Offline
مجھ سے پہلے
احمد فراز
مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے
شاید اب بھی ترا غم دل سے لگا رکھا ہو
ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید
اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا رکھا ہو
میں نے مانا کہ وہ بیگانۂ پیمان وفا
کھو چکا ہے جو کسی اور کی رعنائی میں
شاید اب لوٹ کے آئے نہ تری محفل میں
اور کوئی دکھ نہ رلائے تجھے تنہائی میں
میں نے مانا کہ شب و روز کے ہنگاموں میں
وقت ہر غم کو بھلا دیتا ہے رفتہ رفتہ
چاہے امید کی شمعیں ہوں کہ یادوں کے چراغ
مستقل بعد بجھا دیتا ہے رفتہ رفتہ
پھر بھی ماضی کا خیال آتا ہے گاہے گاہے
مدتیں درد کی لو کم تو نہیں کر سکتیں
زخم بھر جائیں مگر داغ تو رہ جاتا ہے
دوریوں سے کبھی یادیں تو نہیں مر سکتیں
یہ بھی ممکن ہے کہ اک دن وہ پشیماں ہو کر
تیرے پاس آئے زمانے سے کنارا کر لے
تو کہ معصوم بھی ہے زود فراموش بھی ہے
اس کی پیماں شکنی کو بھی گوارا کر لے
اور میں جس نے تجھے اپنا مسیحا سمجھا
ایک زخم اور بھی پہلے کی طرح سہ جاؤں
جس پہ پہلے بھی کئی عہد وفا ٹوٹے ہیں
اسی دوراہے پہ چپ چاپ کھڑا رہ جاؤں