Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

Poetry بیسٹ آف پروین شاکر

کمال شاعری ہے زبردست روح کو چھو جانے والی
 
Zabardast dil tak utar jane wali poetry ha perveen shakir sahiba ki
 
اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں

اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں

آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں

شام بھی ہو گئی دھندلا گئیں آنکھیں بھی مری

بھولنے والے میں کب تک ترا رستا دیکھوں

ایک اک کر کے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں

آج میں خود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں

کاش صندل سے مری مانگ اجالے آ کر

اتنے غیروں میں وہی ہاتھ جو اپنا دیکھوں

تو مرا کچھ نہیں لگتا ہے مگر جان حیات

جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکنا دیکھوں

بند کر کے مری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے

بوجھے جانے کا میں ہر روز تماشا دیکھوں

سب ضدیں اس کی میں پوری کروں ہر بات سنوں

ایک بچے کی طرح سے اسے ہنستا دیکھوں

مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح

انگ انگ اپنا اسی رت میں مہکتا دیکھوں

پھول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کھل جائے

پنکھڑی پنکھڑی ان ہونٹوں کا سایا دیکھوں

میں نے جس لمحے کو پوجا ہے اسے بس اک بار

خواب بن کر تری آنکھوں میں اترتا دیکھوں

تو مری طرح سے یکتا ہے مگر میرے حبیب

جی میں آتا ہے کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں

ٹوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے

تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں​
 
گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح

دل پہ اتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح

راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے

جل چکے ہیں مرے خیمے مرے خوابوں کی طرح

ساعت دید کہ عارض ہیں گلابی اب تک

اولیں لمحوں کے گلنار حجابوں کی طرح

وہ سمندر ہے تو پھر روح کو شاداب کرے

تشنگی کیوں مجھے دیتا ہے سرابوں کی طرح

غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار

میرے رستے ہوئے زخموں کے حسابوں کی طرح

یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن

شیلف میں رکھی ہوئی بند کتابوں کی طرح

کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے

تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح

شوخ ہو جاتی ہے اب بھی تری آنکھوں کی چمک

گاہے گاہے ترے دلچسپ جوابوں کی طرح

ہجر کی شب مری تنہائی پہ دستک دے گی

تیری خوش بو مرے کھوئے ہوئے خوابوں کی طرح​
 
پروین شاکر۔
ایک خوبصورت انداز کی شاعرہ۔
 
اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں

اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں

آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں

شام بھی ہو گئی دھندلا گئیں آنکھیں بھی مری

بھولنے والے میں کب تک ترا رستا دیکھوں

ایک اک کر کے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں

آج میں خود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں

کاش صندل سے مری مانگ اجالے آ کر

اتنے غیروں میں وہی ہاتھ جو اپنا دیکھوں

تو مرا کچھ نہیں لگتا ہے مگر جان حیات

جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکنا دیکھوں

بند کر کے مری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے

بوجھے جانے کا میں ہر روز تماشا دیکھوں

سب ضدیں اس کی میں پوری کروں ہر بات سنوں

ایک بچے کی طرح سے اسے ہنستا دیکھوں

مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح

انگ انگ اپنا اسی رت میں مہکتا دیکھوں

پھول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کھل جائے

پنکھڑی پنکھڑی ان ہونٹوں کا سایا دیکھوں

میں نے جس لمحے کو پوجا ہے اسے بس اک بار

خواب بن کر تری آنکھوں میں اترتا دیکھوں

تو مری طرح سے یکتا ہے مگر میرے حبیب

جی میں آتا ہے کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں

ٹوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے

تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں​

Boht zabardast nazam
 
اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے




اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے
کون ہو گا جو مجھے اس کی طرح یاد کرے
دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھلا در اس کا
وہ مسافر اسے ہر سمت سے برباد کرے
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اِک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
اتنا حیراں ہو مری بے طلبی کے آگے
واقفس میں کوئی در خود میرا صیاد کرے
سلب بینائی کے احکام ملے ہیں جو کبھی
روشنی چھونے کی خواہش کوئی شب زاد کرے
سوچ رکھنا بھی جرائم میں ہے شامل اب تو
وہی معصوم ہے ہر بات پہ جو صاد کرے
جب لہو بول پڑے اس کی گواہی کے خلاف
قاضی شہر کچھ اس بات میں ارشاد کرے
اس کی مٹھی میں بہت روز رہا میرا وجود
میرے ساحر سے کہو اب مجھے آزاد کرے

 
گلاب ہاتھ میں ہو ، آنکھ میں ستارہ ہو
کوئی وجود محبّت کا استعارہ ہو
میں گہرے پانی کی اس رو کے ساتھ بہتی رہوں
جزیرہ ہو کہ مقابل کوئی کنارہ ہو
کبھی کبھار اُسے دیکھ لیں ،کہیں مل لیں
یہ کب کہا تھا کہ وہ خوش بدن ہمارا ہو
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
یہ اتنی رات گئے کون دستکیں دے گا
کہیں ہوا کا ہی اُس نے نہ رُوپ دھارا ہو
اُفق تو کیا ہے،درِ کہکشاں بھی چُھو آئیں
مُسافروں کو اگر چاند کا اشارہ ہو
میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو
اگر وجود میں آہنگ ہے تو وصل بھی ہے
میں چاہے نظم کا ٹکڑا، وہ نثر پارہ ہو
 
اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے




اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے
کون ہو گا جو مجھے اس کی طرح یاد کرے
دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھلا در اس کا
وہ مسافر اسے ہر سمت سے برباد کرے
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اِک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
اتنا حیراں ہو مری بے طلبی کے آگے
واقفس میں کوئی در خود میرا صیاد کرے
سلب بینائی کے احکام ملے ہیں جو کبھی
روشنی چھونے کی خواہش کوئی شب زاد کرے
سوچ رکھنا بھی جرائم میں ہے شامل اب تو
وہی معصوم ہے ہر بات پہ جو صاد کرے
جب لہو بول پڑے اس کی گواہی کے خلاف
قاضی شہر کچھ اس بات میں ارشاد کرے
اس کی مٹھی میں بہت روز رہا میرا وجود
میرے ساحر سے کہو اب مجھے آزاد کرے


Boht Zabardast poem
 
وہ جب سے شہر خرابات کو روانہ ہُوا
براہِ راست مُلاقات کو زمانہ ہُوا
وہ شہر چھوڑ کے جانا تو کب سے چاہتا تھا
یہ نوکری کا بُلاوا تو اِک بہانہ ہوا
خُدا کرے تری آنکھیں ہمیشہ ہنستی رہیں
یہ آنکھیں جن کو کبھی دُکھ کا حوصلہ نہ ہُوا
کنارِ صحن چمن سبز بیل کے نیچے
وہ روز صبح کا مِلنا تو اَب فسانہ ہُوا
میں سوچتی ہوں کہ مُجھ میں کمی تھی کِس شے کی
کہ سب کا ہوکے رہا وہ، بس اِک مرا نہ ہُوا
کِسے بُلاتی ہیں آنگن کی چمپئی شامیں
کہ وہ اَب اپنے نئے گھر میں بھی پرانا ہُوا
دھنک کے رنگ میں ساری تو رنگ لی میں نے
اب یہ دُکھ ، کہ پہن کرکِسے دِکھاناہُوا
میں اپنے کانوں میں بیلے کے پُھول کیوں پہنوں
زبانِ رنگ سے کِس کو مُجھے بُلانا ہُوا​
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat