پھر دَمِ دِید رہے چشم ونظر دِید طلب
پھر شبِ وصْل مُلاقات نہ ہونے پائی
فیض سر پر جو ہر اِک روز قیامت گُزری!
ایک بھی، روزِ مکافات نہ ہونے پائی
فیض احمد فیض
ناتوانی مِری دیکھی، تو مصوّر نے کہا
ڈر ہے، تم بھی کہیں کِھنچ آؤ نہ تصویر کے ساتھ
میں ہُوں کیا چیز، جو اُس طرز پہ جاؤں اکبر
ناسخ و ذوق بھی، جب چل نہ سکے میر کے ساتھ
اکبرالٰہ آبادی
خوشا اشارہٴ پیہم، زہے سکوتِ نظر
دراز ہوکے فسانہ ہے مختصر پھر بھی
خراب ہو کے بھی سوچا کئے ترے مہجور
یہی کہ تیری نظر ہے تِری نظر پھر بھی
فراق گورکھپوری
تہوں میں دل کے جہاں کوئی واردات ہوئی
حیاتِ تازہ سے، لبریز کائنات ہوئی
تم ہی نے باعثِ غم بارہا کِیا دریافت!
کہا تو رُوٹھ گئے، یہ بھی کوئی بات ہوئی
فراق گورکھپوری
اُس تشنہ لب کی نیند نہ ٹُوٹے دُعا کرو
جس تشنہ لب کو خواب میں دریا دِکھائی دے
کیا حُسن ہے، جمال ہے، کیا رنگ رُوپ ہے
وہ بِھیڑ میں بھی جائے تو تنہا دِکھائی دے
کرشن بہاری نُورؔ لکھنوی
میرا غم نہ کر میرے چارہ گر، تیری چارہ جوئی بجا مگر
میرا درد ہے میری زندگی، مجھے دردِ دل کی دوا نہ دے
میں وہاں ہُوں اب میرے ناصحا! کہ جہاں خُوشی کا گُزر نہیں
میرا غم حدّوں سے گزر گیا، مجھے اب خُوشی کی دُعا نہ دے
گنیش بہاری طرزؔ