قفس۔۔کی ۔۔چڑیا۔
یہ ۔آپ سب غلط سمجھ رہی ہیں مہرو ۔
شمس کا اطمینان ایک پل میں اڑن چھو ہوا۔۔۔۔وہ اسکی غلط فہمی پر تڑپ کر سیدھا ہو اٹھا۔۔
ارےےے۔ کیا غلط سمجھ رہی ہوں میں۔۔۔یہی کہ آپ نے میرے سہراب کو۔۔۔۔مہرو کے الفاظ آنسوؤں کی وجہ سے گلے میں ہی اٹک گئے۔
فار گاڈ سیک۔۔۔مہرو آپ میری محبت تھیں ضد نہیں جو میں آپ کو پانے کے لیے اتنا گھٹیا فعل سرانجام دیتا۔۔شمس جیئسے۔۔وہ دکھ سے بولا۔
پھر کیوں کیا آپ نے صبر۔۔۔جب محبت کی تھی تو کیوں خاموش رہے۔۔۔بولیں کیوں کیا صبر آپ نے۔۔۔مہرو نے سامنے آ کر شمس کا گریبان دبوچا۔
کیونکہ میری قسمت میں صبر کرنا لکھ دیا گیا تھا اگر میرا بس ہوتا تو میں آپ کو آج سے نو سال پہلے ہی پا چکا ہوتا جب حشمت خان (مہرو کے بابا) نے میرے منہ پر طمانچہ مارا تھا یہ کہہ کر کہ میں اسکی اکلوتی بیٹی کے قابل نہیں۔۔۔وہ گریبان پر موجود مہرو کے ہاتھ تھامتا ضبط سے بولا۔۔
شمس کے اس انکشاف پر مہرو کے ہاتھ اسکے گریبان پر پھسلتے ہوئے پہلو میں آ گرے۔۔۔۔
یہ کیا کہا تھا شمس نے۔۔۔۔بابا نے۔۔۔۔وہ بے یقین تھی۔
شمس نے مہرو کی خون نچڑتی شکل دیکھی اسے لگا کہ وہ ابھی زمین بوس ہو جائے گی۔۔۔اس نے مہرو کو سہارا دیا اور اسکے ساکت وجود کو اپنے ساتھ لگائے بیڈ تک آیا۔
مہرو کو بیڈ پر بیٹھا کر شمس نے پاس پڑے جگ سے پانی کا گلاس بھرا اور گلاس اسکی طرف بڑھایا
مہرو نے سوالیہ نظریں اٹھائیں۔۔۔یوں جیسے پوچھ رہی ہو میں اس گلاس کا کیا کروں۔۔۔
شمس نے اسکی حالت دیکھتے ہوئے خود ہی گلاس اسکے ہونٹوں سے لگایا۔۔
مہرو نے چند گھونٹ پینے کے بعد شمس کا ہاتھ پیچھے کیا۔
آپ آرام کریں پھر بات ہو گی۔۔۔۔وہ کہہ کر پلٹا ہی تھا کہ اسکا ہاتھ مہرو کی گرفت میں آ چکا تھا۔
شمس نے مڑ کر اسے دیکھا۔۔۔۔
ابھی۔۔۔۔ابھی بتائیں مجھے سب۔۔۔۔اسکے لب پھڑپھڑائے۔ نہین ابھیتمہاری حالپ مجھے ٹھیک نہین لگ رہی۔
میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔مہرو نے کہہ کر شمس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
ہوں۔۔۔۔شمس سر ہلا کر کچھ فاصلے پر پڑی چئیر گھسیٹ لایا۔۔۔۔
وہ دونوں اس وقت آمنے سامنے تھے۔۔۔مہرو بیڈ پر پاؤں لٹکا کر بیٹھی تھی جبکہ شمس اسکے سامنے چئیر پر بیٹھا تھا۔۔
یونیورسٹی مکمل ہونے کے بعد مجھے کسی جاب کی تلاش نہیں کرنی تھی چونکہ میں اکلوتا بیٹا تھا لہذا بابا کا جو بھی تھا وہ میرا تھا اور مجھے انکا ایکسپورٹ کا بزنس سنبھالنا تھا۔۔۔۔اسکے علاوہ زمینیں بھی تھیں جنکی دیکھ بھال کے لیے مزارعے موجود تھے مگر ان کو لوک آفٹر مجھے ہی کرنا تھا لہذا میں نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے چند ماہ بعد ہی خود کو بزنس میں ایڈجسٹ کر لیا تھا۔۔۔
انہی دنوں اماں کو میرے سر پر سہرا سجانے کا خیال آیا اور وہ یہ سہرا میری پسند میری مرضی سے ہی سجانا چاہتی تھیں چونکہ میری پسند اور مرضی آپ تھیں تو میں نے زبیر خان سے اجازت لے کر اماں اور بابا کو لال حویلی بھیجا تھا اپنا پرپوزل دے کر۔۔۔۔۔وہ سانس لے کر پھر سے بولنا شروع ہوا۔۔
حشمت خان پر ان دنوں نئے نئے الیکشن جیتنے کا بھوت سوار تھا شاید اسی لیے انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ اپنی اکلوتی بیٹی خود سے اونچے لوگوں میں بیاہیں گے جو اسکے قابل ہوں گے۔۔۔
اور حشمت خان کے شایان شان بھی۔۔۔۔جس پر وہ اپنے حلقے کے چند لوگوں میں بیٹھ کر فخر کر سکے گا۔۔۔
حشمت خان کے ان الفاظ سے انکار پر مجھے بہت غصہ آیا تھا۔۔۔اس نے میرے باپ کو اسکے منہ پر ہی چھوٹے لوگوں کا طعنہ دیا تھا۔۔۔۔۔اگر ان کے سامنے دولت کے معیار سے کوئی چھوٹا بڑا ہوتا تھا تو پھر وہ غلط تھے۔۔۔۔کیا نہیں تھا ہمارے پاس زمینیں، حویلی، گاڑیاں، فیکٹری اور ایسا کیا ہونا چاہیے تھا جو ہمیں ان سے اونچا بنا دیتا۔۔۔۔شمس استہزائیہ ہنسا۔
میں اس بات کا جواب لینے حشمت خان کے پاس جانا چاہتا تھا مگر بابا نے مجھے ایسا کرنے سے روک دیا۔۔۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلی بار انسان عزت سے مانگتا ہے اگر مل جائے تو فخر سے وصول کرتا ہے۔۔۔مگر دوسری بار مانگنے سے ملنے والی چیز پر فخر نہیں کیا جا سکتا بلکہ وہ بھیک ملنے کے مترادف ہوتی ہے۔۔۔۔اور ہم اتنے گرے پڑے نہیں کہ کسی کی بھیک وصول کریں۔۔۔۔
بابا کی بات میرے دل کو لگی تھی۔۔۔۔میں نے آپ سے محبت کی تھی اور میں اپنی عزت اور محبت کی خاطر جھک تو سکتا تھا مگر جھک کر عزت اور محبت نہیں مانگنا چاہتا تھا۔۔۔کیونکہ میں آپ کو پورے فخر سے اپنی زندگی میں شامل کرنے کا خواہشمند تھا۔
زبیر خان نے مجھ سے اس انکار پر معذرت کی تھی ہم اچھے دوست تھے اور اچھے دوست ہی رہنا چاہتے تھے مگر پھر بھی وقت کی گرد بہت سے اچھے رشتوں پر اپنی گرد ڈال جاتی ہے۔۔۔۔یوں میرا اور زبیر کا رابطہ بھی فون کالز پر مشتمل ہو گیا۔۔۔کئی مہینوں بعد ہم فون پر ایک دوسرے کی خیریت معلوم کر لیتے۔۔۔اور انہی فون کالز میں مجھے آپ کی سہراب خان آفریدی سے شادی کا پتہ چلا۔۔۔۔شمس اس وقت کی اذیت کو یاد کر کے خاموش ہوا ۔
چند منٹ بعد وہ خود کو کمپوز کرتا پھر سے بولنے کے قابل ہوا۔۔۔
اس کے بعد میری طرف سے ان فون کالز کا رابطہ بھی ختم ہو گیا تھا۔۔۔
گھر والوں نے میری چپ اور خاموشی کے پیش نظر پروشہ سے میری شادی طے کر دی کہ شاید اس شادی سے ہی مجھ میں کچھ بہتری آئے۔۔۔۔
بہتری تو آ چکی تھی مجھ میں شاید پروشہ کی بدولت یا پھر وقت کی بدولت۔۔۔بہت کچھ نہ ٹھیک ہو کر بھی سب کچھ ٹھیک ہو چکا تھا۔۔۔۔
اس دن بھی میں ہرن کے شکار پر ہی گیا تھا جب میری بندوق سے نکلنے والے کارتوس کے سامنے جھاڑیون سے اچانک۔(حالانکہ اب بھی مہرو کا سہراب خان والا واقعہ آدھا ہی بتایا تھا۔وہ مہرو کا اس کا اصلی سچ بتا کر پھر سے اذیت مین مبتلا نہین کرنا چاہتا تھا)۔ نکلنے سے سہراب خان چلا آیا۔۔۔۔۔شمس نے بات مکمل کر کے لمبی سی سانس لی اور سر کرسی کی بیک سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں یوں جیسے اتنی لمبی مسافت طے کرنے سے تھک گیا ہو۔۔
لگ جاوے دل نوں روگ تے دھونا اوکھا۔
خود ہی انہاں دلاں دے سوگ مناون سوکھا۔
مہرو نے سر اٹھا کر شمس کو دیکھا جس کے چہرے پر تھکن تھی۔۔۔۔دکھ تھا۔۔۔اذیت تھی۔۔۔۔اور۔۔۔شاید اطمینان بھی تھا۔۔۔سب کچھ کہہ دینے کا اطمینان۔۔۔۔
آپ کے بابا نے کہا تھا کہ دوسری بار مانگنے سے ملنے والی چیز بھیک تصور کی جاتی ہے تو پھر وہ دوبارہ کیوں گئے میرا ہاتھ مانگنے۔۔۔؟مہرو بجھی بجھی سی پوچھ رہی تھی۔
اسکی بات پر شمس آنکھیں کھولتا سیدھا ہوا۔
میں نہیں جانتا۔۔۔۔وہ مجھ سے پوچھے بنا ہی گئے تھے زبیر خان کے پاس۔۔۔۔وہ نظریں چرا کر بولا۔
آپ نہیں جانتے مگر میں جانتی ہوں۔۔۔۔وہ اطمینان سے بولی
شمس نے حیرانگی سے دیکھا مہرو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
دوسری بار آپ کے بابا نہیں گئے تھے بلکہ میرے لالہ آئے تھے ان کے پاس۔۔۔۔۔مہرو نے آہستگی سے انکشاف کیا۔
آپ۔۔۔۔آپ سے کس نے کہا۔۔۔۔؟؟شمس اٹک کر بولا۔
میں چند دن پہلے آپ سے خفا ہو کر لال حویلی گئی تھی۔
کیا۔۔کب۔؟۔
شمس نے لفظ خفا پر پھر سے حیرت کا اظہار کیا۔۔
آپ نہیں جانتے تھے کہ میں آپ سے خفا ہوں مگر میں آپ سے خفا ہو کر ہی گئی تھی۔۔۔
اس روز صفائی کے دوران آپکی اسٹڈی سے مجھے یہ باکس ملا تھا۔۔۔مہرو نے ٹیبل پر پڑے باکس کیطرف اشارہ کیا۔
اس میں سے نکلے کارڈ پر میں نام مہر پڑھ کر ٹھٹھکی تھی اور اس میں موجود ساری مخملی ڈبیوں میں پائلیں دیکھ کر مجھے شک ہوا کہ یہ مہر میں ہوں۔۔۔میں آپ سے پوچھ کر اپنا شک دور کر سکتی تھی مگر اس وقت مجھے لگا أپ نے سہاب خان کو جان بھوج کر۔۔؟؟ آپ پر بہت غصہ تھا اس لیے میں آپ سے خفا ہو کر لال حویلی چلی گئی تھی۔
وہیں میں نے زبیر لالہ اور اماں کی باتیں سن لیں تھیں۔۔۔مہرو بات کرتے ہوئے انگلی سے اپنی ہتھیلی پر مختلف لائنیں کھینچ رہی تھی۔
اماں کو اب بھی میرے آپ کے ساتھ خوش نہ ہونے کا خدشہ تھا۔۔۔
ان کے خدشے کہ جواب میں لالہ نے کہا کہ مجھے شمس پر پورا یقین ہے کہ وہ مہرو کو خوش رکھے گا اسی لیے تو میں اسکے بابا دلاور خان کے پاس گیا تھا۔۔۔۔تب نہ سہی اب تو شمس اور مہرو کی شادی ہو سکتی ہے۔۔۔۔ان کا ظرف بلند تھا جو وہ اپنی بیگم کیساتھ میرے کہنے پر شمس کا رشتہ لے کر آئے تھے۔۔۔۔
یہ بات سن کر میں الٹے قدموں پلٹ آئی تھی اپنے کمرے میں نہیں بلکہ واپس یہاں آپ کی حویلی۔۔۔کیونکہ اب میں لالہ سے خفا تھی کہ انہوں مجھے بوجھ سمجھ کر پھینکنے کی بات کی۔۔۔مگر میں یہ نہیں جانتی تھی کہ انہوں نے خود سے ایسا کیوں کیا مگر اب۔۔۔۔۔
اب۔۔۔۔۔شمس نے اسے بات جاری رکھنے پر اکسایا
کچھ نہیں۔۔۔۔اس نے نفی میں سر ہلایا۔
آپ کو برا لگا یہ سب سن کر کہ میں آپ سے۔۔۔۔
پتہ نہیں۔۔۔۔وہ شمس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی کاٹ کر کھڑی ہوئی ۔۔
ابکیا ہوا۔۔۔۔؟؟
مجھےپتہ نہین۔۔
مہرو آپ اب بھی خفا ہیں مجھ سے۔۔۔؟
کیا نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔؟؟الٹا سوال ہوا۔
مگر اب کیوں۔۔۔۔؟؟ میں آپ کو ساری بات بتا چکا ہوں۔
میں ساری بات سن کر ہی خفا ہوئی ہوں۔۔۔وہ نتھنوں کو پھلا کر خفگی سے بولی۔
شمس اسکے پھولے نتھنے دیکھ کر مسکرا دیا۔
کیا ہوا۔۔۔۔؟؟مہرو نے حیرت سے اسکی مسکراہٹ دیکھی۔
میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں مہر۔۔۔۔شمس نے مسکراہٹ دبا کر محبت کا اظہار کیا۔
سامنے سے ہٹیں آپ۔۔۔وہ شمس کی نظروں سے کنفیوز ہوئی۔
میری محبت کا جواب اس طرح سے دیں گی کیا۔۔۔۔؟؟وہ حیران تھا مہرو کے چہرے پر نو لفٹ کے تاثرات دیکھ کر۔۔
میں آپ سے محبت نہیں کرتی۔۔۔۔وہ آہستگی سے بولی
تو مجھے اجازت دیں کرنے کی۔۔۔۔میں آپ کو بھی سکھا دوں گا۔۔۔۔
مہرو نے ناراضگی سے اسے دیکھا۔۔۔ چہرے پر ہلکی مسکراہٹ سجائے ، آنکھوں میں شرارت اور محبت لیے وہ اسی کو دیکھ رہا تھا
مہرو نظریں جھکا کر نیچے دیکھنے لگی
مہر کیا ہم گزری باتوں کو بھلا کر اپنی نئی زندگی کی شروعات نہیں کر سکتے۔۔؟وہ مہرو کو مہرو کی بجائے مہر کہہ کر بات کر رہا تھا۔
ہُُم۔۔
کیا آپ نے مجھے معاف نہیں کیا اب تک۔۔۔؟؟
اگر آپ پہلے بتا دیتے کہ آپ مجھ سے محبت کرتے تھے تو۔۔۔۔مہرو نے زبان دانتوں تلے دبا کر خفگی سے شمس کو دیکھا۔
خبر یہ بھی نہ ہونے دی۔۔۔
اسکی خفا خفا نظریں شمس سے شکایت کر رہیں تھیں
میں آپ سے کیا کرتا ہوں۔۔۔۔؟؟؟شمس نے اسکی بات پر محظوظ ہو کر پوچھا۔
پلیز مجھے جانے دیں شمس۔۔۔وہ منمنائی۔
شمس۔۔۔۔اپنا نام تمہارے منہ سے سن کر بہت اچھا لگا مجھے۔۔۔بہت سال پہلے یہ خواہش کی تھی کہ تم مجھے میری ہو کر اسطرح سے پکارو۔۔۔۔شمس ایک دم سے فاصلے مٹاتا آپ سے تم پر آ چکا تھا۔
مہرو نے شرما کر پاس سے نکلنا چاہا مگر شمس نے بازو پھیلا کر راستہ روک لیا۔
شمس کے جواب اور نظروں پر گھبرا کر مہرو اسے پیچھے دھکیلتی دروازے کی طرف بھاگی۔۔
مہررکو بات تو سنو میری۔۔۔شمس پکارتا اسکے پیچھے ہی باہر آیا
مہرو اسکے باہر نکلنے پر دل پر ہاتھ رکھتی قریبی پلر کی اوٹ ہو گئی ۔
شمس نے باہر نکل کر ادھر أدھر نگاہ دوڑائی۔۔
اتنی جلدی کہاں غائب ہو گئی۔۔۔؟؟وہ کھڑا سوچ رہا تھا جب چند گز کے فاصلے پر بنے پلر کی اوٹ سے چوڑیوں کی کھنک سنائی دی
وہ مسکراہٹ دباتا اس جانب بڑھا۔۔
مجھ سے بچ کر کہاں جائیں گی اب۔۔۔
کہیں بھی نہیں۔۔۔۔مہرو کھکھلا کر کہتی اسکے ہاتھ جھٹک کر سیڑھیوں کی جانب بھاگی۔۔
میں اب بلکل بھی نہیں چھوڑنے والا۔۔۔شمس نے منہ پر ہاتھ پھیر کر دھمکی دی۔۔۔مگروہ پھر سے اسکی قید سے رفو چکر ہو چکی تھی۔۔
تو کون کہہ رہا ہے چھوڑنے کو۔۔۔۔وہ کھلکھلاتی سیڑھیاں اتر گئی۔
مہرو کے چہرے پر ان گنت دھنک رنگ بکھرے ہوئے تھے۔۔
خود کو چاہے جانے کی خوشی کیا ہوتی ہے۔۔۔کوئی مہرو سے پوچھتا جو اس وقت ہنستی ،مسکراتی ،آنچل لہراتی سیڑھیاں پھلانگ رہی تھی۔
خود کو چاہے جانے کا احساس انسان کو مغرور بنا دیتا ہے۔۔
وہ بھی تھوڑی مغرور نظر آ رہی تھی۔۔۔کوئی اسے اتنے سالوں سے چاہتا رہا تھا یہ بات اسے گزرے ماضی کو بھلانے کے لیے کافی تھی۔۔۔
دوسری طرف شمس اسکی کھلکھلاہٹ پر پرسکون سا کھڑا اسے زینے اترتے دیکھ رہا تھا۔۔۔
آخر اتنے لمبے اور کھٹن صبر کے بعد اسے اسکی محبت مل ہی گئی تھی۔۔۔اسے اسکے صبر کا پھل مل چکا تھا۔۔
وہ خوش تھا۔۔۔بہت زیادہ خوش۔
اور مہرؤ خانم بند کمرے مین صوفے سے ٹیک لگائے سہراب خاں کے حادثے والی تلخ
یادؤن مین بہنے لگی۔
_______
ابرارخان تیز قدم اٹھاتا لاؤنچ کی سیڑھیوں کو عبور کر کے لاؤنچ سے نکلنے ہی لگا تھا کہ۔ ابرار جانو میری بات تو سنو۔
شہر بانو نے جیئسے ہی اس کو پکارا۔
ابرار نے فورا رک کر مڑتے ہوئے شہر بانو کو دیکھا ۔
پھر ساتھ آس پاس گھر مین بھی دیکھنے لگا۔
ابرارخان سفید کلف زدہ شلوار قمیض پیروں میں سلیپر پہنے اسکے چہرے پر ہلکی پھلکی داڑھی سے بہت ہی ڈیشنگ پرسنیلٹی لگ رہی تھی۔ارے تم پریشان کیون ہو رہے ھو ۔
"گھر مین کوئی نہیں ہے تمہارا بھائی باپ کے ساتھ زمینوں پر گیا ہے وہ ابھی تک واپس نہین لوٹا اور سب بچے بھی سو رہے ہیں۔
اس لئے اب آپ بغیر ٹینشن کے چلو میرے ساتھ،،وہ اس کے قریب آئی اورسرگوشی مین بولی۔آنکھوں میں کچھ چمک اورسرخی تھی عجیب وغریب قسم کے جذبات تھے۔
ابرار خان نے ایک نظر شہر بانو پر ڈالی اسے کھینچ کر خود کے قریب کیاپھرساتھ لگائے بیڈروم کی طرف بڑھنے لگا۔ جس سے شہر بانو کے پتلے سرخ ہونٹوں پر مستانہ دلفریب مسکراہٹ نمودار ہو گئی۔
پھر وہ اپنا ریشمی ڈوپٹہ ایک شانے پر ٹکاتی ایک نظر سبھی کمرون کےبند دروازون پر ڈالتی ابرار کے ہمراہی مین آگے بڑھ گئی کمرے میں پہنچ کر دروازہ بند کرکے۔ابرار خان نے اچٹتی نظر شہربانو پر ڈالی۔اور صوفے پر جا بیٹھا۔
خان صاحب کیا"ناراض ہومجھ سے ۔۔۔،،شہربانو بھی اس کے ساتھ جا بیٹھی۔
ابرار نے نظریں گھما کر اس کا مکھڑا دیکھا اور پھر آہستہ سے نیچے کی طرف مچلتےشباب پراپنی نگاہین جماکر۔نہیں۔،،کی گھمبیر آواز میں بولا۔
ارےے خان"یہ ہی تو تمہارا نخرہ مجھے پہلی ملاقات پر زیر کر گیا تھا۔۔۔تبھی تو پہلی رات ہی مجھے شوہر کی بجائے اپنے جیٹھ کی۔۔
وہ بولنے لگی تھی کہ ابرار نے غصے سے اسے دیکھا جس پر وہ فورا چپ چاپ بیٹھ گئی اور ابرار شہر بانو کو تنبیہ طور پر سمجھانے لگا۔۔شہری"اگر شادی سے پہلے تم میری بات کو مان لیتی تو آج یہ نوبت تو نہ آتی۔۔تمہاری خاطر میں نے مہرو کو بھلا دیا اور جو میری بیوی تھی۔۔اسے خود اپنے ہاتھون سے مار ڈالا۔۔،،وہ یکدم ہائپر ہوا۔۔تم اپنے شوہر سے بے وفائی کرنے والی عورت۔۔ہو۔
"کون مہرو ۔۔۔وہ وہ کب تمہاری تھی۔۔۔ہاہاہاہاہا۔۔۔خان یہ اچھی خوش فہمی ہے جبکہ تم جانتے ہو کہ وہ سہراب خان کے مرتے دم تک اسی سے محبت کرتی رہی نہ کہ تم سے۔۔
اسے سہراب خان سے محبت تھی نہ کہ تم سے۔۔۔۔وہ ہمیشہ سے سہراب کی تھی نہ کہ ابرار خان تمہاری۔۔کیا تمہین یاد نہین ہے ابرارخان مہرو کوپانےکی وہ تمہاریکوشش۔۔۔چچ۔۔چچ۔۔تم اب بھی کہتےہوکہ وہ تمہاری ہے۔۔۔تمہیں کیا لگتا ہے مہرو خانم تمہاری محبوبہ ہے۔اور تم اس کو اب بھی حاصل کر سکو گے ۔۔۔،،شہر بانو ابرار پر چیخنے لگی۔
شہری"جسٹ شٹ اپ۔۔وہ اپنے شوہر کے ساتھ صرف وفا نبھا رہی تھی۔۔،،ابرار نے ایک عجیب سی دلائل پیش کی۔
"ہاہاہاہا۔اور تمہاری بیوی کیا کر رہی تھی اسکے شوہر کے ساتھ راتیں گزار کر۔۔۔۔،،شہر بانو پھر طنزیہ بولی۔
ارے شہری"بکواس مت کیا کرو تم کچھ بھی بولنے سے پہلے سوچتی نہیں ہو۔ حد سے گری ہوئی عورت ہو تم۔تمہاری اپنی حرکتین بھی تو ایسی ہیں جو معافی کے بلکل بھی قابل نہیں ہین۔۔۔،ابرار نے غصے سے تپ کر اسے دھکا دے دیا۔وہ بیڈ پہ جا گری۔
"ہاہاہاہا۔ابرار خان تم بس صرف خیالی پلاؤ پکانے والے مرد ہو تم۔۔۔۔،،وہ تالی بجاتے ہوئے بولی ابرار کا سارا غصہ رفو چکر ہو گیا اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔پھر وہ بھی شہر بانو کے ساتھ بیڈ پر جا گرا۔۔
دیکھو"ابرار خان تم اب بھی مہرو کو چاہتے ہو۔۔اور یہ تو تم جانتے ہو نہ مسٹر ابرار خان۔۔۔مجھے ایک منٹ بھی نہیں لگے گا یہ ثابت کرنے مین کہ سہراب خان کا حادثہ نہین بلکہ تم نے قتل کیا تھا۔۔۔۔
اب کیوں اپنے قبیلے والون کی نظروں میں گرنےوالی کوششین کرتے ہو۔۔۔مجھے اپنی نزدیکیوں سے روشن کر دو۔۔تو۔۔سب پہلے جیسا رہے گا اور۔مین مہرو تو کیا پلوشہ خانم کو بھی تمہارے نیچے لاون گئی۔اور کسی کوپتہ بھی نہین چلے گا۔۔۔,,شہر بانو ابرار خان کے پاس چلی آئی اور سرگوشیاں کرنےلگی۔ابرار خان کئی پل اس کو دیکھتا رہا پھر دل کے کونے میں دبی محبت خود غرضی باہر نکل آئی۔اور
پھرہاتھ بڑھا کر اس نے شہر بانو کو نزدیک کر لیا۔شہری کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ نمودار ہو گئی
حد درجے کی مطلبی اور خود غرضی۔۔جو دس سال پہلے گناہ ہوتے تھے۔۔
ان کی دوبارہ شروعات ہونے کو تھی۔۔ان کے شہوت زدہ جسم دوبارہ سے ایکدوسرے کے لئے کھلونا بننے کو تھے۔۔
پرانےشرم ناک واقعات دوبارہ سے وہاں آ کر روکے اور دوبارہ سے شہوت انگیز منظر چلنے لگے۔
نہجانے اب کس کی جان جانی تھی
نہجانے اب کی بار دھوکہ اور فریب کس کو موت کے گھاٹ اتارنے کو تھی۔
نہجانے اب کی بار پھر سے کیا ہونا تھا۔
_________
ماضی بعید۔
فون کال سنتے ہی مہر وخانم پریشان ہو گئی تھی۔۔
اُوف"میں اب کیا کروں؟۔یہ کیا ہو رہا ہے؟۔۔۔۔وہ سب میرا وہم تو بلکل نہیں۔۔۔تھا وہم وہم کر کے میں نےنہجانے کتنے عرصہ ہی گزار دیئا۔۔۔،،مہرو اپنے کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہلتے ہوئے سوچ رہی تھی۔حدید ابھی سکول سے واپس نہین آیا تھا۔
سہراب خان"۔اتنا گراہوا تو نہیں تھا۔۔۔۔؟۔وہ تو ایسا کبھی نہیں کرے گا مگر؟۔۔
وہ میرے علاوہ تو کبھی بھی دوسری عورت کے پاس نہیں جا سکتا۔۔۔؟؟،،مہرو انگلیاں پٹختی سوچنے لگی۔۔
آخر جب اس کی کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے بیڈ پر بیٹھ کر اپنےسر کو ہاتھون مین ٹکا کر آنکھیں مُند لی۔
اتنے میں شہر بانو کی کال پھر سے آنے لگی اس نے فون کان سے لگا لیا۔
"ہ۔۔۔ہیلو م۔۔مم۔مہرو۔۔۔آپی۔وہ آپ کے سہراب خان اس عورت کے ساتھ اپنے ڈیرے کے اندر کی طرف جارہے ہین اور ان کا موڈ اور چال بھی کچھ عجیب و غریب قسم کی نظر آ رہی ھے۔۔۔۔جیئسے کہ انہون نے شائید بہت شراب وغیرہ پی رکھی ہو۔۔۔،،شہر بانو کی پھر سے ہڑبڑاتی ہوئی آواز سن کر مہرو بیڈ سے اٹھ بیٹھی اور خفگی سے فون کو دیکھ دوبارہ کان سے لگایا۔
شہر بانو"ہوا کیا ہے سب کچھ تفصیل سے بتاؤ مجھے۔۔۔۔۔مہرو بہت بیچین اورساتھ گھبرا بھی گئی۔
شہر بانو:"آپی مین ابرار لالہ کے ساتھ آپ سے ملنے کیلیے أرہی تھی تو مجھے ڈیرے پر سے عجیب سی آوازیں سنائی دی کبھی گانے کی تو کبھی عجیب پائل اور گھنگرون کے چھنکنے کی،،۔
شہر بانو بظاہر کچھ گھبرائی اور پریشان سے آواز مین بولی۔ ابرار اس کے پیچھے سے ساتھ چمٹ کر کھڑا ہونٹوں پر ہاتھ رکھے اپنی ہنسی کنٹرول کر رہا تھا اورشہربانو بھی یہ ہی کر رہی تھی۔
"آپی مجھے۔مم۔مجھے یہ سب بتاتے ہوئے عجیب سا لگ رہا ہے کہ سہراب خان۔۔شش شراب کے نشے مین مدہوش اس۔۔۔۔عورت کے ۔۔۔۔کے ،،ساتھ وہ ۔۔۔سب ۔۔کچھ ۔۔۔کر ۔۔رہے۔۔ہین شہر بانو گبھرائی سے بولی جبکہ مہرو کو بہت حیرانگی ہوئی۔۔
کیا ڈیرے"پر اور کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔،،مہرو سنجیدگی سے بولی۔
"نہیں آپ جلدی آ جائیں پلیز کچھ کریں آپی پلیز۔۔۔۔۔،،وہ گھبرا کر بولی اور ساتھ ہی شہر بانو نے فون ابرار خان کو پکڑا دیا۔
"ٹھیک ہے۔۔۔،،مہرو نے کہا اور ساتھ ہی کال کاٹ دی جبکہ دوسری طرف ابرارخان اور شہر بانو کا مشترکہ قہقہہ گونجا۔پھر۔
ابرار خان:سامنے شراب کے نشئے مین دھت پڑے سہراب کو دیکھ کر شہر بانو سے بولا تم
"اب سہراب کے اوپر لیٹو اور مین اس کے موبائل سے کلپ بناتا ہون۔اب یہ ریکارڈنگ ہی مہر خانم کو مزید پاگل بنائے گی۔۔۔۔اور مجھے بھی اپنی دیرینہ حسرت مٹانے کا موقعہ ملے گا۔
ابرار خان مہرو کیلئے کافی عرصے سے پاگل ہورہا تھا۔اس نے سہراب سے دوستی بھی اسی مقصد سے کی تھی مگر اب اس نئے پلان کی ماسٹر مائینڈ شہر بانو تھی۔۔
مہرو فون بند ہونے کے بعد سوچنے لگی پہلے"ایک بار خاقان بابا کوبتانا چاہئے۔کیونکہ ایئسے ہی اکیلیے میرا ڈیرے پر جانے سے کیا ہو گا۔۔ساتھ ہی وہ سوچنے لگی کہ پہلے تو خود دیکھنا چاہیے۔مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے آئی ڈونٹ بلیو دس کہ سہراب خان بھی ایئسے۔۔؟ میں کیا کروں۔۔ ،،مہرو لگاتار سوچ رہی تھی۔۔مگر وہ اس طرح سے ڈیرے پر جانے پر مطمئن نہیں ہو پا رہی تھی۔۔۔اس کے دل میں کچھ عجیب سا ڈر چھپا ہوا تھا۔۔نہیں۔۔۔۔شہر بانو تو میری فرینڈ ہے ۔۔۔
اگر یہ کال کسی اور نے کی ہوتی تو مجھے لگتا کہ جھوٹ ہے مگر وہ تو میری کزن اور بچپن کی سہیلی ہے،، مہرو سر تھامےکرسی پہ گر گئی۔وہ پہلے سے ہی گاؤں کی کچھ دوسری عورتوں سے بھی سہراب کے رنگین مزاج کے بارے مین سن چکی تھی ۔
_____________
پھر آدھے گھنٹے بعد وہ گاؤں سے باہر ڈیرے والی سڑک پر تھی اور کچھ ہی دیر مین اب مہرو ڈیرے کے ساتھ سہراب کے ڈرائیور حشمت کے مکان کے سامنے پہنچ گئی وہ اندر جانے سے پہلے حشمت کی والدہ سے کچھ پوچھنا چاہتی تھی۔
مہرو نے گاڑی بڑے شیشم کے درخت کے عین نیچے کھڑی کر دی ۔سامنے ہی تو حشمت کی والدہ راجاں خانم جائے نماز پہ بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھی۔
"اسلام علیکم ماں جی۔۔،،مہرو نے سلام کیا۔راجاں نے خاموشی سے اٹھ کر مہرو کا ہاتھ تھاما اور۔۔
"ارے مہرو بیٹی تم اور اسطرح سے یہاں۔۔۔،، راجاں نے مسکرا کر پوچھا۔،،مہرو نے اس کے آگے سر جھکایا تو راجاں نے ہاتھ اس کے سر پہ رکھ دیا۔پھر
سامنے رکھی چارپائی کی طرف مہرو کو بیٹھنے کا اشارہ کیا تو مہرو ایک طرف ہو کر بیٹھ گئی۔۔
ماں"جی آپ آپ مجھے کیسے جانتی ہیں۔۔،،،مہرو نے راجاں کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
اتنے میں راجاں کا فون بجااس نے فون اٹھایا اور دو منٹ کی بات کے بعد کاٹ دیا۔
مہرو کچھ جانچتی نظروں سے راجاں کو دیکھنے میں مصروف تھی۔
"جی بیٹی تم وہ کیا بول رہی تھی،،
"میں کہ رہی تھی کہ آپ کو کیسے معلوم کہ میں مہرو ہوں،،مہر خانم نے حیرانگی سے سوال کیا۔
"ہاہاہاہاہا بابا۔بیٹی تمہاری شادی پر تمہین دیکھا تھا وہ جائے نماز سے اٹھتے ہوئے بولین ۔
پھر مہرو ان سے سہراب اور حشمت کے بارے مین کچھ باتین پوچھنے لگی تو وہ سوچ میں پڑ گئین۔
مہرو"بیٹا جوتم سوچ کر پوچھ رہی ہو بات تو کچھ ویئسے ہی ہے یہان سے کچھ ہی فاصلے پر ابرار خان کا فارم ہاؤس ہے اور ان کے یہ سب شغل اور کھیل وہین پر رچائے جاتے ہین۔۔آج بھی یہ سب لوگ ادھر ہی ہون گے۔۔۔،،راجاں کی بات سن کر مہرو نے حیرانگی سے اس کو دیکھا اور پھر کچھ سوچ کر ادھر جانے کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
مہر بیٹی"بیٹھو ایئسے اکیلی تم ادھر مت جاؤ،کوئی بھی عورت ذات ان کی محفلون مین ادھر نہیں جا سکتی۔۔۔۔،،راجاں نے کہا تو مہرو نے ماتھے پہ بل ڈال کر اس کو دیکھا۔پھر مہرو نے اسے چپ چاپ بیٹھنے کا اشارہ کیا تو راجاں نہچاہتے ہوئے بھی واپس بیٹھ گیی۔ اور مہرو کو دیکھنے لگی۔
جیسے خاموشی سے پوچھ رہی ہو جانا ضروری ہے کیا۔؟
مہرو اپنی چادر اور کپڑے ٹھیک کرتی ادھر سے نکل کر فصلوں کے درمیان سے گزرتی فارم ہاؤس کی جانب پیدل بڑھ رہی تھی۔
سہ پہر کا وقت تھا سورچ سر پر چمک رہا تھا۔دور دور تک ہی آدمی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔سارا ماحول ہی پراسرار لگ رہا تھا مہرو ماتھے سے بہتا ہوا پسینہ صاف کرتی فارم کی طرف بڑھنے لگی۔
پھر کچھ دیر ہی چلنے کے بعد ڈر اور خوف گبھراہٹ سے ادھر ادھر دیکھتی فارم ہاؤس کے باہر لگے نلکے کی طرف بڑھ گئی مہرو کو بہت شدت کی پیاس لگ چکی تھی۔
پانی پینے کے دوران اسنے اپنے پیچھے قہقہوں کی آوازیں سنی تو۔پانی اس کے ہونٹون سے نکل کر کپڑون پر گرنے لگا ساتھ ہی مہرو خوف زدہ ہو کر واپس مڑی وہان پر چار انسان تھے۔جیتے جاگتے ہٹے کٹے مرد جو اسے حوس بھری نظروں سے دیکھ کر تیزی سے اس کی طرف بڑھ رہے تھے۔
مہرو پیچھے ہٹنے لگی اور پھر جیئسے ہی وہ وہان سے بھاگنے لگی تھی کہ اس کی چادر کسی نے پکڑ کر کھینچی تو چادر اس کے بدن سے اتر گئی اور ساتھ وہ بھی گر کر وہین زمین بوس ہو گئی۔
وہ چاروں ہنستے ہوئے اس کی طرف بڑھ رہے تھے۔۔
مہرو نے آس پاس دیکھا مگر کچھ نہ ملا پھر مٹھیاں ریت سے بھر کر ان پہ پھینکی اور ادھر سے اٹھ کر بے سود بھاگی ابھی فارم کے دروازے کے پاس پہنچی ہی تھی کہ وہ آدمی اس کے سر پہ پہنچ گئے۔
"پلیز ہیلپ می ،کوئی ہے۔۔۔۔،،،وہ اونچی اونچی چلانے لگی۔
"سہراب خان ۔۔زبیر بھائی ،پلیز بچائیں مجھے،، وہ ایک بار پھر سے چلائی تھی مگر ایک آدمی نے اس کے شرارے کے پچھلے پلے سے ہاتھ ڈال کر کپڑے کھینچ دیئے۔
"نہیں۔۔۔،،وہ کمر کے بل اپنا تن چھپانے کے لئے فورا ہی پیچھے جا گری ۔۔۔
سارے آدمی قہقہے لگاتے اس کی طرف بڑھ رہے تھے۔وہ بغیر روتے بلکتے دونوں ہاتھوں سے سامنے کا قمیض کا حصہ پکڑے پیچھے ہٹ کر فارم ہاؤس کی دیوار سے لگ گئی۔خوف کے مارے اس کے حلق میں آواز اٹک گئی تھی۔بہت سارے ڈر اور خوف کے سائے اس کی آنکھوں میں اترے۔
سہراب"مجھے بچاؤ۔اہ زبیر لالہ۔۔۔۔جلدی آؤ وہ چیخ و پکار ابھی بھی اس کے ہونٹوں میں قید تھی۔
پھر جیئسے ہی ایک آدمی اس پر جھکا تو مہرو نے خوف سے آنکھیں بند کر لین۔ایک جوانی پر داغ لگنے لگا تھا۔۔کیا پھر سے کوئی درندگی کی انتہا ہونے لگی تھی۔
اس آدمی کا ہاتھ مہرو کے وجود کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اتنے میں اس کے منہ پر کسی نے زور کا مکا رسید کیا۔مہرو نے آنکھیں کھول کر حیرانگی سےخاقان آفریدی اور حشمت کو دیکھا وہ انہین مسلسل مار رہے تھے ان آدمیوں کو بے رحمی سے وہ پیٹ رہےتھے۔۔۔
وہ جلدی سے اٹھی اور پیچھے ہٹنے لگی اور فارم ہاؤس کی دیوار کے ساتھ بنے کواٹر کا دروازہ کھول کر اندر جا کر ایک نکر میں منہ گھٹنوں میں چھپا کر بیٹھ گئی۔
اہ"زبیر لالہ۔۔۔۔۔ پلیز بھائی بچا لو نہ ۔۔۔،،پھر ایک بار مہرو کی آواز اس کواٹر کے سناٹے کو کاٹنے لگئی۔
خاقان آفریدی اور حشمت خان نے ان چاروں آدمیوں کو مار مار کر بے ہوش کردیا اور جپ پھر بھی خاقان أفریدی کا غم۔وغصہ ختم نہ ہوا تو انہیں جان سے ختم کرنے کا کہتے ہوئے خود مہرو کو ڈھونڈنے لگ گئے۔
"مہر ۔۔۔۔مہر۔۔بیٹی ۔۔۔ کہاں ہو۔۔تم ،،وہ بھاگتے ہوے ادھر سے ادھر جا رہےتھے اور پھر مہرو کی سسکیوں اور زبیر لالہ مجھے بچاؤکی آوازین سن کر وہ ٹھٹھک گیے۔۔اور ساتھ ہی۔ اس کواٹرر کی طرف بڑھ گیے جہاں پر مہرو پاگل سی ہوئی بیٹھی تھی۔
مہرو"بیٹی۔۔۔،،خاقان آفریدی بھاگتے ہوئے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوے۔اور گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ گیے
مہر بیٹا"سس سب ٹھیک ہے اٹھو۔بیٹی۔ مم میں اب آ گیا ہوں نا۔۔۔۔مہرو۔۔۔۔،،وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھانے لگے۔
نن"ن۔۔نہیں بابا وہ مم سہراب وہ۔۔،،وہان۔۔مہرو پھر سے رونے لگی خاقان آفریدی کی نظر اس کے ننگے ہو تے کندھے پر پڑھی تو وہ نظر جھکا کر سر پکڑ کر بیٹھ گیے پھر جلدی سے اپنے سرسے پگڑی اتاری اور پھر بغیر کچھ بولے مہر خانم کے پیچھے سے اوپر پھیلا کر اُوڑھا دی اور پھر خاقان آفریدی نے مہرو کا ہاتھ پکڑ لیا۔اور کواٹر سے نکل کر گاڑی کی طرف بڑھ گئے
مہرو ابھی بھی رو رو کر کانپ رہی تھی وہ بہت زیادہ سہم گئی تھی۔اس مین اب چند قدم چلنے کی ہمت بھی باقی نہیں رہی تھی۔۔۔
خان بابا"مم میں آج بے لباس ہو گئی ہون۔۔۔۔،،وہ ان کے پیچھے جیپ کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر سسکیوں کے درمیان میں روتی ہوی بولی۔
مہرو"نہیں بیٹی۔ایسا تو نہیں کہتے اور بیٹی جس نے بھی یہ کیا اور کرویا ہے انہیں تو مین چن چن کر زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔اور تم اب خود کو سنمبھالو اور کسی سے بھی اس کے بارے مین کوئی بات کرنےکی ضرورت نہین ہے۔۔۔ ،،خاقان أفریدی گاڑی خود چلا رہے تھے حشمت کو ادھر ہی چھوڑ کر انہون نے وہ سبھی لاشونکو خاموشی کے ساتھ ہی ٹھکانے لگانے کا کہ دیا تھا ۔
مہرو اب بھی کانپتے ہوئے ساتھ اپنے ہاتھوں میں۔ منہ چھپائے مسلسل آنسوں بہا رہی تھی۔۔۔۔
_________
"کیا ہوا مہرو بیٹی تو ٹھیک تو ہو۔۔۔۔،،بی بی جان انکے گھر مین داخل ہوتے ہی سانس بھی لئے بغیر بولین۔
"یہ گھر سے باہر اکیلی کیون کر گئی ہین ،،خاقان آفریدی نے بہت کرخت لہجے میں پوچھا۔
مگر بی بی جان بس خاموشی سے مہرو کو ہی دیکھے جا رہی تھین۔۔پھر بی بی جان نے اپنی چادر بھی خاقان آفریدی کی چادر کے اوپر سے مہرو پر پھیلا دی۔۔اس کے کرب سے تو وہ بغیر کچھ پوچھے گزر رہی تھین یہ درد تو ان کے اندر بھی بیٹھ چکا تھا۔۔
___________________
فارم ہاؤس کے دوسرے فلور پر سے ایک کھڑکی کے پاس کھڑا ابرار مہرو بیگم پر بیتنے والے ایک ایک پل کو دیکھ دیکھ کر انجوائے کر رہا تھا۔
اس نے خود آگے بڑھنے کے بجائے مہرو کو لانے اپنے پالتو آدمی وہاں بھیجے تھے۔
کہ اچانک سے خاقان أفریدی اپنے ڈرائیور اور باڈی گارڈ حشمت کے ساتھ فارم ہاؤس کے باہر مہرو کے پاس پہنچ گئے۔
جنہین دیکھتے ہی ابرار خان ڈر خوف سے گھبرا کر پیچھے سائیڈ پر ہو گیا۔
پھر جب اس نے دس منٹ کے بعد بمشکل اپنی ہمت جھٹلا کر باہر دیکھا تو مہرو وہاں سے بچ کر خاقان أفریدی کیساتھ واپس جا رہی تھی۔۔
مہر خانم کے اس طرح بچ جانے سے ابرار خان غصے اوراشتعیال مین پاگل ہونے لگا تھا ۔کہ اتنے مین شہر بانو بھی نشئے مین مکمل طور پر دھت سہراب خان سے اپنی جی بھر کے حسرتین اور دل کے سب آرمان پورے کرنے کے بعد اُسے کمرے مین اکیلے چھوڑ کر باہر ابرار خان کے پاس چلی آئی۔۔
وہ اس وقت اپنے پر غرور شباب کو خود ہی سہراب خان پر نچھاور کر کے مدہوش ہو رہی تھی۔اس جیسی عورت جب شرم وحیا کو چھوڑ دیتی ہے تو پھر اس کو اپنے پرائے جائز اور نجائز کے فرق کو مٹا کر شرم وحیا کو پس پشت ڈالتے ہوئے بس صرف اورصرف اس کو ہر حالت مین ہر وقت ہی اپنی پرشہوت بدن کی سبھی رعنایون کی جنسی تسکین چاہئے ہوتی ہے۔
پھر جیئسے ہی شہر بانو کو مہر خانم کی بابت سب پتہ چلا وہ گھبرا کر ابرار خان سے پوچھنے لگے کہ خان اب اس سہراب سے کیا کہو گے اور اس کو کیسے مہرو کے ساتھ بیتتے سب حالات بتاؤ گے۔اگر اس نے یہان سے جا کر اپنے باپ اور مہرو سے وہ سب کچھ سنا تو پھر تو ہمارا سارا پلان ہی بگڑ کر چوپٹ ہو جائے گا۔
ابرار:: ارے شہری ڈارلنگ۔سہراب کو"سڑتا رہنے دو اس کو یہاں پر اب ہمیشہ ہی۔ بلکہ تمہارا جب بھی دل چاہے۔۔تم اس کے ساتھ داد عیش کرو۔۔
مگر ابرار خان اب تم مہرو کو پانے کے لیے کیا کرو گے ،،شہر بانو اس سے پوچھتے ہویے پھر سے سہراب خان کے پاس جانے کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
ابرار خان"ارےے شہری یار تم اس کی ٹینشین مت لو مین مہرو بیگم کو حاصل کرکے ہی چھوڑون گا بس تو جا سہراب کوریڈی کر اور آج کی رات تم دونؤن ادھر فارم ہاوس پر ہی رکےرہو ۔۔ ،،ابرار خان نے کہا اور پھرجیسے ہی کمرے سے باہر نکلنے لگا سہراب نشیے کے باوجود لڑ کھڑاتا ہوا ان کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔
اس کے چہرے کو دیکھ کر ابرار اور شہر بانو کو اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ سب کچھ ہی سن چکا ہے۔۔۔
ابرار مین"تمہارے یہ سب غلط غلیظ ارادوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دوں گا،میں ابھی زبیر خان کو بھی کال کر کے ساتھ بتا دیتا ہون۔،،سہراب نشیے مین مدہوش ہونے کے باوجود غصے مین آ کر بولا اور پھر اس روم سے لڑکھڑا کر باہر نکلتا ہوا سیڑھیوں کی طرف جانے لگا۔
ابرار جانو اس کو روک لو ورنہ نہیں تو اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے کیلئے خود تیار ہوجاؤ ۔۔۔،،شہر بانو گھبرا کر بولی تو ابرار خان فارم کے اس دوسرے فلور پر بنے اندرونی طرف کی دائیں سائیڈ والے دروازے کو بھاگ کر عبور کرنے لگا۔
پھر اس سے پہلے کہ وہ سہراب خان برآمدے کا آخری حصہ عبور کر کے سیڑھی اترتا ابرار خان نے آس پاس دیکھ کر اسے نیچے دھکا دے دیا تو سہراب اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور سر کے بل سیڑھیوں سے گرنے لگا۔اور ابرار بھی بہت پھرتی سے وہاں سے سیڑھیاں اتر گیا۔
"ابرار خان۔۔۔،،شہر بانو شور کی آواز سن کر ادھر آنکلی۔اور اب وہ بھاگتی ہوئی ابرار کے ساتھ ہی نیچے چلی آئی۔
سہراب"سہراب میری جان پلیز آنکھیں کھولو۔۔۔۔،،شہر بانو نے اسے سیدھا کیا سہراب کے سر کے پچھلے حصے سے خون بہ رہا تھا۔
سہراب نیری"میری جان ،آپ کیسے مجھے چھوڑ کے جا سکتے ہو ۔ ابرار ،جلدی سے پانی لاؤ یا پھر ڈاکٹر کو کال کرو ۔۔ ،،شہر بانو سہراب کا مسلسل منہ تھپتھپا رہی تھی۔۔۔۔
شہربانو"۔۔سہراب خان اس دنیا میں نہیں رہا ،،ابرار نے ہی اس کی نبض چک کرتے ہوئے گھبرا کر بولا۔شہر بانو کے سر پر تو غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا وہ خفگی سے ابرار کو دیکھتے ہوئے ساتھ سہراب کے بےجان وجود سے لپیٹنے لگی۔
ارے ظالم تمہین سہراب کو روکنے کیلیے کہا تھا ۔اور تم نے یہہ کیا کر دیا۔
اہ۔میں کس قدر منحوس ہوں۔۔۔۔،،شہر بانو غائب دماغی سے سوچتی اور اپنے ہاتھوں پر لگے سہراب خان کے خون کو دیکھتے ہوئے۔۔۔وہ ہوش وہواس کھونے لگی۔۔
جب انسان پہلا گناہ کرنے لگتا ہے تو گھبراتا ہے ضمیر ملامت کرتا ہے کچھ لوگ گناہ چھوڑ دیتے ہیں پر جو ایسا نہیں کرتے ان کا ساتھ ضمیر بھی چھوڑ جاتا ہے۔
جب انسان ایک گناہ کو چھپانے کے لئے دوسرا گناہ کرتا ہے تو ایک کے بعد ایک گناہ کرنا پڑتا ہے ۔یہ ہی حال ابرار خان اور شہربانو کا تھا۔
ادھر ابرار اب سہراب خان کی لاش کو گھوڑے پر بٹھائے فارم سے دور جنگل مین پھینکنے کیلئےلے کر جا رہا تھا کہ اچانک شمس خاں کے شکار کے لئے کیے گئے فائرنگ سے فائدہ اٹھا کر ابرار نے سہراب کے سر پر پسٹل سے فائر کیا۔۔
اور سہراب کی لاش کو پہاڑی سے ڈھلوان کی طرف نیچھے لڑھکاتا ہوا۔۔خود وہان سے غائب ہو گیا۔۔
جاری ہے۔