Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

لرزہ خیز قتل کا معمہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #61
    Bohat hi aala story chal rahi hy

    Comment


    • #62
      بہت ۔۔۔ بہت عمدہ ۔۔۔ وقاص اور صائمہ تو کافی قریب آ گے۔۔۔ صائمہ نے وقاص کو تو ابھی اپنے منہ سے مزہ دیا ھے۔۔۔صائمہ آگے جا کے تو آگ لگا دے گی۔۔۔ وقاص کو اب ڈاکٹر انور کا کیس مل گیا ھے۔۔۔ اب تو اور بھی زیادہ مزہ آے گا ۔۔۔لاجواب ۔۔۔عمدہ ۔۔۔بہترین ۔۔۔زبردست ۔۔۔

      Comment


      • #63


        وقاص نے مصنوعی حیرت سے ڈاکٹر تجمل سے پوچھا؛ کیوں ڈاکٹر صاحب آپ نے میڈم کو ان کی ویڈیو دکھائی نہیں ابھی؟ تجمل نے غصے سے جواب دیا؛ ایسی کوئی ویڈیو ہے ہی نہیں، آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ وقاص نے اپنا موبائل نکالا اور ایک ویڈیو چلا کے دونوں کے سامنے کر دیا۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا تھا کہ آفرین کا بالائی جسم بے لباس ہے اور وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کے انور کا لن چوسنے میں مصروف ہے۔ انور بیڈ کے کنارے بیٹھا ہوا تھا اور اس کی پینٹ پنڈلیوں تک اتری ہوئی تھی۔ تجمل کا بس نہیں چل رہا تھا کہ موبائل وقاص کے ہاتھ سے چھین کے دیوار پہ دے مارے جبکہ آفرین نے ندامت سے نظریں نیچے کر لیں۔ ادھر ویڈیو میں منظر بدلا اور آفرین بیڈ کے کنارے جھک گئی اور انور اس کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ اس نے جلدی سے اس کا پائجامہ اتارا اور لن اس کی پھدی میں اتار دیا۔ آفرین نے مزے سے سسکی لی اور سر گھما انور کی طرف دیکھا، اس کے چہرے پہ مسکراہٹ اور آنکھوں میں خمار تھا۔ تجمل کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ اس نے منت بھرے لہجے میں کہا؛ وقاص صاحب پلیز اسے بند کر دیں، یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے اس سے آپ کا کیا لینا دینا؟ وقاص نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور موبائل بدستور اس کے سامنے کیے رکھے۔ دوسری طرف آفرین کے گال اپنی ہی مزے سے لبریز چیخیں سن کے شرم اور ندامت سے لال ہو چکے تھے۔ انور پورے جوش و خروش سے آفرین کو چودنے میں مصروف تھا تبھی بیڈ پہ پڑا اس کا موبائل گونجا۔ اس نے لن بدستور آفرین کی پھدی میں رکھا لیکن ہلنا بند کر دیا اور موبائل اٹھا کے کال اٹینڈ کی۔ کال پہ دوسری طرف جو بھی تھا اس نے کوئی نا خوشگوار اطلاع دی تھی جسے سن کر انور غصے سے چلانا شروع ہو گیا۔ اس نے اپنا لن باہر نکالا اور صاف کیے بغیر ہی پینٹ اوپر چڑھا لی۔ آفرین نے حیرت اور پریشانی سے اس سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ کس کی کال تھی؟ اس نے جواب میں بس اتنا ہی کہا کہ میں ابھی جا رہا ہوں، کچھ دیر بعد واپس آؤں گا۔ اتنا کہہ کہ وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔

        وقاص نے ویڈیو بند کی اور اٹھ کے کھڑکی کے پاس جا کے کھڑا ہو گیا۔ پہلے اس نے کھڑکی کا پردہ سرکا کے باہر جھانکا اور پھر واپس آ کے صوفے پہ بیٹھ گیا اور یوں گویا ہوا؛ ہاں تو تجمل صاحب کیا کہہ رہے تھے آپ کہ یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے؟ تجمل نے جواب دیا؛ جی بالکل یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے اور آپ کو ہمیں اس طرح ذلیل کرنے کا کوئی حق نہیں۔ وقاص بولا؛ مجھے دلی دکھ ہے کہ میری وجہ سے آپ کے جذبات مجروح ہوئے لیکن یہ جسے آپ اپنا ذاتی معاملہ بتا رہے ہیں یہ اب ذاتی نہیں رہا۔ کیونکہ جس رات آپ کی بیوی ویڈیو میں موجود اس شخص کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہی تھی اسی رات اس شخص کی جوان بیٹی کا قتل ہوا۔ چونکہ آپ کو اپنی بیوی اور ڈاکٹر انور کے درمیان ناجائز تعلق کا پتہ تھا اس لیے آپ بھی شک کے دائرے میں آتے ہیں۔ کیوں مسز آفرین میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں؟ آفرین جو اب تک صدمے سی کی کیفیت میں بیٹھی تھی، اپنا نام سن کر چونکہ اور سوالیہ نظروں سے وقاص کی طرف دیکھنے لگی۔ وقاص بولا؛ کیا کہتی ہیں آپ؟ ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں میں؟ آفرین نے شاید اس کا سوال سنا ہی نہیں تھا اس لیے جواب دینے کی بجائے الٹا اس نے وقاص سے سوال پوچھ لیا؛ آپ کے پاس یہ ویڈیو کہاں سے آئی؟ کیا اس کمرے میں کوئی کیمرہ موجود تھا؟ وقاص نے بتایا؛ جب میں سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھ رہا تھا تو میں نے دیکھا آپ کے شوہر وزیٹنگ لاؤنج سے اٹھ کے کہیں گئے ہیں۔ مزید سی سی ٹی وی سے معلوم ہوا کہ انہوں نے ہوٹل کے ایک ملازم سے ملاقات کی جسے انہوں نے یہ ویڈیو بنانے کا ٹاسک سونپا تھا۔ اسی ملازم سے یہ ویڈیو میں نے حاصل کر لی۔ تجمل نے وقاص کو مخاطب کر کے کہا؛ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں کہ اس بچی ثمرین کو میں نے اس کے گھٹیا باپ سے بدلہ لینے کے لیے قتل کر دیا؟ وقاص بولا؛ ہو سکتا ہے لیکن میرے خیال میں آپ نے خود قتل کرنے کی بجائے اس کے باپ کو اکسانا بہتر سمجھا۔ تجمل جھٹ سے بولا؛ اور ایسا اندازہ قائم کرنے کی وجہ؟ وقاص بولا؛ آپ کی اس کھڑکی کے سامنے ثمرین کے کمرے کی کھڑکی ہے۔ اس رات جب آپ اپنی بیوی اور دوست کی بے وفائی پہ تلملا رہے ہونگے اسی وقت آپ کی نظر ثمرین کے کمرے پہ پڑے ہو گی جہاں وہ اپنے دوست رمیض کے ساتھ موجود تھی۔ بس پھر کیا تھا، آپ کو بدلہ لینے کا موقع ملا اور آپ نے کال کر کے ڈاکٹر انور کو اطلاع دے دی۔ اسی وقت ڈاکٹر انور کو آپ کی حسین بیوی کو بیچ منجھدار اکیلے چھوڑ کے گھر کی طرف بھاگنا پڑا۔ اور ہاں اس سے پہلے کہ آپ اس بات کو جھٹلائیں آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ڈاکٹر انور کے کال ریکارڈز میرے ہاتھ میں ہیں۔​




        تجمل کے گھر سے نکل کے پرویز سوچ رہا تھا کہ ان دونوں میاں بیوی میں سے کس کے پاس ثمرین کو قتل کرنے کا زیادہ بہتر جواز ہے؟ ہو سکتا ہے تجمل نے انور سے بدلہ لینے کے لیے ماریہ یا سجاد کو ثمرین کے قتل کے لیے پیسے دیے ہوں؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آفرین انور سے شادی کرنا چاہتی ہو اور اس کی بیٹی اس شادی میں رکاوٹ ہو جس وجہ سے آفرین نے ماریہ یا سجاد کے ذریعے ثمرین کا قتل کروا دیا ہو؟

        وقاص کی اگلی منزل انور کی فی الحال رہائش گاہ تھی۔ وہاں پہنچ کے اس نے ماریہ سے کچھ سوال جواب کیے۔ ماریہ نے بتایا کہ اس رات جب وہ سو رہی تھی تو اسے ہلکی سی آواز آئی تھی جیسے کوئی اس کے کمرے کے اوپر فرنیچر کھسکا رہا ہو۔ اس کے علاوہ اس نے کوئی آواز نہیں سنی اس لیے وہ دوبارہ سو گئی۔ وقاص نے اسے کہا کہ یاسمین کو بتائے کہ وہ اس سے ابھی ملنا چاہتا ہے۔ یاسمین آئی تو اس سے بھی کچھ سوال جواب ہوئے۔

        وقاص: آپ اور آپ کے شوہر کے علاوہ گھر کی چابی کس کے پاس ہوتی ہے؟

        یاسمین: ایک چابی ماریہ کے پاس اور ایک ڈاکٹر تجمل کے پاس کسی ایمرجنسی کی صورت میں استعمال کے لیے

        وقاص: ڈاکٹر تجمل اور ان کی بیوی آفرین کیسے لوگ ہیں؟

        یاسمین: ڈاکٹر تجمل میرے شوہر کے اچھے دوست ہیں اور فطرتاً بھی اچھے آدمی ہیں۔

        وقاص: اور آفرین؟

        یاسمین جواب میں خاموش رہی تو وقاص بولا؛ ان کے بارے میں کوئی رائے نہیں دینا چاہیں گی آپ؟

        یاسمین: مجھے وہ عورت پسند نہیں ہے۔

        وقاص نے مسکراتے ہوئے اگلا سوال پوچھا؛ ثمرین اور رمیض کے تعلق کا پتہ تھا آپ لوگوں کو؟

        یاسمین: جی پتہ تھا اور انور نے ثمرین کو سختی سے منع کیا تھا کہ اس لڑکے سے کوئی تعلق نہ رکھے کیونکہ اس کا رہن سہن اور صحبت ٹھیک نہیں تھی۔

        وقاص: یعنی آپ لوگوں کو معلوم تھا کہ وہ اوباش ہے اور اس کے دوست بھی ایسے ہی ہیں اس لیے آپ لوگوں کو ثمرین سے اس کا تعلق قبول نہیں تھا؟

        یاسمین: جی بالکل

        وقاص نے اجازت لی اور اس کی اگلی منزل رمیض کے اوباش دوستوں کا مسکن تھا۔ اس کے ساتھ ایف آئی اے اہلکاروں کی ٹیم بھی تھی جن کی مدد سے اس نے رمیض کے چار دوستوں کو اٹھایا اور ہیڈ کوارٹر لے گیا۔ اس نے ان لڑکوں کو ڈرا دھمکا کے رمیض کا موجودہ ٹھکانہ معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن ان میں سے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ رمیض کہاں روپوش ہے۔ وقاص نے انہیں چھوڑ دیا اور اپنے ایک ماتحت کے ذمہ لگایا کہ وہ سجاد کے رشتہ دار پرویز پر نظر رکھے۔ ہو سکتا ہے اس کی مدد سے وہ سجاد تک پہنچ سکیں کیونکہ جب تک سجاد یا رمیض کا سراغ نہیں ملتا یہ کیس ایسے ہی الجھا رہے گا۔

        وقاص کے ماتحت اکرام نے صاحب کے حکم کے مطابق پرویز پہ نظر رکھی ہوئی تھی۔ وہ اس کے گھر سے اتنے فاصلے پہ موجود تھا جہاں سے پرویز کی آمدورفت کا آسانی سے مشاہدہ کیا جاسکتا تھا۔

        صبح صادق کا وقت تھا جب ہر طرف اندھیرا اور سناٹا چھایا ہوا تھا۔ پرویز ہاتھ میں سٹیل کا ایک ٹفن پکڑے گھر سے نکلا اور کہیں روانہ ہوا۔ اکرام نے وقاص کو کال کر کے آگاہ کیا تو وقاص نے اسے پرویز کا پیچھا کرنے کا بولا اور خود بھی گھر سے نکل پڑا۔ اکرام اسے ایک ایک پل کی خبر دے رہا تھا اس لیے اس کی منزل بھی وہی تھی جو پرویز کی تھی اور وہ تھی اندرون لاہور۔ تینوں تقریباً ایک ہی وقت پہ ایک تنگ گلی کے باہر پہنچے۔ پرویز اس گلی میں موجود ایک حویلی میں گھسا تو وقاص بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔ ساتھ ہی اس نے اکرام کو تاکید کی کہ وہ گلی کے باہر رکے اور پرویز کو روکنے یا پکڑنے کی کوشش نہ کرے کیونکہ اسے یہ پتہ چلانا ہے کہ وہ یہاں کس سے ملنے آیا ہے۔ پرویز ایک کمرے کے باہر جا کے رکا جس کے باہر ایک بنچ پڑا تھا۔ بنج پہ سٹیل کا ایک ٹفن پہلے سے موجود تھا۔ پرویز جو ٹفن لے کے آیا تھا اس نے وہ وہاں رکھا اور جو پڑا ہوا تھا وہ اٹھا کے واپس چل پڑا۔ وقاص کچھ فاصلے پہ کھڑا صورتحال کا بغور جائزہ لے رہا تھا اور اس انتظار میں تھا کہ کوئی ٹفن اٹھانے کے لیے آئے۔ اسی اثناء میں کسی نے پیچھے سے چاقو کی مدد سے اس پہ وار کیا۔ وقاص کی چھٹی حس نے اسے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا اس لیے اس نے ایک طرف ہو کے وار خالی جانے دیا۔ نو وارد نے فوراً اگلا وار کرنے کی کوشش کی لیکن بے سود، وقاص نے بائیں ہاتھ سے اس کا چاقو والا ہاتھ پکڑ کے موڑ دیا۔ اس نے تب تک دباؤ برقرار رکھا جب تک چاقو حملہ آور کے ہاتھ سے گر نہیں گیا۔ جیسے ہی چاقو زمین پر گرا وقاص نے اپنے دائیں ہاتھ سے حملہ آور کا نقاب اتارنے کی کوشش کی تاکہ وہ اس کی شکل دیکھ سکے۔ ابھی دونوں کی زور آزمائی چل رہی تھی کہ پیچھے سے ایک اور نقاب پوش نمودار ہوا اور اس نے چاقو کی مدد سے وقاص کی کمر پہ وار کیا۔ چاقو کے وار سے وقاص کی گرفت پہلے حملہ آور پہ کمزور ہوئی اور وہ دونوں وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ وقاص نے کوشش کی کہ وہ ان کا پیچھا کرے لیکن وہ دونوں گلیوں میں کہیں کھو گئے۔

        وقاص ہسپتال میں مرہم پٹی کروا رہا تھا اور اکرام اس کے ساتھ موجود تھا۔ دونوں کڑیاں ملا کے صورتحال سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن سمجھنے سے قاصر تھے۔ وقاص کو شک تھا کہ جن دو لوگوں نے اس پہ حملہ کیا تھا ان میں ایک رمیض اور دوسرا سجاد ہو سکتا ہے یعنی وہ دونوں ملے ہوئے ہیں اور انہوں نے ہی ثمرین کا قتل کیا ہو گا۔ ممکن ہے کہ ثمرین اپنے گھر والوں کے دباؤ میں آ کے رمیض سے تعلق توڑنا چاہتی ہو اور رمیض نے طیش میں آ کے اسے قتل کر دیا ہو۔ وقاص اور اکرام ابھی اسی ادھیڑ بن میں تھے کہ انہیں اطلاع ملی کہ اندرون لاہور کے قریب پرویز کی لاش ملی ہے۔ یہ خبر ان کے لیے کسی جھٹکے سے کم نہیں تھی کیونکہ پرویز ہی وہ واحد کڑی تھی جو ان کڑیوں کو آپس میں جوڑ سکتی تھی۔ اس کی موت کی وجہ ایکسیڈنٹ بتائی گئی تھی اور اس کی لاش کے پاس وہ ٹفن بھی موجود نہیں تھا جو واپسی پہ اس کے ہاتھ میں تھا۔ وقاص کا دماغ بری طرح الجھ گیا تھا اور اس کی الجھن اس کے چہرے سے بھی واضح ہو رہی تھی۔ اکرام نے اسے گھر جا کے آرام کرنے کا مشورہ دیا اور اگلے روز سجاد کو ڈھونڈنے کے ایک اور ذریعے کا بتایا۔ وقاص اس کی بات مان کے گھر کی طرف چل پڑا۔

        گھر پہ صائمہ حسب معمول اس کا انتظار کر رہی تھی۔ وقاص ٹی وی لاؤنج میں بیٹھ گیا اور صائمہ نے اسے پانی لا کے دیا۔ صائمہ بھی اس کے سامنے بیٹھ گئی۔ وقاص ابھی تک کیس میں ہی الجھا ہوا تھا اس لیے اس نے صائمہ سے کوئی بات نہ کی۔ صائمہ افسردہ لہجے میں بولی؛ آپ مجھ سے ناراض ہیں؟ پرویز اس کے اچانک سوال پہ حیران ہوا اور بولا؛ نہیں، ایسا کیوں لگا تمہیں؟ صائمہ بولی؛ کتنے دنوں سے آپ نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔ بات کرنا تو دور آپ تو مجھے دیکھتے بھی نہیں۔ صبح جاتے ہیں اور رات کو آ کے سو جاتے ہیں۔ اگر آپ مجھ سے اکتا گئے ہیں تو بتا دیں میں امی کے گھر چلی جاتی ہوں۔ آپ نے مجھے اتنی ہمت دے دی ہے کہ میں اب اپنی لڑائی اکیلے لڑ سکتی ہوں۔ وقاص پوری توجہ سے اس کی بات سن رہا تھا اور جب اس نے اپنی بات مکمل کر لی تو بولا؛ سب سے پہلے تو تم ادھر میرے پاس آکے بیٹھو۔ صائمہ اٹھ کے اس کے ساتھ آ کے بیٹھ گئی۔ وقاص نے اپنا بازو پھیلا کے اسے اپنے ساتھ چپکا لیا اور اس کا ماتھا چوم لیا۔ پھر اس نے اپنی بات جاری رکھی؛ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں تم سے ناراض نہیں ہوں اور نہ ہی اکتایا ہوں۔ مجھے تم خود سے بھی زیادہ عزیز ہو اور میں کبھی بھی تمہیں خود سے دور نہیں کروں گا۔ دوسری بات یہ کہ میں شرمندہ ہوں کہ میرے رویے نے تمہیں یہ سب سوچنے پہ مجبور کر دیا۔ دراصل میں ایک کیس میں الجھا ہوا ہوں جس کی وجہ سے دوسرے معاملات کی طرف دھیان نہیں دے سکا۔ مجھے احساس ہے کہ تم جلد از جلد راشد سے خلع لینا چاہتی ہو۔ میں ذرا اس کیس کو حل کر لوں اس کے بعد ہم پہلا کام یہ ہی کریں گے اور پھر شادی اور سہاگ رات اور پھر بچے۔ صائمہ اس کی بات سے کافی مطمئن اور پر سکون ہو گئی جبکہ سہاگ رات والی بات پہ شرما کے مسکرا گئی۔ وقاص بولا؛ اب خوش ہو؟ صائمہ نے جواب میں ہممم کیا تو وقاص بولا مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ خوش ہو؟ صائمہ اس کی بات سمجھ گئی اور اس کے گال پہ بوسہ دے دیا۔ وقاص نے اس کی آنکھوں میں جھانکا تو اس نے شرم سے آنکھیں جھکا لیں۔ وقاص نے دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھام کے اوپر اٹھایا اور اس کے ہونٹوں پہ ہونٹ رکھ دیے۔ صائمہ نے ہونٹوں کی دستک پہ اپنے ہونٹ وا کیے اور وقاص کی زبان کو راستہ دیا۔ کچھ دیر کے لیے دونوں نے ایک دوسرے کے ہونٹ کشید کیے تو صائمہ نے کچھ بولنے کی کوشش کی۔ وقاص نے کچھ لمحوں کے لیے اس کے ہونٹوں کو آزاد چھوڑا تو اس نے کہا؛ کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے، آپ جلدی سے فریش ہو کے آ جائیں۔ وقاص بولا؛ کھانے میں آج میں اپنی پسندیدہ ڈش ہی کھانا پسند کروں گا۔ صائمہ اس کی بات سن کے ایک مرتبہ پھر شرما گئی اور اس کی بانہوں سے نکلنے کی تگ ودو میں لگ گئی۔ وقاص نے اسے مضبوطی سے اپنی بانہوں کے حصار میں جکڑ لیا اور دوبارہ اس کے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا۔ صائمہ نے مزاحمت ترک کر دی اور خود کو اس کے سپرد کر دیا۔ وقاص نے ہونٹوں سے گالوں کا سفر طے کیا اور گردن پہ اپنے پیار کی مہریں سبت کرنا شروع کر دیں۔ گردن کو چومتے چومتے اس نے صائمہ کے کان کی لو کو ہلکا سا کاٹ لیا۔ اس کی اس حرکت سے صائمہ مچل کے رہ گئی۔ پھر وہ گردن سے ہوتا ہوا کندھے پہ آ کے رکا اور وہاں سے حتی الامکان قمیض ہٹا کے چومنے اور کاٹنے لگا۔ صائمہ مدہوش ہو کے آنکھیں بند کیے وقاص کی گستاخیوں کا بھرپور مزہ لے رہی تھی۔ وقاص نے اسے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کے اٹھایا اور بیڈ روم میں لے گیا۔ وہاں جا کے اس نے اس کی قمیض اتار دی اور بریزر بھی اتار کے اس کا بالائی جسم مکمل ننگا کردیا۔ صائمہ نے شرم سے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پہ رکھ لیے۔ وقاص نے اسے پکڑ کے بیڈ پہ لٹا دیا اور اس کے مموں پہ ٹوٹ پڑا۔ جیسے ہی وقاص کے ہونٹ اس کے مموں پہ لگے اس نے مزے سے ایک سسکی لی اور اپنا ہاتھ وقاص کے سر پہ رکھ دیا۔ وقاص پوری مستعدی سے اس کے ممے چوسنے میں مصروف تھا اور وہ آنکھیں بند کیے اپنا ہاتھ اس کے بالوں میں پھیر رہی تھی۔ مموں کو اچھی طرح نچوڑنے کے بعد اس نے اپنا سفر نیچے کی جانب جاری رکھا اور چومتے چومتے شلوار تک پہنچ گیا۔ پھر اس نے شلوار کو بھی صائمہ کے جسم سے الگ کیا اور اس کی ٹانگیں کھول کے اس کی چوت پہ ہونٹ رکھ دیے۔ صائمہ اس کی اس حرکت پہ تڑپ کے رہ گئی لیکن اس نے کسی بھی لمحے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ جو ہو رہا تھا اس کے لیے وہ برسوں سے ترسی ہوئی تھی۔ وہ ہمیشہ یہ چاہتی تھی کہ اس کا شوہر اس طرح اسے پیار کرے لیکن راشد نے ہمیشہ اسے اپنی درندگی کا ہی نشانہ بنایا۔ وقاص نے جب چوت کا رس بھی اچھی طرح کشید کر لیا تو اس نے اٹھ کے اپنے کپڑے بھی اتارے اور دوبارہ صائمہ کے اوپر آ گیا۔ اس نے صائمہ کی ٹانگیں کھولیں اور اپنا لن اس کی چوت پہ سیٹ کر کے آرام سے اندر اتار دیا اور دھیرے دھیرے جھٹکے لگانے لگا۔ اس کے ہر جھٹکے پہ صائمہ مچل کے اوپر کو اٹھتی۔ آہستہ آہستہ اس کے جھٹکوں میں تیزی آتی گئی اور اس کے ساتھ ہی صائمہ کی آہیں اور سسکیاں بھی بلند ہوتی گئیں۔ دونوں اکٹھے ہی اپنی منزل پہ پہنچے اور جیسے ہی صائمہ کی چوت سے پانی کا ریلا نکلا وقاص کے لن نے اسے اپنے پانی سے مزید سیراب کردیا۔ فارغ ہونے کے بعد کچھ دیر وقاص صائمہ کے اوپر ہی پڑا اسے چومتا رہا پھر اس کے ساتھ لیٹ گیا۔ لیٹتے ہی اسے کمر پہ موجود زخم نے یاد دلایا کہ وہ سیدھا نہیں لیٹ سکتا تو اس نے فوراً صائمہ کے مخالف سمت میں کروٹ لے لی۔ صائمہ کی نظر اس کی پٹی پہ پڑی تو اس نے پریشانی کے عالم میں وقاص سے اس بارے میں پوچھا۔ وقاص نے اپنی کروٹ بدلی اور اس کی طرف منہ کر کے اسے بتایا؛ معمولی زخم ہے جلد ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ صائمہ اس کے جواب سے مطمئن نہ ہوئی لیکن پھر بھی اس نے مزید کریدنے سے اجتناب کیا اور نہانے چلی گئی۔​



        وقاص نے اپنی ٹیم کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور رمیض کے دوستوں پہ نظر رکھنا شروع کر دی۔ اسے امید تھی کہ ایک بار بل سے باہر آنے کے بعد وہ اپنے دوستوں سے ضرور رابطہ کرے گا اور اس کی یہ امید جلد ہی پوری ہو گئی۔ رمیض کا ایک دوست پی سی او سے اسے کال کر کے اس کی ماں کا پیغام پہنچا رہا تھا جب وقاص اور اکرام نے اسے دھر لیا۔ ان لوگوں کو یہ جاننے کے لیے زیادہ محنت نہ کرنا پڑی کہ رمیض اس وقت کہاں روپوش ہے۔ وہ لاہور کے ایک پسماندہ اور گنجان آباد علاقے میں چھپا ہوا تھا۔ ایف آئی اے کی ایک ٹیم نے وقاص کی قیادت میں وہاں چھاپہ مارا اور عین اس وقت رمیض کے سر پہ جا پہنچے جب وہ خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔ وقاص اور اکرام نے تھپڑوں اور مکوں سے اس کی تواضع کر کے اسے نیند سے بیدار کیا جبکہ ٹیم کے باقی اہلکار گلی کے باہر کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار تھے۔ رمیض اس اچانک افتاد سے گھبرا گیا اور اسی بوکھلاہٹ میں اس نے تکیے کے نیچے سے پستول نکال کے بے دریغ گولی چلادی جو سیدھی اکرام کے بازو پہ لگی۔ وقاص نے آگے بڑھ کے اکرام کو سنبھالا تو رمیض موقع پا کر گھر کی پیچھے والی دیوار پھلانگ کر فرار ہو گیا۔ اکرام نے وقاص کو اپنی فکر چھوڑ کر رمیض کا پیچھا کرنے کی ترغیب دی تو وقاص بھی دیوار پھلانگ کے باہر کود گیا۔ رمیض اس سے کافی فاصلے پر بھاگ رہا تھا لیکن ابھی نظروں سے اوجھل نہیں ہوا تھا۔ وقاص نے بھی اس کے پیچھے سر پٹ بھاگنا شروع کر دیا۔ رمیض مختلف گلیوں میں سے گزرتا ہوا اندھا دھن بھاگ رہا تھا اور وقاص اس تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔ اسی اثنا میں کسی نامعلوم مقام سے ایک گولی آئی اور رمیض کا سینہ چاک کر گئی۔ جب وقاص اس تک پہنچا تو وہ ابدی نیند سو چکا تھا۔ وقاص نے نظر گھما کے گولی چلنے کا مقام اور گولی چلانے والا ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن اس کی نظر تھک کے واپس آ گئی۔ اس نے رمیض کی جیبیں ٹٹولیں تو اسے محض ایک چھوٹی سی ڈائری کے سوا کچھ نہ ملا۔ اس پاکٹ سائز ڈائری کے ہر صفحے پر رمیض نے ثمرین کے لیے محبت بھرا پیغام لکھا ہوا تھا جس سے پتہ چلتا تھا کہ وہ ثمرین کا قاتل نہیں ہو سکتا۔ ویسے بھی جس طرح اسے ایف آئی اے کے ہاتھ لگنے سے پہلے خاموش کر دیا گیا اس سے یہ ہی ظاہر ہوتا تھاکہ اس سارے کھیل کے پیچھے کوئی اور ہے اور وہ جو کوئی بھی ہے، حد درجہ چالاک اور محتاط ہے۔

        وقاص بری طرح الجھ گیا تھا کیونکہ وہ اس کیس سے جڑی جس کڑی کو کھولنے کی کوشش کرتا وہ کڑی ہی غائب کر دی جاتی۔ اب اس کے پاس ایک آخری کڑی بچی تھی اور وہ تھا سجاد۔ اس کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں مل پایا تھا۔ وقاص نے اکرام کو ساتھ لیا اور پرویز کے گھر کی تلاشی کے لیے پہنچ گیا کیونکہ یہی وہ جگہ تھی جہاں سے اسے سجاد کا کوئی سراغ مل سکتا تھا۔ پرویز کے گھر کی تلاشی کے دوران اسے ایک ڈبہ ملا جس میں سجاد کے خطوط تھے جن کے ذریعے وہ گاؤں میں اپنے گھر والوں سے رابطے میں تھا۔ اس ڈبے میں ان خطوط کے علاوہ چاندی کے کچھ چمچ اور کانٹے بھی ملے۔ وقاص نے گمان کیا کہ چاندی کے یہ چمچ سجاد نے ڈاکٹر انور کے گھر سے چرائے ہوں گے لیکن اسے اس بات پہ حیرت تھی سجاد جاتے ہوئے اپنی کنگھی اور ٹوتھ برش تک ساتھ لے گیا تو اتنی قیمتی چیز وہ یہاں کیوں چھوڑ گیا؟ سب سے پہلے تو انہیں یہ طے کرنا تھا کہ یہ چمچ اور کانٹے ڈاکٹر انور کے گھر کے ہیں یا نہیں؟ یہ جاننے کے لیے ان کی اگلی منزل ڈاکٹر انور کا گھر تھا۔ وہاں پہنچ کے انہوں نے دیکھا تو پتہ چلا کہ چاندی کی یہ چیزیں یہیں سے چرائی گئی ہیں۔ اب سوال یہ تھا کہ سجاد نے اگر یہ چیزیں لالچ میں آ کے چرالی تھیں تو وہ انہیں لے کر کیوں نہیں گیا؟ ابھی وہ اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ اس کے ذہن میں جھماکا ہوا اور وہ اٹھ کے ایک طرف بھاگا۔ اکرام بھی ناسمجھی میں اس کے پیچھے بھاگا۔ وقاص ایک جگہ پہ کھڑا ہو کہ اوپر والی منزل کی طرف دیکھ کہ کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پھر اس نے اکرام سے کہا کہ وہ اوپر جا کے ثمرین کے کمرے میں داخل ہو اور پھر واپس آ جائے۔ اکرام نے اس کی ہدایت پہ من و عن عمل کیا اور ثمرین کے کمرے کی طرف گیا۔ وقاص جہاں کھڑا تھا وہاں سے وہ اکرام کو ثمرین کے کمرے میں داخل ہوتے اور باہر آتے دیکھ سکتا تھا۔ اس نے اکرام کو اوپر ہی رکنے کا بولا اور خود بھی بھاگ کے اوپر پہنچ گیا۔ پھر اس نے ایک جگہ رک کے اکرام سے پوچھا کہ ماریہ کا کمرہ بالکل اس جگہ کے نیچے ہیں ناں؟ اکرام نے ہاں میں جواب دیا۔ اس جگہ کو بالائی منزل کے ٹی وی لاؤنج کے طور پہ استعمال کیا جاتا تھا اور یہاں کچھ صوفے رکھے تھے جن کے درمیان میں ایک چھوٹا سا قالین بچھا کے اس کے اوپر ایک میز رکھا گیا تھا۔ وقاص کو یاد آیا کہ ماریہ نے پوچھ گچھ کے دوران اسے بتایا تھا کہ اس رات جب وہ سو رہی تھی تو اسے فرنیچر کھسکنے کی آواز سنائی دی تھی۔ اس نے اکرام کو ہدایت کی کہ وہ صوفے گھسیٹ کے آگے پیچھے کرے اور خود ماریہ کے کمرے میں پہنچ گیا۔ ماریہ کے کمرے میں وہ صوفوں کے گھسیٹنے کی آواز بآسانی سن سکتا تھا۔ آواز سننے کے بعد وہ دوبارہ اوپر پہنچا اور اس جگہ کا باریک بینی سے جائزہ لینے لگا۔ قالین کے اوپر چلتے ہوئے اس نے محسوس کیا کہ ایک خاص مقام سے لکڑی کا بنا ہوا فرش کھوکھلا لگ رہا ہے۔ جب اس نے قالین ہٹا کے دیکھا تو حسب توقع قالین کے نیچے موجود کچھ پھٹیاں اکھاڑ کے دوبارہ لگائی گئی تھیں۔ وقاص اور اکرام نے مل کے جب فرش دوبارہ اکھاڑا تو گلی سڑی بدبو نے ان کا استقبال کیا۔ فرش کے نیچے سجاد کی لاش موجود تھی جس کے ساتھ اس کا سامان بھی وہیں دفن تھا یہاں تک کہ کنگھی اور ٹوتھ برش بھی موجود تھے۔ وقاص کا اندازہ بالکل ٹھیک تھا۔ جس نے بھی ثمرین کا قتل کیا تھا وہ سجاد کی نظر میں آ گیا تھا اس لیے سجاد کو بھی قتل کر دیا گیا اور سرونٹ کوارٹر میں اس کا جو بھی سامان موجود تھا وہ بھی ساتھ دفن کر دیا گیا۔​



        ڈاکٹر انور کی طرف سے یاسمین نے جو وکیل کیس لڑنے کے لیے میدان میں اتارا ہوا تھا، آفرین کو اس پہ کچھ زیادہ اعتماد نہیں تھا۔ ایک تو وہ وکیل کوئی خاص شہرت یافتہ نہیں تھا دوسرا اس کیس میں اس کی اب تک کی کارکردگی بھی زیادہ متاثر کن نہیں رہی تھی۔ اس لیے آفرین انور کے لیے نیا وکیل نامزد کرنا چاہتی تھی۔ یاسمین سے اس کی کوئی خاص بنتی نہیں تھی اس لیے اس نے اس سے بات کرنے کی بجائے انور کو اعتماد میں لے لیا۔ انور کی رضا مندی حاصل کرنے کے بعد وہ ملک کے مشہور وکیل نثار اے خان کے گھر پہنچ گئی تاکہ اسے یہ کیس لڑنے کے لیے آمادہ کرسکے۔ نثار اے خان اسے ملک کی ایک معروف ٹی وی اور فلم آرٹسٹ کے طور پہ جانتا تھا۔ رسمی سلام دعا کے بعد اس نے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔ نثار اے خان نے اسے بتایا کہ وہ ان دنوں کچھ ہائی پروفائل کیسز میں مصروف ہے اور اس کا زیادہ وقت اسلام آباد میں ہی گزرتا ہے اس لیے اس کے لیے یہ کیس لڑنا ممکن نہیں۔ آفرین نے لجاجت سے کہا؛ مجھے معلوم ہے کہ آپ کی مصروفیات بہت ہیں لیکن اس کیس کو بھی آپ کی توجہ کی ضرورت ہے ورنہ ایک بے گناہ کو سزا ہو جائے گی۔ وکیل صاحب نے آفرین کی لجاجت کو نظر انداز کیا اور بدستور انکار کرتا رہا۔ آفرین نے جب محسوس کیا کہ اس کے الفاظ وکیل صاحب کو قائل کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں تو وہ اٹھ کے خان کے قریب اس کے صوفے پہ آ کے بیٹھ گئی۔ اس نے ایک بار پھر منت سماجت سے اسے قائل کرنا شروع کر دیا۔ اس مرتبہ وہ زبان سے زیادہ آنکھوں اور ہاتھوں سے بات کر رہی تھی۔ وہ اپنی گہری نظروں سے خان کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اس کے دماغ پہ سوار ہو رہی تھی اور اس کا ہاتھ اس کی ران پہ پھسل رہا تھا۔ ایڈووکیٹ خان اس کے وار برداشت کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا اور انکار کی سعی بھی جاری رکھے ہوئے تھا۔

        ایڈووکیٹ خان: میڈم آپ سمجھنے کی کوشش کریں، میں یہ کیس نہیں لے سکتا۔

        آفرین اپنا ہاتھ اس کے لن کی طرف سرکاتے ہوئے؛ پلیز خان صاحب

        خان: اب میں آپ کو کیسے سمجھاؤں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آفرین کا ہاتھ اس کے لن کے اوپر تھا اس لیے وہ اپنا جملہ مکمل نہ کر سکا۔ آفرین نے مزید وقت اور الفاظ ضائع کرنے کی بجائے اس کا لن پینٹ سے باہر نکالا جڑ سے ٹوپے تک زبان سے چاٹ لیا۔ ایڈووکیٹ نے مزے سے آنکھیں موند لیں اور لن کو آفرین کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا۔ آفرین لن کو ہاتھ میں پکڑ کے ستائشی نظروں سے اس کا معائنہ کر رہی تھی۔ اس نے آج تک اپنی زندگی میں بہت لن دیکھے اور چوسے تھے لیکن خان کا لن واقعی ستائشی حد تک صحت مند تھا۔ لن کا اچھی طرح معائنہ کرنے کے بعد اس نے اپنا منہ کھولا اور چوپے لگانے شروع کر دیے۔ خان نے بھی اپنے ہاتھوں کو حرکت دی اور اس کے ممے مسلنے شروع کردیے۔ آفرین اتنی مہارت سے چوپے لگا رہی تھی کہ خان مزے سے دوہرا ہوا جا رہا تھا۔ اس نے آفرین کو چند لمحوں کے لیے روکا اور اس کی قمیض اور بریزر اتار دی۔ آفرین نے اس کی پینٹ پنڈلیوں تک اتار دی اور دوبارہ اس کا لن منہ سے لگا لیا۔ خان نے دائیں ہاتھ سے اس کے مموں کو دبانا شروع کیا اور بایاں ہاتھ اس کی کمر پہ پھیرتا ہوا اس کے پائجامے کے اندر لے گیا۔ گانڈ پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے ایک انگلی آفرین کی چوت میں ڈالی جو پانی سے بھری ہوئی تھی۔ کچھ دیر اس نے انگلی چوت میں گھما کے اچھی طرح تر کی اور پھر نکال کے گانڈ میں گھسا دی۔ آفرین اس کی انگلی کا مزہ لیتے ہوئے چوپے لگانے کے ساتھ ساتھ گانڈ بھی آگے پیچھے کرنا شروع ہو گئی۔ خان کے دونوں ہاتھ مصروف تھے، ایک ممے مسلنے میں تو دوسرا گانڈ کھولنے میں، جس کے نتیجے میں آفرین کی چوت سے پانی کا ایک سیلاب نکلا اور اس کے پائجامے کو بھگوتا ہوا اسے بھی شانت کر گیا۔ اس نے جلدی سے اٹھ کے اپنا پائجامہ اتار کے اسے مزید گندا ہونے سے بچایا اور اپنی دونوں ٹانگیں خان کی ٹانگوں کے اطراف پھیلا کے اس کے لن پہ بیٹھ گئی۔ خان کو ایسے لگا جیسے اس کا لن دہکتی ہوئی بھٹھی میں گھس گیا ہو, اس نے بھی وقت ضائع کیے بغیر آفرین کے مموں کو چوسنا اور کاٹنا شروع کر دیا۔ آفرین کسی ماہر پورن سٹار کی طرح اس کے لن پہ اچھل رہی تھی اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کی رفتار میں اضافہ ہو رہا تھا۔ خان کو بیٹھے بٹھائے ایک مشہور اداکارہ کی پھدی مل گئی تھی اور وہ اس سے بے حد محظوظ ہو رہا تھا۔ آفرین کی پھدی نے دوسری بار خان کے لن کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور اس کے لن کو سیراب کر دیا۔ آفرین میں اب مزید ہلنے کی ہمت نہیں تھی اس لیے وہ بے جان ہو کے خان کے لن کہ اوپر بیٹھی رہی۔ خان نے اسے اٹھا کے صوفے پہ جھکا دیا اور خود اس کے پیچھے آ گیا۔ اس کا لن آفرین کی چوت کے پانی سے چکنا تھا جسے اس نے آفرین کی گانڈ کے سوراخ پہ سیٹ کیا۔ آفرین نے بدک کے کہا؛ نو نو نو، نوٹ ان ایس، دس از ویری بگ۔ خان ہنس کے بولا؛ وٹ اباؤٹ یور کیس؟ آفرین نے چپ چاپ منہ دوسری طرف کرلیا اور پہلے والی پوزیشن میں واپس آ گئی۔ خان نے تھوک کا ایک گولا گانڈ کے سوراخ پہ پھینکا اور انگلی سے سوراخ کو نرم اور چکنا کر لیا۔ اس کے بعد اس نے آگے بڑھ کے لن دوبارہ سوراخ پہ رکھا اور اپنا پورا وزن آفرین پہ ڈال کہ ایک ہی مرتبہ لن اندر اتار دیا۔ آفرین نے ہل کے نیچے سے نکلنے کی کوشش کی لیکن خان کے وزن نے اسے اس کی اجازت نہ دی۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے لوہے کا راڈ اس کی گانڈ میں گھس گیا ہو۔ خان نے بنا رکے لن کو آگے پیچھے کرنا شروع کردیا اور تب رکا جب اس کی منی کا آخری قطرہ آفرین کی گانڈ میں گرا۔ فارغ ہو کے وہ آفرین کے ساتھ ہی صوفے پہ براجمان ہو گیا اور اپنی سانسیں بحال کرنے لگا جبکہ وہ کچھ دیر ویسے ہی اوندھے منہ پڑی رہی۔ جب دونوں کچھ حد تک نارمل ہو گئے تو خان نے پر مسرت لہجے میں کہا؛ یو گاٹ اٹ مائی ڈئیر، میں یہ کیس تمہاری خاطر لڑوں گا لیکن ایک شرط پہ! آفرین نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو وہ بولا؛ جب تک کیس کا فیصلہ نہیں ہو گا تم مجھے اپنی چکنی گانڈ سے فیض یاب کرتی رہو گی۔ آفرین نے اس کی شرط قبول کر لی اور باہر کا راستہ لیا۔​



        انعم ڈاکٹر نمرہ کے کلینک میں بیٹھی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی۔ ڈاکٹر نمرہ لاہور کی مشہور انڈریالوجسٹ اور سیکسیولاجسٹ ہیں۔ وہ انعم کی دور کی رشتہ دار بھی ہے اور اس سے اچھی طرح واقف بھی تھی۔ اس کے شعبے کی وجہ سے اس کی جب بھی انعم سے ملاقات ہوئی ان کا موضوع گفتگو سیکس ہی ہوتا تھا۔ انعم پہلی بار اس کے کلینک پہ آئی تھی, اس سے پہلے ان کی ملاقات خاندان کے کسی فنکشن پہ ہی ہوتی تھی۔ ڈاکٹر نمرہ اسے اپنے کلینک میں دیکھ کے حیراں ہوئی۔ اس کے پوچھنے پہ انعم نے بتایا کہ وہ نجی مسئلے کی وجہ سے اس کے پاس چیک اپ کے لیے آئی ہے۔ ڈاکٹر نمرہ نے اسے تسلی دی کہ وہ اس کا مسئلہ حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔ انعم نے اسے بتایا کہ گزشتہ رات سے اس کی وجائنا (پھدی) میں شدید جلن اور تکلیف ہے اور خون بھی رس رہا ہے۔ ڈاکٹر نے اسے اپنی شلوار اتار کے بیڈ پہ لیٹنے کا کہا اور اس کی پھدی کا معائنہ کیا۔ معائنے کے بعد ڈاکٹر نے انعم سے پوچھا؛ تمہاری وجائنا کی حالت تو قابل رحم حد تک خراب ہوئی ہے، کیا ڈالا ہے اس کے اندر؟ کیا تم ماسٹر بیشن (خود لذتی) کی عادی ہو؟ انعم نے دکھ بھرے لہجے میں جواب دیا؛ نہیں آنٹی ایسی بات نہیں ہے، دراصل میں آجکل ایک درندے کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہوں، اسی نے میرا یہ حال کیا ہے۔ نمرہ نے پوچھا؛ کون ہے وہ اور تم کیسے اس کے چنگل میں پھنس گئی؟ نمرہ نے بتایا؛ وہ ایک پولیس والا ہے۔ اس نے مجھے ایک لڑکے کے ساتھ گاڑی میں سیکس کرتے ہوئے پکڑ لیا تھا اور ویڈیو بھی بنا لی۔ اسی ویڈیو کی وجہ سے مجھے اس کی بات ماننا پڑی اور میں اس کے چنگل میں پھنس گئی۔ وہ انتہائی سفاک درندہ ہے اور اسے عورت پہ تشدد کر کے سکون ملتا ہے۔ کل رات اس نے میرے اندر ایک لوہے کا راڈ گھسا دیا جس کے بعد سے میری یہ حالت ہے۔ نمرہ اس کی آپ بیتی سن کے افسردہ ہو گئی اور اسے راشد کی حیوانیت پہ شدید غصہ آیا۔ اس نے انعم سے کہا؛ تم نے کسی کو بتایا کیوں نہیں؟ انعم نے بے بسی سے کہا؛ بتایا تو ہے آپ کو کہ اس کے پاس میری ویڈیوز ہیں اور اس نے مجھے دھمکی دی ہے کہ اگر میں نے کسی کو بتایا تو وہ میری ویڈیوز وائرل کر دے گا۔ نمرہ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا؛ اچھا تم پریشان مت ہو، اس مسئلے کا بھی کوئی حل نکال لیتے ہیں۔ فی الحال تم ساتھ والے کمرے میں آرام کرو۔ میں تمہیں کچھ گولیاں اور ایک کریم منگوا دیتی ہوں۔ گولیاں کھا لو اور کریم اپنی وجائنا پہ لگا لو۔ میں باقی مریضوں کو دیکھ لوں اس کے بعد ہم بات کرتے ہیں۔ انعم نے تشکر بھرے لہجے میں کہا؛ آپ کا بہت شکریہ آنٹی لیکن آپ پلیز میرے گھر میں کسی کو نہ بتائیے گا۔ نمرہ نے اسے یقین دلایا کہ یہ ڈاکٹر اور مریض کی رازداری ہے اور وہ اس بارے میں کسی کو نہیں بتائے گی۔

        مریضوں سے فارغ ہونے کے بعد نمرہ انعم کے پاس پہنچی تو وہ آنکھیں موندے کسی گہری سوچ میں گم لیٹی ہوئی تھی۔ نمرہ کی آواز سن کے وہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی اور اٹھ کے بیٹھ گئی۔ نمرہ نے اس سر پہ ہاتھ رکھ کے اس کے بال سہلائے اور بولی؛ میرا ایک دوست ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ میں ہے۔ میں نے اسے کال کر کے بلایا ہے۔ امید ہے کہ وہ تمہاری مشکل آسان کر دے گا۔ انعم نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر راشد کو اس کی بھنک پڑ گئی تو وہ اس کی ویڈیوز وائرل کر دے گا۔ نمرہ نے اسے سمجھایا کہ وہ اس طرح کے معاملات سے نمٹنے میں تجربہ کار ہے اس لیے وہ کوئی حل ضرور نکال لے گا اور ویسے بھی انعم کو اس درندے سے جان چھڑانے کے لیے تھوڑی ہمت تو کرنا پڑے گی ورنہ وہ اسے اس سے بھی بدترین تشدد کا نشانہ بنا سکتا ہے۔ ان دونوں کی بحث ابھی جاری تھی کہ نمرہ کا دوست کامران جیلانی وہاں پہنچ گیا۔ نمرہ نے انعم اور کامران کا آپس میں تعارف کروایا۔ کامران کے پوچھنے پر انعم نے ساری تفصیل اسے بتا دی۔ کامران نے اسے سائبر کرائم ونگ کو ایک درخواست دینے کا مشورہ دیا اور نمرہ کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر انعم کے طبی معائنے کی رپورٹ بھی درخواست کے ساتھ دی جائے تو زیادہ بہتر ہو جائے گا۔ انعم نے کامران سے بھی ویڈیوز وائرل ہونے کے خدشے کا اظہار کیا تو اس نے بتایا کہ جیسے ہی وہ درخواست دائر کرے گی، ایف آئی اے راشد کو حراست میں لے لے گی اور اسے ایسا کچھ کرنے کی مہلت ہی نہیں ملے گی۔ انعم کے مطمئن ہونے کے بعد ڈاکٹر نمرہ نے اس کا مکمل طبی معائنہ کروایا اور رپورٹ کے ساتھ راشد کے خلاف ایک درخواست ایف آئی اے سائبر ونگ کو دے دی گئی۔ درخواست موصول ہوتے ہی ایف آئی نے راشد کو حراست میں لے لیا۔

        ثمرین قتل کیس وقاص اور اس کی ٹیم کے لیے ایک معمہ بن گیا تھا۔ وقاص کو جہاں سے کوئی سوراغ ملنے کی امید نظر آتی وہ راستہ ہی بند ہو جاتا۔ اب بظاہر اس کے پاس مزید تفتیش اور تحقیق کے لیے دو ہی ذرائع رہ گئے تھے، ڈاکٹر انور اور ماریہ۔ اس لیے ایف آئی اے نے عدالت میں ڈاکٹر انور کو حراست میں لینے کی درخواست دائر کر دی۔ دوسری طرف ڈاکٹر انور کے نئے وکیل نے عدالت میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کر دی۔

        اگلی پیشی پہ عدالت کی کاروائی شروع ہوئی تو عدالت نے دونوں فریقین کے وکلاء کو ضمانت قبل از گرفتاری کے متعلق دلائل دینے کا حکم دیا۔ انور کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا؛ یور آنر اس کیس میں اب تک ہونے والی تفتیش اور اس کیس کے دوران ہونے والے مختلف واقعات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کیس میں ڈاکٹر انور کو سیدھا سیدھا پھنسانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پوسٹ مارٹم اور فرانزک رپورٹس میں سامنے آنے والے شواہد اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ناکافی ہیں کہ ثمرین کا قتل ڈاکٹر انور نے کیا۔ یہ ایک چالاکی سے کیا گیا ڈبل مرڈر تھا اور میرے مؤکل کی میڈیکل رپورٹ کے مطابق وہ اس رات شراب کے نشے میں دھت تھا اس لیے اس کے لیے یہ کرنا ممکن نہیں۔ ہو سکتا ہے اس رات اس نے اپنی بیٹی کو راہ راست پہ لانے کے لیے مارا پیٹا ہو اور اسی دوران اس کے جسم پہ اس کے ناخنوں کے نشان رہ گئے ہوں۔ پولیس اور ایف آئی اے دونوں ہی اس قتل کی تحقیقات میں ناکام رہے ہیں اور ان کی نااہلی کی سزا میرا مؤکل جیل میں رہ کے بھگت رہا ہے اور اب ایف آئی اے والے اسے حراست میں لینا چاہتے ہیں۔ میری عدالت سے درخواست ہے کہ میرے مؤکل کو ضمانت پہ رہا کیا جائے تاکہ وہ مزید جیل کی صعوبت نہ برداشت کر سکے۔ وکیل استغاثہ نے ضمانت کی مخالفت میں دلائل دیتے ہوئے عدالت کو یہ باور کرایا کہ ڈاکٹر انور اس کیس کا مرکزی ملزم ہے اور ایف آئی اے ابھی تک براہ راست اس سے تفتیش نہیں کر سکی اس لیے ہماری عدالت سے درخواست ہے کہ ضمانت کی درخواست کو خارج کر کے انور کو ایف آئی اے کے حوالے کیا جائے۔ عدالت نے دونوں فریقین کے دلائل اور گواہوں پہ ہونے والی جرح سننے کے بعد ڈاکٹر انور کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کر لی اور اسے رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا۔​



        ڈاکٹر انور جیل کے دروازے سے باہر نکلا تو ایک طرف یاسمین گاڑی لے کے موجود تھی جبکہ دوسری طرف آفرین ایک گاڑی لیے موجود تھی۔ انور نکلا تو پہلے اس کی نظر آفرین پہ پڑی، اس نے آنکھوں سے ہی اس کی آمد کا شکریہ ادا کیا جس کے جواب میں آفرین نے اسے دوسری طرف دیکھنے کا اشارہ کیا۔ انور کی نظر یاسمین پہ پڑی تو وہ بے دلی سے اس کی طرف بڑھا۔ یاسمین اسے جیل سے باہر دیکھ بہت خوش ہوئی لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی انور بولا؛ یاسمین میں پہلے ثمرین کی وجہ سے تم سے یہ بات نہیں کر پایا، یاسمین نے اسے ٹوکا اور بولی؛ ہم گھر جا کے بات کرتے ہیں، انور نے اس کی بات ان سنی کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی؛ میرے خیال میں اب اس شادی کو مزید گھسیٹنے کا کوئی مطلب نہیں۔ پہلے مجھے عائشہ کا خیال تھا ورنہ میں یہ شادی ختم کر چکا ہوتا۔ یاسمین نے ایک غضبناک نظر آفرین پہ ڈالی اور انور کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کے بولی؛ انور پلیز ایسے مت کرو، یہ عورت بس تمہیں استعمال کرے گی اور پھر چھوڑ دے گی۔ انور اسے بولتے چھوڑ کے واپس چل پڑا اور آفرین کی گاڑی میں بیٹھ کے چلا گیا۔

        آفرین نے کچھ دنوں کے لیے ہوٹل میں ایک کمرہ لیا تھا جہاں وہ انور کو لے کے گئی۔ انور کمرے میں داخل ہوا تو کمرے میں پھولوں سے سجاوٹ کی گئی تھی اور ویلکم ہوم کا خوبصورت سا کارڈ بنا کے سامنے آویزاں کیا گیا تھا۔ انور یہ سب دیکھ کے جہاں خوش تھا وہیں حیران بھی تھا۔ آفرین نے اسے بانہوں میں بھر کے چوما اور بولی؛ کچھ دنوں کے لیے یہی ہمارا گھر ہے۔

        وقاص نے انور کے آبائی گھر کے باہر گاڑی روکی اور دروازے پہ لگی بیل بجائی۔ ایک معمر خاتون نے دروازہ کھولا جو وقاص کے مطابق یقیناً انور کی ماں تھی۔ وقاص نے سلام کیا اور بولا؛ آنٹی میں انور کا دوست ہوں اور ایک کام کےسلسلے میں لاہور سے یہاں آ رہا تھا تو انور نے آپ کے لیے یہ مٹھائی بھیج دی۔ آنٹی نے اس کے ہاتھ سے مٹھائی کا ڈبہ لے کر چائے کی پیشکش کی جسے اس نے رسمی حیل و حجت کے بعد قبول کر لیا۔ چائے پیتے وقت انور کا باپ بھی وہیں موجود تھا۔ وقاص نے خوش مزاجی سے بتایا کہ انور کے گھر ان لوگوں کا بہت تذکرہ ہوتا ہے، انور، یاسمین اور ماریہ ان لوگوں کے بارے میں کافی بات کرتے ہیں۔ ماریہ کا نام سن کے انور کے باپ کے چہرے پہ ناگواری کے تاثرات نمودار ہو گئے۔ وقاص نے آنٹی کو مخاطب کر کے کہا؛ آنٹی لگتا ہے انکل کو ماریہ کچھ خاص پسند نہیں ہے؟ اس کے سوال کا جواب آنٹی کی بجائے انکل نے دیا؛ بہت تیز جا رہے ہو میاں، لگتا ہے کم وقت میں بہت کچھ جاننا چاہتے ہو؟ انور کے دوست ہی ہو یا کوئی اور؟ وقاص نے اس کے سوال کا سنجیدگی سے جواب دیا؛ اب آپ جان ہی گئے ہیں تو بتا دیں جو آپ کو معلوم ہے۔ میرا نام وقاص ہے اور میں عائشہ کے قتل کی تحقیقات کر رہا ہوں۔ انکل نے سخت لہجے میں جواب دیا؛ ہم کچھ نہیں جانتے۔ وقاص نے غصے سے کہا؛ انور آپ کا بیٹا ہے اور عائشہ آپ کی پوتی تھی جس کے قتل کے الزام میں وہ کیس بھگت رہا ہے۔ میرا تو ان سے کوئی تعلق نہیں پھر بھی میں قاتل کو ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہوں اور اس دوران مجھ پہ قاتلانہ حملہ بھی ہو چکا ہے۔ اگر آپ اب بھی کچھ نہیں بتانا چاہتے تو جیسے آپ کی مرضی۔ اس کی جذباتی تقریر سے انکل کچھ نرم پڑ گئے اور بولے؛ اس رات کیا ہوا وہ تو ہم نہیں جانتے لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اس میں ماریہ کا ضرور کوئی کردار ہو گا کیونکہ وہ ایک مکار اور بدکردار عورت ہے۔ وقاص نے ان کا شکریہ ادا کیا اور واپسی کی راہ لی۔

        واپسی پہ اس نے اکرام کو کال کی اور ہوچھا؛ جس دن تم پرویز کا پیچھا کر رہے تھے اس دن پرویز کے علاوہ تم نے اندرون میں کسے دیکھا تھا؟ پرویز بولا؛ ماریہ کو دیکھا تھا جو کسی دوکان سے کچھ خرید رہی تھی۔ وقاص بولا؛ بلاؤ اسے تفتیش کے لیے، میں بھی پہنچ رہا ہوں۔

        وقاص خونخوار نظروں سے ماریہ کو دیکھ رہا تھا اور ماریہ اس کے سامنے بیٹھی خوف سے کانپ رہی تھی۔ وقاص نے اس سے پوچھا کہ فلاں تاریخ وہ اندرون لاہور میں کیا کر رہی تھی؟ ماریہ نے بتایا کہ اس کی ماں ٹیکسالی میں رہتی ہے جس سے ملنے وہ وہاں گئی تھی۔ وقاص نے پوچھا؛ تم نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی؟ ماریہ بولی؛ کوئی مناسب رشتہ نہیں ملا۔ وقاص بولا؛ کوئی پرانا افیئر؟ ماریہ نے نفی میں سر ہلایا۔ وقاص نے پوچھا؛ کبھی سیکس کیا ہے؟ ماریہ نے غصے سے نہ میں جواب دیا۔ وقاص نے لیڈی کانسٹیبل کو بلایا اور ماریہ کا مکمل میڈیکل چیک اپ کروانے کا کہا۔

        میڈیکل چیک اپ کے مطابق ماریہ نہ صرف سیکسوئلی ایکٹو تھی بلکہ ایک بچہ بھی پیدا کر چکی تھی۔ وقاص کے لیے یہ ایک حیران کن خبر تھی۔ اس نے مزید تحقیق کے لیے وقاص کی ماں کے گھر کا رخ کیا۔ ماریہ کی ماں خاصی بیمار تھی اور اس کی دیکھ بھال کے لیے ایک نرس معمور تھی۔ وہاں پہنچ کے وقاص پہ انکشاف ہوا کہ ماریہ کی ماں قوت گویائی سے محروم ہو چکی تھی اور اس کی یاداشت بھی کافی کمزور تھی۔ وقاص نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن محض اتنا ہی جان پایا کہ وہ شادی شدہ ہے اور اس کا شوہر اسے یہاں نہیں آنے دیتا۔ وقاص مایوس ہو کے واپس آنے لگا تو اس کی نظر کمرے میں لگی ایک تصویر پہ پڑی۔ وہ تصویر کو قریب سے دیکھ رہا تھا تو ماریہ کی ماں نے اشاروں سے کچھ بتانے کی کوشش کی جس کا ترجمہ وہاں موجود نرس نے کچھ یوں کیا؛ یہ کہہ رہی ہیں کہ ان کی بیٹی جوانی میں بہت خوبصورت تھی۔ وقاص نے دوبارہ تصویر کو غور سے دیکھا تو اس کے چہرے پہ پریشانی کے آثار نمودار ہو گئے۔ اس نے جیب سے موبائل نکالا اور کال ملا کے باہر کی جانب بھاگا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے وہ بولا؛ اکرام، انور اس وقت کہاں ہو گا؟ اکرام بولا؛ وہ آفرین کے ساتھ ہوٹل میں ہے۔ وقاص بولا؛ تم جلد از جلد وہاں پہنچو، اس کی جان خطرے میں ہے۔ وقاص پوری رفتار سے گاڑی چلا کے ہوٹل پہنچا تو انور کی لاش نے اس کا استقبال کیا۔ انور کے گلے پہ بھی ویسا ہی کٹ لگا تھا جیسا اس سے پہلے عائشہ اور سجاد کے گلے پہ پایا گیا۔ لاش کے پاس پولیس اور فرانزک کی ٹیمیں ابتدائی کاروائی کے لیے موجود تھیں۔ وقاص نے ہوٹل کے مینیجر سے پوچھا؛ کیا آپ سے کسی نے کمرے کی ڈپلیکیٹ چابی لی؟ مینیجر نے اس امکان کو سختی سے مسترد کر دیا۔ وقاص وہاں سے نکلا اور ایف آئی اے آفس کی طرف روانہ ہو گیا۔ راستے میں اس نے اکرام کو کال کی اور بولا؛ سب لوگوں کو کل انور کے گھر اکٹھا کرو۔​



        اگلے روز اس کیس سے جڑے سبھی کردار ڈاکٹر انور کے گھر موجود تھے۔ سب کی توجہ کا مرکز وقاص تھا کیونکہ اسی نے سب کو یہاں اکٹھا کیا تھا۔ وقاص نے پر اعتماد لہجے میں اپنی بات شروع کی؛ 28 اگست کی رات 12 بجے ڈاکٹر انور نشے میں دھت اپنے گھر پہنچے اور سیدھا ثمرین کے کمرے کی طرف گئے۔ کمرے سے ثمرین اور رمیض کی باتوں کی آواز آ رہی تھی۔ ڈاکٹر انور غصے سے اپنے کمرے کی طرف گئے اور سرجیکل آلات والا بیگ کھول کے اس میں سے ایک سرجیکل چاقو نکالا اور واپس ثمرین کے کمرے کی طرف پلٹے۔ کمرے کا دروازہ کھولتے ہی انہوں نے اپنی بیٹی کو ایک غیر مرد کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دیکھا تو وہ آپے سے باہر ہو گئے۔ انہوں نے غصے سے پھنکارتے ہوئے آگے بڑھ کے رمیض پہ قاتلانہ حملہ کیا۔ رمیض اور ثمرین اس حملے کے لیے ذہنی طور پہ تیار تھے اس لیے انہوں نے اپنے بچاؤ کی بھرپور کوشش کی۔ اس ہاتھا پائی کے نتیجے میں تینوں کے جسم پہ خراشیں لگیں لیکن رمیض کچھ زیادہ زخمی ہو گیا۔ انور اور رمیض کے درمیان زور آزمائی جاری تھی، اسی وقت ثمرین نے پلاسٹک کا بیگ اٹھا کے اپنے باپ کے سر پہ دے مارا۔ بیگ کی شدید ضرب لگنے سے انور ہوش سے بیگانہ ہو گیا اور بیگ میں بھی دراڑ پڑ گئی۔ رمیض اور ثمرین نے مل کے انور کے بے ہوش جسم کو اٹھایا اور گھسیٹ کے اس کے کمرے میں لے جا کے بیڈ پہ لٹا دیا۔ انور کی شرٹ رمیض کے خون سے رنگین تھی جس کے نشان بیڈ کی چادر پہ بھی ملے۔ اس کے بعد کیا ہوا وہ ڈاکٹر انور کو واقعی یاد نہیں تھا کیونکہ وہ بے ہوش ہو چکے تھے۔ انور کو لٹانے کے بعد ثمرین اور رمیض کو اس چاقو کا خیال آیا جو انور کے ہاتھ میں تھا۔ ثمرین نے واپس جا کے اپنے کمرے سے چاقو اٹھایا اور دھو کے واپس بیگ میں رکھ دیا۔ پھر اس نے اپنی الماری سے ایک دوپٹہ نکالا اور اس کا ایک حصہ پھاڑ کے رمیض کے زخم پہ لپیٹ دیا۔ اس کے بعد رمیض وہاں سے چلا گیا اور ثمرین اپنے بیڈ پہ سو گئی۔ ثمرین کو یقین تھا کہ انور کو صبح کچھ یاد نہیں ہو گا کیونکہ جب بھی وہ نشے میں ہوتا تھا اسے اگلے دن کچھ یاد نہیں ہوتا تھا۔ آفرین نے اسے ٹوکا اور بولی؛ اس کے بعد جو ہوا وہ شاید تجمل کو پتہ ہو۔ تجمل بولا؛ ہاں یہ سچ ہے کہ میں نے ہی انور کو کال کر کے رمیض کے بارے میں بتایا تھا لیکن میں نے اس معصوم لڑکی کو نہیں مارا، ہاں میں یہ بتا سکتا ہوں کہ اسے کس نے مارا! وقاص بولا؛ کس نے؟ آپ کی خوبصورت بیوی نے؟ میرا مطلب ہے سابقہ بیوی نے؟ تجمل بولا؛ نہیں، آفرین میں اتنی جرأت نہیں ہے۔ وقاص نے پوچھا؛ پھر آپ کے خیال میں کون ہو سکتا ہے؟ تجمل نے ماریہ کی طرف اشارہ کیا اور بولا؛ اس عورت نے ثمرین کا قتل کیا ہے۔ وقاص جھٹ سے بولا؛ بالکل غلط جواب، ایک ماں اپنی بیٹی کو کیسے مار سکتی ہے؟ سب کو حیرت کا جھٹکا لگا اور سب نے وقاص کی طرف ایسے دیکھا جیسے وہ احمق ہو۔ وقاص ماریہ کے پاس پہنچا اور بولا؛ ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں میں مس ماریہ؟ ثمرین آپ کی بیٹی تھی ناں؟ ماریہ کے چہرے کی ہوائیاں اڑ گئیں۔ وقاص نے اپنی بات جاری رکھی؛ ماریہ کی ماں ایک طوائف تھی اور ان کی رہائش انور کے آبائی گھر کے پاس تھی۔ انور اور ماریہ کا بچپن سے ہی ناجائز رشتہ تھا جو جوانی تک جاری رہا۔ انور کے گھر والوں کو یہ رشتہ کسی طور قبول نہیں تھا اس لیے انہوں نے انور کی شادی یاسمین سے کر دی۔ انور نے شادی کے بعد بھی ماریہ سے تعلق بنائے رکھا اور اسی تعلق کے نتیجے میں ماریہ نے ایک بچی کو جنم دیا جس کا نام ثمرین تھا۔ حاضرین کو حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا جبکہ ماریہ نے وقاص کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے مزید نہ بولنے کی استدعا کی۔ وقاص نے اس کی التجا کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی؛ شادی کے تین سال بعد تک بھی جب اولاد نہ ہوئی تو پتہ چلا کہ یاسمین بانجھ ہے اور اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ ڈاکٹر انور کے لیے یہ ایک نہایت موزوں صورتحال تھی۔ عائشہ کی پیدائش کے بعد انور نے یاسمین کو بتایا کہ وہ یتیم خانے سے ایک 15 دن کی بچی کو گود لے رہا ہے۔ یاسمین کو اس پہ بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا وہ تو الٹا خوش ہو گئی کہ وہ ایک بیٹی کی ماں بن جائے گی۔ پھر جب انور نے اپنا کلینک کھولا تو ماریہ کو نرس بنا کے اپنے پاس لے آیا۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یاسمین کو شک کیوں نہیں ہوا جب بچی فطری طور پہ اس کے پاس جانے کی بجائے اپنی ماں کے پاس جاتی ہوگی؟ شک تو لازمی ہوا ہوگا لیکن ڈاکٹر انور نے چالاکی سے معاملہ سنبھال لیا ہو گا۔ لیکن سچ کب تک چھپ سکتا تھا؟ 18 سال بعد ایک دن یاسمین نے ماریہ اور انور کو پیار کا کھیل کھیلتے ہوئے دیکھ لیا۔ صحیح کہہ رہا ہوں ناں مس یاسمین؟ یاسمین نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور بولی؛ کیا کر رہے ہیں آپ؟ پہلے ہم لوگ کم پریشان ہیں جو ایسے سب کے سامنے ہماری تذلیل کر رہے ہیں؟ وقاص نے اس کے سوال کا جواب دینے کی بجائے خود ایک سوال داغ دیا؛ پنڈی میں تھی ناں آپ؟ یاسمین نے نا سمجھی سے اس کی طرف دیکھا اور بولی؛ کیا؟ وقاص بولا؛ قتل کے وقت پنڈی میں تھی ناں آپ؟ یاسمین نے ہاں میں جواب دیا۔ وقاص بولا؛ وہ ہی تو میں تھوڑا سا کنفیوز ہوں کہ جس سرجری کے لیے آپ وہاں گئی تھیں وہ تو پہلے ہو چکی تھی۔ ایمرجنسی تھی تو ایک جونیئر ڈاکٹر نے وہ آپریشن پہلے ہی کر دیا تھا۔ ساتھ ہی اس نے ہسپتال کے کچھ کاغذات یاسمین کو دکھائے۔ یاسمین نے اس کی بات سے اتفاق کیا۔ پھر اس نے ڈائیوو بس کا ریکارڈ دکھایا جس سے یاسمین واپس لاہور آئی اور بولا کہ آپ 12 بجے سے پہلے گھر پہنچ چکی تھیں۔ اور جب آپ پہنچیں سکیورٹی گارڈ ٹوائلٹ گیا ہوا تھا اس لیے اس نے آپ کو دیکھا نہیں۔ یاسمین جھنجلاہٹ سے بولی؛ کیا کہنا چاہتے ہیں آپ؟ کیا لینا دینا ہے اس سب کا اس کیس سے؟ کیا لینا دینا ہے؟ وقاص نے برہم انداز میں کہا؛ کوئی لینا دینا نہیں تو آپ اتنا غصہ کیوں کر رہی ہیں؟ وقاص نے اپنی کہانی جاری رکھی؛ یاسمین اپنے گھر پہنچ گئی لیکن کسی کو اس بات کا پتہ نہیں تھا۔ رات کے 12 بجے وہ باتھ روم میں نہا رہی تھی جب اس نے غصے میں ادھر ادھر ٹکراتے ڈاکٹر انور کے قدموں کی آواز سنی۔ جب تک وہ باتھ روم سے باہر آئی ثمرین اپنے بستر میں سو چکی تھی۔ یاسمین کے لیے انور سے اس کے دھوکے کا بدلہ لینے کا یہ بہترین موقع تھا۔ اس نے حالات کا بخوبی جائزہ لیا اور اپنے ذہن میں ایک خطرناک پلان بنایا۔ پھر اس نے سرجیکل لباس اور دستانے پہنے اور سرجیکل کٹ سے باہر پڑا ہوا وہی چاقو اٹھایا جو کچھ دیر پہلے ڈاکٹر انور کے ہاتھ میں تھا اور ثمرین کو قتل کر دیا۔ یاسمین بولی؛ بکواس ہے یہ، پہلے انور پہ قتل کا الزام لگایا اور اب مجھ پہ، تم نکلو میرے گھر سے۔ اتنا کہہ کہ اس نے وقاص کو دھکے دینے شروع کر دیے۔ ایک لیڈی کانسٹیبل نے آگے بڑھ کے اسے روکا اور قابو کر کے بٹھا دیا۔ تجمل نے ایک بار پھر لقمہ دیا؛ تو پھر سجاد کو کس نے اور کیوں قتل کیا؟ وقاص بولا؛ ثمرین کو قتل کر کے جب یاسمین اس کے کمرے سے باہر نکلی تو سجاد بیچارہ اپنی موت کو ڈھونڈتا ہوا نیچے سے گزر رہا تھا۔ اس کی نظر یاسمین پہ پڑی تو وہ وہیں ساکت ہو گیا کیونکہ یاسمین کے ہاتھ میں خون آلود چاقو تھا اور اس کے سرجیکل لباس پہ بھی خون کے چھینٹے تھے۔ یاسمین نے سجاد کو پیسوں کا لالچ دے کہ اسے قتل کے ثبوت مٹانے کے لیے مدد کرنے پہ آمادہ کیا۔ سجاد نے یاسمین کے کہنے پہ اس جگہ سے صوفے ہٹائے اور لکڑی کا فرش اکھاڑا جہاں سے اس کی اپنی لاش ملی۔ اس کا مطلب ہے جب اس نے لاش چھپانے کے لیے جگہ بنا لی تو یاسمین نے اسے ہی اس جگہ سلا دیا اور سب کچھ واپس اپنی جگہ پہ رکھ دیا۔ اس بار آفرین نے مداخلت کی اور بولی؛ ایک کمزور سی عورت اتنا سب کچھ کیسے کر سکتی ہے؟ وقاص نے سب کو یاد دلایا کہ یاسمین ایک آرتھوپیڈک سرجن ہے اور صاف اور سیدھے کٹ لگانے میں مہارت رکھتی ہے۔ اور اسی مہارت کا استعمال کر کے اس نے پہلے ثمرین اور سجاد کو قتل کیا اور پھر اپنے شوہر ڈاکٹر انور کو بھی قتل کر دیا۔ وقاص نے اپنی بات جاری رکھی؛ انور کے کمرے کا لاک نہ تو توڑا گیا اور نہ ہی ڈوپلیکیٹ چابی کا استعمال کیا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ قاتل ڈاکٹر انور کی مرضی سے ان کے کمرے میں داخل ہوا۔ دراصل ڈاکٹر یاسمین طلاق کے کاغذات لے کے اپنے شوہر سے ملنے گئی اور دھوکے سے اس کا قتل کر دیا۔

        ایڈووکیٹ یونس جو اب تک خاموشی سے یہ سب سن اور دیکھ رہا تھا گرجدار آواز میں بولا؛ پھر میرے بیٹے رمیض کو کس نے مارا؟ وقاص بولا؛ اے ایس آئی راشد علی نے۔ یونس نے حیرت زدہ لہجے میں پوچھا؛ وہ کیوں مارے گا میرے بیٹے کو؟ وقاص بولا؛ وہ پہلے دن سے جانتا تھا کہ ثمرین کا قتل یاسمین نے کیا ہے لیکن چونکہ وہ یاسمین کے جسم سے فیض یاب ہو رہا تھا اس لیے اس نے ہر اس ذریعے کو مٹا دیا جس سے ہم اصل قاتل تک پہنچ پاتے۔ وقاص کی بات سنتے ہی یاسمین نے خونخوار شیرنی کی طرح اس پہ حملہ کر دیا اور زبان کے ساتھ ہاتھ بھی چلانے لگی۔ لیڈی کانسٹیبل نے آگے بڑھ کے اسے دبوچا اور وقاص نے اپنی بات جاری رکھی؛ یاسمین نے پہلے دن ہی راشد کی ہوس پرستی کو بھانپ لیا تھا اس لیے اس نے اسے پیسوں کے ساتھ اپنا جسم بھی پیش کر کے اپنے ساتھ ملا لیا۔ رمیض نے قتل کے اگلے ہی روز راشد سے رابطہ کر کے اسے بتایا کہ ثمرین کا قتل اس کے باپ نے کیا ہے لیکن تب تک راشد بک چکا تھا۔ راشد نے مکاری سے رمیض کو روپوش کر دیا اور یاسمین کے کہنے پہ اسے قتل کرنے سے گریز کیا۔ یاسمین کا خیال تھا کہ اگر عدالت انور پہ ثمرین کے قتل کی فرد جرم عائد کر دیتی ہے تو رمیض کو گواہ کے طور پہ پیش کیا جا سکتا ہے اور اگر انور ضمانت پہ باہر آ جاتا ہے تو اسے رمیض کے ہاتھوں قتل کروایا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کا منصوبہ اس وقت ناکام ہوا جب میں اور اکرام پرویز کا پیچھا کرتے ہوئے اس جگہ جا پہنچے جہاں رمیض روپوش ہوا تھا۔ وہیں رمیض اور راشد نے مجھ پہ قاتلانہ حملہ کیا اور اس کے بعد راشد نے پرویز کو بھی قتل کر دیا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر پرویز میرے ہاتھ لگ گیا تو ساری بات کھل جائے گی۔ پھر جب رمیض میرے ہاتھ لگا تو راشد نے اسے بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔

        یاسمین نے ڈھٹائی سے ایک بار پھر مداخلت کی اور بولی؛ یہ سب بکواس ہے اور ایک من گھڑت کہانی ہے۔ آپ کے پاس کیا ثبوت ہے جس سے آپ اپنی اس کہانی کو سچ ثابت کر سکیں؟ وقاص نے فاتحانہ مسکراہٹ چہرے پہ سجا کے اکرام سے وہاں موجود ایل ای ڈی آن کرنے کا کہا۔ پھر اس نے سب کو مخاطب کر کے کہا کہ ابھی جو تصویریں آپ دیکھنے والے ہیں وہ انتہائی قابل اعتراض ہیں لیکن ان کے علاوہ ہمارے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ یہ تصویریں ان ویڈیوز میں سے نکالی گئی ہیں جو راشد کے موبائل میں موجود تھیں۔ آپ سب کے علم میں ہو گا کہ راشد ایک لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام میں اس وقت ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کی حراست میں ہے، وہیں سے مجھے وہ ویڈیوز ملیں جن میں سے کچھ تصویریں میں آپ لوگوں کو دکھا رہا ہوں۔ پہلی تصویر میں یاسمین ننگی کھڑی تھی اور اسکے بازو ایک رسی کی مدد سے چھت کے ساتھ لگی ایک ہک کے ساتھ بندھے ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ تصویر میں راشد موجود تھا جس کے جسم پہ کپڑے نہیں تھے اور ہاتھ میں ایک باریک سی چھڑی تھی۔ دوسری تصویر میں یاسمین گھٹنوں کے بل بیٹھی راشد کا لن چوس رہی تھی۔ تیسری تصویر میں یاسمین ٹیبل پہ اوندھی پڑی تھی اور راشد کے ہاتھ میں بیلٹ تھی جس سے غالباً وہ اس کی تواضع کر رہا تھا۔ تمام تصویروں میں راشد اور یاسمین کے نجی اعضاء کو کالے رنگ سے چھپایا گیا تھا۔ وقاص نے ایل ای ڈی بند کر دی اور بولا؛ ہاں تو مس یاسمین اور کوئی ثبوت چاہیے؟ یاسمین سر جھکا کے بیٹھی رہی اور کوئی جواب نہ دیا۔ وقاص بولا؛ آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر یاسمین نے تفتیشی آفیسر کو اپنے ہاتھ میں کیا ہوا تھا تو اسے ایف آئی اے کے پاس جانے کی کیا ضرورت پڑی؟ اس کا جواب بہت سادہ ہے، راشد وائلڈ سیکس کا شوقین ہے اور اسے عورت کو تکلیف دینے میں مزہ آتا ہے۔ یاسمین کے لیے جب اس کی اذیت ناقابل برداشت ہو گئی تو اس نے ایف آئی اے کے پاس جانے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ جانتی تھی کہ راشد اب اپنے بچاؤ کے لیے بھی اس کیس کو حل نہیں ہونے دے گا۔ لیڈی کانسٹیبل نے یاسمین کو ہتھکڑی پہنائی اور اپنے ساتھ لے گئی۔ جاتے جاتے یاسمین نے ایک کمینی فاتحانہ مسکراہٹ چہرے پہ سجا کے ماریہ کی طرف دیکھا جو اپنا سب کچھ لٹ جانے پہ آنسوؤں سے تر چہرہ لیے غم کی تصویر بنی ہوئی تھی۔

        عدالت نے تمام شواہد کی بناء پر یاسمین اور راشد کو سزائے موت کا حکم جاری کیا۔ صائمہ نے راشد سے طلاق لے کے وقاص سے شادی کر لی اور عزت اور محبت سے بھرپور زندگی گزار رہی ہے۔ ماریہ اور آفرین تنہا زندگی گزار رہی ہیں اور انور کی یاد میں آنسو بہا کے دن رات یاسمین کو کوستی ہیں۔​


        ختم شد
        جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
        ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

        Comment


        • #64
          Buhat alawaa janab maza aa gya kahani ka

          Comment


          • #65
            wah 1 behtreen shahkaar ka khoob ikhtetaam bht mza aya parh kr

            Comment


            • #66
              Bhot hi zabardast sex action or suspenc sy bharpur story

              Comment


              • #67
                Wah, bohat behtreen kahani thi,

                Comment


                • #68
                  وقاص نے ماریہ کی ماں کے گھر ماریہ کی جوانی کی جو تصویر دیکھی وہ کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے والی سب سے اہم اور آخری کڑی تھی۔ جوان ماریہ کی تصویر دیکھ کے اس کے ذہن میں اس جیسی ہو بہو تصویر آگئی جو اس نے ثمرین کے کمرے میں دیکھی تھی۔ جوان ثمرین اور جوان ماریہ کی تصاویر میں حد درجہ مماثلت سے وقاص کیس کو حل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

                  Comment


                  • #69
                    Wah g waqas ki kya bat boht zabardast tarhan case hal kya or katil ko talash kya lag hi nhi raha tha ka yasmin katil ho gi kahani boht behtareen thi suspense or sex sa bahrpor

                    Comment


                    • #70
                      شاندار اپڈیٹ۔۔۔
                      کہانی دلچسپ بنتی جا رہی ہے

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X