Offline
- Thread Author
- #1
رات اپنے تیسرے پہر میں داخل ہو چکی تھی ،میں شیشے سے سر ٹکائے تیزی سے باہر دوڑتے ہوئے مناظر دیکھ رہا تھا،کہیں کہیں لائٹس کی وجہ سے منظر صاف ہو جاتا اور پھر اگلے ہی لمحے مہیب تاریکی میں ڈوب کر مجھے تھوڑا سا اداس کر جاتا تھا،جاتی سردیاں تھیں ،شیشے کے بیرونی حصے پر پڑی ہوئی اوس کی چادر مجھے اندر سے ہی محسوس ہو رہی تھی ،گاڑی میں ہلکا ہلکا میوزک چل رہا تھا،گائیک گارہا تھا۔۔
”نی اک پھل ….موتیے دا مار کے جگا سوہنیے”
میرے ساتھ والی سیٹ خالی تھی ،اچانک میری سماعتوں سے ایک مترنم آواز ٹکرائی ۔۔
”ایکس کیوزمی ”
میں نے سر گھما کر آواز کاتعاقب کیا اور میری نظروں سے ایک خوب صورت گناہ سرزد ہو گیا،مجھے مولانا صاحب کی دوران تبلیغ ہزار بار کی گئی تاکید یاد آگئی …”نامحرم پر دوسری نظر حرام ہے” …پر میری آنکھیں تو پہلی بار ہی تھم گئی تھیں ،میرے جسم کی پوری قوت جیسے سمٹ کر آنکھوں میں آگئی تھی ،میں آنکھیں جھپکنا نہیں چاہتا تھا ،کہیں یہ جھپکیں اور منظر غائب ہو جائے ،جو قسمت نے رات کے آخری پہر میں سنسان سڑک پہ دوڑتی ہوئی بس میں بیٹھے ہوئے درجنوں لوگوں کے بیچوں بیچ میرے سامنے کشید کر ڈالا تھا،میں مبہوت تھا ،میری نظریں باغی ہو چکی تھیں ،کیوں نہ ہوتیں ….
یہ بھی اپنے اندر بھوک رکھتی ہیں …طلسمی مناظر کی بھوک …..اور اس سے بڑا طلسمی منظر اور کیا ہو سکتا تھا ؟
میں نے پانچ سیکنڈز میں لولی ووڈ ،بولی ووڈ اور ہولی ووڈ کے تمام حسین چہروں کو اس کے آگے پانی بھرتے پایا جنہیں میں اب تک دیکھ چکا تھا ،وہ تو جنت سے اتری ہوئی کوئی حور تھی،حسن کے بے مثال جلووں سے چور چور تھی ،وہ بے نور آنکھوں کے لئے وجہ نور تھی ،وہ جو بھی تھی …….پر مجسم حسن ضرور تھی ..
میں یک ٹک اسے تکے جا رہا تھا ،اور وہ مسکراتے ہوئے اک ادائے بے نیازی سے کھڑی تھی۔اس نے تھوڑی دیر تک میری بے قابو ہوتی نظروں کو میرے تابع ہونے کا انتظار کیا مگر پھر اسے احساس ہوا ،اس کا انتظار بہت طویل بھی ہو سکتا ہے ،اس نے میری ساکت آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلا کر پھر سے میری سماعتوں میں سریلا رس گھولا۔
”ہیلو ۔۔۔۔کین یو ہیر می ؟”
اور جیسے مجھے کسی نے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ ہی ڈالا ہو ۔
میں نے ہڑبڑا کر ہونقوں کی طرح آگے پیچھے بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف دیکھا۔
بس میں اس وقت تقریباًسب ہی مسافر سو رہے تھے ۔
”کیا میں یہاں تھوڑی دیر بیٹھ سکتی ہوں ؟”
وہ اپنے صبیح چہرے پہ دل فریب مسکراہٹ سجائے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔
”جج ۔۔جی ۔۔۔”
میں نے حلق میں اٹکتے لفظ حلق میں ہی چھوڑ دیے ،اور جو مشکل سے نکلا ،اسے ہی غنیمت جان کر خاموش ہو گیا۔
”تھینکس ”۔اس نے ماتھے پہ آئی لٹ بائیں کان کے پیچھے اڑستے ہوئے کہا اور جھٹ سے میرے ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھ گئی ۔
میں تھوڑا سا سمٹ کر کھڑکی سے لگ گیا۔
”تو ….نام کیاہے آپ کا ؟”اس نے سرتھوڑاترچھا کر کے مجھ سے سوال کیا۔
میں ابھی تک اس صورت ِ حال کو قبول نہیں کر پا رہا تھا،میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو رہے تھے،حلق میں کانٹے اُگ آئے تھے ،مجھ سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا ۔
اس نے میری جھجک محسوس کر لی تھی ….
”آپ کو میرا یہاں بیٹھنا اچھا نہیں لگا ”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اس نے صاف اور سادہ سے انداز میں مجھ سے پوچھا۔
”نن …نہیں …..مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ”
بے اختیار میرے منہ سے نکلا تھا۔مجھے یاد آچکا تھا میں لڑکا ہوں ..وہ لڑکی ہے ،جھجکنا اسے چاہیے ….مجھے نہیں۔
”تو پھر بتائیے نا؟….نام کیا ہے آپ کا؟”اس نے ہولے سے اپنا سوال دہرایا۔
مجھے اس سوال سے بہت چڑ ہے ، اسکول ،مدرسہ ،کالج ،اکیڈمی اور آفس ،یہاں تک کے گھر میں آنے والے مہمان بھی اگر میرا نام پوچھ لیں تو ایک بار میری سٹی ضرور گم ہو جاتی ہے ،اب بھلا آپ خود سوچئے ،یہ بھی کوئی نام ہے؟ جو میرے دادا حضور نے اپنے ابو جان یعنی میرے پردادا جان کے نام پہ رکھ چھوڑا تھا،اور اس وقت تو حالات اور بھی مخدوش تھے ،مجھے ایک ایسی نڈر ،بے باک اور لبرل خاتون کو اپنا نام بتانا تھا،جو اپنی سیٹ سے اٹھ کر گپ شپ کرنے کے لئے میرے پاس آ بیٹھی تھی ۔اب اگر میرا نام ہی اسے امپریس نہ کرپائے گا ،تو بات چیت کیا خاک کرے گی وہ ۔؟
میں سوچ و بچار میں مصروف تھا کہ اسے سچ سچ بتا دوں یا آج کل کے حساب سے کوئی ماڈرن نام بتا کر ایک عدد جھوٹ کا گناہ اپنے کھاتے میں لکھوا لوں…جب اس کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔
”کیا ہوا ۔۔آپ کو اپنا نام یاد نہیں آ رہا؟”
”نام تو یاد ہے مجھے …سوچ رہا ہوں آپ کو بتاؤں یا نہیں؟” اس بار میں نے تھوڑے سے پر اعتماد لہجے میں جواب دیا۔
”کیوں بھئی ۔۔۔۔؟ایسا بھی کیا چھپا ہے آپ کے نام میں ؟”اس کی آنکھوں میں حیرت سمٹ آئی تھی ۔
”لعل خان ”میں نے ایسے بتایا جیسے کوئی بوجھ سر سے اتارا ہو۔
”کیا؟”اس نے ناسمجھی سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
مجھے پہلے سے ہی پتا تھا….وہ اب یہ سوال ضرور کرے گی ،میں نے آج تک جسے بھی اپنا نام بتایا ہے ۔۔۔اسے تھوڑا سا پریشان اور خود کو پشیمان پایا ہے ۔۔حالاں کہ اس میں میرا کوئی قصور بھی نہیں ہے۔
”جی لعل خان ہے میرا نام ……آپ شائد سمجھ نہیں پائیں۔”میں نے گہرا سانس لے کر اعترافِ جرم کیا۔
”اوہ ۔۔۔”اس کے ہونٹ سیٹی بجانے والے انداز میں سکڑ گئے۔
”لال کا مطلب تو سرخ ہوتا ہے نا؟”پتا نہیں وہ مجھ سے پوچھ رہی تھی …یا مجھے بتا رہی تھی ۔
”جی نہیں ۔۔یہ وہ والا لال نہیں یہ لام عین لام والا ”لعل” ہے جو ایک قیمتی پتھرکا نام بھی ہے ۔”
میں نے تیزی سے اپنے نام کی وہ وضاحت اس کے سامنے بھی پیش کر دی جومیں لاتعداد بار، لاتعداد لوگوں کے سامنے کر چکا تھا۔
”اچھا…….مطلب آپ ایک قیمتی پتھر ہیں ۔”میں نے سر گھما کر سیدھا اس کی طرف دیکھا۔وہ زیر لب مسکرا رہی تھی ۔
”میں انسان ہوں ”میں نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔مجھے لگا وہ میری دی گئی وضاحت کا مذاق اڑا رہی ہے ۔
”اور ویسے بھی لوگ نام سے نہیں کام سے پہچانے جاتے ہیں ۔”میری آواز میں روکھا پن کچھ زیادہ ہی ہو گیا تھا ،تبھی اس نے فوراً ہی کہا۔
”میں تو ویسے ہی پوچھ رہی تھی ،ورنہ نام میں کیا رکھا ہے ….نام تو نام ہی ہوتا ہے ۔”
”جی”۔میں نے صرف جی کہنے پہ اکتفا کیا۔
میرے جی کہنے پہ وہ اک ذرا سی خاموش ہوئی تو مجھے لگا شائد وہ اب میری طرف سے کچھ پوچھے جانے کی متمنی ہے۔
میں نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور وہی سوال پوچھ لیا جو پہلے اس نے پوچھا تھا۔
”آپ کا اسم گرامی کیا ہے ۔؟”
اس نے حیرت سے مجھے دیکھا۔
”اوہ پلیز ۔۔۔۔اتنی پر تکلف اردو مت بولئے ، میں یہاں تھوڑا سا وقت گزارنے آئی ہوں،آپ سے اردو کا مقابلہ کرنے نہیں”۔
میں نے جھینپ کر کھڑکی سے باہر گھپ اندھیرے کو تاکنا شروع کر دیا ۔
”باہر اگر کچھ نظر آتا ….تو میں یہاں آپ کے پاس آ کر نہ بیٹھتی ۔”اس نے مجھے کھڑکی سے باہر گھورتے پا کر ہلکے سے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”مجھے اندھیرے میں دیکھنا اچھا لگتا ہے ”۔ بڑا عجیب سا لہجہ تھا ،مجھے خود بھی سمجھ میں نہیں آیا۔
”روشنی میں بیٹھ کر اندھیرے میں دیکھنے والے لوگ ناشکرے کہلاتے ہیں ”۔
اس نے ایک دم ہی فلسفیانہ لہجہ اختیار کر لیا تھا۔
میں نے سر گھما کر اسے دیکھا ،وہ دونوں ہاتھ گود میں رکھے سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے بس کی چھت کو تک رہی تھی۔
”آپ شائد ٹیوب لائٹ اور بلب کی روشنی کو ہی روشنی کہتی ہیں ۔”
میرا لہجہ تھوڑا سا استہزائیہ تھا۔
”نہیں ۔”
اس نے نفی میں سر ہلایا ۔
”پھر ”؟میں نے سوال کیا۔
”اللہ تعالیٰ ہمیں ایک خوبصورت دل کی شکل میں روشنی کا وہ ذریعہ عطا کرتا ہے ،جس کے صحیح استعمال سے ہم خود کو روشن کر سکتے ہیں ،اور یہی روشنی ہماری آنکھوں سے نکل کر ہمارے لئے اس دنیا کی ہر شے کوخوب صورت اورچمک دار بنا دیتی ہے ،یہ روشنی ہمیں اندھیروں سے بچاتی ہے اور روشن رستے دکھاتی ہے ،ایسے میں اگر کوئی یہ کہے کہ اسے اندھیرے میں دیکھنا پسند ہے …..تو میں تو اسے ناشکرا ہی کہوں گی ۔”
بہت خوب صورت لہجے میں بولتی ہوئی وہ حور شمائل مجھے تھوڑی دیر کے لئے لاجواب کر گئی تھی۔
”نام کیا ہے آپ کا ۔”
میں اپنے پہلے سوال پہ آ چکا تھا ۔
”ماہین۔۔” وہ بہت آہستہ سے بولی ۔ وہ ابھی تک چھت کو دیکھ رہی تھی۔
”اچھا نام ہے ۔”میرا لہجہ رسمی تھاجسے اس نے محسوس کیا اور فوراً بولی ۔
”شکریہ۔”وہ بھی رسم ہی ادا کر رہی تھی۔
ہمارے درمیان ایک بار پھر خاموشی آ چکی تھی۔
وہ میری منتظر تھی۔۔۔۔
میں اس کا منتظر تھا۔۔۔
گاڑی اپنی فل اسپیڈ کے ساتھ میری اور اس کی منزل کی جانب بڑھ رہی تھی ،ہم سندھ کراس کر کے پنجاب میں داخل ہو چکے تھے شائد،ابھی کچھ کہنا مشکل تھا ،اندھیرے کے راج کی وجہ سے۔
”آپ کیا کرتے ہو؟”
اس نے چھت کو تکتے تکتے کافی بے تکلفی سے سوال کیا۔مجھے ایسا لگا وہ خاموشی کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتی تھی ….
”جاب کرتا ہوں کراچی میں۔”میں نے نظریں جھکائے جھکائے جواب دیا ۔
”کیا جاب کرتے ہو۔؟اس نے پھر پوچھا۔
”پرائیویٹ جاب کرتا ہوں،ایک فوڈ انڈسٹری میں،آپ کیا کرتی ہو؟۔
میں نے جواب دے کر سوال بھی کر دیا تھا۔
”میں ایم بی اے کر رہی ہوں۔”
”ویری نائس”۔
میں نے بے اختیار توصیفی لہجے میں کہا۔
”آگے کیا ارادہ ہے آپ کا ۔”
میں نے جلدی سے اگلا سوال کیا۔
”ابھی تک کچھ سوچا نہیں ہے ،تعلیم مکمل کر کے ہی کچھ سوچوں گی ۔”
اس کا لہجہ کافی بے پروا تھا۔
”اچھی بات ہے۔”
میں نے کہا اور ایک بار پھر خاموشی ہمارے درمیان اپنا بسیرا کر چکی تھی ۔
(اب اور کیا پوچھوں اس سے ؟)
میں دل ہی دل میں خود سے پوچھ رہا تھا۔
وہ دونوں بازو سینے پہ لپیٹ کر اب کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی ۔
”اب آپ دیکھ رہی ہیں اندھیرے میں۔” (کچھ اور سوجھ بھی تو نہیں رہا تھا مجھے )
”میں اندھیرے میں نہیں دیکھ رہی ۔”
اس نے میری بات کی نفی کرتے ہوئے کہا۔
”تو پھر آپ کیا دیکھ رہی ہیں باہر ؟”
میں نے طنزاً سوال کیا۔
”میں ابتدائے سحر کے خوب صورت وقت کو دیکھ رہی ہوں،کہا جاتا ہے نا ۔۔۔۔ہم ابتدائے سحر میں اللہ کے بہت قریب ہوتے ہیں۔”
اس نے میرے طنز کا جواب بہت سادگی سے دیا تھا۔
”ہم ہر وقت اللہ کے بہت قریب ہوتے ہیں ۔”
میں خوامخوابحث پہ اتر آیا تھا۔شائد میرے اندر اسے لاجواب کرنے کی خواہش پیدا ہو گئی تھی۔
”ہاں مگر اس وقت ہم اس قربت کو زیادہ آسانی سے محسوس کر سکتے ہیں ،جب کہ باقی اوقات میں شاید مشکل سے ہی محسوس کیا جا سکے۔ ”
اس نے بہت پر سکون لہجے میں جواب دیا تھا۔
”اللہ والے ہر وقت محسوس کر سکتے ہیں۔”(لو جی ! اب کیا تک تھی بھلا یہ بات کرنے کی )
”ہر آدمی اللہ والا بھی تو نہیں ہوتا ،اکثر تو دنیا والے ہوتے ہیں ……آپ اللہ والے ہیں کیا؟”
اس نے کھڑکی سے نظریں ہٹا کر میرے چہرے پہ گاڑ دی تھیں۔
(ہاں بھئی ……..اب دو جواب )
”جی میں نے قرآن حفظ کیا ہوا ہے اور جماعت بھی کرواتا ہوں ۔” (اور میں چغد بھی ہوں)
”ماشاء اللہ۔”اس نے تحسین آمیز نظروں سے مجھے دیکھا۔
”تب تو آپ کی نماز ِفجر بالکل قضا نہیں ہوتی ہو گی ؟”
میں ہلکاسا کھانسا اور کھڑکی کی طرف دیکھنے لگا۔( ابتدائے سحر میں ایک اور جھوٹ )
”آپ نماز پڑھتی ہیں ؟”میں نے جواب سے بچنے کے لئے ایک اور سوال کا سہارالیا۔
”کوشش کرتی ہوں کہ پانچوں وقت کی پڑھ سکوں مگر غفلت کر جاتی ہوں۔”
وہ اک ذرا سی خاموش ہوئی ۔
”ہاں مگر نماز فجر تقریباً روز ہی پڑھتی ہوں۔”
میں مسلسل کھڑکی کے باہر دیکھ رہا تھا۔مبادااس کی طرف دیکھوں اور میری آنکھیں اسے سچ بتا دیں کہ جو نماز وہ تقریباً روز ہی پڑھتی ہے وہ میں کبھی کبھار بھی بہت مشکل سے پڑھ پاتا ہوں۔
”حیرت ہے۔”
میرا لہجہ بہت دھیما تھا۔
”کچھ کہا آپ نے ؟”اس نے شائد واقعی نہیں سنا تھا ،یا جو سنا تھا ..اسے کنفرم کرنا چاہ رہی تھی۔
”نہیں …کچھ نہیں”….میں نے کچھ بن کر جواب دیا ۔
”آپ کہاں جا رہی ہیں؟”میں نے بات بدلنے کے لئے دوسرا سوال داغ دیا ۔
”راولپنڈی ۔”
اس نے مختصراً جواب دیا۔
”اکیلی۔؟”
میرا سوال سن کر اس نے ایک لمبی جماہی لی ۔
”نہیں ….امی ابو ساتھ ہیں۔”
مجھے اس کی شکل پہ اکتاہٹ نظر آنے لگی تھی ۔
”آپ بور ہو رہی ہیں؟ ”(احمق تم اندھے ہو ؟ اس کے منہ پہ صاف لکھا نظر آ رہا ہے) ۔
”ہو تو رہی ہوں ۔”اس کی صاف گوئی قابل داد تھی۔
”آپ کو کیسے لوگ پسند ہیں۔؟”(کم از کم تمہارے جیسے تو بالکل نہیں )
اکتائے ہوئے چہرے پہ ایک ہلکی سی مسکان ابھری ۔
”اس سوال کی کوئی خاص وجہ ۔؟”
اس نے بھنویں اچکائیں۔
”کوئی وجہ نہیں….اب آپ آئی ہیں تو کچھ نہ کچھ بات تو چلتی رہے گی ۔”
میں نے اپنے تئیں بہت سمجھ داری کی بات کی تھی ۔
”بات تو ایک بھی نہیں کی آپ نے ؟”
اس نے میری طرف دیکھ کر عام سے لہجے میں کہا۔
”تو اب تک ہم کیا کر رہے تھے ۔؟” (جھک مار رہے تھے ….مان جاؤ میاں …بہت پکاؤ ہو تم)
”سوال و جواب …..اب تک ہم صرف سوال و جواب کر رہے تھے …بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ آپ سوال و جواب کر رہے تھے ۔”
اس نے ”آپ” پر زور ڈالتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی میری طرف کرتے ہوئے کہا۔
میں خاموش ہو گیا تھا۔کوئی جواب نہ تھا میرے پاس۔
اب باتیں تو سوال و جواب سے ہی نکلتی ہیں ،بھلا بتاؤ دو اجنبی ایک دوسرے سے سوال کئے بغیر بات کر سکتے ہیں ؟،دیرینہ دوستوں کی طرح …؟
”مجھے وہ لوگ پسند ہیں جن کی آنکھیں ان کی زبان کا …اور زبان ان کے دل کا ساتھ دیتی ہو۔جن کی آنکھیں ،زبان اور دل ایک ساتھ ایک جیسا کام کرتے ہوں ۔”اس نے اپنی چمکتی ہوئی آنکھیں میری آنکھوں میں ڈال کر کہا ۔
اس نے جواب تو کیا ہی دیا تھا ……مجھے آٹھویں کلاس کا الجبرا یاد آ گیا تھا۔
”مگر آنکھیں ،زبان اور دل ہمارے تین مختلف اعضاء ہیں جن کے کام بھی مختلف ہیں ۔یہ ایک جیسا کام کیسے کر سکتے ہیں۔؟”
میں الوؤں کی طرح اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
اس کی صاف وشفاف پیشانی پہ میری حجت سن کر ایک ہلکی سی شکن پڑ گئی تھی۔
”دل جو سوچتا ہے ،زبان وہ نہیں کہتی…زبان جو کہتی ہے ،آنکھیں وہ نہیں دیکھتیں ،مگر مجھے وہ لوگ پسند ہیں جو دل میں آئی سوچ کو ہی زبان دیں اور جو زبان سے نکلے ،اسے ہی دیکھنا پسند کریں ۔”
اب اس نے مجھے الجبرے سے نکال کر جیومیٹری میں الجھا دیا تھا۔
”کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔؟”میں ہلکا سا بڑبڑایا تھا مگر اس نے سن لیا ،تبھی ہولے سے مسکراتی ہوئی بولی۔
”جانے دیجئے ….کوئی اتنا ضروری بھی نہیں ہے ہر بات کو سمجھنا۔”
”آپ کو مشکل باتیں پسند ہیں۔؟”میں نے قدرے شرمندگی سے کہا۔
”بالکل بھی نہیں ……میں تو بہت سمپل باتیں کرتی ہوں جو آسانی سے ہر کسی کی سمجھ میں آجاتی ہیں ،آپ کو پتا نہیں کیوں مشکل لگ رہی ہیں ،ویسے سچ بتا رہی ہوں ،مجھے پہلی بار کسی نے کہا ہے کہ میں مشکل باتیں کرتی ہوں۔”
اس کے جواب میں حیرت کا عنصر نمایاں تھا۔
”نہیں بس ،بزی رہتا ہوں تو باتیں کچھ کم ہی کرتا ہوں ۔۔۔۔تو سمجھ بھی کم ہی آتی ہیں۔”
(شرم تم کو مگر نہیں آتی ……..او بھائی چپ کر جا اب ……بہت ہو گئی گپ شپ )
”اوہ۔۔۔۔”میرا جواب سن کر اس کے ہونٹ ایک بار پھر گول ہو کر سکڑ گئے تھے۔
”تو آپ خاموش طبیعت کے مالک ہیں ،ہاں ہوتے ہیں ایسے لوگ بھی …..تنہائی پسند ،جو زیادہ باتیں کرنا پسند نہیں کرتے ،بس اپنی تنہائی انجوائے کرتے ہیں ،جیسے آپ کر رہے تھے …….اور میں نے آ کر آپ کو ڈسٹرب کر دیا….آئی ایم سو سوری ….آپ کو برا لگا ہو گا نا؟”
اس نے خود سے ہی سارے اندازے لگا لئے تھے اور چہرے پہ ندامت لئے مجھے دیکھ رہی تھی ….اور اب کے تب بس اٹھنے ہی والی تھی ۔
”نہ۔۔۔نہیں تو ….میں تو ”(نہیں نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ )
مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کہوں۔
”اگر آپ کہتے ہیں تو میں اٹھ کر اپنی سیٹ پہ چلی جاتی ہوں ۔”
وہ اٹھنے کے لئے پر تول رہی تھی ۔
(نہیں ….خدا کے لئے ایسا مت کرنا۔۔تھوڑا سا وقت اور رک جاؤ ۔۔جانا تو تم نے ہے ہی )
”نہیں میں بالکل بھی ڈسٹرب نہیں ہو رہا ،آپ کو ایسا کیوں لگا؟”
نا چاہتے ہوئے ہوئے بھی میرے انداز میں تھوڑی سی عجلت آ گئی تھی ۔
”آپ سچ کہ رہے ہیں ؟”
اس نے سر کو ایک ذرا سا قریب لا کر میری آنکھوں میں غور سے دیکھا تھا،اور دوسرے ہی لمحے اس کے شگفتہ چہرے پہ مسکراہٹ پھیل گئی تھی ۔
میرا سانس سینے میں اٹک گیا تھا ،میں کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر اس کی مسکراہٹ مجھے حواس باختہ کر رہی تھی ،یک بارگی مجھے احساس ہوا ………میری آنکھیں پھر سے باغی ہو رہی تھیں ،میں نے گھبرا کر آنکھیں میچ لیں۔
”آپ کو کبوتر پالنے کا شوق بھی رہا ہے؟”
بند آنکھوں کے پیچھے چھائے اندھیرے میں مجھے اپنے دائیں کان کے پاس اس کی ہلکی سی آواز سرگوشی کی مانندمحسوس ہوئی ۔
”کیا۔۔۔؟”
میری آنکھوں کے ساتھ ساتھ میرا منہ بھی اس کی بات سن کر پوری طرح کھل چکا تھا۔
”جج…..جی….جی ہاں مگر ……آپ کو کیسے پتا چلا۔؟”
میں نے بیوقوفوں کی طرح منہ کھول کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
اس نے اک ذرا کی ذرا میری کھلی ہوئی آنکھیں ،کھلا ہوا منہ اور ہونق ہوتا چہرہ دل چسپی سے دیکھا اور دوسرے ہی لمحے اس کی مسکراہٹ ،ہنسی اور ہنسی ،قہقہے میں بدل چکی تھی ۔
اگلی سیٹ پہ سوتا ہوا آدمی اچانک ہڑبڑا کر اٹھا اور ماتھے پہ بل ڈال کر پیچھے کی طرف مڑا ۔
میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس سے معذرت کی ،اس نے گھور کر ہنستی ہوئی لڑکی کو دیکھا اور دوبارہ اپنی سیٹ پر ترچھا ہو کر لیٹ گیا۔
میں نے اس سے نظریں ہٹا کر اپنی عجیب و غریب مگر خوب صورت اور معصوم چہرے والی ہم سفر کو دیکھا۔جو اب منہ پہ ہاتھ رکھ کے اپنی ہنسی کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔
”ایسا بھی کیا لطیفہ سنا دیا تھا میں نے۔؟”
میرے لہجے میں حیرت اور ہلکی سی ناراضی تھی۔
اس کی ہنسی اب تھم چکی تھی ،بے اختیار قہقہے کی وجہ سے اس کی آنکھوں میں آنسوجمع ہو چکے تھے ۔
”تم! پلیز ناراض مت ہونا ،مجھے تمہارے اسٹائل پہ ہنسی آ گئی تھی۔”
اس نے انگلی کے پور سے بائیں آنکھ کا آنسو چنتے ہوئے کہا تھا۔
میرا دھیان اس کی بات کی بہ جائے صرف تم اور تمہارے پہ اٹک گیا تھا۔اس نے پہلی بار مجھے تم کہ کر پکارا تھا۔مگر اس بات کا اسے قطعی احساس نہیں ہوا تھا۔
”میں ناراض نہیں ہوں ۔”
میں بس اتنا ہی کہ پایا تھا۔
وہ ایک بار پھر سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر بس کی چھت کو گھورنے لگی تھی۔
کچھ پل بہت خاموشی سے کٹے تھے ….اور یہ خاموشی اب مجھے ڈسنے لگی ۔
”اچھا بتایئے نا…….آپ کو کیسے پتا چلا کہ میں کبوتر پالنے کا شوق رکھتا تھا ۔؟”
میں نے سلسلہ ٔ کلام وہیں سے جوڑنا چاہا جہاں پہ ٹوٹا تھا۔
اس کے چہرے پر وہی مسکان پھر سے لوٹ آئی جسے اس کے قہقہے نے چھپا دیا تھا۔
”تمہاری حرکت سے اندازہ لگایا ہے میں نے۔”
اس نے چھت کو تکتے تکتے ہی جواب دیا تھا۔
”حرکت ……کیسی حرکت؟”
میں نے اچنبھے سے پوچھا۔(لو میاں للو۔۔۔۔کبوتر تو بن ہی گئے ،کچھ اور بھی بننا ہے؟)
”چھوڑو ..جانے دو ..”
اس نے ہوا میں مکھی اڑائی اور ایک دم سے سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
”یہ بتاؤ …..تم نے کبھی کسی سے محبت کی ہے؟”
وہ سوالیہ نشان بنی مجھے دیکھ رہی تھی۔
میں نے ایک گہرا سانس لیا،ایک ہلکی سی انگڑائی لیتے ہوئے تھوڑا سا اوپر ہو کر بس میں آگے اور پیچھے بیٹھے ہوئے تمام مسافروں پر اک طائرانہ نظر ڈالی ۔
بس میں ہر طرف خاموشی اور سکون تھا،صرف گانے کی ہلکی ہلکی آواز آ رہی تھی……….
”آج لگتا ہے میں ہواؤں میں ہوں ۔۔۔
آج اتنی خوشی ملی ہے۔۔۔۔”
”نہیں ۔”
میں نے اپنی سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر کہا ۔
”اور کسی کو تم سے ہوئی ۔؟”اس کا ایک اور سوال ۔
”نہیں ۔”میں نے مختصراً کہا تھا۔
”یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو۔؟”ایک اور عجیب سوال۔
میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”کیا مطلب کیسے کہہ سکتا ہوں ؟”
اس نے میری حیران آنکھوں میں جھانکا۔
”مطلب یہ کہ تمہیں کیسے پتا چلاکہ تم کسی کی محبت نہیں ہو۔؟”
میں نے چند لمحوں تک الجھی ہوئی نظروں سے اسے گھورا ۔
”تم کہنا کیا چاہتی ہو۔؟”
میں الجھ کر بولا تھا…اس احساس سے قطعی غافل ،کہ میں بھی آپ سے تم پہ آ چکا تھا۔
”افوہ….
ایک تو تمہیں ہر بات سمجھانی پڑتی ہے ۔”
اس نے جھنجھلا کر کہا تھا۔
”یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کوئی تم سے محبت کرتا ہو ،مگر اظہار نہ کر پاتا ہو ۔”
اس نے مجھے سمجھانے والے انداز میں کہا تھا۔
”محبت کو اظہار کی ضرورت نہیں ہوتی ۔”
بے اختیار میرے منہ سے نکلا تھا۔(اف…..یہ کیا بکواس کر دی میں نے )
اس کا رنگ تیزی سے بدلا تھا۔
پہلی بار مجھے یقین ہو چلا…..میں نے اسے متاثر کر دیا ہے۔
”پہلی بار تمہارے منہ سے کوئی ڈھنگ کی بات نکلی ہے ۔”
اس نے ستائش بھرے لہجے میں کہا۔
”اب تو ماننا پڑے گا…… نہ تم نے کسی سے محبت کی ….اور نہ ہی کسی نے تم سے ۔”
بڑے سادہ سے لہجے میں میرا سچ تسلیم کیا تھا اس نے مگر جانے کیوں۔۔۔؟
ایک عجیب سی ٹیس اٹھتی ہوئی محسوس کی میں نے۔
”تم نے کبھی کسی سے محبت کی ۔؟”
اپنے اندر اٹھتے دھوئیں کو دبانے کے لئے میں نے یونہی اس سے پوچھا تھا۔
”ضروری تو نہیں …….کہ جو میں پوچھوں ……تم بھی وہی پوچھو ۔”
مجھے لگا وہ جان چھڑا رہی ہے۔
”یہ فاؤل ہے بائی دا وے……میں نے تمہارے کسی سوال کے آگے آنا کانی نہیں کی۔”
میں خوامخوا ہی بات سے بات نکال رہا تھا۔
”میرا حال بھی تمہارے جیسا ہی ہے ۔”
اس نے سرسری سے لہجے میں اپنا جواب دے دیا تھا۔
”میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جو محبت کو سنتے ہیں ،دیکھتے ہیں ،شائد سمجھتے بھی ہیں ،پر
محسوس نہیں کر پاتے ۔”
کچھ تھا اس کے لہجے میں …..
جس نے مجھے اندر سے مزید بے چین کر دیا تھا ۔
”لوگ کہتے ہیں محبت کا احساس بہت دل فریب ہوتا ہے ،یہ ہماری زندگی کو پوری طرح بدل کے رکھ دیتا ہے ۔یہ ہمیں جینا سکھاتا ہے ،دل سے ہنسنا سکھاتا ہے ،ہم جہاں بھی ہوں …..جس حال میں ہوں ….یہ ہمیں اپنے احاطے میں لئے رہتا ہے ،ارد گرد سے غافل ….
بس اپنی ہی دھن میں مگن ہم مسکراتے چلے جاتے ہیں۔”
اس کا لہجہ بتا رہا تھا کہ اسے محبت کے لفظ سے بہت محبت تھی۔
”ہاں ….لیکن یہ احساس تب تک دل فریب رہتا ہے ،جب تک ہم ہجر کی اذیت سے بے نیاز ہوتے ہیں۔”لفظ خود بہ خود ہی میرے منہ سے نکل گئے تھے …..
ورنہ ….مجھے صنفِ مخالف کے سامنے بولنے میں ہمیشہ سے دقت رہی تھی۔
”محبت ہجر کے بغیر کبھی مکمل نہیں ہوتی ،یہ ہجر ہی ہے جو محبت کو کھل کر آپ پہ آشکار کرتا ہے ،اگر ہجر نہ ہوتا تو شائد دنیا سے سچی محبت کا احساس ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ،محبت میں وصل کی گھڑیوں کی اہمیت کیوں ہے ؟…کبھی سوچا ہے تم نے ؟….کیوں کہ یہ گھڑیاں ہجر کی اذیت سہنے کے بعد نصیب ہوتی ہیں ……..اگر ہرلمحہ وصل کا لمحہ ہو ……”
اس نے ایک لمحے کے لئے رک کے مجھے دیکھا۔
”تو پھر شب وصل پر شاعری کے دیوان کیوں کر لکھے جاتے ہیں ۔؟”
مجھے دل ہی دل میں معترف ہونا پڑا۔
”تو پھر ….ہجر کے بارے میں ہمیں کس طرح سوچنا چاہیے۔؟”
میں ایسے پوچھ رہا تھا ،جیسے بچہ استاد سے کوئی سوال کرتا ہے۔
”ہمیں دل سے ہجر کا شکریہ ادا کرنا چاہیے ،ہمیں اس کا احسان ماننا چاہیے جو یہ ہمیں محبت کا احساس دلا کر ہم پہ کرتا ہے۔”
وہ مسکراتے لہجے میں بول رہی تھی اور میں اسے تکے جا رہا تھا۔
کچھ لمحے خاموشی سے سرک گئے …..
مجھے مسلسل اپنی طرف تکتا پا کر اس نے دونوں بازو سینے پر لپیٹتے ہوئے بھنویں اُچکائی تھیں۔
اس کے بالوں کی وہ شرارتی سی لٹ سرک کر اس کے گال پہ آ گئی تھی ۔اب کی بار اس نے اسے گال پہ ہی چھوڑ دیا تھا ۔
”آپ کچھ الگ سی دِکھتی ہیں ۔”
میں نے کھوئے کھوئے سے لہجے میں کہا تھا۔
”کیوں ……؟
میرے سینگ تو نہیں ہیں کہیں۔۔؟”
وہ یک دم سر پہ ہاتھ پھیر کہ بولی۔
میں نے اب تک صرف اس کا چہرہ غور سے دیکھا تھا۔۔
پہلی بار میں نے سرسری سے انداز میں اس کا سر تا پا جائزہ لیا ۔
اس نے گھنے سیاہ بالوں کوجوڑے کی شکل دے کر باندھا ہوا تھا ،بس وہی چند بال آزاد تھے جو اکٹھے ہو کر لٹ کہلاتے ہیں اور جو اس وقت بھی اس کے دودھیا گالوں پہ لہرا کر اٹکھیلیاں کرنے میں مصروف تھے ۔
عام سے شلوار قمیص اور کندھے پہ پڑے ہوئے بلیو رنگ کے دوپٹے میں جانے کون سا چارم تھا جس نے میری نظر میں اس لڑکی کو دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی کا اعزاز دے ڈالا تھا۔
میں جتنا اسے دیکھتا جا رہا تھا ……
اتنا ہی اندر سے بے چین ہوتا جا رہا تھا ….
شائد اسے دیکھتے رہنے کی طلب بڑھتی جا رہی تھی اور…….سفر گھٹتا جا رہا تھا۔
میں نے اس سے نظریں ہٹا کر کھڑکی سے باہر دیکھا۔
اندھیرا اب چھٹنے لگا تھا۔۔۔۔۔
گو کہ منظر ابھی تک صاف نہیں ہوا تھا ،پر کھڑکی سے باہر دیکھنے پر اب اندھیرے کے احساس میں واضح کمی لگتی تھی۔
”تھوڑی دیر میں صبح ہو جائے گی ۔”
وہ دھیمے سے لہجے میں بولی تھی۔
”آں۔۔۔؟میں نے چونک کر اسے دیکھا۔
وہ بھی کھڑکی سے باہر ہی دیکھ رہی تھی۔
”ہاں …….
تھوڑی دیر میں صبح ہو جائے گی۔”
میں نے خوابیدہ سے لہجے میں کہا تھا۔
”مجھے سورج نکلنے کا منظر بہت پسند ہے ۔”
وہ ہنوز کھڑکی کی طرف دیکھ کر بول رہی تھی۔
”مجھے بھی۔”
میں نے مختصراً کہا تھا۔(کیا آج بھی )؟
”سورج کی کرنیں نئی امید جگاتی ہیں نا…..نیا ولولہ ، نیا جوش…..
گزری رات کو بھول کر کچھ کر دکھانے کا جذبہ ۔”
وہ کھڑکی سے نظریں ہٹائے بغیر بول رہی تھی۔
میں نے پل بھر کے لئے اسے دیکھا ،پھر آنکھیں بند کر کے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر بولا تو مجھے اپنی آواز ہی اجنبی سی لگی۔
”ضروری تو نہیں ….کہ ہر نئے سورج کی کرن امید جگاتی ہو۔۔۔؟ گزری رات کو بھلا دینے کی طاقت بخشتی ہو ۔؟”
میری آنکھیں بند تھیں …..
مگر مجھے احساس ہوا ……کہ وہ اب کھڑکی کی طرف نہیں بلکہ میری طرف دیکھ رہی تھی۔
”ایسا کیوں کہہ رہے ہو ..؟
سناٹے اور اندھیرے میں اس کی آواز مجھے اور بھی خوب صورت لگ رہی تھی۔
میں نے آنکھیں بند ہی رہنے دیں۔
”بس ایسے ہی …….
تم ہی بتا دو ، کیا میں نے غلط کہا ہے ….؟ کیا ہر نیا سورج امید جگاتا ہے ۔؟
میں نے پست لہجے میں اس سے سوال کیا تھا۔
چند لمحوں تک اس کی آواز سنائی نہیں دی …….
مجھے شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ وہ مجھے دیکھنے میں محو ہے ،پتا نہیں میں غلط تھا یا صحیح؟
خاموشی کا دورانیہ بڑھتا جا رہا تھا۔
میرے اندر اتھل پتھل ہونے لگی تھی …
کہیں وہ……
کہیں وہ اٹھ کر چلی تو نہیں گئی تھی ۔؟
کہیں میں آنکھیں کھولوں اور وہ میرے ساتھ موجود نہ ہو ۔۔۔۔؟
وہ پھر سے گم ہو گئی ہو ۔۔۔۔؟
اپنی دنیا میں ……
میرا اور اس کا رشتہ ہی کیا تھا….؟
کیا تھی وہ میری ؟کچھ بھی نہیں ………
صرف ایک لڑکی ………جو اپنا تھوڑا سا فارغ وقت بتانے کے لئے میری دنیا میں طوفان برپا کرنے آ گئی تھی ۔
(کیسا طوفان؟)
بند آنکھوں کے پیچھے میں نے خود سے سوال کیا تھا۔
یہ مجھے کیا ہوتا جا رہا تھا ،میں آنکھیں کھولنا چاہتا تھا ،پر کھول نہیں پا رہا تھا۔
اک انجانے سے خوف نے مجھے اپنے حصار میں قید کر لیا تھا۔
”اگر وہ نہ ہوئی تو ….؟”
(نہ ہو ئی تو کیا ۔۔۔۔؟
پہلے بھی تو نہیں ہوتی تھی ….؟)
”پہلے کی بات اور تھی …..پہلے میں نے اسے دیکھا ہی کب تھا…؟”
(تو اب دیکھ کر کیا کر لو گے ……؟)
”میں اس سے اظہار کر دوں گا۔”
(کیسا اظہار …؟)
”یہی کہ ۔۔۔۔۔۔۔
کہ……….
کہ میں اس سے پیار کرتا ہوں۔”
(پیار ….؟ہا ہاہاہاہاہا….)
میرے اندر کسی نے دل کھول کر قہقہہ لگایا تھا۔
”ہاں میں پیار کرتا ہوں اس سے ،اپنانا چاہتا ہوں اسے ،یہ کوئی غلط تو نہیں ہے ،کیا ہوا ..؟ اگر دو الگ منزلوں کے مسافر ایک ہی منزل کی طرف چل پڑیں۔۔۔۔۔۔یا پھر ….
ایک نئے سفر پہ نکل جائیں …….”
میں نے خود ہی اپنے حق میں دلیلیں دینا شروع کردیں۔
(نئی منزل ۔۔۔۔۔نئے راستے ،اتنی آسانی سے نہیں ملتے ،تم نے اپنا دل اور اسے دیکھا ہے ابھی تک ، اس کے دل اور خود کو بھی دیکھو ،صدیوں کا فاصلہ ملے گا تمیں ،و ہ کہاں اور تم کہاں ……
تم ہو کیا ….؟
ایک معمولی عام آدمی ،جو چند ہزار پانے کے لئے اپنے پیاروں سے ہزاروں میل دور بیٹھا ہے،تم اپنے ان پیاروں کے لئے کیا کر پائے ہو آج تک ۔۔۔؟ جو اس نئے نویلے پیار کے لئے کچھ کر پاؤ گے ،اور وہ بھی اندھی نہیں ہے ،جانتی ہے اچھی طرح تمہیں۔۔۔۔۔اور تمہارے لیول کو بھی ……
میری مان لو ……..
خاموش رہو ….عزت میں رہو گے ،کم از کم ایک خوبصورت یاد تو رہے گی دل میں …..کیوں اس یاد کو تلخ بنانا چاہتے ہو؟
”مگر میں اس یاد کے ساتھ جی نہیں پاؤں گا ۔”
میں نے خود اپنی ہی منت کرنی چاہی تھی ۔(جینا پڑے گا تمہیں ……..اپنے لئے نا سہی ….اپنے سے جڑے باقی رشتوں کے لئے )
میرے اندر چھپا ہوا پتھر دل کسی طور نہ مان رہا تھا۔
خاموشی بہ دستور ہمارے درمیان جاری تھی………..
اس کے آنے کے بعد پہلی بار ہم دونوں کے بیچ اتنی لمبی خاموشی آئی تھی ۔
میں آنکھیں بند کیے ہوئے ابھی تک اس انتظار میں تھا کہ شائد…….
اس کی آواز سننے کو مل جائے ……
شائد ہم ایک بار پھر اک دوسرے کی آنکھوں میں جھانک سکیں ۔
شائد میں اس کی مسکراہٹ کو پھر سے دیکھ سکوں …..
اس کے لفظوں میں چھپی مٹھاس کو محسوس کر سکوں……
میں اس شائد کے آگے کچھ سوچ نہیں پا رہا تھا……
یہ شائد کا لفظ بھی تو امید جگاتا ہے ،نئے سورج کی کرنوں کی طرح …….
تو کیا میں آنکھیں بند کر کے اس شائد کو سوچتا رہوں ۔۔؟
میں الجھ رہا تھا۔
(تم اپنی آنکھیں کھولو اور شائد سے نکل کر سچ کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ ،وہ تو کب کی جا چکی ہے ….تم ہی خود سے جھگڑنے میں مصروف ہو……کھولو آنکھیں )
وہ بے رحم پھر مجھے اپنے تلخ لفظوں سے چھلنی کر رہا تھا۔
”میں آنکھیں نہیں کھولوں گا ……..جب تک وہ مجھ سے بات نہیں کرے گی…….مجھے آنکھیں کھولنے کے لئے نہیں کہے گی …..”میں نے ضدی بچے کی طرح خود سے کہا تھا۔
(وہ اب کبھی نہیں کہے گی بے وقوف ……..وہ جا چکی ہے ،اپنے پیاروں کے پاس …….اسے اگر تمہاری ضرورت ہوتی تو اب تک تمہاری آنکھیں بند نہ ہوتیں)
”اسے میرے جذبوں کی صداقت پہ بھروسہ کرنا ہو گا ،اسے ماننا ہو گا کہ میں ……………میں پہلی نظر میں ہی اس پہ مر مٹا ہوں ۔”
وہ میرے وجود کا کوئی گم شدہ حصہ ہے ،جو آج اچانک آکر مجھ سے ملا ہے۔میں اسے یقین دلا کر رہوں گا۔”
یقین دلاؤ گے …….؟
یاد کرو کیا کہا ہے تم نے اسے ؟
یہی نا …؟
کہ محبت کو اظہار کی ضرورت نہیں ہوتی ….
تو پھر تمہیں کیوں پڑ گئی اظہار کی ضرورت…؟
اور جو اس نے یہی سوال تم سے پوچھ لیا تو…؟
”ہاں …….ٹھیک کہا تم نے ،جذبوں کو اظہار کی ضرورت نہیں ہوتی ،مجھے بھی نہیں ہے ،کیوں کہ میری آنکھوں میں تو وہ پہلے سے ہی جھانک چکی تھی ،اب مجھے کو ئی ڈر نہیں ،اس نے میری محبت کو یقینا تسلیم کر لیا ہے ،ورنہ صبح کی پہلی کرن نکلنے سے پہلے ہی وہ چلی جاتی ،میں جانتا ہوں وہ میرے پاس ہے ۔
میرے بہت قریب……..
وہ میرے سنگ صبح کی پہلی کرن دیکھنا چاہتی ہے ……..
اور میں آنکھیں بند کئے بیٹھا ہوں …….
مجھے آنکھیں کھولنا ہوں گی۔”
میں نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھول دیں۔
میرے ساتھ والی سیٹ خالی پڑی تھی …….
وہ جا چکی تھی …..
بس جاتے جاتے کاغذ کا ایک ٹکڑا چھوڑ گئی تھی ……
میں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے کاغذ کا ٹکڑا تھاما۔
اور میرے لب بے آواز ہلنے لگے…..
سنو ہمدم !
محبت کے ٹھکانوں پر
کبھی دستک نہیں دیتے
بس اک کمزور لمحے میں
ذرا سی آنکھ بند کر کے
دریچے کھول دیتے ہیں
محبت جو ٹھہر جائے
محبت وہ نہیں ہوتی
محبت ساتھ چلتی ہے
یہ بے آواز چلتی ہے
محبت ہجر دیتی ہے
محبت درد دیتی ہے
مگر اس درد میں ہمدم
محبت ساتھ دیتی ہے
محبت خود مسافت ہے
جسے ہم طے نہیں کرتے
یہ خود ہی پار ہوتی ہے
یہ بے اختیار ہوتی ہے
دو آنسو بہت خاموشی کے ساتھ میری آنکھوں کے گوشوں سے نکل کرکاغذ پہ گر گئے…….
اندھیرا چھٹ چکا تھا……
اور سورج کی پہلی کرن کھڑکی سے ٹکرا کر مجھے نئی صبح کی نوید سنا رہی تھی ……..
جانے والی جا چکی تھی ….
مگر جاتے جاتے …….
مجھے تحفہ ء محبت دے گئی تھی…..
”نی اک پھل ….موتیے دا مار کے جگا سوہنیے”
میرے ساتھ والی سیٹ خالی تھی ،اچانک میری سماعتوں سے ایک مترنم آواز ٹکرائی ۔۔
”ایکس کیوزمی ”
میں نے سر گھما کر آواز کاتعاقب کیا اور میری نظروں سے ایک خوب صورت گناہ سرزد ہو گیا،مجھے مولانا صاحب کی دوران تبلیغ ہزار بار کی گئی تاکید یاد آگئی …”نامحرم پر دوسری نظر حرام ہے” …پر میری آنکھیں تو پہلی بار ہی تھم گئی تھیں ،میرے جسم کی پوری قوت جیسے سمٹ کر آنکھوں میں آگئی تھی ،میں آنکھیں جھپکنا نہیں چاہتا تھا ،کہیں یہ جھپکیں اور منظر غائب ہو جائے ،جو قسمت نے رات کے آخری پہر میں سنسان سڑک پہ دوڑتی ہوئی بس میں بیٹھے ہوئے درجنوں لوگوں کے بیچوں بیچ میرے سامنے کشید کر ڈالا تھا،میں مبہوت تھا ،میری نظریں باغی ہو چکی تھیں ،کیوں نہ ہوتیں ….
یہ بھی اپنے اندر بھوک رکھتی ہیں …طلسمی مناظر کی بھوک …..اور اس سے بڑا طلسمی منظر اور کیا ہو سکتا تھا ؟
میں نے پانچ سیکنڈز میں لولی ووڈ ،بولی ووڈ اور ہولی ووڈ کے تمام حسین چہروں کو اس کے آگے پانی بھرتے پایا جنہیں میں اب تک دیکھ چکا تھا ،وہ تو جنت سے اتری ہوئی کوئی حور تھی،حسن کے بے مثال جلووں سے چور چور تھی ،وہ بے نور آنکھوں کے لئے وجہ نور تھی ،وہ جو بھی تھی …….پر مجسم حسن ضرور تھی ..
میں یک ٹک اسے تکے جا رہا تھا ،اور وہ مسکراتے ہوئے اک ادائے بے نیازی سے کھڑی تھی۔اس نے تھوڑی دیر تک میری بے قابو ہوتی نظروں کو میرے تابع ہونے کا انتظار کیا مگر پھر اسے احساس ہوا ،اس کا انتظار بہت طویل بھی ہو سکتا ہے ،اس نے میری ساکت آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلا کر پھر سے میری سماعتوں میں سریلا رس گھولا۔
”ہیلو ۔۔۔۔کین یو ہیر می ؟”
اور جیسے مجھے کسی نے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ ہی ڈالا ہو ۔
میں نے ہڑبڑا کر ہونقوں کی طرح آگے پیچھے بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف دیکھا۔
بس میں اس وقت تقریباًسب ہی مسافر سو رہے تھے ۔
”کیا میں یہاں تھوڑی دیر بیٹھ سکتی ہوں ؟”
وہ اپنے صبیح چہرے پہ دل فریب مسکراہٹ سجائے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔
”جج ۔۔جی ۔۔۔”
میں نے حلق میں اٹکتے لفظ حلق میں ہی چھوڑ دیے ،اور جو مشکل سے نکلا ،اسے ہی غنیمت جان کر خاموش ہو گیا۔
”تھینکس ”۔اس نے ماتھے پہ آئی لٹ بائیں کان کے پیچھے اڑستے ہوئے کہا اور جھٹ سے میرے ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھ گئی ۔
میں تھوڑا سا سمٹ کر کھڑکی سے لگ گیا۔
”تو ….نام کیاہے آپ کا ؟”اس نے سرتھوڑاترچھا کر کے مجھ سے سوال کیا۔
میں ابھی تک اس صورت ِ حال کو قبول نہیں کر پا رہا تھا،میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو رہے تھے،حلق میں کانٹے اُگ آئے تھے ،مجھ سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا ۔
اس نے میری جھجک محسوس کر لی تھی ….
”آپ کو میرا یہاں بیٹھنا اچھا نہیں لگا ”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اس نے صاف اور سادہ سے انداز میں مجھ سے پوچھا۔
”نن …نہیں …..مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ”
بے اختیار میرے منہ سے نکلا تھا۔مجھے یاد آچکا تھا میں لڑکا ہوں ..وہ لڑکی ہے ،جھجکنا اسے چاہیے ….مجھے نہیں۔
”تو پھر بتائیے نا؟….نام کیا ہے آپ کا؟”اس نے ہولے سے اپنا سوال دہرایا۔
مجھے اس سوال سے بہت چڑ ہے ، اسکول ،مدرسہ ،کالج ،اکیڈمی اور آفس ،یہاں تک کے گھر میں آنے والے مہمان بھی اگر میرا نام پوچھ لیں تو ایک بار میری سٹی ضرور گم ہو جاتی ہے ،اب بھلا آپ خود سوچئے ،یہ بھی کوئی نام ہے؟ جو میرے دادا حضور نے اپنے ابو جان یعنی میرے پردادا جان کے نام پہ رکھ چھوڑا تھا،اور اس وقت تو حالات اور بھی مخدوش تھے ،مجھے ایک ایسی نڈر ،بے باک اور لبرل خاتون کو اپنا نام بتانا تھا،جو اپنی سیٹ سے اٹھ کر گپ شپ کرنے کے لئے میرے پاس آ بیٹھی تھی ۔اب اگر میرا نام ہی اسے امپریس نہ کرپائے گا ،تو بات چیت کیا خاک کرے گی وہ ۔؟
میں سوچ و بچار میں مصروف تھا کہ اسے سچ سچ بتا دوں یا آج کل کے حساب سے کوئی ماڈرن نام بتا کر ایک عدد جھوٹ کا گناہ اپنے کھاتے میں لکھوا لوں…جب اس کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔
”کیا ہوا ۔۔آپ کو اپنا نام یاد نہیں آ رہا؟”
”نام تو یاد ہے مجھے …سوچ رہا ہوں آپ کو بتاؤں یا نہیں؟” اس بار میں نے تھوڑے سے پر اعتماد لہجے میں جواب دیا۔
”کیوں بھئی ۔۔۔۔؟ایسا بھی کیا چھپا ہے آپ کے نام میں ؟”اس کی آنکھوں میں حیرت سمٹ آئی تھی ۔
”لعل خان ”میں نے ایسے بتایا جیسے کوئی بوجھ سر سے اتارا ہو۔
”کیا؟”اس نے ناسمجھی سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
مجھے پہلے سے ہی پتا تھا….وہ اب یہ سوال ضرور کرے گی ،میں نے آج تک جسے بھی اپنا نام بتایا ہے ۔۔۔اسے تھوڑا سا پریشان اور خود کو پشیمان پایا ہے ۔۔حالاں کہ اس میں میرا کوئی قصور بھی نہیں ہے۔
”جی لعل خان ہے میرا نام ……آپ شائد سمجھ نہیں پائیں۔”میں نے گہرا سانس لے کر اعترافِ جرم کیا۔
”اوہ ۔۔۔”اس کے ہونٹ سیٹی بجانے والے انداز میں سکڑ گئے۔
”لال کا مطلب تو سرخ ہوتا ہے نا؟”پتا نہیں وہ مجھ سے پوچھ رہی تھی …یا مجھے بتا رہی تھی ۔
”جی نہیں ۔۔یہ وہ والا لال نہیں یہ لام عین لام والا ”لعل” ہے جو ایک قیمتی پتھرکا نام بھی ہے ۔”
میں نے تیزی سے اپنے نام کی وہ وضاحت اس کے سامنے بھی پیش کر دی جومیں لاتعداد بار، لاتعداد لوگوں کے سامنے کر چکا تھا۔
”اچھا…….مطلب آپ ایک قیمتی پتھر ہیں ۔”میں نے سر گھما کر سیدھا اس کی طرف دیکھا۔وہ زیر لب مسکرا رہی تھی ۔
”میں انسان ہوں ”میں نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔مجھے لگا وہ میری دی گئی وضاحت کا مذاق اڑا رہی ہے ۔
”اور ویسے بھی لوگ نام سے نہیں کام سے پہچانے جاتے ہیں ۔”میری آواز میں روکھا پن کچھ زیادہ ہی ہو گیا تھا ،تبھی اس نے فوراً ہی کہا۔
”میں تو ویسے ہی پوچھ رہی تھی ،ورنہ نام میں کیا رکھا ہے ….نام تو نام ہی ہوتا ہے ۔”
”جی”۔میں نے صرف جی کہنے پہ اکتفا کیا۔
میرے جی کہنے پہ وہ اک ذرا سی خاموش ہوئی تو مجھے لگا شائد وہ اب میری طرف سے کچھ پوچھے جانے کی متمنی ہے۔
میں نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور وہی سوال پوچھ لیا جو پہلے اس نے پوچھا تھا۔
”آپ کا اسم گرامی کیا ہے ۔؟”
اس نے حیرت سے مجھے دیکھا۔
”اوہ پلیز ۔۔۔۔اتنی پر تکلف اردو مت بولئے ، میں یہاں تھوڑا سا وقت گزارنے آئی ہوں،آپ سے اردو کا مقابلہ کرنے نہیں”۔
میں نے جھینپ کر کھڑکی سے باہر گھپ اندھیرے کو تاکنا شروع کر دیا ۔
”باہر اگر کچھ نظر آتا ….تو میں یہاں آپ کے پاس آ کر نہ بیٹھتی ۔”اس نے مجھے کھڑکی سے باہر گھورتے پا کر ہلکے سے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”مجھے اندھیرے میں دیکھنا اچھا لگتا ہے ”۔ بڑا عجیب سا لہجہ تھا ،مجھے خود بھی سمجھ میں نہیں آیا۔
”روشنی میں بیٹھ کر اندھیرے میں دیکھنے والے لوگ ناشکرے کہلاتے ہیں ”۔
اس نے ایک دم ہی فلسفیانہ لہجہ اختیار کر لیا تھا۔
میں نے سر گھما کر اسے دیکھا ،وہ دونوں ہاتھ گود میں رکھے سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے بس کی چھت کو تک رہی تھی۔
”آپ شائد ٹیوب لائٹ اور بلب کی روشنی کو ہی روشنی کہتی ہیں ۔”
میرا لہجہ تھوڑا سا استہزائیہ تھا۔
”نہیں ۔”
اس نے نفی میں سر ہلایا ۔
”پھر ”؟میں نے سوال کیا۔
”اللہ تعالیٰ ہمیں ایک خوبصورت دل کی شکل میں روشنی کا وہ ذریعہ عطا کرتا ہے ،جس کے صحیح استعمال سے ہم خود کو روشن کر سکتے ہیں ،اور یہی روشنی ہماری آنکھوں سے نکل کر ہمارے لئے اس دنیا کی ہر شے کوخوب صورت اورچمک دار بنا دیتی ہے ،یہ روشنی ہمیں اندھیروں سے بچاتی ہے اور روشن رستے دکھاتی ہے ،ایسے میں اگر کوئی یہ کہے کہ اسے اندھیرے میں دیکھنا پسند ہے …..تو میں تو اسے ناشکرا ہی کہوں گی ۔”
بہت خوب صورت لہجے میں بولتی ہوئی وہ حور شمائل مجھے تھوڑی دیر کے لئے لاجواب کر گئی تھی۔
”نام کیا ہے آپ کا ۔”
میں اپنے پہلے سوال پہ آ چکا تھا ۔
”ماہین۔۔” وہ بہت آہستہ سے بولی ۔ وہ ابھی تک چھت کو دیکھ رہی تھی۔
”اچھا نام ہے ۔”میرا لہجہ رسمی تھاجسے اس نے محسوس کیا اور فوراً بولی ۔
”شکریہ۔”وہ بھی رسم ہی ادا کر رہی تھی۔
ہمارے درمیان ایک بار پھر خاموشی آ چکی تھی۔
وہ میری منتظر تھی۔۔۔۔
میں اس کا منتظر تھا۔۔۔
گاڑی اپنی فل اسپیڈ کے ساتھ میری اور اس کی منزل کی جانب بڑھ رہی تھی ،ہم سندھ کراس کر کے پنجاب میں داخل ہو چکے تھے شائد،ابھی کچھ کہنا مشکل تھا ،اندھیرے کے راج کی وجہ سے۔
”آپ کیا کرتے ہو؟”
اس نے چھت کو تکتے تکتے کافی بے تکلفی سے سوال کیا۔مجھے ایسا لگا وہ خاموشی کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتی تھی ….
”جاب کرتا ہوں کراچی میں۔”میں نے نظریں جھکائے جھکائے جواب دیا ۔
”کیا جاب کرتے ہو۔؟اس نے پھر پوچھا۔
”پرائیویٹ جاب کرتا ہوں،ایک فوڈ انڈسٹری میں،آپ کیا کرتی ہو؟۔
میں نے جواب دے کر سوال بھی کر دیا تھا۔
”میں ایم بی اے کر رہی ہوں۔”
”ویری نائس”۔
میں نے بے اختیار توصیفی لہجے میں کہا۔
”آگے کیا ارادہ ہے آپ کا ۔”
میں نے جلدی سے اگلا سوال کیا۔
”ابھی تک کچھ سوچا نہیں ہے ،تعلیم مکمل کر کے ہی کچھ سوچوں گی ۔”
اس کا لہجہ کافی بے پروا تھا۔
”اچھی بات ہے۔”
میں نے کہا اور ایک بار پھر خاموشی ہمارے درمیان اپنا بسیرا کر چکی تھی ۔
(اب اور کیا پوچھوں اس سے ؟)
میں دل ہی دل میں خود سے پوچھ رہا تھا۔
وہ دونوں بازو سینے پہ لپیٹ کر اب کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی ۔
”اب آپ دیکھ رہی ہیں اندھیرے میں۔” (کچھ اور سوجھ بھی تو نہیں رہا تھا مجھے )
”میں اندھیرے میں نہیں دیکھ رہی ۔”
اس نے میری بات کی نفی کرتے ہوئے کہا۔
”تو پھر آپ کیا دیکھ رہی ہیں باہر ؟”
میں نے طنزاً سوال کیا۔
”میں ابتدائے سحر کے خوب صورت وقت کو دیکھ رہی ہوں،کہا جاتا ہے نا ۔۔۔۔ہم ابتدائے سحر میں اللہ کے بہت قریب ہوتے ہیں۔”
اس نے میرے طنز کا جواب بہت سادگی سے دیا تھا۔
”ہم ہر وقت اللہ کے بہت قریب ہوتے ہیں ۔”
میں خوامخوابحث پہ اتر آیا تھا۔شائد میرے اندر اسے لاجواب کرنے کی خواہش پیدا ہو گئی تھی۔
”ہاں مگر اس وقت ہم اس قربت کو زیادہ آسانی سے محسوس کر سکتے ہیں ،جب کہ باقی اوقات میں شاید مشکل سے ہی محسوس کیا جا سکے۔ ”
اس نے بہت پر سکون لہجے میں جواب دیا تھا۔
”اللہ والے ہر وقت محسوس کر سکتے ہیں۔”(لو جی ! اب کیا تک تھی بھلا یہ بات کرنے کی )
”ہر آدمی اللہ والا بھی تو نہیں ہوتا ،اکثر تو دنیا والے ہوتے ہیں ……آپ اللہ والے ہیں کیا؟”
اس نے کھڑکی سے نظریں ہٹا کر میرے چہرے پہ گاڑ دی تھیں۔
(ہاں بھئی ……..اب دو جواب )
”جی میں نے قرآن حفظ کیا ہوا ہے اور جماعت بھی کرواتا ہوں ۔” (اور میں چغد بھی ہوں)
”ماشاء اللہ۔”اس نے تحسین آمیز نظروں سے مجھے دیکھا۔
”تب تو آپ کی نماز ِفجر بالکل قضا نہیں ہوتی ہو گی ؟”
میں ہلکاسا کھانسا اور کھڑکی کی طرف دیکھنے لگا۔( ابتدائے سحر میں ایک اور جھوٹ )
”آپ نماز پڑھتی ہیں ؟”میں نے جواب سے بچنے کے لئے ایک اور سوال کا سہارالیا۔
”کوشش کرتی ہوں کہ پانچوں وقت کی پڑھ سکوں مگر غفلت کر جاتی ہوں۔”
وہ اک ذرا سی خاموش ہوئی ۔
”ہاں مگر نماز فجر تقریباً روز ہی پڑھتی ہوں۔”
میں مسلسل کھڑکی کے باہر دیکھ رہا تھا۔مبادااس کی طرف دیکھوں اور میری آنکھیں اسے سچ بتا دیں کہ جو نماز وہ تقریباً روز ہی پڑھتی ہے وہ میں کبھی کبھار بھی بہت مشکل سے پڑھ پاتا ہوں۔
”حیرت ہے۔”
میرا لہجہ بہت دھیما تھا۔
”کچھ کہا آپ نے ؟”اس نے شائد واقعی نہیں سنا تھا ،یا جو سنا تھا ..اسے کنفرم کرنا چاہ رہی تھی۔
”نہیں …کچھ نہیں”….میں نے کچھ بن کر جواب دیا ۔
”آپ کہاں جا رہی ہیں؟”میں نے بات بدلنے کے لئے دوسرا سوال داغ دیا ۔
”راولپنڈی ۔”
اس نے مختصراً جواب دیا۔
”اکیلی۔؟”
میرا سوال سن کر اس نے ایک لمبی جماہی لی ۔
”نہیں ….امی ابو ساتھ ہیں۔”
مجھے اس کی شکل پہ اکتاہٹ نظر آنے لگی تھی ۔
”آپ بور ہو رہی ہیں؟ ”(احمق تم اندھے ہو ؟ اس کے منہ پہ صاف لکھا نظر آ رہا ہے) ۔
”ہو تو رہی ہوں ۔”اس کی صاف گوئی قابل داد تھی۔
”آپ کو کیسے لوگ پسند ہیں۔؟”(کم از کم تمہارے جیسے تو بالکل نہیں )
اکتائے ہوئے چہرے پہ ایک ہلکی سی مسکان ابھری ۔
”اس سوال کی کوئی خاص وجہ ۔؟”
اس نے بھنویں اچکائیں۔
”کوئی وجہ نہیں….اب آپ آئی ہیں تو کچھ نہ کچھ بات تو چلتی رہے گی ۔”
میں نے اپنے تئیں بہت سمجھ داری کی بات کی تھی ۔
”بات تو ایک بھی نہیں کی آپ نے ؟”
اس نے میری طرف دیکھ کر عام سے لہجے میں کہا۔
”تو اب تک ہم کیا کر رہے تھے ۔؟” (جھک مار رہے تھے ….مان جاؤ میاں …بہت پکاؤ ہو تم)
”سوال و جواب …..اب تک ہم صرف سوال و جواب کر رہے تھے …بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ آپ سوال و جواب کر رہے تھے ۔”
اس نے ”آپ” پر زور ڈالتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی میری طرف کرتے ہوئے کہا۔
میں خاموش ہو گیا تھا۔کوئی جواب نہ تھا میرے پاس۔
اب باتیں تو سوال و جواب سے ہی نکلتی ہیں ،بھلا بتاؤ دو اجنبی ایک دوسرے سے سوال کئے بغیر بات کر سکتے ہیں ؟،دیرینہ دوستوں کی طرح …؟
”مجھے وہ لوگ پسند ہیں جن کی آنکھیں ان کی زبان کا …اور زبان ان کے دل کا ساتھ دیتی ہو۔جن کی آنکھیں ،زبان اور دل ایک ساتھ ایک جیسا کام کرتے ہوں ۔”اس نے اپنی چمکتی ہوئی آنکھیں میری آنکھوں میں ڈال کر کہا ۔
اس نے جواب تو کیا ہی دیا تھا ……مجھے آٹھویں کلاس کا الجبرا یاد آ گیا تھا۔
”مگر آنکھیں ،زبان اور دل ہمارے تین مختلف اعضاء ہیں جن کے کام بھی مختلف ہیں ۔یہ ایک جیسا کام کیسے کر سکتے ہیں۔؟”
میں الوؤں کی طرح اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
اس کی صاف وشفاف پیشانی پہ میری حجت سن کر ایک ہلکی سی شکن پڑ گئی تھی۔
”دل جو سوچتا ہے ،زبان وہ نہیں کہتی…زبان جو کہتی ہے ،آنکھیں وہ نہیں دیکھتیں ،مگر مجھے وہ لوگ پسند ہیں جو دل میں آئی سوچ کو ہی زبان دیں اور جو زبان سے نکلے ،اسے ہی دیکھنا پسند کریں ۔”
اب اس نے مجھے الجبرے سے نکال کر جیومیٹری میں الجھا دیا تھا۔
”کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔؟”میں ہلکا سا بڑبڑایا تھا مگر اس نے سن لیا ،تبھی ہولے سے مسکراتی ہوئی بولی۔
”جانے دیجئے ….کوئی اتنا ضروری بھی نہیں ہے ہر بات کو سمجھنا۔”
”آپ کو مشکل باتیں پسند ہیں۔؟”میں نے قدرے شرمندگی سے کہا۔
”بالکل بھی نہیں ……میں تو بہت سمپل باتیں کرتی ہوں جو آسانی سے ہر کسی کی سمجھ میں آجاتی ہیں ،آپ کو پتا نہیں کیوں مشکل لگ رہی ہیں ،ویسے سچ بتا رہی ہوں ،مجھے پہلی بار کسی نے کہا ہے کہ میں مشکل باتیں کرتی ہوں۔”
اس کے جواب میں حیرت کا عنصر نمایاں تھا۔
”نہیں بس ،بزی رہتا ہوں تو باتیں کچھ کم ہی کرتا ہوں ۔۔۔۔تو سمجھ بھی کم ہی آتی ہیں۔”
(شرم تم کو مگر نہیں آتی ……..او بھائی چپ کر جا اب ……بہت ہو گئی گپ شپ )
”اوہ۔۔۔۔”میرا جواب سن کر اس کے ہونٹ ایک بار پھر گول ہو کر سکڑ گئے تھے۔
”تو آپ خاموش طبیعت کے مالک ہیں ،ہاں ہوتے ہیں ایسے لوگ بھی …..تنہائی پسند ،جو زیادہ باتیں کرنا پسند نہیں کرتے ،بس اپنی تنہائی انجوائے کرتے ہیں ،جیسے آپ کر رہے تھے …….اور میں نے آ کر آپ کو ڈسٹرب کر دیا….آئی ایم سو سوری ….آپ کو برا لگا ہو گا نا؟”
اس نے خود سے ہی سارے اندازے لگا لئے تھے اور چہرے پہ ندامت لئے مجھے دیکھ رہی تھی ….اور اب کے تب بس اٹھنے ہی والی تھی ۔
”نہ۔۔۔نہیں تو ….میں تو ”(نہیں نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ )
مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کہوں۔
”اگر آپ کہتے ہیں تو میں اٹھ کر اپنی سیٹ پہ چلی جاتی ہوں ۔”
وہ اٹھنے کے لئے پر تول رہی تھی ۔
(نہیں ….خدا کے لئے ایسا مت کرنا۔۔تھوڑا سا وقت اور رک جاؤ ۔۔جانا تو تم نے ہے ہی )
”نہیں میں بالکل بھی ڈسٹرب نہیں ہو رہا ،آپ کو ایسا کیوں لگا؟”
نا چاہتے ہوئے ہوئے بھی میرے انداز میں تھوڑی سی عجلت آ گئی تھی ۔
”آپ سچ کہ رہے ہیں ؟”
اس نے سر کو ایک ذرا سا قریب لا کر میری آنکھوں میں غور سے دیکھا تھا،اور دوسرے ہی لمحے اس کے شگفتہ چہرے پہ مسکراہٹ پھیل گئی تھی ۔
میرا سانس سینے میں اٹک گیا تھا ،میں کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر اس کی مسکراہٹ مجھے حواس باختہ کر رہی تھی ،یک بارگی مجھے احساس ہوا ………میری آنکھیں پھر سے باغی ہو رہی تھیں ،میں نے گھبرا کر آنکھیں میچ لیں۔
”آپ کو کبوتر پالنے کا شوق بھی رہا ہے؟”
بند آنکھوں کے پیچھے چھائے اندھیرے میں مجھے اپنے دائیں کان کے پاس اس کی ہلکی سی آواز سرگوشی کی مانندمحسوس ہوئی ۔
”کیا۔۔۔؟”
میری آنکھوں کے ساتھ ساتھ میرا منہ بھی اس کی بات سن کر پوری طرح کھل چکا تھا۔
”جج…..جی….جی ہاں مگر ……آپ کو کیسے پتا چلا۔؟”
میں نے بیوقوفوں کی طرح منہ کھول کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
اس نے اک ذرا کی ذرا میری کھلی ہوئی آنکھیں ،کھلا ہوا منہ اور ہونق ہوتا چہرہ دل چسپی سے دیکھا اور دوسرے ہی لمحے اس کی مسکراہٹ ،ہنسی اور ہنسی ،قہقہے میں بدل چکی تھی ۔
اگلی سیٹ پہ سوتا ہوا آدمی اچانک ہڑبڑا کر اٹھا اور ماتھے پہ بل ڈال کر پیچھے کی طرف مڑا ۔
میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس سے معذرت کی ،اس نے گھور کر ہنستی ہوئی لڑکی کو دیکھا اور دوبارہ اپنی سیٹ پر ترچھا ہو کر لیٹ گیا۔
میں نے اس سے نظریں ہٹا کر اپنی عجیب و غریب مگر خوب صورت اور معصوم چہرے والی ہم سفر کو دیکھا۔جو اب منہ پہ ہاتھ رکھ کے اپنی ہنسی کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔
”ایسا بھی کیا لطیفہ سنا دیا تھا میں نے۔؟”
میرے لہجے میں حیرت اور ہلکی سی ناراضی تھی۔
اس کی ہنسی اب تھم چکی تھی ،بے اختیار قہقہے کی وجہ سے اس کی آنکھوں میں آنسوجمع ہو چکے تھے ۔
”تم! پلیز ناراض مت ہونا ،مجھے تمہارے اسٹائل پہ ہنسی آ گئی تھی۔”
اس نے انگلی کے پور سے بائیں آنکھ کا آنسو چنتے ہوئے کہا تھا۔
میرا دھیان اس کی بات کی بہ جائے صرف تم اور تمہارے پہ اٹک گیا تھا۔اس نے پہلی بار مجھے تم کہ کر پکارا تھا۔مگر اس بات کا اسے قطعی احساس نہیں ہوا تھا۔
”میں ناراض نہیں ہوں ۔”
میں بس اتنا ہی کہ پایا تھا۔
وہ ایک بار پھر سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر بس کی چھت کو گھورنے لگی تھی۔
کچھ پل بہت خاموشی سے کٹے تھے ….اور یہ خاموشی اب مجھے ڈسنے لگی ۔
”اچھا بتایئے نا…….آپ کو کیسے پتا چلا کہ میں کبوتر پالنے کا شوق رکھتا تھا ۔؟”
میں نے سلسلہ ٔ کلام وہیں سے جوڑنا چاہا جہاں پہ ٹوٹا تھا۔
اس کے چہرے پر وہی مسکان پھر سے لوٹ آئی جسے اس کے قہقہے نے چھپا دیا تھا۔
”تمہاری حرکت سے اندازہ لگایا ہے میں نے۔”
اس نے چھت کو تکتے تکتے ہی جواب دیا تھا۔
”حرکت ……کیسی حرکت؟”
میں نے اچنبھے سے پوچھا۔(لو میاں للو۔۔۔۔کبوتر تو بن ہی گئے ،کچھ اور بھی بننا ہے؟)
”چھوڑو ..جانے دو ..”
اس نے ہوا میں مکھی اڑائی اور ایک دم سے سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
”یہ بتاؤ …..تم نے کبھی کسی سے محبت کی ہے؟”
وہ سوالیہ نشان بنی مجھے دیکھ رہی تھی۔
میں نے ایک گہرا سانس لیا،ایک ہلکی سی انگڑائی لیتے ہوئے تھوڑا سا اوپر ہو کر بس میں آگے اور پیچھے بیٹھے ہوئے تمام مسافروں پر اک طائرانہ نظر ڈالی ۔
بس میں ہر طرف خاموشی اور سکون تھا،صرف گانے کی ہلکی ہلکی آواز آ رہی تھی……….
”آج لگتا ہے میں ہواؤں میں ہوں ۔۔۔
آج اتنی خوشی ملی ہے۔۔۔۔”
”نہیں ۔”
میں نے اپنی سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر کہا ۔
”اور کسی کو تم سے ہوئی ۔؟”اس کا ایک اور سوال ۔
”نہیں ۔”میں نے مختصراً کہا تھا۔
”یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو۔؟”ایک اور عجیب سوال۔
میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”کیا مطلب کیسے کہہ سکتا ہوں ؟”
اس نے میری حیران آنکھوں میں جھانکا۔
”مطلب یہ کہ تمہیں کیسے پتا چلاکہ تم کسی کی محبت نہیں ہو۔؟”
میں نے چند لمحوں تک الجھی ہوئی نظروں سے اسے گھورا ۔
”تم کہنا کیا چاہتی ہو۔؟”
میں الجھ کر بولا تھا…اس احساس سے قطعی غافل ،کہ میں بھی آپ سے تم پہ آ چکا تھا۔
”افوہ….
ایک تو تمہیں ہر بات سمجھانی پڑتی ہے ۔”
اس نے جھنجھلا کر کہا تھا۔
”یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کوئی تم سے محبت کرتا ہو ،مگر اظہار نہ کر پاتا ہو ۔”
اس نے مجھے سمجھانے والے انداز میں کہا تھا۔
”محبت کو اظہار کی ضرورت نہیں ہوتی ۔”
بے اختیار میرے منہ سے نکلا تھا۔(اف…..یہ کیا بکواس کر دی میں نے )
اس کا رنگ تیزی سے بدلا تھا۔
پہلی بار مجھے یقین ہو چلا…..میں نے اسے متاثر کر دیا ہے۔
”پہلی بار تمہارے منہ سے کوئی ڈھنگ کی بات نکلی ہے ۔”
اس نے ستائش بھرے لہجے میں کہا۔
”اب تو ماننا پڑے گا…… نہ تم نے کسی سے محبت کی ….اور نہ ہی کسی نے تم سے ۔”
بڑے سادہ سے لہجے میں میرا سچ تسلیم کیا تھا اس نے مگر جانے کیوں۔۔۔؟
ایک عجیب سی ٹیس اٹھتی ہوئی محسوس کی میں نے۔
”تم نے کبھی کسی سے محبت کی ۔؟”
اپنے اندر اٹھتے دھوئیں کو دبانے کے لئے میں نے یونہی اس سے پوچھا تھا۔
”ضروری تو نہیں …….کہ جو میں پوچھوں ……تم بھی وہی پوچھو ۔”
مجھے لگا وہ جان چھڑا رہی ہے۔
”یہ فاؤل ہے بائی دا وے……میں نے تمہارے کسی سوال کے آگے آنا کانی نہیں کی۔”
میں خوامخوا ہی بات سے بات نکال رہا تھا۔
”میرا حال بھی تمہارے جیسا ہی ہے ۔”
اس نے سرسری سے لہجے میں اپنا جواب دے دیا تھا۔
”میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جو محبت کو سنتے ہیں ،دیکھتے ہیں ،شائد سمجھتے بھی ہیں ،پر
محسوس نہیں کر پاتے ۔”
کچھ تھا اس کے لہجے میں …..
جس نے مجھے اندر سے مزید بے چین کر دیا تھا ۔
”لوگ کہتے ہیں محبت کا احساس بہت دل فریب ہوتا ہے ،یہ ہماری زندگی کو پوری طرح بدل کے رکھ دیتا ہے ۔یہ ہمیں جینا سکھاتا ہے ،دل سے ہنسنا سکھاتا ہے ،ہم جہاں بھی ہوں …..جس حال میں ہوں ….یہ ہمیں اپنے احاطے میں لئے رہتا ہے ،ارد گرد سے غافل ….
بس اپنی ہی دھن میں مگن ہم مسکراتے چلے جاتے ہیں۔”
اس کا لہجہ بتا رہا تھا کہ اسے محبت کے لفظ سے بہت محبت تھی۔
”ہاں ….لیکن یہ احساس تب تک دل فریب رہتا ہے ،جب تک ہم ہجر کی اذیت سے بے نیاز ہوتے ہیں۔”لفظ خود بہ خود ہی میرے منہ سے نکل گئے تھے …..
ورنہ ….مجھے صنفِ مخالف کے سامنے بولنے میں ہمیشہ سے دقت رہی تھی۔
”محبت ہجر کے بغیر کبھی مکمل نہیں ہوتی ،یہ ہجر ہی ہے جو محبت کو کھل کر آپ پہ آشکار کرتا ہے ،اگر ہجر نہ ہوتا تو شائد دنیا سے سچی محبت کا احساس ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ،محبت میں وصل کی گھڑیوں کی اہمیت کیوں ہے ؟…کبھی سوچا ہے تم نے ؟….کیوں کہ یہ گھڑیاں ہجر کی اذیت سہنے کے بعد نصیب ہوتی ہیں ……..اگر ہرلمحہ وصل کا لمحہ ہو ……”
اس نے ایک لمحے کے لئے رک کے مجھے دیکھا۔
”تو پھر شب وصل پر شاعری کے دیوان کیوں کر لکھے جاتے ہیں ۔؟”
مجھے دل ہی دل میں معترف ہونا پڑا۔
”تو پھر ….ہجر کے بارے میں ہمیں کس طرح سوچنا چاہیے۔؟”
میں ایسے پوچھ رہا تھا ،جیسے بچہ استاد سے کوئی سوال کرتا ہے۔
”ہمیں دل سے ہجر کا شکریہ ادا کرنا چاہیے ،ہمیں اس کا احسان ماننا چاہیے جو یہ ہمیں محبت کا احساس دلا کر ہم پہ کرتا ہے۔”
وہ مسکراتے لہجے میں بول رہی تھی اور میں اسے تکے جا رہا تھا۔
کچھ لمحے خاموشی سے سرک گئے …..
مجھے مسلسل اپنی طرف تکتا پا کر اس نے دونوں بازو سینے پر لپیٹتے ہوئے بھنویں اُچکائی تھیں۔
اس کے بالوں کی وہ شرارتی سی لٹ سرک کر اس کے گال پہ آ گئی تھی ۔اب کی بار اس نے اسے گال پہ ہی چھوڑ دیا تھا ۔
”آپ کچھ الگ سی دِکھتی ہیں ۔”
میں نے کھوئے کھوئے سے لہجے میں کہا تھا۔
”کیوں ……؟
میرے سینگ تو نہیں ہیں کہیں۔۔؟”
وہ یک دم سر پہ ہاتھ پھیر کہ بولی۔
میں نے اب تک صرف اس کا چہرہ غور سے دیکھا تھا۔۔
پہلی بار میں نے سرسری سے انداز میں اس کا سر تا پا جائزہ لیا ۔
اس نے گھنے سیاہ بالوں کوجوڑے کی شکل دے کر باندھا ہوا تھا ،بس وہی چند بال آزاد تھے جو اکٹھے ہو کر لٹ کہلاتے ہیں اور جو اس وقت بھی اس کے دودھیا گالوں پہ لہرا کر اٹکھیلیاں کرنے میں مصروف تھے ۔
عام سے شلوار قمیص اور کندھے پہ پڑے ہوئے بلیو رنگ کے دوپٹے میں جانے کون سا چارم تھا جس نے میری نظر میں اس لڑکی کو دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی کا اعزاز دے ڈالا تھا۔
میں جتنا اسے دیکھتا جا رہا تھا ……
اتنا ہی اندر سے بے چین ہوتا جا رہا تھا ….
شائد اسے دیکھتے رہنے کی طلب بڑھتی جا رہی تھی اور…….سفر گھٹتا جا رہا تھا۔
میں نے اس سے نظریں ہٹا کر کھڑکی سے باہر دیکھا۔
اندھیرا اب چھٹنے لگا تھا۔۔۔۔۔
گو کہ منظر ابھی تک صاف نہیں ہوا تھا ،پر کھڑکی سے باہر دیکھنے پر اب اندھیرے کے احساس میں واضح کمی لگتی تھی۔
”تھوڑی دیر میں صبح ہو جائے گی ۔”
وہ دھیمے سے لہجے میں بولی تھی۔
”آں۔۔۔؟میں نے چونک کر اسے دیکھا۔
وہ بھی کھڑکی سے باہر ہی دیکھ رہی تھی۔
”ہاں …….
تھوڑی دیر میں صبح ہو جائے گی۔”
میں نے خوابیدہ سے لہجے میں کہا تھا۔
”مجھے سورج نکلنے کا منظر بہت پسند ہے ۔”
وہ ہنوز کھڑکی کی طرف دیکھ کر بول رہی تھی۔
”مجھے بھی۔”
میں نے مختصراً کہا تھا۔(کیا آج بھی )؟
”سورج کی کرنیں نئی امید جگاتی ہیں نا…..نیا ولولہ ، نیا جوش…..
گزری رات کو بھول کر کچھ کر دکھانے کا جذبہ ۔”
وہ کھڑکی سے نظریں ہٹائے بغیر بول رہی تھی۔
میں نے پل بھر کے لئے اسے دیکھا ،پھر آنکھیں بند کر کے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر بولا تو مجھے اپنی آواز ہی اجنبی سی لگی۔
”ضروری تو نہیں ….کہ ہر نئے سورج کی کرن امید جگاتی ہو۔۔۔؟ گزری رات کو بھلا دینے کی طاقت بخشتی ہو ۔؟”
میری آنکھیں بند تھیں …..
مگر مجھے احساس ہوا ……کہ وہ اب کھڑکی کی طرف نہیں بلکہ میری طرف دیکھ رہی تھی۔
”ایسا کیوں کہہ رہے ہو ..؟
سناٹے اور اندھیرے میں اس کی آواز مجھے اور بھی خوب صورت لگ رہی تھی۔
میں نے آنکھیں بند ہی رہنے دیں۔
”بس ایسے ہی …….
تم ہی بتا دو ، کیا میں نے غلط کہا ہے ….؟ کیا ہر نیا سورج امید جگاتا ہے ۔؟
میں نے پست لہجے میں اس سے سوال کیا تھا۔
چند لمحوں تک اس کی آواز سنائی نہیں دی …….
مجھے شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ وہ مجھے دیکھنے میں محو ہے ،پتا نہیں میں غلط تھا یا صحیح؟
خاموشی کا دورانیہ بڑھتا جا رہا تھا۔
میرے اندر اتھل پتھل ہونے لگی تھی …
کہیں وہ……
کہیں وہ اٹھ کر چلی تو نہیں گئی تھی ۔؟
کہیں میں آنکھیں کھولوں اور وہ میرے ساتھ موجود نہ ہو ۔۔۔۔؟
وہ پھر سے گم ہو گئی ہو ۔۔۔۔؟
اپنی دنیا میں ……
میرا اور اس کا رشتہ ہی کیا تھا….؟
کیا تھی وہ میری ؟کچھ بھی نہیں ………
صرف ایک لڑکی ………جو اپنا تھوڑا سا فارغ وقت بتانے کے لئے میری دنیا میں طوفان برپا کرنے آ گئی تھی ۔
(کیسا طوفان؟)
بند آنکھوں کے پیچھے میں نے خود سے سوال کیا تھا۔
یہ مجھے کیا ہوتا جا رہا تھا ،میں آنکھیں کھولنا چاہتا تھا ،پر کھول نہیں پا رہا تھا۔
اک انجانے سے خوف نے مجھے اپنے حصار میں قید کر لیا تھا۔
”اگر وہ نہ ہوئی تو ….؟”
(نہ ہو ئی تو کیا ۔۔۔۔؟
پہلے بھی تو نہیں ہوتی تھی ….؟)
”پہلے کی بات اور تھی …..پہلے میں نے اسے دیکھا ہی کب تھا…؟”
(تو اب دیکھ کر کیا کر لو گے ……؟)
”میں اس سے اظہار کر دوں گا۔”
(کیسا اظہار …؟)
”یہی کہ ۔۔۔۔۔۔۔
کہ……….
کہ میں اس سے پیار کرتا ہوں۔”
(پیار ….؟ہا ہاہاہاہاہا….)
میرے اندر کسی نے دل کھول کر قہقہہ لگایا تھا۔
”ہاں میں پیار کرتا ہوں اس سے ،اپنانا چاہتا ہوں اسے ،یہ کوئی غلط تو نہیں ہے ،کیا ہوا ..؟ اگر دو الگ منزلوں کے مسافر ایک ہی منزل کی طرف چل پڑیں۔۔۔۔۔۔یا پھر ….
ایک نئے سفر پہ نکل جائیں …….”
میں نے خود ہی اپنے حق میں دلیلیں دینا شروع کردیں۔
(نئی منزل ۔۔۔۔۔نئے راستے ،اتنی آسانی سے نہیں ملتے ،تم نے اپنا دل اور اسے دیکھا ہے ابھی تک ، اس کے دل اور خود کو بھی دیکھو ،صدیوں کا فاصلہ ملے گا تمیں ،و ہ کہاں اور تم کہاں ……
تم ہو کیا ….؟
ایک معمولی عام آدمی ،جو چند ہزار پانے کے لئے اپنے پیاروں سے ہزاروں میل دور بیٹھا ہے،تم اپنے ان پیاروں کے لئے کیا کر پائے ہو آج تک ۔۔۔؟ جو اس نئے نویلے پیار کے لئے کچھ کر پاؤ گے ،اور وہ بھی اندھی نہیں ہے ،جانتی ہے اچھی طرح تمہیں۔۔۔۔۔اور تمہارے لیول کو بھی ……
میری مان لو ……..
خاموش رہو ….عزت میں رہو گے ،کم از کم ایک خوبصورت یاد تو رہے گی دل میں …..کیوں اس یاد کو تلخ بنانا چاہتے ہو؟
”مگر میں اس یاد کے ساتھ جی نہیں پاؤں گا ۔”
میں نے خود اپنی ہی منت کرنی چاہی تھی ۔(جینا پڑے گا تمہیں ……..اپنے لئے نا سہی ….اپنے سے جڑے باقی رشتوں کے لئے )
میرے اندر چھپا ہوا پتھر دل کسی طور نہ مان رہا تھا۔
خاموشی بہ دستور ہمارے درمیان جاری تھی………..
اس کے آنے کے بعد پہلی بار ہم دونوں کے بیچ اتنی لمبی خاموشی آئی تھی ۔
میں آنکھیں بند کیے ہوئے ابھی تک اس انتظار میں تھا کہ شائد…….
اس کی آواز سننے کو مل جائے ……
شائد ہم ایک بار پھر اک دوسرے کی آنکھوں میں جھانک سکیں ۔
شائد میں اس کی مسکراہٹ کو پھر سے دیکھ سکوں …..
اس کے لفظوں میں چھپی مٹھاس کو محسوس کر سکوں……
میں اس شائد کے آگے کچھ سوچ نہیں پا رہا تھا……
یہ شائد کا لفظ بھی تو امید جگاتا ہے ،نئے سورج کی کرنوں کی طرح …….
تو کیا میں آنکھیں بند کر کے اس شائد کو سوچتا رہوں ۔۔؟
میں الجھ رہا تھا۔
(تم اپنی آنکھیں کھولو اور شائد سے نکل کر سچ کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ ،وہ تو کب کی جا چکی ہے ….تم ہی خود سے جھگڑنے میں مصروف ہو……کھولو آنکھیں )
وہ بے رحم پھر مجھے اپنے تلخ لفظوں سے چھلنی کر رہا تھا۔
”میں آنکھیں نہیں کھولوں گا ……..جب تک وہ مجھ سے بات نہیں کرے گی…….مجھے آنکھیں کھولنے کے لئے نہیں کہے گی …..”میں نے ضدی بچے کی طرح خود سے کہا تھا۔
(وہ اب کبھی نہیں کہے گی بے وقوف ……..وہ جا چکی ہے ،اپنے پیاروں کے پاس …….اسے اگر تمہاری ضرورت ہوتی تو اب تک تمہاری آنکھیں بند نہ ہوتیں)
”اسے میرے جذبوں کی صداقت پہ بھروسہ کرنا ہو گا ،اسے ماننا ہو گا کہ میں ……………میں پہلی نظر میں ہی اس پہ مر مٹا ہوں ۔”
وہ میرے وجود کا کوئی گم شدہ حصہ ہے ،جو آج اچانک آکر مجھ سے ملا ہے۔میں اسے یقین دلا کر رہوں گا۔”
یقین دلاؤ گے …….؟
یاد کرو کیا کہا ہے تم نے اسے ؟
یہی نا …؟
کہ محبت کو اظہار کی ضرورت نہیں ہوتی ….
تو پھر تمہیں کیوں پڑ گئی اظہار کی ضرورت…؟
اور جو اس نے یہی سوال تم سے پوچھ لیا تو…؟
”ہاں …….ٹھیک کہا تم نے ،جذبوں کو اظہار کی ضرورت نہیں ہوتی ،مجھے بھی نہیں ہے ،کیوں کہ میری آنکھوں میں تو وہ پہلے سے ہی جھانک چکی تھی ،اب مجھے کو ئی ڈر نہیں ،اس نے میری محبت کو یقینا تسلیم کر لیا ہے ،ورنہ صبح کی پہلی کرن نکلنے سے پہلے ہی وہ چلی جاتی ،میں جانتا ہوں وہ میرے پاس ہے ۔
میرے بہت قریب……..
وہ میرے سنگ صبح کی پہلی کرن دیکھنا چاہتی ہے ……..
اور میں آنکھیں بند کئے بیٹھا ہوں …….
مجھے آنکھیں کھولنا ہوں گی۔”
میں نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھول دیں۔
میرے ساتھ والی سیٹ خالی پڑی تھی …….
وہ جا چکی تھی …..
بس جاتے جاتے کاغذ کا ایک ٹکڑا چھوڑ گئی تھی ……
میں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے کاغذ کا ٹکڑا تھاما۔
اور میرے لب بے آواز ہلنے لگے…..
سنو ہمدم !
محبت کے ٹھکانوں پر
کبھی دستک نہیں دیتے
بس اک کمزور لمحے میں
ذرا سی آنکھ بند کر کے
دریچے کھول دیتے ہیں
محبت جو ٹھہر جائے
محبت وہ نہیں ہوتی
محبت ساتھ چلتی ہے
یہ بے آواز چلتی ہے
محبت ہجر دیتی ہے
محبت درد دیتی ہے
مگر اس درد میں ہمدم
محبت ساتھ دیتی ہے
محبت خود مسافت ہے
جسے ہم طے نہیں کرتے
یہ خود ہی پار ہوتی ہے
یہ بے اختیار ہوتی ہے
دو آنسو بہت خاموشی کے ساتھ میری آنکھوں کے گوشوں سے نکل کرکاغذ پہ گر گئے…….
اندھیرا چھٹ چکا تھا……
اور سورج کی پہلی کرن کھڑکی سے ٹکرا کر مجھے نئی صبح کی نوید سنا رہی تھی ……..
جانے والی جا چکی تھی ….
مگر جاتے جاتے …….
مجھے تحفہ ء محبت دے گئی تھی…..