Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

قفس صیاد

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #21
    صنم ساقی آپ لکھو اور وہ اسٹوری شہکار نہ ہو ہو ہی نہیں سکتا
    امید ہے اگلی قسط جلد ہی سب کے چھکے چھڑا دیگی

    Comment


    • #22
      Shandar aghaz

      Comment


      • #23
        Hmare muaeshre ke chand makrooh kirdaroun ke gird ghomti hue aik khobsurat tehreer parh ke maza aye ga

        Comment


        • #24
          لاجواب اپڈیٹ

          Comment


          • #25
            Originally posted by Sakht londa View Post
            صنم ساقی آپ لکھو اور وہ اسٹوری شہکار نہ ہو ہو ہی نہیں سکتا
            امید ہے اگلی قسط جلد ہی سب کے چھکے چھڑا دیگی
            اس میں تو کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔۔۔

            Comment


            • #26
              buht acha plot h.. bht achi story h, very nice.

              Comment


              • #27
                قفس صیاد۔
                ازصنم ساقی۔

                ۔ماضی بعید۔
                گوٹھ کے وڈیرے سائین کی بڑی لال حویلی مین آنے والے مہمان کون ہین اور کون ملازم ھے ۔
                کسی کی بھی آج پہچان ہی نہین ھو رہی تھی۔اس کی وجعہ بھی تو بہت بڑی تھی۔أج وڈیرے حاکم خان کی شادی جو تھی۔ہرخاص و عام ہفتہ بھر کی عیش و عشرت کی بھاگ دوڑ کرنے کے بعد تقریبأ سبھی تھکاوٹ سے نڈھال اور کچھ بہت زیادہ رنگین سیال کی مے نوشی کے بعد چارون طرف دھت گرے پڑے تھے۔
                مگر ایئسی گہری خاموشی مین حویلی کے دو کمرون مین کچھ کچھ زندگی کے آثارڈوڑتے نظر أرہے تھے۔
                حویلی کےسب بڑے بیڈروم مین نرگس خانم کے بھائی حاکم خان کی سہاگ رات زور شور سے چل رہی تھی جب کہ ساتھ والے دوسرے کمرے میں نرگس آپنی حویلی کے ہی ایک ملازم گوٹھ کے ایک فرد بہادر خان کی چاہت مین گرفتار موقعہ ملنےکی مناسبت سےاس کےساتھ سنگین ورنگین موج مستیان کرنے مین پوری طرح سے مگن تھی۔
                بہادر کو وہ بڑی مشکلوں سے اپنے ساتھ سیکس کرنےپر آمادہ کر پائی تھی۔
                کچھ ہی مہینوں پہلے نرگس کا بیقرار مچلتا دل بہادر خان پر آ گیا تھا۔وہ کافی سالون سے ہی انتہائی گرم شہوانی جذباتوں میں ہر وقت ڈوبی ہوئی رہتی تھی۔کیونکہ اکثر وبیشتر اپنے بھائی حاکم خان کے کمرے سے نکلنے والی ہر نئی پنچھی کی مست سسکاریوں کی چیخ و پکارکی بدولت نرگس کے پرشہوت جزبات بے حد گرم ہو چکے تھے۔
                پھر اُسے اپنی چڑھتی جوانی کے اُبال کو نکالنے کے لیے بہادر مل گیا۔
                پھرجیسے جیسے چھیڑ چھاڑ آگے بڑھتی گئی ویسے ویسے وہ دونون مزید قریب آتے چلے گئے تھے۔ہونٹون اور ہاتھون کی بے پناہ گردشون سے لطف اندوز ہونے کے باوجود نرگس ابھی تک أصل منزل مقصود کو حاصل کرنے سے بہادر کے ڈر خوف اورجھجک کے باعث محروم رہی تھی۔
                مگر أج نرگس نے بھی جلتے تڑپتے بدن کے تقاظون سے آپنے بھائی حاکم خان کیساتھ ساتھ خود بھی بہادر کو بلا کر سہاگ رات منانے کا انتظام کر ھی لیا۔اب انہین اُس کے بھیا بھابھی کی مدہوش مست سسکاریوں کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی شائد ان کی چودائی کا اختتام ہو چکا تھا۔
                لیکن نرگس خانم اور بہادر تو ابھی جا کر مکمل موڈ میں آئے تھے۔
                پھر بہت مختصر سے وقت میں نرگس اپنا خوبصورت ننگاجسم بہادر کودکھاکر اس کے شوریدہ جزبات کےطلاطم کومزید بڑھکا چکی تھی۔
                جیسے ہی حاکم بھائی اور اس کی بیوی دونوں سہاگ رات کے سیکس کی بدولت تھکن سے نڈھال گہری پرسکون نید کے سفر پر روانہ ہوئے۔تو نرگس نے بھی بہادر سے چودائی کروانے کا آغاز کر دیا۔
                نرگس اب کروٹ لے کر بیڈ کے درمیان لیٹے بہادر کے ساتھ چپکتے ہوئےاس کے جذبات مین ہلچل مچانے لگی۔جبکہ ڈر اور جھجک میں گرفتار بہادر کا شیش ناگ اُٹھتا ہوا نرگس کی ارمانون بھری سہاگ رات کو کھڑے ہو کر سچ کرنے پر تلا ہوا تھا۔ اسی وجہ سے وہ نرگس کے نازک بدن پر جھومتے ہوئے سر کو رگڑنے لگا ۔
                تبھی بہادر کواپنے دائین کان پر نرگس کے گیلے جلتے تپتے ہونٹ محسوس ہوئے لیکن پھر بھی بہادر جھجکتا رہا اور اس کا لن اپنے سر کو نرگس کی چکنی رانون پر رگڑتا گیا۔ جب نرگس کو اندازہ ہوا کہ بہادر ایسے تو بلکل ماننے والا نہیں ہے تو تب اس نے بہادر کو آپنی باہون مین جکڑکرچھاتی کے مست ابھارون سے لگا لیا۔ جس کی وجہ سے بہادر کے طاقتور سخت جسم مین پر شہوت جزباتون کے طوفان ایکدم تیزی سے مچل اُٹھے۔
                نرگس اس وقت ایک مہین مخملی انتہائی باریک بنارسی نائٹی زیب تن کیے ہوئے بہادر کے جسم سے چپک کرأپنے نازک بدن کی بھڑکتی آگ مین جل رہی تھی۔
                پھر بہادد کی جلتی آنکھیں نرگس کی نشیلی نظرون سے جا ٹکرائین جو مدہوشی کے ساتھ نیم وا نظرون سے بہادر کے مچلتے ناگ پر جمائے آہستہ آہستہ اس کے اوپر جھکتی جا رہی تھی۔ جبکہ بہادر بھی اب نرگس خانم کے آج کے سراپا حسن کو دیکھ کر پاگل ہوا جا رہا تھا۔
                دوسری طرف اسکا جھومتا لن شہوانی جذبون کی وجہ سے اُٹھ کر اس کو اپنے اوپر جھکتے ہوئے دیکھ کر مکمل تن چکا تھا۔
                بہادر نے اپنے تنے ہوئے شیش ناگ کو دیکھا تو شرارت سے فورا نرگس کے اوپر چڑھ کر اس کےچہرہ پرجھک گیا۔نرگس خانم اب اسکے نیچے دبی ہوئی تھی۔اوراس کا دہکتاخوبصورت مکھڑہ پھدی پر بہادر کے لن کے وحشیانہ ٹکراؤ سے لال سرخ ہو چکا تھا۔
                جب کہ بہادر لوڑے کوپھدی کے لبون پر مسلتے ہوئے اس کی آنکھوں میں مسلسل دیکھے جا رہا تھا۔اسکے چہرے پر انتہائی خمار آلود مسکراہٹ تیر رہی تھی جس کی وجہ صرف اور صرف ڈر اور جھجک کے ختم ہونے کی نشانی تھی۔
                نرگس خانم:اہ اوف جانو کیا اب تمہیں کوئی ڈر خوف اور شرم نہیں آرہی ۔جو اپنے مالک حاکم بھائی کی جوان کنواری بہن کو یوں؟؟۔۔۔
                بہادر نےاپنی مالکن نرگس خانم کو مذید بولنے نا دیا اور ۔ اس نےاپنےکھردرےہونٹ نرگس کے نازک پتلے پنکھڑیون جیئسے لبوں سے ملا دئیے۔
                کچھ دیر تو نرگس بولنے کیلئے ہلکی مزاحمت کرنے کی کوشش کرتی رہی پھر خاموشی سے بہادر کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے ہونٹ چسوانے لگی۔
                بہادر کچھ دیر بہت جوش سے نرگس کے ہونٹوں سے اس کی الھڑ جوانی کاپریم رس کشیدتا رہا،پھر ساتھ نرگس کی باریک نائٹی کے ڈوریان دوسرے ہاتھ سے کھولنے لگا۔
                جس پر نرگس نے پھر کچھ بولنے کی کوشش کی تو بہادر نے اس کے دونوں ہاتھوں کو ایک ہاتھ سے پکڑ لیا۔ اسی کش مکش میں بہادر کا أوارہ ہوتا ہوا ہاتھ کئی بار نرگس خانم کے گداز پھولےغباروں سے کئی بار جا لگا۔جس کی لذت اورخمار سے نرگس پلند آواز سے تڑپ کر سسک اُٹھی۔
                نائٹی کےنیچےاس کاخوبصورت سفیداور بے داغ بدن پر صرف دو کپڑے۔ایک ریشمی سفید برا اور ساتھ ہم رنگ ہی پینٹی موجود تھے۔
                نرگس اب پھر سے سسکیان اور آہین بھرنے لگی جس پر بہادر نے اس کے رسیلے ہونٹون کو اپنےمنہ مین لیتے ہوئےاسے چپ کروا دیا۔
                بہادر:میری جان مین تو نہجانے کب سے تمھین اپنا بنانے کے لئے بیتاب ہون۔بس ڈراورخوف تھا تو تمھارے بھائی وڈیرہ سائین حاکم خان کا۔مگر تمھارے اس پرشہوت شباب اور مہکتے بدن کو حاصل کرنے کیلئے اب کیون نہ مجھے مرنا بھی پڑے تو بھی قبول ھے۔۔
                ادھرنرگس خانم اب کسی بہت گہری سوچ میں گم ھو چکی تھی تب بہادرنے اس کی چکنی ٹانگوں سے پینٹی کو اتارنا شروع کردیا تو وہ اچانک گہری سوچون سے باہر نکل آئی اور بہادر سے بولی۔
                نرگس خانم:ارےےےے بہادر بتاؤ نا۔کیا تم مجھے بدکردار گھٹیا اور گرا ہوا سمجھ رہے ہو ،ہے نا؟
                بہادر: ارےےےے مالکن ہرگز نہیں ۔۔۔میں تو بس اس لیے یہ سب تمھارے ساتھ کرنے کے لیے آیا ہوں تاکہ آپ مجھ سے مکمل طور پر خوش ھو جائین۔اگر آپ ایئسا کرنا نہین چاہتین تو پھر رہنے دیتے ہین۔
                بہادر نے یہ کہ کر نرگس کو آزاد چھوڑتے ہوئے پھر سے دوبارہ بولا: مالکن آپ اچھی طرح سے سوچ لین آپ کے پاس اب وقت بہت کم ہے اور جلد بازی میں ہمیشہ کام خراب ہوتا ہے۔ اب دو ہی باتین ہیں۔ مجھے اپنا عاشق سمجھ کر راز داری سے سہاگ رات منا لیں یا پھر ابھی مجھے واپس بھیج دین۔۔مسئلہ بس اتنا سا ہوگا کہ آپ کی بھابھی کے آنے کے باعٹ شائید ھی پھر کبھی ہمین اس طرح کا خوبصورت موقعہ ملے۔۔۔
                نرگس نے بہادر کی بات سنتے ہی اٹھ کر اسے بیڈ پر گرا لیا اور اپنے ہونٹوں سے بہادر کے چہرے کو چومنے لگی۔بہادر بھی مالکن کے اس فیصلے سے مطمئن ہوگیا۔
                نرگس اس کے ہونٹوں کو چوم لینے کے بعد بولی:جانو ہمارا یہ تعلق اب ہمیشہ یونہی قائم رہے گا۔
                بہادر نے نرگس کی بات سن کر اس کو اپنے جسم سے الگ کیا اور خود نرگس کے اوپر آتے ہوئے اس نے اپنے اور نرگس کے درمیان سارے فاصلہ ختم کر دیے اور نرگس کو بہت محبت وچاہت سے اپنے بازوون میں بھر لیا۔۔۔
                نرگس نے بھی اب پوری گرم جوشی کے ساتھ اسکے ہونٹوں کو چومتے ہوئے اپنی رسیلی زبان اسکے منہ میں داخل کر دی۔۔۔
                بہادر نے اپنی مالکن کی زبان کو ہونٹون مین دبوچ کر زبان کو چوسنا لگا۔۔۔وہ ساتھ ساتھ نرگس کی بھاری گانڈ اور پتلی ملائم کمر پر ہاتھ پھیرتا جا رہا تھا۔۔۔
                اب جب نرگس بہادر سے چدنے والی تھی تو اس نے دل میں سوچا کہ اب نرگس کےپرشہوت شباب سے جی بھر کے سیراب ہوتے ہوئے۔۔اب اسکو سہاگ رات کا حقیقی مزے سے روشناس کروانا چاہیے۔۔۔
                کافی دیر ہونٹ چوسنے کے بعد اس نے نرگس کو کندھوں سے پکڑکر پیچھے ہٹایا تو وہ اپنی پھولتی ہوئی تیز تیز سانسوں کے ساتھ بہادر کو مدہوشی سے دیکھنے لگی۔۔۔
                پھر بہادر اپنے ہاتھ کوبڑھا کر نرگس کے کپڑون کو اتارنے لگ پڑا ۔۔۔چند سیکنڈ بعد ہی وہ بہادر کے سامنے مادر زاد ننگی پڑی تھی۔۔۔نرگس خانم ایک بہت ہی سیکسی اور شہتابی خوبصورت فگر والی لڑکی ثابت ہوئی۔۔۔اس کا دلکش دلفریب فگر 36.28.36d
                تھا۔۔۔
                نشیلی کاجل بھری آنکھوں کا رنگ گہرہ سیاہ۔سلکی ملائم بال بھی گھنے کافی لمبے سیاہ۔اوپر سے سیکس کی بھوک اور تڑپ نے نرگس کے سندر چہرے پر ایسا جدت اور نکھار ڈالا کہ بہادر کا لن ایک بار پھر سے پورا اکڑ گیا۔
                اور اس کے تہمبند (گوٹھ کے سارے مرد حضرات قمیضون کے نیچے دھوتی لاچے وغیرہ ہی باندھتے تھے)میں ایک تمبو بن گیا۔۔۔جسے دیکھ کر نرگس کی مدہوش آنکھوں میں چمک سی آ گئی۔۔۔
                اس نے آگے بڑھ کر دھوتی کے اوپر سے ہی بہادر کا لن اپنے ہاتھوں میں پکڑا اور اسکے ہونٹ کو چند لمحے چوم کر بولی اٹھ گیا پھر سے میرا راج دلارا شیر۔۔۔
                نرگس کے منہ سے یہ باتیں سن کر بہادر کو ایک عجیب سا مزہ آ رہا تھا۔۔۔اسی دوران نرگس نے اسکی قمیض اتار کر ایک طرف پھینک دی تھی۔۔۔پھر اس نے اپنے ہاتھ اسکے دونوں کولہوں کے پاس سے تہمبند کے اُڑسے ہوئے پلؤن پر رکھے اور پھر ٹانگوں کے درمیان بیٹھتے ہوئے اس نے ایک زور آور جھٹکے سے دھوتی اتار دی۔۔بہادر نے نیچے بنیان وغیرہ توکبھی پہنی نہیں تھی۔۔۔
                اس لیے دھوتی اترتے ہی وہ نرگس کے سامنےمکمل ننگا ہو چکا تھا اور لن بھی آذاد ہوتے ہوئے ایک جھٹکا کھا کر سیدھا ہوا اور نرگس کے مکھڑے کے سامنے جھومنے لگا۔۔۔
                یہ دیکھ کر نرگس خانم ایک دم اٹھی اورپھر چلتی ہوئی سامنے الماری کی طرف گئی اور وہاں سے ایک چھوٹی سی زیتون کے آئل کی شیشی اٹھا کر اسکے پاس آئی اور اکڑے ہوئے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر شیشی کا ڈھکن اتارا تو بہادر نے بالآخر پوچھ ہی لیا۔۔۔
                مالکن یہ کیا کرنے لگی ہو آپ۔۔۔تو وہ بولی کہ مین نے سنا ھے آپنی پہلی سہاگ رات کو ہر کنواری لڑکی ان ناگون کے کارن بہت درد و تکلیف سے دوچار ہوتی ھین۔ اور مین نے کچھ دیرپہلے حاکم بھائی کے ہاتھون بھابھی کی دلخراش چیخین بھی سنی ھین۔ اور جانو تمھارا تویہ ناگ نہین بلکہ پھنیر شیش ناگ ھے۔
                تو اسی لئے مین آج پہلے اس کو احتیاط اس آئل سے نہلانے لگی ہون۔تاکہ ہماری سہاگ رات کے یہ لمحات بجائے تکلیف زدہ ہونے کے حقیقی لذت ومزے کے باعث ہمارے لئے ہمیشہ یادگار رہین۔۔۔
                اس سے ہماری لطف وشہوت بھی بڑھے گی۔اور۔ہم لوگ خوب مزہ بھی کریں گے۔۔۔
                پھر نرگس نے ہاتھ سے بہادرکے لن کو ٹوپی سے پکڑ کر اوپر اٹھایا اور دوسرے ہاتھ سے لن کی نچلی جانب جڑون سے ٹوپی تک دو بار آئل لگایا اور پھر اپنی نازک انگلیون اور ہتھیلی کی مدد سے لن پر ہلکا ہلکا مساج کرنے لگی۔نرگس نے کافی دیر۔اسی طرح اسکے لن کی چاروں سائیڈوں پر آئل کا مساج کیا۔۔۔
                پھر بہادر سے بولی:آؤ جانو أب تم مجھے ہمیشہ کیلئے آپنی بنا لو۔۔۔۔پھر نرگس آئل کی شیشی ایک طرف سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے خود بیڈ پر لیٹ گئی اور اپنے دونوں بازو کھول کربہادر کو قریب آنے کا اشارہ کرنے لگی۔۔۔
                بہادرکو لن پر کچھ انوکھی اور ہلکی ہلکی سرسراہٹ ہوتی ہوئی محسوس ھو رہی تھی۔۔۔جس سے بہادر کو بہت نشہ سا ھو رہا تھا اس نے پھر جب یہ بات نرگس کو بتائی تو وہ کہنے لگی جانو یہ نارمل بات ہے ایسا ہی ھوگا میری سہیلی نے مجھے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اس آئل کو لگانے کے بعد ایئسا ہوتا ہے لیکن صرف تھوڑی دیر۔۔۔اس کے بعد لن ہلکا سا مذید پرجوش ہو جائے گا۔۔۔
                پھر بے شک جب تک تمھارا دل کرتا رہے تم میری چدائی کرتے رہنا۔۔۔اتنا کہہ کر پھر نرگس نے اپنے بازو کھول دیے اور بہادر اس کے اوپر لیٹ کر نرگس کی مست بھڑکتی آغوش میں سما گیا۔۔۔
                جیسے ہی نرگس کے اکڑے ہوئے نپلز بہادر کے بالوں بھرے سینے سے لگے۔اسکے جسم کے اندر تیز بجلی سی کوند گئی۔۔۔اس نے اپنی زبان باہر نکالی اورنرگس کے مکھڑے کے ہر حصے کو محبت سے چومنے لگا۔۔نرگس نے زبان کا ٹچ اپنی چہرے پر محسوس کرتے ہی اپنے دونوں ہاتھوں کو بہادر کی پیٹھ پر رکھتے ہوئے اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر پھیرنے کے ساتھ اپنے مموں کو دائیں بائیں ہلاتے ہوئے اسکے سخت سینےپررگڑنے لگی۔۔۔
                بہادر کا لن پورے جوش میں آ کر نرگس کی چکنی رانوں میں دبا ہوا تھا۔۔اور ۔وہ خود اب نرگس کے چہرے کے بعد گردن کو چاٹتا ہوا نیچے اس کے کندھوں تک آیا اور وہاں سے اس کے مموں کی گولائیوں تک پہنچ گیا۔۔۔
                پھر پہلے بہادر دائیں ممے کو چاٹتا رہا۔اور بعد میں اس نے باری باری نرگس کے دونوں ممے چاٹنے لگا لیکن اس نے نپلز کو بلکل نہیں چھیڑا۔۔وہ جیسے ہی ممے کو چاٹتا ہوانپل تک پہنچتا تو اسے ٹچ کیے بنا دوسرے ممے کی گولائی کو چاٹنا شروع کر دیتا۔۔۔جب چار پانچ بار بہادر ایئسے ہی کرنے کے بعد ممے کو چاٹتا ہوا نپل تک پہنچا تو نرگس نے غصے سے اسکے سر کے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑا اور نیچے اپنے نپل کی طرف دبایا۔۔۔
                بہادر کے چہرے پر ایک بہت شیطان اور کمینی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔۔۔وہ جان چکا تھا کہ اب اس کی مالکن نرگس مزے اور لذت میں پوری طرح سے خوار ہو چکی ہے۔۔۔
                بہادر نے نرگس کے ایک اکڑے نپل کو فورا اپنے منہ میں بھر لیا۔۔۔۔۔واؤ۔۔۔۔۔اوووو۔۔۔۔اوفففف نپل منہ میں لیتے ہی اسکاپھنیر شیش ناگ تیز زور دار پھنکاریں مارنے لگا۔۔اور بہادر اسکے نشے اور لذت مین مدہوش باری باری دونوں نپل منہ میں لیکردبا دبا کر چوسنے لگا۔۔۔
                اب نرگس خانم کے نازک بدن میں بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔۔بہادر کی پوری کوشش تھی کہ اس کا ایک پورا مما منہ میں لے لوں۔۔۔پر یہ اس کے لئے ممکن ھی نہیں تھا۔۔۔کیونکہ اسکا بڑا منہ بھی پھولے غبارون کی نسبت بہت چھوٹا تھا۔یعنی نرگس خانم کا مما بہادر کے منہ کی مناسبت کافی بڑا تھا۔اور اس ٹائم تو ویسے بھی اس کے پرشہوت جزبات سے پھول کر مزید بڑا ہو رہا تھا۔۔۔
                بہادر نے نپل کو دانتوں سے ہلکا سا بائٹ کاٹا تو وہ لذت سے مخمور سسک اٹھی۔۔اہ اہ۔۔آہ۔ہ۔آہ اہ اہ۔۔۔اوفففف۔۔۔۔جانوووووو اہ۔۔۔۔آرام سے۔۔۔۔میری جان۔۔۔۔آرام سے۔بہادر نے نرگس کے گداز ممے چوستے ہوئے ہی اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے تنے ہوئے مچلتے لن پر رکھ دیا۔۔۔
                نرگس نے فوراً ہی لن کو مٹھی میں دبا لیا۔۔بہادر نے ساتھ ہی اپنا ایک ہاتھ نیچے لیجا کر اس کی رسیلی پھڑکتی پھدی پر بھی رکھ دیا۔۔۔پھدی فل گیلی ہو رہی تھی۔۔وہ اب زور زور سے مموں کو چوسنے اور نپلز کو کاٹنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ سے نرگس کی پھدی کو مسلنے لگا۔۔نرگس یہ دو آتشہ مزہ زیادہ دیر برداشت نہ کر سکی اور بلند آواز سے سسکنے لگی۔۔۔آہ۔ہ۔آہ ہاۓےے جانو اہ اہ۔۔اوفففف ۔ اہ اہ میرے سوہنے۔۔۔جانو اہ اہ ایسے ہی۔۔اہ۔افففف۔۔
                بہادر نے اپنی ایک انگلی کو پھدی کے لبون کے اندر گھسا کر زور زور سے پھدی کے دانے کو اپنے انگوٹھے کے ساتھ مسلنے لگا۔۔۔نرگس کیلئے اب یہ لذت کا طوفان برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔شایئد یہ برسون سے کنوارے بدن کی مچل مچل کر سیکس کی پرشہوت آگ تھی جو وہ اتنی جلدی منزل تک پہنچ گئی اور اس نے ایک جھٹکے سے اپنی دونوں ٹانگوں کو بھینچ لیا اور زور زور سے جھٹکے کھاتے ہوئے فراغت پا گئی اوراس کی چڑھتی جوانی اور کنواری پھدی سے پہلی ملائی کی آبشارکا فورا نکل کر بہنے لگا۔۔۔
                چونکہ نرگس کا کمرہ مکمل طور پر ھی بند تھا تو اس بات کا ان دونون کو ھی کوئی ڈر نہیں تھا کہ وڈیرے حاکم خان کی طرح ان کی آواز بھی کہیں باہر سنی جا سکتی ہے۔۔۔
                کچھ ہی دیر مین نرگس اب پوری طرح سے فارغ ہو چکی تھی۔۔۔جبکہ بہادر کا لن اب فل جان پکڑ چکا تھا۔۔پھر اس کی مالکن نرگس اٹھی اور اسے بیڈ پر لٹاتے ہوئے خود اسکے اوپر آ گئی۔اورچٹا چٹ بہادرکے گالوں کے کئی بوسے لے ڈالے۔۔پھر مست انداز سے بولی اہ بہادر میری جان میں آج بہت خوش ہوں کہ تم نے مجھے اتنا مزہ دیا۔۔۔اب میری باری ہے کہ میں بھی تمہیں ایئسا مزہ دوں۔کہ تم ہمیشہ مجھے یاد رکھو۔۔یہ کہہ کر وہ اسکی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر سہلاتے ہوئے بولی۔۔جانو۔مجھے تمہارا لن بہت ھی پسند آیا ھے۔
                پھر۔۔۔کچھ دیر تو وہ اسکے لن کو ایسے ہی سہلاتی ہوئی اس کے ساتھ کھیلتی رہی۔۔۔اور
                پھر جب بہادر سے مذید برداشت نہ ہوا تو اس نے نرگس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے آگے لن کی طرف دبایا تو وہ سمجھ گئی کہ بہادر اب کیا چاہتا ہے۔کیونکہ وہ دونون ہی وڈیرے حاکم خان اور طیفے وڑائچ کے لائیو سیکس کے نظارے دیکھ دیکھ کر چودائی کی ھر رمز وشناس سے واقف ہو چکے تھے اورپھر انکے دل کی گہرائیون مین سبھی کچھ خودکرنے کی حسرتین دل کے نہال خانون مین چھپی تھین۔۔۔
                بہادر کو دیکھتے ہوئے نرگس مستی سے بولی کہ لگتا ہے میری جان کو اپنا پھنیر شیش ناگ اب مجھ سے چسوانا ہے۔۔اس نے مخمورنگاہوں سےنرگس کو دیکھا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔۔پھر نرگس نے اپنا پورا منہ کھولا اور بہادر کے لن کی ٹوپی کو اپنے منہ کے اندر لے لیا۔۔۔بہادرکے منہ سے مزے کی شدت کے باعث ایک تیز سسکی نکل گئی۔۔نرگس نے لن منہ سے باہر نکالا اور بہادر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس نے اپنی لمبی زبان باہر نکالی اور اس کی نوک سے لن کے ٹوپے کے نیچے اکلوتے سوراخ کے اندرونی حصے کو چھیڑنے لگی۔۔۔کچھ دیر ایسے ہی چھیڑ چھاڑ کرنے کے بعد نرگس نے دوبارہ لن کو منہ میں ڈال لیا اور بڑے پیار سے چومنے چوسنے لگی۔۔۔
                نرگس کے منہ کی گرمی کواپنے لن پر محسوس کر کے بہادر کے جلتےسلگتے ہوئے جزبات کی پرشہوت کیفیت مزید لبڑھنے لگئی۔نرگس نے اسکے لن کی صرف ٹوپی اپنے منہ میں رکھی اور اپنے ہونٹوں کو بند کر کے منہ کے اندر سے ہی لن کے سوراخ اور ٹوپی پر اپنی زبان گھمانے لگی۔بہادر لذت کی انتہا کو پہنچ کرمدہوش ہوتا ھوا آسمانوں پر محو پرواز ہو چکا تھا۔۔۔
                اس کے لئے دراصل مین یہ احساس ہی بہت انوکھا تھا۔کہ آج وڈیرے سائین حاکم خان کی اکلوتی کنواری بہن اس کے لن کی بھینٹ آپنی جوانی کرنے والی ھےجو اسکے مزے کو بڑھا رہا تھا۔۔۔
                جو گوٹھ کی ہر پھدی کو اپنی ملکیت سمجھتا تھا۔مگرجو مہکتی پھدی بہادر کو ملنے والی تھی وہ خود وڈیرے کی دسترس کے باہر تھی۔اس وقت بہادر خود کو حاکم سے بھی زیادہ طاقتور اور خوش قسمت سمجھ رہا تھا۔
                دوستو اور ساتھیو ۔سچ ہی بڑے اور سیانے لوگ کہ گئے ہین کہ بھڑکتی چوت کا نشہ اچھے اچھون کو ڈگمگانے پر مجبور کر دیتا ھے۔
                پھر نرگس کچھ دیر اسی طرح اسکے لن کی ٹوپی کو چوستی رہی۔۔۔پھر اس نے آہستہ سے اپنا تھوڑا منہ مذید کھولا اور بہادر کے لن کو اپنے منہ کے اندر اتارنا شروع کر دیا۔۔۔جتنا لن نرگس کے منہ میں جا سکتا تھا اتنا لینے کے بعد اس نے تھوڑا زیادہ زور لگایا تو لن کی ٹوپی اس کے حلق کوجا لگی جس کیوجہ سے اسے اچانک ابکائی سی آئی اور اس نے فوراً ہی اسکالن باہر نکال دیا۔۔۔
                پھر نرگس نے دوبارہ لن کی ٹوپی کو منہ میں لے کر چوسا اور اوپر سے لے کر جڑ تک لن کو چاٹا۔۔۔اسی طرح چاٹنے کے بعد اس نے اب جتنا لن منہ میں جا سکتا تھا پھر سے لے لیا اور باقی لن کو ہاتھ کی گرفت میں رکھتے ہوئےپورےجوش خروش اورشدت سے لن کودباکرچوسنے لگی۔۔۔
                نرگس کی ان حرکتون سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ وڈیرے سائین کے ہر چودائی کے لائیو شو دیکھ دیکھ کر نہجانے کب سے یہ سب کچھ خود کرنے کا دل ہی دل مین پروگرام بنائے بیٹھی تھی۔
                اس انداز میں لن چوسنے سے نرگس کے گال پِچک کر اندر ہو جاتے۔اور اس کا پرجوش چہرہ لذت سے چمکتا لال سرخ ہو جاتا تھا۔۔۔وہ اب اتنی مستی سے چوپا لگا رہی تھی کہ بہادر کو صاف محسوس ہوا کہ لن سے مزی کا ایک قطرہ پوری شدت سے رگڑ کھاتا ہوا باہر جا رہا ہے۔۔۔جیسے ہی وہ قطرہ باہر آیا تو نرگس نے اپنی زبان سے اس قطرے کو لپیٹا اور منہ میں لیکر ایسے چسکے لینے لگی جیسے کسی چٹخارہ دار چیز کی مٹھاس یا کھٹاس چیک کی جاتی ہے۔۔۔
                کچھ دیر مزید لن چوسنے کے بعد خانم اٹھی اور اسکے سینے کے اوپرچڑھ کر بہادر کے سامنے اپنی مچلتی پھدی کو سجا کر بیٹھ گئی۔۔۔
                پہلےچند لمحے تو نرگس اسکی شہوت سے سرخ انگارہ آنکھوں میں دیکھتی رہی اور پھر اپنی دونوں ٹانگوں کو کھول کر اپنی ہاتھ کی دو انگلیوں سے اپنی پھدی کے لپون میں ڈال کر چوت کو تھوڑا پھیلاتے ہوئے بولی:۔
                میری جان دیکھونا۔
                یہ بیچاری تمھارے پھنیر ناگ کو اپنے اندرلینے کیلئے کیسے تڑپ رہی ہے۔۔۔ پہلے تو اس نے نرگس کی گلابی پھدی کے پتلے چپکے لبون کے درمیان سرخی مائل چھب دکھلاتے اس کےبند کواڑ( نرگس حقیقتا سیل پیک تھی) کو بغور دیکھا ۔
                پھر بہادر نے فورا نرگس کے بھارے چوتڑون کے نیچے دونوں ہاتھ رکھے اور اسے آہستہ سے اپنی طرف کھینچا تو وہ اسکے اتنے قریب آ گئی کہ اس کی کنواری پھدی بہادر کے منہ سے صرف دو انچ کے فاصلے پر پہنچ چکی تھی۔۔بہادر نے اسے اور آگے کھینچا اور اس کی پھدی پر ناک لگا کر اس کی مسحور کن مہک لینے لگا۔۔
                نرگس اسکی ہوشربا شہوت انگیزحرکتوں کو غور سے دیکھ رہی تھی۔۔۔
                پھر وہ پرشہوت انداز سے بہادر سے بولی:جانو تم نے کبھی پہلے کسی کی پھدی ماری ہے مجھے تم بلکل سچ سچ بتانا تو بہادر نرگس سے بولا :۔۔۔
                نہیں مالکن جی:! آپ تو میری زندگی اور میرے لن کی پہلی مالک بننے جا رہی ہو۔
                یہ سن کرنرگس بہت چاہت سے گنگنائی: اور وہ بھی ہمیشہ کے لیے۔۔
                بہادر یہ سن کر اٹھتے ہوئے اس کی ٹانگوں کے درمیان آ گیا اور لن کو پکڑ کر پوری طرح گیلی پھدی پر رگڑنے لگا۔۔۔
                پھر نرگس کی پھدی کے دانے کو رگڑتے ہوئے محسوس ہوا کہ جیسے اب وہ منزل کے بلکل پاس ہے تو بہادر نے آخری دفعہ اس کی پھدی کے دانے کو رگڑا اور لن کو پھدی کے سوراخ پر سیٹ کردیا۔۔۔
                نرگس کی آنکھیں اس کے مزے اور مستی سے بند ہوچکی تھیں اور نرگس اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر ایسے ہلا رہی تھی کہ کسی بھی طرح بہادر کا لن پھدی کے اندر چلا جائے۔۔۔
                پھر بہادر نے نرگس کی ٹانگیں تھوڑا اور اوپر اٹھائین اور لن کو پھدی پر سیٹ کرتے ہوئے ایک زور اور طاقت سے بھر پورجھٹکا دے مارا۔
                جس سے بہادر کا تگڑا لن ساری رکاوٹین توڑتا ہوا نرگس کی سیل پیک کنواری پھدی میں جڑؤن تک اندر کو گھستا ہی چلا گیا۔۔۔
                ادھر ساتھ ہی نرگس کے لبون سے تیز چنگاڑتی چیخ نکل کر بند کمرے مین گونج اٹھی۔جسے فورا ھی بہادر نے أپنے کھردرے ہونٹ رکھ کر وہین خاموش کردیا۔
                اور بہادر کا یہ پرشہوت سٹائل نرگس کی ڈولتی کشتی کیلئے بھی آخری جھٹکاثابت ہوا اور اس کی پھدی نے لرزتے کانپتے ہوئےفوارے کی طرح اس کےلن پر خون اورپانی ایک ساتھ ھی چھوڑ دیا۔۔۔
                نرگس اپنی چیختی ہوئی دھاڑ کیساتھ اتنی زور سے چھوٹی تھی کہ اس کی نشیلی آنکھیں اوپر کو چڑھ گئیں اورساتھ سارا بدن عجیب سی کفیت مین اکڑ گیا۔۔۔
                نرگس کے اس طرح چھوٹنے سے خون کے ساتھ ساتھ اتنی ملائی باہرنکلی کہ بہادر کے لن کو ٹٹوں تک بھگو گی۔
                ادھر نیچے نرگس کی اپنی پھدی کا بھی برا حال ہوچکا تھا۔۔۔
                پھر چند ہی لمحون مین گوٹھ کی وہ اتھری مٹیار بہادر جیئسے وحشی ریچھ کے پہلے حملے کو خوبصورتی اوربہادری سے خود پر برداشت کرتے ہوئے مزید چودائی کیلئے اپنے پرانے جوبن مین واپس آچکی تھی۔
                بہادر نے نرگس کی ھی اُتاری پینٹی لےکر اس کی پھدی اور اپنے لن سے خون اور منی کو صاف کیا۔
                پھدی کو صاف کرتے ہوئے جیسے ہی اسکےہاتھ نےنرگس کی پھدی کے شہوت دانے کو چھوا تو اس کے منہ سے مست سسکاری نکل گئی۔۔۔
                بہادرنے ناگ کو صاف کر کے اسے دوبارہ نرگس کی پھدی میں چھوڑ دیا۔ابھی لن کا کچھ حصہ پھدی کے باہر ہی تھا کہ بہادر کو لگا کہ جیسےلن کسی نرم و ملائم دیوار سے ٹکرا گیا ہو۔۔۔ساتھ ہی نرگس کے منہ سے دوبارہ سے مدہوش مست سسکیاں اور آہین جاری ہو گئیں۔۔۔
                اففففف۔آہ اہ اہ۔آہ اہ اہ۔۔بہادر کو فورا اندازہ ھو گیاتھا کہ یہ ضرور نرگس کی بچہ دانی ہو گی۔جس کی دیوارون سے اسکا لن ٹکرا کر رک رہا ہے۔۔۔
                اسنے وہیں پہ رک کر لن کو پھدی کے اندر گول گول گھماتے ہوئےنرگس سے پوچھا۔۔۔کیا ہوا ھے میری جان۔ کیا تمھین زیادہ تکلیف ہو رہی ہے۔۔۔
                تو نرگس ہلکی مسکراہٹ سے بولی:۔۔۔
                نہیں جانو! آج زندگی کا یہ پہلا ھی احساس بہت مدہوش و مست اوردلفریب ثابت ہو رہا ہے کہ مجھے تم نے بالآخرلڑکی سے عورت بنا ہی دیا ہے۔
                پھر بہادر کو بھی اپنے لن میں اچانک اکڑاہٹ بڑھتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔اور اس نے پھر پورے جوش کے ساتھ نرگس کی پھدی مین تابڑ توڑ گھسے مارنے لگا۔اسکےہر جھٹکے کے جواب میں نرگس صرف ایک بات ہی کہتی۔۔۔
                اوففففففففففففففففففففف
                جانو اور تیز ۔۔جانوووو۔۔۔اور تیز۔۔۔اور تیز۔
                بہادر نے پاس پڑا ہوا ایک چھوٹا تکیہ کھینچ کر نرگس کی بھاری گانڈ کے نیچے رکھ کر اس کی ٹانگیں اس شدت کے ساتھ اٹھائیں کہ اس کے گھٹنے اس کے پھولے ہوئے غبارون کے ساتھ جا لگے۔۔۔
                پھر سے بہادر نے لن کو پھدی کے اندر ڈالا اور شروع سے ہی فل سپیڈ میں وحشیانہ دھکے مارنے لگا۔اسکے طاقتور گھسوں کی وجہ سےلن کے ٹوپے کی نوک بار بار نرگس کی بچہ دانی کے ساتھ ٹکرا رہی تھی۔۔۔اور پھر جیسے ہی بہادر کا لن اس کی مالکن نرگس خانم کی بچہ دانی پر ٹھوکر مارتا۔۔۔نیچے سے وہ تڑپ سی جاتی اور پھر پہلے سے بھی ذیادہ سیکسی انداز میں وہی لذت آمیز راگ الاپتی کہ جسے سن کر بہادر کا جوش مزید بڑھ جاتا۔۔۔اب اسے اپنی مالکن کو چودتے ہوئے دس منٹ گزر چکے تھے۔۔۔ہر گھسے پر ایسا لگتا کہ جیسے نرگس کی پھدی اسکے لن کو اندر سے جھکڑ رہی ہو۔۔۔اور ایک بار پھر نرگس کا جسم اکڑنا شروع ہو گیا۔بہادر نے اس کے کندھوں کو مضبوطی سے پکڑا اور ساتھ ہی نرگس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں جکڑ کر پوری جان سے ایک زور دار لمبا گہرا تگڑا اور کرارا گھسہ دے مارا۔۔۔
                اس گھسے سے یہ ہوا کہ بہادر کا لن پوری طاقت کے ساتھ جڑ تک اندر گیا اور لن کی ٹوپی نرگس کی بچہ دانی کے اندر جا گھسی۔۔۔
                نرگس کے منہ سے ایک لرزہ خیز سسکتی آہ نکلی جو کہ ہونٹ دبے ہونے کیوجہ سے بہادر کے منہ کے اندر ہی دم توڑ گئی۔۔پھر نرگس کا نازک بدن فل اکڑ گیا۔۔۔
                اور بہادربھی چند سیکنڈ وہیں پر رک کر نرگس کے مموں کو مسلتا چوستا رہا جس سے اس کی سانس میں دوبارہ تھوڑی بحالی ہوئی اور اس نے زور سے بہادر کو اپنی بانہوں میں کس لیا۔۔۔
                نرگس اب اتنی وحشیانہ انداز کی چودائی کے بعد کافی تھک چکی تھی۔۔مگر اس کے اندر کی چوداسی عورت اب بھی بہت پیاسی تھی۔
                بہادر نے اب خود کو اس کی بانہوں سے آزاد کروایا اور اپنا لن پھدی سے باہر نکال کر اس کو بیڈ پر ٹیک کے ساتھ جھکنے کو کہا۔۔۔
                نرگس چونکہ کافی تھک چکی تھی اور درد بھی محسوس کر رہی تھی۔مگر پھر بھی بہادر کی خوشنودگی کے لیئے فوراً اٹھ کر ڈوگی سٹائل میں آ گئی اور اپنے گھٹنے تھوڑے سے آگے کر کے اپنی دلفریب گانڈ کو باہر نکال دیا۔۔۔
                واہ۔ہ۔ہ۔۔۔کیا مدہوش کن نظارہ بہادرر کے سامنے ظہور پزیر ہو چکا تھا۔۔اس کی مالکن نرگس خانم کی موٹی سیکسی دلکش گانڈ بلند ہوکر بلکل اس کی نظرون کے سامنے آ چکی تھی۔۔۔نرگس کے گول مٹول گورے گورے ملائمت بھرے چوتڑ اس کواپنی طرف بلاتے ہوئے کھینچ رہے تھے۔۔۔
                نرگس کی دلنشین گانڈکا گلابی چھوٹا سا سوراخ اتنا سیکسی اور پیارا لگ رہا تھا کہ بہادر نے بے اختیار اس پہ اپنے ہاتھ کو پھیرنا شروع کر دیا۔
                نرگس کی گانڈ اور پھدی اب دونوں اسکے سامنے واضع ہو چکی تھیں اور مستی سے متواتر للکارتی ہوئین اسے اپنی طرف بلا رہی تھیں۔
                کہ آؤ نا جانو ہمیں دل کھول کر چود ڈالو۔۔۔
                بہادر نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر نرگس کے ملائم پہاڑیون جیئسے چوتڑوں کو کھولا اور اپنا لن چند بار گہری کھائی نما دراڑ مین پھیرتے ہوئے اس کی پھدی میں ڈال دیا۔
                نرگس کے پتلے لبون سے متواتر مزے اور درد سے ملی سسکی نکلنے لگئین۔۔۔آہ۔آہ اہ اہ۔۔۔جانو بہادر نے اب پہلے اپنی مالکن کو آہستہ آہستہ چودنا شروع کیا پھر رفتہ رفتہ اپنی سپیڈ کو بڑھاتا گیا۔۔۔اسے اب اس کی پھدی میں اپنا لن جاتا ہوا بھی نظر آ رہا تھا اور ساتھ نرگس کی مست گانڈ کا گلابی سوراخ بھی نظروں کے سامنے کھلتا بند ہوتا نظر آ رہا تھا۔اب پھر کچھ ہی دیر مین نرگس بھی فل مزے میں آ گئی اور اسکے ہر گھسے کے جواب میں اپنی گانڈ کو پیچھے بہادر کی طرف دھکیل دیتی تھی۔۔۔
                بہادر کا لن جب پھدی سے باہر آتا تو نرگس کی ملائی سے پورا لتھڑا ہوتا تھا۔۔۔ایک دفعہ پھر بہادر کومحسوس ہوا کہ جیسے نرگس کی پھدی اسکے لن کو اندر سے جکڑ رہی ہے۔لیکن پھر بھی لن اس میں سے پھسلتا ہوا بچہ دانی سے ٹکرا جاتا اور ٹوپی بچہ دانی کے اندر تک چلی جاتی۔۔۔
                نرگس کی گانڈ کا کھلتا،بند ہوتا ہوا سوراخ بہادر کو لگاتار اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔۔مگر وہ بغیر اپنی مالکن کی اجازت کے اس کی گانڈ چود نہین سکتا تھا۔اور ابھی اس کی اجازت لینا بھی بہادر کیلئے بہت مشکل تھا
                مگر پھر اسکا دل چاہا اگر اور کچھ نہیں تو کم از کم نرگس کی گانڈمیں اپنی ایک انگلی ہی ڈال کر دیکھوں کہ نرگس کی گانڈ اندر سے کتنی ٹائٹ اور حدت رکھتی ہے۔۔۔
                ادھرنرگس اب فل تھک چکی تھی اس لیے اس نے اپنا سر آگے بیڈ پر پڑے بڑے تکیے پرڈال دیا جس سے اس کی گانڈ اور باہر کو نکل آئی اور اس کا گلابی سوراخ بہادر کے جی کو مذید للچا گیا۔۔۔
                اس سے جب برداشت نہیں ہوا تو بہادر نے اپنی بڑی انگلی کو تھوڑا سا تھوک لگا کر نرگس کی ملائم گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر انگلی تھوڑی اندر کو دبا دی۔۔۔پہلے تو اس کی مالکن کو تھوڑا سا شاک لگا اور اس نے مڑ کر بہادر کی آنکھوں میں دیکھا لیکن پھر وہ مستی سے اپنا سر آگے کر کے دوبارہ سے پیچھے کو دھکے مار مار کر چودنے لگی۔۔۔
                اب پھر نرگس مزے کی انتہاء کو پہنچ چکی تھی اور نہجانے کیا کیا بولتی جا رہی تھی۔۔۔
                اب بہادر کو بھی لگ رہا تھا کہ وہ چھوٹنے کے قریب ہوچلا ھے۔اور نرگس کی یہ مست باتیں اسکے لیے جیئسے سونے پر سہاگا ثابت ہونے لگئیں۔اس نے طوفانی رفتار سے گھسے مارتے ہوئے ایک دفعہ اپنا لن باہر نکالا اور حقیقتاً اپنا سارا زور لگا کر پورا لن نرگس کی پھدی کے اندر گھسا دیا۔اور ساتھ ہی نرگس کے کندھوں کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ دیا جس سے بہادر کا لن نرگس کی بچہ دانی میں کافی حد تک اندر گھس گیا۔۔۔
                نرگس کیلئے بھی بہادر کا یہ جنونی انداز آخری جھٹکا ثابت ہوا اور اس نے پھر سے پانی چھوڑ دیا۔۔۔ساتھ ہی بہادر کے لن نے اپنے گاڑھے جوس کی پہلی پچکاری اس کی جلتی بھڑکتی پھدی مین دے ماری اور پھر لگاتار سلگتی پھڈی پر چھڑکاؤ کرتا ہی گیا۔۔۔
                نرگس کی بچہ دانی بہادر کی مکھن ملائی سے بھرنا شروع ہو گئی۔اسے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے بہادر کے شیش ناگ سے منی کا دریا نکل کر اس کی پھدی مین گر رہا ہو۔۔۔
                جیسے ہی لن سے منی کا آخری قطرہ نکلا۔بہادر نے نرگس کے کندھوں کو چھوڑ دیا اور وہ بے سدھ مدہوش ہو کر آگے بیڈ پر جا گری۔۔۔
                بہادر بھی پیچھے سے اس کے اوپر ہی لیٹ گیا۔
                ❤❤
                ۔حاکم ”سائیں !....آپ نے یاد کیا ہے ۔“۔
                تھانیدار طیفا وڈیرے حاکم خان کو سلام کرتا ہوا بیٹھک میں داخل ہوا۔
                وہ اس گوٹھ کے لوگو ں کے لیے بہت بڑ ی بلا تھا مگر وڈیرے کے سامنے آ کر وہ بھی بھیگی بلی بن جا تا تھا۔
                ارےےے”ہاں تھانیدارا !....
                تم سےایک چھو ٹا سا کام آن پڑا تھا۔“ وڈیرا حاضرین محفل کو ہاتھ کے اشا رے سے جانے کا کہتے ہو ئے بولا ۔
                اس کا اشارہ دیکھتے ہی تمام لوگ وہاں سے کھسک لیے صرف اس کی مٹھی چاپی کرنے والے اپنے کا م میں مصروف رہے ۔
                ” حکم کرو حاکم سائیں!....“۔تھانیدار نے خو شامدا نہ لہجے میں پوچھا۔
                ”تھانیدارا!.... ہم ذرا پرانی سوچ کے بندے ہیں،پرکھوں کے رسم و رواج ہمیں اپنی جان سےبھی بڑھ کر عزیز ہیں ۔
                اگر کوئی ان رسوم کو توڑنے کی کو شش کرتا ہے تو ہم سے برداشت نہیں ہو پاتا اور ہم ایسے شخص کو سبق سکھائے بنا نہیں رہ سکتے ۔“
                ”بجا ارشاد فرما یاسائیں !۔۔ “وڈیرا سانس لینے کے رکا تو اس وقفے کو غنیمت جانتے ہوئے ۔
                تھانیدار نے جلدی سے لقمہ دیا ۔
                ہمارے گوٹھ کےماکھے بلوچ سے تو تم وا قف ہو گے؟“
                ”جی سرکار!“تھا نیدار نے اثبات میں سر ہلا یا ۔
                ”اس کے برخوردار کی شادی ہوئی ہے اور دلھا دلھن گوٹھ کے روا ج کے خلاف میری ملا قات کو نہیں آئے ۔ماکھے کے بیٹے کو اپنی دلہن سے کچھ زیا دہ ہی لگاﺅہے ۔برخودار کو ذرا حوالات کی سیر تو کروا دو ....“وڈیرا کمینگی سے مسکرایا۔”پھر بعد مین چھوڑ دینا مگر اس وقت جب سفارش کے لیے دلہن رانی آئے۔ کیا سمجھے؟“ ۔
                ”سمجھ گیا سرکار!.... بالکل سمجھ گیا۔“فورا ہی تھانیدار کی آنکھوں میں ہوس اور خباثت بھری چمک لہرانے لگی تھی ۔
                ”ٹھیک ہے تو پھر جاﺅ ۔“وڈیرے حاکم خان نے مونچھوں کو تاﺅ دینے والا اپنا دل پسند مشغلہ شروع کرتے ہوئے تھانیدار کو جانے کی اجازت دیتے ہوئے کہا۔”اور ہاں جاتے وقت منشی سے چا ئے پانی کا خرچا لیتے جا نا ۔“
                تھانیدار نے جھک کر اسے سلام کیا اور الٹے قدموں بیٹھک سے نکل گیا ۔
                ’بابا سائیں !....یہ لو ۔ سکندر نے کالے رنگ کا لفافہ والد کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔”زمین اور گھر کی بقایا رقم ادا عامر سیال نے دے دی ہے اور میرے دوست شہزاد نے ہمارے لیے شہر مین گھربھی ڈھونڈلیا ہے۔اب کل ھم سب لوگ وہان کیلیے نکل چلیں گے ۔“
                ” واہ پتر!...امید.تو لگی ھے کہ اب ہم خیریت سے نکل چلیں گے یہان سے۔“ماکھے نے امید بھرے لہجے مین کہا ۔
                ”کیون نہین بابا سائین ضرور جائین گے ۔“کہہ کر سکندر یہ خوش خبر ی رجو کو سنانے کے لیےاپنے کمرےکی جانب بڑھ گیا ۔اسی وقت بیرونی دروازے پر دستک ہوئی ۔
                ماکھے نے آگے بڑھ کردروازہ کھولا اور طیفا تھانیدار فورامع دو سپاہیوں کے دندناتا ہوا اندر گھس آیا۔
                ارےے”کک....کیا ہو گیا تھانیدار صاحب۔ “ماکھا گھڑگھڑایا ۔
                ”کدھر ہے تمہارا سورما پتر؟“تھانیدار نے کڑک کر پوچھا۔
                ادھر سکندر کے کانوں میں بھی تھانیدار کی غصیلی آواز پہنچ گئی تھی۔ وہ رجو کو کمرے ہی میں بیٹھنے کا اشارہ کر کے باہر نکلا ۔
                ”کیا بات ھو گئی ہے تھانیدار صاحب۔“اس نے حیرانگی بھرے لہجے میں پوچھا ۔
                ” تو تم ہو سکندر۔“ تھانیدار نے عجیب معنی خیزانداز میں سر ہلایا۔۔اوئےےے ادھر آؤ پکڑو ذرا اس سورمے کو اور۔
                ”ذرا اس کی تلاشی لو۔“ اس نے آپنےخرانٹ صورت سپاہیوں کواشارہ کیا ۔
                تھانیدار کی بات پوری ہوتے ہی دونوں سپاہی تیر کی طرح اس پر جھپٹے۔ایک سپاہی نے نہایت بیدردی سے اس کے ہاتھ مروڑ کر پشت کی جانب ہتھکڑ ی لگا دی جبکہ دوسرا اس کی تلاشی لینے لگا ۔
                ارےے”تھانیدار صاحب یہ....یہ کیا ہے؟“وہ ہکلایا ۔
                ”ابھی تمھین سب پتاچل جاتا ہے پتر!“تھانیدار طنزیہ لہجے میں جواب دیا۔اور پھر. اسی وقت اس سپاہی نے ایک چھوٹا سا پیکٹ تھانیدار کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا ۔
                ”ہونہہ!....اس کا مطلب ہے مخبر کی اطلاع بلکل درست تھی ۔ صاحب جی یہ تو پاﺅڈر بیچتا ہے ۔“ ۔
                تھانیدار نے اسے کڑی نظروںسے گھورا ۔اوۓےےے توپھر”لے چلو اسے تھانے ۔“
                ”ارےےے....یہ کک کیا ھے کچھ تو خوف کھاؤ۔یہ بلکل ظلم ھے سراسر تھانیدار صاحب !....اس پیکٹ کو تو میں نے پہلے کبھی دیکھا بھی نہیں۔“سکندر اس دھاندلی پر ہکلایا ۔
                ”اب تو دیکھ لیاھےنا ؟“اس کے عقب میں کھڑے سپاہی نے اسے دروازے کی جانب دھکا دیا ۔اوروہ لڑکھڑاتا ہوا دروازے کی جانب بڑھ گیا ۔
                ”تھ....تھانیدار پتّر !....رحم کرو ،مہربانی کرو ہم پر۔“بوڑھے ماکھے نے تھانیدار کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے ۔
                ”رحم بھی ہو جائے گا بزرگو!....بعد میں تھانے آ جانا ۔فی الحال تو ملزم کو تھانے لے جانا پڑے گا ۔کچھ قانونی تقاضے بھی تو ہمیں پورا کرنے پڑتے ہیں نا ۔“یہ کہہ کر تھانیدار نے سپاہیوں کو اشارہ کیا اور وہ سکندر کو دھکے دیتے ہوئے باہر لے گئے ۔
                ماکھا اکیلا کھڑا روتا رہ گیا ۔اس کی بیوی گھر سے کہیں باہر گئی ہوئی تھی ۔پولیس والوں کے گھر سے نکلتے ہی رضیہ کمرے سے باہر نکل آئی ۔
                ”پھوپھاجان ! آپ....گھبرانا بلکل نہیں سب ٹھیک ھو جائے گا ۔“وہ ماکھے کو تسلی دینے لگی ، مگر خود اس کے اپنے دل میں ہزاروں اندیشے کلبلا رہے تھے ۔
                ماکھا رو دینے والے لہجے میں بولا ۔”بیٹی !....اسی لیے کہہ رہا تھا کہ تم لوگ وڈیرے سے متھا نہ لگاﺅ ،وہ فرعون اس گوٹھ کا بادشاہ ہے ۔
                مگر نہ تو تمھاری سمجھ میں کچھ آ رہا تھا اور نہ سکندر کچھ ماننے کا تیار تھا ۔اب اگر اسے کچھ ہو گیا تو بتاﺅ کیا کر لین گے ہم ۔“
                اسی وقت سکندر کی ماں نے گھر میں داخل ہو کر واویلا کیا ۔”ہائے او مین مرر جاواں یہ !.... یہ کیا ہو گیا ۔ایسا کون سا جرم کر لیا میرے لال نے جو اسے پولیس پکڑ کر لے گئی ۔“ اسے یقینا کسی نے سکندر کی گرفتاری کی اطلاع دی تھی اور وہ دوڑتی چلی آئی تھی ۔
                ”ہونہہ!....جرم۔“ماکھا استہزائی انداز میں ہنسا ،لیکن اس کی ہنسی میں بے چارگی کا عنصر نمایاں تھا ۔”یہ جرم کیا کم ہے کہ وہ اپنی نئی نویلی دلھن کے ساتھ وڈیرے کی قدم بوسی کو نہیں گیا ۔“
                ”تو پھر جاﺅ نہ تم وڈیرے کے پاس ،اسے بتاﺅ کہ ....اسے بتاﺅ کہ ....“ مگر اس سے آگے اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ کیا کہے ۔
                ”کیا بتاﺅں ؟“وہ بے بسی سے بولا ۔”اس وقت تم تینوں نے میری ایک نہیں سنی تھی اب بھگتو ۔“
                ”پھوپھا جان !....آپ تھانیدار کے پاس جا کر مک مکا کرنے کی کوشش کریں جتنے پیسے وہ مانگتا ہے اس کے منہ پر ماریں ۔سکندر کے لیے میں اپنا تمام زیور بیچ دوں گی ۔“رضیہ نے جذباتی لہجے میں کہا ۔
                ”چلا جاتا ہوں تھانے بھی ۔“بے بس انداز میں سر ہلاتے ہوئے وہ کھڑا ہوگیا ۔”مگر مجھے نہیں لگتا کہ وہ موذی تھانیدار مک مکا کرے گا ۔لازماََاسے وڈیرے کی طرف سے حکم ملا ہوگا۔اور وڈیرے سے پوچھ کر ہی وہ کوئی قدم اٹھائے گا ۔“
                رضیہ پر امید لہجے میں بولی۔”وڈیرے نے بھی تو ہمارا مالی نقصان کرانا ہوگا ،قدم بوسی وغیرہ کا وقت تو یوں بھی گزر چکا ہے ۔“
                ”اہ پتہ نہین اب کیا کیا ھو گا ۔“پریشان چہرے اور پراگندہ سوچوں کے ساتھ ماکھا گھر سے نکل آیا۔
                اوئے”بر خوردار !....اپنے تمام ساتھیوں کے نام آرام سے بتا دے اسی میں تمھاری بہتری ہے ۔“تھانیدار نے ہاتھ میں پکڑی چھڑی اس کی ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر اس کا جھکا ہوا سر اوپر کیا ۔
                جواباََ وہ خاموش رہا تھا ۔اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ تمام وڈیرے کی کارستانی تھی ۔ اسی کے حکم پر پولیس اسے پکڑ کر وہاں لائی تھی ۔یوں بھی آدمی اس کے سامنے اپنی بے گناہی کے بارے کچھ بولتا ہے جو حقیقت میں لاعلم ہو ۔یہاں تو تھانیدار اس کی بے گناہی سے اچھی طرح واقف تھا ۔پھر اس کے سامنے اپنی بے گناہی کا واویلا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا ۔ اسے وڈیرے کی جانب سے جو ہدف ملاتھاوہ اس نے ہر حال میں پوار کرنا تھا ۔
                ”تمھاری سمجھ میں میری بات نہیں آ رہی کیا ؟“اس مرتبہ تھانیدار نے چھڑی اس کے پیٹ میں چبھوہی ۔
                ”تھانیدار صاحب !....میں نہ تو نشہ کرتا ہوں اور نہ کبھی اس گھناﺅنے کاروبار سے میرا تعلق رہا ہے ۔اور یہ سب باتین آپ بھی بہت اچھی طرح سےجانتے ہیں ۔“
                ”ہا....ہا....ہا“تھانیدار نے بلند بانگ قہقہہ لگایا ۔ساتھ کھڑے سپاہیوں نے اس کا ساتھ دیا تھا ۔”ویسے تمھاری بات تو دل کو لگتی ہے ۔“
                جواباََ سکندر نے کچھ نہیں کہا تھا ۔اسی وقت ایک سپاہی نے اندر داخل ہو کر سیلوٹ کیا ۔
                ”سر جی ملزم کا باپ آیا ہے ۔آپ سے ملاقات کا خواہاں ہے ۔“
                ”ہونہہ!....“ہنکارا بھرتے ہوئے تھانیدار نے اثبات میں سر ہلایا۔”ٹھیک ہے اندر بھیجو اسے ۔“ماکھے کی آمد کی اطلاع دینے والے سپاہی کو کہہ کر وہ وہاں موجود دوسرے سپاہیوں کو بولا۔”تم لوگ ذرا اس سے تفتیش کرو کہ اس نے گوٹھ کی دیرینہ رسوم کے خلاف کرنے کا سبق کہاں سے سیکھا ۔یہی بات میں اس کے باپ سے دریافت کر لوں ۔”
                سپاہی سکندر کو دھکیلتے ہوئے اس کے دفتر سے باہر لے گئے ۔
                ماکھا لرزتا کانپتا دونوں ہاتھ جوڑے دفتر میں داخل ہوا ۔اور
                او ہمارے مائی باپ ہم پر رحم کرو ” تھانیدار صاحب !“کہہ کر مودّب انداز میں کھڑا ہو گیا ۔
                تھانیدار نے اس کو جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی ۔چند لمحے وہ اپنے میز پر پڑی فائل کھول کر دیکھتا رہا ۔اور پھر فائل بند کر کے ایک جانب رکھتے ہوئے وہ ماکھے کی جانب متوجہ ہوا ۔
                ”ہاں اب بولو بزرگو تم!....کیا مسئلہ ہے ۔“
                ”سرکار !....میراایک ہی بیٹا ہے ۔نہ سمجھ ہے جوان خون ہے نادانستگی میں وڈیرے سائیں کی شان میں گستاخی کر بیٹھا ....سائیں معاف کر دو ۔آپ تو بڑے لوگ ہو ۔“
                ”ہم اسے سمجھانے ہی کے لیے تھانے لائے ہیں ۔پولیس کا کام ہی ناسمجھ لوگوں کو سمجھانا ہوتا ہے ۔دوتین ماہ میں اس کی سمجھ میں یہ بات ایسے آ جائے گی کہ اپنی آل اولاد کو بھی ساری زندگی سمجھاتا رہے گا ۔اور یقینا اگر تمھیں کسی نے یہ سمجھایا ہوتا تو تم اپنے بیٹے کو کبھی بھی ایسا نہ کرنے دیتے ۔“
                ماکھا گڑگڑایا۔”سائیں !....رحم کرو ۔**** آپ پر کرم کرے گا ۔اور آئندہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔میں اسے اچھی طرح سمجھا دوں گا ۔“
                تھانیدار استہزائی لہجے میں بولا ۔”بابا!....یہ مہربانی وغیرہ اپنے پاس رکھو ۔میرے ساتھ تو نقد سودا کرو۔“
                ”آپ حکم کریں سرکار !....“ماکھا ہاتھ جوڑتا ہوا بولا۔”بس یہ خیال رکھنا کہ میں بہت غریب بندہ ہوں ۔“
                تھانیدار نے کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا ۔”رقم وغیرہ چھوڑو بابا!.
                ”تو پھر ؟“ماکھا کی آنکھوں میں حیرانگی ابھری ۔
                تھانیدار مکروہ لہجے میں بولا۔”شام کو اس کی بیوی کو بھیج دینا ،میں ذرا اس سے بھی معلوم کر لوں کہ وہ وڈیرے کی قدم بوسی کے لیے کیوں نہیں جا رہی تھی ۔صبح دونوں میاں بیوی کو چھوڑ دوں گا ۔بس اتنی سی بات ہے ۔
                اب خوش ۔“
                بچپن ہی سے غلام معاشرے میں پلنے والے ماکھے کے لیے یہ شرط صرف اس لیے کڑی تھی کہ اس کے بیٹے اور بہو نے اسے قبول نہیں کرنا تھا ۔
                وہ ہکلایا۔”سس ....سائیں مجھے چند دن کی مہلت دے دیں ۔“کیونکہ بیٹے اور بہو سے مشورہ کیے بغیر وہ اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتا تھا ۔
                اسے نیم رضامند دیکھ کر تھانیدار نے مطمئن انداز میں سر ہلایا۔”پرسوں شام تک سکندر کو کچھ نہیں کہا جائے گا ۔اس کے بعد تفتیش شروع ہو جائے گی ۔شاید وہ کسی کو قتل وغیرہ کرنے کا اعتراف کر کے پھانسی پر چڑھ جائے۔یا یہ بھی ممکن ہے کہ حوالات سے فرار کی کوشش میں کسی پولیس والے کی گولی کا شکار ہو جائے ....میرا مطلب تم سمجھ رہے ہو نا ؟“تھانیدار نے اسے ڈرانے کی کامیا ب کوشش کی ۔
                ماکھا ۔ خوف سے کانپتے ہوئے بولا۔”نن....نہیں تھانیدار صاحب!....مم....میں پرسوں تک اپنی بہو کو لے آﺅں گا۔“
                تھانیدار نے تکبر سے گردن اکڑاتے ہوئے کہا ۔”اسی میں تمھاری بہتری ہے ۔“ ۔
                یوں بھی غریب اور بے بس لوگوں کے لیے پولیس تھانیدار فرعون ہی تو بن جاتے ہیں ۔نہ قانون کی پاس داری نہ شرم و حیا اور نہ ھی کسی کا ڈرخوف ۔
                ”سائیں !....اگر اجازت ہو تو میں بیٹے سے مل لوں ۔“
                ”ہاں چلو ،میں بھی تمھارے ساتھ چلتا ہوں ۔“اپنی کرسی چھوڑتے ہوئے وہ ماکھے کے ہمراہ ہو گیا ۔اسے اپنی فتح کا یقین آ گیا تھا ۔نئی نویلی دلھن کے ساتھ رات گزارنے کے خیال ہی نے اس کی چال میں مستی بھر دی تھی ۔اور پھر اس کام کے لیے اسے وڈیرے سے بھی تو ٹھیک ٹھاک انعام ملنے کی توقع تھی ۔یعنی اس کی تو پانچوں گھی اور سر کڑاہی میں تھا ۔
                حوالات کے ایک مخصوص کمرے میں پولیس کے تینوں سپاہی سکندر کی خبر لے رہے تھے ۔تیرہ نمبر چھتر کے مسلسل استعمال نے سکندر کی چیخیں نکال دی تھیں ۔مگر ان وحشیوں کو اس کی کوئی پروا نہیں تھی ۔ان کے لیے تو یہ ایک دل پسند مشغلہ تھا ۔مظلوموں اور بے گناہوں کی پٹائی کرتے کرتے ان کے دل زنگ آلود ہو گئے تھے اوران کے ضمیر گہری نیند سوتے سوتے مردہ ہوچکے تھے ۔اب ایسے کام سے وہ لطف اندوز ہوا کرتے ،قہقہے لگاتے اور خوشی سے جھوم جھوم جاتے ۔
                تھانیدار کی آمد پر بھی ان کے ہاتھ نہیں رکے تھے ۔
                ”ایک منٹ ۔“تھانیدار نے ہاتھ اٹھا کر انھیں روکا ۔اور وہ تینوں بددلی سے پیچھے ہو گئے ۔
                سکندر کی حالت کچھ ہی دیر مین خاصی دگرگوں ہو چکی تھی ۔سپاہیوں کے ہاتھ رکتے ہی اس کی چیخیں تو تھم گئی تھیں۔لیکن پھر باآواز بلند کراہنا شروع ہو گیا تھا ۔
                ”تم لوگ جاﺅ ۔“تھانیدار نے سپاہیوں کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا ۔”پرسوں شام تک اسے کچھ نہ کہنا ۔اس کے بعد البتہ تمھیں کھلی چھوٹ ہو گی ،اگر انھوں نے چاہا تو ۔“
                تینوں سپاہی تھانیدار کو زور سے سیلوٹ کرتے ہوئے باہر نکل گئے۔ان لوگون کے باہر نکلتے ہی تھانیدار ماکھے کی طرف متوجہ ہوا ۔
                ”بزرگو !....تم اپنے بیٹے سے گپ شپ کرو،مشورہ وغیرہ بھی کر لو اور پرسوں شام کا وقت نہ بھولنا ۔“یہ کہہ کر وہ خود بھی باہر نکل گیا ۔باہر جاتے ہوئے اس نے حوالات کا سلاخوں والا دروازہ کو باہر سے تالا لگا دیا تھا ۔
                ماکھا حولات کی سلاخوں کو تھام کر دکھی نظروں سے اپنے جوان بیٹے کو تکنے لگا ۔ااپنے باپ کو دیکھ کر سکندر نے بہ مشکل اپنی کراہیں روکی تھیں ۔
                جاری ھے۔
                Vist My Thread View My Posts
                you will never a disappointed

                Comment


                • #28
                  بھائی واہ اس کہانی نے تو چار چاند لگا دینے ہیں۔

                  Comment


                  • #29
                    kia baat hay

                    Comment


                    • #30
                      [QUOTE=qasir;n25696]kia baat hayLajawab update

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X