Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

امجد اسلام امجد

تمہارا ہاتھ جب میرے لرزتے ہاتھ سے چھوٹا خزاں کے آخری دن تھے
امجد اسلام امجد


تمہارا ہاتھ جب میرے لرزتے ہاتھ سے چھوٹا خزاں کے آخری دن تھے
وہ محکم بے لچک وعدہ کھلونے کی طرح ٹوٹا خزاں کے آخری دن تھے
بہار آئی نہ تھی لیکن ہواؤں میں نئے موسم کی خوشبو رقص کرتی تھی
اچانک جب کہا تم نے مرے منہ پر مجھے جھوٹا خزاں کے آخری دن تھے
وہ کیا دن تھے یہیں ہم نے بہاروں کی دعا کی تھی کسی نے بھی نہیں سوچا
چمن والوں نے مل کر جب خود اپنا ہی چمن لوٹا خزاں کے آخری دن تھے
لکھا تھا ایک تختی پر کوئی بھی پھول مت توڑے مگر آندھی تو ان پڑھ تھی
سو جب وہ باغ سے گزری کوئی اکھڑا کوئی ٹوٹا خزاں کے آخری دن تھے
بہت ہی زور سے پیٹے ہوا کے بین پر سینے ہمارے خیر خواہوں نے
کہ چاندی کے ورق جیسا سمے نے جب ہمیں کوٹا خزاں کے آخری دن تھے
نہ رت تھی آندھیوں کی یہ نہ موسم تھا ہواؤں کا تو پھر یہ کیا ہوا امجدؔ
ہر اک کونپل ہوئی زخمی ہوا مجروح ہر بوٹا خزاں کے آخری دن تھ
 
صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں
امجد اسلام امجد


صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں
دھوپ آنکھوں تک آ جائے تو خواب بکھرنے لگتے ہیں
انسانوں کے روپ میں جس دم سائے بھٹکیں سڑکوں پر
خوابوں سے دل چہروں سے آئینے ڈرنے لگتے ہیں
کیا ہو جاتا ہے ان ہنستے جیتے جاگتے لوگوں کو
بیٹھے بیٹھے کیوں یہ خود سے باتیں کرنے لگتے ہیں
عشق کی اپنی ہی رسمیں ہیں دوست کی خاطر ہاتھوں میں
جیتنے والے پتے بھی ہوں پھر بھی ہرنے لگتے ہیں
دیکھے ہوئے وہ سارے منظر نئے نئے دکھلائی دیں
ڈھلتی عمر کی سیڑھی سے جب لوگ اترنے لگتے ہیں
بیداری آسان نہیں ہے آنکھیں کھلتے ہی امجدؔ
قدم قدم ہم سپنوں کے جرمانے بھرنے لگتے ہیں
 
زندگی درد بھی دوا بھی تھی
امجد اسلام امجد


زندگی درد بھی دوا بھی تھی
ہم سفر بھی گریز پا بھی تھی
کچھ تو تھے دوست بھی وفا دشمن
کچھ مری آنکھ میں حیا بھی تھی
دن کا اپنا بھی شور تھا لیکن
شب کی آواز بے صدا بھی تھی
عشق نے ہم کو غیب دان کیا
یہی تحفہ یہی سزا بھی تھی
گرد باد وفا سے پہلے تک
سر پہ خیمہ بھی تھا ردا بھی تھی
ماں کی آنکھیں چراغ تھیں جس میں
میرے ہمراہ وہ دعا بھی تھی
کچھ تو تھی رہ گزر میں شمع طلب
اور کچھ تیز وہ ہوا بھی تھی
بے وفا تو وہ خیر تھا امجدؔ
لیکن اس میں کہیں وفا بھی تھی
 
دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے
امجد اسلام امجد


دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے
اس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھہر جاتی ہے
جیسے پانا ہی اسے اصل میں مر جانا ہے
بول اے شام سفر رنگ رہائی کیا ہے
دل کو رکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے
کون ابھرتے ہوئے مہتاب کا رستہ روکے
اس کو ہر طور سوئے دشت سحر جانا ہے
میں کھلا ہوں تو اسی خاک میں ملنا ہے مجھے
وہ تو خوشبو ہے اسے اگلے نگر جانا ہے
وہ ترے حسن کا جادو ہو کہ میرا غم دل
ہر مسافر کو کسی گھاٹ اتر جانا ہے
 
بہت خوب جناب کیا انداز بیان ہے زبردست
 
اگرچہ کوئی بھی اندھا نہیں تھا
امجد اسلام امجد


اگرچہ کوئی بھی اندھا نہیں تھا
لکھا دیوار کا پڑھتا نہیں تھا
کچھ ایسی برف تھی اس کی نظر میں
گزرنے کے لئے رستہ نہیں تھا
تمہی نے کون سی اچھائی کی ہے
چلو مانا کہ میں اچھا نہیں تھا
کھلی آنکھوں سے ساری عمر دیکھا
اک ایسا خواب جو اپنا نہیں تھا
میں اس کی انجمن میں تھا اکیلا
کسی نے بھی مجھے دیکھا نہیں تھا
سحر کے وقت کیسے چھوڑ جاتا
تمہاری یاد تھی سپنا نہیں تھا
کھڑی تھی رات کھڑکی کے سرہانے
دریچے میں وہ چاند اترا نہیں تھا
دلوں میں گرنے والے اشک چنتا
کہیں اک جوہری ایسا نہیں تھا
کچھ ایسی دھوپ تھی ان کے سروں پر
خدا جیسے غریبوں کا نہیں تھا
ابھی حرفوں میں رنگ آتے کہاں سے
ابھی میں نے اسے لکھا نہیں تھا
تھی پوری شکل اس کی یاد مجھ کو
مگر میں نے اسے دیکھا نہیں تھا
برہنہ خواب تھے سورج کے نیچے
کسی امید کا پردا نہیں تھا
ہے امجدؔ آج تک وہ شخص دل میں
کہ جو اس وقت بھی میرا نہیں تھا
 
سینکڑوں ہی رہنما ہیں راستہ کوئی نہیں
امجد اسلام امجد


سینکڑوں ہی رہنما ہیں راستہ کوئی نہیں
آئنے چاروں طرف ہیں دیکھتا کوئی نہیں
سب کے سب ہیں اپنے اپنے دائرے کی قید میں
دائروں کی حد سے باہر سوچتا کوئی نہیں
صرف ماتم اور زاری سے ہی جس کا حل ملے
اس طرح کا تو کہیں بھی مسئلہ کوئی نہیں
یہ جو سائے سے بھٹکتے ہیں ہمارے ارد گرد
چھو کے ان کو دیکھیے تو واہمہ کوئی نہیں
جو ہوا یہ درج تھا پہلے ہی اپنے بخت میں
اس کا مطلب تو ہوا کہ بے وفا کوئی نہیں
تیرے رستے میں کھڑے ہیں صرف تجھ کو دیکھنے
مدعا پوچھو تو اپنا مدعا کوئی نہیں
کن‌ فکاں کے بھید سے مولیٰ مجھے آگاہ کر
کون ہوں میں گر یہاں پر دوسرا کوئی نہیں
وقت ایسا ہم سفر ہے جس کی منزل ہے الگ
وہ سرائے ہے کہ جس میں ٹھہرتا کوئی نہیں
گاہے گاہے ہی سہی امجدؔ مگر یہ واقعہ
یوں بھی لگتا ہے کہ دنیا کا خدا کوئی نہی
 
اس نے آہستہ سے جب پکارا مجھے
امجد اسلام امجد


اس نے آہستہ سے جب پکارا مجھے
جھک کے تکنے لگا ہر ستارا مجھے
تیرا غم اس فشار شب و روز میں
ہونے دیتا نہیں بے سہارا مجھے
ہر ستارے کی بجھتی ہوئی روشنی
میرے ہونے کا ہے استعارا مجھے
اے خدا کوئی ایسا بھی ہے معجزہ
جو کہ مجھ پر کرے آشکارا مجھے
کوئی سورج نہیں کوئی تارا نہیں
تو نے کس جھٹپٹے میں اتارا مجھے
عکس امروز میں نقش دیروز میں
اک اشارا تجھے اک اشارا مجھے
ہیں ازل تا ابد ٹوٹتے آئنے
آگہی نے کہاں لا کے مارا مجھے
 
سائے ڈھلنے چراغ جلنے لگے
امجد اسلام امجد


سائے ڈھلنے چراغ جلنے لگے
لوگ اپنے گھروں کو چلنے لگے
اتنی پر پیچ ہے بھنور کی گرہ
جیسے نفرت دلوں میں پلنے لگے
دور ہونے لگی جرس کی صدا
کارواں راستے بدلنے لگے
اس کے لہجے میں برف تھی لیکن
چھو کے دیکھا تو ہاتھ جلنے لگے
اس کے بند قبا کے جادو سے
سانپ سے انگلیوں میں چلنے لگے
راہ گم کردہ طائروں کی طرح
پھر ستارے سفر پہ چلنے لگے
پھر نگاہوں میں دھول اڑتی ہے
عکس پھر آئنے بدلنے لگے
 
رات میں اس کشمکش میں ایک پل سویا نہیں
امجد اسلام امجد


رات میں اس کشمکش میں ایک پل سویا نہیں
کل میں جب جانے لگا تو اس نے کیوں روکا نہیں
یوں اگر سوچوں تو اک اک نقش ہے سینے پہ نقش
ہائے وہ چہرہ کہ پھر بھی آنکھ میں بنتا نہیں
کیوں اڑاتی پھر رہی ہے در بدر مجھ کو ہوا
میں اگر اک شاخ سے ٹوٹا ہوا پتا نہیں
آج تنہا ہوں تو کتنا اجنبی ماحول ہے
ایک بھی رستے نے تیرے شہر میں روکا نہیں
حرف برگ خشک بن کر ٹوٹتے گرتے رہے
غنچۂ عرض تمنا ہونٹ پر پھوٹا نہیں
درد کا رستہ ہے یا ہے ساعت روز حساب
سیکڑوں لوگوں کو روکا ایک بھی ٹھہرا نہیں
شبنمی آنکھوں کے جگنو کانپتے ہونٹوں کے پھول
ایک لمحہ تھا جو امجدؔ آج تک گزرا نہیں
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat