Haris1234
Well-known member
Offline
غبار دشت طلب میں ہیں رفتگاں کیا کیاامجد اسلام امجد
غبار دشت طلب میں ہیں رفتگاں کیا کیا چمک رہے ہیں اندھیرے میں استخواں کیا کیا دکھا کے ہم کو ہمارا ہی قاش قاش بدن دلاسے دیتے ہیں دیکھو تو قاتلاں کیا کیا گھٹی دلوں کی محبت تو شہر بڑھنے لگا مٹے جو گھر تو ہویدا ہوئے مکاں کیا کیا پلٹ کے دیکھا تو اپنے نشان پا بھی نہ تھے ہمارے ساتھ سفر میں تھے ہمرہاں کیا کیا ہلاک نالۂ شبنم ذرا نظر تو اٹھا نمود کرتے ہیں عالم میں گل رخاں کیا کیا کہیں ہے چاند سوالی کہیں گدا خورشید تمہارے در پر کھڑے ہیں یہ سائلاں کیا کیا بچھڑ کے تجھ سے نہ جی پائے مختصر یہ ہے اس ایک بات سے نکلی ہے داستاں کیا کیا ہے پر سکون سمندر مگر سنو تو سہی لب خموش سے کہتے ہیں بادباں کیا کیا کسی کا رخت مسافت تمام دھوپ ہی دھوپ کسی کے سر پہ کشیدہ ہیں سائباں کیا کیا نکل ہی جائے گی اک دن مدار سے یہ زمیں اگرچہ پہرے پہ بیٹھے ہیں آسماں کیا کیا فنا کی چال کے آگے کسی کی کچھ نہ چلی بساط دہر سے اٹھے حساب داں کیا کیا کسے خبر ہے کہ امجدؔ بہار آنے تک خزاں نے چاٹ لیے ہوں گے گلستاں کیا کیا
Boht khubsoorat nazam Alfaz mian beyan nhi Kya ja sakta