You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser.
نہ جانے وقت کی رفتار کیا دِکھاتی ہے
کبھی کبھی تو بڑا خوف سا لگے ہے مجھے
اب ایک آدھ قدم کا حساب کیا رکھیے
ابھی تلک تو وہی فاصلہ لگے ہے مجھے
جاں نثار اختر
آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
جب شاخ کوئی، ہاتھ لگاتے ہی چمن میں !
شرمائے، لچک جائے تو لگتا ھے کہ تم ہو
جاں نثار اختر
صندل سے مہکتی ہوئی پرکیف ہوا کا
جھونکا کوئی ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
اوڑھے ہوئے تاروں کی چمکتی ہوئی چادر
ندّی کوئی بل کھائے تو لگتا ھے کہ تم ہو
جاں نثار اختر
ہم مسافر یونہی مصروفِ سفر جائیں گے
بے نِشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے
کس قدر ہو گا یہاں مہر و وفا کا ماتم
ہم تری یاد سے جس روز اُتر جائیں گے
فیض احمد فیض
ہمّتِ اِلتجا نہیں باقی
ضبْط کا حوصلہ نہیں باقی
اِک تِری دید چِھن گئی مجھ سے
ورنہ دُنیا میں کیا نہیں باقی
فیض احمد فیض
بربادئ دل جبر نہیں فیض کسی کا !
وہ دُشمنِ جاں ہے تو بُھلا کیوں نہیں دیتے
فیض احمد فیض
ویراں ہے میکدہ، خُم و ساغر اُداس ہیں
تم کیا گئے کہ رُوٹھ گئے دن بہار کے
دُنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دِلفریب ہیں غم روزگار کے
فیض احمد فیض
سوچ رکھنا بھی جرائم میں ہے شامِل اب تو
وہی معصُوم ہے ہر بات پہ جو صاد کرے
پروین شاکر
دیکھا کِئے وہ مست نِگاہوں سے بار بار
جب تک شراب آئی، کئی دَور ہو گئے
شاد عظیم آبادی
ہر تمنّا دل سے رُخصت ہو گئی
اب تو آجاؤ کہ خلوَت ہو گئی
عزیزالحسن مجذوب
Create an account or login to comment
You must be a member in order to leave a comment
Create account
Create an account on our community. It's easy!
Log in
Already have an account? Log in here.
New posts