Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

ابنِ انشا

دیکھ ہمارے ماتھے پریہ دشت طلب کی دھول میاں
ہم سے عجب ترا درد کا ناطہ، دیکھ ہمیں مت بھول میاں

اہل وفا سے بات نہ کرنا، ہوگا تیرا اصول میاں
ہم کیوں چھوڑیں ان گلیوں کا معمول میاں

یونہی تو دشت میں‌نہیں پہنچے، ہونہی تو نہیں جوگ لیا
بستی بستی کانٹے دیکھے، جنگل جنگل پھول پھول میاں

یہ تو کہوکبھی عشق کیا ہے؟‌جگ میں ہوئے ہو رسوا بھی؟
اس کے سوا ہم کچھ بھی نہ پوچھیں، باقی بات فضول میاں

نصب کریں محراب تمنا، دیدہ دل کو فرش کریں
سنتے ہیں وہ کوئے وفا میں آج کریں گے نزول میاں

سن تو لیا کسی نار کی خاطر کاٹا کوہ، نکالی نہر
ایک ذرا سے قصے کو اب دیتے کیوں ہو طول میاں


کھیلنے دیں انہیں عشق کی بازی، کھیلیں گے تو سیکھیں گے
قیس کی یا فرہاد کی خاطر کھولیں کیا اسکول میاں

اب تو ہمیں منظور ہے یہ بھی، شہر سے نکلیں، رسوا ہوں
تجھ کو دیکھا، باتیں ‌کر لیں، محنت ہوئی وصول میاں

انشاء جی کیا عذر ہے تم کو، نقدئ دل و جاں نذر کرو
روپ نگر کے ناکے پر یہ لگتا ہے محصول میاں​
 
دیکھ ہماری دید کے کارن کیسا قابل دید ہوا
ایک ستارہ بیٹھے بیٹھے تابش میں خورشید ہوا
آج تو جانی رستہ تکتے، شام کا چاند پدید ہوا
تو نے انکار کیا تھا، دل کب نا امید ہوا
آن کے اس بیمار کو دیکھے، تجھ کو بھی توفیق ہوئی؟
لب پر اس کے نام تھا تیرا، جب بھی درد شدید ہوا
ہاں اس نے جھلکی دکھلائی، ایک ہی پل کو دریچے میں
جانو اک بجلی لہرائی، عالم اک شہید ہوا
تو نے ہم سے کلام بھی چھوڑا، عرض وفا کے سنتے ہی
پہلے کون سا قریب تھا ہم سے، اب تو اور بعید ہوا
دنیا کے سب کارج چھوڑے، نام پہ تیرے انشاء نے
اور اسے کیا تھوڑے غم تھے؟ تیرا عشق مزید ہوا​
 
دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے، اب آن ملو تو بہتر ہے
اس بات سے ہم کو کیا مطلب، یہ کیسے ہو یہ کیونکر ہو

اک بھیک کے دونو کاسے ہیں، ایک پیاس کے دونوں پیاسے ہیں
ہم کھیتی ہیں، تم بادل ہو، ہم ندیا ہیں تم ساگر ہو

یہ دل ہے کہ جلتے سینے میں، ایک درد کا پھوڑا، الھڑ سا
نا گپت رہے نا پھوٹ بہے، کوئی مرہم کوئی نشتر ہو

ہم سانجھ سمے کی چھایاں ہیں، تم چڑھتی رات کے چندر ماں
ہم جاتے ہیں، تم آتے ہو، پھر میل کی صورت کیونکر ہو

اب حسن کا رتبہ عالی ہے، اب حسن سے صحرا خالی ہے
چل بستی میں بنجارہ بن، چل نگری میں سوداگر ہو

جس چیز سے تجھ کو نسبت ہے، جس چیز کی تجھ کو چاہت ہے
وہ سونا ہو، وہ ہیرا ہو، وہ ماٹی ہو یا کنکر ہو

اب انشاء جی کو بلانا کیا، اب پیار کے دیپ جلانا کیا
جب دھوپ اور چھایا ایک سے ہوں، جب دن اور رات برابر ہو

وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں، وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں
اس سکھ کے سپنے کیا دیکھیں، جب دکھ کا سورج سر پر ہو​
 
دوستو فرصت دلدارئ دنیا تھی کہاں
اپنے شعروں کےتو ممدوح تھے موزوں بدناں
یوں ملا اس کا صلہ، شان وفا کے شایاں
عشق مہجورو تپاں، وصل نصیب دگراں
ہاں ہمیں دعویٰ زباں‌کا ہے، مگر اس کا عنواں
اپنی دلی یہ جہاں، اپنی محبت ہے زباں
تم سے پہلے ہی میاں، عشق کے قدموں کے نقوش
ماہ و مریخ کے ہاں، زہرہ سے کاہکشاں
تم نے کس مصر کے بازار میں کیا مول لیا؟
یوسف سل ہے یہاں سینئہ انشاء میں‌نہاں
آج ہم منزل مقصود سے مایوس ہوئے
ہر طرف راہبراں، راہبراں، راہبراں
وحشت دل کے خریدار بھی ناپید ہوئے
کون اب عشق کے بازار میں کھولے گا دکاں​
 
خوب ہمارا ساتھ نبھایا، بیچ بھنور کے چھوڑا ہاتھ
ہم کو ڈبو کر خود ساحل پر جا نکلے ہو، اچھی بات

شام سے لے کر پو پھٹنے تک کتنی رتیں‌بدلتی ہیں
آس کی کلیاں، یاس کی پت جھڑ،صبح کے اشکوں کی برسات

اپنا کام تو سمجھانا ہے اے دل رشتے جوڑ کہ توڑ
ہجر کی راتیں لاکھوں‌کروڑوں، وصل کے لمحے پانچ کہ سات

ہم سے ہمارا عشق نہ چھینو، حسن کی ہم کو بھیک نہ دو
تم لوگوں کے دور ٹھکانے، ہم لوگوں‌کی کیا اوقات

روگ تمہارا اور ہے انشاء، بیدوں سے کیوں چہل کرو
درد کے سودے کرنے والے، درد سے پا سکتے ہیں نجات؟​
 
ہم گھوم چکے بستی بن میں
اک آس کی پھانس لئے من میں
کوئی ساجن ہو، کوئی پیارا ہو
کوئی دیپک ہو، کوئی تارہ ہو
جب جیون رات اندھیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو

جب ساون بادل چھائے ہوں
جب پھاگن پھول کھلائے ہوں
جب چندا روپ لٹاتا ہو
جب سورج دھوپ نہاتا ہو
یا شام نے بستی گھیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو

ہاں دل کا دامن پھیلا ہے
کیوں گوری کا دل میلا ہے
ہم کب تک پیت کے دھوکے میں
کب دید سے دل کو سیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو

کیا جھگڑا سود خسارے کا
یہ کاج نہیں بنجارے ک
سب سونا روپا لے جائے
سب دنیا، دنیا لے جائے
تم ایک مجھے بہتیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو​
 
اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا
وہ شہر، وہ کوچہ، وہ مکاں‌یاد رہے گا

وہ ٹیس کہ ابھری تھی ادھر یاد رہے گی
وہ درد کہ اٹھا تھا یہاں‌یاد رہے گا

ہم شوق کے شعلے کی لپک بھول بھی جائیں
وہ شمع فسردہ کا دھواں یاد رہے گا

ہاں بزم شبانہ تیری میں ہمیں شوق جو اس دن
ہم تو تری جانب نگراں یاد رہے گا

کچھ میر کے ابیات تھے، کچھ فیض کے مصرعے
اک درد کا تھا، جن میں بیان یاد رہے گا

جان بخش سی اس برگ گل تر کی تراوت
وہ لمس عزیز دو جہاں یاد رہے گا

ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے
تو یاد رہے گا، ہمیں ہاں یاد رہے گا​
 
فرض کروہم اہل وفا ہوں،فرض کرودیوانے ہوں
فرض کرویہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں

فرض کرویہ جی کی بپتا، جی سے جوڑ سنائی ہو
فرض کروابھی اور ہو اتنی، آدھی ہم نے چھپائی ہو

فرض کروتمھیں خوش کرنے کے ڈھونڈے ہم نے بہانے ہوں
فرض کرویہ نین تمھارے سچ مچ کے میخانے ہوں

فرض کرویہ روگ ہو جھوٹا، جھوٹی پیت ہماری ہو
فرض کرواس پیت کے روگ میں سانس بھی ہم پر بھاری ہو

فرض کرویہ جوگ بجوگ ہم نے ڈھونگ رچایا ہو
فرض کروبس یہی حقیقت باقی سب کچھ مایا ہو

دیکھ مری جاں کہ گئے باہو، کون دلوں کی جانے “ہو“
بستی بستی صحرا صحرا، لاکھوں‌کریں دیوانے “ہو“

جوگی بھی جو نگر نگر میں مارے مارے پھرتے ہیں
کاسہ لئے بھبوت رمائے سب کے دوارے پھرتے ہیں

شاعر بھی جو میٹھی بولی بول کے من کو ہرتے ہیں
بنجارے جو اونچے داموں جی کے سودے کرتے ہیں

ان میں سچے موتی بھی ہیں، ان میں‌کنکر پتھر بھی
ان میں اتھلے پانی بھی ہیں، ان میں گہرے ساگر بھی

گوری دیکھ کے آگے بڑھنا، سب کا جھوٹا سچا، “ہو“
ڈوبنے والی ڈوب گئی، وہ گھڑا تھا جس کا کچا “ہو“​
 
گوری اب تو آپ سمجھ لے، ہم ساجن یا دشمن ہیں
گوری تو ہے جسم ہمارا، ہم تیرا پیرہن ہیں

نگری نگری گھوم رہےہیں، سخیو اچھا موقع ہے
روپ سروپ کی بھکشا دے دے، ہم اک پھیلا دامن ہیں

تیرے چاکر ہو کر پایا درد بہت رسوائی بہت
تجھ سے تجھے جو ٹکے کمائے، آج تجھی کو ارپن ہیں

لوگو میلے تن من دھن کی ہم کو سخت مناہی ہے
لوگو ہم اس چھوت سے بھاگیں، ہم تو کھرے برہمن ہیں

پوچھو کھیل بنانے والے، پوچھو کھیلنے والے سے
ہم کیا جانیں کس کی بازی، ہم جو پتے باون

صحرا سے جو پھول چنے تھے، ،ان سے روح‌معطر ہے
اب جو خار سمیٹنا چاہیں، بستی بستی گلشن ہیں

دو دو بوند کو اپنی کھیتی ترسے ہے اور ترسے گی
کہنے کو تو دوست ہمارے بھادوں ہیں اور ساون ہیں​
 
ہم ان سے اگر مل بیٹھے ہیں، کیا دوش ہمارا ہے
کچھ اپنی جسارت ہوتی ہے، کچھ ان کا اشارہ ہوتاہے

کٹنے لگیں راتیں آنکھوں میں، دیکھا نہیں پلکوں پر اکثر
یا شام غریباں کا جگنو، یا صبح کا تارا ہوتا ہے

ہم دل کو لئے ہر دیس پھرے، اس جنس کے گاہک نہ مل سکے
اے بنجارو، ہم لوگ چلے، ہم کو تو خسارہ ہوتا ہے

دفتر سے اٹھے، کیفے میں گئے، کچھ شعر کہے، کچھ کافی پی
پوچھو جو معاش کا انشاء جی یوں اپنا گذارا ہوتا ہے​
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat