Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

بہو رانی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Sensual Story بہو رانی

    یہ جھنگ کے قریب چھوٹے سے قصبے شورکوٹ کے گاؤں میں مہندی کی تقریب کا منظر تھا۔ شادی کی تیاریاں اچانک روک دی گئیں تھیں۔ وجہ وہی دیہاتوں میں ہونے والے جھگڑے تھے جن کی وجہ صرف انا پرستی، ضد اور جہالت تھی۔ لڑکے کے باپ چوہدری سرور نے اپنے غصے سے آسمان سر پر اٹھایا ہؤا تھا کیونکہ اسکی ہونے والی بہو نے اپنے باپ اور باقی سب لوگوں کے سامنے چوہدری کے اپنے بیٹے کے مستقبل کے بارے میں کئے فیصلے پر اعتراض اٹھایا تھا۔


    لیکن اس ساری چدکی کے بعد بات بحث و تکرار سے شروع ہو کر گالی گلوچ تک آ گئی تھی۔ چوہدری نے اپنے حاکموں والے سٹائل میں حکم سنا دیا تھا کہ وہ اپنے وارث کے لئے صرف 9 مہینے انتظار کرے گا۔ یہ حکم نامہ چوہدری نے دولہا اور دولہن دونوں کے خاندان اور سب مہمانوں کے سامنے صادر کیا تھا۔ دولہن رضیہ بھی سامنے ہی موجود تھی جس کو گاؤں کے رواج کے مطابق بولنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن رضیہ کے باپ نے اسے بہت نازوں سے پالا تھا اور اپنی زندگی کے فیصلے لینے کی پوری آزادی دی تھی ۔ جب اس دور میں گاؤں کے لڑکے تعلیم کو وقت کا زیاں سمجھتے تھے رضیہ کے باپ نے اسے اچھی تعلیم دلوائی یہاں تک کے وہ گرایجویشن کے لئے سرگودھا ہاسٹل میں بھی رہتی رہی تھی۔ اس وقت وہ اپنے گاؤں کی سب سے تعلیم یافتہ لڑکی تھی۔


    رضیہ نے جب دیکھا کے کیسے اسکا ہونے والا سسر اسکے بارے میں کسی استعمال ہونے والی چیز کی طرح حکم جاری کر رہا ہے تو بے عزتی اور غصے کے احساس سے اسکا گندمی رنگ لال سرخ ہو گیا۔ وہ ایک دم اپنی جگہہ سے اٹھی اور اپنے سسر کی آنکھوں میں جھانکتے ہؤۓ بولی:" شادی کے بعد 5 سال تک میرا ماں بننے کا کوئی ارادہ نہیں۔ میں نوکری کروں گی اور میرا شوہر سجاد بھی۔ ہم اولاد سے پہلے اپنے پیروں پر کھڑے ہوں گے۔ اولاد کے بارے میں ہر فیصلہ میں اور میرا شوہر لیں گے" ۔ یہ سب کہتے وقت رضیہ کا چہرہ غصے سے لال بھبھوکہ ہو رہا تھا اور اسکی سانسیں تیز تیز چل رہی تھی جس سے اس کے بڑے بڑے ممے اوپر نیچے ہو رہے تھے۔ اپنے دل کی بات سب کے سامنے دھڑلے سے بول کر رضیہ نے جب دیکھا تو سارے مجمعے کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔


    پورے مجمعے کی نظریں اب چوہدری سرور پر تھی کہ اسکا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ "او چھوکری!" تیری ہمت کیسے ہؤئی میرے بیٹے کا نام اپنی زبان سے لینے کی؟ تو ہوتی کون ہے یہ فیصلہ کرنے والی کہ میرے گھر میں کیا ہو گا؟


    رضیہ نے بھی اونچی آواز میں جواب دیا، "پوچھو اپنے بیٹے سے، جب میرے پیچھے پیچھے پورے گاؤں میں دم ہلاتا پھرتا تھا، اسی نے کہا تھا کہ مجھے میرے نام سے بلایا کرو اور شادی کے بعد جو میں چاہوں گی وہی ہو گا"


    رضیہ کے باپ کو انداذہ ہو گیا تھا کہ بات بگڑتی جا رہی ہے اور اگر رضیہ اور چوہدری کو نہ سمجھایا تو معاملہ ہاتھ سے نکل جائے گا اور پورے پنڈ میں وہ کسی کو منہ دکھانے لائق نہیں بچے گا۔ رضیہ کے باپ نے چوہدری کے آگے ہاتھ جوڑے اور بولا،"چوہدری صاحب میری بیٹی ملازمت کرنا چاہتی ہے اور اگر ماں بن گئی تو یہ کیسے ملازمت کر سکے گی۔ لیکن اہک بار جب یہ آپکی بہو بن گئی تو آپکا حکم ماننا اس پر فرض ہو گا پھر آپ اپنی چلا لینا". چوہدری کو اسکی بات میں چھپے پیغام کی سمجھ آ گئی تھی۔


    لیکن حاکموں کی ہٹ دھرمی تو مشہور ہے اور چوہدری کے سامنے آج تک کسی نے اونچی آواز میں بات تک نہیں کی تھی۔ چوہدری بولا، "بحث کی کوئی ضرورت نہیں۔ کہیں تمہاری بیٹی میں کوئی نقص تو نہیں جسے تم چھپانے کی کوشش کر رہے ہو۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ ماں بننے کے قابل ہی نہ ہو؟ یا یہ عورت کی جگہ کھسرا ہو؟


    چوہدری کے منہ سے یہ نکلنا تھا ک رضیہ کے برادری والے ایک ساتھ کھڑے ہو گئے اور ان کی آنکھوں سے غصہ صاف جھلکنے لگا۔ اور اس کے بعد وہ گالی گلوچ شروع ہوئی کہ الامان۔۔ یہ سب کنجرخانہ 2 گھنٹے جاری رہا جس کے بعد چوہدری غصے میں بھرا اپنے لوگوں کو لے کر اپنی حویلی چلا گیا اور رضیہ کے گھر والے اپنے گھر چلے گئے۔


    رات کے 10 بجے تھے گاؤں کی زیادہ تر آبادی سو چکی تھی اور حویلی میں چوہدری اپنے بیٹے سجاد کے اوپر غصہ اتار رہا تھا جس کی عاشقی کہ قصے آج پورے پنڈ کی زبان پر تھے۔ اس زیادہ غصہ اس بات کا تھا کہ رضیہ کو اتنی ہمت اسی وجہ سے ہوئی تھی کیونکہ اسے پتہ تھا کہ سجاد اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ادھر رضیہ اپنے گھر کی چھت پر بیٹھی چوہدری کے اس سوال پر آگ بگولہ ہو رہی تھی جو چوہدری نے اسکے عورت ہونے پر اٹھائے تھے۔میں اس آدمی کو سبق سکھا کر رہوں گی رضیہ نے اپنے آپ سے کہا۔ لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون، پورے پنڈ میں کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ چوہدری کے سامنے کوئی سر بھی اٹھا سکے۔جو بھی کرنس ہے خود ہی کرنا پڑے گا۔ اور بدلہ تو ایسا ہو کہ چوہدری کو اسی عورت کے آگے سر جھکانا پڑے جس کے عورت ہونے پر اس شک ہؤا تھا۔

    رات کے 12 بجے رضیہ نے چپکے سے گھر کا دروازہ کھولا اور اندھیرے میں چوہدری کی حویلی کی طرف چل پڑی۔ حویلی کے گیٹ پر چوکیداروں نے اسے روکا لیکن شناخت کے بعد پتہ چلنے پر کہ وہ حویلی کی ہونے والی بہو ہے اسے اندر جانے کی اجازت مل گئی۔ حویلی سے اندر آتے ہی بھت بڑا صحن تھا جس کی ایک طرف شیڈ میں 50 کے قریب بھینسیں بندھی تھیں اس سے تھوڑا آگے ایک بہت بڑا باغ تھا جس میں آم کے ایک درخت کے نیچے چوہدری ایک کرسی پر بیٹھا حقہ پی رہا تھا اور اسکے کمی اور چیلے اینٹوں کے فرش پر نیچے بیٹھے تھے اور ان میں سے ایک چوہدری کی ٹانگیں دبا رہا تھا۔ انہوں نے رضیہ کو آتے دیکھا تو ایک دم سب کو چپ لگ گئی۔ رضیہ خاموشی سے چوہدری کی کرسی کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی اور کھنکھاری۔ کافی دور سے چل کر آنے اور اس ساری صورت حال کی ٹینشن کی وجہ سے رضیہ کا سانس چڑھا ہؤا تھا۔ کھنکھار کی آواز سن کر چوہدری نے اپنی سرخ سرخ آنکھیں کھولیں اور رضیہ کو اس وقت اور اس جگہ دیکھ کر حیران ہو گیا اور آنکھیں پھاڑ کر اسکی طرف دیکھنے لگا۔ مہندی کا پیلا جوڑا اس کے پسینے میں بھیگ کر اس کے جسم سے چپکا ہؤا تھا اور کرسی پر بیٹھے چوہدری کو نیچے سے اس کے تنے ہوئے پستان مغرور پہاڑوں کی طرح لگ رہے تھے۔ اوپر سے بلب کی پیلے رنگ کی روشنی رضیہ کو مزید قیامت بنا رہی تھی۔ اتنے میں چوہدری کو احساس ہوا کہ یہ کوئی عام لڑکی نہیں بلکہ اسکے بیٹے کی پسند اور شاید اسکی ہونے والی بہو ہے۔ چوہدری نے دیکھا کہ اس کے چیلے بھی آنکھیں پھاڑے رضیہ کو ہی دیکھ رہے تھے۔ وہ غرایا،"او مادرچودو دفع ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے " اسکی غراہٹ سنتے ہی سب اپنے اپنے ٹھکانے کی طرف چل پڑے۔

    "اب تم یہں کیا لینے آئی ہو" چوہدری نے پوچھا، اسے اندازہ تھا کہ شاید یہ لڑکی اپنی زبان درازی پر معافی مانگنے آئی ہے۔"

    میں یہ کہنے آئی ہوں کہ آپ جیسی بڑی بڑی مونچھیں رکھنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپکے خاندان والے بڑے مرد ہیں، آپکو چاہیئے تھا کہ آپ میرے عورت ہونے پر سوال اٹھانے سے پہلے 10 دفعہ سوچتے" رضیہ طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوۓ بولی۔

    رضیہ کا طنزیہ انداز اور اسکے الفاظ ایسے تھے کہ چوہدری کو لگا کہ اسکے کانوں میں سے دھواں نکلنے لگا ہے۔ بلب کی پیلی روشنی آم کے درخت کے پتوں سے چھن چھن کر رضیہ پر پڑ رہی تھی جس سے وہ کوئی غیرانسانی مخلوق لگ رہی تھی۔ اس پر اسکی آواز اور اسکے الفاظ سے چوہدری کی مردانگی کو شدید ٹھیس لگی تھی۔ چوہدری کے دماغ میں ایک ہی بات چل رہی تھی کہ اس لڑکی کو سبق سکھانا پڑے گا کہ مرد ہوتا کیا ہے۔

    وہ غصے میں بھرا کرسی سے اٹھا اور شیر کی طرح رضیہ کی طرف بڑھا۔اسکے ہاتھ ایسے پھیلے ہوئے تھے جیسے اس کے منہ پر تھپڑ مار کر اس کا منہ توڑ دے گا۔۔۔(جاری ہے )

  • #2
    چوہدری کے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر پہلی مرتبہ رضیہ کو اس کے دراز قد، موٹے اور طاقتور بازو، چوڑے کندھوں اور اس کے گٹھے ہوئے جسم سے خوف محسوس ہؤا۔ اسے لگا جیسے وہ کسی پہاڑ کے سائے میں کھڑی اسکی چوٹی کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اس کا جسم ایک دفعہ تو خوف سے کانپ سا گیا لیکن دوسرے لمحے اسے پھر اپنی بےعزتی یاد آئی اور اس نے سوچا اب تو جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ اس نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں ایک مرتبہ پھر چوہدری کی آنکھوں میں گاڑ دیں اور ہموار آواز میں پورے اعتماد کے ساتھ بولی، "اب آپ مجھ پر ہاتھ اٹھا کر اپنی نامردی پر پردہ ڈالیں گے؟' رضیہ کے چہرے پر یہ کہتے ہوئے طنزیہ مسکراہٹ تھی جسے دیکھتے ہی چوہدری شیر کی طرح غرایا اور اس نے اپنے چوڑے چکلے پنجے میں رضیہ کی گردن دبوچ لی اور اسے دھکیلتا ہؤا پیچھے لے گیا یہاں تک کے ایک جھٹکے سے رضیہ کی پیٹھ آم کے پیڑ سے ٹکرائی۔ ادھر چوہدری نے جب رضیہ کی گردن پکڑی تو اسکی جلد کی نرمی اور گرمی نے اس کے اندر سوئی ہوس کو جگا دیا۔ یہ احساس آتے ہی چوہدری کی گرفت کمزور ہو گئی، اب اس نے صرف گلے پر اپنا مضبوط ہاتھ رکھا ہؤا تھا جس سے رضیہ کی کمر ابھی بھی درخت سے لگی تھی۔ چوہدری کی درندوں جیسی طاقت نے رضیہ کے اندر کا موسم بھی تبدیل کر دیا تھا۔ اسے اپنے گلے پر چوہدری کے کھردرے اور سخت ہاتھ سے اسکی مردانہ طاقت کا اچھے سے انداذہ ہو رہا تھا۔


    درخت کے نیچے ملگجا سا اندھیرا تھا اور آم کے پتوں سے چھن چھن کر آتی روشنی بڑا پراسرار ماحول پیدا کر رہی تھی۔ جب دونوں کی آنکھیں اس اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو دونوں کے ہوش اڑ چکے تھے۔ ادھر رضیہ چوہدری کی آنکھوں میں ہوس کے سائے دیکھ کر سمجھ چکی تھی کہ وہ جہاں چوہدری کو لانا چاہ رہی تھی آخر وہ وہاں تک آ ہی گیا ہے۔ چوہدری کو بھی انداذہ ہو گیا تھا کہ وہ کتنی نازک صورت حال میں ہے۔ اسکی گرفت رضیہ کے گلے سے ختم ہو چکی تھی اب وہ اپنی انگلیوں سے بے خیالی میں رضیہ کی ٹھوڑی کو سہلا رہا تھا۔

    "بول دکھاؤں تجھے اپنی مردانگی؟ اور تو بتا تو کیسے ثابت کرے گی کہ تو پوری عورت ہے" چوہدری دھیمی آواز میں بولا، اسکی آواز میں غصے کے علاوہ سب کچھ تھا۔


    رضیہ نے چوہدری کی کلائی پکڑی اور اپنے گلے سے ہٹانے کی کوشش کی لیکن چوہدری کا ہاتھ ہٹانا اسکے بس کی بات نہیں تھی۔ رضیہ کے منہ سے جواب نکلا " میرے عورت ہونے کے ثبوت کے چکر میں تم اپنی مردانگی کی پول نہ کھلوا لینا" یہ کہتے ہی رضیہ کو انداذہ ہو گیا کہ اس سے کتنی بڑی غلطی ہو گئی ہے۔ اتنا سننا تھا کہ چوہدری غصے میں اندھا ہو گیا ۔ اسکے ہاتھ نے رضیہ کے گریبان کی طرف حرکت کی اور ایک ہی جھٹکے میں چوہدری نے اسکا گریبان اسکے پیٹ تک پھاڑ دیا۔ گریبان پھٹتے ہی کالے برا میں قید اس کے خربوزے کے سائز کے ممے ایک جھٹکے سے آزاد ہوۓ۔ چوہدری نے اگلا حملہ اسکے برا پر کیا اور وہ بھی ایک ہی جھٹکے میں ٹوٹ کر چوہدری کے ہاتھ میں آ گیا۔ اس جھٹکے سے اسکے مموں نے اسکے سینے پر ایسے باؤنس لیا جیسے وہ پانی والے غبارے ہوں۔ چوہدری نے برا نیچے پھینک کر اوپر دیکھا تو اس کی نظر رضیہ کے خربوزوں پر پڑی۔ انکا رنگ اسکے جسم کے گندمی رنگ سے زیادہ صاف تھا اور ان پر کسی بادشاہ کے تاج کے جیسے ہلکے براؤن رنگ کے گھیروں پر مٹر کے دانے کے سائز کے نپل تھے، رضیہ کے غصے کی وجہ سے اسکے کسے ہوئے ممے اوپر نیچے ہو رہے تھے۔ رضیہ نے چوہدری کی نظروں کو محسوس کرتے ہی فورن اپنے ہاتھ اپنے مموں پر رکھ کر انہیں چھپانے کی ناکام کوشش کی۔ چوہدری نے ہاتھ اسکی طرف بڑھاۓ تاکہ اسکے ہاتھوں کو ہٹا کر ان رس سے بھری مسمیوں کا نظارہ کر سکے لیکن اسی وقت رضیہ کا ایک ہاتھ تھپڑ کی صورت میں چوہدری کی طرف بڑھا۔ چوہدری سرور اس عمر میں بھی کسی چیتے کی طرح پھرتیلا تھا اس نے آدھے راستے میں ہی رضیہ کا ہاتھ اپنی مضبوط گرفت میں جکڑ لیا۔ رضیہ کا دوسرا ہاتھ کسی سپرنگ کی طرح اسکے مموں سے ہٹا اور چوہدری کی دھوتی کی طرف آیا اور اس دفعہ اس کے ہاتھ میں چوہدری کا نیم کھڑا لوڑا آ ہی گیا۔ جب سے چوہدری نے رضیہ کو دبوچا تھا اس کا لوڑا اس وقت سے لگاتار کھڑا تھا جیسے اسے کچھ ہونے کا انتظار ہو۔ لن کو گرفت میں لے کر رضیہ کو چوہدری کے مرد ہونے کا ثبوت مل چکا تھا۔ لمحوں میں خون نے چوہدری کے لوڑے کی طرف سفر کرکے اسے بھر کر پورا کھڑا کر دیا۔ بہت عرصے بعد کسی جوان خوبصورت لڑکی کے ہاتھ نے اس طرح چوہدری کے لن کو جکڑا تھا اور اسکے نرم ہاتھوں کی مضبوط گرفت نے چوہدری کو اس مزے کی یاد دلا دی جسے وہ بھول بیٹھا تھا۔(جاری ہے )

    Comment


    • #3
      چوہدری نے ایک مرتبہ اپنے اردگرد نظر دوڑائی ، صحن میں کوئی نہیں تھا اور جس طرح وہ درخت کے سائے میں کھڑے تھے انکی طرف کوئی غور سے دیکھتا تو ہی اسکی نظر ان پر پڑتی۔ گھوم پھر کر چوہدری کی نظر واپس آ کر رضیہ کے بھرے بھرے مموں پر جم گئی جو رضیہ کے سانسوں کے ساتھ اوپر نیچے ہو رہے تھے۔ رضیہ کی گرفت چوہدری کے لن پر کمزور ہوئی تو اسے لگا جیسے چوہدری کا لن جھٹکا کھا کر مزید بڑا ہو گیا ہے یہ محسوس کرتے ہی اس نے غیرارادی طور پر چوہدری کے لن کو دوبارہ دبایا جس سے چوہدری کے منہ سے مزے کی وجہ سے سسکی نکل گئی اور اس نے اپنی گانڈ کو آگے کی طرف حرکت دی۔ لڑکی نے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا جس میں اس نے چوہدری کا لن پکڑا ہوا تھا۔ اسکے ہاتھ میں چوہدری کی دھوتی کا کپڑا تھا جس سے چوہدری کا جناتی لوڑا باہر آنے کے لئے مچل رہا تھا۔ اس ساری صورت حال سے اس کی چھوٹی سی چوت نے بھی رس بہانا شروع کر دیا تھا۔ رضیہ نے گھبرا کر لن کو چھوڑا اور دونوں ہاتھ اپنے پیچھے درخت کے تنے پر رکھ کر نظریں جھکا لیں۔ اسکے ہاتھ پیچھے رکھ کر کھڑے ہونے سے اس کے ممے اور اکڑ کر اسکے سینے پر کھڑے ہو گئے جس سے چوہدری کا حلق خشک ہو گیا اور اسکے پورے جسم میں چیونٹیاں سی دوڑنے لگیں۔

      رضیہ نے اپنی نظر اٹھا کر چوہدری کی طرف دیکھا جس کی شہوت سے بھری نظریں رضیہ کی آنکھوں میں ہی دیکھ رہی تھیں۔ پھر چوہدری نے اپنی نظر ایک مرتبہ پھر اسکے مموں کی طرف دوڑائی۔ چوہدری کی آنکھوں میں اسے چودنے کی خواہش اتنی واضح تھی کے اسکی آنکھیں شرم سے جھک گئی اور اسکا حلق خشک ہو گیا۔

      چوہدری کا ہاتھ نرمی سے اسکے دائیں ممے پر جم گیا اور اس نے نیچے ہاتھ لے جا کر اسکا دایاں مما ایسے اٹھایا جیسے اسکا وزن کر رہا ہو۔ رضیہ کے ہونٹ چوہدری کے مردانہ ہاتھوں کا لمس اپنے مموں پر محسوس کر کے اپنے آپ کھل گئے تھے اور اسکا جسم دھیرے دھیرے کانپ رہا تھا۔ اس نے مزید طاقت سے درخت کے تنے کو پکڑ لیا جس سے اسکی ننگی چھاتیاں اور باہر کو ابھر آئیں۔ اور اسے انداذہ ہوگیا کہ اب صورت حال ہاتھ سے نکل چکی ہے۔

      چوہدری نے سخت اور کھردرے ہاتھوں سے رضیہ کے مموں کو دبایا اور اپنے انگوٹھے سے اسکے نپل کو مسلتے ہوئے سرگوشی میں بولا،" تو ہی ہے وہ لڑکی جس سے میرا بیٹا شادی کرنا چاہتا ہے؟" رضیہ نے ہاں میں اپنے سر کو اوپر نیچے ہلایا۔ رضیہ کو احساس ہوا کہ شاید اسکا ہونے والا سسر اس سارے معاملے کو آگے لے جانا چاہتا ہے تو اسکے ہاتھ دوبارہ چوہدری کی دھوتی کی طرف بڑھے۔ اس دفعہ رضیہ نے دھوتی کے کھلے حصے سے اپنا ہاتھ چوہدری کی بائیں ران پر رکھا اور آہستگی سے اوپر کی طرف حرکت دیتے وقت چوہدری کا لوڑا پکڑ لیا۔ جس طرح وہ کھڑی تھی چوہدری کا لن صحیح طرح اسکے ہاتھ میں نہیں آ رہا تھا تو اس نے اپنی کلائی کی پوزیشن تبدیل کی اور ہتھیلی کا رخ اوپر کی طرف کر کے چوہدری کے لن کو ایسے گرفت میں لیا جیسے کرکٹ کھیلتے وقت بیٹسمین بیٹ کو پکڑتا ہے۔ اسکی انگلیاں چوہدری کے ٹٹوں کو چھو رہی تھیں، ہتھیلی میں لن تھا جس کا ٹوپا اس کی کلائی تک آ رہا تھا۔ "تو اسے تم اپنے خاندان کی مردانگی کا ثبوت کہہ رہے تھے؟" رضیہ نے سرگوشی میں جواب دیا۔ اس نے اپنا انگوٹھا ٹٹوں سے ہٹا کر لوڑے کی لمبائی پر پھیرا اور اسے لن کی پوری لمبائی پر رگڑتی ہوئی ٹوپے پر لے آئی جو مزی کے قطروں سے گیلا ہو رہا تھا، ایک دفعہ تو چوہدری کانپ سا گیا۔ غیر ارادی طور پر اسکی گرفت رضیہ کے مموں پر اور سخت ہوئی اور اس نے زور سے انہیں دبایا اور اسکے اکڑے ہوئے نپل کو مسل دیا جس سے درد کی وجہ سے رضیہ کراہی لیکن اس درد میں ایک عجیب طرح کا مزا بھی شامل تھا۔ رضیہ نے اپنے ہاتھ چوہدری کے لن پر ایسے چلائے جیسے مٹھ لگا رہی ہو۔ چوہدری نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اسکے ممے دبائے اور پھر اپنے ہاتھ اسکی موٹی گانڈ کی طرف لے گیا، اس نے اسکی گوشت سے بھرپور گانڈ کو دبایا اور اپنی ایک انگلی کو اسکی گانڈ کی دراڑ میں پھنسا دیا۔ رضیہ اپنا وزن کبھی ایک ٹانگ پر ڈال رہی تھی اور کبھی دوسری ٹانگ پر اور اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے۔

      "بابا" وہ بہت دھیمی آواز میں بولی جیسے اس نے چوہدری کی مردانگی کے آگے ہار مان لی ہو۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ اس نے اپنے ہونے والے سسر کو "بابا" کہہ کے پکارا تھا۔ چوہدری اسکے اوپر جھکا ہؤا تھا اور اپنی گانڈ ہلا کر مٹھ لگانے میں اسکا ساتھ دے رہا تھا۔ اس نے رضیہ کی شلوار نیچے کر دی تھی اور اس کی بےداغ موٹی گانڈ پر اپنے سخت کھردرے ہاتھ پھیر رہا تھا، ہاتھ پھیرتے پھیرتے اس نے رضیہ کی گانڈ کی دونوں پھاڑیوں کو اپنی مٹھیوں میں دبوچا اور اسے ایسے اوپر اٹھایا جیسے یہ دیکھ رہا ہو کہ وہ اسے اٹھا سکتا ہے یا نہیں۔ چوہدری کہ اسے ایسے اٹھانے سے اسکی سانسوں کے غبارے چوہدری کے سینے کے ساتھ لگ کر پچک سے گئے تھے۔۔۔(جاری ہے )

      Comment


      • #4
        بابا" وہ بہت دھیمی آواز میں بولی جیسے اس نے چوہدری کی مردانگی کے آگے ہار مان لی ہو۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ اس نے اپنے ہونے والے سسر کو "بابا" کہہ کے پکارا تھا۔ چوہدری اسکے اوپر جھکا ہؤا تھا اور اپنی گانڈ ہلا کر مٹھ لگانے میں اسکا ساتھ دے رہا تھا۔ اس نے رضیہ کی شلوار نیچے کر دی تھی اور اس کی بےداغ موٹی گانڈ پر اپنے سخت کھردرے ہاتھ پھیر رہا تھا، ہاتھ پھیرتے پھیرتے اس نے رضیہ کی گانڈ کی دونوں پھاڑیوں کو اپنی مٹھیوں میں دبوچا اور اسے ایسے اوپر اٹھایا جیسے یہ دیکھ رہا ہو کہ وہ اسے اٹھا سکتا ہے یا نہیں۔ چوہدری کہ اسے ایسے اٹھانے سے اسکی سانسوں کے غبارے چوہدری کے سینے کے ساتھ لگ کر پچک سے گئے تھے، چوہدری نے اسے تھوڑا مزید اٹھایا جس کی وجہ سے اب چوہدری کا اپنی ہی مزی سے گیلا لوڑا رضیہ کی رس ٹپکاتی پھدی سے رگڑ کھانے لگا۔ دوسری طرف رضیہ نے اپنی نازک بانہیں چوہدری کی گردن میں ڈالیں اور اس سے پوری طاقت سے چمٹ گئی۔ چوہدری آہستہ آہستہ اپنا لوڑا رضیہ کی رسیلی پھدی پر رگڑ رہا تھا۔ ادھر رضیہ کو ڈر بھی لگ رہا تھا کہ اگر چوہدری نے اپنا جن اسکی نازک چوت میں ڈال دیا تو اس پھدا بنا کے ہی نکلے گا۔ وہ سسکی اور کراہی اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی ٹانگیں اور کھول دیں ۔ چوہدری نے اسے سختی سے اپنی گود میں جکڑ کر اٹھایا ہؤا تھا اور اس کی ان چھوئی چوت پر اپنا لوڑا رگڑ رہا تھا۔ اس نے اچانک رضیہ کو پکڑ کر جھنجھوڑا جس سے ٹوپے کے بہت معمولی سے حصے نے جیسے چوت کے اندر گھسے بغیر کھدائی کی ہو، چوہدری اندر ڈالتے ہؤۓ ہچکچا بھی رہا تھا کیونکہ یہ لڑکی اسکی بہو بننے جا رہی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرے اور اگر وہ رضیہ کو چودتا ہے تو رضیہ کا ردعمل کیا ہو گا کہیں وہ اسکی برسوں میں بنائی عزت کو برباد نہ کر دے۔ ادھر رضیہ کو مزہ تو آ رہا تھا لیکن وہ بھی اپنے ہونے والے سسر سے اپنی چوت پھڑواتے ہوئے شش و پنج کا شکار تھی۔ کہیں اسکا سسر اسے چودنے کے بعد چدکڑ سمجھ کر شادی سے انکار نہ کر دے۔ اس لئے اگر وہ چود دے تو اور بات لیکن اسے یہ پتا نہیں لگنا چاہیے کہ وہ اپنے سسر کا لن لینے کے لئے کتنی بے چین ہو رہی ہے۔


        "بابا؟" رضیہ دھیمی آواز میں بولی۔


        "اب ھم کیا کریں بیٹی؟" چوہدری نے ایسے پکارا جیسے ایک سسر کو اپنی بہو کو پکارنا چاہئے۔


        "مجھے چھوڑ دیں بابا" رضیہ اپنے بازؤوں کے بل پر مزید اوپر ہؤئی اور چوہدری کے کان میں بولی۔


        "اور تیرا ہماری مردانگی کو لے کر جو سوال تھا اسکا کیا؟" چوہدری نے پوچھا۔


        "مجھے جواب مل گیا ہے کہ آپ کتنے مرد ہیں اور میرے خیال میں آپکو بھی میرے عورت ہونے کے بارے میں کئے سوال کا جواب مل گیا ہو گا"


        "اس سچویشن میں کس طرح ایک مرد اور عورت اپنے آپ کو کنٹرول کر سکتے ہیں" چوہدری اپنے ہونٹوں سے رضیہ کے نپل چھو کر بولا۔ اس نے اپنی مونچھوں سے رضیہ کے گول مٹول مموں کی سفید جلد کو رگڑا اور اپنے ہونٹوں سے اسکے مٹر کے دانے کو چھیڑا۔


        " جس طرح ایک سسر اور بہو کو کنٹرول کرنا چاہئیے بابا" رضیہ نے چوہدری کے کھڑے لن کو اپنی موٹی رانوں کے بیچ دبا کر جواب دیا۔


        "کیا مجھے اپنے بیٹے کی شادی تم سے ہونے دینی چاہئیے؟" چوہدری اس کے خربوزوں پر زبان پھیرتا ہوا بولا۔ اسکی زبان اب رضیہ کے دونوں مموں اور دونوں نپلز کو لگاتار نشانہ بنا رہی تھی اور چوہدری کے تھوک سے بلب کی پیلی روشنی میں اسکے ممے چمک رہے تھے۔ چوہدری کو ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ پوری طرح پکے ہوئے اور شہد کی طرح میٹھے آم چوس رہا ہے۔


        رضیہ کی نظر اپنے ممے چوستے چوہدری پر پڑی تو اسے لگا جیسے اسکے نپلز سے کرنٹ نکل کر اسکی رس چھوڑتی چوت کی طرف جا رہا ہے۔ لیکن ابھی بھی چوہدری کے سوال کا جواب باقی تھا۔ رضیہ نے ایک لمحہ سوچ کر جواب اپنی چوت سے دینے کا فیصلہ کیا۔۔۔(جاری ہے )

        Comment


        • #5
          رضیہ نے آم کے درخت کی نیچے تک لٹکتی ایک شاخ کو اپنی گرفت میں لیا اور اپنے ہاتھوں کی طاقت سے اپنے جسم کو ااٹھایا۔ چوہدری کے ہاتھوں نے اتنی دیر سے رضیہ کا وزن اٹھایا ہؤا تھا لیکن اب رضیہ کا وزن آم کی شاخ نے اٹھایا ہؤا تھا اور رضیہ اپنی نازک سی چوت چوہدری کے جناتی لوڑے کے نشانے پر رکھ کر ہوا میں معلق ثھی۔ اس نے چوہدری سے چد کر اسے اپنے بس میں کرنے کا فیصلہ لے لیا تھا۔ اس کی اس پوزیشن نے اسکی موسمیوں کا رس چوسنا چوہدری کے لئے اور آسان بنا دیا تھا اور وہ اسکا پورا فائدہ اٹھا رہا تھا۔ چوہدری نے اپنے ہاتھ آزاد ہونے کے بعد رضیہ کی رسیلی پھدی کو انشانہ بنایا اور اسکی پھدی کے دونوں لب اپنی انگلیوں سے کھول کر سوالیہ نظروں سے اپنی ہونے والی بہو کو دیکھا۔ رضیہ نے ایک مرتبہ چوہدری کے لن کی طرف دیکھا جو اسکی چوت سے ٹکرا رہا تھا اور ایک دم اس شاخ کو چھوڑ دیا جس نے اسکا وزن اٹھایا ہوا تھا۔ کہتے ہیں لاعلمی بھی بہت بڑی نعمت ہوتی ہے اور رضیہ کی کنواری چوت نے لاعلمی میں ایک بہادرانہ لیکن بےوقوفی بھرا قدم اٹھا لیا تھا۔ چوہدری کا پورا اکڑا ہؤا اور پھنکارتا ہوا لن اس کی چھوٹی سی اور معصوم سی چوت کو ایک ہی جھٹکے میں چیرتا ہوا اندر تک گھس گیا۔ درد کی لہر ناقابل برداشت تھی اسے لگ رہا تھا جیسے کوئی جلتا ہوا سریا کسی نے پوری طاقت سے اسکی کنواری چوت میں گھسا دیا ہو۔ چوہدری کا لن اسکی بچہ دانی کو جا کے لگا تھا اور وہ ایسے چیخی جیسے عید پر بکرے کو ذبح کرتے وقت وہ چیختا ہے۔ اسے اپنی چوت میں چوہدری کا لوڑا ٹھمکے کھاتا صاف محسوس ہو رہا تھا اور گرم خون کی دھار اسکی چوت سے نکل کر اسکی سڈول ٹانگوں سے ہوتی پاؤں کی طرف جا رہی تھی، دوسری طرف اسکج تنگ پھدی نے چوہدری کے لوڑے کو شکنجے کی طرح جکڑا ہوا تھا۔ چوہدری کو مزہ تو انتہا کا آ رہا تھا لیکن ساتھ ہی اسکے لن میں تکلیف بھی ہو رہی تھی۔ ادھر پورا لن لے کر رضیہ کے منہ سے کراہیں اور سسکیاں بلند ہو رہی تھیں اور اسکا جسم تکلیف کی شدت سے کانپ رہا تھا۔ چوہدری نے پیار سے اسے اپنے گلے سے لگا کر بھینچ لیا اور ہلے بغیر انتظار کرنے لگا کہ کب وہ رونا بند کرتی ہے، اسے رضیہ کی تکلیف کا پورا احساس تھا۔ تھوڑی دیر بعد رضیہ کی ہچکیاں کم ہو گئی اور اسے احساس ہوا کہ جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا۔ اس نے ایک بار پھر شاخ پر اپنا بوجھ ڈال کر اپنا جسم لوڑے سے اٹھایا، رضیہ کو لن کے ایک ایک انچ نکلنے کا پتہ لگ رہا تھا۔ اسکا جسم اٹھا اور ایک مرتبہ پھر اسی رفتار اور طاقت سے نیچے آیا جیسے پہلی دفعہ آیا تھا۔ گاؤں کی جٹی نے ہار نہیں مانی تھی اور اس نے دوبارہ پورا لن اپنی خون اگلتی چوت میں لے لیا تھا۔ چوہدری کے منہ سے غراہٹ نکلی اور اس نے رضیہ کی گردن پر اپنے دانت گاڑ دیے۔ اور دھیرے دھیرے اس کی گردن کی حساس جلد پر چھوٹی چھوٹی دندیاں کاٹنے لگا۔ رضیہ پورا لن ے کر ایسے ڈھے گئی تھی جیسے اس کی روح جسم سے پرواز کر گئی ہو۔ چوہدری کو اسکی تکلیف کا پورا احساس تھا اور وہ بغیر لن ہلائے اسکی گردن چوس اور چاٹ رہا تھا جس سے رضیہ کے جسم میں درد کے ساتھ ساتھ مزے کی لہریں بھی اٹھنے لگی تھیں۔ اس کی کنواری پھدی وحشیانہ انداز سے پھٹ چکی تھی اور اسکی ذمہ دار وہ خود تھی۔ اسکی آنکھوں سے آنسو بہہ بہہ کر اسکے چہرے سے ہوتے ہوئے گردن تک جا رہے تھے جہاں چوہدری کی زبان انہیں امرت کی طرح چوستی جا رہی تھی۔ رضیہ کا جسم دوبارہ اس درد بھری لذت کو محسوس کرنے کے لئیے تیار تھا۔ اس نے اپنی بانہیں چوہدری کے گلے میں ڈال کر اپنا جسم پھر اٹھایا یہاں تک کے اسکے ممے چوہدری کے منہ تک آ گئے اور صرف چوہدری کے لن کا ٹوپا اسکی چوت میں رہ گیا اور ایک بار پھر اپنے پورے وذن سے نیچے آئی چوہدری پھٹی پھٹی آنکھوں سے پورا منظر دیکھ رہا تھا کہ کیسے اسکے بازؤں اور کندھوں کے پٹھے اپنے وذن کے اٹھانے کی وجہ سے کھچ گئے تھے اور کیسے مکمل اونچائی پر پہنچ کر اسکی چھاتیاں کھچ کر مزید باہر کی طرف نکل آئی تھیں جن پر اسکے نپل چدائی کی لذت سے کھڑے ہو چکے تھے۔ بلب کی روشنی سے اسکے جسم کی پہاڑیاں اور کھائیاں گولڈن رنگ میں رنگی لگ رہی تھیں۔ چوہدری اسکے کسے ہوئے لچکدار جسم کو اپنی بانہوں میں جکڑے باؤلا ہو گیا تھا۔ رضیہ کا جسم نیچے آتے ہوئے چوہدری کے طاقتور ہاتھوں پر ٹک گیا اسکی انگلیاں اسکی موٹی گانڈ کے گوشت میں دھنس گئیں اسکے ساتھ ہی اسکا لن اسکی پھدی کو مکمل چیرتا ہوا ایک بار پھر اندر تک گھس گیا۔ اسکی پھدی ان 3-4 دھکوں میں ہی اپنے رس اور خون سے رواں ہو گئی تھی اور چوہدری کا لوڑا آسانی سے اندر باہر ہو رہا تھا۔


          آہ بابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رضیہ کے ہونٹوں سے لذت کے نشے میں ڈوبی سسکی نکلی ، چوہدری کے لوڑے سے اسکی چوت بچہ دانی تک بھر گئی تھی اور لوڑے کے پھنس پھنس کر اندر باہر ہونے سے دونوں کو رگڑ کا پورا مزہ مل رہا تھا۔


          رضیہ اب روانی اور تیزی سے چوہدری کے لن پر اچھل رہی تھی۔ چودو مجھے، اور زور سے بابا ، میری کنورای پھدی پھاڑ دو، رضیہ کے منہ سے ایسے الفاظ نکل رہے تھے جو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچے تھے۔ ان دونوں کی زوردار چدائی سے آم کے درخت کی نیچے جھکی کمزور شاخیں ہل رہی تھیں اور پتے گر کر ان سسر اور بہو کی چدائی کی داستان رقم کر رہے تھے۔ رضیہ کی چوت نے چوہدری کے لن کو ایسے جکڑا ہوا تھا جیسے لن کسی شکنجے میں پھنسا ہؤا ہو، چوہدری نے اپنی جوانی سے لے کر اب تک بہت سی پھدیاں ماری تھیں جن میں سے بہت سی کنواری بھی تھیں لیکن جو نشہ اور گرمی اس چوت میں تھی وہ آج تک اسے کسی میں نہیں ملی تھی۔ چوہدری کو رضیہ کے گندمی چہرے پر تھکن کے آثار نظر آئے تو اس نے کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لینے کا فیصلہ کیا اور اپنے ہاتھ رضیہ کی گانڈ پر جما کر اسے اپنگ لن پر اچھالنے لگا کچھ دھکوں کے بعد رضیہ دوبارہ اسکا ساتھ دینے لگی۔ چوہدری اسے اٹھاتا تو رضیہ اپنے بازوؤں سے اپنے جسم کو مزید اوپر لاتی، چوہدری ایک دم اسے چھوڑتا جس سے ایک جھٹکے کے ساتھ رضیہ کا جسم نیچے آتا اور ایک جاندار جھٹکے کے ساتھ چوہدری کا پورا لن ٹٹوں تک اسکی سوجی ہوئی پھدی میں گھس جاتا۔ یہ جھٹکے اتنے جاندار تھے کے اب سسکیوں کے ساتھ رضیہ کے جسم نے کانپنا بھی شروع کر دیا تھا۔ اسکی کمر درخت کے تنے سے رگڑ کھا کھا کر چھل گئی تھی۔ جلد ہی چوہدری کے وحشیانہ جھٹکوں سے درخت کے ہلنے سے شاخوں سے پکے ہوئے آم گرنے لگے۔ چوہدری کو لگا کہ انکے شور سے اور آموں کے گرنے سے کہیں کسی کا دھیان انکی طرف نہ ہو جائے تو چوہدری نے اپنے جھٹکوں کی رفتار تھوڑی کم کی اور آرام اور سکون سے رضیہ کی چوت میں اپنا لن اتارنے لگا۔ لیکن اس وقت تک انکے شور سے کسی کا دھیان انکی طرف چلا گیا تھا۔


          کون ہمارے آم چوری کر رہا ہے؟ چوہدری کو اپنی بیوی کی آواز سنائی دی۔


          رضیہ پکڑے جانے کے خوف سے سن سی ہو گئی اس نے اپنا جسم اوپر اٹھایا اور چوہدری کے لوڑے سے اترنے کی کوشش کی۔ لیکن چوہدری پر تو حیوانی شہوت سوار تھی اور وہ اسے چھوڑنے پر تیار نہیں تھا۔ چوہدری نے ایک مرتبہ پھر اپنا لوڑا تلوار کی طرح اسکی چوت میں اتارنے کی کوشش کی لیکن رضیہ اسکے گلے سے اپنی پوری طاقت سے چمٹ گئی تھی۔بابا ہم پکڑے جائیں گے، چھوڑ دیں مجھے۔ چوہدری نے اپنی بیوی کے قدموں کی آہٹ قریب آتے سنی تو رضیہ کو گود میں اٹھائے بھینسوں کے چارے والے کمرے میں گھس گیا اسکے چلنے سے رضیہ جھٹکا کھا کر دوبارہ چوہدری کے لن پر گر چکی تھی اور چوہدری کے چلنے سے اسکا لن مختلف زاویوں سے رضیہ کی پھدی کو کھود رہا تھا۔ چوہدری کی بیوی آم کے درخت تک پہنچ چکی تھی اس نے آم گرے دیکھے تو اونچی آواز میں بولی،

          "کون ہے یہاں"

          "آہ"
          رضیہ کے منہ سے غیر ارادی طور پر نکلا کیوں کے چلتے چلتے ایک جھٹکے سے ایک بار پھر چوہدری کا لوڑا پورا اندر گھس چکا تھا۔ ادھر چوہدری مزے کی اچانک لہر سے غرایا۔ باقی کے قدم لیتے وقت چوہدری کا دھیان چلنے کی بجائے اسکی پھدی مارنے کی طرف زیادہ تھا۔ وہ ہر قدم کے ساتھ جھٹکے کو خوب انجوائے کر رہا تھا۔ رضیہ کی نظر چوہدری کے کندھوں کے اوپر سے اسکی ہونے والی ساس پر جمی تھی جو آم کے پیڑ کے پاس کھڑی کھوجتی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ بابا جلدی چلیں ہم یہ کسی اور دن بھی کر سکتے ہیں، اگر ساسو ماں نے پکڑ لیا تو بہت برا ہو گا۔
          چوہدری کو رضیہ کی خوف زدہ آواز سے سچویشن کا انداذہ ہوا تو اس نے چارے والے کمرے کی کنڈی لگا دی۔ رضیہ ابھی تک چوہدری کی گود میں تھی اور اسکا لوڑا رضیہ کی چوت میں گھسا ہوا تھا۔ پچھلے دس منٹ سے رضیہ چوہدری کی گود میں تھی اور اب اس کے بازو درد کر رہے تھے۔ چوہدری نے رضیہ کو چارپائی پر ایسے لٹا دیا کے اسکی اوپری دھڑ چارپائی پر تھا اور گانڈ چوہدری کے ہاتھوں میں اور دونوں ٹانگیں چوہدری کی گانڈ سے لپٹی ہوئی تھیں۔ رضیہ نے اپنی بانہیں چارپائی پر پھیلا کر انہیں ریسٹ دیا لیکن چوہدری کا کچھ اور ارادہ تھا اس نے ایک جھٹکے سے اپنا پورا لن رضیہ کی تنگ چوت میں اتار دیا اور لگاتار جھٹکے مارنے شروع کر دئیے۔ چوہدری جلدی سے جلدی فارغ ہونا چاہ رہا تھا اس لئے اسکے جھٹکوں کی رفتار تیز ہوتی گئی۔ کمرہ چارپائی کی چیخوں، رضیہ کی سسکیوں اور آہوں اور چوہدری کی حیوانی غراہٹوں سے بھر گیا تھا ، رضیہ کے ممے ہر جھٹکے کے ساتھ تیزی سے اسکے منہ کی طرف جاتے اور اسی رفتار سے اسکے کسے ہوئے پیٹ کی طرف جھٹکے سے آتے۔ اس نے اپنی ٹانگیں چوہدری کی کمرکے گرد لپیٹی ہوئی تھیں اور چدائی سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اسکا چہرہ سرخ ہو چکا تھا اور اسے لگ رہا تھا جیسے اس کی چوت سے کوئی سونامی نکلنے کے لئے تیار ہے۔ اب انہیں اس چدائی سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی تھی۔۔۔(جاری ہے )

          Comment


          • #6

            چوہدری کو لگ رہا تھا کہ اب اگر کوئی اسے اس چدائی سے روکے تو شاید وہ پاگل ہو جائے گا۔ رضیہ کی ساس کو بھی اس کمرے سے اٹھتی آوازیں سنائی دے گیئیں تھیں وہ دروازے پر آئی اور پوچھا


            ، " کون اپنی ماں یہوا رہا ہے یہاں"


            "بھین کی لوڑی میں ہوں یہاں، دفع ہو جا یہاں سے"


            چوہدری اپنی بیوی پر غرایا۔


            چوہدراین نے اپنے شوہر کی آواز سن لی اسے پتہ تھا کہ وہ کمرے میں کیا کر رہا ہے لیکن چوہدری کے آگے بولنے کی کسی میں ہمت نہیں تھی۔ اس نے لکڑی کے دروازے میں سے ایک چھوٹی سی درز ڈھونڈی اور اپنی آنکھیں اس پر جما دی۔ اندھیرے میں وہ بمشکل چوہدری کی ننگی گانڈ دیکھ پا رہی تھی جو کسی کو چودتے ہوئے آگے پیچھے ہو رہی تھی۔ اتنے اندھیرے میں یہ پتہ لگانا مشکل تھا کہ وہ کس کی لے رہا ہے۔ اور اپنی ساری عمر چوہدری کے ساتھ گزار کر اسے اتنا تو پتہ تھا کہ وہ کبھی کبھار ادھر ادھر منہ مار لیتا تھا جو زمینداروں کے لئے عام سی بات تھی۔ اس نے دروازے سے اپنی نظد ہٹائی اور واپس رہائشی عمارت کی طرف چل دی۔ لیکن آم کے درخت کے پاس پہنچ کر چوہدراین کے دماغ میں آیا کے دیکھنا تو چاہیئے کہ چوہدری کس کو چود رہا ہے، یہ سوچ کر وہ درخت کے پیچھے چھپ گئی۔


            ادھر چوہدری کے طوفانی جھٹکوں کے آگے رضیہ کی بس ہو رہی تھی۔ آہ بابا اور زور سے چودو۔ چودو اور چودو، پورا ڈالو۔ آہ آہ آہ اور اچانک رضیہ کا آتش فشاں پھوٹ پڑا اور وہ کانپتی ہوئی فارغ ہو گئی۔ چوہدری کو اسکی پھدی اپنے لن پر کھلتی اور بند ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ رضیہ فارغ ہو کر مردہ چھپکلی کی طرح بےجان پڑی تھی۔ چوہدری کی منزل ابھی بھی تھوڑی دور تھی، رضیہ ہلکہ سا ہلی اور اس نے چوہدری کا لوڑا اپنی چوت سے نکالا جس پر اسکی منی اور خون لگا ہوا تھا اور وہ ایسے سخت ہوا ہوا تھا جیسے ابھی پھٹ جائے گا، اسکی رگیں پھولی ہوئی تھی۔ وہ اندر ہی اندر خوش تھی کہ اسکی چوت کا افتتاح ایک ایسے شاندار لوڑے نے کیا ہے لیکن فارغ ہو کر اب اسکے دماغ نے کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ چارپائی سے اتری اور ذمین پر گھٹنے ٹکا کر بیٹھ گئی اور چوہدری کا لوڑا ہاتھ میں لے لیا اسکا دل تھا کے اسے منی میں لے لیکن اپنی ہی منی اور خون میں لتھڑے ہوئے لن سے اسے کراہت بھی آ رہی تھی۔ چوہدری نے اسے سوچ میں ڈوبے دیکھ کر اپنا لن اسکے منہ کے آگے کر دیا اور اسکے رسیلے ہونٹوں پر رکھ کر ہلکا سا دبایس تو اسکا منہ اپنے آپ کھل گیا۔ سرگودھا ھاسٹل میں اس نے پورن موویز میں یہ سب ہوتے دیکھا ہوا تھا اس لئے وہ کسی گشتی کی طرح چوہدری کے لن کے ٹوپے کو چوسنے لگی اور اس اپنی زبان چلانے لگی، چوہدری تو مزے کے مارے پاگل ہو رہا تھا تھوڑی دیر چوپے لگوا کر اس نے رضیہ کو گھوڑی بنایا اور اسکی چوت میں لن گھسانے کے لئے حملہ کیا لیکن عین وقت پر رضیہ نے اپنی گول مٹول گانڈ اسکے نشانے سے ہٹا دی۔ چوہدری کو حیرت ہوئی کہ وہ اہسے کیوں کر رہی ہے لیکن شہوت میں ڈوبے اس نے ایک اور حملہ کیا، رضیہ کگ ہلنے سے ایک دفعہ پھر اسکا نشانہ خطا چلا گیا۔ بھین چود کیا کر رہی ہے تو؟ چوہدری نے غصے سے پوچھا۔ رضیہ نے اپنی موٹی گانڈ بہت ہی سیکسی طریقے سے گھمائی اور بولی:


            تو آپکو میری پھدی چاہیئے سسر جی تو اسکے لئیے تو ضروری ہے میں آپکے گھر بہو بن کر آؤں تبھی تو آپ جب جی چاہے اس میں اپنا لن گھسا پائیں گے۔ بولیں لائیں گے نہ مجھے اپنی بہو بنا کر؟


            چوہدری بولا:


            میرے بیٹے کی اگر شادی ہو گی تو تجھ سے ہی ہو گی، چل اب اور تنگ نہ کر۔


            رضیہ کی تسلی ہو گئی تھی کہ بڈھا اب کہیں نہیں ہل سکتا اسکی مرضی کے بغیر۔ اس نے خود ہی اپنی گانڈ پیچھے کر کے چوہدری کے لن کے ساتھ لگا دی۔ چوہدری کے لئیے اتنا اشارہ ہی کافی تھا، وہ رضیہ پر جھکا اور اسکے بڑے بڑے ممے اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر ایک جاندار گھسا مارا، رضیہ کے منہ سے ایک مرتبہ پھر چیخ نکلی مگر اس دفعہ اس میں اتنا درد نہیں تھا۔ چوہدری اس دفعہ پوری طاقت اور رفتار سے اسے چود رہا تھا۔ رضیہ کی چوت ابھی گرم ہی تھی اسکے منہ سے لذت بھری سسکیاں نکل رہی تھیں اور ایک اور سیلاب آنے کو تیار ہو رہا تھا۔ چوہدری کے ہر دھکے سے اسکی گانڈ اور ممے تھرتھراتے تھے اور چوہدری کو مجبور کرتے تھے کہ وہ اور زور لگائے۔ چوہدری کا ٹائم قریب آ گیا تو اس نے آخری چند دھکے دے کر لن نکال کر کھینچنے کی کوشش کی پر رضیہ بولی بابو جی اندر ہی فارغ ہو جائیں اور مجھے اپنے وارث کی ماں بنا دیں۔ رضیہ یہ کہتے ہوئے اتنی سیکسی لگ رہی تھی کہ چوہدری کی بس ہو گئی اور منی کا فوارہ اس کے لن سے نکل کر رضیہ کی پھدی کو سیراب کر گیا، چوہدری نے اس وقت تک لن نہ نکالا جب تک اس کا لن نچڑ نہیں گیا۔ رضیہ بھی چوہدری کے ساتھ ہی دوبارہ فارغ ہو کر چارپائی پر الٹی ہے لیٹ گئی۔ اسے اب اپنے ہونے والے سسر پر پیار آ رہا تھا جس نے اسے کلی سے پھول بنا دیا تھا۔


            ایک چیلنج سے شروع ہونے والی بات، کنٹرول گیم سے ہوتے ہوئے مزے کی وادیوں میں ختم ہو گئی تھی۔


            "جلدی سے دلہن بن کر میرے گھر آ جاؤ"


            ۔ چوہدری نے پیار سے اسکے کان میں سرگوشی کی۔


            "آپکی بن کر نہیں آ رہی "


            رضیہ اپنے چوتڑ ہلاتی ہوئی بولی۔


            میں نے ایسا تو نہیں کہا بیٹی۔ لیکن میرے لوڑے کے بغیر اب تیری پھدی کو چین نہیں آنا اور تیری پھدی کے بغیر میرے لوڑے کو۔ تو اب تو یہ سب چلتا رہے گا۔


            یہ کہتے وقت چوہدری کے چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ تھی۔


            آپ وعدہ کرتے ہیں کہ مجھے ایسے ہی خوش رکھیں گے؟ یہ کہتے ہوئے رضیہ کی چوت کھل کر بند ہوئی تھی جیسے اپنی رضامندی کا اعلان کر رہی ہو۔ رضیہ نے یہ کہتے ہوئے اپنے گول مٹول چوتڑ چوہدری کے لن کے ساتھ جوڑے جو اب سکڑ کر چھوہارے کے سائز کا ہو چکا تھا لیکن تقریبا ایک گھنٹے کی چدائی کر کے اسکے لن کی جلد حساس ہو چکی تھی۔ اسکے نرم کولہے اپنے سوئے ہوئے لن پر محسوس کر کے چوہدری کو کرنٹ سا لگا۔


            آہ۔۔۔۔۔ اب تو کیا چاہتی ہے؟ چوہدری بڑبڑایا۔


            تجھے۔۔۔۔۔


            رضیہ بےشرمی سے چوہدری کی آنکھوں میں جھانکتی ہوئی بولی۔


            تومجھے حاصل کر چکی ہے چڑیل۔ چوہدری شکست خوردہ انداز میں بولا۔


            شادی کب ہو رہی ہے اب؟


            رضیہ نے پوچھا۔


            جیسے پلان کیا تھا ویسے ۔


            رضیہ یہ سنتے ہوئے فاتحانہ انداز میں مسکرائی۔


            چوہدری کی بیوی شاہدہ آم کے درخت کے نیچے کھڑی تھک چکی تھی لیکن کمرے کی خاموشی سے اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ دنگل ختم ہو چکا ہے اور اب چوہدری اور وہ عورت کمرے سے باہر آنے والے ہیں۔۔۔(جاری ہے )

            Comment


            • #7
              اچانک پوری حویلی مکمل تاریکی میں ڈوب گئی، لائٹ چلی گئی تھی۔ واپڈا والوں کی بھین نوں لن، چوہدراین کےمنہ سے بےساختہ نکلا۔ ادھر رضیہ نے اپنے پھٹے ہوئے کپڑوں کو اس چادر میں چھپایا جس میں وہ گھر سے نکلتے وقت چھپی تھی اور رات کی تاریکی میں چوہدراین کی نظروں میں آئے بغیر اپنے گھر کی طرف چل دی۔ چوہدری نے بھی حویلی کی طرف اپنے قدم بڑھ دئیے۔ چوہدراین کو اس سے کچھ پوچھنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔

              ایک بھرے ہوئے بدن کی پینتیس چھتیس سالہ عورت چوہدری کے گٹھے ہوئے جسم کی مالش کر رہی تھی یہ پچھلے بیس سال سے چوہدری کی ہر ہفتے کی روٹین تھی جسے چوہدری پچھلے دو ہفتوں میں سجاد اور رضیہ کی شادی کی وجہ سے نہیں کروا پایا تھا۔ دونوں کی شادی دس دن پہلے خوش اسلوبی سے ہو گئی تھی جس کے بعد چوہدری نے نئے جوڑے کو ہنی مون منانے ایک ہفتے کے لئیے بھیج دیا تھا جہاں سے انکی واپسی دو رات پہلے ہوئی تھی۔ "رضیہ" چوہدری دل ہی دل میں بدبدایا اور اسکے ساتھ ہی رضیہ کے ساتھ کی چدائی کی ساری یادیں ایک سیلاب کی طرح چوہدری کے دماغ میں گھس گئیں۔ چوہدری نے محسوس کیا تھا کے شادی کے بعد سے رضیہ اسکے قریب آتی جھجھک رہی تھی اور جب بھی اسے سامنے آنا پڑتا وہ اپنی چادر یا دوپٹے کا بڑا سا گھونگھٹ بنا کر اپنا چہرہ اور پورا جسم چھپا لیتی، چوہدری کو اس سے الجھن ہو رہی تھی کہ اس رات پوری بےشرمی کے ساتھ جانوروں کی طرح چدنے والی بہو اب اسے نظرانداز کر رہی ہے۔ یہ سب سوچتے ہوئے چوہدری کے لوڑے کو ہوشیاری آ رہی تھی۔

              چوہدری اس مالش والے دن کوپوری طرح انجوائے کرتا تھا۔ اسکی مالش کی ذمہ داری حویلی کی ملازماؤں کے سپرد تھی۔ چوہدراین نے ان ملازماؤں کو رکھتے وقت ایک بات پر دھیان دیا تھا کہ وہ نہ ذیادہ جوان ہوں اور نہ ذیادہ خوبصورت تاکہ چوہدری کو اگر مالش کے وقت گرمی چڑھ جائے تو انکی پھدی مار لے لیکن انہیں اسکی سوکن بنانے کا خیال اسکے ذہن میں ہرگز نہ آئے۔ اسکی حویلی میں دس بارہ ملازمائیں تھیں جو اپنی اپنی باری پر چوہدری کی مالش کرتی تھیں، ان میں سے کچھ ایسی بھی تھیں جن سے چوہدری کا ان دیکھا معاہدہ تھا کہ وہ انہیں چودے گا نہیں لیکن چدائی کے علاوہ باقی سب کرنے کی اسے مکمل آزادی تھی۔

              چوہدری کے پاس عورتوں کی ہر طرح کی ورائٹی تھی، ان میں سے کچھ کے ہاتھ کھیتوں میں سخت کام کرنے کی وجہ سے سخت ہو چکے تھے جبکہ کچھ کے ہاتھ نرم تھے۔ کچھ نرم ونازک گھریلو قسم کی دیہاتی عورتیں تھیں جو چوہدری کے دئیے قرض کی ادائیگی کی خاطر اس کی حویلی پر ملازم تھیں اور کچھ اپنے شوق اور چوہدری سے ملنے والے انعامات اور فائدے کے لالچ میں خود وہاں رہ رہی تھیں۔ چوہدری کی مالش کے دوران انکے کپڑے پسینے اور تیل میں لتھڑ کرانکے جسموں سے چپک جاتے اور جب وہ چوہدری کی مالش کرتیں تو ہاتھوں کے ساتھ انکے جسم بھی چوہدری کے جسم کا مساج کرتے۔ انکے مموں کی درمیانی لکیریں چوہدری کے لن میں آگ لگا دیتیں اور انکی کسی ہوئی گانڈیں چوہدری کےںلن کو الٹیاں کروا دیتیں، چوہدری ان سب سے پوری طرح لطف اندوز ہوتا تھا۔

              آج بھی چوہدری اپنی مخصوص لکڑی کی دو فٹ اونچی پھٹی پر ٹانگیں پھیلا کر بیٹھا تھا اسکا اوپری جسم بالکل ننگا تھا جبکہ زیریں جسم پر چھوٹی سی لنگوٹی تھی جسے کثرت کے وقت پہلوان پہنتے ہیں، مالش کے لئیے مختصر کپڑے پہننا تو ضروری تھا۔جبکہ چوہدری جسم کے بعد اپنے سر کی مالش کرواتا اور اسکے بعد اسی لباس میں نہاتا تھا۔ اس چھوٹی سی لنگوٹی میں اس کے لن کو صاف دیکھا جا سکتا تھا۔ جبکہ مالش کے وقت چوہدری کی حرامزدگیوں کی وجہ سے عام طور پر تو اسکا لوڑا کھڑا ہی رہتا تھا۔

              آج مالش کے لئیے اس کے پاس بولی آئی تھی۔ اسکا اصل نام تو کچھ اور تھا لیکن سب اسکی خاموش طبع ہونے کی وجہ سے اسے بولی کہنے لگے تھے، وہ پینتیس چھتیس سال کی گٹھے ہوئے جسم کی سانولے سے رنگ کی درازقامت عورت تھی جو ایک لمبے عرصے سے حویلی کی خدمت کرتی آ رہی تھی، سانولا رنگ ہونے کے باوجود اس میں غضب کی سیکس اپیل تھی۔ حویلی میں کی گئی محنت نے اس کے جسم کو سخت اور سڈول کر دیا تھا۔ مالش بہت اچھی کرتی تھی لیکن وہ ان چند عورتوں میں سے تھی جو چدواتی نہیں تھی۔ باقی چوہدری اسکے ہرے بھرے جسم سے ہر طرح لطف اندوز ہو سکتا تھا اور بولی بھی اسے بھرپور مزہ دیتی تھی۔ بولی کو بھی چوہدری کے مضبوط جسم سے کھیلنا بہت پسند تھا اور اسکا جناتی لوڑا اسکی پھدی گیلی کر دیتا تھا لیکن ابھی تک اتنے سال وہ کنٹرول کرتی آئی تھی۔ عام طور پر چوہدری کی مالش کا فائدہ بولی کا شوہر اٹھاتا تھا جب وہ چوہدری سے گرم ہو کر اپنے شوہر کے ساتھ پلنگ توڑ سیکس کرتی تھی۔۔۔(جاری ہے )

              Comment


              • #8
                پر ابھی تو چوہدری کی باری تھی، بولی نے چوہدری کے بالائی جسم کی مالش ختم کر لی تھی اور اب اسکی ٹانگوں کی مالش کر رہی تھی، اس ساری محنت سے اسکا جسم پسینے میں شرابور تھا، اسکے پسینے سے چمکتے ادھ ننگے لٹکتے ہوئے مموں نگ چوہدری کا لوڑا پورا کھڑا کر دیا تھا اور اسکا لن اب منی کی پچکاریاں چھوڑنا چاہتا تھا۔ بولی کو بھی اسکا احساس تھا اور وہ اسکے جن کو اپنے ہاتھوں میں لینے کو بےچین تھی۔ چوہدری نے بغیر کوئی لفظ کہے بولی کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے گھٹنوں کے اوپر سے اپنی رانوں پر لا کر رکھ دیا۔ بولی نے چوہدری سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور اپنے دوسرے ہاتھ سے اپنی کلائی میں موجود چوڑیاں اوپر کو چڑھا دیں تاکہ وہ اسکے ہاتھ کی حرکت سے شور نہ مچائیں۔ وہ کتیا کی طرح گھٹنوں کے بل ہوئی اور چوہدری کی لنگوٹی کھول کر اسکا اکڑا ہوا لوڑا اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ لیا۔ اس اینگل سے لن پکڑ کر مٹھ لگانا بہت مشکل تھا لیکن بولی تو ابھی چوہدری کا لوڑا ہاتھ میں پکڑ کر اسکی سختی اور سائز جانچ رہی تھی اور اپنی انگلی اور انگھوٹھے سے بہت نرمی سے لن پکڑے آگے پیچھے کر رہی تھی دوسرا ہاتھ اس نے چوہدری کے پیٹ پر رکھا ہوا تھا، چوہدری کی نظر اس کی گیلی قمیض سے جھانکتے اسکے مموں پر تھی جو براء نہ پہننے کی وجہ سے مستقل اس کی قمیض میں ناچ رہے تھے۔ تیل لگا، چوہدری ہلکی آواز میں بولا۔ بولی نے ہاتھوں پر مزید تیل لگایا اور چوہدری کے اکڑے ہوئے ڈنڈے کہ مالش کرنے لگی۔ چوہدری کا لوڑا اب تیل سے چمک رہا تھا اور تیل کی بوندیں بہہ بہہ کر نیچے مٹی میں جذب ہو رہیں تھیں۔ چوہدری کا لوڑا اب بارش برسانا چاہتا تھا اس لئیے چوہدری نے کہا کہ جلدی کر بولی۔ بولی نے دونوں ہاتھوں سے چوہدری کا لن اپنے چکنے ہاتھوں میں پکڑا اور ایک ردھم میں آگے پیچھے کرنے لگی۔ چوہدری کی مذی نکل آئی اور ایک سفید لکیر بناتی بولی کے ہاتھ سے فرش پر ٹپک گئی۔ بولی اب ایک ردھم میں ہلکی رفتار سے اسکا لن آگے پیچھے کر رہی تھی اور چوہدری کی نظریں اسکے گریبان میں موجود ہلچل پر تھی اور وہ مزے میں ڈوبا ہوا تھا۔ چوہدری کے ہاتھ دھیرے سے رینگتے ہوئے بولی کے سر پر جم گئے اور اسکے بالوں میں چوہدری کی انگلیاں رینگنے لگیں۔ بولی آج تک سمجھ نہیں پائی تھی کہ ایسا چوہدری پیار آنے پر کرتا تھا یا اس کی نیت اسکے منہ میں لن گھسانے کی تھی۔ لیکن چوہدری نہ کبھی منہ سے کہتا تھا اور نہ ہی کبھی اس نے ذبردستی کرنے کی کوشش کی۔


                بولی اپنے کام میں مگن تھی اور اسکے ہاتھ ایک ردھم میں چوہدری کے لن پر گھوم رہے تھے، چوہدری کے سانولے لن پر اسکی پھولی ہوئی رگیں سانپوں کی طرح نظر آ رہی تھیں۔ بولی نے اسکے لن پر ہاتھ چلاتے چلاتے اپنا دایاں ہاتھ ہٹایا اور مذی سے چمکتے چوہدری کے لن کے ٹوپے پر اپنے انگلیاں گھمائی، چوہدری کا پورا جسم کانپ اٹھا اور اسکے منہ سے لذت میں ڈوبی آہ نکلی۔ بولی کولگا کے چوہدری کا وقت قریب ہے اس لئیے اس نے اپنے ہاتھوں کی گرفت مزید سخت کر کے انکی رفتار بڑھا دی۔ لیکن چوہدری تو لمبی ریس کا گھوڑا تھا، اتنی آسانی سے اس سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی تھی۔ بولی کے ہاتھ درد کرنے لگے تو اس نے اپنا ایک ہاتھ فرش پر ٹکایا اور چوہدری کے مزید قریب ہو کر دوسرے ہاتھ سے مٹھ لگانے لگی۔ اسکی گرفت کی طاقت اور اسکی رفتار سے چوہدری کو اندازہ ہو رہا تھا کہ بولی کے ہاتھ تھک چکے ہیں اور اب وہ اسے جلدی سے جلدی فارغ کرکے اپنی جان چھڑانا چاہ رہی ہے۔ ارادہ تو چوہدری کا بھی یہی تھا کیونکہ بولی کو مٹھ لگاتے کافی دیر ہو گئی تھی اور اب کوئی اور ملاذمہ اسکے سر کی مالش کے لئیے تیل لے کر آنے ہی والی تھی۔ اور چوہدری نہیں چاہتا تھا کہ کسی کے آنے کی وجہ سے اسے جلدی میں فارغ ہونا پڑے وہ اپنے آرگیزم کو تسلی سے انجوائے کرنا چاہتا تھا ایسے کہ اسے اپنی منی کے ایک ایک قطرے کے نکلنے کا مزہ ملے۔ چوہدری نے اپنے قریب بیٹھی بولی کے دائیں کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا اور اسکی سانولی جلد پر پھیرتا ہوا اسکی قمیض کے گریبان کی طرف لے گیا جہاں سے اسکے پوری طرح پکے ہوئے آم جیسے ممے جانے کتنی دیر سے باہر نکلنے کو اتاولے ہو رہے تھے۔ براء نہ ہونے کی وجہ سے بولی کی ہر حرکت پر قمیض کے اندر ان کی اتھل پتھل صاف دیکھی جا سکتی تھی۔ بولی کی عمر کی وجہ سے وہ اب تھوڑے لٹک چکے تھے لیکن اس نے انکی کشش اور بھی بڑھا دی تھی۔ چوہدری کا ہاتھ بولی کے گریبان میں گھسا اور فورا ہی ان تجربہ کار ہاتھوں نے بولی کے انگور جیسے نپل کو اپنی انگلی سے رگڑ دیا۔


                "آہ"


                بولی کے منہ سے غیرارادی طور پر نکلا۔


                چوہدری نے اپنی انگلی اور انگوٹھے کے درمیان اسکا نپل پکڑا اور اسے ایسے دبانے لگاجیسے ان میں سے دودھ نچوڑ رہا ہو۔ چوہدری کے اس حملے نے بولی کی چوت میں آگ لگا دی تھی اور وہ پانی سے نکلی مچھلی کی طرح منہ کھول کر لمبے لمبے سانس لے رہی تھیں۔


                اسکا کنٹرول اپنے جسم پر ختم ہو رہا تھا اور وہ دل سے چاہ رہی تھی کہ چوہدری اپنے لن سے اسکی پیاس مٹا دے۔ اس نے جب سے چوہدری کی مالش شروع کی تھی چوہدری کا بڑا سا لن اس کے دل میں سوال پیدا کرتا تھا کہ کیسا لگے اگر وہ چوہدری کا لن اپنی چوت میں لے لے۔ اور آج اپنے ممے اس کے ہاتھوں میں دیکھ کر پھر یہی سوال اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ لیکن یہ سب سوچ ہی رہی اور اسکا ہاتھ تیزی سے چوہدری کے لن پر اوپر نیچے پھرتا رہا۔ ادھر چوہدری نے اپنے دوسرے ہاتھ میں دوستا مما پکڑ لیا تھا اور دونوں ہاتھوں سے اسکے دونوں مموں کو مسل رہا تھا۔ بولی کی آنکھیں مزے سے بند ہونے لگیں لیکن اسکے ہاتھوں کا کام جاری تھا۔ بولی آنکھیں بند کئیے چوہدری کا لن مسل رہی تھی اور مزے سے اپنا سر ادھر ادھر مار رہی تھی۔ وقفے وقفے سے اسکی نظر چوہدری کے لن پر بھی پڑ رہی تھی جو اب پھٹنے کو تیار ہی تھا۔ مزے کی لہروں میں ڈوبے اس نے گتدن گھمائی تو اس لگا جیسے کوئی انہیں دروازے سے چھپ کر دیکھ رہا ہے۔ کسی کے ہاتھ دروازے پر جمے تھے اور مہندی لگے ہاتھوں سے اسے اندازہ لگانے میں کوئی دشواری نہ ہوئی کہ چھپ کر دیکھنے والی چوہدری کی نئی نویلی بہو ہے لیکن اسے سمجھ نہیں آئی کہ چھوٹی بہو یہاں کیوں آئی ہے۔ رضیہ نے اندر کی طرف سر کیا اور دوبارہ جھانکا تو اسکی نظر بولی سے ملی۔ بولی کی آنکھیں بولتی ہوئی محسوس ہوئیں: "دیکھو یہ سب کرنا میرے کام کا حصہ ہے مجھے غلط نہ سمجھنا"


                رضیہ کو یہ دیکھ کر تعجب ہو رہا تھا، جہاں وہ کھڑی تھی اسے صاف نظر آ رہا تھا کہ بولی کے ہاتھ میں چوہدری کا بڑا سا اکڑا ہوا لوڑا ہے جسے وہ ایک ہاتھ سے آگے پیچھے کر رہی ہے اسکا دوسرا ہاتھ سہارے کے لیئے ذمین پر ہے اور چوہدری دونوں ہاتھوں سے اسکے سانولے رنگ کےممے ایسے دبا رہا ہے جیسے وہ کسی گائے بھینس کا دودھ چو رہا ہو۔ بولی نے نظریں جھکا دی اور اپنا کام جاری رکھا، چوہدری کا چہرہ چھت کی طرف تھا اور اسکے منہ سے بےمعنی آوازیں نکل رہی تھیں جس سے یہ صاف پتہ چل رہا تھا کہ اسکا وقت قریب ہے۔ اچانک چوہدری غرایا اور بولی نے منی کی دھار سے اپنا جسم بڑی مشکل سے بچایا۔ تیل کے داغ تو گھر کے کاموں میں پڑ سکتے تھے لیکن اگر اسکے کپڑوں پر منی کے داغ ہوتے تو اس کے لیئے اپنے شوہر کو مطمئن کرنا بہت مشکل ہو جاتا۔ چوہدری کے لن نے منی کی چار پانچ پھواریں ماری اور رضیہ نے لن پر ہاتھ رکھ کر انہیں ادھرادھر گرنے سے بچا لیا۔ بولی کا ہاتھ گاڑھے سفید مواد سے بھر گیا تھا جو اسکے ہاتھ سے بہہ کر اسکی کہنی کی طرف بھی جا رہا تھا۔ چوہدری فارغ ہو کر آنکھیں بند کیئے لمبے لمبے سانس لے رہا تھا۔ رضیہ کی نظرون نے یہ سارا منظر جیسے سلوموشن میں دیکھا تھا، بولی آہستہ آہستہ کھڑی ہو رہی تھی اسکے ایک ہاتھ میں اس نے چوہدری کی منی اکٹھی کی ہوئی تھی جبکہ دوسرا ہاتھ بھی تیل اور چوہدری کی منی کی کچھ دھاروں کی وجہ سے بھرا ہوا تھا۔ بولی کے بکھرے بالوں، مسلے کپڑوں اور پسینے میں ڈوبے کپڑوں اور سب سے بڑھ کر اسکے منی میں لتھڑے ہاتھوں سے صاف لگ رہا تھا کہ کسی مرد نے اسکا پوری طرح مزہ لیا ہے۔ بولی اپنے آپ کو سنبھالتی رضیہ کو سلام کرتی ایسے باہر نکلی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو، باہر نکلتے وقت اس نے رضیہ کے ہاتھ میں چوہدری کے سر پر مالش والے تیل کا برتن دیکھ لیا تھا۔


                چوہدری صاحب آپ کے سر کی مالش کے لئیے تیل آ گیا ہے۔ بولی نے کمرے سے باہر جاتے وقت آنکھیں بند کئیے اونچی سی پیڑھی پر آرام کرتے چوہدری کو تیز آواز میں خبر دی۔


                جاؤ وہ انتظار کر رہے ہیں، بولی نے دھیمی آواز میں نئی بہو کو اطلاع دی۔


                رضیہ اب بھی کھڑی سوچ رہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ چوہدری کو پتہ لگے کہ اس نے سب کچھ ہوتے دیکھ لیا ہے۔ اس نے ایک لمحے کے لیے سوچا کہ چوہدری ابھی تو فارغ ہوا ہے اور اس عمر میں ایک دفعہ فارغ ہو کر شاید اب اسکے اندر کچھ کرنے کی طاقت ہی نہیں بچی ہو گی یہ سوچ آتے ہی رضیہ بےخوفی سے پورے اعتماد کے ساتھ مالش والے کمرے میں داخل ہوئی۔


                اب صورتحال اس رات سے بالکل مختلف تھی جب اس نے بھینسوں کے چارے والے کمرے میں اپنی کنواری چوت چوہدری سرور کو سونپی تھی۔ اس دن وہ رشتے میں سسر اور بہو نہیں تھے صرف مرد اور عورت تھے جن پر جنسی جنون طاری ہو گیا تھا۔ اب رضیہ کا دماغ پورے ہوش و حواس میں اسے کہہ رہا تھا کہ آئندہ ایسا کچھ بھی نہیں ہونا چاہیئیے جس سے اس کے ازدواجی رشتے میں کوئی فرق آ ئے۔ وہ بہو کے علاوہ کسی بھی صورت میں اپنے بوڑھے سسر کے آگے آنا نہیں چاہتی تھی۔


                رضیہ جسے اب سب اسکے سسرال میں پیار سے رجی کہنے لگے تھے اعتماد سے چوہدری کی نشست کی طرف چل پڑی۔ چوہدری کی پشت دروازے کی طرف تھی اور وہ آرام سے اپنی اونچی چوکی پر آنکھیں بند کئیے بیٹھا تھا، رجی کی نظر چوہدری کے مضبوط کندھوں اور طاقتور بازوؤں پر پڑی تو وہ اسکی نظروں میں ستائش صاف پڑھی جا سکتی تھی۔ یہی کمر اور کندھے تھے جنہوں نے کتنی آسانی سے اس رات اسکا بوجھ اٹھایا ہوا تھا، اور رجی کے ہاتھوں نے مزے کی بلندیوں پر سفر کرتےچوہدری کی کمر کو رگڑا، کھرچا اور مسلا تھا۔ اس نے ان خیالات کو اپنے دماغ سے ایسے کھرچا جیسے وہ اس رات سے اب تک سینکڑوں مرتبہ کھرچ چکی تھی۔ اگر اسے اس گھر میں اپنے شوہر اور سسر کی موجودگی میں ایک نارمل خوشگوار زندگی گزارنی تھی تو ان خیالات سے جان چھڑانا اسکے لئیے ضروری تھا۔ اگر کسی کو پتہ چل گیا کہ اس کے کنوارپنے کو شادی سے دو دن پہلے اسکے سسر نے ختم لیا تو اسکی شادی کو ختم ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا تھا۔


                لیکن حویلی کی ملاذمہ بولی کو چوہدری کے جناتی لن کی مالش کرتے دیکھ کر رجی کی چوت گیلی ہونا شروع ہو گئی تھی۔ اس نے صاف دیکھا تھا کہ کیسے بولی نے چوہدری کی مٹھ لگاتے ہوئے چوہدری کو فارغ کیا تھا، اس منظر سے اسے چوہدری کی عیاش فطرت کا اچھے سے اندازہ ہو گیا تھا۔ رضیہ کی ساس نے اسے چوہدری کے سر میں لگانے کا تیل دے کر بھیجا تھا کہ وہ بولی کو تیل دے آئے پر بولی تو شاید اپنے ہاتھوں پر لگی منی دھونے باہر چلی گئی تھی اور اب کمرے میں وہ اپنے سسر کے ساتھ اکیلی تھی۔ چوہدری کو ابھی تک بالکل پتہ نہیں تھا کہ تیل لے کر آج اسکی نئی نویلی بہو آئی ہے وہ تو آنکھیں بند کئیے اپنی سوچوں میں گم تھا۔ رضیہ چوہدری کو چھوتے ہوئے خوفزدہ تھی پتہ نہیں یہ خوف چوہدری سے تھا یا اس رات کے واقعات یاد کر کے اپنی رس ٹپکاتی چوت سے۔ اس نے ہمت کرکے چوہدری کے سر پر تیل کا برتن ٹیڑھا کر کے کچھ تیل گرایا لیکن شاید تیل کی کچھ ذیادہ مقدار سر پر گر گئی تھی، تیل کی ایک دھار چوہدری کی گردن سے اسکے کندھے کی طرف بہی تو رضیہ نے غیر ارادی طور پر تیزی سے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اپنے انگوٹھے سے چوہدری کی گردن سے نیچے جاتی تیل کی دھار کو روک لیا۔ ادھر چوہدری نے اپنا ہاتھ اپنے کندھے سے پیچھے کی طرف گھمایا اور رضیہ کا ہاتھ تھام کر اپنے سر پر رکھ کر اسے بذبان خاموشی حکم دیا کہ یہ تیل سر کی مالش کے لئیے ہے اور اب وہ مالش شروع کرے، اسے ابھی بھی یہ نہیں پتہ تھا کہ اس نے رضیہ کو حکم دیا ہے۔ رجی نے چوہدری کے چھدرے بالوں میں انگلیاں ڈالیں اور دھیرے دھیرے اسکی مالش شروع کر دی۔ چوہدری کے جسم کا لمس محسوس کرتے ہی ایک دفعہ تو رجی کا سانس رک سا گیا اور اسکی انگلیوں کے ذریعہ جیسے چوہدری نے اسکے دل کے تار چھیڑنے شروع کر دئیے۔ اس رات چوہدری نے اسکا پردہ بکارت پھاڑ کر اسے کلی سے پھول بنایا تھا اور وہ اسکی ذندگی کا پہلا جنسی تجربہ تھا، اب شادی کے بعد اسے اپنے شوہر کی شکل میں دوسرا جنسی تجربہ بھی ہو چکا تھا لیکن ایک بات واضح تھی کہ جوان ہونے کے باوجود سجاد میں چوہدری جیسی بات نہیں تھی۔ نہ تو اسکے پاس چوہدری جیسا جنسی تجربہ تھا اور نہ ہی اس جیسا تباہ کن ہتھیار۔ اسکے علاوہ وہ مشکل سے پانچ منٹ میں ہی فارغ ہو جاتا تھا جبکہ چوہدری کا اسٹیمنا اتنا تھا کہ اس رات اس نے رجی کو تقریبا ایک گھنٹہ چودا تھا۔ ادھر چوہدری نے جب رجی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پر رکھا تھا تو اسے اسکے ہاتھ کی نرمی اور نزاکت سے پتہ لگ گیا تھا کہ یہ کوئی نئی لڑکی ہے کیونکہ اسکی حویلی پر کام کرنے والی عورتوں کے ہاتھ سخت کام کر کر کے کھردرے اور سخت ہو چکے تھے۔


                چوہدری کے اندر کا ٹھرکی انسان جاگ گیا تھا حالانکہ تھوڑی دیر پہلے ہی اس نے اپنی منی خارج کی تھی۔ اب اسکا ارادہ اور کسی دن کے لئیے اس نئی لڑکی کو تیار کرنے کا تھا۔ رجی نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اسکی گردن کے پیچھے تیل بہتے دیکھا تو اس تیل سے چوہدری کی گردن پر بھی اپنے نرم ہاتھ چلانے لگی۔ یہ کرتے ہوئے وہ پیاسی نگاہوں سے چوہدری کے مضبوط کندھوں کو دیکھ رہی تھی۔ اسکے سسر نے ہاتھ پیچھے کر کے اسکا بازو پکڑا تو اسکے بازو کی گولائی اور نرمی سے اسکی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی سی پھیل گئی۔سسر جی نے بازو پکڑ کر ہلکا سا جھٹکا دیا تو رجی کا پکے ہوئے پھل جیسا جسم چوہدری کی کمر سے چپک گیا۔ رجی کی نظر چوہدری کے کندھوں سے ہوتی ہوئی نیچے پڑی تو وہ یہ دیکھ کرحیرت زدہ ہو گئی کہ اس کا شیش ناگ ابھی بھی نیم استادہ تھا اور ابھی بھی اس کے پانی سے اسکے لوڑے کا ٹوپاگیلا لگ رہا تھا۔


                "کیا تم یہاں نئی ہو؟"


                چوہدری نے اسکی طرف دیکھے بغیر اسکے بازو پر اپنی کھردری انگلیاں چلاتے ہوئےسوال کیا۔


                "جی بابو جی۔۔۔۔۔۔۔۔!"


                رجی دھیرے سے بولی۔


                چوہدری نے آواز پہچانتے ہی حیرت سے گردن گھما کر اپنی بہو کی طرف دیکھا۔ اسکی آنکھوں سے خوشی صاف چھلک رہی تھی۔ وہ مسکرایا اور غیرارادی طور پر اس نے اپنی لنگوٹی ٹھیک کر کے اپنے لوڑے کو بمشکل چھپایا۔ رضیہ مسکرائی اور ایک مرتبہ پھر اسکے تیل میں سنے بالوں میں اپنی مخروطی انگلیاں چلانے لگی۔


                "یہ تو ملازماؤں کا کام ہے تم کیوں اپنے ہاتھ گندے کر رہی ہو؟"


                چوہدری نے آنکھیں بند کی اور اسکے لمس کے مزے میں ڈوب کر شفقت بھرے لہجے میں بولا۔


                "ہاتھ تو دھوئے جا سکتے ہیں بابو جی پر شاید آپکی ایسے خدمت کرنے کا موقع مجھے باربار نہ ملے"


                رضیہ کی نظریں اب چوہدری کے چوڑے سینے پر موجود نپلز پر تھیں جو رضیہ کی قربت سے کھڑے ہو گئے تھے۔


                "کیوں نہ ملے گا"


                چوہدری نے مسکراتے ہوئے کہا۔رجی کی قربت اور اسکے ہاتھوں کے کومل لمس سے چوہدری کے لوڑے میں جان پڑنی شروع ہو گئی تھی حالانکہ ابھی پندرہ منٹ پہلے ہی اس نے منی نکالی تھی اور اتنی جلدی اس عمر میں دوبارہ تیار ہونا ناممکنات میں سے تھا۔


                "وہ اس لئیے بابو جی کے اگر میں باربار آپکے پاس اکیلے میں آؤں گی تو لوگ طرح طرح کی باتیں سوچیں گے"


                رجی نے جواب دیا۔


                "لوگ کیوں کچھ سوچیں گے، اب تو تم اسی حویلی کی ایک فرد ہو"


                چوہدری نے سوالیہ لہجے میں کہا۔ لیکن یہ کہتے ہوئے چوہدری کے لہجے میں بےیقینی سی تھی۔ رضیہ کی قربت کے نشے سے اب چوہدری کا لوڑا پوری طرح کھڑا ہو کر جھوم رہا تھا۔ چوہدری پوری کوشش کر رہا تھا کہ اپنے اوپر قابو رکھے لیکن اس لڑکی میں کوئی عجیب سا جادو تھا۔۔۔(جاری ہے )

                Comment


                • #9



                  رضیہ نے چوہدری کے کندھے سے جھک بہتے ہوئے تیل کی ایک دھار کو مزید نیچے جانے سے روکا۔ یہ اس نے بےخیالی میں غیرارادی طور پر کیا تھا۔ وہ یہ کرتے ہوئے چوہدری پر جھک گئی تھی جس کی وجہ سے اسکا کسا ہوا پیٹ چوہدری کی کمر سے ٹکرایا اور اسکے گول مٹول بڑے بڑے ممے چوہدری کے تیل میں چپڑے سر پر ٹک گئے۔ ادھر رضیہ کی نظریں چوہدری کی لنگوٹی کے ابھار پر جم گیئیں۔ رضیہ کی قربت سے چوہدری کی لنگوٹی پر ہونے والا اثر بالکل واضح تھا۔ حالانکہ چوہدری کا لوڑا لنگوٹی میں قید تھا پھر بھی اسکی لمبائی اور موٹائی اسکی چھوٹی سی لنگوٹی سے صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔ رضیہ کے دماغ میں فلم چل پڑی کہ کیسے اس لوڑے نے اسکی کنواری چوت کو پھاڑا تھا وہ بھی ایسے کے کافی وقت تک اسکی چوت سوجی رہی تھی۔ اسکا دماغ یہ سوچتے وقت سن ہو گیا اور اسکی چوت رس ٹپکانے لگی تھی۔ رضیہ نے بےخیالی میں اپنے تیل میں چپڑے ہاتھوں سے چوہدری کے نپل مسل دئیے۔


                  "آہ"


                  چوہدری کے منہ سے لذت بھری سسکاری نکلی۔


                  "بیٹی کیا کر رہی ہو، اب ہم ہرگز کچھ ایسا ویسا نہیں کر سکتے"


                  چوہدری نے اپنی گردن گھمائی اسکی نظریں رضیہ کے غباروں پر تھیں اور وہ ان غباروں میں اپنا چہرہ چھپانے کے لئیے مرا جا رہا تھا، رضیہ نے اسکی آنکھوں کا پیغام پڑھا تو اسے اپنے خوبصورت جسم کی طاقت کا احساس ہوا۔ وہ مسکرائی اور چوہدری کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی،


                  "بابا آپکی زبان کچھ کہہ رہی ہے اور آپکی آنکھیں کچھ اور، خود ہی بتائیں اب میں کس کی سنوں"


                  چوہدری کی ذبان خاموش رہی لیکن رضیہ نے خود ہی اپنے بوڑھے سسر پر ترس کھاتے ہوئے اپنا جسم جھکایا اور اسکا چہرہ اپنی بھاری چھاتی میں چھپا لیا۔ چوہدری بڑے پیار سے اپنا چہرہ اسکے کپڑوں میں چھپی چھاتیوں پر رگڑنے لگا۔ رضیہ کے جسم کی مدھر مہک نے چوہدری کا حلق خشک کر دیا تھا اور چوہدری اب ان پکی ہوئی مسمیوں کا رس چوسنے کو بےتاب تھا۔ پر اسکے منہ اور ان مموں کے درمیان ابھی بھی اسکی قمیض، رضیہ کے گلے میں جھولتے سونے کے ہار اور اس کی چھاتیوں کی حفاظت کرتے اسکے کالے رنگ کے براء کا فاصلہ باقی تھا۔


                  چوہدری نے اب اپنی گردن کے ساتھ ساتھ باقی جسم بھی اپنی بہو کی طرف موڑ لیا تھا جس سے اسکی دونوں ٹانگیں کھل گئی تھیں، رضیہ نے اپنی ایک ٹانگ چوہدری کی دونوں ٹانگوں کے درمیان پہنچائی اور اسکے مزید قریب ہو گئی ،اسکا گھٹنا چوہدری کے اکڑے ہوئے لن کو چھو رہا تھا۔ رضیہ نے اپنی ٹانگ سے اپنے سسر کے اکڑے ہوئے لن کو سہلایا تو اسے لگا جیسے جھٹکا کھا کر لن نے بھی اسے جواب دیا ہو۔ چوہدری کے منہ سے لذت بھری سسکی نکلی اور اس نے مزے میں رضیہ کی کپڑوں میں چھپی چھاتی کو اپنے دانتوں میں دبا لیا رضیہ کو درد تو ہوا لیکن اسکی شدت قابل برداشت تھی۔


                  بابو جی بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


                  ! اب میں آپکی بہو ہوں ہمیں یہیں پر رک جانا چاہیئیے۔


                  "اس سے پہلے تم میری ہو گئی تھیں، تم اس رات بھی میری عورت تھیں اور آج بھی میری عورت ہو"


                  چوہدری اسکے جسم کی مہک سونگھتا ہوا دھیمی آواز میں بولا۔ اسکے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور اب وہ دماغ کے بجائے لن سے سوچ رہا تھا۔ اس نے رضیہ کے قمیض کا دامن اٹھایا اور اپنے ہاتھ اسکے گندمی رنگ کے کسے ہوئے پیٹ پر پھیرنے لگا۔ اسکا چہرہ رضیہ کی چھاتی میں چھپا تھا اور وہ اسکے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسکے مموں کی طرف لے جا رہا تھا۔ رضیہ کے قمیض کی فٹنگ ایسی تھی کہ چوہدری کے لئیے قمیض کے نیچے سے اسکے ممے پکڑنا ناممکن تھا۔ اس نے قمیض میں سے ہاتھ نکالے اور رضیہ کے گریبان کی طرف دیکھا جن سے اس کے آدھے ممے باہر لٹک رہے تھے رضیہ اس کے سامنے کھڑی تھی اور وہ بیٹھا تھا اس لئیے گریبان سے بھی اسکے ننگے مموں کو تھامنا ناممکن تھا۔


                  رضیہ نے اسکی بےچینی اور بےصبری بھانپی تو مسکراتے ہوئے اپنے لمبے گھنے بالوں کو ایک جھٹکا دیا اور چوہدری کے کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اپنا جسم اسکی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کی۔ چوہدری کو احساس تھا کہ اگر یہ لمحہ ایسے ہی گزر گیا تو پتہ نہیں اگلا موقعہ کب ملے۔ چوہدری نے رضیہ کی گوشت سے پر چوتڑوں پر اپنے طاقتور ہاتھ رکھے اور اسکے رسیلے جسم کو اپنے جسم کی طرف کھینچا۔ چوہدری کا جسم طاقت لگانے کی وجہ سے کھچ گیا تھا اور اسکا چہرہ رضیہ کے پیٹ کے قریب تھا، چوہدری نے ایک لمبا سانس لیا اور رضیہ کی گیلی پھدی کی جانی پہچانی مہک اسکے نتھنوں سے ٹکرائی۔ چوہدری نے اپنا چہرہ مزید جھکایا اور اسکی پھدی کے اوپر کے حصے پر موجود جھانٹوں والے مقام کو اپنے منہ میں لے لیا۔ رضیہ اسکے چہرے کو اپنے چوت پر محسوس کر کے لرز سی گئی تھی، اسکے جسم پر اسکا کنٹرول ختم ہوتا جا رہا تھا۔


                  چوہدری کے ہونٹوں کی قربت سے اسکی پھدی نے رس ٹپکانا شروع کر دیا، اب اسکےجسم کو کپڑے بوجھ محسوس ہونے لگے اور رضیہ اپنے ننگے جسم پر چوہدری کے جسم کا لمس محسوس کرنےکو پاگل ہونے لگی۔ وہ اپنے تپتے ہوئے جوان جسم کو چوہدری کے کھردرے جسم سے مسلنا چاہ رہی تھی۔ رضیہ نے چوہدری کے ہونٹوں سے اپنے ممے چھڑائے اور تیزی سے اپنے قمیض اپنے سر سے اتار دی۔ چوہدری کا منہ کالے بریزئیر میں چھپی رضیہ کی چاندی جیسے رنگ کی چھاتیوں کی گہرائی دیکھ کر خشک ہو گیا۔ شادی کے بعد لگ رہا تھا جیسے رضیہ کا جسم کھل سا گیا تھا، براء میں سے جھانکتے اس کے گورے مموں پر موجود سبز رگیں نظر آنے لگیں تھیں۔ رضیہ دوبارہ آگے کو ہوئی اور بڑی بےشرمی سے چوہدری کے لنگوٹی میں قید لوڑے پر اپنا دایاں ہاتھ رکھ کر پیار سے پھیرنے لگی۔ چوہدری نے اپنا ہاتھ لنگوٹی کی طرف بڑھایا اور اسکی گرہ کھول دی تاکہ رضیہ آرام سے اسکے لوڑے سے کھیل سکے۔ رضیہ حیران تھی کہ تھوڑی دیر پہلے فارغ ہونے کے باوجود اس کا لن لوہے کے سریے کی طرح اکڑ کر سخت ہوا ہوا تھا۔


                  "بابوجی یہ اتنا سخت کیسے ہے، کیا ابھی بولی نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"


                  رضیہ نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا، اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ تھوڑی دیر پہلے بولی کے ہاتھوں ہوئی واردات کے بارے میں اپنے سسر سے کیسے کچھ کہے۔


                  "بہو اس رات کے بعد سے تمہارے بارے میں سوچ سوچ کر میرا لوڑا درد کرنے لگ گیا تھا، اور اس ٹینشن کو ختم کرنے کے لئیے آج میں بولی سے مٹھ لگوانے کے لئیے مجبور ہو گیا تھا"


                  چوہدری نے روانی سے جھوٹ بولا۔


                  "اب تم حقیقت میں میرے سامنے ہو تو تمہاری خوبصورتی دیکھ کر میرا لوڑا پھر سے کھڑا ہو کر تمہاری پھدی مانگ رہا ہے"


                  "بابا آپ سچ کہہ رہے ہیں نہ؟"


                  رضیہ نے سیکسی سی مسکراہٹ دے کر اپنے سسر سے پوچھا، رضیہ کے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی مستقل چوہدری کے لوڑے پر گھوم رہی تھی۔ اسے اندازہ تھا کہ چوہدری جھوٹ بول رہا ہے کیونکہ اس نے چوہدری کے ہاتھ بولی کے بڑے بڑے خربوزوں پر گھومتے دیکھے تھے اور چوہدری کی لذت میں ڈوبی غراہٹوں سے واضح تھا کہ اس نے بولی کی مٹھ کو دل سے انجوائے کیا تھا۔ لیکن اس نے سوچا کہ کیا فرق پڑتا ہے وہ کونسا اسکی بیوی ہے کرنے دو چوہدری کو جو کرتا ہے۔ چوہدری کے لن نے رضیہ کی گرفت میں مذی کے قطرے ٹپکا دئیے تھے۔ چوہدری کا چہرہ آگے بڑھا اور اسکے ہونٹ رضیہ کے پیٹ پر تھوک کی لکیریں بنانے لگے، اس نے رضیہ کا پیٹ چومتے چومتے اسکی دھنی کے سوراخ میں ذبان ڈال دی، آہ بابا، یہاں نہیں۔ رضیہ کا پیٹ اسکی سانسوں کی گرمی اور زبان کی نمی اپنی دھنی میں محسوس کر کے تھرتھرا اٹھا۔ چوہدری نے تھوڑی دیر مزید اسکے پیٹ پر زبان گھمائی اور پھر اسکے مموں کی طرف رخ کیا۔ رضیہ کی پھدی کی بھوک جاگ اٹھی تھی، پچھلے کچھ دنوں سے چوہدری کی نظروں سے بچنے کی کوشش رائیگاں چلی گئی تھی۔ اس نے چوہدری سے دھیمی آواز میں کہا


                  "چودو مجھے بابو جی"


                  "بہو اتنے دن تو نے مجھے کیوں تڑپایا"


                  چوہدری نے براء کے اوپر سے ہی اسکے مموں کو چباتے ہوئے پوچھا۔


                  "وہ میری غلطی تھی بابا"


                  رضیہ نے یہ کہتے ہی اپنی کالی براء کے دونوں کپ اپنے مموں سے اوپر کر کے انہیں ننگا کر دیا۔ چوہدری تو کب سے انکی آزادی کے انتظار میں تھا، اس نے رضیہ کے مموں پر کسی بھوکے بچے کی طرح حملہ کر دیا۔ وہ ایسے اسکے ممے چوسنے لگا جیسے ان میں سے میٹھا اور مزےدار دودھ نکل رہا ہو۔ چوہدری نے دوسرے ممے کو اپنے ہاتھ سے دبانا شروع کر دیا، اس کی انگلی اور انگوٹھا رضیہ کے نپل کو مسلنے لگے، چوہدری نے اپنے ہونٹوں کی گرفت رضیہ کے ممے سے ختم کی اور دوسرے ممے کے نپل کو اپنی زبان سے چھیڑنے لگا، وہ کبھی اسکے نپل پر اپنی زبان پھیرتا، کبھی اسے چاٹتا اور کبھی چوسنے لگتا۔


                  "آؤچ"


                  رضیہ نے سسکی بھری کیونکہ چوہدری نے اسکی چھاتی پر ہلکے سے کاٹ لیا تھا۔


                  "رضیہ کئی دفعہ شادی کے بعد سجاد سے چدوا چکی تھی، اور وہ بھی اسکے تنے ہوئے مموں کو جی بھر کے چومتا چاٹتا تھا لیکن چوہدری میں کوئی خاص بات تھی جو کسی بھی عورت کو بےقابو کر سکتی تھی"


                  " اور چوسو بابا۔۔۔۔۔۔چوسو میرے ممے۔۔۔۔سارا دودھ پی جاؤ انکا۔۔۔۔۔ خالی کر دو آج اپنی بہو کے ممے۔۔۔۔۔ کھا جاؤ انہیں، ان پر آپ کا ہی حق ہے۔۔۔۔۔۔۔!!!!!


                  رضیہ مزے سے پاگل ہو چکی تھی۔ اس نے اپنے ہاتھ نیچے کی طرف بڑھائے اور ایک مرتبہ پھر چوہدری کے لن سے کھیلنے لگی۔ اسکی پھدی پانی پانی ہو رہی تھی اور رو روکر لوڑا مانگ رہی تھی۔ چوہدری نے اپنا پورا منہ کھولا اور رضیہ کا پورا مما منہ میں لینے کی کوشش کی لیکن وہ اسکے منہ سے بہت بڑا تھا۔ جتنا مما اسکے منہ میں آ سکا چوہدری نے لیا اور اندر ہی اندر اپنی زبان منہ میں موجود ممے کے نپل پر پھیرنے لگا ۔ رضیہ ہلکی آواز میں چلائی اور مزے کی بلندی پر پہنچ کر اس کی چوت نے پانی چھوڑ دیا۔


                  رضیہ کے گھٹنوں نے اسکا وزن اٹھانے سے انکار کر دیا وہ جھکی اور اپنی کھلتی بند ہوتی چوت سے بہتے پانی کے ساتھ ملنے والے سکون کو انجوائے کرنے لگی۔ چوہدری مسکراتے ہوئے اپنی بہو کو فارغ ہوتے دیکھ رہا تھا اور انتظار میں تھا کہ کب وہ اسکے لن کو چوت میں لے گی۔ چوہدری کے کھردرے ہاتھ رضیہ کے جوان جسم پر گھومتے رہے۔ رضیہ کو ہوش آیا تو وہ اپنی پوری طاقت سے چوہدری سے لپٹ گئی اور اسکے چہرے پر بوسوں کی برسات کر دی۔ چوہدری کے ہاتھ اسکی کمر پر گھومتے ہوئے اسکے موٹے کولہوں پر ٹک گئے اور وہ انہیں مسلنے لگا۔ چوہدری نے چوتڑ مسلتے مسلتے رضیہ کو بالکل ننگا کیا اور اپنا اکڑا ہوا لن رضیہ کی گیلی پھدی پر رگڑا، چوہدری کے لن کے ٹوپے کی رگڑ چوت کے دانے پر پڑی تو رضیہ کے منہ سے نکل پڑا کہ بابا اب اتار دو اپنا لن میری چوت میں، اور صبر نہیں ہو رہا مجھ سے۔ چوہدری نے رضیہ کے ہاتھ اپنی چوکی پر رکھ کر اسے گھوڑی بنایا اور اپنا اکڑا ہوا لوڑا اسکی پھدی کے گیلے لبوں پر رگڑا۔ رضیہ نے بےچین ہو کر بےصبری سے اپنی گانڈ پیچھے کی تو چوہدری کے لن کا ٹوپا رضیہ کی چوت میں جا کر پھنس گیا، رضیہ کی چوت کے لئیے اب بھی اسکے لن کی موٹائی بہت ذیادہ تھی، اس لئیے رضیہ کے منہ سے درد بھری سسکی نکلی۔ چوہدری نے بس ایک لمحے کو انتظار کیا اور ایک زوردار جھٹکا لگایا، رضیہ کے منہ سے گھٹی گھٹی چیخ نکلی اور چوہدری کا پورا لن رضیہ کی چوت میں پھنس گیا۔ چوہدری کو لگ رہا تھا جیسے اس نے کسی جلتی ہوئی بھٹی میں اپنا لن دے دیا ہو، اسکی تنگ چوت اندر سے جل رہی تھی۔ چوہدری سے مزید صبر نہ ہوا اور اس نے اپنے ہاتھ رضیہ کی پرگوشت گانڈ پر رکھے اور ٹوپے تک اپنا لن رضیہ کی چوت سے نکال کر ایک ہی جھٹکے میں دوبارہ چوت میں ڈال دیا، رضیہ درد سے کراہی اور اسکی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ چوہدری نے آٹھ دس مزید دھکے لگائے تو رضیہ کی چوت رواں ہو گئی اور لن نسبتا آسانی سے اندر باہر ہونے لگا۔ اس سٹائیل میں چوہدری کا لن رضیہ کا لن پورا اندر گھس کر چوٹ لگاتا اور اسکے ٹٹے رضیہ کی تھرکتی ہوئی گانڈ سے جاکر ٹکراتے۔ اب کراہیں اور لذت میں ڈوبی سسکیاں ایک ساتھ رضیہ کے منہ سے رواں تھیں، چوہدری کے طاقتور جھٹکوں سے رضیہ کے لٹکے ہوئے ممے پینگ کی طرح جھول رہے تھے۔ چوہدری نے اپنے دونوں ہاتھ رضیہ کے کولہوں پر جمائے اور جھٹکوں کی رفتار بڑھا دی۔ اب رضیہ نے بھی اپنی گانڈ ہلا کر چوہدری کا ساتھ دینا شروع کر دیا تھا، چوہدری نے ایک ہاتھ گانڈ سے ہٹایا اور رضیہ کی لٹکتی ہوئی چوٹی کو اپنے ہاتھوں میں لے کر ہلکا سا کھینچا جس سے رضیہ کا نیچے جھکا سر اوپر کی طرف اٹھا اور پورا جسم کمان بن گیا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی طاقتور گھوڑا کسی جوان اور چست گھوڑی پر چڑھا اسے پوری قوت سے چود رہا ہو۔


                  "آہ اماں جی میں گئی، اور زور سے بابا میں فارغ ہونے لگی ہوں"


                  رضیہ چلائی اور اسکی چوت نے ہار مان لی۔


                  چوہدری نے دو چار جھٹکے مزید مارے اور اپنا لن رضیہ کی پھدی سے نکال لیا جس سے رضیہ کی چوت کا پانی ٹپک رہا تھا۔ چوہدری نے قریب پڑے کپڑے سے اپنا لن اور رضیہ کی چوت صاف کی اور دوبارہ اپنی چوکی پر بیٹھ کر رضیہ کو اپنی گود میں بیٹھا کر اس کے ہونٹ چوسنے لگا۔ رضیہ کو دوبارہ تیار ہونے میں کوئی وقت نہ لگا اور اس نے گود سے اپنا جسم اٹھایا اور چوہدری کا لن اپنی چوت میں لے کر دوبارہ بیٹھ گئی۔ چوہدری کو پتا تھا کہ جہاں بیٹھ کر وہ چدائی کر رہے ہیں وہاں کبھی بھی کوئی آ سکتا ہے اس لئیے چوہدری نے شروع سے ہی اپنے دھکوں کی رفتار تیز رکھی۔ رضیہ تیزی سے اس کے لن پر اچھلنے لگی جس سے اس کے بڑے بڑے غبارے ایسے اسکے سینے پر اچھلنے لگے جیسے ان میں پانی بھرا ہو۔ چوہدری کے ہونٹ رضیہ کے پورے چہرے کو چوم اور چاٹ رہے تھے۔ پانچ منٹ کی زوردار چدائی نے ہی رضیہ اور چوہدری دونوں کو آرگیزم کے قریب پہنچا دیا۔ چوہدری ہر دھکے کے ساتھ شیر کی طرح غرا رہا تھا اور رضیہ آہ آہ کرتی اسکا ساتھ دے رہی تھی۔ اچانک رضیہ کا جسم اکڑا اور اس نے منی کی دھار چوہدری کے لوڑے پر ٹپکا دی، اسکے ساتھ ہی چوہدری کی بھی بس ہو گئی اور وہ ایک دھاڑ کے ساتھ رضیہ کی چوت کی گہرائیوں میں فارغ ہو گیا۔ رضیہ فارغ ہو کر چوہدری کے مرجھاتے ہوئے لن پر بیٹھی اسکا موازنہ اپنے شوہر سے کر رہی تھی کہ نہ تو اس کے لن کی اتنی لمبائی ہے نہ موٹائی اور نہ ہی اسکو اپنی بیوی کو مطمئن کرنا آتا ہے، وہ تو شکر ہے کہ اسی گھر میں اسے ایسا شاندار مرد مل گیا۔ رضیہ چوہدری کا سہارہ لے کر اسکے لن سے نیچے اتری اور اپنی اور اپنے کپڑوں کی حالت دیکھ کر اسکا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا۔ ہوس میں آ کر اس نے جم کر چدائی کی تھی لیکن اب ہوش میں آنے کے بعد وہ سوچ رہی تھی کہ سب کا سامنا کیسے کرے گی اور اپنے سسر کے ساتھ ایسا کب تک چلتا رہے گا۔
                  خودکو سمیٹ کر رضیہ باہر نکلی اور اپنے کمرے کی طرف چل دی۔ سجاد آنے ہی والا تھا اور اسے اب نہا کر اپنے کپڑے بھی تبدیل کرنے تھے۔۔۔(جاری ہے )

                  Comment


                  • #10
                    رضیہ سب کی نظروں سے چھپتی چھپاتی اپنے کمرے میں پہنچی تو اس نے سکون کا سانس لیا۔ اس کے کپڑوں کی حالت ایسی تھی کہ اگر کسی کی نظر پڑتی تو اسے لازمی شک پڑ جاتا۔ چوہدری سرور اور اسکے لوڑے کی کشش ایسی تھی کہ اسکے دماغ کے لاکھ منع کرنے پر بھی وہ اس سے چدائے بغیر رہ نہ سکی تھی، اب پتہ نہیں یہ جنسی تعلق اسے کہاں لے جائے۔ رجی نے نہا کر کپڑے بدلے اور باورچی خانے میں گھس گئی

                    رضیہ کا دماغ شادی کے بعد سے چوہدری اور اسکے بیٹے سجاد کا موازنہ کئے بغیر نہیں رہ پا رہا تھا۔ سجاد کی بانہوں میں لیٹے اسے وہ بازو کمزور اور بےجان لگتے جیسے شہر میں کسی عام لکھت پڑھت کا کام کرنے والے کے ہوں۔ آج بھی رضیہ حویلی کے صحن میں سرخ مرچیں پیستی ہوئی سوچ رہی تھی کہ فلموں میں دکھائے جانے والت باڈی بلڈرز کی جسمانی بناوٹ اور سختی بھی ظاہری طور پر آرٹیفیشل ہی لگتی تھی اور ان میں بھی وہ حیوانی کشش نہیں تھی جو اس کے سسر کے بوڑھے مگر کسی گھوڑے کے جیسے طاقتور جسم میں تھی۔ اس عمر میں بھی چوہدری کا جسم پتھر کی طرح سخت تھا اور تھکنا تو جیسے وہ جانتا ہی نہیں تھا۔ رضیہ نے پسی ہوئی مرچیں باورچی خانے میں رکھیں اور چولہا جلانے کے لئے ماچس اٹھائی اور ایک تیلی نکال کر اسے ماچس کی مصالحے والی طرف رگڑا تو اس کے دماغ میں آیا کہ جیسے ماچس کی تیلی کو ڈبی کے کھردرے مصالحے پر رگڑنے سے وہ جل پڑتی ہے ایسے ہی چوہدری کے کھردرے ہاتھوں کو اپنے نرم ملائم جسم پر محسوس کرتے ہی اسکے جسم میں جیسے چنگاریاں سی جلنے لگتی ہیں۔چوہدری کیسے اسے کسی کھلانے کی طرح آسانی سے آٹھاتا، پٹختا اور حیوانی طاقت سے جم کر چودتا ہے، یہ سوچتے ہوئے رضیہ کی شلوار اسکے چوت رس سے گیلی ہونے لگی تھی۔ رضیہ کے ہنی مون پر گزرے دن سجاد کی محبت سے بھرے تھے اور چوہدری کے ساتھ ہوس کا رشتہ تھا اسکا جسم چوہدری کی وحشیانہ چودائی مانگتا تھا۔ اسکی پھدی کا رس نکالنا سجاد کے بس سے باہر تھا یہ سکون اسے چوہدری کے لن سے ہی ملتا تھا۔

                    اس رات رضیہ کے گھر والے آئے ، رضیہ اپنے ہنی مون پر جانے کی وجہ سے شادی کے بعد اپنے میکے نہ جا سکی تھی اور اب اسکے میکے والے اس رسم کو پورا کرنا چاہ رہے تھے۔ چوہدری نے رات کے کھانے پر رضیہ کے گھر والوں کے لئے دعوت کا اہتمام کیا تھا جس میں انواع و اقسام کے کھانے بنائے گئے تھے۔ سب نے مل کر خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا۔ کھانا کھا کر رضیہ اپنا سامان اٹھانے بیڈروم میں آئی تو پیچھے پیچھے سجاد بھی کمرے میں آ گیا۔ رضیہ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے شوخ میک اپ کو درست کرنے لگی تھی کہ سجاد اسکے پیچھے آ کر کھڑا ہو گیا اور اسے پیچھے سے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا اور اپنا نیم کھڑا لنڈ رضیہ کے موٹے نرم چوتڑوں کی دراڑ میں پھنسا کر آگے پیچھے ہوتے ہوئے اسکی گردن چومنے لگا۔ سجاد کے ہاتھوں نے بھی گستاخیاں شروع کر دیں اور وہ کپڑوں کے اوپر سے ہی اسکی چھاتیاں دبانے لگا۔ رضیہ کو اچھا لگ رہا تھا تو وہ بھی اپنے چوتڑ مزید پیچھے کر کے اسکے لنڈ پر مسلنے لگی۔

                    "چھوٹی مالکن۔۔۔۔۔۔آپکو چوہدری صاحب بلا رہے ہیں۔"

                    حویلی کی کم عمر ملاذمہ جیرو نے دروازے کے باہر سے آواز لگائی۔

                    "ساجی چھوڑو مجھے، کوئی آ جائے گا"

                    رضیہ نے بمشکل خود کو سجاد کے بازؤوں سے نکالا اور باہر کی طورف چل دی۔

                    "رجی میری جان جلدی واپس آ جانا تجھے پتا ہے مجھے اب تیرے بغیر نیند نہیں آتی"

                    رضیہ نے مڑ کر اسکی طرف مسکرا کر دیکھا اور اپنے سر کو اوپر نیچے ہلاتی باہر نکل گئی اور سجاد اسکی اتھل پتھل کرتی گانڈ کو دیکھتا رہ گیا۔ رضیہ اپنے میکے والوں کےساتھ انکے گھر رہنے چلی گئی۔

                    رضیہ آج صبح ہی پورا ہفتہ اپنےمیکے گزار کر واپس آئی تھی۔ سجاد نے بہت مشکل سے یہ ہفتہ گزارا تھا لیکن اس دوران بھی اس نے اپنا سسرال اسی قصبے میں ہونے کا پورا فائدہ اٹھایا تھا۔ وہ وہاں جا کر وقت گزارتا رہا تھا اور موقع میسر آنے پر دو دفعہ اسکی پھدی بھی بجا چکا تھا۔ سجاد صبح اٹھتے ہی سرگودھا چلا گیا تھا جہاں اسے اپنی زمینوں سے متعلق کوئی کام تھا، چوہدری سرور بھی اپنی زمینوں کے دورے پر گیا تھا اس لئے حویلی پر صرف چوہدراین اور ملازمین تھے۔ رضیہ اپنی ساس کے پاس تھوڑی دیر بیٹھی لیکن اس کی نظریں آس پاس بھٹک رہی تھی، چوہدراین نے بھی اسکی کیفیت محسوس کی تو مسکرا کر اسے بولی:

                    "بیٹی کسے ڈھونڈ رہی ہو، سجاد تو سرگودھا گیا ہے اور اب تو اسکی واپسی میں دو یا تین دن لگ جائیں گے"

                    رضیہ نے شرما کر اپنی ساس کی طرف دیکھا اور بولی نہیں اماں ایسی تو کوئی بات نہیں۔

                    چوہدراین نے ایسی نظروں سے اسکی طرف دیکھا جیسے وہ سب جانتی ہو اور اسے کہا کہ جاؤ جا کر اپنا کمرہ وغیرہ دیکھو اور ملازموں سے صفائی وغیرہ کرواؤ۔۔۔(جاری ہے )

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X