نوید امن ہے بیداد دوست جاں کے لیے
رہی نہ طرز ستم کوئی آسماں کے لیے
بلا سے گر مژۂ یار تشنۂ خوں ہے
رکھوں کچھ اپنی بھی مژگان خوں فشاں کے لیے
وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر
نہ تم کہ چور بنے عمر جاوداں کے لیے
رہا بلا میں بھی میں مبتلائے آفت رشک
بلائے جاں ہے ادا تیری...