Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

عشق آتش

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Love Story عشق آتش

    چاندنی کسی گوری کے پیروں میں بندھی پائل کی صورت میں چھن چھن کرتی کو ہسار کی برفیلی چوٹی اتری تھی اور پھر پھسلتے ہوۓ پوری وادی پر پھیلتی چلی گئی۔ قریہ قریہ چمکتی ہوئی چاندنی نے اس حویلی کے احاطے کو بھی اپنے حصار میں لے لیا تھا، مگر پھر بھی اس
    حویلی کی ویرانی میں کمی آئی نہ پراسرار یت میں ۔


    جانے کتنے دہائیوں سے یہ حویلی ملکہ کوہسار کے پہاڑوں کو منہ اٹھا کر تک رہی تھی ۔ اس کے بدن کی مٹی بھر بھری ہوتی جارہی تھی ۔ شان وشوکت ڈھلنے کو تھی مگر پھر بھی وہ اپنی جگہ پر پنجے گاڑے کھڑی، وادی کے باسیوں کو خوف زدہ کرتی ۔

    ہاں خوف زدہ ہی تو کرتی تھی ۔ نہ جانے کون سا آسیب پلتا تھا اس حویلی میں جو آدھی رات کو حویلی دلدوز چیخوں سے لرز اٹھتی ایسی دلدوز چیخیں جسے سن کر انسان کو دہشت گھیر لے۔ آج بھی حویلی ان دل کو چیر جانے والی چیخوں سے لرز اٹھی تھی۔

    نہ جانے کب اس حویلی میں بھٹکنے والی آتماؤں کو شانتی ملے گی ۔‘‘ نورمحمد نے کانپتے دل سے سوچا اور ایک نگاہ اپنے بیوی بچوں پر ڈال کر آنکھیں زبردستی میچے سونے کی کوشش کرنے لگا۔

    دیگر وادی باسیوں کی طرح اسے بھی یقین تھا کہ اس حویلی میں بھوت پریت، آتما ئیں منڈلاتی ہیں۔
    ”پیارے ارقم !‘‘ قلم سے یہ دولفظ کیا رقم ہوۓ ، اس کے لبوں پر خوب صورت سی مسکان سج گئی۔ بے ساختگی کے سے انداز میں اس نے قلم اپنے دانتوں تلے دبا لیا۔ آنکھوں میں شرارت چمک اٹھی ۔ چہرے کا تاثر یوں تھا جیسے شش و پنج میں مبتلا ہو کہ مزید کیا لکھوں ۔ میز کے دائیں جانب سرخ رنگ کے مگ میں بھاپ اڑاتی کافی اس کی توجہ کی منتظر تھی ۔ نہ جانے کیا لکھ رہی تھی وہ … شاید محبت کی کوئی داستان رقم کر رہی تھی۔ ہاں یہ ہی ہوسکتا ہے۔ جو دل آویز مسکان اس وقت ایس کے لیوں پر بھی تھی ، وہ محبت کے مرہون منت ہی ہو سکتی تھی ۔


    دائیں جانب کی دیوار پر نصب گھڑیال نے ٹن سے گھنٹہ بجایا، وہ چونک اٹھی ۔ سرد ہوتی کافی نے اسے خفگی سے گھورا۔

    سامنے رکھے لیپ ٹاپ کی اسکرین آن ہوئی ۔ اس کی مخروطی انگلیاں کی بورڈ پر جبکہ نگاہیں سکرین پر بڑی پھرتی سے دوڑنے لگیں ۔ کچھ دیر یہی سلسلہ چلتا رہا۔ کچھ ای میلز تھیں جن کا جواب دے کر وہ لیپ ٹاپ بند کر کے ان صفحوں کو ایک جگہ اکٹھا کر کے دراز میں ڈال کر بڑے مطمئن سے انداز میں کافی کا مگ اٹھاتے ہوۓ کری سے اٹھی اور دھیرے دھیرے قدموں سے کھڑکی کی جانب بڑھنے لگی۔ وہ مسکراتی ہوئی کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے باہر برستی موٹی موٹی بوندوں کو دیکھنے لگی ۔ سرد موسم سرد کافی ، سرد بوندیں ….. اس نے لطف کی اس کیفیت کو آ نکھ بند کر کے محسوس کیا۔ کافی کا آخری گھونٹ بھرتے ہی اچا نک کسی خیال کے زیر اثر اس نے گردن موڑ کر بیڈ کے ساتھ رکھے ایک سیاہ ہینڈ بیگ کو دیکھا اور پھر گھڑیال کو… مسکاتے لب دھیرے سے ہم کلام ہوۓ ۔

    وادی کوہسار عنقریب تم سے ملاقات ہونے والی ہے۔ وہ کافی کا خالی مگ میز پر رکھ کر نرم و گداز بستر کی نرمی وگرمی کے احساس تلے سوتی چلی گئی۔
    صبح نہایت خوش گوار تھی ۔ وہ بے دار ہوئی تو خود کو بے حد تازہ دم محسوس کرنے لگی ۔ شاید یہ تر وتازگی اس ٹرپ کی بدولت اس پر چھائی تھی جس میں اسے اسکول کے طالب علموں کے ساتھ شمالی علاقہ جات میں ہفتہ دس دن کے لیے جانا تھا۔ مسز صدیقی پرنسپل نے اس کی ذمہ دارانہ فطرت کو دیکھتے ہوۓ خاص طور پر اس کا نام تجویز کیا تھا۔ رات بھر ہوتی بارش کا سلسلہ اب تھم چکا تھا۔ وہ کھڑکی سے داخل ہوتی تازہ ہوا کے جھونکوں کو کچھ دیر تک آنکھیں بند کر کے اپنے اندرا تارتی رہی اور پھر تیاری کی غرض سے واش روم میں چلی گئی۔
    میاں جی – آپ کو سنبل کواتنے دنوں کے لیے ان علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی۔ دس دن تک میری بیٹی مجھ سے دور رہے گی ، یہ سوچ سوچ کر تو میرادل ہول رہا ہے ۔ حبیبہ،اشتیاق عالم کو چا ے کا کپ پکڑا کر فکر مندی سے بولیں.


    ارے بیگم! آپ خواہ مخواہ خود بھی ہول رہی ہیں اور اپنے دل کو بھی ہولا رہی ہیں۔ سنبل ماشاء اللہ بڑی ہو چکی ہے، اسکول میں پڑھتی نہیں ، پڑھاتی ہے اور آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ مسز صدیقی نے سنبل کی سمجھ داری اور ذمہ دارانہ فطرت سے متاثر ہوکر خاص طور پر اسے منتخب کیا ہے۔ اشتیاق عالم نے ناک پر دھرے عینک کو ہٹا کر، بیگم کے ہاتھ سے چاۓ کا کپ تھامتے ہوۓ انہیں سمجھایا۔

    “السلام علیکم اماں، ابا!‘‘ سنبل پر جوش سے انداز میں کہتی لاؤنج میں داخل ہوئی اور حبیبہ کے گلے میں بانہیں ڈال کر چہکتے ہوۓ کہنے لگی ۔

    آج آپ کی لاڈلی سیر و سیاحت کی غرض سے پریوں کی وادی کا رخ کر رہی ہے اماں جان! آپ نے ہماری شان میں پیٹ پوجا کے لیے یقینا خاطر خواہ انتظام تو کیا ہی ہوگا ۔

    بالکل ٹھیک فرمارہی ہیں صاحب زادی صاحبہ! آپ کی والدہ ماجدہ نے اعتراضات کے ٹوکرے بھر بھر کر آپ کی خدمت میں پیش کرنے کو سجاۓ ہیں۔ ہاں غصے کی چھاگل کا الگ انتظام کیا ہے۔ تیمور صاحب کی ماں بیٹی کے لاڈ دیکھ کر رگ ظرافت پھڑک اٹھی۔

    ہاں تو ….. ایک ہی بیٹی ہے میری اور آپ کی وجہ سے پہلی بار اتنے دن دور رہے گی مجھ سے ۔ ماں ہوں ناں، میں فکر نہ کروں گی تو کیا محلے والے فکر کریں گے میری بیٹی کی – حبیبہ،میاں جی کی باتوں کا برامناتے ہوۓ بولیں۔

    بابا جان …. نہ چھیٹریں میری پیاری اماں جان کو ‘‘ وہ تیمور صاحب کی شرارت سمجھ کر ہنستے ہوۓ کہنے لگی۔

    او صنم آ … او صنم آ ….. صنمآں … صنمآں …… اوصنمآں تیری تصویریں — تیری تحریریں — تیری تصویریں، تیری تحریریں ۔۔۔۔ اب میری تنہائی ہے آسان …… اب میری تنہائی ہے آسان — تیری تحریریں — تیری تصویریں، تیری تحریریں ۔۔۔۔
    گھر میں میرے پھیلا ہوا ہے یہی سامان – ارقم کمرے سے گنگناتا ہوا اترا تھا۔ دادی جان کی ریڈار جیسی تیز نظر نے جھٹ ارقم کو اپنے حصار میں لیا اور بلند آواز میں اعلان فرمایا۔
    بہو- اب تمہارا بیٹا شادی کی درست عمر کو پہنچ گیا ہے۔ اپنی بہن سے اب شمائلہ کو رخصت کرنے کی بات کیوں نہیں کرتی ہو۔ دیکھ نہیں رہیں بیٹے کی حالت، کیا اتاؤلا ہوا جارہا ہے ۔ دادی جان کی کڑک دار آواز نے جہاں ارقم کو خوابوں کی دنیا سے حقیقی دنیا میں واپس لا پٹخا تھا، وہیں دال میں بگھار لگاتی عفت آرا کو بھی ہڑ بڑادیا۔


    دادی جان میری سفارش کر رہی ہیں یا کھنچائی ۔ وہ آفس کے لیے نکل رہا تھا مگر دادی جان
    کے اس اعلان کے بعد ان کے پاس آ بیٹھا اور پاندان سے پان نکال کر بنانے لگا۔ یہ تھا دادی جان کو رام کرنے کا خاص انداز ۔
    بیٹا! اس عمر میں تو تمہارے دادا بھی باپ بن چکے تھے۔ ایک تم ہو کہ سارے جہاں میں ادھر سے ادھر لور لور پھرتے رہتے ہو۔ دادی جان نے اس کے ہاتھ سے پان لیتے ہوۓ کہا۔


    ہونہہ، دادا کا بتارہی ہیں۔ پوتے کے ابا کا نہیں کہ ان کی کس عمر میں شادی کی تھی ۔ عفت آرا کچن میں دونوں دادی پوتا کی گفتگوسن کر بڑ بڑا ئیں ۔ دادی جان- دادا کو تو ہر بات اور کام میں جلدی کی عادت تھی ۔ شادی بھی جلدی کی، بچے بھی جلدی پیدا کر لیے اور ٹکٹ کٹوا کر اوپر بھی جلد چل دیے۔ میں ہر کام آرام سے، وقت پر کروں گا ۔ دادی کو پان پکڑا کر اب وہ انہیں چونالگار ہا تھا۔
    چل ہٹ بدمعاش ۔ نامعقول کہیں کا ،اپنی ہر ذمہ داری پوری کر کے گئے ہیں صدیقی صاحب۔ مرحوم بڑے ہی نیک طبیعت انسان تھے ۔ دادی جان اپنے مجازی خدا کو یاد کر کے آب دیدہ ہو گئیں ۔ دادی جان – ان کی زندگی میں بھی انہیں یوں ہی یاد کیا کرتی تھیں یا یہ اعزاز انہیں مرنے کے بعد حاصل ہوا۔ مجال ہے جو وہ بھی سنجیدہ ہوا ہو۔ بھر پور گھر و جوان اور کریمنل انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کا بہترین آفیسر ہونے کے باوجود اس کی طبیعت میں شوخی کے سارے رنگ گھلے ہوۓ تھے۔ فطرتا وہ زندہ دل انسان تھا۔


    دیکھ رہی ہو بہو! تمہارا بیٹا کیسے میرا مذاق اڑا رہا ہے۔ جب وہ طیش میں آ تیں تو ان کا لاڈلا پوتا اچانک ہی بہو بیگم کا بدمعاش سپوت بن جا تا تھا۔

    ارقم- کیوں تنگ کر رہے ہو اماں جی کو، اب دیر نہیں ہورہی تمہیں اپنے مجرموں کے ادارے پہنچنے میں عفت آرانے حجٹ بیٹے کے کان کھینچے۔

    ارے میری پیاری ماں- جارہا ہوں، اب بندہ گھر والوں کو چھیٹر بھی نہیں سکتا۔ چلوارقم میاں اٹھو اور اپنا سر بس مجرموں کے ساتھ ہی پھوڑتے رہو۔ وہ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر چلتا بنا تو عفت آ را ساس کے پاس آ بیٹھیں ۔

    ویسے اماں جی! کہہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں۔ کل رات میں اور رحمن بھی ارقم کی شادی کے حوالے سے سوچ رہے تھے۔ میرا خیال ہے، راحت اور تیمور بھائی سے بچوں کی شادی کے سلسلے میں اب بات کرنا چاہیے۔

    لو بہو! میں بھی تو یہی سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں کب سے کہ سہرے کے پھول سجانے کی تیاری کرو بیٹے کے لیے ۔ اماں جی مسکرا کر بولیں تو عفت آرا ساس کے ساتھ مل کر شادی بیاہ کے امور پر مزید بات کرنے لگیں ۔

    عفت آپا کا فون آیا تھا آج، کہہ رہی تھیں منگنی کو دو سال گزر چکے اب شادی کی تاریخ طے کر لینی چاہیے ۔‘‘ راحت آ را خوشی خوشی شمائلہ کو بتارہی تھیں ۔ شمائلہ کی تو جیسے من کی مراد پوری ہوگئی۔ کل رات ہی تو وہ ارقم پر ناراض ہوئی تھی کہ وہ جان بوجھ کر شادی کو لٹکا رہا اور کتنا بدتمیر ہے ارقم ذرا جو پتا چلنے دیا ہو اس نے کہ خالہ جان سے شادی کی بات کر چکا ہے.

    میں نے کہا سو بسم اللہ۔ آپ کا اپنا گھر ہے آیا، جب چاہیں آپ لوگ آئیں ہمارے گھر پر- راحت آراء پر جوش سی شمائلہ کو ساری تفصیل بتاری تھیں ۔ کمرے کے باہر سے گزرتی میمونہ کے قدم ارقم کا نام سنتے ہی رک گئے۔ کتنی دیر تک وہ دروازے کی آ ڑ میں کھڑی کن سوئیاں لیتی رہی اور جیسے ہی اسے پتا چلا کہ شمائلہ اور ارقم کی شادی کی تاریخ پکی ہونے والی ہے وہ پیر پٹختے اپنے کمرے میں آ گئی۔

    ’’ نہ جانے شمائلہ میں ایسے کون سے سرخاب کے پرلگے ہوئے ہیں جو میرے پھسلانے کے باوجود ارقم کے سر سے اس وقوف لڑکی کی محبت کا بخار نہیں اتر رہا۔ وہ منہ ہی منہ میں بڑ بڑاتی ، جلے پیر کی بلی بنی کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہلنے لگی۔

    ’’اور یہ شمائلہ ، آ جاۓ گی ابھی میرے سینے میں مونگ دلنے، ارقم کی محبت کے قصے سنانے۔ ہونہہ …. اور ایسا ہی ہوا۔ میمونہ پلٹی ہی تھی کہ شمائلہ کمرے میں مسکراتے ہوئے داخل ہوئی ۔

    تمہیں پتا ہے میمونہ- خالہ آنے والی ہیں شادی کی تاریخ لینے ‘‘ وہ خوشی خوشی اسے بتارہی تھی اور میمونہ کے دل سے دھواں اٹھ رہا تھا۔

    یہ تو بہت اچھی بات ہے ناں، آخر ارقم نے منا ہی لیا عفت خالیہ کو شادی کے لیے، ورنہ وہ تو منگنی کر کے ایسے بھولی تھیں جیسے شادی کا ارادہ ہی نہ ہو۔ جل بھن کر اس نے ہوا میں تیر چھوڑا۔

    تمہارے کہنے کا مطلب ہے کہ خالہ شادی کے لیے راضی نہ تھیں ۔ ارقم کے ضد کرنے پر راضی ہوئی ہیں ۔ شمائلہ کا خوشی سے چمکتا چہرہ لمحے بھر میں ماند پڑ گیا۔ میمونہ کی دل کو ٹھنڈ پہنچی ، وہ ایسی ہی تھی دوسروں کی خوشی میں بھنگ ڈالنے والی ۔

    آثار تو ایسے ہی بتاتے ورنہ خود سوچو، اتنی طویل منگنی آج کل کے زمانے میں کر کے کون بھول جاتا ہے۔ خیر چھوڑو اب تو تمہاری خالہ مان گیں ہیں ناں یہ بتاؤ ارقم سے بات ہوئی۔ وہ دل میں گرہ ڈال کر اب موضوع گفتگو تبد یل کر چکی تھی مگر شمائلہ کی خوشی پر اوس پڑ چکی تھی ۔ وہ ایسی ہی تھی ، دوسروں کی نظر سے دیکھنے والی ، دوسروں کے ذھن سے سوچنے والی اور دوسروں کی سکھائی گئی بولی بولنے والی ۔

    نہیں ، ارقم ہے تو کوئی بات نہیں ہوئی ۔‘‘ شمائلہ نے بجھے دل سے آہستگی سے کہا۔

    لو آج کل تو لڑ کے ہر بات کی خبر پہلے ہی لڑکیوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ یہ تمہارا ارقم بھی ناں، مجھے پچھلی صدی کا کھڑوس سا ہیرو لگتا ہے۔ وہ بظاہر ہنستے ہوۓ سرسری سے انداز میں کہہ رہی تھی مگر در حقیقت بدگمانی کے ننھے منے سانپ اس کے دل میں بھر رہی تھی۔ شمائلہ کی چند لمحوں قبل ملنے والی خوشی کا کافور ہوگئی۔

    ’’ایسا کرو تم ہی کرلوفون ارقم کو اور ذرا کلاس تو لو کہ بتایا کیوں نہیں۔ بھئی پتے کی بات بتارہی ہوں مرد پر حاوی ہوکر رہو گی تو ہی خوش رہ پاؤ گی ۔‘‘ میمونہ اب اسے دور دراز کے قصے سنا کر مرد پر حاوی رہنے کے گر سکھارہی تھی اور شمائلہ کسی مرید کی طرح اس کی کی ایک ایک بات تعویذ کی طرح گھول کر پیتی چلی جارہی تھی اور نتیجہ کچھ یوں نکلا کہ کچھ دیر بعد شمائلہ نے ارقم کو کال کر نے پہلے سے شادی کی خبر نہ سنانے پر خوب غصہ اتارا۔ ارقم بے چارہ ہکا بکا رہ گیا۔

    میمونہ شمائلہ کی چاچا زاد بہن ہی نہیں بلکہ بہترین سہیلی بھی تھی۔ کچھ عرصہ قبل اس کے چچا حیدر آباد شفٹ ہو گئے تھے جس کی وجہ سے دونوں سہیلیوں کا رابطہ پہلے جیسا نہ رہا تھا۔ میمونہ نے شمائلہ کی زبانی ارقم کے قصے تو کئی سن رکھے تھے مگر اس کے ذہن میں کئی سالوں پہلے والامنچلا سا ارقم تھا۔ اس لیے اس کی ارقم سے منگنی کی خبرسن کر بھی میمونہ پر کوئی خاص فرق نہ پڑا تھا۔

    فرق تو تب پڑا جب دو ماہ قبل شمائلہ حیدر آباد چاچا سے ملنے گئی تھی اور واپسی پر کچھ دنوں کے لیے میمونہ کو ضد کر کے اپنے ساتھ کراچی لے آئی۔ یہاں آنے کے بعد جب پہلی مرتبہ میمونہ نے ارقم کو دیکھا تو اسے شمائلہ کی قسمت پر رشک آنے لگا۔ وہ منچلا سا ارقم نہ جانے کب اور کیسے شاندار سے انسان کے روپ میں ڈھل گیا۔ مزید اس کی شخصیت میں چار چاند سی آئی ڈی آفیسر کے ٹیگ نے لگا دیا۔

    رشک کب میمونہ کے دل میں حسد کی صورت کنڈلی مار کر بیٹھ گیا، یہ خود میمونہ بھی نہ جان سکی مگر اس نے شمائلہ کی خوشیوں میں آگ لگانا شروع کر دی۔ بنیادی طور پر میمونہ خود غرض اور خود پسند انسان تھی اور خود غرض ، خود پرست انسان کسی کو خوش نہیں دیکھ پاتے ۔ وہ دوسروں کی خوشیوں میں آگ لگانے کے اس قدر عادی ہو چکے ہوتے ہیں کہ صحیح اور غلط کا فرق مٹادیتے ہیں ۔ خود غرضی ان کا حق ہوتی ہے اور خود پسندی ان پر فرض ہوتی ہے اور ایسے لوگوں کے پسندیدہ لوگ کچے ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے شمائلہ کا شمار بھی ان ہی نادانوں میں ہوتا تھا۔

    رام کے جڑواں بیٹے تھے، ایک لو اور ایک کش ۔اس کے دونوں بیٹوں نے جن علاقوں کو آباد کیا۔ان علاقوں کے نام ان ہی کے نام پر رکھے گئے ، جیسے لو نے جو جگہ آباد کی اسے لو پور کا نام دیا گیا جو بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوگیا اور ایک زمانے سے اس علاقے کو لاہور کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ گائیڈ انہیں لاہور کی تاریخ کے حوالے سے معلومات فراہم کر رہا تھا۔

    اوہ یہ تو بہت دلچسپ معلومات ہیں۔ آپ بچوں کو لاہور کے حوالے سے مزید آگاہ کریں ، تا کہ اس وزٹ کے ساتھ وہ یہاں کی تاریخ بھی ہمیشہ یاد رکھیں۔ سنبل نے گائیڈ کی دی گئی معلومات میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ اس نے بچوں کے چہرے پر مزید جاننے کی خواہش کو ابھرتے دیکھا تھا ، تب ہی گائیڈ سے فرمائش کی۔

    جی ضرور… لا ہور شہر اوائل تاریخ سے ہی بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس کی دو وجوہات تھیں ، ایک تو راوی کے کنارے ہونے پر اور دوسرا ایسے راستے پر موجود ہونے پر جو بیرونی حملہ آوروں کی راہ گزر رہا ہے۔ایسے میں اس کی اہمیت سے کسی دور میں بھی انکارنہیں کیا جاسکتا ۔

    ’’بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی گائیڈ صاحب! بیرونی حملہ آوروں کی راہ گزر سے کیا مراد؟ یہ مہین تھی سنبل کی ساتھی ٹیچر ۔

    مطلب یہ بی بی کہ ہندوستان فتح کرنے کے ارادے سے جو بھی راجا مہاراجا آ تا تھا وہ لاہور کے راستے سے ہوکر ہی آ تا تھا۔ بس شہاب الدین غوری تھا جو لا ہور چھوڑ کر ہندوستان کے راستے سے جے پور پر حملہ آور ہوا تھا۔ بڑی ہی گھمسان کی جنگ لڑی گئی تھی ۔‘‘ گائیڈ کہتے کہتے رکا اور پھر پر جوش سا بلند آواز میں بولا۔

    لیں جی آ گیا آپ کا شاہی قلعہ‘‘ گائیڈ کے کہنے پر ساری بچیاں کوسٹر کی کھڑکی سے جھانک کر اس قدیم ، پرشکوہ قلعے کود یکھنے لگیں جو آج بھی پورے جاہ وجلال کے ساتھ کھڑا اپنے دیکھنے والوں کو دعوت نظارہ دے رہا تھا۔

    یقین نہیں آ رہا کہ جس قلعے کے بارے میں ایک عرصے سے پڑھتے اور سنتے آۓ ، آج اسے اپنی آنکھوں سے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ ماہین نے کھوۓ کھوۓ انداز میں سنیل سے کہا۔ وہ سب مسز صدیقی کی نمائندگی میں بچیوں کو اپنی نگرانی میں لیتے عالمگیر دروازے سے اندر داخل ہورہے تھے، گائیڈ ان کے ہمراہ تھا۔

    میں تو حیرت زدہ ہوں ۔ ذرا سوچواک زمانہ گزرجانے کے بعد بھی اس قلعے کا یہ رعب ہے تو مغل بادشاہوں کے دور میں کیا حال ہوگا شاہی قلعہ کا۔ سنبل قلعے کی اونچی اونچی فصیلوں کو تکتی کہ رہی تھی۔

    کیا شان وشوکت تھی ان بادشاہوں کی ۔ ہم نے تو بس پڑھی اور سنی ، مگر سوچو تو ایک خواب سے زیادہ نہیں لگتی ۔‘‘ بچیوں پر بھی قلعے کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ وہ ساری چھٹی سے آٹھویں جماعت تک کی طالبات تھیں اور قلعے کے حوالے سے ایک دوسرے سے چہ مگوئیوں میں مصروف تھیں-

    مگر بظاہر اس خوابی کہائی نظر آتی زندگیوں میں بڑے نشیب وفراز ہوتے ہوں گے۔ یہ جوان کی شان وشوکت کے آثار ہم دیکھ رہے ہیں ناں۔۔۔۔ ہمیں کیا خبر کتنے مواقعوں پر یہی شان وشوکت ان کے لیے عذاب بنی ہو۔ سنبل نے کھوۓ کھوۓ لہجے میں کہا تو مہین نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ گردن اٹھاۓ قلعے کے اسرار ورموز میں کھوئی ہوئی تھی ۔ وہ لوگ قلعے کی تاریخ سنتے سنتے اس کی بھول بھلیوں میں کھوتے چلے گئے-

    یہ ہاتھی پیر ہے، یہاں سے بادشاہوں کی شاہی سواری گزرتی تھی‘‘ گائیڈ ان بے انتہا چوڑی اور لمبی سیڑھیوں سے اترتے ہوۓ بتارہا تھا۔ وہ سب ان سیڑھیوں کا بغور جائزہ لیتے نیچے اترنے لگے۔

    یہ شیش محل ہے، جو شاہ جہاں نے اپنی محبوب ملکہ ممتاز کے لیے بنوایا تھا مگر یہاں رہنا کسی اور کو نصیب ہوا۔ وہ لوگ سراہتی نظروں سے شیش محل کا جائزہ لے رہے تھے، جب گائیڈ نے یہ نیا انکشاف کیا۔ پھر یہاں رہنا کس کو نصیب ہوا ؟ یہ سوال سب کے لبوں پر مچلا تھا مگر پھسلاسنبل کے لب سے ۔
    رانی جنداں کو
    مگر یہ کون تھی؟ وہ سب بے چینی سے استفسار کررہے تھے۔
    شیر پنجاب، رنجیت سنگھ کی زوجہ…… رانی جنداں- گائیڈ تاریخ کے جھروکوں سے ایک اور کہانی کا سرا کھول رہا تھا۔ وہ سب دلچسپی سے ان تاریخی کہانیوں کو سنتے ہوۓ شیش محل کی خوب صورتی کا نظارہ کر رہے تھے شیش محل سے نکلتے ہی اس کی سماعتوں میں عشق آتش کی خوب صورت دھن رس گھول گئی ۔ اس نے بے قرار نگاہوں سے اردگرد دیکھا اور پھر اس کی بے قرار نگاہ ٹھہر گئی۔


    وہ اونچے قد کاٹھ کا نوجوان تھا جو اس کی جانب پشت کیے بیٹھا بانسری بجارہا تھا۔ اس نے سر پر ہلکے بھورے رنگ کا ہیٹ پہن رکھا تھا۔ آسمانی رنگ کی شرٹ پر لیدر کی براؤن سلیولیس جیکٹ میں وہ بے حد منفرد لگ رہا تھا۔ اس کے آس پاس لڑکے،لڑکیاں بیٹھے تھے اور اس سے اس خوب صورت لوک گیت کی فرمائش کر رہے تھے، اس کے قدم وہیں رک گئی ۔

    رک کیوں گئیں، چلو بھی سمبل – ماہین نے اسے پکار کر اس کا ارتکاز توڑا تھا اور اس کے رکے قدم اٹھ گئے۔ وہ پلٹ کر ماہین کے سنگ چل دی مگر ساعتیں ابھی بھی اس دھن کی مٹھاس میں کھوئی ہوئی تھیں کہ اچا نک بانسری کی آواز تھم گئی۔ اس کی محویت ٹوٹی اور قدم تیزی سے اٹھنے لگے ۔اب کی بار جو آواز فضا میں ابھری اس نے سمبل کے صرف قدم ہی نہیں ، دل کی دھڑکنیں بھی روک ڈالیں ۔
    یار ڈاڈھی عشق آتش لائی ہے
    یار ڈاڈھی عشق آتش لائی ہے
    وے یارسانو …….
    وے دوست سانو لگ گئی بے اختیاری
    سانو لگ گئی بے اختیاری
    سینے دے وچ نہ سمائی ہے
    یار ڈاڈھی عشق آتش لائی ہے
    یار ڈاڈھی عشق آتش لائی ہے
    اس نوجوان نے پھر سے تان لگائی تھی اور اس کی آواز کی کشش میں سنبل کھوتی چلی گئی۔ بے اختیار سی وہ ان لفظوں کی گہرائی میں ڈوبتی چلی گئی۔


    یه گم سم کھڑی اس نوجوان کی پشت کو تکے جارہی تھی۔ جس کے اطراف نو جوان لڑکے لڑکیاں سردھنے جارہے تھے۔اس میں ہمت نہ تھی شاید ، اس خوب صورت آواز سے منہ موڑنے کی ۔
    اچھا گا رہا ہے ناں، سن لیا، اب چلیں ۔‘‘ ماہین نے اسے بازو سے پکڑ کر جھنجوڑتے ہوۓ کہا تھا۔ وہ حیرانی سے اسے دیکھ کر رہ گئی ۔ اس ساز ، اس آواز اور اس بول کا جادو اس پر کیوں نہ چلا تھا۔


    یکی سی سنبل انجان تھی کہ عشق کے بول میرا ایک کے لیے نہیں ہوتے ۔ ان کی تاثیر ہر ایک کے دل میں اترنے کے لیے نہیں ہوتی ۔ شاہی قلعہ میں اس دن وہ ایک پل سنبل کے دل میں قید ہو گیا تھا۔
    *********
    آج راحت کو فون کیا تھا میں نے جانتے ہو کیابات ہوئی ۔ وہ رات دیر سے آیا تھا اور چاہے کتنی دیر ہو جاۓ کھانا وہ گھر آ کر ہی کھا تا تھا۔ اس وقت بھی جب سارا گھر نیند کی وادی میں جا سویا تھا۔ عفت ارقم کے لیے جاگ رہی تھیں ۔


    جی بالکل جاتا ہوں۔ میری اور شمائلہ کی شادی کی تاریخ پکی کرنے کی بات ہوئی ہے آپ دونوں کے درمیان ۔ وہ چاول کے لقے بنا تا عفت آرا کے پھیلائے گئے تجسسس پر پانی ڈال رہا تھا۔
    ہا ہیں تمہیں کیسے پتا؟‘‘ عفت نے حیرانی سے ہاتھ کھلے منہ پر جماتے ہوۓ پوچھا۔ ’’آپ کی ہونے والی بہو کی کال آئی تھی۔ محترمہ خوب برسیں ۔ ارقم نے انہیں مزید ورطہ حیرت میں مبتلا کر ڈالا ۔ برسیں کیوں بھئی ، شادی کی تاریخ پکی ہوتا تو خوشی کی خبر ہے۔ اس پر لڑنے کی کیا تک بھلا۔ وہ متعجب گویا ہوئیں ۔


    جب دماغ میں فتور بھر جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے- محترمہ کو شکایت ہے کہ آپ سے پہلے اسے میں نے کیوں نہیں بتایا۔ اب خود بتائیں مجھے کب پتا تھا جو میں اسے بتاتا۔ شمائلہ کچھ دنوں سے بہت امیچور سا رویہ رکھنے لگی ہے اور میں سمجھ گیا ہوں ۔ یہ سب اس کی کزن میمونہ کی وجہ سے ہورہا ہے۔ وہی اس کے ذہن میں الٹی سیدھی باتیں ڈالتی ہے۔ ارقم اب پر سوچ انداز میں کہہ رہا تھا، وہ جتنی بار بھی راحت خالہ کی طرف گیا تھا۔ میمونہ کے انداز دیکھ کر چونک گیا تھا۔ وہ یہ جاننے کے باوجود کہ ارقم اور شمائلہ محبت کی مضبوط ڈور سے بندھے ہوۓ ہیں، ارقم کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتی تھی ۔ یہ تو ارقم تھا جو میمونہ کی حقیقت جان کر اس سے محتاط رہنے لگا تھا- ورنہ کوئی اور ہوتا تو کب کا پھنس چکا ہوتا۔

    ایسی بات ہے تو جس دن راحت آۓ گی میں اسے سمجھانے کی کوشش کروں گی کہ میمونہ کو حیدر آباد واپس بھجواۓ ۔ خواہ خواہ شمائلہ کا ذہن خراب کر رہی ہے یہ لڑکی ۔ عفت آرا بگڑے مزاج سے بولیں۔

    راحت خالہ کب آ رہی ہیں ۔ ارقم کے لیے شمائلہ کے حالیہ رویے کے باعث اب ہر بات کی خبر رکھنا بے حد ضروری ہو گیا تھا۔
    اس ہفتے بلایا ہے، میں نے تمہارے خالہ ، خالو کو۔ شمائلہ بھی آۓ گی ساتھ۔ تمہارے ابا کہہ رہے تھے کہ تیمور بھائی اور راحت کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کرلیں۔ اس دن باہمی رضا مندی سے شادی کی تاریخ بھی طے کر لی جائے گی۔ عفت آ را اسے مزید تفصیلات فراہم کر رہی تھیں، اس کے لبوں پر دھیمی سی مسکان سج گئی۔


    شکر ہے میرے اللہ میری ماں کے دل میں میری شادی کا خیال ڈال دیا ورنہ وہ تو منگنی کر کے بھول گئی تھیں- ارقم ، عفت آرا کو چڑانے سے باز نہ آ یا۔

    چل ہٹ بدمعاش ۔ ماں کو چھیڑتا ہے۔ عفت آرا نے پیار سے اس کے کان کھینچتے ہوۓ کہا۔ وہ بھی شرارت سے ہنس پڑا اور سونے کی غرض سے اٹھ کھڑا ہوا۔

    اپنے کمرے میں پہنچا تو موبائل پر شمائلہ کے کئی پیغامات روشن تھے۔ ایک ایک پیغام کو باری باری کھول کر پڑھا، وہی شکوے، شکایتیں، ناراضی …… ساری باتیں بے معنی ہیں ۔اس نے آنکھیں موند لیں ، ایک جھماکے سے شمائلہ کی صورت دل کے نہاں خانوں سے ابھر کر بند پردوں پر آ دھمکی۔ گہری سانس کے ساتھ اس نے آنکھیں وا کیں اور ان سب متنفر زدہ پیغاموں کا جواب لکھنے لگا۔

    میری وہ شمائلہ کہاں جا کھوئی ہے جو میری ہمت ہوا کرتی تھی ۔ جس کی باتوں سے چاہت کی شرینی ٹپکتی تھی۔ جس کی محبت میری ہمت ہوا کرتی تھی- اتنے سارے پیغاموں کے بعد آدھی رات کو اس کا پیغام شمائلہ کے موبائل کی اسکرین پر روشن ہوا تھا۔ آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی ، کب سے وہ اکیلی جاگ رہی تھی۔ سارا دن اس کی عقل چوپٹ کر کے میمونہ اس کے برابر میں گدھے، گھوڑے بیچ کر سورہی تھی ۔ دل ہی دل میں کہیں ارقم سے بلاوجہ جھگڑے کرنے پر احساسات اسے ملامت کر رہے تھے۔ایسے میں ارقم کے موصول شدہ پیغام نے اس کے اندر ہل چل مچا دی۔ وہ بے چینی سے پیغام کھول کر پڑھنے لگی۔ طمانیت کا احساس اس کے روئیں روئیں میں پھیلتا چلا گیا۔ مدھرسی مسکراہٹ لیوں پر سج گی-

    وہ کسی جنگل میں جا چھپی ۔ اس نے شرارتی سے ایموشن کے ساتھ پیغام بھیجا۔
    سنو شیرنی- اپنے جنگل میں واپس جاؤ اور میرے دل کی رانی کو واپس میرے پاس بھیج دو ۔ ارقم کے شوخ و شنگ سے جواب نے اس کے اندر پھیلی سارے دن کی اضطرابی کیفیت کو اڑنچھوکر ڈالا تھا۔ وہ اب مطمئن سی ارقم سے باتوں میں مشغول تھی ۔


    یہ میمونہ بھی ناں، خواہ مخواہ میرا دماغ کھاتی ہے۔ سوتے سمے اس کی نظر جب منہ کھولے خراٹے لیتی میمونہ پر پڑی تو بڑبڑاہٹ لبوں سے خود جا پہسلی۔
    آں …… کچھ کہا تم نے؟ اس کی بڑ بڑاہٹ پر بوکھلا کر اٹھی۔
    کچھ نہیں میری ماں ، سوجاؤ آرام سے۔ شمائلہ کو اس کی اس درجہ چوکنی نیند پر ہنسی آ گئی ۔


    **********
    آج گروسری کے لیے گئی تھی وہاں پڑوس والی خاتون عفت آرا سے ملاقات ہوئی ۔ باتوں باتوں میں بتانے لگیں کہ ہفتے کے دن ان کے بیٹے ارقم کی تاریخ طے ہونے کی رسم ہے۔ شام کی چاۓ پیتے ہوئے حبیبہ نے اشتیاق عالم تک اطلاع پہنچائی-
    ماشاء الله ماشاء الله .. اللہ مبارک کرے ان کے گھر خوشیاں ۔ اشتیاق عالم نے رسمی انداز میں دعا دی-
    صرف دعا ئیں دینے کے لیے خبر نہیں سنارہی ہوں، آپ کو کچھ فکر اپنے گھر کی بھی کرنی چاہیے۔ چاۓ کا آخری گھونٹ بھرتے ہوۓ حبیبہ نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوۓ کہا۔
    پھر کس لیے سنارہی ہیں بیگم صاحبہ- اشتیاق صاحب حبیبہ کی جانب متوجہ ہو کر بولے، جانتے تھے کہ اب کچھ اہم بات کرنے والی ہیں-
    سنبل کے بارے میں بھی ہمیں کچھ سوچنا چاہیے۔ اس کی تعلیم مکمل ہو چکی ہے۔ شوقیہ ٹیچری بھی کر لی۔اب ابھی سے اس کے لیے سوچیں گے تو کل کہیں اس کا رشتہ ہوگا ناں۔ بیٹی کی محبت میں چور حبیبہ فکر مندی سے کہہ رہی تھیں ۔ اشتیاق عالم ان کی بات پر مسکرا اٹھے۔


    بات تو ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ حبیبہ- چلیں پھر آپ بھی اپنی کوشش شروع کیجیے اور اللہ سے اچھی امید رھیں۔ نصیب بے شک اس کے ہاتھ میں ہے مگر دعاؤں کا اختیار اس نے ہمیں دیا ہے اور دعایں ہی تو ہیں جو تقدیر بدلنے کی طاقت رکھتی ہیں ۔ان شاء اللہ سب اچھا ہوگا۔ اشتیاق صاحب بہت پرسکون سے انداز میں بول رہے تھے اور ان کے الفاظ حبیبہ کی ممتا کوبھی ٹھنڈ پہنچ گئے۔
    ان شاء اللہ ۔ آپ کی بات ہوئی سنبل سے، کہاں تک پہنچیں صاحب زادی صاحبہ- حبیبہ کوخیال گزرا۔
    آج صبح اسلام آباد پہنچے ہیں وہ لوگ ۔ سارا دن گھوم پھر کر کل صبح مری کے لیے نکلیں گے۔ کہ رہی تھی لاہور میں بے حد مزا آیا۔ تمام تاریخی مقامات دیکھے اس نے ۔واہگہ بارڈر پر بھی گئی تھی ، کہ رہی تھی کہ بہت ہی پر جوش لمحات گزرے وہاں ۔ بیٹی کی بتائی ہوئی تفصیل اب وہ بیگم کوسنا ر ہے تھے۔


    یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ اللہ ان سب کو خیر و عافیت سے گھر واپس لاۓ ۔ یہ چاۓ کے کپ اٹھا کر کچن کی جانب بڑھتے ہوۓ دعا گو ہوئیں ۔
    آمین اشتیاق صاحب حبیبہ کے جانے کے بعد پھر سے ٹی وی لگا کر بیٹھ گئے ۔ ویسے بھی وہ ایک اچھے سا مع تھے۔ بیوی اور ٹی وی دونوں کی خوب اچھی طرح سنتے ۔
    **********


    وہ اسلام آباد مونومنٹ سے نکل کر سیڑھیاں اتر رہی تھی کہ اس کا پاؤں مڑا اور وہ لڑکھڑاتے ہوۓ گرنے لگی تھی کہ کسی کے مضبوط ہاتھوں نے اسے تھام لیا۔ اس نے ان ہاتھوں کے سہارے خود کوسنبھالا اور بے اختیار نگاہ اٹھا کر اپنے ہمدرد کو دیکھا۔ وہ انتہائی خوش شکل نوجوان تھا جو اس کی جانب پر اشتیاق نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر دبی دبی سی مسکراہٹ بھی تھی ، اس کی شخصیت کہیں سے لفنگوں، والی نہ تھی۔ وہ پر وقار تھا، پراثر ،متاثر کن شخصیت کا حامل تھا مگر اس کی آنکھیں میں محو رقص شرارت نے سنبل کو جزبز کر دیا تھا۔
    غالبا آپ شکر یہ ادا کرنا چاہ رہی ہیں ۔ اس نوجوان نے سنبل کی مشکل آسان کی۔
    جی وہ ……. …. شکریہ۔ وہ اعتماد سے عاری لڑکی تو ہرگز نہ تھی- مگر فی الوقت وہ کچھ ایسا ہی خود کو محسوس کر رہی تھی ۔ اس کے شکر یہ ادا کرنے پر وہ مسکرا کر آگے بڑھ گیا۔ وہ اسے مڑ کر جاتا دیکھتی رہ گئی۔ چوٹ تو نہیں آئی۔ ماہین کب اس کے عقب میں آ کھڑی ہوئی اسے علم نہ ہوسکا۔
    نہیں، پاؤں مڑنے سے بچ گیا۔ سب بیٹھ گئے گاڑی میں؟ اس نے چونکتے ہوۓ پوچھا۔ ہاں بیٹھ گئے ، تم بھی چلو ۔ سب تمہارا انتظار کر رہے ہیں ۔ ماہین نے احتیاطاً اس کا ہاتھ تھامتے ہوۓ کہا۔ وہ صرف اس کی ساتھی ٹیچر ہی نہیں بلکہ اچھی دوست بھی تھی۔ آج صبح وہ لوگ اسلام آباد پہنچے تھے اور اس کے بعد مسلسل مارگلہ کی پہاڑیوں میں گھوم رہے تھے۔ اب شام ڈھلنے کوتھی ، وہ لوگ واپس ہوٹل پہنچ گئے ۔ تمام طالبات کو ان کے کمرے میں بخیر و عافیت پہنچا کر سنبل اور ماہین میٹنگ ایریا میں مسز صدیقی کے بلانے پر پہنچ گئی-


    ہمارے ٹرپ کا الحمد للہ آج چوتھا روز بھی بخیر و عافیت گزر گیا۔ کل صبح ہی ہمیں مری کے لیے نکلنا ہے۔ آپ لوگ بچیوں کو مطلع کر دیجیے گا تا کہ وہ وقت پر تیار ہیں۔ داؤد بھائی نے مری کے تمام انتظامات مکمل کر لیے ہیں آپ لوگ بس بچیوں پر توجہ مرکوز رکھیے گا کیونکہ ان جگہوں کو دیکھ کر اکثر اوقات بچیاں جوش و خروش میں مبتلا ہو کر احتیاط کا دامن ہاتھ سے کھو دیتی ہیں ۔ مسز صدیقی ٹرپ کی تفصیلات کے حوالے سے ان سب کو بریف کر رہی تھیں ۔

    جی ہمیں احساس ہے کہ اب ہم جن علاقوں میں جائیں گے، وہاں خوب صورتی کے ساتھ ساتھ کچھ خطرات بھی ہیں ۔ اس لیے وہاں احتیاط کی زیادہ ضرورت ہے ۔ مسز صدیقی کی بات کا جواب داؤد بھائی نے دیا تھا۔ مطلب کیا وہ علاقے خطرناک ہیں۔ سنبل نے چونکتے ہوۓ سوال داغا۔ ایسی بات نہیں مس سنبل- مگر دراصل وہ سارے پہاڑی علاقے ہیں ۔ وہاں کا مزاج شہروں سے کافی مختلف ہے۔ پھر ہم لوگوں کے لیے احتیاط کرنا تو بنتا ہے ناں ۔ داؤد بھائی نے نرمی سے سمجھایا۔
    یہی ان کا خاص انداز تھا۔ سنبل اور ماہین ان کی بات سمجھ چکی تھیں ۔ اب وہ دن بھر کی سیاحت پر بات کر رہے تھے تب ہی سنبل کی نظر ہوٹل کے اندر داخل ہوتے لڑکوں کے گروپ پر پڑی۔ ان میں سے ایک وہی لڑکا تھا جس نے اسے آج سہارا دے کر گرنے سے بچایا تھا ۔ وہ اپنی گہری نگاہ اس لڑکے کی نذر کر کے واپس مسز صدیقی کی جانب متوجہ ہوئی ، جو کوئی ماضی سے پیوستہ دلچسپ قصہ سنارہی تھیں ۔


    ***********
    یار تجھے جس لوکیشن کی تلاش ہے، وہ آخر کب مل کر دے گی ۔زوار نے جھنجلا کر پوچھا۔ واقعی یار- حد ہوگئی۔ لاہور کے ساتھ ساتھ اسلام آباد بھی چھان مارا، اب اور کہاں جائیں – یہ محسن تھا جو بے زار ہوا بیٹھا تھا۔
    مری… کل صبح مری جائیں گے۔ مجھے یقین ہے میری من پسند لوکیشن وہیں ملے گی ۔ وہ اطمینان سے گویا ہوا اور اس کے اطمینان نے ان سب کے دلوں کو جلا کر رکھ دیا۔
    یہی یقین تمھیں اسلام آباد آنے سے پہلے بھی تھا کہ یہی ہے وہ جگہ جہاں مجھے اپنے ویڈیو سانگ کے لیے خاص لوکیشن مل جائے گی۔ زوار ٹھیک ٹھاک چڑ گیا تھا۔
    تم دونوں مجھے ایک بات بتاؤ، نہ اس سفر پرتم لوگوں کا کوئی خرچا آ رہا ہے نہ کوئی وقت ضائع ہورہا ہے بلکہ مجھ سے زیادہ تفریح کر بھی تم لوگ رہے ہو یہاں پر، پھر یہ جھگڑالو بیویوں کی طرح طعنے مارنے کا شوق کس خوشی میں پورا ہورہا ہے ۔ اس بار شناور نے کڑے تیوروں سے ان دونوں کی کلاس لی ۔
    بھائی دیکھو، گھومنا پھرنا ،موج مستی اپنی جگہ مگروقت پر ویڈیو نہ بنی تو نقصان ہمارا اپنا ہی ہے۔ اس لیے اب خیالی تصورات پر ذرا کمپرومائز کرو اور اب مری میں جگہ پسند کر ہی لینا۔ ہمارے معاہدے کا ایک وقت مقررہ ہے اور مقرر وقت کے اندر اندر ہم نے گانے کی ویڈیو بنا ہی لینی ہے اور اب تک تم نے لوکیشن ہی او کے نہیں کی بات کو سمجھو یار- زوار اس بار سنجیدہ ہو چلا تھا۔ شناور کو اس کی بات سمجھ آ ہی گئی ۔
    چلو یار- پہلے کھانا منگواؤ ۔ پھر بات کرتے ہیں اس موضوع پر – محسن کو بھوک نے پریشان کر رکھا تھا –


    زوار ویٹر کو بلا کر کھانے کا آرڈر دینے لگا۔ شناور نے اردگرد کا جائزہ لینے کی غرض سے ایک طائرانہ نگاہ ڈائنگ ہال کے چاروں اطراف دوڑائی اور پھر اس کی نظر میٹنگ ایریا سے باہر آتی ہوئی اس انجان لڑکی پر ٹہر گئی ۔ جس سے آج شام اس کا آمنا سامنا ہوا تھا۔ سنہری لڑکی ۔ اس کے لب دھیمے سے کہہ اٹھے۔
    ڈھلتے آفتاب کی مدھم کرنوں میں جب اس نے پہلی مرتبہ اس لڑکی کو دیکھا تھا تو تب بھی اس کا دل بے اختیار کہہ اٹھا تھا۔
    سنہری لڑکی- وہ واقعی سنہری تھی ۔ اس کی رنگت گندم کی سنہری ڈالی جیسی سنہری تھی۔ اس کی آنکھیں اور بال بھورے تھے۔ اس کی توجہ کہیں اور مرکوز تھی اور اس کا پیر مڑا تھا۔ وہ بے خود سا اس کی جانب متوجہ تھا اور اس کے پیرمڑتے ہی وہ اسے تھام بیٹھا تھا۔ کتنی حیرانی تھی ان بھوری آنکھوں میں ، وہ دلچسپی سے دیکھے گیا اور ابھی بھی وہ اسے سیڑھیاں چڑھتے ، اوپر جاتے بے خود سا د یکھتا رہ گیا۔


    **********

    پینتیس سالہ نور محمد کے دل میں اگر کوئی خوف پنپتا تھا تو وہ اس پر اسرار حویلی کا خوف تھا۔ جو جنگل کے بیچوں بیچ تن تنہا کھڑی اسے بھیا نک چڑیل ہی لگتی تھی ۔ یوں تو کوئی بھی اس حویلی کا رخ نہ کرتا اور اگر کبھی کوئی بھٹک کر یہاں انجانے میں چلا بھی گیا تو وہ لوٹ کر واپس نہ آیا۔ نورمحمد کے دل میں کئی ایسے لوگ بستے تھے جو اس بھیا نک حویلی کے اسرار میں کھو چکے تھے۔
    وارث ….. اس کی نو عمری کا ساتھی تھا۔ ان سب دوستوں کی آپس میں شرط لگی تھی ، جو اس حویلی میں ایک گھنٹہ بتا کر آۓ گا اسے وادی کا سب سے بہادر نوجوان گردانا جاۓ گا اور پرجوش سے وارث نے ٹھان لیا تھا کہ وہ اس حویلی میں گھنٹہ بتا کر ضرور واپس آۓ گا۔ سورج ڈھلتے ہی وارث شرط کے مطابق اس حویلی کی جانب روانہ ہو گیا۔ وہ سب یار دوست چاچا شکور کے ڈھابے پر بیٹھے گھنٹہ بیتنے کا انتظار کر رہے تھے۔ گھنٹہ بیت چکا مگر وارث نہ آیا۔ کافی وقت گزر گیا تو پریشان ہوکر وہ لوگ بھی وہاں سے اٹھ گئے ۔ ان کے قدموں کا رخ حویلی کی جانب تھا۔ ڈرے، سے خوف زدہ قدم ….. سناٹے سے پر حویلی کے کئی حصے بے حد ناتواں ہو چکے تھے اور کسی بھی وقت منہدم ہو سکتے تھے۔ وہ چاروں حویلی کے اندر داخل ہو گئے، کچھ بھی نہ تھا۔ بس سائیں سائیں کرتی ہوا، دہشت زدہ ،مکڑیوں کے جال سے لدے چھت و بام اور دھول مٹی سے آٹی ہوئی زمین ۔ وہ چاروں وارث کو آواز دیتے دیتے حویلی کے پچھلے حصے میں جا پہنچے۔ یہ حصہ آگلے حصوں سے زیادہ ہیت ناک تھا۔ یہاں کی خاموشی میں اسرار چھپا تھا۔ ایک لمبی سی راہداری تھی اور اس راہداری میں کھلنے والا ہر دروازہ مضبوطی سے بند تھا۔ ان چاروں نے کھولنے کی بے حد کوشش کی مگر ان دروازوں کو زنجیروں سے باندھا گیا تھا۔
    اگر یہ زنجیر سے بندھے دروازے ہیں تو یقیناً وارث ان کے اندر نہ جاسکا ہوگا۔ ان میں سے ایک دوست نے خیال ظاہر کیا۔
    ہمیں سارے دروازے چیک کرنے چاہئیں ۔ نور محمد نے کہا۔ وہ لوگ حیران تھے کہ حویلی خالی ہے تو وارث پھر کہاں گیا۔ وہ حویلی میں آیا بھی تھا کہ نہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ حویلی میں نہ آیا ہو اور کہیں اور جا چھپا ہو اور ان سب پر بعد میں ظاہر کرے کہ وہ اتنی دیر حویلی میں رہ کر آیا ہے۔ اسی شش و پنج میں مبتلا وہ چاروں ہر دروازے کو کھولنے کی کوشش کرتے رہے اور پھر ایک درواز کھل ہی گیا۔ کمرے کا منظر اس قدر وحشت ناک تھا کہ ان چاروں کی چیخوں سے تو حویلی گونج اٹھی ۔


    **********

    ان کی کوسٹر ناگن کی طرح بل کھاتے پہاڑوں کی تراش خراش سے بنائے گئے ان پکی سڑکوں پر محو سفر تھی۔ ایک جانب بلند و بالا پہاڑ تو دوسری جانب گہری کھائی ۔ جہاں سبک روی سے بہتا دریاۓ نیلم موجود تھا یعنی ایک طرف بادلوں کو چھوتی بلندی ، تو دوسری جانب اتھاہ گہرائی ۔ جو بد قسمتی سے اس کی پناہ میں آ جاۓ تو موت کی وادی استقبال کو بانہیں وا کیے اس کی منتظر ہوتی ۔ یہ خوف ناک حقائق اپنی جگہ مگر جو حسین نظارے تھے وہ نظروں کو خیرہ کر رہے تھے۔ قدرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ افروزگی ۔
    وہ کھڑکی کے شیشے پر چہرہ لگائے خاموشی سے پتھریلے پہاڑوں کو سرسرگز رتا دیکھ رہی تھی ۔ کوسٹر میں موجود لڑکیاں جو شیلے جذبات کے ساتھ ان خوب صورت نظاروں کو اپنے کیمرے میں قید کرتی ان کی قصیدہ گوئی میں مشغول تھیں ۔ اس پر ہیبت طاری تھی۔ ان پہاڑوں کی خوب صورتی سے زیادہ ان کی ہیبت نا کی اسے ڈرا رہی تھی ۔ سورج اپنی آب و تاب کے ساتھ روشن تھا اور سفر ابھی آدھا گزرا تھا۔
    کچھ دیر بعد ان کی گاڑی ایک پر فضا مقام پررکی۔ یہ مری تو نہ تھا مگر وادی کو ہسار کی شروعات اس سے آگے سے ہوتی تھیں۔ وہاں چھوٹی چھوٹی دکا نیں تھیں، جہاں کھانے پینے کی اشیاء بکتی تھیں ۔ داؤد بھائی سب کے لیے گرما گرما پکوڑوں کے ساتھ کشمیری چاۓ لے کر آۓ تھے، وہ پکوڑے بے حد ذائقہ دار تھے اور کشمیری چائے لا جواب تھی ۔ سفر کی تھکن ان سب کے جسموں سے غائب ہوگئی ، وہ سب اب تازہ دم ہوکر وادی کو ہسار میں داخل ہونے کو تیار تھے۔ ان پہاڑوں کا خوف اب سنبل کے اندر سے بھی نکلتا جارہا تھا۔ قدرت کی رعنائیاں اب اسے بھی اپنی جانب کھینچ رہی تھیں ۔ چاۓ کا کپ داؤد بھائی کو لوٹا کر وہ پھر سے شیشے کے اس پار سے نظر آتے نظارے کی جانب متوجہ ہوئی مگر ایک خوش گوار حیرت نے اس کے وجود کا ایک دم احاطہ کر ڈالا۔ ان کی گاڑی کے قریب ایک جیپ آ رکی تھی اور اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان تھا وہ شخص جس پر نگاہ بے ساختگی کے عالم میں جا ٹکی ۔ وہ ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان تھا اور ایک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔ سمنبل بامشکل اس کی جانب سے نظریں ہٹا پائی۔ مگر دل بے قابوسا تھا، دھڑکنیں بے ترتیب ہی تھیں ۔ آ ثار کچھ اچھے نہ تھے، دل لگی کا خدشہ تھا۔ سمنبل نے بے اختیار منہ موڑ لیا۔


    شناور نے بھی مسکراہٹ دباۓ نظروں کا زاویہ بدل لیا۔ بہت سنا ہے انکھیوں کی آنکھ مچولی کے بارے میں ۔ اس کھیل سے آج خود واسطہ پڑا تو مزا آنے لگا۔ اسے بھی اچھا لگ رہا تھا اس سنہری لڑکی سے نظر میں ملانا ۔

    کوسٹر چل پڑی تھی ،رخ وادی کو ہسار کی جانب تھا۔ مسافر تو شناور بھی اس راہ کا تھا مگر ان لوگوں کا پلان یہاں کچھ دیر وقت گزارنے کا تھا۔
    کیا وادی کو ہساراتنی مختصر ہوگی کہ اس کا سامنا پھر اس اجنبی سے ہو سکے ۔‘‘ دل نے چپکے سے پوچھا تھا۔اے کاش ایسا ہو ۔ اس کے لبوں پر خواہش مچلی-


    مزید ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد وہ لوگ وادی کوہسار کی بلندی پر واقع مال روڈ پر جا پہنچے تھے۔ پرانے پوسٹ آفس کی ڈھلتی عمارت کے پاس ان کی کوسٹر رک گئی تھی۔ وہاں سے اتر کر انہیں پیدل جانا تھا۔ یہی دستور تھا وہاں کا مگر خوش آئند بات یہ تھی که صرف دس منٹ کی مسافت پر وہ مال روڈ کے بازار کے بیچوں بیچ جا پہنچے مگر وہ چڑھائی کا راستہ تھا۔
    داؤد بھائی نے وہاں سامان اٹھانے والوں کو بلا رکھا تھا۔ ان سب کا سامان ٹرالی میں رکھ کر سامان اٹھانے والوں کی معیت میں وہ چڑھائی پر چڑھنے لگے۔


    ما بین طالبات کے ایک گروپ کو لیڈ کر رہی تھی تو دوسرے گروپ کو سنبل اور تیسرے گروپ کو مسز صدیقی اور داؤد بھائی ان سب کے مشتر کہ لیڈر تھے۔ کچھ ہی لمحوں میں مال روڈ کی رونقیں ان پر آشکار ہوتی چلی گئیں۔ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اس وقت کسی دور افتارہ پہاڑی چوٹی پر بھی آبادی میں آ گئے ہیں۔ وہاں بہترین دکانیں تھیں ۔ بیچ میں چوڑی سڑک اور ان کے اطراف بڑی بڑی بہترین دکانیں، جن میں زرق برق ملبوسات ،شال، اوڑھنیاں ٹنگی ہوئی تھیں-

    داؤد بھائی نے ہوٹل کی بکنگ پہلے کرا لی تھی اور وہ ہوٹل مال روڈ کے بیچوں بیچ واقع تھا۔ وہ لوگ اپنا سامان اپنے کمروں میں رکھ کر فریش ہونے لگے۔ سمبل کمروں سے منسلک راہداری میں آ کھڑی ہوئی۔ وہاں بالکنی سے وادی کے بالائی حصے کا نظارہ نظر آتا تھا۔ کچے پکے، چھوٹے چھوٹے مکان، ہرے بھرے درخت، ہر سو ہریالی پھیلی ہوئی تھی ۔ آنکھوں کو سکون عطا کر دینے والا نظارہ تھا وہ اس میں میں کھوتی چلی گئی کہ اچانک اس کا فون بج اٹھا۔

    اچھا تو مری پہنچ گئے تم لوگ ۔ کیسا لگا مری پھر؟ حبیبہ پراشتیاق لہجے میں پوچھ رہی تھیں۔ کتنی دیر سے وہ کال ملا رہی تھیں اب جا کر سگنلز ملے تو ان کی سنمبل سے بات ہورہی تھی۔
    اچھا اچھا، ابھی ابھی مری پہنچے ہو۔ سفر کیسا رہا؟ کچھ کھانا وانا کھایا بھی ہے یا نہیں ۔ وہ اب فکرمند سی پوچھ رہی تھیں ۔
    ہاں، ہاں میں اور تمہارے بابا جان بھی ٹھیک ہیں ۔ بس اکیلے بیٹھے رہتے ہیں سارا دن۔ تم ہوتی تھیں تو گھر میں رونق رہتی تھی ،اب تو سارا گھر بس سائیں سائیں کرتا رہتا ہے۔ وہ اب اپنی بپتا سنارہی تھیں ۔
    ہاں ہاں نکلتے ہیں بھئی گھر سے باہر ، اسی دن تو گروسری کے لیے گئی تھی میں ۔ پڑوس والی خاتون سے ملاقات ہوئی ، بتارہی تھیں کہ ان کا بیٹا ہے ناں، آج شادی کی تاریخ پکی ہونے جارہی ہے۔ ارے وہی ناں ارقم – اس کی بات کر رہی ہوں میں ، ہاں ہاں ارقم کی ….. ہیلو ہیلو .. سنبل- بات ابھی مکمل نہ ہوئی تھی حبیبہ کی کہ سنبل کی آواز آنا بند ہوگئی ۔
    ارے سگنلز کا مسئلہ ہوگا۔ رابطہ منقطع ہوگیا ہوگا۔ حبیبہ ذرا ایک کام تو کریں سنبل کی رائٹنگ ٹیبل پر جا کر دیکھیں ذرا، وہاں کچھ ٹائپ شدہ کاغذات ایک ڈائری میں رکھے ہوں گے میں نے کل ہی رکھے ہیں ۔ وہ کاغذات ذرا لیتی آئیے گا۔ ان کی ہیلو ہیلو کی گردان سن کر اشتیاق عالم نے ہا نک لگا کر اپنا مدعا پیش کیا۔
    حبیبہ جی اچھا- کہہ کر اپنا موبائل وہیں رکھ کر سنبل کے کمرے میں چلی آئیں ۔ رائٹنگ ٹیبل کی سطح پر انہیں نہ ڈائری نظر آئی اور نہ ہی صفحات۔ وہ ڈھونڈتے ڈھونڈ تے دراز کھول بیٹھیں، دراز کھلتے ہی کچھ صفحات ہوا سے پھڑ پھڑائے۔ حبیبہ کی نگاہ ان پھڑ پھڑاتے صفحات پر ٹہر گئی۔
    یہی مانگ رہے ہوں گے ۔ وہ بڑ بڑاتی ہوئی ان صفحات کو دراز سے نکال کر کمرے سے باہر چلی گئیں۔
    یہ لیجیے جناب،اپنے صفحات ۔ حبیبہ نے ان صفحات کو مسکراتے ہوئے اشتیاق عالم کی طرف بڑھاتے ہوۓ کہا۔
    شکر ہے آپ کو آج فورا صفحات مل گئے ورنہ تو دو تین چکر میں کچھ ڈھونڈ کر لانے کی عادی ہیں آپ۔ اشتیاق عالم بیگم کو چھیٹرنے سے باز نہ اے-
    حبیبہ ہونہہ کر کے سامنے صوفے پر بیٹھ گئیں۔ اشتیاق عالم نے عینک لگا کر ان صفحات کی ورق گردانی شروع کر دی۔ جوں جوں وہ پڑھتے جاتے چہرے کی رنگت بدلتی جاتی ۔ یہاں تک کہ ان کے چہرے کی رنگت متغیر ہوتی چلی گئی اور ہاتھ کپکپا اٹھے۔ حبیبہ- یہ کیا ہے؟ انہوں نے کانپتے ہونٹوں سے بیگم کی جانب سوال اچھالا ۔
    آپ نے جو صفحات منگوائے تھے یہ وہی صفحات ہیں- حبیبہ کی نگاہیں ٹی وی اسکرین پر جمی تھیں، انہوں نے میاں کے چہرے کی جانب دیکھے بغیر ہی جواب دے ڈالا۔
    اسے پڑھیے ذرا آپ، پھر بتائے کہ یہ کیا ہے؟ اشتیاق عالم کے لہجے نے انہیں چونکا ڈالا۔ صفحات کا پلندہ ان کے ہاتھوں سے لے کر انہوں نے پڑھنا شروع کیا۔ چہرے کی رنگت اڑنے کی باری اب حبیبہ کی تھی۔
    یہ تو محبت نامہ ہے ….. ارقم کے نام سے لکھا ہوا ہے او… اور ارقم کی تو آج تاریخ طے ہونے والی ہے ۔ لفظ حبیبہ کے زبان سے ٹوٹ ٹوٹ کر نکل رہے تھے۔انہوں نے پریشان کن انداز میں اشتیاق عالم کی جانب دیکھا۔ وہ سر دونوں ہاتھوں سے تھامے بیٹھے ہوۓ تھے۔


    *********

    مبارک ہو رحمن بھائی، مبارک ہو عفت آپا۔ تیمور حسن نے رحمن احمد سے گلے لگتے ہوۓ مبارک سلامت کی صدا بلند کی ۔ ارقم اور شمائلہ کی تاریخ طے ہو چکی تھی۔ دو مہینے بعد نکاح، رخصتی اور ولیمے کی تقریب طے پائی تھی۔ آپ کو بھی بہت مبارک ہو بھائی صاحب ۔ میں مٹھائی لے کر آتی ہوں۔ عفت خوشی سے کہتی کچن میں مٹھائی لینے چلی گئیں۔
    ارے رحمن- ذرا غزالہ کوفون لگاؤ میں اسے اس کے لاڈلے بھانجے کی تاریخ پکی ہونے کی خوش خبری تو سنادوں۔ اماں جی کو بروقت بیٹی کی یاد ستائی۔ غزالہ اپنے میاں کے ساتھ لاہور میں رہائش پذیر تھیں۔
    یہ لو بھئی سب منہ میٹھا کرو اور میری پیاری بہو کہاں ہے۔ راحت- ذرا شمائلہ کوتو آپ یہاں بلالو۔ اسے تو میں خود اپنے ہاتھوں سے مٹھائی کھلاؤں گی ۔ عفت آراء کے دل میں بہو کے لیے محبت امڈ آئی۔
    آپا آپ ہی کی بیٹی ہے۔ آپ خوداندر سے بلا لائیں نا- راحت نے مسکرا کر کہا اور عفت اندر سے شمائلہ کوکھینچ لائیں ۔ فالسی رنگ کے مختصر سے انگررکھے اور بنفشی رنگ کے ٹراؤزر اور نیٹ کے دوپٹے میں ملبوس نکھری نکھری سی شمائلہ شرم سے گلابی پڑرہی تھی ۔ عفت آرا نے اسے گلے سے لگایا ، ماتھے کو بوسہ دیا اور مٹھائی سے منہ میٹھا کرایا۔ تب ہی نظر اچا نک عقب میں کھڑی زبردستی کی مسکراہٹ منہ پر سجاۓ میمونہ پر پڑی۔
    یہ لوبھئی، تم بھی آئی ہو تو منہ میٹھا کرلو- بڑا سا گلاب جامن عفت آرا نے میمونہ کے منہ میں ٹھونس دیا۔ میمونہ اس توہین آمیز جملے اور گلاب جامن یوں منہ میں ٹھونسنے کے انداز پرتلملا کر رہ گئی ۔
    لیں اماں جی- آپ بھی منہ میٹھا کریں- اماں جی غزالہ سے بات کر کے فارغ ہوئیں تو عفت آرا نے ان کا منہ بھی میٹھا کرایا۔ ارے بھئی یہ ارقم کہاں رہ گیا۔ اس کی کمی ہے یہاں۔ تیمور حسن نے گھڑی پر نگاہ ڈالتے ہوئے دریافت کیا۔
    بس راستے میں ہے تیمور بھائی۔ آ رہا ہے۔ میری بات ہوئی ہے ابھی- عفت آرا نے فوراً جواب دیا۔
    ***********


    تو کیا سنبل اور ارقم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ مجھے یقین نہیں آرہا مگر ارقم کی تو آج تاریخ پکی ہونے والی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ سب کیا ہورہا یہ سب ہے۔ ارقم محبت اگر سنبل سے کرتا ہے تو شادی کسی اور سے کیسے کرسکتا ہے۔ یا اللہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ مجھے تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ حبیبہ بیگم کا بلند آواز میں واویلا شروع ہو گیا۔
    مجھے سمنبل سے یہ امید نہیں تھی ۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ پڑوس کے لڑکے سے محبت کا چکر چلا رہی ہے۔ وہ آخری خط پڑھا آپ نے جو آپ کی بیٹی نے محبت میں لکھا تھا اور آخر میں خود کو’’ تمہاری محبت کے نام سے تعبیر کر ڈالا۔ توبہ… میں نے تو تصور بھی نہیں کیا تھا کہ میری سنبل، میری بیٹی ہماری ناک کے نیچے یہ گل کھلاۓ گی ۔ اشتیاق عالم کو بیٹی کی بے شرمی کا غم کھائے جارہا تھا۔
    سنبل تو یہاں ہے نہیں ، میں تو کہتی ہوں اس ارقم کو جا کر پکڑنا چاہیے ہمیں جو ہماری معصوم بیٹی کوان خطوط میں سبز باغ دکھا کر خود کو کسی اور کے نام سے منسوب کرنے کا انتظام کیے بیٹھا ہے۔ حبیبہ نے سوں سوں کرتی ہوئی ناک کو دوپٹے سے پونچھتے ہوۓ تڑخ کر کہا۔
    مگر— مگر اس کی تو آج تاریخ پکی ہونے کی رسم ہے۔ سب مہمان آۓ ہوں گے، ہم کس طرح جا کر سب کے سامنے بی خطوط رکھ چھوڑیں ۔اس سے تو ہماری بیٹی کی بھی بدنامی ہوگی ناں ۔ اشتیاق عالم ہچکچاتے ہوۓ بولے۔ ان آٹھ خطوط میں سے سات خط ان کے بیٹے کے ہیں ، بدنامی کیسے پھر ہماری بیٹی کی …… اچھا ہے ناں ان کے خاندان والوں کو بھی پتا چلے کہ صاحب زادے کیا گل کھلا رہے ہیں محلے میں اور میاں صاحب کیا معلوم ارقم یہ شادی مجبوری میں کر رہا ہو۔ ہمارے وہاں پہنچنے سے اس کی مشکل بھی آسان ہوجائے۔ دیکھا نہیں آپ نے ، ارقم کی شادی کی خبر سن کر سنبل نے فون بند کر ڈالا۔ ہم ماں باپ ہیں سنبل کے، ہم بیٹی کے لیے نہیں کھڑے ہوں گے تو پھر کون کھڑا ہوگا۔ حبیبہ کو ایک نئی راہ سوجھی یکا یک ان کا دماغ فلمی انداز میں کام کرنے لگا۔ ہوتا ہے عموماً ایسا جب بے حد فلمی سیچویشن رونما ہوتی ہے۔ ہماری عام سی زندگی میں تو فیصلے بھی یوں ہی ڈرامائی انداز میں ہونے لگتے ہیں ۔ حبیبہ کی بات بھی اشتیاق عالم کے دل کو لگی اور دونوں میاں بیوی ان خطوط کا پلندہ اٹھاۓ رحمن احمد کے گھر جا پہنچے۔
    *************


    مبارک سلامت کا زور شور کے ساتھ سلسلہ جاری تھا۔ تب ہی دروازے کی گھنٹی بجی۔ لگتا ہے ارقم آ گیا۔ میں گیٹ کھول کر آتا ہوں ۔ رحمن احمد مسکرا کر دروازہ کھولنے کے لیے اٹھے اور پھر واپسی ان کی اشتیاق عالم اور حبیبہ کے ساتھ ہوئی۔ ارے بڑے اچھے موقع پر آۓ آپ لوگ آیے آیے منہ میٹھا کریں۔ عفت آرا پر جوشی مٹھائی کی پلیٹ لے کر ان دونوں میاں بیوی کی
    جانب بڑھیں۔
    کہ تو بالکل سچ رہی ہیں آپ، آۓ تو واقعی بڑے اہم موقع پر ہیں اور اگر یہ خطوط آپ پڑھ لیں تو اس موقع کی اہمیت کا بھی خوب اندازہ ہو جاۓ ۔ حبیبہ نے معنی خیز انداز میں کہا اور ان کے اس انداز پر وہاں بیٹھے سب ہی افراد چونک اٹھے۔ خیر تو ہے ناں بہن ۔ عفت آرا نے تعجب نیز نگاہوں سے پڑوسن کو دیکھا۔ جو کچھ ماہ قبل ہی اس محلے میں آباد ہوئی تھیں اور ان سے اچھی علیک سلیک بھی ہوئی تھی مگر آج ان کا یہ ا نداز انہیں چونکا رہا تھا۔
    آپ یہ خطوط پڑھ لیں ، بہن ، ساری بات سمجھ میں آ جاۓ گی ۔ حبیبہ نے منہ بنا کر کاغذوں کے پلندے کو عفت آرا کے حوالے کرتے ہوۓ کہا۔ عفت آرا نے ان صفحوں کو پہلے حیرانی سے الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر پڑھنے لگیں ۔ جوں جوں وہ پڑھتی جاتیں ان کا دل بیٹھتا جا تا ۔ رحمن احمد ان کی فق پڑتی رنگت اور متغیر ہوتی حالت کو دیکھ کر جھٹ اٹھ کھڑے ہوے-
    کیا لکھا ہے ان کاغذوں میں؟ وہ ان خطوط کو عفت آرا کے ہاتھ سے لیتے ہوۓ بولے۔ ارقم کے ابا- آپ خود پڑھ لیجیے۔ میرا تو دل بیٹھا جارہا ہے ان محبت ناموں کو پڑھ کر ۔‘‘ عفت آرا صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولیں مگر ان کے منہ سے نکلے لفظ محبت نامے- نے وہاں ہلچل مچادی۔
    محبت نامہ – تیمور حسن نے اچنبھے سے اس لفظ کو دہرایا اور اپنی زوجہ کو دیکھا۔ زوجہ صاحبہ نے کندھے اچکا کر لاعلمی کا اظہار کر تے ہوۓ اس لفظ کی گردان کرتے ہوئے ساتھ بیٹھی شمائلہ اور میمونہ کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ شمائلہ کے من میں عجیب خطر ناک سی گھنٹیاں بجنے لگیں اور بجلی کے کرنٹ کی صورت اس کی زبان سے بل کھا کر لفظ پھسلا- محبت نامہ-
    ہاں محبت نامہ۔ پڑوسیوں کے گھر سے آیا محبت نامہ ارقم کے گھر رہی سہی کسر میمونہ نے پوری کر دی۔ خوب آنکھیں مٹکا کر شمائلہ کو ٹہوکا مارا اور شمائلہ کے اندر بجنے والی گھنٹیاں خطرناک سائرن میں تبدیل ہوئیں۔ ان خطور کو پڑھ کر رحمن احمد کی پیشانی بھی عرق آلودہ ہوگئی ۔
    ہاۓ یہ کس نے کس کو محبت نامہ لکھ ڈالا ۔ مجھے بھی تو بتاؤ۔ اماں جی نے سب کے دلوں میں مچلتا سوال بالآ خر کر ہی ڈالا۔ اس کا جواب تو آپ کے پوتے صاحب ہی آ کر دیں گے۔ رحمن احمد نے نڈھال سے انداز میں صوفے پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔
    *************


    اس نے دائیں پیر کی سیاہ ہائی ہیل کی نوک سے اپنی راہ میں پڑے ایک چھوٹے سے پتھر کو ہلکے سے ٹھوکر ماری۔ وہ پھر لڑ کھڑاتا ہوا بائیں جانب کی ڈھلان کی طرف سرک گیا۔ وہ سیاہ لانگ کوٹ، اسکن فٹنگ کافی کلر کی ویلویٹ کی پینٹ میں ملبوس لمبی چوڑی سڑک پر ایک خوب صورت جگہ کا نظارہ کرتی چہل قدمی میں مگن تھی۔ یہ پر رونق اسٹریٹ نیومری کا مال روڈ تھا۔ جس کے دونوں اطراف مختلف مشہور برانڈز کے آؤٹ لیٹس بھی موجود تھے۔ سنبل کے ہاتھوں میں موجود کون منفی ٹمپریچر کے باعث برف کی طرح جمی ہوئی تھی ۔ وہ سب کچھ گھنٹوں کے ریسٹ کے بعد اب مال روڈ کی سیر کو نکلے تھے اور ادھر ادھر کی دکانوں میں گھس چکے تھے۔ وہ آئس کریم شاپ سے اپنے لیے کون لے کر مال روڈ کی رونقوں سے لطف اندوز ہورہی تھی ۔ اس نے کون کو اپنے لبوں سے لگا کر اس کے ذائقے کو محسوس کیا۔ تب ہی اچا تک موسم نے انگڑائی لی اور دھنکی ہوئی روئی کی مانند برف باری شروع ہوگئی۔
    سنوفال کا آغاز ہو گیا۔ مبارک ہو۔ اس سے کچھ فاصلے پر بنچ پر براجمان خوش گوار انداز میں باتیں کرتے میاں بیوی اچا نک خوشی سے چہک اٹھے۔ وہ تمام طالبات جو دکانوں میں گھسی خریداری میں مگن تھیں ۔ باہر نکل کر اپنے بازوؤں کو پھیلا کر برف باری کے مزے لینے لگیں اور سب سے ذرا آگے اپنے لیے گرم اونی ٹوپے خریدتے داؤد بھائی کے چہرے پر خوش گواری مسکراہٹ رقصاں تھی ۔ گویا جیسے وہ بھی موسم کے تیور بدلنے کے منتظر تھے ۔ مسز صد تقی فکرمند سی لڑکیوں کے پیچھے پیچھے پھر رہی تھیں اور ماہین اپنی کون تھامے ان کی جانب بڑھ رہی تھی۔ کچھ منچلے نوجوان بلند قہقہے لگاتے ، برف کو اپنی ہتھیلیوں پر جمع کر کے ایک دوسرے پر اچھال رہے تھے ۔ وہاں موجود ہر شخص کے چہرے پر خوشی جگمگارہی تھی۔ مسکان لیوں پر سج اٹھی تھی ، معصوم ، بے ریا ، شفاف مسکراہٹ۔
    وہ بھی آنکھیں بند کر کے چہرے کا رخ آسان کی جانب کیے، پیاری سی مسکان لبوں پر سجاۓ برفیلی برسات سے لطف اندوز ہورہی تھی۔ برف کے ننھے گالے کبھی اس کے رخسار پر تو کبھی اس کے گلابی ہونٹوں پر گرتے ۔ کمر سے نیچے تک آتی زلفوں میں بھی سفید موتی جا ٹنکے تھے۔ وہ ٹھیک اسٹریٹ لیمپ کے نیچے کھڑی تھی اور سنہری روشنی نے اس کے چہرے کا احاطہ کیا ہوا تھا۔ وہ ان حسین لمحات کو آنکھیں موندے محسوس کر رہی تھی ، اپنے اندر جذب کر رہی تھی اور یوں وہ کسی طلسماتی داستان کا ایک افسانوی کردار محسوس ہورہی تھی۔
    سفید موتیوں سے بھی چوڑی سڑک پر تیز رفتار جیپ دندناتی ہوئی چلی آئی اور ٹھیک اس کے سامنے جا رکی ۔ جیپ کی روشن ہیڈ لائٹس نے سنبل کے پورے وجود کا احاطہ کرلیا تھا۔ وہ پھر بھی بے خبر رہی، ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان شناور نے اس خوب صورت منظر کو نہایت ہی دلچسپی سے دیکھا تھا۔ وہ لڑکی اسے مجسمہ محسوس ہورہی تھی ۔ وہ مبہوت سا اسے دیکھے چلا گیا۔ یہاں تک کہ اس ساکت مجسمے میں حرکت ہوئی ، پہلے اس نے آنکھیں ذرا سی کھولیں ، مگر روشنی کے تیز جھماکے نے اسے آنکھیں دوبارہ بند کرنے پر مجبور کر دیا۔ مبہوت سے شناور کا ارتکاز ٹو ٹا اور اگلے ہی لمحے اس نے جیپ کی لائٹس بجھا دیں۔
    سنبل نے دھیرے سے آنکھیں کھول لیں ۔ وادی کوہسار واقعی اتنی مختصر ثابت ہوئی تھی کہ اجنبی چند گھنٹوں کے وقفے سے پھر اس کے سامنے موجود تھا۔ سنبل کی نظریں بے اختیار شناور پر جا ٹہریں، بس چند ساعتوں کا ٹکراؤ تھا مگر دل سیراب ہو گیا اور جب دل سیراب ہوا تو سنبل نے نظریں جھکا لیں۔ جیپ میں بیٹا شناور بھی مسکراہٹ دباۓ جیپ آگے بڑھا لے گیا۔
    بعض لمحے امر ہو جانے کے لیے ہمیشہ زندہ رہ جانے کے لیے ہوئے ہیں۔ دلوں میں بھی اور ذہنوں میں بھی۔ یہ لحہ بھی امر ہو جانے کے لیے ان دونوں کے درمیان چپکے سے گزر گیا تھا۔ اس گزرتی جیب کو سنبل نے مڑ کر چیکے سے دیکھا تھا اور اور اس حرکت کو شناور نے مسکراتے ہوۓ بیک ویو اسکرین پر دیکھا تھا-
    برف باری مزید شدت اختیار کر گئی تھی۔ وہ لوگ ہوٹل واپس آ گئے۔
    سنو سنبل- ایک بات تو بتاؤ۔“ ماہین نے کھڑکی پہ کھڑی عقب سے پکارا۔ اس وقت وہ دونوں کمرے سے منسلک راہداری میں کھڑی تھیں ۔ اس راہداری کی کھڑکیاں مال روڈ کی جانب کھلتی تھیں ۔
    ہاں پوچھو- سنبل نے پلٹ کر جواب دیا۔ ماہین اس کے برابرآ کھڑی ہوئی ۔
    تمہارے اس ایڈونچر کا کیا بنا۔ وہ دونوں اب کھڑکی کے اس پار سے نظر آتے نظارے کا نظارہ کر رہی ہیں۔
    کس ایڈونچر کا۔ سنبل حیرت میں مبتلا ہوئی- ارے وہی بابا، جو تمہیں کتابوں کو پڑھتے پڑھتے کہانیاں لکھنے کا شوق ستایا تھا۔ ماہین نے یاد دلایا۔
    اچھا وہ….. سنبل کو یک دم یا دآ گیا۔ میں نے لکھی ہے ایک کہانی چند خطوط پرمبنی محبت کی ایک اچھوتی کہانی- وہ کھوۓ کھوۓ لہجے م یں کہہ رہی تھی۔ ذہن کے پردے پر وہ خطوط اپنے میٹھے لفظوں سمیت بکھرنے لگے۔ واقعی تم نے لکھ لی کہانی اور مجھے بتایا بھی نہیں ۔ ماہین پر جوش سی چہکی ۔ میں نے یہاں آنے سے ایک دن قبل ہی تو کہانی مکمل کر کے سارے صفحات اپنے دراز میں رکھ کر آئی ہوں۔ سنبل مسرورسی بتا رہی تھی ۔ کتابوں سے محبت تو اسے ایک زمانے سے تھی، اب لکھنے شوق بھی ہو گیا تھا۔
    اچھا یہ بتاؤ کیا نام رکھے ہیں تم نے اپنے کرداروں کے ماہین کو اشتیاق نے آ گھیرا۔
    ارقم ۔۔۔ میری کہانی کے اصل کردار کا نام ارقم ہے۔ پتا ہے ماہین ! ہمارے پڑوس میں جو آ نٹی رہتی ہیں، ان کے بیٹے کا نام بھی ارقم ہے اور میں نے اماں جان کی زبانی اکثر یہ نام سن رکھا تھا۔ مجھے اچھا لگا تھا یہ نام، اس لیے میں نے اپنی کہانی میں اس نام کا استعمال کر ڈالا۔ اس نے نیا نیا لکھنا شروع کیا تھا اور اس موضوع پر بات کرنا اسے بے حد پسند بھی تھا۔
    ماہین نے جب یہ موضوع چھیڑا تو وہ بھی پر شوق اندازمیں بتانے لگی۔ اور تمہاری ہیروئن …… اس کا نام کیا رکھا ؟ ماہین کو مزید تجسس ہوا۔
    اپنی ہیروئن کی پہچان میں نے محبت سے کرائی ہے، ارقم کی محبت۔ ہے ناں میرا آئیڈ یا منفرد سا۔ وہ اب اپنے خیال کے منفرد ہونے پر ماہین کی راۓ مانگ رہی تھی۔


    بہت زیادہ منفرد……. مجھے اپنا یہ خوب صورت سا تجر بہ ضرور پڑھنے کے لیے دینا۔ ماہین نے اصرار سے کہا اور بند کھڑ کی کو ہولے سے کھول دیا۔ کوہسار سے برفیلی ہواؤں کا جھونکا ان دونوں کے چہرے کو چھیڑتا ہوا گزر گیا۔
    وہ دونوں باہر روڈ کی جانب متوجہ ہوگئیں۔ اچانک شور اٹھا اور سب لوگ مجمع کی صورت ایک جگہ گھیرا ڈال کر کھڑے ہو گئے-
    یہ کیا ہورہا ہے اچا نک یہاں ۔ وہ دونوں بھی چونک کر اس مجمع کی جانب متوجہ ہوئیں اور پھر اچا نک سکوت چھا گیا اور ٹھنڈی ٹھار رگوں میں اترتی سرد خاموشی کو بانسری کی مدھر لے گرما گئی۔ دھن ایسی سحر نگیز تھی کہ وہاں موجود سب ہی لوگ دم بخود سے بیٹھتے چلے گئے۔
    یہ تو وہی دھن ہے جو ہم نے لاہور میں سنی تھی ۔ ماہین فورا پہچان گئی۔
    ہاں یہ وہی دھن ہے۔ اس رومانوی ماحول میں مزید فسوں بکھیرتی ۔ سنبل وہ دھن بھلا کیسے بھول سکتی تھی ، وہ تو اس دھن کے سحر میں اسی دن قید ہوچکی تھی-
    بانسری کی مدھر دھن بستروں میں د بکی طالبات کو بھی راہداری میں کھینچ لائی تھی۔ راہداری میں رش بڑھ گیا۔ یک دم بانسری کی آواز ان فسوں خیز فضاؤں میں گم ہوگئی ۔ ارد گرد ہجوم کی صورت میں بیٹھے لوگوں میں بے تابی بڑھ گئی اور پھر نہایت سحر انگیز فضا میں گونجی۔


    دوعشق تے عاشق دونوں برابر
    اڑے عشق داتا دکھیڑا
    آتش ساڈے ہے پخت تے پان
    ارے عشق ساڈے دل جھیڑا
    آتش پانی نال بجھاندی
    ارے شق تا داروکھیڑا


    یہ وہی ہے ما بین- جو شاہی قلعے میں ملا تھا۔ سنبل بے چین ہو اٹھی۔ دل مچل اٹھا۔ اس بندے کے دیدار کو جو عشق آتش کی تان چھیٹر رہا تھا۔
    داؤد بھائی بچیوں کو لے کر ہوٹل سے باہر جانے لگئے۔
    ارے مس سنبل،مس ماہین! آپ دونوں بھی آیے ناں۔ مری میں یہ لوک میلہ روز روز نہیں لگے گا ، جو پل آج خوب صورت ملے ہیں انہیں محسوس کر لیں۔ یہی پل گزر جائیں گے تو سنہری یادیں بن جائیں گے۔ داؤد بھائی نے مسز صدیقی کو بھی باہر چلنے کی دعوت دی ۔ مگر انہوں نے شدید تھکان کے باعث انکار کر دیا تھا۔ سنبل اور ماہین بچیوں اور داؤد بھائی کے ہمراہ ہوٹل سے باہر چلی آ ئیں اور اس مجمع میں شامل ہوئیں ۔


    وہ تین نوجوان تھے، جنہوں نے فضاؤں میں سروساز کے رنگ بکھیر رکھے تھے۔ سنبل کی جانب ان تینوں کی پشت تھی، بچیوں کا اصرار تھا کہ وہ لوگ سامنے کی جانب جا کر بیٹھیں ۔
    سنبل اور ماہین بچیوں کے ہمراہ لوگوں کے درمیان سے جگہ بناتے ہوۓ سامنے جا پہنچیں۔اس نوجوان نے وہی بھوری ہیٹ اس انداز سے پہن رکھی تھی کہ اس کے چہرے کا بالائی حصہ ہیٹ میں جا چھپا تھا۔ سراس نے جھکایا ہوا تھا ، اس کا چہرہ ان سب کی نگاہوں سے اوجھل تھا۔ دائیں جانب بیٹھے ساتھی نے گٹارسنبھالا ہوا تھا جبکہ دوسرا ساتھی ان سب لوگوں کی ویڈیو بنا رہا تھا۔ سنبل ٹھیک اس کے سامنے جا بیٹھی۔


    غلام فرید….. ا تھے چاہ نہ رکھی
    جتے عشق لاوے ڈیرہ…….


    شناور نے جیسے یہ مصرعہ سنبل کے لیے گاتے ہوۓ اپنا جھکا سر دھیرے سے اوپر اٹھایا۔ مگر اس کی آ نکھیں تا حال بند تھیں ۔اس کی آواز میں سوز کے جو رنگ کھلے تھے وہی رنگ اس کے چہرے پر بھی عیاں تھے۔ وہ اب سنبل کے عین سامنے تھا اور سنبل کی آنکھیں حیرت سے کھلی تھیں۔ کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں جن میں ہم قید ہوکر رہ جاتے ہیں اور یہ ایسی اسپری ہوتی ہے جس میں آزادی کی چاہ بھی نہیں ہوتی سنبل حیرت زدہ تھی ، اس سفر کے آغاز سے ہی وہ جن لمحوں میں خود کو قید پارہی تھی ، اس کے سارے تانے بانے سامنے بیٹھے شخص سے جڑتے تھے۔
    یا الله… کیا محض اتفاق ہے یا کوئی معجزہ ہونے کو ہے۔ اس کا دل بے اختیار دھڑک اٹھا۔
    یار ڈاڈھی عشق آتش لائی ہے
    یار ڈاڈھی عشق آتش لائی ہے
    اس کی آواز بلند ہوئی اور مجمع جھوم اٹھا۔
    وے یار سانو… شناور نے یک دم آنکھیں کھول لیں اور اس کی نگاہیں عین سامنے حیرت زدہ سی بیھٹی سنبل پر جم کر رہ گئیں۔ شناور اس وقت اپنے آپ میں نہ تھا، وہ اس سرائیکی لوک گیت کے مدھر بولوں میں گھل چکا تھا۔ ایک الوہی رنگ میں ڈھل چکا تھا ، وہ میں نہ رہا تھا- تو- بن چکا تھا ۔


    ملکہ کوہسار نے برفیلی اوڑھنی کے گھونگھٹ سے ذرا سی جھا نک کر اس عشق کے روگی کو دیکھا اور مسکرا کر گھونگھٹ میں رخ چھپا لیا۔ اس کی بانہوں میں سمٹی وادی بھی ہولے
    ہولے عشق کے سرور میں محو رقص تھی-


    وے یارسا نو لگ گئی بے اختیاری
    سینے دے وچ نہ سمائی ہے۔
    یار ڈاڈھی عشق آتش لائی ہے


    سنبل کو محسوس ہونے لگا کہ ایک بے اختیاری اس پر بھی چھانے لگی ہے۔ شناور کی نگاہوں کا مرکز اگر وہ تھی تو شناور بھی اس کی نظروں کے حصار میں تھا۔ برف باری کا تمھا ہوا سلسلہ پھر سے جاری ہو گیا۔ ننھے روئی جیسے گالے ان سب پر جھومتے ہوۓ پھر سے برسنا شروع ہو گئے ۔ حسن یہ فسوں خیز مناظر اپنے کیمرے میں ریکارڈ کر چکا تھا۔ عشق آتش کا سلسلہ بھی تھم چکا تھا اور لوگ اب شناور سے آٹو گراف لے رہے تھے۔

    میم ہمیں بھی لینا ہے آٹو گراف- شوخ و شنگ بچیوں نے ضد باندھ لی تھی۔ داؤد بھائی پہلے ہی ان لڑکوں سے علیک سلیک بڑھاچکے تھے۔ آٹو گراف ملنا مشکل نہ ہوا، ساری بچیوں نے قطار بنا کر آٹو گراف لیا تھا۔ بچیوں کے ساتھ ساتھ لگے ہاتھوں ماہین نے بھی آٹو گراف لے ڈالا۔ ماہین کے پیچھے وہ بھی کھڑی تھی ، کھوئی کھوئی سی ۔ بے اختیاری ابھی بھی اس پر چھائی ہوئی تھی ، تب ہی نظریں جھکی ہوئی تھیں ۔

    آپ نہیں لیں گی آٹو گراف ۔‘‘ کسی نے اس کی جانب جھک کر سرگوشی کی تھی۔
    سنبل نے بے اختیار سر اٹھا کر دیکھا۔ وہ مسکراتے ہوئے پوچھ رہا تھا اورکتنی پرکشش تھی اس کی مسکراہٹ۔
    دراصل میرے پاس آٹو گراف لینے کے لیے کچھ ہے نہیں ۔ سنبل نے بوکھلا کر اپنے خالی ہاتھوں کی جانب اشارہ کیا اور واپس جانے کو مڑ گئی ۔


    سنیے – شناور بے اختیارپکار بیٹھا۔ وہ بے ساختہ پلٹی ۔ مگر میرے پاس آپ کو دینے کے لیے کچھ ہے۔ اتنا کہہ کر وہ اپنی لید رجیکٹ کی جیب سے ایک کارڈ نکال کر اس پر لکھنے لگا اور پھر اپنی اس مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ وہ کارڈ اس کی جانب بڑھا دیا-

    سنبل نے وہ کارڈ تھاما اور پلٹ کر تیزی سے اپنے گروپ کی جانب بڑھ گئی۔ چاۓ کے اسٹال سے نزدیک ایک بینچ پر بیٹھ کر اس نے مٹھی میں دبا کارڈ نکالا جواس کے ہاتھوں کے لمس سے بھیگ چکا تھا۔ وہ بے قرار نگاہوں سے اس کارڈ پر رقم لفظوں کو پڑھنے لگی-

    اس سنہری لڑکی کے لیے جو ایک سنہرے لمحے میں مجھ سے آ ملی۔ اس ایک خوب صورت سطر کے ساتھ اس کا نام درج تھا- شناور- سنبل نے اس کارڈ کوالٹ پلٹ کر دیکھا، وہ وزیٹنگ کارڈ تھا جس میں شناور کا نمبر بھی درج تھا۔ اس نے بے اختیار سراٹھا کر کچھ فاصلے پر کھڑے شناور کو دیکھا تھا، وہ اس کی جانب تکتا متبسم تھا۔
    یہ کیا آنکھ مچولی چل رہی ہے جناب۔ مابین نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ دریافت کیا۔ وہ کب اس کے سر پر آ کھڑی ہوئی ،اسے علم ہی نہ ہوسکا۔
    ’داؤد بھائی چاۓ کے اسٹال پر جا کھڑے ہوۓ۔ داؤد بھائی نے کشمیری چاۓ کا لمبا چوڑا آرڈر دیا تھا۔ ایک سولہ سترہ سالہ لڑکا تھا جو برقی رفتاری سے چائے بنارہا تھا اور گا ہکوں کو بھی ڈیل کر رہا تھا-


    ” نام کیا ہے تمہارا- داؤد بھائی نے یوں ہی بات براۓ بات نام پوچھ لیا۔ ظاہر خان ۔ اپنا نام بتا کر چاۓ کی ٹرے داؤد بھائی کے حوالے کرتے ہوۓ وہ پوچھنے لگا۔ آپ لوگ کہاں ٹھہرے ہو صاحب۔
    یہ جو سامنے ہوٹل ہے ناں ، اس میں ۔ داؤد بھائی نے ہبٹوے سے پیسے نکالتے ہوۓ جواب دیا۔ جب بھی چاۓ لینا ہو، ادھر ہی آنا صاحب وہ پیشہ ورانہ مسکراہٹ چہرے پر سجاۓ کہہ رہا تھا۔ ایک سرسری سی نگاہ اس نے داؤد بھائی کے عقب میں گھڑی نو عمر لڑکیوں کے خوش گپیاں کرتے گروپ پر ڈالی ۔
    ضرور ، بشرط تمہاری چاۓ ہمارے معیار کے مطابق ہو۔ داؤد بھائی نے مسکرا کر کہا اور ٹرے اٹھا کر پلٹ گئے ۔اس بار ظاہر خان کی نگاہ بنچ پربیٹھی ان دو نوجوان لڑکیوں پر جا ٹھہری ، اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں ایک عجیب کی چمک کوندی ۔
    **********


    وہ آج خوش تھا ، بے تحاشا خوش۔ دوڑتی بھاگتی سینکڑوں گتھیوں میں الجھی زندگی میں شمائلہ کا خیال کسی بہار کے موسم سے کم نہ تھا۔ آج کا دن بے حد مصروف گزرا تھا۔ وہ ایک بے حد اہم اور مشکل کیس پر کام کر رہا تھا ، اس سلسلے میں اسے کئی اہم میٹنگز میں شامل ہونا پڑ رہا تھا اور اسی وجہ سے آج اسے گھر جانے میں تاخیر ہوئی۔ وہ زمانے بھر کی تھکن ذہن سے پرے کر کے شمائلہ سے شادی کے تصور میں کھویا سا گھر میں داخل ہوا۔ مگر اس کی توقعات کے برعکس خوشی اپنائیت اور محبت کے بجاۓ تناؤ زدہ چہروں اور کثافت بھرے ماحول نے اس کا استقبال کیا۔
    خیریت، آپ سب کے منہ کیوں اترے ہوۓ ہیں؟‘‘ اس نے حیرانی سے استفسار کیا۔ گھر میں پڑوسی مہانوں کی موجودگی اور ان کی نگاہوں سے عیاں ہوتی خفگی اسے مزید ورطہ حیرت میں مبتلا کر گئی۔
    بیٹا یہ خطوط جو تمہارے سامنے پڑے ہیں، انہیں پڑھ لو۔ پھر جان جاؤ گے کہ ہم سب کے منہ کیوں اترے ہوۓ ہیں ۔ رحمن صاحب نے لفظ چبا چبا کر جواب دیا ۔ اسے حیرت نے آ گھیرا۔ ان سب پر ایک نگاہ دوڑاتے ہوۓ اس نے ان خطوط کو اٹھایا، ایک ایک کر کے وہ خطوط کو پڑھتا چلا گیا۔ اس کے لب ہے ساخت مسکراہٹ سے کھل اٹھے۔
    یہ کسی کے ذاتی خطوط ہیں، آپ سب نے مجھے پڑھنے کے لیے کیوں دے دیے۔ وہ ان خطوط سے محظوظ ہوتے ہوۓ ان سے دریافت کرنے لگا۔ کیونکہ بیٹا جی خطوط لکھنے والے آپ ہی
    ہیں۔ آپ کا ہی نام درج ہے ان تمام خطوط میں- اس با راشتیاق عالم طنزیہ لب ولہجہ اختیار کر گئے ۔
    کیا مطلب کہ میرا نام لکھا ہے، اس بات سے مقصد کیا ہے آپ لوگوں کا؟ ارقم کے اندرخطرے کی گھنٹی بجی۔
    لگتا ہے سی آئی ڈی والے آج کل اپنے افسروں کو ادا کاری سکھار ہے ہیں ، تب ہی سب کچھ جانتے بوجھتے ہوۓ بھی تم انجان بن رہے ہو بیٹا جی- حبیبہ بیگم طنزیہ لہجے میں کہے بنا نہ رہ سکیں ۔ ارقم بھونچکارہ گیا۔
    دیکھو بیٹا- ان لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ خطوط تم نے لکھے ہیں ان کی بیٹی کو۔ اور سچ پوچھو تو خط میں نام بھی تمہارا لکھا ہے۔ اب تم ہی بتاؤ یہ سارا چکر کیا ۔ آخر رحمن احمد نے تحمل سے سارا معاملہ ارقم کے گوش گزار کیا۔
    میں آپ کی بیٹی کو خط کیوں لکھوں گا۔ میں نے آج تک اسے دیکھا بھی نہیں ۔ ایک بہترین سی آئی ڈی آفیسر ہونے کے باوجود اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ عجیب وغریب مسئلہ پیدا کب ہوا اور جوان ہوکر کب اس کی خوشیاں اجاڑ نے اس کے سامنے آ کھڑاہوا۔
    یہ عجیب کہی تم نے بیٹا کہ دیکھا تک نہیں ، خط نہیں لکھا۔ ارے نام تمہارا لکھا ہے پھر خط تم نے نہیں لکھا تو کیا کسی خلائی مخلوق نے لکھ ڈالا ہے ۔ حبیبہ کے سر پر لگی اور تلوؤں پر بجھی ۔
    سنو پڑوسن بی بی- یہ میرے پوتے کو خلائی مخلوق کہہ کر مشکوک نہ بناؤ۔ ہاۓ کل ہی میں نے خبروں میں سنا ہے کہ حکومت کی خلائی مخلوق سے جنگ چل رہی ہے اور ہاں اگر خط لکھ بھی دیے تو کیا ہو گیا۔ نادانی کی حدوں کو چھوتیں دادی اماں نے کچھ دنوں قبل ہی خلائی مخلوق کی خبر میں نیوز چینلز پر سنی تھیں اور فی الوقت حبیبہ کے منہ سے اس لفظ کو سن کر پوتے کی محبت میں سٹپٹا کر بول پڑیں-
    مگر دادی اماں- میں نے یہ خط نہیں لکھے۔ آپ لوگ میری بات مان کیوں نہیں رہے ۔ اس کا دل چاہا اپنے بال نوچ ڈالے۔ دیکھیں عفت آپا- خطوط کا یہ معاملہ صحیح نہیں ہے۔ارقم اگر شمائلہ سے منسوب ہے تو کیا ضرورت ہے اسے آس پڑوس کی لڑکیوں کو خطوط لکھنے کی ۔اس بار راحت آرا بھی منہ پھلاۓ شکوہ کناں ہوئیں۔ ہاۓ میں نے سوچا بھی نہ تھا کہ ارقم بھائی ایسے دل پھینک نکلیں گے ۔ بے چاری شمائلہ کا تو دل ی ٹوٹ گیا۔ چہ چہ چہ‘‘ میمونہ نے حجٹ شرانگیزی دکھائی۔ارقم نے خوں خوار نگاہوں سے میمونہ کوگھورا اور پھر کن انکھیوں سے اس کے برابر میں آنکھوں سے ندی بہاتی شمائلہ کو۔ اچھی مصیبت گلے پڑ گئی یار- وہ بڑ بڑا کر رہ گیا۔
    آپ سب لوگ ایک طرف کی کہانی سن رہے ہو۔ ارقم کی بات سن ہی نہیں رہے جب وہ کہہ رہا ہے کہ یہ خط اس نے نہیں لکھے تو ہوسکتا ہے اس نے نہ لکھے ہوں ۔ کیا خبر یہ خطوط کسی اور نے لکھے ہوں ۔عفت آرا بالآخر بیٹے کی حمایت میں میدان میں اتریں۔ارقم نے انہیں ممنون نگاہوں سے دیکھا۔
    آپ تو یہی کہیں گی ناں بہن ، آپ کا بیٹا جو ہے اور بیٹے والوں کو بیٹی والوں کے دکھ دکھائی نہیں دیتے۔ یہ خطوط تو آپ لوگوں کے لیے بے معنی سی بات ہے مگر ذرا سوچیے کہ جو وعدے دعوے ارقم نے خطوط میں میری بیٹی سے کر ڈالے ہیں۔ جب اسے علم ہوگا کہ ارقم اب کسی اور شادی کر رہا ہے تو کتنا دکھ ہوگا اسے- کبھی سوچا بھی ہے آپ لوگوں نے ۔ حبیبہ آب دیده سی بیٹی کی محبت میں بولے چلی گئیں۔
    بات تو ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ۔ بیٹیوں والوں کے درد کا احساس بیٹے والوں کو کم ہی ہوتا ہے ۔ ارقم ایک ہی وقت میں دولڑکیوں کے دلوں سے کھیلتا آ رہا ہے اور آپا- آپ کو بھی اپنا بیٹا غلط معلوم نہیں ہور ہا۔ افسوس کا مقام ہے یہ ۔ راحت آرا کا دل بھی آنسو بہاتی بیٹی کے درد پر کر لایا تھا۔
    ارقم بھائی اگر آپ کو شمائلہ سے شادی نہیں کرنی تھی تو ایسے ہی کہہ دیتے۔ اس طرح کسی اور سے چکر چلا کر آپ نے تو اسے جیتے جی مارڈالا- اس پورے قصے میں میمونہ بھی اپنا حصہ خوب ڈال رہی تھی-
    اوہو بس کر دیں آپ سب، جس بات کا نہ کوئی سر ہے نا پیر۔ اس بات کے پیچھے پڑ گئے ہیں آپ لوگ اور آنٹی آپ یہ تو بتائیں یہاں ان خطوط کو لاکر ہنگامہ کھڑا کر دیا مگر اپنی بیٹی سے پوچھا کہ اسے یہ خطوط کس نے لکھے ہیں ۔ اب جرح کی باری ارقم کی تھی-
    پوچھوں کیا؟ جب صاف جلی حروف میں نام تمہارالکھا ہے صاحب زادے اور جب اسے بتایا کہ تمہاری آج تاریخ طے ہورہی ہے شادی کی تو میری معصوم ہنستی کھلکھلاتی بچی کو چپ لگ گئی۔ایسی خاموشی ہوئی وہ کہ میں ہیلوہیلو بولتی رہی مگر وہ ایک لفظ نہ بول پائی۔ بڑی حساس ہے میری بچی ، نہ جانے کیسے وہ اتنا بڑا صدمہ وہاں اکیلے سہہ رہی ہوگی۔ اب بتایے ذرا، ایسے میں کیسے میں یہاں آ کر فریاد نہ کروں ۔ حبیبہ کی آنکھوں سے اشک رواں تھے اور لہجہ بھیگا تھا۔ عفت آرا اور رحمن احمد ساری بات سن کر سر جھکا کر رہ گئے۔


    رحمن بھائی- میرے خیال سے ہمیں اب پڑوسیوں کی بچی کے کراچی لوٹنے کا انتظار کرنا چاہیے۔ تب تک اس معاملے کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں ۔ اب جو بھی بات ہوگی ، اس بچی کے آنے کے بعد ہوگی ۔ تیمور حسن تمام معاملے کو بغور سن اور دیکھ رہے تھے۔ رحمن احمد سے اجازت لیتے ہوئے بولے۔ ارقم لب بھینچے انہیں جاتادیکھتا رہ گیا۔ شمائلہ کی آنکھوں میں پھیلی بدگمانی اس کی نظروں سے مخفی نہ تھی اور وہ بخوبی جانتا تھا کہ میمونہ اب اس کے حوالے سے شمائلہ کے دل میں بدگمانی کے ساتھ ساتھ نفرت کے بیج بھی بونے والی ہے۔
    آج تم نے ہمارا سر خاندان کے ساتھ ساتھ محلے بھر میں بھی شرم سے جھکا دیا- اب دیکھنا کیسے یہ خبر ہر جگہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آ تا ارقم- کہ ایک ذمہ دار آ فیسر ہوکر بھی تم اتنی بچگانہ حرکت کیسے کر سکتے ہو۔ خط لکھتے پھر رہے ہو لڑکیوں کو ۔ رحمن احمد نے جو غصہ اتنی دیر سے اپنے اندرد با رکھا تھا ، وہ بالآخرابل ہی پڑا۔
    مجھے بھی آپ لوگوں سے یہ امید نہیں تھی ، میرے کردار کی پختگی سے میرا پورا ادارہ واقف ہے۔ مگر میرے اپنوں کو ہی اعتبار نہیں۔ حد ہوگئی ہے، آپ لوگوں نے سوچ لیا کہ میں محبت نامے لکھنے جیسی بے وقوفانہ حرکت کرتا پھروں گا۔ باہر سے آ کر کسی نے مجھ پر انگلی اٹھائی اور آپ لوگوں نے اس کا یقین کر کے مجھے بے اعتبار کر ڈالا۔ میں آپ لوگوں کا اپنا خون ہوں، پھر بھی رتی بھر کا بھروسانہیں آپ لوگوں کو وہ مسلسل لگنے والے بے بنیادالزامات کی صفائی دے دے کر تھک چکا تھا۔ تب ہی چیخ پڑا۔ ایک افسوس بھری نگاہ ان سب کے خاموش چہروں پر ڈال کر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔
    زندگی کے سفر میں کب کوئی بھیا نک سا موڑ اچانک آ دھمکے، کچھ پتا نہ چلنا- چاہتے نہ چاہتے ہوۓ بھی انسان کو نہ صرف اس بھیانک اژدھے کے مانند منہ پھاڑے موڑ کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ اس میں سے گزرنا بھی پڑتا ہے۔ ارقم کو بھی یہی صورت حال در پیش تھی ۔ اس نے بھی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کی نظر میں ہوں بے عتبار ہو کر رہ جائے گا۔ کچھ حادثات بجلی کی سی تیزی کے مانند رونما ہوتے ہیں۔ پلک جھپکتے ہی ہوکر گزر جاتے ہیں ۔ مگر اثرات دیر پا اور بھیانک ثابت ہوتے ہیں۔
    جو کچھ بھی ہوا وہ ارقم کے لیے بھی ایک حادثہ ہی تھا۔ جس لڑ کی وہ جانتا بھی نہ تھا ، اس کے ساتھ اس کا نام زبردستی نتھی کر دیا گیا ۔ اس کے کردار کو تار تار اور اس کی عزت کو داغ دار بنا دیا گیا اور پھر ستم یہ کہ کوئی اس پر یقین کرنے کو بھی تیار نہ تھا ۔
    حد ہے یار- یہ سب کچھ تو عموماً ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ میں تاریخ میں پہلا انوکھا لڑ کا ہوں گا جو اپنی عزت و وقار کے لیے گھر بھر سے لڑ رہا ہوں ۔ وہ زیر لب بڑبڑاتا ہوا بستر پر دراز ہو گیا۔
    ’’شمائلہ…..اسے بھی یقین نہیں مجھ پر۔ وہ بھی بے اعتبار کر گئی مجھے ۔ اسے دکھ نے آ گھیرا۔
    بہت دیر تک وہ اس تمام قصے کے متعلق سوچتا رہا۔ بے حد یاد کرنے کے باوجوداسے اس لڑکی کا چہرہ یاد نہ آیا جس کے عشق میں گرفتار ہو کر محبت نامے لکھنے کا الزام اس پر لگا تھا اور یاد آتا بھی کیسے جو چہرہ نظروں سے بھی گزرا ہی نہیں ، وہ ذہن کے پردے پر کیسے اپنی شبیہہ دکھلاتا۔
    بہت سوچ و بچار کے بعد اس نے شمائلہ سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ شمائلہ اس سے متنفر ہو۔ وہ اس کا اعتماد کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا تھا۔ وہ میمونہ کوشمائلہ کو بہکانے کا موقع ہرگز نہیں دینا چاہتا تھا۔ وہ بستر سے اٹھا اور کال ملاتے ملاتے کھڑکی پر جا کھڑا ہوا۔ کھڑکی کے کھلے پٹ سے آتی خوش گوار ہوا نے اس کے مزاج پر چھائی کثافت کو بھی تھوڑا دور کر ڈالا تھا۔ گھنٹی بج رہی تھی ، وہ اپنی بھیجی گئی صدا کو قبولیت کی سند ملنے کا منتظر تھا ۔
    ***********


    مت اٹھانا فون ، بالکل بھی نہیں اٹھانا ۔ ارقم کا نام اسکرین پر روشن ہوتے ہی شمائلہ نے بے اختیار موبائل تھاما اور بجلی کی کی سرعت کے ساتھ میمونہ نے اسے کال وصول کرنے سے روکا ۔کیوں ، کیوں نہ اٹھاؤں؟ مجھے بات کرنی ہے ارقم سے ۔ میں نے پوچھنا چاہتی ہوں اس نے ایسا کیوں کیا میرے ساتھ ۔ شمائلہ کا لہجہ بھیگا اور دل چھلنی تھا۔ میمونہ کے دل میں ٹھنڈ پڑ گئی، یہ اس کے لیے خوش آئند بات تھی کہ شمائلہ کے دل میں ارقم کی ہے وفائی کی گرد بیٹھ چکی ہے۔ وہ لوگ جب سے گھر آۓ تھے، تب سے ارقم کے حوالے سے ہی بات ہورہی تھی۔ ماموں مامی کو تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ارقم ایسا کچھ کر سکتا ہے۔ اس یقین دلانے میں بھی میمونہ کی چرب زبانی کا بڑا کمال تھا۔ ماموں ، مامی تو اب تھکن زده اعصاب کے ساتھ اپنے کمرے میں جاچکے تھے مگر وہ تب سے بی ارقم کے حوالے سے شمائلہ کے کان بھرنے جارہی تھی۔
    بے وقوف لڑکی وہ جب قبول ہی نہیں رہا تو وضاحت کیا دے گا۔ وہ تو صاف منکر ہے اپنی اس نیچ حرکت پر اور تم فورا اس سے بات کرلو گی تو وہ فوراً تمہیں بہلا لے گا اور آخر میں کیا ہوگا ۔۔۔۔ کہ تم یوں ہی اس کی باتوں کے جال میں پھنسی رہوگی اور وہ دوسری جانب اس لڑکی سے چکر بھی چلاتا رہے گا۔ میمونہ نے بہت تاک کر پا نسہ پھینکا تھا۔
    مگر ارقم ایسا نہیں ہے۔ وہ ایسا کبھی نہیں کرسکتا کہ مجھے محبت میں دھوکا دے یہ اس کے اندر سے کوئی تڑپ کر بولا ،شاید سسکتی محبت تھی۔
    ایسانہیں ہے تو پھر وہ خطوط کس خوشی میں اپنی پڑوسن کو لکھ ڈالے۔ سی آئی ڈی والوں نے کوئی نیا مشن اس کے حوالے کیا تھا کہ محلے کی لڑکیوں کو خط لکھو۔ ارقم ایسا نہیں ہے، اونہہ- میمونہ نے ہنکارا بھرتے ہوئے آخری فقرہ ادا کیا اور شمائلہ اس کی بات سن کر بجھ سی گئی ۔ واقعی ارقم نے وہ خط کیوں لکھے، کیا واقعی وہ پڑوسن کے عشق میں گرفتار تھا۔ سوال تو بہر حال اس کے ذہن میں اٹھتا تھا۔
    تم بہت ہی بے وقوف لڑکی ہوشمائلہ تمہیں تو فورا سمجھ لینا چاہیے کہ ارقم نے شادی میں اس لیے تاخیر کی کیونکہ اپنی پڑوسن سے دل لگا بیٹھا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ اب تمہاری خالہ نے ضد لگالی ہو تو وہ مجبوراً شادی پر راضی ہوا ہو۔ میمونہ ایک بار پھر سے اس کے نا پختہ ذہن سے کھیلنے لگی ۔ تواب اب میں کیا کروں؟ یوں ہی بیٹھ کر ٹسوے بہاتی رہوں ۔ میمونہ کی باتیں سن سن کرشمائلہ چرڑا اٹھی- ارے میری جان- تم بس وہی کرو جو میں تمہیں سمجھاؤں اور کہوں ۔ میمونہ نے اب اگلا پانسا پھینکنا شروع کیا۔ في الوقت اس سے کوئی بات نہ کرو۔ وہ مسلسل کال کرتا رہے گا ،ایک دو دن بعد بات کرو اور اس سے صاف صاف کہہ دو کہ اب تم یہ شادی اسی صورت میں کرو گی کہ جب وہ لڑکی ساری حقیقت سے پردہ اٹھاۓ ۔ تب وہ تم سے معافی مانگے اور اس لڑکی سے سارے رابطے ختم کرے تب جا کر تم اس شادی کے لیے راضی ہوگی ۔ میمونہ اب اسے پکی عمر کی عورتوں کی طرح سمجھارہی تھی۔
    دیکھوتمہارے اس سخت قدم اٹھانے اور فیصلے کے بعد ہی وہ اپنی پڑوسن سے تعلق مکمل طور پر ختم کرنے پر راضی ہوگا۔ اگر تم سے سچی محبت کرتا ہوگا ور نہ اس کے لیے تو بہت آسان ہے تم سے بھی شادی کرتا اور محلے کی لڑکی کو بھی پھنسا کر رکھتا ۔ غالبا شمائلہ نے پھر کوئی سوال اٹھایا تھا جس پر میمونہ نے جھنجلا کر جواب دیا۔ کچھ ہی پل لگے تھے شمائلہ کو میمونہ کے ذہن سے سوچنے ، نگاہوں سے دیکھنے میں ، بس باقی بچاتھا تو میمونہ کی
    زبان سے بولنا۔
    *********


    شناور دنیاۓ موسیقی میں راج کرنے کے خواب دیکھنے کا عادی تھا اور خوش قسمت تھا کہ اکلوتا ہونے اور بے حد لاڈلا ہونے کے باعث ماں باپ کی طرف سے مکمل سپورٹ حاصل تھی ۔اس سلسلے میں اس نے موسیقی کی تعلیم بھی حاصل کی ۔اب تک وہ چند گانوں کی ویڈیوز بنا کر سوشل ویب سائٹس پر اپلوڈ بھی کر چکا تھا۔ یہ اس کی آواز میں چھپا سوز تھا جو سننے والوں کو اس کا دیوانہ بنا ڈالتا تھا۔ وہ شہرت کی بلندیوں پر تو نہ پہنچا تھا مگر مسافراسی منزل کا تھا۔ ۔ حال ہی میں اس نے بے حد مقبول و معروف لوک گیت عشق آتش کو اپنی آواز میں گانے کا قصد کیا تھا اور اس گانے کو وہ اپنے سننے والوں کے ذہن میں امر کر ڈالنے کی خواہش رکھتا تھا۔ اس گانے کی ویڈیو کے لیے وہ ایک ایسی جگہ کا متلاشی تھا جسے دیکھتے ہی اس کے قلب و ذہن ایک ساتھ راضی ہوجائیں اور اس ایک خاص لوکیشن کی تلاش میں نگر نگر گھومتے گھومتے وہ وادی کو ہسار آ پہنچا تھا۔
    جب سے شناور نے اس گیت کے بول اپنے من میں اتارے تھے، تب سے وہ ایک انوکھی کیفیت کا شکار ہو چلا تھا۔ ایسی کیفیت جسے وہ کوئی نام نہیں دے سکتا تھا۔ اسے قدرت اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔ عام سے لوگ اسے خاص لگنے لگے تھے۔ مسکراہٹ اس کے لیوں پر چھائی رہتی۔ ایک دلفریب سا سرور اس کے من کو بھاۓ رکھتا۔ایک چنگاری سی اس کے اندرآ نچ دیتی رہتی ۔
    ہل ہلا کے عشق جو آیا
    محبت ڈاڈھا شور مچایا
    تھاہ تھاہ ناچ نچائی ہے
    یار ڈاڈھی عشق آتش لائی ہے


    اس دن شاہی قلعے میں جب وہ یہ گیت گا رہا تھا تو ایک مجمع سا اس کے اطراف جمع ہو گیا تھا۔ خواب واہ واہ ہوئی اور اس کی یہ کیفیت مزید پروان چڑھتی چلی گئی۔ میری چھٹی حس بار بار مجھے اس احساس سے دو چار کر رہی ہے جیسے عشق مجھے ہونے کو ہے۔ شاہی قلعہ سے لوٹے ہوۓ اس نے ہنستے ہوۓ زوار اور محسن سے کہا تھا۔
    میرے پیارے، یہ اس لوک گیت کا جادو ہے جو تیرے سر پر چڑھ کر بول رہا ہے۔اس لیے تجھےعشق سا محسوس ہورہا ہے۔ زوار نے ہنستے ہوئے اس کی کیفیت کا تجزیہ کیا تھا۔
    وہ شاہی قلعے کی تاریخ کے جھروکوں سے جھانکتے مناظر سے بھی مطمئن نہ ہوا تھا اور پھر وہ اسلام آباد پہنچ گیا۔ وہ ایسا ہی تھا۔ من کی مرضی پر چلنے والا۔ اسلام باد میں اسے لوکیشن سمجھ میں نہیں آئی مگر وہاں اسے سنہری لڑکی مل گئی۔
    کچھ چیزیں بلاوجہ ہماری زندگی میں شامل ہوجاتی ہیں مگر وہ بلاوجہ چیزیں آہستہ آہستہ ہماری زندگیوں کا اہم حصہ بنتی چلی جاتی ہیں جیسے کہ بانسری۔ بچپن میں اس کے محلے میں ایک بنجارہ آتا تھا، بانسری بجاتا محلے سے گزر جاتا۔ کچھ لوگ اس کی خوب صورت دھن سے متاثر ہوکر کچھ سکے اس کی جانب اچھال دیتے اور وہ ان سکوں کو جیب میں ڈال کر بانسری بجاتا چل پڑتا۔ وہ اپنی چھت پر کھڑا مبہوت سا اس دھن کو سنتا چلا جاتا۔ بانسری کی وہ دھن یوں ہی بلاوجہ اس کی زندگی میں شامل ہوتی چلی گئی اور اس کے دل میں خواہش پنپنے لگی۔ وہ ان مدھر لمحوں کے زیر اثر فلوٹ لوور بنتا چلا گیا اور آج جب وہ خود بانسری کی دھن کو اپنے لبوں پر ترتیب دیتا تھا تو اردگرد کے ماحول پرفسوں چھا جا تا ۔لوگ سحر انگیز سے اس کی جانب بڑھتے اور دم سادھے بانسری کی دھن سنتے چلے جاتے۔ جس طرح بانسری اس کی زندگی میں بلاوجہ داخل ہوکر اپنی جگہ بنا گئی، اس طرح وہ سنہری لڑکی بھی بلاوجہ نظروں کو بھا کر ذہن میں اپنا نقش چھوڑ گئی اور پھر اسی شب ہوٹل میں اس لڑکی سے اس کا سامنا ہوا۔ وہ اسے ٹھیک سے دیکھ نہ سکا مگر اس ایک سامنے کے بعد دل کو نہ جانے کیوں امید بندھ گئی تھی ، بار بار آمنا سامنا ہونے کی اور وادی کو ہسار کے پرہیچ راہوں سے گزرتے وہ سنہری لڑکی اسے پھر نظر آئی تھی اور وہ سوچ بیٹھا ، اس کے دل میں بانسری کی جوت جگانے والا بنجارہ اس دنیا کے ہجوم میں کھو کر اس کے دل میں لا کھ خواہش ہونے کے باوجود نہ ملا۔ دل کتنا چاہتا تھا کہ وہ بنجارہ اس کے سامنے بیٹھا ہواور وہ اس کے سامنے بیٹھا وہی دھن اپنے لبوں سے چھیڑ کر اسے حیران کر دے مگر لاکھ شدت کے باوجود اس کی یہ خواہش پوری نہ ہو پائی۔ شاید دل میں ابھرنے والی ہر چاہ قبولیت کا درجہ نہیں پاسکتی اور یہ دل میں ابھی بھی سانس لیتی چاہ ایک دم پوری ہو گئی۔ وہ سنہری لڑکی ایک بار پھر اس سے ٹکرا گئی۔
    یا الله- آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ وہ زیر لب مسکرا تا رب سے پوچھ بیٹھا۔ وادی کو ہسار میں اس کا استقبال برفیلی ہواؤں کے ساتھ ساتھ پھر سے اس سنہری لڑکی نے کیا تھا۔ اور اس ڈھلتی شب میں جب وہ عشق کی تان چھیٹر بیٹھا تھا تو تصور میں وہ وادی بھی اس کے سرور میں جھوم اٹھی تھی اور وہ سنہری لڑکی بھی…. اور پھر اس نے آنکھیں کھول دیں ۔خواب اور حقیقت ایک سے ہوں تو دل خوش قسمتی پر نازاں کیوں نہ ہو۔ سنہری مورتی مبہوت سی اس کے سامنے بیٹھی تھی۔ اور بے اختیاری اس پر بھی چھاتی چلی گئی۔
    اس نے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر رابطے کا نمبر اسے دے تو دیا تھا مگر وہ بخوبی جانتا تھا کہ وہ اس سے رابطہ نہیں کرے گی۔ وہ ان لڑکیوں میں سے نہیں تھی جن کا دل حہٹ پھسل جاتا ہو۔اتنا تو وہ بھی جان چکا تھا۔ اس کی چھٹی حس اسے باور کرا رہی تھی، یہ ٹکراؤ خالق کائنات کے کن فیکون کا نتیجہ ہے تو اپنی کوششیں چھوڑ اور رب کے آگے سرنگوں ہو جا۔ پھر دیکھ ہوتا کیا ہے اور شناور نے اپنا سر خالق کائنات کے آگے جھکا ڈالا تھا۔
    داؤد بھائی سے ان لوگوں کی اچھی علیک سلیک ہو چکی تھی۔ وہ ایک خوش اخلاق ، زندہ دل اور یاروں کے یارقسم کے انسان تھے اور یہ بھی حسن اتفاق تھا کہ داؤد بھائی اپنے اسکول گروپ کے ساتھ اس ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ جہاں وہ تینوں قیام پذیر تھے۔ داؤد بھائی نے اسے رات ہی مطلع کیا تھا کہ وہ نیومری میں واقع ایک ہل اسٹیشن کی طرف صبح سویرے نکلیں گے۔ساتھ ساتھ ان تینوں کو بھی ساتھ چلنے کی دعوت دے دی کہ ان خوب صورت جگہوں پر ساتھ گزرا وقت یادگار رہے گا ۔


    شناور نے بھی دعوت قبول کر لی تھی اور صبح سویرے وہ تینوں بھی داؤد بھائی کے اسکول گروپ کے ساتھ سفر کے لیے نکل پڑے۔ اس مرتبہ کوسٹر اور جیپ کا سفر ساتھ ساتھ طے ہورہا تھا۔ کچھ ہی گھنٹوں میں وہ لوگ ہل اسٹیشن پہنچ چکے تھے۔ یہ ہل اسٹیشن مزید بلندی پر واقع تھا اور یہاں لفٹ چیئرز اور کیبل کار کے ذریعے پہاڑوں کی بلند چوٹی تک پہنچا جا تا تھا یہاں کا نظارہ انتہائی دلکش اور حسین تھا۔ دھند میں لپٹی بھوری چوٹیوں کے سلسلے کشمیر کی پہاڑیوں سے ملتے دکھائی دیتے تھے۔ قد آور تناور چنار اور صنوبر کے درختوں سے لدا جنگل …… اور جنگل کے کچھ حصوں کا صفایا کر کے سیاحوں کے لیے بنایا گیا ہل اسٹیشن ۔ نیچے ہرے بھرے درختوں کے درمیان بڑی بڑی رنگ برنگی چھتریوں تلے میز اور کرسیاں جگہ جگہ بچھی ہوئی تھیں۔ کچھ کینٹین تھیں جہاں سے لوگ کھانے پینے کی اشیاء خرید کر کرسیوں پر بیٹھ کر ان خوشیوؤں سے مہکتی فضاؤں میں خود کو تازہ دم محسوس کرر ہے تھے-
    ایک طرف چٹانوں کو تراش کر چوڑی چوڑی سیڑھیاں بنائی گئی تھیں۔ جو بل کھاتی ہوئی اس مقام تک جاتی ہیں جہاں سے چیئر لفٹ کا سلسلہ شروع ہوکر مزید بلندی پر جا پہنچتا تھا اور بلندی پر واقع تھیں رونقیں ، رنگینیاں اور وہیں سے نظر آتا تھا جنت نظیر وادی کشمیر کے پہاڑوں کا نظارہ ……
    وہ لوگ بھی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے سنبل نے شناور کوکن انکھیوں سے دیکھا، وہ صنوبر کے درختوں کے جنگل سے گھرے میدان میں اپنے دوستوں کے ہمراہ جا رکا تھا سنبل نے کئی دفعہ اسے کن انکھیوں کی دیکھا مگر وہ اس کی جانب آج متوجہ نہ تھا۔ شاید وہ اس سے نارا ض ہو گیا تھا یا پھر نا امید….. اس نے اسے رابطے کے لیے نمبر دیا تھا مگر اس نے کوئی رابطہ نہ کیا۔ شاید اسی وجہ سے وہ اب اس سے اجنبیت برت رہا تھا۔ سنبل کے دل میں وہم پلنے لگا۔ تو کیا اسے شناور سے رابطہ کرنے میں پہل کرنا چاہیے۔ دل نے استفسار کیا۔ نہیں، بالکل نہیں کرنا چاہیے۔ وہ گلوکار ہے، کتنی ہی لڑکیوں سے رابطے میں رہتا ہوگا اور اس سے ابھی تعلق بنا ہی کیا ہے۔ صرف آنکھوں ہی آنکھوں میں تو چند ایک باتیں ہوئیں، پھر رابطہ کر کے کردار کیوں ہلکا کرنا اپنا۔ عقل نے جھٹ ڈ پٹا تھا اسے۔ ….. پھر کیا کرنا چاہے اسے ۔۔ دل اداس ہوا۔ کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ گھومو، پھرو، لطف اندوز ہو اور بس اپنی ذمہ داری نبھاؤ۔ عقل نے سخت گیر ٹیچر کا روپ دھارلیا تھا۔



  • #2
    اس کمرے کے در و دیوار پر خون کے چھینٹے پڑے تھے۔ کسی انسانی خون سے لت پت ہاتھ کے نشانات جا بجا موجود تھے۔ خون کی بو بھبھکے کی صورت نے نتھنوں سے ٹکرائی۔ایک جانب کچھ سڑی گلی ہڈیاں تھیں، کھوپڑیاں تھیں جو کونے میں پڑی ہوئی تھیں ۔ کمرے میں اندھیرا پھیلا تھا۔فقط چاندنی تھی جو کھڑکی کے ادھ کھلے پٹ سے جھرجھری لیتی جھانکتی تھی۔ کمرے کا منظر ان لوگوں پر ہیبت طاری کر چکا تھا۔ وہ لوگ چیختے چلاتے، گرتے پڑتے حویلی سے نکل کر بھاگے- گرتے بھاگتے اندھا دھند وہ لوگ جنگل سے نکلے ہی تھے کہ پریشان حال چچا شکور سے
    جا ٹکراۓ۔ وہ بے چارے وارث کو ڈھونڈنے نکلے تھے، وہ اب تک گھر نہ آیا تھا۔
    چچا شکور کی پریشانی دیکھ کر ان لوگوں کو ساری حقیقت بتانی پڑی۔ وارث کا حویلی میں جانا ، واپس نہ لوٹنا اور پھر حویلی کے بند کمرے کا خون میں لت پت ہونا ، سب کچھ وہ لوگ چاشکور کے گوش گزار کر چکے تھے۔ اس پل نوعمری کا جوش، وارث کو کھونے کی صورت میں اڑنچھو ہو گیا تھا اور جواں عمری کا خوف چا شکور کو دیوانہ وار روتا گڑگڑاتا حویلی کی جانب بھاگتا دیکھ کر رگوں میں سرایت کر چکا تھا۔ سینے میں شرابور نور محمد اور ساتھیوں کی ہمت اتنی نہ تھی کہ بوڑھے باپ کا ساتھ دے سکیں۔


    وہ لوگ خود تو کسی طرح گھر آ گئے مگر دل چچا شکور میں اٹکا رہا۔ اگلا دن مزید قیامت خیز ثابت ہوا۔ چچا شکور کی لاش جنگل سے ملی تھی۔ کسی نے بے حد بے دردی سے انہیں مار ڈالا تھا۔ جسم پر زخموں کے نشان بے حد عجیب وغریب تھے۔ بیٹا اس حویلی میں جا کھویا تھا اور بوڑھا باپ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ اس ہولناک واقعے کے بعد وادی کے لوگ اس حویلی کو منحوس سمجھنے لگے تھے۔ وہ اس کے اردگرد سے گزرنا تو دور اس کی طرف نگاہ کرنا بھی خود کے لیے برا سمجھتے تھے-
    آج بھی جب اس حویلی سے چیخیں ابھرتی تھیں تو نور کے پسینے چھوٹ جاتے کیونکہ اس کے سینے میں وہ راز بھی دفن تھا جس کی بھنک وادی کے لوگوں کو اب تک نہ پڑی تھی۔ اس رات لہولہو درودیوار ، ہڈیوں اور کھوپڑیوں کے علاوہ کچھ اور بھی تھا جو نور محمد کی دہشت زدہ نظروں سے گزرا تھا۔
    ************
    اسے حال ہی میں ایک انتہائی اہم کیس کے سلسلے میں اسلام آباد ہنگامی طور پر پہنچنا تھا۔ یہاں سے جانے سے قبل وہ ایک دفعہ شمائلہ سے ملنا چاہتا تھا مگر وہ بھی نہایت ہی عجیب لڑکی واقع ہوئی تھی۔ ملنا تو دور کی بات وہ اس سے بات کرنے کی بھی روادار نہ تھی اور اس کی اس بے اعتباری پر ارقم کا خون بری طرح کھول اٹھا۔
    یعنی کہ حد ہوگئی تھی بے اعتباری کی۔ بچپن سے لے کر جوانی تک کا ساتھ صرف چند خطوط کے فتنے کا شکار ہوکر آخری سانس لے رہا تھا۔ وہ شمائلہ سے نادانیوں کی امید رکھتا تھا مگر اسے یوں بے اعتبار کر کے نظروں سے گرادینے کی امید اسے کبھی نہ تھی۔ جو کچھ بھی شمائلہ اس کے ساتھ کر رہی تھی ، یہ توقع نہ تھی ارقم کو اپنی محبت سے۔اس کا دل شمائلہ کے اس بے حس رویے پر بے حد دکھی تھا۔ آج ساری انا بالاۓ طاق رکھتے ہوۓ اس نے راحت خالہ کے گھر جانے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اب ڈرائنگ روم میں بیٹھا۔ ٹھنڈے ٹھار پانی کے ساتھر شمائلہ کے انتظار میں کوفت کا شکار ہور ہا تھا۔ ٹھنڈے پانی کا پہلا گھونٹ بھرتے ہی اسے احساس ہوا کہ خالہ کا رویہ اور لہجہ بھی پانی جیسا سرد تھا اور خالو نے تو اس سے ملنے آنے کی زحمت بھی نہ اٹھائی تھی ۔
    دیکھوتم وہی کہنا جو ماموں نے کہا ہے کہ جب تک وہ لڑکی واپس نہیں آ جاتی تب تک کوئی بات نہیں ہوگی اور ہاں جذبات میں آ کر اس کی کوئی بات نہ مان بیٹھنا ۔ میمونہ نے جب سے سنا تھا ، ارم شمائلہ سے ملنے آیا ہے تب سے مسلسل اس کے کان بھرے جارہی تھی یہ نہ جانے کب کب کی بھڑاس اس کے اندرموجود تھی جو ارقم کی کردارکشی کر کے نکل رہی تھی حالانکہ اس حقیقت سے وہ بخوبی واقف تھی کہ ارقم کردار کا ڈھیلا نہیں۔ خود میمونہ نے ارقم کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کتنی ہی کوششیں کر ڈالی تھیں مگر اس نے ہر دفعہ اس کی کوششوں کو نا کام بنادیا۔ میمونہ تو یہ بھی جانتی تھی کہ ارقم نے وہ خط نہیں لکھے، مرد کا کردار اس کی نظروں سے عیاں ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی وہ اس پر کیچڑ اچھالنے والوں میں سب سے آگے آگے تھی کیونکہ ارقم اگر اس کی جانب مائل نہیں ہوسکا تو وہ شمائلہ کو بھی اس شاندار شخص کا ہونے نہیں دینا چاہتی تھی۔ اس لیے اس نے شمائلہ کو اپنی لچھے دار باتوں کے ذریعے وہ سب کہنے پر راضی کر ڈالا جوارقم جیسے پختہ کردار کے حامل انسان کے دل کو ٹھیس پہنچانے کا ذریعہ بن سکتی تھیں ۔
    کیوں آۓ ہو تم یہاں؟ وہ منہ پھیر کر بولی۔ محبت کی لو دیتی ارقم کی آنکھوں میں جھانکنے سے وہ سخت پر ہیز کر رہی تھی۔
    تم اچھی طرح جانتی ہو شمائلہ کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں۔مجھے صرف اتنا بتاؤ کہ تمہارا اعتبارمجھ پر اتنا کمزور کیوں تھا کہ کسی کی بھی کہی ہوئی کوئی سی بات تمہیں مجھ سے بدظن کر گئی۔ ہماری محبت کو بے یقینی کا شکار کر دیا تم نے ۔ وہ اس کے چہرے پر گہری نگاہ جماۓ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا ۔
    اتنا دکھ ہے ہیں اگر اس بے اعتباری اور غیر یقینی پرتو خود بتاؤ کیوں کیا تم نے میرے اعتبار کا خون؟ میری محبت کا مذاق بنا کر رکھ دیا تم نے ارقم رحمان! محبت کے دعوے مجھ سے کرتے کرتے کیوں کسی اور کو بھی ہماری محبت میں شریک بنالیا تم نے- وہ بھی آج چیخ پڑی تھی ۔


    تم نے کیسے یقین کرلیا کہ اس ٹیکنالوجی کے دور میں کسی لڑکی کو خطوط لکھوں گا۔ وہ بھی ایک عدد منگیتر کے ہوتے ہوے- اتنا فارغ اور پاگل لگتا ہوں میں تمہیں ۔ آواز ارقم کی بھی بلند ہوئی تھی۔
    تمہیں دنیا سے ہٹ کر چلنے کا شوق ہے ناں۔ تم ایسا کر بھی سکتے ہوارقم- وہ منہ پھیر دو بدو جواب دے رہی تھی۔ یہ جانے بغیر کہ اس کا یہ کٹیلا لب ولہجہ ارقم کے دل کو چیر رہا ہے۔
    یقین نہیں آ رہا کہ تمہاری بدگمانی اس حد تک بڑھ چکی ہے ، سچ سے بتاؤ۔ اب کیا چاہتی ہوتم ۔ وہ اب اس کے سامنے رو برو کھڑا اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پوچھ رہا تھا۔
    اب ہمارے رشتے کے بنے بگڑنے کا فیصلہ اس لڑکی کی گواہی پر ہوگا۔ جب تک وہ نہیں آ جاتی ، میں تم سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔ میں نہیں چاہتی کہ میں پھر سے تمہاری چکنی چپڑی باتوں میں پھنس کر ساری عمر تمہارے ہاتھوں بے وقوف بنتی رہوں۔ جب تک حقیقت سامنے نہیں آ جاتی تب تک بھول جاؤ مجھے ارقم رحمن- وہ من وعن وہی کہہ رہی تھی جو میمونہ نے اسے سکھایا تھا۔ میمونہ دروازے کی اوٹ سے ان دونوں کی ساری باتیں سن رہی تھی۔ شمائلہ کی پر فارمنس اس کی مرضی کے مطابق تھی ۔
    ٹھیک ہے اگر یہ ثابت ہو گیا کہ وہ خط میں نے لکھے ہیں ، پر…. پھر کیا کرو گی تم ؟ یقینا یہ بھی سوچ رکھا ہوگا تم نے- ارقم کی کنپٹی کی رگیں تن گئی تھیں شمائلہ کے خیالات جان کر۔ وہ اب صرف یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ شمائلہ کے دل میں کتنا ز ہر بھر چکا ہے اس کے خلاف۔ تمہیں اس وقت مجھ سے سب کے سامنے معافی مانگنے ہوگی اور اس لڑکی سے اپنا ہر طرح کا نا جائز تعلق ختم کرنا ہوگا۔ وہ اب اس کی آنکھوں میں جھانکتی ٹھوس لہجے میں کہہ رہی تھی۔
    اور اگر اس نے صاف کہہ دیا کہ یہ خط میں نے نہیں لکھے پھر؟ وہ مزید دو قدم آگے ہوا تھا۔ دونوں ہاتھ سینے پر باندھے وہ چبھتے ھوۓ لہجے میں پوچھ رہا تھا۔
    اللہ کرے ایسا ہی ہو، پھر تو سارا مسئلہ ہی ختم ہو جاۓ گا۔ وہ بے ساختہ کہہ اٹھی۔ ارقم طنزیہ انداز میں مسکرادیا۔
    ٹھیک ہے مجھے تمہاری شرط منظور ہے۔ اگر یہ ثابت ہوا کہ خط میں نے لکھے ہیں تو میں سب کے سامنے معافی مانگوں گا تم سے مگر دوسری صورت میں تمہیں بھی میری شرط مانی ہوگی ۔ ارقم نے بھی اب دوٹوک لہجہ اختیار کرتے ہوۓ کہا۔


    کیسی شرط؟ شمائلہ چونک اٹھی۔
    اگراس لڑکی نے میرے حق میں گواہی دی تو تمہیں مجھ سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ پھر بھول جانا کہ میری اور تمہاری شادی ہوگی۔ جس طرح معافی سب کے سامنے مانگوں گا، اسی طرح دوسری صورت میں شادی سے انکار بھی سب کے سامنے کروں گا- وہ درشت لہجے میں کہتا ایک تیز نظر شمائلہ اور پھر دروازے کی اوٹ سے جھانکتی میمونہ پر ڈال کر تن فن کرتا وہاں سے چلا گیا۔
    دم سادھے کھڑی شائلہ کو اپنے جسم سے روح کھنچتی محسوس ہوئی۔ یہ کیا کہ گیا ارقم ؟ حیرت زدہ تھی یا غم زدہ اسےاپنی کیفیت خود سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ وہیں صوفے پر ڈھے گئی۔
    ارقم گھر لوٹا تو اسے علم ہوا کہ راحت خالہ کی آمد
    اور اس کے فیصلے کی خبر پہلے ہی عفت آرا کوفون کے
    ذریعے سنا چکی ہیں اور عفت آ را گھر کے باقی لوگوں
    کے ہمراہ اس سے سوال جواب کے لیے بے چینی سے منتظر تھیں-
    تم ایسا فیصلہ کیسے کر سکتے ہو ارقم- تم اپنے الفاظ واپس لو- عفت آرا نے اسے بے یقینی سے دیکھتے ہوۓ کہا۔ میں اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہوں۔ بالکل اسی طرح جیسے آپ سب میرے حوالے سے راۓ قائم کرنے میں آزاد ہیں ۔ ارقم نے تلخی سے جواب دیا۔
    تم پاگل ہوگئے ہو ارقم- تمہیں ذرا بھی احساس نہیں کہ کیا کر آۓ ہو- تم نے راحت کے گھر جا کرشمائلہ کو شادی سے انکار کیوں کیا۔ ایک کہرام برپا ہے وہاں ۔ رحمن احمد نے بھی چپ کی نقل توڑی اور غصے سے گرجے ۔ مگر وہ ان سب کی باتوں کو نظر انداز کرتا سیڑھیاں چڑھتا او پراپنے کمرے میں آ گیا۔ عفت آرا اس کے پیچھے پیچھے کمرے کے اندر داخل ہوئیں۔ ارقم نے کمرے میں آ کر بڑی پھرتی کے ساتھ ہینڈ بیگ الماری کے اوپر سے اتارا اور اس میں اپنے کپڑے بھرنے لگا۔ یہ منظر دیکھ کر عفت آرا کے اوسان خطا ہو گئے۔
    یہ تم اپنے کپڑے کیوں پیک کررہے ہوارقم- تم کہاں جا رہے ہو آخر؟ ارقم خاموش رہا- عفت آرا کی بے چینی مزید بڑھتی چلی گئی- خاموشی پروہ اس کا بازو سختی سے تھام کر کہنے لگیں۔ میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں ارقم- میری بات کا جواب دو۔
    صبح سویرے کی فلائٹ ہے، مجھے اسلام آباد ایک انتہائی اہم کیس کے سلسلے میں جانا ہے۔ کچھ دن وہیں رہوں گا میں ۔ ارقم نے انتہائی مختصر الفاظ میں انہیں آگاہ کیا۔
    تم اسلام آباد جارہے ہو اور مجھے اب بتا رہے ہواور پرجو جاتے جاتے اتنا بڑا بکھیڑا کرکے جارہے ہو، اسے کون سمیٹے گا۔ وہ اب اسے شا کی نظروں سے دیکھتے ہوۓ خشکی سے پوچھ رہی تھیں ۔ کون سا بکھیڑا؟ میں تو سارے بکھیڑے سمیٹ کر جارہا ہوں ۔ ارقم نے قطعیت سے کہا۔
    شمائلہ سے رشتہ ختم کر کے تم نے کون سا بکھیڑا سمیٹا ہے۔ وہ اب گھورتے ہوۓ پوچھ رہی تھیں ۔
    ارقم اپنے سارے کام روک کر وہیں کرسی پر بیٹھ گیا اور ٹھر ٹھر کر کہنے لگا ۔ دیکھیں امی- شمائلہ اور میرا رشتہ اب شرطوں کی کمزور بنیاد پر جا کھڑا ہوا ہے اور یہ کمزور بنیادیں میں نے نہیں کھڑی کیں۔ آپ سب نے مل کر کھڑی کی ہیں ۔اتنے دنوں سے میں آپ سب کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ میرا ان فضول خطوں سے کوئی واسطہ نہیں ہے مگر صد افسوس آپ میں سے کسی ایک کو بھی میری بات پر یقین ہے نہ مجھ پر اعتبار ہے۔ آپ لوگوں کو احساس ہی نہیں ہے کہ آپ سب کی بے اعتباری سے میرے دل پر کیا گزر رہی ہے ۔ ٹہرے ٹہرے لفظوں کی بازگشت اچانک بلند ہوتی کمرے میں گونجنے لگی۔ دادی اماں اور رحمن احمد بھی اوپر اس کے کمرے میں آ گئے۔
    آپ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ میں خالہ کے گھر کیوں گیا تھا۔ میں شمائلہ کو سمجھانے گیا تھا ، اس دن سے لے کر کل رات تک میں اس سے رابطہ کر نے کی ہزار کوشش کر چکا ہوں ۔ مگر وہ مجھے مسلسل نظر انداز کر رہی تھی۔ آج میں نے اسے گھر جا کر سمجھانے کی کوشش کی مگر آپ کی بھانجی مجھے سے ہی اکھڑ گئی۔ جس حد تک وہ مجھے برا بھلا کہہ سکتی تھی اس نے کہا۔ میری محبت کی تذلیل کی ، میرے اعتبار کی دھجیاں اڑائیں، دو کوڑی کا کر کے رکھ دیا اس نے مجھے۔ میری کوئی بات سننے پر راضی نہیں۔ مجھ سے زیادہ اسے اس لڑکی پر یقین ہے جسے آج تک اس نے نہ دیکھا نہ سنا۔ اس لڑکی کی گواہی پر وہ ہمارے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ یہ شرط شمائلہ نے رکھی ہے کہ اگر اس لڑکی نے گواہی دی کہ یہ خط میں نے لکھے ہیں تو مجھے سب کے سامنے معافی مانگ کر اس لڑکی سے اپنے تعلقات ختم کرنے ہوں گے ۔ تب آپ کی بھانجی مجھ پر احسان عظیم کر کے شادی پر آمادہ ہوگی۔ یہ اوقات ہے اب آپ کے بیٹے کی، آپ کی بہن اور بھانجی کی نظر میں لیکن دکھ تو آپ لوگوں کو بھی نہیں ہوگا کیونکہ کچھ ایسی ہی سوچ تو آپ لوگوں کے ذہنوں میں بھی پنپتی ہے مجھ جیسے بد کردار بیٹے کے لیے- وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہہ رہا تھا۔ یہ سب کچھ تم سے شائلہ نے خود کہا ہے-


    عفت آرا حقائق جان کر ہکا بکا رہ گئیں۔ بہن نے انہیں صرف ارقم کی شرط کے حوالے سے آگاہ کر کے رونا پیٹنا شروع کیا تھا۔
    جی، اور اطلاعا عرض کروں کہ میں آپ کی بھانجی کی شرط مان چکا ہوں۔ جب میں اعلا ظرفی دکھا کر شرط مان چکا ہوں تو میری شرط ماننے میں آپ سب کو کیا اعتراض ہے ۔ وہ اب ان تینوں کو باری باری سوالیہ نگاہوں سے دیکھتے ہوۓ پوچھ رہا تھا۔
    میرے بچے تم نے کیا شرط رکھی ہے۔ مجھے تو تمہارے اماں ابا کچھ بتا ہی نہیں رہے۔ دادی اماں اس کا ہاتھ نرمی سے تھام کر فکر مندی سے پوچھنے لگیں۔ دادی میں نے کہہ دیا ہے کہ اگر اس لڑکی نے گواہی میرے حق میں دے دی تو شمائلہ کو مجھ سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ میں اس دن سب کے سامنے اس سے شادی سے انکار کر دوں گا اور یہ فیصلہ میں نے جذباتی پن میں نہیں کیا۔ بہت سوچ سمجھ کر میں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ جولڑکی اتنے کچے ذہن اور دماغ کی ہے کہ کسی غیر کی باتوں میں آکر ہمارے رشتے کو برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے، وہ کیسے عمر بھر کا ساتھ نباہ سکتی ہے۔ میں نے شمائلہ کو اپنا سب سے قریبی دوست سمجھا تھا، مگر آج اس نے ثابت کر دیا کہ میں غلط تھا۔ میں اس جیسی ناعاقبت اندیش لڑکی سے جو ہنستی مسکراتی زندگی کو جہنم کی آگ میں جھونکنے کی صلاحیت رکھتی ہو، کوئی رشتہ رکھنا نہیں چاہتا۔ وہ کہتے کہتے لمحے بھر کو خاموش ہوا۔
    ویسے آپ لوگوں کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ سب کا تو کامل یقین ہے کہ وہ خط میں نے لکھے ہیں اور غالب امکان بھی یہی ہے کہ اس لڑکی کی گواہی بھی مجھ پر الزام تراشی پر مبنی ہوگی-
    تو پھر آپ لوگوں کو فکر کس بات کی ۔ آپ خالہ کو تسلی دے دیجیے گا کہ کہرام ان کی بیٹی کی زندگی میں نہیں ، میری زندگی میں برپا ہوا ہے ۔ اتنا کہہ کر وہ ان سب ہے۔ کو مخمصے میں ڈال کر کمرے سے باہر چلا گیا۔ سچ تو کہہ رہا ہے ارقم- شمائلہ نے بھی تو حد کر دی۔ اس طرح کی باتیں رشتے بناتی نہیں ، بگاڑتی ہیں۔ ارقم تمہاری بہن کے لیے غیر تو نہیں عفت- آج تک ارقم نے کبھی اخلاق سے گری حرکت نہ کی ۔ انتہائی سمجھ دار ہے میرا پوتا، مگر تم دونوں ماں باپ بھی حد کرتے ہو۔ بچے کو اس حد تک بےاعتبار کر ڈالا ہے کہ کوئی بھی اس کے کردار پر انگلیاں اٹھا بیٹھے۔ بالکل صحیح فیصلہ کیا ہے ارقم نے۔ میں تو اپنے پوتے کے ساتھ ہوں، جسے جو کرنا ہے کر لے۔ دادی اماں پررعب انداز میں بیٹا بہو کو جھاڑ پلاتی بڑبڑاتے ہوۓ کمرے سے باہر نکل گئیں۔ان کے جانے کے بعد دونوں میاں بیوی شرمندگی سے ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے ۔
    ارقم صبح سویرے کی فلائیٹ سے اسلام آباد پہنچا۔ مارگلہ کی پہاڑیوں سے ٹکراتی خوشبوؤں میں بنی ہواؤں نے اس کا پر جوش استقبال کیا تھا۔ گزشتہ دنوں وہ جس ذہنی کرب سے گزرا تھا اس کا اثر یہاں آ کر رفتہ رفتہ زائل ہورہا تھا۔ ویسے بھی وہ اعصابی طور پر مضبوط انسان تھا۔ زندگی کی پریشانیوں کو خود پر حاوی نہ ہونے دیتا تھا۔ فی الوقت وہ ذہنی طور پر کافی پرسکون ہو چکا تھا۔ اسلام آباد آتے ہی اسے شان کا خیال آیا۔ شان اس کے بچپن کا دوست تھا۔ اسلام آباد میں تو نہیں مگر لاہور میں وہ کچھ عرصہ قبل اپنی فیملی کے ساتھ رہائش اختیار کر چکا تھا۔ وہ اسے کال ملا بیٹھا۔ شان سے کافی دیر تک بات ہوتی رہی۔ وہ اس وقت شہر سے باہر تھا۔ چند ایک دنوں میں اس نے اسلام آباد کرارقم سے ملنے کا وعدہ کیا تھا۔ ارقم اسے اپنے اسلام آباد آنے کے مقاصد اور ان کی تفصیل مختصرا آگاہ کر چکا تھا۔ کافی دیر تک بات ہونے کے بعد رابطہ منقطع کر کے وہ اب لیپ ٹاپ کھولے اسکرین کی جانب متوجہ تھا۔ بریف کیس سے کچھ انتہائی اہم دستاویز نکال کر اس نے اپنے سامنے میز پر پھیلائیں۔ دفعتاً اس کا موبائل بج اٹھا۔ آنے والی کال ادارے کی جانب سے آئی تھی، وہ کال پرمصروف ہو گیا۔ وہ انسانی اسمگلنگ کے کیس پر گزشتہ پینتالیس دنوں سے کام کر رہا تھا۔ انسانی اسمگلنگ ایک گھناؤنا اور قبیح کاروبار تھا اور اس دھندے میں ملوث شیطان کے پجاری، انسانی درندے روز بروز انسانیت کو کھائے چلے جارہے تھے۔
    ارقم کا مقابلہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایسی ہی کالی بھیڑوں سے تھا جن کا شکار عموما معصوم بچے غربت کا شکار افراد اور نوجوان لڑکیاں تھیں ۔ ان حرماں نصیبوں کو اغوا کے بعد بدترین انسانیت سوز ، جنسی، جسمانی اور ذہنی تشدد کا شکار بنایا جاتا اور پھر انہیں بین الاقوامی سطح پر فروخت کر دیا جا تا ۔ قصہ اتنا ہی مختصر نہ تھا۔ ان کی زندگی حیوانوں اور کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر کر دی جاتی ہے۔ بنیادی طور پریہ ایک بیما معاشرے کی بنیاد ڈالنے کا منصوبہ تھا جو چور راستوں سے نہایت تیزی کے ساتھ نمو پارہا تھا۔ عموماً یہ شیطانی کاروبار تیسرے درجے کے ممالک میں زیادہ پھل پھول رہا تھا۔
    حال ہی میں بڑھتے ہوۓ انسانیت کو دہلا دینے والے، لرزہ خیز واقعات نے کریمنل انویسٹی گیشنل ڈیپارٹمنٹ کو بھی انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کر ڈالا تھا اور ادارے نے ان انسانیت کے دشمنوں کی سرکوبی کے لیے انتخاب ارقم کا کیا تھا۔ ارقم کے ہمراہ ایس کی پوری ٹیم اس اہم نوعیت کے کیس پر کام کررہی تھی، جس نے اپنے مخبر مختلف علاقوں میں پھیلا رکھے تھے اور آج اسلام آباد پہنچتے ہی ارقم کو کئی اہم اطلاعات بھی موصول ہوئی تھیں ۔
    **********


    عقل جیسے سخت گیر استاد کے ساتھ ہونے کے باوجود دل بغاوت پر آمادہ تھا۔ بھلے سنبل نے شناور سے رابطہ نہ کیا تھا مگر اس بات پر وہ خوشی سے پھولی بھی نہ سمائی تھی کہ جس شخص کی ایک نظر کی وہ متمنی تھی۔ وہ شخص خود اس کی توجہ کا مرکز تھا۔ ساری رات اس نے شناور کوسوشل ویب سائٹس پر تلاشا۔ اگر وہ فن گلوکاری سے تعلق رکھتا تھا تو لازمی طور پر اسے ان سوشل ویب سائٹس پر موجود ہونا چاہیے تھا۔ مگر اسے حیرانی نے گھیر لیا کیونکہ شناور ان ویب سائٹس پر کہیں بھی نہ تھا-
    ان ہی سوچوں میں غلطاں وہ بار بار پلٹ کر پیچھے ان تینوں کو تلاشتی تھی مگر وہ لوگ بلندی پر جانے کے بجاۓ نیچے ہی کہیں رہ گئے تھے۔ اپنی اس بے اختیاری کیفیت پر وہ جھنجلا اٹھی اور سر جھٹک کر بچوں کی جانب متوجہ ہوگئی۔ اسی اثناء میں اس کا فون بج اٹھا۔ کال گھر سے آئی تھی، وہ اپنی خیر خیریت سے اماں بابا کو آگاہ کرنے لگی۔ کچھ دیر مزید بات کر کے اس نے کال منقطع کر دی۔ ان سب نے بچوں کا گروپ مساوی تقسیم سے بانٹ رکھا تھا۔ مسز صدیقی اپنے بچوں کے گروپ کے ساتھ چیئر لفٹ پر سوار ہوکر مزید بلندی پر جا پہنچی تھیں ۔ ان کے بعد باری ماہین کی تھی جو آدھے سے زائد اسٹوڈنٹس کو لفٹ چیئر پر سوار کر چکی تھی اور باقیوں کو روانہ کرنے کے لیے قطار میں کھڑی تھی سنبل بھی اپنے اسٹوڈنٹس کو لے کر قطار کی جانب بڑھنے لگی ۔ مس رکیے- بیا اور سارا ان درختوں کی طرف گئی ہوئی ہیں اور ابھی تک نہیں لوٹیں ۔ ان میں سے ایک اسٹوڈنٹ نے فورا اسے آگے بڑھنے سے روکا اور وہ بری طرح ٹھٹک گئی۔۔۔
    بلا وجہ وہ لوگ کیوں گئیں اس طرف ۔وہاں تو گھنے درخت ہیں۔ آگے جنگلات کا سلسلہ شروع ہے- وہ بری طرح گھبرائی تھی۔ اشارہ کیے گئے درختوں کی جانب نگاہ دوڑائی مگر سارا اور بیا کا کہیں اتا پتا نہ تھا۔
    تم لوگ یہیں رکو، میں ان دونوں کو لے کر آتی ہوں۔ وہ ان سب کو ماہین کے اسٹوڈنٹس گروپ کے ساتھ قطار میں لگا کر ان درختوں کی جانب بڑھ گئی۔ ماہین کو قصدا اس نے نہیں بتایا تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ بات پھیلے۔ یہ سراسر اس کی ذمہ داری تھی کہ بچوں پر نظر رکھے اور وہ فضول سوچوں میں گھرکرغفلت برت گئی ۔
    وہ تیز قدموں سے درختوں کے ان سلسلوں کی جانب بڑھ رہی تھی اور ان دونوں کو صدالگارہی تھی۔ بیا، سارا…. مگر جواب میں اس کی صدائیں واپس اس کی سماعتوں سے ٹکرا رہی تھیں ۔ اف یہ دونوں کہاں چلی گئیں؟ اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔
    وه قطار در قطار گھنے جنگل کے بیچوں بیچ گھستی چلی گئی۔ آگے گھنا جنگل تھا۔ اس قدرگھنا کہ دن کے اجالے میں بھی گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا۔ بس ذرا ذرا سے فاصلے پر کچھ پیڑوں کے پتوں سے کرنیں زبردستی چھن چھن کر اندر آ جاتیں اور یوں جگہ جگہ کچھ روشنی پھیلتی چلی جاتی ۔ سارا، بیا….. اس نے ایک بار پھر صدا لگائی۔ اس بار بہت دور سے ایک منحنی سی چیخ اس کی سماعتوں سے ٹکرائی ۔سنبل کا دل اچھل کر حلق میں جا اٹکا۔
    سارا، بیا………. تم لوگ کہاں ہو؟ اس بار وہ حلق کے بل چلاتے ہوئے تیز تیز قدموں سے اس سمت کی جانب بڑھنے لگی جہاں سے وہ باریک چیخ سنائی دی تھی ۔ وہی منحنی سی آواز ایک بار پھر سنائی دی۔ تیزی سے بڑھتے قدموں میں مزید پھرتی آ گئی۔ یک دم اسے پیچھے کسی کے قدموں کی کی آواز سنائی دی ۔ سنبل نے بے اختیار پلٹ کر دیکھا ، اس سے ذرا فاصلے پر ایک شخص نقاب باند ھے اس کے پیچھے چلا آ رہا تھا۔
    سیاہ گھنگھور جنگل ……. اور اجنبی قدموں کی خوف زدہ کر دینے والی سرسراہٹ ۔ سنبل کی چھٹی جس نے آنے والے خطرے کوبھانپ کر کافی دیر بعد اسے آ گاہ کیا تھا۔
    اس کے قدموں کی رفتار مزید تیز ہو گئی تھی یہاں تک کہ وہ بھاگنے لگی ۔ تعاقب میں آتی ان پراسرار قدموں کی آواز بھی تیز ہونے لگی ۔ اندھا دھند بھاگنے کے باعث اسے اچانک ٹھوکر لگی تھی اور وہ گر پڑی تھی۔ ایک دل خراش چیخ اس کے حلق سے برآمد ہوئی جو جنگل کی خاموشی کو چیرتی فضاؤں میں مدغم ہوگئی۔ قبل اس کے کہ وہ اٹھتی ، وہ شخص اس پر جھکا تھا ، اس کے گردا پنی گرفت کس چکا تھا۔ وہ کسی ماہی بے آپ کی طرح تڑ پتی خود کو آزاد کرانے کی کوشش میں اس شخص کا نقاب نوچ بیھٹی-
    اس کے نین کٹوروں میں بے ساختہ شناسائی اور بے یقینی کی لہریں ایک ساتھ اٹھنے لگیں اور اس کے کپکپاتے لبوں سے بے ساختہ اس کا نام ادا ہوا۔ اس شخص کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ کھیل گئی۔
    *************


    سنبل جب کافی وقت گزرنے کے بعد بھی نہ آئی تو بچیوں میں کھلبلی مچ گئی۔ انہوں نے سارا معاملہ ماہین اور داؤد بھائی کے سامنے گوش گزار کر ڈالا۔ ماہین اور داؤد بھائی کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔ داؤد بھائی نے فورا سے پیش تر مسز صدیقی کو اس واقعے سے آگاہ کیا۔ اس طرح اسکول ٹیچر اور اسٹوڈنٹس کا کھوجانا، ان سب کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھا۔ داؤد بھائی کی چھٹی حس بار بار گواری دے رہی تھی کہ کچھ برا ہونے کو ہے۔ اگر وہ لوگ بھٹکے ہوتے تو اب تک مل جاتے ۔انہوں نے تو جنگل کے آگے جا کر بھی ان لوگوں کو تلاش کیا تھا، تب ہی اچا نک انہیں شناور اور اس کے ساتھیوں کا خیال آیا۔ انہوں نے ان لڑکوں سے جو تعلقات بڑھائے تھے اس کی ایک بڑی وجہ ان تینوں لڑکوں کا ساتھ میسر ہونا تھا۔ اس پورے اسکول گروپ میں وہ اکیلے مرد تھے اور اس ناتے ساری ذمہ داریاں ان کے کاندھوں پر عائد ہوتی تھیں ۔ایسے میں وہ تین لڑکے انہیں قسمت سے مل گئے تھے۔ وہ تینوں کھلنڈر سے ضرور تھے مگر اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ایسے لڑکوں کا ساتھ اگردوران سفر بھی مل جاۓ تو کیا ہی بات ہے۔ اس نظریے کے تحت انہوں نے شناور اور اسی کے دوستوں کو ہل اسٹیشن ساتھ چلنے کی دعوت دی کی اور اب اس آڑے وقت میں انھیں بے اختیاران تینوں کا خیال آیا تھا۔ اس اجنبی دیار میں اس واقعے کے بعد و آسانی سےکسی غیر پر اعتماد نہیں کر رہے تھے، اس وقت انہیں شناور اور اس کے ساتھیوں کی اشد ضرورت تھی ، وہ شناور کا نمبر ملانے لگے۔
    **********
    سنبل سے بات ہوئی تو… مگر اس کے لہجے اور باتوں سے ذرا بھی محسوس نہیں ہورہا تھا کراسے ارقم کی شادی کا کوئی غم ہے بلکہ وہ تو بے حد خوش تھی ۔ حبیبہ کہیں ہمیں کچھ سمجھنے میں غلطی تو نہیں ہوئی ۔ اشتیاق عالم ہاتھ میں موبائل تھامے فکر مندی سے کہہ رہے تھے۔ کچھ دیرقبل ہی ان دونوں کی بیٹی سے بات ہوئی تھی اور بات ہو جانے کے بعد دونوں گم سم بیٹے تھے۔ بہت سوچ بچار کے بعد اشتیاق عالم نے بالآخر دل کی بات کہہ ڈالی ۔
    میں بھی یہی سوچ رہی ہوں۔ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ سنبل غم زدہ ہو گی مگر الحمد للہ وہ تو خوش ہے۔ لیکن اسں دن بات کرتے کرتے وہ پھر خاموش کیوں ہوگئی تھی ، اچانک اور پھر لائن منقطع ہوگئی تھی۔ جیبہ کا ذہن پھر اس دن کی بات پر جا اٹکا-
    ارے بھئی وہ یقینا نیٹ ورک کا مسئلہ ہوگا ۔ ان علاقوں میں تو نیٹ ورک ملتا ہی بہت مشکل سے ہے لیکن مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ ہم نے جذباتی پن میں غلط فیصلہ کر ڈالا ہے۔ اشتیاق عالم اب کسی نتیجے پر پہنچتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
    لگ تو مجھے بھی کچھ ایسا ہی رہا ہے۔ میں نے تو باتوں باتوں میں ارقم کا ذکر بھی کیا مگرسنبل نے کوئی اہمیت نہ دی۔ اب تو مجھے بھی لگ رہا ہے کہ ہمیں سمجھنے میں غلطی ہوگئی ہے ۔ حبیبہ بھی پشیمانی کے زیر اثر کہنے لگیں-
    اور اگر غلطی ہوئی ہے تو سب سے بڑے مجرم ہم اس لڑ کے ارقم کے ہیں، جسے اس کے سسرال والوں کے سامنے ہم نے اتنا برا بھلا کہا اور کردار پر انگلی اٹھائی۔ صرف یہی نہیں ساتھ ساتھ اپنی بیٹی کو بھی خوب بدنام کر ڈالا۔ اشتیاق عالم تاسف سے کہہ رہے تھے-
    مجھے تو خود شرمندگی ہورہی ہے، کیا کر یں۔ چل کر معذرت کر لیں ۔ حبیبہ بھی شرمسارسی استفسار کر بیٹھیں۔
    نہیں، ہمیں سنبل کے لوٹنے کا انتظار کرنا چاہیے۔ پہلے کی طرح جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ اب ان خطوط کے راز سے پردہ سنبل ہی اٹھاۓ گی۔ اشتیاق عالم نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
    کچھ یہی منظر راحت آرا کے گھر کا بھی تھا۔ وہ سر جھکائے پریشان سی بیٹھی تھیں ۔ تیمور حسن متفکر سے مسلسل بولے جارہے تھے اور میمونہ ان کے غصے کومسلسل آنچ دیتی شعلہ بار لقمے دیتے جارہی تھی۔ کیا ضرورت تھی شمائلہ کو اتنا بڑ بڑ بولنے کی ۔ جوان خون ہے نہیں سہہ سکا اتنی ذلت ۔ کر گیا ناں فیصلہ آخر اور راحت – تم بھی کم نہ ہو۔ اس دن ارقم آیا اور تم نے مجھے بتایا بھی نہیں، اس کم عقل کو آگے کر دیا۔ تیمور حسن گرج رہے تھے اور راحت خاموشی سے سن رہی ہیں ۔
    جب میں نے کہہ دیا کہ جو بھی بات ہوگی اس لڑکی کے آنے کے بعد ہوگی پھر شمائلہ نے وہ شرط کس سے پوچھ کررکھی۔ میں مر گیا ہوں کیا جو فیصلہ کر نے وہ خود چلی تھی ۔ شرطوں پر فیصلے ہوں گے اب ، واہ- تیمورحسن کا غصہ کسی صورت کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا-
    ماموں جان- اب ممانی بھی کیا کریں۔ اپنی ضد اور مرضی کے آگے وہ کسی کی سنتی بھی کہاں ہے۔ میمونہ نے جلتی پرتیل چھڑ کا۔
    سارا قصور تمہارا ہے راحت- تم نے شمائلہ کواتنا سر پر چڑھا کر رکھا ہے کہ اسے اب کوسچ غلط کی تمیز ہی نہیں رہی ۔ بھانجی کی بات سن کر وہ ایک بار پھر راحت آرا پر لفظوں کی گولہ باری برسانے لگے۔ راحت آرا نے ایک نا گوار نگاہ نیک پروین بنی بیٹھی میمونہ پر ڈالی اور ہمت کر کے بولیں ۔
    جو ہو گیا اسے چھوڑیں۔ اب آگے کی سوچیں کہ کرنا کیا ہے ۔ ارقم جذبات میں آ کر اتنی بڑی بات کہہ گیا۔ آپا اور رحمن بھائی سے بات تو کرنی ہوگی ناں-
    ظاہر ہے، بات تو کرنی ہوگی ۔ چھوڑا تو نہیں جاسکتاناں اس مسئلے کو ایسے،مگر راحت آراتم بھی ہوش کے ناخن لو اور اپنی بیٹی کو سمجھا ؤ کہ اب تک یہ ثابت نہیں ہوا کہ ارقم کا اس لڑکی کے ساتھ کوئی معاشقہ ہے بھی یا نہیں۔ یہ صرف ایک شبہ ہے جیسے سچ یا غلط اس لڑکی کی بات جاننے کے بعد ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر ارقم اپنی بات پر سچا ٹھہرا تو ہم سب اس کے آگے شرمندہ ہیں کہ ہم نے اس کا اعتبار نہ کیا اور جو شرط وہ لاگو کر کر چکا ہے۔ اگر وہ اپنی شرط پر قائم رہا تو بدنامی ہماری بیٹی کا مقدر بنے گی۔ رشتہ ختم ہونے کی کیا وجہ بتاؤ گی خاندان والوں کو، بیٹی کی کم عقلی اور گز بھر لمبی زبان …… ہونہہ- تیمور حسن غصے میں کہر کر چلے گئے۔ مگر راحت آرا کے دل پر ان کی باتیں لگیں۔ غلطی تو ان کی ہی تھی۔ وہ خود شمائلہ کی طرح جذباتی پین کا شکار تھیں۔ میمونہ نے شمائلہ کے ساتھ ساتھ ان کے کان بھی خوب بھرے تھے اور اسی بھرے ہوۓ کان کی وجہ سے اس دن انہوں نے ارقم کے ساتھ بھی روکھا رویہ اپنایا تھا اور تیمور حسن کو اس کی اطلاع دینا بھی مناسب نہ سمجھا تھا۔ وہ اب سوچ میں پڑ گئی تھیں کہ بگڑے ہوئے تعلقات کو واپس
    کس طرح سنوارا جائے-
    سب سے پہلے انہیں اپنی ناسمجھ بیٹی کی عقل ٹھکانے لانی تھی۔ جو اب شدید صدمے کا شکار ہوکر بستر سے جا لگی تھی-


    ************
    صنوبر کی ٹھنڈی میٹھی چھاؤں کے نیچے تینوں پرسکون سے درختوں سے پشت لگائے بیٹھے تھے۔ تین یار بسیار، تین انجان راہی ، یا پھر تین آوارہ گرد ۔ نیلے فلک سے سنہری کرنیں چھنکتی ہوئی کسی مکڑی کے جالے کی صورت پورے جنگل میں پھیلتی چلی گئیں۔ سامنے کو ہسار کی چوٹیاں تھیں ۔ پھر جمگھٹے کی صورت سر جوڑے درختوں نے دیکھا کہ ان تینوں میں سے دو آوارہ گرداٹھ کر باتیں کرتے ہوۓ آگے بڑھ گئے۔ وہ تیسرا انجانا اب یک آنکھیں موندے مد ہوش سا بیٹھا تھا۔ وہ مزید سوچوں کی اتھاہ گہرائیوں میں پہنچ جاتا ۔ لیکن ایک پرندے کی آواز نے اسے چونکا دیا۔اس کی سریلی آواز کسی اور ہی جہاں میں پہنچا گئی۔ اور شناور کے ہاتھ بے اختیار گود میں دھری بانسری کی جانب بڑھ گئے۔ شناور کی بانسری پھر سے بجی، مدھرمدھرسا ساز فضاؤں میں گونجا اور تصور میں کئی رنگ بکھرے اور شناور کے تصور میں سنہری لڑکی چم سے آ موجود ہوئی۔ قوس وقزح کے رنگوں میں ڈوبے لہراتے آنچل کے سنگ اٹکھیلیاں کرتی ۔ ہنستی مسکراتی اس بار بانسری راگ عشق الاپتی چلی گئی۔ سنہری لڑکی اس کے حواس پر چھاتی چلی گئی۔ وہ آنچل میں چھپی سہج سہج قدم اٹھانی اس کی جانب بڑھ رہی تھی۔ اس کے پیروں میں چاندی کی پائل چھنکتی تھی۔ گلابی چوڑیوں سے بھرے اس کے ہاتھ شناور کی جانب بڑھے تھے، اس نے بے اختیار اس کے ہاتھوں کو تھامنا چاہا مگر اگلے ہی پل وہ سنہری لڑکی غائب ہوگئی۔ ایسے جیسے یہاں تھی ہی نہیں کبھی ۔ شناور نے چونک کر آنکھیں کھول دیں، بانسری کی لے تھم گئی۔ اس کے عین سامنے کوئی موجودتھا۔ محوسنگیت ،خود سے لے بیگانہ …… کون ہوتم؟ شناور نے بانسری کولبوں سے ہٹاتے ہوۓ اجنبیت سے اسے تکتے ہوۓ پوچھا۔ بہت خوب صورت بانسری بجاتے ہو دوست ، تمہاری عشق میں ڈوبی دھن نے مجھے یہاں بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے یوں چونکنے پر مسکراتا ہوا بولا پھر شناور کومتعجب دیکھ کر مزید گویا ہوا۔ میں یہیں اس وادی کا رہنے والا ہوں ۔ لکڑی کا کام کرتا ہوں۔ ادھر جنگل میں کام سے آیا تھا۔ تمہاری بانسری کی دھن سنی تو بے اختیار سا ادھرآ بیٹھا۔ اب کی بارشناور کچھ مطمئن ہوا۔
    مجھے پتا نہ چل سکا کہ تم کب یہاں آ بیٹھے اس لیے سامنے دیکھ کر چونک گیا۔ شناور نے بھی نرم لہجہ اپناتے ہوۓ وضاحت دی۔ تم عشق میں ڈوبے ہوۓ تھے دوست عشق میں ڈوبے کوتو اپنی بھی خبرنہیں ہوتی ۔وہ ہنسا۔ تمہیں کیسے میری کیفیت کا دراک ہوا۔ شناور پر اشتیاق لہجے میں پوچھ بیٹھا۔
    تمہاری حالت بتاتی ہے دوست… تم کسی کے تصور میں کھوۓ ہوۓ تھے۔ وہ ہنستے ہوۓ کہہ رہا تھا۔شناور کا بلند قہقہہ فضاؤں میں گونجا۔ میں جب بھی بانسری بجاتا ہوں اس کیفیت میں چلا جا تا ہوں ، تم اسے عشق وشق سے تعبیر نہ کرو ۔ قہقہے کا دم ٹوٹا، وہ ایک بار پھر وضاحت دینے لگا۔ ظاہر ہے سنہری لڑکی کے لیے وہ جو کیفیت محسوس کر رہا تھا وہ اتنی شدید تو نہیں تھی کہ اسے عشق کا نام دے بیٹھتا۔ وہ تو بس ایک چاہ تھی ، پسندیدگی تھی۔ اس سے زیادہ تو کچھ نہ تھی۔
    تو دوست- یہ عشق ہی ہوا ناں ، اس بنسی سے تمہیں عشق ہوا تب ہی تو وادی میں اکیلے بیٹھے یہاں اردگرد سے بے گانہ ہو کر بنسی بجار ہے ہو اور اس بنسی کی دھن جو اتنی مدھر ہے وہ تمہارے عشق کا نتیجہ ہی تو ہے- و مسکراتا ہوا کہ رہا تھا۔شناور دلچسپی سے اسے دیکھے گیا –
    باتیں تو بہت دلچسپ کر تے ہوتم ….. کافی ذہین بھی لگتے ہو۔ شناور اسے سراہے بغیر نہ رہ سکا۔ ہم پہاڑی لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ہماراعلم تم شہری لوگوں سے مختلف ہوتا ہے۔ ہم لوگ چٹان کی طرح مضبوط ہوتے ہیں اگر ٹو ٹتے بھی ہیں تو پتھر پتھر ہوتے ہیں ۔ ریزہ ریزہ پھر بھی نہیں ہوتے ۔ وہ کسی غیر مرئی نقطے کو گھورتا اپنی ہی کہ گیا اور شناور مسکرا کر رہ گیا- ویسے ایک بات بتاؤ دوست-وہ کچھ وقفے کے بعد پھر بولا۔ ہاں کہو۔ شناور کو وہ دلچسپ سا انسان اچھا لگا تھا۔
    وہ رومانوی داستانیں تو سنی ہوں گی ناں تم نے لیلی مجنوں-ہیر رانجھا والی۔ ہاں سنی ہیں۔۔۔۔۔ شناور نے مسکراتے ہوۓ کوہسار پر نگاہ کی۔ تم بھی ان ہی لوگوں جیسے لگتے ہو۔ من موجی ، اپنے عشق میں جینے والا اپنی دنیا آپ بنانے والا ۔ وہ مزے سے کہہ رہا تھا۔
    کمال کر تے ہو یار۔۔۔۔۔۔ ایک ذراسی ملاقات میں میری شخصیت کو پرت در پرت کھولنے لگ گئے تم، بڑے پہنچے ہوۓ آدمی ہوتم ۔۔۔ شناور کو اس کی بات پر بے اختیار ہنسی آئی تھی۔ پہاڑی لوگ، جو دل میں آیا کہہ دیا۔
    بس ایسا ہی ہے۔ وہ بھی مسکرا اٹھا۔ اس پل شناور کا موبائل بج اٹھا۔ کال داؤد بھائی کی تھی اس نے نمبر دیکھتے ہی کال وصول کی۔ داؤد بھائی اسے عجیب ہی کہانی سنارہے تھے۔ اس کے حواس مختل ہونے لگے۔
    ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ بڑبڑاتا ہوا پر یشان سا اونچائی کی جانب بڑھنے لگا۔
    سب خیر ہے ناں دوست۔ اچانک کدھر جار ہے ہو۔ شناور کو پریشان دیکھ کر وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ شناور نے لمحے بھر کوسوچا اور پھر اسے بتانے لگا۔
    چیئر لفٹ کے مقام پر شہر سے ایک اسکول کا گروپ آیا ہے۔ اس گروپ سے دو بچیاں اور ایک استانی جنگل میں کہیں کھو گئے ہیں۔ ان لوگوں سے میری اچھی سلام دعا ہو چکی ہے۔ان ہی کی طرف جارہا ہوں ۔ شناور اب تک اس بات سے انجان تھا کہ جنگل میں کھونے والی استانی کوئی اور نہیں وہ سنہری لڑکی ہے-
    میں بھی ساتھ چلتا ہوں دوست ۔ یہ جنگل ہمارا دیکھا بھالا ہے ۔ میں تم لوگوں کی مدد کروں گا۔ چلو پھر جلدی آجاؤشناور اسے اشارہ کر کے آگے بڑھنے لگا۔
    دوست اس طرف سے نہیں ۔ اس طرف سے چلو۔ سیدھے جنگل میں پہنچیں گے ۔ وہ اسے دوسری جانب اشارہ کر کے آگے بڑھنے لگا۔ شناور تیز قدموں کے ساتھ اس کی تقلید کرنے لگا۔ ویسے نام کیا ہے تمہار ادوست ۔ شناور کو اچا نک خیال آیا۔ نور محمد- نور محمد کسی چست چیتے کی مانند چڑھائی پر چڑھتے ہوۓ گویا ہوا۔
    **********


    ارے عفت خالہ- آپ تو جانتی ہیں شمائلہ کے مزاج کو جو آپ کے سامنے اس کا اخلاق ہے ناں در پردہ کچھ اور ہے۔ کیا بتاؤں اس دن ارقم بھائی کی شمائلہ نے کتنی بے عزتی کی تھی۔ وہ تو ارقم بھائی کا حوصلہ ہے جو وہ خاموشی سے سہہ گئے۔ کوئی اور ہوتا تو اسی وقت رشتہ ختم کر کے چلا جاتا۔ عفت آرا اور رحمن احمد آج شمائلہ کے گھر آئے تھے۔ رحمن احمد تو تیمور حسن کے ساتھ ڈرائنگ روم میں جا بیٹھے اور عفت آرا لاؤنج میں بہن کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ وہ شمائلہ کو بلانے کے لیے منظر سے ہٹی تھیں کہ میمونہ نے اپنی زبان کے جوہر دکھانا شروع کر دیے۔
    کل تو ماموں جان نے شمائلہ کو بہت ڈانٹا اور سمجھایا ہے تب جا کر اس کا غرور اور طنطنہ کچھ کم ہوا ہے۔ ورنہ تو اسے ارقم بھائی پر اب بھی بے حد غصہ ہے حتی کہ آپ کو بھی وہ اس سارے قصے کا ذمہ دارٹہراتی ہے۔ میمونہ اپنی شرانگیزیوں میں مصروف تھی جب دروازے پرشمائلہ آن کھڑی ہوئی۔ لمحے بھرمیں میمونہ کی اصلیت کھل کر اس کے سامنے آ گئی شک تو اسے ارقم سے ہونے والی جھٹرپ کے بعد ہی ہو گیا تھا۔
    میمونہ کے اکسانے پر اس نے ارقم ہے وہ سب کچھ کہا تھا اور اب جب وہ مشکل میں جا پھنسی تھی تو میمونہ اس سے کٹی کٹی پھر رہی تھی۔ مگر آج اپنے کانوں سے میمونہ کی زہر افشانی سن کر اسے یقین ہو چلا تھا کہ اس نے اتنے دن تک آستین کے سانپ کو دودھ پلایا تھا۔
    السلام علیکم خالہ جان شمائلہ نے ایک جتائی ہوئی نگاہ بوکھلائی میمونہ کے چہرے پر ڈالی اور عفت آرا کے گلے لگ گئی۔ عفت آرا نے جھٹ اسے گلے سے لپٹایا اور ماتھا چوما۔ خالہ بھانجی کی اس اظہار محبت پر میمونہ کا رنگ فق پڑ گیا۔ اس نے تصور نہ کیا تھا کہ غفت آرا اس کی اتنی بدخوئیوں کے بعد بھی شمائلہ سےاتنی محبت کے ساتھ پیش آئیں گیا۔ شمائلہ میری گود میں پلی بڑھی ہے۔ میری بھانجی نہیں، بیٹی ہے۔ تم مجھے میری بیٹی سے بدظن کرنے کی کوشش کر رہی تھیں ۔۔۔۔۔ یہ ناممکن ہے میمونه- عفت آرا نے ایک گہری مسکراہٹ لبوں پر سجا کر ٹھنڈے ٹھنڈے لفظوں سے میمونہ کا استقبال کیا۔ جی…. وہ میں آپ کے لیے شربت لے کر آتی ہوں ۔ میمونہ کوکوئی جواب نہ سوجھا تو بہانہ بنا کر وہاں سے رفو چکر ہوگئی۔ ضرور ضرور…… اور بیٹا صرف شربت نہ لانا۔ کباب وغیرہ کا بھی انتظام کر لینا اور اپنی ممانی جان کو ذرا ادھر میرے پاس بھیج دینا ۔ عفت آرا نے لاؤنج سے نکلتی میمونہ کودیکھ کر ہا نک لگائی۔ دیکھ لیا بیٹا تم نے میمونہ کی اصلیت اور تم اس کی ہاتوں میں آ کر نہ صرف اپنے ساتھ زیادتی کرتی رہیں بلکہ ان رشتوں سے بھی بدگمان ہوتی رہیں جو تم سے بے حد پیار کرتے ہیں ۔ ارقم مجھے پہلے ہی میمونہ کی اصلیت سے آگاہ کر چکا تھا یہ نہ جانے تم جانتی ہو یا نہیں میمونہ تمہارے پیچھے ارقم کو بھی اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ ارقم نے کتنا ہی تمہیں سمجھانے کی کوشش کی مگر تم اس سے ہی لڑ پڑیں۔ یہاں تک کہ اپنی خالہ پر بھی شک کر بیٹھیں ۔ عفت آرا شمائلہ کو ساتھ لگائے بیٹھے اسے پیار سے سمجھارہی تھیں ۔ میں شرمندہ ہوں خالہ بے حد شرمندہ ہوں ۔ میں جان گئی ہوں کہ مجھ سے کتنی بڑی غلطی ہوگئی ہے۔ مجھے معاف کردیں خالہ- میں بھٹک گئی تھی ۔ وہ پشیمان سی سر جھکا کر کہہ رہی تھی۔ میں تم سے ناراض نہیں ہوں میری بچی- مگر تمہیں سمجھارہی ہوں کہ ایسی میٹھی چھریوں سے بچو جو منہ پر میٹھا بولیں اور پیچھے وار کریں۔ میمونہ تو بے نقاب ہوگئی۔ مگر زندگی میں کئی میٹھی چھریاں ملیں گی تمہیں کہ تمہاری بے خبری میں تمہیں لوگوں کی نظروں سے گراڈالیں گی۔
    ایسے لوگوں کو پہچانو …… اپنی عقل سے سوچا کرو۔ اپنی آنکھوں سے دیکھو اور وہی بولو جو تمہیں صحیح لگے۔ اس بار تو ہم سب تمہارے ساتھ ہیں مگر بار بار تم یہی غلطیاں دہراو گی تو تنہا رہ جاؤ گی۔ زندگی کھیل نہیں ہے جو اسے جذباتی فیصلوں کی نذر کر دیا جاۓ ۔ یہ ایک نعمت ہے۔ اسے اپنے لیے عذاب نہ بناؤ میرے بچے- غفت آراء کافی دیر تک اسے سمجھاتی رہیں۔ راحت آرا بھی وہاں آ بیٹھیں ، دل ہی دل میں بہن اور بھانجے سے بدگمان ہونے پر وہ بھی شرمندہ تھیں۔ کل انہوں نے عفت کو فون کر کے شمائلہ کی طرف سے معافی مانگی تھی۔ عفت نے بڑی بہن ہونے کے ناتے بڑا پن دکھاتے ہوۓ بردباری کا مظاہرہ کیا تھا اور آج وہ لوگ ملنے آ گئے تھے۔عفت آرا کا ارادہ تھا کہ بہن اور بھانجی کو میمونہ کے حوالے سے آگاہ کریں گی مگر یہاں میمونہ کی جلد بازی خود گلے پڑ گئی اور عفت آرا کو ان دونوں کو سمجھانے کی زیادہ کوششیں نہ کرنی پڑیں۔
    خالہ ارقم نے تو صاف کہہ دیا کہ میں اس سے دستبردار ہو جاؤں ۔ وہ ساری بات سمجھ چکی تھی۔ اپنی کوتاہیوں کے بعد اسے ارقم کا خیال آیا روہانسی ہوگئی۔ کہا تو تم نے بھی اسے بہت کچھ تھا۔ ظاہر ہے کچھ نہ کچھ رد عمل ل پر وہ بھی دے گا ناں شمائلہ- اسے تم سے جو بھی شکایت ہے تم اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کرو- باقی معاملہ چھوڑ دو، میں سنبھال لوں گی اور جہاں خط والی بات ہے جب تک پڑوس والوں کی بیٹی گھر نہ آ جاتی اس پر کوئی بات نہیں کرے گا-
    جلد بازی اورجذباتی پن پہلے ہی ہم سب کو کافی ہنگا پڑ چکا ہے- عفت آرا کی کہی گئی بات راحت آرا اور شمائلہ کو بھی کافی حد تک مطمئن کرگئی۔ وہ گھر سے طے کر کے آئی تھیں کہ ساری الجھی ڈوریں آج سلجھا کر ہی دم لیں گی ۔


    میمونہ کا داؤ آج الٹا اس پر ہی چل گیا تھا اوروہ دم کٹی لومڑی کی طرح سوچ سوچ کر پاگل ہوئی ٹہل رہی تھی۔ شمائلہ کے سامنے بے نقاب ہونے کا مطلب ماموں ، مامی کی نظروں سے بھی گر جانا تھا۔ اب کیا کروں۔ کیسے ان سب کو رام کروں ۔ وہ اپنی سوچوں میں گم چھت سے اتر کر کمرے میں داخل ہوئی۔ مگر کمرے کے منظر نے اسے ٹھٹکنے پر مجبور
    کر دیا۔
    شمائلہ اور مامی خوش گوار موڈ میں باتیں کرتے ہوۓ اس کے کپڑے اور دیگر سامان اس کے بیگ میں ٹھونس رہی تھیں۔ ….. یہ کیا کر رہے ہیں آپ لوگ….. وہ ہکلاتے ہوۓ بولی۔ تمہارا سامان پیک کرر ہے ہیں- شمائلہ نے بتیسی نکال کر جواب دیا۔
    میمونہ بیٹا- ہمارے خیال سے اب تمہیں گھر جانا چاہیے۔ یہاں تو کافی گل کھلا لیے۔ میرا مطلب ہے کافی دن لگا دیے۔ اب ذرا اپنے گھر کی بھی خیر خبر لو۔ اچھی لڑکیاں اپنا گھر بار چھوڑ کر یوں کسی کے گھر پر ڈیرہ ڈال کر تھوڑی بیٹھ جاتی ہیں۔ بے وقوف لڑکی- راحت نے بڑے پیار سے اس کے سر پر چپت لگاتے ہوۓ کہا۔ میمونہ کھسیا کر رہ گئی۔
    شمائلہ بیٹا- یہ ہاجمولا کی بوتل بھی میمونہ کے سامان میں ڈال دو ۔ جاتے جاتے راحت آرا شمائلہ کو ہاجمولا کی بوتل دے گئیں۔ مگریہ ہاجمولا کی بوتل کس لیے؟ میمونہ بے اختیار پوچھ بیھٹی- وہ تم سے کسی کی خوشیاں ہضم نہیں ہیں ناں- اس لیے امی نے خاص تمہارے لیے ہاجمولا کی بوتل رکھوائی ہے تا کہ جب تمہیں کسی کی خوشی دیکھ کر
    بد ہضمی ہونے لگے تو تم جھٹ ہاجمولا کی بوتل کھولو ۔ ایک گولی پٹ سے کھالو تا کہ خوشی فٹ سے ہضم ہو جاۓ گی ‘‘ شمائلہ نے بڑے پیار سے جو تے بھگو کر مارے تھے۔ میمونہ شرم سے پانی ہوکر رہ گئی۔
    دوسروں کے لیے ذلت کا سامان پیدا کرنے والے خود بھی ہمیشہ ذلیل ہوتے ہیں ۔ مگر میمونہ جیسے لوگوں کے لیے ایک بار کی رسوائی کافی نہیں ہوئی ۔ انہیں بار بار ایسے ڈوز چاہیے ہوتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح کھایا ہضم کرنے کے لیے ہاجمولا چاہیے ہوتا ہے۔


    ************
    وقت بنتا جارہا تھا۔ سورج اپنی کرنوں سمیت کسی اور سمت رخت سفر باندھنے کو تیار تھا۔ پیڑوں میں اٹکے کرنوں کے جالے بھی رفتہ رفتہ صاف ہونے گئے تھے۔ شام کے گیلے، مہکتے ہوۓ نم آلود ساۓ فلک کی بلندی کو چھوتے کو ہسار پر اپنے پر پھیلانے کو تیار تھے۔ ایسے میں مسزصدیقی کے چہرے کی رنگت خطرناک حد تک زرد پڑتی جارہی تھی۔ فکر کے ساۓ ماہین کے کشادہ چہرے پر بھی لرزاں تھے اور بچیاں خوف زده ی جنگل کے اس حصے کی جانب امید ویاس بھری نظروں سے تک رہی تھیں۔ جہاں گھنٹہ بھر پہلے داؤد بھائی شناور اور نور محمد کے ساتھ میں سنبل اور اسٹوڈنٹس کو ڈھونڈنے لگے تھے۔
    محسن اور زوار مسز صدیقی کے ہمراہ کھڑے تھے سنبل
    اور اردگرد کے مقامی لوگوں سے ان علاقوں کی معلومات لے رہے تھے۔ ایک مقامی شخص نے بتایا کہ گزشتہ چھ ماہ میں اس نوعیت کا دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل اس علاقے میں ایک فیملی کو اپنے چھ سالہ بچے سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ ان خوفناک حقائق کو جان کر ان سب کا دل لرزا اٹھا تھا۔
    یااللہ خیر رکھنا ہم سب پر…… جو ہم سے کھو گئے، انہیں خیر و عافیت سے ملادے ہمیں مزید کسی آزمائش میں نہ ڈالنا میرے مولا – مسز صدیقی کانپتے دل سے دعا مانگ رہی تھیں۔ کچھ یہی حال ماہین کا بھی تھا۔
    دن ڈھلنے کو ہے۔خواتین اور بچوں کا یہاں ٹہرنا مناسب نہیں۔ ان پہاڑی علاقوں کے جلوے کئی ہیں۔ دن کی روشنی میں خوب صورت نظر آنے والی یہ پہاڑی وادیاں، شام اترتے ہی خوف ناک روپ دھار لیتی ہیں۔ نور محمد ٹارچ کی روشنی میں زمین پر پیروں کے نشان تلاشتے ہوۓ کہہ رہا تھا۔ داؤد بھائی اور شناور تاریک چہروں کے ساتھ اس کے پیچھے پیچھے اپنے چاروں اطراف نظر دوڑاتے چل رہے تھے۔ شناور کو یہاں آنے کے بعد معلوم ہوا تھا کہ کھونے والی لڑکی وہ ہے جو آج کل اس کے دل و دماغ پر مسلسل دستک دے رہی ہے۔ تب سے اس کی پریشانی سوا ہو چکی تھی اور سب سے تاریک پہلو یہ تھا کہ گھنٹہ بھر سے زائد گزر جانے کے باوجود بھی ان تینوں گمشدگان کا کوئی سراغ نہیں تھا۔
    نورمحمد – ہم اپنے ساتھیوں کو ڈھونڈے بنا نہیں جاسکتے- داؤد بھائی نے کچھ برا مناتے ہوۓ قطعیت سے کہا۔
    آپ نہ جاؤ داؤد بھائی ۔ مگر اپنے لوگوں کو بھیج دوعورتوں اور بچوں کا یہاں ٹہرنا مناسب نہیں۔ سمجھا کرو دوست- یہ تمہارا شہر نہیں جو آدھی رات میں بھی روشنیوں میں نہایا رہتا ہے۔ یہاں شام بھی گہری رات برابر ہوتی ہے۔ نور محمد اب ایک جگہ بیٹھ کر ٹارچ کی روشنی میں بغور کچھ تلاش رہا تھا۔
    ایسا کرتے ہیں۔ محسن اور زوار کی نگرانی میں ان لوگوں کو یہاں سے روانہ کر دیتے ہیں۔ باقی ہم تینوں اس وقت تک یہاں سے نہ جائیں گے جب تک کھونے والے مل نہ جائیں- شناور کا مشورہ داؤد بھائی کو مناسب لگا اور اس پر راضی ہو گئے۔ شناور نے زوار کو، داؤد بھائی نے مسز صدیقی کو تمام مسائل سے آگاہ کر دیا۔ معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مسز صدیقی زوار اور حسن کے ساتھ ہوٹل جانے پر راضی ہو گئیں- ویسے بھی یہاں بھی وہ لوگ ان ہی دونوں لڑکوں کی حفاظت میں تھیں ۔ شنادر نے زوار اور محسن کو ان لوگوں کا خاص خیال رکھنے کی تاکید کی تھی ۔ وہ لوگ جلد ہی وہاں سے روانہ ہو گئے۔
    یہ دیکھو….. یہ بھاگتے قدموں کے نشان ہیں۔ اس سمت کو جاتے ہیں ۔نور محمد اچا نک جوش سے چلایا۔ وہ تینوں نشانات کے تعاقب میں آگے بڑھتے چلے گئے۔ کچھ دیر مزید آگے بڑھنے کے بعد انہیں سنبل کا دوپٹا جھاڑیوں میں الجھا نظر آیا۔ شناور نے بے اختیار وہ دوپٹا تھام لیا۔ آج دوپہر میں اس نے آخری بار اسے اس زرد رنگ کے دوپٹے میں دیکھا تھا۔ شناور کی نگاہوں میں سنبل کا چہرہ گھوم گیا۔ سنبل کا ہے۔ داؤد بھائی نے شناور کے ہاتھوں سے دوپٹے کر بغور دیکھتے ہوۓ کہا۔
    دوست گڑبڑ ہے…… کچھ گڑبڑ ہے۔ یہ قدموں کے نشان جس راستے کو جاتے ہیں وہ خطرناک ہے۔ بے حد خطرناک-نورمحمد اچانک گھبرا اٹھا۔ جس حد تک بھی خطرناک ہو نورمحمد- ہمیں اس راستے پر جانا ہے ۔ شناور نے جھنجلا کر کہا۔ اسے نور محمد سے اس بزدلی کی امید نہ تھی۔
    آپ سمجھ نہیں رہے ہو صاحب- یہ راستہ اس منحوس حویلی کی طرف جاتا ہے- نور محمد نے بے چارگی سے کہا۔ منحوس حویلی شناور اور داؤد بھائی حیرت زدہ سے نورمحمد کا چہرہ تکنے لگے۔ ہاں منحوس آسیب زدہ حویلی- نورمحمد تھک ہار کر وہاں بیٹھتا چلا گیا۔
    اوہو…..صاف صاف بتاؤ نورمحمد- پہیلیاں نہ بجھاؤ۔ شناور جھنجلا اٹھا تھا۔ ویسے ہی سنہری لڑکی کی کوئی خیر خبر نہیں مل رہی تھی اور یہ نور محمد جن بھوتوں کی داستان سنانے بیٹھ گیا۔
    بتاتا ہوں صاحب- سب بتا تا ہوں ۔نورمحمد وارث چچا شکور سے لے کر اب تک وقوع پذیر ہونے والے تمام واقعات ان سب کے گوش گزار کرنے لگا۔ شناور اور داؤد بھائی دم سادھے وہ سارے واقعات سننے لگے۔ واقعات واقعی اتنے خوف ناک تھے کہ ان کے جسم میں سنسنی دوڑ گئی ۔
    ابھی حال ہی میں کچھ بچے بھی اس حویلی کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ وہ لوگ کھیل کھیل میں اس حویلی کے اندر چلے گئے تھے اور آج تک ان کا کچھ اتا پتا نہیں چلا۔ نور محمد اپنی دھن میں کہتا جب ساری بات مکمل کر چکا تو اس کی آخری بات پر شناور یک دم چونک اٹھا۔
    مجھے یہ کوئی اور ہی معاملہ لگ رہا ہے۔ میں اس حویلی میں میں جانا چاہتا ہوں۔ وہ مصمم ارادہ کیے اٹھا۔ پاگل ہو رہے ہو شناور- پہلے ہی ہم اتنے پریشان ہیں اور تمہیں ایڈونچر سوجھ رہا ہے ۔ داؤد بھائی خفگی سے ہولے۔
    یات ایڈونچر کی نہیں ہے داؤد بھائی۔ اس حویلی میں واقعی کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے ۔ بچوں کا غائب ہونا معمولی بات نہیں اور دیکھیں آپ کے اسکول کی بھی بچیاں غائب ہوئیں اور ایک استانی بھی ۔ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ معاشرے میں کتنی ہی برائیاں پڑ چکی ہیں اور اتنی دیر سے ہم لوگ اس جنگل میں خاک چھانتے پھر رہے ہیں۔ صرف ایک دوپٹے کے علاوہ مزید کوئی سراغ نہ ملا۔ اگر ان تینوں کے غائب ہونے میں خدا نہ خواستہ کسی جانور کا ہاتھ ہوتا تو اب تک ہمیں کچھ نہ نشان مل گے ہوتے۔ آپ میری بات سمجھ رہے ہیں ناں داؤد بھائی ۔ یہ کریمنل کیس بھی ہو سکتا ہے۔ شناور ایک ایک بات پر زور دیتا کہہ رہا تھا۔


    پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ یقینا داؤد بھائی ک بات کچھ کچھ سمجھ میں آئی تھی۔ میں جانتا ہوں کیا کرنا چاہیے۔ شناور یہ کہہ کر موبائل پر کال ملانے لگا۔
    *********


    ارقم اس وقت میٹنگ ہال میں اپنی ٹیم کے ساتھ انتہائی اہم نوعیت کی گفتگو میں مشغول تھا کہ اس کا موبائل بج اٹھا۔ اسکرین پرشان کا نمبر جگمگارہا تھا۔ مگر وہ اس وقت شان سے بات نہیں کر سکتا تھا۔ لہذا کال منقطع کر کے پیغام بھیج دیا۔ اہم میٹنگ میں مصروف ہوں۔ فرصت سے بات کرتا ہوں۔ جلد ہی شان کی جانب سے جوابی پیغام موصول ہوا۔ بات کرنا انتہائی ضروری ہے تمہاری اہم میٹنگ سے بھی زیادہ شان کا جواب پڑھ کر ارقم تھوڑا ٹھٹکا ۔ایسی کیا مصیبت آن پڑی شان پر کہ اس وقت اس کے منع کرنے کے باوجود وہ مسلسل اصرار کر رہا تھا۔ میٹنگ میں شامل ٹیم ارکان سے معذرت کرتا شان کا نمبر ملانے لگا۔
    ہاں کہوشان …… اسی کیا ایمرجنسی نافذ ہوگئی جو اس وقت بات کرنے کے لیے اتنے اتاؤلے ہور ہے ہو۔ ارقم نے خفگی جتاتے ہوئے دریافت کیا۔ مقصد صرف احساس دلانا تھا کہ اس اس وقت اس کے لیے وقت نکالنا مشکل تھا۔
    یار بہت معذرت مگر یہ بات اتنی ہی اہم ہے جتنی تمہاری میٹنگ – شان نے اس کی خفگی کا مقصد سمجھتے ہوئے اپنی بات کی اہمیت کا احساس دلایا۔ کہو پھر کیا معاملہ ہے؟ ارقم اب مکمل طور پرشان کی جانب متوجہ تھا ۔
    بات یہ ہے کہ …. شان اسے ہل اسٹیشن پر وقوع پذیر ہونے والے واقعے کی تفصیل بتانے لگا ساتھ ساتھ اس نے مشہور زمانہ حویلی کا قصہ بھی سنا ڈالا-
    اوہ میرے خدایا…تم نے اس جگہ کا نام کیا بتایا پھر سے بتانا- ارقم سارا قصہ سن کر بری طرح چونک اٹھا- یہ ایک اتفاق تھا کہ اس کی ٹیم کو اپنے اہم مخبروں کے ذریعے اس جگہ کے حوالے سے کچھ عجیب اطلاعات ملی تھیں اور شان بھی اس جگہ کے حوالے سے تازہ ہونے والے واقعے کے بارے میں بتا رہا تھا۔
    تم اس وقت کہاں ہو۔ مجھے صحیح مقام بتاؤ۔ وہ شان کی فراہم کی گئی اطلاع کو جلدی جلدی نوٹ پیڈ پر منتقل کر رہا تھا۔
    ٹھیک ہے۔ میں جلد ہی تمہیں بتاتا ہوں کہ ہم کیا فیصلہ لے رہے ہیں۔ تب تک تمہیں ہمیں ایک فیوردینا ہوگا ۔ اس حویلی پر جس طرح سے بھی ممکن ہو نظر رکھو۔ اگر وہ حویلی اس واقعے میں ملوث ہوئی تو عنقریب وہاں کوئی نہ کوئی نقل و حرکت ضرور ہوگی- وہ شان کو ہدایت دے کر کال منقطع کر کے اپنی ٹیم کے ارکان کی جانب متوجہ ہوا۔ جو بے حد سنجیدگی کے ساتھ اس کی گفتگوسن رہے تھے۔
    چند دن قبل ہی ان لوگوں کوان علاقوں سے کچھ مشکوک خبروں کی اطلاعات مل رہی تھیں ۔ خاص طور پر اس علاقے سے جس کی نشاندہی ابھی ابھی شان نے کال پر کی تھی ۔ ارقم چند گھنٹوں قبل ہونے والے حادثے سے متعلق اپنی ٹیم کو بریف کرنے لگا۔ اس عجیب وغریب شہرت کی مالک حویلی کا ذکر خاص الخاص ارقم نے کیا تھا۔ وہ سب متفقہ نتیجے پر پہنچے تھے کہ اس علاقے پر ریڈ کیا جائے ۔
    ارقم شان کو مطلع کر چکا تھا کہ وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ چند گھنٹوں میں وہاں پہنچ جائے گا۔ مگر یہ اطلاع وہ صرف خود تک رکھے۔ شان نے اسے بے فکر رہنے کی یقین دہانی کرائی تھی ۔
    شناور نے ان کوان تمام معاملات کو فی الحال اپنے تک رکھنے کی تاکید کی تھی ۔ داؤد بھائی تو ان باریکیوں کو بخوبی سمجھ گئے تھے مگر نور محمد کسی گہری سوچ
    میں غرق تھا۔ کس سوچ میں غرق ہونور محمد؟ شناور پوچھے بغیر نہ رہ سکا ۔ جب وارث اس حویلی میں گم ہو گیا تھا۔ اس دن میں نے کچھ ایسا بھی دیکھا تھا۔ جس سے اس وادی کے دیگر لوگ انجان ہیں ۔ وہاں سے بھاگتے سے میں گھبراہٹ میں گر پڑا تھا اور گرنے کے باعث میں سب سے پیچھے رہ گیا تھا۔ اس وقت میری نظر حویلی کے ایک ایسے حصے پر پڑی تھی جو انتہائی غیر نمایاں تھا۔ وہاں ایک بند دروازے کی درز سے مدہم مد ہم روشنی کی جھلک نظرآ رہی تھی۔ میں اس دروازے کی جانب بڑھا اور اس دروازے سے جھانکنے کی کوشش کی ،نظر تو کچھ نہ آیا۔ مگرکسی کی سسکیاں ضرور سنائی دیں۔ میں نے مزید جانے کی کوشش کی مگر یوں محسوس ہوا جیسے کوئی ہولے ہولے دروازے کی جانب بڑھ رہا ہو۔ میں ڈر گیا تو وہاں سے بھاگ نکلا۔ میں جانتا ہوں وہاں کچھ تھا۔ شاید وہ سسکیاں میرے وارث کی ہوں۔ اس دن میں تھوڑی ہمت کرلیتا تو شاید آج وارث اور شکور چچا ہم وادی والوں کے درمیان ہوتے- نور محمد آب دیدہ ہو گیا۔ دل تو ان دونوں کا بھی اداس ہو گیا۔ دادی کے معصوم لوگ نہ جانے کتنے عرصے سے اس ظلم کا شکار تھے۔ شناور سوچ کر رہ گیا۔
    تھوڑی دیر گزری تو اس نے داؤد بھائی کو سمجھا بجھا کر نور محمد کے ساتھ گھر بھیج دیا اور خود وہیں حویلی پر نگاہ جمائے بیٹھ گیا۔
    ***********
    ایک جھپا کے سے کسی نے اس کے سر پر پانی انڈیلا تھا۔ اس کا جسم تھر تھرا کر رہ گیا۔ منفی درجہ حرارت میں برف جیسا ٹھنڈا پانی اس کی رگوں میں دوڑتے خون کو منجمد کرنے لگا۔ اس کے وجود میں حرکت ہوئی۔ اس کا ذہن رفتہ رفتہ بے دار ہونا شروع ہوا اور آنکھیں کھولنا چاہیں ۔ مگر پوٹے بھاری ہورہے تھے۔ وہ بامشکل آنکھیں کھول پائی۔ سامنے کا منظر دھندلایا ہوا تھا۔ زرد مدھم روشنی نگاہوں کو چھبنے لگی۔ ایک واہیات سا قہقہہ اس کی سماعتوں میں گونجا۔ اس نے تمام تر ہمت کے ساتھ آنکھیں پھر سے کھولنے کی کوشش کی ۔اس بار دھندلا پن کچھ کم تھا۔ منظر کافی حد تک واضح تھا وہ ایک انتہائی بوسیدہ سا کمرہ تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی کھنڈر کا حصہ ہو اور چھت پر لٹکتا زرد بلب ماحول کو عجیب پراسرار بنارہا تھا- وہ اس کے سامنے کھڑا تھا بتیسی نکالے وہ کسی شیطانی پجاری سے کم نہ لگتا تھا۔ انتہائی مکروہ مسکراہٹ اس کے لبوں سے چکی تھی۔
    تم ….. سنبل نے انتہائی نفرت آمیز نگاہوں سے اسے دیکھا اور نقاہت بھرے لہجے میں کہا۔
    یہ لو بی بی چاۓ پی لو۔ وہاں ہوٹل میں سے تو ہم سے خرید کر پینا پڑتا تھا۔ یہاں مفت ملے گی مفت ۔ ظاہرخان خباثت سے ہنستا ہوا کہہ رہا تھا۔ سنبل نے اسے نفرت سے گھورا۔ اوہ تم پیوگی کیسے؟ ہاتھ تو بندھے ہوۓ ہیں ۔ اس کی بے چارگی کا وہ مذاق اڑارہا تھا۔ میں پلا دیتا ہوں۔ وہ اس کے نزدیک آ کر کہنے لگا۔ سنبل نے طیش کے عالم میں منہ کو موڑ لیا۔
    اوہ تمہارے تو منہ پر بھی ٹیپ لگا ہوا ہے چاۓ کیسے پیے گا۔ چہ چہ چہ… تم تو چاۓ بھی نہیں پی سکتا۔ ظاہر خان اس کے رخسار پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ سنبل مزاحمتا اپنے پورے جسم کو حرکت دینے لگی۔ اس کی حرکت پر ظاہر خان کے حلق سے ایک اور شیطانی قہقہہ فوارے کی صورت چھوٹا۔
    یہ دیکھو تمہاراسٹوڈنٹ بھی یہاں اوندھے منہ پڑا ہے۔ دل گھبراۓ تو ان لوگوں کو پڑھانا ، ہم تھوڑی دیر بعد آۓ گا تم سے ملنے- وہ کمرے کے ایک کونے کی جانب اشارہ کرتا ہوا معنی خیز انداز میں اپنے دوبارہ آنے کی وعید سنا کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ دروازہ بند ہو چکا تھا۔ سنبل کی نگاہ بے اختیار اس کونے پر جا ٹہری جہاں بیا اور سارا ایک دوسرے پر اوندھی پڑی تھیں ۔اس کی طرح ان کے بھی ہاتھ پیر بندھے تھے۔ ان کے جسموں میں کوئی حرکت نہیں تھی ۔ شاید وہ دونوں اب تک بے ہوش تھیں – سنبل کی آنکھوں میں نمی سی پھیل گئی۔ وہ اتنی لا چارتھی کہ اپنی جگہ سے ہل بھی بامشکل پارہی تھی۔
    **********


    نہ جانے شاعروں نے جنگل کو اتنا رومانوی کیوں بناڈالا ہے جبکہ اس سیاہ گھنگھور جنگل میں جھینگروں اور جانوروں کی آوازوں کے سوا کچھ بھی نہیں رکھا۔ وہ کافی دیر سے اس حویلی پر نگاہ جمائے بیٹھا۔ بے زاری سے سوچ رہا تھا۔ دل ہی دل میں اس نے صد شکر ادا کیا کہ اب تک اس کی کسی جنگلی جانور سے ملاقات نہ ہوئی۔ اگر معاملہ سنہری لڑکی کا نہ ہوتا تو وہ بھی نور محمد کے ساتھ اس کے گھر جا بیٹھتا۔ مگر ایک تو ارقم نے اسے اس حویلی پر نگاہ رکھنے کا کہہ ڈالا تھا اور پھر خود اسے سنبل کی فکر کھاۓ جارہی تھی ۔آج اس حادثے کے گزرنے کے بعد ہی تو وہ اس کا نام جان پایا تھا۔ آج سہ پہر ہی تو اس کے دل نے دعوا کیا تھا کہ سنبل کے لیے اس کے دل میں پنپتے خیالات فقط پسندیدگی کا نتیجہ ہیں ۔مگر اب جب وہ اتنی سنگین صورت حال میں جا چکی ہے تب سے اسے ایک پل کو بھی چین نہیں مل رہا تھا۔
    اسے دفعتا خیال آیا کہ نورمحمد نے بتایا تھا کہ حویلی کے پچھلے حصے میں گڑ بڑ ہے اور وہ کب سے بیٹھا حویلی کے بیرونی حصے کی نگرانی کر رہا تھا۔ خود کو بے وقوف گردانتے ہوۓ وہ دبے پاؤں موبائل ٹارچ کی روشنی میں جنگل کے اس حصے کی جانب بڑھنے لگا۔ جہاں سے حویلی کا پچھلا حصہ واضح نظر آرہا تھا۔ حویلی کا یہ حصہ اگلے حصے سے زیادہ خستہ حالت میں تھا۔ اس طرف گندگی اور کچرا بھی کافی پھیلا ہوا تھا۔ جھاڑ جھنکاڑ سے حویلی کا راستہ بھرا ہوا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ عرصہ دراز سے کسی نے اس طرف رخ نہ کیا ہو۔ کچھ پل کے لیے شناور کو بھی محسوس ہونے لگا کہ شاید یہ حویلی واقعی آسیب زدہ ہے۔
    کہیں میں کسی غلط نتیجے پر تو نہیں جا پہنچا۔ اگر یہ جگہ جرائم پیشہ افراد کا مسکن نہ ہوئی تو ۔۔۔۔۔۔ میں نے کتنے وثوق سے ارقم سے کہہ ڈالا کہ یہاں انسانی اسمگلنگ سے جڑے جرائم پیشہ افراد کے ہیں اور یہاں کچھ نہ ہوا تو– تصور کا دوسرارخ اسے اب نظر آرہا تھا ۔
    اسے ہمت کر کے اس حویلی میں جانا چا ہے اور دیکھنا چاہے کہ معاملہ کیا ہے؟ بہت سوچ ،بچار کے بعد بالآخر اس نے فیصلہ کر ہی لیا۔ آہستہ آہستہ بے حد احتیاط کے ساتھ وہ حویلی کے پچھلے حصے سے نزدیک ہوتا چلا گیا۔ پچھلا حصہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اس کی ایک دیوار منہدم تھی۔ جس کی وجہ سے اندر جانے کا راستہ کھلا ہوا تھا۔ اگر کوئی آمد ورفت ہوتی ہوئی تو یقینا یہیں سے ہوتی ہوگی۔ وہ دل ہی دل میں اندازے لگانے لگا۔ اگر ہا ہر کوئی غیر معمولی حرکت ہوئی تو اور اندرلوگ موجود ہوئے تو وہ ضرور باہر نکلیں گے ۔ مگر وہ غیر معمولی حرکت کیا ہو۔ وہ سوچنے لگا۔ اچانک اسے اپنے جیکٹ کی جیب میں پڑی بانسری کا خیال آیا۔ اس نے بانسری جیب سے نکال کرلیوں سے لگالی۔اگلے ہی پل پراسرارسی فضا میں بانسری کی مدھر دھن گھل سی گئی۔ کوہسار کے سنگلاخ پہاڑیوں سے ٹکراتی مدھر لے
    وادی میں گونج اٹھی ۔
    وہ بانسری کی دھن چھیڑ کر اب منتظر نگاہوں سے حویلی کی منہدم دیوار کو تک رہا تھا۔ کافی دیر تک دیکھنے کے باوجود کوئی حرکت نہ ہوئی تو اس نے ایک بار بانسری کولبوں سے چھیٹر ڈالا اور بالائی حصے کا جائزہ لینے لگا۔ تین بڑی بڑی کھڑکیاں تھیں جس کے پٹ گمان ہوتا تھا جیسے صدیوں سے بند پڑے ہوں ۔تب ہی اسے ایک کھڑکی کا پٹ ہلتا ہوا محسوس ہوا۔ اندھیرے میں اسے کوئی ہلتے پٹ کے پیچھے حرکت کرتا ہوا بھی محسوس ہوا۔ گھپ اندھیرے میں فقط چودھویں شب کی روشنی تھی جو اس کی مددگارتھی اور اسی روشنی کی مدد سے اس نے حرکت کر تے ساۓ کو پہچانا تھا۔ وہ بالکل چپ سادھ گیا۔ ممکن تھا کہ وہ سایہ اس کی موجودگی تاڑ نے کو ہی تا نکا جھانکی کر رہا تھا۔ ایسے میں اس کی جانب سے کوئی بھی حرکت اسے مشکل میں ڈال سکتی تھی۔
    کافی دیر تک انتظار کرنے کے بعد وہ اپنی جگہ تبدیل کرنے کی غرض سے ہٹا ہی تھا کہ اب اسے کندھے پر کسی کا بھاری ہاتھ محسوں ہوا۔ وہ اچھل کر پیچھے پلٹا-
    نور محمد تم — شناور نے حیرت سے کہا۔ اس سے قبل کہ نور محمد کچھ کہتا پہلے سے ہے تاریکی میں ڈوبا ہیولا اندھا دھند بھاگتا ہوا جنگل میں گم ہو گیا۔ شناور نے بے اختیار اس کھڑکی کی جانب نگاہ کی وہاں اب کوئی نہ تھا۔ نور محمد اور شاور نے بے اختیار ایک دوسرے کو دیکھا اور بنا وقت ضائع کیے اس ہیولے کے پیچھے بھاگے۔
    **************


    ظاہر خان کے جانے کے بعد کتنی دیر تک وہ اپنی حرماں نصیبی پر آنسو بہاتی رہیں۔ اس کے اندر احساس جاگا کہ فقط آنسو بہانے سے کچھ نہیں ہونے والا۔ اسے ہمت کرنی ہوگی ۔ وہ یوں ہار نہیں مان سکتی۔ ساری ہمت جمع کر کے بے حد مشکل سے وہ گھٹنوں کے بل چلتی ہوئی ،سارا اور بیا تک پہنچی تھی۔ وہ دونوں بے سدھ اوندھی پڑی تھیں ۔۔۔ وہ اپنا رخ گھما کرپشت کی جانب سے سارا کے بندھے ہاتھوں کو اپنے بندھے ہاتھوں سے کھولنے کی کوشش کرنے گئی ۔مگر بے سود۔ رسی بے حد مضبوطی سے بندھی تھی اور بنا دیکھے کھولے جانے پرکھل نہیں رہی تھی ۔ سوۓ اتفاق کہ اس وقت بیا کے جسم میں حرکت ہوئی۔ وہ ہوش میں آ چکی تھی ۔ یہ بھی حسن اتفاق تھا کہ اس کے منہ سے ٹیپ ہٹ چکا تھا۔ سنبل نے اسے اشارے سے اپنی رسی کھولنے کا کہا۔ بیا اپنے دانتوں کی مدد سے رسی کھولنے لگی۔ کچھ دیر لگی مگر رسی کھل گئی۔ اب سنبل نے جلدی جلدی سے منہ سے ٹیپ ہٹایا اور بیا کے بندھے ہاتھوں کو کھولنے لگی ۔ ہاتھ کھل گئے تو پاؤں بھی آزاد ہو گئے ۔ اب وہ دونوں تیزی سے سارا کی جانب بڑھیں اور اسے رسیوں کے شکنجے سے آزاد کر کے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگیں ۔ سارا ہوش میں آئی ہی تھی کہ دروازو ایک جھٹکے سے کھلا اور ظاہر خان خباثت چہرے پر سجاۓ اندر داخل ہوا مگر اگلے ہی پل اندر کا منظر دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا اس نے تو خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ دھان پان کی سی لڑکی اس قدر پھرتیلی اور باہمت نکلے گی۔ وہ خطر ناک تیور کے ساتھ سنبل کی جانب بڑھا اور ایک زناٹے دار تھیٹر رسید کر کے اس کے بالوں کو مٹھی میں جکڑ کر ایک جھٹکا دیتے ہوۓ دانت پیس کر کہنے لگا۔
    بڑی ہمت آ گئی ہے تجھ میں ۔۔۔ تو ابھی جانتی نہیں کہ میں ہوں کون ۔ لگتا ہے تیرے پر کترنے ہی پڑیں گے۔ وہ اسے وحشی درندے کی طرح گھسیٹتا ہوا کمرے سے باہر لے گیا۔ مسلسل گھسیٹے جانے کے باعث لباس جگہ جگہ سے پھٹنے لگا اور جسم کا کئی حصہ کھردری زمین سے رگڑ لگنے کے باعث چھل اٹھا۔ سنبل کراہتی رہ گئی۔ اس کی حالت دیکھ کر سارا اور بیا تھرتھراٹھیں- خوف ان کی رگوں میں دوڑنے لگا اور
    وہ پتھرا کر رہ گیں۔
    ظاہر خان غصے سے بڑ بڑاتا ہوا اسے گھسیٹے ہوۓ بالائی منزل کی جانب لے کر جارہا تھا کہ اچانک بانسری کی دھن نے ان دونوں کو بری طرح چونکا ڈالا ۔ وہ دونوں ہی اس دھن سے بخوبی واقف تھے۔ قریب ہی سیڑھیوں کے ساتھ لگی دیوار پر کھڑ کی موجودتھی ۔ظاہر خان اسے گھسیٹتے ہوۓ وہاں جا کھڑا ہوا۔ کھڑکی کے پٹ کو ذرا سا کھول کر جھانکنے لگا۔ بانسری کی دھن ایک وقفے کے بعد دوبارہ فضا میں گونج اٹھی۔ آواز قریب سے ہی آرہی تھی۔ اس بار ظاہر خان کچھ پریشان ہوا اور پریشانی کی وجہ سے سنبل سے اس کی توجہ ہٹ گئی۔ سنبل پہلے ہی کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھی ۔ اس کی توجہ باہر مبذول ہوتا دیکھتے ہی اس نے قریب ہی پڑا لکڑی کا ٹکڑا اٹھا کر پوری قوت سے ظاہر خان کے سر پر دے مارا۔ وہ لڑکھڑا کر گر پڑا سنبل اس کی گرفت سے آزاد ہوگئی۔ بالائی منزل سے کچھ آوازیں آنا شروع ہوئیں۔ وہ بے اختیار وہاں سے اندھا دھند بھاگی ۔ حویلی کے راستوں سے انجان تھی۔ پھر بھی جہاں راستہ ملا وہاں سے گزرتی وہ بالآ خر ایک ٹوٹی پھوٹی دیوار سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔ بانسری کی دھن اسے شناور کی موجودگی کا احساس دلا رہی تھی ۔ یقینا وہ قریب میں ہوگا۔ یہی سوچ کر وہ جنگل کی جانب اندھادھند بھاگی تھی۔ ابھی کچھ ہی دور وہ آگے بڑھی تھی کہ اس کے عقب سے بھاگتے قدموں اور کچلے جانے والے پتوں کی چمراہٹ کی آواز سنائی دی۔ یقینا وہ لوگ اس کے پیچھے آرہے تھے۔ خوف کے مارے اس کی رفتار تیز ہوگئی۔ اس کی سانسیں پھولنے لگیں۔ اس کے لڑکھڑاتے قدموں کی رفتار مدہم پڑنے لگی۔ قریب تھا کہ وہ چکرا کر گر پڑتی کسی نے اسے ہولے سے تھام لیا۔ اس نے اندھیرے میں دیکھنا چاہا۔ شناور کی دھندلی سی شبیہ اس کی نگاہوں میں گھوم گئی۔
    یہ کون ہے۔ تم جانتے ہو اسے؟ نور محمد نے حیران سے ہوش و خرد سے بے گانہ ہوتی سنبل کو دیکھتے ہوۓ پوچھا۔
    یہ وہی اسکول ٹیچر ہے جس کی ہمیں تلاش ہے- شناور نے سنبل کی غیر ہوتی حالت پر دل پر جبر کرتے ہوئے جواب دیا۔ اس کے جسم پر زخموں کے نشان اس کا پھٹا لباس ، نہ جانے کیا کچھ بیتی ہوگی ان معصوموں پر ۔ اس کی سوچ کراہ کر رہ گئی۔
    یہاں جنگل میں ایک تالاب ہے۔ میں پانی لاتا ہوں وہاں سے، یہ ہوش میں آجائے گی تو سب کچھ بتا ڈالے گی ۔ نورمحمد وہاں سے چلا گیا۔
    شناور نے سنبل کو نہایت احتیاط سے قریبی درخت کی پشت سے ٹیک لگا کر بٹھا دیا اور اپنا جیکٹ اتار کر اس کے شانوں پر پھیلا دیا۔آج اسے شدت سے احساس ہوا تھا کہ سنبل کے لیے جو احساسات اس کے دل میں چھپے ہیں وہ اپنی جڑیں مضبوط بنا چکے ہیں۔ چاند کی چاندنی درختوں سے یوں چھن کرآئی جیسے شانوں پر جگنو بیٹھے ہوں اور ٹم ٹم کرتی جگنوجیسی روشنی اس کی صبیح چہرے پرمحو رقص تھی- مگر شناور دیکھ چکا تھا سنبل کے چہرے سے شگفتگی عنقا ہے۔ خوف ودہشت کے تھکن زدہ ساۓ ہنوز اس کے چہرے پر لرزاں تھے۔
    جس جس نے تمہیں اس حال تک پہنچایا ہے میں وعدہ کرتا ہوں، وہ ضرور اپنے انجام کو پہنچے گا۔ اس نے اس کے نرم مگر سرد پڑتے ہاتھ کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھماتے ہوۓ کہا۔ اس کی زلفیں بری طرح الجھی ہوئی تھیں اور اس کے زرد چہرے پڑ جھول رہی تھیں ۔ شناور نے احتیاط سے ان آوارہ لٹوں کو اس کے چہرے سے ہٹایا۔ مگر لٹیں شرارت پر آمادہ تھیں- بار بار سنبل کے چہرے پرآ دھمکتیں اور شناور مدھم سی مسکراہٹ لبوں پر سجائے ان کو ہر بار چہرے سے ہٹا دیتا۔ شناور اورلٹوں کے بیچ دل کش سی تکرار چل پڑی تھی-
    کچھ ہی ثانیے میں نورمحمد پانی سے بھری بوتل کے ہمراہ اس کے سامنے موجود تھا۔ شناور نے نورمحمد سے بوتل لے کر پانی کے چند چھینٹے سنبل کے چہرے پر مارے اس نے کسمسا کرآنکھیں کھولیں ۔


    پانی…. اس کے خشک لیوں پر خواہش جاگی، شناور نے سہارا دے کر اسے آگے کیا اور پانی کی بوتل اس کے لیوں سے لگادی۔ پانی کا گھونٹ اس کے اندراتر کر اسے سیراب کر گیا۔ کچھ توانائی ملی تو اس نے اردگرد نظر دوڑائی سامنے وہی مہربان تھا جس پر یقین کر کے اس نے اتنی ہمت دکھائی تھی۔
    ”سنبل تم ٹھیک ہوناں۔۔۔ شناور اسے ہوش میں آتا دیکھ کر بے تابی سے پوچھنے لگا۔ نور محمد نے چونک کر شناور کا چہرہ دیکھا۔ سمجھ دار انسان تھا۔ اندر کی بات سمجھ کر زیر لب مسکرا اٹھا۔
    شناو- بیا اور سارا وہیں ہیں۔ وہ ظاہر خان ….. وہ ملوث ہے۔ وہ اب ان دونوں کو بیتے جانے والے حادثے کی تفصیل سنارہی تھی ۔شناور کو یہ جان کر حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا کہ چاۓ والا نو جوان لڑکا بھی اس گروہ میں شامل ہے۔ اسی اثناء میں کسی کے زور زور سے بولنے اور قدموں کی تیز تیز چاپ سنائی دی۔ وہ درختوں کے پیچھے جا چھپے۔ اس لڑکی کا ملنا ضروری ہے۔ ورنہ باس ہمیں زندہ نہیں چھوڑے گا ۔ زندہ نہیں چھوڑے گا۔ ابے گدھے کچا چبا جائے گا، وہ ہمیں ۔ جانتا نہیں تو اسے کہ وہ کتنا ظالم ہے-
    ہاں جانتا ہوں اس کے بارے میں- مگر وہ کم بخت ظاہر کو زخمی کر گئی ہے اور اب اگر وہ وادی میں جا نکلی تو وہاں کے بے وقوف لوگوں کو بھی ہمارے دھندے کا علم ہو جاۓ گا۔ پھر جانتے ہو ناں کتنا برا ہوگا ہمارے ساتھ ۔ وہ دو ہٹے کٹے نوجوان تھے جو ایک دوسرے کو ڈراتے سنبل کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ ان دونوں کی باتوں سے صاف ظاہر ہو چکا تھا کہ وہ حویلی مجرموں کا ڈیرہ ہے۔ وہ دونوں نو جوان ان کے سامنے سے گزر چکے تو درخت کے پیچھے چھپے ان تینوں نے سکون کا سانس لیا۔ کہیں میرے بھاگنے کے بعد وہ لوگ بیا اور سارا کے ساتھ برا سلوک نہ کر رہے ہوں۔ سنبل کو نئی فکرستانے گی۔
    میں ارقم سے رابطہ کرتا ہوں ۔ معلوم کرتا ہوں کب تک پہنچ رہے ہیں وہ لوگ ۔ ارقم کو موبائل پرکال ملانے لگا۔ اب یہ ارقم کون ہے۔ سنبل نے حیرانی سے باری باری ان دونوں کے چہرے کو دیکھتے ہوۓ دریافت کیا۔
    نور محمد اسے ارقم کے حوالے سے تفصیل بتانے لیا۔ ارقم کی ٹیم کچھ ہی دیر میں اس حویلی تک پہنچنے والی تھی۔ کچھ لمحے مزید سرکے تو وہ دونوں ہٹے کٹے نوجوان نامراد سے ایک دوسرے کو الزام دیتے واپس لوٹ رہے تھے۔ ان کے جانے کے بعد نورمحمد پھر سے تالاب کی جانب پانی لینے کی غرض سے نکل کھڑا ہوا۔ میں نے تمہاری بانسری کی آواز سنی تھی ۔


    سنبل نے جھجھکتے ہوئے بات کا آغاز کیا- اس کی نگاہیں جھکی ہوئی تھیں ۔ شدید سردی کے باعث اس نے شناور کی جیکٹ پہن رکھی تھی اور اب ہولے ہولے اس کے کناروں پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔
    کہیں میری بانسری کی آواز سن کر تو حویلی سے نہیں بھاگی تھیں تم- وہ اسے دلچسپی سے دیکھتا استفسار کر رہا تھا۔ وہ دونوں درختوں سے پشت لگائے ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے تھے۔
    تمہاری بانسری نے ہی مجھے اتنی ہمت دی تھی کہ میں ظاہر خان پر حملہ کر کے بھا گی تھی۔ وہ سر جھکاۓ اعتراف کر رہی تھی ۔ اچھا ایسا کیوں۔۔۔؟ وہ پر اشتیاق سا پوچھ بیٹھا۔
    نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگا کہ تم ہمارے لیے ہی آۓ ہو۔ بانسری کی دھن جیسے ہمارے لیے پیغام تھی۔ وہ بچکچاتے ہوۓ بولی۔ میں اس سنہری لڑکی کے لیے آیا ہوں جس کا آسیب میرے دل پر اثر کر گیا ہے ۔ وہ اسے بغور دیکھتا اقرار کر رہا تھا۔ اس کے لہجے میں محبت کی گرماہٹ اور سچائی کی آنچ لو دے رہی تھی ۔ سنبل مسکرا اٹھی-
    تم جانتے ہو۔ میں نے تمہیں پہلی بار کہاں دیکھا تھا- وہ اب بےتکلف سی اس سے سوال کر رہی تھی- اجنبیت کی دیوار گر گئی تھی۔ جب کوئی آپ کے لیے جان کی بازی کھیل جاۓ تب وہ اجنبی نہیں رہتا۔ دل کے قریب بہت اپنا ہو جا تا ہے۔شناور اس کے لیے اب اجنبی بالکل بھی نہ رہا تھا۔ جس مشکل گھڑی میں اس نے اس کا ساتھ دیا تھا وہ کوئی بے حد اپنا ہی دے سکتا تھا اس کے اقرار کے بعد وہ بھی وہ سب کچھ کہہ دینا چاہتی تھی جو اس کے دل میں تھا۔ مارگلہ کی پہاڑیوں میں جب تمہارا پاؤں مڑا تھا۔ میں نے تمہیں تھاما تھا۔ وہ مسکراتے ہوۓاسے یا دلا رہا تھا۔
    ہاں ایک طرح سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا آمنا سامنا تب ہی ہوا تھا۔ مگر ایک ملاقات پہلے بھی ہو چکی تھی ہماری ، جس سے صرف میں آشنا ہوں اورتم یکسر انجان ہو۔ وہ اس کے تجسس کو ہوا دے کر اسے دلچسپ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
    ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ ہماری پہلی ملاقات سے میں انجان ہوں ۔ وہ حیران ہوا۔ ایسا ہوسکتا ہے جیسے شاہی قلعہ کے تاریخی باغ میں بیٹھ کرتم عشق آتش کی تان بلند کرو اور میرے قدم وھیں تھم جائیں اور میں یک ٹک تمہاری پشت کوتکتی رہ جاؤں۔ تمہاری آواز کی سوز میں کھوتی چلی جاؤں اور تم کہو سانو لگ گئی بے اختیاری اور میں بے اختیاری میں جھومتی چلی جاؤں۔ کیا تم نے بھی تصور کیا ۔ ہماری ایسی ملاقات ۔ وہ ایک سرور کے عالم میں کہیتی چلی گئی۔شناور بے خود سا سنتا چلا گیا۔
    کیا ہماری ایسی ملاقات تصور سے آگے۔۔۔ حقیقت وقوع پذیر ہوچکی ہے۔ وہ ذرا سا آگے ہوکر گمبھیر لہجے میں اس سے پوچھ رہا تھا۔ ہاں ہو چکی ہے۔ سنبل نے اس کے انداز کو اپناتے ہوۓ ذرا سا آگے ہو کر شرارت سے کہا۔ کیا تم واقعی اس دن شاہی قلعے میں موجود تھیں۔ مجھے سن رہی تھیں۔ وہ بے تابی سے پوچھ رہا تھا-
    میں اس دن قلعے میں تمہاری پرسوز آواز اور دھن کے سحر میں قید ہو چکی تھی۔ اس لیے جب اس رات تم کوہسار کے دامن میں بیٹھ کر یہ دھن چھیٹر رہے تھے تو میں صرف تمہارے دیدار کی غرض سے تمہارے سامنے آ بیٹھی تھی ۔ سنبل کو اچھا لگ رہا تھا شناور سے باتیں کرنا۔ کچھ لمحے پہلے وہ ایک خوف ناک خواب کا حصہ تھی اور اب وہ خواب ناک پلوں کوجی رہی تھی۔
    اور اس شام میں نے اس برفیلی موتیوں سے بھری وادی میں سنہری مورتی کو آنکھیں موندے بانہیں پھیلاۓ اسے استقبال کرتے دیکھا تھا اور اس وقت میں سوچ رہا تھا کہ ایسا استقبال تو شاید کووقاف میں پریاں شہزادوں کا کرتی ہوں گی۔ وہ پھر سے اس پل میں کھو گیا-
    کوہ قاف میں نہ سہی اپنی زندگیوں میں تو ایک دوسرے کی آمد پر ایسا خوب صورت استقبال کر سکتے ہیں ناں- سنبل کی بات پر وہ ٹھٹھک کر اسے دیکھنے لگا۔ چہره خوب صورت، لہجہ خوب صورت، الفاظ بھی حسین- واللہ شناور واللہ ! ان دونوں کی نظر میں ہم کلام تھیں ۔ خاموش گفتگو ہوتی رہی اور اسی دوران نورمحمد کی کھنکنارتی ہوئی آمد ہوئی ۔
    ادھرحویلی میں خوب ہلچل مچی ہوئی ہے ۔ شاید تمہارا دوست اپنی ٹیم لے کر وہاں پہنچ گیا ہے۔ پڑدھکڑ شروع ہوچکی ہے۔ نور محمد کی اطلاع کسی بریکنگ نیوز سے کم نہ تھی۔
    اس دن وادی والوں کو علم ہوا کہ حویلی پر جن بھوتوں کا نہیں ، شیطان صفت انسانوں کا بسیرا ہے۔ اس رات صرف بیا اور سارا ہی نہیں اور بھی معصوم بچے تھے جنہیں اس شیطانی قید سے نجات ملی تھی۔ اس رات بہت سے راز افشا ہوۓ تھے وہ پانچ درندہ صفت لوگوں کا گروہ تھا جو وادی سے ٹارگٹ شدہ لوگوں اور بچوں کو اغواء کر کے کچھ دن اس حویلی میں رکھتا اور اس دوران ان پر ذہنی و جسمانی تشدد کر کے سوچنے سمجھنے کے قابل نہ چھوڑا جا تا ۔ وارث بھی اس رات ان لوگوں کے شکنجے میں جا پھنسا تھا اور چچا شکور کو اس رات اس سیاہ دھندے کی کچھ نہ کچھ بھنگ پڑگئی تھی۔ تب ہی انہیں بے دردی سے قتل کر ڈالا تھا۔ ظاہر خان اس گروپ میں کچھ عرصے قبل شامل ہوا تھا۔ اس کا کام وادی میں نئے آنے والے لوگوں کی آمد ورفت پر نظر رکھنا اور موقع ملتے ہی ان کو اغواء کر لینا تھا۔ اس میں سے ایک بندے کونورمحمد نے بھی شناخت کرلیا تھا۔ وہ وادی میں نابینا فقیر کے روپ میں گھوما کرتا تھا۔
    یہ شیطان ہمارے کتنے قریب تھے اور ہم ان کے جال میں پھنس کر بھی ان کی موجودگی سے انجان تھے۔ نورمحمد دل گرفتہ سا کہہ رہا تھا۔ وادی کے دیگر لوگوں کی بھی آنکھیں پرنم تھیں ، ان معصوم بچوں میں سے اکثر ہوش وخرد سے بے گانہ اور دینی طور پر برے حال میں تھے۔ کچھ ایسے بھی تھے جو تشدد سے نڈھال تھے۔ ارقم نے ان سب بچوں کو اسپتال داخل کروادیا تھا ان کے مکمل چیک اپ کے بعد ہی انہیں وارثین کے سپرد کرنے کا مرحلہ طے پاتا۔
    داؤد بھائی نے سنبل اور دونوں بچیوں کے مل جانے کی اطلاع فوری طور پر مسز صدیقی تک پہنچائی تھی۔ مسز صدیقی شکرانے کے طور پر سجدے میں جا گریں۔ ماہین نے بھی شکرانے کے نفل ادا کیے۔ کچھ وقت ابھی ان لوگوں کو یہیں رک کر قانونی کارروائیوں کا معاملہ نبٹانا تھا۔
    ***************


    ایک بات سچ سچ بتانا شان- انسانیت اپنی جگہ مگر اس بے گانے معاملے میں تیرے حد درجہ دیوانہ پن کی کیا وجہ ہے۔ ارقم نے شناور کو بالآخر پکڑ ہی لیا تھا۔ وہ لوگ سی آئی ڈی آفس آۓ ہوۓ تھے۔ شناور اس وقت ارقم کے ہمراہ اس کے کمرے میں موجود تھا جبکہ دیگر افراد اپنا اپنا بیان قلمبند کروا ر ہے تھے-
    وہ لڑ کی جو سامنے بیٹھ کر اپنا بیان لکھواری ہے ناں وہ ہے سب سے اہم وجہ- آفس روم کے شیشے کی دیوار سے سنبل کے جھلکتے عکس کی جانب شناور نے اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔
    سمجھ تو میں پہلے ہی گیا تھا مگر تمہارا اقرار بھی ضروری تھا۔ وہ کیا ہے ناں ہم سی آئی ڈی والے جب تک منہ سے اگلوانہ لیں تب تک یقین نہیں کرتے ۔ارقم نے دائیں آنکھ مار کر شناور کو چھٹر تے ہوۓ کہا۔ اوۓ تو دوست بن کر مل رہا ہے یا سی آئی ڈی آفیسر بن کر- شناور نے چونکنے کی ادا کاری کی ۔ دوسی آئی ڈی آفیسر بن کر – ارقم نے اپنی نادیدہ مونچھوں کو بلاوجہ تاؤ دیتے ہوئے کہا۔ شناور ہنس پڑا پھر خیال آنے پرارقم سے دریافت کر نے لگا کہ بھابھی کیسی ہیں۔ شادی کی تیاری کیسی چل رہی دونوں طرف؟
    شادی شادی پر تو فاتحہ پڑھ کر آیا ہوں یہاں میرے یار… ارقم استہزائیہ سی بنستے ہوۓ بولا ۔
    شناور بری طرح چونک گیا۔ شبھ شبھ بولو… کیا الم غلم منہ سے نکال رہا ہے پگلے-
    الم غلم تو تمہاری بھابی کے دماغ میں جا گھسا ہے۔ جو ایرے غیرے کی باتوں میں آکر میرے کردار پر انگلی اٹھارہی ہے۔
    ارقم منہ پھلا کر خفی بھرے انداز میں کہہ رہا تھا۔ کردار پرانگلی… پورا قصہ سنا میرے بھائی کیوں سراور پیٹ میں درد کروارہا ہے۔
    ار قسم سے ۔۔۔۔۔۔ یہ جولڑکیاں ہوتی ہیں ناں ۔ یہ بڑی ہی الگ قسم کی مخلوق ہوتی ہیں ان کے بھیجے کی جو مشینری اور پیچ پرزے ہوتے ہیں ناں وہ بھی عام انسانوں سے مختلف طور پر کام کرتے ہیں۔ مجال ہے کہ سیدھی بات انہیں سیدھے طریقے سے سمجھ آجائے ۔ارے جوان کے ساتھ مخلص ہوتا ہے وہ بے وفا لگتا ہے اور جو صحیح معنوں میں ان کا استعمال کرتا ہے وہ ہی انہیں اپنا لگتا ہے۔ ارقم کے اندر اتنے دنوں کا جمع ہوا غبار بالآخر آتش فشاں کی صورت شناور کے
    سامنے پھوٹ ہی پڑا۔
    اچھا چل چھڈ ۔ ٹھنڈا پانی پی اور اب بتا کیا ہوا ہے؟ شناور نے ٹھنڈا ٹھار پائی جگ سے نکال کر ارقم کی جانب بڑھاتے ہوۓ کہا۔ ارقم اسے سارا قصہ سنانے لگا۔
    میں بھی تمہاری بھابھی کا دماغ درست کر کے آیا ہوں۔ ایسا فیصلہ کیا ہے کہ ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے ۔عقل کے ناخن واپس بڑھ جائیں گے اور ہوش ٹھکانے آ جائیں گے ۔ وہ ۔ سب کارستانی سنانے کے بعد اپنے کارنامے کی بابت گردن اکڑا کر کالر جھاڑ کر چرچا کرنے لگا۔
    سر یہ رہے بیانات…. مکمل کوائف کے ساتھ ۔ ارقم کا اسسٹنٹ اس کی میز پر فائل رکھ کرچلا گیا۔ ارقم ان فائلز کی جانب متوجہ ہوکر ایک کے بعد ایک بیان پڑھنے لگا۔ اگلا بیان سنبل کا تھا۔ مگر کوائف پڑھتے ہی ارقم کے دماغ میں زور دار گھنٹیاں بجنا شروع ہوگئیں-
    مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے تمہاری محبت کی عمر انتہائی مختصر ہونے والی ہے۔ ارقم نے کاغذات کے پلندوں سے نگاہ ہٹاتے ہوۓ کچھ عجیب سی نظروں سے شناور کودیکھتے ہوۓ کہا۔
    ہوتا ہے۔ ہوتا ہے۔۔۔۔۔ جب اپنی محبت کی دنیا لٹتی ہے تو دوسروں کی رومانوی دنیا اجاڑنے کا من چاہتا ہے۔ ہمت کر حسد نہ کر میرے دوست ۔ شناور نے ارقم کی بات کو ہوا میں اڑایا اور اس سے چھیڑ خانی شروع کر دی۔
    فلاسفر میاں- جس وجہ کی بدولت بے گانے معاملے میں عبداللہ دیوانہ کی عملی تفسیر بنے پھر رہے ہوناں۔ میری ہنسی ہستی زندگی میں ، میری خوشیوں میں گرہن لگانے کی وجہ بھی وہی ہے۔ وہ اک اک لفظ چبا کر کہہ رہا تھا۔
    کیا مطلب یار….. میں سمجھا نہیں ۔ ایک تو تیری یہ عادت بڑی خراب ہے گھما پھرا کربات کرنے کی یقینا بھابھی بھی تیری اس عادت سے بے زاررہتی ہوں گی تب ہی جھگڑتی ہوں گی ۔ ارقم ابھی بھی اپنی لن ترانیوں میں مگن تھا۔ تم ایک کام کروشیان …… کوہسار پر چڑھ کراپنی بنسی بجاتے رہو۔ارقم نے تپ کر کہا۔
    دیکھو یہ اب تم میری توہین کر رہے ہو ارقم – میری بنسی کے بارے میں کچھ نہ کہنا۔ شناور جذبات کی ندی میں غوطہ لگاۓ خفی سے کہنے لگا۔ مگرارقم نے بات کو نظر انداز کر کے اسسٹنٹ کو سنبل کو اندر بھیجنے کی تاکید کر ڈالی۔ فون رکھ کر شناور کی جانب متوجہ ہوا۔
    اب پتا چلے گا تجھے شان میاں ۔ جب رومانوی دنیا اجڑتی ہے تو کیسا لگتا ہے۔ وہ منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے دھمکا رہا تھا ۔ قبل اس کے شناورکچھ کہتا سنبل کمرے میں داخل ہوئی۔ایک پھڑ کتا ہوا جملہ اس کے لبوں پر ہی دم توڑ گیا اور اس کی جگہ مسکراہٹ سانس لینے لگی ۔ سنبل نے ایک نظر ان دونوں کے چہرے پر ڈالی اور سامنے کرسی پر بیٹھ گئی۔
    توآپ کے والد کا نام اشتیاق عالم ہے۔ ارقم، نے پر رعب انداز میں پوچھا۔ جی، سنبل نے اطمینان سے جواب دیا۔ اور والدہ کا نام حبیبہ بیگم…. ارقم نے اس کا چہرہ بغور دیکھتے ہوۓ اگلا سوال داغا۔ ی مگر یہ کیسے معلوم آپ کو، میں نے ان کا نام تو یہاں درج نہیں کیا۔ سنبل حیران ہوئی۔ یہ آپ کا مکمل ایڈریس ہے ۔۔۔۔۔ وہ اس کی فکرکو نظر انداز کرتا سنبل کا مکمل پتا دہراتے سوال کر رہا تھا۔
    جی یہی ہے۔….مگر آپ نے بتایا نہیں آپ میری والدہ کا نام کیسے جانتے ہیں۔ سنبل ہنوز حیران تھی۔
    جی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو ہم سی آئی ڈی والے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ کی والدہ کی حرکتیں ہی کچھ ایسی ہیں۔ وہ دل جلا دینے والی مسکراہٹ لبوں پر سجاۓ بولا- سنبل کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ جبکہ شناور نے بھی کن انکھیوں سے ارقم کوگھورا مگر وہ بے نیاز بنا رہا۔
    یہ کس طرح کی باتیں آپ کر رہے ہیں۔ آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا میرے والدین کے حوالے سے بد تہذیب رویہ اپنانے کا۔ سنبل نے سخت لہجے میں ارقم کو تنبیہ کی۔
    معذرت چاہتا ہوں مگر آپ کے والدین کو بھی کوئی حق نہیں پہنچنا میری ہنستی کھیلتی دنیا برباد کرنے کا۔ وہ بھی اس کے انداز میں غرایا تھا۔ سنبل کے ساتھ ساتھ شناور بھی حیرت زدہ رہ گیا۔
    یار ارقم- سیدھی سیدھی بات کرو۔ معاملہ کیا ہے؟ شناور نے مداخلت کی ۔ اسے اب احساس ہوا تھا کہ معاملہ سنجیدہ نوعیت کا ہے-
    اچھا ٹھیک ہے کرتا ہوں سیدھی سیدھی بات ۔ محترمہ سنبل- آپ جہاں رہتی ہیں اس کے دوگھر چھوڑ کر میرا گھر ہے۔ کچھ دن قبل میری شادی کی تاریخ پکی ہونے جارہی تھی ، اس دن آپ کے والد اور والدہ صاحبہ چند خطوط کا پلندہ اٹھاۓ ہمارے گھر حاضر ہوۓ اور میری اور آپ کے عشق و معاشقے کے خوب قصے سنانے لگے۔ ان کے پاس ثبوت تھا کہ وہ خطوط میرے یعنی ارقم کے نام سے لکھے گئے تھے اور آپ کی والدہ صاحبہ تو یہ تک کہہ لیں کہ جب سے میری شادی کی خبر آپ نے سنی ہے۔ آپ پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ
    پڑا۔ آپ کے گھر والوں کی بے وقت انٹری اور ان شر انگیز خطوط کی بنا پر میرے گھر میں ایک طوفان رہا ہے اور میری منگیتر مجھ سے بے انتہا متنفر ہوچکی ہے۔ لہذا براۓ مہربانی آپ ان خطوط کے راز سے پردہ اٹھا ہی ڈالیں آج- ارقم نے مختصر ساری روداد سنانے کے بعد نہایت عاجزی سے عاجزانہ انداز میں درخواست کی۔
    شناورساری رام کتھا سن کر ہکا بکا سا سنبل کی جانب دیکھ رہا تھا اور سنبل کا حال کچھ یوں تھا کہ کا ٹوتو بدن میں لہو نہیں۔ شرمندگی سے اس کا سرجھک چکا تھا۔ اس کے تو وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کی لکھی گئی ایک مختصرسی کہانی اتنا بڑ افساد کھڑا کر دے گی- حیرت تو اسے اماں ابا پر بھی ہورہی تھی جنہوں نے اسے بنا بتاۓ اتنا بڑا قدم اٹھالیا۔
    خدارا- اب بتا بھی دیں کہ ان خطوط کیا معاملہ ہے- سنبل کو سرتھامے بیٹھا دیکھ کر ارقم نے بے تابی سے کہا۔ وہ کب سے منتظر تھا اس لڑکی کا جس کے خطوط نے اسے بدنام کر ڈالا تھا۔ اب وہ سامنے موجود تھی تو اس کی خاموشی اسے بری طرح کھٹک رہی تھی-
    دراصل وہ خطوط نہیں ، میری لکھی گئی کہانی کے کاغذات تھے۔ سنبل نے شرمندہ شرمندہ لہجے میں جواب دیا اورحلق میں اٹکی شناور کی سانس جھٹ سے بحال ہوئی۔ وہ بھی اس قصے کا ڈراپ سین سننے کو بے چین تھا۔
    دراصل حال ہی مجھے لکھنے کا شوق چڑھا تھا اور میں نے ایسے ہی چند خطوط پر مبنی کہانی لکھ ڈالی یہاں آنے سے قبل میں وہ صفحات اپنی رائٹنگ ٹیبل کی دراز میں رکھ آئی تھی۔ میں نے اپنے نئے مشغلے سے اپنے والدین کو انجان رکھا تھا کیونکہ میں انہیں کہانی چھنے کے بعد سر پرائز دینا چاہتی تھی۔ میرے خیال سے ان کے ہاتھ وہی کاغذات لگے ہوں گے اور کہانی کا اہم کردار آپ کے ہم نام ہونے کی وجہ سے وہ لوگ اس شدید قسم کی غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہوں گے۔ سنبل کی بتائی گئی تفصیل سن کے ارقم سر تھام کر بیٹھ گیا۔
    آئی ایم سوری! میں بے حد شرمندہ ہوں۔ مگر یقین کریں مجھے میرے گھر والوں نے اس تمام ہنگا مے سے لاعلم رکھا تھا۔ پوچھنا تو در کنار مجھے بتایا بھی نہیں گیا ورنہ میں یہ غلط فہمی اس وقت دورکر دیتی۔
    تم نہیں جانتیں سنبل- اس غلط فہمی نے میرے دوست اور اس کی محبوب منگیتر کے درمیان خوب جھگڑے کروائے ہیں ۔ شناور اسے ہنستے ہنستے ساری تفصیل بتارہا تھا۔
    میں بے حد شرمندہ ہوں ارقم بھائی۔ مگر آپ بے فکر رہیں ۔ گھر پہنچتے ہی میں سب کی غلط فہمی دور کردوں گی ۔ وہ مسکراتے ہوئے ارقم سے وعدہ کر رہی تھی۔ ارقم نے فقط مسکرانے پر اکتفا کیا۔ محترمہ کے والدین بھی ناں۔ اولاد سے پوچھنا گوارا نہیں کیا اور بس بالا ہی بالا فیصلہ کر کے اتنا بڑا فساد کھڑا کر دیا۔ پھر بھلے کسی کی زندگی برباد ہو۔ ان کا حال تو سانوں کی والا ہوتا ہے ۔ ارقم سوچے بنا نہ رہ سکا۔


    ************

    یہ مختصر سے دن میری زندگی کے سب سے یادگار دن ہوں گے۔ یہ دن دو انجان لوگوں نے ہم سفر بن کر گزارے۔۔۔۔ یہ میں کبھی بھول نہیں سکتا ۔ دونوں کشمیر پوائنٹ کی بل کھاتی سڑک پر ایک ساتھ قدم سے قدم ملا کر ٹہل رہے تھے۔ شناور نے مسکرا کرسنبل کے کرنوں سے دمکتے چہرے کو اپنی نرم نگاہوں کے حصار میں لیتے ہوۓ کہا۔
    ان چند دنوں میں میں نے زندگی کا ہر ایک رنگ دیکھ لیا۔ مسرتیں بھی دیکھ لیں اور پریشانی سے بھر پور دن بھی دیکھ لیے۔ ان تمام وقتوں میں تمہارا ساتھ ہمیشہ میرے ساتھ رہا۔ سنبل اسے ممنون نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔
    اور اب یہ سفر تو ختم ہوا چاہتا ہے۔ مگر میری زندگی کا سفر اب اپنے ہمراہی کا منتظر ہے ۔ شناور اسے جواب طلب نگاہوں سے تک رہا تھا۔ وہ ایک خوب صورت وعدہ کا خواہاں تھا۔
    مجھے ہمراہی بنانے کے لیے تمہیں میرے گھر تو آنا ہوگا شان- اسے آج ہی پتا چلا تھا کہ اس کے اپنے اسے شان کہتے ہیں اور وہ گلوکاری کے میدان میں بھی اسی نام سے اترا تھا…. اور جب وہ اس کے اپنوں میں شامل ہو چکی تھی تو استحقاق والے انداز میں اس نے اسے شان کہہ کر پکارا تھا۔
    میں جلد آؤں گا تمہیں لینے ۔۔۔۔۔ یہ تمہارے شان کا تم سے وعدہ ہے۔ اس نے محبت بھری نگاہوں سے اس کے رخسار کو چھیڑتے ہوۓ کہا۔ عہدو پیاں ہو چکا تو وہ شناور کے ہمراہ کچھ فاصلے پر گھڑی کوسٹر کی جانب بڑھنے لگی ۔ جہاں داؤد بھائی اور مسز صدیقی ، ارقم اور نورمحمد کا خاص طور پر شکر یہ ادا کررہے تھے۔ داؤد بھائی نے ارقم سے درخواست کی تھی کہ میڈیا پر خبریں چلیں تو اس میں ان کے اسکول کا نام نہ آئے۔ ارقم نے بے فکر رہنے کی یقین دہانی کرائی تھی- سنبل نے نورمحمد کا خاص طور پر شکر یہ ادا کیا اور وہ لوگ کوسٹر پر سوار ہو گئے ۔ کوسٹر اپنی منزل پر روانہ ہوگئی۔
    میرے دوست- میرا قصہ تو حل ہوا اب تم اپنی داستان محبت کی جلد ابتدا کر ڈالو۔ ورنہ آپ کی محبت کے جونگراں ہیں وہ بڑے ہی جلد باز ہیں ۔ ارقم اسے گلے لگا کر نصیحت کرتا اپنی راہ کو ہولیا۔
    کو ہسار کی برفیلی چوٹیوں پر کرنیں محور رقص تھیں اور ان کی شوخیوں پر برفیلی گھونگٹ قطرہ قطرہ شرمائی ہوئی پگھل رہی تھی۔
    دھنک رنگوں کی صورت
    کن من پھوار کی صورت
    البیلی کرنوں کے سنگ
    کوہسار پراتری محبت
    اک وحی کی صورت
    محبت ان دونوں پر بھی وحی کی صورت اتری تھی۔ کہاں تھا ناں دوست- تمہارے اندر مجھے مجنوں دکھتا ہے ۔ نور محمد نے اس کی پشت پر تھپکی دیتے ہوۓ شوخ لہجے میں کہا تو وہ ہنستا چلا گیا۔ میرے دوست- عشق اور مشک چھپاۓ نہیں جھتے- نور محمد کا قہقہ بھی شناور کی ہنسی میں شامل
    ہو گیا۔
    **********


    عجب افراتفری کا عالم تھا۔ ارقم کی ایک فون کال نے ان سب کے گھروں میں ہل چل مچادی تھی ۔ نہ جانے ہمارے لاڈلے کے دماغ میں اب کیا فتور سمایا ہے۔ جو تیمور بھائی صاحب کے ساتھ ساتھ پڑوسں والے اشتیاق بھائی کو بھی آج شام گھر پر بلانے کا حکم جاری کر ڈالا ہے۔ رحمان احمد بھناۓ ہوئے انداز میں بڑ بڑار ہے ہیں۔ انہیں بار بار بازارکا چکر لگانا پڑرہا تھا۔ کچھ سوچ کر ہی اس نے ایک جگہ سب کو جمع کرنے کا کہا ہے۔ مجھے لگتا ہے ارقم کوئی اہم فیصلہ کرنے والا ہے ۔ دادی اماں نے جھٹ پوتے کی حمایت کی ۔ رحمن احمد سر جھٹک کر باہر سامان لینے چلے گے۔ کچھ اس طرح کے مخمصے میں شمائلہ بھی پڑی ہوئی تھی-
    ارقم نے کہا تھا کہ اس لڑکی کے آنے پر فیصلہ ہوگا۔ وہ تو ابھی آئی نہیں پھر ارقم نے سب کو ایک جگہ اکٹھا ہونے کے لیے کیوں کہا۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے امی۔ جب سے اس نے ارقم کی فون کال کی خبر سنی تھی۔ اس کے دل میں دس طرح کے وسوسے ایک ساتھ ملنے لگے تھے۔


    اوہو….میمونہ چلی گئی مگر ہر طرح کے شکوک پالنے کا شوق تمہارے اندر چھوڑ گئی۔ ارے بیٹا کبھی مثبت بھی سوچ لیا کرو۔ حکومت نے اب تک اچھا سوچنے پرٹیکس نہیں لگایا ہے۔ کیا پتا ارقم کوئی اچھا فیصلہ کرنے آج۔ راحت آرا نے بیٹی کوڈ پٹنے کے ساتھ ساتھ سمجھایا۔
    اور یہی کچھ کیفیت اشتیاق عالم کے گھر میں بھی تھی۔
    سنبل کے آنے میں تو ابھی بھی دودن باقی ہیں ۔ پھر ارقم نے آج ہمیں گھر پر بلا لیا۔ ایک تو پہلے ہی ہم سے غلطی ہوگئی ہے اب نہ جانے کیا کیا بھگتنا پڑے ۔ حبیبہ کا بلڈ پریشر سوچ سوچ کر ہائی ہوا چلا جارہا تھا۔
    اری نیک بخت – کچھ باتوں کو وقت پر بھی چھوڑ دیا کرو۔ تمہاری اپنی جلد بازیوں کی بدولت تو اتنا بڑا کھڑاک پیدا ہوا ہے۔ شام ہوگی تو دیکھا جائے گا۔ ارقم نے کیوں بلایا ہے آج ہمیں اب ذرا خود بھی ہولنا بند کرو اور مجھے بھی مسلسل ہولا نے کا سلہ منقطع کرو۔ اشتیاق عالم بری طرح چراغ پا ہوتے ہوۓ بولے تو حبیبہ بیگم منہ بسور کر رہ گئیں۔
    اور پھر شام کے سرمئی پر پھیلاتے ہی رحمن احمد کے گھر سب جمع ہو بیٹھے۔ بڑے سے لاؤنج میں سب صوفے پر بیٹھے تھے۔ خیرو خیریت کے علاوہ فی الوقت ان سب کے پاس مزید بات کرنے کو کچھ نہ تھا۔ جہاں خواتین کے چہرے پر بارہ بج رہے تھے۔ وہیں مرد حضرات بھی شدید بے چینی کا شکار نظر آرہے تھے۔ صرف دادی اماں تھیں جو پاندان میں سے پان نکالے چونا کتھا لگانے میں مصروف تھیں ۔ البتہ اس دوران ایک طائرانہ نگاہ سامنے بیٹھے ، منہ بسورے مجمع پر ڈالنا نہیں بھولتیں۔
    اوہو۔ نہ جانے کب آۓ گا ارقم- تیمور حسن پہلو بدلتے ہوۓ بے چینی سے بولے اور اسی پل گھر کی گھنٹی بجی۔
    لوآ گیا ارقم …. عفت آرا بے قرارسی دروازہ کھولنے کو اٹھیں۔ شمائلہ کا دل زور زور سے دھک دھک کرنے لگا۔
    نہ جانے ارقم آج کیا فیصلہ کرے گا۔ اسے یہی ایک فکر کھاۓ چلی جارہی تھی اور پھر للاؤنج میں پہلے حیران پریشان سی عفت آرا کی انٹری ہوئی اور ان کے پیچھے تازہ دم، خوش باتوں میں مگن سنبل اور ارقم اندرداخل ہوۓ ۔


    السلام علیکم…. ان دونوں نے مسکرا کر ان سلام جھاڑا۔ مگر حاضرین وناظرین کو سانپ سونگھ گیا۔ وہ لوگ ہکابکا سے تکے گئے۔ سنبل تم ؟ حبیبہ کی قوت گویائی سب سے پہلے
    بحال ہوئی۔
    کیا…. یہ سنبل ہے؟ شمائلہ کوشدید ذہنی دھچکا لگا۔ اس کا پریشان حال ذہن تیزی سے نئی کہانی بننے لگا-


    خدارا مزید کسی بے تکی تصوراتی دنیا میں پہنچنے سے قبل چند لمحے مکمل سنجیدگی سے حقیقت میں جی لیں اور ہم دونوں کی بات بھی بغورسن لیں ۔ ان سب کے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھ کر ارقم نے انتباہ کرنا ضروری سمجھا۔ وہ سب منہ کے زاویے بگاڑے مجبوراً ہمہ تن گوش ہوۓ ۔

    یہ سنبل ہیں، اشتیاق صاحب کی بیٹی اور ہماری پڑوسن ۔ ان ہی کے خطوط کی وجہ سے خاندان میں پھوٹ پڑی تھی اور آج سنبل ان خطوط کی حقیقت آپ سب کو بتانا چاہتی ہیں۔ ذرا دل تھام کر سنیے گا۔ آخری جملہ اس نے بطور خاص حبیہ بیگم کے جانب دیکھتے ہوۓ اچھالا تھا۔ وہ گڑ بڑا کر رہ گئیں۔ وہ خطوط نہ تھے۔ وہ جو آپ لوگ سمجھ بیٹھے تھے۔دراصل وہ خطوط میری کہانی کا حصہ تھے۔ سنبل سر جھکاۓ ہوۓ ان خطوط کے حوالے سے ساری تفصیل سنانے لگی ۔
    وہ سب شرمندہ شرمندہ سے اپنی بغلوں میں جھانکنے لگے۔ ارقم کی نگاہیں مسلسل شمائلہ کے شرمندہ شرمندہ وجود کا طواف کر رہی تھیں۔ شمائلہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ شرم سے پانی ہو کر کسی کونے میں جا چھپے-


    سنبل کی بات مکمل ہوئی تو ارقم وادی کوہسار پھنچنے والے واقعے اور سنبل سے ہونے والی ملاقات کی احوال بتانے لگا۔

    ان سب کے دلوں سے شکوک کے بادل چھٹ چکے تھے ۔ دل صاف ہو چکے تھے۔ وہ سب اب ارقم سے سخت شرمندہ تھے۔ اشتیاق عالم اور حبیبہ کے پاس تو لفظ ہی نہ تھے جن کے سہارے وہ ارقم سے معذرت خواہ ہوں ۔ البتہ وہ اس کے شکر گزار بے حد تھے۔ جسے وہ مسلسل بدنام کرتے رہے۔ وہی ان کی بیٹی کی حفاظت کرنے والا نکلا۔ وہ دونوں میاں بیوی ان سب سے معذرت کر کے سنبل کو ہمراہ لیے گھر کو ہو لئے-
    اب میرے خیال سے شادی کی تاریخ پر بھی بات ہوجانی چاہیے۔ رحمن احمد نے گلا کھنکارتے ہوۓ سب کو متوجہ کیا۔
    آپ لوگ سب بھول رہے ہیں کہ میری اور شمائلہ کے درمیان کچھ شرطیں طے پائی تھیں۔ وہ بھنا تا ہوا بولا اور پیر یٹخ کر کمرے میں چلا گیا۔ شمائلہ چہکوں پہکوں رونے کی تیاری کرنے لگی۔
    اف اللہ- اس لڑکی کو کوئی عقل سکھاۓ ، یہ وقت رونے کا نہیں، جاؤ جا کر منا ؤ ارقم کو، معذرت کرواپنے برے رویے کی- عفت آرا نے سمجھا کراسے ارقم کے پیچھے بھیجا۔
    شمائلہ کمرے میں داخل ہوئی تو ارقم آنکھوں پر بازو رکھے بستر پردراز تھا۔
    اب ان شرطوں کا کیا معاملہ ہوگا وہ انگلیاں ترخاتے گومگو کی کیفیت میں پوچھ رہی تھی۔ آج تھکا ہوا ہوں ۔ شادی سے انکار کل کروں گا۔ اس نے ذرا سا باز و ہٹا کر شمائلہ کو دیکھا اور پھر بازو آنکھوں پر واپس رکھ کر شان بے نیازی سے
    جواب دیا۔
    دیکھوارقم- جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ اب ان شرطوں کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے ۔ وہ ہمت کر کے مزید آگے بڑھی۔ مگر ارقم سنی ان سنی کر گیا۔
    دیکھو، میں مانتی ہوں میری غلطی ہے تو معاف کر دوناں ۔ ہوجاتی ہے غلطیاں بشر سے مجھ سے بھی ہوگئی۔
    اس کی بے نیازی پر مزید جذباتی ہوکر وہ بستر کے اک کونے پر بیٹھ کر بولتی چلی گئی۔ ارقم نے آنکھوں پر سے بازو ہٹا کر پھر سے منگیتر صاحبہ کی لوکیشن کا جائزہ لیا اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اب وہ کینہ توز نگاہوں سے جزبز سی شائلہ کوگھور رہا تھا۔
    محبت تو تم مجھ سے ہی کرتے ہو اور میں بھی۔ دونوں ہی ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے پھر اتنا ڈراما کرنے کی کیا ضرورت اس کے اٹھ بیٹھنے پر شمائلہ مزید ہمت کر کے گویا ہوئی۔
    اچھا- تو میں ڈراما کر رہا ہوں۔ اتنے دنوں سے میرے دامن پر کیچڑ اچھالنے والوں کو آج میرے پارسا ہونے کا سرٹیفکیٹ ملتے ہی محبت گم گشتہ تڑپانے لگی ۔ واہ شمائلہ بیگم واہ رنگ بدلنے پر تو تم نے گرگٹ کو بھی بات دے ڈالی۔ اللہ اللہ کر کے چپ کا روزہ ٹوٹا اورارقم کسی زخمی شیر کی طرح گرجا۔
    دیکھوتم نے مجھے گرگٹ کہہ لیا ناں ، اب بس معاملہ رفع دفع کرو۔ بھاڑ میں ڈالو شرطوں کو۔ ذرا سوچو اس دنیا کے بارے میں جو ہم جلد ہی شادی کے بعد بسانے والے ہیں ۔ شمائلہ پٹڑی سے اترتے زخمی شیر کو پھر سے پٹری پر واپس کھینچ لائی۔
    اور تم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ نئی دنیا میں تم جیسی نادان اور عقل سے پیدل لڑکی کے ساتھ بساؤں گا۔ وہ کمر پر دونوں ہاتھ جما کر لڑا کا عورتوں کی طرح منہ بگاڑ کر کہنے لگا۔
    اچھا تو پھر کس کے ساتھ بساؤ گے۔ ذراصاف صاف بتانا مجھے ۔ اس بار وہ بھی آستین چڑھاتی ، میدان میں کودی۔
    جس کے ساتھ بھی گزاروں زندگی تمہیں اس سے کیا؟ وہ منہ پھیر کر بے مروتی سے بولا۔
    سنوارقم رحمان – جو تمہارے دل کے راستے ہیں ناں ۔ وہ ہزار بھول بھلیاں گھوم کر بھی مجھ تک آتے ہیں ۔ ان راستوں کا رخ موڑنا تمہارے بس میں نہیں۔ ایسا بھرپور قبضہ ہے تمہارا میرے دل پر- وہ سینہ ٹھوک کر اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
    ہونہہ- بڑی آ ئیں قبضہ مافیا کی جانشین ۔ کوئی عام بندہ نہیں ہوں میں ۔ایسے چھوٹے موٹے قبضے تومیں چٹکی بجاتے ہی صاف کر دوں ۔ وہ اس کی محبت میں ماری بڑھک کو آئینہ دکھارہاتھا۔
    اچھا تو تم میرا قبضہ صاف کرو گے۔ ہمت ہے تو کر کے دکھاؤ۔ اس بارشمائلہ نے بھی کھلا چیلنج دے ڈالا۔
    ویسے سچ کہوں …… اگر جس انداز میں ابھی تم میری محبت کی دعوے دار بنی میرے لیے مجھ سے ہی لڑ رہی ہوناں ، اگر یہی ساتھ تم اس وقت دیتیں جب میں مصیبت میں کھڑا تھا تمہیں اپنا سرکا تاج بنا کر رکھتا شادی کے بعد ۔ ارقم نے پھر سے اس کی نادانیوں کا طعنہ دے مارا۔
    کوئی بات نہیں …… سر کا تاج نہ سہی۔ گلے کا ہار بنا کر رکھ لینا مجھے اپنی شادی کے بعد۔ وہ بھی مکمل طور پر ڈھٹائی پر اتر آئی۔
    گلے کا ہار…. خوش فہمی ہے تمہاری …… گلے میں پڑاڈھول لگنے لگی ہوتم مجھے جیسے اتارنے کے لیے میں بے حد بے چین ہوں ۔ ارقم کی اکڑ کم ہونے کا نام نہ لے رہی تھی۔ وہ اسے سناتا ہوا کھڑکی کے سامنے جا کھڑا ہوا- شمائلہ کے سر پر لگی تلوؤں پر بجھی، شدید غصے کے عالم میں وہ بڑبڑاتے ہوۓ ادھر ادھر نگاہ دوڑانے لگی۔
    یہ لڑکا پیار سے سننے والا نہیں ۔ اب زور زبردستی تو کرنی ہی پڑے گی اس کے ساتھ۔ بڑ بڑاتے ہوۓ اس کی نگاہ کارنر ٹیبل پر پڑے پھلوں کے ساتھ رکھے چاقو پر جاپڑی۔ ایک شیطانی مسکراہٹ اس کے لبوں پرآ دھمکی ۔ چاقو اٹھا کر وہ دبے پاؤں اس کے پیچھے جا کھڑی ہوئی اور نوک گردن پر رکھتے ہوۓ اسے دھمکاتے ہوۓ بولی۔ کہو مجھ سے شادی منظور ہے۔ بولو جلدی ورنہ یہ چاقو ۔۔۔۔۔ اس چاقو سے میں تمہارے سارے بال اڑادوں گی۔
    واه واه واه ….نشانہ گردن اور دھمکی میرے زلفوں کی، جاؤ جاؤ، میں نہیں ڈرتا تم سے ۔ وہ اس کی دھمکی کو بے پڑ کی جان کر ہوا میں اڑاتے کہنے لگا۔
    ایسے نہیں مانو گے تم ۔ ڈیموتو دکھانا پڑے گا ۔ یہ کہتے ہوئے شمائلہ نے اس کے سیاہ گھنے بالوں کی جانب ہاتھ بڑھایا۔ ارقم ارادوں کو بھانپتا فورا بول اٹھا۔
    اچھا…اچھا روکو ….مجھے منظور ہے۔ تم جیسی چڑیل کے ساتھ زندگی گزارنا مجھے منظور ہے۔ وہ بادل ناخواستہ اقرار کر ہی بیٹھا۔
    ہاۓ اللہ ….. شمائلہ کے ہاتھوں سے مارے شرم کے چاقو زمین پر جا گرا۔ میں ابھی سب کو بتا کر آتی ہوں ۔ وہ کسی فلمی ہیروئن کی طرح بل کھا کر پلٹی تھی کہ ایک جھٹکے سے واپس آ کر ارقم کے چوڑے سینے سے جا لگی۔ اس کی حیران سی نگاہ بے ساختہ اپنے بازو پرجا ٹہری جو ارقم کی مضبوط گرفت میں گرفتارتھا۔ اور اس کی سیاہ مخموری آنکھیں اس کے چہرے پرجھکی ہوئی تھیں ۔
    چاقو کے زور پر مجھ سے اقرار تو کروالیا ہے مگراب خود بھی اقرار کرو کہ آئندہ میری محبت پر شک نہیں کرو گی- ارقم اسے گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوۓ کہہ رہا تھا۔
    نہیں کروں گی- شمائلہ نے جھکی جھکی نگاہوں سے اقرار کیا۔
    ٹھیک ہے پھر مابدولت جا کر سب کے سامنے شادی کے لیے ہامی بھرتے ہیں۔ اس کی ناک کو ۔ پیار سے چھیٹر تے ہوۓ دروازہ کھولنے لگا۔ شمائلہ مہجوب سی اس کی پشت کو دیکھ رہی تھی کہ اچا تک وہ پلٹا اور اس کے نزدیک آ کھڑا ہوا ۔ شمائلہ اس انداز پر گھبراتے ہوۓ کھڑکی سے جالگی ۔
    ویسے ہونے والی بیگم صاحبہ مستقبل میں اپنی بات منوانی ہو تو محبت کا استعمال زیادہ کیجیے گا بجاۓ ان چھری چاقو کے۔۔۔۔۔ وہ شرارت سے اسے باور کرا تا دروازے کی طرف پلٹ گیا۔ بدتمیز ، پاگل، دیوانه و زیر لب بڑبڑاتی رہ گئی۔ ایک شرمیلی سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر چپکی تھی……. ارقم نے جیسے ہی دروازہ کھولا ۔ عفت آرا اور راحت آرا دروازے سے چپکی کان لگاۓ کھڑی تھیں ۔ دروازے کے کھلتے ہی وہ دونوں لڑکھڑا کر رہ گئیں۔ وہ ہم باتیں تو نہیں سن رہے تھے تم لوگوں کی؟ راحت آرا نے گڑ بڑا کر کہا۔عفت آرا نے جلدی سےبہن کو ٹہوکا مارا۔…… وہ بیٹا ….. ہم تو بس پوچھنے آۓ تھے کہ کیا ہوا۔ کوئی بات بنی- راحت آراء نے بات سنبھالتے ہوۓ کہا اورٹوہ لینے کو اندر جھانکنے لگیں۔ امی بن گئی بات۔ جائیے مٹھائیاں بانٹیے ۔
    مابدولت شادی کے لیے تیار ہیں ۔ ارقم خوشی سے اعلان کرتا نیچے جا پہنچا- اس کے منظر سے ہٹتے ہی شمائلہ کمرے سے باہرنکل آئی۔


    ہاۓ خالہ بڑی مشکل سے چھری چاقو ، دکھایا تو مانا ہے۔ وہ مظلومیت اور معصومیت دونوں چہرے پر سجائے بے چارگی سے کہ رہی تھی۔
    کوئی بات نہیں بیٹا غم نہ کر ، ٹھیک ہو جاۓ گا شادی کے بعد عفت آرا اپنی بہورانی کو سینے سے لگاۓ کہہ رہی تھیں ۔ بہو رانی کی نگاہ ٹھیک اس پل نچلی منزل پر تیمور حسن سے گلے ملتے ارقم پر جا ٹھہری… وہ بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ شمائلہ سے نگاہ ملنے پر اس نے شرارتاً دائیں آنکھ دبائی ۔ شمائلہ نے شرما کر منہ پھیر لیا۔ سب کچھ خوابوں جیسا حسین تھا۔ ارقم کا ساتھ اس کی محبت ، بس اک ذراسی دھند چھٹ جانے سے اس کی دنیا کتنی حسین ہوگئی تھی۔ وہ مسکراتے ہوۓ سوچ رہی تھی۔(ختم شد)


    Comment


    • #3

      دلچسپ اور بہت ہی زبردست کہانی ۔​

      Comment

      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

      Working...
      X