوا۔ اس لگا جیسے اس کا سارا جسم اس کے لنڈ کی طرف دوڑ رہا ہو۔ اس نے جگو کو بتایا کہ وہ آ رہا ہے۔ جگو نے لنڈ میں سے نکال کر ہاتھ میں لے لیا اور ہاتھ سے مٹھ لگانی شروع کر دی۔ چند سیکنڈ بعد سر فراز کے لنڈسے ایک جھٹکے سے منی کی پھوار نکلی۔ کچھ دیر بعد سر فراز بھی شانت ہو گیا۔ پھر جگو جلدی سے اٹھی اور کپڑے پہنے۔ سر فراز بھی اپنے کپڑے پہنے واشروم چلا گیا۔ کپڑے پہنے کے بعد وہ باہر نکلا جگو جو ایک الوداعی کس دی آئی لو یو بولا اور چلا
گیا۔ جگو جلدی سے نیہا کیلئے کھناے پینے کا سامان لینے بازار چلی گئی۔