You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser.
دُکھ بھری داستان ماضی کی
حال کی بے رُخی کا قصّہ ہُوں
اے حقیقت کے ڈھونڈنے والے
میں تِری جستجو کا حِصّہ ہوں
ساغر صدیقی
خود نکہتِ گُل جرمِ چمن میں تھی مُلوّث
جب غور سے دیکھا تو نہ بجلی نہ شرارے
ساغر صدیقی
دل کی رُت ایسی تو یادِ یار نے بدلی نہ تھی
یہ چمن اُجڑا ہی اِس ڈھب سے، کہ صحرا بن گیا
فانی بدایونی
ہیں آج کیوں ذلیل، کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں
غالب
کم نہیں وہ بھی خرابی میں، پہ وسعت معلوم
دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیں
غالب
چمکنا برق کا لازم پڑا ہے ابرِ باراں میں
تصور چاہیے رونے میں اُس کے روئے خنداں کا
ناسخ
بات کچھ دن کی ہے موسم تو بدل جانے دے
تیری آنکھوں کے لیے خواب نئے لاؤں گا
فیض الحسن خیال
ہو نہ بےتاب غمِ ہجرِ بُتاں میں مومن
دیکھ دو دن میں بس اب فضلِ خُدا ہوتا ہے
مومن
نہ ہو رہائی قفس سے، اگر نہیں ہوتی
نگاہِ شوق تو بے بال و پر نہیں ہوتی
قمر جلال آبادی
انساں عجیب رنگ سے دن کاٹ رہا ہے
حُلیے کا اُس کو ہوش، نہ گھر گھاٹ رہا ہے
ایک دَور یہ تھا وقت کو ہم کاٹ رہے تھے !
اک حشر یہ ہے، وقت ہمیں کاٹ رہا ہے
ڈاکٹر خیال امروہی
Create an account or login to comment
You must be a member in order to leave a comment
Create account
Create an account on our community. It's easy!
Log in
Already have an account? Log in here.
New posts