Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

زینت ایک دیہاتی لڑکی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Sensual Story زینت ایک دیہاتی لڑکی

    میری بیگم کی شاپنگ کو آج ساتواں روز تھا اور ایک دن بعد وہ میکے جانے والی تھی جہاں اس نے بیس دن رہنا تھا آج سے پندرہ دن بعد اس کی بہن کی شادی تھی اور اس کی امی یعنی میری ساس پچھلے کئی روز سے کال کر رہی تھی کہ میری بیٹی کو پہنچا دو اس کے بغیر کوئی کام نہیں ہو رہا ہے آج بدھ کا روز تھا اور بیگم نے جمعہ کے روز جانا تھا شام کے بعد میری زمینوں پر کام کرنے والے نعمت نے کال کی کہ صاحب میری امی کی طبیعت بہت خراب ہے اور ہم ڈاٹسن پر اس کو شہر کی ہسپتال میں لا رہے ہیں ہم آتے ہوئے آپ کی گلی سے گزر لیں گے اور میری بیگم آپ کے گھر رہے گی نعت میری زمینوں پر کام کرتا تھا اور میرے آبائی گاؤں سے ذرا فاصلے پر میری زمینوں پر بنے میرے مکان میں اپنی فیملی سمیت رہتا تھا اس سے پہلے وہ اور اس کی امی رہتے تھے اس کا اپنا مکان نہیں تھا نعت کی عمر 18 سال تھی اور اس کی امی نے اپنی بیماری کو دیکھتے ہوئے نعت کی شادی تین ماہ قبل اپنے کسی دوردراز کے رشتہ داروں میں کر دی تھی اس کی دلہن کا نام زینت تھا اس کی شادی کے سارے اخراجات بھی میں نے برداشت کئے تھے ان کی شادی بس نارمل سی تھی میرے ساتھ میری بیگم بھی اس کی شادی میں میرے ساتھ گئی تھی اور واپس آ کر بار بار کہہ رہے تھی لڑکی کی عمر بہت کم ہے زینت کی عمر پندرہ برس تھی اور نعت کی طرح وہ بھی ایک غریب گھر کی لڑکی تھی کوئی دو گھنٹے بعد نعت لوگ آ گئے تھے اس کی امی کے حالت بہت خراب تھی زینت کو اس نے ہمارے گھر بھیج دیا میں نے نعت کو کچھ پیسے تھما دئیے اور ایک دوست ڈاکٹر کو کال کر کے ان کی ہلپ کا بول دیا میں نے نعت سے کہا کہ میں بھی صبح ہسپتال آ جاؤں گا میں گھر میں آیا تو زینت برقعہ اتار کر میری بیگم کے ساتھ بیٹھی تھی میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا کیونکہ اس کی شادی کے بعد زمینوں پر نہیں گیا تھا زینت کی رنگت قدرے سانولی تھی اس کا قد پانچ فٹ بوبز 32 سائز اور جسم نارمل تھا لیکن اس کی آنکھیں بہت پیاری تھی اور خالص دیہاتی لہجے میں وہ بہت پیارے لہجے میں بولتی تھی اور اس کی آواز بھی بہت پیاری تھی ہسپتال میرے گھر سے ایک کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر تھا میری بیگم نے کھانا لگایا وہ زینت کے لئے الگ سے کھانے کا ڈش تیار کر رہی تھی جسے میں نے منع کر دیا کہ وہ ہمارے ساتھ کھانا کھائے گی کسی کو کم تر نہیں سمجھنا چاہیے کھانے کی ٹیبل پر زینت کچھ گھبرائی ہوئی تھی جس پر میں نے اس سے گفتگو شروع خر دی تاکہ اسغکا احساس کمتری دور ہو جائے رات دیر تک ہم اس سے باتیں کرتے رہے اور مجھ سے کافی مانوس ہو گئی گرمیوں کے دن تھے سو میری بیگم نے دوسرے کمرے کا اے سی بھی آن کر دیا اور زینت کو وہاں سلا دیا صبح میں ناشتہ لیکر ہسپتال چلا گیا نعت کی امی آئی سی یو وارڈ میں تھی میرا دوست ڈاکٹر عابد ان کی ہلپ کر رہا تھا ناشتہ میں نے نعت کے ساتھ کر لیا اور ہسپتال سے شہر میں اپنے کاموں کے لئے نکل گیا میں دن دو بجے گھر آیا تو زینت میری بیگم کے ساتھ گھرکے کاموں میں مصروف تھی دونوں نے نعت کی امی کا پوچھا اور میرے بتانے پر میری بیگم کچھ زیادہ پریشان ہو گئی زینت کچن کی طرف گئی تو بیگم نے مجھے بولا اس مصیبت کو ٹال دو آج میں نے صبح ہر حال میں امی کے گھر جانا ہے میں نہیں رکوں گی میں بھی پریشان ہو گیا کہ اس کو کہاں بھیجوں گا یا نعت کو اس پریشانی کے وقت میں نئی ٹینشن کیوں دوں زینت کی امی کا گھر بہت دور تھا اور ان حالات میں نعت کے لئے اسے امی کے گھر پہنچانا ممکن نہیں تھا سو اس نے ہمارے گھر پر اعتماد کیا تھا میں اپنے روم میں چلا گیا اور ٹی وی آن کرکے نیوز چینل لگا دیا دوپٹہ اوڑھے کاموں میں مصروف زینت مجھے بہت سویٹ لگ رہی تھی وہ سادہ سے لباس میں تھی میری بیگم سونے چلی گئی اور زینت کو بھی اسچکے روم کا اے سی آن کر دیا کہ وہ بھی سو جائے گرمیوں کے دنوں میں میں دن کے وقت نہیں سوتا تھا میں نے ذہن میں کل کےلئے ایک ترتیب بنا لی لیکن اس پر زینت کو راضی کرنا باقی تھا میں بیڈ روم سے موبائل کا چارجر لینے گیا تو میری بیگم نیند کےآغوش میں جا چکی تھی اب اس نے شام چھ بجے اٹھنا تھا میں اپنے روم میں آ گیا زینت میرے روم سے تین روم چھوڑ کر چوتھے روم میں تھی میں نے کمپیوٹر آن کیا تھا تو مجھے اپنے روم سے باہر کسی کے چلنے کی آواز سنی باہر نکل کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا کچن میں جھانکا تو زینت فریج سے پانی کی بوتل نکال رہی تھی میں نے کہا کہ زینت مجھے بھی پانی پلا دینا وہ ایک دم پیچھے مڑی اور پھر ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ جی صاحب بول کر دوبارہ سے فریج کھولنے لگی میں اپنے روم میں چلا آیا زینت پانی کی بوتل اور گلاس لے۔کر میرے روم میں آ گئی گلاس میں پانی انڈیلا اور مجھے پیش کر دیا میں نے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا زینت بیٹھو وہ تھوڑی ہچکچائی دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے بولی صاحب ایک بات کرنی تھی وہ اس وقت قدرے گھبرائے ہوئی تھی میں نے اسے پھر صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ دروازے کی طرف دیکھتی گھبرا کر بیٹھ گئی میں نے کہا بولو زینت کوئی مسئلہ ہے بولی نعت کو بولا تھا میرا کہ لے جائے مجھے میں نے نو میں سر ہلایا اور پوچھا کیوں جہاں اچھا نہیں لگ رہا میرے گھر میں بولی نہیں صاحب مجھے تو بہت اچھا لگ رہا ہے اور میں نعت سے آپ کی تعریفیں سن کر خواہش رکھتی تھی اور نعت کو بھی کئی بار بولا کہ مجھے صاحب کے گھر لے جاؤ کبھی ۔۔۔میں نے کہا تو پھر میں کیوں بولوں گا کہ زینت کو میرے گھر سے لے جاؤ ۔۔۔۔ بولی بیگم صاحبہ نے کل میکے جانا ہے ناں ۔۔۔۔۔۔ میں بات سمجھ چکا تھا بولا اگر بیگم میکے چلی جائے تو کیا تم اس گھر میں نہیں رہ سکو گی ۔۔۔بیگم صاحبہ نے بولا شام تک چلی جاؤ میں نے صبح جلدی جانا ہے ۔۔۔۔ زینت کیا تمھیں مجھ سے ڈر لگتا میں مسکرا رہا تھا بولی نہیں صاحب آپ سے بالکل نہیں لیکن اب بیگم سے ڈر لگنے لگا وہ کچھ عجیب سی باتیں کر رہی تھی ۔۔۔میں نے زینت کی ران پر تھپکی دے کر بولا تم میرے ساتھ رہو گی نعمت کو اس حال میں کچھ نہیں کہتے ران پر مےرا ہاتھ لگتے وہ سمت کر بیٹھ گئی تھی اور سر جھکا کر عجیب کیفیت میں چلی گئی تھی میں نے کہا زینت رہو گی ناں میرے ساتھ وہ سرجھکائے خاموش بیٹھی تھی میں نے ایک بار پھر اس کی ران کو زور سے پکڑا اور اپنطرف کھینچنا چاہا وہ ساکت بیٹھی تھی میں نے اس کو کل کا پورا پلان سمجھا دیا اور جیب سے مین گیٹ کی چابی بھی دے دی شام کو میں بازار چلا گیا اور دو سوٹ لے آیا جو میں نے بیگم کو دئیے کہ یہ زینت کو دے دینا صبح نعت آ کر اسے لے جائے گا وہ پہلی بار ہمارے گھر آئی ہے تو خالی ہاتھ نہ جائے بیگم مطمئن ہو گئی اور صبح بیگم نے مجھ معمول سے بہت پہلے جگا دیا تھا اس کی تیاری مکمل ھو گئی تھی زینت نے بھی اس کے سامنے اپنے کپڑوں کا شاپر تیار کر لیا اب زینت مجھے مسکرا کے دیکھت،اور شرم سے سر جھکا لیتی جب میری بیگم پوری طرح تیار ہو گئی تو بولی۔نعت کو کال کرو میں نے نعمت کو کال کرکے اس کی امی کی خیریت پوچھ رہا تھا بیگم روم میں کچھ اٹھانے چلی گئی میں کال کاٹ کر بھی فون کان سے لگائے ہوئے تھا اور زور سے بولنے لگا کہ بس جلدی آ جاؤ ہم نکلنے لگے ہیں پھر موبائل فون کو پینٹ کی جیب میں رکھا زینت نے برقعہ پہن لیا تھا وہ سفید ٹوپی وا برقعہ پہنتی تھی میں نے گیٹ سے گاڑی باہر نکالی اور گیٹ۔کو دوبارہ بند کر دیا میں گلی سے گزرتے ایک پڑوسی سے مختصر سا حال احوال کرنے کے گیٹ کی طرف آیا میں نے گیٹ کے پاس کھڑے ہو کر زینت کو اشارہ کیا کہ نعمت آ گیا ہے وہ شاپر اٹھا کر میری بیگم سے ملی اور گیٹ سے مکل آئی گاڑی کے بیک سائیڈ والی گلی کی طرف میں نے اشارہ کر دیا جو میں اسے پہلے ہی سمجھا چکا تھا وہ اسی گلی۔میں مڑ گئی تو میں نے بیگمکو بلایا میں گیٹ کو۔لاک کرکے گاڑی میں بیٹھ گیا اور گاڑی چلا دی میری ساس کا گھر دو کلومیٹر کے فاصلے پر تھا میں نے راستے میں بیگم کو بولا کہ۔میں نے دوست کے ساتھ کام جانا آج آپ کی امی کے گھر نہیں جاؤں گا آپ کو گیٹ پر اتار دونگا کل چکر لگا لوں گا میں بیگم کو اتار کر گلی میں آگے نکل گیا میں تیز رفتاری سے گھر پہچ کر مطمئن ہو گیا گیٹ کا۔لاک کھلا ہوا تھا زینت نے ہماری گاڑی کے نکلتے ہی گیٹ کھول دیا تھا اور گھر آ گئی تھی میں نے گاڑی اندر کی اور گیٹ لاک کر دیا زینت روم سے باہر آ چکی تھی وہ گیٹ کو بار بار دیکھ رہی تھی اور گھبرائی ہوئے تھی میں نے زینت کو اپنی باہوں میں لے لیا تھا وہ کچھ زیادہ گھبرا گئی تھی میں نے اسے تسلی دی کہ اب تم ٹیشن فری ہو جہاں اور کوئی نہیں آئے گا وہ خود کو میری باہوں سے چھڑانا چاہ رہی تھی شاید پہلی بار کسی غیر مرد کی باہوں میں آئی تھی میں نے اس کی آنکھوں پر کسنگ کرکے اسے بولا کہ آؤ جوس بناتے ہیں وہ کانپ رہی تھی میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میںے لیا اور اسے کچن کی طرف لے آیا میں نے جوسر نکال کر اس کا جگ زینت کو دیا کہ اسے دھو لومیں نے جوس بنایا دوپہر کو میں نے خود اوون میں بریانی گرم کرکے اس کو اپنے ساتھ بیٹھا کر کھلایا مختلف انداز میں عام سی گفتگو کے دوران اس کی باڈی کو ٹچ کرتا رہا شام تک میرے ساتھ ٹچ ہو کے بیٹھ جانا میرا اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر باتیں کرتے رہنا اس کے لئے عام سی بات بن چکی تھی میں ان دو ان سلے سوٹ کے ساتھ ایک ریڈی میٹ سوٹ بھی لایا تھا اور 32 کی بریزر بھی شام کو میں نے زینت کو سوٹ بریزر کے بولا کہ نہا کر ان کو پہن لو باہر چلتے ہیں جب زینت وہ سوٹ پہن کر باہر نکلی تو کسی طور بھی ایک دیہاتی لڑکی نہیں لگغرہی تھی اس کے بال بھی کافی لمبے تھے ڈارک بلیو کلر کے جسم پر فٹ سوٹ میں اب وہ کالج گرل لگ رہی تھی میں نے اسے بال کھلے چھوڑنے کا کہا اب وہ میری ہر بات بلاجھجک مانتی جا رہی تھی میں نے زینت کو الماری سے ایک بڑی چادر نکال کے اسے لپیٹنے کا کہا اور گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بٹھا دیا وہ پہلے مارکیٹ سے اسے اچھے شوز لیکر پہننے کا کہا اور پھر ایک پبلک پارک کا رخ کیا زینت ہر چیز کو حیرت سے دیکھ رہی تھی اور اسے پہلی بار یہ ہلہ گلہ اور روشنیاں اچھی لگ رہی تھی وہاں سے میں اسے اچھے سے ہوٹل میں لے گیا اور کھانا کھانے کے بعد 12 بجے رات کو ہم گھر آ گئے میں اے سی کی کی کولنگ تیز کرکے اس کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گیا باتیں کرتے کرتے میں نے اسے اپنے ساتھ لٹا لیا تھا اور اب وہ اسے عجیب محسوس نہیں کر رہی تھی کولنگ زیادہ ہونے سے اسے سردی لگنے لگی تھی اور اس نے کمبل اپنے اوپر ڈال لیا تھا میں نے ایک ٹانگ زینت پر رکھ لی تھی اور اب ایک ہاتھ سے اس کے سر کو پکڑے اس کے لپسغچوس رہا تھا اور ایک ہاتھ سے اس کے بوبز پر مسل رہا تھا اسغکی سانسیں تیز ہو رہی تھی لیکن وہ منع نہیں کر رہی تھی میں نے ہاتھ اس کی قمیض کے اندر ڈال لیا اب اس نے ایک بار میرے ہاتھ کو پکڑ کر باہر نکالنا چاہا لیکن میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے نیچے دبا لیا بوبز کے نپل مسلنے سے اس کی سسکیاں نکلنے لگیں میں نے اس دوران اپنی پینٹ گھٹنوں تک اتار لی تھی اور اسے محسوس نہیں ھوا تھا پھر میں نے اس کی شلوار اتار رہا تھا تو پہلی بار بولی صاحب نہیں خرو میں نے کہا کہ کچھ نہیں ہوتا مجھے بہت پیاری لگتی ہو میں اس کی قمیض کے اوپر سے اس کے بوبز چوس رہا تھا میں نے اس کی شلوار بھی گھٹنوں تک اتار لی تھی یہ سب کمبل کے اندر ہو رہا تھا میں سائیڈ سے اٹھ خر اس کر اوپر لیٹ کر اس کے ہونٹ چوسنے لگا تھا وہ اب فل مزے میں آ چکی تھی اور آنکھیں بند کرکے تےز سانس کے ساتھ اپنی کمر کو بل دے رہی تھی میں نے اسغکی شلوار اور اپنی پینٹ ٹانگوں سے الگ کر لی تھی میں نے اب اپنی انڈویئر اتاری اور اپنے لن کو آزاد کر لیا ابھی تک نہ تو میں نے اس کو ننگا دیکھا تھا اور نہ اس نے میں نے اس کی ٹانگیں کھلی کر لی لن کی کیپ پر تھوک لگایا اور اس کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں لیکر اس کے ہونٹ چوستے ہوئے اپنے نچلےدھڑ کو اس کی ٹانگوں کے بیچ کھسکا کر لن کو اس کی ببلی کی طرف لانے لگا جب لن نے زینت کی ببلی کے ہونٹوں کو دبایا تو زینت نے آنکھیں کھولی اس اب معلوم ہو چکا تھا کہ وہ نیچے سے مکمل ننگی اور میرے لن کے ٹارگٹ میں آ چکی ہے وہ کچھ کہنا چاہا رہی تھی زینت کے ہونٹوں سے نکلنے والی کوئی بات آئی ی ی ی ی وششش وششش وشششش میں بدل گئی زینت کی ببلی کے ہونٹوں پر ٹکے میں نے اپنے لن کو زینت کی ببلی میں اتار دیا تھا لن چار انچ اندر جا چکا تھا وہ ہپس کو مڑوڑ رہی تھی میں اس کے ہونٹو کو چوستے ہوئے آرام سے لن کو ہلانے لگا تھا ببلی کی اندرونی دیوار میرے لن کو پکڑ کر کھسک رہی تھی جس کا مطلب تھا کہ وہ زیادہ استعمال شدہ نہیں تھی لن چھ انچ تک زینت نے آسانی سے قبول کر لیا تھا لیکن جب میں جھٹکے سے لن کو مذید آگے کرنے کی کوشش کرتا تو زینت مجھے سائیڈوں سے پکڑ لیتی تھی دس منٹ تک اس طرح جھٹکے مارنے کے بعد میں نے کمبل کو اپنے اوپر سے ہٹا لیا تھا زینت نے اپنی ٹانگیں میری باڈکے مطابق کھول رکھی تھی میں نے زینت کی قمیض اوپر گلے تک کر دی تھی اور بریزر کی ہک کھول کر اس کے بثبز باہر نکال لئے تھے جن کو میں منہ بھر بھر کے چوس رہا تھا میں زینت کے اوپر لیٹا اپنے جھٹکے تیز کرتا اور لن کو مذید آگے دھکیلتا جا رہا تھا بوبز چوسنے سے وہ مزے کی وادیوں میں چلی گئی تھی اور اپنی باہیں میرے گرد لپیٹ لی تھی مجھے لگ رہا تھا کہ اس طرح کا مزہ اسے پہلے نہیں ملا تھا زینت بھی میری طرح سادہ دیہاتی ماحول میں پلی تھی اب وہ اپنے نچلے دھڑ کو حرکت دے کر میرے جھٹکے کی ساتھی بن رہی تھی کچھ دیر بعد زینت نے وششششششش کی لمبی صدا کے ساتھ پانی چھوڑ دیا تھا اور تین جھٹکے ساتھ مارنے اور اے اے اے کی مدھم سی آواز کے ساتھ جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا تھا میں چند منٹ آرام سے زینت کے اوپر لیٹا رہا اور پھر آہستہ سے لن کو نکال کر اٹھ بیٹھا اس نے شاید یہ سمجھ کر کہ کام پورا ہو گیا اپنے پیروں سے کمبل کھینچنے کی کوشش کی لیکن میں نے کمبل دور پھینک دیا زینت کا کلر تھوڑا سانولا ضرور تھا لیکن اس کی جلد کشش والی تھی میں نے اس کی قمیض گلے سے نکال لی تھی اور اور بریزر کو بھی کاندھوں سے نکال لیا تھا اب میں اس کے ننگے جسٹپر ہاتھ پھیرنے کے ساتھ اس کا نظارہ کر رہا تھا زینت کی بوبز گول اور لچکدار تھے اور اس کے نپلز کا رنگ لائٹ براؤن تھا زینت بمشکل 16 سال کی لگ رہی تھی جبکہ میری عمر 33 سال تھی اس کی باڈی بھی میری باڈی کے مقابلے میں آدھی تھی میں ایک بار پھر اس کے ٹانگوں کے بیچ آ گیا تو اس نے آنکھیں کھول کر بس کرو۔۔۔ بولا لیکن میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور لن کی ٹوپی ببلی کے ہونٹوں پر برش کی طرح چلانے لگا اور پھر اندر ڈالتا گیا اس وقت اس کی ببلی اندر سے خاصی گیلی ہو چکی تھی میں آہستہ آہستہ اندر جاتے لن کو دیکھ رہا تھا لن سات انچ سے آگے جانے لگا تو اس نے وشششش کے ساتھ اپنا ہاتھ میرے پیٹ پر رکھ دیا زینت کے پاؤں میرے ہاتھوں میں تھے جس سے میں نے اس کی ٹانگیں اٹھائی ہوئی تھی اور میں آرام آرام سے اندر باہر ہوتے لن کو دیکھ رہا تھا میں جھٹکوں کی تیزی کے ساتھ زینت کے اوپر لیٹتا چلا گیا اپنے سینے کا وزن میں نے زینت پر ڈال لیا اور نچلے دھڑ کو فری کرکے جھٹکے مارتا رہا زینت کا جسم نارمل مگر ٹائٹ تھا بہت دیر بعد میں جھٹکوں میں تیزی آنے لگی اور پھر آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا چند منٹ بعد میں نے اپنی منی زینت کے پیٹ چھوڑ دی اور اسی وقت اس کا پانی بھی دوسری بار نکل گیا کچھ دیر بعد میں نے لن کو باہر نکالا نکالا اور اپنے ساتھ زینت کو چپکاتے ہوئے کمبل اوڑھ لیا گھڑی پر 3:10 بج رہے تھے صبح آنکھ کھلے تو زینت باتھ روم جا چکی تھی 9:20 بج رہے تھے اور سیلنٹ پر لگا موبائل ویبریشن کرنے لگا نعمت کی کال آ رہی تھی کچھ مذید پیسوں کی ضرورت تھی اسے میں نے کچھ دیر میں ہسپتال آنے کا کہہ کر کال کاٹ دی تھی نعمٹ کی کال کے بعد میں نے کمبل چہرے پر ڈال لیا کمبل سے وہی خاص قسم کی میٹھی خوشبو آ رہی تھی جو زینت کے جسم سے آتی تھی اور دل کرتا ہے کہ اس کے جسم سے لگ کے پڑا رہوں اور کوئی کام نہ ہو میں نے اپنے ننگے جسم پر چادر لپیٹی اور دوسرے کمرے کے واش روم چلا گیا میں واپس آ کر دیکھا تو زینت کے کپڑے ابھی تک بیڈ پر پڑے تھے اور وہ باتھ روم سے باہر نہیں آئی تھی کل شام کو زینت کے نہانے اور نیا سوٹ پہننے کے بعد گو اس کا رنگ کافی نکھر چکا تھا اور وہ دن والی سادہ کھلے کپڑوں اور پتراندے میں جکڑے بالوں والی زینت نہیں رہی تھی لیکن اب بھی کچھ دیہی رنگ اس میں جھلک رہے تھے رات کے سیکس کا مزہ میرے حواس پر چھایا ہوا تھا اور خاص کر زینت کے ڈسچارج ہونے کے وقت کے ہپس اٹھا کر خود ہی تین جھٹکے کے ساتھ اے اے اے کی۔مدھم آوازیں کے سین ذہن میں آتے ہی میرا لن سانپ کی طرح میری رانوں میں بل کھانے لگا تھا میں نے باتھ روم کے دروازے کو دیکھا تو اس سے روشنی کی ایک باریک لکیر کھنچی ہوئی تھی ۔۔۔۔ مطلب زینت نے دروازہ لاک نہیں کیا تھا میں اٹھ کر باتھ روم کی طرف چلنے لگا تو میرا لن میرے آگے جھول گیا دیہات کی سادہ لڑکی کا ٹیسٹ اسے بھا چکا تھا اور باتھ روم کے دروازے کے پاس پہنچا تو بالصفا کریم کی خوشبو نے میرا استقبال کیا ویٹ کریم کی ڈبیہ باتھ روم میں موجود ہوتی تھی اور میری بیگم گلاب کے پھول والی ویٹ ہی استعمال کرتی تھی رات کو جب میں زینت کے پاؤں پکڑ کر اس کی ٹانگیں اٹھائے اس کی ببلی میں لن کو آرام سے اندر باہر کر رہا تھا تو میں نے دیکھا زینت کی ببلی پر ہلکے ہلکے بال موجود تھے میں نے دروازہ کھول دیا زینت نے پانی کی بالٹی بھری ہوئی تھی اور مگے سے اپنے سر پر پانی ڈالنے والی تھی کہ مجھے اچانک دیکھ کر گھبرا گئی اور شرم سے اس نے اپنا سر گھٹنوں پر ٹکا کر آنکھوں کو بازو سے چھپا لیا تھا میں نے اسے اٹھا لیا اور گلے لگا کر اسغکو کسنگ کرنے لگا تھا زینت تھوڑی کھسکنے لگی تھی لیکن میں نے اسے ہپس سے پکڑ رکھا تھا اس کے ہپس میں قدرے کپکپاہٹ تھی اور اس نے سر جھکایا ہوا تھا زینت کے لمبے بال ہپس کے اوپر کے حصے تک کھلے ہوئے تھے وہ مدھم آواز میں بولی نہیں کرو صاحب ۔۔۔۔ میں نے اس کا چہرہ اوپر اٹھا لیا تھا اور اسبکی آنکھوں پر کسنگ کرتے ہوئے بولا کہ زینت مجھے صاحب نہیں بولا کرو مجھے یار بولا کرو اب آپ کی اور میری دوستی ہو گئی ہے اب وہ ہلکی سی مسکرائی تھی میں نے اس کے ہپس پر تھپکی دی اور بوبز پر جھک گیا میں ان کو دونوں ہاتھوں سے مسلتے ہوئے باری بار ان کے نپل پی رہا تھا چھپ چھپ کی آواز کے ساتھ میں منہ بھر کے بوبز پی رہا تھا اور اس نے اب میرے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی شروع کر دی تھی اور کبھی کبھی میرے چہرے پر پیار سے ہاتھ لگائی اس نے اپنا سینہ کمان کی طرح آگے کو کھینچا ہوا تھا اور سسکیوں کے ساتھ لمبے سانس لے رہی تھی میں نے زینت کو باہوں میں اٹھا لیا تھا اس نے اپنا ایک بازو میری گردن کے گرد لپیٹ لیا تھا بیڈ کی طرف آتے ہوئے اپنی ہاتھوں میں اٹھائی زینت کے ہپس کو میں نے پکڑا ہوا تھا اور مسلسل منہ بھر بھر کے بوبز چوس رہا تھا اب تک میرا لن ٹائٹ ہو کر اوپر کو اٹھ گیا تھا میں نے کمبل اور بیڈ پر پڑے زینت کے کپڑوں اور اپنی پینٹ شرٹ کو نیچے کارپٹ پر پھینک دیا تھا میں نے زینت کو بیڈ پر لٹا دیا تھا اور جیسے ہی اس کی ٹانگوں کے بیچ بیٹھا زینت نے اپنے پاؤں اٹھا کر میرے کاندھوں پر رکھنے کی کوشش کی لیکن اس کے پاؤں میرے کاندھوں سے نیچے سینے کے اوپری حصے تک پہنچے تھے میں نے زینت کی ببلی پر نگا ڈالی رات والے ہلکے بالوں پر جھاڑو پھر چکا تھا اور ببلی صاف ہو چکی تھی میں ایک بار پھر زینت کی آنکھوں سے کسنگ کرتا گالوں لپس گردن بوبز اور پیٹ سے ہوتا ہوا اس کی رانوں پر کسنگ کرتا اٹھ بیٹھا تھا میں نے لن کو پکڑ کر ڈنڈے کی طرح زینت کی ببلی پر مارا تو اس نے لمبی سی وششششششششش کر دی میں نے لن کی ٹوپی پر تھوک لگایا اور ببلی کے ہونٹوں میں برش کی طرح چلاتے اوپر کو پھسلا لیتا تھا اب زینت تڑپ رہی تھی اور کمر کو بل دے رہی تھی وہ اب آنکھیں بند کرنے کے بجائے مجھے معصومیت سے دیکھ رہی تھی میں نے چند سیکنڈ اس کی نگاہوں سے نگاہیں ملائے رکھی زینت نے مسکراتے ہوئے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ دئیے تھے میں نے ایک ہاتھ سے اس کے ہپس کو پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے بوبز کو پکڑ کر لن کو زینت کی وادی میں جھٹکے سے اتار دیا اس نے وشش کے ساتھ کمر کو تھوڑا اٹھایا اور میں نے جھٹکے مارنا شروع کر دئیے میں جھٹکے مارتا آہستہ آہستہ زینت پر لیٹتا چلا گیا زینت نے اپنی ٹانگیں سکیڑ لی تھی اب میرا ارادہ تھا کہ پورے لن کو اس سادہ اور میٹھی وادی کی سیر کراؤں گا رات کو زینت سات انچ تک اندر لے چکی تھی اب صرف تقریباً اڑھائی انچ کی مشکل باقی تھی میں نے جھٹکے روک کر زینت کے ہونٹوں کو چوسنے لگا اور لن پر دباؤ بڑھا دیا لن اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا اور زینت کا چہرہ درد کی شدت سے سرخ ہو چکا تھا اور اس نے مجھے سائیڈوں سے پکڑ کر پیچھے دھکیلنے کی ناکام کوشش جاری رکھی لیکن میرا جسم زینت کی باڈی سے فٹ ہو چکا تھا مطلب لن نے اپنی منزل پا لی تھی زینت تڑپ رہی تھی اور اب میرے نیچے سے نکلنے کی ناکام کوشش شروع کر دی وہ آنکھیں بند کئے ہونٹ پیچ رہی تھی اس کے چہرے پر کئی رنگ تبدیل ہو رہی تھی میں زینت کو بازوں کے نیچے سے اس کے کندھوں کو پکڑے زینت کی اس کوشش کو اور چہرے کے بدلتے رنگوں کو مسکرا کر انجوائے کر رہا تھا میں نے لن کے نشانے کو خطا نہیں ہونے دیا کچھ دیر بعد زینت ہار چکی تھی اور سوائے تیز سانس لینے کے کچھ نہیں کر رہی تھی میں نے بوبز چوسنے کے ساتھ اپنے ہپس کو آہستہ آہستہ بل دینے شروع کر دئیے زینت کے دھڑکنیں بھی تیز ہو گئی اور اس نے مجھے ہپس سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا اور پھر درمیان سے کمر کر اٹھا ہپس کو بل دے کر اےےے اےےے اےےے کی ہلکی آواز کے ساتھ ببلی کو پانی سے بھر دیا اس نے بےاختیار میرے سر کو پکڑ کر مجھے ماتھے پر کسنگ شروع کر دی بولی صاحب ب ب ب میں نے اس کا چہرہ پکڑا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا صاحب نہیں یارررررر اب وہ پہلی بار آواز سے ہنس پڑی تھی میں نے اب جھٹکے شروع کر کے ان میں تیزی لانے لگا میں لن کو صرف دو انچ باہر نکال کے جھٹکا دے رہا تھا بہت دیر بعد میں نے اٹھ کر لن کو نکالا اور اس کی ٹانگوں کو پکڑ کر اوپر اٹھا لیا تھا کہ اس کے ہپس بھی گڈے سے اوپر اٹھے ہوئے تھے اور ببلی کا منہ قدرے کھلا ہوا تھا میں نے اسی سٹائل میں لن کو آخر کنارے تک ڈال دیا پھر نکالا پھر ڈالا اب زینت مجھے حیرت سے دیکھ رہی تھی شاید سٹائلش انداز میں اسے چدائی نہیں مل تھی میں جب پورا ڈال کے باہر نکالتا تو ہلکی سے پچ کی آواز ہو،اور اس کے بعد زینت کی وشششش نکلتی میں نےاس موم کی گڑیا کے گھٹنے اس کے کندھوں سے ملا دئیے اوپر کو منہ کھولے زینت کی ببلی کو میں نے لن سے لبا لب بھر دیا تھا اور جھٹکے تےز کر دئیے اب میرے اور زینت کے جسم ٹکرانے سے تالی بجنے لگی اور میرا مزہ بڑھنے لگا مجھے حیرت سے تکتا زینت کا معصوم چہرہ مجھے بہت بھلا لگ رہا تھا تھا اس وقت میرے دل میں زینت کا پیار بڑھ گیا تھا اور میں نے دل سے عہد کیا کہ زینت کی زندگی کی محرومیوں کو مٹانے کی کوشش کرونگا میں سوچ رہا تھا کہ اگر یہ کسی امیر کے گھر پیدا ہوئی ہوتی تو اب تک لیپ ٹاپ پر گیمز کھیل رہی ہوتی لیکن زینت زمینوں کے بیچ سب سے الگ بنے ایک غریب کے گھر سارا دن کام کرتی رہتی تھی میرے جھٹکے تیز ہوتے جا رہے تھے زینت کی سانسیں بھی تیز ہو رہیں تھیں میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا میں نے لن کو جڑ تک زینت کے وادی میں ڈال کر روک دیا اور گٹھڑی بنی زینت کی ٹانگیں چھوڑ دیں میں آہستہ سے زینت پر سونے لگا تھا اس نے اپنے ہپس اٹھا کر لن اور آگے تک لینے کی کوشش کی اور اےے اےےےے اےےےے کی مدھم سے آواز کے ساتھ جسم کو اکڑا لیا وہ پانی چھوڑ رہی تھی اور میں اپنے بازو اس کے نیچے لے جا کر اسے اپنے سینے کے اندر لے جائے کی کوشش کو رہا تھا اس نے جسم ڈھیلا چھوڑ دیا اور میرے لن نے پچکاری مارنی شروع کر دی وہ مجھے کسی کانچ کے نازک ڈیکوریشن پیس کی طرح آرام سے میرے جسم پر ہاتھ لگا کر میر سینہ چوم رہی تھی کافی دیر بعد میں نے اٹھنے کی کوشش کی تو اس نے مجھے پکڑ لیا شاید اس کو ابھی تک سکون مل رہا تھا میں بھی اس پر دوبارہ سو گیا ۔۔۔۔ بولی صاحب آج ادھر ہی سوئے رہو میں نے اٹھتے ہوئے بولا کہ اگر یار کہتی تو سویا رہتےاس نے ہنستے ہوئے یاررررر کہہ دیا تو میں اس کے گال چومنے لگا وہ بدل رہی تھی میں اسے ایک ماڈرن گرل بنا رہا تھا میں نے لن باہر نکال لیا اور ساتھ سو گیا وہ اٹھ بیٹھی اور میری ٹانگیں دبانے لگی موبائل فون نے ویبریشن کے ساتھ سکرین روشن کر دی نعت کی کال تھی میں نے زینت کو خاموش رہنے کا کہہ کو نعمت کی کال اٹینڈ کر لی بولا صاحب آپ کے گیٹ پر کھڑا ہوں میں نے نعمت سے کہا کہ میں آ رہا ساتھ بیٹھی زینت نے نعمت کی بات سن لی تھی اور ایک دم سے پریشان ہو کر کارپٹ پر پڑے کپڑوں کی جانب بھاگی میں نے زینت کو باہو میں لیتے ہوئے زور سے دبوچا اور کہا کہ پریشان نہ ہو نعمت پیسے لینے آیا ہے اس نے پہلے کال کی تھی میں اس کہ ہاتھ سے کپڑے لیکر اسے بیڈغپر بیٹھا دیا میں نے الماری سے شلوار قمیض نکال کر پہن لی اور الماری کے اندر والی دراز سے پانچ سو کے نوٹوں کاپی نکالی اور اس کا پن الگ کر کے دس ہزار نکال لئے اور باقی نوٹوں کو جان بوجھ کر بیڈ پر گرا دیا اور پھر ہاتھ سے سارے نوٹ زینت کے طرف کرتے ہوئے اسے بولا کے ان کو اکٹھا کر لو میں روم کا دروازہ بند کرتے گیٹ پر چلا گیا نعمت سے معذرت کرتے ہوئے بولا کہ میری بیگم آپ کی بیوی کے ساتھ آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس گئی ہے اور میں ان کے انتظار میں آپ کی طرف آنے سے تاخیر کا شکار ہو گیا اس نے کہا کہ امی کی طبیعت صحیح نہیں اور ڈاکٹر اسے نشتر ہسپتال لے جانے کا کہہ رہے ہیں میں نے نعمت کو کہا کہ جیسے آپ بہتر سمجھیں اس نے بتایا کہ وہ صرف پیسوں کی وجہ سے نہیں جا رہا میں نے اسے بولا کہ آپ یہ پیسے لے جائیں اور تیاری کریں یہ لوگ ڈاکٹر کے پاس سے جیسے واپس آتے میں بینک سے ہو کر آپ کو پیسے دینے ہسپتال آ جاتا بولا صاحب زینت کی وجہ سے آپ کو کوئی پریشانی تو نہیں میں نے اسے کہا کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں وہ ہمارے گھر میں خوش ہے اور میری بیگم بھی اس کی دوست بن چکی وہ مل کر کام کر لیتی اور اس کے جہاں رہنے سے ہمیں کافی سہولت دستیاب ہو رہی ہے پھر بھی اگر آپ اسے ساتھ ملتان لے کر جاتے ہیں تو اماں کی خدمت کر لے گی بولا نہیں صاحب میں اسے جہاں کی ہسپتال میں نہیں لے گیا تو ملتان کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہسپتال میں ماحول صحیح نہیں ہوتا اور یہ بہت سادہ سی لڑکی ہے میں نے اوکے کہہ دیا اور نعمت چلا گیا میں گیٹ بند کرکے زینت کے پاس آ کر اسے بتایا کہ وہ ملتان جا رہے اور آپ میرے ساتھ رہو گی زینت مسکرا کر سر جھکا چکی تھی میں نے اسے اٹھا لیا اور باتھ روم چلا گیا میں اسے شاور کے نیچے لگلے لگا کر کھڑا تھا اور اوپر سے ہلکا ہلکا پانی گرنےگا میں زینت خو کسنگ کرتا اس کی باڈی پر ہات پھیر رہا تھا اب وہ بھی میرے سینے پر کسنگ کر رہی تھی کافی دیر اس طرح انجوائے کرنے کے بعد میں نے شیمپو کی بوتل اٹھائی اور بہت سا شیمپو زینت کے بالوں پر گرا دیا اور بولا بالوں کو سلکی بنا لو وہ بال دھونے لگی میں نے اسے dove soap نکال دیا اور بولا کہ یہ ٹکی ساری ختم کر دو وہ مسکرا رہی تھی میں نے ایک بار پھر بہت سا شیمپو اس کے بالوں پر ڈال کر خود اس کے بالوں کو جڑوں تک دھو کر اسے بتایا کہ ایسے دھویا کرو وہ مسکرا رہی تھی بہت دیر بعد ہم باہر آ گئے میں نے پینٹ شرٹ پہن لی تھی اور زینت نے کل شام والا سوٹ پہن لیا اب اس کا رنگ کافی نکھر چکا تھا میں نے اسے میک اپ کٹ نکال دی لیکن اس نے نارمل سا میک اپ کیا ہم نے ناشتہ نہیں کیا تھا اور 12:30 بج چکے تھے میں نے فریج سے چکن نکالی اور کڑاہی گوشت مصالحے کے ڈبے پر درج ترکیب کے مطابق بنانے لگا زینت نے روٹیاں بنائی تھی وہ بہت اچھی روٹیاں پکا لیتی تھی ہم نے کھانا کھایا زینت کو میں نے ساری فائلز کو سلیکٹ کر کے کمپیوٹر پر گانے پلے کر دئیے اور ان میں چھ گانوں کے بعد باقی سب پورن نوویز تھی میں نے زینت سے دو گھنٹے کا وقت لیا اور بائیک اٹھا کر نکل گیا اپنی ساس کے گھر آدھا گھنٹہ لگانے کے بعد میں بنک سے ہوا ہوا ہسپتال میں نعمت کے پاس پہچ گیا تھا میں نے اسے مذید 60000 ہزار روپے دینے کے ساتھ ایک فلاحی تنظیم کے ایمبولینس بھی کر دی کچھ دیر بعد وہ ملتان کو نکل گئے اور میں نے بازار کا رخ کر لیا نعمت میری اراضی کے کچھ حصے پر فصلیں کاشت کرتا تھا اور فصل میں ہونے والا پرافٹ ہمارا 50/50 ہوتا تھا میں نے آج تک نعمت کو دئیے ضرورت کے وقت پانچ ہزار روپے کو کبھی حساب میں شامل نہیں کیا تھا جبکہ اس سے زیادہ پیسوں کو بھی کبھی کبھی ہاف کرکے حساب میں شامل کرتا تھا اور وہ مجھ سے بہت خوش تھا میں نے مارکیٹ سے ایک لیڈیز جینز چار شرٹ اور دو مذید اچھے سوٹ لے لئے تھے گھر کو واپس آتے ہوئے بیکری سے میں نے فروٹ کیک جوس اور کچھ چپس کے پیکٹ لے لئے میں چار بجے گھر پہنچا تھا اور بازار کرش اور گرمی سے میرا برا حال ہو چکا تھا زینت صوفے پر الٹا لیتی بگ بلیک مین فک اے سمال سکول گرل دیکھ کر بہت ہاٹ ہو چکی تھی میں اس کے ہپس پر بیٹھ گیا اس نے کہا کہ پلیز کمپیوٹر کو آف کر دیں میں نے کمپیوٹر آف کر دیا میں نے اس کو سیدھا لٹا دیا اور اوپر لےٹ کر کسنگ کرنے لگا اب پہلی بار اس نے پینٹ کے اوپر سے میرے لن کو زور سے پکڑ لیا وہ بھی اب مجھے کسنگ کر رہی تھی کافی دیر بعد میں کھڑا ہو گیا اور اپنی شرٹ بنیان اتار دی زینت صوفے پر میرے سامنے بیٹھی تھی میں نے اسے اپنی پینٹ اتارنے کو کہا وہ ٹرائی کر رہی تھی لیکن اس سے بیلٹ نہیں کھل رہا تھا میں نے اس کی ہلپ کی اس نے میری انڈرویئر اتاری تو لن اس کے چہرے پر جھول گیا وہ مسکرائی اور لن کو ہات میں لیکر اسے دیکھنے لگی اور میری طرف دیکھ کر مسکراتی جا رہی تھی میں نے اپنا لن اس کے ہونٹوں کے پاس کر دیا مجھے پتا تھا کہ وہ کم سے کم 30 ہارڈ موویز دیکھ کر بہت کچھ سیکھ چکی ہے اس نے منہ دوسری طرف پھیر دیا اور لن کو ہاتھ میں پکڑ کر بہت پیار سے سہلا رہی تھی میں نے ایک بار پھر اس کا چہرہ پکڑ کر اسے لن چوسنے کا کہا وہ مسکراتی ہوئی انکار کرنے لگی میں نے لن کی ٹوپی پکڑ کر کہا کہ پلیز اتنا سا بس بہت اسرار کے بعد لن کی ٹوپی سے اپنا منہ بھر لیا لیکن بھر ایک دم اس کا منہ کھلا اسکو کھانسی سی آنے لگی اور پھر منع کرنے لگی میں نے دو بار پھر بھی زبردستی لن کو اس کے منہ میں ڈال کر اس کی زبان کو اس کے ٹیسٹ کا عادی کرنے کی کوشش کی اس کے نازک ہاتھوں کے لمس سے میرا لن بہت سخت ہو چکا تھا میں نے اس کے کپڑے اتار دئیے اور اسے کمپیوٹر ٹیبل کے ساتھ جھکا لیا میں نے اس کی بیٹھ پر تھوڑی دیر کسنگ کی پھر پونی میں جڑے بالوں کو کھول کر اس کی پیٹھ پر پھیلا دیا میں نے اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر کمر کو مذید جھکا دیا اور ہپس پر تھپکی دے کر لن کو اس کے ہپس کی سیر کراتے ہوئے لکیر کے راستے مقامِ چدائی پر لے آیا اور ادھر لن کی ٹوپی کو تھوک سے چکنا کیا اور ببلی میں اتارتا چلا گیا زینت نے اپنی ٹانگیں ٹیڑھی کر کے کمر اوپر اٹھانے کے ساتھ وششش وشششش کی صدائیں لگانی شروع کر دیں میں رک گیا اس کے بوبز اور جسم پر ہاتھ پھیرتا اسے ایک بار پھر صحیح پوزیشن میں کھڑا کر کے لن کو آگے بڑھا دیا کچھ دیر آہستہ آہستہ ہلانے کے بعد جب زینت نارمل ہو گئی تو میں نے اپنے جھٹکے تیز کر دئیے اب میں ہپس سے ٹکراتا تو بہت مزے کی تالی بجتی تھی اس اس میں مزہ آ رہا تھا اور وہ میرے جھٹکے کے ساتھ پیچھے کو جھٹکا لیتی اب مجھے اندازہ ہو گیا کہ موویز دیکھنے کے اثرات زینت پر چھا گئے تھے وہ خود جھٹکے دیتی کبھی کبھی یس یس یس کہہ رہی تھی کچھ دیر بعد میں نے لن کو باہر نکال لیا تھا اور زینت کر کسنگ کرتا سیدھا کر کے اپنی باہوں میں لے چکا تھا منہ بھر بھر کے بوبز چوسنے سے میں نے زینت کو اتنا ہاٹ کر دیا تھا کہ وہ لن کو پکڑ کر اس پر اپنی ببلی کے ہونٹ رگڑ رہی تھی جوش میں وہ اپنی ایڑیاں اٹھا چکی تھی اور اپنی ببلی کو لن کے برابر لانے کی کوشش کر رہی تھی میں کارپٹ پر سو گیا اور زینت کو اوپر آنے کا کہا میں اس کی ٹانگوں کو پکڑ کر صحیح پوزیشن پر سیٹ کیا زینت یہ پوزیشن موویز میں دیکھ چکی تھی لیکن پریکٹیکل پہلی بار اس کو سیٹ کرنا لازمی تھا وہ وششش وششش کے ساتھ لن پر بیٹھتچلی گئی سات انچ تک اندر لینے کے بعد زینت نے آنکھیں بند کر لی تھی اور وہیں رک گئی تھی میں نے اس کے ہپس کو نیچے سے پکڑ کر آہستہ آہستہ ہلانے کی کوشش کی وہ آہستہ آہستہ ہلنے لگی تھی اب اس مزے میں اس کی پوزیشن خودبخود سیٹ ہوتی چلی گئی اور اب وہ میرے سینے پر اپنے ہاتھ ٹکا کے زور کے جھٹکے دینے لگی تھی وہ تیز سانسوں کے ساتھ جھٹکے لیتی لن کو اندر بار دیکھ کر انجوائے کر رہی تھی وہ تےز ہونے کے ساتھ اب وششش وششش کرنے کے بجائے یس یس کرنا شروع کر دیا تھا میں نے اس کے نپلز کو انگلیوں سے مسلنے شروع کیا تو وہ سسکیوں کے ساتھ اپنے سینے کو میری طرف لانے لگی اس کے بوبز تن چکے تھے اس کی آنکھیں بند ہونے کے ساتھ جھٹکے زوردار ہو گئے تھے پھر اےےےےےےےےےے کی لمبی اور مدھم آواز کے ساتھ اس نے جھٹکے روک دئیے اور درد زدہ آواز اور چہرے کے بدلتے لن سے جھٹکا دے کر پورا لن لے لیا اور کڑاہتی ہوئی میری سینے پر لیٹ گئی میں نے اس کی ہپس سہلانا شروع کر دئیے وہ ڈسچارج ہو کر کافی دیر ایسے پڑی رہی اور پھر میرے سینے پر کسنگ کرنے لگی میں نے اس ہپس پکڑ کر اوپر اٹھائے لن پچ کی ہلکی آواز کے ساتھ کھلی فضاء میں جھول گیا میں نے اسے باہوں میں اٹھا لیا اور کسنگ کرتا اسے ٹیبل پر لٹا دیا اس کے ہپس ٹیبل کے کنارے پر تھے میں نے اس کی ٹانگوں کو اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا اور لن کو اندر ڈال دیا ببلی اندر سے گیلی ہو چکی تھی اور میں نے بغیر رکے پورا لن اندر ڈال کر جھٹکے مارنا شروع کر دئیے زینت کے بوںز جھٹکے لگنے سے مچل رہے تھے میں نے زینت کے دونوں پاؤں کو ایک ہاتھ سے پکڑ کر اوپر اٹھا لئے تھے اور ایک ہاتھ سے اس کے ہپس پر تھپڑ مارنے شروع کر دئیے زینت ایک بار پھر مزے میں آ چکی تھی میں نے اسے پورا لن ڈال کر خود کو روک دیا تھا زینت کے بازوں کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر اٹھا لیا زینت نے اپنی ٹانگیں میرے گرد لپیٹ لیں تھی میں اس کے بوبز چوستے صوفے پر بیٹھ گیاپورا لن زینت کے اندر تھا اس نے صوفے پر اپنے پاؤں ٹکا دئیے اور میرے کاندھوں کو پکڑ کر آہستہ آہستہ اٹھنے بیٹھنے لگی جھٹکے تیز کرتے ہوئے زینت نے میرے ہونٹ چوسنا شروع کر دئیے اس نے پورا لن آہستہ آہستہ اندر باہر کرتے ہوئے اس کا کچھ دیر تک نظارہ کیا اور پھر جھٹکے تیز کر دئیے چھھپپپپ چھھپپپپ کی آواز میں ہپس کو تیزی سے حرکت دیتی میرے سے نگاہیں ملائے۔مسکرئے جا رہی تھی اور کبھی کبھی یسسسس یسسسس کہ رہی تھی زینت بہت جوش میں آ چکی تھی اس کی سانسیں تےز ہو رہی تھی اور آنکھیں بند کرنے لگی تھی میرے ڈسچارج ہونے ہونے کے اشارے آنے لگے میں نے زینت کو پکڑ کر اٹھا لیا لن اندر تھے اور وہ آنکھیں بند کئے اپنے ہپس کو ایسے مڑوڑ رہی تھی کہ اس کے ہپس میرے ہاتھوں سے پھسلنے لگے تھے میں نے اسے کارپٹ پر گٹھڑی بنا کر زور زور کے چار جھٹکے دئیے آئی آئی آئی کی بلند آواز کے ساتھ زینت میرے ہپس کو پکڑ کر اپنی طرف کھنچ رہی تھی اور پچکاری چھوڑتے لن کی انگڑائی کے ساتھ میری بھی آوازیں نکل گئی بہت دیر بعد زینت نے اپنے اپنی کمر کو بل دے کر مجھے اپنے نیچے ہونے احساس دیا میں اٹھ گیا تھا میں زینت کو لیکر بیڈ روم میں آگیا اور ہم گلے لگ کر باتیں کرنے لگے زینت بتا رہی تھی کہ کل سے میں جو دیکھ رہی ہوں کہ میں نے خوابوں میں بھی نہیں دیکھا تھا وہ میری تعریفوں کے ساتھ یہ بھی بتا رہی تھی کہ نعمت آپ کی بہت تعریفیں کرتا تھا لیکن میں نے اس کی باتوں پر کبھی اتنا غور نہیں کیا تھ بازار سے لائے گئے اس کے لئے دو نئے سوٹ اور پینٹ شرٹ دیکھائی اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے میرے ہاتھ چومے اور پینٹ شرٹ دیکھ کر شرمانے لگی ۔۔۔۔۔ شام کے بعد میں نہا کر تیار ہو گیا تھا اور زینت ابھی تک نہیں آئی تھی جب پانی گرنے کی آواز بند ہو گئی تو میں باتھ روم چلا گیا زینت نے اپنے جسم کو بڑے تولیے میں پلیٹ رہی تھی آج اس کا سانولا رنگ نظر نہیں آ رہا تھا میں نے اس کے ہاتھ سے پکڑا اور بیڈ پر لے آیا میں نے اسے انڈروئیر اور بریزر پہنایا بلک سیٹ میں اب وہ کافی گوری لگ رہی تھی میں نے اسے پینٹ شرٹ پہنائی اور اس کی باہوں کی وہ سادہ چوڑیاں اتار دی جو وہ گڑ سے پہن کے آئی تھی بالوں میں سادہ پونی لگا دی نئے شوز دئیے اور اسے چلنے کا بولا وہ شرما رہی تھی لیکن بلیو جینز اور ڈیزائن دار پنک شرٹ میں کون سی ماڈل لگ رہی تھی میرے ذہن میں نہیں آ رہا تھا پینٹ بہت فٹ آئی تھی اور اس سے اس کے ہپس بھی سیکسی لگ رہے تھے (جاری ہے )

  • #2
    Super very nice

    Comment


    • #3
      زینت چلتے ہوئے اپنے قدم ایک لائن میں رکھتی تھی اس لئے پینٹ میں چلتے ہوئے بہت سکسی لگ رہی تھی میں نے پرفیوم لگا کر زینت کی طرف بڑھا دیا اور خود الماری کی طرف بڑھ گیا زینت کی آئی ی ی ی ی کی آواز پر میں نے مڑ کر دیکھا تو اس نے زینت نے اپنا بازو آنکھوں پر رکھا تھا اور وائی وائی کر رہی تھی میں زینت کے پاس آیا اور اس کا بازو ہٹا کر پوچھا کہ کیا ہوا اس کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا اس نے پرفیوم میری طرف بڑھایا میں سمجھ گیا تھا کہ زینت کی آنکھوں میں پرفیوم چلا گے ہے میں زینت کو باتھ روم لیکر گیا اور بیس پر اس کا سر جگا کر ٹھنڈے پانی سے دھونے لگا بہت دیر بعد بھی اس کی آنکھوں کی جلن کم نہیں ہوئی وہ آنکھیں بند کئے ہوئے تھی اور اور میں ٹشو سے اس کا پانی صاف کر رہا تھا میں نے زینت کو ایک بڑی چادر میں لپیٹا اور گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا دیا میں اسے لیکر آئی سپیشلسٹ کے پاس پہنچا ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد اس کی آنکھوں میں ڈراپس ڈال دئیے اور کچھ دیر آنکھیں بند کرنے کو کہا ڈاکٹر اس کے جسم کو گھورے جا رہا تھا اور کبھی کبھی مجھے دیکھتا زینت ایک ماڈل بن چکی تھی اور دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی ڈاکٹر نے کچھ دیر بعد ایک بار پھر چیک اپ کیا اب زینت آنکھیں کھول رہی تھی لیکن تیز روشنی سے اسے چبھن محسوس ہو رہی تھی ڈاکٹر نے اطمنان کا اظہار کیا میں نے نظر چیک کرنے کو کہا ڈاکٹر نے نظر چیک کرنے کے بعد بولا کہ کوئی خاص مسئلہ نہیں معمولی نظر پہلے سے کم لگتی میں نے گلاسز کا بولا تو اس نے گلاسز کا نمبر لکھتے ہوئے بولا کہ اگر نہ بھی لگائے تو کوئی مسئلہ نہیں میں نے کلینک سے نکلتے ہوئے سامنے عینک محل کا بورڈ دیکھا مجھے گلاسز گرلز بہت اچھی لگتیں ہیں اور میں نے چاہا کہ زینت کو حلاسز گرل بنا دون میں نے ایک موٹے بلیک فریم پسند کیا جو زینت کے چہرے پر فٹ آیا اور کچھ دیر پہلے گھر میں زینت کو پینٹ میں دیکھنے کے بعد جس ماڈل کا خیال ذہن میں اٹک گیا تھا وہ پورا پورا ہو چکا تھا ۔۔۔۔ زینت ایک دم میاں خلیفہ لگ رہی تھی عینک محل کے سارے لڑکے زینت کو پیاسی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے وہ باقی گاہکوں کو چھوڑ کر ہمارے پاس کتوں کی طرح ہونٹوں پر زبانیں پھر کر زینت کو سر سے پاؤں تک دیکھ رہے تھے جیسے وہ صدیوں سے بھوکے ہوں اور تازہ گوشت ان کے سامنے آ گیا ہو میں نے ان سے جلدی گلاسز تیار کرنے کا کہا اور پے منٹ دیکر زینت کے ساتھ گاڑی میں آ گیا میں گاڑی میں بیٹھ کر عینک محل کا دیا گیا ایک گھنٹے کا وقت گزارنا چاہتا تھا زینت کی آنکھیں اب بہتر تھی میں نے زینت کو پچسیٹ پر لٹا دیا اور اس کی آنکھوں میں ڈاکٹر کا دیا ڈراپس ڈال دیا میں زینت سے باتیں کرنے لگا تھا اور بار بار موبائل پر ٹائم دیکھ رہا تھا مجھے یہ جلدی تھی کہ میں گلاسز لگا کر زینت کو میاں خلیفہ بنانا چاہتا تھا زینت کی کلائیاں دیکھ کر گاڑی سے باہر جاتے ہوئے زینت کو جلدی واپس آنے کا بولا میں نے شام کو زینت کی چوڑیاں اتار دی تھی عینک محل کی بیک سائیڈبپر شاپنگ پلازہ تھا میں نے وہاں سے ایک گھڑی اور چار گولڈن چوریوں کا سیٹ اور ایک سٹائلش پرس لیا واپس آ کر میں نے اسغکی دونوں کلائیوں میں گھڑی اور چوڑیاں پہنا دی اور پرس میں کچھ پیسے ڈال کر کاغکے کندھے پر لٹکا دیا ایک گھنٹے کا وقت پورا ہو چکا تھا میں سامنے عینک محل سے جا کر گلاسز اٹھا سکتا تھا لیکن میں میں زینت کی نمائش کرنا چاہتا تھا خاص کر عینک محل کے ان لڑکوں کی بھوکی نظریں مجھے زینت کے جسم کے گرد گھومتی اچھی لگتی تھی کچھ دن قبل اگر سفید ٹوپی والے برقعہ میں لپٹی عینک محل میں آنا چاہتی تو یہ لوگ شاید زینت کو دکان میں بھی نہیں آنے دیتے ساتھ چلتی زینت کے کندھے پر لٹکا بڑا پرس اس کی پینٹ پر اس کے ہپس پر تھپکی دے رہا تھا ہم عینک محل میں داخل ہوئے تو کام کرنے والے سارے لڑکے ہماری طرف آ گئے ہمارا کام کرنا وہ سعادت سمجھ رہے تھے میں نے گلاسز اپنے ہاتھوں سے زینت کو پہنا لئے اب زینت مکمل طور پر میا خلیفہ بن گئی تھی اور میرا لن ایک بار پھر انگڑائیاں لینے لگا میں زینت کا ہاتھ پکڑ کر گاڑی کی طرف چل پڑا راہگیر رک کر ہمیں دیکھ رہے تھے خصوصاً سب کی نظر زینت کی پینٹ میں جکڑے ہپس پر تھی زینت کی آنکھیں اب ٹھیک ہو چکی تھی لیکن وہ بار بار گلاسز پر ہاتھ لگا رہی تھی میں نے اسے بولا کہ یہ آپ نے اب ہروقت پہنے رکھنے ہیں ہم پیزا شاپ چلے گئے اور وہاں کا عملہ بھی ہمیں عینک محل والے عملے جیسا رسپانس دے رہے تھے میں نے پیزے کا آرڈر دیا کیبن میں پیزا شاپ کے کیبن میں اپنے ساتھ بیٹھی زینت کے گرد میں نے بازو لپیٹ کر پہلی بار کچھ سلفیاں لے لیں اس وقت اگر نعمت بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر پیزا کھاتا اور زینت نہ بولتی تو وہ اس کو کسی طور پہچان نہیں سکتا تھا 11:00 بج چکے تھے شام کے وقت تیاری کے وقت میرا ارادہ دوسرے شہر کے ایک بڑے پبلک پارک میں جانے کا ارادہ تھا لیکن زینت کی آنکھ میں پرفیوم جانے کے بعد سارا پروگرام درھم برہم ہوگیا تھا پیزا شاپ سے نکلنے کے بعد میں نے ایک پارک کا رخ کر لیا پارک میں وقت لوگوں کی تعداد کم ہو رہی تھی میں نے پارک کے ایک اندھیرے کونے کا رخ کیا اور کولڈرنکس منگوا لی پینٹ شرٹ میں جکڑی زینت کولڈرنک پینے کے بعد میری گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی خالی بوتلیں اور پےمنٹ لینے آنے والے لڑکا مجھے گلاسز گرل زینت کے گالوں سے کھیلتا دیکھ کر بہت حیران ہو رہا تھا اور پیسے لیتے وقت اس کے ہاتھ سے دوبار بوتل گر گئی میں نے اسے آئسکریم کا آرڈر بھی دے دیا وہ آئسکریم لے کر آیا تو میں زینت کو بچوں کی طرح گود میں لیکر کسنگ کر رہا تھا ہم جس جگہ بیٹھے تھے وہاں اوپر کوئی لائٹ نہیں لگی تھی تیز روشنیوں میں بیٹھا شخص ہمیں نہیں دیکھ رہا تھا لیکن قریب آنے والا شخص ہمیں بخوبی دیکھ سکتا تھا آئسکریم لانے والا لڑکا جب قریب آنے لگا تو زینت اٹھنے لگی لیکن میں نے اسے ادھر ہی پکڑے رکھا اور کسنگ کرتے ہوئے اس بولا کہ رکھ دو مجھے لگا کے آنے والے لڑکے کی قمیض آگے سے تھوڑی اوپر اٹھ گئی تھی آئسکریم کھانے کے ساتھ میں زینت کے گال بھی جوس لیتا تھا اب پارک میں لوگوں کی تعداد بہت کم ہو گئی تھی میں نے موبائل پر ٹائم دیکھا 12:45 بج چکے تھے پےمنٹ کے لئے آنے والے لڑکے کو میں نے دو چوکبار لانے کا بولا تو زینت نے مذید کچھ کھانے سے انکار کر دیا میں نے اسے ایک چوکبار لانے کا بول دیا زینت خو نئے شور تھوڑے تنگ کر رہے تھے جب لڑکا چوکبار لیکر آیا تو زینت اپنے شوز پر جھکی ہوئی تھی اور اس کی پیٹھ اس لڑکے کی طرف تھی مجھے دیتے وقت لڑکے کی نظر پینٹ میں جکڑے زینت کے ہپس پر تھی مجھے چوکبار دیتے وقت اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اگر اس نے موویز دیکھی ہوئی تھی تو یقیناً زینت اسے بھی پہلی سے آخری نظر تک میاں خلیفہ ہے لگی ہو گی میں نے لڑکے سے پےمنٹ معلوم کی اور اپنے بٹوے سے نکالنے لگا پےمنٹ دیتے وقت میں نے دیکھا کہ لڑکے کی قمیض کے آگے تمبو بنا ہوا تھا اور والے تیز تیز اوپر کو اٹھ رہا تھا لڑکا چکا گیا تو میں نے اپنی پینٹ کی زپ کھول کر لن کو باہر نکال لیا جو پوری طرح تن چکا تھا میں نے زینت کو اپنے گھٹنے پر لٹا لیا اور پھر اس کے سر کو پکڑ کر اس کے ہونٹ لن کی ٹوپی پر لے آیا زینت نے منہ ہٹا لیا اور ادھر ادھر دیکھ کر لن کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا وہ اب چمن پر الٹی لیٹی میرے لن کو پکڑ کر سہلا رہی تھی میں نے چوکبار کو اس کے ہونٹوں سے لگایا تو اس نے عام قلفی کی طرح آدھی منہ میں لیکر باہر نکال لی تو میں نے لن اس کے منہ میں ڈال لیا ٹوپی تک اندر جانے کے بعد اس نے الٹی آنے جیسا منہ بنا اور لن باہر نکال لیا میں نے جلدی سے چوکبار اس کے۔منہ میں دی اس نے ایک بار پھر چوکبار کو چوس کر باہر نکال لیا اور میں نے ٹھنڈے ہونٹوں پر اپنا گرم لن رکھ دیا تھوڑا منہ کے اندر لینے کے بعد زینت نے چوکبار کی طرح چوسنے کے بعد باہر نکالا اور میں نے پھر سے چوکبار اس کے۔منہ میں دے دی اس نے دو بار منہ کو اوپر نیچے کرکے چوکبار کو چوسا اور پھر میرے ہاتھ کو ہٹاتے ہوئے ہنسنے لگی اور منہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا میں نے اس کے ہاتھ اس کے چہرے سے ہٹائے اور لن کو اس کے لبوں کے پاس کر دیا وہ ہنستے ہوئے ایک ہاتھ میں لن کو پکڑ کر دوسرے ہاتھ کی انگلی چوکبار کی طرف کرتے ہوئے بولی دونوں کالی قلفیاں ہیں ایک میٹھی ایک نمکین میں نے اس کی پینٹ کے بیلٹ کو پکڑا اور پچھلے حصے کو اپنی طرف کھینچ لیا میں نے زینت کی پینٹ سے اسکی شرٹ نکال لی اور بہت دیر تک اس کی باڈی کو کسنگ کرتا رہا پارک میں ماسوائے عملے کے چند افراد کے اور کوئی نہیں تھا میں نے میں نے پینٹ کا بلٹ کھول کر لن کو انڈر وئیر کے نیچے قید کر لیا اور لباس درست کرکے زینت کو اپنی بازو کے حصار میں لیکر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا رات کے دوبج چکے تھے جب میں نے گاڑی مین روڈ سے اپنے گھر کی جانب موڑی تو موبائل کی سکرین ویبریشن کے ساتھ روشن ہو گئی یہ نعمت کی کال تھی میں نے کال فوراً اٹینڈ کر لی نعمت نے روہانسی آواز میں والدہ کی وفات کی اطلاع دی میں نے نعمت سے پانچ منٹ میں دوبارہ کال کرنے کا کہا اور گھر کے مین گیٹ کا لاک کھول دیا گاڑی گیراج میں کھڑی کرنے کے بعد میں روم میں آ گیا اور نعمت کو کال کر لی اور اس سے ملتان سے واپسی کا شیڈول پوچھا اسے ایمبولینس نہیں مل رہی تھی ملتان سے جہاں تک کا سفر تقریباً پانچ گھنٹے کا ہے میں نے نعمت کو تسلی دی اور اسے کہا کہ وہ سیدھا اپنے گھر کی طرف آ جائے ہم زینت کو وقت پر پہنچا دیں گے کال کے بعد میں نے زینت کو بتایا تو وہ رونے لگی تھی میں اسے بیٹھ پر لایا اور اپنے گھٹنے پر سلا کر اسے پیار اور تسلی دینے لگا آج وہ ویسے بھی بہت تھکی ہوئی تھی بہت دیر بعد زینت روتے روتے سو گئی تھی نعمت نے پانچ بجے سے کچھ دیر پہلے کال کرکے اطلاع دی کہ ایمبولینس مل گئی ہے اور وہ نکلنے لگے ہیں میں نے اسے اوکے کہہ دیا گھر کی چابی نعمت کے پاس تھی نعمت کے سسرال اور دور کے کچھ رشتے دور بھی اطلاع پاتے ہی نعمت کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے تھے زینت سو رہی تھی میں نے 7:30 منٹ پر اسے جگا دیا اور تیار ہونے کا کہہ دیا وہ گھر سے لائی اپنا ایک سوٹ لیکر باتھ روم چلی گئی اور میں بائی اٹھا کر بازار چلا گیا لاری اڈے کے پاس کچھ دکانیں کھلی ہوئی تھی میں نے وہاں سے ایک بڑا بیکگ لیا اور راستے سے ناشتہ لیکر بیس منٹ میں گھر آ گیا میں نے ایک ریڈی میٹ سوٹ جو اس نے کل پہنا تھا اس کو اور دو بغیر سلے ہوئے سوٹ جو میں نے پہلے دن زینت کو اپنی بیگم کے ہاتھوں دلوائے تھے باہر رکھ دئیے اور زینت کے باقی دو سوٹ اور دیگر سامان بیگ میں ڈال لیا رات کو نیا پرس لیکر تین ہزار روپے اس کے پرس میں ڈالے تھے میں نے اس کا پرس کھول کے دوہزار مذید ڈال دئیے اور پرس کو بھی بیگ میں رکھ دیا زینت باتھ روم سے باہر آ چکی تھی میں باتھ روم سے اس کی پینٹ شرٹ۔لایا اور اسے بیگ میں سارے سامان کی نیچے رکھ دیا اور بیگ کو چھوٹا تالا لگا کر چابی زینت کو دے دی جو بہت افسردہ سر جھکائے بیٹھی تھی زینت نے ایک نظر بیگ پر ڈالی اور چابی کو اپنے دوپٹے کے پلو سے بانڈھ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں باتھ روم چلا گیا اور دس منٹ میں شاور لیکر باےر آگیا میں نے ناشتہ کھول دیا زینت کا موڈ نہیں بن رہا تھا سو میں نے اسے اپنے ہاتھ سے کچھ ناشتہ کرایا اور چلنے کو کہہ دیا زینت پہلے دن والے چپل اور سفید ٹوپی والا برقعہ پہن کر میرے ساتھ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی وہ گھبرا رہی تھی کہ نعمت اسے میرے ساتھ دیکھ کر اچھا نہیں سمجھے گا اور اس کے لئے مسائل پیدا ہو سکتے میں نے زینت کو تسلی دی کہ کچھ نہیں ہو گا سارے راستے زینت خاموش بیٹھی رہی میں اسے تسلی دیتا رہا اور وقفے وقفے سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے چوم لیتا تھا 8:45 بجے ہم ان کے گھر پہنچ گئے رات کو آنکھوں کے چیک اپ والی پرچیاں اور ڈراپس بیگ کے جیب میں ڈال دئیے میں نے زینت کے گلاسز سے لیکر باقی تمام چیزوں کے بارے میں زینت کو سمجھا دیا تھا کہ کس طرح سب چیزوں کو بیگم صاحبہ سے منسوب کرنا ہے میں گاڑی سے اتر گیا زینت گاڑی میں بیٹھی رہی میں نے گاڑی سے ایک راڈ لیکر گھر کی دروازے اور اس کے روم کا تالا توڑ دیا جبکہ چھوٹی کوٹھی جو نعمت کی امی کا روم تھا اس کی صرف کنڈی لگی ہوئی تھی میں نے سب اوکے کر کے گاڑی کے پاس چلا گیا دور کھیتوں میں کچھ۔مزدور کام کر رہے تھے اور کچھ میری گاڑی دیکھ کر ادھر کا رخ کرنے لگے میں نے اس کا بیگ اٹھایا اور زینت کو آنے کا بولا میں نے اس کا بیگ کچی کوٹھی میں پڑی چارپائی کے نیچے رکھ کر اس پر خالی بوریا رکھ دی زینت کو میں نے زمین پر کچھ بچھانے کا بول دیا وہ سیمنٹ کے خالی بوریوں سے بنی ایک بڑی چٹائی بچھا دی زینت بچی تھی اور ایسے موقعوں کا اسے تجربہ نہیں تھا میں علاقے کے کچھ دوست زمینداروں کو پہلے ہی اطلاع دے چکا تھا کہ میرے ایک مزارع کے اس غم میں شریک ہو جائیں میں اس گھر سے باہر نکل کر درخت کے پاس کھڑا ہو گیا اتنے میں میرا ایک اور مزارع شامیانے اور دریاں لے آیا تھا اور ایک زمیندار بھی اپنی کچھ خواتین کے ساتھ آگیا چند مزدوروں نے ملکر شامیانے لگاغکر دریاں بچھا دیں اور اسبکے بعد نعمت کے سسرال والے اور دیگر لوگ بھی آ گئے یہاں سے قریبی میرے آبائی گاؤں کی کچھ خواتین اور دیگر افراد بھی آ گئے نعمت لوگوں کے آنے تک کافی لوگ جمع ہو گئے تھے میں شام کے بعد گھر لوٹ آیا تھا اور اگلے دو روز بھی نعمت کے پاس جاتا رہا اور پھر اپنے کاموں میں مصروف ہو گیااس دوران نعمت سے زمینوں کے معاملات اور دیگر معاملات پر گفتگو ہوتی تھی اور اکثر میں فون کرکے اس سے خیریت معلوم کر لیتا تھا دو ماہ بعد نعمت کی کال آئی زینت کی طبیعت کچھ خراب تھی اور وہ ڈاکٹر کے پاس آنا چاہتے تھے میں نے ایک لیڈی ڈاکٹر کا نمبر لیا اور ان کو بلا لیا ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد بتایا کہ زینت کو دو ماہ کا حمل ہے اور مشورہ دیا کہ زینت چونکہ ابھی کم عمر ہے لہذا اسے وقفہ دیا جائے میں نے بہت مشکل سے نعمت کو راضی کر لیا اور ڈاکٹر کی لکھی میڈیسن بھی خرید کے دے دی زمینوں سے چاول کی کٹائی کے بعد نعمت میرے گھر حساب کتاب کے لئے آیا میں نے اسغکی والدہ کی بیماری کے دنوں میں لیا گیا قرض معاف کر دیا وہ بہت خوش ہوا اور باتوں باتوں میں میری بیگم کی تعریف کرتے ہوئے کہنے لگا کہ بیگم صاحبہ نے میری بیگم کو بہت پیار اور اتنا سامان دیکر میرا مان بڑھا دیا اس کی باتوں سے مجھے یاد آیا کہ۔میں نے اس کے دو سوٹ بمع ناپ والے سوٹ کے سلائی کے۔لئے درزی کو دئیے تھے نعمت نے کہا کہ بیگم جو صابن اور شیمپو استعمال کرتی ہے وہ مجھے لکھ دو میں جاتے ہوئے لیتا جاؤں گا اب میری بیگم آپ کے گھر میں رہنے کے بعد کافی بدل چکی ہے اور ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ آپ لوگوں نے میری سادہ سی بیوی کو بگاڑ دیا ہے میں نے نعمت کو بتایا کہ اس کے دو سوٹ سلائی کے لئے میری بیگم نے درزی کو دئیے تھے میں وہ اور آپکو شیمپو صابن بھی لیکر دیتا ہوں پھر بولا صاحب کوئی پرانا موبائل تو آپ کے پاس ہے میں گھر رکھنا چاہتا اب زینت اکیلی ہوتی ہے اور میں چاہتا کہ وہ میرے ساتھ موبائل پر رابطے میں رہے جب میں گھر سے باہر ہوں میں مہمان خانے سے اٹھ کر گھر چلا گیا اور الماری سے ایک پرانا فون اٹھا کر اس میں ایک سم بھی ڈال دی نعمت زینت کے سلے ہوئے سوٹ اور دیگر سامان میرے سے لیکر چلا گیا تھا دو دن بعد نعمت کی کال آئی اور وہ گاؤں میں کھاد اٹھانے آیا ہوا تھا میں نے دکاندار کو بتا دیا کہ اسے کھاد کی بوریاں دے دو نعمت کی کال کو اینڈ کرکے وہ نمبر ملا لیا کال جا رہی تھی اور آخری لمحوں میں میری کال اٹینڈ ہو گی دوسری طرف سے کوئی بول نہیں رہا تھا میں نے کہا زینت میں ہوں ۔۔۔۔یاررررر ۔۔۔ زینت نے میری آواز سن کر قہقہہ لگایا اور پھر ہم بہت دیر تک باتیں کرتے رہے نعمت کو معلوم نہیں ہوا تھا کہ میں اکیلے اس کو وہاں تک لایا تھا زینت اب گھر میں بھی بہت اہتمام سے رہتی تھی اور نعمت اس کے بن سنور کر رہنے پر بہت خوش ہوتا تھا کچھ دنوں بعد زینت نے بتایا کہ میں نے امی کو آپ کے گھر کا بتایا سامان دیکھایا تو بہت خوش ہوئی اور امی نے بولا کہ اگر آپ انکے گھر آئیں تو وہ میرے بھائی کی شادی پر بلائیں گے میں نے کہا کہ میں ضرور آؤں گا اب زینت جب بھی گھر میں اکیلی ہوتی تو مس کال دیتی اور بہت دیر تک باتیں کرتی رہتی اب اسے نعمت کے ساتھ سیکس کرنے میں مزہ نہیں آتا تھا بولتی کہ نعمت سے اس کا من ادھورا رہتا ہے وہ کبھی کبھی اسرار کرتی کہ میں اس کے پاس آ جاؤں لیکن میں ایسا نہیں چاہتا تھا پھر کچھ دنوں بعد نعمت اور زینت کا بھائی میرے پاس آئے اور زینت کے بھائی کی شادی کی دعوت دی ایک ہفتے بعد میں نے نعمت کو کال کی کہ مین روڈ پر آ کر مجھے کھاد کے بل دے جائے میں نے آگے کسی شہر جانا ہے نعمت نے اوکے کہہ دیا زینت مجھے ایک روز پہلے بتا چکی تھی کہ کل نعمت اسے امی کے گھر پہنچانے جائے گا میں نے مارکیٹ سے دو اور ریڈی میٹ سوٹ خریدے اور پچھلی سیٹ پر رکھ دئیے میں اپنے گاؤں کے قریب اس کچے راستے پر رکا تو نعمت اپنی بیوی زینت کے ساتھ موجود تھا میں نے پچھلی سیٹ پر پڑا شاپر اٹھا لیا اور نعمت کے قریب آنے پر میں نے اسے شاپر تھماتے ہوئے کہا کہ یہ امانت سنبھال لو میری بیگم نے زینت کے لئے بھیجے ہیں شادی کا گفٹ اس نے مجھے بل تھماتے ھوئے بتایا کہ وہ زینت کو شادی کے سلسلے میں میکے پہنچانے جا رہا ہے میں نے اسے بتایا کہ میں آپکے سسرال کے گاؤں سے آگے شہر میں جا رہا آپ میرے ساتھ چلو وہ خوش ہو گیا اور زینت کو بلا لیا زینت آج سفید برقعے کے بجائے سیاہ چادر میں لپٹی ہوئی تھی وہ آہستہ آہستہ چلتی گاڑی کے پاس آ رہی تھی زینت کی آنکھوں میں مسکراہٹ کے ساتھ بہت سی محبت بھری ہوئی تھی وہ مجھ سے نگاہیں ملا کر چلتی آ رہی تھی میں بھی چند سیکنڈ کے لئے بھول گیا تھا نعمت ساتھ ہے پھر میں نے پیچھے مڑ کر پچ،کھڑکی کھول دی وہ بیٹھ گئی نعمت نے بیگ بھی پچھلی سیٹ پر زینت کے ساتھ رکھ کر کھڑکی بند کر دی زینت نے مجھے سلام کیا اور اس دوران نعمت میرے ساتھ فرنٹ سیٹ پر آن بیٹھا اور میرا دیا ہوا شاپر مسکراتے ہوئے میری طرف بڑھایا کہ بھابھی کو خود ہی امانت دے دو میں نے شاپر زینت کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ تمھاری باجی نے یہ امانت دی تھی اسے لے لو زینت بولنے لگی کہ بھابھی نے پہلے بھی مجھے اتنے سوٹ اتنا سامان دیا اب اس کی کیا ضرورت تھی اور ان سب سے بڑھ کر مجھے جو پیار ملا میں وہ کبھی نہیں بھول سکتی بس بھابھی سے کہنا مجھے صرف تمھارا پیار چاہیے ۔۔۔۔۔زینت کافی ہوشیار بھی ہو گئی تھی گاڑی چلتے ہی زینت نے اپنا نقاب اتار دیا تھا اس نے لپ اسٹک بھی بڑے اہتمام سے لگائی تھی وہ کھسک کر نعمت کے باکل پیچھے آن بیٹھی تھی میں نے آئینے کو اس کی طرف موڑ دیا تھا میری نظر جب بھی اس سے ملتی وہ آنکھ مارتی اور اپنے بوبز کو زور سے مسلتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگی پینٹ میں جکڑا میرا لن انگڑائیاں لینے لگا تھا وہ مجھ سے کھل کر باتیں بھی کر رہی تھی موسم خاصا سرد ہو چکا تھا اور آج زینت کو تقریباً چار ماہ بعد دیکھا تھا جہاں سے زینت کی امی کا گاؤں تقریباً اڑھائی گھنٹے کی مسافت پر تھا گزشتہ روز کال پر زینت کو کسنگ کرتے میں کہہ چکا تھا کہ تمھیں اپنی گاڑی میں میکے پہنچاؤں گا لیکن اسے یقین نہیں تھا کہ نعمت کو کیا بولو گے وہ ایسا نہیں کرے گا ایک چھوٹے شہر سے گزرتے ہوئے میں نے نعمت کو پیسے نکال کے۔بولا کہ کچھ فروٹس لے لیتے ہیں پیچھے بیٹھی زینت نے کہا کہ میں کالی قلفی کھاؤں گی نعمت نے اسے ٹوکا کہ کالی قلفی کونسی ہوتی اور اس سردی میں قلفی کھا کر تمھیں مرنا تو نہیں ہے میں نے بھی نعمت کا ساتھ دیکر اسے منع کیا تو وہ چلائی کچھ نہیں ہوتا ۔یا۔۔۔۔۔ صاحب ۔۔۔ زینت مجھے یار کہتے کہتے نعمت کا احساس پا کر چونکی اور یا کے بعد صاحب کہہ دیا نعمت ہنستے ہوئے بولا تو تو آج عربی بولنے لگی ہے یا صاحب زینت بولی میں نے بیگم صاحبہ کے ساتھ کالی قلفی کھائی تھی پارک میں اور اس دن والا مزہ آج بھی میرے منہ میں پانی بھر لاتا ہے میں نے ایک بیکری کے سامنے گاڑی روک کر نعمت کو پیسے دئیے اور کاغذ پر چوکبار لکھ کر دی ساتھ میں فروٹس لانے کا بولا میری گاڑی کے شیشے بلیک تھے سو نعمت کے کھڑکی بند کرنے کے ساتھ زینت نے کسی چڑیل کی طرح پینٹ کے اوپر سے لن پر حملہ کر دیا میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس پر کسنگ کی اس نے ایک بار پھر مجھ سے اپنا ہاتھ چڑا کر لن کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن پینٹ میں اس کا ہاتھ صرف لن کہ اوپری حصے کو دباؤ دے سکا اس نے میری شرٹ پینٹ سے نکال لی اور میری سائڈ پر کسنگ کرنے لگی پینٹ کے بلٹ سے اوپر میری سائیڈ مو زینت ایسے منہ بھر بھر کے چوس رہی تھی جیسے میں اس کے بوبز کو چوستا تھا میرا ہاتھ دوبار پینٹ کی طرف بےاختیار اٹھ گیا اور میں لن کے تنگ کرنے پر اسے اتار دیتا نعمت شاپر اٹھائے گاڑی کی طرف آ رہا تھا میں نے زینت کو سیدھا کر دیا وہ وشششش وشششش کرتی سیدھی ہو کر بیٹھ گئی نعمت گاڑی میں بیٹھا اور بڑھا دی زینت میرے سر کے اوپر لگے آئینے میں مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی نعمت نے چوکبار زینت کی طرف بڑھائی تھی لیکن زینت مسلسل مجھے دیکھے جا رہی تھی نعمت نے پیچھے مڑ کر زینت کو آواز دی تو اس نے چوکبار کا پیکٹ لے لیا نعمت نے بھلے لہجے میں کہا کہ کھاؤ اور مرو۔۔۔ زینت نے آئینے مجھے مجھے دیکھتے ہوئے کہا کہ آج دل تو چاہتا ہے کہ مر جاؤں زینت نے چوکبار اپنے ہونٹوں سے لگائی اور مجھے دیکھتے ہوئے آرام سے ہونٹوں کو بند کئے آگے بڑھانی شروع کر دی وہ چوکبار کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اپنے سر کو آگے پیچھے کر کے چوس رہی تھی اور پینٹ میں جکڑے میرے لن پر زینت کے ہونٹوں کا لمس محسوس ہو رہا تھا اس نے چار پانچ بار ایسے چوسنے کے بعد چپ کی آواز سے چوکبار کو باہر نکالا اور بائیں ہاتھ کے انگوٹھے کو اسی طرح اپنا منہ ہلا کے چوسنے لگی وہ بار بار انگوٹھے اور چوکبار کے ساتھ ایسا کر رہی تھی اس دوران چوکبار کی چاکلیٹ ٹکڑوں کی شکل میں اس کے کپڑوں پر گرنے لگی تھی وہ نعمت کے بالکل پیچھے بیٹھی تھی اور وہ اسے نہیں دیکھ پا رہا تھا کیلا کھاتے ہوئے باتیں کر رہا تھا اور میں زینت کی طرف متوجہ تھا اور نعمت کو صرف ہاں ہوں میں جواب دے رہا تھا پھر زینت نے اپنے ہاتھ اور کپڑوں پر پھیلتی چوکبار شیشے کو نیچے کر کے پھینک دی اور اپنی انگلیوں کو چوستی اور دوسرے ہاتھ سے اپنے بوبز کو مسلتی مجھے تکتی جا رہی تھی میں اس وقت گاڑی کی سپیڈ آہستہ کر چکا تھا اور زینت کو سکس کرنے والے مزے میں تھا پھر میں نے نعمت کے کسی سوال پر سر کو جھٹک کر خود ہوش میں لانے کی کوشش کی اور سر کے اوپر لگے گاڑی کے آئینے کو زینت کے چہرے سے ہٹا کر تھوڑا ترچھا کر دیا کچھ دیر بعد ہم زینت کی امی کے گاؤں میں پہنچ چکے تھے گاڑی میں نے نعمت کے بتائی ہوئی گلیوں میں گھوماتا ایک لکڑی کے بنے بڑے دروازے کے آگے روک چکا تھا نعمت چائے کا اسرار کر رہا تھا لیکن مجھ میں زینت کے سین دیکھنے کی مذید ہمت نہیں تھی زینت کے بھائی نے بھی اسرار کیا لیکن میں گاڑی سے ایسی حالت میں اتر سکتا تھا جب میری پینٹ میں واضح ابھار آ چکا تھا میں نے شادی پر آنے کا وعدہ کیا اور گاڑی موڑ لی گاؤں کی خواتین اور لڑککے ساتھ مرد بھی کالی چادر میں لپٹی زینت کو رشک سے دیکھ رہے تھے اور وہ مڑ مڑ کر مجھے دیکھتی جا رہی تھی میں نے گاڑی کو گاؤں کی اس کچی گلی میں اس سپیڈ سے نکالا کہ گرد کے بادل میں پچھلے سین غائب ہو گئے زینت کی مست اداؤں میں جو سفر میں نے تین گھنٹے میں کیا واپسی وہی سفر میں ایک گھنٹہ 35 منٹ میں کاٹ لیا تھا میں نے زینت سے کیا کل کا وعدہ پورا کر لیا تھا اور شام سے بہت پہلے گھر آ گیا تھا نعمت گھر میں رکھا ہوا زینت کا موبائل فون گھر میں ہی چھوڑ گیا تھا ایک روز بعد دن ایک بجے خب میں کسی اور اراضی پر کسی مزارع سے رجسٹر اٹھائے حساب کر رہا تھا ایک نئے نمبر سے کال آ گئی میں نے ہلو کہا تو آواز آئی یاررررر چائے پیئے بغیر کیوں بھاگ گئے تھے ۔۔۔۔ یہ زینت کی آواز تھی اس کی آواز میں ابھی تک ایک روز پہلے والا جوش تھا میں رجسٹر چارپائی پر رکھ کر سائیڈ پر چلا گیا تھا میں نے زینت سے پیار بھری باتیں کرکے اسے ریلکیس کیا اور اسے بولا کے وہ ان جذبات پر قابو رکھا کرے کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی ان حرکتوں سے نعمت کو شک ہو جائے اور آوے کا آوا ہی خراب ہو جائے اس نے بتایا کہ یہ۔موبائل نمبر اس کی دوست کا ہے اور وہ موقع دیکھ۔کر بات کرتی رہے گی جب تک وہ جہاں ہے شام پانچ بجاس نمبر سے مس کال آ گئی میں اس وقت دوست کے ساتھ اپک ہوٹل میں چائے پی رہا تھا میں نے سائیڈ پر جا کر کال کی زینت نے تھوڑی دیر باتیں کیں کہ پھر صبح ملیں گے میری دوست اپنے گھر جا رہی یہ کل ایک بجے کے بعد آئے گی تو میں کال کر لوں گی میں نے اوکے کہہ دیا میں کمپیوٹر پر کوئی ضروری کام کر رہا تھا رات کے گیارہ بجنے والے تھے کہ اس نمبر سے ایک بار پھر مس کال آ گئی میں نے کال لر لی اس بار کوئی کسی نئی آواز نے کال ریسیو کرتے ہی میرا استقبال کیا وہ بہت مدھم آواز میں خود ہی بولنے لگی کہ زینت تو ابھی نہیں ہے میں پڑھ رہی ہوں میں کہا خیر کوئی بات نہیں آپ زینت کی دوست ہیں تو کچھ دیر آپ سے بات ہو جائے گی اس کا نام سائقہ تھا وہ کلاس 10 کی طالبہ تھی گاؤں کی دیگر دو لڑکیوں کے ساتھ دوسرے گاؤں کے سکول میں پڑھنے جاتی تھی اس کا گھر زینت کی امی کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر تھا سائقہ کے ابو قطر میں ہوتے تھے اور ایک۔بھائی تھا جو کراچی میں کام کرتا تھا سائقہ کی عمر سترہ بڑس تھی اور وہ زینت کی پچپن کی دوست تھی اور زینت نے اسے بتا دیا تھا کہ صاحب میرے یار بن چکے ہیں سائقہ نے کہا کہ زینت کے سوٹ بہت اچھے ہیں اور اسے پسند میں نے کہا کہ آپ سائقہ کی دوست ہیں تو میری بھی دوست ہیں میں آپ لے لئے لیتا آؤں گا بولی نہیں میں امی کو کیا کہوں گی اور زینت بھی خفا ہو جائے گی میں نے اس سے کہا کہ میں کوئی ترتیب بنا لوں گا اس سے سائز پوچھا تو بولی زینت والا لائٹ بلیو چمک والا سوٹ اس کی باڈی پر تھوڑا کھلا کھلا آ رہا تھا اور لمبائی میں بھی تین انچ زیادہ تھا سائقہ ن، بتایا کہ اس نے مجھے گاڑی میں بیٹھا دیکھا تھا اور زینت کی میرے لئے بےتابی کو بھی محسوس کیا تھا جبھی اس نے زینت سے پوچھ لیا جس پر زینت نے اسے بتایا تھا کہ وہ میرا دوست ہے اور بہت اچھا ہے زینت نے میری طرف سے دی گئی ساری چیزیں بھی اسے دیکھائی تھی سائقہ نے بتایا کہ اس کی امی دوسرے کمرے سے آواز دے کر بلا رہی ہے اور سونے کا کہہ رہی سائقہ نے کال اینڈ کرنے سے پہلے بولا کہ میرے سے بات کرنے کا زینت کو نہیں بتانا میں نے اوکے۔کہہ دیا اگلے روز دن ایک بجے مس کال آ گئی میں نے فوراً کال ملا دی یہ سائقہ تھی جو ابھی سکول سے واپس آئی تھی وہ بہت دیر تک مجھ سے باتیں کرتی رہی میں نے زینت سے بات کرنے کا بولا تو اس نے پانچ منٹ بعد کال کرنے کا کہا اور ایک بار پھر کہہ دیا کہ زینت کو ہماری باتوں کا علم نہیں ہونا چاہیے میں نے اسے تسلی دی کہ ایسی کوئی بات نہیں زینت سے کافی دیر تک باتیں ہوئیں میں نے پوچھا کہ آپ جو اتنی بدل گئی ہو کس نی پوچھا یا کسی کو ہماری دوستی کا علم تو نہیں ہوا زینت نی بتایا کہ اس کی دوست کو علم ہے جس کے نمبر پر میں بات کر رہی ہوں میں نے اسے ایسا کرنے پر ٹوکا تو بولی یہ میری بچپن کی سہیلی ہے اور یہ مر جائے گی پر کسی کو نہیں بتائے گی میں نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بولا کہ آپ لو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اور کسی کے سامنے ہماری کہانی شئیر کر سکتی ہے میری باتوں سے زینت کچھ پریشان ہو گئی تو میں نے اسے بولا کہ سائقہ کو کوئی گفٹ دیکر اسے اپنا بنا لیتے ہیں زینت بولی کہ اسے میرے ریڈی میٹ سوٹ بہت پسند آئے ہیں لیکن میں آپ کے پیسے نہیں لگوانا چاہتی سوٹ بہت مہنگے ہیں میرے سارے سوٹ پوری بستی کی لڑکیوں کو پسند آئے ہیں تو آپ اس پوری بستی کی لڑکیوں کو دں گے ؟؟؟ میں نے کہا کہ آپ کے لئے پوری بستی کو سب دے دونگا جو ان کو چاہیے ہونگی پھر میں نے اس سمجھایا کہ آپ اس کی امی کے سامنے بول دینا کہ۔میں بیگم صاحبہ کو فون کرکے آپ کے لئے سوٹ منگوا دیتی ہوں میں اسے بعد میں پیسے دے دونگی اور سائقہ کو بتا دینا کہ صاحب آپ کے لئے سوٹ لیکر آئے گا زینت نے بولا کہ وہ امی کے ساتھ شام کو آئے گی تو ایسا کرونگی کال اینڈ ہونے کے دس منٹ بعد پھر مس کال آئی میں سمجھ چکا تھا کہ یہ سائقہ سے میں نے سائقہ کو سارا پلان بتا دیا کہ زینت آپکی امی کے سامنے ایسا کہہ کر نعمت سے کہے گی کہ۔مجھے کال کر کے سوٹ لانے کا بول دے سائقہ سے میری دوستی ہو چکی تھی جس کا علم زینت کو نہیں تھا اور وہ زینت سے زیادہ مجھے کالیں کر رہی تھی اگلے روز میں نے زینت کے بھائی کی شادی پر جانا تھا کیونکہ زینت کا اسرار تھا کہ میں ایک روز پہلے آ جاؤں نعمت مجھے کال کر کے سوٹ۔لانے کا کہہ چکا تھا سو میں نے زینت سے ایک نمبر کم والے دو سوٹ اور ایک بریسلٹ لے۔لیا تھا اور شاپر کو میں نے ڈگری میں رکھ دیا تھا اگلے روز میں بیگم کو اس کی امی کے گھر پہنچا دیا کہ۔میں دوست کی شادی پر جا رہا ہوں میں نے نعمت کو۔کال کر لی تھی کہ کسی کام سے آگے آیا ہوا ہوں اور آج گھر واپسی کر کے کل شادی کے لئے نکلنے میں ڈبل سفر ہو جائے لہذا میں جہاں سے سیدھا ایک دن پہلے آ رہا ہوں نعمت نے اس پر خوشی کا اظہار کر دیا تھا میں دن بارہ بجے ان کے ہاں پہنچ گیا تھا اور نعمت نے مجھے ریسیو کیا لکڑی کے بنے ایک بڑے گیٹ۔کو کھول کر گاڑی اس میں لانے لا کہہ دیا یہ بڑی حویل کا کھلا گھر تھا اور اس بڑی حویلی کے۔مغربی حصے میں تین کچے اور اس سے آگے دو پکے کمرے بنے ہوئے تھے میں نے ڈگی سے اپنا سوٹ کیس اور سائقہ کے لائے گئے کپڑوں کا شاپر نکالا نعمت نے۔میرا سامان اٹھایا اور کچی دیوپر چونے سے بنے ڈیزائن والی دیوار کے ساتھ سے ہوتا ہوا اس گھر میں داخل ہو گیا جہاں اس دن زینت کو میں پہنچا کر گیا تھا نعمت گھر میں میرے آگے داخل ہوتے ہوئے بولا کہ صاحب آ جاؤ کونے کے ایک کمرے کے علاوہ گھر کے باقی کمرے کچے تھے نعمت اسی پکے۔کمرے میں مجھے لے گیا گھر میں زینت کے باپ کے علاوہ خواتین کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی سب مجھے تعجب سے دیکھ رہی تھی کمرے میں دو سنگل بیڈ پر کچھ الجھی سے کلیوں کپ مدد سے سیج بنانے کی کوشش کی گئی تھی مجھے انہی بیڈ پر بٹھا دیا گیا تھا زینت روم میں سب سے پہلے داخل ہوئی اور مسکرا کر سلام کیا وہ لائٹ پنک کلر کے سوٹ میں ملبوس تھی جو سلوا کر میں نے نعمت کے ہاتھ بھجوا دئیے تھے زینت کی امی نے روم میں داخل ہو کر مسکراتے ہوئے بیگم جی کے نہ آنے کا پوچھا میں نے کہا کہ صبح نعمت کو بت دیا تھا کہ میں آگے کسی شہر میں آیا ہوا تھا جہاں سے میں سیدھا ادھر آیا اور اس مقصد کے لئے کل گھر سے تیاری کرکے نکلا تھا اور بیگم ویسے بھی کسی دوردراز کے فنگشن میں کم ہی جاتی ہے زینت کی امی کے آنے کے بعد کمرے کے دروازے کے سامنے خواتین اور لڑکیوں کا رش لگ گیا جو دیہات کے سادہ لباس میں ملبوس اپنے ناک تک اپنا دوپٹہ پکڑ کر مجھے دیکھے جا رہی تھی پھر زینت کی امی چلی گئی تو زینت نے کمرے کے دروازے کو بند کر دیا اب روم میں نعمت میں اور زینت موجود تھے کچھ دیر بعد زینت کی امی ایک بڑے ٹرے۔میں کھانا سجا کے لائی تھی اس دوران میں جب بھی زینت کی طرف دیکھتا تو وہ اپنی نظروں کو سب سے بچا کر مجھے آنکھ مار دیتی کھانا کھانے کے بعد میں تکیے کی ٹیک لگنے کو پیچھے ہوا تو پینٹ کی جیب میں موجود موبائل نے وبریشن کرکے مس کال کی اطلاع دی میں نے موبائل نکال کے دیکھا تو یہ سائقہ کی مس کال تھی میں نے بجائے کال کرنے کے اسے مسیج۔کیا کے ۔۔۔دولہے کے روم میں اگلے تین۔منٹ میں کمرے کا دروازہ کھلا اور نیلی قمیض سفید شلوار اور سفید دوپٹے سے ہونٹوں تک منہ چھپائے ایک لڑکی داخل ہوئی یہ سائقہ تھی جس کا قد قدرے پست رنگ گورا جسم بھرا بھرا اور آنکھیں موٹی تھی بالوں کی ایک لٹ روشن پیشانی پر گشت کر رہی تھی اس نے آتے ہی مجھے سر ہلا کر مدھم آواز میں سلام کیا اور کچھ فاصلے پر پڑی چارپائی پر زینت کے ساتھ بیٹھ گئی یہ دونوں ایک دوسرے کو کندھے مار کر مستی کر رہی تھی نعمت کے فون لی گھنٹی بجی اور وہ اس طرف متوجہ ہوا تو میں نے اس دونوں کو دیکھا زینت نے سائقہ کی طرف آنکھوں کا اشارہ کر کے آنکھیں قدرے بند کیں اور مجھے بتایا کہ یہ سائقہ ہے پھر زینت بولی میں نے بیگم کو سوٹ لانے کا بولا تھا میں نے شاپر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ہاں بیگم نے یہ شاپر دیا تھا مجھے زینت شاپر لی طرف لپکی تو نعمت فون بند کرتے ہوئے کہا کہ صاحب آپ بیٹھیں میں شعیب کے ساتھ شہر جا رہا کچھ سامان لانا ہے میں نے جیب سے تین ہزار نکال کر نعمت کو دیتے ہوئے کہا کہسیج کا کچھ سامان لیتے آنا اس کو دوبارہ بنائیں گے زینت شاپر اٹھا کر چارپائی کے پاس پہنچی اور نعمت جیسے روم سے باہر نکلا اس کی امی اندر آنے لگی اور دروازے پر کھڑی دیگر لڑکیاں بھی زینت کے ہاتھ میں شاپر دیکھ کر اندر آنے لگیں زینت کی امی نے پیچھے مڑتے ہوئے دیگر لڑکیوں کو پیچھے کیا اور زینت کو بولا کہ کسی کو اندر نہ آنے دو اور کنڈی لگا دو میں چائے بناتی ہوں زینت نے شاپر پھینکا اور بھاگ کر کنڈی لگا دی دروازے سے واپس آتی زینت نے اپنی باہوں کو پھیلا لیا اور نگاہیں ملا کر میرے قریب آتی گئی چارپائی کے پاس کھڑی سائقہ نے اپنے دوپٹے کا پلو دانتوں تلے دبا لیا زینت میرے گلے لگ گئی اور باہوں کو میرے گرد لپیٹ لیا سائقہ اپنی کمر کو بل دیکر اپنے اپنے ہپس مڑوڑنے لگی اور اپنا ایک ہاتھ اپنی ببلی پر رکھ دیا جس کو وہ پہلے ہی اپنی رانوں کا دباؤ دے چکی تھی زینت کے مجھ سے چمٹتے ہی اس کی ببلی شاید بٹک بٹک کرتی خود بخود اندر باہر ہونے لگی تھی زینت مجھے اپنے سینے کے اندر لے۔جانا چاہتی تھی میں جھک کر زینت کی گردن پر کسنگ کرتے ہوئے سائقہ سے نگاہیں ملا کر اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں کہنے لگا کہ تم بھی میری جان ہو زینت میرے پاس آنے کے بعد نکھر گئی تھی لیکن سائقہ زینت سے کہیں زیادہ پیاری تھی زینت کے بوبز کی گولائی اس کی نیلی قیمض پر بھی واضح ہو رہی تھی سائقہ کا رنگ اوریجنل سفید تھا موٹی آنکھیں اور جسم کی طرح بھرے بھرے گال سائقہ کے ہپس بھی زینت سے بھاری تھے اور قد زینت سے چھ انچ کم تھا زینت پانچ فٹ کی تھی اور اس طرح سائقہ کا قد 4فٹ چھ انچ تھا میں اپنی پچھلی کہانی میں بتا چکا ہوں کہ میرا قد ساڑھے چھ فٹ سے بھی کچھ زیادہ ہے میں نے زینت کو اپنی باہوں میں زور سے دبایا تو وہ وشششش وشششش کرتی مجھے اور دبانے لگی میں نے زینت کی پیٹھ سائقہ کی خانب پھیر رکھی تھی اور اب میں زینت کے ہپس کو پکڑ کر اسے اوپر کو کھینچ رہا تھا اور یہ سٹائل زینت سے زیادہ سائقہ کو پاگل کر گیا تھا وہ چارپائی پر بیٹھ گئی تھی اور اپنے گھنٹوں کو اپنے بازوؤں میں لپیٹ کر خود کو گٹھڑی بنا لیا تھا زینت اپنے ہپس کو اٹھا اٹھا کر جھٹکے مارنے لگی میں نے ہپس سے پکڑتے ہوئے اوپر اٹھا لیا تھا اس نے اپنی ٹانگیں میرے گرد لپیٹ لیں تھی اور مجھے بےتحاشہ کسنگ کرنے لگی میں نے چار قدم دور پڑی چارپائی کا رخ کر لیا جہاں سائقہ گٹھڑی بنی بیٹھی تیز سانسوں کانپتے بدن اور گلابی چہرے کے ساتھ رحم طلب نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی وہ اپنے ہپس کو کو اس سٹائل میں گول بنا کر اس پر آگے پیچھے ہو رہی تھی میں نے زینت کو اس کر پاؤں پر رکھا پر رکھ کر سائقہ کو پیچھے گراتا اس پر زینت کو رکھ دیا سائقہ وشش کرتی اپنی ٹانگیں چارپائی سے نیچے لٹکا چکی تھی زینت کا چہرہ سائقہ کے چہرے کے ساتھ چارپائی کے بان پر تھا اور اس کا باقی جسم سائقہ پر تھا میں نے سائقہ کی ران کو پکڑ کر اس کی ٹانگوں کو کھلا کرنا چاہا تو افففففففف اتنا نرم جسم میں نے آج تک نہیں چھوا تھا میرا لن پینٹ کے اندر ٹوٹنے لگا تھا ۔۔۔۔ دروازے پر دستک ہوئی اور زینت میرے نیچے اور سائقہ کے اوپر سے پھسل گئی میرا سینہ سائقہ کے بوبز کی ٹھنڈک محسوس کر کے اٹھنے لگا اور میں دو سیکنڈ میں اس کے ہونٹوں کو چوسنے کے انداز میں کس کرتا اٹھ گیا زینت دروازے کے پاس رک کر میرے بیڈ پر آنے سائقہ کے اٹھنے کا انتظار کرتی اپنا حلیہ درست کرنے لگی سائقہ نے شاپر کھول دیا اور زینت نے کنڈی کھولی تو زینت کی امی کا ہاتھ ڈش لئے اندر آیا اور ساتھ زینت سے بولی کنڈی بند کر لو زینت بہت بےتاب تھی اور میں نے اس سے کسی طور پیچھے نہیں تھا کیونکہ اتنی میٹھی لڑکی کے ساتھ میں نے یادگار لمحے گزارے تھے لیکن میں زینت کی چدائی پہلے کی طرح اہتمام سے کرنا چاہتا تھا اور ان دنوں نہ تو ایسی مناسب جگہ دستیاب ہو رہی تھی اور نہ وقت زینت نے بیڈ پر چائے کی ڈش رکھی اور ایک بار پھر میری طرف بڑھی میں نے اسے کسنگ کرتے ہوئے سمجھایا کہ خود کو کنٹرول کرو اور مناسب وقت کا انتظار کرو میں اپنے ساتھ تیری پیاس بھی جی بھر کے بجھاؤں گا میں نے سائقہ کو چارپائی سے اٹھایا اور اسے اپنی باہوں میں لے۔لیا اس کا جسم بہت نازک تھا اور میرے جسم میں اترتا جا رہا تھا اس کے بوبز ہاتھوں میں بھرے تے ایسا لگتا تھا جیسے میرے ہاتھ خالی ہوں میں بیڈ پر بیٹھ گیا اور اور سائقہ کو اپنی گود میں بٹہا لیا میری گود اس کے نازک پانی کی طرح لہرتے ہپس سے بھر گئی زینت مجھے اپنے ہاتھوں سے انڈہ کھلا رہی تھی اور میں اس کے ہاتھ سے منہ میں انڈہ لینے کے بعد سائقہ کے روئی جیسے گالوں کو منہ بھر کے کسنگ کے ساتھ حلق میں اتار رہا تھا سائقہ کا جسم لرز رہا تھا اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی ببلی پر رکھ۔کر ببلی کی بٹک بٹک کو دبانے کی کوشش کر رہی تھی میں نے ایک انڈہ ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے کھلانے لگا تھا چائے کے بعد میں نے سوٹ اٹھا کر سائقہ کو دے دئیے زینت بولی میں کہتی تھی ناں میرا یار لاکھوں میں ایک ہے سوٹ سائقہ نے بہت پیار بھری نظروں سے میری طرف دیکھ کر شکریہ ادا کیا زینت بی آپ صرف اس کا زبانی شکریہ ادا کرو اس کا یہ احسان بھی میں اتاروں گی سائقہ۔نے سر جھکا لیا اور میں نے کہا آپ اپنے احسان اتارنا سائقہ میرا احسان اتارتی یا نہیں یہ اس پر چھوڑ دو سوٹ سائقہ۔کو بہت پسند آئے تھے میں نے ایک قمیض اتھا کر سائقہ کہ گلے پر رکھا تو بولی قمیض کی لمبائی لم لگتی ہے زینت بولی او نہیں پاگل آجکل شارٹ قمیض کا رواج ہے اس کلر میں میں وہ اور غذب لگنے لگی تھی باہر سے زینت کی امی نے آواز دی زینت تیاری کر لو دلہن کو مہندی لگانے جانا ہے اور سائقہ کو بھی امی نے بلوا بھیجا ہے میں نے شاپر سے برسلٹ نکال کے سائقہ کی طرف بڑھایا اور کہا سوٹ زینت کی طرف سے آپ کا تحفہ ہے اور یہ چھوٹا گفٹ میری طرف سے قبول کیجئے میں نے پوچھا کہ سائقہ کا گھر کونسا ہے تو سائقہ بولی جہاں آپ کی گاڑی کھڑی ہے وہ میرا گھر ہے پھر زینت کی طرف منہ۔کرکے پوچھا اس گاڑی میں پارک جاتے تھے زینت نے میری طرف پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا ہاں لیکن گاڑی سے یہ ظالم بہت قیمتی ہے سائقہ شاپر۔لیکر چلی گئی اور زینت بھی میرے گال پر تھپکی دے کر جا چکی ہیں روم کا دروازہ تھوڑا کھلا ہوا تھا اور لڑکیاں اس کے آگے گھوم کر حسرت بھری نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی میں نے نعمت کو کال کر کے پوچھا تو اس نے بتایا کہ گھر پہنچنے والے ہیں اس دوران زینت کا ابو میرے پاس آ کر بیٹھا اور میرے آنے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہنے لگا کہ ہم غریب لوگ ہیں اگر ہماری مہمان نوازی میں کوئی کمی آئے تو برا نہ منانا میں اس سے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ نے اتنی پیاری بیٹی پیدا کرکے مجھ پر جو احسان کیا ہے میں وہ زندگی بھر نہیں اتار سکتا نعمت کے آتے ہی زینت کی امی کے ساتھ ایک اور خاتون بھی کمرے میں داخل ہوئی مجھے سلام کیا اور یہ دونوں سامنے چارپائی پر بیٹھ گئے زینت کی امی نے ساتھ آنے والی خاتون کا تعارف کراتے ہوئے بتایا یہ سائقہ کی امی ہے سائقہ۔کی امی نے کہا کہ آپ سے۔مل کر بہت خوشی ہوئی آپ ایک اچھے انسان ہیں لیکن زینت کی ایک کال پر بیگم صاحبہ نے جو اتنے قیمتی سوٹ بھیج دئیے ان کا احسان تو ہم نہیں اتار سکتے میں ان دونوں خواتین کا احسان نہیں اتار سکتا تھا اور کوئی الفاظ ادا نہیں کر سکتا تھا اس لئے کوئی جملہ ادا نہیں کیا میں نے ان دونوں خواتین کو دعوت دی کہ وہ بھی ہمارے گھر آئیں تو بولی آپ دعوت دیں یا نہ دیں ہم ضرور آئیں گی آپ نے ہم غریبوں کے چھوٹے پروگرام میں شرکت کرکے ہمارا مان بڑھا دیا ہے میں نے نعمت کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کے کہا کہ نعمت میرا دوست ہے کوئی ملک یا مزدور والی بات نہیں تو میں اس کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہوں میرا آنا تو معمولی بار ہے نعمت کا سینہ چوڑا ہو گیا سائقہ کی امی کو شوگر کا مرض لاحق تھا اور پاؤں میں درد کی وجہ سے وہ مشکل سے چلتی تھی دلہن والوں کا گھر پانچ کلومیٹر دور دوسرے گاؤں میں تھا میں نے مہندی کےلئے جانے کا پروگرام پوچھا تو زینت کی امی نے بتایا کہ چنگ چیاں آ گئیں ہیں بس تھوڑی دیر میں نکلتے ہیں پندرہ بیس لڑکیاں ہیں اور ساتھ نعمت جائے گا سائقہ کی امی بولی ہم تو گھر بیٹھیں گے چنگ چی پر نہیں جا سکتے سارا کچا رستہ ہے سائقہ جائے گی میں نے کہا اگر نعمت کہتا ہے تو گاڑی لے جاتے ہیں میں نے سائقہ کی امی کی طرف اشارہ کرتے بولا باجی تو تکلیف ہے تو یہ بھی ہمارے ساتھ چلی جائے گی وہ خوش ہوکر نعمت کی طرف دیکھنے لگی دلہن سائقہ کی امی کی بھانجی تھی زینت کی امی نے بولا کہ ہمارا ارادہ تو آپ کی گاڑی پر صرف دلہن لانے کا تھا اگر آپ آج بھی چلتے ہیں تو ہمارا مان اور بڑھ جائے گا اپنی ساس کی بات سن کر نعمت بولا کہ۔خالہ آپ جیسے کہیں گی ہم ویسا کریں گے میں نے کہا کہ بس چلتے ہیں سائقہ کی امی بولی۔پھر میں آج اپنی بھانجی کے پاس رہ جاؤں گی میں نے گاڑی گلی میں نکال لی تھی اور سائقہ کی امی کو اس کے گھر کے اندر سے ہی گاڑی میں بٹھا لیا تھا سائقہ اپنے گھر سے تیار ہو کر زینت کے گھر جا رہی تھی میرا لایا گیا سوٹ اس نے پہن رکھا تھا جو سختی سے اس کے جسم پر چپک گیا تھا سوٹ نارمل تھا اور سائقہ کا جسم بھرا بھتا پاجامے نے اس کی ٹانگوں کو ایسے جکڑا ہوا تھا کہ اس کی پندلیوں اور گھٹنے کی ابھار بھی صاف نظر آ رہے تھے اسے دیکھ کر پچھلی سیٹ پر برجمان سائقہ کی امی بولی آجکل کے فیشن اور رواج بھی ایسے ہو گئے کہ بس میں نے اسے کہا کہ یہ ہر دور میں ایسا لگتا پھر بولا کہ باجی سائقہ کو بھی ادھر بلا لو آپ کے ساتھ زینت کی امی بیٹھ جائے گی اس نے گلی میں کھڑی ایک بچی کو بھیجا کہ سائقہ کو بلا لو سائقہ کے ساتھ زینت کی امی بیٹھی اور فرنٹ پر نعمت کڑ کر بیٹھ گیا زینت آخر میں گھر سے نکل کر گاڑی کی طرف آئی تو گاڑی میں گنجائش نہیں تھی زینت کی امی اتر کر چنگ چی کی طرف بڑھ گئی اور زینت سائقہ کے ساتھ نعمت کے بالکل پیچھے بیٹھ گئی میں نے گاڑی آگے بڑھا دی شادی میں آئیں سب لڑکیاں سائقہ اور زینت کو دیکھ کر منہ میں انگلیاں ڈال رہی تھی اور دونوں ایک سے بڑھ کر اایک لاجواب بنی ہوئی تھیں میرے حواس پر اب سائقہ کے جسم کی نرمی چھائی ہوئی تھی گاڑی میں بیٹھی یہ دونوں بلائیں ایک دوسرے کا ہاتھ میں ہاتھ پکڑے مجھے کھا جانی والی نظروں سے دیکھتے خاموش بیٹھی تھی میں سب چنگ چی کے آگے گاڑی چلا رہا تھا اور ان دونوں کو نظر انداز کرکے سائقہ کی امی اور نعمت سے گفتگو کر رہا تھا شام کے بعد واپسی پر سائقہ کی امی اپنی بھانجی کے پاس رک گئی تھی اور میں نے زینت کی امی کو بلا لیا سائقہ کے گھر گاڑی کھڑی کرنے کے بعد نعمت مجھے ایک چھوٹی بیٹھک میں لایا تھا جس کی چابی نعمت کے سسر نے اس کو دی تھی کہ صاحب کو فلاں بیٹھک میں لے جانا وہاں ایک چارپائی اور ایک ٹیبل پڑی تھی لکڑی کی دروازے کے علاوہ بیٹھک کے ایک کونے میں تقریباً اڑھائی فٹ لمبا اور دو فٹ چورا پھولدار پردہ لگا ہوا تھا شام کے بعد زینت کی امی کے گھر خواتین کا رش لگا ہوا تھا چارپائی پر صاف ستھرا بستر لگا تھا نعمت مجھے وہاں بیٹھا کر پانی لینے چلا گیا میں نے موبائل نکالا تو اس پر چھ کالیں آ چکی تھی یہ سائقہ کا نمبر تھا میرا موبائل اکثر سیلنٹ پر ہوتا اور صرف وبریشن آن ہوتا میں نے ٹائمنگ دیکھی تو آخری مس کال دو منٹ پہلے آ چکی تھی میں نے کال ملا لی اور زینت نے فوراً کال اٹینڈ کرکے پوچھا کہ گھر کیوں نہیں آئے میں نے بتایا کہ تیرا ابو نعمت کو بتا گیا تھا اور وہ اس ںیٹھک میں لایا ہے نعمت پانی لیکر آ گیا تھا اور میں نے کال بند کر دی اور مسیج کر دیا کہ میں کسی بیٹھک میں ہوں کچھ دیر بعد سائقہ نے ریپلائی دیا کہ وہ اپنے گھر میں مہمان خواتین کے۔لئے بستر لگا کے پھر بات کرتی ہوں اس دوران نعمت اور میں نے کھانا کھا لیا اور نعمت برتن اٹھا کر یہ کہتے چلے گئے کہ آپ کل کے گھر سے نکلے ہوئے تھے تھکے ہونگے لہذا کنڈی لگا کر سو جائیں صبح۔ملیں گے سردی کی شدت بڑھ رہی تھی سو میں نے شرٹ اتاری پینٹ کا بلٹ کھول دیا اور بنیان کو پینٹ کے اندر کرکے سینے تک رضائی ڈال کے لیٹ گیا آج میحواس پر زینت کے جسم کی خوشبو سے کہیں زیادہ سائقہ کے بھاری ہپس موٹی آنکھیں اور گورے بدن کی نرمی چھائی ہوئی تھی ۔۔(جاری ہے)

      Comment


      • #4
        قسط نمبر 03

        میں نے دو دن بعد ڈیٹا آن کر دیا اور واٹس ایپ چیک رہا تھا کہ سائقہ کا مسیح آیا ۔۔۔سو گئے ؟؟؟
        میں نے دو سیکنڈ میں نو کا ریپلائی دے دیا بولی کہاں ہو میں نے بتایا کہ میں کسی بیٹھک میں ہوں پوچھا اور کون ہے تو بتایا کوئی نہیں میں اکیلا ہوں تو اس نے۔کال کرنے کا بولا میں نے پوچھا کہ آپ کہاں ہو بولی آپ کی گاڑی سے ٹیک لگی کھڑی ہوں ساری مہمان خواتین ہمارے گھر ٹھہری سوری بزی تھی ان سب کو بستر لگا کے دیتے دیر ہو گئی اس وقت 10:50 بج رہے تھے میں نے زینت کا پوچھا تو بتایا کہ وہ اپنے گھر ہے میں نے کہا کہ میں آ جاؤں بولا آسکتے ہو تو آ جاؤ پتا نہیں آپ کس کی بیٹھک میں ہو میں نے بتایا کہ ادھر کوئی نزدیک ہے بولا نزدیک کونسی بیٹھک ہے اس کا گیٹ کا رنگ میں نے بتایا کہ یہ ایک چھوٹی سے کوٹھری ہے جس میں بس ایک چارپائی اور ایک ٹیبل پڑی ہے والے چونکی ۔۔۔۔ اور کیا ہے اس میں میں نے بتایا کہ دو پردے لگے ایک دروازے پر اور دوسرے چھوٹا پردہگا ہے پردے کے پیچھے کیا ہے یہ۔میں نے بھی نہیں دیکھا افففف آپ تو ہماری کوٹھڑی میں ہیں چھوٹا پردہ ہٹا کر دیکھنے کا بولا میں نے بتایا کہ سبز رنگ کی کھڑکی ہے بولی اس میں مولوی صاحب رہتے تھے اب نہیں رہتے اور مجھے پتا نہیں کہ اس کی چابی اب کس کے پاس ہے اور اس کوٹھڑی کی کھڑکی ہمارے گودام میں ہے جہاں گندم کے گٹو اس کھڑکی کے آگے پڑے ہیں اور پھر سائقہ اس گودام میں آ گئی اور بولا کے کھڑی پر ہلکی دستک دو میں کھڑکی کی نزدیک پہنچا تو سائقہ کی آواز بھی آنے لگی میں نے دستک دی تو بولی اوکے یہیں ہو سائقہ نے بتایا کہ اس کے آگے کھڑکی تک پانچ گٹو پڑے ہیں اور میں اٹھا بھی نہیں سکتی میں نے اسے کہا کہ کوشش کرو ان کو گھسیٹنے کی کھڑکی کے سوراخ سے میں سائقہ کے موبائل کی لائٹ کسی گھڑی دیکھ لیتا تھا سائقہ۔نے گودام کے گھر کی طرف کھلنے والے بڑے دروازے کو اندر سے بند کر دیا اور موبائل کی ٹارچ جلا کر ان تھیلوں کا جائزہ لیا یہ پچاس کلو والے تھیلے تھے اس نے ایک تھیلے پر روز لگانا شروع کر دیا لیکن چھوٹی نازک سے سائقہ اس میں کامیاب نہیں ہو رہی تھی دوسری طرف نہ تو میں جا سکتا تھا اور نہ ان تھیلوں کو دیکھ کر سائقہ۔کو کوئی مشورہ دے سکتا تھا میں نے اس کو سمجھایا کے اوپر رکھے ان تھیلوں کو نیچے گرانے کی کوشش کرو وہ زور لگا رہی تھی دس منٹ کی محنت کے بعد ایک تھیلا گرانے میں کامیاب ہو گئی اور اس تھیلے کے زمین پر گرنے کی آواز مجھے امید کی کرن دکھا گئي اور میرے ببلو نے کروٹ لے۔لی تین تھیلے نیچے کھینچنے کے بعد سائقہ نے کھڑی کی اس طرف سے لگی کنڈی کھول دی جبکہ اس طرف سے لگی کنڈی میں پہلے ہی کھول چکا تھا ہر طرف خاموشی تھی شادی اتنی بڑی نہیں تھی اور شام کو مہندی سے واپسی کے۔بعد ڈھولک والی چلی گئی تھی اور سب نے کھانا کھا کر کمروں میں بند ہو گئے کیونکہ آج شام سے کچھ پہلے سے ٹھنڈی ہوا چلنے لگی تھی اور سردی کی شدت میں اضافہ ہو گیا تھا سائقہ نے اس طرف سے لگی کنڈی کھول کر کام آسان کر دیا تھا اب ایک طرف سے وہ تھیلے کو کھینچتی اور ادھر میں کھڑکی پر زور لگا اسغکے لئے کام آسان بنا رہا تھا اس کی مجھ تک پہچتی تیش سانسوں کی آواز سے صاف محسوس ہو گیا کہ وہ بہت تھک چکی ہے میں نے کھڑکی کو چار انچ تک کھول لیا تھا اب ایک تھیلا باقی تھا جو سائقہ کو تنگ کر رہا تھا میں نے اپنا بازوں کھڑکی سے اندر کر لیا اور تھیلے کو دھکا دینے کی کوشش کرنے لگا اس دوران سائقہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر اس پر تیز گرم سانسیں چھوڑتے ہونٹ دکھ دئیے سائقہ کے نازک اور دلنشیں لمس نے میری باڈی میں بجلیاں دوڑ گئیں میں نے اس سے ہاتھ چھڑا کر ایک ہی تھکے میں تھیلے کو دور کر دیا اور ساتھ میں پوری کھڑکی کھل گئی مسکراہٹ بھرے چہرے اور بند آنکھوں سے لمبی سانسیں لیٹی سائقہ کو میں نے روشنی میں کھینچ لیا اور کھڑکی کو بند کر دیا میں نے اسے اپنی باہوں میں بھر لیا وہ پیسنے میں بھیگی ایسے لگ رہی تھی جیسے بہت دور سے دور کر آئی ہو اس نے خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا تھا اور میں اپنا سر جھکا کر اسے کے سر پر کسنگ کرتا اس کا جسم دبا کر اس کی تھکن دور کرنے کی کوشش کر رہا تھا تھا وہ اس سوٹ میں اور حسین پری بن گئی تھی سوٹ اس پر ایسے فٹ آیا تھا جیسے گندم کی بوری بھری ہوئی ہو اسغکی قمیض اس کی پتلی کمر کو کس کے کچھ اور باریک کر دیا تھا 32 کے بوبز اس وقت نمایاں ہو گئے وہ ایک پنک صراحی بنی ہوئی تھی چمکتے چہرے کے بعد آگے کو نکلے بوبز اس کے نیچے پتلی کمر اور موٹے ہپس نے قمیض کو ایسے کھولا ہوا تھا کہ پاجامے سے اوپر کمر کی ننگی سفید سائیڈیں نظر آ رہی تھی قمیض کی لمبائی کم ہونے کی وجہ سے سائقہ کے کچھ اس طرح سیکسی ہو گئے تھے کہ نیچے سے پاجامے نے اس کے ہپس اور ٹانگوں کو جکڑ کر نمایاں کر دیا تھا میں سائقہ کو بستر پر لایا اس کے کپڑوں پسینے کی وجہ سے کچھ گیلےہو چکے تھے میں نے سائقہ کو بستر پر لٹا دیا اور خود ساتھ سو کر اوپر رضائی ڈال دی اور اور سائقہ لو گلے لگا لیا سائقہ نازک بدن گوری رنگت اور بہترین جسمانی اور نسوانی حسن کی بدولت جتنی حسین تھی اسے خود بھی اندازہ نہیں تھا شاید پہلے کبھی بن سنور کر وہ اتنی حسین نہیں بنی تھی کیونکہ وہ خود پوچھ رہی تھی کہ میں آج پیاری بنی ہوں ناں سب لوگ مجھے منہ میں انگلیاں ڈالے دیکھ رہے تھے میں سائقہ کی خوشامد سے ہٹ کر حقیقی تعریف کرتا اسے اپنے اندر سمونے کی کوشش کر رہا تھا سائقہ کے بدن کی لذت میں پورے بدن میں محسوس کر رہا تھا آج میرا لن ضرورت ہے زیادہ سخت اور پاور فل ہو گیا تھا اور اس میں حسن کا عمل دخل پاور سے زیادہ ھوتا آج اگر سائقہ کسی نوے سال کے بڈھے کے ساتھ ایسے مل کے سو جاتی تو اس کا عرصے سے مرجھایا ببلو جوانی کے جوش کے ساتھ کھڑا ہو جاتا میں اس وقت پینٹ اور بنیان میں تھا میرا ببلو بہت ٹائٹ ہو کر پینٹ پھاڑنے کی جستجو میں تھا اور میں تنگ ہو رہا تھا اور آج پہلی بار اتنی عجلت میں پینٹ کو رضائی میں اتار کر ٹیبل پر پھینک دیا انڈروئیر اتارنے کے بعد میں نے محسوس کیا آج میرا ببلو عربی گھوڑا بن چکا ہے گو کہ اس نے۔میرا ہر موقعے پر توقع سے زیادہ ساتھ دیا تھا لیکن آج اتنا سخت کہ یہ ایک دم فراٹا بھر کر اوپر کو اٹھ گیا تھا اور پیٹ اور ناف پر گویا چپک گیا تھا میں نے کسنگ کے دورانیے کو بڑھانا چاہا لیکن آج میں بےصبر ہو چکا تھا سائقہ بھی شدت جذبات میں انگڑائیوں کے ساتھ کمر کو بل دیکر اپنہپس مڑوڑ رہی تھی میں نے ہپس سے اوپر اس کے پاجامے ک، لاسٹک میں ہاتھ ڈالر اور اس میں گویا کوٹ کوٹ کر بھر ہپس سے کھنچنے لگا پاجامہ الٹا ہوتا اس کے ہپس اور ٹانگوں کو اپنی قید سے آزاد ہو رہا تھا جسم ایسا نرم کہ ہاتھ میں بھرنے کے بعد یہ محسوس ہوتا گویا ہاتھ خالی ہو میں نے سائقہ کا گوشت سے بھرا نرم ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ببلو پر رکھ دیا سائقہ کا جسم لرز رہا تھا وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری طرف منہ کئے میری باڈی کے ساتھ گڈنڈ ہوئے اپنی کمر کو کمان بنا کر اپنے بوبز میرے سینے کے اندر ڈالنے کی کوشش میں سرگرداں تھی میں اپنی پینٹ اور انڈروئیر پہلے ہی اتار چکا تھا اور اب سائقہ کا نچلا حصہ بھی کپڑوں سے آزاد ہو چکا تھا میں نے اس کی قمیض کو اوپر سرکانا شروع کر دیا قمیض بھی پاجامے کی طرح جسم میں پھنسی ہوئی تھی سائقہ کے بوبز ایسے رگڑ کر قمیض سے نکلے کہ اس کا سیاہ بریزر میں ساتھ اتر گیا میں نے سائقہ کے بازوں اوپر سرہانے کی طرف کر کے قمیض اتار دی اور بریزر بھی ٹیبل کی طرف پھینک دیا میں سائقہ کے اوپر آتے ہوئے اپنی بنیان بھی اتار چکا تھا میرے سے دو فٹ چھوٹی سائقہ اور میرے سے تقریباً بیس سال چھوٹی سائقہ میرے چوڑے سینے کے نیچے آ چکی تھی میں نے رضائی کو ایک دم سے دور پھینکا اور سائقہ کے حقیقی حسن کا دیدار کرتا اس کی ٹانگوں کے پیچغآ گیا میں نے جھک کر اس کی گلابی نپل والے بوبز کو منہ میں بھر کر چوسنے لگا ہونٹوں کو دانتوں سے کاٹتی سائقہ کی سسکیاں نکلنے لگیں لیکن سائقہ کے مکھن جیسے نرم و نازک گورے بدن نے آج مجھے کچھ وحشی بنا دیا اس کی بوبز اتنے گول جیسے تازہ مکھن کے پیڑے سفید لسی پر تیر رہے ہو میرون کلر کے بستر پر پڑی سائقہ ایسے لگ رہی تھی جیسے گپ اندھیرے سمندر میں کوئی روشنی سے بھرپور کشتی تیری جا رہی ہو ذرا سی حرکتِ سے اس کا بدن دریا کی لہروں کی طرح مچل سا جاتا تھا میں نے سائقہ کی ٹانگوں کو پاؤں کے قریب سے پکڑ کر اوپر اٹھا کر ببلی کؤ دیکھا ایک ابھرے ہوئے چونے کے سفید ٹیلے پر ہلکی سی لکیر ہو جیسے میں نے گیلی انگلی سے لکیر سے آگے کا راستہ چیک کیا سائقہ کا تن لرز گیا اور اس نے ٹانگوں کو سخت اکڑا دیا میں جھک کر اس کی سنگ مرمر جیسی شفاف اور مکھن جیسی نازک رانوں پر کسنگ کرنے لگا اس نے اپنا جسم ایک بار پھر ڈھیلا چھوڑ دیا سائقہ کی یہ پہلی ببلی تھی جس کو میں نے منہ بھر کے چوم لیا وہ ایک بار پھر اکڑ گئی میں نے اپنے ہاتھوں کے دونوں انگوٹھوں کی مدد سے ببلی کے موٹے مگر نرم و نازک ہونٹوں کو کھول کر دیکھا بہت آگے لائٹ پنک کلر کا ایک چھوٹا سا بیضوی سوراخ نظر آیا میں نے آنکھیں بند کر لی اگر روٹین کے مطابق ہوس میرے کنٹرول میں ہوتی تو میں اس بٹرفلائی خود سر گھوڑے کے سموں تلے نھ رونڈتا لیکن آج میں اس پھول کی خوشبو لےکر حوس کے بےقابو بھوت کی طرح مست ہواؤں میں تھا میں نے ببلو کی ٹوپی پر روٹین سےزیادہ تھوک لگا کر چکنا سا کر لیا اور گیلی انگلی سے لکیر کو جدا کرتا گیا لیکن وہ اب بھی آپس میں چپکے ہوئے تھے نے ببلو کو سائقہ کے پیٹ پر رکھا تو یوں لگا جیسے برف پوش سفید پہاڑی پر کسی بڑے درخت کا تنا گرا پڑا ہو سائقہ کی ببلی کی بہت بہت باریک لکیر ببلو کے دباؤ سے کھلنے کے بجائے اندر دبتی جا رہی تھی سائقہ نے اپنی ٹانگیں پھر سے اکڑا لیں میں رک ر اس کی ٹانگوں کو سہلانے لگا اور سائقہ کے نارمل پوزیشن پر آنے کے بعد ٹانگوں کے اندر اپنے بازو لی جا کر آگے کرکے چارپائی پر ٹکا دئیے اب سائقہ کی ٹانگیں اوپر خو اٹھ گئی تھی ببلو وہیں رکا ایس لگ رہا تھا جیسے کنٹینر ٹول پلازہ پر ٹیکس ادا کر رہا ہو میں نے اپنی کمر کو حرکت دے کر ببلو پر دباؤ بڑھا دیا لرزتے جسم کے ساتھ سائقہ کی درد میں ڈوبی مدھم سے آئی کی آواز آئی ببلو نے اپنی ٹوپی پر حرارت محسوس کرتے ہی بےاختیار کچھ اور آگے جانے کا فیصلہ کرتے ہوئے سفر جاری رکھا بہت ہی نازک سے لمس ہلخی حرارت کے ساتھ ٹوپی سے تھوڑا آگے چلا آیا تھا اور ساتھ سائقہ کے آنسوؤں کی لڑی کے ساتھ آئی آئی آئی کی مدھم آوازیں میرے کانوں میں رس گھول گئی سائقہ آنکھیں بںد کئے ایسے ساکت پڑی تھی جیسے اس کے ہلنے سے خنجر کی نوک اس کو کاٹ دے گی لسی میں مکھن کے پیڑوں کی طرح تیرتے بوبز نے۔مجھے کھانے کی دعوت دی اور میں منہ بھر بھر کر ام کو چوسنے لگا ببلو وہیں رکا ایسا لمس اور مزہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ ہلنا ہی بھول گیا تھا میں نے ببلو کا۔نظارہ کرتے ہوئے معمولی سے حرکت دی تو ببلی کے نازک موٹے ہونٹ جو اس وقت ببلو کو اپنی باہوں میں لے چکے تھے کناروں سے آگے تک سرخ ہو گئے سیل ٹوٹ چکی تھی اور میں نے فل مزے میں آ کر لمبی سانس کھنچی میں نے یہیں پر آہستہ آہستہ ببلو کو ہلا کر مزہ لینے لگا ببلی کے ہونٹ ببلو کے ساتھ اندر بار ہونے لگے تھے مجھے زینت بھول چکی تھی گو کہ اس نے۔مجھے جو پیار اور مزہ دیا وہ لاجواب تھا لیکن سائقہ مجھے اب سے پہلے کے سارے مزے بھلا گئی تھی میں نے اپنا سینہ سائقہ کے چہرے پر ٹکا دیا تھا ببلو کو آہستہ آہستہ ہلاتا میں جب آگے جانے کی کوشش کرتا تو سائقہ کڑاہنے لگی دور بھر اوں ہ ہ ہ گویا میرے سینے پر۔مکا۔مارتی ببلو بمشکل چار انچ اندر جا سکا تھا لیکن ان چار انچ کا مزہ مجھے پورے وجود میں محسوس ہو رہا تھا میں نے بلڈ دیکھنے کے بعد بھی ببلو کو باہر نہیں نکالا تھا کیونکہ بلڈ دیکھ کر سائقہ ڈر جاتی اور مزے میں کرکرا پن آ جاتا سائقہ نے آنکھیں کھول لی تھی اور میرے بازوں کو پکڑ کر تھوڑے تھوڑے ہپس اوپر اٹھا رہی تھی میں نے ہلکی سی رفتار تیز کر لی تھی لیکن جھٹکا مارنے سے اجتناب کیا اپنی ہرنی جیسی موٹی آنکھوں نیم کھلا کر کے اوں ہ ہ ہ اوں ہ ہ ہ کی مدھم آواز کے ساتھ سائقہ مجھ بہت پیار سے دیکھ رہی تھی میں اس بار ایسا کرتے ہو گھبراہٹ کا شکار ہو گیا تھا اس سے پہلے ایسی کبھی کسی ہوا تھا ، میں سر راہ ایسا کرنے لگو زینت کے چوسنے تک تو میں انجوائے کر رہا تھا لیکن ایک دم سے زینت نے اپنا پاجامہ نیچے کرتے ہوئے گاڑی کے اسٹیرنگ کو پکڑ کر میری گود میں آ بیٹھی تھی نہ تو میں ایسا چاہتا تھا اور نہ ہی میں انجوائے کر رہا تھا میں نے کبھی زینت کو یا کسی کو بھی اس طرح غصے سے نہیں ٹوکا تھا اور زینت نے تو اب تک میری ہر بات دل سے مانی تھی میں زینت کے ہپس سے کچن اوپر اس کی کمر پر ہاتھ رکھے آئینے میں پیچھے اور آس پاس کا جائزہ لے رہا تھا کچے راستہ کے ایک طرف درختوں کی قطار تھی جب کہ دوسری طرف زمین قدرے نیچی اور اس پر دور دور تک ہلکی جھاریاں تھیں دور ایک ٹریکٹر زمین میں گھوم رہا تھا میں چند ہی لمحوں میں بہت مایوس ہو چکا تھا اور مجھے اس وقت کوئی خاص لذت محسوس نہیں ہو رہی تھی سائقہ کا سر میرے بائیں کندھے سے جڑا ہوا تھا اس کا چہرہ گلابی ہو چکا تھا وہ کپکپاہٹ اور حیرانی سے زینت کو ایسا کرتے دیکھ رہی تھی زینت کے اس وقت کے اچانک بدلے رویے پر میں دل سے بہت مایوس ہو چکا تھا میں نے سائقہ کے گال پر تھپکی دی اور اس کے ہاتھ کو پکڑ کر اپنے ہونٹوں کے پاس لا کر کسنگ کرنے لگا زینت نے جھٹکے تیز کرتے ہوئے دو بار یس یس کی ہلکی آواز نکالی اور ایک دم تین بار اچھل کر زور دار انداز میں اپنی ہپس کو اٹھا اٹھا کر مارا اور پھر کپکپاتے ہپس کے ساتھ ٹانگوں کو تھوڑا اکڑا کر نیچے زور لگا کر بیٹھ گئی میں مسلسل آس پاس نظریں دوڑاتے ہوئے خاموش بیٹھا تھا کچھ ہی دیر میں زینت اسٹیرنگ سے اپنا سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے آرام سے اٹھ گئی ببلو اس کے لکیر سے پھسلتا ہوا میرے پیٹ پر آ لگا تھا زینت اپنی سیٹ پر آ گئی تھی اور اس نے اپنا پاجامہ اوپر کھنچ لیا تھا میں بے بس خرگوش کی طرح تھوڑا سا سر جھکائے بیٹھا تھا گاڑی میں خاموشی تھی اور سائقہ کے ساتھ زینت نے بھی میری مایوسی اور بدلے روپے کو محسوس کر لیا تھا زینت بار بار مجھے اور پھر پیچھے مڑ کر سائقہ کو دیکھ رہی تھی راستے پر سامنے سے دھول اڑاتا موٹر سائیکل ہماری طرف آ رہا تھا میں نے سیٹ کی سائیڈ میں ہاتھ ڈال کر پیلے رنگ کا تولیہ ننا بڑا کپڑا نکالا اور اسے اپنی جھولی میں پھیلا دیا زینت بولی آپ ناراض ہو گئے ؟؟؟؟ میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور ریموٹ اٹھا کر گانا لگا دیا والیم فل کرکے میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور ایک جھٹکے سے آگے بڑھا دی زینت سر پر ہاتھ رکھے تھوڑی آگے کو جھکی بیٹھی تھی پچھلی سیٹ پر لیٹنے جیسے انداز بیٹھی سائقہ پریشانی سے کبھی مجھے اور کبھی زینت کو دیکھے جا رہی تھی اونچی آواز میں نصرت فتح علی خان کا گانا کوئی جانے کوئی نہ جانے دو دیوانے ہوتے ہیں دیوانے دیکھو یہ دو دیوانے ۔۔۔۔۔بج رہا تھا اور میں قدرے سپیڈ سے ایک ہاتھ اپنی جھولی میں رکھے کپڑے پر اور دوسرے ہاتھ سے اسٹیرنگ گھوماتا جا رہا تھا پانچ منٹ میں میں نے دلہن کے گھر کے آگے گاڑی روک دی کچھ دیر تک فرنٹ سیٹ پر برجماں زینت خاموشی سے مجھے گھورتی رہی اور پھر گاڑی کے پاس بچے جمع ہو جانے پر گیٹ کھول کر نیچے اتر گئی پچھلی سیٹ پر پڑے دونوں بڑے شاپر اٹھائے اور دونوں دلہن والے گھر کے اندر چلی گئیں میں نے گاڑی کے گیٹ صحیح سے بند کئے اور گاڑی کو تھوڑا آگے لے جا کر دائیں طرف ایک کھلے میدان میں موڑ لیا اور گاڑی کو تیزی سے میدان میں گھماتے ایک کونے میں جاکر رک گیا دھول کے بادل میں پیچھے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا کچھ دیر میں دیخھا تو گاڑی دلہن والے گیٹ کے سامنے تھی اور اس گھر سے نکلنے والا ہر بندہ دور میدان کے کونے میں کھڑی گاڑی کو دیکھ سکتا تھا گھر کے مین گیٹ کے اگے ٹھہرے بچوں کے ہجوم کی توجہ میری گاڑی کی طرف تھی میں نے جھولی سے کپڑا ہٹا لیا اور ٹشوز سے ببلو کو صافہ کرنے کی کوشش کی اور پھر قدرے اٹھ کر میں نے ببلو کو صحیح طرح انڈروئیر میں ڈالا اور پینٹ کو درست کر کے بلٹ باندھ دیا میں اونچی آواز میں بجنے والے گانوں کو بار بار بدل رہا تھا اور پھر عارف لوہار کے گانے اے جس تن نوں لگدی اے او تن جانںڑے پر آنکھیں بند کرکے اپنے ذہن پر چھائے مایوسی کے سائے چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا مجھے احساس ہوا کہ گاڑی کے پاس کوئی ہے میں نے آنکھیں کھول دیں گیارہ بارہ سال کی دو بچیاں گاڑی کے ساتھ کھڑی اندر دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی میں نے شیشہ اتار کی بجتے گانے کی آواز کم کر دی ایک بچی آگے بڑھی اور بولی آپ کو گھر میں بلا رہے ہیں میں نے پوچھا کہ آپ کو کس کو بھجا بولیں دلہن کی خالہ نے ۔۔۔ میں ایک سیکنڈ خاموشی کے بعد بولا کہ اوکے آ رہا ہوں دونوں لڑکیاں پیچھے مڑی تو میں نے پھر آواز دی کہ ادھر آؤ وہ قریب آئیں تو میں نے پچھلا گیٹ کھول کر بولا کے آؤ بیٹھو بس چلتے ہیں دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر ایک دوسرے کو کندھے مارتے ہوئے پیچھے بیٹھ گئیں میں نے گاڑی کا گیٹ بند کیا اور سلف مار کر گاڑی آگے بڑھا دی ہلکی آواز میں بجتے میوزک کے ساتھ میں نے گاڑی اس گھر کے قریب روک دی اپنی پینٹ کو چیک کرتے میں اتر گیا اور گیٹ کھول کر بچیوں کو بھی باہر نکالا بچیاں بھاگ کر گھر میں داخل ہو گئیں اور ایک منٹ میں ہی سائقہ کی امی نے آواز دی کہ۔بھائی آ جاؤ میں گھر میں داخل ہوا تو خواتین کا بڑا ہجوم موجود تھا سب نے اپنا آدھا چہرہ دوپٹے سے چھپایا ہوا تھا باجی آہستہ آہستہ میرے آگے چلتی ایک کچے کمرے میں مجھے لے گئی پھر بولی اتنے دور کیوں جا ٹھہرے تھے میں نے فوراً بچوں کو بھیجا کہ آپ کو بلا لائیں اور پھر اتنی دور کوئی بچہ نہیں جا رہا تھا ۔۔۔ وہ چائے کے ساتھ بسکٹ لائی تھی 12:50 بج گئے تھے سائقہ اور زینت بھی ادھر آ گئیں سائقہ کے چہرے پر قدرے مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی جبکہ زینت اب تو سر جھکائے دوپٹے کا پلو انگی پر لپیٹی میرے پیروں کی طرف دیکھ رہی تھی چائے پیتے ہوئے میں باجی سے باتیں کر رہا تھا اور ان دونوں کو بھی دکھ رہا تھا باجی بولی آپ کو زینت کی امی نے یہاں بھیجا اور میں آپ کو آگے لے جانا چاہا رہی وہ مسکرا رہی تھی ۔۔میں نے کہا کہ جہاں چاہو لے جاؤ میں ایک دن پہلے آپ کا ہاتھ بٹانے آیا ہوں بولی مجھے ابھی پیسے ملے ہیں تو میں شہر سے کچھ سامان لینا چاہتی اس کا ۔۔ باجی نے سائقہ کی طرف ہاتھ کا اشارہ کیا اور ایکبدو سوٹ اور لیتی ساتھ اسے ڈاکٹر خو دکھا دونگی جب آئی تو بخار میں تپ رہی تھی میں نے دل میں کہا بخار رات کو ٹھیک ہو جائے گا اور پھر باجی سے بولا شاپنگ کو چلتے ہیں پر ڈاکٹر کو دکھانے کی کیا ضرورت ہے ایسے بنانے بنا رہی تھکاوٹ ہے رات کو ٹھیک ہو جائے گی سائقہ بولی ۔۔۔رات کو تو میں نے مر جانا ہے باجی نے مڑ کر سائقہ کی طرف غصے سے دیکھ کر بولا کبھی منہ سے سیدھی بات بھی نکال لیا کرو کیوں مر جاؤ گی بولی بہت بڑے میزائل کا حملہ ہونے والا ہے میں نے اسے کھا جانے والی نظروں سے سر سے پاؤں تک دیکھا سائقہ زبان باہر نکال کر منہ چڑانے لگی تھی میں نے سر ہلا کر اشارہ دیا کہ دیکھ لوں گا سر جھکائے پاس کھڑی زینت بولی میں بھی آپ کے ساتھ مروں گی میں نے کہا کہ تم ابھی مر جاؤ۔۔۔ وہ دونوں آپس میں سر ٹکرا کر ہنسنے لگی تھیں باجی پاگل کہتے ہوئے اٹھ گئی تھی بولی جلدی نکلیں پھر دیر ہو جائے گی میں نے اوکے کردیا وہ باہر جانے لگی تو میں نے اسے دوہزار تھما کر بولا یہ آپ میری طرف سے دلہن کو دے دینا باجی بولی آپ بیگم صاحب کو لے آتے تو پھر وہ دیتی میں نے کہا کہ مجھے بیگم صاحبہ سمجھ لیں بولی یہ زیادہ ہیں خیر ہے کم دے دو میں نے ہاتھ کے اشارے سے اس کے میری طرف بڑھتے ہاتھ کو روک دیا باجی کے جانے کے بعد زینت آہستہ سے سائقہ کو بولی میں تو اپنی بھابھی کو اس بندے سے بچا کر رکھنا ہے یہ بہت ظالم انسان ہے میں نے کہا آپ کو ساتھ بٹھا کے دکھاؤں گا پھر ۔۔۔ بولی دیکھاؤں گا نہیں میں دیکھ لوں گی پھر چھوٹی سی بھابھی ہے میری میں نے کہا آج رات بڑی ہو جائے گی وہ دونوں ہنسنے لگیں سائقہ نے کچھ زیادہ قہقہہ لگایا تھا میں نے اسے کہا آج رات تم بھی بڑی ہو جاؤ گی ۔۔۔بولی میں تو۔میزائل کے آگے لیٹ کے خود کشی کروں گی زینت نے کہا اور میں ایک بار پھر میزائل پر حملہ کر دونگی ۔۔۔ وہ ایک دوسرے ٹکرا کر ہنس رہی تھی باجی نے کہا کہ چلتے ہیں میں اٹھا تو یہ دونوں بھی اپنی بڑی چادریں اوڑھنے لگیں باجی باہر ی گئی میں نے ان کی طرف دیکھ کر کہا تم یہیں رکو تمھارا وہاں کوئی کام نہیں تم یہیں ٹھہرو زینت بولی ہم جائیں گے سائقہ نے کہا میری امی کی عزت کو خطرہ ہے ہم اسے اکیلے آپ کے ساتھ نہیں جانے دیں گے میری امی کو کچھ کر دوگے تم پھر دونوں قہقہے لگاتی باہر نکل گئیں جہاں سے شہر کا سفر تقریباً تیس منٹ کا تھا میں باجی سے باتیں کرتا جا رہا تھا اور پیچھے بیٹھی زینت اور سائقہ خطرہ ہے بہت ۔۔۔ حالات خراب ہیں حملہ ہو جائے گا کہہ کر ہنستی جا رہیں تھیں مین روڈ آتے ہی میں نے سپیڈ بڑھا دی میں نے باجی سے کہا کہ میٹرک کے بعد سائقہ کو ہمارے شہر کے کالج میں داخلہ دے دینا وہاں پڑھائی بہت اچھی ہے بولی بہت دور ہے کیسے آئے گی جائے گی میں نے کہا یہ کوئی مسئلہ نہیں گرلز ہاسٹل میں رہ جائے گی جہاں دوسری سینکڑوں لڑکیاں رہ رہی ہے بولی پہلے میٹرک تو کر لے پھر دیکھیں گے باجی نے مارکیٹ سے زینت اور سائقہ کے لئے دو سوٹ پسںد کئے جو نارمل تھے اور ان دونوں کو پسند نہیں تھے جو سوٹ یہ پسند کر چکی تھی وہ مہنگے تھے اور باجی نے انکار کر دیا تھا کہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں میں نے باجی سے کہا کہ آپ سوٹ ان کی پسند کے لے لیں پیسے میں دے دیتا اس نے انکار کیا پھر میرے اسرار پھر خاموش ہو گئی میں نے پیسے دینے چاہیے تو سائقہ نے کہا آپ نہیں دیں صبح والے یہ چھ ہزار اور باقی امی والے پیسے دے کر لے لیتے ہیں صبح جو میں نے سو والے نوٹوں کی گڈی زینت کو بانٹنے کے ساتھ دی تھی اس میں چھر ہزار کے لگ بھگ سائقہ کے پاس موجود تھے میں نے خامشی سے سائقہ کو پیسے بوبز میں ڈالنے کا اشارہ کیا ایک سوٹ میں نے باجی کے بھی خرید لیا جس پر وہ بہت خوش ہو گئی واپسی پر میں نے باجی سے کہا کہ دلہن کو لے جاتے وقت اگر گاڑی میں جگہ باقثنہ رہی تو آپ ادھر بیٹھ جانا میں پھر آ کے آپ کو لے جاؤں گا بولی میں کل ولیمے پر آؤں گی آج بہن کے پاس رکوں کی میں نے کہا اوکے پھر ولیمے کے وقت میں آپ کو لے جاؤں گا پیچھے بیٹھی سائقہ بولی ہم دونوں بھی ساتھ آئیں گی پھر وہ ہنسنے لگیں باجی کو دلہن کے گھر ک، گیٹ پر اتارا اور گاڑی زینت کے گاؤں کی طرف موڑی تو چار بج چکے تھے نعمت کی کال آنے لگی میں نے بتایا کہ ہم پہنچنے والے ہیں وہاں پہنچے تو ایک بس اور ایک ڈاٹسن آئی ہوئی تھی نعمت شہر سے گاڑی سجانے کا سامان لایا تھا ایک لڑکے نے گاڑی پر ڈیکوریشن کر دی بس ڈاٹسن باراتیوں سے بھری کھڑی تھی پھر زینت کی امی سائقہ اور زینت تیار ہو کر آ گئی زینت اور سائقہ آج بھی بہت پیاری لگ رہی تھی فٹ لباس پر چادر اوڑھے وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئیں نعمت کہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہی میں نے گاڑی آگے بڑھا دی اور اس کے ساتھ بس اور ڈاٹسن بھی پیچھے آنے لگیں رات آٹھ بجے واپسی ہوئی نعمت میرا کھانا اس لکی کوٹھڑی میں لے آیا تھا میں نے ہلکا سا کھانا کھایا اور کچھ دیر نعمت سے باتیں کیں زینت کا ابو اسے بلانے آیا تھا میں نے پانی کا ایک جگ اس سے منگوایا جب وہ پانی لیکر آیا تو میں نے شاپر سے مٹھائی کا ایک ڈبہ پہلے نکال لیا اور باقی شاپر میں پڑے تین ڈبے اسے دے دئیے کہ اپنی ساس کو دے دو میں نے اسے کہا کہ اگر کنڈی بند ہو تو میں سو جاؤں گا مجھے نہیں جگانا وہ اوکے کہہ کر چلا گیا مٹھائی کے پانچ ڈبے میں نے شہر سے لے لئے تھے ایک ڈبہ سائقہ کی امی کو دے دیا تھا رات گیارہ بجے گلی میں کافی خامشی ہو گئی تھی میں موبائل تھامے فیسبک پر گردش کر رہا تھا سائقہ کا میسج آیا کہ ہم مہمانوں کے ساتھ سو رہی ہیں آپ بھی رضائی میں لپٹ کر مزے کی نیند کرو صبح ہمارا دیدار کر کے دل بہلا لینا میں نے ریپلائی دیا کہ نیند ہماری قسمت میں کہاں ہے آپ کی امی کو لے آیا ہوں آج رات اس کی خدمت میں گزر جائے گی سائقہ نے ھاھاھا کا ریپلائی دیا کچھ دیر بعد گودام کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔(جاری ہے)

        Comment


        • #5
          واہ جناب گاؤں کے ماحول کی کیا خوبصورت منظر کشی کی ہے ۔اور بیچ بیچ میں جو سیکس کا تڑکا لگتا ہے وہ کمال کا ہے۔

          Comment


          • #6
            قسط نمبر 04

            میں چارپائی سے اٹھ کر کھڑکی کے پاس چلا گیا گودام سے زینت اور سائقہ کی مدھم سی آوازیں آ رہی تھی میں نے اپنی سائیڈ سے کھڑکی کی کنڈی کھول دی دوسری طرف سے بھی کنڈی کھل چکی تھی سائقہ کے بعد زینت بھی اندر آ چکی تھی لیکن میں نے پہلے آنے والی سائقہ کو باہوں میں بھر کے آنکھیں بند کر لی تھی سائقہ نے بھی اپنی باہیں میرے گرد لپیٹ لیں وہ میرے سینے پر کسنگ کرتے ہوئے بولی کہ آج مجھے قتل کرو گے ناں ؟؟۔ میں نے سائقہ کا چہرہ اوپر پھیر کر اس کے گالوں کی مکھن جیسی نرمی کو اپنے منہ میں بھرتے ہوئے کہا آج تو آپ کو میزائل مار کر دو ٹکڑے کر دونگا۔۔۔ سائقہ نے پیار بھرے انداز میں اپنی بڑی پلکیں تھوڑی بند کرتے ہو چپپپپپ کی آواز کے ساتھ مجھے کس کرتے ہوئے بولا تو جلدی کرو ناں ۔۔۔۔ پیچھے ٹھہری زینت نے اس کے پونی میں جکڑے بالوں کو کھینچ کر کہا اب قبضہ نہیں کرو ۔۔۔ یہ میرا یار ہے میں نے زینت کو پیچھے پیچھے کرتے ہوئے کہا تم نے اپنا کھلایا مکھن صبح نکال لیا تھا اب صرف ایسے دیکھتی رہو گی جیسے صبح سائقہ دیکھ رہی تھی سائقہ نے وشششش کرتے ہوئے مجھے اپنی باہو میں مذید زور سے جکڑا اور اپنی ایڑیاں اٹھاتے ہوئے تھوڑی اوپر ہوئی اور اس کے بوبز میرے پیٹ سے رگڑا کھا کر میرے سینے کے نچلے حصے تک آ گئے اور صبح سے شل ہونے والے ببلو کی جان میں جان آنے لگی سائقہ کی ٹائٹ پاجامے میں جکڑی ٹانگیں میری ایک ٹانگ پر سانپ کی طرح لپٹی ہوئی تھی زینت کی نگاہیں میرے ہاتھوں پر تھی جو زور زور سے سائقہ کے بھاری ریشم جیسے ہپس کو اپنی لپیٹ میں لے لے کر مسل رہے تھے میں نے سائقہ کو کسنگ کرتے ہوئے اپنی باڈی سے آہستہ آہستہ الگ کیا زینت آگے بڑھ کر میری چھاتی پر زور کا مکا مار کر شکوے بھری نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگی میں نے زینت کو آنکھ مار دی وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر میری پینٹ کا بلٹ کھولنے لگی زینت مجھے پیارے سے دیکھتے اپنے ہونٹوں پر آنے پانی کو صاف کر رہی تھی زینت نے پینٹ اور انڈروئیر میری ٹانگوں سے کھینچ لی سائقہ کھڑکی کے پردے کو ہٹاتی ہوئی ہوئی جھک کر گودام میں کچھ دیکھنے لگی تھی اس کی قمیض آدھے ہپس تک اٹھ گئی تھی موٹے ہپس کے ساتھ پتلی کمر کا یہ نظارہ دیکھ کر میرے لبوں سے آہہہ نکلی سائقہ اس طرف سے کھڑکی کو کنڈی لگا کر واپس آ گئی زینت نے میری انڈروئیر نیچے کھینچی لی ببلو بھوکے بھیڑیے کی طرح ہچکولے کھاتے باہر آ گیا زینت انڈروئیر میرے پاؤں سے نکالنے لگی اور سائقہ کا ہاتھ بھوکی بلی کی طرح ببلو کو طرف جھپٹا ریشم جیسے بھرے بھرے گورے چھوٹے ہاتھوں کا لمس پا کر ببلو فراٹے بھرنے لگا سائقہ کی انگلیاں آپس میں نے مل رہی تھی وہ مسلسل وشششش وشششش کر رہی تھی اور دوسرے ہاتھ سے اپنے بوبز مسلنے لگی تھی صبح گاڑی میں زینت کا زوردار شارٹ دیکھ کر نہ صرف سائقہ کا سارا خوف ختم ہو گیا تھا بلکہ اس کی پیاس اس حد تک بڑھی ہوئی تھی اکثر سارا دن والے بار بار اپنی ببلی پر ہاتھ رکھتی رہی تھی زینت نے سائقہ کی ہاتھ سے آگے ببلو کو اپنے ہاتھ میں لیکر اس کی ٹوپی پر اپنے لپس رکھ دئیے سائقہ لرزتے جسم کے ساتھ کبھی مجھے اور کبھی ببلو کو چوستی زینت کو دیکھ رہی تھی میں نے سائقہ کو کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کر لیا سائقہ کہ گلے میں لٹکے دوپٹے کو ٹیبل پر رکھا اور اس کے ہپس پر تھپکی دیتے ہوئے اس کے چہرے کو اوپر کر کے اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں جڑ لیا سائقہ کے بوبز پر پھرتا میرا ہاتھ سائقہ نے پکڑ کر دو بار اپنی ببلی پر رکھا وہ زینت کی طرح کھلی ہمت نہیں کر پا رہی تھی لیکن زینت سے زیادہ ہاٹ ہو چکی تھی میں نے اس کی قمیض کے دامن پکڑ کر اوپر اٹھانا شروع کر دئیے تھے پتلی کمر سے قمیض کے ساتھ سائقہ کی شمیض بھی اوپر آ رہی تھی بوبز کے آنے تک میں سائقہ کے چھوٹے پیٹ کو دکھ رہا تھا جو شدت جذبات سے بل کھا رہا تھا اور لرزتے جسم کے ساتھ سسکیاں لے رہی تھی مجھے زینت کے منہ بھر بھر کے ببلو کے چوسنے سے زیادہ سائقہ کے شفاف نازک جسم کو ہاتھ لگانے اور اسے دیکھنے میں مزہ آ رہا تھا قمیض سائقہ کے بوبز پر آ کر رک گئی تھی میں نے اپنا بایاں ہاتھ سائقہ کی قمیض میں رگڑ کر ڈالا اور باری باری دونوں اس کے دونوں بوبز کر پکڑ کر قمیض کی جکڑ سے آزاد کیا سیاہ کلر کا بریزر بھی قمیض سے محبت نبھاتا اس کے ساتھ اوپر کو اٹھ گیا تھا میں نے سائقہ کی قمیض کو ادھر ہی چھوڑ دیا اور اس کی کمر پر ہاتھ ڈال کر اسے اپنی طرف کھنچ لیا میں نے سائقہ کے گلابی تنے ہوئے نپلز پر ہونٹ ٹکائے تو بھی سستے ہوئے بولی جلدی کروووووو سائقہ نے اپنی قمیض اپنے کندھوں سے اتار کر بریزر اور شمیض بھی دور پھینک دی زینت نے اٹھ کر ایک منٹ میں اپنے کپڑے اتار دئیے میں سائقہ کے بوبز کے درمیان کسنگ کرکے اپنی آنکھوں کو اس کے نرم و نازک ریشمی بوبز پر دبا کر اپنی پوری پیاس بجھانے کی کوشش کر رہا تھا زینت مجھے پیچھے دھکیل رہی تھی میں سائقہ کو پتلی کمر سے پکڑے ساتھ لا رہا تھا میرے دونوں ہاتھ سائقہ کی کمر کے گرد لپتہ ہوئے تھے جس سے انگوٹھے اور میری انگلیاں تقریباً آپس میں ملے ہوئے تھے سائقہ کے پاجامے پر لاسٹک سے تھوڑا آگے گولائی میں گھومتی نیچے تک لکیر بنی ہوئی تھی میں سوچ رہا تھا کہ آج بستی کے جس مرد نے بھی سائقہ کو دیکھا ہو گا وہ اسے کسی طریقے ضرور چودے گا میں چارپائی پر بیٹھتے ہوئے سائقہ کے پاجامے سے ہپس کو آزاد کرنے لگا تھا زینت نے مجھے لٹاتے ہوئے مجھے پیار سے دیکھ کر بولا صبر اور پھر اپنی انگلیوں پر تھوک لگا کر اپنی ببلی پر پھیرا اور ببلو کو ڈنڈے سے پکڑ کر اس کی ٹوپی کو ببلی کے منہ پر ٹکا کر افففف اففف کر کے دو جھٹکوں میں پورا ببلو ببلی میں چھپا لیا میں اپنے سر اٹھائے گھوڑی بنی سائقہ کے ہپس اس کے ٹائٹ پاجامے سے آزاد کر چکا تھا میں بار بار اس کی ہپس کو منہ بھر کر چوس رہا تھا اور ساتھ پاجامے کو اس کی ٹانگوں سے کھینچتا چلا گیا پاجامہ الٹا ہوتے ہوئے اس کی ٹانگوں خو آزاد کر چکا تھا آج زینت ایک بار پھر سائقہ کے مقابلے میں سانولی نظر آ رہی تھی زینت تالی جیسی آواز کے ساتھ زور کے جھٹکے مار رہی تھی اور ساتھ سائقہ کے اتنے خوبصورت جسم کو دیکھ کر قدرے حسد زدہ چہرہ بنا رہی تھی سائقہ اتنی ھاٹ ہو چکی تھی کہ زینت کے جھٹکے کے ساتھ وہ بھی اسی زور سے ہپس ہلا رہی تھی اور میں زینت کے اندر پورا آتے جاتے ببلو سے بے نیاز اس کے ہپس کو چوسنے کا مزہ لے رہا تھا زینت آخری لذت بھرے لمحوں کی طرف بڑھ رہی تھی اور اس کے زور دار جھٹکوں سے چھوٹی چارپائی تین جسموں کا وزن اٹھائے اوپر نیچے ہو کر ہلکی سی چیں چیں کر رہی تھی زینت آنکھیں بند کرتے اکڑے جسم کے ساتھ کمر کو بل دیتی جھٹکے روک چکی تھی میں نے سائقہ کی ہپس پر تھپکی دی اور سیدھی بیٹھ کر سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھ کر پوچھ رہی تھی کہ کیا کرنا ہے زینت پورا ببلو اندر لے کے مجھے جکڑے میرے اوپر پڑی تھی میں نے زینت کے ہپس اوپر اٹھا کر ببلو نکال لیا اور زینت کو سائقہ کی طرف چارپائی پر سرکا دیا میں بیٹھ کر ٹیبل سے چھوٹی بےبی لوشن اٹھا لی جو میں ان کے ساتھ شہر سے لایا تھا سائقہ گھٹنوں کے بل بیٹھی لرزتے اور باڈی سے گرم لہریں چھوڑتی میرے آرڈر کی منتظر تھی میں نے بہت سا لوشن پورے ببلو پر لپیٹ کر اسے قدرے سفید کر دیا میں تکیے کے اوپر سر ٹکا کے سائقہ کی کمر سے پکڑ کر تھوڑا آگے کیا سائقہ نے سوالیہ انداز میں مدھم لرزتی آواز میں بولا ۔۔اووپرر میں نے ہس کہہ دیا سائقہ نے لرزتے جسم اور پل کھاتے پیٹ کے ساتھ اپنی ایک ٹانگ میرے اوپر سے چارپائی پر دوسری طرف رکھ دی زینت کہنیوں کے سہارے تیز سانسوں کے سر اوپر اٹھا لیا تھا اور یہ خوبصورت نظارہ دیکھنے لگی بہت سخت ہوتے اور فراٹے بھرتے ببلو کی ٹوپی تک ببلی کے منہ کو لانے کے لئے سائقہ کو اپنی ٹانگیں تقریباً کھڑی کرنی پڑیں تھیں میں ایک بار پھر لوشن نکال کے ببلو پر لگایا اور ایک فنگر پر لوشن لگا کر تیزی سے سائقہ کی لکیر کے بیچ پھیر دیا اس نے سسکی کے ساتھ آئی کی آواز نکالی ببلی کی لکیر کو ٹوپی تک لانے تک ببلو کپ ٹوپی سائقہ کی آپس میں ملی رانوں کے بیچ رگڑ کر جا رہا تھا سائقہ تیز کانپنے لگی تھی وہ آہستہ آہستہ بیٹھنے لگی تھی میں ٹوپی کے نیچے ڈنڈے پر لوشن کی بوتل خالی کر رہا تھا ببلی کے ہونٹوں کے بیچ ٹوپی جانے پر سائقہ نے ٹھنڈے احساس کے ساتھ پر سکون وشششش کی آواز نکالی اور چہرہ اوپر اٹھا کر آنکھیں بند کر لیں اس نے اپنے ہاتھ میرے پیٹ پر ٹکائے ہوئے تھے ببلو سائقہ کی رانوں میں سیاہ کوا دیکھائی دے رہا تھا وہ بہت محتاط انداز میں ببلو کو اندر لیتی جا رہی تھی ببلی کی منہ میں داخل ہوتے لوشن میں لپٹے ببلو نے سلپ ہو کر تھوڑا آگے کی راہ لی بند آنکھوں کے ساتھ سائقہ کے چہرے پر درد کے آثار نمایاں ہو رہے تھے سائقہ کے جسم کا لمس پا کر ببلو کچھ زیادہ پھولنے کے سختی بھی پکڑ چکا تھا ببلو اپنی ٹوپی سمیت تین انچ تک سائقہ کی ریشم جیسی سلکی نرم اور شہد جیسی میٹھی بلی میں جا چکا تھا سائقہ نے میرے پیٹ پر رکھے ہاتھوں پر دباؤ بڑھا کر اپنے ہپسبکو آہستگی کے ساتھ اوپر نیچے حرکت دینی شروع کر دی تھی سائقہ نے گزشتہ شب کی کاروائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چار انچ اندر لے چکی تھی وہ چاہتی تھی کہ زینت کی طرح پورا ببلو اپنے اندر چھپا کر زور سے ہپس کو چلا کر تالی جیسی آواز کے ساتھ جھٹکے مارے لیکن اندر لینے کے بعد وہ جیسے بے بس ہو چکی تھی اور کبھی کبھی آنکھیں کھول کر زینت کو ان نگاہوں سے دیکھتی جیسے کہہ رہی ہو کہ زینت اتنا کیسے لے لیتی ہو سائقہ سترہ برس کی تھی اور زینت سے دس ماہ بڑی تھی لیکن سائقہ لوگ زینت لوگوں سے زیادہ خوشحال تھے سائقہ کا ابو قطر میں تھا اور بھائی بھی کراچی میں کوئی کام کرتا تھا اور زینت کا بھائی اور باپ کسی اور کی زمینوں پر محنت مزدوری کرتے تھے اور اسی وجہ سے زینت سکول نہیں پڑھ سکی تھی اور اس کی سولہ برس کے ہونے سے بھی کچھ پہلے نعمت سے شادی کر دی تھی گو اب زینت میری دوستی کے بعد کافی ماڈرن اور خوبصورت ہو گئی تھی لیکن سائقہ اپنے بھائی کی طرح ماں بال کے ہاتھوں نازوں سے پلی تھی اور وہ سائقہ کو سکول کے بعد کالج اور آگے بھی پڑھانا چاہتے تھے سائقہ اب ذرا آسانی سے اندر باہر کر رہی تھی میں اس کے خوبصورت مکھن کے پیڑوں جیسبوبز کو ہاتھوں میں پوری طرح بھر کے انجوائے کر رہا تھا میں نے محسوس کیا کے سائقہ کے جوشِ میں اضافے کے ساتھ اس کی ٹانگیں قدرے تھک چکی ہیں تو میں نے اس وقت سے پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی میں نے ایک بار پھر اپنے ہاتھ پر بہت سا لوشن لگا کر ببلو کے باہر کھڑے ترستے حصے پر لگا دیا اور سائقہ کے ہپس پر تھپکی دیے کر اسے تیز ہونے کا بولا سائقہ کی ٹانگیں ایسے جھک کر بھاری ہپس کو اوپر نیچے چلا کر تھک چکی تھیں اور اس وقت ببلی اوپر نیچے ہوتے وقت اپنے نشانے سے تھوڑی عدم توازن کا شکار ہو رہی تھی میں نے سائقہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افففففففففف۔۔۔ میں نے سائقہ کے ہپس پر تھوڑا زور کا تھپڑ مارا جس سے اس نے سپیڈ ذرا تیز کر دی اور ایک وقت میں اس کے اٹھتے ہپس کو ٹانگوں نے چھوڑ دیا اس کے ہپس نیچے آتے ھوئے لوشن سے چکنے ببلو کو اپنی برداشت سے زیادہ ببلی میں اتار دیا آ آ آ آ آ آ آ کی لمبی آواز کے ساتھ سائقہ کے چہرے پر درد کے گہرے اثراث کے ساتھ اس کے چہرے پر پسینے کی ننھی بوندیں ظاہر ہو گئی وہ گھٹنوں پر زور لگا کر اپنے ہپس اوپر اٹھانا چاہتی تھی لیکن اس کی ٹانگیں اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی اور ساتھ میں نے سائقہ کے ہپس کو ادھر ہی پکڑ لیا ببلو اپنی تمام تر موٹائی کے ساتھ سات انچ اندر جا چکا تھا سائقہ کے بوبز اپنی گلابی بپلز کی بہار کے ساتھ تن گئے تھے سائقہ کا جسم میری کھڑی ٹانگوں کے ساتھ پھنس کر ببلو کی جڑ کے تقریباً اڑھائی انچ باہر چھوڑے اٹکا ہوا تھا وہ سر جھکائے بری طرح لڑکھڑا کانپ رہی تھی اس کا منہ کھلا ہوا تھا اور وہ مکمل خاموش تھی اس حالت کو انجوائے کرتے ہوئے زینت نے لمبی سے وششششششششششش کی آواز نکالی زینت کبھی سائقہ کی ببلی میں پھنسے ببلی کو دیکھتے تو کبھی حیرت سے سائقہ کے چہرے کو سائقہ کے آنسوؤں میرے سینے کے نچلے حصے پر گرنے لگے تھے ستر روپے کی لوشن کی چھوٹی سی ڈبیہ نے آج تھوڑی ہی دیر میں وہ کام کر دیا جس پر شاید مجھے ہفتہ لگتے آج مجھے صحیح مانوں میں یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ اس کو بےبی لوشن کیوں کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔میں سائقہ کے ہپس کے وائٹ میٹ۔۔۔۔۔۔ کو ہاتھوں میں بھرا ہوا تھا میں آخری لمحات کی طرف بڑھنے لگا تھا میں نے سائقہ کے فل بھرے ہپس کو تھوڑا اپنی طرف کھینچا اور اپنی کمر کو بل دیکر ہلکا سا جھٹکا دیا لوشن نے ببلو سے جیسے رشوت لے رکھی ہو ببلو آگے پھسل گیا تھا ۔۔۔۔ سائقہ کی ساری ہمت جواب دے گئی تھی اور وہ منہ میرے پیٹ پر رکھے اپنے ہاتھوں کو چارپائی پر پھسلا کر میرے اوپر گر گئی تھی سائقہ کا سر میری تھوڑی کے نیچے آ گیا تھا اور اس کے بال میرے لبوں پر لگنے لگے تھے میں اس کو ہپس سے پکڑ کر اپنی طرف کھنچے ساکت پڑا اسغکے براؤن بالوں کو ہلکی ہلکی کس کر رہا تھا جب سائقہ تھوڑی نارمل لگنے لگنے لگی تو میں اپنی کمر کو تھوڑا بل دے کر ببلو کو کو تھوڑی حرکت دینے لگا سائقہ کی سسکیاں نکلنے لگی تھی اور لڑکی کی ایسی سسکیاں میرے دل کو بہت بھلی لگتی ہیں بظاہر بھرے جسم والی سائقہ میرے اوپر پڑی مجھے ریشم کی گٹھری محسوس ہو رہی تھی اور میں اس کے نازک ملائم جسم کو ہر انگ سے پکڑ کر اپنا مزہ دوبارہ کر رہا تھا چاہے کہ سائقہ کے لئے یہ اپنے اندر خنچر بن کے اترا تھا لیکن ببلو اپنے آپ کو نفیس ریشمی دیواروں میں پھنسا محسوس کر رہا تھا سائقہ نے چارپائی سے قدرے اٹھی میری کمر کے نیچے اپنے ہاتھ لیجا کر ناخنوں سے نوچتے ہوئے مجھے اوپر کھینچ رہی تھی جان نکال دینے والے درد نے سائقہ کی ٹائمنگ بڑھا دی تھی ورنہ ببلو کے چار انچ حصے کو اندر لیتے ہوئے وہ کافی دیر پہلے آخری لمحات کی طرف بڑھ کر تیزی پکڑ رہی تھی لیکن اس کے بعد ایک دم سے ببلو کے اندر چلے جانے سے اس کے ہوش اڑ گئے تھے میں صرف دو انچ کو آرام سے اندر باہر کر رہا تھا انہہ انہہ کی سینے سے نکلنے والی درد بھری آواز میں سائقہ درد بھرے مزے میں آخری لمحات کو بڑھ گئی تھی اس نے آئی آئی آئی کی آواز سے جسم کو اکڑا لیا تھا وہ بند آنکھوں سے سر کو توڑا اوپر اٹھا کر پانی پینے والے انداز میں اپنے ہونٹوں کو ہلانے لگی میں اب بھی ہلکے جھٹکے دے رہا تھا مجھے جسم کی رگوں میں اکڑاہٹ محسوس ہونے لگی میں نے سائقہ۔۔۔۔۔۔ کے ہپس پر تھپکی دے کر کہا کہ تھوڑا اٹھ جاؤ ۔۔۔ اس کے چہرے پر درد کی لکیریں ظاہر ہو رہی تھی اور وہ آہستہ آہستہ آئی ۔۔۔۔۔۔۔ آئی ۔۔۔۔۔ کرتی اپنے ہپس اوپر اٹھا رہی تھی پھر اس نے آنکھیں کھول کر ببلو کی ٹوپی کو ببلی کے ہونٹوں سے نکلنے کا دلکش نظارہ دےکھا اور جسم کو ڈھیلا چھوڑتے ہوئے زینت کی ٹانگوں پر الٹی لیٹ گئی اوپر کو اٹھے سائقہ کے سفید ریشم کی گٹھری جیسے ہپس مجھے رات کے دوسرے شاٹ کی یاد تازہ کرتے ہوئے مجھے اپنی طرف بلانے لگے اور ان کا نظارہ کرتے ہوئے میں اٹھنے لگا تھا میرے ہاتھ خودبخود لوشن کی ڈبیا ڈھونڈ رہے تھے زینت نے سائقہ کے ہپس پر چٹاخخخخ سے زور کا تھپڑ لگایا اور بولی بہانے نہیں بناؤ سیدھی لیٹو ابھی آدھا کام باقی ہے سائقہ نے ہپس کو ملتے ہوئے غصے سے زینت کی طرف دیکھا اور غمزدہ زخمی لہجے میں بولی میں بہانے بنا رہی ہوں ۔۔۔؟؟؟ زینت بولی بہانے نہیں تو اور کیا ہے خون تو نکلا نہیں ۔۔۔۔ سائقہ بولی خون میں نے روکا ہے پھر کیا ؟؟؟؟ میں تیز سانس لیتے ہوئے فخر سے اکڑے ببلو پر لوشن لگاتا مسکرا رہا تھا زینت مجھے آنکھ مار کر بولی دیکھو سیل کسی اور سے تڑوائی اور عشق تم پر وار رہی ہے میں میں سائقہ کی طرف بڑھتے ہوئے بولا آپ نے بھی تو سیل نعمت سے تڑوا کر مجھ پر عشق جھاڑا ۔۔۔ سائقہ آنکھیں بند کئے الٹی لیٹی ہوئی ساکت ہو گئی زینت نے اس کے بوبز کے قریب ہاتھ رکھ کر بولی ۔۔۔ابھی زندہ ہے جلدی ڈالو ۔۔۔۔ میں سائقہ کے ہپس کو اپنے ہاتھوں سے الگ کر کے ببلو کو لکیر کے پاس لانے لگا سائقہ نے التجا بھرے لہجے میں میں کہا ادھر تو نہیں کرو لیکن میں نے ببلو کو ہول کے منہ پر رکھا تو وہ تڑپ کھا کر اوپر اٹھ گیا زینت بولی اففففففففف پیچھے ۔۔۔۔۔آئی آئی آئی کی آواز کے ساتھ سائقہ کی ہپس لرزنے لگے اور اس کی باڈی ہلکے جھٹکے کھانے لگی ببلو اپنی پوری سختی کے ساتھ ہپس کے بیچ نرمی سے اتر رہا تھا مجھے کے یہ لمحات میں انرجیاں بڑھا رہی تھی سائقہ نے چہرہ اوپر اٹھا لیا تھا وہ منہ اور آنکھیں کھولی سسک کو بولی بس کرو میں نے دیکھا جیسے اس کی زبان باھر آنے لگی تھی تقریباً پانچ انچ ببلو گرم وادی میں اتر چکا تھا میں نے ہپس کو اپنے ہاتھوں کی گرفت سے آزاد کیا تو وہ ایک دم ببلو کر گرد لپٹ گئے ۔۔۔ زینت نے اپنے ہاتھوں سے سائقہ کے۔کندھے پکڑ کر مجھے کہا کہ میں پکڑتی ہوں اس کو آپ زور سے پورا ڈال دو سائقہ نے اس کے ہاتھ جھٹک کر دردِ میں ڈوبی آواز میں کہا تم تو ہٹ جاؤ۔۔۔۔۔۔ زینت نے میرے ہاتھوں کے پاس سائقہ کے ہپس پر تھپکی دے کر بولا کیسے نئے فینسی سوٹ مواس کو مٹکا مٹکا کے چل رہی تھی ۔۔۔ اب بتا بچی مفت کے سوٹ پہننا اتنا آسان بھی نہیں میں مسکراتے ہوئے تھڑا آگے سائقہ پر جھک گیا اور لذت کے آخری لمحات کو مسکراتے ہوئے آنکھیں بند کرکے انجوائے کرنے لگا میرے بازو اکڑ کر سائقہ کی کمر توڑنے لگے چلو بھر پانی گرنے سے سائقہ کی اونہہ اونہہ بند ہو گئی تھی کوٹھڑی میں کچھ دیر کی پرسکون خاموشی کے بعد زینت ہنسنےگ گئی وہ اس سائقہ کے گالوں کو چٹکی میں بھر کر ہسے جا رہی تھی میں ببلو کو آہستہ سے نکال کر سائقہ کو گلے لگا کر لیٹ گیا زینت نے ہنستے ہوئے ایک بار پھر سائقہ کے کے ہپس کو ہلکا تھپڑ مار کے بولی کل اگر تم ولیمے میں مٹکا کے۔چلتی نظر آئی تو میں سب کو بتا دونگی سائقہ مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ کر اپنی سائیڈ بدلی اور اور رضائی اوپر ڈال دی زینت کی جگہ نہیں بچی تھی وہ ابھی تک چارپائی پر سرہانے والی سائڈ پر بیٹھی مسکرا رہی تھی زینت نے سائقہ کے چہرے سے رضائی اٹھا کر بولی اچھا بتاؤ تو خون کی قربانی کہاں دی تھی سائقہ نے کہا آپ نے کہاں دی تھی زینت فوراً بولی نعمت کے نیچے ۔۔۔اب تم بتاؤ ۔۔ سائقہ نے میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا بس میرا ایک بن گیا دوسرا کوئی نعمت بھی نہیں بنے گا میرا ۔۔۔ زینت نے سائقہ کو اپنی طرف کھینچ کر پھر کہا بچی اب اس پر اپنا قبضہ نہیں جماؤ مجھے سونے دو بیچ میں سائقہ نے رضائی کو پکڑتے ہوئے کہا اپنے گھر جا کر سو ادھر جگہ بھی نہیں ہے ۔۔۔ میں نے زینت سے مٹھائی کا ڈبہ اٹھانے کا بولا اس نے ڈبہ کھول کر ایک جامن میرے ہونٹوں کے پاس لے آئی میں نے آدھا کھا لیا باقی آدھا زینت کا ہاتھ پکڑ کر اسی کے ہونٹوں پر لگا دیا اس نے یہ کھا کر ایک اور اٹھایا اور سائقہ کے لبوں پر رکھتے ہوئے بولی سہاگ رات مبارک ہو سائقہ ہنس دی پھر اس نے ایک اور رس گلہ اٹھا کر رضائی کے اندر سائقہ کے بوبز پر مل دیا میں نے رضائی ہٹا کر دیکھا رس گلے کے ٹکڑے شیرے کے ساتھ دونوں بوبز اور ان کے درمیانی لکیر کے اندر تک لگے ہوئے تھے سائقہ نے غصے سے بولا یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔۔ زینت ہنسے جا رہی تھی میں نے سائقہ سے کہا غصہ نہیں کرو ےہ ابھی پچتائے گی کہ میں اپنے بوبز پر رس گلہ رگڑ دیتی میں سائقہ کے بوبز پر جھک کر ان کو چوسنے لگا زینت کچھ دیر مسکرانے کے بعد سنجیدہ ہوتی ہوئے ڈبے سے ایک اور رس گلہ نکالا اور رضائی ہٹا کر میرے ببلو پر مل دیا میں نے نہیں روکا اور سائقہ کے شہد سے میٹھے بوبز چوستا رہا زینت سائقہ کے اوپر لیٹ کر خاموشی سے ببلو کو چوسنے لگی سائقہ میرے سر کو پکڑ کر اپنے بوبز میں دبا رہی تھی بوبز صاف ستھرے ہو گئے تھے میں نے ببلو کو زینت کے بھرے منہ سے نکالا اور سائقہ کی ٹانگوں کے درمیان آ کر سائقہ کے ہپس پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا تھا کوئی ایک گھنٹے بعد میں زینت کی رانوں سے پکڑ کر رک چکا تھا زینت لمبی سانسیں لیتے ہوئے اپنے پیٹ میں گرنے والے مادے کو انجوائے کر رہی تھی اور میں دل میں عہد کر رہا تھا کہ اس بار وقفے کی میڈیسن نہیں لینی سائقہ کچھ دیر پہلے سو گئی تھی اور اس کا چہرہ رضائی سے باہر تھا میں تھوڑا پیچھے ہٹ کر ببلو کو سنھبال رہا تھا اور زینت کی آنکھیں مدہوش انداز میں بند ہو رہی تھی میں چارپائی پر ان دونوں کے پیڑوں کی طرف دیوار سے ٹیک لگ کے بیٹھ گیا میں نے اپنی ٹانگیں لمبی کر لیں اور ان دونوں کی ٹانگوں کو آہستگی سے اپنی ٹانگوں پر رکھ دیا میں نے موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا 4:40 بج گئے تھے میں نے فیسبک کھول لی ساڑھے سات بجے سائقہ کی آنکھ کھل گئی اور مجھے بیٹھا دیکھ کر اٹھ بیٹھی اور پوچھا آپ نہیں سوئے ۔۔۔۔۔۔ میں نے سائقہ کے ہاتھ کو کس کر لی اور آئی لو یو بول دیا سائقہ نے میری گود میں سر رکھ دیا میں نے سر کو رضائی کے اندر کرکے اسکا سر اپنی گود میں رخھ دیا اور رضائی کے اوپر سے تھپکی دینے لگا اس نے ببلو کو دو بار چپپپ کی ہلکی آواز کے ساتھ چوم لیا زینت اٹھ گئی تھی اور پھر رضائی کو ایک دم سائقہ کے اوپر سے ہٹا کر بولا بچی فیڈر تو نہیں پی رہی ۔۔۔۔ سائقہ کھلکھلا کر ہنس دی تو اپنی انگلی منہ میں لے کر زینت کے ببلو چوسنے کا سٹائل بنانے لگی اور زینت سائقہ کے کھلے منہ کا سٹائل بنا کر سائقہ سے کہنے لگی اچھا بتاؤ سائقہ پیچھے سے گزر کر آپ کے گلے میں آیا ہوا تھا جو توں یوں منہ بناتی تھی ۔۔۔۔۔پھر سائقہ کے ہپس کو زور سے پکڑا اور داںت پیس کر بولی آج ان کو متکا مٹکا کے نہ چلنا نہیں تو کوئی اور ان پر چڑھ جائے گا شکر ہے میرے اتنے موٹے نہیں تھے ۔۔۔وہ فل موڈ میں ہنسی مذاق کرتے کپڑے پہن کر چلے گئے کچھ دیر بعد سائقہ نے آ کر کہا کہ پانی گرم کرکے باتھ روم میں رکھا ہے ۔۔۔۔ زینت اپنے گھر چلی گئی تھی میں نے سائقہ کو کچھ دیر گود میں بٹھا کر باہوں میں بھرا اور اسے کسنگ کرتا رہا آج ولیمہ تھا اور گلی میں اس وقت خوب ہلہ گلہ چل رہا تھا موبائل کی روشن سکرین نعمت کا نمبر شو کر رہی تھی سائقہ مین گیٹ کو باہر سے تالا لگا کر چلی گئی تھی میں نے غسل کرنے کے بہت دیر بعد نعمت کو کال کر دی اس نے کہا کہ ناشتہ گھر آ کر کرنا ہے میں نے اسے کچھ دیر بعد آنے کا کہا آج زینت کے گھر میں خواتین کا میلہ لگا ہوا تھا زینت مجھے ایک اور کچے کمرے میں لے گئی دونوں شہزادیاں ناشتے کی ٹرے لے کر آگئیں تھی زینت نے کنڈی لگا لی اور ناشتے کی ٹرے میرے آگے سیٹ کرتی جھکی سائقہ کے ہپس کو پکڑ کر مجھے دیکھتے ہوئے بولا آپ نے ان کا کوئی پرانا ویر دل میں پکڑا ہوا تھا جو اتنا برا حال کیا سائقہ بولی تو نے جو گاڑی میں حملہ۔کرکے پورا میزائل سسٹم تباہ کر دیا تھا کہ میرے یار کے سارے سگنل ہی غائب ہو گئے تھے وہ سر ٹکڑا کر ہنس رہی تھیں میں نے زینت سے بولا آج تو مکھن نہیں لانا تھا بولی کیوں ۔؟ میں نے کہا کہ میں تو ولیمے کے بعد چلا جاؤں گا تو توں اسے کیسے نکالے گی پھر سائقہ ایک دم بجھ سی گئی تھی اور اپنا سر جھکا لیا تھا زینت بولی۔آج رہ جاؤ کل اکٹھے چلیں گے میں نے گزشتہ روز آنے والی بیگم کی کال ریکارڈنگ سنائی جس میں وہ کہہ رہی تھی کہ تم تو گھر کو بھی بھول گئے ہو۔۔۔۔ زینت بولی اوکے ولیمے کے بعد ہم بھی آپ کے ساتھ چلتے ہیں سائقہ رونے لگی تھی میں نے اسے باہوں میں لیکر پیار کرنا شروع کر دیا ہچکی لے کر بولی آج نہیں جاؤ بس
            میں نے سائقہ کے گرد اپنا بازو لپیٹ لیا میں اسے سمجھا رہا تھا سائقہ نے اپنا بازو اپنی آنکھوں پر لپیٹ رکھا تھا زینت نے اس کر بازو ہٹا کر بولا اووو رنڈی تو تو پکس قبضہ جمانے چلی ہے سائقہ رو رہی تھی میں نے زینت کث خاموش رہنے کا اشارہ کیا زینت دودھ اٹھانے جا رہی تھی اور دروازے کے پاس رک کے میرا انتظار کر رہی تھی کہ میں سائقہ کو اپنی سے دور کروں تو وہ کنڈی کھولے میں نے سائقہ کو نارمل ہونے اور ساتھ والی چارپائی پر چلی گئی زینت کے جاتے ہی میں نے سائقہ کو سمجھایا کہ آج مہمانوں کے رش ختم ہونے اور تیری امی کے گھر آنے کے بعد ہمارا ملنی ویسے بھی ممکن نہیں ہو گا میں نے اسے کہا کہ آپ زینت کو نہیں بتانا فون پر میں آپ سے مسلسل رابطے میں رہوں گا آپ کو جیسے ہی کوئی مناسب موقع ملے میں فوراً آ جاؤں گا اور میٹرک کے بعد میں کوشش کروں گا کہ اپنے شہر کے کالج میں داخلہ۔کروا کر اپنی ساتھ رکھوں زینت کے آنے تک سائقہ مطمئن ہو چکی تھی ناشتے کے دوران زینت میری اور سائقہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ویسے پچھلے بکسے میں محبت کا کرنٹ کچھ زیادہ لگتا ہے سائقہ نے کہا نہیں گاڑی کا اسٹیرنگ پکڑ کو ٹرک پر بیٹھنے سے محبت زیادہ ہوتی ہے اور چوکبار چوسنے سے بھی زینت میری طرف دیکھ کے بولی ویسے رات والے حملے کے بعد آج اس کے پیچھے سے مٹکنے والی گٹھڑی کچھ اور موٹی ہو گئی ہے ۔۔۔۔ ناشتے کے بعد زینت کی امی آ گئی تھی اور وہ باتیں کرنے لگی تھی میں اسے کہا کہ آپ اور سائقہ۔کی امی بھی کبھی چکر لگا لیں پیچھے کھڑی سائقہ اور زینت آپس میں سرگوشیاں کرکے ہنس رہی تھی پھر سائقہ نے اپنی کہنی کو پکڑ کر اور ہاتھ کا مکا بنا کر بازو تو ببلو کی طرح اوپر نیچے ہلا کر بولا میری امی تو مشکل ہے وہ دونوں سر ٹکڑا کر قہقہے لگانے لگیں تھی زینت کی امی بولی پاگلوں کی طرح معمولی بات پر ہنستی جا رہی ہیں کیوں مشکل ہے جائے گی وہ بھی ۔۔۔ سائقہ نے اپنے بازو کو ایک بار پھر زینت کی امی کے پیٹھ پیچھے لہراتے ہوئے پوچھا خالہ آپ جائیں گی ؟؟؟۔ زینت کی امی بولی ہاں کیوں نہیں جاؤں گی جو عزت دے اس کو بھی عزت دینی چاہیے زینتِ سائقہ کے پیچھے ہاتھ لگا کے بولی تو تو عزت کو سمجھی بھی نہیں ہے ابھی تک۔۔۔۔۔ پھر سائقہ سنجیدہ ہو کر زینت کی امی کے پاس آ بیٹھی اور بولی خالہ میں نے رات کو بہت ڈرونا خواب دیکھا ہے ۔۔۔ بولی میں نے ایک بہت بڑا دہشتگرد ہمارے گھر میں آ جاتا ہے سائقہ نے اپنے بازو کو کہنی سے اوپر پکڑ کر بولا اس کے پاس اتنا بڑا خنچر ہوتے ہے وہ ہماری ایک دیسی مرغی پا حملہ کرتا ہے تو دیسی مرغی خود اڑ کر خنچر پر بیٹھ جاتی ہے اور ہنسنے لگتی ہے پھر دہشتگرد نے ایک برائیلر مرغی کو اشارہ کیا برائیلر مرغی خنجر پر بیٹھی ہے تو چلاتی ہوئی نیچے گر جاتی ہے وہ بری طرح زخمی ہوتی ہے برائیلر مرغی نیچے گری ہوتی ہے تو دہشتگرد اس پر پھر خچر سے حملہ خر دیتا ہے وہ چلانے لگتی ہے اور پاس کھڑی ہماری دیسی مرغی ہنستی جاتی ہے اور برائیلر مرغی اسے بہت غصے سے دیکھتی ہے پھر دہشتگرد کہتا ہے کہ میں ان دونوں مرغیوں کو کچا کھا جاؤں گا۔۔۔۔۔ پھر بولی خالہ خواب اچھا ہے برا ؟؟؟ خالہ سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی خواب میں خون خرابا دیکھنا اچھا نہیں ۔ مرغیاں زخمی تھی تو خون بھی ہو گا پیچھے کھڑی زینت ایک دم سے آگے آ کر بولی نہیں نہیں خون نہیں تھا ایک قطرہ بھی نہیں گرا ۔۔۔۔ میں بظاہر موبائل کی سکرین دیکھ کر مسکرا رہا تھا اور اور ہنسی کو بہت ضبط سے قابو کیا ہوا تھا زینت کی امی نے مجھے کہا کہ آ جاؤ آپ کو دلہن دکھاتی ہوں میرے دائیں بائیں دونوں تتلیاں چلتی جا رہی تھی دلہن دلکش نین کے ساتھ سر جھکائے خواتین کے ہجوم میں اپنے بیڈ پر تیار ہوئے بیٹھی تھی اس کی عمر اٹھارہ سال سے زیادہ نہیں تھی سرخ لہنگے میں ملبوس کا نام سونیا تھا اس نے بہت ادب سے مجھے سلام کیا باقی خواتین کمرے سے چلی گئی تھیں زینت کی امی کمرے کے دروازے پر ٹھہری خواتین سے باتیں کر رہی تھی دلہن بیڈ پر ایک طرف سمٹ کر مجھے بولی بیٹھو چاچا۔۔۔۔ زینت اور سائقہ آپس میں سر ملا کر منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسے جا رہی تھی دلہن آنے والی کسی بچی سے کوئی بات کرنے لگی تھی اور یہ دونوں مجھے دیکھ کر اپس میں سرگوشیاں کر رہی تھی زینت نے بولا بڑاخطرناک چاچا ہے سائقہ آہستہ سے بولی ہاں چاچا چداکو ۔۔۔ میں نے سر جھکا کر اپنی ہنسی روکی میں نے بٹوے سے پانچ ہزار کا نوٹ نکال کر دلہن کی طرف بڑھایا وہ حیران ہو کر مجھے تکنے لگی تھی کیونکہ یہ اس کے لئے بہت بڑی رقم تھی اب تک آنے والے اسے سو دو سو ہی دے پائے تھے سائقہ نے دلہن کی طرف جاتا میرا ہاتھ دیکھ کر نعرے لگایا خیر ہو شالا ۔۔۔ زینت بولی میں یہ کھیل میں نہیں چلنے دونگی وہ دونوں ہنسے جا رہی تھیں دلہن پریشان ہو کر زینت کو تکنے لگی تھی میں نے دلہن سے پھر کہا کہ لے لو ان پاگلوں کی باتیں آپ کی سمجھ میں نہیں آئیں گی زینت نے سنجیدہ ھوتے ہوئے کہا لے لو بھابھی صرف چاچا سمجھ کر دلہن کانپتے ہاتھوں سے نوٹ لیکر سر جھکا کے بیٹھ گئی زینت کی امی آئی تو دلہن نے نوٹ اس کیطرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ چاچا نے دیا ہے وہ نوٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے بولی نہیں بھائی یہ بہت زیادہ ہیں ایسا نہیں کرو ہم غریب لوگ ہیں آپ کے اتنے احسان ہم کیسے اتاریں گے میں نے کہا نہیں کوئی احسان نہیں ہیں پھر میں نے سائقہ اور زینت کو دیکھتے ہوئے کہا سمجھو میرے احسان رات آپ کا مکھن کھا کر اتر گئے ۔۔۔۔ سائقہ نے سینے کو تھوڑا آگے تن کے معمولی سی آنکھیں بند کیں تھیں ۔۔ دلہن بولی کل خالہ کے ہاتھ وہاں بھی انہوں نے دوہزار بھجوائے تھے زینت کی امی خامشی سے مسکرائے دلہن کو دیکھتی رہی سائقہ کے ہاتھ پکڑے چھوٹے سادہ موبائل نے گھنٹی بجا دی سائقہ نے موبائل زینت کی امی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا خالہ کوئی نیا نمبر ہے اور ساتھ کال ریسیو کر دی آنے والی کال سائقہ کی امی کی تھی اس نے زینت کی امی سے کچھ باتیں کرکے کہا تھا کہ صاحب سے بولو اگر مجھے لینے آتے ہیں تو ۔۔۔ کال کے بعد میں سائقہ کی امی کو لینے کے لئے اٹھ گیا سائقہ زینت کا بازو پکڑ کر بولی چلو چلو خطرہ ہے ۔۔۔۔۔ زینت کی امی مڑ کر بولی تم کہاں جاتی ہو سائقہ بولی ۔۔۔ امی کو بچانے ۔۔۔۔ پھر فوراً بولی اووو نہیں امی کو لانے ۔۔۔ زینت کی امی بولو تم ہروقت دیمک کی طرح گاڑی سے چپکی ہوئی ہو لوگ کیا کہیں گے ۔۔۔ زینت بولی کہنے دو جو کہتے ہیں ہمارا اپنا تعلق ہے زینت کی امی چلی گئی تھی میں گھر سے باہر آ گیا اور نعمت مجھے وہاں لے گیا جہاں دیگیں تیار ہو رہی تھی وہاں پر موجود مہمانوں سے ملتا میں سائقہ کے گھر گاڑی کے پاس پہنچا تو دونوں بلائیں وہاں پہنچی ہوئی تھی میں نے گاڑی کو لاک کھولا تو دونوں نے بھاگ کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کی کوشش کی میں نے دونوں کو پیچھے بیٹھنے کا بولا گلی باراتیوں سے بھری ہوئی تھی اور یہ اچھا نہیں تھا پچھلی سیٹ پر بیٹھی دونوں باتیں کرتے ہنستی جا رہی تھی سائقہ بولی میں خود ہر قربانی دونگی لیکن اپنی امی کی عزت نہیں لٹنے دونگی میری بیمار سی امی ہے کہیں خنجر کے وار سے مر ہوں نہ جائے مجھے اپنی امی کا خیال رکھنا ہو گا زینت بولی یہ اس سے بھی خطرناک تعلقات بڑھا چکے ہیں آپ کی بات ٹھیک ہے ہمیں اسغکا خیال رکھنا ھو گا سائقہ کی امی اس وقت45 سال کے لگ بھگ تھیں گو کہ اس وقت وہ شوگر کے ہاتھوں کافی متاثر ہو چکی تھیں لیکن اس کی خوبصورت آنکھیں اور نین اشارہ دے رہے تھے کہ وہ جوانی میں سائقہ کی آج کی خوبصورتی سے کسی طور پیچھے نہیں ہو گی بستی سے نکلتے ہی میں نے گاڑی روک کر سائقہ کو فرنٹ سیٹ پر آنے کا بولا زینت نے تھوڑی سی ضد کی جسے میں نے یہ کہہ کر راضی کر لیا کہ اس بیٹھنے دو میرے ساتھ آپ تو پہلے بھی بیٹھتی ہو اور پھر وہاں بھی میں آپ سے دور نہیں ہوتا سائقہ آگے آ کر بیٹھی تھی گھر سے جو چادریں پردے کے لئے اوڑھ کر نکلی تھی وہ ان وہ گاڑی میں بستی سے نکلتے ہی ان کے گلے میں جھول گئی تھیں میں نے سائقہ سے چادر سینے سے ہٹانے کا بولا اس نے چادر اتار کر اپنے نیچے رکھ لی میں اس کے قیمض پر ابھرے بوبز اس کے جسم اور اس کی ٹانگوں پکڑ کر اس سفید ریشم جیسے جسم کے مزے لیتا آس پاس کا جائژہ لیتے ہوئے آہستہ آہستہ گاڑی آگے بڑھا رہا تھا کبھی کبھی اس کا سر اپنی گود میں رکھ کر اس کے نرم گالوں کو چٹکی بھر کر اپنی انگلیوں میں لیتا باتیں کرتا جا رہا تھا زینت نے اس کے ہپس پر تھپڑ مار کر کہا میں حیران تھی اس کے اتنے موٹے کیوں ہو گئے ہیں میری گود میں سر ٹکائے سائقہ نے اوپر دیکھ کر مجھے کہا کہ اگلی بار یہ جہاں آئے تو اس کے میرے سے بھی موٹے ہونے چاہیں میں نے اوکے کر دیا ہم سائقہ کی امی کو لیکر گھر آ گئے تھے ولیمہ شروع کر دیا گیا تھا مجھے نعمت نے اس لکی کوٹھڑی میں بٹھا دیا اور کہا کہ شہر سے آنے والے مہمانوں کے ساتھ آپ کو کھانا کھلائیں گے نعمت چلا گیا اور میں نے کنڈی لگا دی تھوڑی دیر بعد سائقہ نے مسیج کیا کہ کہاں ہو میں نے ریپلائی دیا جہاں آپ پر میزائل گرے تھے ۔۔۔۔ پوچھا اور کون ہے میں نے کہا کوئی نہیں دروازہ بند۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اوکے کہہ دیا بہت ہی پیارے انداز میں کل کا شہر سے لیا سوٹ زیب تن کئے سائقہ بڑی چادر لپیٹی کھڑکی سے کوٹھڑی کے اندر آئی سائقہ نے بہترین میک اپ کر رکھا تھا اور چپکے لباس میں سائقہ آج پہلے سے بھی زیادہ دلکش پری لگ رہی تھی بولی آپ جائیں گے میں نےکہا ہاں لیکن جب بھی تم بلاؤ گی میں فوراً آ جاؤں گا اس کی آنکھوں میں قدرے نمی آئی لیکن میں نے اسے اپنے گلے لگا کر ایسا کرنے سے روکا اور پیار کرنے لگا بولی میں آپ سے اپنی دلی خواہش سے بھرپور طریقے سے ملنا چاہتی میں نے بولا ابھی اس کا موقع نہیں اور نعمت کسی بھی وقت بلانے آ جائے گا اور آپ نے اتنی بہترین تیاری کی ہے تو یہ صحیح نہیں بولی۔اس طرح میں بھی کم سے کم اس وقت ایسا نہیں چاہتی ۔۔۔ بولی آپ آرام سے بیٹھے رہیں اور مجھے نہیں ٹوکو گے جو میں کروں گی میں نے اوکے کہہ دیا وہ آگے بڑھی اور میرے سر کو اپنے سینے پر رکھ دیا اور میرے بالوں پر کس کرتی آگے بڑھنے لگی میرے چہرے گردن پر کسنگ کے بعد اس نے میری شرٹ۔کے بٹن کھول دیئے اور سینے پر بےتحاشہ کسنگ کرنے لگی میں نے اس کی کمر پر ہاتھ رکھا ایک دم سے بولی آپ کچھ نہیں کرو گے ۔۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھ پھر چارپائی کے بازو پر رکھ دئیے وہ پینٹ کے بلٹ تک مجھے کسنگ کرتے ہوئے اٹھ گئی اور میرے پیچھے چارپائی پر بیٹھ کر شرٹ اوپر اٹھا کر میری پیٹھ پر جی بھر کے کسنگ کی یہ وہ لمحات تھے جس وقت سائقہ کی محبت میرے دل میں ایک مضبوط قلعہ بنا گئی وہ سامنے آ کر میرے ساتھ نگاہیں ملاتی نیچے بیٹھ گئی چنچل سی شوق حسینہ اس وقت بہت سنجیدہ تھی اور اس کی ایسے دیکھتی آنکھوں سے میرے ذہن میں میں تیری دشمن دشمن تو میرا ۔۔۔۔ میں ناگن تو سپیرا اااا بجنے لگا تھا اس نے میری پینٹ کا بلٹ کھول کر مجھے اٹھنے کا اشارہ کیا میں ایک فرمابردار خادم کی طرح اس کے اشارے پر اٹھ گیا تھا اس نے۔میری پینٹ اور انڈرویئر اتار دی اور مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور میری دونوں ٹانگوں کو بےتحاشہ کسنگ کرتی نیچے جاری تھی پھر اس نے میرے جوتے اتار کر میرے پاؤں کو کچھ دیر اپنے بوبز پر رکھی ان کو دیکھتی رہی ببلو ٹائث ہو کر اوپر اٹھا گیا تھا سائقہ نے اوپر دیکھ کر کہا اسے سخت نہیں کرو ۔۔۔ میں نے مسکرا کے کہا یہ آپ نے کیا ہے ۔۔۔۔ اس نے میرے پاؤں آرام سے جوتوں پر رکھ دئیے اور ببلو کو پکڑ کر کچھ دیر اپنے گال پر لگائے رکھا پھر اس دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر نگاہیں ملاتے ہوئے ببلو کی ٹوپی پر ہلکی سی کس کر کے مدھم آواز میں پہلی بار بولا ۔۔۔ آئی لو یو۔۔۔ اس نے پھر کس کر کے بولا ۔۔۔ آئی لو یو۔۔۔۔۔ ایک بار پھر سے اس نے یہ عمل دھرایا اور کھڑی ہو کر بولی کپڑے پہن لو۔۔۔۔ میں نے اپنا لباس درست کر لیا سائقہ مجھے ساکت کھڑی دیکھتی رہی میں نارمل ہو گیا تو نگاہیں ملاتے ہوئے بولی۔میں نے پیار صرف جواب عرض ڈائجسٹ میں پڑھا تھا اب تک ۔۔۔۔۔ اب یہ ہے کہ یہ میرے سارے سوٹ جو آپ مجھے پہنے دیکھ چکے ہو ان سب کو رکھ دونگی اور تب پہنوں گی جب آپ مجھ سے ملنے آؤ گے شہر کی رنگینیوں میں کھو کر دیہات کی ایک پاگل لڑکی کو بھول کر برباد نہ کر دینا ۔۔(جاری ہے)

            Comment


            • #7
              بہترین اپڈیٹ

              Comment


              • #8
                قسط نمبر 05

                میں نے سائقہ کے چہرے کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو وہ دھندلا سا نظر آنے لگا ۔۔۔ میری آنکھیں بھیگ چکی تھی میں نے اپنی انگلیوں سے آنکھوں کے کناروں کو صاف کیا اور مصنوعی مسکراہٹ سے سائقہ کو دیکھنے لگا وہ لمبی سانسیں لیتی ساکت کھڑی تھی اور میری آنکھوں میں نگاہیں ملائے بہت اندر کر دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی میں کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن میرے لبوں نے میرا ساتھ نہیں دیا سائقہ نے ایک قدم آگے بڑھایا اور بولی اب آپ اگر کچھ کرنا چاہو تو کر سکتے ۔۔۔۔ میں نے اس کی نازک گالوں کو اپنے ہاتھوں میں بھرا اور جھلک کو اس پیشانی پر صرف ایک کس کرتے ہوئے اس سے نگاہیں ملا کر بولا ۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھ ڈھیلے چھوڑ دئیے میرے ہاتھ اس کے کاندھوں اس ہوتے ہوئے اس کے بازوں کا لمس لیتے میرے پاس آ گئے اور میں خامشی سے تھوڑا پیچھے ہٹ گیا سائقہ نگاہیں ملائے اور مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر الٹے قدموں کھڑکی کی طرف چل رہی تھی کھڑکی کے قریب پہنچ کر اس نے اپنی انگلیوں سے آنکھوں کے کنارے صاف کئے اور گھوم کر کھڑکی کے اس پار چلی گئی میں کچھ دیر ساکت کھڑا کھڑکی کے ہلتے پردے کو دیکھتا رہا اور پھر چارپائی پر بیٹھتے ہوں کسی کی کہی بات کو ذہن کے گوشوں میں گھمانے لگا کبھی کو کوئی بات جانے کہاں سنی تھی جس میں کہنے والے نے کہا تھا کہ اگر چھوٹی عمر کی لڑکی کو بڑی عمر کے آدمی سے عشق ہو جائے تو بہت خطرناک ہوتا میں بہت دیر چارپائی سے ٹانگیں لٹکائے اس کوٹھڑی کی ایک ایک یاد ایک ایک لمحے اور ایک ایک بات کو ذہن میں گھما رہا تھا میں نے چارپائی کے نیچے جھک کر سرخ ٹیبل کور کو اٹھایا اس کو غور سے دیکھا جس پر واضح طور پر کوئی نشانت نہیں تھے میں نے اسے جھاڑ کر ٹیبل پر سجا دیا کچھ دیر بعد نعمت نے دروازہ بجا میں تھکے جسم کے ساتھ اٹھا اور دروازہ کھول دیا نعمت مجھے اس جگہ لے گیا جہاں صبح دیگیں تیار ہو رہی تھی مہمان دریوں پر قطاروں میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کچھ نواجوان مہمانوں کو تواضع کے لئے ان قطاروں کے پاس کھڑے تھے نعمت مجھے ایک بڑے کمرے میں لے گیا جس میں پاںچ سات افراد پہلے ہی موجود تھے میں اندر گیا تو سب سے پہلے ملک شہنواز نے میرا استقبال کیا ان کا تعلق اسی علاقے سے تھا اور بہت بڑے زمیندار تھے انغسے اکثر شوگر ملز انتظامیہ اور زمینداروں کے اجلاس میں ملاقات ہوتی رہتی تھی کھانے کے بعد ملک صاحب مجھے اپنی گاڑی میں اپنی رہائش گا لے گئے چائے کے دور کے بعد وہ مجھے دوبارہ اس جگہ چھوڑ گئے مہمانوں کا رش کم ہو گیا تھا میں اس کوٹھڑی میں چلا گیا تھا اور اپنا سامان سوٹ کیس میں سنبھال لیا نعمت نے آ کر اپیل کی کہ صرف ایک گھنٹہ انتظار کرلیں ہم ضروری کام نمٹا کر آپ کے ساتھ چلتے ہیں میں نے اوکے کہہ دیا اور دروازہ بند کر لے بستر پر لیٹ گیا کسی خیال کے آتے ہی میں اٹھ گیا کھڑکی کے پاس پہنچ کر کنڈی کھولی کھڑکی نہیں کھلی میں نے کھڑکی کے ایک سوراخ سے اس پار دیکھنے کی کوشش کی لیکن اس بار کچھ نظر نہیں آیا میں نے اندازہ لگا لیا کہ کھڑکی کے آگے گندم کی بوریا رکھی جا چکی تھیں ۔۔۔۔۔ میں بستر پر لیٹا آج کچھ عجیب کیفیت میں مبتلا تھا سائقہ میرے سے بھی بہت آگے چلی گئی تھی اور کچھ باتوں کا سوچ کر میں الجھن میں مبتلا ہوتا جا رہا تھا سائقہ کے کھڑکی کے جانے کے بعد سے اب تک کوئی میسج یا مس کال نہیں آئی تھی ۔۔۔ کچھ دیر بعد نعمت نے آ کر بتایا کہ وہ تیار ہیں میں نے نعمت کو سوٹ کیس تھمایا اور ہم باہر نکل آئے میں نے نعمت کو گاڑی کی۔چابی دی اور گلی میں ٹھہر کر اس کی واپسی کا انتظار کرنے لگا پہلی رات جس میں میں سائقہ کے ساتھ تھوڑی دیر سویا تھا جبکہ گزشتہ رات بالکل نہیں سو سکا تھا اور اس وقت جسم میں تھکاوٹ کے ساتھ میری آنکھوں میں ہونے لگی تھی نعمت میرا سوٹ کیس گاڑی میں رکھ کر واپس آ گیا تھا میں نے نعمت سے کہا کہ زینت کی امی وغیرہ سے میں مل لوں وہ مجھے گھر میں لے گیا مجھے اس کچے کمرے میں آنے کا بولا لیکن میں نے ٹائم کو دیکھتے ہوئے ان سے معذرت کر لی زینت کی امی اور سائقہ کی امی میرا شکریہ ادا کر رہی تھی زینت کچھ سامان نعمت کو دے رہی تھی نعمت نے مجھ سے گاڑی کی چابی لی اور سامان اٹھا کر چلا گیا میں مسلسل اپنے ارد گرد نظریں ڈورا رہا تھا لیکن سائقہ نظر نہیں آ رہی تھی زینت بھی کچھ خاموش سی تھی میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس سے معلوم کیا وہ سمجھ گئی تھی اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ایک کچے کمرے کی طرف چلی گئی سائقہ کی امی کہنے لگی خہ آج رات آپ ہمارے مہمان بن جاتے تو ہمیں خوشی ہوتی میں نے مسکرا کر کہا کہ آپ ابھی تک ان کے مہمان ہیں میں پھر آ جاؤں گا آپ کی دعوت میں ادھار کر لیتا ہوں اس نے اپیل کی کہ میرے گھر آپ دعوت کھانے ضرور آئیے گا اس کے بعد ہم بھی آئیں گے ایک بڑی چادر میں لپٹی سائقہ آہستہ آہستہ چلتی زینت کے ہماری طرف آ رہی تھی اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا اس کے ہرنی جیسی آنکھوں میں سرخ ڈورے پڑے ہوئے تھے میری پریشانی میں مذید اضافہ ہو گیا میں نے بہت مشکل سے گلے سے نارمل آواز نکال کر اس کی امی سے پوچھا اسے کیا ہوا بولی بخار ہو گیا ہے کھانا بھی نہیں کھا سکی میں نے کہا ڈاکٹر کو دکھایا سائقہ کی امی نے بتایا کہ انجکشن لگا گیا ڈاکٹر میں کچھ دیر خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا وہ آنکھیں جھپکائے بغیر میرے پاؤں کی طرف دیکھے جا رہی تھی بالوں کی ایک باریک سے لٹ اس کی دائیں آنکھ کے اوپر سے ہوتی ہوئی اسبکے گال کو ٹچ کر رہی تھی میں نے سب سے معذرت کرتے ہوئے اجازت چاہی اور بولا آپ کی دی ہوئی محبتوں کو کبھی بھول نہیں پاؤں گا اور کوشش ہو گی کہ ان محبتوں کو آخری سانسوں تک قائم رخھ سکوں سائقہ نے نگاہیں اوپر کرکے نظروں کی زبان میں پھر التجا کی ۔۔۔۔ دیکھو بھول نہ جانا میں الٹے پاؤں چلتا رسمی کلمات ادا کرتا جا رہا تھا اور سائقہ ان لمحوں کو بغیر پلک جھپکائے اپنی آنکھوں میں سمو رہی تھی باہر گلی زینت کے ابو اور دیگر لوگوں سے ملنے کے بعد میں سائقہ کے گھر میں کھڑی اپنی گاڑی کے پاس آیا زینت اور نعمت پہلے ہی سے موجود تھے میں نے گاڑی اسٹارٹ کر دی زینت کے گھر کے آگے سے گزرتے ھوئے ادھ کھلے دروازے سے سائقہ کی قمیض کا پلو نظر آیا میرے پاؤں کا دباؤ ایکسیلیٹر پر دباؤ ڈال گیا کچی گلی گرد کے بادلوں سے دھک گئی میں اس کچے خراب راستے پر میں آہستہ سے گاڑی چلاتے مین روڈ کی طرف بڑھ رہا تھا ایک موڑ پھرتے وقت زینت قدرے زور سے بولی یہ میری دوست سائقہ کا اسکول ہے میں نے اپنا سر دائیں جانب گھما کر آنکھوں کے کیمرے سے تصویر کھینچ کر میموری میں محفوظ کر لی نعمت باتیں کر رہا تھا اور میں کبھی ہوں ہاں میں اسے اپنے ہونے کا احساس دلا رہا تھا نعمت نے اب تک کیا بولا اور وہ اس وقت کیا کہہ رہا تھا مجھے معلوم نہیں تھا کبھی کبھی سر کے۔پاس لگے آئینے میں زینت کو دیکھ لیتا جو مسلسل مجھے تکتی جا رہی تھی میرا انگ انگ تھکن سے چور تھا اور میں جکد گھر پہنچنا چاہتا تھا ادھر نعمت کی بے مقصد باتوں کا سلسلہ مینغروڈ پر چڑھتے ہی میں نے میزک پلئیر آں کر دیا اور گاڑی کی سپیڈ کے ساتھ والیم فل کھول دیا عطاء اللّٰہ عیسیٰ خیلوی کی آواز میں ۔۔۔ ایویں چٹیا عشق دے تیراں ۔۔۔ کپڑے لیڑاں ۔۔۔۔ حال فقیراں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔عشق پوایاں زنجیراں ۔۔۔۔۔ بجنے لگا تھا شام سے تھوڑی دیر قبل میں زینت لوگوں کو آان کے گھر کے سامنے اتار رہا تھا اپنا سامان اتارنے کے بعد نعمت نے بتایا کہ یہ باقی سامان آپ کا ہے جو زینت کی امی اور سائقہ کی امی نے دیا ہے اس میں دیسی گھی کا ایک ڈبہ دیسی انڈوں کی انڈوں کی ٹوکری اور خالص دیسی شہد کی دو بوتلوں کے ساتھ باجرے کے آٹے کا بڑا شاپر موجود تھا شہر میں آنے تک کافی اندھیرا ہو چکا تھا میں سیدھا اپنی سسرال چلا گیا رات کا ہلکا کھانا کھانے کے بعد میں بیگم کو لیکر گھر آ گیا شادی کا مختصر احوال بیگم کو بتانے کے بعد میں لیٹ گیا سائقہ کی آنکھوں میں چھپا پیغام میں دل کے پلو میں باندھتا ہوا سونے لگا تھا میں نے ایک نظر موبائل پر دوڑائی سائقہ کا کوئی پیغام یا مس کال نہیں آئی تھی اس کا موبائل کس کے پاس ہوگا کے پیش نظر میں نے میسج بھیجنے سے اجتناب برتا ۔۔۔ میں جلد نیند کے آغوش میں چلا گیا تھا صبح آنکھ کھلتے ہی میں نے موبائل چیک کیا سائقہ کی طرف سے کچھ موصول نہیں ہوا تھا میں پچھلے کئی روز سے معمول کے کاموں کو ڈسٹرب کر چکا تھا سؤ جلد ہی گھر سے نکل گیا دن دو بجے میں نے بےاختیار ہو کر سائقہ۔کے نمبر پر کال کر ڈالی سائقہ کی امی نے کال ریسیو کی میں نے مختصر حال احوال کے بعد سائقہ کی طبیعت کا پوچھا بولی اب بہت بہتر ہے لیکن ابھی سو رہی ہے اور باقی عام سی باتوں کے بعد میں فون بند کرنے لگا تو سائقہ کی امی بولی میں سائقہ کو بتا دونگی شام کو اس سے بات کر لینا آپ پھر ۔۔۔۔
                شام کے بعد ایک بار پھر میں نے کال کر لی سائقہ کی امی نے کال ریسیو کرتے ہی بتایا کہ سائقہ کی طبیعت بہت بہتر ہے میری بیگم کی خیریت دریافت کی اور فون سائقہ کو تھماتے ہوئے کہا ہاں بات کرو۔۔۔۔۔۔سانسوں کی ہلکی آواز کے ساتھ سائقہ کی خوشبو آنے لگی تھی میں نے چںد لمحے اس کے بولنے کا انتظار کرنے کے بعد بولا کیا ہوا تھا چںد لمحے بعد دکھ میں ڈوبی آواز آئی کچھ بھی تو نہیں ۔۔۔۔۔ میں لمبی سانس لے کر بولا ۔۔۔ ہاں کچھ بھی نہیں ہوا یہ رنگ یہ مستی یہ شوخیاں سلامت رہیں گی اور میں کبھی ٹوٹنے نہیں دونگا ۔۔۔۔آپ ٹھیک ھو اور صبح سکول بھی جاؤ گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاؤ گی ناں ؟؟؟؟؟؟ گہرا ساںس لے کر بولی ہاں ضرور جاؤں گی ۔۔۔ میں نے کہا اب تم بچ گئی ہو اور میزائل حملہ گزر چکا اب سکون سے سو جاؤ کل چھٹی کے بعد ملیں گے ۔۔۔۔۔اوکے بول کے مذید انتظار کرنے لگی ۔۔۔ چند لمحے ستانے کے بعد میں نے پھر کہا اوکے کال بند کر دو ۔۔۔ بولی آپ کیوں نہیں بند کر لیتے ؟؟؟ میں نے ایک لمحے کے وقفے کے بعد بولا میں بند نہیں کر پا رہا ۔۔۔۔۔ بولی پھر۔۔۔۔۔ میں کیسے کر دوں ۔۔۔۔ میں نے کہا امی کو دے سکتی ۔۔۔اس نے آواز دی ۔۔۔ امی ی ی ی کچھ دیر بعد سائقہ کی امی نے ہیلو کہا میں نے کہا اوکے باجی کوئی کام ہو تو بتانا میں آپ کے لئے حاضر رہوں گا اور کال بند کر دی ۔۔۔۔۔۔۔ اگلے دن دو بجے میسج آیا کیسے ہو میں نے لکھا۔۔۔۔۔۔ دہشتگرد جیسا ۔۔ ریپلائی آیا دہشتگرد جیسا یا پکا دہشتگرد ؟؟؟ میں نے کہا جو سمجھو ۔۔۔ بولی سمجھو کا کیا مطلب جو ہو وہی سمجھوں گی ۔۔۔ میں نے کہا طبیعت ؟؟؟ جواب دیا سکول سے آ کر لیٹی ہوں ۔۔۔ میں نے کہا کھانا کھاؤ اور آرام کرو ۔۔۔۔ بولی امی سے لائن مارنی ہے تو کال کرو ۔۔۔۔ میں نے کہا نہیں اس کے بچی کی لائن مارنی ہے ۔۔۔ بولی وہ تو مار دی ۔۔ میں نے کہا ختم تو نہیں ہو گئی ؟؟ بولی اندر سے سب ختم ہو گیا ماڈل باقی ہے ۔۔۔۔ میں نے کہا اندر سے پھر تازہ کر دونگا ۔۔۔ بولی کب ؟؟ میں نے کہا بہت جلد ۔۔۔۔ پوچھا کیسے ۔۔۔ میں نے کہا اوپر بٹھا کے ۔۔۔۔ اوکے کے ساتھ سلسلہ تھم گیا ایک ہفتے بعد میری ساس میرے گھر آئی ہوئی تھی میں بازار چلا گیا اور وہیں سے زینت کو کال کی نعمت اس وقت زمینوں پر تھا اس نے سائقہ سے رابطے کا پوچھا میں نے اسے بتایا کہ رابطہ ہوا تھا طبیعت بہتر ہے زینت سے گپ شپ کے بعد میں نے کال کاٹ دی اسی لمحے میری بیگم کے نمبر سے کال موصول ہوئی میری ساس نے پوچھا کہ شاکرہ ( میری بیگم ) کو اگر بولو تو اپنے ماموں کے گھر لیتی جاؤں صبح آ جائیں گے ہم ۔۔ میں نے اوکے کہہ کر گھر کو لاک کرنے کا بول میں نے ٹائم دیکھا گیارہ بج گئے تھے سائقہ کو ڈیڑھ بجے چھٹی ہوتی تھی میں نے وہیں سے کچھ فروٹس کولڈرنکس کیک اور کچھ اور چیزیں لے کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر پھینکی اور گاڑی کو سپیڈ سے شہر سے باہر نکال لیا گاڑی فراٹے بھرتی سائقہ کے گاؤں کی طرف رواں دواں تھی جیسے پہلے بتایا سٹی سے سائقہ۔کی بستی تک دو گھنٹے کو سفر تھا میں گاڑی کو ضرورت سے زیادہ تیز دوڑا رہا تھا سائقہ کے ہونٹوں کے رس کا میٹھا ذائقہ محسوس ھوتے ہی میں اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا مینغروڈ سے سائقہ کی بستی کو جاتے کچے راستے پر مڑتے ہوئے میں ٹائم دیکھا ابھی 1:05 بج گئے تھے سائقہ کی چھٹی 1:30 بجے ہونی تھی مطلب ابھی 25 منٹ باقی تھے گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سائقہ کی بستی سے مین روڈ کی طرف آتے ہوتے اس کچے رستے پر دو کلومیٹر کے فاصلے پر تھا میں گاڑی کو آہستہ سے چلاتا اس سکول کے آگے سے گزر کر بستی کو جانے والے رستے پر گاڑی کو سائیڈ پر روک چکا تھا مدھم آواز میں بجتے میوزک کے ساتھ میں آس پاس کے نظارے دیکھنے کے ساتھ سائیڈ آئینے سے پچھے بھی دیکھ رہا تھا اس وقت دھوپ چمک رہی تھی جس سے سردی کمی آ چکی تھی سیدھے ہاتھ پر دور ایک پگڈنڈی پر دو لڑکے دھوپ سیکتے اپنی بکریوں کو آوازیں دے رہے تھے گاڑی کے فرنٹ کے آگے جھکی ٹالی کی ایک شاخ پر کچھ چڑیاں آن بیٹھی تھی میں سر کے اوپر لگے آئینے میں پیچھے دیکھنے کے ساتھ ان کی مستیاں بھی دیکھ رہا تھا قدرے کالے سر والا چڑا درمیان میں بیٹھا تھا جس کے دائیں اور بائیں دو چڑیاں کے علاوہ باقی اڑ گئی تھی چڑا باری باری دائیں اور بائیں بیٹھی چڑیوں پر بیٹھ کر جھولے لے رہا تھا اور چڑیاں اپنی دم پھیلا کر کم ٹائمنگ پر لعنت بھیج رہی تھیں گاڑی کے قریب سے گزرتے موٹرسائیکل پر پیچھے بیٹھی لڑکی کے سفید برقعے کے نیچے نیلی قمیض اور سفید شلوار دیکھ کر میں نے شیشے میں پیچھے دیکھا کچے رستے کے اس موڑ پر کافی ہلہ گلہ نظر آئی چند ایک چنگ چی کے ساتھ کچھ موٹر سائیکل بھی نظر آ رہے تھے جبکہ پیدل چلتی لڑکیوں کا ذیادہ ہجوم اس راستے پر گامزن ہو چکا تھا جبکہ کچھ لڑکیاں اس طرف بھی آنے لگیں تھی شادی پر ملاقات سے قبل فونز کالز اور میسجز پر سائقہ مجھے بتا چکی تھی کہ اس کے علاوہ دو اور لڑکیاں بھی ان کے ساتھ سکول جاتی تھی میں آج سائقہ کو پہلا سرپرائز دیے رہا تھا صبح تک میرا یہاں آنے کا کوئی پروگرام بھی نہیں تھا اور میں نے سائقہ کو گزشتہ شب مسیجز پر بھی نہیں بتایا تھا گاڑی کے قریب سے گزرتے پانچ لڑکیوں کے گروپ نے ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ گاڑی کو غور اور حسرت بھر نگاہوں سے دیکھا اور چند قدم آگے جانے کے بعد بائیں طرف ایک چھوٹے رستے پر مڑ گئیں کالے عربی برقعے میں مٹکتے جسم کو میں آئینے میں پہچان چکا تھا تھوڑا اور قریب آنے پر وہ ایک دم رک گئی تھی چار لڑکیاں تھوڑا پیچھے دیکھ کر تھوڑے سے قدم روک کو پھر چل پڑیں تھی جبکہ دو لڑکیاں سائقہ کے ساتھ رک گئی تھی وہ دونوں سائقہ کی طرف متوجہ تھیں دیگر چار لڑکیوں کا گروپ بھی میری گاڑی کو دیکھتا ھوا پہلے گزرنے والے گروپ کے رستے پر مڑ گیا تھا سائقہ اب اپنا ہاتھ ہلا کر ان سے کچھ کہہ رہی تھی پھر ایک دم سے ان دونوں لڑکیوں نے میری گاڑی کی طرف دیکھا میں سمجھ چکا تھا کہ سائقہ گاڑی پہچان چکی ہے اور ساتھی لڑکیوں کو شاید کسی بات کے لئے تیار کر رہی ہے پھر وہ آہستہ آہستہ آنے لگی تھی ساتھ والی ایک لڑکی نے سفید برقعہ اور ایک نے میرون کلر کی چادر لپیٹ رکھی تھی میں سیٹ پر سر ٹکائے ان کو غور سے دیکھ رہا تھا گاڑی کے قریب آنے پر دونوں لڑکیاں تھوڑی رک گئیں تھی مسکراتی آنکھوں کے ساتھ کندھوں میں بیگ لٹکائے ہاتھ میں رجسٹر تھامے آہستہ قدموں کے ساتھ گاڑی سے ٹچ ہوتی فرنٹ گیٹ کی طرف آتے اندر جھانکنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اسے سیاہ شیشوں کے اندر سے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا وہ فرنٹ گیٹ کے پاس آ کر رک گئی تھی لیکن کچھ کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہی تھی میں نے آنکھیں بند کر کے بٹن دبا دیا شیشہ نیچی کو سرک گیا ایک لمحے کے وقفے کے بعد گاڑی کی کھڑکی پر چٹخخخخ کی آواز گونجی سائقہ نے ہاتھ میں پکڑا رجسٹر زور سے گاڑی کی کھڑکی پر دے مارا تھا میں نے سائقہ کو آنکھ مار کر اس سرپرائز کا پہلا تحفہ دیا وہ پاگلوں کی طرح زور سے ہنستی جا رہی تھی اس کے ساتھ آئیں دونوں لڑکیاں ایک دوسرے سے جڑ کر اسے دیکھتی جا رہی تھی میرون کلر کی چادر اوڑھے لڑکی کی آنکھوں میں مسکراہٹ تھی میں نے سائقہ کو گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا اس نے گاڑی کا پچھلا گیٹ کھول کر ساتھ کھڑی کھڑی لڑکیوں کو بیٹھنے کا کہا وہ تھوڑی ہچکچانے لگیں تھی سائقہ بولی بیٹھو یار کیا ہے بتایا جو ہے آپ کو ۔۔۔ وہ دونوں لرزتے ہاتھوں کے ساتھ گاڑی کے اندر آنے لگیں میں نے ہاتھ بڑھا کر پچھلی سیٹ پر پڑے سارے شاپر ایک سائیڈ پر کر دئیے سائقہ مٹکتی ہوئی فرنٹ سیٹ پر آ گئی ۔۔ اسے میرے اس طرح آ جانے کی امید بالکل نہیں تھی وہ خوشی سے نہال تھی وہ سیٹ پر بیٹھتے ہی ایک بار پھر منہ پر ہاتھ رکھ کر زور زور سے ہنسے جاری تھی پچھلی سیٹ پر برجمان آپس میں چپک کو بیٹھی دونوں لڑکیاں کبھی مجھے اور کبھی اسے دیکھ رہی تھی میں نے پوچھا باجی کی طبیعت کیسی ہے بولی اب بات کو بگاڑو نہیں صبح سے آپ اس کے پاس ہوں گے اور پورے کا پورا دیکھ کے آئے ہو تم ۔۔ میں مسکرا دیا اور بتایا کہ نہیں میں ابھی آ رہا ہوں بولی رات آپ کو بتایا تھا ناں اسکی طبیعت کل صبح سے خراب ہے بہت وہ ذرا سنجیدگی سے بولی پوچھا ڈاکٹر کو دکھایا بولی کل شام کو بستی کا ڈاکٹر آیا تھا میں آہستہ سے گاڑی چلاتا بستی کی طرف بڑھ رہا تھا عربی برقعے میں ملبوس سائقہ نے آج گاڑی میں نقاب نہیں اتارا گیا سیاہ برقعے کے اوپر اس کی ٹانگوں پر رکھے ہاتھ کوئلے کی کان سے نکلتے ہیرے کیطرح چمک رہے تھے میں نے پیچھے بیٹھی لڑکیوں کی طرف مڑ کے دیکھتے ہوئے پوچھا اپنی فرینڈز کا تعارف نہیں کرایا وہ سفید برقعے میں چھپی لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی یہ زہرا ہے کلاس 9th میں پڑھتی ہے اور یہ رخسانہ میری ساتھ 10th میں ہے سائقہ نے میرون چادر میں لپٹی لڑکی کی طرف طرف اشارہ کیا میں نے ان سے کہا کہ سوری مجھے یہ پتا نہیں تھا کہ سائقہ مجھے رستے میں مل جائے گی اور آپ بھی ان کے ساتھ ہونگی ورنہ آپ کے لئے کوئی گفٹ ضرور لاتا ۔۔۔ سائقہ بولی زینت کے بھائی کی شادی پر انہوں نے آپ کو دیکھا تھا ادھر ۔۔میں نے کہا کہ پھر آپ نے اس وقت تو تعارف نہیں کرایا تھا بولی بستی والی دیگر لڑکیوں کی طرح یہ بھی پردہ کرتی ہیں سب سے میں نے اچھی بات ہے کہہ کر اپنا بٹوہ نکالا اور ہزار کے دو نوٹ نکال کر سائقہ کو تھما دئیے اور بولا اپنی طرف سے اپنی فرینڈز کو دے دو ۔۔۔ وہ سائقہ کے اصرار پر نوٹ لیکر اپنی مٹھی میں دبا چکی تھی لکڑی کے بنے اس بڑے گیٹ کے آگے میں نے گاڑی روک دی سائقہ نے اتر کر گیٹ کے دونوں پلے کھول دئیے اور دوبارہ مسکراتی ہوئی اپنی سیٹ پر آ گئی میں نے گاڑی آگے بڑھا دی سائقہ کے اس بڑے صحن کے گھر میں کچے کمروں کے آگے دو چارپائیاں دھوپ میں پڑی تھی جس میں ایک پر سائقہ کی امی لیٹی تھی اور دوسری چارپائی پر ایک بزرگ اور شاید انکی اہلیہ بیٹھی تھی وہ دونوں حیرت سے گاڑی کی طرف دیکھ رہے تھے میں نے گاڑی کا رخ ان چارپائیوں کی طرف موڑ لیا سائقہ کی امی گاڑی دیکھ کر مسکراتے ہوئے اٹھنے لگی تھی سائقہ نے گاڑی سے اتر کر ان سب کو خوشی بھرے لہجے میں سلام کیا اور گاڑی کی پچھلی کھڑکی کھول کر اپنی فرینڈز کو اتارا وہ دونوں سائقہ کی امی کو سلام کر کے خیریت پوچھنے کے رسمی کلمات ادا کر کے چلی گئی تھی میں گاڑی کا سوئچ آف کر کے موبائل اٹھاتا باہر نکل آیا بزرگ اور ان کی اہلیہ چارپائی سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے میں نے بزرگ سے محبت بھرے انداز میں ہاتھ ملایا اور ساتھ کھڑی بزرگ خاتون کو جھلک کر سلام کیا اور ان کو بیٹھنے کا کہا سائقہ کی امی مسکرا رہی تھی میں انکی چارپائی پر پیروں کی طرف بیٹھ گیا سائقہ نے ایک اور چارپائی باہر نکال کر اس پر چادر اور تکیے لگا دئیے اور ادھر بیٹھنے کو کہا میں وہاں بیٹھتے ہوئے ہوئے سائقہ۔کی امی سے خیریت پوچھنے لگا آج وہ بہت کمزور لگ رہی تھی رنگت پیلی پیلی اور بولنے میں لہجہ دھیما ہو چکا تھا بتایا سمجھ نہیں آ رہی کل سے اب تک دو بار ڈاکٹر دوائی دیکر گیا ہے پھر وہ بزرگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی چاچا ابھی بھی ڈاکٹر سے دوائی لیکر آیا ہے میں نے انہیں تسلی دی کہ اچھا خیر ہو گی کچھ کرتے ہیں ۔۔۔ میں نے بزرگ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا چاچا آپ ٹھیک ہیں وہ والے ہلکا سا کھنگال کر بولے شکر ہے سائقہ کی امی میرا تعارف کراتے ہوئی بولی زینت کا شوہر ان صاحب کی زمینوں پر کام کرتا ہے یہ ان کی شادی پر آئے تھے تو میں نے اسے اپنا بھائی بنا لیا بہت اچھے انسان ہیں اپنی امی کے پیچھے کھڑی سائقہ نے منہ کر ہاتھ رکھتے ھوئے ہنسی کو دبا کر آہستہ بغیر آواز نکالے آنکھوں کو پھیلا کر ہونٹوں سے ہی لمبا سا بھائی ی ی ی بولا اور کمرے کی طرف چلی گئی بزرگ بولے آپ کے علاقے میں ایک ملک رشید ہوا کرتے تھے ۔۔ میں نے جھکا سر اٹھا کر بزرگ کو دیکھا اور ایک لمحے کے وقفے سے بولا ہاں میرے والد محترم تھے وہ اور ۔۔۔۔۔ بزرگ ایک دم اٹھے کانپتی ٹانگوں کے ساتھ میری طرف بڑھنے لگے اور میرے قریب آ کر اپنے کانپتے ہاتھوں اور نم زدہ آنکھوں سے میرا سر پکڑ کر میرا ماتھا چوم لیا میں نے اٹھ کر بزرگ کو گلے لگایا اور پھر اپنے ساتھ چارپائی پر تکیے کے ساتھ بٹھا دیا بزرگ کچھ دیر سر جھکائے بیٹھے رہے پھر سائقہ کی امی کی طرف دیکھتے ہوئے بولے آپ نے ایک شریف ۔۔ ایک رحم دل انسان اور ایک معزز خاندان کے بیٹے کو اپنا بھائی بنایا ہے اور میرا دل آج باغ باغ ہو گیا ہے ۔۔۔ پھر وہ روتے ہوئے بولے میں ایک سڑک کی تعمیر کے وقت ان کے علاقے میں محنت مزدوری کرتا تھا میں ایک دنچلتے ٹریکٹر کے ماڈیگارڈ سے نیچے گرا اور پیچھے آنے والی جیپ کے ٹائر کی زد میں آ گیا میری پسلیاں ٹوٹ گئی میں زخمی حالت میں بےہوش پڑا تھا کہ اس جگہ سے قریب اپنی زمینوں پر آئے ملک رشید نے مجھے اپنی گاڑی میں ڈالا ہسپتال لے گئے وہ مسلسل بیس دن ہسپتال میں میری نگرانی کرتے رہے اور اپنے دو بندے میرے ساتھ رکھے ہوئے تھے میرا اچھے ڈاکٹروں سے علاج کراتے رہے اس وقت موبائل کا کوئی تصور نہیں تھا اور بستی میں ٹیلیفون بھی نہیں تھے گھر والوں کو کوئی علم نہیں تھا میرا اور وہ یہی سمجھے رہے کہ میں کہیں مزدوری کر رہا ہوں ہسپتال کے بعد ملک صاحب نے مجھے پانچ دن اپنی رہائش گاہ میں رکھا اس کا ایک بیٹا (میرا ہاتھ پکڑ کر ) تھا اور سرخ رنگ کی چھوٹی سائیکل پر ادھر گھومتے ہوئے مجھ سے پوچھتا چاچا طبیعت کیسی ہے ملک صاحب کے بندے مجھے ملک صاحب کی گاڑی میں گھر پہچا گئے تھے اور ملک صاحب نے مجھے اتنے پیسے دئیے تھے کہ مجھے صحتیاب ہونے تک کسی سے مانگنے نہیں پڑے تھے ۔۔۔۔ اس گفتگو کے دوران زینت کی امی بھی آ گئی تھی اور سب چاچا کی باتیں غور سے سن رہے تھے اور چاچا نے۔اس وقت یہ قصہ سنا کر میری شرافت پر مہر ثبت کر دی تھی ۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر کی گفتگو کے بعد بزرگ اور انکی اہلیہ چلے گئے تھے اس دوران سائقہ گرم دودھ اور بسکٹ لائی تھی زینت کی امی اپنے گھر کو جانے کے لئے اٹھتی ہوئی بولی آپ کا کھانا میں بنا لیتی ۔۔۔۔۔ سائقہ جھٹ سے بولی تمھاری مہمان نوازی پچھلے ہفتے ختم ہو گئی آج میری امی کی عیادت کے لئے آئے ہیں اور آج ہمارے مہمان ہیں میں نے سائقہ کو گاڑی سے شاپر لانے کو بولا اور زینت کی امی کو بولا کوشش کروں گا کہ آپ کے گھر میں چکر لگا لوں ورنہ ناراض نہ ہونا اگلی بار بیگم کے ساتھ آؤں گا تو پھر آپ کے پاس گاڑی کی پچھلی کھڑکی کے اندر جھکی سائقہ نے آواز لگائی پھر بھی ہمارے پاس آئیں گے اب تمھاری چھٹی سائقہ شاپر اٹھا کر چارپائی پر لا رہی تھی میں نے خریداری کے وقت ہر چیز کے دو دو شاپر بنا لئے تھے کچھ شوگر فری چیزوں کا شاپر الگ تھا جو میں نے سائقہ کی امی کی بڑھا دیا تھا باقی فروٹس اور دیگر چیزوں کے شاپر الگ الگ کر کے آدھے شاپر زینت کی امی کو تھما دئیے سائقہ کی امی بولی آپ کے لئے کھانے میں کیا بنائیں میں نے سائقہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا برائیلر مرغی ۔۔۔۔۔ سائقہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور رنگت تھوڑی گلابی ہو گئی سائقہ کی امی بولی برائیلر تو یہاں نہیں ملتی ۔۔موڑ تک جانا پڑے گا سائقہ نے ایک ہی جھپٹا مار کے پاس کھڑے اونچی گردن والے مرغے کو پکڑا اور زینت کی امی کو تھماتے ہوئے بولی چاچا سے اسے ذبح کروا کے بھیج دینا پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولی اس پکا کے آپ کو کھلائیں گے اور برائیلر مرغی بھی آ جائے گی اسے کچا کھا لینا زینت کی امی کے جانے کے بعد سائقہ باتیں کرتی اپنی امی کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔اس نے مجھ سے نگاہیں ملاتے ہوئے اپنی قمیض سائڈ سے کافی حد تک اوپر اٹھاتے ہوئے اپنی پتلی کمر کو بل دے کر بولی امی میں کپڑے بدل لوں پینٹ میں سر اٹھاتے ببلو کو میں نے دائیں ٹانگ کو اپنی بائیں ٹانگ پر رکھ کے اس کو اپنی رانوں م دبا لیا سائقہ نے مجھے آنکھ مار کر مسکرانے لگی میں نے اس کی امی سے شہر کے کسی اچھے ڈاکٹر کا پوچھا تو بولی ڈاکٹر طاہر خان ہیں پہلے اس سے علاج کرایا اب کوئی قطر کی کمائی آئے گی تو جاؤں گی دوبارہ ۔۔ بہت اچھے ڈاکٹر ہیں لیکن مہنگے بہت ہیں ۔۔۔۔ میرے ذہن میں ڈاکٹر طاہر خان کا نام دستک دیتے لگا میں نے کہا کہ باجی اچھے ڈاکٹر مہنگے تو ہوتے ہیں میں نے ایک لمحے کے وقفے کے بعد بولا باجی تیاری کرلیں اس کے پاس چلتے ہیں بولی نہیں بھائی بہت شکریہ ۔۔۔بس میں ٹھیک ہو جاؤں گی ۔۔۔ پیچھے کھڑی سائقہ بولی ہاں یہ سکول کے استاد ٹیچر کی پوڈر بنی گولیاں کھا کر پہلوان بن جائے گی میں نے پھر کہا جاتا باجی ضدِ نہ کریں ۔۔بولی لیکن اس کا نمبر دو دن پہلے لینا پڑتا ۔۔۔سائقہ نے ایک بھرپور انگڑائی لےکر اپنے بوبز اور ہپس کو واضح کیا ۔۔میں نے منہ میں آئے پانی کو حلق سے اتارا ایک لمحے کے وقفے کے بعد بولا باجی چلتے ہیں نمبر لینے کا کوئی طریقہ بنا لیں گے وہ خاموش رہی تو پیچھے کھڑی سائقہ بولی یہ جب بہت خراب ہو جائے گی تو چنگ چی پر لیٹ کے جائے گی ۔۔میں نے کہا سائقہ تیاری کرو ۔۔۔۔ سائقہ نے اپنی ببلی پر ہاتھ رکھا اور بولی اس کی ۔۔۔۔ میں نے گہری سانس لی اور باجی کی طرف ہاتھ کر کے بولا ہاں اس کی اور اپنی نگاہیں اس کی ببلی اور ہپس پر پھیر لی ۔۔۔ اس نے ایک بار پھر انگڑائی لی اور اپنے بوبز پر ہاتھ لگاتے ہوئے اپنی آنکھیں تھوڑی بند کر کے بغیر آواز نکالے لمبی سانس کے ساتھ ہائے ۔۔ بولا میں نے کہا تمھارا کوئی کام نہیں تم گھر پر رہو اور کھانا تیار کروں بولی میں جاؤں گی ۔۔۔ کوئی روک کے دکھائے ۔۔۔ اس دوران زینت کی امی ایک بڑی پلیٹ میں مرغ کا گوشت بنا کر لے آئی ۔۔سائقہ کی ماں نے سائقہ کو مڑ کر دیکھا اور بولی تو نے ابھی تک کپڑے نہیں بدلے ۔۔۔ وہ میرے سے نگاہیں ملا کر لٹک مار کر گھومی اور اپنے پاؤں ایک لائن میں رکھتے ہوئے اپنے ہپس مٹکاتی اس کچے کمرے میں چلی گئی سائقہ کی امی نے زینت کی امی سے بولا بہن ایک احسان اور کر دو۔۔۔ اس کا اچھا سا سالن بنا لو ۔۔۔ بھائی قسمت سے آئے ہیں تو ہم شہر میں ڈاکٹر طاہر کے پاس چلتے ہیں میری طبیعت خراب ہوتی جا رہی اسے دکھا لیتے ہیں ۔۔زینت کی امی نے کہا کوئی بات نہیں میں سونیا سے سالن بنوا لیتی ۔۔ ظاہر ہے ابھی جا رہے تو واپسی لیٹ ہو جاؤ گے ۔۔۔ وہ گوشت واپس لے کر چلی گئی سائقہ شادی پر پہنے ڈارک بلیو کلر کے سوٹ میں جکڑی کمرے سے باہر آنے لگی وہ نخرے سے چلتی قریب آ رہی تھی ۔۔۔ میرے منہ میں پانی بھر آیا سائقہ میرا لایا یہ سوٹ زینت کے بھائی کی رسم مہندی پر پہن چکی تھی اور اسی رات اس۔لکی کوٹھڑی میں ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی ۔۔وہ اپنی امی کے پیچھے رک کر اپنے جسم پر ہاتھ پھیرتی مجھ سے نگاہوں میں ہی پوچھا رہی تھی کہ ٹھیک ہوں یا۔۔۔ میں نے دونوں انگوٹھوں کو ملا کر اسے لائک کیا سائقہ اپنی امی کے کہنے پر اس کے نئے چپل اور کچھ دوسری چیزوں کے ساتھ کچھ پیسے بھی اٹھا لائی تھی اپنی امی کو پیسے دیتے ہوئے بولی آج میں شہر سے لوشن کی بڑی ڈبیہ بھی لوں گی ۔۔۔ اس کی امی بولی بڑی بوتل کو کیا کرو گی بولی اپنے پاس رکھوں گی چھوٹی ایک بار میں ہی ختم ہو جاتی ۔۔ اور پھر چہرے پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگی وہ انگلیوں کے بیچ سے مجھے دیکھ رہی تھی پھر بولی آج۔میں اوپر بیٹھوں گی ۔۔ اس کی امی بولی ہاں گاڑی کی چھت پر بیٹھ جاؤ تم پھر گاڑی کو دیکھتے ہوئے بولی پیچھے جمپ زیادہ لگتے ہا آگے ۔۔۔میں نے اس کے ہپس پر نظر جما کے بولا پیچھے بولی پھر سارا سفر پیچھے ہی کروں گی میں نے کہا نہیں پیچھے باجی لیٹ جائے گی آپ آگے ٹھیک ہیں وہ مسکراہٹ بھرے چہرے کو ہاتھوں میں چھپا کر بیٹھ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ بولی امی میں بھی آج کوئی بڑا انجیکشن لگواؤں گی ایک ہفتے سے جسم کے انگ انگ سے درد اٹھ رہے بار بار جسم بخار سے تپنے لگتا ۔۔۔۔۔ میں اٹھ گیا تھا باجی کے پاؤں میں شدید درد تھا اور اسے سائقہ پکڑ کر گاڑی کے پاس لائی تھی سائقہ اسے پچھلی سیٹ پر بٹھا چکی تھی میں نے چارپائی سے تکیہ اٹھایا اور باجی کو دے دیا سائقہ نے ماں سے اجازت لیکر صرف بڑی سی چادر اوڑھ لی اور گیٹ کی طرف چل دی میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور مین گیٹ کی طرف بڑھا دی سائقہ گیٹ کھول اس کے ایک پلے کے پیچھے کھڑی تھی میں نے گاڑی گلی میں سیدھی کر کے کھڑی کر دی سائقہ مین گیٹ کو تالہ لگا کر آئی اور فرنٹ سیٹ پر برجمان ہو گئی بستی سے نکلنے کے بعد باجی تکیہ کو سائقہ کی سیٹ کے پیچھے گاڑی کی کھڑکی کے پاس لگا کر لیٹ گئی اور اسی لمحے سائقہ نے اپنی قمیض کو توڑا اوپر سرکایا اور اپنی دائیں ٹانگ کو اپنی دوسری ٹانگ پر رکھ دی اس پاجامے میں جکڑے ہپس کو میری طرف پھیر کر بیٹھ گئی اور بغیر کچھ بولے شیشے سے اس پار دیکھتے ہوئے مسکرائے جا رہی تھی وہ کبھی کبھی ان بڑے ہپس پر ہلکی تھپکی دینے لگتی ببلو کروٹ لیتے انڈروئیر سے راستہ بنا کر پینٹ میں میری ٹانگ کے ساتھ لگ چکا تھا سائقہ مجھے اپنی قاتل اداؤں سے مسلسل گھائل کرتی جا رہی تھی گاڑی مین روڈ پر فراٹے بھرتی شہر کو بڑھ رہی تھی اس وقت اندھیرا اپنے سائے گہرا کرتا جا رہا تھا میں سائقہ سے خیال ہٹا کر کچھ سال قبل میڈیکل کالج کے دوستوں کی یادوں کو دھرا رہا تھا میرے ہونٹوں سے ایک بار آہستہ سے نکلا ڈاکٹر طاہر ۔۔۔۔۔۔ گاڑی ایک پرائیویٹ کلینک کی پارکنگ میں پارک کرنے کے بعد ہم کلینک کی عمارت کی طرف بڑھ رہے تھے سائقہ اپنی امی کو بازو سے پکڑے پیچھے آ رہی تھی اور میں اپنے قدموں کو قدرے تیز چلاتا ہوا ایک جگہ سے ویل چئیر لے آیا سائقہ کی امی نے محبت بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے مجھے دعائیں دیں میں سائقہ کے نازک ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دبائے ویل چیئر کو آگے بڑھا رہا تھا استقبالیہ کونٹر پر پہنچے تو ایک نرس نے آگے بڑھ کر نمبر کا پوچھا سائقہ۔نے بتایا کہ نمبر ابھی لینا ہے نرس معذرت کرتے ہوئے جانے لگی کہ نمبر دو دن پہلے لینا پڑتا ۔۔۔ سائقہ اور اس کی امی پریشان ہو گئی پیچھے کو مڑتی نرس کو میں نے سنیئے ۔۔۔۔ کہہ کر روک دیا ۔۔۔میں نے کہا ڈاکٹر صاحب کو بولئیے زاہد ملک آیا ہے ۔۔۔۔ بولی سوری سر نمبر پھر بھی نہیں ملے گا ۔۔۔ میں بولا میں نے آپ سے نمبر تو نہیں مانگا ۔۔۔ ڈاکٹر کو پیغام پہچا سکتی ؟؟؟۔ وہ میرے سر سے پاؤں تک نظریں دوڑاتی اوکے کہہ کر چلی گئی اور دو روم چھوڑ کر ایک روم میں داخل ہو گئی باہر لان سے اس گیلری تک مریض کا خاصا رش تھا اور دو دن بعد نمبر دینے کی بات کسی طور غلط نہیں تھی اسی تیسرے روم کے ڈور کے آگے ڈاکٹر طاھر خان میڈیکل سپیشلسٹ کی تختی لٹک رہی تھی نرس کے اندر جانے کے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں سفید کوٹ پہنے جینز شرٹ میں ملبوس ڈاکٹر طاہر تقریباً بھاگتے ہوئے باہر نکلے تھے اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے مجھ پر نظر پڑتے ہی بازوں کو پھیلایا اور قہقہہ لگاتے میرے طرف بڑھے ڈاکٹر طاہر میرے شہر کے میڈیکل کالج کے سٹوڈنٹ تھے اور دوستوں کا ایک اچھا گروپ بن گیا تھا باجی کا مکمل چیک اپ کے ساتھ میڈیسن دیں اور کچھ انجکشن وہیں لگا دئیے میڈیسن اور فیس کی پیسے نہ لینے کے ساتھ سائقہ کو پانچ ہزار کا نوٹ تھما دیا میرے ٹوکنے پر بولا نہیں میری بھی تو بھانجی ہے ۔۔ واپس گاڑی میں بیٹھتے ہوئے میں پیچھے مڑ کر باجی سے پوچھا اور کچھ لینا ہے ؟؟؟ سائقہ فٹ سے بولی بس اب صرف لوشن ۔۔۔۔ میں نے ساتھ والے جنرل سٹور سے بےبی لوشن کی بڑی بوتل لے لی اور گاڑی میں آ کر سائقہ کی ٹانگوں کے بیچ دبا دی ۔۔۔ باجی پیچھے لیٹی ہوئی تھی سائقہ نے لوشن کی بوتل ہاتھ میں اٹھا کر بولی اس سے بڑی نہیں تھی کیا ؟؟؟ میں نے کہا اس سے بڑی نہیں ہوتی ۔۔ منہ بنا کے بولی یہ تو میری آج رات کی بھی پوری نہیں ہو گی باجی بولی آپ نے پینا ہے کیا آہستہ سے بولی لگا کے پینا ہے ۔۔۔رات نو بجے ہم ہم گھر پہنچ کر کھانا کھا رہے تھے کھانے کے بعد سائقہ کی امی نے بولا مجھے دوائی کا سمجھا دو میں دو راتوں سے نہیں سوئی بہت تھکی ہوں میں نے پینٹ کی جیب میں پڑے نیند کی گولیوں کے پتے سے صرف آدھی گولی نکال لی تھی اور باقی ٹیبلیٹس کے ساتھ باجی کو کھلا دی کیونکہ اسے سکون کی ضرورت تھی باجی نے سائقہ سے بولا بھائی کا بستر چھوٹے کمرے میں لگا دو اور تم بھی آج جلدی سو جاؤ ساتھ پڑی چارپائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔ سائقہ بولی آج تو میرا سکول کا اتنا کام ہے کہ پوری رات بیٹھی رہوں پھر بھی ختم نہیں ہو گا۔۔۔ باجی نیم بند ہوتی آنکھوں سے دھیمے لہجے میں بولی بھاس کی کاپیاں کتابیں دیکھ لو کچھ پڑھتی بھی ہے یا نہیں میں سائقہ کے ساتھ اٹھ گیا ساتھ والے کچے کمرے میں سائقہ نے ایک ٹیبل پر کتابوں کو سلیقے سے رکھا ہوا تھا میں کرسی پر بیٹھنے لگا تھا کہ سائقہ نے میرے ببلو پر زور سے تھپڑ مار کر بولا ہڈ حرام نہ بنو ادھر آؤں اور میرے ساتھ بستر لگواؤ میں آج تیری کلاس لیتی ہوں زیادہ ماموں بننے کی کوشش نہیں کرو ۔۔۔۔ سائقہ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہپس کو مٹکاتی گھر کے کونے میں موجود پکے کمرے کی طرف چل پڑی جو اس بڑے گودام کے ساتھ تھا اندر جا کر سائقہ نے لائٹس جلا لیں اور بولی بستر اٹھواؤ میرے ساتھ میں بستر اٹھانے کو آگے بڑھا تو مجھے ہاتھوں سے پکڑ کر ہنسنے لگی اور بولی ادھر ٹھہرو ۔۔۔ پھر بستر کو ایک بہت چھوٹی چارپائی پر بچھا دیا اور ساتھ پڑی بڑے چارپائی کو بازوں کے بل کھڑا کر دیا میں نے کہا یار میں اس پر سوؤں گا اس بڑی چارپائی پر بستر لگا دیتی ۔۔۔ بولی ہم سنگل مہمان کو یہ چارپائی دیتے ہیں بیگم ساتھ ہوتی تو پھر بڑی چارپائی دینی تھی لہذا یہاں شہر والے نکھرے نہیں چلتے اکیلے سونا ہے اور دل سے سارے لالچ ختم کر کے سو جاؤ تاکہ میں آپ کے آگے تالا لگا کر اپنی مصعوم امی کی عزت بچا سکوں ۔۔۔ میں مسکرا کر اسے تکتا جا رہا تھا پھر باہر جاتے ہوئے بولی صبر کا گھونٹ بھرو اور سو جاؤ۔۔۔ اور وہ چلی گئی کچھ لکڑیاں پھینکنے کی آواز آئی اور نلکا چلنے کی آواز کے کچھ دیر بعد وہ آئی اور لوشن بوتل دیکر بولی جہاں گرد بہت اڑتی ہے جلد پر خشکی ہو تو تھوڑی سی لگا لینا ۔۔۔ ساری ختم نہیں کرنی ۔۔۔ وہ گلے میں لٹکے دوپٹے کو ساتھ کھڑی چارپائی پر ڈال کر اپنی پونی کھولی اور بالو کو جھٹکا کر اپنی پیٹھ پہ پھیلا دیا وہ پیچھے کو دیکھتی اپنی ہپس مٹکاتی باہر جاتے ہوئے بولی اب سو جاؤ میں سونے جا رہی ہوں میں نے مسکراتے ہوئے اسے فلائنگ کس کر دی بولی مجھے آپ کی نظروں میں کوئی لالچ نظر آنے لگا ہے بولو کچھ چاہیے میں نے کہا برائیلر مرغی بولی وہ تو ابھی نہیں مل سکتی صبح بات کریں گے ۔۔۔ وہ چلی گئی دروازہ ہلکا سا کھلا ہوا تھا پندرہ منٹ بعد آ کر آنکھوں کو ملتی ہوئی بولی ۔۔۔آپ نے امی پر کوئی جادو کر دیا ہے اب وہ سونے بھی نہیں دیتی بولتی ہے میرا بھائی تھکا ھوا ہے اسے جا کر ٹانگیں دبا دو پھر منہ بناتے ہو کنڈی اندر سے بند کر کے میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی اور میری ٹانگوں پر ہاتھ ہلکے ہلکے دبانے کی ساتھ ہاتھوں کو اوپر کی طرف لانے لگی پینٹ میں ایک جگہ ابھار آنے پر بولی یہ کیا ہے میری امی کے بھائی ؟؟؟؟ پھر ہنسنے لگی میں نے کہا پتا نہیں دیکھ لو ؟؟ اس نے پینٹ کا بیلٹ کھول دیا وہ اب سنجیدہ ہوتی جا رہی تھی اور سانسیں تیز ہو چکی تھی پینٹ کو ٹانگوں سے نیچے کھینچ کر انڈروئیر کے اوپر ببلو پر گال رکھ کر آنکھیں بند کئے کچھ دیر پڑی رہی پھر وہ اٹھ کر میرے سینے پر لیٹتے ہوئے میرے چہرے پر کسنگ کرتے ہوئے بولی۔بہت شکریہ آج آپ نے میری محبت کو پختہ کر دیا آنے سے پہلے بتا دیا کرو ورنہ تمھیں اچانک دیکھ کر میں کسی لمحے پاگل ہو جاؤں گی میں نے اس کو باہوں میں بھرتے ہوئے کہا آج آپ نے مجھے بھی بہت پاگل کر دیا ہے اب خود ہی بھگتو گی بولی مجھے اپنے ساتھ کیوں نہیں لے جاتے میں نے کہا میٹرک اچھے نمبروں سے کرو گی تو تجھے پکا اپنے ساتھ رکھوں گا ہاتھ بڑھا کر بولی وعدہ میں نے ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں پر رکھتے ہوئے کہا وعدہ ہ ہ میں اٹھ گیا اورسائقہ کو کھڑا کر کے اس کی قمیض بریزر اور شمیض اتار دی اور پیچھے بیٹھ کر پاجامے سے اس کی ہپس چھڑاتے ہوئے کسنگ کرنے لگا۔ پینٹ میں سر اٹھاتے ببلو کو میں نے دائیں ٹانگ کو اپنی بائیں ٹانگ پر رکھ کے اس کو اپنی رانوں م دبا لیا سائقہ نے مجھے آنکھ مار کر مسکرانے لگی میں نے اس کی امی سے شہر کے کسی اچھے ڈاکٹر کا پوچھا تو بولی ڈاکٹر طاہر خان ہیں پہلے اس سے علاج کرایا اب کوئی قطر کی کمائی آئے گی تو جاؤں گی دوبارہ ۔۔ بہت اچھے ڈاکٹر ہیں لیکن مہنگے بہت ہیں ۔۔۔۔ میرے ذہن میں ڈاکٹر طاہر خان کا نام دستک دیتے لگا میں نے کہا کہ باجی اچھے ڈاکٹر مہنگے تو ہوتے ہیں میں نے ایک لمحے کے وقفے کے بعد بولا باجی تیاری کرلیں اس کے پاس چلتے ہیں بولی نہیں بھائی بہت شکریہ ۔۔۔بس میں ٹھیک ہو جاؤں گی ۔۔۔ پیچھے کھڑی سائقہ بولی ہاں یہ سکول کے استاد ٹیچر کی پوڈر بنی گولیاں کھا کر پہلوان بن جائے گی میں نے پھر کہا جاتا باجی ضدِ نہ کریں ۔۔بولی لیکن اس کا نمبر دو دن پہلے لینا پڑتا ۔۔۔سائقہ نے ایک بھرپور انگڑائی لےکر اپنے بوبز اور ہپس کو واضح کیا ۔۔میں نے منہ میں آئے پانی کو حلق سے اتارا ایک لمحے کے وقفے کے بعد بولا باجی چلتے ہیں نمبر لینے کا کوئی طریقہ بنا لیں گے وہ خاموش رہی تو پیچھے کھڑی سائقہ بولی یہ جب بہت خراب ہو جائے گی تو چنگ چی پر لیٹ کے جائے گی ۔۔میں نے کہا سائقہ تیاری کرو ۔۔۔۔ سائقہ نے اپنی ببلی پر ہاتھ رکھا اور بولی اس کی ۔۔۔۔ میں نے گہری سانس لی اور باجی کی طرف ہاتھ کر کے بولا ہاں اس کی اور اپنی نگاہیں اس کی ببلی اور ہپس پر پھیر لی ۔۔۔ اس نے ایک بار پھر انگڑائی لی اور اپنے بوبز پر ہاتھ لگاتے ہوئے اپنی آنکھیں تھوڑی بند کر کے بغیر آواز نکالے لمبی سانس کے ساتھ ہائے ۔۔ بولا میں نے کہا تمھارا کوئی کام نہیں تم گھر پر رہو اور کھانا تیار کروں بولی میں جاؤں گی ۔۔۔ کوئی روک کے دکھائے ۔۔۔ اس دوران زینت کی امی ایک بڑی پلیٹ میں مرغ کا گوشت بنا کر لے آئی ۔۔سائقہ کی ماں نے سائقہ کو مڑ کر دیکھا اور بولی تو نے ابھی تک کپڑے نہیں بدلے ۔۔۔ وہ میرے سے نگاہیں ملا کر لٹک مار کر گھومی اور اپنے پاؤں ایک لائن میں رکھتے ہوئے اپنے ہپس مٹکاتی اس کچے کمرے میں چلی گئی سائقہ کی امی نے زینت کی امی سے بولا بہن ایک احسان اور کر دو۔۔۔ اس کا اچھا سا سالن بنا لو ۔۔۔ بھائی قسمت سے آئے ہیں تو ہم شہر میں ڈاکٹر طاہر کے پاس چلتے ہیں میری طبیعت خراب ہوتی جا رہی اسے دکھا لیتے ہیں ۔۔زینت کی امی نے کہا کوئی بات نہیں میں سونیا سے سالن بنوا لیتی ۔۔ ظاہر ہے ابھی جا رہے تو واپسی لیٹ ہو جاؤ گے ۔۔۔ وہ گوشت واپس لے کر چلی گئی سائقہ شادی پر پہنے ڈارک بلیو کلر کے سوٹ میں جکڑی کمرے سے باہر آنے لگی وہ نخرے سے چلتی قریب آ رہی تھی ۔۔۔ میرے منہ میں پانی بھر آیا سائقہ میرا لایا یہ سوٹ زینت کے بھائی کی رسم مہندی پر پہن چکی تھی اور اسی رات اس۔لکی کوٹھڑی میں ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی ۔۔وہ اپنی امی کے پیچھے رک کر اپنے جسم پر ہاتھ پھیرتی مجھ سے نگاہوں میں ہی پوچھا رہی تھی کہ ٹھیک ہوں یا۔۔۔ میں نے دونوں انگوٹھوں کو ملا کر اسے لائک کیا سائقہ اپنی امی کے کہنے پر اس کے نئے چپل اور کچھ دوسری چیزوں کے ساتھ کچھ پیسے بھی اٹھا لائی تھی اپنی امی کو پیسے دیتے ہوئے بولی آج میں شہر سے لوشن کی بڑی ڈبیہ بھی لوں گی ۔۔۔ اس کی امی بولی بڑی بوتل کو کیا کرو گی بولی اپنے پاس رکھوں گی چھوٹی ایک بار میں ہی ختم ہو جاتی ۔۔ اور پھر چہرے پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگی وہ انگلیوں کے بیچ سے مجھے دیکھ رہی تھی پھر بولی آج۔میں اوپر بیٹھوں گی ۔۔ اس کی امی بولی ہاں گاڑی کی چھت پر بیٹھ جاؤ تم پھر گاڑی کو دیکھتے ہوئے بولی پیچھے جمپ زیادہ لگتے ہا آگے ۔۔۔میں نے اس کے ہپس پر نظر جما کے بولا پیچھے بولی پھر سارا سفر پیچھے ہی کروں گی میں نے کہا نہیں پیچھے باجی لیٹ جائے گی آپ آگے ٹھیک ہیں وہ مسکراہٹ بھرے چہرے کو ہاتھوں میں چھپا کر بیٹھ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ بولی امی میں بھی آج کوئی بڑا انجیکشن لگواؤں گی ایک ہفتے سے جسم کے انگ انگ سے درد اٹھ رہے بار بار جسم بخار سے تپنے لگتا ۔۔۔۔۔ میں اٹھ گیا تھا باجی کے پاؤں میں شدید درد تھا اور اسے سائقہ پکڑ کر گاڑی کے پاس لائی تھی سائقہ اسے پچھلی سیٹ پر بٹھا چکی تھی میں نے چارپائی سے تکیہ اٹھایا اور باجی کو دے دیا سائقہ نے ماں سے اجازت لیکر صرف بڑی سی چادر اوڑھ لی اور گیٹ کی طرف چل دی میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور مین گیٹ کی طرف بڑھا دی سائقہ گیٹ کھول اس کے ایک پلے کے پیچھے کھڑی تھی میں نے گاڑی گلی میں سیدھی کر کے کھڑی کر دی سائقہ مین گیٹ کو تالہ لگا کر آئی اور فرنٹ سیٹ پر برجمان ہو گئی بستی سے نکلنے کے بعد باجی تکیہ کو سائقہ کی سیٹ کے پیچھے گاڑی کی کھڑکی کے پاس لگا کر لیٹ گئی اور اسی لمحے سائقہ نے اپنی قمیض کو توڑا اوپر سرکایا اور اپنی دائیں ٹانگ کو اپنی دوسری ٹانگ پر رکھ دی اس پاجامے میں جکڑے ہپس کو میری طرف پھیر کر بیٹھ گئی اور بغیر کچھ بولے شیشے سے اس پار دیکھتے ہوئے مسکرائے جا رہی تھی وہ کبھی کبھی ان بڑے ہپس پر ہلکی تھپکی دینے لگتی ببلو کروٹ لیتے انڈروئیر سے راستہ بنا کر پینٹ میں میری ٹانگ کے ساتھ لگ چکا تھا سائقہ مجھے اپنی قاتل اداؤں سے مسلسل گھائل کرتی جا رہی تھی گاڑی مین روڈ پر فراٹے بھرتی شہر کو بڑھ رہی تھی اس وقت اندھیرا اپنے سائے گہرا کرتا جا رہا تھا میں سائقہ سے خیال ہٹا کر کچھ سال قبل میڈیکل کالج کے دوستوں کی یادوں کو دھرا رہا تھا میرے ہونٹوں سے ایک بار آہستہ سے نکلا ڈاکٹر طاہر ۔۔۔۔۔۔ گاڑی ایک پرائیویٹ کلینک کی پارکنگ میں پارک کرنے کے بعد ہم کلینک کی عمارت کی طرف بڑھ رہے تھے سائقہ اپنی امی کو بازو سے پکڑے پیچھے آ رہی تھی اور میں اپنے قدموں کو قدرے تیز چلاتا ہوا ایک جگہ سے ویل چئیر لے آیا سائقہ کی امی نے محبت بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے مجھے دعائیں دیں میں سائقہ کے نازک ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دبائے ویل چیئر کو آگے بڑھا رہا تھا استقبالیہ کونٹر پر پہنچے تو ایک نرس نے آگے بڑھ کر نمبر کا پوچھا سائقہ۔نے بتایا کہ نمبر ابھی لینا ہے نرس معذرت کرتے ہوئے جانے لگی کہ نمبر دو دن پہلے لینا پڑتا ۔۔۔ سائقہ اور اس کی امی پریشان ہو گئی پیچھے کو مڑتی نرس کو میں نے سنیئے ۔۔۔۔ کہہ کر روک دیا ۔۔۔میں نے کہا ڈاکٹر صاحب کو بولئیے زاہد ملک آیا ہے ۔۔۔۔ بولی سوری سر نمبر پھر بھی نہیں ملے گا ۔۔۔ میں بولا میں نے آپ سے نمبر تو نہیں مانگا ۔۔۔ ڈاکٹر کو پیغام پہچا سکتی ؟؟؟۔ وہ میرے سر سے پاؤں تک نظریں دوڑاتی اوکے کہہ کر چلی گئی اور دو روم چھوڑ کر ایک روم میں داخل ہو گئی باہر لان سے اس گیلری تک مریض کا خاصا رش تھا اور دو دن بعد نمبر دینے کی بات کسی طور غلط نہیں تھی اسی تیسرے روم کے ڈور کے آگے ڈاکٹر طاھر خان میڈیکل سپیشلسٹ کی تختی لٹک رہی تھی نرس کے اندر جانے کے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں سفید کوٹ پہنے جینز شرٹ میں ملبوس ڈاکٹر طاہر تقریباً بھاگتے ہوئے باہر نکلے تھے اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے مجھ پر نظر پڑتے ہی بازوں کو پھیلایا اور قہقہہ لگاتے میرے طرف بڑھے ڈاکٹر طاہر میرے شہر کے میڈیکل کالج کے سٹوڈنٹ تھے اور دوستوں کا ایک اچھا گروپ بن گیا تھا باجی کا مکمل چیک اپ کے ساتھ میڈیسن دیں اور کچھ انجکشن وہیں لگا دئیے میڈیسن اور فیس کی پیسے نہ لینے کے ساتھ سائقہ کو پانچ ہزار کا نوٹ تھما دیا میرے ٹوکنے پر بولا نہیں میری بھی تو بھانجی ہے ۔۔ واپس گاڑی میں بیٹھتے ہوئے میں پیچھے مڑ کر باجی سے پوچھا اور کچھ لینا ہے ؟؟؟ سائقہ فٹ سے بولی بس اب صرف لوشن ۔۔۔۔ میں نے ساتھ والے جنرل سٹور سے بےبی لوشن کی بڑی بوتل لے لی اور گاڑی میں آ کر سائقہ کی ٹانگوں کے بیچ دبا دی ۔۔۔ باجی پیچھے لیٹی ہوئی تھی سائقہ نے لوشن کی بوتل ہاتھ میں اٹھا کر بولی اس سے بڑی نہیں تھی کیا ؟؟؟ میں نے کہا اس سے بڑی نہیں ہوتی ۔۔ منہ بنا کے بولی یہ تو میری آج رات کی بھی پوری نہیں ہو گی باجی بولی آپ نے پینا ہے کیا آہستہ سے بولی لگا کے پینا ہے ۔۔۔رات نو بجے ہم ہم گھر پہنچ کر کھانا کھا رہے تھے کھانے کے بعد سائقہ کی امی نے بولا مجھے دوائی کا سمجھا دو میں دو راتوں سے نہیں سوئی بہت تھکی ہوں میں نے پینٹ کی جیب میں پڑے نیند کی گولیوں کے پتے سے صرف آدھی گولی نکال لی تھی اور باقی ٹیبلیٹس کے ساتھ باجی کو کھلا دی کیونکہ اسے سکون کی ضرورت تھی باجی نے سائقہ سے بولا بھائی کا بستر چھوٹے کمرے میں لگا دو اور تم بھی آج جلدی سو جاؤ ساتھ پڑی چارپائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔ سائقہ بولی آج تو میرا سکول کا اتنا کام ہے کہ پوری رات بیٹھی رہوں پھر بھی ختم نہیں ہو گا۔۔۔ باجی نیم بند ہوتی آنکھوں سے دھیمے لہجے میں بولی بھاس کی کاپیاں کتابیں دیکھ لو کچھ پڑھتی بھی ہے یا نہیں میں سائقہ کے ساتھ اٹھ گیا ساتھ والے کچے کمرے میں سائقہ نے ایک ٹیبل پر کتابوں کو سلیقے سے رکھا ہوا تھا میں کرسی پر بیٹھنے لگا تھا کہ سائقہ نے میرے ببلو پر زور سے تھپڑ مار کر بولا ہڈ حرام نہ بنو ادھر آؤں اور میرے ساتھ بستر لگواؤ میں آج تیری کلاس لیتی ہوں زیادہ ماموں بننے کی کوشش نہیں کرو ۔۔۔۔ سائقہ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہپس کو مٹکاتی گھر کے کونے میں موجود پکے کمرے کی طرف چل پڑی جو اس بڑے گودام کے ساتھ تھا اندر جا کر سائقہ نے لائٹس جلا لیں اور بولی بستر اٹھواؤ میرے ساتھ میں بستر اٹھانے کو آگے بڑھا تو مجھے ہاتھوں سے پکڑ کر ہنسنے لگی اور بولی ادھر ٹھہرو ۔۔۔ پھر بستر کو ایک بہت چھوٹی چارپائی پر بچھا دیا اور ساتھ پڑی بڑے چارپائی کو بازوں کے بل کھڑا کر دیا میں نے کہا یار میں اس پر سوؤں گا اس بڑی چارپائی پر بستر لگا دیتی ۔۔۔ بولی ہم سنگل مہمان کو یہ چارپائی دیتے ہیں بیگم ساتھ ہوتی تو پھر بڑی چارپائی دینی تھی لہذا یہاں شہر والے نکھرے نہیں چلتے اکیلے سونا ہے اور دل سے سارے لالچ ختم کر کے سو جاؤ تاکہ میں آپ کے آگے تالا لگا کر اپنی مصعوم امی کی عزت بچا سکوں ۔۔۔ میں مسکرا کر اسے تکتا جا رہا تھا پھر باہر جاتے ہوئے بولی صبر کا گھونٹ بھرو اور سو جاؤ۔۔۔ اور وہ چلی گئی کچھ لکڑیاں پھینکنے کی آواز آئی اور نلکا چلنے کی آواز کے کچھ دیر بعد وہ آئی اور لوشن بوتل دیکر بولی جہاں گرد بہت اڑتی ہے جلد پر خشکی ہو تو تھوڑی سی لگا لینا ۔۔۔ ساری ختم نہیں کرنی ۔۔۔ وہ گلے میں لٹکے دوپٹے کو ساتھ کھڑی چارپائی پر ڈال کر اپنی پونی کھولی اور بالو کو جھٹکا کر اپنی پیٹھ پہ پھیلا دیا وہ پیچھے کو دیکھتی اپنی ہپس مٹکاتی باہر جاتے ہوئے بولی اب سو جاؤ میں سونے جا رہی ہوں میں نے مسکراتے ہوئے اسے فلائنگ کس کر دی بولی مجھے آپ کی نظروں میں کوئی لالچ نظر آنے لگا ہے بولو کچھ چاہیے میں نے کہا برائیلر مرغی بولی وہ تو ابھی نہیں مل سکتی صبح بات کریں گے ۔۔۔ وہ چلی گئی دروازہ ہلکا سا کھلا ہوا تھا پندرہ منٹ بعد آ کر آنکھوں کو ملتی ہوئی بولی ۔۔۔آپ نے امی پر کوئی جادو کر دیا ہے اب وہ سونے بھی نہیں دیتی بولتی ہے میرا بھائی تھکا ھوا ہے اسے جا کر ٹانگیں دبا دو پھر منہ بناتے ہو کنڈی اندر سے بند کر کے میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی اور میری ٹانگوں پر ہاتھ ہلکے ہلکے دبانے کی ساتھ ہاتھوں کو اوپر کی طرف لانے لگی پینٹ میں ایک جگہ ابھار آنے پر بولی یہ کیا ہے میری امی کے بھائی ؟؟؟؟ پھر ہنسنے لگی میں نے کہا پتا نہیں دیکھ لو ؟؟ اس نے پینٹ کا بیلٹ کھول دیا وہ اب سنجیدہ ہوتی جا رہی تھی اور سانسیں تیز ہو چکی تھی پینٹ کو ٹانگوں سے نیچے کھینچ کر انڈروئیر کے اوپر ببلو پر گال رکھ کر آنکھیں بند کئے کچھ دیر پڑی رہی پھر وہ اٹھ کر میرے سینے پر لیٹتے ہوئے میرے چہرے پر کسنگ کرتے ہوئے بولی۔بہت شکریہ آج آپ نے میری محبت کو پختہ کر دیا آنے سے پہلے بتا دیا کرو ورنہ تمھیں اچانک دیکھ کر میں کسی لمحے پاگل ہو جاؤں گی میں نے اس کو باہوں میں بھرتے ہوئے کہا آج آپ نے مجھے بھی بہت پاگل کر دیا ہے اب خود ہی بھگتو گی بولی مجھے اپنے ساتھ کیوں نہیں لے جاتے میں نے کہا میٹرک اچھے نمبروں سے کرو گی تو تجھے پکا اپنے ساتھ رکھوں گا ہاتھ بڑھا کر بولی وعدہ میں نے ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں پر رکھتے ہوئے کہا وعدہ ہ ہ میں اٹھ گیا اورسائقہ کو کھڑا کر کے اس کی قمیض بریزر اور شمیض اتار دی اور پیچھے بیٹھ کر پاجامے سے اس کی ہپس چھڑاتے ہوئے کسنگ کرنے لگے میں نے سفید ریشم کی کی گٹھری کی طرف بچوں کے طرح اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا اور اس کے مکھن کے پیڑے جیسے گول بوبز پر لگے ہلکے چھوٹے گلابی نپلز کو چوسنے لگا وہ اتنے نرم تھے کہ دانت لگانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ کہیں کٹ نہ جائیں ۔۔۔۔ بولی آج مجھے قتل کرو گے ناں ؟؟؟؟ میں نے اپنے ہونٹوں سے اس کے بوبز دبا دئیے وہ میرے گلے میں باہیں ڈالے تیز سانسوں سے منہ میں آئے پانی کو بار بار گلے سے اتار کر مجھے ہرنی جیسی آنکھوں سے دیکھتے خاموش زبان میں کہہ رہی تھی کہ میں کانچ کی گڑیا پیار میں بہت اوپر آ گئی ہوں مجھے یہاں سے چھوڑ کر توڑ نہ دینا میں نے ایک دم اس کے ہپس اور کندھے کو پکڑے اپنے ہاتھوں کو اوپر اٹھا کر اپنے سینے کے اندر ڈالنے کی بھرپور کوشش کی سائقہ نے بھی اپنی باہوں کی گرفت میرے گلے پر سخت کر دی اور ہلکی سی چیخ جیسی آواز نکالی میں اسے بستر لگی اس چھوٹی چارپائی پر اسے آرام سے رکھ دیا جیسے تازہ پھولوں کا گلدستہ باریک ڈور سے بندھا ہو میں نے اپنی شرٹ اتار کر ساتھ کھڑی چارپائی پر ڈال دی ۔۔۔ میں نگاہیں ملائے چارپائی پاس آیا سائقہ نے آنکھوں کو جھپکائے بغیر اپنا ہاتھ میری انڈروئیر میں ڈال کر اسے گھٹنوں تک نیچے کر دیا بےلگام گھوڑے کی طرح بپھرتے ببلو کو اپنے ہاتھ میں بھرنے کی کوشش کے ساتھ پکڑ کر سائقہ نے اپنے گال پر رکھ کر ببلو کو مست کر دینے والا لمس دیا میں نے انڈروئیر اپنی ٹانگوں سے نکل کر اس چھوٹی چارپائی پر بیٹھ گیا چارپائی نے ہلکی سی چی چی کے ساتھ مجھے ویلکم کہا میں سائقہ کے ہپس کے اوپری کناروں کو پکڑ کر اس کی ٹانگوں کی بیچ بیٹھ کراس کی پتلی کمر اور بل کھاتے پیٹ کو دیکھ کر اوپر کو نظر اٹھاتا اس کی برف سے ڈھکی سفید پہاڑوں کا نظارہ کرنے لگا میری باڈی سے تقریباً آدھے جسم کی مالک سائقہ پیار اور حسن کی لازوال مثال تھی میں نے جھک کر سائقہ کی ران پر اس جگہ اپنے ہونٹ رکھ دیئے جو ذرا زیادہ کانپ رہی تھی آنکھیں بند کر کے کسنگ کرنے کے بعد میں نے اپنا سر اوپر اٹھا کر سائقہ کی گول مکھن جیسی رانوں کو ہاتھ بھر کر پکڑا تو سائقہ التجا بھرے لہجے میں بولی میرے ساتھ کچھ دیں سو جاؤ گے میں اس کی محبت بھری آنکھوں پر بوسہ دیتے چھوٹی چارپائی پر اس کے ساتھ سو کر اپنی ٹانگیں لمبی کر لی میری پنڈلیوں کے درمیانی حصے پر چارپائی ختم ہو چکی تھی میری پیٹھ کی نیچے چارپائی کا بازو چبھ رہا تھا اور میرے سینے سے چپک جانے والی سائقہ کے اس پار بھی چارپائی پر کوئی گنجائش باقی نہیں تھی میں سائیڈ پر سو کے سائقہ کو اپنے سینے کے اندر ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا اور سائقہ اپنے ننھے جسم کو میرے سینے کے اندر پرونکی کوشش میں سرگرداں تھی وہ رونے والے انداز میں لمبی آئی ی ی کرتی میرے بائیں بغل میں ہاتھ ڈال کر مذید اپنی طرف کھینچ رہی تھی اس کی ٹانگیں گھٹنوں سے اوپر ایک۔دم گول او موٹی ہوتی ہوئی تھوڑے سے فاصلے پر ہی پیچھے کو نکلنے ہوئے ہپس کی شکل اختیار کر کر گئی تھی اور ہپس سے اوپر الگ دھڑ معلوم ہونے لگا تھا موٹے گول ہپس سے آگے پہاڑی جیسی اترائی تھے اور اس میں کم سے 6 نچ کا فرق تھا ہپس سے نیچے ایک دم اترائی کے بعد اس کا جسم گول کمر اور گول باڈی کے ساتھ ابھرے ہوئے گلابی نپلز کے ساتھ تنے ہوئے تھے اور اس سے توڑا اوپر نرم سفید ریشم جیسے گال اور سلکی درمیانے بال۔۔۔ میرے پاؤں سے ایک فٹ اوپر سے شروع ہونے والی سائقہ میرے سر سے ایک فٹ نیچے ختم ہو رہی تھی میرے سینے پر چمکی سائیڈ پر سوئی سائقہ کے ہپس کا اس وقت سب سے بلند حصے میرے دائیں ٹانگ سے تھوڑا اوپر تھا اور میں بائیں ٹانگ اس کے ہپس پر رکھ کر قطعاً یہ۔محسوس نہیں کر رہا تھا کہ میں نے اپنی ٹانگ کسی اونچی جگہ رخھ لی ہے میں اس کے نرم ہپس کو اپنے ہاتھوں میں بھر رہا تھا اور پھر میرا ہاتھ اپنے ببلو کی ٹوپی پر جا لگا میرا ببلو سائقہ۔کی ٹانگوں کے درمیان سے ہوتا ہوا اس کے ہپس کے نچلے حصے سے معمولی فاصلے پر تقریباً تین انچ باہر نکلا ہوا تھا اور سائقہ نے اسے اپنی نرم رانوں میں جکڑ رکھا تھا میں نے سائقہ کو بغلوں کے۔نیچے ہاتھ ڈال کر اوپر کھےنچ لیا تھا اور اس کے بوبز کر اپنی آنکھوں پر رکھ دیا میری آنکھیں گرم ٹکور سے پر سکون ہونے لگی تھی سائقہ نے اپنی ننھی نرم بھری بھری انگلیوں سے میرے بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے لرزتے جسم اور اکھڑی سانسوں کے ساتھ بولا بسسسسس ۔۔۔۔ اب ۔۔۔ کروووو۔۔ میں نے اٹھتے ہوئے سائقہ کو چارپائی کے درمیان کر دیا سرہانہ اس کےبسر کے نیچے سے نکال کر آس کی دونوں ٹانگوں کو پاؤں کے قریب سے ایک ہی ہاتھ میں پکڑ کر اوپر کو اٹھائیں اور اس کے ہپس کے نیچے سرہانہ رکھ دیا سائقہ اپنی تھوڑی اپنے سینے سے ٹکائے نیم کھلی آنکھوں اور اوپری ہونٹ قدرے اوپر اٹھائے لمبے سانس لیتے مجھے دیکھ رہی تھی میں نے ببلو کو پکڑ کر اس کے پیٹ کے اوپر لے آیا ببلو کی نیچے لگی گولیاں ببلی کے ہوںٹوں سے جڑ کر کچھ باتیں کرنے لگی تھی ببلو ناف سے کافی آگے جا کر اس شفاف چھوٹے میدان پر اوپن ائیر کا مزہ لے رہا تھا میں نے اپنی پنڈلی کے پاس پڑی لوشن کی بوتل سائقہ کو تھما دی اس نے بوتل کا کلپ کھولنے کے بجائے پورا ڈھکن کھول کر ڈھکن کو چارپائی سے نیچے پھینک دیا اور اپنا سر تھوڑا اوپر اٹھا کر بوتل ببلو کے ڈنڈے پر آگے پیچھے کرتی آدھا لوشن گرا دیا تھا اور بوتل چارپائی کر اپنے ساتھ رکھ لی ۔۔لوشن ببلو کے ڈنڈے سے مختلف مقامات پر لکیر بناتی سائقہ کے سنگ مرمر جیسے سفید پیٹ پر گرنے لگی تھی میں ببلو کی ٹوپی اور باقی حصوں کو سائقہ کے پیٹ پر گھما کر اسے تر کر رہا تھا ببلو پوری طرح لوشن میں لپٹ گیا تھا اور لوشن کی کی کافی بڑی مقدار سائقہ کے پیٹ سے اس کی کمر پر لکیریں بنا کر گرنے لگی تھی میں نے سائقہ کی ٹانگیں اپنے سینے پر سجا رکھی تھی اس کی دونوں پاؤں میرے کندھوں سے نیچے میرے چہرے کے دونوں طرف آ گئے تھے میں نے سائقہ کی پاؤں کی دونوں تلیوں کو باری باری چوما اور لوشن میں لت پت ببلو کو ببلی کی لکیر پر آزاد چھوڑ دیا تھا سائقہ کا اوپری ہونٹ مذید اوپر اٹھنے لگا اور اس کی۔نیم کھلی آنکھیں پوری طرح کھلتی چلی گئیں ببلو لوشن کے مکمل ساتھ دینے سے پھسلتا کسی نرم سی دلدل میں نیچے جا رہا تھا سائقہ کے ہپس کپکپا کر اوپر اٹھانے لگے تھا میں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اس کی کمر پر پھیر کر لوشن سے لت پت کیا اور اس کے ہپس پر مساج کرنے لگا ببلو کے چھ انچ سے آگے جانے پر سائقہ کی آنکھوں سے دونوں طرف آنسو گرنے لگے اور وائی وائی وائی کی دردِ بھری آواز کے ساتھ سائقہ کا پورا جسم لرزنے لگا میں نے ببلو کو روکے بغیر اسی ہلکی رفتار سے بڑھانے کے ساتھ سائقہ کے کانپتے پیر چومنے لگا۔۔۔ میرا آگے کو سرکنے والا جسم سائقہ کی باڈی سے ٹکڑا کر رک چکا تھا سائقہ کا منہ پوری طرح کھل چکا تھا اور اس کی وائی وائی وائی کی مدھم آواز اس کے حلق میں پھنس گئی تھی سائقہ کے موتیوں جیسے دانت بہت بھلے لگ رہے تھے میں اس کے پاؤں چومتا اپنے ہاتھوں کو اس کی کمر سے گرنے والی لوشن سے تر کر کے اس کے بوبز کو ہاتھ بھر بر کے مساج کرنے لگا اس کے گلابی نپلز کو نرمی سے انگلیوں میں بھر کر مسلنے لگا تو سائقہ نے سسکیاں کے ساتھ کافی دیر سے ساکت پڑے ہپس کو تھوڑا اوپر ہلایا اور آنکھیں کھول کر درد بھری محبت سے مجھے دیکھنے لگی میں نے اس سے نگاہیں ملا کر ببلو کو تھوڑی حرکت دینی شروع کر دی سائقہ آنکھوں کو جھپکائے بغیر میں آنکھوں کا ساتھ دیتے ہوئے اونہہ اونہہ کر رہی تھی میں جسم کو حرکت اتنی دے رہا تھا کہ سائقہ کے جسم سے الگ نہیں ہو رہا تھا سائقہ میرے سینے پر اپنی بھرے بھرے گول سفید ریشم جیسے ہاتھ ٹکا کر اونہہ اونہہ کر رہی تھی سائقہ کے جسم پر پسینے کی ننھی بوندیں نمودار ہو گئی تھیں جیسے اس نے بہت زیادہ وزن اٹھا رکھا ہو پھر اس نے اپنے ہونٹوں کو دو بار گول کر کہ مجھے بولے بغیر آنکھوں سے چہرہ قریب لانے کا کہا میں نے اس کی اپنے سینے پر سجی ٹانگوں کو اپنی سائیڈوں پر رکھا اور اس پر جھک گیا اس نے میرے ہونٹوں کو چوستے ہوئے زبان باہر لانے کا اشارہ دیا اور میری زبان کو اپنے منہ میں بھر لیا میں نے اس پرجوش لمحات میں اپنے جھٹکوں میں ذرا سی تیزی بھر لی وہ میری زبان کو چوس کر اندر لینے کی کوشش کے ساتھ اونہہہہہہہہہ اونہہہہہہہہ اونہہہہہہہہہ کی گہری آوازوں کے ساتھ اپنے ہپس ذرا اوپر اٹھانے شروع کر دئیے اور پھر جسم کو اکڑاتے ہوئے میری زبان کو چھوڑا اور ذرا سائیڈ پر چہرہ پھیر کر وششششششششش کی لمبی سیٹی نما آواز کے ساتھ کمر کو بل دے کر ہپس کوتھوڑا کپکپایا اور پسینے بھرے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا میں رک چکا تھا اور اس کے ان لذت کے لمحات کو محسوس کرنے لگا کچھ دیر بعد اس نے۔آنکھیں کھودیں اور میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر۔مجھے پیار بھری نظروں سے تکے جا رہی تھی پھر ۔۔۔۔پہلے سے ذرا اونچی آواز میں بولا ذرا اٹھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آہستہ سے ببلو کو باہر نکالتا اٹھنے لگا ابھی ببلو تقریباً دو انچ اندر تھا کہ اس نے اپنی بائیں ٹانگ کوتھوڑا سکیڑ کر دائیں طرف گھوم گئی ببلو اس کے ہپس کو چومتا اوپر کو اٹھ گیا سائقہ نے چارپائی کے سر والی سائیڈ سے پکڑا اور اپنے پانی کی لہروں کی طرح مچلتے ہپس میرے سینے برابر اٹھائے اور الٹا لیتے ہوئے میرے سامنے سجا دئیے۔۔۔۔۔۔۔ اور بائیں ہاتھ سے لوشن کی بوتل مجھے تھماتے ہوئے ہوں ں ں ں کہ کر میرے دل پر گہرے پیار کا مکا مارا ۔۔۔۔۔ میں نے چارپائی سے اٹھتے ہوئے اس کے ہپس پر تھپکی دی اس نے سر اٹھا کر مسکرا کر پوچھا کیا اااا ہے ؟؟؟ میں سائقہ کو اٹھنے کا اشارہ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اففففففف اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر قیامت لگ رہی تھی شیشے جیسے شفاف گورے برابر گول باڈی پر مکھن کے پیڑوں پر لگے ننھے شہد سے میٹھے گلابی نپلز پتلی کمر اور موٹے پیچھے کو نکلے سفید ریشم جیسے ہپس کو گھماتے میرے جذبات کو مذید بھڑکا گئی میں نے چارپائی کے بازوں پر رضائی کو تہہ کر کے رکھ دیا اور سائقہ کی پتلی کمر کو ایک ہاتھ سے پکڑ کر اسے پیچھے لانے لگا میں نے سائقہ کو گھوڑی بنا کر اس کی کمر پر تھپکی دے کر اسے مذید جھکا دیا اب اس کے گورے ریشمی ہپس پتلی کمر کے اس بل کھا کے کھڑے ہونے سے مذید دلکش ہو گئے تھے میں تےز سانس لیٹے لوشن کی بوتل اٹھائی ببلو کے نیچے لگے جھمکوں کو نرم ہپس سے ٹکرایا اور ببلو کو سائقہ کی پیٹھ پر سجاکے اس پر لوشن انڈیلنے لگا لوشن ببلو پر لکیریں بناتی سائقہ کے بھرے بھر ہپس پر گرنے لگی میں ببلو کو گھما گھما کو اسے لوشن میں لپیٹا پھر لوشن کی بوتل سے کچھ لوشن ہپس کی درمیانی لکیر میں گرایا لوشن کی دھار لکیر میں غائب ہونے لگی میں نے بوتل کو چارپائی کی کنارے رکھا اور دونوں ہاتھوں سے ہپس کے پٹ کھول کر دیکھا لوشن ہول تک آ گئی تھی پچھلے گلابی ہول کے لمس کو محسوس کرتے ہوئے ببلو نے فراٹے بھر ہوٹ ادھر ادھر ادھر کہنا شروع کر دیا میں نے ببلو کی ٹوپی کو ہول کے منہ پر سجایا اور ہپس کے پٹ بند کر دئیے میں نے سائقہ کے ہپس اور کمر کے درمیانی خم میں ہاتھ جما کر سائقہ کو آہستہ آہستہ پیچھے کھینچنے لگا ہول پر دباؤ بڑھاتے ببلو نے پھسل کر انٹری۔مار دی اور آگے بڑھنے لگا سائقہ نہ اونہہہہہ اونہہہہہ کی گہری آواز سے اپنی کمر کو کمان کی طرح ٹیڑھا کرتے ہوئے اپنے ہپس گرانے شروع کر دئیے جیسے اس پر بہت زیادہ وزن رکھ دیا ہو ببلو کے تین انچ اندر جانے کے بعد میں رک گیا اور اےک بار پھر سائقہ کی کمر جھکا کر پوزیشن درست کی لوشن کی بوتل اٹھا کر ہپس کے درمیانی لکیر میں بہت سا لوشن گرایا اور سائقہ کے ہپس پر پہلے سے موجود لوشن سے ہاتھ تر کر کے ببلو کو تازہ کیا سائقہ میرے رکے۔ہونے کے باوجود اونہہہ اونہہہ اونہہہہہہ کر رہی تھی میں نے اپنی کمر کے زور سے سائقہ کو کمر سے پکڑ کر ببلو کو آگے دھکیلنے لگا ہپس کی درمیانی لکیر سے نیچے آنے والی لوشن نے ببلو کو جلا بخشی اور وہ سلپ ہوتاٹپک مار کر چھ انچ تک اندر چلا گیا سائقہ کانپتی ٹانگوں کے ساتھ ایک بار پھر اونہہہہہہہہہ اونہہہہہہہہہ اونہہہہہہہہہ کی لمبی آوازوں کے ساتھ اپنے ہپس گرانے لگی میں نے ادھر رک کر کچھ دیر ستایا سائقہ کی پوزیشن درست کرتے ہوئے بولا جان ۔ ۔۔۔۔۔۔ بولی جی ۔۔۔ جان ن ن (جاری ہے )

                Comment


                • #9
                  سائقہ کی امی کا سین بھی اگلی اپڈیٹ میں بنانے کی استدعا ہے رائٹر بھائی سے

                  Comment


                  • #10
                    بہترین کہانی ہے ۔مگر ترتیب کی تھوڑی غلطیاں ہیں۔کہانی کہیں سے چلتی چلتی اچانک کہیں اور پہنچ جاتی ہے۔مثال کے طور پر صاعقہ کی پہلی چدائی شروع ہوتے ہی کہانی کہیں اور پہنچ جاتی ہے جہاں صاعقہ اور زینت گاڑی میں ہوتی ہیں۔صاعقہ کی پہلی چدائی مکمل نہیں ہے۔برائے مہربانی اسے ٹھیک کر لیں۔

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X