You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser.
اُس ایک شکل میں، کیا کیا نہ صُورتیں دیکِھیں
نِگار تھا، نظر آیا نِگارخانہ وہ
احمد فراز
فراز، خواب سی غفلت دِکھائی دیتی ہے
جو لوگ جانِ جہاں تھے ہوئے فسانہ وہ
احمد فراز
تِری سلیقہء ترتیبِ نَو کا کیا کہنا
ہَمِیں تھے قریۂ دِل سے نِکالنے کے لئے
احسان دانش
رہیں گے چل کے کہیں اوراگر یہاں نہ رہے
بَلا سے اپنی جو آباد گُلسِتاں نہ رہے
ہم ایک لمحہ بھی خوش زیرِ آسماں نہ رہے
غنِیمت اِس کوسَمَجْھیے کہ جاوِداں نہ رہے
سیماب اکبرآبادی
حرم میں، دَیروکلیسا میں، خانقاہوں میں
ہمارے عشق کے چرچے کہاں کہاں نہ رہے
کبھی کبھی، رہی وابستگی قفس سے بھی
رہے چمن میں تو پابندِ آشیاں نہ رہے
سیماب اکبرآبادی
یا رب! غمِ ہجراں میں اِتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پہ ہے، وہ دست دُعا ہوتا
اِک عشق کا غم آفت، اور اُس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دِیا ہوتا، یا دل نہ دِیا ہوتا
چراغ حسن حسرت
اُمّید تو بندھ جاتی، تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے، وعدہ تو کیا ہوتا
چراغ حسن حسرت
ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے
سُننے والے رات کٹنے کی دُعا دینے لگے
ثاقب لکھنوی
کشورِ عشق میں دُنیا سے نِرالا ہے رواج
کام جو، بَن نہ پڑیں یاں وہ روا ہوتے ہیں
ہیچ ہم سمجھیں دو عالم کو تو حیرت کیا ہے
رُتبے عُشّاق کے، اِس سے بھی سوا ہوتے ہیں
حسرت موہانی
نہ راہزن، نہ کسی رہنما نے لُوٹ لیا
ادائے عشق کو رسمِ وفا نے لُوٹ لیا
نہ اب خُودی کا پتہ ہے نہ بیخودی کا جِگر
ہر ایک لُطف کو، لُطفِ خُدا نے لُوٹ لیا
جِگر مُراد آبادی
Create an account or login to comment
You must be a member in order to leave a comment
Create account
Create an account on our community. It's easy!
Log in
Already have an account? Log in here.
New posts