Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

باجی رفعت

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • سہہ پہر ہونے لگی تھی آج مطلع ابر آلود تھا نیلگوں آسمان پہ بادل روئی کے سفید گالوں کی طرح تیر رہے تھے اور روشنی کی راہ میں حائل تھے ماحول میں عجیب سی خوشگواریت رچی ہوئی تھی۔
    ریحان اپنے بستر پہ لیٹا ہوا کچھ سوچ رہا تھا آنکھوں میں نیند بھری ہوئی تھی یونیورسٹی سے آنے کے بعد سو گیا تھا تو اب آنکھ کھلی تھی۔
    چند لمحے وہ یوں ہی لیٹا چھت کو تکتا رہا پھر اٹھ بیٹھا اور واشروم کی طرف بڑھا جسم پہ کسلمندی سی چھائی تھی نیند کا خمار تھا شاید۔۔
    واشروم میں آ کر اس نے کپڑے جسم سے الگ کئے اور شاور کھول کر کھڑا ہوگیا۔
    پانی کی پھوار اس کے سر سے ہوتے ہوئے پیروں تک رسائی حاصل کرنے لگی بدن میں خوشگوار سا احساس جاگا سستی کے بادل چھٹنے لگے۔
    اس نے آنکھیں کھول کے سامنے لگے قد آدم شیشے میں خود کو دیکھا اس کا مضبوط جسم نظر آرہا تھا وہ پچیس چھبیس سال کی مضبوط قد کاٹھ کا نوجوان تھا سینہ چوڑا اور ہلکے بال لئے ہوئے تھے باقی جسم سانچے میں ڈھلا ہوا اور بازوؤں کے پٹھے بے حد سخت تھے وہ ایک بھرپور نوجوان تھا جس کے سراپے سے بانکپن اور مردانہ وجاہت جھلکتی تھی۔
    شاور لے کر اس نے ہینگر میں ٹنگے کپڑے زیب تن کئے اور باہر آگیا۔
    شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر بال بناتے ہوئے اس کے دل میں عجیب بے چینی سی تھی اسے رفعت کو دیکھے کئی دن ہو گئے تھے وہ تواتر سے چھت پہ جاتا رہتا تھا مگر وہ نظر نہیں آئی تھی اس کے سامنے آنے سے کترا رہی تھی یا کیا وجہ تھی ریحان نے سوچا آج وہ اس کے گھر جانا چاہتا تھا جسم میں لگی دھیمی سی سلگتی ہوئی آگ اسے رفعت کی طرف دھکیل رہی تھی اس کے ساتھ گزارا ہوا وقت ذہن سے محو نہیں ہو رہا تھا وہ جوانی کا چھلکتا ہوا جام تھی وہ اس جام کو گھونٹ گھونٹ اپنے اندر اتارنا چایتا تھا۔

    رفعت چند جوڑے کپڑے دھونے کے بعد ابھی فارغ ہوئی تھی اور ڈرائینگ روم میں صوفے پہ بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی کوئی ڈانسنگ کا شو آرہا تھا۔
    ندا کالج گئی ہوئی تھی اور امی اندر اپنے کمرے میں آرام کر رہی تھیں کہ ڈور بیل کی آواز آئی۔
    رفعت نے ریموٹ صوفے پہ رکھا پھر چپل پیروں میں پہنتی دوپٹہ سنبھالتی باہر کی طرف آئی۔
    اس نے بلیک شرٹ اور چست سا وائٹ پاجامہ پہن رکھا تھا اس لباس نے اس کے ترشے ہوئے متناسب جسم کو بہت خوبی سے سمیٹ رکھا تھا سہج سہج کر چلتی ہوئی بے حد دلفریب لگ رہی تھی۔
    دروازے کے قریب آ کے وہ رکی پھر دروازہ کھول کر ہلکی سے جھری سے باہر جھانکا ریحان باہر کھڑا تھا دل کی دھڑکنیں نا جانے کیوں بے ترتیب ہوگئیں۔
    ہیلو رفعت۔۔۔ کیسی ہو؟ وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا
    ٹھیک ہوں تم کیسے ہو؟ وہ اس کی گہری نظروں کو خود پہ محسوس کرتے ہوئے بولی اس دن جو ہوا تھا اس کے قریب ایک ہفتہ بعد وہ اسے دیکھ رہی تھی ان چند دنوں میں وہ ان کے گھر نہیں گئی تھی اپنی خواہش پہ ضبط کا سل رکھ آئی تھی مگر وہ آج پھر دروازے پہ تھا اس کا دل بے طرح دھڑکنے لگا۔
    ٹھیک ہوں۔۔۔ سوچا تم لوگوں کا پتہ کر آؤں اگر کوئی کام ہو تو کردوں۔۔۔ آنٹی کہاں ہیں؟ اس نے آنٹی کا پوچھا تھا مگر نگاہیں اب بھی رفعت پہ تھی۔
    اندر ہیں آجاؤ۔۔۔ وہ بولی پھر راستہ چھوڑدیا وہ اس کے قریب سے ہوتا ہوا اندر آیا تھا رفعت نے دروازہ بند کیا پھر مڑ کر اس کے پیچھے اندر کی طرف آئی۔
    امی ڈرائینگ روم میں کھڑی تھیں شاید ڈوربیل کی آواز سن کر کمرے سے باہر آئی تھیں ریحان کو دیکھ کر خوشدلی سے مسکرا دیں۔۔
    آجاؤ بیٹا۔۔۔ بڑے دنوں بعد آئے ہو بھول گئے تھے کیا یہاں آنا۔۔۔ وہ بولیں۔
    نہیں آنٹی بس موقع نہیں ملا آج دل کیا کہ دیکھ آؤں آپ لوگوں کو اور اگر کوئی چھوٹا موٹا کام ہو تو کر آؤں۔۔۔ وہ بول رہا تھا رفعت اس کے عقب میں کھڑی انگلیاں مروڑ رہی تھی جانتی تھی وہ اسے دیکھنے آیا ہے چند لمحے وہ یوں ہی کھڑی رہی پھر اپنے کمرے کی طرف آئی امی اور ریحان وہیں بیٹھ کے باتیں کرنے لگے تھے۔
    اندر آکے وہ بستر پہ چت لیٹ گئی جسم میں اک بھونچال سا برپا تھا دل تھا کہ سر کشی پہ آمادہ تھا ہونٹ جیسے آگ پہ تپ رہے تھے وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ کیفیت کیوں ہے۔
    رفعت۔۔۔ بیٹا کہاں چلی گئی باہر سے امی نے اسے آواز دی تھی۔
    وہ بیڈ سے اتر کر باہر آئی وہ دونوں ڈرائینگ روم میں ساتھ بیٹھے تھے ریحان نے کن اکھیوں سے اسے دیکھا تھا۔
    بیٹا وہ جو برتن ہم نے اس دن نکالے تھے وہ اوپر شیلف میں رکھ دو ریحان تمھاری مدد کر دیگا اور چند صوفے ہیں انھیں بھی ترتیب سے کردو اس کے ساتھ مل کے آج بچہ آیا ہے تو یہ کام کردو۔۔۔ امی بولی تھیں رفعت سر ہلا کر رہ گئی۔
    ندا کی منگنی میں انھوں نے بڑے ڈنر سیٹ کے برتن استعمال کئے تھے جو کچن کی اوپری شیلف میں پڑا رہتا تھا اور ایک آدھ بار ہی استعمال ہوا تھا اسے نکالا بھی ریحان نے تھا۔
    اب وہ کئی دن سے نیچے پڑا تھا رفعت کرسی کے اوپر کھڑی ہو کر بھی اسے نہیں رکھ پائی تھی امی اسی کو اوپر رکھنے کا کہہ رہی تھیں۔
    وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی کچن میں آئی ریحان ساتھ تھا امی بھی پیچھے چلی آئی تھیں اور انھیں ہدایات دے رہی تھیں۔
    وہ ایک کرسی ٹکا کر اس پہ کھڑا ہو گیا اور شیشے کے سلائیڈنگ دروازے والا شیلف کھول دیا رفعت احتیاط سے اسے برتن پکڑانے لگی جنھیں وہ شیلف میں رکھنے لگا۔۔۔ کئی طرح کے ڈونگے پلیٹیں اور کراکری تھی جو وہ دونوں اوپر رکھ رہے تھے امی چند لمحے وہاں رہیں پھر اندر اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں۔
    رفعت کچن کاؤنٹر کے قریب کھڑی کئی پلیٹیں اوپر تلے رکھ کر اسے پکڑانے لگی جنھیں تھامتے وقت ریحان کے ہاتھ اس کے ہاتھوں سے مس ہوئے تھے رفعت کی ریڑھ کی ہڈی میں پھریری سی دوڑ گئی شاید وہ جان بوجھ کے اپنا لمس اسے منتقل کر رہا تھا جیسے اسے چند دن پہلے کی یاد دلا رہا ہو۔
    وہ خاموشی سے اسے برتن پکڑائے گئی ہر بار اس کا ہاتھ رفعت کے ہاتھ پہ پڑجاتا اور اس کی دھڑکن بے ربط ہونے لگتی رنگت سرخ پڑنے لگی تھی اندر سلگتے الاؤ کی تمازت سے خوبصورت چہرہ آنچ دینے لگا۔
    برتن ختم ہوئے تو وہ نیچے اتر آیا۔۔۔ اور کوئی کام ہے؟ گمبھیر آواز میں اس سے پوچھا تھا رفعت نے اثبات میں سر ہلایا پھر کن اکھیوں سے اسے دیکھا۔
    وہ نیوی بلیو جینز اور بلیک ٹی شرٹ میں تھا اس کے مضبوط بازو شرٹ سے عیاں ہو رہے تھے وہ باقی دنوں سے زیادہ سمارٹ لگ رہا تھا رفعت ہونٹ چبا کر رہ گئی نا جانے کیا ہو رہا تھا عجیب سا احساس تھا جو اس کے دل کو بھینچ رہا تھا۔
    کیا کام ہے؟ وہ بغور اسے دیکھ کے بولا امی کمرے میں چلی گئی تھیں دونوں کچن میں تنہا رہ گئے تھے۔
    ڈرائینگ روم سے چند صوفے لے جانے ہیں بیڈروم۔۔۔ آہستہ سے بولی
    چلو۔۔۔ اس نے رفعت کو کندھے پہ ٹہوکا دیا آنکھوں میں خمار اتر آیا تھا وہ اس کے آگے آگے چل دی۔
    ڈرائینگ روم میں کئی چھوٹے چھوٹے صوفے تھے جو عام طور پہ بیڈروم میں پڑے رہتے تھے مگر منگنی کی تقریب کے لئے وہ لوگ انھیں ڈرائینگ روم لے آئے تھے دونوں انھیں اندر لے جانے لگے۔
    آخری صوفہ بیڈروم میں رکھ کے ریحان نے کمرے کا جائزہ لیا۔۔۔ یہ تمھارا بیڈروم ہے؟ اس نے پوچھا رفعت سر ہلا گئی۔
    وہ آہستہ سے اس کے بیڈ پہ بیٹھ گیا رفعت سامنے ہی کچھ دور کھڑی تھی۔
    یہاں آؤ۔۔۔ وہ بولا
    کک۔۔ کیوں؟ اس کا دل بے طرح دھڑکنے لگا تھا۔
    کچھ بات کرنی ہے یہاں آؤ۔۔۔ وہ اسے بیڈ پہ بلا رہا تھا رفعت رفعت ساکت کھڑی رہی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگنے لگی تھیں یوں لگ رہا تھا اگر وہ پاس آیا تو سانس رک جائیگی۔
    وہ چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر اٹھا اور اس کے قریب ہوگیا کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا امی شاید دوسرے کمرے میں سو گئی تھیں ان کی آواز نہیں آرہی تھی۔
    اس نے آہستہ سے رفعت کے لرزتے ہاتھوں کو پکڑا وہ طوفان کی زد میں آئی شاخ کی طرح کانپ رہے تھی پھر اس کے ہاتھ نرمی سے اس کے بازوؤں پر سے ہوتے ہوئے کندھوں تک سفر کرنے لگے رفعت کا حلق خشک ہونے لگا۔
    بہت دن ہوئے تمھیں دیکھے ہوئے۔۔ ریحان کی آواز بھاری ہونے لگی تھی وہ بہت پاس تھی صحت مند چھاتیاں لباس سے ابل رہی تھیں ہر سانس کے ساتھ دہل رہی تھیں ریحان نے اپنا ہاتھ اس کے دھڑکتے دل پہ رکھا اس کا نرم و گداز دل دھڑک رہا تھا وہ پورے جان سے لرز رہی تھی۔
    وہ جھکا پھر دونوں ہاتھ اس کے نرم کولہوں تلے رکھ کر اسے گود میں اٹھا لیا اس کا کانپتا وجود بانہوں میں سمٹ آیا تھا ریحان کا چہرہ اس کے جوان سینے میں دھنس گیا اس کے بدن کی مہک اس کے سینے میں اترنے لگی حواس صلب ہونے لگے۔
    ریحان نہیں۔۔۔ وہ ہکلائی سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگی تھی جسم اکڑ رہا تھا تڑخ رہا تھا۔
    وہ سن نہیں رہا تھا اس کی تنی ہوئی گداز چھاتیوں میں منہ چھپائے اس کی ٹانگوں کے گرد بازو لپیٹے اسے خود میں بھینچے چلا جا رہا تھا جیسے آج اس کے جوان جسم کو اپنے اندر تحلیل کرنا چاہتا ہو۔۔
    اس کے ہاتھوں کی من مانیوں سے رفعت کو سانس لینا محال ہونے لگا آنکھیں بند ہوئیں جسم کا رواں رواں جیسے آگ میں دہکنے لگا وہ اس کی طلبگار ہو گئی۔
    آہ۔۔۔ ہونٹوں سے دھیمی سسکیاں نکلنے لگیں۔
    ریحان نے اسے اسی کے بیڈ پہ گرایا پھر کمر کو جکڑ کر گداز ہونٹوں پہ اپنے لب رکھ کر اس کی بہکتی سانسوں کو اپنے اندر اتارنے لگا۔
    اس کا موم سے ڈھلا جسم اس کی گرفت میں مچل رہا تھا۔
    اسے قدرت نے فرصت سے تخلیق کیا تھا سینے پہ جوانی کے آثار بڑے موزوں تھے اور کمر کی لچک کی قسم کھائی جاسکتی تھی رسیلے ہونٹوں سے جیسے شہد ٹپکتا تھا۔
    ریحان کے ہاتھ فرصت سے اس کے بدن کو دریافت کر رہے تھے جیسے کوئی خوبصورت وادی ہو جہاں سیاح نکل آیا ہو اور ہر منظر کو دل میں اتار کے امر کر رہا ہو۔
    وہ اس کے لرزتے ہونٹوں کو جکڑے ہوئے تھا رفعت کی دھیمی کراہیں اس کے جسم میں دوڑتے خون کی گردش بڑھا رہی تھیں وہ اس کی قمیض کو اوپر کرنے لگا۔
    اس لمحے دوسرے کمرے میں امی کھنکاریں رفعت کا دل اچھل کر حلق میں آیا تھا۔
    ریحان نہیں۔۔۔ وہ مچل گئی اس کے ہاتھ جہاں الجھے تھے وہاں سے ہٹانے چاہے مگر وہ مدہوش ہو رہا تھا آہستہ سے اپنا ہاتھ رفعت کی قمیض تلے سرکا دیا رفعت کی جان پر بن آئی دروازہ کھلا تھا اور دوسرے کمرے میں اس کی ساس شاید جاگ رہی تھی۔
    اس کا ہاتھ قمیض تلے رفعت کے مرمریں آنچ دیتے بدن پہ رینگ رہا تھا وہاں ایک نئی دنیا آباد تھی جس سے وہ شناسا ہو رہا تھا اس کی خوبصورتی لباس میں ڈھکی ہوئی تھی اس نے لباس تلے رسائی حاصل کر لی تھی اس کے ہاتھ اس حسن کی مورت کے نشیب و فراز میں الجھ رہے تھے ہونٹ اس کے دہکتے لبوں سے جدا نہیں ہونا چاہتے تھے۔
    رفعت۔۔۔رفعت بیٹا۔۔ امی کی آواز آئی تھی کسی کی کال آ رہی ہے۔۔۔ وہ بولیں رفعت تڑپ کر ریحان سے جدا ہوئی تھی وہ بھی جیسے ہوش میں آیا۔
    پھر بیڈ سے اتر کر کھڑی ہوئی اور قمیص ٹھیک کرنے لگی سانس سینے میں نہیں سما رہی تھی پھر اسے دیکھا جو اسی کے بیڈ پہ کہنی ٹکائے لیٹا سرخ آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
    تم جاؤ پلیز امی بلا رہی ہیں مجھے۔۔۔ وہ بمشکل بولی ابھی تک سنبھل نا پائی تھی ریحان اسے تشنہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا دل چاہ رہا تھا پھر سے اسے گرا کے گتھم گتھا ہوجائے بدن جیسے سلگ رہا تھا۔
    وہ لباس ٹھیک کرکے چند گہری سانسیں لے کر باہر نکلی تو ریحان بھی اٹھ کر باہر آگیا اس کے گدرائے بدن کی خوشبو اب تک اس سے لپٹی ہوئی تھی وہ اب بھی چند لمحے پہلے کی سی کیفیت میں تھا۔
    رفعت نے کال اٹینڈ کر کے فون امی کو تھما دیا تھا سلیمان کی کال تھی وہ دونوں بات کر رہے تھے۔
    ندا کے سسرال والے اگلے مہینے شادی کے لئے ہاتھ مانگ رہے تھے۔
    سلیمان بہن کی شادی کے لئے واپس پاکستان آرہا تھا۔
    رفعت نے کمرے کے باہر سے دونوں کی بات سن لی وہ عجیب سی کیفیت میں گھر گئی سلیمان واپس آرہا تھا

    جاری ہے۔۔۔​

    Comment


    • Bohat hi behtreen aur umdah update di hai Maza a giya

      Comment


      • Rifat aur rehan ke rang main bhang par giya Suleiman ke aney se

        Comment


        • تشنہ جذبات سے لبریز شاندار اپڈیٹ

          Comment


          • کمال کرتے ہو جناب
            بہت ہی اعلیٰ

            Comment


            • الفاظوں کا بہترین استعمال۔اور جس تسلسل سے یہ شاہکار آگے بڑھ رہا ایک حقیقت کے جیسے لگتا ہے۔

              Comment


              • ریحان کب تک رفعت کو فتح کر پائے گا آخر

                Comment


                • بہت ہی دلچسپ اپڈیٹ تھی یار ریحان اور رفعت کا سیکس سین اب بنا چائیے سلیمان کی واپسی ہو رہی ہے کیا وہ واپس آکے رفعت کو وہ سب دے پائیگا جس کو رفعت کو طلب ہے اگلی قسط کا انتظار ہے
                  شکریہ

                  Comment


                  • Wah behtareen update rehan ahista ahista agye bar raha ha

                    Comment


                    • بہت ہی مزے کی اپڈیٹ تھی۔ مزہ آیا۔ لگتا ہے کہانی آگے دلچسپ ہونے والی ہے۔

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X