Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

Life Story ایک بجھتا ہوا چراغ

Joined
Nov 24, 2024
Messages
519
Reaction score
36,060
Location
pakistan
Gender
Male
Online
کہتے ہیں جس کا کوئی نہ ہو، اس کا خدا ہوتا ہے۔ بس اُسی کی آس پر جی رہی ہوں۔ شادی شدہ عورت کا سب سے بڑا سہارا اس کا میکہ ہوتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ میکہ ماں باپ سے ہوتا ہے، اور میرا اس لحاظ سے کوئی میکہ نہیں رہا، کیونکہ ماں مر چکی ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ میں نے گھر سے بھاگ کر شادی کی تھی۔ ہمارے معاشرے میں یہ ایک بہت بڑا جرم سمجھا جاتا ہے، جس کی سزا لڑکی کو عمر بھر بھگتنی پڑتی ہے۔ گھر سے بھاگی لڑکی کو وہ عزت و مقام نہیں ملتا جس کی وہ حق دار ہوتی ہے۔ اگر شوہر بھی برا نکلے، تو پھر حال اور بھی برا ہو جاتا ہے۔ شوہر کو معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کے میکے والے منہ نہیں لگاتے، اور سسرال والے بھی عزت نہیں دیتے، تو وہ دل کھول کر من مانیاں کرتا ہے۔ اور عورت بے چاری، روتے سسکتے جیون بتا دیتی ہے۔

میرا حال کچھ ایسا ہی ہوا۔ اپنے کیے کی سزا آج تک بھگت رہی ہوں۔ کسی سے حالِ دل نہیں کہہ سکتی، کہ کوئی غم گسار ہی نہیں۔ اپنی اولاد بھی نہیں۔ میں نے بھاگ کر شادی کی تھی، اور میکے والوں کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگا کر چلی گئی تھی۔ کافی عرصہ امی، ابو اور میرے بھائی روٹھے رہے۔ آخر کار بھابھی نے اپنے بھائی کی خاطر ہماری صلح کروادی، مگر والدین میرے سسرال والوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ میرا شوہر میری بھابھی کا بھائی تھا، جو اکثر بہن سے ملنے ہمارے گھر آتا۔ میں اس کی چائے پانی سے تواضع کرتی، کیونکہ سارا کام میرے نازک کندھوں پر تھا۔ ان دنوں میں حقیقتاً پریشان تھی۔ عمر بھی زیادہ نہ تھی۔ والدین کی باتوں سے دل برداشتہ رہتی تھی، خاص طور پر ماں کی ڈانٹ ڈپٹ مجھے بہت بری لگتی تھی۔ اُس ماحول سے نجات کا ایک ہی راستہ سمجھ آیا، اور وہ تھا شادی۔

جب رشتے آنے لگے تو امید بندھی کہ بیاہ کر اپنے گھر چلی جاؤں گی، تو ماں کی ڈانٹ اور گھر کے کاموں سے نجات مل جائے گی، لیکن ماں جانے کیا سوچ رہی تھیں کہ جو رشتہ آتا، رد کر دیتیں۔ میرے دل میں مایوسی بڑھنے لگی۔ سوچا، ان کے نخروں میں تو میری شادی کی عمر نکل جائے گی۔ کیا پتا تھا کہ میرا نادان ذہن اچھے برے کی تمیز نہیں کر سکتا اور میں گھر سے بھاگ کر اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مارنے جا رہی ہوں۔

آج شادی کو طویل عرصہ گزر چکا ہے، لیکن جو دکھ پہلے دن سے شروع ہوئے، وہ آج تک ختم نہیں ہوئے۔ میرے پانچ بھائی تھے اور میں ان کی اکلوتی بہن، لیکن بعض اوقات آپ اکلوتے ہو کر بھی پیارے نہیں ہوتے۔ مجھے نہ ماں باپ کا پیار ملا، نہ بھائیوں کا۔ جب میں پیدا ہوئی، تو ماں نے مجھے اپنی نند کی جھولی میں ڈال دیا، کیونکہ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی، اور امی مجھے پالنے کی زحمت سے بچنا چاہتی تھیں۔ لہٰذا میرا کچھ وقت ماں کے ساتھ اور کچھ پھپھو کے ساتھ گزرا۔ ماں نے کبھی مجھے ماں کا پیار نہ دیا، کیونکہ وہ بیٹوں سے زیادہ لگاؤ رکھتی تھیں۔ تاہم جب ذرا بڑی ہوئی تو پھپھو سے واپس چھین کر لے آئیں کہ اب بیٹی کے بغیر گزارا نہیں۔ دراصل ان کو کام کی ضرورت تھی، لہٰذا گھر لا کر انہوں نے مجھے کاموں پر لگا دیا۔ سارا دن میں بھائیوں کو دیکھتی اور پھپھو کو یاد کر کے روتی، جہاں مجھے ماں باپ کے گھر سے زیادہ سکون تھا۔

کئی رشتے آئے، مگر ماں انکار کر دیتیں کہ ابھی پڑھ رہی ہے، حالانکہ انہوں نے مجھے دسویں جماعت سے آگے پڑھنے ہی نہیں دیا۔ کہتی تھیں کہ پڑھ کر کیا کرنا ہے، آگے جا کر برتن ہی دھونے ہیں۔ جب اپنے ہی گھر سے دل اچاٹ ہو گیا تو میں نے پسند کی شادی کرنے کی ٹھان لی۔ سوچا، ماں کو تو کوئی رشتہ پسند آتا ہی نہیں اور مجھ سے انہیں اتنا آرام ہے، تو وہ کیوں چاہیں گی کہ میں یہاں سے جاؤں۔ یوں، گھر کے ماحول سے تنگ آ کر میں نے اپنی بھابھی کے بھائی سہیل کے ساتھ بھاگ کر شادی کر لی۔ اس طرح میرے بڑے بھائی کی وٹے سٹے کی شادی بن گئی، جبکہ دو دوسرے بھائی بھی حالات سے تنگ آ کر اپنی پسند کی شادی کر کے والدین سے علیحدگی اختیار کر چکے تھے۔

میری شادی کے تین سال بعد امی کا انتقال ہو گیا، کیونکہ بھائی اب ان کا حال بھی نہ پوچھتے تھے، جس کا انہیں گہرا صدمہ تھا۔ درحقیقت والدہ نے اپنے بڑے بیٹے کی شادی جس خاندان میں کی، بعد میں آنسوؤں سے روتی تھیں کہ میں نے اپنے بچے کو کہاں پھنسا دیا؟ حالانکہ میری ماں اور ساس آپس میں سگی بہنیں تھیں، لہٰذا ہم میاں بیوی فرسٹ کزن بھی ہیں۔ افسوس، شوہر سیرت کے لحاظ سے اچھے نہ نکلے، اور اس بات کا اندازہ مجھے شادی کے بعد ہوا۔ میری نند، جو میرے شوہر کی بڑی بہن ہے، وہ بھی ایک الگ ہی مزاج کی نکلی۔ آئے دن میرے ساتھ جھگڑے کرتی، میری ماں کو برا بھلا کہتی اور گالیاں دیتی۔ میں بھائی کی طرف دیکھتی، مگر وہ تو بیوی کی محبت میں ایسے گرفتار ہوئے کہ اپنی ماں سے بھی منہ موڑ لیا۔ ماں اسپتال میں تڑپتی رہیں، مگر انہوں نے مرتی ہوئی ماں کو بھی نہ پوچھا۔

جب ماں زندہ تھیں، تب میں میکے جایا کرتی تھی، مگر اب وہاں صرف بھابھیاں ہیں، کیسے جاؤں؟ اُدھر سسرال میں بھی میری شادی سے پہلے ہر وقت جھگڑے ہوتے تھے، کیونکہ سسر صاحب ضدی اور موڈی آدمی تھے، جبکہ سہیل کی والدہ بھی کسی میدان میں پیچھے نہ تھیں۔ ہر وقت لڑ کر میکے چلی جاتیں۔ یوں انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم پر کوئی توجہ نہ دی۔ ان جھگڑوں سے تنگ آ کر میرے شوہر گھر چھوڑ کر ماموں کے گھر چلے گئے، وہیں بی اے کیا، اور ماموں کی سفارش سے سرکاری محکمے میں ملازمت حاصل کی، جہاں انہیں عزت تو ملی، مگر وہ عزت ان کو راس نہ آئی۔

میری نندیں بمشکل میٹرک پاس تھیں۔ ایک تو اب طلاق یافتہ ہے، باقی سب دو دو سال کے لیے میکے آ کر بیٹھی رہتی ہیں۔ بڑی مشکل سے رشتے داروں نے ان کے گھر بسائے، ورنہ وہ میکے آ کر ڈیرے ڈالے بیٹھی رہتی تھیں۔ چونکہ ان لڑکیوں نے آنکھیں جھگڑالو ماحول میں کھولی تھیں، اس لیے سب اپنی گھریلو زندگیوں میں ناکام رہیں۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جن گھروں میں معاشی بدحالی یا جھگڑے ہوتے ہیں، وہاں بچوں کی زندگیاں ناکام ہو جاتی ہیں۔ وہ ضدی فطرت کے ہو جاتے ہیں، اور آخرکار ایک دن میرے شوہر کی فطرت بھی ظاہر ہو گئی۔ بات یہ تھی کہ جب ہم نے شادی کی، اس وقت میرے والد کا پیسہ ختم ہو رہا تھا، لیکن ابھی وہ دو مرلے کے گھر میں نہیں آئے تھے۔ ان کے پاس اب بھی بہت شاندار گھر اور کچھ قیمتی اثاثے تھے، جنہیں تاریخی ورثہ کہا جا سکتا ہے۔

گھر میں ایسی اشیاء موجود تھیں جو نوادرات میں شمار ہوتی تھیں، اور جن کی قیمت عام آدمی نہیں بتا سکتا تھا۔ میرے خاوند کا خیال تھا کہ میں اکلوتی بیٹی ہوں، اگرچہ باپ کی دولت میں سے کچھ نہ ملا، تو ان اشیاء میں سے کچھ ضرور ملے گا۔ مگر ان دنوں ماں اچانک بیمار پڑ گئیں، اور ان کے مرنے کے بعد والد صاحب کی خوشحالی کو زوال آ گیا۔ اباجان نے امی کے علاج پر بے پناہ روپیہ خرچ کیا تھا۔ امی کو بلڈ کینسر تھا اور ان دنوں اس کا علاج بہت مہنگا تھا۔

ایک بار خاوند نے مجھے سمجھا بجھا کر گھر بھیجا کہ اپنے والد سے بات کروں کہ مجھے وراثت میں سے کیا ملے گا۔ میں گئی، مگر باپ سے ایسی بات کرنے کو میری زبان نہ کھلی۔ ان کا حال خود ابتر تھا، جو میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی، تو پھر میں کیا کہتی؟ بس اس دن کے بعد سے آج کے دن تک میں نے آنسو ہی دیکھے ہیں۔ جسمانی اور ذہنی تشدد کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ شوہر کا خیال تھا کہ میں خود ہی انہیں چھوڑ کر چلی جاؤں گی، لیکن میں نے حالات سے سمجھوتہ کیا اور یہی سوچا کہ شاید آنے والا دن کوئی نیا پیغام لے کر آئے گا، مگر ایسا نہ ہوا۔ یہ میری بھول تھی۔

جب بیٹا ہوا تو میرے ذہنی سکون کو برباد کرنے کے لیے انہوں نے اپنے آفیسر کی بیٹی سے مراسم بڑھا لیے۔ اللہ کی کرنی ایسی ہوئی کہ ان کی پوسٹنگ کسی اور جگہ ہو گئی، مگر وہ جب بھی گھر آتے، غصے میں ہی ہوتے۔ مار پیٹ روز کا معمول بن چکا تھا۔ سسرال اور میکے، دونوں طرف سے کہیں بھی میرے لیے عزت والا مقام نہ تھا، کیونکہ میں نے بھاگ کر شادی کی تھی — حالانکہ سہیل میری سگی خالہ کا بیٹا تھا۔ ویسے بھی اگر امی چاہتیں، تو یہ رشتہ عزت و آبرو سے ہو سکتا تھا، مگر چونکہ وہ میری بھابھی کا بھائی تھا، اسی لیے ماں نے بہو کے بھائی کو قبول نہ کیا۔

خیر، وقت گزرتا گیا۔ ہم بوڑھے ہو گئے، لیکن میرے میکے اور سسرال میں کسی نے بھی اس “جرم” کو نہیں بھلایا کہ ہم نے پسند کی شادی کی تھی۔ یہ ایسا گناہ تھا جسے معاشرہ بھی نہیں بھولتا، اور جس کی سزا ہر طرف سے مجھے اور میرے بچوں کو ملتی رہی۔ اب شادی کو تیس سال ہو چکے ہیں۔ ابھی تک گھر کے حالات خراب ہیں۔ بڑی بیٹی کا نکاح کیا تھا — وہ لوگ ملک سے باہر سیٹلڈ تھے — مگر وہ فراڈ نکلے، تو ہم نے نکاح توڑ دیا۔ پھر دوسری جگہ شادی کی، مگر لڑکا ٹھیک نہ تھا۔ انہوں نے یہ بہانہ بنا کر میری بیٹی کو گھر بھیج دیا کہ: “تمہاری ماں آوارہ عورت ہوگی، تبھی اس نے گھر سے بھاگ کر شادی کی تھی۔” خدا جانے انہیں یہ بات کس نے سکھائی؟

بہرحال، میری بیٹی اجڑ کر گھر آ گئی۔ اب میں نے سوچا ہے کہ بیٹیوں کی شادی تبھی کروں گی جب وہ اپنے پیروں پر خود کھڑی ہو جائیں گی۔ بیٹی اگر غیر شادی شدہ ہو تو عمر بھر ماں باپ کے گھر رہ سکتی ہے، مگر اگر بیوہ یا مطلقہ ہو جائے تو وہ بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے — چار دن بھی نہیں رہ سکتی۔

میری بیٹی فاخرہ کا مطلقہ ہونے میں کیا دوش تھا؟ پھر بھی میرے خاوند طعنے دیتے کہ “تیری وجہ سے گھر نہ بسا۔” اگر ان کا بس چلے تو اب بھی مجھے چھوڑ دیں، مگر میری برادری بہت مضبوط ہے۔ ہم دونوں کا خاندان ایک ہے، رشتہ دار ان کو آکر ملامت کرتے ہیں تو یہ دبک جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ظلم کم نہیں کیے۔

کوئی اور عورت ہوتی تو کب کی بھاگ جاتی، مگر میں ان کو چھوڑ نہیں سکتی تھی — میری کمزوری میرے بچے تھے، میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتی تھی۔ شروع میں میرے شوہر کا پیار دیکھنے والا تھا۔ میں سمجھ رہی تھی کہ لو میرج جنت ہوتی ہے، مگر “آئے دال کا بھاؤ” تو بعد میں پتا چلتا ہے۔

انہوں نے اچھی بھلی نوکری اس لیے چھوڑ دی کہ میرے سسر صاحب فوت ہوئے تو میاں کو وراثت میں کچھ جائیداد اور روپیہ مل گیا۔ ان کے سب بھائیوں نے مل کر مشترکہ کاروبار کر لیا، جس سے معقول آمدنی ہونے لگی۔ مگر میری بدنصیبی یہ ہے کہ اس شخص نے میرے بیٹوں کو بھی میرے خلاف کر دیا۔ وہ ایک بات میری نہیں سنتے۔ باپ سے جیب خرچ ملتا ہے، ماں کے لیے زبان کیوں کھولیں؟

بڑی آرزو تھی کہ میرا اپنا ذاتی گھر ہو۔ اس کے لیے ساری عمر میں نے بچت کی، لیکن شوہر صاحب نے میرے لیے جو گھر بنوایا، وہ ایسی جگہ ہے جہاں شاید ہی کوئی مہذب انسان رہنا پسند کرے۔ بجلی کبھی کبھار آتی ہے، گیس ہے نہ دیگر سہولتیں۔ شہر سے دور ویرانہ ہے۔ البتہ گھر بہت بڑا ہے، کمرے ہی کمرے ہیں، جیسے محل ہو۔ اپنا کمرہ انہوں نے خوب سجا لیا، جہاں شرابی دوست دن رات آتے جاتے رہتے ہیں۔ بے دریغ ان پر روپیہ خرچ کرتے ہیں، دعوتیں ہوتی ہیں۔

میں پیسوں کا یہ زیاں دیکھ کر رات دن خون کے آنسو روتی ہوں کہ مجھے تو خرچ کے لیے بھی ترساتے ہیں، اور خود میرے سامنے عیش کرتے ہیں۔ اب کسی غریب عورت کو اٹھا لائے ہیں، جس کی پرورش کر رہے ہیں۔ اس عورت کا شوہر کسی لا علاج مرض میں مبتلا ہے۔ عورت اور اس کی بیٹیاں سارا دن میرے گھر میں کام کرتی ہیں اور میرے شوہر صاحب ان پر مہربان ہیں، چیزیں لا کر دیتے ہیں۔

مجھے ڈر ہے کہ کسی دن تماشا نہ بن جائے، کیونکہ میں ان کی طبیعت سے خوب واقف ہوں۔ عورت، اولاد اور گھر کی فکر کرتی ہے تو شوہر کو وہ بوڑھی لگنے لگتی ہے۔ ابھی میرے دو چھوٹے بیٹے ہیں، ان کا مستقبل بھی ہے۔ ایک بیٹی، جو طلاق کے بعد گھر آ چکی ہے، اس کا دکھ بھی ہے۔

مجھے شوگر اور بلڈ پریشر کی بیماریاں لگ گئی ہیں، اور میرے میاں ہیں کہ دن بہ دن “جوان” ہو رہے ہیں۔ ان کے الفاظ ہوتے ہیں: “اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں اچھائی کے ساتھ برائی بھی رکھی ہے، جس پر انسان کا اختیار نہیں۔ اللہ چاہتا تو نہ بناتا، نہ برائی کی طلب پیدا کرتا۔ اب دنیا میں رہ کر اس برائی کا مزہ بھی تو چکھنا ہے۔ بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔”

دنیا والوں کا تو ڈر بھلا ہی نہیں، اور خدا کا خوف بھی جس کے دل سے نکل جائے، ایسا انسان بدترین ہوتا ہے۔ سہیل ایسی کفر کی باتیں کرتے ہیں کہ میرا دل مٹھی میں آ جاتا ہے، اور میں استغفار کرتی ہوں۔ میری بیٹیاں کہتی ہیں: “جیسے ابو بے حس ہو گئے ہیں، آپ بھی پرواہ نہ کریں۔” لیکن کوئی ماں کے دل سے پوچھے!

جب گھر مشکلات کا شکار ہوتا ہے تو اس میں موجود ہر فرد اس کا اثر لیتا ہے۔ اگر سہیل پیسہ بے دردی سے لٹاتے ہیں تو اس کا نقصان ہمیں ہی ہوتا ہے۔ ہمارا اچھے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ختم ہو گیا ہے۔ شوہر کا پیسہ اپنی سرگرمیوں کے لیے تو بہت ہے، مگر یہ دولت میرے اور میرے بچوں کے لیے بے معنی ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ ایک وقت کی روٹی ہو، مگر آپس میں پیار اور محبت ہو۔

میں نے اپنے شوہر کے کردار کو ہمیشہ منفی پایا۔ اب سوچتی ہوں کہ پسند کی شادی کرنے سے بہتر تھا کہ میں مر جاتی۔ مگر اب کیا فائدہ؟ “پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔” برادری والوں نے بھی سہیل کی حرکتوں سے تنگ آکر اس سے بات چیت بند کر دی ہے۔

اپنی کہانی اسی لیے لکھی ہے کہ بیٹیاں جذبات میں آکر غلط قدم نہ اٹھا لیں، اور نادانی میں اس شخص کو نہ چن لیں، جس سے ساری زندگی کا ناتا جوڑنا ہے۔ بے شک ماں باپ بیٹی کی قسمت نہیں دیکھ سکتے، مگر وہ اس شخص کو ضرور پرکھ سکتے ہیں، کہ وہ کیسا کردار رکھتا ہے۔ کاش! آج میری ماں زندہ ہوتی تو میں میکے جا کر چند دن سکون کا سانس لے سکتی۔

خدا کرے ہر بیٹی کی ماں زندہ رہے تاکہ ان کے لیے میکے کے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں۔ اب سمجھ میں آیا کہ ماں سہیل کے رشتے کے خلاف کیوں تھیں؟ وجہ بہو نہیں، بلکہ میرے والدین سہیل کے چال چلن اور باہر کی سرگرمیوں سے واقف تھے، جن کے بارے میں میں نادان تھی۔ اب زندگی میں کیا باقی ہے؟ انگلیوں پر دن گن رہی ہوں کہ میں اب اک بجھتا ہوا چراغ ہوں۔
 
bohat afsos hua parh k :(
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat