حیرت آنکھوں کو ہے نظّارے میں اُس محبوب کے
یہ نہیں کھُلتا کہ دِل کشتہ ہے کِس انداز کا
اے زباں کیجو نہ شرحِ حالتِ دِل کا خیال
مُنکشف ہونا نہیں بہتر ہے مخْفی راز کا
خواجہ حیدرعلی آتش
صُوفِیوں کو وجْد میں لاتا ہے نغمہ ساز کا
شُبہ ہو جاتا ہے، پردے سے تِری آواز کا
پڑ گئے سوراخ دل میں، گفتگوئے یار سے
بے کنائے کے نہیں، اِک قول اُس طناز کا