Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

امجد اسلام امجد

جب بھی آنکھوں میں ترے وصل کا لمحہ چمکا
امجد اسلام امجد


جب بھی آنکھوں میں ترے وصل کا لمحہ چمکا
چشم بے آب کی دہلیز پہ دریا چمکا
فصل گل آئی کھلے باغ میں خوشبو کے علم
دل کے ساحل پہ ترے نام کا تارا چمکا
عکس بے نقش ہوئے آئنے دھندلانے لگے
درد کا چاند سر بام تمنا چمکا
رنگ آزاد ہوئے گل کی گرہ کھلتے ہی
ایک لمحے میں عجب باغ کا چہرا چمکا
پیرہن میں بھی ترا حسن نہ تھا حشر سے کم
جب کھلے بند قبا اور ہی نقشہ چمکا
دل کی دیوار پہ اڑتے رہے ملبوس کے رنگ
دیر تک ان میں تری یاد کا سایا چمکا
روح کی آنکھ چکا چوند ہوئی جاتی ہے
کس کی آہٹ کا مرے کان میں نغمہ چمکا
لہریں اٹھ اٹھ کے مگر اس کا بدن چومتی تھیں
وہ جو پانی میں گیا خوب ہی دریا چمکا
ہجر پنپا نہ ترا وصل ہمیں راس آیا
کسی میدان میں تارا نہ ہمارا چمکا
جیسے بارش سے دھلے صحن گلستاں امجدؔ
آنکھ جب خشک ہوئی اور وہ چہرا چمکا
 
Buht kamal ki update hai
umdha intikhab ha
 
پردے میں لاکھ پھر بھی نمودار کون ہے
امجد اسلام امجد


پردے میں لاکھ پھر بھی نمودار کون ہے
ہے جس کے دم سے گرمئ بازار کون ہے
وہ سامنے ہے پھر بھی دکھائی نہ دے سکے
میرے اور اس کے بیچ یہ دیوار کون ہے
باغ وفا میں ہو نہیں سکتا یہ فیصلہ
صیاد یاں پہ کون گرفتار کون ہے
مانا نظر کے سامنے ہے بے شمار دھند
ہے دیکھنا کہ دھند کے اس پار کون ہے
کچھ بھی نہیں ہے پاس پہ رہتا ہے پھر بھی خوش
سب کچھ ہے جس کے پاس وہ بیزار کون ہے
یوں تو دکھائی دیتے ہیں اسرار ہر طرف
کھلتا نہیں کہ صاحب اسرار کون ہے
امجدؔ الگ سی آپ نے کھولی ہے جو دکاں
جنس ہنر کا یاں یہ خریدار کون ہے
 
تشہیر اپنے درد کی ہر سو کرائیے
امجد اسلام امجد


تشہیر اپنے درد کی ہر سو کرائیے
جی چاہتا ہے منت طفلاں اٹھائیے
خوشبو کا ہاتھ تھام کے کیجے تلاش رنگ
پاؤں کے نقش دیکھ کے رستہ بنائیے
پھر آج پتھروں سے ملاقات کیجیے
پھر آج سطح آب پہ چہرے بنائیے
ہر انکشاف درد کے پردے میں آئے گا
گر ہو سکے تو خود سے بھی خود کو چھپائے
پھولوں کا راستہ نہیں یارو مرا سفر
پاؤں عزیز ہیں تو ابھی لوٹ جائیے
کب تک حنا کے نام پہ دیتے رہیں لہو
کب تک نگار درد کو دلہن بنائیے
امجدؔ متاع عمر ذرا دیکھ بھال کے
ایسا نہ ہو کہ بعد میں آنسو بہائیے
 
کبھی رقص شام بہار میں اسے دیکھتے
امجد اسلام امجد


کبھی رقص شام بہار میں اسے دیکھتے
کبھی خواہشوں کے غبار میں اسے دیکھتے
مگر ایک نجم سحر نما کہیں جاگتا
ترے ہجر کی شب تار میں اسے دیکھتے
وہ تھا ایک عکس گریز پا سو نہیں رکا
کٹی عمر دشت و دیار میں اسے دیکھتے
وہ جو بزم میں رہا بے خبر کوئی اور تھا
شب وصل میرے کنار میں اسے دیکھتے
جو ازل کی لوح پہ نقش تھا وہی عکس تھا
کبھی آپ قریۂ دار میں اسے دیکھتے
وہ جو کائنات کا نور تھا نہیں دور تھا
مگر اپنے قرب و جوار میں اسے دیکھتے
یہی اب جو ہے یہاں نغمہ خواں یہی خوش بیاں
کسی شام کوئے نگار میں اسے دیکھتے
 
ہوائیں لاکھ چلیں لو سنبھلتی رہتی ہے
امجد اسلام امجد

ہوائیں لاکھ چلیں لو سنبھلتی رہتی ہے
دیے کی روح میں کیا چیز جلتی رہتی ہے
کسے خبر کہ یہ اک دن کدھر کو لے جائے
لہو کی موج جو سر میں اچھلتی رہتی ہے
اگر کہوں تو تمہیں بھی نہ اعتبار آئے
جو آرزو مرے دل میں مچلتی رہتی ہے
مدار سے نہیں ہٹتا کوئی ستارا کیوں
یہ کس حصار میں ہر چیز چلتی رہتی ہے
وہ آدمی ہوں ستارے ہوں یا تمنائیں
سمے کی راہ میں ہر شے بدلتی رہتی ہے
یوںہی ازل سے ہے امجدؔ زمین گردش میں
کبھی سحر تو کبھی رات ڈھلتی رہتی ہے
 
پسپا ہوئی سپاہ تو پرچم بھی ہم ہی تھے
امجد اسلام امجد

پسپا ہوئی سپاہ تو پرچم بھی ہم ہی تھے
حیرت کی بات یہ ہے کہ برہم بھی ہم ہی تھے
گرنے لگے جو سوکھ کے پتے تو یہ کھلا
گلشن تھے ہم جو آپ تو موسم بھی ہم ہی تھے
ہم ہی تھے تیرے وصل سے محروم عمر بھر
لیکن تیرے جمال کے محرم بھی ہم ہی تھے
منزل کی بے رخی کے گلہ مند تھے ہمیں
ہر راستے میں سنگ مجسم بھی ہم ہی تھے
اپنی ہی آستیں میں تھا خنجر چھپا ہوا
امجدؔ ہر ایک زخم کا مرہم بھی ہم ہی تھے
 
کتنی سرکش بھی ہو سرپھری یہ ہوا رکھنا روشن دیا
امجد اسلام امجد


کتنی سرکش بھی ہو سرپھری یہ ہوا رکھنا روشن دیا
رات جب تک رہے اے مرے ہم نوا رکھنا روشن دیا
روشنی کا وظیفہ نہیں وہ چلے راستہ دیکھ کر
وہ تو آزاد ہے مثل موج صبا رکھنا روشن دیا
رات کیسی بھی ہو خوف کے چور کی گھات کیسی بھی ہو
اپنی امید کا اپنے وشواس کا رکھنا روشن دیا
شب کی بے انت ظلمت سے لڑ سکتی ہے ایک ننھی سی لو
راہ بھولے ہوؤں کو ہے بانگ درا رکھنا روشن دیا
آشنا کی صدا گھپ اندھیرے میں بن جاتی ہے روشنی
اس شب تار میں اپنی آواز کا رکھنا روشن دیا
روشنی کی شریعت میں روز ازل سے یہی درج ہے
جوت سے جوت جلتی رہے گی سدا رکھنا روشن دیا
مجھ سے امجدؔ کہا جھلملاتے ہوئے اختر شام نے
اس کو آنا ہی ہے وہ ضرور آئے گا رکھنا روشن دیا
 
کھیل اس نے دکھا کے جادو کے
امجد اسلام امجد


کھیل اس نے دکھا کے جادو کے
میری سوچوں کے قافلے لوٹے
یا تو دھڑکن ہی بند ہو جائے
یا یہ خاموشیٔ فضا ٹوٹے
تم جہاں بھی ہو میرے دل میں ہو
تم مرے پاس تھے تو ہر سو تھے
نغمۂ گل کی باس آتی ہے
تار کس نے ہلائے خوشبو کے
اس کو لائیں تو ایک بات بھی ہے
ورنہ سب دوست آشنا جھوٹے
نخل امید سبز ہے امجدؔ
لاکھ جھکڑ چلا کئے لو کے
 
بہترین شاعری
لا جواب الفاظ
اس فورم میں شامل کرنے کے لیے شکریہ
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat