Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

محافظ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Life Story محافظ

    رات سرد بھی تھی اور سیاہ بھی۔ ہر شے نے اندھیرے اور خاموشی کی ردا اوڑھ رکھی تھی۔ گھر کے سب افراد سو چکے تھے۔ سب لائٹس آف تھیں سوائے کچن کے۔ آج کوئی تیسرا چوتھا روز ہو چلا تھا کہ جب بھی وہ کام سے رات کو لوٹتا تو کچن کی جلتی لائٹ اس کی توجہ کھینچ لیتی ۔ مگر وہ اکثر اس بات کو نظر انداز کر دیا کرتا تھا کہ امی یا بہنیں ہوں گی- کسی ضرورت کے لیے آنکھ کھلی ہوگی تو کچن میں آ گئی ہوں گی ۔ وہ یہ سوچ کر ہمیشہ اپنے قدم کمرے کی طرف بڑھا دیا کرتا تھا۔ مگر آج وہ ایسا نہ کر سکا۔ اسی پل ہلکا سا قہقہہ اس کی سماعتوں کے آر پار ہوا اور قدموں کو منجمد کر گیا اور پھر دھیان ہی نہیں بے اختیار قدم بھی اس جانب اٹھ گئے ۔ جہاں سے قہقہے سنائی دے رہے تھے۔ خود کو اندھیرے میں چھپاۓ ہوۓ اس نے کچن کی جالی والی کھڑکی کے اندر جھانکا اور پھر ساکت رہ گیا۔ یہ اس وقت …… یہاں …..؟ مگر کیوں؟ اور پھر حیرانی کو اندھیرے کی سیاہ چادر نے ڈھانپ لیا۔
    ☆☆☆
    ناشتے کی میز پر عافیہ اور نائلہ کھسر پھسر میں مصروف تھیں اور سعدیہ بار بار بیٹیوں کو اس کھسر پھسر پہ جس میں ہلکی ہلکی کھی کھی کی آواز میں بھی بے قابو ہونے لگتی تھیں، ٹوک رہی تھیں۔ تم دونوں سے ناشتا بھی خاموشی سے نہیں ہوتا۔ اس ڈانٹ پہ تھوڑی دیر کے لیے کھی کھی کنٹرول میں کی جاتی اور پھر دومنٹ بعد دوبارہ بے قابو ہو جاتی۔ کیا کروں میں تم لڑکیوں کا … باتیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں ۔ سعدیہ نے دونوں کو ڈپٹتے ہوۓ گھورا اور ساتھ ہی احد کو ناشتے کے لیے آواز لگائی۔ آ رہا ہوں امی- بیٹا، ناشتا ٹھنڈا ہورہا ہے ۔ کام پر نہیں جانا کیا آج؟ احد کے سامنے خستہ پراٹھے اور انڈوں کا آملیٹ رکھتے ہوۓ وہ کچھ الجھی سی بولیں۔ کیا ہوا امی؟ کچھ پریشان لگ رہی ہیں۔ احد ماں کے تاثرات نظر انداز نہ کر سکا تھا۔ بس ان لڑکیوں کی غیر ذمہ داری ۔۔۔ ابھی وہ عافیہ اور نائلہ کو گھورتے ہوئے مزید کچھ کہتیں کہ دونوں نے بیک وقت ان کا فقرہ مکمل نہ کرنے دیا۔ نہیں بھائی قسم لے لیں۔ ہم نے رات کو کچن کی لائٹ نہیں جلائی ۔ وہ دونوں کچھ دیر پہلے خوش گوار موڈ میں باتیں کر رہی تھیں ۔ ماں کی شکایت اور وہ بھی کماؤ پوت کے سامنے تو اپنا دفاع کیے بنا نہ رہ سکیں۔ امی تو ہر وقت ہمارے پیچھے ہی پڑی رہتی ہیں۔ ان دونوں کا موڈ اچھا خاصا خراب ہو گیا تھا۔ جس کا اظہار وہ خفا خفا چہروں سے کرنے لگی تھیں۔ چھوڑ میں امی، جب وہ کہہ رہی ہیں تو … احد بھی بہنوں کی حمایت میں بول اٹھا تو سعدیہ نے بیٹے کو قدرے خفا نگاہوں سے دیکھا۔ ایسی نظروں سے جیسے کہہ رہی ہوں۔بگاڑو جی بھر کے اپنی لاڈلیوں کو۔ احد گھر کا اکلوتا بیٹا تھا اور سب سے بڑا بھی ۔ باپ کی بیماری کی وجہ سے گھر کی ساری ذمہ داری اس پہ آ گئی جو ابھی خود زیر تعلیم تھا۔ خواہش تو اس کی بھی یہی تھی کہ اعلا تعلیم حاصل کرے گا۔ بہت سے خوب صورت خواب مستقبل کے بارے میں اس نے دیکھ رکھے تھے اور بہت سے پلان بنا رکھے تھے۔ مگر اچانک سب الٹ پلٹ ہو گیا۔ وہ چاہتا تو اس مشکل وقت میں خودغرض بن کر اپنے حوالے سے سوچ سکتا تھا۔ ماں بہنوں کو بوجھ سمجھ سکتا تھا۔ باپ کی بیماری سے اکتا سکتا تھا۔ مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ تعلیم کو خیر باد کہہ کر اس نے ایک ہوٹل میں جاب کر لی اور اپنے گھر کا کفیل بن گیا اور اپنی بہنوں کی خواہشوں اور مستقبل کا محافظ- گزارا کسی حد تک اچھے طریقے سے ہونے لگا مگر حالات کے ایک دم پلٹا کھانے نے سعدیہ کو بہت محتاط بنا دیا وہ جو کما کر لاتا سعدیہ اس کو سینت سینت کراستعمال کرتیں اور دونوں بیٹیوں کو بھی ہر معاملے میں ہاتھ کھینچ کر خرچ کرنے کو کہا کرتیں۔ ذراسی فضول خرچی پہ ان کی اچھی خاصی کلاس لیتی تھیں۔ مزید احتیاط کا عالم یہ کہ گھر کا کوئی پنکھا یا لائٹ بھی بلا ضرورت استعمال ہوتا تو اس پر عافیہ اور نائلہ کی اچھی خاصی شامت آ جاتی تھی۔ پچھلے کچھ روز سے یہی ہورہا تھا۔ رات کو کچن کی لائٹ جلائی جاتی اور پھر جلانے والا بند کرنا بھول جا تا ۔ صبح سویرے جب سعدیہ نماز کے لیے اٹھتیں تو پہلا کام یہی کرتیں اور پھر سارادن غصے میں بڑبڑاتی رہیتں ۔ مفت کی بجلی نہیں ہے، بل دینا پڑتا ہے… مگر تم لڑکیوں کوتو جیسے احساس ہی نہیں۔ عافیہ اور نائلہ اپنی صفائیاں پیش کرتی رہ جاتیں کہ یہ حرکت انہوں نے نہیں کی۔ امی کبھی کسی اور کے بھی کان کھینچ لیا کریں۔ آپ کو تو صرف میری بہنیں ہی نظر آتی ہیں۔ ناشتا ختم کرتے ہوۓ احد نے اشارتا گھر میں موجود ایک اور فرد کا ذکر کیا ہی تھا کہ وہ آ گئی۔ کالج کے صاف ستھرے استری شدہ یونیفارم میں اس کا نازک مخملی سا سراپا کسی حسین سانچے میں ڈھلا نظر آ رہا تھا۔ چھوٹی سی تنگ قمیص فیشن کے عین مطابق تھی اور ساتھ میں گھیر دار شلوار اور خوب بڑا سا دو پٹا لے کر خود کو چھپانے کی کوشش کی گئی تھی ۔ کاجل کی دھار، پپوٹوں پہ پلکوں کی جھالر کے بالکل قریب نفاست سے لگا لائنر جو اس کی بڑی بڑی آنکھوں کو مزید خوب صورت بنارہا تھا۔ بھرے بھرے گدازلبوں پہ نیچرل کلرکا لپ گلوس۔ یہ تم کہاں جارہی ہو اتنی تیار ہوکر؟ احد اس کی تیاری کو نظر انداز نہ کر پایا تو کڑے تیوروں سے سوال کیا تھا۔ اس کے تاثرات سے واضح تھا کہ وہ اس پر پہلے ہی تپا بیٹھا تھا اور مزید کسر اس کی تیاری نے کر دی تھی۔ کالج . سعدیہ کی موجودگی کی وجہ سے جواب شیریں انداز میں دیا گیا جبکہ بڑی بڑی آنکھوں میں احد کے لیے غصہ بھی تھا اور حقارت بھی۔ یہ کالج کون اتنا بن ٹھن کر جا تا ہے۔ عافیہ اور نائلہ کو تو میں نے کبھی اتنا تیار ہوکر کالج جاتے نہیں دیکھا؟ احد طنزیہ نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوۓ بولا۔ سعدیہ نے بیٹے کو ملامتی نگاہوں سے گھورا اور ساتھ ہی بیٹیوں کو ناشتے کے برتن سمیٹنے کا حکم دیا جو بہت دلچسپی سے اس نوک جھوک کا مزا لے رہی تھیں ۔ علی ، آج کالج میں اسپورٹس ڈے ہے۔ کوئی پڑھائی نہیں ہوگی ۔ اس طنزیہ نوک جھونک کا مزید مزا لینے کے لیے عافیہ نے اس میں مسالا بھرا۔ لوکرلو بات…. سر جھٹکتے ہوۓ احمد نے ایک طنزیہ نگاہ علیزا کے میک اپ زدہ چہرے پر ڈالی توعلیزا سرتاپا سلگ کر رہ گئی۔
    علیزا احد کی پھوپھی زاد تھی ۔ والد تو اس کے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ ماں نے اچھے کالج میں داخلے کے لیے لاہور اپنے بھائی کے پاس بھجوا دیا۔ تا کہ بٹی گریجویشن کر لے تو کم از کم کسی جگہ نوکری کر کے ان کا سہارا تو بن سکے گی ۔ مگر یہ سب ان کے دل میں ہی رہ گیا۔ بیٹی کو بھائی کے گھر بھیجنے کے بعد وہ خود ملک عدم روانہ ہوگئیں۔ تو ان کٹھن حالات میں ماموں کے خون نے جوش مارا اور بھابھی کو اپنے پاس ہی رکھ لیا اور اس کی تمام ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ علیزا، آج تو بسوں کی ہڑتال ہے، کیسے جاؤ گی؟ نائلہ بھی لقمہ دینے میں پیچھے نہ رہ سکی۔ کالج میں اسپورٹس ڈے تھا اور بسوں کی بھی ہڑتال تھی۔ فائنل ایگزام سر پر تھے۔ سونائلہ اور عافیہ نے تیاری کے لیے چھٹی کر لی تھی مگر علیزا بن سنور کے کالج جانے کے لیے تیار کھڑی تھی تو وہ دونوں چپ نہ رہ سکیں۔ میرا پریکٹیکل ہے ممانی، علیزا نے جب ہر طرف تنقید اور اعتراض دیکھا تو فورا سعدیہ کو مدد کے لیے پکارا۔ اس کے چہرے کی بے چینی بتارہی تھی کہ کچھ بھی ہو جاۓ وہ ہر صورت کالج جاۓ گی۔ کیا ہو گیا ہے۔. کیوں سب اس کے پیچھے پڑ گئے ہو۔ سعدیہ کے شوہر کی جان تھی اپنی بھانجی میں۔ سو وہ کیسے اس کی مخالفت کر سکتی تھیں۔ ایک دو بار کی تھی تو شوہر کی طرف سے ایسی ناراضی دیکھنی پڑی کہ انہوں نے تو زبان پہ تالا لگا لیا۔ کسی بھی بات پہ علیزا کو روکنا ٹوکنا ترک کر دیا۔ عافیہ اور نائلہ بھی علیزا کو کچھ کہتیں تو سعد یہ ان کی ہی کلاس لیتی مگر علیزا کو کچھ نہ کہتیں۔ سوآج بھی انہوں نے ہی کیا۔ جاؤ بیٹا تم کالج جاؤ۔ سعد یہ ڈھال بنی علیزا کے سامنے کھڑی ہوئیں تو باقیوں کے منہ کے زاویے بگڑ گئے جبکہ علیزا کی آنکھوں میں فاتحانہ مسکراہٹ لہرائی۔ چلو آؤ، میں چھوڑ دیتا ہوں- نائلہ اور عافیہ نے ہار مان لی تھی، سوناشتے کے برتن اٹھا کر کچن کی طرف چلی گئیں ۔ مگر احد ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھا۔ معاف کرو۔ میں جاؤں تمہاری کھٹارا، بائیک پہ، اونہہ.. وہ دونوں ہاتھ حقارت سے جوڑتے ہوۓ بولی اور بیگ کندھے پر ڈالتی کھٹ کھٹ کرتی باہر نکل گئی تو سعدیہ نے ایک خاموش مگر طائرانہ نگاہ اس کی اونچی ہیل کی سینڈل پر ڈالی ۔ تیاری دیکھ کر واقعی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ کالج جارہی ہے ۔ مگر وہ کچھ کہہ کر گھر کا ماحول نہیں خراب کرنا چاہتی تھیں ۔ وہ سب کچھ دیکھ بھی رہی تھیں اور سمجھ بھی رہی تھیں مگر خاموش صرف مصلحتا تھیں۔ امی، آپ نے علیزا کو بہت سر پر چڑھا لیا ہے ۔ احد کی خفگی بجا تھی۔ مجبوری ہے، کیا کروں۔ ڈائٹنگ ٹیبل کو صاف کرتے ہوۓ وہ کسی خیال کے تحت رک گئیں۔ احد، تم جانتے ہو کہ رات کو کچن کی لائٹ کون جلتی چھوڑ آتا ہے؟ سعدیہ کو پھر وہی بات یاد آ گئی جو ہر صبح ان کا خون جلایا کرتی تھی اور تقر یبا روز ہی وہ عافیہ اور نائلہ کی درگت بنایا کرتی تھیں۔احد کے تاثرات سے انہیں شک ہوا تھا کہ وہ جانتا ہے کہ رات کولائٹ کون جلاتا ہے ،سواس سے پوچھ لیا۔ چھوڑیں امی، احد سخت بدمزا ہوا۔ وہ جانتا تھا کہ لائٹ کون آن کرتا ہے اور کیوں کرتا ہے، مگر سعدیہ کے سامنے نام لینے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ ویسے امی عافیہ اور نائلہ کو تو آپ بہت کھینچ کر رکھتی ہیں مگر ان محترمہ کو نہیں۔ وہ جل بھن کر بولا۔ ارے پگلے، ان دونوں نے تو اپنے گھروں کو جانا ہے ،اگر آج کھینچ کر نہیں رکھوں گی تو لوگ کہیں گے کہ ماں نے تربیت ٹھیک نہیں کی ۔ سعدیہ نے اپنی ناانصافی کی ایک وجہ پہلی بار وضاحت سے بیان کی تھی۔ اور وہ محترمہ.. کیا اس کی کل کو شادی نہیں ہوئی۔ احد ناسمجھی سے بولا- اسے ماں کے رویے پر اکثر شکایت ہوتی تھی کہ وہ نائلہ اور عافیہ کے ساتھ زیادتی کرتی ہیں اورعلیزا کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ بلکہ وہ شکوہ کیا کرتا کہ نائلہ اور عافیہ آپ کی سوتیلی بیٹیاں ہیں اور علیزا سگی۔ سعدیہ اس تبصرے پر بس ہنس کر رہ جاتی تھیں۔ اس نے کہاں جاتا ہے بھلا؟ بات گہری معنویت رکھتی تھی۔ کیوں وہ کوئی لڑکا ہے، جو رخصت نہیں ہوگی۔ احد خود ہی کہہ کر ہلکا سا ہنس دیا۔ ارے پگلے جہاں آنا تھا، آ گئی ہے ۔ سعدیہ بھی بیٹے کی بات پرمسکرائیں اور کھل کر وضاحت کی۔ احد کی سمجھ میں آ گیا کہ ابو نے اپنی بھانجی کو بہو بنانے کا فیصلہ کر رکھا ہے، یہ انکشاف احد پر آج ہی ہوا تھا۔ علیزا بلاشبہ بے حد خوب صورت تھی ۔ وہ تو کیا کوئی بھی لڑ کا اس پر دل و جان سے فدا ہوسکتا تھا مگرعلیزان لڑکیوں میں سے تھی جو اپنے حسن پر بے حد غرور کرتی ہیں۔ جن کے نزدیک زندگی شاہانہ معیار کی ہوتی ہے۔ رو دھو کر سسک سسک کرزندگی نہیں گزارنا چاہتیں۔ شریک حیات کے حوالے سے پسند نا پسند ہوتی ہے۔ وہ احد کے ساتھ بے حد حقارت بھرا رویہ رکھتی تھی۔ قبول صورت احد شریف اور برسرروزگار تھا مگر علیزا کو دولت اور آسائش نہیں دے سکتا تھا۔ علیزا کو احد میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ پہلے ان محترمہ کے ارادے تو پوچھ لیں ۔ وہ تو ہواؤں میں اڑ رہی ہیں اور آپ لوگ اسے دل و جان سے بہو مان کے بیٹھ گئے ہیں۔ احد نے بائیک کی چابی اٹھائی اور سر جھٹکتے ہوۓ کام کے لیے نکل پڑا۔ آدھے راستے میں بس اسٹاپ کے قریب اس کی بائیک نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا تو اس الجھن کو سلجھانے کے لیے وہ اردگرد نظر دوڑارہا تھا کہ اس کی نظر بس اسٹاپ پر کھڑی علیزا پہ پڑی اور پھر اس کی آنکھوں نے وہ منظر دیکھ لیا جی کے بعد اندازہ ہوگیا کہ علیزا کالج کے بہانے بن ٹھن کر کہاں جارہی تھی۔ سیاہ، چمک دار نیو ماڈل کی کار اس کے پاس رکی تو علیز احجٹ سے جا بیٹھی اور گرد اڑاتی کار میں یہ جا وہ جا۔
    ☆☆☆

    عاصم، اب میرے لیے بہانہ بنا کر روز نکلنا ممکن نہیں۔ شہر کے معروف ہوٹل میں وہ دونوں ایک دوسرے کے روبرو تھے۔ان کا تعلق پچھلے تین مہینے سے قائم تھا۔ عاصم محض اس کے ساتھ ٹائم پاس کر رہا تھا۔ جب کہ علیہ اس کی محبت میں مبتلا ہو چکی تھی۔ بس میری جان ۔ تھوڑا انتظار اور۔ اس کے مومی ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیے۔ عاصم کی آنکھوں میں شوخی و شرارت بھری تھی۔ کتنا اور انتظار- علیزا کو آج یہ شوخی وشرارت بھی اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ چوری چھپے کا یہ کھیل بند ہو اور عاصم با قاعدہ اس کے لیے رشتہ لے کر آئے۔ عاصم سے اس کی دوستی ایک سہیلی کے ذریعے ہوئی تھی۔ امیر کبیر،خوب صورت، ماڈرن، کیا کمی تھی اس میں جوعلیزا اس کی دیوانی نہ ہوتی۔ بس ممی پاپا انگلینڈ ٹور سے واپس آ جائیں تو فوراً انہیں تمہارے گھر بھیجتا ہوں۔ میٹھی گولی وہ ہر ہفتے دو ہفتے علیزا کودیا کرتا تھا۔ مگر آج اسے یہ کوئی میٹھی نہیں بلکہ کڑوی لگ رہی تھی اور حلق سے اتارنا مشکل ہورہی تھی۔ اچھا چھوڑوساری باتیں، بتاؤ کیا کھاؤ گی؟ شوخی سے اس نے علیزا کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوۓ پوچھا اور پھر کوئی جواب نہ پا کر خود ہی ویٹر کو آواز دے کر بلا لیا۔ جی سر، کیا آرڈر کر یں گے؟ مانوس آواز علیزا کے کانوں میں پڑی تو وہ بری طرح سے چونکی نظریں بے اختیار ہی آواز کی جانب اٹھیں اور پھر جھکانی پڑیں جن میں ندامت وشرمندگی کاجل کی تہہ کے ساتھ جا ملی تھی۔ دیکھو، کوئی مزے کی سویٹ ڈش لاؤ۔ جس کوکھا کر میری بیوی کا موڈ ٹھیک ہوجاۓ۔ عاصم نے نہایت بے باکی سے کہتے ہوۓ علیزا کی جانب دیکھ کر آ نکھ دہائی تھی کہ وہ نو جوان حیرت زدہ رہ گیا تھا۔ اور پھر اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ…علیزا کا بازو پکڑ کر بے دردی سے گھسیٹتا ہوا اپنے ساتھ لے گیا اور اپنے پیچھے تمسخر، حیرانی اور طنز و غلیظ جملے چھوڑ گیا تھا۔ اس وقت اس نوجوان کو کوئی پروا نہیں تھی۔ کسی نظر کی نہ ہی کسی کے تمسخر کی۔ اس وقت وہ بس ایک محافظ تھا۔ جس کا کام بس حفاظت کرنا تھا۔ اس لڑکی کا جو بے راہ روی کا شکار ہو چکی تھی جو گھر والوں کو کالج کا کہ کر غیرلڑ کے کے ساتھ ہوٹل میں ملاقات کے لیے آئی تھی۔اس کا محافظ جو اپنے پیاروں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی تھی ۔ اس لڑکی کا محافظ جسے اتنی بھی سمجھ نہیں تھی کہ وہ صرف وقت گزاری کا سامان بنی ہوئی تھی، ایک امیر زادے کے دل کو بہلانے کے لیے کھلونا .. کیونکہ جوعزت دینا چاہتے ہیں وہ ٹائم پاس نہیں کرتے۔ اس نادان کو اتنی بھی سمجھ نہیں تھی کہ وہ شخص بغیر نکاح کے اسے اپنی بیوی کہہ رہا ہے۔ کل کو اس کے ساتھ کوئی بھی غلط رشتہ اور تعلق قائم کر سکتا ہے۔ ایسا تعلق جو لڑکی کے لیے باعث ذلت ہو۔ وہ نوجوان کوئی اور نہیں احد تھا۔ جس سے وہ خار کھاتی تھی ، جس کے ساتھ اس کی بائیک پر بیٹھنا اپنی توہین سمجھتی تھی۔ پھر مہینے کے اندر ہی ایک ساتھ سادگی سے نکاح ہو گیا تھا۔ گھر والوں کو کچھ بھی بتائے بغیر وہ اس لڑکی کا ہمیشہ کا محافظ بن گیا تھا جو غلط راہوں پہ چل پڑی تھی۔ عاصم نے اس دن کے بعد کسی قسم کا رابطہ کرنے کی کوشش نہ کی تھی۔ وہ بھی کسی نئی لڑکی کے ساتھ کسی نئی ڈگر پر چل پڑا تھا۔ اگر وہ ذرا بھی مخلص ہوتا تو اگلے دن ہی علیزا کے گھر اس کے والدین رشتے کے لیے موجود ہوتے مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ جس سے علیزا کواپنی بے وقوفی کا اندازہ ہو گیا تھا۔ وہ دل سے احد کی شکر گزارتھی جس نے اس کے راز پر پردہ ڈال کر اسے گھر والوں کی نظروں میں گرنے سے بچا لیا تھا۔
    (ختم شد)
Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

Working...
X