Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

امجد اسلام امجد

بہترین اپڈیٹ بہترین غزلیں
عمدہ اِنتخاب
 
Wah amjad Islam amjad sb ki kya bat ha boht undah or deep shaheri maza a gya
 
غبار دشت طلب میں ہیں رفتگاں کیا کیا
امجد اسلام امجد


غبار دشت طلب میں ہیں رفتگاں کیا کیا
چمک رہے ہیں اندھیرے میں استخواں کیا کیا
دکھا کے ہم کو ہمارا ہی قاش قاش بدن
دلاسے دیتے ہیں دیکھو تو قاتلاں کیا کیا
گھٹی دلوں کی محبت تو شہر بڑھنے لگا
مٹے جو گھر تو ہویدا ہوئے مکاں کیا کیا
پلٹ کے دیکھا تو اپنے نشان پا بھی نہ تھے
ہمارے ساتھ سفر میں تھے ہمرہاں کیا کیا
ہلاک نالۂ شبنم ذرا نظر تو اٹھا
نمود کرتے ہیں عالم میں گل رخاں کیا کیا
کہیں ہے چاند سوالی کہیں گدا خورشید
تمہارے در پر کھڑے ہیں یہ سائلاں کیا کیا
بچھڑ کے تجھ سے نہ جی پائے مختصر یہ ہے
اس ایک بات سے نکلی ہے داستاں کیا کیا
ہے پر سکون سمندر مگر سنو تو سہی
لب خموش سے کہتے ہیں بادباں کیا کیا
کسی کا رخت مسافت تمام دھوپ ہی دھوپ
کسی کے سر پہ کشیدہ ہیں سائباں کیا کیا
نکل ہی جائے گی اک دن مدار سے یہ زمیں
اگرچہ پہرے پہ بیٹھے ہیں آسماں کیا کیا
فنا کی چال کے آگے کسی کی کچھ نہ چلی
بساط دہر سے اٹھے حساب داں کیا کیا
کسے خبر ہے کہ امجدؔ بہار آنے تک
خزاں نے چاٹ لیے ہوں گے گلستاں کیا کیا
 
اپنے ہونے کی تب و تاب سے باہر نہ ہوئے
امجد اسلام امجد


اپنے ہونے کی تب و تاب سے باہر نہ ہوئے
ہم ہیں وہ سیپ جو آزادۂ گوہر نہ ہوئے
حرف بے صوت کی مانند رہے دنیا میں
دشت امکاں میں کھلے نقش مصور نہ ہوئے
پھول کے رنگ سر شاخ خزاں بھی چمکے
قیدئ رسم چمن خاک کے جوہر نہ ہوئے
تھک کے گرتے بھی نہیں گھر کو پلٹتے بھی نہیں
نجم افلاک ہوئے آس کے طائر نہ ہوئے
اس کی گلیوں میں رہے گرد سفر کی صورت
سنگ منزل نہ بنے راہ کا پتھر نہ ہوئے
اپنی ناکام امیدوں کے خم و پیچ میں گم
ابر کم آب تھے ہم رزق سمندر نہ ہوئے
 
سوچ کے گنبد میں ابھری ٹوٹتی یادوں کی گونج
امجد اسلام امجد


سوچ کے گنبد میں ابھری ٹوٹتی یادوں کی گونج
میری آہٹ سن کے جاگی سیکڑوں قدموں کی گونج
آنکھ میں بکھرا ہوا ہے جاگتے خوابوں کا رنگ
کان میں سمٹی ہوئی ہے بھاگتے سایوں کی گونج
جانے کیا کیا دائرے بنتے ہیں میرے ذہن میں
کانپ اٹھتا ہوں میں سن کر ٹوٹتے شیشوں کی گونج
رنگ میں ڈوبا ہوا ہے قریۂ چشم خیال
بام و در سے پھوٹتی ہے خوش نما چہروں کی گونج
جاتے جاتے آج امجدؔ پاؤں پتھر ہو گئے
ہاتھ پر میرے گری جب نرگسی آنکھوں کی گونج
 
دشت بے آب کی طرح گزری
امجد اسلام امجد


دشت بے آب کی طرح گزری
زندگی خواب کی طرح گزری
چشم پر آب سے تری خواہش
رقص مہتاب کی طرح گزری
ایک صورت کو ڈھونڈتے ہر شب
چشم بے خواب کی طرح گزری
ہجر کی انجمن سے ہر ساعت
اشک بے تاب کی طرح گزری
داستاں میری اس کہانی کے
ان پڑھے باب کی طرح گزری
دل کے دریا سے ہر خوشی امجدؔ
ایک گرداب کی طرح گزری
 
اوروں کا تھا بیان تو موج صدا رہے
امجد اسلام امجد


اوروں کا تھا بیان تو موج صدا رہے
خود عمر بھر اسیر لب مدعا رہے
مثل حباب بحر غم حادثات میں
ہم زیر بار منت آب و ہوا رہے
ہم اس سے اپنی بات کا مانگیں اگر جواب
لہروں کا پیچ و خم وہ کھڑا دیکھتا رہے
آیا تو اپنی آنکھ بھی اپنی نہ بن سکی
ہم سوچتے تھے اس سے کبھی سامنا رہے
گلشن میں تھے تو رونق رنگ چمن بنے
جنگل میں ہم امانت باد صبا رہے
سرخی بنے تو خون شہیداں کا رنگ تھے
روشن ہوئے تو مشعل راہ بقا رہے
امجدؔ در نگار پہ دستک ہی دیجئے
اس بے کراں سکوت میں کچھ غلغلہ رہے
 
چشم بے خواب کو سامان بہت
امجد اسلام امجد


چشم بے خواب کو سامان بہت!
​​​​​​
رات بھر شہر کی گلیوں میں ہوا
ہاتھ میں سنگ لیے
خوف سے زرد مکانوں کے دھڑکتے دل پر
دستکیں دیتی چلی جاتی ہے
روشنی بند کواڑوں سے نکلتے ہوئے گھبراتی ہے
ہر طرف چیخ سی چکراتی ہے
ہیں مرے دل کے لیے درد کے عنوان بہت
درد کا نام سماعت کے لیے راحت جاں
دست بے مایہ کو زر
نطق خاموش کو لفظ
خواب بے در کو مکاں
درد کا نام مرے شہر خواہش کا نشاں
منزل ریگ رواں
درد کی راہ پہ تسکین کے امکان بہت!
ہجر کا درد کٹھن ہے پھر بھی
وہ بھی اس روز بچھڑ کر مجھ سے
خوش تو نہ تھی
اس نے یہ منزل غم
کس طرح کاٹی ہوگی
وہ بھی تو میری طرح ہوگی پریشان بہت
(درد کی راہ میں تسکین کے سامان بہت)
کیا خبر اس کی سماعت کے لیے
درد کا نام بھلا ہو کہ نہ ہو
شہر خواہش کا نشاں
نطق خاموش کا اظہار ہوا ہو کہ نہ ہو
دست بے مایہ کا زر (وہ تہی دست نہ تھی)
ہجر کا درد بنا ہو کہ نہ ہو
اس کی گلیوں میں رواں دستکیں دیتی ہوئی سرخ ہوا ہو کہ نہ ہو
عشق نوخیز کے ارمان بہت
شوق گل رنگ کے رستے میں بیابان بہت
سوختہ جان بہت
چشم بے خواب کو سامان بہت
 
قائد اعظم
امجد اسلام امجد


آدم کی تاریخ کے سینے میں ڈوبے ہیں
کتنے سورج کتنے چاند
کیسے کیسے رنگ تھے مٹی سے پھوٹے
موج ہوا کے بنتے اور بگڑتے رستوں میں ٹھہرے
اور خاک ہوئے
نیلے اور اتھاہ سمندر کے ہونٹوں کی پیاس بنے
آنے والے دن کی آنکھوں میں لہراتی آس بنے
کیسے کیسے رنگ تھے جو مٹی سے چمکے
اور چمک کر پڑ گئے ماند
کچھ سورج ایسے پھر بھی
اپنی اپنی شام میں جو اس دشت افق کا رزق ہوئے ہیں
لیکن اب تک روشن ہیں گہنائے نہیں
پھول ہیں جن کو چھونے والی سبز ہوائیں خاک ہوئیں
لیکن اب تک تازہ ہیں کمہلائے نہیں
ایسا ہی اک سورج تھا وہ آدم زادہ
ٹوٹی اینٹوں کے ملبے سے جادہ جادہ
ٹکڑا ٹکڑا یکجا کر کے
ایک عمارت کی بنیادیں ڈال رہا تھا
سات سمندر جیسے دل میں
ان کے غم کو پال رہا تھا
جن کے کالے تنگ گھروں میں کوئی سورج چاند نہیں تھا
پھولوں کی مہکار نہیں تھی بادل کا امکان نہیں تھا
صبح کا نام نشان نہیں تھا
نیند بھری آنکھوں کے لان میں
وہ خود سورج بن کر ابھرا
ڈھلتی شب میں پورے چاند کی صورت نکلا
صبح کے پہلے دروازے پر دستک بن کر گونج اٹھا
آج میں جس منزل پر کھڑا ہوں
اس پر پیچھے مڑ کر دیکھوں
تو اک روشن موڑ پہ اب بھی
وہ ہاتھوں میں
آنے والے دن کی جلتی شمع تھامے
میری جانب دیکھ رہا ہے
جانے کیا وہ سوچ رہا ہے
 
Baht awala aik aik lafz ki ahmiat ha
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat