You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser.
میں کیا کہوں، کہاں ہے محبّت، کہاں نہیں!
رَگ رَگ میں دوڑی پھرتی ہی نشتر لئے ہُوئے
اصغر گونڈوی
کبھی یہ زعم کہ تو مجھ سے چُھپ نہیں سکتا
کبھی یہ وہم کہ خود بھی چُھپا ہُوا ہُوں میں
اسرار الحق مجاز
یہ میرے عشق کی مجبوریاں معاذاللہ
تمہارا راز تمہی سے چُھپا رہا ہوں میں
اِس اِک حِجاب پہ سو بے حِجابیاں صدقے
جہاں سے چاہتا ہوں تم کو دیکھتا ہُوں میں
اسرار الحق مجاز
بے زبانی ترجمانِ شوقِ بے حد ہو تو ہو
ورنہ پیشِ یاد کام آتی ہیں تقریریں کہیں
حسرت موہانی
بس اِتنی بات پر دُشمن بنی ہے گردشِ دَوراں
خطا یہ ہے کہ چھیڑا کیوں تِری زُلفوں کا افسانہ
ساغر صدیقی
چراغِ زندگی کو ایک جھونکے کی ضرورت ہے
تمہیں میری قسم ہے، پھر ذرا دامن کو لہرانا
ساغر صدیقی
دل میں آتے ہوئے شرماتے ہیں
اپنے جلووں میں چُھپے جاتے ہیں
ہر نصِیحت ہے نِرالی ناصح
ورنہ سمجھے ہوئے سمجھاتے ہیں
وہ مرے قتل کا فرمان سہی!
کچھ وہ ارشاد تو فرماتے ہیں
فانی بدایونی
یہ تیری خموشی کی ادائیں کوئی دیکھے
نغمے ہیں جو شرمندۂ آواز نہیں ہیں
دل سے بھی اب آتی نہیں فانی خبر اپنی
مدّت ہوئی ہم گوش برآواز نہیں ہیں
فانی بدایونی
فنائے عشق کو رنگِ بقا دِیا تُو نے
حیات و موت کو یکجا دِکھا دِیا تُو نے
ہزار جانِ گرامی فِدا بایں نِسبت
کہ میری ذات سے اپنا پتا دِیا تو نے
جگر مُراد آبادی
نظر سے حُسنِ دوعالم گِرا دِیا تُو نے
نہ جانے کون سا عالم دِکھا دِیا تُو نے
خوشا وہ دردِ محبّت، زہے وہ دِل، کہ جسے
ذرا سکوُن ہُوا، گدُ گدُا دِیا تُو نے
جگر مُراد آبادی
Create an account or login to comment
You must be a member in order to leave a comment
Create account
Create an account on our community. It's easy!
Log in
Already have an account? Log in here.
New posts