ہجْر کی رات ہےاور اُن کے تصوّر کا چراغ
بزْم کی بزْم ہے، تنہائی کی تنہائی ہے
کون سے نام سے تعبیر کرُوں اِس رُت کو
پُھول مُرجھائے ہیں، زخموں پہ بہار آئی ہے
اقبال اشعر
جبینِ تمنّا کی تابانیاں ہیں
کہ دل میں ابھی تک پُرافشانیاں ہیں
یونہی تیرے گیسو ہیں رُسوا، کہ مجھ کو
پریشانیاں تھیں، پریشانیاں ہیں
سیّدعابدعلی عابد