خُو سے اُس محوِ تغافل کے جو آگاہ نہیں
آرزو وعدۂ جاناں پہ شکیبا ہے عبث
حالِ دل اُن سے نہ پوشیدہ رہا ہے، نہ رہے
اب تو اِس رازِ نمودار کا اخفا ہے عبث
حسرت موہانی
مَستِ غفلت ہے وہ ظالم، جونہیں بیخودِعشق
ہوشیاری کا تِرے دَور میں دعوہ ہےعبَث
ہم کو اُس شوخ سے اُمّیدِ کرَم ہے لیکن !
یاس کہتی ہے کہ، حسرت ! یہ تمنّا ہےعبَث
حسرت موہانی
یہ کاروبارِ مشیّت ہے کس طرح مانوں !
کسی کے گھر میں چراغاں، کسی کے گھر سائے
نگار خانۂ فنکارِ نَو کا سرمایہ
لہو ، شِکستہ لکیریں ، خلا ، سفر ، سائے
حزِیں صدیقی
وہ منتظرہیں چمن میں بکھیر کرسائے
فضا سے صُبْحِ شفَق رنگِ نُور برسائے
سمندروں سے ہَوا کو مِلا نہیں پانی
تو اِس کا یہ نہیں مطلب کہ آگ برسائے
حزِیں صدیقی
ستم ظریفئ صُورت گرِ بہار نہ پُوچھ
بساطِ رنگ اُلٹ دی جھلک دِکھا کے مجھے
اُدھر سے تِیر، جو آئے سجا لِئے دل میں
نگاہِ ناز پشیماں ہے آزما کے مجھے
حزیں صدیقی
کچھ قدر تو کرتے مِرے اظہارِ وفا کی
شاید یہ محبّت ہی نہیں آپ کے نزدیک
عُشّاق پہ کچھ حد بھی مُقرّر ہے سِتم کی
یا اِس کی نہایت ہی نہیں آپ کے نزدیک
حسرت موہانی
چاہت مِری، چاہت ہی نہیں آپ کے نزدیک
کچھ میری حقیقت ہی نہیں آپ کے نزدیک
اگلی سی نہ راتیں ہیں، نہ گھاتیں ہیں، نہ باتیں
کیا اب میں وہ، حسرت ہی نہیں آپ کے نزدیک
حسرت موہانی