وہی ہے صانع، وہی ہے صنعت، جو سوچ دیکھو، کیا ہے حیرت
بنایا جس نے، کہ شکلِ آدم، ہم اس کو جانے وہ ہم کو جانے
وجود اپنا اگر عدم ہے، کہاں کی شادی، کہاں کا غم ہے
نمودِ ہستی ہے وہمِ عالم، ہم اس کو جانے وہ ہم کو جانے
نہیں ہے احوال اپنا یکساں، کبھو ہے شاداں، کبھو ہے حیراں
کبھو ہے خاموش چشم پر نم، ہم اس کو جانے وہ ہم کو جانے
علم ظاہر داستانی اور ہے
علم اسرار نہانی اور ہے
وعظ پند و عالمانی اور ہے
حال و قال صوفیانی اور ہے
خضر سے چاہیں نہ ہم آبِ حیات
اپنی عمرِ جاودانی اور ہے
فکر میں خاموش کے ہے اور کچھ
گفتگو اب یہ زبانی اور ہے!!!!!!
نہیں اِس کھُلی فضا میں کوئی گوشۂ فراغت
یہ جہاں عجب جہاں ہے نہ قفس، نہ آشیانہ
تِری بندہ پروَرِی سے مِرے دن گزر رہے ہیں
نہ گِلہ ہے دوستوں کا، نہ شکایتِ زمانہ
علامہ محمد اقبال
تجھے یاد کیا نہیں ہے، میرے دل کا وہ زمانہ
وہ ادب گہِ محبّت، وہ نِگہ کا تازیانہ
یہ بُتانِ عصْرِحاضِر کے بنے ہیں مدرِسے میں
نہ ادائے کافِرانہ، نہ تراشِ آزَرانہ
علامہ محمد اقبال