Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

امجد اسلام امجد

آئینوں میں عکس نہ ہوں تو حیرت رہتی ہے
امجد اسلام امجد


آئینوں میں عکس نہ ہوں تو حیرت رہتی ہے
جیسے خالی آنکھوں میں بھی وحشت رہتی ہے
ہر دم دنیا کے ہنگامے گھیرے رکھتے تھے
جب سے تیرے دھیان لگے ہیں فرصت رہتی ہے
کرنی ہے تو کھل کے کرو انکار وفا کی بات
بات ادھوری رہ جائے تو حسرت رہتی ہے
شہر سخن میں ایسا کچھ کر عزت بن جائے
سب کچھ مٹی ہو جاتا ہے عزت رہتی ہے
بنتے بنتے ڈھ جاتی ہے دل کی ہر تعمیر
خواہش کے بہروپ میں شاید قسمت رہتی ہے
سائے لرزتے رہتے ہیں شہروں کی گلیوں میں
رہتے تھے انسان جہاں اب دہشت رہتی ہے
موسم کوئی خوشبو لے کر آتے جاتے ہیں
کیا کیا ہم کو رات گئے تک وحشت رہتی ہے
دھیان میں میلہ سا لگتا ہے بیتی یادوں کا
اکثر اس کے غم سے دل کی صحبت رہتی ہے
پھولوں کی تختی پر جیسے رنگوں کی تحریر
لوح سخن پر ایسے امجدؔ شہرت رہتی ہے
 
تمہارا ہاتھ جب میرے لرزتے ہاتھ سے چھوٹا خزاں کے آخری دن تھے
امجد اسلام امجد


تمہارا ہاتھ جب میرے لرزتے ہاتھ سے چھوٹا خزاں کے آخری دن تھے
وہ محکم بے لچک وعدہ کھلونے کی طرح ٹوٹا خزاں کے آخری دن تھے
بہار آئی نہ تھی لیکن ہواؤں میں نئے موسم کی خوشبو رقص کرتی تھی
اچانک جب کہا تم نے مرے منہ پر مجھے جھوٹا خزاں کے آخری دن تھے
وہ کیا دن تھے یہیں ہم نے بہاروں کی دعا کی تھی کسی نے بھی نہیں سوچا
چمن والوں نے مل کر جب خود اپنا ہی چمن لوٹا خزاں کے آخری دن تھے
لکھا تھا ایک تختی پر کوئی بھی پھول مت توڑے مگر آندھی تو ان پڑھ تھی
سو جب وہ باغ سے گزری کوئی اکھڑا کوئی ٹوٹا خزاں کے آخری دن تھے
بہت ہی زور سے پیٹے ہوا کے بین پر سینے ہمارے خیر خواہوں نے
کہ چاندی کے ورق جیسا سمے نے جب ہمیں کوٹا خزاں کے آخری دن تھے
نہ رت تھی آندھیوں کی یہ نہ موسم تھا ہواؤں کا تو پھر یہ کیا ہوا امجدؔ
ہر اک کونپل ہوئی زخمی ہوا مجروح ہر بوٹا خزاں کے آخری دن تھے
 
یہ جو حاصل ہمیں ہر شے کی فراوانی ہے
امجد اسلام امجد


یہ جو حاصل ہمیں ہر شے کی فراوانی ہے
یہ بھی تو اپنی جگہ ایک پریشانی ہے
زندگی کا ہی نہیں ٹھور ٹھکانہ معلوم
موت تو طے ہے کہ کس وقت کہاں آنی ہے
کوئی کرتا ہی نہیں ذکر وفاداری کا
ان دنوں عشق میں آسانی ہی آسانی ہے
کب یہ سوچا تھا کبھی دوست کہ یوں بھی ہوگا
تیری صورت تری آواز سے پہچانی ہے
چین لینے ہی نہیں دیتی کسی پل مجھ کو
روز اول سے مرے ساتھ جو حیرانی ہے
یہ بھی ممکن ہے کہ آبادی ہو اس سے آگے
یہ جو تا حد نظر پھیلتی ویرانی ہے
کیوں ستارے ہیں کہیں اور کہیں آنسو ہیں
آنکھ والوں نے یہی رمز نہیں جانی ہے
تخت سے تختہ بہت دور نہیں ہوتا ہے
بس یہی بات ہمیں آپ کو بتلانی ہے
دوست کی بزم ہی وہ بزم ہے امجدؔ کہ جہاں
عقل کو ساتھ میں رکھنا بڑی نادانی ہے

لاجواب جناب
بہت خوب اِنتخاب
کمال
 
بہت عمدہ انداز بیاں ہے
 
ایک کمرۂ امتحان میں
امجد اسلام امجد


بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں پرچے کو
بے خیال ہاتھوں سے
ان بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتے ہیں
یا سوال نامے کو دیکھتے ہی جاتے ہیں
سوچتے نہیں اتنا جتنا سر کھجاتے ہیں
ہر طرف کنکھیوں سے بچ بچا کے تکتے ہیں
دوسروں کے پرچوں کو رہنما سمجھتے ہیں
شاید اس طرح کوئی راستہ ہی مل جائے
بے نشاں جوابوں کا کچھ پتہ ہی مل جائے
مجھ کو دیکھتے ہیں تو
یوں جواب کاپی پر حاشیے لگاتے ہیں
دائرے بناتے ہیں
جیسے ان کو پرچے کے سب جواب آتے ہیں
اس طرح کے منظر میں
امتحان گاہوں میں دیکھتا ہی رہتا تھا
نقل کرنے والوں کے
نت نئے طریقوں سے
آپ لطف لیتا تھا دوستوں سے کہتا تھا
کس طرف سے جانے یہ
آج دل کے آنگن میں اک خیال آیا ہے
سیکڑوں سوالوں سا اک سوال لایا ہے
وقت کی عدالت میں
زندگی کی صورت میں
یہ جو تیرے ہاتھوں میں اک سوال نامہ ہے
کس نے یہ بنایا ہے
کس لئے بنایا ہے
کچھ سمجھ میں آیا ہے
زندگی کے پرچے کے
سب سوال لازم ہیں سب سوال مشکل ہیں
بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتا ہوں پرچے کو
بے خیال ہاتھوں سے
ان بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتا ہوں
کوئی دیکھتا ہے تو
دائرے بناتا ہوں
حاشیے لگاتا ہوں
یا سوال نامے کو دیکھتا ہی جاتا ہوں

Kamre imtehan ki surtehal ko jis tarhan amjad islam amjad sb na beyan kya wah kya bat ha
 
کمال کی شاعری لا جواب انداز بیاں
اردو ادب کے شہکار
 
کسی کی آنکھ میں خود کو تلاش کرنا ہے
امجد اسلام امجد


کسی کی آنکھ میں خود کو تلاش کرنا ہے
پھر اس کے بعد ہمیں آئنوں سے ڈرنا ہے
فلک کی بند گلی کے فقیر ہیں تارے!
کہ گھوم پھر کے یہیں سے انہیں گزرنا ہے
جو زندگی تھی مری جان! تیرے ساتھ گئی
بس اب تو عمر کے نقشے میں وقت بھرنا ہے
جو تم چلو تو ابھی دو قدم میں کٹ جائے
جو فاصلہ مجھے صدیوں میں پار کرنا ہے
تو کیوں نہ آج یہیں پر قیام ہو جائے
کہ شب قریب ہے آخر کہیں ٹھہرنا ہے
وہ میرا سیل طلب ہو کہ تیری رعنائی
چڑھا ہے جو بھی سمندر اسے اترنا ہے
سحر ہوئی تو ستاروں نے موند لیں آنکھیں
وہ کیا کریں کہ جنہیں انتظار کرنا ہے
یہ خواب ہے کہ حقیقت خبر نہیں امجدؔ
مگر ہے جینا یہیں پر یہیں پہ مرنا ہے
 
آئینوں میں عکس نہ ہوں تو حیرت رہتی ہے
امجد اسلام امجد


آئینوں میں عکس نہ ہوں تو حیرت رہتی ہے
جیسے خالی آنکھوں میں بھی وحشت رہتی ہے
ہر دم دنیا کے ہنگامے گھیرے رکھتے تھے
جب سے تیرے دھیان لگے ہیں فرصت رہتی ہے
کرنی ہے تو کھل کے کرو انکار وفا کی بات
بات ادھوری رہ جائے تو حسرت رہتی ہے
شہر سخن میں ایسا کچھ کر عزت بن جائے
سب کچھ مٹی ہو جاتا ہے عزت رہتی ہے
بنتے بنتے ڈھ جاتی ہے دل کی ہر تعمیر
خواہش کے بہروپ میں شاید قسمت رہتی ہے
سائے لرزتے رہتے ہیں شہروں کی گلیوں میں
رہتے تھے انسان جہاں اب دہشت رہتی ہے
موسم کوئی خوشبو لے کر آتے جاتے ہیں
کیا کیا ہم کو رات گئے تک وحشت رہتی ہے
دھیان میں میلہ سا لگتا ہے بیتی یادوں کا
اکثر اس کے غم سے دل کی صحبت رہتی ہے
پھولوں کی تختی پر جیسے رنگوں کی تحریر
لوح سخن پر ایسے امجدؔ شہرت رہتی ہے
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat